12:21    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

طنز و مزاح

1483 1 0 05

نیا سال:ہاتھ لا استاد (ایک انشائیہ) - پروفیسر غلام شبیر رانا

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کار کشا و کارساز

کئی دنوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا تھا کی اچانک میرے دائیں ہاتھ کی جانب سے پروفیسر منظور حسین سیالوی ہاتھ لہراتے ہوئے نمودار ہوئے۔ وہ اس قدر باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ وہ کئی کتب کے مصنف ہیں۔ ان کی تخلیقی فعالیت کے بارے میں کانوں کان خبر نہیں ہوتی مگر ان کی تصانیف کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ جب ماحول کی سفاکی کے باعث مہیب سناٹے اور جان لیوا تاریکیاں نوشتہ تقدیر کی صورت مسلط ہو جائیں اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہو تو ایسے صاحب بصیرت لوگ باتوں باتوں میں ایسی دانائیاں سجھا دیتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت بھی اپنی اوقات سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ آج وہ ہاتھوں میں کاغذ اور قلم تھامے ننگ انسانیت لوگوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں تھے۔ وہ جب گفتگو کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں، کسی کام میں ہاتھ ڈالیں تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور ہر سارق، کفن دزد اور چربہ ساز کو آئینہ دکھانا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جعل سازی سے قد آور بننے والے ہر متفنی کی ہف وات اور مکر کا پردہ فاش کر کے اسے بونا بنا دیتے ہیں اور اگر جوہر قابل کی پذیرائی کی ٹھان لیں اور مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو اسے سونا بنا دیتے ہیں۔ اپنی ہر عظیم الشان کامیابی پر ہاتھ لہرانا اور ہر ظالم کا ہاتھ مروڑنا اور فسطائی جبر کی گردن پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر کے اسے توڑنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ان کی شخصیت کے متعدد روپ ہیں جو لوگ ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں ان کے لیے وہ دید و دل فرش راہ کر دیتے ہیں مگر اجلاف و ارزال اور سفہا سے وہ کئی ہاتھ کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ مجھ نا تواں پر ان کی عنایات اور التفات میرے استحقاق سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ان کے ہاتھوں مجھے ہمیشہ اپنائیت کی نوید ملی ہے۔ وہ اس قدر خوش خصال ہیں کہ ان کی صحبت میں گزرنے والے طویل لمحات بھی پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں۔ کئی لو گ انھیں صاحب باطن ولی کا درجہ دیتے ہیں۔ کئی ظاہر بین مشکوک نسب کے درندے ہمیشہ ان کے درپئے آزار رہتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ جن لوگوں کا بربادیِ گلستاں میں ہاتھ ہوتا ہے سیالوی صاحب انھیں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ معاشرے میں نہ تو کوئی دیوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ ہے۔ وہ لوگ جن کی گھٹی میں الزام تراشی، بہتان طرازی اور غیبت پڑ گئی ہے، وہ ان کی تر دامنی کے من گھڑت واقعات سنا کر دل کے پھپولے پھوڑتے ہیں۔ سادیت پسندی کے مریض اور خفاش منش انسانوں کے ہاتھوں کسی کی پگڑی محفوظ نہیں۔ ایسے خارش زدہ سگان آوارہ جو جاہ و منصب کی ہڈی کی تلاش میں کوڑے کے ہر ڈھیر کو سونگھتے پھرتے ہیں ان کی سبک نکتہ چینیوں سے ایسے یگانہ روزگار کے افکار کی ضیا پاشیوں کو گہنایا نہیں جا سکتا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ سیالوی صاحب اگر دامن نچوڑ دین تو فرشتے اس سے وضو کریں۔ سیالوی صاحب مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے :

’’ آپ نے کبھی ایک سٹھیایا ہوا متفنی کھوسٹ فلسفی دیکھا ہے جو پریوں کے اکھاڑے میں راجہ اندر بن جائے۔ حسین و جمیل دوشیزاؤں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر رقص ابلیس کا منظر پیش کرے اور اس طرفہ تماشے پر خوب ہنہنانے لگے اور اس کے حواری منمنانے لگیں۔ ‘‘

میں نے عاجزی سے کہا ’’کوئی اشارہ یا پہچان معلوم ہو تاکہ کچھ اندازہ لگایا جا سکے۔ نا معلوم ایام پیری میں بعض عاقبت نا اندیش لوگوں کا دل ہاتھ سے کیوں پھسل جاتا ہے ؟‘‘

سیالوی صاحب نے ہاتھ کھجلاتے ہوئے اپنے غیظ و غضب پر قابو پاتے ہوئے کہا:

’’ بد قسمتی سے اس عطائی فلسفی کا تعلق شعبہ تعلیم سے۔ اس مسمار قوم کے ہاتھوں ہزاروں گھر بے چراغ ہو گئے۔ اس کی ہئیت کذائی دیکھ کر اس کے مشکوک نسب کے درندے اور ابلیس نژاد ہونے کا پختہ یقین ہو جاتا ہے۔ اس شخص کے ہاتھوں کی انگلیوں میں انگوٹھیاں ٹھنسی ہوتی ہیں۔ آنکھوں پر موٹے سفید شیشوں کی نظر کی عینک، سر پر گدھے کے بالوں کی سیاہ وگ اس نا ہنجار کی رو سیاہی اور جگ ہنسائی کا باعث بن گئی تھی۔ عیوب برہنگی کو ڈھانپنے کے لیے لنڈے کا سوٹ پہن کر یہ کالا انگیز فرعون بن جاتا ہے۔ کہتا ہے کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے، مضبوط اور پھیلے ہوئے ہیں۔ اس شخص کے ہاتھ مظلوموں، محروموں اور بے بس و لاچار انسانوں کے خون سے رنگے ہیں۔ لوگ اسے ہاتھ اٹھا اٹھا کر کوستے ہیں۔ اس کی موجودگی میں لوگ عدل، انصاف، انسانیت کے وقار اور سر بلندی سے ہا تھ اٹھا بیٹھے ہیں۔ کو ئی ایسا مرد حر نظر نہیں آتا جو اس موذی درندے کے غریبوں پر اٹھنے والے ہاتھ اکھاڑ دے۔ گو اس کے ہاتھ جنبش سے محروم ہیں مگر اس کی آنکھ میں تو سور کا بال ہے مہ جبینوں پر دست درازی اور ساغر و مینا سے ہر وقت دل بہلانا اس کا وتیرہ ہے۔ اس کے عیوب برہنگی کو ڈھانپنے کے لیے تو کفن بھی کافی نہ ہو گا۔ دست اجل جب اس ننگ انسانیت کو قبر میں دھکیلیں گے تو شاید زمیں بھی اسے قبول نہ کرے۔ ‘‘

میں نے سیالوی صاحب کی باتیں سن کر ہا تھ آنکھوں سے لگائے ان کی صحت اور سلامتی کے لیے ہا تھ بلند کیے اور کہا ’’ آپ حریت فکر کے مجاہد ہیں۔ آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ ملازم طبقہ ہا تھ بیچنے پر تو مجبور ہے مگر ذات کی نیلامی اسے کسی صورت میں گوا را نہیں کی پھر بھی ہمیں ہاتھ پاؤں بچا کر آگے بڑھنا چاہیے۔ لو گ تو بلا وجہ آپ جیسے حریت فکر کے مجاہدوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ آپ سب کے لیے فیض رساں ہیں۔ ہاتھ کو ہاتھ پہچانتا ہے، میں نے ہمیشہ آپ کی خوشہ چینی کی ہے۔ آپ کے استغنا اور فقر نے آپ کو قناعت کی مثال بنا دیا ہے۔ ایسا کو ن شخص ہے جو ہا تھ پا ؤں پڑنے والوں پر کوہ ستم توڑتا ہے اور جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، وہ لذت ایذا حاصل کرنے کی خاطر اپنی بے بصری، کور مغزی اور خست و خجالت اور جہالت و رذالت کا ثبوت دیتا ہے۔ ‘‘

سیالوی صاحب کہنے لگے’’ ہا تھ گنگن کو آرسی کیا۔ ابھی گھاسف دجال خان کے دفتر میں جا کر دیکھ لیتے ہیں۔ اس شخص کے ہاتھ پاؤں تو جنبش سے محروم ہیں مگر حسن و رومان کے غیر مختتم قصے اس سے منسوب ہیں۔ اس جنسی جنونی کے ہاتھ پاؤں پڑا ہے قہر الٰہی اور اس قدر لاغر ہے کہ تنکے کا گمان گزرتا ہے مگر زبان اس کی ہاتھ بھر کی ہے۔ ہا تھ پاؤں حرکت سے محروم ہیں مگر گھاسف دجال خان طاؤس و رباب اور حسن و شباب سے ہمہ وقت دل بہلاتا رہتا ہے۔ روم آگ کے شعلوں کی زد میں ہے مگر وقت کا یہ نیرو چین کا بانسری بجانے میں مصروف ہے۔ جب تک اس کا ہاتھ پتھر تلے نہیں آ جاتا اس بد طینت راسپوٹین اور نام نہاد فلسفی کو عبرت کا نشان بننے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور نہ ہی مظلوموں کی کوئی امید بر آنے کا امکان ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آ جائے گا اور اس درندے کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا ۔ ‘‘

تجسس کے باعث مجھے محسوس ہو ا کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے۔ چند قدم کے فاصلے پر گھاسف دجال کا دفتر تھا۔ لوگ اسے عقوبت خانے، چنڈو خانے اور قحبہ خانے کی حیثیت سے دیکھتے اور ہاتھ کانوں پر رکھ کر یہاں سے دبے پاؤں گزر جاتے۔ اس کے شر سے صرف وہی لوگ بچ سکتے جن کا ہاتھ کا دیا ان کے کام آ جاتا۔ اس شخص نے قومی وسائل پر نہایت بے دردی سے ہاتھ صاف کیا۔ اندر داخل

ہوئے تو ہاتھ کا جھوٹا گھاسف دجال خان مہ جبیں حسیناؤں کے جھرمٹ میں رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھا۔ سیالوی صاحب نے اپنے دبنگ لہجے میں کہا:

’’ ہوشیار ہو جاؤ درندے گھاسف دجال !تم خو دکو ہاتھ کا چالاک سمجھتے ہو مگر آج میرے ہاتھ سے چھوٹ کو کہیں نہیں جا سکتے۔ میں آج تم سے دو دو ہاتھ کرنے کی غرض سے آیا ہوں۔ ساری دنیا تمھارے ہاتھ سے ناخوش و بیزار ہے۔ تم نے رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پر خطر، عمریں مختصر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر سیالوی صاحب اس درندے کو ایسا سیدھا ہاتھ مارا کہ اسے نانی کے ساتھ ساتھ چھٹی کا دودھ بھی یاد آ گیا۔ اپنا ہاتھ درندے کے طوق گلو کر کے سیالوی صاحب اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے اور اس کی خوب درگت بنائی۔ درندے کے ہاتھ کشیدہ آسماں دیدہ ساتا روہن ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ ہاتھ کو ہر دور میں بے پناہ اہمیت حاصل رہی ہے ادبیات عالم تو ہمارے ادیبوں کے ہاتھ کا ثمر ہے۔ ہاتھ کے موضوع پر ہر زیرک تخلیق کار نے طبع آزمائی کی ہے۔ ہر وہ سخن ورجو سونے کا قلم ہاتھ میں تھامے ہوئے ہوتا ہے، رواقیت کا داعی بن بیٹھتا ہے اور ا فلاس کے عقدے حل کرنے کی سعی رائیگاں میں منہمک ہو جاتا ہے۔ یہ دنیا اور اس کا کار جہاں ہمارے لیے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا ہے۔ دنیا میں سب کام نقد چلتا ہے اس ہاتھ سے دینے والے کو دوسرے ہاتھ سے مل جاتا ہے۔ آج ہم تکلف کو بھی اخلاص سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ہر ہاتھ ملانے والے کو دوست کے روپ میں دیکھنا کج فہمی کی دلیل ہے۔ کئی بار ابن الوقت، جو فروش گندم نما اور چڑھتے سورج کی پجاری میٹھی نظر سے دیکھ کر لگائی بجھائی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایسی کیفیت کو دیکھ کر میں ہمیشہ دل پہ جبر کرتا ہوں کہ اگر میں ان پر ہاتھ اٹھا بیٹھا تو صبر و تحمل کے سارے دعوے دھر ے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے عناصر نے اندھیر مچا رکھا ہے جن کے قبیح کر دار اور بد اعمالیوں کے ہاتھوں انسانیت کو بڑے چرکے سہنے پڑے مگر ان پر احتساب کا ہا تھ ہمیشہ اوچھا ہی پڑ تا اور یہ سد ا مکر کی چالوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

سماجی زند گی میں ہا تھ کی مطلق العنان فرماں روائی کا ایک عالم معترف ہے۔ بچے کام کاج میں والدین کا ہا تھ بٹھاتے ہیں اور ان کی دعائیں لیتے ہیں۔ اچھی تربیت کی بدولت بچے ہا تھ باندھے والدین اور اساتذہ کے رو بہ رو سر تسلیم خم کر تے ہیں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کو اس مہارت کے ساتھ زیور تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ ہر شعبہ زندگی میں ان کا ہاتھ اونچا رہے۔ منافق اگر دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو اس کا ہاتھ جھٹک دینا ہی مصلحت ہے۔ داناؤں کا کہنا ہے موذی کو اس طرح ٹر خا یا جائے کہ اپنے ہا تھ پاؤں بھی محفوظ رہیں۔ ابھی ہاتھ پاؤں سیدھے کرنے کی غرض سے چارپائی پر لیٹا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر نکلا تو ایک خوب صورت اور نوجوان بھکارن نے امداد کے لیے ہا تھ پھیلایا۔ اس بھکارن کے ہاتھ میں کاسہ دیکھ کروہ کہاوت یاد آ گئی کہ جب ہا تھ ہیں کشکول تو پھر کیا ڈر اور کیسا ہول۔ ہاتھوں کی لکیریں بھی انسانی مقدر کی مظہر بن جاتی ہیں۔ کچھ دنوں سے شہروں کے بازاروں اور فٹ پاتھوں پر رمال، عامل، نجومیوں اور دست شناسی کے ماہروں کے غول کے غول امڈ آئے ہیں۔ یہ سب ہا تھ کی صفائی دکھا کر سادہ لوح لوگوں کی جمع پونجی ہتھیا لیتے ہیں۔ مفلوک الحال لوگ مفاد پرست استحصالی عناصر کے ہاتھوں میں یرغمال بن گئے ہیں ان کی شقاوت آمیز نا انصافیوں سے ان کے ملازم زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ ان فراعنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہا تھ میں دیں روٹی ساتھ ہی سر پر ماریں سوٹی (ڈنڈا)۔ یوں ان مظلوموں کی ہر تدبیر الٹی اور تقدیر کھو ٹی ہو جاتی ہے۔

قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے عجب گل کھلائے ہیں۔ ہاتھ کی صفائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگوں کے دل میلے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی پوشیدہ ہاتھ نے انسانیت کو گمبھیر سناٹوں، جانگسل تنہائیوں اور سفاک ظلمتوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس معاشرے میں جاہل بھی اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وقت کے ایسے حادثات کو بھلا کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ آج کے دور میں بے بس و لاچار انسانیت کا کوئی پر سان حال ہی نہیں۔ جس طرف نگاہ دوڑائیں مظلوم انسان جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ اہل ہوس مدعی بھی ہیں اور منصف کے منصب کو اسی طبقے نے اپنے آہنی ہاتھوں کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ گلزار ہست و بود میں اب سروو صنوبر اگانے والے ہاتھ عنقا ہیں۔ اب تو گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر دکھائی دیتا ہے۔ جہاں اثمار و اشجار اور بور لدے چھتنار کثرت سے اگا کرتے تھے، وہ آبادیاں جن میں زندگی کی حرکت و حرارت سے لبریز ماحول ہوتا تھا اب وہاں ایک عجیب طرفہ تماشا ہے۔ گلشن میں زقوم، حنظل اور پوہلی کی فراوانی ہے جب کہ بے چراغ گھروندوں میں چراغ غول کے سوا کچھ نہیں۔ عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن گھس گئے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں۔ اس اعصاب شکن ماحول میں تمام شہر نے دستانے پہن رکھے ہیں۔ اہل درد کی جاں پہ دوہرا عذاب ہے وہ نہ صرف زندگی کے تضادات کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں سوچ سوچ کر جی کا زیاں کرتے ہیں۔ اور اس شخص کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جس کے ہاتھوں انسانیت پر کڑا وقت آ گیا ہے۔ جب بھی اصلاح احوال کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے کوئی نہ کوئی طالع آزما اور مہم جو ساری بساط ہی لپیٹ دیتا ہے۔ اس طرح دست حیلہ جو سے امیدوں کی فصل غارت ہو جاتی ہے اور غریبوں کی صبح شام کی تمام محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اسے حالات کی ستم ظریفی سے تعبیر کیا جائے گا کہ ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں اس طرح کے نہیں ہوتے ان کے پس پردہ جو ہاتھ ہیں وہ ان کی ہیئت کو یکسر بدل دیتے ہیں اور ہم محو حیرت رہ جاتے ہیں کہ ہم کس جہاں میں کھو گئے ہیں۔

قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا

ہاتھ کی کئی اقسام ہیں۔ ان میں سے مانگنے والا ہاتھ، عطا کرنے والا ہاتھ، اوپر والا، نیچے والا ہاتھ، سیدھا ہاتھ، الٹا ہاتھ، ٹیڑھا ہاتھ، جبر کا ہاتھ اور مجبور کا ہاتھ زیادہ تر قابل فہم رہے ہیں۔ ہاتھ کو ایک ظرف مکاں کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ قلم اور قرطاس اہل علم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور وہ ان سے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے منصہ ء شہود پر لاتے ہیں۔ کسان کے ہاتھ غذائی اجناس پیدا کرتے ہیں۔ مزدور کے ہاتھ مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ زلف و گیسو کی تراش خراش کے لیے حجام کے ہاتھ نا گزیر ہیں۔ آرائش جمال مشاطہ کے دست ہنر کی مرہون منت ہے جو عام سے چہرے کو بھی چندے آفتاب اور چندے ماہتاب بنانے میں ید طولیٰ رکھتی ہے۔ سقے کے ہاتھ میں پیالہ دیکھ کر پیاس کی تسکیں خود بہ خود ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سقے کے جد امجد نظام سقہ کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگتی ہے۔ عاشق کے ہاتھ کا تصور آتے ہی اس چار گرہ کپڑے کی قسمت کی یاد آتی ہے جو بد قسمتی سے عاشق کا گریبان بنا۔ عاشق کا ہاتھ دامن کے چاک اور گریبان کے چاک کے درمیان پائے جانے فاصلے کو پلک جھپکتے میں مٹا دیتا ہے۔ اجرتی دہشت گرد، پیشہ ور قاتل اور کرائے کے بد معاش کے ہاتھ میں آتشیں اسلحہ ہوتا ہے۔ ایسے ہاتھ کئی خاندانوں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ ان مظلوم خاندانوں کا ہاتھ عمر بھر دل سے جدا نہیں ہو سکتا۔ وہ تو اپنے شکستہ ہاتھوں سے عر ض مضطرب لکھنے کی استعدا دسے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ رشوت، بھتہ اور جگا ٹیکس وصول کرنے والے ہاتھ ہر دور میں اجالوں کو داغ داغ اور سحر کو شب گزیدہ بنانے میں مصروف رہے ہیں۔ ان ہاتھوں کے جور و ستم سے ہنستے بولتے چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اہل حرفہ کے ہاتھ محنت کی عظمت کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ منشیات فروشوں، قزاقوں، چوروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھ ہمیشہ مظلوموں کے خون سے تر رہے ہیں صیاد کے ہاتھوں آزادی خیال و خواب بن جاتی ہے جب کہ جلاد زندگی کو معدوم کر کے جبر کے جان لیوا باب رقم کرتا ہے۔ جیب تراش کا ہاتھ بے خبر راہ گیروں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر دیتا ہے۔ زلف تراش کا ہاتھ جب نگاہ یار کو آشنائے راز کرتا ہے الجھی ہوئی لٹ کو فرش زمیں پر ڈھیر کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی گنجے کو ناخنوں سے بھی محروم کر دیتا ہے استاد کا ہاتھ نئی نسل کی قسمت بدلنے پر قادر ہے۔ یہ ہاتھ اگر صدق دل سے تراش خراش کریں تو پتھر کی بھی تقدیر بدل کر اپنے کمالات سے دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کر سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کے ہاتھ در اصل بے بس رعایا کی شہ رگ پر ہوتے ہیں۔ معالج کا ہاتھ اپنے مریض کی نبض پر ہوتا ہے جب کہ نگاہ اس کی جیب پر مر کوز رہتی ہے۔ غرض جتنے ہاتھ اتنے ساتھ۔ ہر ہاتھ ساتھ نبھانے کی مقدور بھر سعی کرنے کے بعد اپنے مقام تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جیسا ہاتھ ویسا ساتھ اور جیسا منہ ویسا ہی ہاتھ کا زوردار طمانچہ۔ آج جس طرف دیکھیں لوگ دھول دھپا اور ہا تھا پائی میں مصروف ہیں۔ بعض دانائے راز یہ کہتے ہیں کہ معاشرتی زندگی کے تمام ارتعاشات، تضادات اور بے سکونی کی کیفیات کے پس پردہ کوئی خفیہ ہاتھ کا فرما ہے۔ اس ہاتھ کا کھوج لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

حسن و رومان کی دنیا میں ہاتھ کا ایک الگ اور منفرد مقام ہے۔ قیس کا ہاتھ ناقۂ لیلی ٰکی جستجومیں ہے، فرہاد کے ہاتھ میں تیشہ ہے جو پہاڑ توڑ کر شیریں کے محل تک دودھ کی نہر رواں دواں کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔ صراف کے ہاتھ زیورات تیار کرتے ہیں جب کہ خیاط کے ہاتھ ایسے ملبوسات تیار کرتے ہیں جنھیں پہن کر حسن میں نکھار اور شخصیت میں وقار آتا ہے۔ مشاق رفو گرکے ہاتھ سے اگر مخمل میں بھی ٹاٹ کا پیوند لگے تو بھلا لگتا ہے۔ وہی فرہاد جو شیریں کی موت کی خبر سن کر تیشے بغیر نہ مر سکا۔ سوہنی کے ہاتھ میں رات کی تاریکی میں جب کچا گھڑا آیا تو وہ سمجھ گئی کہ اس کے ساتھ آج کی رات دریا کے کنارے ظالم و سفاک، موذی و مکار دشمن نے ہاتھ کر لیا ہے اور ہاتھ کی صفائی سے ایک پیار کرنے والے کی زندگی کی شمع بجھانے کی مذموم کوشش کی ہے۔ اس نے دنیا پر واضح کر دیا کہ محاذ جنگ سے پسپائیوں کا تو کوئی نہ کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن محبت کی راہ میں اٹھنے وا لے ا یک قدم کے بعد واپسی کا تصور ہی عبث ہے۔ سوہنی نے اسی کچے گھڑے پر تیر کر دریائے چناب کی طوفانی لہروں کا مقابل کرنے کی ٹھان لی تاکہ دریا کے دوسرے کنارے پر منتظر اس کا عاشق مہینوال اس پر بزدلی کا الزام نہ لگا سکے۔ دریائے چناب کی طوفانی لہریں کچے گھڑے اور سوہنی کو بہا لے گئیں اور اس کے ساتھ ہی مہینوال کی زندگی کی شمع بھی دریا کی طغیانی نے بجھا دی۔ خوشاب کا بہت بڑا جاگیردار مراد بخش جب جھنگ کی ہیر کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں لاٹھی تھام لی اور ہیر کی بھینسوں کا چرواہا بن گیا۔ اس قدر مشقت کے باوجود ہیر کی ڈولی کھیڑے کے ہاتھ لگی۔ یہی تو تقدیر کے کھیل ہوتے ہیں۔ تقدیر کے ہاتھوں انسانی تدبیر کی جو درگت بنتی ہے اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ ہاتھ کر جاتا ہے اور ہم اس قدر قربتوں کے باوجود اجنبی ٹھہرتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عطار، رومی، رازی اور غزالی کو جو عزت و تکریم نصیب ہوئی، وہ ان کی آہ سحر گاہی کا ثمر ہے۔ مجاہدے، ریاضت اور زہد و تقویٰ کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بعض ہاتھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی قوت، شان، سطوت اور ہیبت کی دھاک بٹھا دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال لیاقت علی خان کے ہاتھ کا مکہ ہے، جسے عسکری قوت کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔ شفیق بزرگ جب اپنا ہاتھ اپنے عزیزوں کے سر پر رکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسرت، راحت اور طمانیت کے سوتے ریشے ریشے سے پھوٹ رہے ہوں۔ ہاتھ کی علامت کو ایک نفسیاتی کل کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کے اعجاز سے لاشعور کی قوت اور خوابیدہ صلاحیت کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہاتھ کے مسحور کن کمالات اور معجز نما کرشمات کا عدم اعتراف نہ صرف ایک مہلک تاریخی غلطی کے مترادف ہے بلکہ اسے عام آدمی بھی ناشکری پر محمول کرے گا۔ من و سلویٰ اور ہفت الوان پر ہاتھ صاف کرنے والے بھی اس قسم کی ناشکری کے مرتکب ہوئے اور عبرت کا نشان بن گئے۔

ساری دنیا بدل رہی ہے مگر الم نصیبوں کا حال تو جوں کا توں ہے۔ غریب والدین اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں زندہ درگور ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کا جسم نیلا پڑ جاتا ہے۔ خالی ہاتھ دنیا سے جانا ہر انسان کا مقدر ہے۔ کہتے ہیں جب سکندر نے سفر آخرت کے لیے کوچ کیا تو اس کے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ ہوس زر اور جاہ و منصب کے اسیر اس عبرت سرائے دہر میں یہ ہولناک منظر کو دیکھ لیں کہ جو بھی دنیا سے کوچ کرتا ہے اسے خالی ہاتھ ہی جانا ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے اطراف و جوانب میں دہشت گردی کی فضا دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ دست قضا نے گویا ہاتھ میں درانتی سنبھال رکھی ہے کیونکہ سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے ہیں۔ ظالم ہاتھوں نے زندگیاں پر خطر اور عمریں مختصر کر دی ہیں۔ داستان گو، مصور، سنگ تراش، ادیب، کھلاڑی، جنگجو، ملاح، مزدور اور تمام دست کار ہاتھوں کی کمائی کھاتے ہیں اور ان کی مصنوعات کو ہاتھوں ہاتھ لے کر لوگ ان کو سر آنکھوں پر جگہ دیتے ہیں۔ کئی ہاتھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پس منظر میں رہتے ہوئے بھی ہاتھ کی صفائی سے قصہ پاک کر دیتے ہیں۔ تاریخ کے اور اق میں ایسے متعدد واقعات مذکور ہیں۔ شہنشاہ جہانگیر کے پیچھے نور جہاں کا ہاتھ تھا اور مغل بادشاہ جہاں دار شاہ رسوائے زمانہ طوائف لال کنور کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گیا تھا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں بہت سے فوائد سے انسانیت کو فیض کے اسباب سے آشنا کیا ہے وہاں کئی اہل حرفہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی اور اپنی راحت گم گشتہ کی نوحہ خوانی میں مصروف رہتے ہیں۔ چنیوٹ کا ایک مشہور محلہ کمان گراں ہے۔ اس محلے میں تیر اور کمان بنانے والے اہل حرفہ نے گزشتہ پانچ ہزار سال میں نسل در نسل تیر کمان اور ترکش بنانے میں اپنی مہارت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ ان کمان گروں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کمان، تیر اور ترکش پوری دنیا میں مقبول تھے۔ ایک روایت ہے کہ سکندر اعظم کی سپاہ کے ہاتھ میں جو تیر اور کمان تھے وہ چنیوٹ کے کمان گروں نے تیار کیے تھے۔ آج اس پیشے کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ایک بات اور ہے کہ اب یہاں چشم غزال کی نگاہوں کے تیر نیم کش کاری لگتے ہیں اور یہاں کے حسینوں کی چال ایسی ہے جیسے کڑی کمان کا تیر۔ حسن بے پروا اپنی جلوہ سامانی کے نت نئے پہلو تلاش کر لیتا ہے۔ ہاتھ سے چلائے جانے والے تیر کا نشانہ خطا ہو سکتا ہے مگر نگاہوں کے دل نشیں اور کاری تیر تو زندگی پر بھاری ہو جاتے ہیں۔ ایسے تیر نیم کش کا احوال صر ف دل والے ہی جانتے ہیں۔ ایسے تیر دل میں ایک ایسی خلش چھوڑ جاتے ہیں جس کے علاج کا تیر بہ ہدف نسخہ قسام ازل نے فرشتۂ اجل کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

میں جب بھی آثار قدیمہ اور دنیا کے عجائبات کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں چشم تصور سے وہ ہزاروں ہاتھ بھی دیکھ لیتا ہوں جنھوں نے ان کی تعمیر میں حصہ لیا اور معجزۂ فن کی نمود ان کے خون جگر سے ہوئی۔ رجائیت پسندوں کے لیے ہاتھ کلید کامیابی، نوید باریابی اور نسخۂ عزت مآبی ہے۔ چار برس قبل میرا واسطہ ایک متفنی راکشس سے پڑ گیا۔ میں نے مسلسل ڈیڑھ برس تک اس کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ وہ مجھے پیر و مرشد مانتا تھا۔ جب اس کا کام نکل گیا تو اس نے وہ ہاتھ دکھایا کہ طوطا چشمی سے بھی کہیں آگے نکل گیا۔ جوں ہی اس سانپ تلے کے بچھو نے مجھے اپنی نیش زنی کا نشانہ بنایا تو تحلیل نفسی کے ماہرین نے اس کے خوب لتے لیے اور اسے مخبوط الحواس، ابن الوقت اور جنسی جنونی قرار دیتے ہوئے مجھ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا:’’ہاتھ لا رانا بھائی، کیسی رہی ایک مشکوک نسب کے ابن الوقت سے آشنائی اب ہوئی نہ ہر جگہ جگ ہنسائی۔ کہاں گئے وہ سب فدائی ؟ہماری تنبیہ نہ تم کو راس آئی۔ ‘‘

زندگی کی اقدار عالیہ اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر جو ہاتھ مصروف کار ہیں ان کے کردار کی عطر بیزی کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کے کارہائے نمایاں کی خوشبو سے پوری فضا مہک اٹھی ہے۔ یوں لگتا ہے اس خوشبو نے بادل کے ہاتھ کو تھام رکھا اور ہوا کے ساتھ سفر کے مقابلے کی ٹھان لی ہے۔ اب یہ طے ہے کہ روشنیوں کی راہ میں جو ہاتھ روڑے اٹکائیں گے، وہ نہیں رہیں گے۔ جو ہاتھ اپنے خالق کے حضور دعا کے لیے نہیں اٹھتے ناکامی اور نامرادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ طاقت وروں، استحصالی مافیا اور اہل جور کا آلہ کار بن جانے والے بوم، کرگس اور شپر جب بے بس انسانیت پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑتے ہیں تو ان کی بے حسی، بے غیرتی اور بے ضمیری ان کے لیے کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوتی ہے۔ جب یہ مکافات عمل کی زد میں آتے ہیں تو کوئی بھی شخص ان کو تھامنے والا نہیں ہوتا۔ ایسے بگلا بھگت درندے جب سیل زماں کی زد میں آتے ہیں تو ان کے لمبے ہاتھ بھی انھیں ذلت کے بھیانک غاروں سے باہر نہیں نکال سکتے۔ حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔ اللہ کریم کے الطاف و عنایات کی کوئی حد ہی نہیں۔ خالق اکبر کی نعمتوں کا شکرانہ ادا کرنے کے لیے بڑے ظرف کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس نو دولتیے اپنی کم ظرفی کو چھپا نہیں سکتے اور مجبور اور بے بس و لاچار انسانوں کی عمر بھر کی کمائی پر ہاتھ صاف کر کے غراتے رہتے ہیں۔ محسن بھوپالی نے اس قماش کے کم ظرف درندوں اور مفاد پرست لٹیروں کے بارے میں کہا تھا:

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے

مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے

کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

ہاتھ زندگی بھر انسان کا ساتھ دیتے ہیں۔ جب تک انسان کے ہاتھ سلامت رہتے ہیں اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ انسان کے تمام ارادی افعال کی انجام دہی میں ہاتھ کلیدی کردار ا دا کرتے ہیں فریاد ہو یا بیداد، جلاد ہو یا صیاد، شیخ چلی ہو یا شیخ سعدی، ابو جہل ہو یا ابو لہب، ہلاکو خان ہو یا آسو خان، تسمہ کش ہو یا جاروب کش سب واقعات، حکایات اور کرداروں میں ہاتھ کی جلوہ فرمائی مسلمہ ہے۔ جس نے بھی ہاتھوں کو مظلوموں پر بہ طور ہتھیار استعمال کیا فطرت کی سخت تعزیروں نے ان کا احتساب کیا۔ اس کی ایک مثال ابو لہب کی ہے۔ قران پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ابو لہب (عبدالعزیٰ) کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ نا مراد ہو گیا۔ اس کی عمر بھر کی کمائی اس کے کسی کام نہ آئی۔ اس نے مجبوروں اور بے بس انسانوں کے خون میں ہاتھ رنگے اور یتیموں کے مال پر ہاتھ صاف کیے اس کا ٹھکانہ جہنم کی دہکتی ہوئی آگ بنے گی اور اس کی اہلیہ جو اس ظالم کا ہاتھ بٹاتی تھی اس کے گلے میں مونجھ کی رسی ہو گی۔ چیرہ دستوں کو مظالم سے حذر کر نا چاہیئے کیونکہ قدرت کے ہاتھ کی پکڑ میں دیر تو ہو سکتی ہے مگر وہاں اندھیر ہر گز نہیں۔ یہ واقعہ ہر اولی الامر کے لیے عبرت کا تازیانہ ہے۔

شباہت شمر کو ایک حکایت ہاتھ لگی۔ یہ ڈھڈو کٹنی بتایا کرتی تھی کہ تریموں کے مقام پر گھاسو کھبال نامی ایک گھسیارارہتا تھا۔ اس کا گھاس کھودنے پر مدار تھا۔ وہ صبح سے شام تک کھیتوں کے کناروں سے مفت گھاس کھودتا اور پھر اس گھاس کی گٹھڑ ی کو ایک مریل گدھے کی پیٹھ پر لاد کر شہر لاتا وہاں کے کوچوان یہ گھاس خرید لیتے اور تانگے کے گھوڑے اسے شوق سے کھاتے۔ ایک دن چراگاہ سے ایک بہت بڑی جسامت کا ہیرا اس کندۂ نا تراش گھسیارے کے ہاتھ لگا وہ اسے ایک عام چمک دار پتھر سمجھ کر مقامی بڑھئی کے پاس لے گیا اور اس میں برمے سے سوراخ کرایا اور اس میں مونجھ کی رسی ڈالی اور اپنے خارش زدہ مریل گدھے کے گلے میں باندھ دیا۔ یہ حکایت ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے اطراف و جوانب ایک مہیب جنگل کا گمان ہوتا ہے جہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ گدھے ہر طرف ہنہناتے پھرتے ہیں جن کی پیٹھ پر اسناد اور کتب کا پشتارہ اور طومار ہے چور محل میں جنم لینے والے اس مشکوک نسب کی عجیب الخلقت مخلوق نے چور دروازے سے داخل ہو کر جا و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے اور ان کی دستبرد سے کوئی محفوظ نہیں۔ حادثۂ وقت کے ہاتھوں ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا ہے کہ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی انہونی اکثر دیکھنے میں آتی ہے۔ شیخ چلی قماش کے مسخرے رواقیت کے داعی بن کر جامہ ابو جہل میں ملبوس ہو کر مختلف قسم کے زینے استعمال کر کے شیخ الجامعہ کے منصب تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ایک جنگل میں سدا منگل ہی ریتا تھا۔ اس میں جنگل کا قانون نافذ تھا اور اس جنگل میں رہنے والے لوگوں نے ایک بڑھیا کو اپنا رہبر قرار دیا تھا۔ وہ بڑھیا تو بزاخفش سے بھی گئی گزری تھی۔ اس کے باوجود خود کو نابغہ روزگار سمجھتی تھی اور رواقیت کی داعی بن بیٹھی۔ اس کی مجنونانہ حرکات کے باعث لوگوں کو بہت دکھ اٹھا نے پڑ تے تھے۔ پھر بھی لو گ اس کے ہاتھ پر بیعت کر نے میں تامل نہ کرتے۔ پڑوس میں ایک غریب بیوہ نے ایک مینڈھا پال رکھا تھا۔ وہ مینڈھا رسی تڑوا کر بھا گ نکلا اور پڑوس میں ایک مکان میں گھس گیا اور وہاں مٹی کی ایک بڑی چاٹی میں پڑی گندم کھانے لگا۔ جب مالکن کو علم ہوا تو اس نے مینڈھے کو ڈنڈا مارا۔ اس اچانک حملے کے باعث مینڈھا اس قدر خوف ذدہ ہوا کہ اس کا سر اور سینگ اس چاٹی میں پھنس گئے۔ اب ظاہر ہے مشاورت کے لیے وہ بڑھیا کے پاس پہنچے تو اس نے ہا تھ لہراتے ہوئے اور تلملاتے ہوئے یہ مشورہ دیا:’’ارے نادانو! اس سے پہلے کہ مینڈھا دم گھٹنے سے حرام ہواسے ذبح کر ڈالو‘‘

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے بعد وہ پھر بڑھیا کے پاس آئے اور کہا:

’’لیکن ابھی تک مینڈھے کا سرتو چاٹی سے باہر نہیں نکل سکا‘‘

بڑھیا نے غیظ و غضب کے عالم میں کفن پھاڑتے ہوئے اور دونوں ہاتھوں سے سر کو پیٹتے ہوئے کہا ’’ جاہلو! اب جاؤ اور مٹی کی چاٹی کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دو۔ سر باہر نکل آئے گا۔ ‘‘

اس مشورے کی دست بستہ تعمیل کی گئی۔ بڑھیا کی دانائی پر سب عش عش کر اٹھے۔ بڑھیا اس وقت زار و قطار رونے لگی اور غش کھانے لگی ’’ میرے بعد دنیا میں اندھیرا ہے۔ کون ہے جو میری طرح ذہانت اور عقل اور خرد کی گتھیاں سلجھا سکے اور ان جید جہلا کو سیدھی راہ دکھا سکے۔ ان مخبوط الحواس لوگوں کی ہف وات سن کر ان کو صحیح مشورے دینے والا میر ے بعد کوئی نہیں۔ میرے بعد مکمل اندھیرا ہے۔ اف ! میرے خدا۔

گندے پانی کے جوہڑ کے قریب ایک سٹھیا ہوا بھانڈ کھبال کھان رہتا تھا۔ وہ کھا نا اس وقت کھا تا جب طبلے پر ہاتھوں سے گت لگا لیتا۔ اس کے ہاتھوں ہزاروں نوجوان گم راہ ہوئے اور منزل سے ناآشنا ہزاروں اندھیرے میں ٹامک ٹوئے مارتے پھرتے ہیں۔ کھبال کھان کی دو دلچسپیاں ہیں۔ تریموں کا ساگ بڑے شوق سے کھا تا اور سر پر بھیرے کی مہندی لگاتا اور طبلے کی گت پر وہ راگ الا پتا:

مہندی بھیرے کی

سوکھ گئے غم سے

جھوٹی رونق چہرے کی

لوگ کھبال کھان کو ایک گرگ باراں دیدہ ارسرد گرم چشیدہ بھڑوا اور مسخرا خیال کرتے اور اس چکلہ دار کی کسی بات پر دھیان نہ دیتے۔ بڑھاپے میں ناصف کھبال کھان کی بینائی بری طرح متاثر ہوئی اور اسے نزدیک سے بھی کم کم دکھائی دیتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کی فرمائش پر اس کی بہو نے ساگ اور مہندی کا بہ یک وقت اہتمام کیا۔ بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے سر شام ہی اس گھر کو مقدر کی تاریکی کی طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔ بوڑھے کھوسٹ نے پہلے تو ساگ کا پیالہ اٹھایا اور اسے اپنے سر پر تھوپ لیا اس کے بعد مکئی کی روٹی سے بھیرے کی مہندی زہر مار کر گیا۔ رات بھر ابکائیاں لیتا رہا اور اپنی قسمت اور بدلتے ہوئے حالات پر روتا رہا۔ صبح کاذب کے وقت اس نے منہ ہاتھ دھویا اور آئینے کے روبہ رو اپناسر دیکھا۔ اس کے بعد اس نے زور سے ایک چیخ ماری اور دونوں ہاتھوں سے سر کو پیٹنے لگا اور بلند آواز سے گریہ و زاری میں مصروف ہو گیا۔ اس کے قحبہ خانے کے تمام ڈوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لچے، شہدے، رجلے، خجلے، سفہا، اجلاف، ارزال اور کرگس زادے اس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ انھیں یقین تھا کہ اب اس چکلہ دار کا آخری وقت آ پہنچا ہے انھوں نے اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے کرنے کی کو شش کی تو اس نے اپنا ہاتھ ہو ا میں لہراتے ہوئے کہا :

طبلے کے ڈھنگ بدلے

ساگ بنا حنظل

مہندی بے رنگ پگلے

’’اب زمانے کے انداز بدل گئے ہیں۔ اب نہ تو تریموں کے ساگ میں پہلے جیسی لذت رہ گئی ہے اور نہ ہی بھیرے کی مہندی میں پہلے کی سی رنگت رہ گئی ہے۔ اسی کا نام تو کل جگ ہے۔ یہ قیامت کی نشانی ہے ‘‘

یہ باتیں سن کر سب حاضرین فرط غم سے نڈھال تھے اور اپنے جد امجد کی پیش بینی پر انھیں دلی صدمہ پہنچا تھا۔ سید ضمیر جعفری نے درست کہا تھا :

بڑی مدت سے کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا

جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا

ایک ہاتھ ایسا بھی تاریخ کے اور اق میں مذکور رہا ہے جو انداز حجابانہ، جلوۂ جاناناں اور مطرب شاہانہ اپنے جلو میں لیے جب میرے عزیز ہم وطنو کا نعرۂ مستانہ لگاتا ہے تو ترقی، دساتیری روایات، زندگی کی اقدار عالیہ اور تمام مسلمہ جمہوری عمل جس کی نمو میں سالہا سال کی محنت صرف ہوئی، اسے پلک جھپکتے میں پشتارۂ اغلاط قرار دے کر بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ اس ہاتھ کے سامنے تقویم بے وقعت، جغرافیائی سالمیت بے حقیقت اور تعظیم بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ مطلق العنان بادشاہوں، طالع آزما اور مہم جو حکمرانوں نے ہمیشہ ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ بابر کی فوج کا ایک سالار شیر شاہ سوری ایک دست شناس کے پاس گیا اور اس سے یہ استفسار کیا کہ کیا اس کے ہاتھ کی لکیروں میں بادشاہت کی لکیر بھی کہیں ہے۔ دست شناس نے کہا کہ اگر یہ چھوٹی لکیر اس بڑی لکیر سے مل جائے تو پھر بادشاہت یقینی ہے۔ یہ سننا تھا کہ شیر شاہ سوری نے خنجر نکالا اور اپنے ہاتھ کی اس چھوٹی لکیر کو بڑی لکیر سے خنجر کے ذریعے کاٹ کر ملا دیا۔ اس کے چند روز بعد شیر شاہ سو ری تخت دہلی پر براجمان تھا اور ہمایوں ایران فرار ہو چکا تھا۔ ہم پر بھی کیسے کیسے لوگ ہاتھ کی صفائی سے حکمرانی کر گئے۔ ہرن مینار بنانے والے، مقبرے تعمیر کرنے والے، سیر گاہیں بنانے والے، بارہ دریاں تعمیر کرنے والے اور ٹوپیاں سی کر روزی کمانے والے حکمران۔ جس زمانے میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں ا پنے ہاتھوں سے تمام ملکی وسائل اور بے پناہ افرادی قوت اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر ہونے والے تاج محل کی تعمیر میں جھونک رہا تھا اسی زمانے میں امریکہ میں ہاورڈ یونیورسٹی کی تعمیر ہو رہی تھی۔ یہ ہوتا ہے فریب خیال کے ہاتھوں پہنچنے والا ناقابل تلافی نقصان۔ سمے کے سم کے ثمر نے اس علاقے کے عوام کو صدیوں تک تعلیم سے بے بہرہ رکھا۔ یہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں۔ عالمی شہرت یافتہ سنگ تراش اور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جس پتھر کو ہاتھ لگاتا اور دل سے اس کی تراش خراش کرتا اس کی تقدیر بدل جاتی اور اس نابغہ روزگار سنگ تراش کے خون جگر سے ایسا معجزۂ فن منصہ شہود پر آتاجس کو دیکھنے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نقاد نے مائیکل اینجلو سے اس کے فن مجسمہ سازی کے اسرار و رموز کے بارے میں استفسار کیا تو اس نے بر ملا کہا ’’میں پتھر سے مجسمے کب بناتا ہوں ؟مجسمہ تو پہلے ہی پتھر کے اندر موجود ہوتا ہے۔ میں تو صرف فالتو پتھر ہٹا دیتا ہوں ‘‘۔ یہ ہوتا ہے فن کار کے ہاتھ کا کرشمہ۔

ایک سینہ بہ سینہ روایت ہے کہ نادر شاہ کے زمانے میں کابل میں ایک ضعیفہ رہتی تھی جس کی بے بصری اور کور مغزی کا ایک عالم معترف تھا اس کے باوجود وہ خود کو عقل کل سمجھتی تھی کیونکہ اس کا ایک بیٹا لندن پلٹ فلسفی تھا۔ اس نے ایک مرغ پال رکھا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے بادام، اخروٹ، چوری اور میوے کھلاتی۔ مرغوں کی ہر لڑائی میں بڑھیا کا مرغ ہی مرغ میدان بنتا اور مرغوں کی لڑائی جیتنے والے مرغ کے مالک کو سو روپے انعام ملتا وہ مرغ تو سیمرغ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ وہ بڑھیا بیمار پڑ گئی اور ایک رات مرغ کا ڈربہ بند کرنا بھول گئی۔ رات کی تاریکی میں ایک نوسو چوہے کھانے والی بلی نے مرغ کی تکہ بوٹی کر ڈالی۔ صبح ہوئی تو بڑھیا نے دوچار پر دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ اب اس مرغ میدان سیمرغ کی صرف یہی نشانی رہ گئی ہے۔ اس نشانی کو ہاتھ میں لے کر وہ ایام گزشتہ کی نوحہ خوانی میں مصروف تھی کہ دیوار سے پڑوسن نے جھانک کر آواز دی ’’کچھ سنا تم نے !رات بادشاہ نادر شاہ درانی ہلاک ہو گیا ہے ‘‘مر غ کی مالکن ضعیفہ نے بے توجہی سے کہا ’’یہاں کلغیوں والے مرغ میدان سیمرغ نہیں رہے نادر و کس شمار اور قطار میں ہے۔ مر غا تو میری زندگی کو غم کا فسانہ بنا گیا۔ ‘‘

دوسری بڑھیا نے انگشت شہادت ناک پر رکھ کر کہا’’ سچ ہے تمھارے لیے تو مرغ ہی سب سے بڑا اثاثہ تھا۔ وہ مرغ کیا گیا تمھارے آنگن کا چراغ تمنا ہی بجھا گیا۔ ‘‘

زمانہ قبل از تاریخ میں بھی انسانوں نے زیبائش و آرائش پر توجہ دی۔ انسانوں نے مختلف اعضا میں پہننے کے لیے جو زیورات تیار کیے ان میں ہاتھوں میں پہننے والے زیورات کو بہت مقبولیت ملی۔

آج بھی جب قدیم کھنڈرات کی کھدائی کی جاتی ہے تو خواتین کے ہاتھوں میں پہننے والے زیورات بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ ان میں سونے اور چاندی کی چوڑیاں، کنگن، گجرے، کڑے، بہٹا اور گھڑی کا چین بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں پہنانے کے لیے ہتھ کڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔ ملزم سے اقرار جرم کرانے کے لیے اس کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاتے ہیں اور دو فٹ لمبا، تین انچ موٹا

اور ایک فٹ چوڑا چمڑے کا جوتا ہاتھ میں لے کر کوتوال ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ پولیس اور ملزموں کا بعض اوقات گٹھ جوڑ بھی ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں نورا کشتی کے ذریعے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ پس عدالت بھی کچھ ہاتھوں کا گمان گزرتا ہے یہ ہاتھ انصاف کے ترازو کو ڈنڈی مار کر مطلوبہ فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ ہاتھ کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔ بوعلی غبار ناقہ کے اندر گم ہو جاتا ہے جب کہ رومی کا ہاتھ محمل کے پردے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ہاتھ نے ہر عہد میں ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے

بہت پر انی بات ہے۔ جھنگ کے لیلیٰ مجنوں گیٹ کے قریب ایک مجذوب فقیر میاں مودا روزانہ یہ صد ا لگا کر گزرتا: ’’دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے، کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‘‘ یہ صدا سن کر ایک غریب عورت نے فقیر کو بلایا اور اسے مخاطب ہو کر بولی : ’’ نقد سے تمھاری کیا مراد ہے؟‘‘

فقیر نے کہا’’ اگر کوئی مجھ ناتواں پر تر س کھا کر ایک روپیہ دے گا تو اسے شام سے پہلے قدرت کاملہ کی طرف سے دس روپے مل جائیں گے۔ ‘‘

غریب عورت کے گھر میں محض ایک روپیہ موجود تھا، یہی اس کی کل جمع پونجی اور تمام کائنات تھی۔ اس نے آ ؤ دیکھا نہ تاؤاسی وقت گھر کی یہ پوری دولت جو ایک روپیہ پر مشتمل تھی وہ فقیر کے کشکول میں ڈال دی۔ فقیر دعا دے کر چلا گیا۔ عین اسی وقت اس کا شوہر آ گیا اور بیوی سے درشت لہجے میں کہا:

’’ اری نیک بخت لا وہ اکلوتا ایک روپیہ میں ذرا دارو لے آؤں۔ آج طبیعت بہت خراب ہے۔ ‘‘ ’’وہ روپیہ تو میں نے فقیر کو دے دیا ‘‘ بیوی نے کہا ’’ فقیر کہہ رہا تھا کہ ایک کے بدلے آج ہی دس مل جائیں گے۔ خالق کے ہاں سودا نقد ہے، یہاں ادھار والی کوئی بات نہیں۔ انتظار کرو شام سے پہلے ایک کے بدلے دس روپے ملنے والے ہیں ‘‘ بد مزاج شوہر نے اپنا جوتا اتار کر ہاتھ میں لیا اور بیوی کی خو ب پٹائی کی، اور اسے طلاق کی دھمکی دی۔ گاؤں والوں نے اس ہا تھا پائی اور محاذ آرائی پر کوئی توجہ نہ دی۔ ایک جہاندیدہ بزرگ کو یہ کہتے سنا گیا:

جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پٹ

اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ

شوہر کو اپنی بیوی سے یہ شکوہ تھا کہ اس نے گھر کی کی تمام جمع پونجی ایک ایسے فقیر کو دے دی جو خود کوڑی کوڑی کا محتاج ہے اور دربہ در، خاک بہ سر بھیک مانگتا پھر تا ہے۔ غریب عورت نے ایک مرغا پال رکھا تھا۔ گاؤں کے لوگ اسی مرغے کی ککڑوں کوں سن کر دن کا آغاز کرتے تھے۔ اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتے ہوئے غریب عورت نے اپنا مرغا ہا تھ میں تھاما اور زار و قطار روتی ہوئی اپنے میکے روانہ ہو گئی۔ راستے میں تنور پر بیٹھی ہوئی عورتوں کو قہر بھری نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگی : ’’ اب میں دیکھوں گی کہ گاؤں میں صبح کیسے ہوتی ہے۔ میں تو اپنا مرغا لے کر یہاں سے جا رہی ہوں۔ گاؤں کی ساری رونق تو میرے مرغے کی وجہ سے ہے۔ ‘‘ابھی چند قدم ہی چلی ہو گی کہ اسے اپنے سامنے دس روپے کا نوٹ پڑا مل گیا اس نے نوٹ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑا اور اپنے شوہر کے گھر لوٹ آئی۔ اس کا شوہر اس کی اچانک واپسی پر ششدر رہ گیا۔ چند لمحے قبل تو وہ اس قدر غیظ و غضب کے عالم میں تھی کہ ہمیشہ کے لیے گاؤں چھوڑنے کا عزم صمیم کر لیا تھا مگر اب اس قدر مائل بہ کرم کیسے ہو گئی۔ شوہر نے غصے سے پو چھا:

’’اب ہو گیا ہو گا اپنی غلطی کا احساس۔ بڑی آئی حا تم طائی کی قبر پر لات مارنے والی۔ ‘‘ عورت نے بڑے ناز سے دس روپے کا نوٹ دکھاتے ہوئے کہا ـ’’ مجھے ایک روپے کے بدلے راستے میں پڑے دس روپے مل گئے ہیں۔ واقعی سودا نقد ہی ہے۔ ‘‘

یہ کیفیت دیکھ کر شوہر اپنے کیے پر حد درجہ متاسف ہوا اور بیوی کو منا لیا۔ چند روز بعد پھر وہی فقیر آیا عورت نے اسے بلایا اور کہنے لگی :’’ سودا تو واقعی نقد ہی ہے۔ ایک کے بدلے میں دس بھی ملتے ہیں مگر اس کے لیے جوتے بھی بہت کھا نے پڑتے ہیں۔ ہر کسی میں اتنا حوصلہ کہاں کہ ہڈی پسلی ایک کرا کے دس گنا حاصل کرے‘‘

ہاتھوں کے تنوع اور دھنک رنگ منظر نامے کا احوال بیان کر نے کے بعد خیال آیا کہ دست قدرت کے ذکر کے بغیر یہ تحریر تشنہ رہ جائے گی۔ رام ریاض اپنی ایک نعت میں حضور ختم المرسلینؐﷺکے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

دست قدرت نے تیر ے بعد پھر ایسی تصویر

نہ بنائی نہ بنی ہے میر ے مکیﷺ مدنیﷺ

ہر ہا تھ کی اہمیت بجا لیکن ایک ہاتھ ایسا بھی ہے جسے آج تک کوئی نہیں روک سکا۔ اس ہاتھ کی وجہ سے ہنستے بولتے چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایسے تمام رشتہ و پیوند جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں اس ہاتھ کے باعث قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں۔ یہ ہاتھ آن کی آن میں جاہ و حشم کے سفینے الٹ دیتا ہے اور حزم و احتیاط کے قرینے پلٹ دیتا ہے۔ اس کے ستم سے آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی ہے اور یہ روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیتا ہے۔ یہ اجل کا ہاتھ ہے اس میں دائمی مفارقت دینے والوں کے ناموں کی فہرست ہوتی ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا:

اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ

نہ جانے آج کی تحریر میں رقم کیا ہے

فکری اعتبار سے ہمارے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے ہاتھوں میں گھڑی تو باندھ رکھی ہے مگر گھڑیال کی منادی سے یکسر غافل ہیں جو ببانگ دہل یہ کہہ رہا ہے کہ اے غافل انسانو! فلک پیر کے ہاتھوں نے تمھاری عمر سے ایک گھڑی اور منہا کر دی ہے۔ کیسے کیسے تخلیق کاروں کے ہاتھ تقدیرنے ہمیشہ کے لیے تاب و تواں سے محروم کر دئیے۔ زمانہ لاکھ گردش کرے اب ایسے نابغہ ء روزگار تخلیق کار پھر جنم نہیں لے سکتے۔ کاش ہمیں قدرت کاملہ کے ہاتھوں وہ بصیرت اور دل بینا عطا ہو جو ہمیں ازلی اور ابدی صداقتوں کے احساس و ادراک سے متمتع کر دے۔ فرصت زندگی بہت کم ہے اس سے پہلے کہ فرشتہ اجل کے ہاتھوں زندگی کی شمع گل ہو جائے ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ جو دید مل جائے وہ مغتنم ہے۔ آئیے ہم سب مل کر ہاتھ اٹھائیں کہ نگار ہستی زہر امروز کے جام کو شیرینیِ فردا سے معمور کر دے۔ ہم سب کے دلوں کو مرکز مہر و وفا کر کے حریم کبریا سے آشنا کر دے اور ہم کسی کے دست نگر نہ رہیں۔ ادب کے شعبے میں چربہ ساز، سارق، کفن دزد اور لفاظ حشرات سخن کے ہاتھ سے کوئی ادب پارہ محفوظ نہیں رہتا۔ ان عناصر کی خوئے بد اور جسارت سارقانہ کے ہاتھوں اہل علم و دانش کو جو ستم سہنے پڑتے ہیں ان کے تصور سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی مردہ اپنے ہاتھ سے اپنا گرد آلود کفن پھاڑ کر میری اس تحریر پر ہاتھ صاف کرے میں اسے قارئین ادب کے حوالے کرتا ہوں تا کہ وہ اپنے ہاتھوں میں قلم تھام کر انصاف کے ترازو کے بارے میں اپنی وقیع رائے دے سکیں۔ مجھے کسی ایسے شخص سے کلمۂ خیر کی توقع نہیں جو اپنے ہاتھ میں سونے کا قلم تھامے ہوئے اپنے مسخرا پن سے متوجہ کرے ا ور قلم بہ کف حریت فکر کے مجاہدوں کے غیر مختتم مسائل کے عقدے حل کرنے کے سلسلے میں رواقیت کا داعی بن بیٹھے۔ ایسے چیرہ دستوں کو وقت کے ہاتھوں اپنے انجام کا منتظر رہنا چاہیے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔