غالب کا ایک بہت مشہور مصرع ہے:
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
اس مصرع کو گزشتہ ۵۰ برسوں سے ہر اچھا آدمی اور ہر بری حکومت اپنے دفاع میں پیش کرتے آئے ہیں۔
شعر کا اگر پہلا مصرع نہ پڑھا جائے تو پہلی نظر میں یہ مصرع سوالیہ معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت ہے استفہام انکاری۔ اس کا مطلب ہم یہ سمجھے کہ اگر آپ سے پوچھا جائے، کیا آپ نے کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جسے سبھی اچھا کہیں تو آپ کے ذہن میں اپنے سوا کسی اور کا نام نہ آئے! اس کا سبب اپنی ذات سے عقیدت کی زیادتی ہوتا ہے۔ اب ذرا دیر کو اس نقیض یعنی الٹ پر بھی غور کیجیے۔ فرض کیجیے میں ورڈلی وزڈم (فراست ارضی) سے لبریز اور بحر سے خارج مصرع اس طرح کہتا:
ایسا بھی کوئی ہے کہ برا جس کو سب کہیں
تو ذہن میں ایسے ایسے اور اتنے سارے نام آئیں گے کہ انھیں لب پہ لاتے ہوئے اپنے معصوم بال بچوں کا خیال آ جائے گا۔ مطلب یہ کہ دوسروں کے بارے میں اچھی بری رائے معلوم کرنے کی خاطر دنیا جہاں سے ’پنگا‘ تھوڑا ہی لینا ہے۔
یہ تو ہوا غالب کے مصرعے کا الٹا سیدھا لیکن مجھے تو اس مصرعے میں استفہام اقرار و استثنائی بھی نظر آتا ہے۔ میں اپنے بائی پاس شدہ دل اور اپنی چاروں کتابوں پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں … جسے کسی اعتبار سے مختصر نہیں کہا جاسکتا … ایک ایسابھی خدا کا بندہ دیکھا ہے جسے اس کی زندگی میں اور اس کے رخصت ہونے کے بعد بھی کسی نے برا نہیں کہا۔ یہ فوزِ عظیم اور رتبہ بلند جسے ملا اسے سب کچھ مل گیا۔ سید ضمیر جعفری مرحوم و مغفور کو سب نے اچھا اس لیے کہا کہ وہ واقعی اچھے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا،کسی کو برا نہیں کہا۔ کسی کے برے میں نہیں تھے اور ایسا کسی مصلحت عافیت بینی یا صلح جوئی کی پالیسی کے تحت نہیں کیا بلکہ انھوں نے سب سے محبت کی جو بے لاگ، بے غرض اور غیر مشروط تھی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ ڈنر یا محفل ختم ہو جانے کے بعد بھی اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ انھیں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اگر ہم چلے گئے تو عزیز ترین دوست ہماری غیبت شروع کر دیں گے مگر اللہ کے ایسے بھی منتخب بندے ہیں جن کے نام اور کام کا غلغلہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اور زیادہ بلند ہوتا ہے۔ ضمیر جعفری انہی نیک نام اور نایاب و عجوبۂ روزگار بندوں میں سے ایک تھے۔
مجھے ان سے قربت، گاڑھی ، دوستی یا گستاخانہ بے تکلفی کا دعویٰ نہیں۔ میری نیاز مندی کی مدت کم و بیش 50 برس بنتی ہے۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
میں نے یہ وضاحت آغازِ گفتگو میں کرنی اس لیے بھی ضرور سمجھی تھی کہ میری ارادت اور تعلق خاطر کی مدت کے تعین کے ساتھ ساتھ سامعین کو میرے سن ِ پیدائش تک پہنچنے میں ذہن پر زیادہ زور نہ دینا پڑے۔ ہماری عمروں میں اتنا زیادہ تفاوت نہیں تھا کہ وہ مجھے ’جیسے رہو لکھتے رہو‘‘ کہہ کر میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیریں اور نہ یہ فرق اتنا کم تھا کہ میں ان کے ہاتھ یا زانو پہ ہاتھ مار کے یا تین منٹ بعد ان کے چٹخارے وار فقرے کی داد دوں۔ تین منٹ کی وقفہ بندی اس لیے کہ پیر و مرشد کے ملفوظات اور گل افشانی ِ گفتار کی رفتار کا یہی عالم تھا۔
نصف صدی کی طویل مدت بالعموم ایک دوسرے سے بے زار ہونے کے لیے کافی ہوتی ہے اس لیے کہ اتنے عرصے میں سارے عیب و ہنر کھل جاتے ہیں۔ امریکا میں ایک حالیہ سروے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ 50 فی صد جوڑوں کی طلاق شادی کے تین سال کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔ بقیہ 50 فی صد کی طلاق 40 سال بعد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کے مزاج سے بہت اچھی طرح واقف ہو جاتے ہیں۔ 50 برس میں دوستانہ تعلق کا وہی حال ہو جاتا ہے جس کی تصویر غالب نے مرزا تفتہ کے نام اپنے خط میں کھینچی ہے۔
لکھتے ہیں: ’’جیسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیار کرتی ہے۔ میرا تمھارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔‘‘ یوں تو غالب کا ہر قول حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے لیکن مجھے اس میں تھوڑا سا اضافہ کرنے کی اجازت ہو تو عرض کروں گا کہ تعلقات میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دونوں فریق ایک دوسرے کو اپنی مظلوم زوجہ تصور کر کے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے لگتے ہیں مگر ضمیر جعفری کے کیس میں ایسا بجوگ نہیں پڑتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا، ان کے خلوص کی گہرائی اور شفافیت زیادہ واضح اور آشکارا ہوتی جاتی۔ جیسا کہ ابھی عرض کیا، میں نے انھیں کبھی کسی کی برائی، غیبت یا مذمت کرتے نہیں دیکھا۔دوستانہ ملاقاتوں میں کبھی اپنے اشعار سناتے نہیں دیکھا۔ اپنے کسی دکھ، تکلیف، پریشانی یا الجھن کا ذکر کر کے اوروں کو مغموم کرنا انھوں نے نہیں سیکھا تھا۔ ہمیشہ مسکراہٹیں اور خوشیاں ہی خوشیاں بانٹیں۔ اپنے دکھ درد میںکسی کو شریک نہیں کیا۔
جیسے ہی میں یہاں اپنی آمد و فراغت کی اطلاع دیتا، وہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر ہوٹل آ جاتے۔ دیرینہ بے تکلفی و بے تعلق خاطر کے پیش نظر وہ کرنل محمد خاں کو متروک روزمرہ کے مطابق اپنے ساتھ لِوا لاتے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے چقماق کا درجہ رکھتے تھے۔ نئی نسل کے جن پڑھنے والوں نے چقماق نہیں دیکھی، ان کی آسانی کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر اپنی ماچس رگڑ کر پھلجھڑیاں چھوڑتے۔ پھر بہ قول نظیر اکبرآبادی تماشا دیدنی ہوتا۔
یوں تو ہم کچھ بھی نہ تھے مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ لگائی تو تماشا نکلا!
شروعات ضمیر جعفری کرتے تھے۔ وہ شوشہ چھوڑنا جانتا تھے اور کرنل محمد خاں اس پر شگوفہ کھلانا جانتے تھے۔ ضمیر جعفری کی چٹکی سے چبھن کے بجائے گدگدی ہوتی تھی۔ ایک دن انھوں نے مجھے ہشکارا کہ آج کل کرنل صاحب اپنی کتاب ’’بجنگ آمد‘‘ میں سے اپنے فیورٹ الفاظ چن چن کر نکال رہے ہیں۔ آج صبح سویرے سے اس میں جٹے ہوئے ہیں۔ آپ گھما پھرا کر پوچھیے گا۔ میں نے کرنل صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ کسی کرم فرما نے مجھے مطلع کیا ہے کہ ’’بجنگ آمد‘‘ میں، میں نے لفظ ’’دھڑلے‘‘ 37 مرتبہ استعمال کیا ہے۔ صبح سے میں 25 ’’دھڑلے‘‘ تو نکال چکا ہوں۔
وہ واقعی اتنے ہی نظر آرہے تھے جتنا کہ کوئی بھی معقول اور صحت مند آدمی 25 دھڑلے خوردبین اور چمنی کی مدد سے نکالنے کے بعد لازمی طور پر نڈھال ہو جائے گا۔
اسی طرح جب کرنل صاحب کا سفرنامہ ٔ برطانیہ ’بسلامت روی‘‘ شائع ہوا تو ضمیر بھائی نے مجھ سے کہا کہ اس کے ہر تیسرے صفحے پر ایک نئی حسینہ ایمان، فارن ایکسچینج اور بڑھاپے کی آزمائش کے لیے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ حسیناؤں کی مجموعی تعداد ’’دھڑلوں‘‘ سے بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ برطانیہ کا نام آتے ہی ان کا وہی حال ہوتا ہے جو غالبؔ کا کلکتے کے ذکر سے ہوتا تھا۔ ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے! لندن تو ایک طرف رہا، اگر میں کوہاٹ یا ڈیرہ غازی خاں کے سفر کا بھی ذکر کر دوں تو سارا پری خانہ مجھ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ نازنیں بتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے۔ خیر گزری کہ برطانیہ میں کل تین مہینے ٹھہرے، ورنہ لاکھوں گھر بگڑ جاتے۔
پھر کہنے لگے کہ کرنل صاحب آج کل نئے ایڈیشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ آپ نے سفرنامے میں میمیں بہت ڈال دی ہیں۔ خدارا، ان کی تعداد چار سے نہ بڑھنے دینا۔
مرزا غالب تو ڈھلتی جوانی میں کلکتہ گئے تھے جب کہ کرنل محمد خاں ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے کے گلابی جاڑے میں میموں کی زیارت کرنے کے لیے نکلے۔ بڑی ہمت اور حوصلے والے تھے، ورنہ اس مرحلۂ عمر میں بعضا بعضا تو ڈھنگ سے ہائے ہائے کرنے کے لائق بھی نہیں رہتا۔
سہ پہر کو کرنل صاحب سے ضمیر بھائی اور بریگیڈیر صدیق سالک کی موجودگی میں ملاقات ہوئی تو میں نے جی کڑا کر کے عرض کیا۔ ’’کرنل صاحب! کتاب میں نازنینوں کی تعداد آپ کی ذاتی ضرورت سے زیادہ ہے۔ آخر کو مقامی انگریزوں کا بھی حق شفعہ بنتا ہے! نئے ایڈیشن میں تعداد کم از کم نصف کر دیجیے۔‘‘ بولے ’’مجھے خود بھی احساس ہے مگر کیا کروں، جس کو بھی نکالتا ہوں، وہ روتی بہت ہے۔‘‘
پنڈی اور اسلام آباد کی صحبتوں کو بریگیڈیر صدیق سالک بھی ایک زمانے میں باقاعدہ بے قاعدگی سے رونق بخشتے تھے۔ پھر وہ جنرل ضیاء الحق کی تقریریں لکھنے پر مامور ہو گئے اور ہمیں صبر آگیا۔ ایک دن ضمیر جعفری نے وضاحت کی کہ صدیق سالک جنرل صاحب کی تقریروں میں مزاح اس طرح ڈالتا ہے جیسے کرنل محمد خاں نے اپنے سفرنامے میں میمیں ڈالی تھیں۔
ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جنرل صاحب بھی مزاح کے اثر اور رکاوٹ کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔
مزاحِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ایک مرتبہ میرے پر اشتیاق بلاوے پر ضمیر بھائی کو آنے میں دیر ہو گئی۔ میں نے دبے الفاظ میں کرب انتظار کی شکایت کی تو بولے، ہوئی تاخیر تو کچھ باعث ِ تاخیر بھی تھا۔ معلوم ہوا کہ باعث ِ تاخیر وہ اپنے سن ِ پیدائش کو گردانتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ بس اتنی اطلاع دی کہ اب میں جوان نہیں رہا۔ میں نے کہا آپ Understatement سے کام لے رہے ہیں۔ بولے بڑھاپے میں یہ بھی مزہ دیتا ہے۔ میں نے پوچھا ضمیر بھائی! کبھی ڈاڑھی رکھنے کا خیال آتا ہے؟ بولے،کیوں نہیں۔ دشمنوں نے کئی مرتبہ Suggest کیا ہے۔ مگر میں پہلے ہی بہت Overweight ہوں۔ میرے گھٹنے مزید بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اس پر میں نے انھیں تازہ لطیفہ سنایا جو انگریزی محاورے کے مطابق مجھ تک Horse' Mouth سے براہِ راست پہنچا تھا۔ ہوا یہ کہ ہمارے کرم فرما میجر ابن الحسن نے جو بہت اچھے ادیب، شگفتہ کالم نگار اور بذلہ سنج تھے، اچانک ڈاڑھی رکھ لی۔ ان کی ملاقات شاہ احمد نورانی سے ہوئی تو مولانا نے پوچھا ’’ڈاڑھی رکھنے کے بعد آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟‘‘ میجر ابن الحسن نے جواب دیا ’’روحانی اعتبار سے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن بھوک بہت لگنے لگی ہے۔‘‘
اس مضمون کے سلسلے میں ضمیر جعفری سے نصف صدی قبل ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتوں اور صحبتوں کی یادوں اور باتوں کو ذہن میں تازہ کرنے بیٹھا تو عجیب کیفیت سے دوچار ہوا جس کا قطعاً اندازہ یا اندیشہ نہیں تھا۔
ہم آج بیٹھے ہیں ترتیب دینے دفتر کو
ورق جب اس کا اڑا لے گئی ہوا ایک ایک
پھر خیال آیا کہ پورٹریٹ نہ سہی، عکس ِ رخ یار سے پس منظر بھی تو دمک اٹھتا ہے، تو پھر ایام رفتہ اور ان بزم آرائیوں کی ایک ہلکی سی جھلک کیوں نہ دکھا دوں جب پہلے پہل ان سے کراچی میں ملاقات ہوئی۔
میں آج مر کے بھی بزم ِ وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل مرا مزار نہ پوچھ
جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اور میرا حافظہ بہت دور تک کام کرتا ہے۔ صرف قریب کی باتوں اور واقعات کو یاد رکھنے سے انکاری ہے تو جہاں تک یاد پڑتا ہے۔ ضمیر بھائی سے میرا تعارف 1951 کے اواخر میں نہایت عزیز دوست میاں فضل حسن مرحوم کے توسل سے ہوا۔ فضل صاحب شعر و ادب، شکار اور موسیقی کے رسیا تھے۔ جامع الحیثیات شخصیت، کئی ہزار کتابوں اور ایک مل کے مالک تھے۔ شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ یا خارج المیعاد یعنی پرانے سکے جمع کرتے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو سات آٹھ شاعروں کو گھیر گھار کر گارڈن ایسٹ میں اپنے دولت کدے پر لاتے جہاں ایک بجے تک گپ اور لنچ کے بعد مشاعرے کا رنگ جمتا۔ لنچ کا ذکر اس لیے بھی کرنا پڑا کہ من جملہ دیگر لذائذ کے دستر خوان پر چنیوٹ کا اچار بھی ہوتا تھا جس میں مجھ سے فرق ناشناس کو بس اتنا ہی فرق معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ کھٹا ہوتا ہے اور سرسوں کے تیل میں اٹھایا جاتا ہے جس کی بو مجھے اچھی نہیں لگتی۔ فضل صاحب کہتے تھے جس کیری پہ چنیوٹ کا طوطا بیٹھ جائے وہ بڑی جلدی پکتی اور گدر ہوتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ طوطا اگر انڈسٹری پہ بیٹھ جائے تو وہ بھی خوب پھل دیتی ہے۔ ہمارے ناپسندیدہ تیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں الھڑ مٹیاروں کے ہاتھوں کی مست مہک آتی ہے جو سنہرے کھیتوں میں سرسوں چنتی ہیں! ہمیں آج بھی اس تیل کا اچار کھانا پڑا تو یہ سمجھ کے کھاتے ہیں گویا سنہرے کھیتوں میں مذکورہ بالا ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں۔
ان کے ہاں بھینس کا گھی بھی چنیوٹ سے آتا تھا جس کے مخصوص خواص شاہی حکیموں کے نسخوں سے کشید کیے گئے تھے۔ چنیوٹ کی جس بھینس کے گھی میں سالن بنتا تھا، وہ ’’پہلن‘‘ بتائی جاتی تھی یعنی پہلی بار بیاہی ہوئی۔ اس نہلے پر ایک مرتبہ ضمیر صاحب نے یہ دہلا لگایا کہ میں تو صبح ناکتخدا یعنی کنواری بھینس کا مکھن توس پر لگا کر کھاتا ہوں۔ اس دعوے کے ثبوت میں اتنا تن و توش پیش کیا جو ہم جیسے بناسپتی خوروں کے برابر تھا۔ مولانا ماہرالقادری کسی ایسے میزبان کی دعوت قبول نہیں کرتے تھے جس کے گھر میں کھانا بناسپتی گھی میں پکتا ہو یا جہاں فرش پر بیٹھ کر کھانا پڑے۔ میرے یہاں دونوں فقیرانہ قباحتیں تھیں۔ چناں چہ کبھی ان کو مدعو کرنے ہمت نہ پڑی۔ فرماتے تھے، کبھی کوئی دھوکے سے بناسپتی گھی میں بنے سالن کا ایک لقمہ بھی کھلا دے تو دوسرے دن پتا چل جاتا ہے۔ لاکھ سر ماروں مصرع موزوں نہیں ہوتا۔ شعر میں کبھی سکتہ پڑتا ہے اور کبھی شتر گربہ ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں انشراح کے بجائے قبض محسوس ہوتا ہے۔ شعر رک رک کر آتا ہے۔ فرش پر دستر خوان بچھا کر کھانے کے بارے میں مولانا فرماتے تھے کہ اس طرح بیٹھ کر کھانے سے دائرۂ شکم پچک جاتا ہے اور اشتہا اور معدے کا مکعب انچ (Cubic Inch) رقبہ آدھا رہ جاتا ہے۔ ضمیر جعفری خوش خوراک ضرور تھے مگر رئیسانہ نفاستوں اور نخروں سے دور رہتے تھے۔فرشی نشست انھیں بھی پسند نہیں تھی مگر وجہ دوسری تھی۔ (باقی آئندہ)
تشنہ لب را تشنہ تر کردن روا ست
(تشنہ لب کو تشنہ تر کرنا روا ہے)
جو شعرائے کرام ان ہفتہ وار محفلوں میں شریک ہوتے یا کھینچ بلائے جاتے،ان میں سید ضمیر جعفری ، سید محمد جعفری، ظریف جبل پوری، ادیب سہارن پوری، ماہرالقادری، اقبال صفی پوری اور بہزاد لکھنوی نمایاں تھے۔ یوں تو عندلیب شادانی، مجنوں گورکھ پوری ، نشور واحدی بھی دو تین بار ان محفلوں کو رونق بخش چکے تھے۔ ہانکا کرنے والوں میں سید محمد جعفری، مسرت علی صدیقی اور راقم الحروف پیش پیش تھے۔ جو ملاقات آٹھ نو گھنٹے سے کم دورانیہ کی ہو، فضل صاحب اس کا شمار حادثاتی مڈبھیڑ میں کرتے تھے۔ کچھ شاعر اس لیے کتراتے تھے اور ضمیر جعفری ان میں سے ایک تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لذیذ غذا کے بعد ہزار بار سنی ہوئی غزلوں سے ہاضمے پر بہت برا اثر پڑتا مگر نیند اچھی آتی ہے۔ دوسری وجہ جو انھوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ ان دنوں ان کے پاس حفیظ جالندھری مقیم تھے جو اپنی بیوی کے ساتھ یک جائی اور ضمیر سے ایک گھنٹے کی بھی جدائی برداشت نہیں کرتے تھے۔ متروک سے محاورے کے مطابق صاحب ِ خانہ لنچ پر جو سونے کا نوالہ کھلاتے، اسے اسی جگہ بٹھا کر ذاتی نگرانی میں ہضم کرواتے تھے۔ بات صرف اتنی تھی کہ میاں فضل حسن خوش باش اور محفل باز آدمی تھے اور اپنی صحبت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ضمیر لنچ سے پہلے اٹھ جاتے یا سہ پہر کو کھڑے کھڑے آتے۔ صبح 9 بجے کے پکڑے ہوئے شاعر کو شام چھ بجے سے پہلے رہائی نصیب نہیں ہوتی تھی اور شام کو بھی محض اس لیے کہ میاں فضل حسن کے والد گرامی حاجی احمد حسن صاحب غروب آفتاب کے بعد شعر سننے کو مکروہ اور منحوس تصور کرتے تھے۔ بیٹے سے فرماتے تے کہ اگر ایسا ہی شوق ہے تو مشتاق صاحب کے گھر ان کو لے جا کر باقی ماندہ خرافات سن لو۔ ترنم سے شعر سننے کو بد چلنی کا مترنم آغاز سمجھتے تھے۔ خراب شعر اور خراب ترنم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی شاعری اور ترنم سے طبیعت میں اشتعال پیدا نہیں ہوتا۔ گھر پر محفل موسیقی کے سخت خلاف تھے۔ اس زمانے میں دوالے کے بعد جب کسی کا گھر قرق یا نیلام ہوتا تھا تو عدالت کا بیلف اس گھر کے سامنے ڈھول بجوا کر دوالے اور نیلامی کا اعلان کرتا تھا۔ حاجی صاحب فرماتے تھے کہ جس گھر میں طبلے پر تھاپ پڑا یا ٹھیکا لگا اس کے سامنے نیلامی کا ڈھول بجے ہی بجے۔ اپنے بیٹے سے کہتے تھے کہ تمھیں فریدہ خانم کا گانا سننا ہے تو مشتاق صاحب کے یہاں شوق سے طبلہ سارنگی بجواؤ۔ دن میں دھوتی تہمد اور رات کو شلوار پہننے کے خلاف معلوم ہوتے تھے۔ انگریزی فلم دیکھنے کو وہ نری بدمعاشی گردانتے تھے۔ لہٰذا جب سنچرے کو بیٹا انگلش فلم کا میٹنی شو دیکھنے جاتا تو قبلہ خود ساتھ جاتے اور ذاتی نگرانی میں مخرب اخلاق فلم ملاحظہ کرواتے۔ میں اور محمد جعفری باری باری باپ اور بیٹے کے درمیان حد ِ ادب بن کر بیٹھتے۔ ہم دونوں کا کام پدر و پسر کے درمیان ایک پردے کا سا تھا اور پردہ بھی وہ جسے اس زمانے میں کانا پردہ کہتے تھے یعنی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ جیسے اسکرین پر کوئی ایسا ویسا سین آتا تو پہلے قبلہ اپنے صاحبزادے کی طرف دیکھتے، پھر ہماری طرف دیکھتے کہ عینک کے پیچھے ہماری آنکھیں کھلی ہیں یا فرط لذت سے بند ہو گئی ہیں۔ وہ بھی صاحب کمال بزرگ تھے۔ ان کی آنکھ Three Dimensional تھی۔ مطلب یہ کہ وہ بیک وقت خود وہ سین دیکھتے، کن انکھیوں سے بیٹے کو دیکھتے اور ہماری بد نظری پر بھی نظر رکھتے۔ کسی ایکٹریس کا نیم برہنہ لباس میں کلوز اپ آتا تو صاحبزادے سے کوئی اہم کاروباری سوال پوچھنے لگتے مثلاً آج جو ڈیڑھ سو روئی کی گٹھریاں خریدی ہیں، انھیں ترپال سے ڈھک دیا ہے کہ نہیں۔ ان پر غصہ اس لیے اور زیادہ آتا تھا کہ اس روٹی کی ایک بھی گٹھری نہیں خریدی گئی تھی اور گزشتہ 100 برس سے اس مہینے میں کبھی بارش نہیں ہوئی تھی اور یہ دونوں باتیں قبلہ کے علم میں تھیں! انھیں انگریزی نہیں آتی تھی۔ نظر انگریزی سے بھی زیادہ کم زور تھی! جیسے ہی اسکرین پر کوئی عورت نظر آتی تو ہم سے پوچھتے ’’مشاق صاحب اس کی کیا عمر ہو گی؟‘‘ ہم دس بارہ برس کم کر کے بتاتے تو اکثر فرماتے کہ امریکن لڑکے لڑکیاں اتاولے باؤلے ہوتے ہیں۔ روزے فرض ہونے کی عمر سے پہلے ہی بدمعاشی شروع کر دیتے ہیں۔
امریکن مستورات شوہر کے مرنے کا انتظار نہیں کرتیں! ایک مرتبہ اسکرین پر ایک انتہائی جذباتی سین آیا۔ بوس و کنار ہوا چاہتا تھا۔ حاجی صاحب نے میرا جلتا ہوا ہاتھ اپنے کانپتے ہاتھ میں لے کر پوچھا ’’یہ زنانی اتنی پریشان اور بے قرار کیوں ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’محبت ہو گئی ہے‘‘ بولے ’’تو پھر نکاح کیوں نہیں کر لیتی؟‘‘
جو مقامات آہ و فغاں میں اپنی ناقص اردو حاجی صاحب کو نہیں سمجھا پاتا تھا وہ محمد جعفری ٹھیٹ پنجابی میں ذہن نشین کرا دیتے تھے۔ وہ پنجابی اور فارسی بہت روانی سے کھرے اور کرارے لہجے میں بولتے تھے۔
ضمیر جعفری کہتے تھے کہ جتنی دیر آپ حضرات فلم دیکھ کر بنانے والے پر لعنت بھیجتے ہیں اتنی دیر میں تو آدمی پنڈی سے مری اور مری سے نتھیا گلی جاسکتا ہے۔ مغز ملی نہاری کھا کر 3گھنٹے سو سکتا ہے۔کسی دوست کا سچا خاکہ لکھ کر اسے ہمیشہ کیلیے گنوا سکتا اور اسی قسم کے بہت سے مفید کام کرسکتا ہے۔
لیکن صرف فلم دیکھنے سے کس روسیاہ کو غرض تھی۔ اس زمانے میں ایرکنڈیشننگ عام نہیں تھی۔ صرف ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز ایر کنڈیشنڈ ہوتے تھے لیکن اس سے مستفید ہونے کے لیے پہلے بے ہوش ہونا ضروری تھا البتہ سینما ہال میں یہ شرط نہیں تھی۔ لہٰذا رمضان کے مہینے میں کوئی فلم قضا نہیں ہوتی تھی۔ اس عمل کو روزہ بہلانا کہتے تھے۔ ضمیر جعفری کہتے تھے کہ آپ لوگ فلم کو چسنی کی طرح استعمال کرتے ہیں، جب کہ محمد جعفری فرماتے تھے کہ ایسے ویسے سین کے بعد اگر تین مرتبہ قرأت سے لاحول پڑھ لی جائے تو معافی و مغفرت کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے۔
حاجی صاحب سرد و گرم چشیدہ اور جہاں دیدہ بزرگ تھے۔ اپنے بیٹے کے دوستوں پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ عاجز کو بہت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس لیے کہ میری قلیل تنخواہ، خراب صحت اور 120 پاونڈ وزن کو بد چلنی کے لیے نااہلی کا سرٹیفکیٹ تصور کرتے تھے۔ بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ جو شخص بہت اچھے کپڑے بہن کر یا دھوپ کا چشمہ لگا کر آئے اسے ادھار مال ہر گز نہ بیچو۔ اسی طرح جو شخص تم سے بلا وجہ بہت اخلاق و انکسار سے پیش آئے اس سے ہوشیار رہو۔ وہ ایک نہ ایک دن تم سے قرض ضرور مانگے گا۔ ضمیر بھائی سے ان کی خوب بنتی تھی۔ اس کی کئی وجہیں تھیں۔ ضمیر سگریٹ نہیں پیتے اور زیادہ دیر نہیں بیٹھتے تھے۔ جہلم کے تھے۔ وہی جہلم جہاں کے لوگ بہ قول ان کے خدا کے تصور کے لیے تھانے دار کو دیکھتے ہیں۔ حاجی صاحب جہلم کو چنیوٹ خورد گردانتے اور ضمیر جعفری سے خوردوں کا سا برتاؤ کرتے۔
ضمیر جعفری ، حاجی صاحب کو اپنے بزرگ حضرت میاں محمد بخش کے پنجابی اشعار ترنم سے سناتے ۔ وہ یعنی حاجی صاحب ضمیر جعفری کی ’’لکڑی کی ہٹ‘‘ اور محمد جعفری کی ’’بھنگیوں کی ہڑتال‘‘ بڑے شوق سے سنتے۔ اکثر فرماتے کہ ایسی شاعری میں کوئی حرج نہیں۔ نقصان نہیں پہنچاتی۔ ان کے صاحبزادے میاں فضل حسن بھی ہومیو پیتھک دوائیں محض اس لیے کھاتے تھے کہ نقصان نہیں پہنچاتیں! اس کی تصدیق تو ہم بھی کریں گے کہ مرض کے جراثیم کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ ضمیر جعفری ان سے لطیفے نہیں سنتے تھے۔ انھیں بات میں بات نکالنے کا فن آتا تھا۔ ان سے مل کر آپ کو اپنی اور ان کی عمر کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہر ایک سے جھک کر ملتے مگر بچکتے کسی سے نہیں تھے۔ وہ پہلے فوجی تھی جس نے اپنی درویشی چھپانے کے لیے یونی فارم پہنی۔
جس دن مولانا ماہرالقادری ، ضمیر جعفری اور محمد جعفری یک جا ہوں تو کمرے کی ہر دیوار و دیوار قہقہہ بن جاتی۔ شعر و شاعری ملتوی، نوک جھونک، فقرے بازی اور قہقہوں کے سوا کچھ نہ سنائی دیتا۔ بعض اوقات مولانا کو اپنا مذاق اڑوانے اور چاند ماری کا ہدف بننے میں بھی مزہ آتا تھا اور ادبدا کراس کا مواد و جواز خود مہیا کرتے۔ شاید یہ بھی اللہ کے بندوں کا دل شاد کرنے کی ایک صورت نکالی تھی۔ اتوار کے دن مولانا لباس کے معاملے میں لاپروا نظر آتے تھے۔ ہفتے کے بقیہ دنوں کے بارے میں کچھ عرض نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ ان دنوں ان سے صرف اتوار ی کو ملاقات ہوتی تھی (وہ مجھے بھری محفل میں دو مرتبہ ٹوک چکے تھے کہ لاپروا غلط ہے صحیح بے پروا ہے مگر مجھے تو آج بھی بے پروا میں وہ لاپروائی والی شان اور بے ڈھنگا پن نظر آتا تھا) گرمیوں میں مولانا ململ کے مسلے کرتے اور پاجامے میں بھی با رعب نظر آتے تھے۔ ازار بند اکثر لٹکا رہتا اور کرتے کے نیچے صاف نظر آتا۔ ایک مرتبہ ضمیر جعفری نے ٹوکا تو فرمایا ’’گرہ تو مضبوط ہے‘‘ ضمیر بولے ’’آپ کے عقیدے کی طرح…!‘‘
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم ِ شمشیر کا
ایک دن مولانا ذرا تاخیر سے آئے تو گھبرائے، گھبرائیے سیدھے باتھ روم گئے۔ وہاں سے قہقہے لگاتے لوٹے۔ کہنے لگے کہ بس میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ لہٰذا میں بس کے دروازے کے پاس ہی کھڑا رہ گیا۔ اتنے میں ایک بڑے میاں بس میں چڑھنے لگے۔ اب اسے اتفاق کہیے یا وضعداری، میرا کمربند حسب معمول نیفے سے باہر لٹکا ہوا تھا۔ یہ سراسر میرا نجی معاملہ تھا۔ کچھ دیر تو وہ بڑے میاں بس کا ڈنڈا اور سہارا ڈھونڈتے رہے۔ پھر میرے ازار بند کا کلیدی سرا پکڑ کے پوری طاقت سے اوپر چڑھے۔ گرہ پہلے ہی جھٹکے میں کھل گئی۔ پبلک یا بازار میں کھڑے ہو کر کھانا یا ازار بند باندھنا ہمارے ہاں شرفاء میں خلاف تہذیب سمجھا جاتا ہے لہٰذا میں ازار بند کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں مرغی کی طرح دبوچے کھڑا رہا۔ بس اسٹانڈ سے فضل صاحب کے گھر تک وہ اسی دبوچواں پوز میں تشریف لائے تھے۔
ضمیر جعفری مولانا کے ازار بند کو فریادیوں کے لیے عدل جہانگیری کی زنجیر اور بس کے بوڑھے مسافروں کے لیے عصائے پیری کہتے تھے۔
محمد جعفری کہتے تھے کہ صاحبو، میں نے تو اس واقعے سے ایسی عبرت پکڑی کہ دوسرے دن سے ململ کا ٹرانسپیرنٹ کرتا پہننا چھوڑ دیا۔ بس میں بوڑھے مسافروں کو اپنے ازار بند کے نزدیک نہیں آنے دیتا۔
ضمیر جعفری جس انداز سے اپنے چاہنے والوں سے ملتے تھے، اسے خلوص یا تپاک کہنا کسر بیانی (Understatement) ہو گا۔ ان کی چھلکتی ہمکتی گرم جوشی اس سے آگے کی چیز تھی۔ ٹیلی فون پر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ’’جچھی‘‘ ڈال دی ہے اور اپنے 50 انچ چوڑے سینے سے علیٰحدہ نہیں ہونے دیں گے۔ جیسے ہی وہ فون اٹھاتے اور میں کہتا۔ میں یوسفی بول رہا ہوں، تو وہ نہ السلام علیکم کہتے، نہ آداب۔ مزاج پوچھتے نہ حال احوال۔ بلکہ مجھے بھی اتنا موقع نہ دیتے کہ یہ مراسم ادا کرسکوں۔ فون پر بس ایک ایک لفظی نعرہ مستانہ ساسنائی دیتا۔ ’’جناب‘‘ نہ میں نے کسی اور کو اس طرح لفظ ’’جناب‘‘ میں اپنی ساری شخصیت اور پیار کو سموتے سنا، نہ میں ان کے ’’جناب‘‘ کی نقل کرسکتا ہوں۔ ممکن ہے ان کے چھوٹے صاحبزادے جو اپنے ابا کے دلآویز اور گونجیلے ترنم کی بڑی اچھی نقل کرتے ہیں، ان کے ’’جناب‘‘ کی گونج اور گمک بھی سناسکیں۔
وہ ’’جناب‘‘ کے ناکو اپنی مخصوص لے میں اتنا کھینچتے کہ راگ دلار کا الاپ معلوم ہوتا۔ کیسے بتاؤں کہ وہ اس سمپورن الاپ میں کیا کیا سمودیتے تھے۔
’’کیسے ہیں آپ؟ اتنے دن کہاں انڈر گراونڈ رہے؟ تری آواز مکے اور مدینے۔ آج ہماری تو عید ہو گئی۔ میں اچھا ہوں جیسا کہ آپ نے میری آواز سے اندازہ کر لیا ہو گا۔ آپ کے ’’ہیلو‘‘ سے نقاہت ٹپک رہی تھی۔ صحت کا خیال نہیں رکھتے۔‘‘
مختصر یہ کہ اس ایک ’’جناب‘‘ میں انتظار و اشتیاق ملاقات، طبیعت کی چونچالی، ڈھیروں پیار اور دو طرفہ خیر و عافیت سبھی کچھ آ جاتا تھا۔
ان کا جناب اگر ان کے خلوص و محبت کی صوتی شکل تھی تو ان کے مصافحے اور بغل گیری کو شکنجہ ٔ شفقت و شیفتگی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن پستہ قد لوگوں سے معانقہ کرنے سے بالعموم گریز کرتے، اس لیے کہ اس میں انہیں کافی جھکنا اور دوسروں کو پنجوں کے بل کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ پیر و مرشد کی اس ادائے خاص کا قدرے تفصیل سے اس لیے بھی ذکر کرنا پڑا کہ مصافحے کے انداز سے لوگوں کے انکسار، تمکنت و رعونت، ملنساری اور Snobbery کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ میں ایک ایسے بڑے افسر سے واقف ہوں جو ایک زمانے میں میرے فدویانہ خلوص میں لتھڑے ہوئے ہاتھ کو مصافحہ کے لیے اپنی انگشت ِ شہادت کی پہلی پور سے اس طرح چھوتے تھے جیسے ٹب میں انگلی ڈال کر کھولتے پانی کا ٹمپریچر دریافت کر رہے ہوں، نہاؤں کہ نہ نہاؤں؟ اب انہیں بھی ریٹائرڈ ہوئے 14 برس ہو گئے۔ کبھی ملتے ہیں تو خود بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے بغل گیر ہوتے ہیں۔
اگر آپ کسی بڑے سرکاری Reception میں ایک کونے میں کھڑے ہو کر صرف یہ دیکھتے چلے جائیں کہ مایا سے مایا کر کر لمبے ہاتھ کیسے مل رہی ہے۔ کون کس سے کس طرح ہاتھ ملا رہا ہے تو آپ کو کھڑے کھڑے پتہ چل جائے گا کہ کون صاحب اختیار و اقتدار ہے۔ کون اہل غرض اور حاجت مند ہے۔ کس کی کورکس سے دبتی ہے۔ کس کی گڈی چڑھتی ہے اور وہ جو شامیانے سے باہر قنات کے بانس کا سہارا لیے کھڑا ہے، وہ پرسوں ہی او ایس ڈی بنایا گیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جب کار جہاں تمام ہو گا اور عالم بالا میں ان سے ملاقات ہو گی تو وہ اسی روح کو گرما دینے والے نعرے سے خیرمقدم کریں گے۔ جناب! جنت تو ادھر ہے۔ آپ دوسری طرف کیوں جا رہے ہیں؟
ممتاز حسن مرحوم جب بھی اسلام آباد جاتے تو ضمیر جعفری اور Limerick والے نذیر احمد شیخ کے ساتھ ایک بے تکلف اور پر لطف شام ضرور گزارتے۔ ’’راندے وو‘‘ اگر واہ کینٹ ہوتا تو ممتاز حسن صاحب فرمائش کر کے دال پکواتے جسے دری پر دسترخوان بچھا کر نوش کیا جاتا۔ ضمیر جعفری نے ایک ڈنر میں میرا تعارف شیخ صاحب سے کرایا۔ وہاں انہوں نے اپنی مشہور لمرک ’’ارتقائے زبان‘‘ سنائی۔ آپ بھی سنئے۔
بس گئے پنجاب میں روئی کو روں کہنے لگے
دلبران لکھنؤ اوئی کواوں کہنے لگے
آج کل رنگِ زباں کچھ اور ہے
شوخی و حسن بیاں کچھ اور ہے
آپ کو تم، تم کو تو اور تو کو توں کہنے لگے
اسلام آباد میں ایسی ہی ایک صحبت میں ممتاز حسن صاحب نے اپنے دوست پنڈت ہری چند اختر کا ایک شعر سنایا۔
خدا تو خیرمسلماں تھا، اس سے کیا شکوہ
مرے لیے مرے پرماتما سے کچھ نہ ہوا
دورانِ گفتگو ضمیر جعفری نے بیان کیا کہ پنڈت ہری چند کی کسی سے ملاقات ہوتی تو کبھی آداب عرض، مزاج شریف، مزاج عالی، کیسی طبیعت ہے یا کیسے ہو؟ نہیں کہتے تھے، اس کے بجائے چھوٹتے ہی پوچھتے تھے، کیا تکلیف ہے؟ ان کی دیکھا دیکھی ان کے مداحین و مقربین بھی مزاج شریف کے بجائے کیا تکلیف ہے؟ کہنے لگے۔
ہمیں یہ انداز پرسش حال کہیں زیادہ سچا، ہمدردانہ و حقیقت پسندانہ اور ڈائریکٹ لگتا ہے۔ اس کی تہہ میں صداقت پر مبنی یہ مفروضہ ہے کہ اگلے کو تکلیف تو یقیناً ہے۔ صرف اس کی نوعیت معلوم کرنی مقصود ہے۔
ہمارا بس چلے تو مزاج شریف اور کیسی طبیعت ہے؟ کے بجائے کیا تکلیف ہے؟ کو National for of salvation ordinance کے ذریعے کم از کم 90 دن کے لیے قانوناً لازمی قرار دے دیں۔ پچھلے تیس ، چالیس برسوں میں ہمارا جو احوال ہوا، اس کی پرسش اور مداوا کے لیے اس سے بہتر حال پرسی کا کوئی فقرہ نہیں ہوسکتا۔ ٹریجڈی یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے مصائب کی تمام تر ذمہ داری انسان پر ہی عائد ہوتی ہے جو آپ اپنا مسبب المصائب ہے!
کچھ عرصے بعد میں نے اس تجویز کا ذکر ضمیر جعفری سے کیا تو اپنے مخصوص انداز میں ’’اوہوہو‘‘ کہنے کے بعد فرمایا کہ Ordinance کے Sub Section 5.C میں یہ شرط لگا دی جائے کہ جواب میں کوئی شخص ایک سے زیادہ تکلیف بیان نہ کرے ورنہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ ہاتھ میں لیے گھنٹوں کھڑے تکلیفیں گنواتے رہیں گے۔
ان کی انسان دوستی، محبت، رواداری اور درگزر ایک ایک سطر سے جھلکتی ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ خاکوں پر مشتمل ان کی پانچ کتابیں ہیں جن میں کم و بیش 50 خاکے ہیں۔ شخصیت کا کوئی تضاد اور بوالعجبی، معاشرے کی ناہمواری اور کردار کی مضحک پہلوان کی نظر سے نہیں بچتا۔ لیکن وہ تصویر بناتے وقت سیاہ رنگ استعمال نہیں کرتے۔ بلکہ دھیمے، گاتے، گنگناتے، پیسٹل رنگوں سے پورٹریٹ بناتے ہیں۔ باس اور ماتحت کا رشتہ بہت پیچیدہ ، اکثر ناہموار اور بعض اوقات صبر آزما اور بہت جلد آگ پکڑنے والا ہوتا ہے۔ جس کے لیے بالعموم Love Hate Relationship کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی پیار، پھٹکار، لاچاری و ناچاقی کا ناتا ہوتا ہے۔ ضمیر جعفری کا اوج کمال، وسیع القلبی اور حسِ مزاح کا شاہکار دیکھنا ہو تو ’’حفیظ نامچہ‘‘ پڑھئیے۔ اردو ادب میں اگر کسی کو Boswell یا Pepys کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف ضمیر جعفری ہیں۔ انہوں نے حفیظ جالندھری کو اپنی تمام دل آویز کم زوریوں کے ساتھ نظروں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہی اعجازِ مسیحا ’’سنگاپور کا میجر حسرت‘‘ والے چہچہاتے خاکے میں نظر آتا ہے۔ میں ان کے انداز بیان کو Tongue in the cheek تو نہیں کہوں گا کہ اس میں طعن کا شائبہ محسوس ہوتا ہے۔ ان کا قلب بین السطور مسکراتا رہتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ان کے ہاں پولیٹیکل کمنٹ نہیں ملتا اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔وہ کہنے کی سب باتیں ہنسی ہنسی میں کہہ جاتے ہیں۔ یوں بھی اردو غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ حکومت میں، میرا مطلب ہے ہر حکومت میں، جتنی بھی خوبیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب اردو غزل کے معشوق سے مستعار لی گئی ہیں؟ مثلاً دوست، دشمن میں تمیز نہ کرنا، خیرخواہوں سے دور رہنا، ملاقات سے ڈرنا، رقیبوں اور خوشامدیوں میں گھرے رہنا،’ وعدہ کر کے صاف مکر جانا، سچے عاشق کے مرنے کے بعد اس کا سوگ منانا اور تعریف کرنا وغیرہ۔ غرضیکہ ہر شعر چسپاں ہوتا ہے۔
شخصیت کے نمایاں Contours ہوں یا کسی سچویشن کے مضحک پہلو، فوجی یا دیہی زندگی کی عکاسی ہو یا بوالعجیوں اور تضادات و ناہمواریوں کا ذکر۔ وہ چند لفظوں میں پوری تصویر کھینچنے اور سماں باندھنے پر حیرت انگیز قدرت رکھتے۔ فضا بندی کے لیے وہ لمبے چوڑے میورل یا فریسکو نہیں بناتے بلکہ کسی ترچھے اور تیکھے چغل خور زاویے سے لیے گئے چند اسنیپ شاٹس سے صحبت یاراں کی گل فشانی، گفتار، اسلوب حیات اور زندگی کے مختلف قرنیوں کا ہنستا بولتا مرقع پیش کر دیتے ہیں۔ انجمن ترقی اردو کراچی نے چند برس قبل ان کے اعزاز میں جو یادگار تقریب منعقد کی تھی اس میں انہوں نے ایک بہت دلچسپ تقریر کی۔ اب ذرا اس کمال فن کی داد دیجئے کہ قلم برداشتہ لکھی ہوئی7 سطروں، جی ہاں کل 7 سطروں میں کتنا کچھ سمودیتے ہیں۔
’’روئیں میں ستار کے تاروں کی طرح بولنے لگی… اور میں مسرت کی سرشاری سے گویا نڈھال ہو گیا… صرف 3 موقعوں پر محسوس ہوا… اول اس دن جب میرے گاؤں کے مڈل اسکول کے طلبہ … جس کے پھٹے پرانے ٹاٹوں پر بیٹھ کر میں نے…’’گاچنی مٹی‘‘ سے پوچی ہوئی تختی پر اپنی زندگی کا پہلا ’’الف‘‘ لکھا تھا… میرے استقبال کے لیے ڈھول کی سنگت پر دھمال ناچتے ہوئے… کھیتوں میں نکل آئے اور پھر ہیڈ ماسٹر کی سرپرستی میں ان بچوں نے … مٹی کی چاٹیوں میں رڑکی ہوئی گھر کی بھینسوں کا تازہ مکھن سے مالا مال لسی کے ساتھ تازہ دہی مکھن میں گتھے شرابور اسی طرح کے سہ منزلہ پر اٹھے کھلائے جیسے تقریباً70 برس قبل میری ’’بے جی‘‘ مجھے مدرسہ کو روانہ کرتے وقت رومال میں باندھ کر آدھی چھٹی میں کھانے کے لیے دیا کرتی تھی۔ پھر گزشتہ برس نومبر 1992 میں وہ موقع میری عظیم مادر ۂعلمی… اسلامیہ ‘‘ اس تقریر اور اس شام کا اختتام جو ان کے نام تھی اپنے ہی اس شعر پر کیا۔
کتنی تصویروں کے ساتھ آئی ہے شام زندگی
وقت جب کم رہ گیا تو کام یاد آئے بہت
لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنے کرنے کے کام وہ تمام کر گئے اور ہر کام بڑی رسان سے ہنستے بولتے کیا۔ بحسن و خوبی کیا اور شعر و ادب کا اتنا بڑا اور وقیع و نادر ورثہ چھوڑ گئے کہ ہم سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
٭٭٭
تشکر: منصف۔۴ اکتوبر ۲۰۱۲
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید