صاحبان والا شان نجیبوں کے قدر دانوں کو خدا سلامت رکھے۔ اس بے وطن نے حکم اشتہار کا سن کر چار درویش کے قصے کو ہزار جد و کد سے اردوئے معلا کی زبان میں باغ و بہار بنایا۔ فضلِ الٰہی سے سب صاحبوں کے سیر کرنے کے باعث سر سبز ہوا۔ اب امیدوار ہوں کہ اسکا پھل مجھے بھی ملے، تو میرا غنچۂ دل مانند گل کے کھلے۔ بقول حکیم فردوسی کے کہ شاہ نامے میں کہا ہے۔
بسے رنج بر دریں سال سی
عجم زندہ کردم بہ ایں پارسی
سو اردو کی آراستہ کر زباں
کیا، میں نے بنگالہ ہندوستاں
خداوند آپ قدر دان ہیں، حاجت غرض کرنے کی نہیں.
الٰہی تارا اقبال کا چمکتا رہے۔
سبحان اللہ، کیا صانع ہے کہ جس نے ایک مٹھی خاک سے کیا کیا صورتیں اور مٹی کی مورتیں پیدا کیں باوجود رنگ کے ایک گورا اور ایک کالا۔ اور یہی ناک، کان، ہاتھ پاؤں سب کو دیئے ہیں۔ تس پر، رنگ بہ رنگ کی شکلیں جدی، جدی بنائیں کہ ایک کی سج دھج سے دوسرے کا ڈیل ڈول ملتا نہیں۔ کروڑوں خلقت میں جس کو چاہیئے، پہچان لیجئے۔ آسمان اس کے دریائے وحدت کا ایک بلبلا ہے اور زمین پانی کا بتاشا، لیکن یہ تماشا ہے کہ سمندر ہزاروں لہریں مارتا ہے پر اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ جسکی یہ قدرت اور سکت ہو اسکی حمد و ثنا میں زبان انسان کی گویا گونگی ہے، کہیے تو کیا کہیے، بہتر یوں ہے کہ جس بات میں دم نہ مار سکے، چپکا ہو رہے۔
عرش سے لے کر فرش تک جس کا یہ سامان ہے
حمد اس کی اگر لکھا چاہوں تو کیا امکان ہے
جب پیمبر نے کہا ہو میں نے پہچانا نہیں
پھر جو کوئی دعویٰ کرے اس کا، بڑا نادان ہے
رات دن یہ مہر و مہ پھرتے ہیں صنعت دیکھتے
پر ہر اک واحد کی صورت دیدۂ حیران ہے
جس کا ثانی اور مقابل ہے نہ ہووے گا کھبو
ایسے یکتا کو خدائی سب طرح شایان ہے
لیکن اتنا جانتا ہوں خالق و رزاق ہے وہ
ہر طرح سے مجھ پر اس کا لطف اور احسان ہے
اور درود اس کے دوست پر جس کی خاطر، زمین و آسمان کو پیدا کیا اور درجہ رسالت کا دیا۔
جسم پاک مصطفیٰ، اللہ کا اک نور ہے
اس لئے پرچھائیں اس قد کہ نہ تھی، مشہور ہے
حوصلہ میرا کہاں اتنا، جو نعت اس کی کہوں
پر سخن گویوں کا یہ بھی قاعدہ دستور ہے
اور اس کی آل پر صلوٰۃ و سلام، جو ہیں بارہ امام
حمدِ حق اور نعتِ احمد کو یہاں کر انصرام
اب میں آغاز اس کو کرتا ہوں جو ہے منظور کام
یا الٰہی واسطے اپنے نبی کی آل کے
کر یہ میری گفتگو مقبول طبع خاص و عام
منشا اس تالیف کا یہ ہے کہ سن ایک ہزار دو سو پندرہ برس ہجری اور اٹھارہ سے ایک سال عیسوی مطابق ایک ہزار دو سو سات سن فصلی کے عہد میں اشرف الاشراف مارکوئس ولزلی، گورنر جنرل، لارڈ مارننگٹن صاحب کے (جن کی تعریف میں عقل حیران اور فہم سرگردان ہے۔ جتنے وصف سرداروں کو چاہیے انکی ذات میں خدا نے جمع کئے ہیں۔ غرض، قسمت کی خوبی، اس ملک کی تھی جو ایسا حاکم تشریف لایا، جس کے قدم کے فیض سے ایک عالم نے آرام پایا۔ مجال نہیں کوئی کسو پر زبردستی کرسکے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں، سارے غریب و غربا دعا دیتے ہیں اور جیتے ہیں) چرچا علم کا پھیلا۔ صاحبانِ ذی شان کو شوق ہوا کہ اردو زبان سے واقف ہو کر ہندوستانیوں سے گفت و شنید کریں اور ملکی کام کو بہ آگاہی تمام انجام دیں۔ اس واسطے کتنی کتابیں اسی سال بموجب فرمائش کے تالیف ہوئیں۔
جو صاحب دانا اور ہندوستان کی زبان بولنے والے ہیں، انکی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ قصہ چار درویش کا، ابتدا میں امیر خسرو دہلوی نے اس تقریب سے کہا کہ حضرت نظام الدین اولیاء، زری زر بخش، (جو انکے پیر تھے اور درگاہ انکی دلی میں، قلعے سے تین کوس، لال دروازے کے باہر، مٹیا دروازے سے آگے، لال بنگلے کے پاس ہے) انکی طبیعت ماندی ہوئی۔ تب مرشد کا دل بہلانے کے واسطے امیر خسرو یہ قصہ ہمیشہ کہتے اور تیمار داری میں حاضر رہتے۔ اللہ نے چند روز میں شفا دی۔ تب انہوں نے غسلِ صحت کے دن یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا، خدا کے فضل سے تندرست رہے گا۔ جب یہ قصہ فارسی میں مروج ہوا۔
اب خداوندِ نعمت، صاحبِ مروت، نجیبوں کے قدردان، جان گلکرسٹ صاحب نے (کہ ہمیشہ ان کا اقبال زیادہ رہے، جب تلک گنگا جمنا بہے) لطف فرمایا کہ اس قصے کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ، ہندو مسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے، خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں، ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے، میں نے ابھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔
پہلے اپنا احوال یہ عاصی گنہگار، میر امن دلی والا بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک بادشاہ کی رکاب میں، پشت بہ پشت، جاں فشانی بجا لاتے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے، قدر دانی جتنی چاہیے، فرماتے رہے۔ جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے سرفراز کر کر، مالا مال اور نہال کر دیا اور خانہ زاد موروثی، اور منصب دار قدیمی، زبانِ مبارک سے فرمایا، چنانچہ یہ لقب بادشاہی دفتر میں داخل ہوا۔ جب ایسے گھر کی (کہ سارے گھر اس گھر کے سبب آباد تھے) یہ نوبت پہنچی، ظاہر ہے۔ (عیاں را چہ بیاں) تب سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا اور احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کیا۔ ایسی ایسی تباہی کھا کر ویسے شہر سے (کہ وطن اور جنم بھوم میرا ہے، اور آنول نال وہیں گڑا ہے) جلا وطن ہوا، اور ایسا جہاز کہ جس کا ناخدا بادشاہ تھا، غارت ہوا۔ میں بے کسی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ہے۔ کتنے برس بلدۂ عظیم آباد میں دم لیا۔ کچھ بنی کچھ بگڑی، آخر وہاں بھی پاؤں اکھڑے، روزگار نے موافقت نہ کی۔ عیال و اطفال کو چھوڑ کر تن تنہا کشتی پر سوار ہوا، اشرف البلاد کلکتے میں آب و دانے کے زور سے آ پہنچا۔ چندے بیکاری گزری۔ اتفاقاً نواب دلاور جنگ نے بلوا کر، اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کی اتالیقی کے واسطے مقرر کیا۔ قریب دو سال کے وہاں رہنا ہوا، مگر نباہ اپنا نہ دیکھا۔ تب منشی میر بہادر علی جی کے وسیلے سے، حضور تک، جان گلکرسٹ صاحب بہادر (دام اقبالہ) کے، رسائی ہوئی۔ بارے، طالع کی مدد سے ایسے جواں مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے، چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں۔ نہیں تو یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر، پاؤں پھیلا کر سو رہتا ہوں اور گھر میں دس آدمی، چھوٹے بڑے، پرورش پا کر دعا اس قدردان کو کرتے ہیں۔ خدا قبول کرے۔
حقیقت اردو کی زبان کی، بزرگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک چوجگی ہے، انہیں کے راجا پرجا قدیم سے رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود غزنوی آیا، پھر غوری اور لودھی بادشاہ ہوئے۔ اس آمدورفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا، چلا جاتا ہے) ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار اردو کہلایا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر ولایت گئے۔ آخر وہاں سے آن کر پسماندوں پٹھانوں کی گوشمالی کی۔ کوئی مفسد باقی نہ رہا کہ فتنہ و فساد برپا کرے۔
جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے قوم، قدردانی اور فیض رسانی اس خاندانِ لاثانی کی سن کر، حضور میں آ کر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جُدی جُدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف، سوال و جواب کرنے کی زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہان، صاحب قران نے قلعۂ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کروایا اور تخت طاؤس میں جواہر جڑوایا اور دل بادل سا خیمہ، چوبوں پر استاد کر، طنابوں سے کھنچوایا اور نواب علی مردان خان نہر کو لے کر آیا، تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا دارالخلافت بنایا، تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا (اگرچہ دلی جُدی ہے، وہ پرانا شہر اور یہ نیا شہر کہلاتا ہے) اور وہاں کے بازار کو اردوئے معلیٰ خطاب دیا۔
امیر تیمور کے عہد سے محمد شاہ کی بادشاہت، بلکہ احمد شاہ اور عالم گیر ثانی کے وقت تک، پیڑھی بہ پیڑھی، سلطنت یکساں چلی آئی، ندان، زبان اردو کی منجھتے منجھتے ایسی منجھی کہ کسو شہر کی بولی اس سے ٹکر نہیں کھاتی، لیکن قدردان منصف چاہیے، جو تجویز کرے۔ سو اب خدا نے، بعد موت کے، جان گلکرسٹ صاحب سا دانا، نکتہ رس پیدا کیا کہ جنہوں نے اپنے گیان اور اُگت سے، اور تلاش و محنت سے، قاعدوں کی کتابیں تصنیف کیں۔ اس سبب سے ہندوستان کی زبان کا ملکوں میں رواج ہوا اور نئے سر سے رونق زیادہ ہوئی۔ نہیں تو اپنی دستار و گفتار و رفتار کو کوئی برا نہیں جانتا۔ اگر ایک گنوار سے پوچھیے تو شہر والے کو نام رکھتا ہے، اور اپنے تئیں سب سے بہتر سمجھتا ہے۔ خیر عاقلاں خود میدانند۔
جب احمد شاہ ابدالی کابل سے آیا اور شہر کو لٹوایا، شاہ عالم پورب کی طرف تھے۔ کوئی وارث اور مالک، ملک کا نہ رہا، شہر بے سر ہو گیا۔ ہیچ ہے، بادشاہت کے اقبال سے شہر کی رونق تھی۔ ایک بارگی تباہی پڑی۔ رئیس وہاں کے، میں کہیں تم کہیں، ہو کر جہاں جس کے سینگ سمائے وہاں نکل گئے۔ جس ملک میں پہنچے، وہاں کے آدمیوں کے ساتھ سنگت سے بات چیت میں فرق آیا۔ اور بہت ایسے ہیں کہ دس پانچ برس کسو سبب سے دلی میں گئے اور رہے، وے بھی کہاں تک بول سکیں گے، کہیں نہ کہیں چوک ہی جائیں گے۔ اور جو شخص سب آفتیں سہہ کر دلی کا روڑا ہو کر رہا، اور دس پانچ پشتیں اسی شہر میں گزاریں، اور اس نے دربار امراؤں کے، اور میلے ٹھیلے، عرس چھڑیاں سیر تماشا اور کوچہ گردی اس شہر کی مدت تلک کی ہوگی، اور وہاں سے نکلنے کے بعد اپنی اپنی زبان کو لحاظ میں رکھا ہوگا، اس کا بولنا البتہ ٹھیک ہے۔ یہ عاجز بھی ہر ایک شہر کی سیر کرتا اور تماشا دیکھتا یہاں تلک پہنچا ہے۔
یہ قصہ اردو میں ترجمہ ہونے سے پہلے فارسی زبان میں قصۂ چہار درویش کے نام سے ایک زمانے میں مقبولِ خاص و عام رہا ہے۔ اسکی تصنیف کا سبب یہ ہے کہ ایک دفعہ امیر خسرو کے پیر و مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی طبیعت ناساز ہوئی، تب ان کا دل بہلانے کیلیے امیر خسرو نے یہ قصہ فارسی زبان میں کہا۔ اردو میں اس کا ترجمہ سب سے پہلے میر حسین عطا خان تحسین نے کیا اور اس کا نام نو طرز مرصع رکھا۔ لیکن اردو زبان کے ایک معیاری نمونے کی حیثیت سے ان کا یہ ترجمہ ناقص قرار پایا کیونکہ اس میں عربی اور فارسی کے فقروں اور محاوروں کی بہتات ہے۔ اس نقص کو دور کرنے کیلیے میر امن عالم و فاضل، دلی والے جو کہ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ہیں، عطا خان تحسین کے ترجمے سے یہ نیا اسلوب (version) نکالا ہے۔ میر امن ایک سہل و سادہ اور صاف اسلوب کے نکالنے میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ ہندوستانی زبان کا کوئی بھی عالم کرسکتا ہے۔ وہ ریختہ کے محاوروں کو ایسی صحت اور عفت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں کہ اس کے دیکھنے سے اس بات کا یقینِ کامل ہوتا ہے کہ ان کی واقفیت اردو زبان سے بڑی گہری تھی۔
اس قصے میں ایشیائی رسم و رواج کا مذکور بہت خوب ہے اور ان کے بیان میں ایک ایسی کلاسیکی طہارت پائی جاتی ہے کہ اس سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ یہ قصہ ان کا اپنا طبع زاد ہے۔ یہ کتاب اپنی اس خصوصیت کے باعث ہندوستان کی ان کتابوں کے سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ کرتی ہے جو کہ حال ہی میں وہاں کی معروف اور مقبول زبان میں شائع ہوئی ہیں۔
)ترجمہ(
سبحان اللہ کیا صانع ہے! کہ جس نے ایک مٹھی خاک سے کیا کیا صورتیں اور مٹّی کی مورتیں پیدا کیں! باوجود دو رنگ کے ایک گورا ایک کالا اور یہی ناک کان ہاتھ پاؤ سب دیے ہیں۔ اس پر رنگ بہ رنگ کی شکلیں جدی جدی بنائیں کہ ایک کی سج دھج سے دوسے کا ڈیل ڈول ملتا نہیں، کروڑوں خلقت میں جس کو چاہیے پہچان لیجئے۔ آسمان اس کے دریاۓ وحدت کا ایک بلبلا ہے، اور زمین پانی کا بتاشا، لیکن یہ تماشا ہی کہ سمندر ہزاروں لہریں مارتا ہے، پر اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ جس کی یہ قدرت اور سکت ہو اس کی حمد و ثنا میں زبان انسان کی گویا گونگی ہے۔ کہے! بہتر یوں ہی کہ جس بات میں دم نہ مار سکے، چپکا ہو رہے،
عرش سے لے کر فرش تک جس کا کہ یہ سامان ہے
حمد اس کی گر لکھنا چاہوں، تو کیا امکان ہے!
جب پیمبر نے کہا ہو، "میں نے پہچانا نہیں"
پھر کوئی دعوا کرے اس کا، بڑا نادان ہے
رات دن یہ مہرو مہ پھرتے ہیں صنعت دیکھتے
پر ہر ایک واحد کی صورت دیسہ حیران ہے
جس کا ثانی اور مقابل ہے نہ ہووے گا کبھو
ایسا یکتا کو خدائی سب طرح شایان ہے
اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور منصفی کرو۔ سیر میں چہار درویش کے یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ آگے روم کے ملک میں ایک شہنشاہ تھا۔ کہ نوشیرواں کی سی عدالت اور حاتم کی سی سخاوت اس کی ذات میں تھی۔ نام اسکا آزاد بخت اور شہر قسطنطنیہ(جس کو استنبول کہتے ہیں) اس کا پایۂ تخت تھا۔ اس کے وقت میں رعیت آباد، خزانہ معمور، لشکر مرفّہ، غریب غربا آسودہ، ایسے چین سے گزران کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر میں دن عید، اور رات شبِ برات تھی۔ اور جتنے چور چکار، جیب کترے، صبح خیزے اٹھائی گیرے دغا باز تھے، سب کو نیست و نابود کر کر نام و نشان ان کا اپنے ملک بھر میں نہ رکھا تھا۔ ساری رات دروازے گھروں کے بندے نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں۔ راہی مسافر جنگل میدان میں سونا اچھالتے چلے جاتے کوئی نہ پوچھتا کہ تمھارے منہ میں دانت ہیں، اور کہاں جاتے ہو؟
اس بادشاہ کے عمل میں ہزاروں شہر تھے، اور کئی سلطان نعل بندی دیتے، ایسی بڑی سلطنت پر ایک ساعت اپنے دل کو خدا کی یاد اور بندگی سے غافل نہ کرتا۔ آرام دنیا کا جو چاہے سب موجود تھا، لیکن فرزند کی طرف سے محروم تھا۔ کہ جو زندگانی کا پھل ہے اس کی قسمت کے باغ میں نہ تھا۔ اس خاطر اکثر فکر مند رہتا۔ پانچوں وقت کی نماز کے بعد اپنے کرم سے کہتا کہ اے اللہ مجھ عاجز کو تو نے اپنی عنایت سے سب کچھ دیا لیکن ایک اس اندھیرے گھر کو دیا نہ دیا۔ یہی ارمان جی میں باقی ہے ایک بیٹا جیتا جاگتا مجھے دے تو تو میرا نام اور اس سلطنت کا نشان باقی رہے۔ اسی امید میں بادشاہ کی عمر چالیس برس کی ہو گئی۔ ایک دن شیش محل میں نماز ادا کر وظیفہ پڑھ رہے تھے کہ ایک بارگی آئینہ کی طرف جو خیال کرتے ہیں تو ایک سفید بال موچھوں میں نظر آیا کہ مانند تار مقیش کے چمک رہا ہے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر آبدیدہ ہوئے اور ٹھنڈی سانس بھری پھر دل میں سوچا کیا کہ افسوس تو نے اتنی عمر ناحق برباد کی اور اس دنیا کی حرص میں ایک عالم کو زیر و زبر کیا اور ملک جو لیا اب تیرے کس کام آئے گا۔ آخر یہ سارا مال و سباب کوئی دوسرا اور آئے گا تجھے تو پیغام موت کا آ چکا۔ اگر کوئی دن جئے بھی تو بدن کی طاقت کم ہو گی۔
اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میری تقدیر میں نہیں لکھا کہ وارث چیز اور تخت کا پیدا ہو مجھے ایک روز مرنا ہے اور سب کچھ چھوڑ جانا ہے اس سے یہ بہتر ہے کہ میں ہی اسے چھوڑ دوں اور باقی زندگانی اپنے خالق کی یاد میں کاٹوں۔ یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا کر پائیں باغ میں جا کر سب مجرائیوں کو جواب دے کر فرمایا کہ کوئی آج سے میرے پاس نہ آوے۔ سب دیوان عام میں آیا جایا کریں اور اپنے کام میں مستعد رہیں یہ کہہ کر آپ ایک مکان میں جا بیٹھے۔ اور مصلاّ بچھا کر عبادت میں مشغول ہوئے سوائے رونے اور آہ بھرنے کے کچھ کار نہ تھا۔ اسی طرح بادشاہ آزاد بخت کو کئی دن گزرے شام کو روزہ کھولنے کے وقت ایک چھوہارا اور تین گھونٹ پانی پیتے اور تمام دن رات جانماز پر پڑے رہتے۔ اس بات کا باہر چرچا پھیلا رفتہ رفتہ تمام ملک میں خبر ہو گئی کہ بادشاہ نے بادشاہت سے ہاتھ کھینچ کر گوشہ نشینی اختیار کی۔ چاروں طرف سے غنیموں اور مفسدوں نے سر اٹھایا اور قدم اپنی حد سے بڑھایا جس نے چاہا ملک دبا لیا اور سر انجام سر کشی کا کیا ہوا جہاں کہیں حاکم تھے ان کے حکم میں خلل عظیم واقع ہوا۔ ہر ایک صوبے سے غرضی بد عملی کی حضور میں پہنچی۔ درباری امراء جتنے تھے جمع ہوئے اور اصلاح مصلحت کرنے لگے۔ آخر یہ تجویز ٹیرائی کہ نواب وزیر عاقل اور دانا اور بادشاہ کا مقرب اور معتمد ہے اور درجے میں بھی سب سے بڑا ہے اس کی خدمت میں چلیں اور دیکھیں کہ وہ کیا مناسب جان کر کرتا ہے۔ سب ہی امیر وزیر کے پاس آئے اور کہا بادشاہ کی یہ صورت اور ملک کی وہ حقیقت اگر چندے تغافل ہو تو اس محنت کا ملک لیا ہو مفت میں جاتا رہے گا، پھر ہاتھ آنا مشکل ہے۔ وزیر پرانا قدیم نمک حلال اور عقل مند نام بھی خرد مند اسم با مسمّیٰ تھا کہا اگر چہ بادشاہ نے حضور میں آنے کو منع کیا ہے۔ لیکن تم چلو میں چلتا ہوں۔ بادشاہ کے خیال میں آوے جو روبرو بلائے۔ یہ کہہ کر سب کو اپنے ساتھ دیوان عام تک لا ان کو وہاں چھوڑ کر آپ دیوان خاص میں آیا اور بادشاہ کی خدمت میں محلی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ یہ پیر غلام حاضر ہے۔ کئی دنوں سے جمال جہاں آرا نہیں دیکھا امید وار ہوں کہ ایک نظر دیکھ کر قدم بوسی حاصل کروں تو خاطر جمع ہو۔ یہ عرض وزیر کی بادشاہ نے سنی۔ از بسکہ قدامت اور خیر خواہی اور تدبیر اور جان نثاری اس کی جانتے تھے اور اکثر اسکی بات مانتے تھے۔ بعد تائل کے فرمایا خرد مند کو بلا لو بارے جب پروانگی ہوئی وزیر حضور میں آیا آداب بجا لایا۔ اور دست بستہ کھڑا رہا۔
دیکھا تو بادشاہ کی عجیب صورت بن رہی ہے کہ زار زار رو رہے ہیں اور دبلاپے سے آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ہیں اور چہرہ زرد ہو گیا ہے۔
خرد مند کو تاب نہ رہی، بے اختیار دوڑ قدموں پر جا گرا۔ بادشاہ نے ہاتھ سے سر اس کا اٹھایا اور فرمایا لو، مجھے دیکھا، خاطر جمع ہوئی؟ اب جاؤ، زیادہ مجھے نہ ستاؤ، تم سلطنت کرو۔ خرد مند سن کر، ڈاڑھ مار کر رویا اور عرض کی غلام کو آپ کے تصدق اور سلامتی سے ہمیشہ بادشاہت میسر ہے۔ لیکن جہاں پناہ کی یک بیک اس طرح کی گوشہ گیری سے تمام ملک میں تہلکہ پڑ گیا ہے اور انجام اس کا اچھا نہیں۔ یہ کیا خیال مزاج مبارک میں آیا؟ اگر اس خانہ زاد موروثی کو بھی محرم اس راز کا کیجیے تو بہتر ہے۔ جو کچھ عقلِ ناقص میں آوے، التماس کرے۔ غلاموں کو جو یہ سرفرزایاں بخشی ہیں، اسی دن کے واسطے کہ بادشاہ عیش و آرام کریں، اور نمک پرور دے تدبیر میں ملک کی رہیں۔ خدانخواستہ جب فکر مزاج عالی کے لاحق ہوئی تو بند ہائے بادشاہی کس دن کام آویں گے؟ بادشاہ نے کہا سچ کہتا ہے، پر جو فکر میرے جی کے اندر ہے، سو تدبیر سے باہر ہے۔ سن اے خرد مند میری ساری عمر اسی ملک گیری کے دردِ سر میں کٹی، اب یہ سِن و سال ہوا، آگے موت باقی ہے، سو اس کا بھی پیغام آیا کہ سیاہ بال سفید ہو چلے۔ وہ مثل ہے، ساری رات سوئے، اب صبح کو بھی نہ جاگیں؟ اب لک ایک بیٹا پیدا نہ ہوا جو میری خاطر جمع ہوتی، اس لیے دل سخت اداس ہوا اور میں سب کچھ چھوڑ بیٹھا، جس کا جی چاہے، ملک لے یا مال لے، مجھے کچھ کام نہیں، بلکہ کوئی دم میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ سب چھوڑ کر، جنگل اور پہاڑوں میں نکل جاؤں اور منھ اپنا کسو کو نہ دکھاؤں، اسی طرح یہ چند روز کی زندگی بسر کروں۔ اگر کوئی مکان خوش آیا تو وہاں بیٹھ کر بندگی اپنے معبود کی بجا لاؤں گا۔ شاید عاقبت بخیر ہو اور دنیا کو تو خوب دیکھا، کچھ مزہ نہ پایا۔ اتنی بات بول کر، اور ایک آہ بھر کر، بادشاہ چپ ہوئے۔
خرد مند ان کے باپ کا وزیر تھا، جب یہ شہزادے تھے، تب سے محبت رکھتا تھا، علاوہ دانا اور نیک اندیش تھا، کہنے لگا خدا کی جناب سے ناامید ہونا ہر گز مناسب نہیں۔ جس نے ہیژدہ ہزار عالم کو ایک حکم میں پیدا کیا، تمھیں اولاد دینی اس کے نزدیک کیا بڑی بات ہے؟قبلہ عالم اس تصورِ باطل کو دل سے دور کرو، نہیں تو تمام عالم درہم برہم ہو جائے گا۔ اور یہ سلطنت کس کس محنت اور مشقت سے تمھارے بزرگوں نے اور تم نے پیدا کی ہے؟ ایک ذرا میں ہاتھ سے نکل جائے گی اور بے خبری سے ملک ویران ہو جائے گا۔ خدانخواستہ بدنامی حاصل ہو گی۔ اس پر بھی بازپرس روزِ قیامت کی ہوا چاہے کہ تجھے بادشاہ بنا کر، اپنے بندوں کو تیرے حوالے کیا تھا، تو ہماری رحمت سے مایوس ہوا اور رعیت کو حیران پریشان کیا۔ اس سوال کا کیا جواب دو گے؟ پس عبادت بھی اس روز کام نہ آئے گی۔ اس واسطے کہ آدمی کا دل خدا کا گھر ہے۔ اور بادشاہ فقط عدل کے واسطے پوچھے جائیں گے۔ غلام کی بے ادبی معاف ہو، گھر سے نکل جانا اور جنگل جنگل پھرنا، کام جوگیوں اور فقیروں کا ہے۔نہ کہ بادشاہوں کا۔ تم اپنی جوگا کام کرو، خدا کی یاد اور بندگی جنگل پہاڑ پر موقوف نہیں۔ آپ نے یہ بیت سنی ہو گی۔
خدا اس پاس، یہ ڈھونڈے جنگل میں
ڈھنڈھورا شہر میں، لڑکا بغل میں
اگر منصفی فرمائیے، اور اس فدوی کی عرض قبول کیجئے تو بہتر یوں ہے کہ جہاں پناہ ہر دم اور ہر ساعت دھیان اپنا خدا کی طرف لگا کر، دعا مانگا کریں۔ اس کی درگاہ سے کوئی محروم نہیں رہا۔ دن کو بندوبست ملک کا اور انصاف، عدالت غریب غربا کی فرمائیں، تو بندے خدا کے دامنِ دولت کے سایے میں امن و امان خوش رہیں، اور رات کو عبادت کیجئے اور درود پیغمبر کی روحِ پاک کو نیاز کر کر درویش گوشہ نشین متوکلوں سے مدد لیجئے، اور روز راتب یتیم اسیر عیال داروں محتاجوں اور رانڈ بیواؤں کو کر دیجئے۔ ایسے اچھے کاموں اور نیک نیتوں کی برکت ہے، خدا چاہے تو امید قوی ہے۔ کہ تمھارے دل کے مقصد اور مطلب سب پورے ہوں۔ اور جس واسطے مزاجِ عالی مکدر ہو رہا ہے۔ وہ آرزو بر آوے، اور خوشی خاطر شریف کو ہو جاوے۔ پروردگار کی عنایت پر نظر رکھیے۔ کہ وہ ایک دم میں جو چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ بارے خرد مند وزیر کے ایسی ایسی عرض معروض کرنے سے آزاد بخت کے دل کو ڈھارس بندھی۔ فرمایا، اچھا تو جو کہتا ہے بھلا یہ بھی کر دیکھیں، آگے جو اللہ کی مرضی ہو گی، سو ہو گا۔
جب بادشاہ کے دل کو تسلّی ہوئی، تب وزیر سے پوچھا کہ اور سب امیر و کبیر کیا کرتے ہیں اور کس طرح ہیں؟ اس نے عرض کہ کہ سب ارکانِ دولت قبلہ عالم کے جان و مال کو دعا کرتے ہیں۔ آپ کی فکر سے سب حیران و پریشان ہو رہے ہیں۔ جمال مبارک اپنا دکھائیے تو سب کی خاطر جمع ہووے، چناں چہ اس وقت دیوانِ عام میں حاضر ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے حکم کیا، انشاءاللہ تعالیٰ کل دربار کروں گا، سب کو کہ دو حاضر رہیں۔ خرد مند یہ وعدہ سن کر خوش ہوا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا دی کہ جب تلک یہ زمین و آسمان برپا ہیں تمھارا تاج و تخت قائم رہے۔ اور حضور سے رخصت ہو کر خوشی خوشی باہر نکلا، اور یہ خوش خبری امراؤں سے کہی۔ سب امیر ہنسی خوشی گھر کو گئے۔ سارے شہر میں آنند ہو گئی۔ رعیّت پر جا مگن ہوئی کہ کل بادشاہ دربارِ عام کرے گا۔ صبح کو سب خانہ زاد اعلیٰ ادنیٰ، اور ارکانِ دولت چھوٹے بڑے، اپنے اپنے پائے اور مرتبے پر آ کر کھڑے ہوئے، اور منتظر جلوہ بادشاہی کے تھے۔
جب پہر دن چڑھا ایک بارگی پردہ اٹھا اور بادشاہ نے برآمد ہو کر تختِ مبارک پر جلوس فرمایا۔ نوبت خانے میں شادیانے بجنے لگے۔ سبھوں نے نذریں مبارک بادی کی گزرانیں۔ اور مجرے گاہ میں تسلیمات و کورنشات بجا لائے۔ موافق قدر و منزلت کے ہر ایک کو سرفرازی ہوئی۔ سب کے دل کو خوشی اور چین ہوا۔ جب دوپہر ہوئی، برخاست ہو کر اندرونِ محل داخل ہوئے، خاصہ نوشِ جان فرما کر خواب گاہ میں آرام کیا۔ اس دن سے بادشاہ نے یہی مقرر کیا کہ ہمیشہ صبح کو دربار کرنا، اور تیسرے پہر کتاب کا شغل یا درود وظیفہ پڑھنا، اور خدا کی درگاہ میں توبہ استغفار کر کر، اپنے مطلب کی دعا مانگنی۔
ایک روز کتاب میں بھی لکھا دیکھا، کہ اگر کسی شخص کو غم یا فکر ایسی لاحق ہو کہ اس کا علاج تدبیر سے نہ ہو سکے تو چاہیے کہ تقدیر کے حوالے کرے اور آپ گورستان کی طرف رجوع کرے، درود طفیل پیغمبر کی روح کے ان کو بخشے، اور اپنے تئیں نیست و نابود سمجھ کر، دل کو اس غفلت دنیوی سے ہوشیار رکھے، اور عبرت سے رو دے، اور خدا کی قدرت کو دیکھے کہ مجھ سے آگے کیسے کیسے صاحب ملک و خزانہ اس زمین پر پیدا ہوئے؟ لیکن آسمان نے سب کو اپنی گردش میں لا کر خاک میں ملا دیا۔ یہ کہاوت ہے ۔
چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ آ، ثابت گیا نہ کو
اب جو دیکھیے سوائے ایک مٹی کے ڈھیر کے ان کا کچھ نشان باقی نہیں رہا اور سب دولتِ دنیا گھر بار، آل اولاد، آشنا دوست، نوکر چاکر، ہاتھی گھوڑے چھوڑ کر اکیلے پڑے ہیں۔ یہ سب ان کا کچھ کام نہ آیا، بلکہ ان کوئی نام بھی نہیں جانتا کہ یہ کون تھے اور قبر کے اندر کا احوال معلوم نہیں کہ (کیڑے مکوڑے چیونٹے سانپ ان کو کھا گئے یا) ان پر کیا بیتی اور خدا سے کیسی بنی۔ بے باتیں اپنے دل میں سوچ کر ساری دنیا کو پیکھنے کا کھیل جانے، تب اس کے دل کا غنچہ ہمیشہ شگفتہ رہے گا، کسو حالت میں پژمردہ نہ ہو گا۔ یہ نصیحت جب کتاب میں مطالعہ کی، بادشاہ کو خرد مند وزیر کا کہنا یاد آیا اور دونوں کو مطابق پایا۔ یہ شوق ہوا کہ اس پر عمل کروں لیکن سوار ہو کر اور بھیٹ بھاڑ لے کر، پادشاہوں کی طرح سے جانا اور پھرنا، مناسب نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ لباس بدل کر رات کو اکیلے مقبروں میں یا کسی مردِ خدا گوشہ نشین کی خدمت میں جایا کروں، اور شب بیدار ہوں، شاید ان مردوں کے وسیلے سے دنیا کی مراد اور عاقبت کی نجات میسر ہو۔
یہ بات دل میں مقرر کر کے ایک روز رات کو موٹے جھوٹے کپڑے پہن کر روپے اشرفی لے کر، چپکے قلعے سے باہر نکلے اور میدان کی راہ کی، جاتے جاتے ایک گورستان میں پہنچے، نہایت صدق دل سے درود پڑھ رہے تھے، اور اس وقت بادِ تند چل رہی تھی، بلکہ آندھی کہا چاہیے۔ ایک بارگی بادشاہ کو دور سے ایک شعلہ سا نظر آیا کہ مانند صبح کے تارے کے روشن ہے۔ دل میں اپنے خیال کیا کہ اس آندھی اور اندھیرے میں یہ روشنی خالی حکمت سے نہیں۔ یا یہ طلسم ہے کہ اگر پھٹکری اور گندھک کو چراغ میں بتی کے آس پاس چھڑک دیجئے، تو کیسی ہی ہوا چلے، چراغ گل نہ ہو گا۔ یا کسو دلی کا چراغ ہے کہ جلتا ہے، جو کچھ ہو سو ہو، چل کر دیکھا چاہیے شاید اس شمع کے نور سے میرے بھی گھر چراغ روشن ہو اور دل کی مراد ملے۔ یہ نیت کر کے اس طرف کو چلے۔ جب نزدیک پہنچے، دیکھا تو چار فقیر بےنوا کفنیاں گلے میں ڈالے اور سر زانو پر دھرے، عالم بے ہوشی میں خاموش بیٹھے ہیں اور ان کا یہ عالم ہے جیسے کوئی مسافر اپنے ملک اور قوم سے بچھڑ کر، بے کسی اور مفلسی کے رنج و غم میں گرفتار ہو کر حیران رہ جاتا ہے۔ اسی طرح سے بے چاروں نقشِ دیوار ہو رہے ہیں۔ اور ایک چراغ پتھر پر دھرا ٹمٹما رہا ہے۔ ہر گز ہوا اس کو نہیں لگتی گویا فانوس اس کا آسمان بنا ہے کہ بے خطرے جلتا ہے۔
آزاد بخت کو دیکھتے ہی یقین آیا کہ مقرر تیری آرزو، ان مردانِ خدا کے قدم کی برکت سے بر آوے گی، اور تیری امید کا سوکھا درخت ان کی توجہ سے ہرا ہو کر پھلے گا۔ ان کی خدمت میں چل کر اپنا احوال کہہ اور مجلس کا شریک ہو، شاید تجھ پر رحم کھا کر دعا کریں جو بے نیاز کے یہاں قبول ہو۔ یہ ارادہ کر کے چاہا کہ قدم آگے دھرے۔ وہیں عقل نے سمجھایا کہ اے بے وقوف جلدی نہ کر، ذرا دیکھ لے۔ تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ اور کدھر جاتے ہیں؟ کیا جانیں یہ دیو ہیں یا غولِ بیابانی ہیں کہ آدمی کی صورت بن کر باہم مل بیٹھے ہیں۔ بہ ہر صورت جلدی کرنا اور اس کے درمیان جا کر مخل خوب نہیں۔ ابھی ایک گوشے میں چھپ کر حقیقت ان درویشوں کی جاننا چاہیے۔ آخر بادشاہ نے یہی کیا کہ ایک کونے میں اس مکان کے چپکا جا بیٹھا کہ کسی کو اس کے آنے کی آہٹ کی خبر نہ ہوئی، اپنا دھیان ان کی طرف لگایا کہ دیکھئے آپس میں کیا بات چیت کرتے ہیں۔ اتفاقاً ایک فقیر کو چھینک آئی، شکر خدا کا کیا، وہ تینوں قلندر اس کی آواز سے چونک پڑے، چراغ کو اکسایا، ٹھیپ تو روشن تھا، اپنے اپنے بستروں پر حقّے بھر کر پینے لگے۔ ایک ان آزادوں میں سے بولا: اے یارانِ ہمدرد و رفیقانِ جہاں گرد! ہم چار صورتیں آسمان کی گردش سے اور لیل و نہار کے انقلاب سے در بہ بر خاک بہ سر ایک مدت پھریں۔ الحمد لللہ کہ طالع کی مدد اور قسمت کی یاوری سے آج اس مقام پر باہم ملاقات ہوئی اور کل کا احوال کچھ معلوم نہیں کہ کیا پیش آوے، ایک گت رہیں یا جدا جدا ہو جاویں۔ رات بڑی پہاڑ ہوتی ہے، ابھی سے پڑ پڑ رہنا خوب نہیں۔ اس سے یہ بہتر ہے کہ اپنی اپنی سر گزشت جو اس دنیا میں جس پر بیتی ہو (بشرطیکہ جھوٹ اس میں کوڑی بھر نہ ہو) بیان کرے، تو باتوں میں رات کٹ جائے۔ جب تھوڑی شب باقی رہے تب لوٹ پوٹ رہیں گے۔“ سبھوں نے کہا یا ہادی! جو کچھ ارشاد ہوتا ہے۔ ہم نے قبول کیا۔ پہلے آپ ہی اپنا احوال جو دیکھا ہے شروع کیجئے تو ہم مستفید ہوں۔“
پہلا درویش دو زانو ہو بیٹھا اور اپنی سیر کا قصہ اس طرح سے کہنے لگا۔ یا معبود اللہ! ذرا ادھر متوجہ ہو، اور ماجرا اس بے سروپا کا سنو!
یہ سر گزشت میری ذرا کان دھر سُنو!
مجھ کو فلک نے کر دیا زیر و زبر سُنو!
جو کچھ کہ پیش آئی ہے شدت مری تئیں
اُس کا بیان کرتا ہوں تم سر بہ سر سُنو!
اے یاران! میری پیدایش اور وطن بزرگوں کا ملکِ یمن ہے۔ والد اس عاجز کا ملک التجار خواجہ احمد نام بڑا سوداگر تھا۔ اس وقت میں کوئی مہاجن یا بیپاری ان کے برابر نہ تھا۔ اکثر شہروں میں کوٹھیاں اور گُماشتے خرید و فروخت کے واسطے مقرر تھے، اور لاکھوں روپے نقد اور جنس ملک ملک کی گھر میں موجود تھی۔ اُن کے یہاں دو لڑکے پیدا ہوئے، ایک تو یہی فقیر جو کفنی سیلی پہنے ہوئے مرشدوں کے حضوری میں حاضر اور بولتا ہے، دوسری ایک بہن جس کو قبلہ گاہ نے اپنے جیتے جی اور شہر کے سوداگر بچے سے شادی کر دی تھی۔ وہ اپنی سُسرال میں رہتی تھی۔ غرض جس کے گھر میں اتنی دولت اور ایک لڑکا ہو، اُس کا لاڈ پیار کا کیا ٹھکانا ہے؟ مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چوز سے ماں باپ کے سائے میں پرورش پائی اور پڑھنا لکھنا سپاہ گری کاکسب و فن، سوداگری کا بہی کھاتہ، روزنامہ، سیکھنے لگا۔ چودہ برس تک نہایت خوشی اور بے فکری میں گزرے، کچھ دُنیا کا اندیشہ دل میں نہ آیا۔ یک بہ یک ایک ہی سال میں والدین قضائے الٰہی سے مر گئے۔
عجب طرح کا غم ہوا، جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ ایک بارگی یتیم ہو گیا۔ کوئی سر پر بوڑھا بڑا نہ رہا۔ اس مصیبتِ ناگہانی سے رات دن رویا کرتا، کھانا پینا سب چھوٹ گیا۔ چالیس دن جوں توں کر کٹے، چہلم میں اپنے بیگانے چھوٹے بڑے جمع ہوئے۔ جب فاتح سے فراغت ہوئی، سب نے فقیر کر باپ کی پگڑی بندھوائی، اور سمجھایا۔ دُنیا میں سب کے ماں باپ مرتے آئے ہیں، اور اپنے تئیں بھی ایک روز مرنا ہے۔ پس صبر کرو۔ اپنے گھر کو دیکھو، اب باپ کی جگہ تم سردار ہوئے، اپنے کاروبار لین دین سے ہوشیار رہو۔ تسلی دے کر وے رخصت ہوئے۔ گماشتے کاروباری نوکر چاکر جتنے تھے آن کر حاضر ہوئے، نذریں دیں اور بولے کوٹھی نقد و جنس کی اپنی نظرِ مبارک سے دیکھ لیجیئے۔ ایک بارگی جو اس دولتِ بے انتہا پر نگاہ پڑی، آنکھیں کھُل گئیں۔ دیوان خانے کی تیاری کو حکم کیا۔ فراشوں نے فرش فروش بچھا کر چھت پردے چلونیں تکلف کی لگا دیں، اور اچھے اچھے خدمت گار دیدار و نوکر رکھے۔ سرکار سے زرق برق کی پوشاکیں بنوا دیں۔ فقیر مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھا۔ ویسے ہی آدمی غنڈے بھانکڑے مفت پر کھانے پینے والے جھوٹے خوشامدی آ کر آشنا ہوئے اور مصاحب بنے۔ اُن سے آٹھ پہر کی صحبت رہنے لگی۔ ہر کہیں کی باتیں اور زٹلیں واہی تباہی ادھر اُدھر کی کرتے اور کہتے اس جوانی کے عالم میں کیتکی کی شراب یا گلِ گلاب کھنچوائیے، نازنین معشوقوں کو بُلوا کر اُن کے ساتھ پیجئے اور عیش کیجئے۔
غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے۔ ہر دم کے کہنے سُننے سے اپنا بھی مزاج بہک گیا۔ شراب ناچ اور جوے کا چرچا شروع ہوا۔ پھر تو یہ نوبت پہنچی کہ سوداگری بھول کر تماش بینی کا اور دینے لینے کا سودا ہوا۔ اپنے نوکر اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی جو جس کے ہاتھ پڑا، الگ کیا گویا لوٹ مچا دی۔ کچھ خبر نہ تھی کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے، کہاں سے آتا اور کیدھر جاتا ہے؟ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ اس در خرچی کے آگے اگر گنج قارون کا ہوتا تو بھی وفا نہ کرتا۔ کئی برس کے عرصے میں ایک بارگی یہ حالت ہوئی کہ فقط ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی۔ دوست آشنا جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے اور چمچا بھر خون اپنا ہر بات میں زبان سے نثار کرتے تھے، کافور ہو گئے۔ بلکہ راہ باٹ میں اگر کہیں بھینٹ ملاقات ہو جاتی تو آنکھیں چُرا کر منھ پھیر لیتے، اور نوکر چاکر خدمت گار بہلیے ڈھلیت خاص بردار ثابت خانی سب چھوڑ کر کنارے لگے۔ کوئی بات کا پوچھنے والا نہ رہا جو کہے یہ کیا تمھارا حال ہوا، سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا۔
اب دمڑی کی ٹھڈیاں میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں۔ دو تین فاقے کڑا کے کھینچے، تاب بھوک کی نہ لا سکا۔ لاچار بے حیائی کا برقعہ منھ پر ڈال کر قصد کیا۔ کہ بہن کے پاس چلیے۔ لیکن یہ شرم دل میں آتی تھی کہ قبلہ گاہ کی وفات کے بعد نہ بہن سے کچھ سلوک کیا، نہ خالی خط لکھا، بلکہ اس نے خط خطوط ماتم پُرسی اور اشتیاق کے جو لکھے، ان کا بھی جواب اِس خوابِ خرگوش میں نہ بھیجا۔ اِس شرمندگی سے جی تو نہ چاہتا تھا، پر سوائے اُس گھر کے اور کوئی ٹھکانا نظر میں نہ ٹھہرا۔ جوں توں پا پیادہ خالی ہاتھ گرتا پڑتا ہزار محنت سے وہ کئی منزلیں کاٹ کر ہمشیر کے شہر میں جا کر اُس کے مکان پر پہنچا۔ وہ ماں جائی میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لی اور گلے مِل کر بہت روئی۔ تیل ماش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے۔ کہنے لگی "اگرچہ ملاقات سے دل بہت خوش ہوا، لیکن بھیا، تیری یہ کیا صورت بنی؟" اُس کا جواب میں کچھ نہ دے سکا۔ آنکھوں میں آنسو، ڈبڈبا کر چُپکا ہو رہا۔ بہن نے جلدی سے پوشاک سِلوا کر حمام میں بھیجا۔ نہا دھو کر وہ کپڑے پہنے۔ ایک مکان اپنے پاس سے بہت اچھا تکلف کا میرے رہنے کو مقرر کیا۔ صبح کو شربت اور لوزیات حلوا سوہن پستہ مغزی ناشتے کو، اور تیسرے پہر میوے خشک و تر پھل پھلاری، اور رات دن دونوں وقت پلاؤ نان قلیے کباب تحفہ مزے دار منگوا کر اپنے روبرو کھلا کر جاتی۔ سب طرح خاطرداری کرتی۔ میں نے ویسی تصدیع کے بعد جو یہ آرام پایا۔ خدا کی درگاہ میں ہزار ہزار شکر بجا لایا۔ کئی مہینے اس فراغت سے گُزرے کہ پانو اس خلوت سے باہر نہ رکھا۔
ایک دن وہ بہن جو بجائے والدہ کے میری خاطر رکھتی تھی، کہنے لگی، اے بیرن! تو میری آنکھوں کی پُتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے۔ تیرے آنے سے میرا کلیجا ٹھنڈھا ہوا۔ جب تجھے دیکھتی ہوں، باغ باغ ہوتی ہوں۔ تو نے مجھے نہال کیا، لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لیے بنایا ہے گھر میں بیٹھے رہنا اُن کو لازم نہیں۔ جو مرد نکھٹو ہو کر گھر سیتا ہے، اُس کو دُنیا کے لوگ طعنہ مِہنا دیتے ہیں، خصوصاً اس شہر کے آدمی چھوٹے بڑے بے سبب تمھارے رہنے پر کہیں گے، اپنے باپ کی دولتِ دُنیا کھو کھا کر بہنوئی کے ٹکڑوں پر آ پڑا۔ یہ نہایت بے غیرتی اور میری تمہاری ہنسائی اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج لگنے کا ہے۔ نہیں تو میں اپنے چمڑے کی جوتیاں بنا کر تجھے پہناؤں اور کلیجے میں ڈال رکھوں۔ اب یہ صلاح ہے کہ سفر کا قصد کرو۔ خدا چاہے تو دن پھریں اور اس حیرانی و مفلسی کے بدلے خاطر جمعی اور خوشی حاصل ہو۔ یہ بات سُن کر مجھے بھی غیرت آئی، اس کی نصیحت پسند کی۔ جواب دیا ، اچھا اب تم ماں کی جگہ ہو، جو کہو سو کروں۔ یہ میری مرضی پا کر گھر میں جا کے پچاس توڑے اشرفی کے اصیل لونڈیوں کے ہاتھوں میں لِوا کر میرے آگے لا رکھے اور بولی ایک قافلہ سوداگروں کا دمشق کو جاتا ہے، تم ان روپوں سے جنس تجارت کی خرید کرو۔ ایک تاجر ایماندار کے حوالے کر کے، دستاویز پکی لکھوا لو، اور آپ بھی قصد دمشق کا کرو۔ وہاں جب خیریت سے جا پہنچو، اپنا مال مع منافع سمجھ بوجھ لیجیو یا آپ بیچیو۔ میں وہ نقد لے کر بازار میں گیا، اسباب سوداگری کا خرید کر ایک بڑے سوداگر کے سپرد کیا۔ نوشت و خواند سے خاطر جمع کر لی۔ وہ تاجر دریا کی راہ سے جہاز پر سوار ہو کر ورانہ ہوا۔ فقیر نے خُشکی کی راہ چلنے کی تیاری کی۔ جب رُخصت ہونے لگا، بہن نے ایک سری پاؤ بھاری اور ایک گھوڑا جڑاؤساز سے تواضع کیا، اور مٹھائی پکوان ایک خاص دان میں بھر کر ہرنے سے لٹکا دیا، اور چھاگل پانی کی شکار بند میں بندھوا دی۔ امام ضامن کا روپیہ میرے بازو پر باندھا، دہی کا ٹیکا ماتھے پر لگا کر آنسو پی کر بولی، سدھارو! تمھیں خدا کو سونپا، پیٹھ دکھائے جاتے ہو، اسی طرح جلد اپنا منہ دکھائیو۔ میں نے فاتحہ خیر کی پڑھ کر کہا، تمھارا بھی اللہ حافظ ہے۔ میں نے قبول کیا۔ وہاں سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوا، اور خدا کے توکل پر بھروسہ کر کے دو منزل کی ایک منزل کرتا ہوا دمشق کے پاس جا پہنچا۔
غرض جب شہر کے دروازے پر گیا، بہت رات جا چکی تھی۔ دربان اور نگاہ بانوں نے دروازہ بند کیا تھا۔ میں نے بہت منت کی کہ مسافر ہوں، دور سے دھاوا مارے آتا ہوں، اگر کواڑ کھول دو شہر میں جا کر دانے گھاس کا آرام پاؤں۔ اندر سے گھرک کر بولے، اس وقت دروازہ کھولنے کا حکم نہیں، کیوں اتنی رات گئے تم آئے؟ جب میں نے جواب صاف اُن سے سنا، شہر پناہ کی دیوار کے تلے گھوڑے پر سے اُتر زین پوش بچھا کر بیٹھا۔ جاگنے کی خاطر ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ جس وقت آدھی رات اِدھر اور آدھی رات اُدھر ہوئی، سنسان ہو گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک صندوق قلعے کی دیوار پر سے نیچے چلا آتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں اچنبھے میں ہوا کہ یہ کیا طلسم ہے؟ شاید خدا نے میری حیرانی و پریشانی پر رحم کھا کر خزانہ غیب سے عنایت کیا۔ جب وہ صندوق زمین پر ٹھہرا، ڈرتے ڈرتے میں پاس گیا، دیکھا تو کاٹھ کا صندوق ہے۔ لالچ سے اُسے کھولا۔ ایک معشوق، خوب صورت، کامنی سی عورت (جس کے دیکھنے سے ہوش جاتا رہے) گھایل، لہو میں تر بتر، آنکھیں بند کئے پڑی کُلبلاتی ہے، آہستہ آہستہ ہونٹھ ہلتے ہیں، اور یہ آواز منہ سے نکلتی ہے۔ ای کم بخت بے وفا! اے ظالمِ پُر جفا! بدلا اس بھلائی اور محبت کا یہی تھا جو تُو نے کیا؟ بھلا ایک زخم اور بھی لگا، میں نے اپنا تیرا انصاف خدا کو سونپا۔ یہ کہہ کر اُسی بے ہوشی کے عالم میں دوپٹے کا آنچل منہ پر لے لیا۔ میری طرف دھیان نہ کیا۔
فقیر اُس کو دیکھ کر اور یہ بات سُن کر سُن ہوا، جی میں آیا، کسی بے حیا ظالم نے کیوں ایسے نازنین صنم کو زخمی کیا، کیا اُس کے دل میں آیا؟ اور ہاتھ اُس پر کیوں کر چلایا؟ اُس کے دل میں تو محبت اب تلک باقی ہے جو اس جان کنی کی حالت میں اُس کو یاد کرتی ہے، میں آپ ہی آپ یہ کہہ رہا تھا، آواز اس کے کان میں گئی، ایک مرتبہ منہ سرکا کر مجھ کو دیکھا۔ جس وقت اس کی نگاہیں میری نظروں سے لڑیں، مجھے غش آنے اور جی سنسنانے لگا۔ بہ زور اپنے تئیں تھانبا۔ جرأت کر کے پُوچھا، سچ کہو تم کون ہو اور یہ کیا ماجرا ہے۔ اگر بیان کرو تو میرے دل کو تسلی ہو۔ یہ سُن کر اگرچہ طاقت بولنے کی نہ تھی آہستے سے کہا، شکر ہے۔ میری حالت زخموں کے مارے یہ کچھ ہو رہی ہے۔ کیا خاک بولوں؟ کوئی دم کی مہمان ہوں، جب میری جان نکل جاوے تو خدا کے واسطے جواں مردی کر کے مجھ بدبخت کو اسی صندوق میں کسی جگہ گاڑ دیجو۔ تو میں بھلے بُرے کی زبان سے نجات پاؤں، اور تُو داخل ثواب کے ہو۔ اتنا بول کر چُپ ہوئی۔
رات کو مجھ سے کچھ تدبیر نہ ہوسکی، وہ صندوق اپنے پاس اُٹھا لایا اور گھڑیاں گننے لگا کہ کب اتنی رات تمام ہو تو فجر کو شہر میں جا کر جو کچھ علاج اس کا ہو سکے بہ مقدور اپنی کروں۔ وہ تھوڑی سی رات ایسی پہاڑ ہو گئی کہ دل گھبرا گیا۔ بارے خُدا خُدا کر کے صبح جب نزدیک ہوئی، مُرغ بولا، آدمیوں کی آواز آنے لگی۔ میں نے فجر کی نماز پڑھ کر صندوق کو خورجی میں کسا۔ جونہیں دروازہ شہر کا کھُلا، میں شہر میں داخل ہوا ہر ایک آدمی اور دکان دار سے حویلی کرائے کی تلاش کرنے لگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک مکانِ خوش قطع نیا فراغت کا بھاڑے لے کر جا اُترا۔ پہلے اس معشوق کو صندوق سے نکال کر روئی کے پہلوں پر ملائم بچھونا کر کے ایک گوشے میں لٹایا، اور آدمی اعتباری وہاں چھوڑ کر فقیرِ جراح کی تلاش میں نکلا۔ ہر ایک سے پوچھتا پھرتا تھا کہ اس شہر میں جراح کاری گر کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟ ایک شخص نے کہا، ایک حجام جراحی کے کسب اور حکیمی کے فن میں پکا ہے، اور اس کام میں نپٹ پکا ہے، اگر مُردے کو اُس پاس لے جاؤ، خُدا کے حُکم سے ایسی تدبیر کرے کہ ایک بار وہ بھی جی اُٹھے ۔ وہ اس محلے میں رہتا ہے اور عیسیٰ نام ہے۔
میں یہ مُژدہ سُن کر بے اختیار چلا۔ تلاش کرتے کرتے پتے سے اُس کے دروازے پر پہنچا۔ ایک مردِ سفید ریش کو دہلیز پر بیٹھا دیکھا اور کئی آدمی مرہم کی تیاری کے لئے کچھ پیس پاس رہے تھے۔ فقیر نے مارے خوشامد کے ادب سے سلام کیا اور کہا، میں تُمھارا نام اور خُوبیاں سُن کر آیا ہوں۔ ماجرا یہ ہے کہ میں اپنے مُلک سے تجارت کے لئے چلا، قبیلے کو بہ سبب محبت ساتھ لیا۔ جب نزدیک اس شہر کے آیا، تھوڑی سی دُور رہا تھا کہ شام پڑ گئی۔ اَن دیکھے مُلک میں رات کو چلنا مناسب نہ جانا۔ میدان میں ایک درخت کے تلے اُتر پڑا۔ پچھلے پہر ڈاکا آیا، جو کچھ مال و اسباب پایا لُوٹ لیا، گہنے کے لالچ سے اس بی بی کو بھی گھایل کیا۔ مجھ سے کچھ نہ ہوسکا، رات جو باقی تھی جُوں تُوں کر کے کاٹی، فجر ہی شہر میں آن کر ایک مکان کرائے لیا، اُن کو وہاں رکھ کر میں تمھارے پاس دوڑا آیا ہوں۔ خُدا نے تمھیں یہ کمال دیا ہے، اس مسافر پر مہربانی کرو، غریب خانے تشریف لے چلو، اُس کو دیکھو اگر اس کی زندگی ہوئی تو تمھیں بڑا جس ہو گا اور میں ساری عمر غلامی کروں گا۔ عیسیٰ جراح بہت رحم دل اور خُدا پرست تھا۔ میری غریبی کی باتوں پر ترس کھا کر میرے ساتھ اُس حویلی تک آیا۔ زخموں کو دیکھتے ہی میری تسلی کی، بولا کہ خُدا کے کرم سے اِس بی بی کے زخم چالیس دن بھر آویں گے، غسل شفا کا کروا دوں گا۔
غرض اُس مردِ خُدا نے سب زخموں کو نیم کے پانی سے دھو دھا کر صاف کیا۔ جو لائق ٹانکوں کے پائے انھیں سیا، باقی گھاؤں پر اپنی کھیسے سے ایک ڈبیا نکال کر کتنوں میں پٹی رکھی، اور کتنوں پر پھائے چڑھا کر پٹی سے باندھ دیا اور نہایت شفقت سے کہا، میں دونوں وقت آیا کروں گا، تو خبردار رہیو ایسی حرکت نہ کرے جو ٹانکے ٹوٹ جائیں۔مرغ کا شوربا بجائے غذا اسں کے حلق میں چوائیو اور اکثر عرق بید مشک گلاب کے ساتھ دیا کیجیو جو قوت رہے- یہ کہ کر رخصت چاہی۔میں نے بہت منت کی اور ہاتھ جوڑ کر کہا، تمھاری تشفی دینے سے میری بھی زندگی ہوئی، نہیں تو سوائےمرنے کے کچھ سوجھتا نہ تھا، خدا تمھیں سلامت رکھے۔ عطر پان دے کر رخصت کیا میں رات دن خدمت میں اس پری کے حاضر رہتا، آرام اپنے اوپر حرام کیا۔ خدا کی درگاہ سے روز روز اس کے چنگے ہونے کی دعا مانگتا۔ اتفاقاً وہ سوداگر بھی آ پہنچا، اور میرا مال امانت میرے حوالے کیا۔ میں نے اسے اونے پونے بیچ ڈالا، اور دارو درمن میں خرچ کرنے لگا۔ وہ مرد جراح ہمیشہ آتا جاتا، تھوڑے عرصے میں سب زخم بھر کر انگور کر لائے۔ بعد کئی دن کے ٍسل شفا کیا، عجب طرح کی خوشی حاصل ہوئی۔ خلعت اور اشرفیاں عیٰسی حجام کے آگے دھریں، اور اس پری کو مکلف فرش بچھا کر مسند پر بٹھایا۔ فقیر غریبوں کو بہت سی خیر خیرات کی۔ اس دن گویا بادشاہت ہفت اقلیم کی اس فقیر کے ہاتھ لگی، اور اس پری کا شفا پانے سے ایسا رنگ نکھرا کہ مکھڑا سورج کے مانند چمکنے اور کندن کی طرح دمکنے لگا۔ نظر کی مجال نہ تھی جو اس کے جمال پر ٹھہرے۔ فقیر بہ سروچشم اس کے حکم میں حاضر رہتا، جو فرماتی سو بجا لاتا۔ وہ اپنے حسن کے غرور اور سرداری کے دماغ میں جو میری طرف کبھو دیکھتی تو فرماتی، خبردار، اگر تجھے ہماری خاطر منظور ہے تو ہر گز ہماری بات میں دم نہ مارئیو، جو ہم کہیں سو بلا عذر کیے جائیو، اپنا کسی بات میں دخل نہ کریو، نہیں تو پچتاوے گا۔ اس کی وضع سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ حق میری خدمت گزاری اور فرماں برداری کا اسے البتہ منظور ہے۔ فقیر بھی اس کی بے مرضی ایک کام نہ کرتا، اس کا فرمانا بہ سرد چشم بجا لاتا۔
ایک مدت اسی راز و نیاز میں کٹی، جو اس نے فرمائش کی، وونھیں میں نے لا کر حاضر کی۔ اس فقیر پاس جو کچھ جنس اور نقد اصل و نفع کا تھا، سب صرف ہوا۔ اس بیانے ملک میں کون اعتبار کرے جو قرض دام سے کام چلے؟ آخر تکلیف روزمرے کے خرچ کی ہونے لگی، اس سے دل بہت گھبرایا، فکر سے دبلا ہوتا چلا، چہرے کا رنگ کلجھواں ہو گیا، لیکن کس سے کہوں؟ جو کچھ دل پر گزری سو گزری، قہر درویش بر جانِ درویش۔ ایک دن اس پری نے اپنے شعور سے دریافت کر کے کہا۔ “اے فلانے! تیری خدمتوں کا حق ہمارے جی میں نش کالحجر ہے۔ پر اس کا عوض بالفعل ہم سے نہیں ہو سکتا۔ اگر واسطے خرچ ضروری کے کچھ درکار ہو تو اپنے دل میں اندیشہ نہ کر، ایک ٹکڑا کاغذ اور دوات قلم حاضر کر۔ میں نے تب معلوم کیا کسی ملک کی پادشاہ زادی ہے جو اس دل و دماغ سے گفتگو کرتی ہے۔ فی الفور قلم دان آگے رکھ دیا۔ اس نازنین نے ایک شقہ دستخط خاص سے لکھ کر میرے حوالے کیا اور کہا، "قلعے کے پاس تر پو لیا ہے۔ وہاں اس کوچے میں ایک حویلی بڑی سی ہے۔ اس مکان کے مالک کا نام سیدی بہار ہے۔ تو جا کر اس رقعے کو اس تلک پہنچا دے۔"
فقیر موافق فرمانے اس کے اسی نام و نشان پر منزلِ مقصود تک جا پہنچا۔ دربان کی زبانی کیفیت خط کی کہلا بھیجی۔ وونھیں سنتے ہی ایک ایک حبشی جوان خوب صورت ایک پھینٹا طرح دار سجے ہوئے باہر نکل آیا۔ اگرچہ رنگ سانولا تھا پر گویا تمام نمک بھرا ہوا۔ میرے ہاتھ سے خط لے لیا، نہ بولا نہ کچھ پوچھا۔ انھیں قدموں پھر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں گیارہ کشتیاں سر بہ مہر زربفت کی تو رہ پوش پڑے ہوئے غلاموں کے سر پر دھرے باہر آیا۔ کہا اس جوان کے ساتھ جا کر چو گوشے پہنچا دو۔ میں بھی سلام کر رخصت ہو اپنے مکان میں لایا آدمیوں کو دروازے کے باہر سے رخصت کیا۔ دو کشتیاں امانت حضور میں اس پری کے گزار رانیاں دیکھ کر فرمایا “یہ گیارہ بدرے اشرفیوں کی لے اور خرچ اور خرچ میں لا خدا رزاق ہے۔ فقیر اس نقد کو لے کر ضروریات میں خرچ کرنے لگا۔ اگرچہ خاطر جمع ہوئی پر دل میں یہ خلش رہی یا الٰہی! یہ کیا صورت ہے؟ بغیر پوچھے گچھے اتنا مال نا آشنا صورت اجنبی نے ایک پرزے کاغذ پر میرے حوالے کیا، اگر اس پری سے یہ بھید پوچھوں، تو اس نے پہلے ہی منع کر رکھا تھا۔ مارے ڈر کے دم نہیں مار سکتا تھا۔
بعد آٹھ دن کے وہ معشوقہ مجھ سے مخاطب ہوئی کہ حق تعالیٰ نے آدمی کو انسانیت کا جامہ عنایت کیا ہے کہ نہ پھٹے نہ میلا ہو۔ اگر چہ پرانے کپڑے سے اس کی آدمیت میں فرق نہیں آتا، پر ظاہر میں خلق اللہ کی نظروں میں اعتبار نہیں پاتا۔ دو توڑے اشرفی کے ساتھ لے کر چوک کے چوراہے پر یوسف سوداگر کی دکان میں جا اور کچھ رقم جواہر کے بیش قیمت اور دو خلعتیں زرق برق کی مول لے آ۔ “فقیر دو نہیں سوار ہو کر اس کی دکان پر گیا۔ دیکھا تو ایک جوان شکیل زعفرانی جوڑا پہنے گدی پر بیٹھا ہے، اور اس کا یہ عالم ہے کہ ایک عالم دیکھنے کے لیے دکان سے بازار تک کھڑا ہے۔
فقیر کمال شوق سے نزدیک جا کر سلام علیک کر کر بیٹھا اور جو جو چیز مطلوب تھی، طلب کی۔ میری بات چیت اس شہر کے باشندوں کی سی نہ تھی۔ اس جوان نے گرم جوشی سے کہا، جو صاحب کو چاہیے موجود ہے، لیکن یہ فرمائیے کس ملک سے آنا ہوا؟ اور اس اجنبی شہر میں رہنے کا کیا باعث ہے؟ اگر اس حقیقت سے مطلع کیجئے تو مہربانی سے بعید نہیں، میرے تئیں اپنا احوال ظاہر کرنا منظور نہ تھا۔ کچھ بات بنا کر اور جواہر پوشاک لے کر اور قیمت اس کو دے کر رخصت چاہی۔ اس جوان نے روکھے پھیکے ہو کر کہا، اے صاحب! اگر تم کو ایسی ہی ناآشنائی کرنی تھی، تو پہلے دوستی اتنی گرمی سے کرنی کیا ضرور تھی؟ بھلے آدمیوں میں صاحب سلامت کا پاس بڑا ہوتا ہے۔ یہ بات اس مزے اور انداز سے کہی بے اختیار دل کو بھائی اور بے مروت ہو کر وہاں سے اٹھنا انسانیت کے مناسب نہ جانا۔ اس کی خاطر پھر بیٹھا اور بولا، تمھارا فرمانا سر آنکھوں پر، میں حاضر ہوں۔
اتنے کہنے سے بہت خوش ہوا، ہنس کر کہنے لگا، اگر آج کے دن غریب خانے پر کرم کیجئے تو تمھاری بدولت مجلس خوشی کی جما کر دو چار گھڑی دل بہلاویں۔ اور کچھ کھانے پینے کا شغل باہم بیٹھ کر کریں۔ فقیر نے اس پری کو کبھو اکیلا نہ چھوڑا تھا، اس کی تنہائی یاد کر کر چند در چند غدر کیے، پر اس جوان نے ہر گز نہ مانا۔ آخر وعدہ ان چیزوں کو پہنچا کر میرے پھر آنے کا لے کر اور قسم کھلا کر رخصت دی۔ میں دکان سے اٹھ کر جواہر اور خلعتیں اس پری کی خدمت میں لایا۔ اس نے قیمت جواہر کی اور حقیقت جوہری کی پوچھی۔ میں نے سارا احوال مول تول کا اور مہمانی کے بضد ہونے کا کہہ سُنایا۔ فرمانے لگی، آدمی کو اپنا قول قرار پورا کرنا واجب ہے، ہمیں خُدا کی نگہبانی میں چھوڑ کر اپنے وعدے کو وفا کر، ضیافت قبول کرنی سُنت رسُول کی ہے۔ تب میں نے کہا، میرا دل چاہتا نہیں کہ تمھیں اکیلا چھوڑ کر جاؤں اور حکم یوں ہوتا ہے، لاچار جاتا ہوں، جب تلک آؤں گا دل یہیں لگا رہے گا۔ یہ کہہ کر پھر اس جوہری کی دُکان پر گیا، وہ مونڈھے پر بیٹھا میرا انتظار کھینچ رہا تھا۔ دیکھتے ہی بولا “آؤ مہربان، بڑی راہ دکھائی۔“
وہیں اُٹھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور چلا، جاتے جاتے ایک باغ میں لے گیا وہ بڑی بہار کا باغ تھا، حوض اور نہروں کے فوارے چھوٹتے تھے، میوے طرح بہ طرح کے پھل رہے تھے، ہر ایک درخت مارے بوجھ کے جھوم رہا تھا۔رنگ برنگ کے جانور اُن پر بیٹھے چہچہے کر رہے تھے، اور ہر مکان عالی شان میں فرش سُتھرا بچھا تھا۔ وہاں لبِ نہر ایک بنگلے میں جا کر بیٹھا۔ ایک دم کے بعد آپ اُٹھ کر چلا گیا، پھر دوسری پوشاک معقول پہن کر آیا۔ میں نے دیکھ کر کہا“ سبحان اللہ! چشمِ بد دور۔“ سُن کر مُسکرایا اور بولا“ مناسب یہ ہے کہ صاحب بھی اپنا لباس بدل ڈالیں۔ اُس کی خاطر میں نے بھی دوسرے کپڑے پہنے اُس جون نے بڑی ٹیپ ٹاپ سے تیاری ضیافت کی کی، اور سامان خوشی کا جیسا چاہیے موجود کیا۔ اور فقیر سے صحبت بہت گرم کر مزے کی باتیں کرنے لگا۔ اتنے میں ساقی صراحی و پیالہ بلور لے کر حاضر ہوا اور گزک کئی قسم کی لا کے رکھی۔ نمک دان چُن دیے، دور شراب کا شروع ہُوا۔ جب دو جام کی نوبت پہنچی چار لڑکے امرد صاحبِ جمال زلفیں کھولے ہوئے مجلس میں آئے، گانے بجانے لگے۔ یہ عالم ہُوا اور ایسا سماں بندھا اگر تان سین اس گھڑی ہوتا، تو اپنی تان بھول جاتا، اور بیجو باؤرا سُن کر باؤلا ہو جاتا۔ اس مزے میں ایک بارگی وہ نوجوان آنسو بھر لایا، دو چار قطرے بے اختیار نکل پڑے اور فقیر سے بولا۔ اب ہماری تمھاری دوستی جانی ہوئی، پس دل کا بھید دوستوں سے چھُپانا کسو مذہب میں درست نہیں۔ ایک بات بے تکلف آشنائی کے بھروسے کہتا ہوں اگر حُکم کرو تو اپنی معشوقہ کو بُلوا کر اِس مجلس میں تسلی اپنے دل کی کروں۔ اُس کی جُدائی سے جی نہیں لگتا۔
یہ بات ایسے اشتیاق سے کہی کہ بغیر دیکھے بھالے فقیر کا دِل بھی مشتاق ہوا۔ میں نے کہا، مجھے تمھاری خوشی درکار ہے، اس سے کیا بہتر؟ دیر نہ کیجیے ، سچ ہے معشوق بِن کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اِس جوان نے چلون کی طرف اشارت کی ، دونھیں ایک عورت کالی کلوٹی بھتنی سی جس کے دیکھنے سے انسان بے اجل مر جاوے، جوان کے پاس آن بیٹھی۔ فقیر اس کے دیکھنے سے ڈر گیا۔ دل میں کہا یہی بَلا محبوبہ ایسے جوان پری زاد کی ہے جس کی اتنی تعریف اور اشتیاق ظاہر کیا! میں لاحول پڑھ کر چُپ ہو رہا، اُسی علم میں تین دن رات مجلس شراب اور راگ رنگ جمی رہی، چوتھی شب کو غلبہ نشے اور نیند کا ہوا۔میں خوابِ غفلت میں بے اختیار سو گیا جب صبح ہوئی اُس جوان نے جگایا ، کئی پیالے خمار شکنی پلا کر اپنی معشوقہ سے کہا، اب زیادہ تکلیف مہمان کو دینی خوب نہیں۔
دونوں ہاتھ پکڑے اُٹھے، میں نے رُخصت مانگی خوشی بہ خوشی اجازت دی، تب میں نے جلد اپنے قدیمی کپڑے پہن لیے اپنے گھر کی راہ لی، اور اس پری کی خدمت میں جا حاضر ہوا۔ مگر ایسا اتفاق کبھو نہ ہوا کہ اُسے تنہا چھوڑ کر شب باش کہیں ہوا ہوں۔ اس تین دن کی غیر حاضری سے نہایت خجل ہو کر عذر کیا ، اور قصہ ضیافت کا اور اُس کے نہ رخصت کرنے کا سارا عرض کیا۔ وُہ ایک دانا زمانے کی تھی، تبسم کر کے بولی، کیا مضائقہ اگر ایک دوست کی خاطر رہنا ہوا؟ ہم نے معاف کیا، تیری کیا تقصیر ہے؟ جب آدمی کسو کے گھر جاتا ہے تب اُس کی مرضی سے پھر آتا ہے، لیکن مُفت کی مہمانیاں کھا پی کر چُپکے ہو رہو گے یا اس کا بدلا بھی اُتارو گے؟ اب یہ لازم ہے کہ جا کر اُس سوداگر بچے کو اپنے ساتھ لے آؤ، اور اُس سے دو چند ضیافت کرو۔ اور اسباب کا کچھ اندیشہ نہیں، خدا کے کرم سے ایک دم میں سب لوازمہ تیار ہو جاوے گا اور بہ خوبی مجلس ضیافت کی رونق پاوے گی۔ فقیر موافق حکم کے جوہری پاس گیا اور کہا، تمھارا فرمانا تو میں سر آنکھوں سے بجا لایا، اب تُم بھی مہربانی کی راہ سے میری عرض قبول کرو۔ اُس نے کہا جان و دل سے حاضر ہوں۔
تب میں نے کہا اگر اس بندے کے گھر تشریف لے چلو، عین غریب نوازی ہے، اُس جوان نے بہت عذر اور حیلے کیے، پر میں نے پِنڈ نہ چھوڑا جب تلک وہ راضی ہوا، ساتھ ہی ساتھ اُس کو اپنے مکان پر لے چلا۔ لیکن راہ میں یہی فکر کرتا تھا کہ اگر آج اپنے تئیں مقدور ہوتا تو ایسی تواضع کرتا کہ یہ بھی خوش ہوتا۔ اب میں اسے لئے جاتا ہوں، دیکھیے کیا اتفاق ہوتا ہے۔ اِسی حیض بیض میں گھر کے نزدیک پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں؟ کہ دروازے پر دھوم دھام ہو رہی ہے۔ گلیارے میں جھاڑو دے کر چھڑکاؤ کیا ہے۔ یساول اور عصیٰ بردار کھڑے ہیں۔ میں حیران ہوا لیکن اپنا گھر جان کر قدم اندر رکھا۔ دیکھا تو تمام حویلی میں فرشِ مکلف لائق ہر مکان کے جا بجا بچھا ہے اور مسندیں لگی ہیں۔ پان دان، گلاب پاش ، عِطر دان، پیک دان، چنگیریں، نرگس دان قرینے سے دھرے ہیں۔ طاقوں میں رنگترے، کبنولے ، نارنگیاں اور گلابیاں ، رنگ برنگ کی چُنی ہیں، ایک طرف رنگ آمیز ابرک کی ٹٹیوں میں چراغاں کی بہار ہے۔ ایک طرف جھاڑ اور سروکنول کے روشن ہیں، اور تمام دالان اور شہ نشینوں میں طلائی شمع دان پر کافوری شمعیں چڑھی ہیں اور جڑاؤ فانوسیں اوپر دھری ہیں۔ سب آدمی اپنے اپنے عہدوں پر مستعد ہیں، باورچی خانے میں دیگیں ٹھنٹھنا رہی ہیں، آب دار خانے کی ویسی ہی تیاری ہی، کوری کوری ٹھلیاں روپے کی گھڑونچیوں پر صافیوں سے بندھیں اور بُجھروں سے ڈھکی رکھی ہیں۔ آگے چوکی پر ڈونگے کٹورے بمع تھالی، سر پوش، دھرے برف کے آب خورے لگ رہے ہیں اور شورے کی صراحیاں ہل رہی ہیں۔
غرض سب اسباب پادشاہانہ موجود ہے، اور کنچنیاں، بھانڈ، بھگتیے ، کاونت، قوال، اچھی پوشاک پہنے ساز کے سُر ملائے حاضر ہیں۔ فقیر نے اُس جوان کو لے جا کر مسند پر بٹھایا اور دل میں حیران تھا کہ یا الٰہی ! اتنے عرصے میں یہ سب تیاری کیوں کر ہوئی؟ ہر طرف دیکھتا پھرتا تھا لیکن اُس پری کا نشان کہیں نہ پایا۔ اسی جستجو، میں ایک مرتبہ باورچی خانے کی طرف جا نِکلا، دیکھتا ہوں تو وہ نازنیں ایک مکان میں گلے میں کُرتی ، پانو میں تہ پوشی، سر پر سفید رومالی اوڑھے ہوئے سادی خوزادی بِن گہنے پاتے بنی ہوئی ۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ جیسے خوش نما لگتا ہے دیکھو چاند بِن گہنے
خبر گیری میں ضیافت کے لگ رہی ہے اور تاکید ہر ایک کھانے کی کر رہی ہے کہ خبردار با مزہ ہو اور آب و نمک بو باس درست رہے، اس محنت سے وہ گلاب سا بدن سارا پسینے پسینے ہو رہا ہے۔
میں پاس جا کر تصدق ہوا اور اس شعور و لیاقت کو راہ کر دعائیں دینے لگا۔ یہ خوشامد سُن کر تیوری چڑھا کر بولی، آدمی سے ایسے کام ہوتے ہیں کہ فرشتے کی مجال نہیں، میں نے ایسا کیا کِیا ہے جو تو اتنا حیران ہو رہا ہے؟ بس بہت باتیں بنانی مجھے خوش نہیں آتیں۔ بھلا کہ تو یہ آدمیت ہے کہ مہمان کو اکیلا بٹھلا کر اِدھر اُدھر پڑے پھرے؟ وہ اپنے جی میں کیا کہتا ہو گا؟ جلد جا مجلس میں بیٹھ کر مہمان کی خاطر داری کر اور اُس کی معشوقہ کو بھی بُلوا کر اُس کے پاس بٹھلا۔ فقیر وونھیں اُس جوان کے پاس گیا اور گرم جوشی کرنے لگا۔ اتنے میں دو غلام صاحب جمال صراحی اور جام جڑاؤ ہاتھ میں لیے روبرو آئے، شراب پلانے لگے۔ اِس میں میں نے اُس جوان سے کہا، میں سب طرح مخلص اور خادم ہوں بہتر یہ ہے کہ وہ صاحبِ جمال کہ جس کی طرف دِل صاحب کا مائل ہے تشریف لاوے تو بڑی بات ہے۔ اگر فرماؤ تو آدمی بُلانے کی خاطر جاوے۔یہ سُنتے ہی خوش ہو کر بولا بہت اچھا، اِس وقت تم نے میرے دل کی بات کہی۔ میں نے ایک خوجے کو بھیجا، جب آدھی رات گئی وہ چڑیل خاصے چوڈول پر سوار ہو کر بلائے ناگہانی سی آ پہنچی۔
فقیر نے لاچار خاطر سے مہمان کی استقبال کر کر نہایت تپاک سے برابر اُس جوان کے لا بٹھایا۔ جوان اُس کے دیکھتے ہی ایسا خوش ہوا جیسے دُنیا کی نعمت ملی۔ وُہ بُھتنی بھی اُس جوان پری زاد کے گلے لپٹ گئی۔ سچ مچ یہ تماشا ہوا جیسے چودھویں رات کے چاند کو گہن لگتا ہے۔ جتنے مجلس میں آدمی تھے، اپنی اپنی اُنگلیاں دانتوں میں دابنے لگے کہ کیا کوئی بَلا اِس جوان پر مسلط ہوئی؟ سب کی نگاہ اُسی طرف تھی، تماشا مجلس کا بھول کر اُس کا تماشا دیکھنے لگے۔ ایک شخص کنارے سے بولا، یارو ! عِشق اور عقل میں ضد ہے، جو کچھ عقل میں نہ آوے یہ کافر عشق کر دِکھاوے، لیلیٰ کو مجنوں کی آنکھوں سے دیکھو، سبھوں نے کہا آمنّا، یہی بات ہے۔
یہ فقیر بہ موجب حکم کے مہمان داری میں حاضر تھا، ہر چند جوان ہم پیالہ ہم نوالہ ہونے کو مجوز ہوتا تھا، پر میں ہرگز اُس پری کے خوف کے مارے اپنا دل کھانے پینے یا سیر تماشے کی طرف رجوع نہ کرتا تھا۔ اور عُذر مہمان داری کا کر کے اُس کے شامل نہ ہوتا۔ اسی کیفیت سے تین شبانہ روز گُزرے۔ چوتھی رات وہ جوان نہایت جوشش سے مجھے بُلا کر کہنے لگا، اب ہم بھی رُخصت ہوں گے، تمہاری خاطر اپنا سب کاروبار چھوڑ چھاڑ تین دن سے تمہاری خدمت میں حاضر ہیں۔ تم بھی تو ہمارے پاس ایک دم بیٹھ کر ہمارا دل خوش کرو۔ میں نے اپنے جی میں خیال کیا اگر اس وقت کہا اس کا نہیں مانتا تو آزردہ ہو گا، پس نئے دوست اور مہان کی خاطر رکھنی ضرور ہے، تب یہ کہا، صاحب کا حکم بجا لانا منظور کہ الامر فوق الادب۔ سُنتے ہی اس کو، جوان نے پیالہ تواضع کیا اور میں نے پی لیا۔ پھر تو ایسا پیہم دَور چلا کہ تھوڑی دیر میں سب آدمی مجلس کے کیفی ہو کر بے خبر ہو گئے، اور میں بھی بے ہوش ہر گیا۔
جب صبح ہوئی اور آفتاب دو نیزے بلند ہوا، تب میری آنکھ کھلی تو دیکھا میں نے نہ وہ تیاری ہے نہ وہ مجلس نہ وہ پری، فقط خالی حویلی پڑی ہے مگر ایک کونے میں کمل لپٹا ہوا ادھر ہے۔ جو اُس کو کھول کر دیکھا تو وہ جوان اور اس کی رنڈی دونوں سر کٹے پڑے ہیں۔ یہ حالت دیکھتے ہی حواس جاتے رہے، عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ یہ کیا تھا اور کیا ہوا؟ حیرانی سے ہر طرف تک رہا تھا، اتنے میں ایک خواجہ سرا (جسے ضیافت کے کا کاج میں دیکھا تھا) نظر پڑا۔ فقیر کو اُس کے دیکھنے سے کچھ تسلی ہوئی، احوال اس واردات کا پوچھا۔ اُس نے جواب دیا تجھے اس بات کی تحقیق کرنے سے کیا حاصل جو تُو پوچھتا ہے؟ میں نے بھی اپنے دل میں غور کی کہ سچ تو کہتا ہے، پھر ایک ذرا تامل کر کے میں بولا خیر نہ کہو، بھلا یہ تو بتاؤ وہ معشوقہ کس مکان میں ہے؟ تب اُس نے کہا البتہ جو میں جاتا ہوں، سو کہ دوں گا، لیکن تجھ سا آدمی عقل مند بے مرضی حضور کے دو دن کی دوستی پر بے محابا بے تکلف ہو کر صحبت مے نوشی کی باہم گرم کرے، یہ کیا معنی رکھتا ہے؟
فقیر اپنی حرکت اور اُس کی نصیحت سے بہت نادم ہوا۔ سوائے اِس بات کے زبان سے کچھ نہ نکلا، فی الحقیقت اب تو تقصیر ہوئی معاف کیجیئے، بارے محلی نے مہربان ہو کر اُس پری کے مکان کا نشان بتایا اور مجھے رُخصت کیا، اپ اُن دونوں زخمیوں کے گاڑنے دابنے کی فکر میں رہا۔ میں تُہمت سے اُس فساد کے الگ ہوا اور اشتیاق میں اُس پری کے ملنے کے لیے گھبرایا ہوا، گرتا پڑتا ڈھونڈھتا شام کے وقت اُس کوچے میں اسی پتے پر جا پہنچا اور نزدیک دروازے کے ایک گوشے میں ساری رات تلپھتے کٹی، کسو کی آمدورفت کی آہٹ نہ ملی۔ اور کوئی احوال پُرساں میرا نہ ہوا۔ اُسی بے کَسی کی حالت میں صبح ہو گئی، جب سورج نِکلا اُس مکان کے بالا خانے کی ایک کھڑکی سے وہ ماہ رو میری طرف دیکھنے لگی۔ اُس وقت عالم خوشی کا جو مجھ پر گُزرا، دِل ہی جانتا ہے، شکر خدا کا کیا۔
اتنے میں ایک خوجے نے میرے پاس آ کر کہا، اس مسجد میں تو جا کر بیٹھ، شاید تیرا مطلب اس جگہ بر آوے اور اپنے دل کی مراد پاوے۔ فقیر فرمانے سے اُس کے وہاں سے اُٹھ کر اُسی مسجد میں جا رہا، لیکن آنکھیں دروازے کی طرف لگ رہی تھی کہ دیکھیے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تمام دِن جیسے روزہ دار شام ہونے کا انتظار کھینچتا ہے، میں نے بھی دو روز ویسی ہی بے قراری میں کاٹا۔ بارے جس تس طرح سے شام ہوئی اور دِن پہاڑ سا چھاتی پر سے ٹلا۔ ایک بارگی وہی خواجہ سرا (جن نے اُس پری کے مکان کا پتا بتا دیا تھا) مسجد میں آیا۔ بعد فراغت نماز مغرب کے میرے پاس آ کر اُس شفیق نے (کہ سب راز و نیاز کا محرم تھا) نہایت تسلی دے کر ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے چلا رفتہ رفتہ ایک باغیچے میں مجھے بٹھا کر کہا یہاں رہو جب تک تمہاری آرزو بر آوے، اور آپ رخصت ہو کر شاید میری حقیقت حضور میں کہنے گیا۔ میں اُس باغ کے پھولوں کی بہار اور چاندنی کا عالم اور حوض نہروں میں فوارے ساون بھادوں کے اُچھلنے کا تماشا دیکھ رہا تھا، لیکن جب پھولوں کو دیکھتا تب اُس گلبدن کا خیال آتا، جب چاند پر نظر پڑتی تب اُس مہ رو کا مکھڑا یاد کرتا، یہ سب بہار اُس کے بغیر میری آنکھوں میں خار تھی۔
بارے خدا اُس کے دل کو مہربان کیا، ایک دم کے بعد وہ پری دروازے سے جیسے چودھویں رات کا چاند بناؤ کیے گلے میں پشواز بادلے کی سنجاف کی موتیوں کا دروامن ٹکا ہوا اور سر پر اوڑھنی جس میں آنچل پلو لہر گوکھرو لگا ہوا، سر سے پانو تک موتیوں میں جڑی روش پر آ کر کھڑی ہوئی۔ اُس کے آنے سے تر و تازگی نئے سر سے اُس باغ کو فقیر کے دل کو ہو گئی۔ ایک دم اِدھر اُدھر سیر کر کر شہ نشین میں مغرق مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھی۔ میں دوڑ کر پروانے کی طرح جیسے شمع کے گرد پھرتا ہے تصدق ہوا اور غلام کے مانند دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا۔ اس میں وہ خوجہ میری خاطر بہ طور سفارش کے عرض کرنے لگا۔ میں نے اس محلی سے کہا بندہ گنہ گار تقصیر وار ہے جو کچھ سزا میرے لائق ٹھہرے، سو ہو۔ وہ پری ازبس کہ ناخوش تھی، بد دماغی سے بولی کہ اب اس کے حق میں یہی بھلا ہے کہ سو توڑے اشرفی کے لیوے، اپنا اسباب درست کر کے وطن کو سدھارے۔
میں یہ بات سنتے ہی کاٹھ ہو گیا اور سوکھ گیا کہ اگر کوئی میرے بدن کو کاٹے تو ایک بوند لہو کی نہ نکلے اور تمام دنیا آنکھوں کے آگے اندھیری لگنے لگی، اور ایک آہ نامرادی کی بے اختیار جگر سے نکلی، آنسو بھی ٹپکنے لگے۔ سوائے خدا کے اس وقت کسو کی توقع نہ رہی، مایوسِ محض ہو کر اتنا بولا، بھلا ٹک اپنے دل میں غور فرمائیے، اگر مجھ کم نصیب کو دُنیا کا لالچ ہوتا تو اپنا جان و مال حضور میں نہ کھوتا۔ کیا ایک بارگی حق خدمت گزاری اور جاں نثاری کا عالم اُٹھ گیا؟ جو مجھ سے کم بخت پر اتنی بے مہری فرمائی۔ خیر اپ میرے تئیں بھی زندگی سے کچھ کام نہیں، معشوقوں کی بے وفائی سے بے چارے عاشقِ نیم جاں کا تباہ نہیں ہوتا۔
یہ سُن کر تیکھی ہو تیوری چڑھا کر خفگی سے بولی، چہ خوش ! آپ ہمارے عاشق ہیں؟ مینڈکی کو بھی زکام ہوا؟ اے بے وقوف ! اپنے حوصلے سے زیادہ باتیں بنانی خیالِ خام ہے، چھوٹا منہ بڑی بات۔ بس چپ رہ یہ نکمی بات چیت مت کر، اگر کسی اور نے یہ حرکتِ بے معنی کی ہوتی، پروردگار کی سوں اس کی بوٹیاں کٹوا چیلوں کو بانٹتی، پر کیا کروں؟ تیری خدمت یاد آتی ہے اب اسی میں بھلائی ہے کہ اپنی راہ لے، تیری قسمت کا دانا پانی ہماری سرکار میں یہیں تلک تھا۔ پھر میں نے روتے بسورے کہا، اگر میری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ اپنے دل کے مقصد کو نہ پہنچوں اور جنگل پہاڑ میں سر ٹکراتا پھروں تو لاچار ہوں۔ اس بات سے بھی دِق ہو کہنے لگی، میرے تئیں یہ پُھسا ہندے چوچلے اور رمز کی باتیں پسند نہیں آتیں، اس اشارے کی گفتگو کی جو لائق ہو، اُس سے جا کر کر۔ پھر اُسی خفگی کے عالم میں اُٹھ کر اپنے دولت خانے کو چلی۔ میں نے بہتیرا سر پٹکا، متوجہ نہ ہوئی۔ لاچار میں بھی اُس مکان سے اُداس اور نا اُمید ہو کر نکلا۔
غرض چالیس دن تک یہی نوبت رہی۔ جب شہر کی کوچہ گردی سے اُکتاتا، جنگل میں نکل جاتا۔ جب وہاں سے گھبراتا، پھر شہر کی گلیوں میں دیوانہ سا آتا، نہ دن کو کھاتا نہ رات کو سوتا، جیسے دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ زندگی انسان کی کھانے پینے سے ہے۔ آدمی اناج کا کیڑا ہے۔ طاقت بدن میں مطلق نہ رہی، اپاہج ہو کر اُسی مسجد کی دیوار کے تلے جا پڑا کہ ایک روز وہی خواجہ سرا جمعے کی نماز پڑھنے آیا، میرے پاس سے ہو کر چلا، میں یہ شعر آہستہ نا طاقتی سے پڑھ رہا تھا ؛
اس دردِ دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
قِسمت میں جو لکھا ہو الٰہی شتاب ہو
اگرچہ ظاہر میں صورت میری بالکل تبدیل ہو گئی تھی، چہرے کی یہ شکل بنی تھی کہ جن نے مجھے پہلے دیکھا تھا، وہ بھی نہ پہچان سکتا کہ یہ وہی آدمی ہے۔ لیکن وہ محلی آوازِ درد سن کر متوجہ ہوا، میرے تئیں بہ غور دیکھ کر افسوس کیا اور شفقت سے مخاطب ہوا کہ آخر یہ حالت اپنی پہنچائی۔ میں نے کہا، اب تو جو ہوا سو ہوا، مال سے بھی حاضر تھا، جان بھی تصدق کی، اس کی خوشی یوں ہی ہوئی تو کیا کروں؟
یہ سُن کر ایک خدمت گار میرے پاس چھوڑ کر مسجد میں گیا۔ نماز اور خطبے سے فراغت کر کرا جب باہر نکلا، فقیر کو ایک میانے میں ڈال کر اپنے ساتھ خدمت میں اُس پری بے پروا کی لے جا کر چق کے باہر بٹھایا۔ اگرچہ میری روہٹ کچھ باقی نہ رہی تھی پر مدت تلک شب و روز اُس پری کے پاس اتفاق رہنے کا ہوا تھا، جان بوجھ کر بے گانی ہو کر پوچھنے لگی، یہ کون ہے؟ اُس مرد آدمی نے کہا، یہ وہی کم بخت بدنصیب ہے جو حضور کی خفگی اور عتاب میں پڑا تھا۔ اُسی سبب سے اس کے یہ صورت بنی ہے۔ عشق کی آگ سے جلا جاتا ہے۔ ہر چند آنسووں کے پانی سے بجھاتا ہے پر وہ دونی بھڑکتی ہے، کچھ فائدہ نہیں ہوتا، علاوہ اپنی تقصیر کی خجالت سے موا جاتا ہے۔ پری نے ٹھٹھولی سے فرمایا، کیوں جھوٹ بکتا ہے؟ بہت دن ہوئے اُس کی خبر وطن پہنچنے کی مجھے خبرداروں نے دی ہے۔ واللہ اعلم، یہ کون ہے اور تو کس کا ذکر کرتا ہے؟ اُس دم خواجہ سرا نے ہاتھ جوڑ کر التماس کیا، اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ فرمایا کہ تیری جان تجھے بخشی۔ خوجا بولا، آپ کی ذات قدردان ہے، واسطے خدا کے چِلون کو درمیان سے اُٹھور کر پہچانیے اور اِس کی بے کسی کی حالت پر رحم کیجیئے۔ ناحق شناسی خوب نہیں۔ اب اِس کے احوال پر جو کچھ ترس کھائیے، بجا ہے اور جائے ثواب ہے۔ آگے حدِ ادب جو مزاج مبارک میں آوے سو ہی بہتر ہے۔
اتنے کہنے پر مُسکرا کر فرمایا، بھلا، کوئی ہو، اِسے دار الشِفا میں رکھو، جب بھلا چنگا ہو گا تب اس کے احوال کی پرسش کی جائے گی۔ خوجے نے کہا اگر اپنے دستِ خاص سے گلاب اِس پر چھڑکیے اور زبان سے کچھ فرمائیے تو اس کو اپنے جینے کا بھروسا بندھے، ناامیدی بُری چیز ہے، دنیا بہ امید قائم ہے۔ اس پر بھی اُس پری نے کچھ نہ کہا۔ یہ سوال و جواب سن کر میں بھی اپنے جی سے اُکتا رہا تھا۔ نِدھڑک بول اٹھا کہ اب اِس طور کی زندگی کو دل نہیں چاہتا۔ پانو تو گور میں لٹکا چکا ہوں، ایک روز مرنا ہے اور علاج میرا پادشاہ زادی کے ہاتھ میں ہے، کریں یا نہ کریں وہ جانیں۔ بارے مقلب القلوب نے اس سنگ دل کو دل کو نرم کیا۔ مہربان ہو کر فرمایا جلد پادشاہی حکیموں کو حاضر کرو۔ دونھیں طبیب آ کر جمع ہوئے۔ نبض قارورہ دیکھ کر بہت غور کی۔ آخرش تشخیص میں ٹھہرا کہ یہ شخص کہیں عاشق ہوا ہے، سوائے وصلِ معشوق کے اس کا کچھ علاج نہیں۔ جس وقت وہ ملے، یہ صحت پاوے۔ جب حکیموں کی بھی زبانی یہی مرض میرا ثابت ہوا، حکم کیا اس جوان کو گرمابے میں لے جاؤ، نہلا کر خاصی پوشاک پہنا کر حضور میں لے آؤ۔ دونھیں مجھے باہر لے گئے۔ حمام کروا اچھے کپڑے پہنا، خدمت میں پری کی حاضر کیا۔ تب وہ نازنین تپاک سے بولی تو نے مجھے بیٹھے بٹھائے ناحق بدنام اور رُسوا کیا، اب اور کیا کِیا چاہتا ہے؟ جو تیرے دل میں ہے صاف صاف بیان کر۔
یا فُقرا ! اُس وقت یہ عالم ہو کہ شادیِ مرگ ہو جاؤں، خوشی کے مارے ایسا پھولا کہ جامے میں نہ سماتا تھا اور صورت شکل بدل گئی۔ شُکر خدا کا کیا اُس سے کہا، اِس دم ساری حکیمی آپ پر ختم ہوئی کہ مجھ سے مُردے کو ایک بات میں زندہ کیا، دیکھو تو اُس وقت سے اِس وقت تک میرے احوال میں کیا فرق ہو گیا؟ یہ کہہ کر تین بار گِرد پھرا اور سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہا حضور سے یوں حکم ہوتا ہے کہ جو تیرے جی میں ہو سہ کہہ، بندے کو ہفت اقلیم کی سلطنت سے زیادہ یہ ہے کہ غریب نوازی کر کر اس عاجز کو قبول کیجیئے اور اپنی قدم بوسی سے سرفرازی دیجیئے۔ ایک لمحہ تو سُن کر غوطے میں گئی، پھر کن انکھیوں سے دیکھ کر کہا بیٹھو۔ تم خدمت اور وفا داری ایسی ہی کی ہے، جو کچھ کہو سو پھبتی ہے اور اپنے بھی دل پر نقش ہے، خیر ہم نے قبول کیا۔
اسی دن اچھی ساعت سُبھ لگن میں چپکے چپکے قاضی نے نکاح پڑھا دیا۔ بعد اتنی محنت اور آفت کے خدا نے یہ دِن دکھایا کہ میں نے اپنے دل کا مدعا پایا، لیکن جیسی دل میں آرزو اُس پری سے ہم بستر ہونے کی تھی، ویسی ہی جی میں بے کلی اُس وارداتِ عجیب کے معلوم کرنے کی تھی کہ آج تک میں نے کچھ نہ سمجھا کہ یہ پری کون ہے؟ اور وہ حبشی سانولا سجیلا جس نے ایک پُرزے کاغذ پر اتنی اشرفیوں کے بدرے میرے حوالے کیئے، کون تھا؟ اور تیاری ضیافت کی پادشاہوں کے لائق ایک پہر میں کیوں کر ہوئی؟ اور وہ دونوں بے گناہ اُس مجلس میں کس لیے مارے گئے؟ اور سبب خفگی اور بے مروتی کا (باوجود خدمت گزاری اور ناز برداری کے) مجھ پر کیا ہوا؟ اور پھر ایک بارگی عاجز کو یوں سر بلند کیا؟ غرض اسی واسطے بعد رسم رسوماتِ عقد کے آٹھ دن تلک با وصف اس اشتیاق کے قصد مباشرت کا نہ کیا۔ رات کو ساتھ سوتا، دن کو یونہی اُٹھ کھڑا ہوتا۔
ایک دن غسل کرنے کے لیے میں نے خواص کو کہا کہ تھوڑا پانی گرم کر دے تو نہاؤں۔ ملکہ مُسکرا کر بولی کس برتے پر تتا پانی؟ میں خاموش ہو رہا، لیکن وہ پری میری حرکت سے حیران ہوئی۔ بلکہ چہرے پر آثار خفگی کے نمود ہوئے، یہاں تلک کہ ایک روز بولی تم بھی عجب آدمی ہو، یا اتنے گرم یا ایسے ٹھنڈے، اِس کو کیا کہتے ہیں؟ اگر تم میں قوت نہ تھی تو کیوں ایسی کچی ہوس پکائی؟ اُس وقت میں نے بے دھڑک ہو کر کہا اے جانی ! منصفی شرط ہے، آدمی کو چاہیے کہ انصاف سے نہ چوکے۔ بولی اب کیا انصاف رہ گیا ہے؟ جو کچھ ہونا تھا سو ہو چکا۔ فقیر نے کہا، واقعی بڑی آرزو اور مُراد میری یہی تھی، سو مجھے ملی، لیکن دل میرا دُبدھے میں ہے اور دو دلے آدمی کی خاطر پریشان رہتی ہے۔ اُس سے کچھ ہو نہیں سکتا، انسانیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں یہ قول کیا تھا کہ بعد اس نکاح کے (کہ عین دل کی شادی ہے) بعضی بعض باتیں (جو خیال میں نہیں آتیں اور نہیں کھلتیں) حضور میں پوچھوں گا کہ زبان مبارک سے اُس کا بیان سُنوں تو جی کو تسکین ہو۔ اُس پری نے چیں بہ چیں ہو کر کہا کیا خوب ! ابھی سے بھول گئے۔ یاد کرو بار ہا ہم نے کہا ہے کہ ہمارے کام میں ہرگز دخل نہ کیجیو، اور کسی بات کے معترض نہ ہو جیو۔ خلافِ معمول یہ بے ادبی کرنی کیا لازم ہے؟ فقیر نے ہنس کر کہا جیسی اور بے ادبیاں معاف کرنے کا حکم ہے، ایک یہ بھی سہی۔ وہ پری نظریں بدل کر تیہے میں آ کر آگ بگولا بن گئی اور بولی، اب تو، بہت سر چڑھا، جا اپنا کام کر، ان باتوں سے تجھے کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے کہا، دنیا میں اپنے بدن کی شرم سب سے زیادہ ہوتی ہے، لیکن ایک دوسرے کا واقف کار ہوتا ہے، پس جب ایس چیز دل پر روا رکھی تو اور کون سا بھید چھپانے کے لائق ہے؟
میری اس رمز کو وہ پری وقوف سے دریافت کر کر کہنے لگی۔ یہ بات سچ ہے پر جی میں یہ سوچ آتا ہے کہ اگر مجھ نگوڑی کا راز فاش ہو تو بڑی قیامت مچے۔ میں بولا یہ کیا مذکور ہے؟ بندے کی طرف سے یہ خیال دل میں نہ لاؤ اور خوشی سے ساری کیفیت جو بیتی ہے، فرماؤ۔ ہرگز ہر گز میں دل سے زبان تک نہ لاؤں گا، کسو کے کان پڑنا کیا امکان ہے؟ جب اس نے دیکھا کہ اب سوائے کہنے کے اس عزیز سے چھٹکارا نہیں، لاچار ہو کر بولی ان باتوں کے کہنے میں بہت سی خرابیاں ہیں، تو خواہ مخواہ در پہ ہوا۔ خیر تیری خاطر عزیز ہے، اس لیے اپنی سرگزشت بیان کرتی ہوں، تجھے بھی اُس کا پوشیدہ رکھنا ضرور ہے، خبر شرط۔
غرض بہت سی تاکید کر کر کہنے لگی کہ میں بدبخت ملکِ دمشق کے سلطان کی بیٹی ہوں اور وہ سلاطینوں سے بڑا پادشاہ ہے۔ سوائے میرے کوئی لڑکا بالا اُس کے یہاں نہیں ہوا۔ جس دن سے میں پیدا ہوئی ما باپ کے سائے میں ناز و نعمت اور خوشی خرمی سے پلی۔ جب ہوش آیا تب اپنے دل کو خوب صورتوں اور نازنینوں کے ساتھ لگایا۔ چناں چہ سُتھری سُتھری پری زاد ہم جولی اُمرا زادیاں مصاحبت میں، اور اچھی اچھی قبول صورت ہم عمر خواصیں سہیلیاں خدمت میں رہتی تھیں۔ تماشا ناچ اور راگ رنگ کا ہمیشہ دیکھا کرتی، دنیا کے بھلے بُرے سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اپنی بے فکری کے عالم کو دیکھ کر سوائے خدا کے شکر کچھ منہ سے نہ نکلتا تھا۔
اتفاقاً طبیعت خود بخود ایسی بے مزہ ہوئی کہ نہ مصاحبت کسو کی بھاوے نہ مجلس خوشی کی خوش آوے۔ سودائی سا مزاج ہو گیا۔ دل اُداس اور حیران، نہ کسو کی صورت اچھی لگے، نہ بات کہنے سننے کو جی چاہے۔ میری یہ حالت دیکھ کر دائی ددا چھو چھوانگا سب کی سب متفکر ہوئیں اور قدم پر گرنے لگیں۔ یہی خواجہ سرا نمک حلال قدیم سے میرا محرم اور ہم راز ہے، اس سے کوئی بات مخفی نہیں، میری وحشت دیکھ کر بولا کہ اگر پادشاہ زادی تھوڑا سا شربت ورق الخیال کو نوش جان فرماویں تو اغلب ہے کہ طبیعت بحال ہو جاوے اور فرحت مزاج میں آوے۔ اُس کے اس طرح کے کہنے سے مجھے بھی شوق ہوا، تب میں نے فرمایا جلد حاضر کر۔
محلی باہر گیا اور ایک صراحی اسی شربت کی تکلف سے بنا کر برف میں لگا کر لڑکے کے ہاتھ لوا کر آیا۔ میں نے پیا اور جو کچھ اُس کا فائدہ بیان کیا تھا، ویسا ہی دیکھا۔ اُسی وقت اُس خدمت کے انعام میں ایک بھاری خلعت خوجے کو عنایت کی اور حکم کیا کہ ایک صراحی ہمیشہ اِسی وقت حاضر کیا کر۔ اُس دن یہ مقرر ہوا کہ خواجہ سرا صراحی اُسی چھوکرے کے ہاتھ لِوا لاوے اور بندی پی جاوے۔ جب اس کا نشہ طلوع ہوتا، تو اس کی لہر میں اُس لڑکے سے ٹھٹھا مزاح کر کر دل بہلاتی تھی۔ وہ بھی جب ڈھیٹھ ہوا تب اچھی اچھی میٹھی باتیں کرنے لگا اور اچنبھے کی نقلیں لانے، بلکہ آہ اوہی بھی بھرنے اور سسکیاں لینے، صورت تو اُس کی طرح دار لائق دیکھنے کی تھی، بے اختیار جی چاہنے لگا، میں دل کے شوق سے اور اٹھکھیلیوں کے ذوق سے ہر روز انعام بخشش دینے لگی، پر وہ کم بخت انھیں کپڑوں سے جیسے ہمیشہ پہن رہا تھا، حضور میں آتا بلکہ وہ لباس بھی میلا کچیلا ہو جاتا۔
ایک دن پوچھا کہ تجھے سرکار سے اتنا کچھ ملا، پر تُو نے اپنی صورت ویسی کی ویسی ہی پریشان بنا رکھی، کیا سبب ہے، وے رُوپے کہاں خرچ کیئے یا جمع کر رکھے؟ لڑکے نے یے خاطر داری کی باتیں جو سنیں، اور مجھے احوال پُرساں پایا، آنسو ڈبڈبا کر کہنے لگا جو کچھ آپ نے غلام کو عنایت کیا، سب استاد نے لے لیا، مجھے ایک پیسا نہیں دیا۔ کہاں سے دوسرے کپڑے بناؤں جو پہن کر حضور میں آؤں؟ اِس میں میری تقصیر نہیں، میں لاچار ہوں۔ اِس غریبی کے کہنے اُس کے ترس آیا۔ وونھیں خواجہ سرا کو فرمایا کہ آج سے اِس لڑکے کو اپنی صحبت میں تربیت کر، اور اچھا لباس تیار کروا کر پہنا اور لونڈوں میں بے فائدہ کھیلنے کودنے نہ دے بلکہ اپنی خوشی یہ ہے کہ آداب لائق حضور کی خدمت کے سیکھے اور حاضر رہے۔ خواجہ سرا موافق فرمانے کے بجا لایا اور میری مرضی جو اُدھر دیکھ نہایت اُس کی خبرگیری کرنے لگا۔ تھوڑے دنوں میں فراغت اور خوش خوری کے سبب سے اس کا رنگ و روغن کچھ کا کچھ ہو گیا اور کینچلی سی ڈال دی۔ میں اپنے دل کو ہر چند سنبھالتی پر اُس کافر کے صورت جی میں ایسی کُھب گئی تھی، یہی جی چاہتا کہ مارے پیار کے اُسے کلیجے میں ڈال رکھوں اور اپنی آنکھوں سے ایک پل جُدا نہ کروں۔
آخر اس کو مصاحبت میں داخل کیا، اور خلعتیں طرح بہ طرح کی اور جواہر رنگ بہ رنگ کے پہنا کر دیکھا کرتی۔ بارے اُس کے نزدیک رہنے سے آنکھوں کو سُکھ کلیجے کو ٹھنڈک ہوئی۔ ہر دم اُس کی خاطر داری کرتی، آخر کو میری یہ حالت پہنچی کہ اگر ایک دم کچھ ضروری کام کو میرے سامنے سے جاتا تو چین نہ آتا۔ بعد کئی برس کے وہ بالغ ہوا۔ مسیں بھیگنے لگیں، چھب تختی درست ہوئی، تب اس کا چرچا ہونے لگا۔ دربان اور رَوَنے، میوڑے، باری دار، اوریساول، چوب دار اُس کو محل کے اندر آنے جانے سے منع کرنے لگے۔ آخر اُس کا آنا موقوف ہوا، مجھے تو اس کے بغیر کل نہ پڑتی تھی، ایک دم پہاڑ تھا۔ جب یہ احوال ناامیدی کا سُنا، ایسی بدحواس ہو گئی گویا مجھ پر قیامت ٹوٹی۔ اور یہ حالت ہوئی کہ نہ کچھ کہ سکتی ہوں، نہ اُس بِن رہ سکتی ہوں۔ کچھ بس نہیں چل سکتا، الٰہی کیا کروں ! عجب طرح کا قلق ہوا، مارے بے قراری کے اُسی محلی کو (جو میرا بیدو تھا) بُلا کر کہا کہ مجھے غور اور پرداخت اس لڑکے کی منظور ہے، بالفعل صلاحِ وقت یہ ہے کہ ہزار اشرفی پونجی دے کر چوک کے چوراہے میں دکان جوہری کی کروا دو، تو تجارت کر کے اُس کے نفع سے اپنی گُزران فراغت سے کیا کرے۔ اور میرے محل کے قریب ایک حویلی اچھے نقشے کی رہنے کے لیے بنوا دو۔ لونڈی غلام نوکر چاکر جو ضرور ہوں، مول لے کر اور در ماہا مقرر کر رک اُس کے پاس رکھوا دو کہ کسو طرح بے آرام نہ ہو۔ خواجہ سرا نے اُس کی بود و باش کی اور جوہری پنے اور تجارت کی سب تیاری کر دی۔ تھوڑے عرصے میں اس کی دکان ایسی چمکی اور نمود ہوئی کہ جو خلعتیں فاخرہ اور جواہر بیش قیمت سرکار میں پادشاہ کی اور امیروں کی درکار و مطلوب ہوتے، اُسی کے یہاں بہم پہنچتے۔ آہستہ آہستہ یہ دُکان جمی کہ جو تحفہ ہر ایک مُلک کا چاہیے، وہیں ملے، سب جوہریوں کا روزگار اُس کے آگے مندا ہو گیا۔ غرض اُس شہر میں کوئی برابری اُس کی نہ کر سکتا، بلکہ کیس ملک میں ویسا کوئی نہ تھا۔
اِسی کاروبار میں اُس نے تو لاکھوں رُپی کمائے، پر جدائی اُس کی روز بروز نقصان میرے تن بدن کا کرنے لگی۔ کوئی تدبیر نہ بن آئی کہ اُس کو دیکھ کر اپنے دل کی تسلی کروں۔ندان صلاح کی خاطر اُسی واقف کار محلّی کو بُلایا اور کہا کہ کوئی ایسی صورت بن نہیں آتی کہ ذرا اس کی صورت میں دیکھوں اور اپنے دل کو صبر دوں۔ مگر یہ طرح ہے کہ ایک سرنگ اُس کی حویلی سے کھدوا کر محل میں ملوا دو۔حُکم کرتے ہی تھوڑے دنوں میں ایسی نقب تیار ہوئی کہ جب سانجھ ہوتی چپکے ہی وہ خواجہ سرا اُس جوان کو اسی راہ سے لے آتا۔ تمام شب شراب و کباب و عیش و عشرت میں کٹتی، میں اس کے ملنے سے آرام پاتی ، وہ میرے دیکھنے سے خوش ہوتا۔ جب فجر کا تارا نکلتا اور مؤذن اذان دیتا، محلی اسی راہ سے اُس جوان کو اُس کے گھر پہنچا دیتا۔ ان باتوں سے سوائے اُس خوجے کے اور دو دائیوں کے(جنھوں نے مجھے دودھ پلایا اور پالا تھا) چوتھا آدمی کوئی واقف نہیں تھا۔ مدت تلک اسی طرح سے گُزری۔ ایک روز یہ اتفاق ہُوا کہ موافق معمول خواجہ سرا جو اُس کو بلانے گیا ،دیکھے تو وہ جوان فکر مند سا چُپکا بیٹھا ہے۔محلّی نے پوچھا آج خیر ہے کیوں ایسے دل گیر ہو رہے ہو؟ چلو حضور میں یاد فرمایا ہے۔ اُس نے ہر گز کچھ جواب نہ دیا، زبان نہ ہلائی۔ خواجہ سرا اپنا مُنھ لے کر اکیلا پھر آیا اور احوال اُس کا عرض کیا۔ میرے تئیں شیطان جو خراب کرے، اس پر بھی محبت اُس کی دل سے نہ بھُولی ، اگر یہ جانتی کہ عِشق اور چاہ ایسے نمک حرام بے وفا کی آخر بدنام اور رُسوا کرے گی اور ننگ و ناموس سب ٹھکانے لگے گا تو اُسی دم اُس کام سے باز آتی اور توبہ کرتی، پھر اس کا نام نہ لیتی نہ اپنا دل اُس بے حیا کو دیتی۔ پر ہونا تو یوں تھا اس لیے حرکتِ بے جا اُس کی خاطر میں نہ لائی۔ اور اس کے نہ آنے کو معشوقوں کا چوچلا اور ناز سمجھا۔ اُس کا نتیجہ یہ دیکھا کہ اس سرگزشت سے بغیر دیکھے بھالے تُو بھی واقف ہوا، نہیں تو میں کہاں اور تُو کہاں؟ خیر جو ہوا سو ہوا۔ اس خر دماغی پر اُس گدھے کی خیال نہ کرو۔دوبارہ خوجے کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ اگر تُو اس وقت نہیں آوے گا تو میں کسو نہ کسو ڈھب سے وہیں آتی ہوں، لیکن میرے آنے میں بڑی قباحت ہے۔ اگر یہ راز فاش ہُوا تو تیرے حق میں بہت بُرا ہے۔ تب ایسا کام نہ کر جس سے سوائے رُسوائی کے اور کچھ پھل نہ ملے۔ بہتر یہی ہے کہ جلد چلا آ نہیں تو مجھے پہنچا جان۔ جب یہ سندیسا گیا اور اشتیاق میرا نپٹ دیکھا، بھونڈی سی صُورت بنائے ہوئے ناز نخرے سے آیا۔
جب میرے پاس بیٹھا تب میں نے اُس سے پُوچھا کہ آج رکاوٹ اور خفگی کا کیا باعث ہے؟ اتنی شوخی اور گُستاخی تُو نے کبھو نہ کی تھی، ہمیشہ بلا عذر حاضر ہوتا تھا۔ تب اُس نے کہا کہ میں گُم نام غریب حضور کی توجہ اور دامنِ دولت کے باعث اِس مقدُور کو پہنچا، بہت آرام سے زندگی کٹتی ہے، آپ کی جان و مال کی دُعا کرتا ہوں، یہ تقصیر پادشاہ زادی کے معاف کرنے کے بھروسے اس گنہگار سے سرزد ہوئی، امیدوار عفو ہوں۔ میں تو جان و دل سے اُسے چاہتی تھی، اُس کی بناوٹ کی باتوں کو مان لیا اور شرارت پر نظر نہ کی، بلکہ پھر دل داری سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ایسی مُشکل کٹھن پیش آئی جو ایسا متفکر ہو رہا ہے؟ اس کو عرض کر، اُس کی تدبیر ہو جائے گی۔
غرض اُس نے اپنی خاکساری کی راہ سے یہی کہا کہ مجھ کو سب مُشکل ہے آپ کے رُو برُو سب ہی آسان ہے۔ آخر اس کے فحواۓ کلام اور بت کھاؤ سے یہی کھُلا کہ ایک باغ نہایت سر سبز اور عمارت عالی حوض تالاب کوئی پُختہ سمیت غلام کی حویلی کے نزدیک نافِ شہر میں بکاؤ ہے اور اُس باغ کے ساتھ ایک لونڈی بھی گائن کہ علمِ موسیقی میں خوب سلیقہ رکھتی ہے، یہ دونوں باہم بکتے ہیں نہ اکیلا باغ، جیسے اونٹ کے گلے میں بلی۔ جو کوئی وہ باغ لے وے اُس کنیز کی قیمت بھی دے وے، اور تماشا یہ ہے کہ باغ کا مول پانچ ہزار رُوپے اور اس باندی کا بہا پانچ لاکھ۔ فدوی سے اِتنے رُوپے بالفعل سر انجام نہیں ہو سکتے۔ میں نے اس کا دِل بہت بے اختیار شوق میں اُن کی خریداری کے پایا کہ اسی واسطے دل حیران اور خاطر پریشان تھا۔ باوجودے کہ رُو برو میرے بیٹھا تھا، تب بھی اُس کا چہرہ ملیّن اور جی اُداس تھا۔ مجھے تو خاطر داری اُس کی ہر گھڑی اور ہر پل منظور تھی، اُسی وقت خواجہ سرا کو حُکم کیا کہ کل صبح کو قیمت اُس باغ کی لونڈی سمیت چُکا کر قبالہ باغ ا اور خط کنیزک کا لکھوا کر اس شخص کے حوالے کرو اور مالک کو زرِ قیمت خزانۂ عامرہ سے دلوا دو۔
اس پروَانگی کے سنتے ہی جوان نے آداب بجا لایا اور منھ پر روہٹ آئی۔ ساری رات اُسی قاعدے سے جیسے ہمیشہ گزرتی تھی، ہنسی خوشی سے کٹی۔ فجر ہوتے ہی وہ رُخصت ہوا، خوجے نے موافق فرمانے کے اُس باغ اور لونڈی کو خرید کر دیا، پھر وہ جوان رات کو موافق معمُول کے آیا جایا کرتا۔ ایک روز بہار کے موسم میں کہ مکان بھی دل چسپ تھا ، بدلی گھمنڈ رہی تھی، پھونھیاں پڑ رہی تھیں، بجلی بھی کوندھ رہی تھی، اور ہَوا نرم نرم بہتی تھی، غرض عجب کیفیت اُس دم تھی۔ جونہیں رنگ بہ رنگ کے حباب اور گلابیاں طاقوں پر چُنی ہوئی نظر پڑیں ۔ دل للچایا کہ ایک گھونٹ لوں، جب دو تین پیالوں کی نوبت پہنچی وونہیں خیال اُس باغِ نو خرید کا گُزرا۔ کمال شوق ہُوا کہ ایک دم اِس عالم میں وہاں کی سیر کِیا چاہیے۔ کم بختی جو آوے، اونٹ چڑھے کتا کاٹے۔ اچھی طرح بیٹھے بٹھائے ایک دائی کو ساتھ لے کر سرنگ کی راہ اُس جوان کے مکان کو گئی، وہاں سے باغ کی طرف چلی۔ دیکھا تو ٹھیک اُس باغ کی بہار بہشت کی برابری کر رہی ہے۔ قطرے مینھ کے درختوں کے سر سبز پتوں پر جو پڑے ہیں، گویا زمرد کی پڑیوں پر موتی جڑے ہیں، اور سُرخی پھولوں کی اُس ابر میں ایسی چہچہی لگتی ہے جیسے شام میں شفق پھُولی ہے اور نہریں لبا لب مانند فرشِ آئینے کے نظر آتی ہیں اور موجیں لہراتی ہیں۔
غرض اُس باغ میں ہر طرف سیر کرتی پھرتی تھی کہ دن ہو چکا ، سیاہی شام کی نمودار ہوئی۔ اتنے میں وہ جوان ایک روش پر نظر آیا، اور مجھے دیکھ کر بہت ادب اور گرم جوشی سے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ پر دھر کر بارہ دری کی طرف لے چلا۔ جب وہاں میں گئی تو وہاں کے عالم نے سارے باغ کی کیفیت کو دل سے بھُلا دیا۔ یہ روشنی کا ٹھاٹھ تھا جا بجا قمقمے سرد چراغاں کنول اور فانوس خیال شمع مجلس حیران اور فانوسیں روشن تھیں کہ شبِ برات باوجود چاندنی اور چراغاں اُس کے آگے اندھیری لگتی۔ ایک طرف آتش بازی پھلجڑی انار داؤدی بُھچنپا مروارید مہتابی ہوائی چرخی ہتھ پھول جاہی جوہی پٹاخے ستارے چھٹتے تھے۔
اس عرصے میں بادل پھٹ گیا اور چاند نکل آیا بعینہ جیسے نافرمانی جوڑا پہنے ہوئے کوئی معشوق نظر آ جاتا ہے۔ بڑی کیفیت ہوئی چاندنی چھٹکتے ہی جوان نے کہا کہ اب چل کر باغ کے بالا خانے پر بیٹھیے۔ میں ایسی احمق ہو گئی تھی کہ جو وہ نگوڑا کہتا سو میں مان لیتی، اب یہ ناچ نچایا کہ مُجھ کو اُوپر لے گیا۔ وہ کوٹھا ایسا بلند تھا کہ تمام شہر کے مکان اور بازار کے چراغاں گویا اُس کے پائیں باغ تھے۔ میں اُس جوان کے گلے میں بانہہ ڈالے ہوئے خوشی کے عالم میں بیٹھی تھی ۔ اتنے میں ایک رنڈی نہایت بھونڈی سی، صُورت نہ شکل چولھے میں سے نکل، شراب کا شیشہ ہاتھ میں لِئے ہوئے آ پہنچی۔ مجھے اُس وقت اُس آنا نپ بُرا لگا اور اُس کی صُورت دیکھنے سے دل میں ہول اُٹھی۔
تب میں نے گھبرا کر جوان سے پوچھا کہ یہ تحفہ علّت کون ہے؟ تُو نے کہاں سے پیدا کی؟ وہ جوان ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ یہ وہی لونڈی ہے کو اِس باغ کے ساتھ حضور کی عنایت سے خرید ہوئی۔ میں نے معلوم کیا کہ اس احمق نے بڑی خواہش سے اِس کو لیا ہے۔ شاید اس کا دل اس پر مائل ہے۔ اسی خاطر سے پیچ و تاب کھا کر میں چُپکی ہو رہی، لیکن دل اُسی وقت سے مکدّر ہوا اور نا خوشی مزاج پر چھا گئی، تس پر قیامت اُس ایسے تیسے نے یہ کی کہ ساقی اُسی چھنال کو بنایا۔ اُس وقت میں اپنا لہُو پیتی تھی اور جیسے طوطی کو کوئی کوّ ے کے ساتھ ایک پنجرے میں بند کرتا ہے، نہ جانے کی فرصت پاتی تھی اور نہ بیٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ قصہ مختصر وہ شراب بوند کی بوند تھی جس کے پینے سے آدمی حیوان ہو جاوے۔ دوچار جام پے در پے اُسی تیز آب کے جوان کو دیے اور آدھا پیالہ جوان کی منت سے میں نے زہر مار کیا۔ آخر وہ پلشت بے حیا بھی بدمست ہو کر اُس مردود سے بے ہُودہ ادائیں کرنے لگی، اور وہ چبلا بھی نشے میں بے لحاظ ہو چلا اور نامعقول حرکتیں کرنے لگا۔
مجھے یہ غیرت آئی اگر اُس وقت زمین پھاٹے تو میں سما جاؤں۔ لیکن اس کی دوستی کے باعث میں بللّی اس پر بھی چُپ ہو رہی۔ پر وہ تو اصل کا پاجی تھا، میرے اس درگزرنے کو نہ سمجھا، نشے کی لہر میں اور بھی دو پیالے چڑھا گیا کہ رہتا سہتا ہوش جو تھا، وہ بھی گُم ہوا۔ اور میری طرف سے مطلق دھڑکا جی سے اُٹھا دیا۔ بےشرمی سے شہوت کے غلبے میں میرے روبرو اُس بے حیا نے اُس بندوڑ سے صحبت کی۔ اور وہ پچھل پائی بھی اُس حالت میں نیچے پڑی ہوئی نخرے تلّے کرنے لگی اور دونوں میں چُوما چاٹی ہونے لگی۔ نہ اِس بے وفا میں وفا نہ اُس بے حیا میں حیا، جیسی روح ویسے فرشتے۔ میری اس وقت یہ حالت تھی جیسے اوسر چو کے ڈومنی گاوے تال بے تال، اپنے اوپر لعنت کرتی تھی کہ کیوں تو یہاں آئی جس کی یہ سزا پائی؟ آخر کہاں تک سہوں، میرے سر سے پاؤں تک آگ لگ گئی اور انگاروں پر لوٹنے لگی، اس غصّے اور طیش میں یہ کہاوت (بیل نہ کوُدا کُودے گون، یہ تماشا دیکھے کون) کہتی ہوئی وہاں سے اُٹھی۔
وہ شرابی اپنی خرابیِ دل میں سوچا کہ اگر پادشاہ زادی اس وقت ناخوش ہوئی تو کل میرا کیا حال ہو گا اور صبح کو کیا قیامت مچے گی؟ اب یہ بہتر ہے کہ شاہ زادی کو مار ڈالوں۔ یہ ارادہ اس غیبانی کی صلاح سے جی میں ٹھہرا کر گلے میں پٹکا ڈال میرے پاؤں آ کر پڑا، اور پگڑی سر سے اُتار کر منّت و زاری کرنے لگا۔ میرا دل تو اُس پر لٹّو ہو رہا تھا، جدھر لئے پھرتا تھا، پھرتی تھی اور چکی کی طرح میں اس کے اختیار میں تھی۔ جو کہتا تھا سو کرتی تھی، جوں توں مجھے پُھسلا پنڈھلا کر پھر بٹھلایا اور اُسی شراب دو آتشہ کے دو چار پیالے بھر بھر کر آپ بھی پیے اور مجھے بھی دیے، ایک تو غصّے کے مارے جل بھن کر کباب ہو رہی تھی، دوسرے ایسی شراب پی جلد بے ہوش ہو گئی، کچھ حواس باقی نہ رہے۔ تب اُس بے رحم نمک حرام کٹّر سنگ دل نے تلوار سے مجھے گھایل کیا بلکہ اپنی دانست میں مار چکا۔ اُس دم میری آنکھ کُھلی تو مُنہ سے یہی نکلا، خیر، جیسا ہم نے کیا، ویسا پایا لیکن تُو اپنے تئیں میرے اس خونِ ناحق سے بچائیو۔
مبادا ہو کوئی ظالم تِرا گریباں گیر
مرے لہُو کو تو دامن سے دھو، ہُوا سو ہُواکسی سے یہ بھید ظاہر نہ کیجیو، ہم نے تو تجھ سے جان تک بھی درگزر نہ کی، پھر اس کو خدا کے حوالے کر کے مرا جی ڈوب گیا، مجھے اپنی سُدھ بُدھ کچھ نہ رہی شاید اُس قصائی نے مجھے مُردہ خیال کر اُس صندوق میں ڈال کر قلعے کی دیوار کے تلے لٹکا دیا، سو تُو نے دیکھا میں کسی کا برا نہ چاہتی تھی لیکن یہ خرابیاں قسمت میں لکھی تھیں، مٹتی نہیں کرم کی ریکھا، ان آنکھوں کے سبب یہ کچھ دیکھا۔ اگر خوب صورتوں کے دیکھنے کا دل میں شوق نہ ہوتا تو وہ بدبخت میرے گلے کا طوق نہ ہوتا۔ اللہ نے یہ کام کیا کہ تجھ کو وہاں پہنچا دیا اور سبب میری زندگی کا کیا۔ اب حیا جی میں آتی ہے کہ یہ رُسوائیاں کھینچ کر اپنے تئیں جیتا نہ رکھوں یا کسی کو مُنہ نہ دکھاؤں۔ پر کیا کروں، مرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں، خدا نے مار کر پھر جِلایا، آگے دیکھیے کہ کیا قسمت میں بدا ہے۔ ظاہر میں تو تیری دوڑ دھوپ اور خدمت کام آئی جو ویسے زخموں سے شفا پائی۔ تُو نے جان و مال سے میری خاطر کی اور جو کچھ اپنی بساط تھی، حاضر کی۔ اُن دنوں تجھے بے خرچ اور دو دلا دیکھ کر وہ شقّہ سیدی بہار کو (جو میرا خزانچی ہے) لکھا، اُس میں یہی مضمون تھا کہ میں خیر و عافیت سے اب فلانے مکان میں ہوں مجھ بد طالع خبر والدہ شریفہ کی خدمت میں پہنچائیو۔ اُس نے تیرے ساتھ دو کشتیاں نقد کی خرچ کی خاطر بھیج دیں۔ اور جب تجھے خلعت اور جواہر خرید کرنے کو یوسف سوداگر بچّے کی دکان کو بھیجا، مجھے یہ بھروسا تھا کہ وہ کم حوصلہ ہر ایک سے جلد آشنا ہو بیٹھتا ہے، تجھے بھی اجنبی جان کر اغلب ہے کہ دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، سو میرا منصُوبہ ٹھیک بیٹھا، جو کچھ میرے دل میں خیال آیا تھا اُس نے ویسا ہی کیا۔ تُو جب اُس سے قول قرار پھر آنے کا کر کر میرے پاس آیا اور مہمانی کی حقیقت اور اُس کا بَجِد ہونا مجھ سے کہا، میں دل میں خوش ہوئی کہ جب تُو اس کے گھر میں جا کر کھاوے پیوے گا، تب اگر تُو بھی اُس کو مہمانی کی خاطر بلاوے گا، وہ دوڑا چلا آوے گا۔ اِس لئے تُجھے جلد رُخصت کیا۔ تین دن کے پیچھے جب تُو وہاں سے فراغت کر کے آیا اور میرے رُو برو عذر غیر حاضری کا شرمندگی سے لایا، میں نے تیری تشفّی کے لئے فرمایا، کچھ مضائقہ نہیں، جب اُس نے رضا دی تب تُو آیا، لیکن بے شرمی خوب نہیں کہ دُوسرے کا احسان اپنے سر پر رکھئے اور اُس کا بدلا نہ کیجیے، اب تُو بھی جا کر اُس سے استدعا کر اور اپنے ساتھ ہی ساتھ لے آ۔ جب تُو اُس کے گھر گیا تب میں نے دیکھا کہ یہاں کچھ اسباب مہمان داری کا تیّار نہیں اگر وہ آ جاوے تو کیا کروں؟ لیکن یہ فرصت پائی کہ اس ملک میں قدیم سے پادشاہوں کا یہ معمُول ہے کہ آٹھ مہینے کاروبار مُلکی اور مالی کے واسطے ملک گیری میں باہر رہتے ہیں اور چار مہینے موسِمِ برسات کے قلعۂ مبارک میں جلوس فرماتے ہیں۔ اُن دنوں دو چار مہینے سے پادشاہ یعنی ولی نعمت مجھ بدبخت کے بندوبست کی خاطر ملک میں تشریف لے گئے تھے۔
جب تک تُو اُس جوان کو ساتھ لے کر آوے کہ سیدی بہار نے میرا احوال خدمت میں پادشاہ بیگم کی (کہ والدہ مجھ ناپاک کی ہیں) عرض کیا۔ پھر میں اپنی تقصیر اور گُناہ سے خجل ہو کر اُن کے رُو برو جا کر کھڑی ہوئی اور جو سرگزشت تھی سب بیان کی۔ ہر چند اُنہوں نے میرے غائب ہونے کی کیفیت دُور اندیشی اور مہرِ مادری سے چُھپا رکھی تھی کہ خدا جانے اس کا انجام کیا ہو، ابھی یہ رُسوائی ظاہر کرنی خوب نہیں، میرے بدلے میرے عیبوں کو اپنے پیٹ میں رکھ چھوڑا تھا، لیکن میری تلاش میں تھیں۔ جب مجھے اس حالت میں دیکھا اور سب ماجرا سُنا، آنسُو بھر لائیں اور فرمایا اے کم بخت ناشدنی! تُو نے جان بُوجھ کر نام و نشان بادشاہت کا سارا کھویا، ہزار افسوس! اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھویا۔ کاش کہ تیرے عوض میں پتھر جنتی تو صبر آتا! اب بھی توبہ کر، جو قسمت میں تھا سو ہُوا، اب آگے کیا کرے گی؟ جیوے گی یا مرے گی؟ میں نے نہایت شرمندگی سے کہا کہ مُجھ بے حیا کے نصیبوں میں یہی لکھا جو اس بدنامی اور خرابی میں ایسی ایسی آفتوں سے بچ کر جیتی رہوں۔ اِس سے مرنا ہی بھلا تھا، اگرچہ کلنک کا ٹیکا میرے ماتھے پر لگا، پر ایسا کام نہیں کیا جس میں ماں باپ کے نام کو عیب لگے۔
اب یہ بڑا دکھ ہے کہ وہ دونوں بے حیا میرے ہاتھ سے بچ جاویں اور آپس میں رنگ رلیاں مناویں اور میں اُن کے ہاتھوں سے یہ کچھ دُکھ دیکھوں۔ حیف ہے مجھ سے کچھ نہ ہو سکے۔ یہ امیدوار ہوں کہ خانساماں کو پروانگی ہو، تو اسباب ضیافت کا بخوبی تمام اس کم بخت کے مکان میں تیّار کرے تو میں دعوت کے بہانے سے اُن دونوں بدبختوں کو بُلوا کر اُن کے عملوں کی سزا دُوں اور اپنا عوض لُوں۔ جس طرح اُس نے مجھ پر ہاتھ چھوڑا اور گھایل کیا، میں بھی دونوں کے پُرزے پُرزے کرُوں، تب میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو، نہیں تو اِس غصّے کی آگ میں پُھک رہیں ہوں، آخر جل بل کر بھوبل ہو جاؤں گی۔
یہ سُن کر امّاں نے آتما کے درد سے مہربان ہو کر میری عیب پوشی کی اور سارا لوازمہ ضیافت کا اُسی خواجہ سرا کے ساتھ (جو میرا محرم ہے) کر دیا۔ سب اپنے اپنے کارخانے میں آ کر حاضر ہوئے۔ شام کے وقت تُو اُس موئے کو لے کر آیا، مُجھے اُس قحبہ باندی کا بھی آنا منظور تھا۔ چنانچہ پھر تجھ کو تَقیّد کر کر، اُسے بھی بُلوایا۔ جب وہ بھی آئی اور مجلس جمی، شراب پی پی کر سب بدمست اور بے ہوش ہوئے اور اُن کے ساتھ تُو بھی کیفی ہو کر مُردا سا پڑا۔ میں نے قلماقنی کو حکم کیا کہ اِن دونوں کا سر تلوار سے کاٹ ڈال۔ اُس نے وَہیں ایک دم میں شمشیر نکال کر دونوں کے سر کاٹ بدن لال کر دیے اور تُجھ پر غصّے کا یہ باعث تھا کہ میں نے اجازت ضیافت کی دی تھی، نہ دو دن کی دوستی پر اعتماد کر کے شریک مے خوری کا ہو۔ البتّہ تیری یہ حماقت اپنے تئیں پسند نہ آئی، اس واسطے کہ جب تُو پی پا کر بے ہوش ہوا، تب توقّع رفاقت کی تُجھ سے کیا رہی؟ پر تیری خدمت کے حق ایسے میری گردن پر ہیں کہ جو تجھ سے ایسی حرکت ہوتی ہے تو معاف کرتی ہوں۔ لے میں نے اپنی حقیقت ابتدا سے انتہا تک کہہ سُنائی، اب بھی دل میں کچھ اور ہَوس باقی ہے؟ جیسے میں نے تیری خاطر کر کے تیرے کہنے کو سب طرح قبول کیا، تُو بھی میرا فرمایا اُسی صورت سے عمل میں لا۔ صلاحِ وقت یہ ہے کہ اب اِس شہر میں رہنا میرے اور تیرے حق میں بھلا نہیں۔ آگے تُو مختار ہے۔
یا معبود اللہ! شہزادی اتنا فرما کر چپ رہی۔ فقیر تو دل و جان سے اس کے حکم کو سب چیز پر مقدّم جانتا تھا، اور اُس کی مَحبّت کے جال میں پھنسا تھا۔ بولا جو مرضیِ مبارک میں آوے سو بہتر ہے۔ یہ فدوی بے عذر بجا لاوے گا۔ جب شہزادی نے میرے تئیں فرماں بردار و خدمت گار اپنا پُورا سمجھا، فرمایا دو گھوڑے چالاک اور جاں باز (کہ چلنے میں ہوا سے باتیں کریں) بادشاہ کے خاص اصطبل سے منگوا کر تیّار رکھ۔ میں نے ویسے ہی پری زاد چار گردے کے گھوڑے چُن کر زین بندھوا کر منگوائے۔ جب تھوڑی سی رات باقی رہی بادشاہ زادی مردانہ لباس پہن اور پانچوں ہتھیار باندھ کر ایک گھوڑے پر سوار ہوئی، اور دوسرے مرکب پر میں مسلّح ہو کر چڑھ بیٹھا اور ایک طرف کی راہ لی۔
جب شب تمام ہوئی اور پرچھا ہونے لگا، تب ایک پوکھر کے کنارے پہنچے۔ اُتر کر ہاتھ مُنہ دھوئے، جلدی جلدی کچھ ناشتہ کر کے پھر سوار ہو کر چلے۔ کبھو ملکہ کچھ کچھ باتیں کرتی، اور یُوں کہتی کہ ہم نے تیری خاطر شرم حیا، ملک مال ماں باپ، سب چھوڑا، ایسا نہ ہو کہ تُو بھی اُس ظالم بے وفا کی طرح سلوک کرے۔ کبھو میں کُچھ احوال اِدھر اُدھر کا راہ کٹنے کے لئے کہتا، اور اُس کا بھی جواب دیتا کہ پادشاہ زادی! سب آدمی ایک سے نہیں ہوتے۔ اُس پاجی کے نُطفے میں کُچھ خلل ہو گا جو اُس سے ایسی حرکت واقع ہوئی اور میں نے تو جان و مال تُم پر تصدّق کیا اور تُم نے مُجھے ہر طرح سرفرازی بخشی۔ اب میں بندہ بغیر داموں کا ہُوں۔ میرے چمڑے کی اگر جُوتیاں بنوا کر پہنو تو میں آہ نہ کروں۔ ایسی ایسی باتیں باہم ہوتی تھیں۔ اور رات دن چلنے سے کام تھا۔ کبھو جو ماندگی کے سبب کہیں اُترتے تو جنگل کے چرند پرند شکار کرتے۔ حلال کر کے نمک دان سے لون نکال چکمک سے آگ جھاڑ بھُون بھان کر کھا لیتے اور گھوڑوں کو چھوڑ دیتے۔ وے اپنے مُنہ سے گھاس پات چَر چُگ کر اپنا پیٹ بھر لیتے۔
ایک روز ایسے کفِ دست میدان میں جا نکلے کہ جہاں بستی کا نام نہ تھا اور آدمی کی صورت نظر نہ آتی تھی، اُس پر بھی پادشاہ زادی کی رفاقت کے سبب سے دن عید اور رات شب برات معلوم ہوتی تھی۔ جاتے جاتے انچت ایک دریا (کہ جس کے دیکھنے سے کلیجہ پانی ہو) راہ میں ملا۔ کنارے پر کھڑے ہو کر جو دیکھا تو جہاں تلک نِگاہ نے کام کیا، پانی ہی تھا، کچھ تھل بیڑا نہ پایا۔ یا الٰہی! اب اس سمندر سے کیوں کر پار اُتریں! ایک دم اِسی سوچ میں کھڑے رہے۔ آخر یہ دل میں لہر آئی کہ ملکہ کو یہیں بِٹھا کر میں تلاش میں ناؤ نواڑی کے جاؤں، جب تلک اسباب گزارے کا ہاتھ آوے، تب تلک وہ نازنین بھی آرام پاوے۔ تب میں نے کہا اے ملکہ! اگر حکم ہو تو گھاٹ باٹ اس دریا کا دیکھوں۔ فرمانے لگی بہت تھک گئی ہوں اور بھوکی پیاسی ہو رہی ہوں، میں ذرا دم لے لوں جب تئیں تو پار چلنے کی کچھ تدبیر کر۔
اُس جگی ایک درخت پیپل کا تھا بڑا، چھتر باندھے ہوئے کہ اگر ہزار سو آوے تو دھوپ اور مینہ میں اس کے تلے آرام پاوے۔ وہاں اُس کو بٹھا کر میں چلا اور چاروں طرف دیکھتا تھا کہ کہیں بھی زمین پر یا دریا میں نشان انسان کا پاؤں۔ بہتیرا سر مارا پر کہیں نہ پایا۔ آخر مایوس ہو کر وہاں سے پھر آیا تو اُس پری کو پیڑ کے نیچے نہ پایا۔ اُس وقت کی حالت کیا کہوں کہ سرت جاتی رہی؟ دیوانہ باؤلا ہو گیا۔ کبھو درخت پر چڑھ جاتا اور ڈال ڈال پات پات پھرتا، کبھو ہاتھ پاؤں چھوڑ کر زمین میں گرتا اور اُس درخت کی جڑ کے آس پاس تصدّق ہوتا، کدھو چنگھاڑ مار کر اپنی بے بسی پر روتا۔ کبھو پچھم سے پورب کو دوڑا جاتا، کدھو اُتّر سے دکھن کو پھر آتا۔
غرض بہتیری خاک چھانی لیکن اُس گوہرِ نایاب کی نشانی نہ پائی۔ جب میرا کچھ بس نہ چلا تب روتا اور خاک سر پر اُڑاتا تلاش ہر کہیں کرنے لگا۔
دل میں یہ خیال آیا کہ شاید کوئی جن اُس پری کو اُٹھا کر لے گیا اور مجھے یہ داغ دے گیا، یا اُس کے مُلک سے کوئی اُس کے پیچھے لگا چلا آیا تھا، اس وقت اکیلا پا کر منا منو کر پھر شام کی طرف لے اُبھرا۔ ایسے خیالوں میں گھبرا کر کپڑے وپڑے پھینک پھانک دیے، ننگا منگا فقیر بن کر شام کے مُلک میں صبح سے شام تک ڈھونڈھتا پھرتا اور رات کو کہیں پڑ رہتا۔ سارا جہاں روند مارا، پر اپنی بادشاہ زادی کا نام و نشان کسی سے نہ سُنا، نہ سبب غائب ہونے کا معلوم ہوا۔ تب دل میں خیال آیا کہ جب اس جان کا تُو نے کچھ پتا نہ پایا، تو اب جینا بھی حیف ہے۔ کسی جنگل میں ایک پہاڑ نظر آیا، تب اُس پر چڑھ گیا اور یہ ارادہ کیا کہ اپنے تئیں گرا دوں کہ ایک دم میں سر مُنہ پتھروں سے ٹکراتے ٹکراتے پھُوٹ جاوے گا، تو ایسی مصیبت سے جی چھُوٹ جاوے گا۔
یہ دل میں کہہ کر چاہتا ہوں کہ اپنے تئیں گراؤں، بلکہ پاؤں بھی اُٹھ چُکے تھے کہ کسو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اتنے میں ہوش آ گیا، دیکھتا ہوں تو ایک سوار سبز پوش مُنہ پر نقاب ڈالے مجھے فرماتا ہے کہ کیوں تُو اپنے مرنے کا قصد کرتا ہے؟ خُدا کے فضل سے ناامید ہونا کفر ہے۔ جب تلک سانس ہے، تب تلک آس ہے۔ اب تھوڑے دنوں میں روم کے ملک میں تین درویش تُجھ سار کے ایسی ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے اور ایسے ہی تماشے دیکھے ہوئے تجھ سے ملاقات کریں گے اور وہاں کے پادشاہ کا آزاد بخت نام ہے، اس کو بھی ایک مشکل درپیش ہے، جب وہ تُم چاروں فقیروں کے ساتھ ملے گا تو ہر ایک کے دل کا مطلب اور مراد جو ہے، بہ خوبی حاصل ہو گی۔
میں نے رکاب پکڑ کر بوسہ دیا، اور کہا اے خدا کے ولی! تمہارے اِتنے ہی فرمانے سے میرے دلِ پُر اضطرار کو تسلّی ہوئی، لیکن خُدا کے واسطے یہ فرمائیے کہ آپ کون ہیں اور اسم شریف کیا ہے؟ تب اُنہوں نے فرمایا کہ مرتضیٰ علیؓ میرا نام ہے اور میرا یہی کام ہے کہ جس کو جو مشکل کٹھن پیش آوے تو میں اس کو آسان کر دوں۔ اتنا فرما کر نظروں سے پوشیدہ ہو گئے۔ بارے اس فقیر نے اپنے مولا مُشکل کشا کی بشارت سے خاطر جمع کر قصد قسطنطنیہ کا کیا۔ راہ میں جو کچھ مصیبتیں قسمت میں لکھی تھیں کھینچتا ہوا اُس پادشاہ زادی کی مُلاقات کے بھروسے خدا کے فضل سے یہاں تک آ پہنچا، اور اپنی خوش نصیبی سے تمہاری خدمت میں مشرّف ہوا۔ ہمارے تمہارے آپس میں ملاقات تو ہوئ، باہم صحبت اور بات چیت میسّر آئی، اب چاہیے کہ پادشاہ آزاد بخت سے بھی رُوشناس اور جان پہچان ہو۔
بعد اس کے مقرّر ہم پانچوں اپنے مقصدِ دلی کو پہنچیں گے۔ تم بھی دعا مانگو اور آمین کہو۔ یا ہادی! اس حیران سرگردان کی سرگزشت یہ تھی جو حضوری میں درویشوں کی کہہ سنائ۔ اب آگے دیکھیے کہ کب یہ محنت اور غم ہمارا پادشاہ زادی کے ملنے سے خوشی و خرّمی سے بدل ہو۔ آزاد بخت ایک کونے میں چھُپا ہُوا چُپکا دھیان لگائے پہلے درویش کا ماجرا سُن کر خوش ہوا، پھر دوسرے درویش کی حقیقت کو سننے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اختتام "سیر پہلے درویش کی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دوسرے درویش کے کہنے کی نوبت پہنچی، وہ چار زانو ہو بیٹھا اور بولا۔
اے یارو! اس فقیر کا ٹک ماجرا سنو!
میں ابتدا سے کہتا ہوں تا انتہا سنو!
جس کا علاج کر نہیں سکتا کوئی حکیم
ہے گا ہمارا درد نپت لا دوا سنو!
اے دلق پوش! یہ عاجز بادشاہ فارس کے ملک کا ہے۔ ہر فن کے آدمی وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اصفہان نصف جہاں مشہور ہے۔ ہفت اقلیم میں اس اقلیم کے برابر کوئی ولایت نہیں کہ وہاں کا ستارہ آفتاب اور وہ ساتوں کواکب میں نیر اعظم ہے۔ آب و ہوا وہاں کی خوشی اور لوگ روشن طبع اور صاحب سلیقہ ہوتے ہیں۔ میرے قبلہ گاہ نے، جو بادشاہ اس ملک کے تھے لڑکپن سے قاعدے اور قانون سلطنت کی تربیت کرنے کے واسطے بڑے بڑے دانا ہر ایک علم اور کسب کے چن کر میری اتالیقی کے لیے مقرر کیے تھے تو تعلیم کامل ہر نوع کی پا کر قابل ہوں۔ خدا کے فضل سے چودہ برس کے سن و سال میں سب علم سے ماہر ہوا۔ گفتگو معقول نشست و برخاست پسندیدہ اور جو کچھ بادشاہوں کو لائق اور درکار ہے سب حاصل کیا اور یہی شوق شب و روز تھا کہ قابلوں کی صحبت میں قصے ہر ایک ملک کے اور احوال اوالعزم بادشاہوں اور نام آوروں کا سنا کروں۔
ایک روز ایک مصاحب دانا نے کہ خوب تواریخ داں اور جہاں دیدہ تھا، مذکور کیا کہ اگرچہ آدمی کی زندگی کا کچھ بھروسا نہیں، لیکن اکثر وصف ایسے ہیں کہ ان کے سبب سے انسان کا نام قیامت تک زبانوں پر بخوبی چلا جائے گا۔ میں نے کہا اگر تھوڑا سا احوال اس کا مفصل بیان کرو تو میں بھی سنوں اور اس پر عمل کروں۔ تب وہ شخص حاتم طائی کا ماجرا اس طرح سے کہنے لگا۔
حاتم طائی کے وقت میں ایک بادشاہ عرب کا نوفل نام تھا۔ اس کو حاتم کے ساتھ بہ سبب نام آوری کے دشمنی مکال ہوئی۔ بہت سا لشکر فوج جمع کر کر لڑائی کی خاطر چڑھ آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا، یہ سمجھا کہ اگر میں بھی جنگ کی تیاری کروں تو خدا کے بندے مارے جائیں گے۔ اور بڑے خوں ریزی ہو گی۔ اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ بات سوچ کر تن تنہا اپنی جان لے کر پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپا۔
جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو معلوم ہوئی، سب اسباب گھر بار حاتم کا قرق کیا اور منادی کرا دی جو کوئی حاتم کو ڈھونڈ کر پکڑ لاوے پانچ سو اشرفی بادشاہ کے سرکار سے انعام پاوے۔ یہ سن کر سب کو لالچ آیا اور جستجو حاتم کی کرنے لگے۔ اور روز ایک بوڑھا اس کی بڑھیا دو تین بچے چھوٹے چھوٹے ساتھ لیے ہوئے لکڑیاں توڑنے کے واسطے اس غار کے پاس جہاں حاتم پوشیدہ تھا، پہنچے اور لکڑیاں اس جنگل سے چننے لگے، بڑھیا بولی کہ اگر ہمارے کچھ دن بھلے آتے تو حاتم کو کہیں ہم دیکھ پاتے اور اس کو پکڑ کر نوفل کے پاس لے جاتے تو وہ پانچ سو اشرفی دیتا ہم آرام سے کھاتے اس دکھ دھندے سے چھوٹ جاتے۔ بوڑھے نے کہا۔ کیا ٹر ٹر کرتی ہے؟ ہماری طالع میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھر کر بازار میں بیچیں، تب لون روٹی میسر آوے یا ایک روز جنگل سے باگھ لے جاوے۔ لے اپنا کام کر۔ ہمارے ہاتھ حاتم کاہے کو آوے گا اور بادشاہ روپے دلاوے گا؟ عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہو رہی۔
یہ دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں، مرومی اور مروت سے بعید جانا کہ اپنے تئیں چھپائے اور جان کو بچائے اور ان دونوں بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچائے۔ سچ ہے اگر آدمی میں رحم نہیں تو وہ انسان نہیں، اور جس کی جی میں درد نہیں وہ قصائی ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
غرض حاتم کی جواں مردی نے نہ قبول کیا کہ اپنے کانوں سے سن کر چپکا ہو رہے۔ وونہیں باہر نکل آیا اور اس بوڑھے سے کہ اے عزیز! حاتم میں ہی ہوں۔ میرے تئیں نوفل کے پاس لے چل۔ وہ مجھے دیکھے گا اور جو کچھ روپے دینے کا اقرار کیا ہے تجھے دیوے گا۔ میر مرد نے کہا، سچ ہے کہ اس صورت میں بھلائی اور بہبودی البتہ ہے، لیکن وہ کیا جانے تجھ سے سلوک کرے، اگر مار ڈالے تو میں کیا کروں؟ یہ مجھ سے ہر گزر نہ ہو سکے گا کہ تجھ سے انسان کو طمع کی خاطر دشمنی کے حوالے کروں۔ وہ مال کتنے دن کھاؤں گا اور کب تک جیئوں گا؟ آخر مر جاؤں گا، تب خدا کو کیا جواب دوں گا۔
حاتم نے بہتیری منت کی کہ مجھے لے چل۔ میں اپنے خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ مرا جان مال کسو کے کام آوے تو بہتر ہے۔ لیکن وہ بوڑھا کسی طرح راضی نہ ہوا کہ حاتم کو لے جاتا تو میں آپ سے آپ بادشاہ پس جا کر کہتا ہوں کہ اس بوڑھے مجھے جنگل میں ایک پہاڑ کی کوہ میں چھپا رکھا تھا۔ وہ بوڑھا ہنسا اور بولا۔ بھلائی کے بدلے برائی ملے، تو یا نصیب اس رد و بدل کے سوال جواب میں آدمی اور بھی آ پہنچے، بھیڑ لگ گئی۔ افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیا۔ جب نوفل کے رو برو لے گئے تو اس نے پوچھا کو اس کو کون پکڑ لایا؟ ایک بد ذات سنگ دل بولا کہ ایسا کام سوائے ہماری اور کون کر سکتا ہے؟ یہ فتح ہماری نام ہے ہم نے عرش پر جھنڈا گاڑا ہے۔ ایک لن ترانی والا ٹینگ مارنے لگا کہ میں کئی دن سے دوڑ دھوپ کر کر جنگل سے پکڑ لیا ہوں۔ میری محنت پر نظر کیجئے اور جو قرار ہے، سو دیجئے۔ اسی طرح اشرفیوں کے لالچ سے ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بوڑھا چپکا ایک کونے میں لگتا ہوا سب کی شیخیاں سن رہا تھا اور حاتم کی خاطر روتا تھا۔ جب اپنی اپنی دلاوری اور مردانگی سب کہہ چکے۔ تب حاتم نے بادشاہ سے کہا اگر سچ بات پوچھو تو یہ ہے کہ وہ بوڑھا جو الگ سب سے کھڑا ہے، مجھ کو لایا ہے، اگر قیافہ پہچان جانتے ہو تو دریافت کرو اور میرے پکڑنے کی خاطر جو قبول کیا ہے پورا کرو کہ ساری ڈیل میں زبان حلال ہے۔ مرد کو چاہیے جو کہے سو کرے۔ نہیں تو جیبھ حیوان کو بھی خدا نے دی ہے۔ پھر حیوان اور انسان میں کیا تفاوت ہے؟ نوفل نے اس لکڑہارے بوڑھے کو پاس بلا کر پوچھا کہ سچ کہہ، اصل کیا ہے؟ حاتم کو کون پکڑ لایا؟ اس بیچارے نے سر سے پاؤں تک جو گذرا تھا راست کہہ سنایا اور کہا حاتم میری خاطر آپ سے چلا آیا ہے۔ نوفل یہ ہمت حاتم کی سن کر متعجب ہوا کہ بل بے تیری سخاوت اپنی جان کا بھی خطر نہ کیا۔ جتنے جھوٹ دعوے حاتم کو پکڑ لانے کے کرتے تھے، حکم ہوا کہ ان کی ٹنڈیاں کس کر پانچ سو اشرفی کے بدلے پانچ پانچ سو جوتیاں اس کے سر پر لگاؤ کہ ان کی جان نکل پڑے۔ وونہیں تڑ تڑ بیزا سریں پڑنے لگیں کہ ایک دم میں سر ان کے گنجے ہو گئے۔ سچ ہے، جھوٹ بولنا ایسی ہی گناہ ہے کہ کوئی گناہ اس نہیں پہنچتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت آدمی جھوٹ موٹ بکے جاتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت سزا پاتے ہیں۔ غرض ان سب کو موافق ان کے انعام دے کر، نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم سے شخص سے کہ ایک عالم کو اس سے فیض پہنچتا ہے اور محتاجوں کی خاطر جان اپنی دریغ نہیں کرتا اور خدا کی راہ میں سرتاپا حاضر ہے دشمنی رکھنی اور اس کا مدعی ہونا مرد آدمیت اور جواں مردی سے بعید ہے۔ وونہیں حاتم کا ہاتھ بڑی دوستی اور گرم جوشی سے پکڑ لیا اور کہا کیوں نہ ہو جب ایسی ہو تب ایسی ہو تواضع تعظیم کر کر پاس بٹھلایا اور حاتم کو ملک و املاک اور مال و اسباب جو ضبط کیا وونہیں چھوڑ دیا، نئے سر سے سرداری قبیلہ طے کی اسے دی اور اس بوڑھے کو پانچ سو اشرفیاں خزانے سے دلوا دیں وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا۔
جب یہ ماجرا حاتم کا میں نے تمام سنا جی میں غیرت آئی اور یہ خیال گزرا کہ حاتم اپنی قوم کا رئیس تھا، جن نے سخاوت کے باعث یہ نام پیدا کیا کہ آج تلک مشہور ہے۔ میں خدا کے حکم سے بادشاہ تمام ایران کا ہوں، اگر اس نعمت سے محروم رہوں تو بڑا افسوس ہے۔ فی الواقع دنیا میں کوئی بڑا داد و دہش سے نہیں۔ اس واسطے کہ آدمی جو کچھ دنیا میں دیتا ہے اس کو عوض عاقبت میں لیتا ہے۔ اگر کوئی ایک دانہ بوتا ہے تو اس جتنا کچھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات دل میں ٹھہرا کر میر عمارت کو بلوا کر حکم کیا کہ ایک مکان عالی شان جس کے چالیس دروازے بلند اور بہت کشادہ ہوں، باہر شہر کے جلد بنواؤ۔ تھوڑے عرصے میں ویسی ہی عمارت جیسا دل چاہتا تھا بن کر تیار ہوئی اور اس مکان میں ہر روز ہر وقت فجر سے شام تک محتاجوں اور بے کسوں کے تئیں روپے اشرفیاں دیتا، اور جو کوئی جس چیز کا سوال کرتا، میں اسے مالا مال کرتا۔
غرض چالیس دروازوں سے حاجت مند آتے اور جا چاہتے سو لے جاتے۔ ایک روز کا یہ ذکر ہے کہ ایک فقیر سامنے کے دروازے سے آیا اور سوال کیا۔ میں نے اسے ایک اشرفی دی۔ پھر وہی دوسرے دروازے سے ہو کر آیا، دو اشرفیاں مانگیں۔
میں نے پہچان کر درگزر کی اور دیں۔ اسی طرح اس نے ہر ایک دروازے سے اور ایک ایک اشرفی بڑھانا شروع کیا اور میں بھی جان بوجھ کر ان جان ہوا، اور اس کے سوا موافق دیا گیا۔ آخر چالیس دروازے کی راہ سے آ کر چالیس اشرفیاں مانگیں۔ وہ بھی میں نے دلوا دیں اتنا کچھ لے کر وہ درویش پھر پہلے دروازے سے گھس آیا اور سوال کیا۔ مجھے بہت برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا سن اے لالچی تو کیسا فقیر ہے کہ ہر گز فقیر کے تینوں حرفوں سے واقف نہیں؟ فقیر کا عمل ان پر چاہیے۔ فقیر بولا۔ بھلا داتا تم ہی بتاؤ میں نے کہا " ف " سے فاقہ، " ق " سے قناعت " ر " سے ریاضت نکلتی ہے، جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ فقیر نہیں۔ اتنا جو تجھے ملا ہے، اس کو کھا پی کر پھر آئیو اور جو مانگے گا لے جائیو۔ یہ خیرات احتیاج رفع کرنے کے واسطے ہے نہ جمع کرنے کے لیے۔ اے حریص! چالیس دروازوں سے تو نے ایک اشرفی سے چالیس اشرفیوں تک لیں، اس کا حساب تو کر کہ ریوڑی کے پھیری طرح کتنی اشرفیاں ہوئیں اور اس پر بھی تجھے حرص پھر پہلے دروازے سے لے آئی۔ اتنا مال جمع کر کے کیا کرے گا؟ فقیر کو چاہیے کہ ایک روز کی فکر کر لے اور دوسرے دن پھر نئی روزی رازق دینے والا موجود ہے۔ اب حیا و شرم پکڑ اور صبر و قناعت کا کام فرما۔ یہ کیسی فقیری ہے جو تجھے مرشد نے بتائی ہے؟
فقیر یہ میری بات سن کر خفا اور بد دماغ ہوا اور جتنا مجھ سے لے کر جمع کیا تھا سب زمیں میں ڈال دیا اور بولا۔ بس بابا اتنے گرم مت ہو۔ اپنی کائنات لے کر رکھ چھوڑو، پھر سخاوت کا نام لیجئو۔ سخی ہونا بہت مشکل ہے۔ تم سخاوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ اس منزل کو کب پہنچو؟ ابھی دلی دور ہے۔ سخی کے بھی تین حروف ہیں۔ پہلے ان پر عمل کرو تب سخی کہلاؤ گے۔ جب میں ڈرا اور کہا بھلا داتا! اس کے معنی مجھے سمجھاؤ۔ کہنے لگا۔ س سے سمائی اور خ سے خوف الٰہی اور ی سے یاد رکھنا اپنی پیدائش اور مرنے کو، جب تلک اتنا نہ ہو لے، تو سخاوت کا نام لے، اور سخی کا درجہ ہے کہ اگر بدکار ہو، تو بھی دوست خدا کا ہے، اس فقیر نے بہت ملکوں کے سیر کی ہے، لیکن سوائے بصرے کی بادشاہ زادی کے کوئی سخی دیکھنے میں نہ آیا۔ سخاوت کا خاصہ خدا نے اس عورت پر قطع کیا ہے اور سب نام چاہتے ہیں، پر ویسا کام نہیں کرتے۔ یہ بھی سن کر میں نے بہت منت کی اور قسمیں دیں کہ میری تقصیر معاف کرو اور جو چاہیے سو اور میر دیا ہرگز نہ لیا اور یہ بات کہتا ہوا چلا۔ اب اپنی ساری بادشاہت مجھے دے تو اس پر بھی نہ تھوکوں اور نہ دھر ماروں ، وہ تو چلا گیا پر بصرے کی بادشاہ زادی کی یہ تعریف سننے سے دل بے کل ہوا۔ کسی طرح کل نہ تھی۔ اب یہ آرزو ہوئی کہ کسو صورت سے بصرے چل کر اس کو دیکھا چاہیے۔
اس عرصے میں بادشاہ نے وفات پائی اور تخت پر میں بیٹھا۔ سلطنت ملی پر وہ خیال نہ گیا ۔ وزیر اور امیروں سے ، جو پائے تختِ سلطنت کے اور کان مملکت کے تھے ، مشورت کی کہ سفر بصرے کا کیا چاہتا ہوں۔ تم اپنے کام میں مستعد رہو۔ اگر زندگی ہے تو سفر کی عمر کوتاہ ہوتی ہے، جلد پھر میں آتا ہوں۔ کوئی میرے جانے پر راضی نہ ہوا۔ لاچار دل تو اداس ہو رہا تھا۔ ایک دن بغیر سبب کے کہے سنے ، چپکے سے وزیرِ با تدبیر کو بلا کر مختار اور وکیل مطلق اپنا کیا اور سلطنت کا مدار المہام بنایا۔ پھر میں نے گیروا بسر پہن فقیر بھیس کر ، اکیلے راہ بصرے کی لی۔ تھوڑے دنوں میں اس کی سرحد میں جا پہنچا۔ تب سے یہ تماشا دیکھنے لگا کہ جہاں رات کو جا کر مقام کرتا ، نوکر چاکر اسی ملکہ کے استقبال کر کر ایک مکان معقول میں اتارتے ، اور جینا لوازمہ ضیافت کا ہوتا ہے ، بخوبی موجود ہو کر اور خدمت میں دست بستہ تمام رات حاضر رہتے ، دوسرے دن دوسری منزل میں یہی صورت پیش آتی۔ اسی آرام سے مہینوں کی راہ طے کی۔ آخر بصرے میں داخل ہوا۔ وونہیں ایک جواں شکیل ، خوش لباس ، نیک خُو ، صاحبِ مروت کہ دانائی اس کے قیافے سے ظاہر تھی ، میرے پاس آیا اور نپٹ شیریں زبانی سے کہنے لگا کہ میں فقیروں کا خادم ہوں ، ہمیشہ اسی تلاش میں رہتا ہوں کہ جو کوئی مسافر ، فقیر یا دنیا دار اس شہر میں آوے ، میرے گھر میں قدم رنجہ فرماوے، سوائے ایک مکان کے یہاں بدیسی کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ آپ تشریف لے چلئے اور مقام کو زینت بخسئے اور مجھے سرفراز کیجئے۔
فقیر نے پوچھا ، صاحب کا اسمِ شریف کیا ہے۔ بولا اس گمنام کا نام بیدار بخت ہے۔ اس کی خوبی اور تملق دیکھ کر یہ عاجز اس کے ساتھ چلا اور اس کے مکان میں گیا۔ دیکھا تو ایک عمارت عالی لوازم شاہانہ سے تیار ہے۔ ایک دالان میں اس نے لے جا کر بٹھایا اور گرم پانی منگوا کر ہاتھ پاؤں دھلوائے اور دستر خوان بچھوا کر مجھ تن تنہا کے روبرو بکاول نے ایک تاورے کا تورا چن دیا۔ چار بشقاب ، ایک میں یخنی پلاؤ ، دوسری میں قورما پلاؤ ، تیسری میں متنجن پلاؤ اور چوتھی میں کوکو پلاؤ اور ایک قاب زردے کی اور کئی طرح کے قلئے ، دو پیازہ ، نرگسی ، بادام ، روغن جوش اور روٹیاں کئی قسم کی باقر خانی ، تنکی شیرمال ، گاؤدیدہ ، گاؤ زبان ، نعمت نان ، پراٹھے ، اور کباب کوفتے کے ، مرچ کے تکے ، خاگینہ ، ملغوبہ شب دیگ ، دم پُخت ، حلیم ، ہریسا ، سموسے ، ورتی ، قبولی ، فرنی ، شیر برنج ، ملائی ، حلوہ ، فالودہ ، پن بھتا ، نمش ، آب شورہ ، ساق عروس ، لوزیات ، مربہ اچار دان ، دہی کی قلفیاں ، یہ نعمتیں دیکھ کر روح بھر گئی ۔ جب ایک ایک نوالہ ہر ایک سے لیا ، پیٹ بھی بھر گیا ، تب کھانے سے ہاتھ کھینچا ۔ وہ شخص مجوز ہوا کہ صاحب نے کیا کھایا؟ کھانا تو سب امانت دھرا ہے بے تکلف اور نوشِ جان فرمائیے ۔ میں نے کہا شرم کیا ہے خدا تمہارا خانہ آباد رکھے ۔ جو کچھ میرے پیٹ میں سمایا سو میں نے کھایا اور ذائقے کی اس کے کیا تعریف کروں کہ اب تک جزبان چاٹتا ہوں اور جو ڈکار آتی ہے سو معطر۔ لو اب مزید کرو۔ جب دسترخوان اٹھا تو زیر انداز کا شانی مخمل کا مقیش بچھا کر چلمچی ، آفتابہ طلائی لا کر بیس دان میں سے خوشبو دار بیس دے کر گرم پانی سے میرے ہاتھ دھلائے۔ پھر پان دان جڑاؤ میں گلوریاں سونے کی بھر کر پکھروٹوں میں بندھی ہوئیں اور چو گھروں میں گلوریاں ، چکنی سپاریاں اور لونگ الائچیاں ، روپہلے ورقوں میں منڈھی ہوئی لا کر رکھیں۔ جب میں پانی پینے کو مانگتا تب صراحی برف میں لگی ہوئی آب دار لے آتا ۔
جب شام ہوئی فانوسوں میں کافوری شمعیں روشن ہوئیں۔ وہ عزیز بیٹھا ہوا باتیں کرتا رہا۔ جب پہر رات بیت گئی ، بولا اب اس چھپر کھٹ میں کہ جس کے آگے دلدار پیش گیر کھڑا ہے ، آرام کیجئے ۔ فقیر نے کہا اے صاحب ! ہم فقیروں کو ایک بوریا یا مرگ چھار بستر کے لئے بہت ہے۔ یہ خدا نے تم دنیا داروں کے واسطے بنایا ہے۔ کہنے لگا۔ یہ سب اسباب درویشوں کی خاطر ہے۔ کچھ میرا مال نہیں ۔ اس کے بجد ہونے سے ان بچھونے پر۔ کہ پھولوں کی سیج جیسی بھی نرم تھے ، جا کر لیٹا۔ دونوں پٹیوں کی طرف گلدان اور چنگیریں پھولوں کی چنی ہوئیں اور عود سوز اور لخلخے روشن تھے ، جیدھر کی کروٹ لیتا دماغ معطر ہو جاتا۔ اس عالم میں سو رہا۔
جب صبح ہوئی ناشتے کو بھی بادام ، پستے ، انگور ، انجیر ، ناشپاتی ، انار ، کشمش ، چھوہارے اور میوے کا شربت لا کر حاضر کیا ۔ اسی طور سے تین دن رہا۔ چوتھے روز میں نے رخصت مانگی۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا شاید اس گنہگار سے صاحب کی خدمت گاری میں کچھ قصور ہوا کہ جس کے باعث مزاج تمہارا مکدر ہوا، میں نے حیران ہو کر کہا برائے خدا یہ کیا مذکور ہے ؟ لیکن مہمانی کی شرط تین دن تلک ہے سو میں رہا ۔ زیادہ رہنا خوب نہیں اور علاوہ یہ فقیر واسطے سیر کے نکلا ہے ۔ اگر ایک ہی جگہ زیادہ رہ جاوے تو مناسب نہیں ۔ اس لئے اجازت چاہتا ہے نہیں تو تمہاری خوبیاں ایسی نہیں کہ جدا ہونے کو جی چاہے ۔ تب وہ بولا جیسی مرضی لیکن ایک سماعت توقف کیجئے کہ بادشاہ زادی کے حضور میں جا کر عرض کروں۔ اور تم جو جایا چاہتے ہو تو جو کچھ اسباب اوڑھے بچھانے کا اور کھانے کے باسن روپے سونے کے اور جڑاؤ کے اس مہمان خانے میں ہیں ، یہ سب تمہارا مال ہے ، اس کے ساتھ لے جانے کی خاطر جو فرماؤ تدبیر کی جائے ۔ میں نے کہا لا حول پڑھو ، ہم فقیر نہ ہوئے نئے بھاٹ ہوئے ۔ اگر یہی حرص دل میں ہوتی تو فقیر کاہے کو ہوتے ، دنیا داری کیا بری تھی۔
اس عزیز نے کہا اگر یہ احوال ملکہ سے سنے تو خدا جانے مجھے اس خدمت سے تغیر کر کر کیا سلوک کرے ۔ اگر تمہیں ایسی ہی بے پروائی ہے تو ان سب کو ایک کوٹھڑی میں امانت بند کر کر دروازے کو سر بہ مہر کر دو پھر جو چاہو سو کیجو ۔
میں قبول نہ کرتا تھا اور وہ مانتا بھی نہ تھا ۔ لاچار یہی صلاح ٹھہری کہ سب اسباب کو گند کر کر قفل کر دیا اور منتظر رخصت کا ہوا۔ اتنے میں ایک خواجہ سرا معتبر سر پر سر پیچ اور گوش پیچ اور کمر بندی ، باندھے ایک عصا سونے کا جڑاؤ ہاتھ میں اور ہاتھ اس کے کئی خدمت گار ، معقول عہدے لیے ہوئے اس شان و شوکت سے میرے نزدیک آیا ۔ ایسی ایسی مہربانی اور ملائمت سے گفتگو کرنے لگا کہ جس کا بیان نہیں کر سکتا ۔ پھر بولا ، اے میاں ، اگر توجہ اور کرم کر اس مشتاق کے غریب خانے کو اپنے قدم کی برکت سے رونق بخشو تو بندہ نوازی اور غریب پروری سے بعید نہیں۔ شاید شہزادی سنے کہ کوئی مسافر یہاں آیا تھا ۔ اس کی تواضع مدارت کسے نے نہ کی ، وہ یوں ہی چلا گیا ۔ اس واسطے واللہ اعلم مجھ پر کیا آفت لاوے اور کیسی قیامت اٹھاوے ، بلکہ حرف زندگی پر ہے۔ میں نے ان باتوں پر نہ مانا۔ تب خواہ مخواہ منتیں کر کرے میرے تئیں اور ایک حویلی میں، کہ پہلے مکان سے بہتر تھی، لے گیا۔ اسی پہر شربت اور تفنن کی خاطر میوے کھلائے اور باسن نقرئی و طلائی فرش فروش اور اسباب جو کچھ وہاں تھا مجھے سے کہنے لگا کہ ان سب کے تم مالک مختار ہو۔ جو چاہو سو کرو۔ میں یہ باتیں سن کر حیران ہوا اور چاہا کہ کسی نہ کسی طرح یہاں سے رخصت ہو کر بھاگوں۔ میرے بشرے کو دیکھ کر وہ محلی بولا اے خدا کے بندے، جو تیرا مطلب یا آرزو ہو، سو مجھ سے کہہ، تو حضور میں ملکہ کے جا کر عرض کروں۔ میں نے کہا۔ میں فقیری کے لباس میں دینا کا مال کیا مانگوں کہ تم بغیر مانے دیتے ہو اور میں انکار کرتا ہوں۔ تب وہ کہنے لگا کہ حرص دنیا کی کسی کے جی سے نہیں گئی۔ چنانچہ کسو کب نے کبت کہا ہے :
نکھ بن کٹا دیکھے، سمیں بھاری جٹا دیکھے
جوگی کن پتھا دیکھے، چھار لائے تن میں
موتی انمول دیکھے، سیوڑا سر چھول دیکھے
کرت کلول دیکھے، بن کھنڈی بن میں
بیر دیکھے، سور دیکھے، سب گئی اور کوڑ دیکھے
مایا کہ پور دیکھے، پھول رہے، دھن میں
اوی انت سکھی دیکھے، جنم ہی کے دکھی دیکھے
پردے نہ دیکھے، جن کے لوبھ ناہیں من من
میں نے یہ سن کر جواب دیا کہ یہ سچ ہے، پر میں کچھ نہیں چاہتا۔ اگر فرماؤ تو ایک رقعہ سر بہ مہر اپنے مطلب کا لکھ کر دوں جو حضور ملکہ کے پہنچا دو، تو بڑی مہربانی ہے، گویا تمام دنیا کا مال مجھ کو دیا۔ بولا بسر و چشم کیا مضائقہ میں نے ایک رقعہ لکھا پہلے شکر خدا کیا پھر احوال کہ یہ بندہ خدا کا کئی روز سے اس شہر میں وارد ہے اور سرکار سے سب طرح کی خبر گیری ہوتی ہے۔ جیسی خوبیاں اور نیک نامیاں ملکہ کی سن کر اشتیاق دیکھنے کا ہوا تھا، اس سے چار چند پایا۔ اب حضور کے ارکان دولت یوں کہتے ہیں کہ جو مطلب اور تمنا تیری ہو، سو ظاہر کر۔ اس واسطے بے حجابانہ جو جو دل کی آرزو ہے، سو عرض کرتا ہو کہ دنیا کے مال کا محتاج نہیں۔ اپنے ملک کا میں بھی بادشاہ ہوں۔ فقط یہاں آنا اور محنت اٹھانا آپ کے اشتیاق کے سبب سے ہوا جو تن تنہا اس صورت سے آ پہنچا۔ اب امید ہے کہ حضور کی توجہ سے خاک نشین مطلب دلی کو پہنچے لائق ہے۔ آگے جو مرضی مبارک۔ لیکن اگر یہ التماس خاکسار کا قبول نہ ہو گا، تو اسی طرح خاک چھنتا پھرے گا اور اس جان بے قرار کو آپ کے عشق میں نثار کرتے گا۔ مجنوں اور فرہاد کی مانند جنگل میں یا پہاڑ پر مر رہے گا۔
یہی مدعا لکھ کر اس خوجے کو دیا۔ اس نے بادشاہ زادی تلک پہنچایا۔ بعد ایک دم کے پھر آیا اور میرے تئیں اور اپنے ساتھ محل کی ڈیوڑھی پر لے گیا۔ وہاں جا کر دیکھا تو ایک بوڑھی سی عورت صاحب لیاقت سنہری کرسی پر گہنا پاتا پہنے ہوئے بیٹھی ہے۔ اور کئی خوجے خدمت گار تکلف کے لباس پہنے ہوئے ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہیں۔ میں اسے مختار کا جان کر اور دیرینہ سمجھ کر دست بسر ہوا۔ اس ماما نے بہت مہربانی سے سلام کیا اور حکم کیا آؤ بیٹھو خوب ہوا تم آئے۔ تمہیں نے ملکہ کے اشتیاق کا رقعہ لکھا تھا؟ میں شرم کھا کر چپ ہو رہا اور سر نیچا۔
ایک ساعت کے بعد بولی کہ اے جوان! پادشاہ زادی نے سلام کہا اور فرمایا کہ مجھ کو خاوند کرنے سے عیب نہیں۔ تم نے میری درخواست کی، لیکن اپنی پادشاہت کا بیان کرنا اور اس فقیری میں اپنے تئیں پادشاہ سمجھنا اور اس کا غرور کرنا نپٹ بے جا ہے۔ اس واسطے کہ سب آدمی آپس میں فی الحقیقت ایک ہیں، لیکن فضیلت دین اسلام کی البتہ ہے اور میں بھی ایک مدت سے شادی کرنے کی آرزومند ہوں، اور جیسے تم دولت دنیا سے بے پروا ہو، میرے تئیں بھی حق تعالیٰ اتنا مال دیا ہے کہ جس کا کوئی حساب نہیں۔ پر ایک شرط ہے کہ پہلے مہر ادا کر لو، اور مہر شاہ زادی کا ایک بات ہے جو تم سے ہو سکے۔
میں نے کہا۔ میں سب طرح حاضر ہوں۔ جان و مال سے دریغ نہیں کرنے کا۔ وہ بات کیا ہے؟ کہو تو میں سنوں۔ تب اس نے کہا آج کے دن رہ جاؤ کل تمہیں کہہ دوں گی۔ میں نے خوشی سے قبول کیا اور رخصت ہو کر باہر آ یا۔
دن تو گزرا، جب شام ہوئی تو اکابر عالم اور فاضل صاحب شرع حاضر ہیں، میں بھی اس جلسے میں جا کر بیٹھا۔ اتنے میں دسترخوان بچھایا گیا۔ اور کھانے اقسام اقسام کے شیریں اور نمکین چُنے گئے۔ وہ سب کھانے لگے تو مجھے بھی تواضع کر کر شریک کیا۔ جب کھانے سے فراغت ہوئی ایک دائی اندر آئی اور بولی کہ بہروز کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔ یسادلوں نے وونہیں حاضر کیا۔ اس کی صورت میں بہت مرد آدمی کی سی اور بہت سی کنجیاں روپے سونے کی کمر میں لٹکی ہوئیں۔ سلام علیک کر کے میرے پاس آ کر بیٹھا۔ وہی دائی کہنے لگی کہ اے بہروز! تُو نے جو کچھ دیکھا ہے مفصل اس کا بیان کر۔
بہروز نے یہ داستان کہنی شروع کی اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا اے عزیز ہماری پادشاہ زادی کی سرکار میں ہزاروں غلام ہیں کہ سوداگری کے کام نہیں متعین ہیں۔ ان میں سے ایک میں بھی ادنا خانہ زاد ہوں۔ ہر ایک ملک کی طرف لاکھوں روپے کا اسباب اور جنس دے کر رخصت فرماتی ہیں جب وہ وہاں سے پھر آتا ہے تب اس سے اس دیس کا احوال اپنے حضور میں پوچھتی ہیں اور سنتی ہیں۔ ایک بار یہ اتفاق ہوا کہ کم ترین تجارت کی خاطر چلا اور شہر نیم روز پہنچا۔ وہاں کے باشندوں کے دیکھا تو سب کا لباس سیاہ ہے اور ہر دم نالہ و آہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کچھ بڑی مصیبت پڑی ہے۔ اس سبب جس سے میں پوچھتا کوئی جواب میرا نہ دیتا۔
ایس حیرت میں کئی روز گزرے۔ ایک دن جونہیں صبح ہوئی۔ تمام آدمی چھوٹے بڑے، لڑکے بوڑھے غریب، غنی، شہر کے باہر چلے۔ ایک میدان میں جا کر جمع ہوئے ، اور اس ملک کا بادشاہ بھی سب امیروں کے ساتھ سوار ہوا اور وہاں گیا۔ تب سب برابر قطار باندھ کر کھڑے ہوئے۔
میں بھی ان کے درمیان کھڑا تماشا دیکھتا تھا۔ پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کسو کا انتظار کھینچ رہے ہیں۔ ایک گھڑی کے عرصے میں دور سے ایک جوان پری زاد صاحب جمال پندرہ سولہ برس کا سن و سال ، غل اور شور کرتا ہوا اور کف منہ سے جاری زرد بیل کی سواری، ایک ہاتھ میں کچھ لئے مقابل خلق اللہ کے آیا اور اپنے بیل پر سے اترا۔ ایک ہاتھ میں ناتھ اور ایک ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر دو زانو بیٹھا۔ ایک گل اندام، پری چہرہ اس کے ہمراہ تھا۔اس کو اس جوان نے وہ چیز جو ہاتھ میں تھی دی وہ یتیم لے کر ایک سرے سے ہر ایک کو دیکھاتا جاتا تھا‘ لیکن یہ حالت تھی کہ جو کوئی دیکھتا تھا بے اختیار دھاڑ مار کر روتا تھا۔ اسی طرح سب کو دکھاتا اور رلاتا ہوا سب کے سامنے سے ہو کر اپنے خاوند کے پاس پھر گیا۔
اس کے جاتے ہی وہ جوان اٹھا اور غلام کا سر شمشیر سے کاٹ کر اور سوار ہو کر جیدھر سے آیا تھا، اودھر کو چلا۔ سب کھڑے دیکھا کئے۔ جب نظروں سے غائب ہوا لوگ شہر کی طرف پھرے۔میں ہر ایک سے اس ماجرے کی حقیقت پوچھتا تھا بلکہ روپیوں کا لالچ دیتا اور خوشامد منت کرتا کہ مجھے ذرا بتا دو کہ یہ جوان کون تھا؟ اور اس نے یہ کیا حرکت کی۔ اور کہاں سے آیا اور کہاں گیا؟ ہرگز کسی نے نہ بتلایا اور نہ کچھ میرے خیال میں آیا۔ یہ تعجب دیکھ کر جب میں یہاں آیا اور ملکہ کے روبرو اظہار کیا۔ تب سے پادشاہ زادی بھی حیران ہو رہی ہے اور اس کے تحقیق کرنے کی خاطر دو دلی ہو رہی ہے۔ لہٰذا مہر اپنا یہی مقرر کیا ہے کہ جو شخص اس عجوبے کی کماحقہ‘ خبر لاوے، اس کو پسند فرماوے اور وہی مالک سارے ملک کا اور ملکہ کا ہووے۔
یہ ماجرا تم نے سب سنا۔ اپنے دل میں غور کرو، اگر تم اس جوان کی خبر لا سکو تو قصد ملک نیم روز کا کرو اور جلد روانہ ہو۔ نہیں تو انکار کر کر اپنے گھر کی راہ لو، میں نے جواب دیا کہ اگر خدا چاہے تو جلد اس کا احوال سر سے پاؤں تک دریافت کر کر پادشاہ زادی تک آ پہنچتا ہوں اور کامیاب ہوتا ہوں۔ اور جو میری قسمت بدتر ہے تو اس کا کچھ علاج نہیں، لیکن ملکہ اس کا قول اقرار کریں کہ اپنے کہنے سے نہ پھریں۔ اور بالفعل ایک اندیشہ مشکل میرے دل میں خلش کر رہا ہے۔ اگر ملکہ غریب نوازی اور مسافر پروری سے حضور میں بلاویں اور پردے کے باہر بٹھلا دیں اور میرا التماس اپنے کانوں سنیں اور اس کا جواب اپنی زبان سے فرما دیں تو میری جان جمع ہو، اور مجھ سے سب کچھ ہو سکے۔ یہ میرے مطلب کی بات اس ماما نے روبرو اس پیکر کے عرض کی بارے قدردانی کی راہ سے حکم کیا کہ انہیں بلا لو۔
دائی پھر باہر آئی اور مجھے اپنے ساتھ جس محل میں پادشاہ زادی تھی، لے گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دو رویہ صف باندھے دست بستہ سہیلیاں اور خواصیں اور اروابیگیاں قلماقنیاں، ترکیناں، حبشیاں، ازبکنیاں، کشمیرنیاں جواہر میں جڑی عہد لئے کھڑی ہیں۔ اندر کا اکھاڑا کہوں یا پریوں کا اتارا؟ بے اختیار ایک آہ بےخودی سے زباں تک آئی اور کلیجہ تہلکے لگا۔ پر بہ زور اپنے تئیں تھانبا۔ ان کو دیکھتا بھالتا اور سیر کرتا آگے چلا، لیکن پاؤں سو سو من کے ہو گئے۔ جس کو دیکھو پھر یہ نہ جی چاہے کہ آگے جاؤں۔ ایک طرف چلون پڑی تھی اور مونڈھا جڑاؤ بچھوا رکھا تھا، اور ایک چوکی بھی صندل کی بچھی ہوئی تھی۔ دائی نے مجھے بیٹھنے کی اشارت کی۔ میں مونڈھے پر بیٹھ گیا اور وہ چوکی پر، کہنے لگی لو اب جو کہنا ہے سو جی بھر کر کہو۔
میں نے ملکہ کی خوبیوں کی اور عدل و انصاف۔ داردو دہش کی پہلے تعریف کی پھر کہنے لگا۔ جب سے میں اس ملک کی سرحد میں آیا، ہر ایک منزل میں یہی دیکھتا کہ جا بجا مسافرخانے اور عمارتیں عالی بنیں ہوئیں ہیں اور آدمی ہر ایک عہدے کے تعینات ہیں کہ خبرگیری مسافروں کی کرتے ہیں۔ مجھے بھی تین دن ہر ایک مقام میں گزرے چوتھے روز جب رخصت ہونے لگا تب کسو نے خوشی سے نہ کہا کہ جاؤ۔ اور جتنا اسباب اس مکان میں تھا، شطرنجی،چاندی،قالین،ستیل پانی،منگل کوٹی، دیوار گیری،چھت پردے،چلونیں،سائبان، نم گیرے، چھپر کھٹ مع غلاف،اوقچہ،توشک،بالا پوش،سإیج بند، چادر تکیے،تکینی،گل تکیے،مسند،گاؤ تکیے،دیگ دیگچے،پتیلے،طباق،رکابی،با دئیے،تشتری،چمچے،بکاؤلی،کف گیر،طعام بخش، سرپوش، سینی، خوان، پوش، تورہ پوش، آبخورے، بجھرے، صراحی، لگن، پان دان،چوگھرے، چنگیر، گلاب پوش، عود، سوز، آفتابہ، چلمچی سب میرے حوالے کیے کہ یہ تمہارا مال ہے چاہو اب لے جاؤ، نہیں تو ایک کوٹھڑے میں بند کر کر اپنی مہر کرو۔ جب تمہاری خوشی ہو گی پھرتے ہوئے لے جائیو۔ میں نے یوں ہی کیا۔ پر یہ حیرت ہے کہ جب مجھ سے فقیر تنہا سے یہ سلوک ہوا۔ تو ایسے غریب ہزاروں تمہارے ملکوں میں آتے جاتے ہوں گے۔ پس ہر ایک سے یہی مہمان داری کا طور رہتا ہو گا تو مبلغ بےحساب خرچ ہوتی ہوں گے۔پس اتنی دولت کہ جس کا یہ صرف ہے، کہاں سے آئی اور کیسی ہے؟ اگر گنجِ قارون ہو تو بھی وفا نہ کرے۔ اور ظاہری میں اگر ملکہ کی سلطنت پر نگاہ کیجئے تو اس کی آمد فقط باورچی خانے کے خرچ کو بھی کفایت نہ کرتی ہو گی۔ اور خرچوں کا تو کیا ذکر ہے۔ اگر اس کا بیان ملکہ کی زبان سے سنوں تو خاطر جمع ہو، قصد ملک نیم روز کا کروں اور جوں توں وہاں جا پہنچوں پھر سب احوال دریافت کر کے ملکہ کی خدمت میں بہ شرط زندگی بار دگر حاضر ہوں، اپنے دل کی مراد پاؤں۔
یہ سن کر ملکہ نے اپنی زبان سے کہا کہ اے جوان! اگر تجھے آرزو کمال ہے کہ یہ ماہیت دریافت کرے تو آج کے دن بھی مقام کر۔ شام کو تجھے حضور میں طلب کر کر جو کچھ احوال اس دولتِ بے زوال کا ہے، بے کم و کاست کہا جائے گا۔ میں یہ تسلی پا کر اپنی استقامت کے مکان پر آ کر منتظر تھا کہ کب شام ہو جو میرا مطلب تمام ہو۔ اتنے میں خواجہ سرا کئی چوگاشے تورہ پوش پڑے بھوئیوں کے سر پر دھرے آ کر موجود ہوا اور بولا کہ حضور سے الش خاص عنایت ہوا ہے اس کو تناول کرو۔جس وقت میرے سامنے کھولے بوباس سے دماغ معطر ہوا اور روح بھر گئی۔ جتنا کھا سکا کھا لیا۔ باقی ان سبھوں کو اٹھا دیا اور شکر نعمت کہہ بھیجایا۔ بارے آفتاب تمام دن کا مسافر تھکا ہوا، گرتا پڑتا اپنے محل میں داخل ہوا اور ماہتاب دیوان خانے میں اپنے مصاحبوں کو ساتھ لے کر نکل بیٹھا، اس وقت دائی آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ چلو پادشاہ زادی نے یاد فرمایا ہے۔ میں اس کے ہمراہ ہو لیا خلوت خاص میں لے گئی۔ روشنی کا یہ عالم تھا کہ شب قدر کو وہاں قدر نہ تھی اور بادشاہی فرش پر مسند مغرق بچھی ہوئی مرصع کا تکیہ لگا ہوا اور اس پر ایک شمیانہ موتیوں کا جھالر کا جڑاؤ استادوں پر کھڑا ہوا۔ اور سامنے مسند کے جواہر کے درخت پھولوں پات لگے ہوئے، گویا عین قدرتی ہیں۔ سونے کی کیاریوں میں جمے ہوئے اور دونوں طرف دست چپ شاگرد پیتے اور مجرائی دست بستہ، با ادب آنکھیں نیچی کئے ہوئے حاضر تھے اور طوائفیں اور گائنیں سازوں کے سُر بنائے منتظر۔ یہ سماں اور یہ تیاری کروفر دیکھ کر عقل ٹھکانے نہ رہی۔ دائی سے پوچھا کہ دن کو وہ زیبائش اور رات کو یہ آرائش کہ دن عید اور رات شب برات کہا چاہیے۔بلکہ دنیا میں بادشاہت ہفت اقلیم کو یہ عیش میسر نہ ہو گا۔ کیا ہمیشہ یہی صورت رہتی ہے؟ دائی کہنے لگی کہ ہماری ملکہ کا جتنا کارخانہ تم نے دیکھا یہ سب اسی دستور سے جاری ہے۔ اس میں ہرگز خلل نہیں۔ بلکہ افزوں ہے۔ تم یہاں بیٹھوں دوسرے مکان میں تشریف رکھتی ہیں، جا کر خبر کروں۔
دائی یہ کہہ کر گئی اور انہی پاؤں پھر آئی کہ چلو حضور میں۔ یہ مجرد اس مکان میں جاتے ہی بھیچک رہ گیا۔ نہ معلوم ہوا کہ دروازہ کہاں اور دیوار کدھر ہے اور اس واسطے کہ آئینے قدم آدم چاروں طرف لگے اور ان کی پروازوں میں ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے۔ ایک کا عکس ایک میں نظر آتا تو یہ معلوم ہوتا کہ جواہر کا سارا مکان ہے۔ ایک طرف پردہ پڑا تھا۔ اس کے پیچھے ملکہ بیٹھی تھیں۔ وہ دائی پردے سے لگ کر بیٹھی اور مجھے بھی بیٹھنے کو کہا۔ تب دائی ملکہ کے فرمانے سے اس طور پر بیان کرنے لگی کہ سن اے جوان! دانا! سلطان اس اقلیم کا بڑا بادشاہ تھا۔ اس کے گھر سات بیٹیاں پیدا ہوئیں ایک روز بادشاہ نے جشن منایا۔ یہ ساتوں لڑکیاں سولہ یہ ساتوں لڑکیاں سولہ سنگار، بارہ ابھرن بال بال گنج موتی پرو کر بادشاہ کے حضور کھڑی تھیں۔ سلطان کے کچھ جی آیا تو بیٹیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ اگر تمہارا باپ بادشاہ نہ ہوتا اور کسی غریب کے گھر تم پیدا ہوتیں، تو تمھیں بادشاہ زادی اور ملکہ کون کہتا؟ خدا کا شکر کرو کہ شہزادیاں کہلاتی ہو، تمہاری یہ ساری خوبی میرے دم سے ہے، چھے لڑکیاں ایک زبان ہو کر بولیں کہ جہاں پناہ جو فرماتے ہیں بجا ہے، اور آپ ہی کی سلامتی سے ہماری بھلائی ہے۔ لیکن یہ ملکہ پناہ سب بہنوں سے چھوٹی تھیں، پر عقل و شعور میں اس عمر میں بھی گویا سب سے بڑی تھیں۔ چپکی کھڑی رہیں۔ اس گفتگو میں بہنوں کی شریک نہ ہوئیں۔ اس واسطے کہ یہ کلمہ کفر کا ہے۔
بادشاہ نے نظرِ غضب سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کیوں بی بی تم کچھ نہ بولیں اس کا کیا باعث ہے؟ تب ملکہ نے اپنے دونوں ہاتھ رومال سے باندھ کر عرض کی کہ اگر جان کی امان پاؤں اور تقصیر معاف ہو تو یہ لونڈی اپنے دل کی بات گزارش کرے۔ حکم ہوا کہ کیا کہتی ہے؟ تب ملکہ نے کہا کہ قبلہ عالم آپ نے سنا ہے کہ سچ بات کڑوی لگتی ہے سو اس وقت میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو کر عرض کرتی ہوں، اور جو کچھ میری قسمت میں لکھنے والے نے لکھا ہے اس کا مٹانے والا کوئی نہیں۔ کسو طرح نہیں ٹلنے کا۔
خواہ تم پاؤں گھسو یا کہ رکھو سر بسجود
بات پیشانی کی جو کچھ ہے سو پیش آتی ہے
جس بادشاہ علی الاطلاق نے آپ کو بادشاہ بنایا۔ انہیں نے مجھے بھی بادشاہ زادی کہلوایا۔ اس کی قدرت کے کارخانے میں کسو کا اختیار نہیں چلتا۔ آپ کی ذات ہماری ولی نعمت اور قبلہ و کعبہ ہے۔ حضرت کے قدم مبارک کی خاک کو سرمہ کروں تو بجا ہے۔ مگر نصیب ہر ایک کے ہر ایک کے ساتھ ہیں۔ بادشاہ سُن کر طیش میں آئے اور جواب دل پر سخت گراں معلوم ہوا۔ بیزار ہو کر فرمایا۔ چھوٹا منہ بڑی بات، اب اس کی یہی سزا ہے کہ گہنا پاتا جو کچھ اس کے ہاتھ گلے میں ہے، اُتار لو۔ اور ایک میانے میں چڑھا کر ایسے جنگل میں کہ جہاں نام و نشان آدمی آدم زاد کا نہ ہو، پھینک آؤ۔ دیکھیں اس کے نصیبوں میں کیا لکھا ہے۔
بموجب حکم بادشاہ کے اس آدھی رات میں کہ عین اندھیری تھی، ملکہ کو جو نرے بھونرے میں پلی تھیں اور سوائے اپنے محل کے دوسرے جگہ نہ دیکھی تھی، بھولی لے جا کر ایک میدان میں کہ وہاں پرندہ پر نہ مار سکتا، انسان کو تو کیا ذکر ہے، چھوڑ کر چلے آئے۔ ملکہ کے دل پر عجب حالت گزرتی تھی کہ ایک دم میں کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ پھر اپنے خدا کی جناب میں شکر کرتیں اور کہتیں تو ایسا ہی بے نیاز ہے، جو چاہا سو ہو گیا۔ اور جو چاہتا ہے سو کرتا ہے اور جو چاہے گا سو کرے گا۔ جب تلک نتھنوں میں دم ہے، تجھ سے نا امید نہیں ہوتی۔ اسی اندیشے میں آنکھ لگ گئی۔ جس وقت صبح ہونے لگی ملکہ کی آنکھ کھُل گئی۔ پُکاریں کہ وضو کا پانی لانا۔ پھر ایک بارگی رات کی بات چیت یاد آئی کہ تو کہاں اور یہ بات کہاں؟ یہ کہہ کر اٹھ کر تیمّم کیا اور دوگانہ شکر کا پڑھا۔ اے عزیز، ملکہ کی اس حالت کے سننے سے چھاتی پھٹتی ہے۔ اس بھولے بھالے جی سے پوچھا چاہیے کہ کیا کہتا ہو گا۔
غرض اس میانے میں بیٹھی خدا سے لو لگائے رہتی تھیں۔ اور یہ کبت اس دم پڑھتی تھیں:
جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے کاہے ان نہ دے ہے
جو جل میں تھل میں پنچھی پس کی سدھ لیت، سو تیری بھی لے ہے
کاہے کو سوچ کرے من مورکھ، سوچ کرے کچھ ہاتھ نہ آئے ہے
جان کو دیت، ابا جان کو دیت، جہاں کو دیت سو تو کو بھی دے ہے
سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے۔ نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔ اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ اسی طرح تین دن رات صاف گزر گئے کہ ملکہ کے مُنہ میں ایک کھیل بھی اُڑ کر نہ گئ۔ وہ پھول سا بدن سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور وہ رنگ جو کندن سا دمکتا تھا، ہلدی سا بن گیا۔ مُنہ میں پھپھڑی بندھ گئی، آنکھیں پتھرا گئیں، مگر ایک دم اٹک رہا تھا کہ وہ آتا جاتا تھا۔ جب تلک سانس تب تلک آس۔ چوتھے روز صبح کو ایک درویش، خضر کی سی صورت، نورانی چہرہ، روشن دل آ کر پیدا ہوا۔ ملکہ کو اس حالت میں دیکھ کر بولا اے بیٹی! اگرچہ تیرا باپ بادشاہ ہے لیکن تیری قسمت میں یہ بھی بدا تھا۔ اب اس فقیر بوڑھے کو اپنا خادم سمجھ اور اپنے پیدا کرنے والے کا رات دن دھیان رکھ۔ خدا خوب کرے گا۔ اور فقیر کے کشکول میں جو ٹکڑے بھیک کے موجود تھے، ملکہ کے روبرو رکھے اور پانی کی تلاش میں پھرنے لگا دیکھتے تو ایک کنواں تو ہے پر ڈول رسّی کہاں جس سے پانی بھرے؟ تھوڑے پتّے درخت سے توڑ کر دونا بنایا اور اپنی سیلی کھول کر اس میں باندھ کر نکالا اور ملکہ کو کچھ کھلایا پلایا۔ بارے ٹک ہوش آیا۔ اس مردِ خدا نے بےکس اور بےبس جان کو بہت سی تسلّی دی، خاطر جمع کی اور آپ بھی رونے لگا۔ ملکہ نے جب غم خواری اور دل داری اس کی بےحد دیکھی، تب ان کی رجا کو استقلال ہوا۔
اس روز اس پیر مرد نے یہ مقرّر کیا کہ صبح کو بھیک مانگنے نکل جاتا۔ جو ٹکرا پارچہ پاتا، ملکہ کے پاس لے آتا اور کھلاتا۔
اس طور سے تھوڑے روز گزرے۔ ایک روز ملکہ نے تیل سر میں ڈالنے اور کنگھی چوٹی کرنے کا قصد کیا۔ جوں ہی مباف کھولا، چٹلے میں سے ایک موتی کا دانہ گول آب دار نکل پڑا۔ ملکہ نے اس درویش کو دیا اور کہا کہ شہر میں اسے بیچ لاؤ۔ وہ فقیر اس گوہر کو بیچ کر اس کی قیمت بادشاہ زادی کے پاس لے آیا۔ تب ملکہ نے حکم کیا کہ ایک مکان موافق گزران کے اسی جگہ بنواؤ۔ فقیر نے کہا اے بیٹی! نیو دیوار کی کھود کر تھوڑی سی مٹی جمع کرو۔ ایک دم میں پانی لا کر گارا کر کر گھر کی بنیاد درست کر دوں گا۔ ملکہ نے اس کے کہنے سے مٹی کھودنی شروع کی۔ جب ایک گز عمیق گڑھا کھود گیا۔ زمین کے نیچے سے ایک دروازہ نمودار ہوا، ملکہ نے اس در کو صاف کیا۔ ایک بڑا گھر جواہر اور اشرفیوں سے معمور نظر آیا۔ ملکہ نے پانچ چار لب اشرفیوں کی لے کر پھر بند کر دیا، اور مٹی دے کر اوپر سے ہموار کر دیا۔
اتنے میں فقیر آیا، ملکہ نے فرمایا کہ راج اور معمار کاریگر اور اپنے کام کے استاد اور مزدور جلد بلاؤ جو اس مکان پر ایک عمارت بادشاہانہ کہ طاقِ کسریٰ کا جفت ہو، اور قصرِ نعمان سے سبقت لے جائے اور شہر پناہ اور قلعہ اور باغ اور باؤلی اور ایک مسافر خانہ کہ لاثانی ہو، جلد تیّار کریں، لیکن پہلے نقشہ ان کا ایک کاغذ پر دست کر کے حضور میں لاویں جو پسند کیا جائے۔ فقیر نے ایسے ہی کارکن، کارکردہ، ذی ہوش لا کر حاضر کیے، موافق فرمانے کے تعمیر عمارت کی ہونے لگی۔ اور نوکر چاکر ہر ایک کارخانہ جات کی خاطر چُن چُن کر فہمیدہ اور بادیانت ملازم ہونے لگے۔ اس عمارت عالیشان کی تیار کی خبر رفتہ رفتہ بادشاہ ظل سبحانی کو جو قبلہ ملکہ کے تھے، پہنچی۔ سن کر بہت متعجّب ہوئے اور ہر ایک سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس نے یہ محلات بنانے شروع کیے ہیں؟ اس کیفیت سے کوئی واقف نہ تھا جو عرض کرے۔ سبھوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ کوئی غلام نہیں جانتا کہ اس کا بانی کون ہے؟ تب بادشاہ نے ایک امیر کو بھیجا اور پیغام دیا کہ میں ان مکانوں کو دیکھنے آیا چاہتا ہوں۔ اور یہ بھی معلوم نہیں تم کہاں بادشاہ زادی ہو اور کس خاندان سے ہو؟ یہ سب کیفیّت دریافت کرنی اپنے تئیں منظور ہے۔ جوں ہی ملکہ نے یہ خوش خبری سنی، دل میں بہت شاد ہو کر عرضی لکھی کہ جہاں پناہ سلامت! حضور کے تشریف لانے کی خبر طرف غریب خانے کی سُن کر نہایت خوشی حاصل ہوئی۔ اور سبب حرمت اور عزّت اس کمترین کا ہوا۔ زہے طالع اس مکان کے! کہ جہاں قدم مبارک کا نشان پڑے، اور وہاں کے رہنے والوں پر دامن دولت سایہ کرے اور نظرِ توجّہ سے وہ دونوں سرفراز ہوویں۔ یہ لونڈی امیدوار ہے کہ کل روز پنج شنبہ مبارک ہے اور میرے نزدیک بہتر نو روز سے ہے۔ آپ کی ذات مشابہ آفتاب کے ہے، تشریف فرما کر اپنے نور سے اس ذرّہ بے مقدار کو قدر و منزلت بخشے۔ اور جو کچھ اس عاجزہ سے میسّر ہو سکے نوش جان فرمائیے۔ یہ عین ریب نوازی اور مسافر پروری ہے، زیادہ حد ادب، اور اس عمدہ کو بھی کچھ تواضع کر رخصت کیا۔
بادشاہ نے عرضی پڑھی اور کہلا بھیجا کہ ہم نے تمہاری دعوت قبول کی، البتّہ آویں گے۔ ملکہ نے نوکروں اور سب کاروباریوں کو حکم کیا کہ لوازمہ ضیافت کا ایسے سلیقے سے تیار ہو کہ بادشاہ دیکھ کر اور کھا کر بہتر محظوظ ہوں اور ادنیٰ اعلیٰ جو بادشاہ کے آویں سب کھا پی کر خوش ہو کر جاویں۔ ملکہ کے فرمانے اور تاکید کرنے سے سب قسم کے کھانے سلونے اور میٹھے ذائقے کے تیّار ہوئے کہ اگر برہمن کی بیٹی کھاتی تو کلمہ پڑھتی۔ جب شام ہوئی بادشاہ منڈے تخت پر سوار ہو کر ملکہ کے مکان کی طرف تشریف لائے۔ ملکہ اپنی جان خواص سہیلیوں کو لے کر استقبال کے واسطے چلیں۔ جوں بادشاہ کے تخت پر نظر پڑے اس آداب سے مجرا شاہانہ کیا کہ یہ قاعدہ دیکھ کر بادشاہ کو اور بھی حیرت نے لیا، اور اسی انداز سے جلوہ کر کر بادشاہ کو تخت مرصع پر لا بٹھایا۔ ملکہ نے سوا لاکھ روپے کا چبوترہ تیّار کروا رکھا تھا اور ایک سو ایک کشتی جواہر اور اشرفی اور پشمینہ اور نوبانی اور ریشمی طلابانی اور زردوزی کی لگا رکھی تھی، اور وہ زنجیر فیل اور دس راس اسپ عراق اور یمنی مرصع کے ساز سے تیّار کر رکھے تھے، نذر گزرانے اور آپ دونوں ہاتھ باندھے روبرو کھڑی رہیں۔ بادشاہ نے بہت مہربانی سے فرمایا کہ تم کس ملک کی شہزادی ہو اور یہاں کس صورت آنا ہوا؟
ملکہ نے آداب بجا کر التماس کیا کہ یہ لونڈی وہی گنہ گار ہے جو غضبِ سلطانی کے باعث جنگل میں پہنچی اور یہ سب تماشے خدا کے ہیں جو آپ دیکھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بادشاہ کے لہو نے جوش مارا۔ اُٹھ کر محبت سے گلے لگا لیا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے تخت کے پاس کرسی بچھوا کر حکم بیٹھنے کا کیا، لیکن بادشاہ حیران اور متعجّب بیٹھے تھے، فرمایا کہ بادشاہ بیگم کو کہو کہ بادشاہ زادیوں کو اپنے ساتھ لے کر جلد آویں۔ جب وہ آئیں، ماں بہنوں نے پہچانا اور گلے مل کر روئیں اور شکر کیا۔ ملکہ نے اپنی والدہ اور چھیوں ہمشیروں کو روبرو اتنا کچھ نقد اور جواہر رکھا کہ خزانہ تمام عالم کا اس کے پاسنگ میں نہ چڑھے، پھر بادشاہ نے سب کو ساتھ بٹھا کر خاصہ نوش جان فرمایا۔ جب تلک جہاں پناہ جیتے رہے اسی طرح گزری۔ کبھو کبھو آپ آتے اور ملکہ کو بھی اپنے ساتھ محلوں میں لے جاتے۔
جب بادشاہ نے رحلت فرمائی اس اقلیم کی ملکہ کو پہنچی کہ ان کے سوا دوسرا کوئی لائق اس کے نہ تھا۔ اے عزیز سرگزشت یہ ہے جو تو نے سنی۔ دولت خداداد کو ہر گز زوال نہیں ہوتا، مگر آدمی کی نیّت درست چاہیے۔ بلکہ جتنی خرچ کرو، اس میں اتنی برکت ہوتی ہے۔ خدا کی قدرت میں تعجب کرنا کسی مذہب میں روا نہیں۔
دائی نے یہ بات کہہ کر آپ اگر قصد وہاں کے جانے کا اور اس خبر لانے کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد روانہ ہو۔ میں نے کہا اسی وقت میں جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر آتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر نظر رکھ اس سمت کو چلا۔
برس دن کے عرصے میں ہرج مرج کھینچتا ہوا شہر نیمروز جا پہنچا۔ جتنے وہاں کے آدمی ہزاری اور بزاری نظر پڑے، سیاہ پوش تھے۔ جیسا احوال سنا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
کئی دن کی بعد چاند رات ہوئی۔ پہلی تاریخ، سارے لوگ اسی شہر کے چھوٹے بڑے لڑکے بالے، امرا، بادشاہ عورت مرد ایک میدان میں جمع ہوئے، میں بھی اپنی حالت میں حیران سرگردان اس کثرت کے ساتھ اپنے مال ملک سے جدا، فقیر کی صورت بنا ہوا کھڑا دیکھتا تھا کہ دیکھیئے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ اتنے میں ایک جوان گاؤ سوار منھ میں کف بھرے، جوش خروش کرتا ہوا جنگل میں سے باہر نکلا۔ یہ عاجز جو اتنی محنت کر کے اس کے احوال دریافت کرنے کی خاطر گیا تھا، دیکھتے ہی اسے حواس باختہ ہو کر حیران کھڑا رہ گیا۔ وہ جوان مرد قدیم قاعدے پر جو جو کام کرتا تھا، کر کر پھر گیا اور خلقت شہر کی طرف متوجہ ہوئی۔ جب مجھے ہوش آیا تب میں پچھتایا کہ یہ کیا تجھ سے حرکت ہوئی۔ اب مہینے بھر پھر راہ دیکھنی پڑی۔ لاچار سب کے ساتھ چلا آیا اور اس مہینے کو ماہ رمضان کی مانند ایک ایک دن گن کر کاٹا۔ بارے دوسری چاند رات آئی مجھے گویا عید ہوئی۔ غرے کو پھر بادشاہ خلقت سمیت وہیں آ کر اکٹھے ہوئے۔ تب میں نے دل میں مصمم ارادہ کیا کہ اب کے بار جو ہو سو ہو اپنے تئیں سنبھال کر اس ماجرائے عجیب کو معلوم کیا چاہیے۔
ناگاہ جوان بدستور زرد بیل پر زین باندھے سوار آ پہنچا، اور اتر کر دو زانو بیٹھا، ایک ہاتھ میں ننگی سیف اور ایک ہاتھ میں بیل ناتھ پکڑی اور مرتبان غلام کو دیا۔ غلام ہر ایک کو دکھا کر لے گیا۔ ایک آدمی دیکھ کر رونے لگا۔ اس جوان نے مرتبان پھوڑا، اور غلام کو ایک تلوار ایسی ماری کہ سر جدا ہو گیا اور آپ سوار ہو کر مڑا۔ میں اس کے پیچھے جلد قدم اٹھا کر چلنے لگا۔ شہر کے آدمیوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا یہ کیا کرتا ہے۔ کیوں جان بوجھ کر مرتا ہے؟ اگر ایسا ہی تیرا دم ناک میں آیا ہے تو بہتیری طرحیں مرنے کی ہیں۔ مر رہیو۔ ہر چند میں نے منت کی اور زور بھی کیا کہ کسو صورت سے ان کے ہاتھ سے چھوٹوں، چھٹکارا نہ ہوا۔ دو چار آدمی لپٹ گئے اور پکڑے ہوئے بستی کی طرف لے آئے۔ عجب طرح کا قلق پھر مہینے بھر گزرا۔ جب وہ بھی مہینہ تمام ہوا اور سلخ کا دن آیا۔ صبح کو اسی صورت سے عالم کا وہاں ازدحام ہوا۔ میں الگ سے نماز کے وقت اٹھ کر آگے ہی جنگل میں، جو عین اس طرح کی راہ پر تھا، گھس چھپ رہا کہ یہاں کوئی میرا مزاحم نہ ہو گا۔ وہ شخص اسی قاعدے سے آیا اور وہی حرکتیں کر کرا سوار ہوا اور چلا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور دوڑتا دھوپتا ساتھ ہو لیا۔ اس عزیز نے آہٹ سے معلوم کیا کہ کوئی چلا آتا ہے۔ ایک بارگی باگ موڑ کر ایک نعرہ مارا اور گھڑکا۔ تلوار کھینچ کر میرے سر پر آ پہنچا۔ چاہتا تھا کہ حملہ کرے۔ میں نے نہایت ادب سے مہر کر سلام کیا اور دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا رہ گیا۔ وہ قاعدہ داں متکلم ہوا کہ اے فقیر تو ناحق مارا گیا ہوتا، پر بچ گیا۔ تیری حیات کچھ باقی ہے۔ جا کہاں آتا ہے؟ اور جڑاؤ خنجر موتیوں کا اور آویزہ لگا ہوا کمر سے نکال میرے آگے پھینکا اور کہا۔ اس وقت میرے پاس کچھ نقد موجود نہیں جو تھے دوں۔ اس کو بادشاہ کے پاس لے جا، جو تو مانگے گا ملے گا۔
ایسی ہیبت اور ایسا رعب اس کا مجھ پر غالب ہوا کہ نہ بولنے کی قدرت نہ چلنے کی طاقت۔ منہ میں گھگھی بندھ گئی پاؤں بھاری ہو گئے۔
اتنا کہہ کر وہ غازی جمرد نعرہ بھرتا ہوا چلا۔ میں نے دل میں کہا ہر چہ بادا باد۔ اب رہ جانا تیرے حق میں برا ہے۔ پھر ایسا وقت نہ ملے گا۔ اپنی جان سے ہاتھ دھو کر میں بھی روانہ ہوا۔ پھر وہ پھرا اور بڑے غصے سے ڈانٹا، اور مقرر ارادہ میرے قتل کا کیا، میں نے سر جھکا دیا اور سوگند دی کہ اے رستم وقت کے، ایسی ہی ایک سیف مار کے صاف دو ٹکڑے ہو جاؤں، ایک تسمہ باقی نہ رہے اور اس حیرانی اور تباہی سے چھوٹ جاؤں۔ میں نے اپنا خون معاف کیا؟ وہ بولا کہ اے شیطان کی صورت، کیوں اپنا خون ناحق میری گردن پر چڑھاتا ہے وہ مجھے گنہ گار بناتا ہے؟ جا اپنی راہ لے، کیا جان بھاری پڑی ہے؟ میں نے اس کا کہا نہ مانا اور قدم آگے دھرا پھر اس نے دیدہ و دانستہ آنا کانی دی اور میں پیچھے لگ لیا۔ جاتے جاتے دو کوس وہ جھاڑ جنگل طے کیا۔
ایک چار دیواری نظر آئی۔ وہ جوان دروازے پر گیا اور ایک نعرہ مہیب مارا۔ وہ در آپ سے آپ کھل گیا۔ وہ اندر بیٹھا۔ میں باہر کا باہر کھڑا رہ گیا۔ الٰہی اب کیا کروں، حیران تھا۔ بارے ایک دم کے بعد غلام آیا اور پیغام لایا کہ چل تجھے روبرو بلایا ہے۔ شاید تیرے سر پر اجل کا فرشتہ آیا ہے۔ کیا تجھے کم بختی لگی تھی۔ میں نے کہا زہے نصیب اور بے دھڑک اس کے ساتھ اندر باغ کے گیا۔
آخر مکان میں لے گیا جہاں وہ بیٹھا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر فراشی سلام کیا۔ اس نے اشارت بیٹھنے کی کی۔ میں ادب سے دو زانو بیٹھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مرد اکیلا ایک مسند پر بیٹھا اور ہتھیار زر گری کے آگے دھرے ہیں۔ اور ایک جھاڑو مرد کا تیار کر چکا ہے۔ جب اس کے اٹھنے کا وقت آیا جتنے غلام اس شہ نشین کے گرد و پیش حاضر تھے، حجروں میں چھپ گئے۔ میں بھی مارے وسواس کے ایک کوٹھڑی میں جا گھسا، وہ جوان اٹھ کر سب مکان کی کنڈیاں چڑھا کر باغ کے کونے کی طرف چلا اور اپنی سواری کے بیل کو مارنے لگا۔ اس کے چلانے کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ کلیجا کانپنے لگا لیکن ماجرے کی دریافت کرنے کی خاطر یہ سب آفتیں یہیں تھیں۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر ایک درخت کے تنے کی آڑ میں جا کر کھڑا ہوا اور دیکھنے لگا۔ جوان نے وہ سونٹا جس سے مارتا تھا۔ ہاتھ سے ڈال دیا اور ایک مکان کا قفل کنجی سے کھولا اور اندر گیا۔ پھر وونہیں باہر نکل کر نرگاؤ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور منہ چوما اور دانہ گھاس کھلا کر ایدھر کو چلا۔ میں دیکھتے ہی جلد دوڑ کر پھر کوٹھڑی میں جا چھپا۔
اس جوان نے زنجیریں سب دروازوں کی کھول دیں۔ سارے غلام باہر نکلے۔ زیر انداز اور سپلچی، آفتابہ لے کر حاضر ہوئے۔ وہ وضو کر کر نماز کی خاطر کھڑا ہوا۔ جب نماز ادا کر چکا پکارا کہ وہ درویش کہاں ہے؟ اپنا نام سنتے ہی میں دوڑ کر روبرو جا کھڑا ہوا۔ فرمایا بیٹھ۔ میں تسلیم کر کر بیٹھا۔ خاصہ آیا اس نے تناول فرمایا مجھے بھی عنایت کیا۔ میں نے بھی کھایا۔ جب دسترخوان بڑھایا اور ہاتھ دھوائے، غلاموں کو رخصت دی کہ جا کر جو رہو۔ جب کوئی اس مکان میں نہ رہا، تب مجھ سے ہم کلام ہوا اور پوچھا کہ اے عزیز تجھ پر کیا ایسی آفت آئی ہے جو تو اپنی موت کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے؟ میں نے اپنا احوال آغاز سے انجام تک جو کچھ گزرتا تھا، تفصیل وار بیان کیا اور کہا۔ آپ کی توجہ سے امید ہے کہ اپنی مراد کو پہنچوں۔
اس نے یہ سنتے ہی ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بے ہوش ہوا اور کہنے لگا بار خدایا عشق کے درد سے تیرے سوا کون واقف ہے۔ جس کی نہ پھٹی ہو، بوائی کیا جانے پیر پرائی۔ اس درد کی قدر درد مند ہو سو جانے۔
آفتوں کو عشق کی عاشق سے پوچھا چاہیے
کیا خبر فاسق کو ہے؟ صادق سے پوچھا چاہیے
بعد ایک لمحے کے ہوش میں آ کر ایک آہ جگر سوز بھری، سارا مکان گونج گیا۔ تب مجھے یقین ہوا کہ یہ بھی اسی عشق کی بلا میں گرفتار اور اسی مرض کا بیمار ہے۔ تب تو میں نے دل چلا کر کہا میں نے اپنا احوال سب عرض کیا۔ آپ توجہ فرما کر اپنی سرگزشت سے بندے کو مطلع فرمائیے۔ توبہ مقدور اپنے پہلے تمہارے واسطے سعی کروں اور دل کا مطلب کوشش کر ہاتھ میں لاؤں۔
القصہ وہ عاشق صادق مجھ کو اپنا ہمراز اور ہمدرد جان کر اپنا ماجرا اور اس صورت سے بیان کرنے لگا کہ سن اے عزیز میں بادشاہ زاد جگر سوز اس اقلیم نیم روز کا ہوں۔ بادشاہ یعنی قبلہ گاہ نے میرے پیدا ہونے کے بعد بخوبی اور رمال اور پنڈت جمع کیئے اور فرمایا کہ احوال شہزادے کے طالعوں کا دیکھو اور جانچو، اور جنم پتری درست کرو اور جو جو کچھ ہونا ہے حقیقت پل پل گھڑی گھڑی اور پہر پہر، دن دن مہینے مہینے اور برس برس مفصل حضور میں عرض کرو۔ بموجب بادشاہ کے سب نے متفق ہو اپنے اپنے علم کی رو سے ٹھہرا اور سادھ کر التماس کیا۔ خدا کے فضل سے ایسی نیک ساعت اور شبھ لگن میں شہزادے کا تولد اور جنم ہوا ہے کہ چاہیے سکندر کی بادشاہت کرے اور نوشیرواں سا عادل ہو اور جتنے علم اور ہنر ہیں، ان میں کامل ہو اور جس کام کی طرف دل اس کا مائل ہو، وہ بخوبی حاصل ہو۔ سخاوت شجاعت میں ایسا نام پیدا کرے کہ حاتم اور رستم کو لوگ بھول جاویں، لیکن چودہ برس تلک سورج اور چاند کے دیکھنے سے ایک بڑا خطرہ نظر آتا ہے بلکہ یہ وسواس ہے کہ جنونی اور سودائی ہو کر بہت آدمیوں کا خون کرے اور بستی سے گھبراوے، جنگل میں جاوے اور چرند پرند کے ساتھ دل بہلاوے، اس کا قید رہے کہ رات دن آفتاب ماہتاب کو نہ دیکھے، بلکہ آسمان کی طرف بھی نگاہ نہ کرنے پاوے، جو اتنی مدت خیر و عافیت سے کٹے تو پھر سارے عمر سکھ اور چین سے سلطنت کرے۔
یہ سن کر بادشاہ نے اس لیے اس باغ کی بنا ڈالی، اور مکان متعدد ہر ایک نقشے کے بنوائے۔ میری تئیں تہ خانے میں پلنے کا حکم کیا اور اوپر ایک برج نمدے کا تیار کروا دیا تو دھوپ اور چاندی اس میں سے چھنے۔ میں دائی دودھ پلائی اور انگاچھو اور کئی خواص کے ساتھ اس محافظت سے اس مکان عالی میں پرورش پانے لگا، اور ایک استاد دانا، کار آزمودہ واسطے میری تربیت کی متعین کیا تو تعلیم ہر علم اور ہنر کی اور مشق ہفت قلم لکھنے کی کرے اور جہاں پناہ ہمیشہ میری خبر گیراں رہتے۔ دم بہ دم کی کیفیت روز مرہ حضور میں عرض ہوتی۔ میں اس مکان ہی کو عالم دنیا جان کر کھلونوں اور رنگ بہ رنگ پھولوں سے کھیلا کرتا اور تمام جہان کی نعمتیں کھانے کے واسطے موجود رہتیں۔ جو چاہتا سو کھاتا۔ دس برس کی عمر تک جتنی صنعتیں اور قابلیتیں تھیں، تحصیل کیں۔
ایک روز اس گنبد کے نیچے روشن دان سے ایک پھول اچنبھے کا نظر پڑا کی دیکھتے دیکھتے بڑا ہوتا جاتا تھا۔ میں نے چاہا کہ ہاتھ سے پکڑ لوں۔ جوں جوں میں ہاتھ لمبا کرتا تھا وہ اونچا ہوتا جاتا تھا۔ میں حیران ہو کر اسے جاتا تک رہا تھا۔ وونہیں ایک آواز قہقہے کی میرے کان میں آئی۔ میں نے اس کے دیکھنے کو گردن اٹھائی دیکھا کہ نمدا چیر کر ایک مکھڑا چاند کا سا نکل رہا ہے۔ دیکھتے ہی اس کے میرے عقل و ہوش بجا نہ رہے۔ پھر اپنے تئیں سنبھال کر دیکھا تو ایک مرصع کا تخت پری زادوں کا کاندھے پر معلق کھڑا ہے اور ایک تخت نشین تاج و جواہر کا سر پر اور خلعت جھلا بور بدن میں پہنے، ہاتھ میں یاقوت کا پیالہ لئے اور شراب پئے ہوئے بیٹھی ہے، وہ تخت بلندی سے آہستہ آہستہ نیچے اتر کر اس برج میں آیا۔ تب پری نے مجھے بلایا، اور اپنے نزدیک بٹھایا۔ باتیں پیار کی کرنے لگی اور منہ سے منہ لگا کر ایک جام شراب گل گلاب کا میرے تئیں پلایا اور کہا آدمی زاد بیوفا ہوتا ہے، لیکن دل ہمارا تجھے چاہتا ہے۔ ایک دم میں ایسی ایسی انداز و ناز کی باتیں کیں کہ دل محو ہو گیا اور ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ زندگی کا مزا پایا، اور یہ سمجھا کہ آج تو دنیا میں آیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ میں تو کیا ہوں، کسو نے یہ عالم نہ دیکھا ہو گا۔ نہ سنا ہو گا اس مزے میں خاطر جمع سے ہم دونوں بیٹھے تھے کہ کریال غلیلا لگا۔ اب اس حادثہ کا ماجرا سن کر وہ نہیں چار پری زاد نے آسمان سے اتر کر کچھ اس معشوقہ کے کان میں کہا۔ سنتے ہی اس کا چہرہ تغیر ہو گیا اور مجھ سے بولی کہ اے پجاری دل تو یہ چاہتا تھا کہ کوئی دم تیرے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاؤں اور اسی طرح ہمیشہ آؤں یا تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ پر یہ آسمان دو شخص کو ایک جگہ آرام سے اور خوشی سے رہنے نہیں دیتا۔ لے جاناں تیرا خدا نگہبان ہے۔
یہ سن کر میرے حواس جاتے رہے اور طوطے ہاتھ کے اڑ گئے۔ میں نے کہا کہ جی اب پھر کب ملاقات ہو گی؟ یہ کیا تم نے غضب کی بات سنائی؟ اگر جلد آؤ گی تو مجھے جیتا پاؤ گی، نہیں تو پچھتاؤ گی یا اپنا ٹھکانا اور نام و نشان بتاؤ کہ میں ہی اس پتے پر ڈھونڈھتے اپنے تئیں تمہارے پاس پہنچاؤں۔ یہ سن کر بولی دور پار شیطان کے کان بہرے، تمہاری صد و بیت سال کی عمر ہووے۔ اگر زندگی ہے تو پھر ملاقات ہو رہے گی۔ میں جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہوں اور کوہ قاف میں رہتی ہوں۔ یہ کہہ کر تخت اٹھایا اور جس طرح اترا تھا وونہیں بلند ہونے لگا۔ جب تلک سامنے تھا، میری اور اس کی چار آنکھیں ہو رہی تھیں، جب نظروں سے غائب ہوا یہ حالت ہو گئی جیسے پری کا سایہ ہوتا ہے۔ عجب طرح کی اداسی دل پر چھا گئی، عقل و ہوش رخصت ہوا، دنیا آنکھوں کے تلے اندھیری ہو گئی، حیران، پریشان اور سر پر خاک اڑانا، کپڑے پھاڑنا، نہ کھانا کھانے کی سدھ نہ بھلے برے کی بدھ
اس عشق کی بدولت کیا کیا خرابیاں ہیں
دل میں اداسیاں ہیں اور اضطرابیاں ہیں
اس خرابی سے دائی اور معلم خبردار ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے بادشاہ کے روبرو گئے اور عرض کی کہ بادشاہ زادہ عالمیان کا یہ حال ہے۔ معلوم نہیں خود بخود کیا غضب ٹوٹا جو ان کا آرام اور کھانا پینا سب چھوٹا۔ تب بادشاہ وزیر امرائے صاحب تدبیر اور حکیم حاذق، منجم صادق، ملا، سیانے، خوب درویش سالک اور مجذوب اپنے ساتھ لے کر اس باغ میں رونق افزا ہوئے۔ میری بے قراری اور نالہ و زاری دیکھ کر ان کی بھی حالت اضطراب کی ہو گئی۔
آب دیدہ ہو کر بے اختیار گلے سے لگا لیا۔ اور اس کی تدبیر کی خاطر حکم کیا۔ حکیموں نے قوتِ دل اور خلل دماغ کے واسطے نسخے لکھے اور ملاؤں نے نقش و تعویذ پلانے اور پاس رکھنے کو دیئے۔ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگے اور نجومی بولے کہ ستاروں کی گردش کے سبب یہ صورت پیش آئی ہے۔ اس کا صدقہ دیجیئے۔
غرض ہر کوئی اپنے اپنے کام کی باتیں کہتا تھا۔ جو گزرتی تھی میرا دل ہی سہتا تھا۔ کسو کی سعی اور تدبیر اور میری تقدیر بد کے کام نہ آئی۔ دن بہ دن دیوانگی کا زور اور میرا بدن بے آب و دانے کم زور ہو چلا۔ رات دن چلانا اور سر ٹپکنا ہی باقی رہا۔ اس حالت میں تین سال گزرے۔ چوتھے برس ایک سوداگر سیر و سفر کرتا ہوا آیا، اور ہر ایک ملک کے تحفے تحائف عجیب و غریب جہاں پناہ کے حضور میں لایا۔ ملازمت حاصل کی۔ بادشاہ نے بہت توجہ فرمائی اور احوال پرسی اس کی کر کے پوچھا کہ تم نے بہت ملک دیکھے، کہیں کوئی حکیم کامل بھی نظر پڑا، یا کسو سے مذکور اس کا سنا؟ اس نے التماس کیا کہ قبلہ عالم غلام نے بہت سیر کی، لیکن ہندوستان میں دریا کے بیچ ایک پہاڑی ہے وہاں ایک گسائیں جٹا دھاری نے بڑا منڈھب مہا دیو کا اور سنگت اور باغ بڑی بہار کا بنایا ہے۔ اس میں رہتا ہے اور اس کا یہ قاعدہ ہے کہ برسویں دن شیو رات کے روز اپنے استھان سے نکل کر دریا میں پیرتا ہے اور خوشی کرتا ہے۔ اشنان کے بعد جب اپنے آسن پر جانے لگتا ہے تب بیمار اور درد مند دیس دیس اور ملک ملک کے جو دور دور سے آتے ہیں دروازے پر جمع ہوتے ہیں، ان کی بڑی بھیڑ ہوتی ہے۔
وہ مہنت جسے اس زمانے کا افلاطون کہا چاہیے، قارورہ اور نبض دیکھتا ہوا اور ہر ایک کو نسخہ لکھ کر دیتا ہوا چلا جاتا ہے۔ خدا نے ایس دست شفا اس کو دیا ہے کہ دور پیتے ہی اثر ہوتا ہے اور وہ مرض بالکل جاتا رہتا ہے۔ یہ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان کو اس کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک ملک کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔
بادشاہ کو بھی اس کی صلاح پسند آئی اور خوش ہو کر فرمایا بہت بہتر، شاید اس کا ہاتھ راس آوے اور میرے فرزند کے دل سے وحشت جاوے، ایک امیر معتبر جہاں دیدہ، کار آزمودہ کو اور اس تاجر کو میر رکاب میں تعینات کیا اور اسباب ضروری ساتھ کر دیا۔ نواڑی، بجرے، مور پنکھی پلوار، لچکے، کھیلنے، الاق، پٹیلیوں پر مع سر انجام سوار کر کر رخصت کیا۔ منزل منزل چلتے چلتے اس ٹھکانے پر جا پہنچے۔ نئی ہوا اور نیا دانہ پانی کھانے پینے سے کچھ مزاج ٹھہرا، لیکن خاموشی کا وہی عالم تھا اور رونے سے کام۔ دم بہ دم اسی پری کی دل سی بھولتی نہ تھی۔ اگر کبھو بولتا تو بیت پڑھتا۔
نہ جانوں کس پری رو کی نظر ہوئی
ابھی تو تھا بھلا چنگا مرا دل
بارے جب وہ تین مہینے گزرے اس پہاڑ پر قریب چار ہزار مریض کے جمع ہوئے، لیکن سب یہی کہتے تھے کہ اب خدا چاہے تو گسائیں اپنے مٹھ سے نکلیں گے اور سب کو ان کے فرمانے سے شفائے کلی ہو گی۔
القصہ جس دن وہ دن آیا، صبح کو جوگی مانند آفتاب سے نکل آیا اور دریا میں نہایا اور پیرا، پار جا کر پھر آیا اور بھبھوت بھسم تمام بدن میں لگایا۔ وہ گورا بدن مانند انگار کے راکھ میں چھپایا اور ماتھے پر ملا گیر کا ٹیکا دیا، لنگوٹ باندھ کر انگوچھا کاندھے پر ڈالا بھالوں کا جوڑا باندھا، موچھوں پر تاؤ دے کر چڑھواں جوتا اڑایا۔ اس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا اس کے نزدیک کچھ قدر نہیں رکھتی۔ ایک قلم دان جڑاؤ بغل میں لے کر ایک ایک کی طرف دیکھتا اور نسخہ دیتا ہوا میرے نزدیک آ پہنچا۔ جب میری اور اس کی چار نظریں ہوئیں، کھڑا رہ کر غور میں گیا اور مجھ سے کہنے لگا ہمارے ساتھ آؤ۔ میں ہم راہ ہو لیا۔
جب سب کی نوبت ہو چکی، میرے تئیں باغ کے اندر لے گیا اور ایک مقطع خوش نقشی خلوت خانے مجھے فرمایا کہ یہاں تم رہا کرو، اور آپ اپنے استھان میں گیا۔ جب ایک چِلا گزرا تو میرے پاس آیا اور آگے کی نسبت مجھے خوش پایا۔ تب مسکرا کر فرمایا کہ اس باغیچے میں سیر کیا کرو۔ جس میوے پر جی چلے کھایا کرو اور ایک قلفی چینی کی معجون بھری ہوئی دی کہ اس میں سے چھ ماشے ہمیشہ بلا ناغہ نوش جان فرمایا کرو۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، اور میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا۔ ہر روز قوت بدن میں اور فرحت دل کی معلوم ہونے لگی، لیکن حضرت عشق کو کچھ اثر نہ کیا۔ اس پری کی صورت نظروں کے آگے پھرتی تھی۔
ایک روز طاق میں جلد کتاب کی نظر آئی۔ اتار کر دیکھا تو سارے علم دن دنیا کے اس میں جمع کئے تھے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا تھا۔ ہر گھڑی اس کا مطالعہ کیا کرتا۔ علم حکمت اور تسخیر میں نہایت قوت بہم پہنچائی۔ اس عرصے میں برس دن گزر گیا۔ پھر وہی خوشی کا دن آیا۔ جوگی اپنے آسن پر سے اٹھ کر باہر نکلا۔ میں نے سلام کیا۔ ان نے قلم دان مجھے دے کر کہا ساتھ چلو۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ جب دروازے سے باہر نکلا ایک عالم دینے لگا۔ وہ امیر اور سوداگر مجھے ساتھ دیکھ کر گسائیں کے قدموں میں گرے اور ادائے شکر کرنے لگے کہ آپ کی توجہ سے بارے اتنا تو ہوا۔ وہ اپنی عادت پر دریا کے گھاٹ تک گیا اور اشنان پوجا جس طرح ہر سال کرتا تھا، پھرتی بار بیماریوں کو دیکھتا بھالتا چلا آتا تھا۔
اتفاقا مسودائیوں کے غول میں ایک جوان خوب صورت شکیل کے ضعف سے کھڑے ہونے کی طاقت اس میں نہ تھی نظر پڑا۔ مجھ کو کہا کہ اس کو ساتھ لے آؤ۔ سب کی دارو درمن کر کے جب خلوت خانے میں گیا۔ تھوڑی سی کھوپڑی اس جوان کی تراش کر، چاہا کہ کنکھجورا جو مغز پر بیٹھا تھا، زنبور سے اٹھا لیوے۔ میرے خیال میں گذرا اور بول اٹھا کہ اگر دست پناہ آگ میں گرم کر کر اس کی پیٹھ پر رکھئے تو خوب ہے۔ آپ سے آپ نکل آوے گا۔ اور جو یوں کھینچے گا تو مغز کے گودے کو نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سن کر میری طرف دیکھا اور چپکا اٹھا باغ کے کونے میں ایک درخت کو لے میں پکڑ جٹا کی لٹ کی گلے میں پھانسی لگا کر رہ گیا۔ میں نے پاس جا کر دیکھا تو واہ واہ یہ تو مر گیا۔ یہ اچنبھا دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔ لاچار جی میں آیا اس کو گارڈ دوں۔ جوں درخت سے جدا کرنے لگا وہ کنجیاں اس کی لٹوں میں سے گر پڑیں۔ میں نے ان کو اٹھا لیا اور اس گنج خوبی کو زمیں میں دفن کیا۔ وہ دونوں کنجیاں لے کر سب قفلوں میں لگانے لگا۔ اتفاقاً دو حجروں کے تالے ان تالیوں سے کھلے۔ دیکھا تو زمیں سے چھت تلک جواہر بھرا ہوا ہے۔ اور ایک پیٹی مخمل سے مڑھی سونے کے پتر لگی قفل دی ہوئی ایک طرف دھری ہے۔ اس کو جو کھولا تو ایک کتاب دیکھی کہ اس میں اسم اعظم اور حاضرات جن و پری کی اور روحوں کی ملاقات اور تسخیر آفتاب کی ترکیب لکھی ہے۔
ایسی دولت کے ہاتھ لگنے سے نہایت خوشی حاصل ہوئی اور ان پر عمل کرنا شروع کیا۔ دروازہ باغ کا کھول اپنے اس امیر اور ساتھ والوں کو کہا کہ کشتیاں منگوا کر یہ سب جواہر و نقد جنس اور کتابیں بار کر لو اور ایک نواڑے پر آپ سوار ہو کر وہاں سے بحر کو روانہ کیا۔ آتے آتے جب نزدیک اپنے ملک کے پہنچا، جہاں پناہ کو خبر ہوئی۔ سوار ہو کر استقبال کیا اور اشتیاق سے بے قرار ہو کر کلیجے سے لگا لیا۔ میں نے قدم بوسی کر کر کہا کہ اس خاک سار کو قدیم باغ میں رہنے کا حکم ہوا۔ بولے کہ اے برخوردار وہ مکان میرے نزدیک منحوس ٹھہرا۔ لہٰذا اس کی مرمت اور تیاری موقوف کی۔ اب وہ مکان لائق انسان کے رہنے کے نہیں رہا۔ اور جس محل میں جی چاہے، اترو۔ بہتر یوں ہے کہ قلعے میں کوئی جگہ پسند کر کے میری آنکھوں کے روبرو رہو اور پائیں باغ جیسا چاہو تیار کروا کر سیر تماشا کرو۔ میں نے بہت ضد اور ہٹ کر کر اس باغ کو نئے سرے سے تعمیر کروا دیا اور بہشت کی مانند آراستہ کر داخل ہوا۔ پھر فراغت سے جنوں کی تسخیر کی خاطر چلے بیٹھا اور ترک حیوانات کر کر حاضرات کرنے لگا۔
جب چالیس دن پورے ہوئے تب آدھی رات کو ایک ایسی آندھی آئی کہ بڑی بڑی عمارتیں گر پڑیں اور درخت جڑ پیڑ سے اکھڑ کر کہیں سے کہیں جا پڑے، اور پری زادیوں کا لشکر نمودار ہوا۔
ایک تخت ہوا سے اترا۔ اس پر ایک شخص شاندار موتیوں کا تاج اور خلعت پہنے ہوئے بیٹھا تھا۔ میں نے دیکھتے ہی بہت مودب ہو کر سلام کیا۔ اس نے میرا سلام لیا اور کہا اے عزیز! یہ کیا تو نے ناحق دند مچایا؟ ہم سے تجھے کیا مدّعا ہے؟ میں نے التماس کیا کہ یہ عاجز بہت مدت سے تمہاری بیٹی پر عاشق ہے، اور اسی لیے کہاں سے کہاں خراب و خستہ ہوا اور جیتے جی موا۔ اب زندگی سے بھی تنگ آیا ہوں اور اپنی جان پر کھیلا ہوں، جو یہ کام کیا ہے۔ اب آپ کی ذات سے امیدوار ہوں کہ مجھ حیران سرگردان کو اپنی توجہ سے سرفراز کرو، اور اس کے دیدار سے زندگی اور آرام بخشو تو بڑا ثواب ہو گا۔ یہ میری آرزو سن کر بولا کہ آدمی خاکی اور ہم آتشی، ان دونوں میں موافقت آنی مشکل ہے۔ میں نے قسم کھائی کہ ان کے دیکھنے کا میں مشتاق ہوں اور کچھ مطلب نہیں۔ پھر اس تخت نشین نے جواب دیا کہ انسان اپنے قول و قرار پر نہیں رہتا۔ غرض کے وقت پر سب کچھ کہتا ہے لیکن یاد نہیں رکھتا۔ یہ بات میں تیرے بھلے کے لیے کہہ سناتا ہوں کہ اگر تو نے کبھی قصد کچھ اور کیا تو وہ بھی اور تو بھی دونوں خراب اور خستہ ہو گئے، بلکہ خوف جان کا ہے۔ میں نے پھر دوبارہ سوگندہ یاد کی کہ جس میں طرفین کی برائی ہو، ویسا کام ہر گز نہ کروں گا۔ مگر ایک نظر دیکھتا رہوں گا۔ یہ باتیں ہوتیاں تھیں کہ انچت وہ پری کہ جس کا مذکور تھا، نہایت ٹھسے سے بناؤ کیے ہوئے آ پہنچی اور بادشاہ کا تخت وہاں سے چلا گیا۔ تب میں نے بے اختیار اس پری کو جان کی طرح بغل میں لے لیا اور یہ شعر پڑھا:
کماں ابرو مرے گھر کیوں نہ آوے کہ جس کے واسطے کھینچے ہیں چلّے
اسی خوشی کے عالم میں باہم اس باغ میں رہنے لگے۔ مارے ڈر کے کچھ اور خیال نہ کرتا۔ بلائی مزے لیتا اور فقط دیکھا کرتا۔ وہ پری میرے قول و قرار کے نباہنے پر دل میں حیران رہتی اور بعضے وقت کہتی کہ پیارے! تم بھی اپنی بات کے بڑے سچے ہو، لیکن ایک نصیحت میں دوستی کی راہ سے کرتی ہوں۔ اپنی کتاب سے خبردار رہیو کہ جن کسی نہ کسی دن تمہیں غافل پا کر چرا کر لے جائیں گے۔ میں نے کہا اسے میں اپنی جان کے برابر رکھتا ہوں۔
اتفاقاً ایک روز رات کو شیطان نے ورغلایا۔ شہوت کی حالت میں یہ دل میں آیا کہ جو کچھ ہو سو ہو، کہاں تلک اپنے تئیں تھانبوں؟ اسے چھاتی سے لگایا اور قصد جماع کا کیا۔ وونہیں ایک آواز آئی۔ یہ کتاب مجھ کو دے کہ اس میں اسم اعظم ہے، بے ادبی نہ کر۔ اس مستی کے عالم میں کچھ ہوش نہ رہا۔ کتاب بغل سے نکال کر بغیر جانے پہچانے حوالے کر دی اور اپنے کام میں لگا۔ وہ نازنین یہ میری نادانی کی حرکت دیکھ کر بولی کہ ظالم! آخر چوکا اور نصیحت بھولا۔
یہ کہہ کر بے ہوش ہو گئی اور میں اس کے سرہانے ایک دیو دیکھا کی کتاب لیے کھڑا ہے۔ چاہا کہ پکڑ کر خوب ماروں اور کتاب چھین لوں۔ اتنے میں اس کے ہاتھ سے کتاب دوسرا لے بھاگا۔ میں نے جو افسوں یاد کیے تھے، پڑھنے شروع کیے۔ وہ جن جو کھڑا تھا بیل بن گیا، لیکن افسوس کہ پری ذرا بھی ہوش میں نہ آئی اور وہی حالت بے خودی کی رہی۔ تب میرا دل گھبرایا۔ سارا عیش تلخ ہو گیا۔
اس روز آدمیوں سے نفرت ہوئی۔ اس باغ کے گوشے میں پڑا رہتا ہوں اور دل بہلانے کی خاطر یہ مرتبان زمرد کا جھاڑ دار بنایا کرتا ہوں، اور ہر مہینے اس میدان میں اس بیل پر سوار ہو کر جایا کرتا ہوں۔ مرتبان کو توڑ کر غلام کو مار ڈالتا ہوں۔ اس امید پر کہ سب میری حالت دیکھیں اور افسوس کھاویں۔ شاید کوئی ایسا خدا کا بندہ مہربان ہو کہ میرے حق میں دعا کرے تو میں بھی اپنے مطلب کو پہنچوں۔
اے رفیق! میرے جنون اور سودا کی یہ حقیقت ہے جو میں نے تجھے کہہ سنائی۔ میں سن کر آبدیدہ ہوا اور بولا کہ اے شہزادے! تو نے واقعی عشق کی بڑی محنت اٹھائی۔ لیکن قسم خدا کی کھاتا ہوں کہ میں اپنے مطلب سے درگزرا۔ اب تیری خاطر جنگل پہاڑ پھروں گا اور جو مجھ سے ہو سکے گا کروں گا۔ یہ وعدہ کر کر میں جوان سے رخصت ہوا، اور پانچ برس تک سودائی سا ویرانے میں خاک چھانتا پھرا، سراغ نہ ملا۔
آخر اکتا کر ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور چاہا کہ اپنے تئیں گرا دوں کہ ہڈی پسلی کچھ ثابت نہ رہے۔ وہی ایک سوار برقع پوش آ پہنچا اور بولا کہ اپنی جان مت کھو، تھوڑے دنوں کے بعد تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا۔ یا سائیں اللہ! تمہارے دیدار تو میسر ہوئے۔ اب خدا کے فضل سے امیدوار ہوں کہ خوشی اور خرمی حاصل ہو۔ اور سب نامراد اپنی مراد کو پہنچیں۔
جب دوسرا درویش بھی اپنی سیر کا قصہ کہہ چکا، رات آخر ہو گئی اور وقت صبح کا شروع ہونے پر آیا۔ بادشاہ آزاد بخت چپکا اپنے دولت خانے کی طرف روانہ ہوا۔ محل میں پہنچ کر نماز ادا کی۔ پھر غسل خانے میں جا کر خلعت فاخرہ پہن کر دیوان عام میں تخت پر نکل بیٹھا۔ اور حکم کیا کہ یساول جاوے۔ چار فقیر فلانے مکان پر وارد ہیں۔ ان کو با عزت اپنے ساتھ حضور میں لے آوے۔
بموجب حکم کے چوب دار وہاں گیا۔ دیکھا تو چاروں بے نوا، جھاڑا جھٹکا، پھر ہاتھ منہ دھو کر چاہتے ہیں کہ وسا کریں اور اپنی اپنی راہ لیں۔ چیلے نے کہا، شاہ جی نے چاروں صورتوں کو طلب فرمایا۔ میرے ساتھ چلیے۔ چاروں درویش آس میں ایک ایک کو تکنے لگے اور چوب دار سے کہا بابا!ً ہم اپنے دل کے بادشاہ ہیں۔ ہمیں دنیا کے بادشاہ سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا میاں اللہ! مضائقہ نہیں اگر چلو تو اچھا ہے۔ اتنے میں چاروں کو یاد آیا کہ مولا مرتضیٰ نے جو فرمایا تھا، سو اب پیش آیا۔ خوش ہوئے اور یساول کے ہمراہ چلے۔ جب قلعے میں پہنچے اور روبرو بادشاہ کے گئے، چاروں قلندروں نے دعا دی کہ بابا! تیرا بھلا ہو۔ بادشاہ دیوان خاص میں جا بیٹھے، اور دو چار خاص امیروں کو بلایا، اور فرمایا کہ چاروں گدڑی پوشوں کو بلاؤ۔ جب وہاں گئے حکم بیٹھنے کا کیا۔ احوال پرسی فرمائی کہ تمہارا کہاں سے آنا ہوا، اور کہاں کا ارادہ ہے؟ مکان مرشدوں کے کہاں ہیں؟
انہوں نے کہا کہ بادشاہ کی عمر و دولت زیادہ رہے۔ ہم فقیر ہیں۔ ایک مدت سے خانہ بدوش اسی طرح سیر و سفر کرتے پھرتے ہیں۔ وہ مثل ہے فقیر کو جہاں شام ہوئی وہیں گھر ہے۔ اور جو کچھ اس دنیائے ناپائدار میں دیکھا ہے کہاں تک بیان کریں؟ آزاد بخت نے بہت تسلی اور تشفی کی اور کھانے کو منگوا کر اپنے روبرو ناشتہ کروایا، جب فارغ ہوئے، پھر فرمایا کہ اپنا ماجرا تمام بے کم و کاست مجھ سے کہو۔ جو مجھ سے تمہاری خدمت ہو سکے گی قصور نہ کروں گا۔
فقیروں نے جواب دیا کہ ہم پر جو کچھ بیتا ہے، نہ ہمیں بیان کرنے کی طاقت ہے اور نہ بادشاہ کے سننے سے فرحت ہو گی، اس کو معاف کیجیے۔ تب بادشاہ نے تبسم کیا، اور کہا۔ شب کو جہاں تم بستروں پر بیٹھے اپنا احوال کہہ رہے تھے، وہاں میں بھی موجود تھا، چنانچہ دو درویش کا احوال سن چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ دونوں جو باقی ہیں، وے بھی کہیں اور چند روز بخاطر جمع میرے پاس رہیں کہ قدم درویشان ردِّ بلا ہے۔ بادشاہ سے یہ بات سنتے ہی مارے خوف کے کانپنے لگے اور نیچے کر کے چپ ہو رہے۔ طاقت گویائی کی نہ رہی۔
آزاد بخت نے جب دیکھا کہ اب ان میں مارے رعب کے حواس نہیں رہے، جو کچھ بولیں۔ فرمایا کہ اس جہاں میں کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس پر ایک نہ ایک واردات عجیب و غریب نہ ہوئی ہو گی۔ باوجودے کہ بادشاہ ہوں لیکن میں نے ایسا تماشا دیکھا ہے کہ پہلے میں ہی اس کا بیان کرتا ہوں۔ تم بہ خاطر جمع سنو! درویشوں نے کہا۔ بادشاہ سلامت آپ کا الطاف فقیروں پر ایسا ہی ہے۔ ارشاد فرمائیے۔
آزاد بخت نے اپنا احوال کہنا شروع کیا اور کہا۔
اے شاہو! بادشاہ کا اب ماجرا سنو
جو کچھ کہ میں نے دیکھا ہے اور ہے سنا، سنو
کہتا ہوں میں فقیر کی خدمت میں سر بسر
احوال میرا خوب طرح دل لگا سنو
میرے قبلہ گاہ نے جب وفات پائی اور میں اس تخت پر بیٹھا۔ عین عالم شباب کا تھا۔ اور سارا یہ ملک روم کا میرے حکم میں تھا۔ اتفاقاً ایک سال کوئی سوداگر بدخشاں کے ملک سے آیا، اور اسباب تجارت کا بہت سا لایا۔ خبرداروں نے میرے حضور میں خبر کی کہ ایسا بڑا تاجر آج تک شہر میں نہیں آیا۔ میں نے اس کو طلب فرمایا۔
وہ تحفے ہر ایک ملک کے لائق میری نذر کے لے کر آیا۔ فی الواقع ہر ایک جنس بے بہا نظر آئی۔ چنانچہ ایک ڈبیا میں ایک لعل تھا نہایت خوش رنگ اور آبدار، قد و قامت درست وزن میں پانچ مثقال کا۔ میں نے باوجود سلطنت کے ایسا جواہر کبھو نہ دیکھا تھا اور نہ کسو سے سنا تھا۔ پسند کیا۔ سوداگر کو بہت سا انعام و اکرام دیا اور سند راہ داری کی لکھ دی کہ اس سے ہماری تمام قلمرو میں کوئی مزاحم محصول کا نہ ہو اور جہاں جاوے اس کو آرام سے رکھیں۔ چوکی پہرے میں رہیں اس کا نقصان اپنا نقصان سمجھیں۔ وہ تاجر حضور میں دربار کے وقت حاضر رہتا اور آدابِ سلطنت سے خوب واقف تھا۔ اور تقریر و خوش گوئی اس کے لائق سننے کے تھی اور میں اس لعل کو ہر روز جواہر خانے سے منگوا کر سرِ دربار دیکھا کرتا۔
ایک روز دیوان عام کیے بیٹھا، اور امراء و ارکان دولت اپنے اپنے پائے پر کھڑے تھے۔ اور ہر ملک کے بادشاہوں کے ایلچی مبارک باد کی خاطر جو آئے تھے، وہ بھی سب حاضر تھے۔ اس وقت میں نے موافق معمول کے اس لعل کو منگوایا، جواہر خانے کا داروغہ لے کر آیا۔ میں ہاتھ میں لے کر تعریف کرنے لگا اور فرنگ ایلچی کو دیا ان کو دیکھ کر تبسم کیا اور زمانہ سازی سے صفت کی۔ اس طرح ہاتھوں ہاتھ ہر ایک نے لیا اور دیکھا اور ایک زبان ہو کر بولے قبلہ عالم کے اقبال کے باعث یہ میسر ہوا ہے۔ واللہ کسو بادشاہ کے ہاتھ آج تک ایسا رقم بے بہا نہیں لگا۔ اس وقت میرے قبلہ گاہ کا وزیر کہ مرد دانا تھا کہ اسی خدمت پر سرفراز تھا، وزارت کی چوکی پر کھڑا تھا، آداب بجا لایا، اور التماس کیا کہ کچھ عرض کیا چاہتا ہوں اگر جان بخشی ہو۔
میں نے حکم کیا کہہ۔ وہ بولا قبلہ عالم آپ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں سے بہت بعید ہے کہ ایک پتھر کی تعریف کریں۔ اگرچہ رنگ ڈھنگ سنگ میں لاثانی ہے، لیکن سنگ ہے اور اس دم سب ملکوں کے ایلچی دربار میں حاضر ہیں۔ جب اپنے اپنے شہر میں جاویں گے البتہ یہ نقل کریں گے کہ عجب بادشاہ ہے کہ ایک لعل کہیں سے پایا ہے، اسے ایسا تحفہ بنایا ہے کہ ہر روز روبرو منگاتا ہے اور آپ اس کی تعریف کر کر سب کو دکھاتا ہے۔ پس جو بادشاہ یا راجہ احوال سنے گا، اپنی مجلس میں ہنسے گا۔ خداوند! ایک ادنیٰ سوداگر نیشاپور میں ہے۔ اس نے بارہ دانے لعل کے ہر ایک سات سات مثقال کا ہے، پٹے میں نصب کر کر کتے کے گلے میں ڈال دیے۔ مجھے سنتے ہی غصہ چڑھ آیا۔ اور کھسیانے ہو کر فرمایا کہ اس وزیر کی گردن مار دو۔ جلادوں نے وونہیں اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور چاہا کہ باہر لے جاویں۔ فرنگ کے بادشاہ کا ایلچی دست بستہ روبرو آ کھڑا ہوا۔ میں نے پوچھا کہ تیرا کیا مطلب ہے؟ اس نے عرض کی امیدوار ہوں کہ تقصیر سے وزیر کی واقف ہوں۔ میں نے فرمایا کہ جھوٹ بولنے سے اور بڑا گناہ کونسا ہے۔ خصوصاً بادشاہوں کے روبرو؟ اس نے کہا اس کا دروغ ثابت نہیں ہوا۔ شاید خچہ عرض کی ہے، سچ ہو۔ ابھی بے گناہ کا قتل کرنا درست نہیں۔ اس کا میں نے یہ جواب دیا کہ ہر گز پھرتا ہے اور کوڑی کوڑی جمع کرتا ہے بارہ دانے لعل کے جو وزن میں سات سات مثقال کے ہوں، کتے کے پٹے میں لگاوے۔ اس نے کہا۔ خدا کی قدرت سے تعجب نہیں۔ شاید کہ باشد ایسے تحفے اکثر سوداگروں اور فقیروں کے ہاتھ آتے ہیں۔ اس واسطے کی یہ دونوں ہر ایک ملک میں جاتے ہیں اور جہاں سے جو کچھ پاتے ہیں، لے آتے ہیں۔ صلاح دولت یہ ہے کہ اگر وزیر ایسا ہی تقصیر وار ہے تو حکم قید کا ہو۔ اس لیے کہ بادشاہوں کی عقل ہوتے ہیں، اور یہ حرکت سلاطیوں سے بدنما ہے کہ ایسی بات پر کہ جھوٹ سچ اس کا ابھی ثابت نہیں ہوا، حکم قتل کر فرمائیں اور اس کی تمام عمر کی خدمت اور نمک حلالی بھول جائیں۔
بادشاہ سلامت! اگلے شہر یاروں نے بندی خانہ اسی سبب ایجاد کیا کہ بادشاہ یا سردار اگر کسو پر غضب ہوں تو اسے قید کریں۔ کئی دن میں غصہ جاتا رہے گا، اور بے تقصیری اس کی ظاہر ہو گی۔ بادشاہ خون ناحق سے محفوظ رہیں گے۔ کل کو روز قیامت میں ماخوذ نہ ہوئیں گے۔
میں نے جتنا اس کے قائل کرنے کو چاہا اس نے ایسی معقول گفتگو کی کہ مجھے لاجواب کیا۔ تب میں نے کہا کہ خیر تیرا کہنا پذیرا ہوا۔ میں خون سے اس کے درگذرا لیکن زندان میں مقید رہے گا۔ اگر ایک سال کے عرصے میں اس کا سخن راست ہوا کہ ایسے لعل کتے کے گلے میں ہیں تو اس کی نجات ہو گی۔ اور نہیں تو بڑے عذاب سے مارا جاوے گا۔ فرمایا کہ وزیر کو پنڈت خانے میں لے جاؤ۔ یہ سن کر ایلچی نے زمین خدمت کی چومی اور تسلیمات کی۔
جب یہ خبر وزیر کے گھر میں گئی، آہ واویلا مچا اور ماتم سرا ہو گیا۔ اس وزیر کی ایک بیٹی تھی برس چودہ پندرہ کی۔ نہایت خوب صورت اور قابل، نوشت و خواند میں درست۔ وزیر اس کو نپٹ پیار کرتا تھا اور عزیز رکھتا تھا، چنانچہ اپنے دیوان خانے کے پچھواڑے ایک رنگ محل اس کی خاطر بنوا دیا تھا۔ اور لڑکیاں عمدوں کی اس کی مصاحبت میں اور خواصیں تکمیل خدمت میں رہتیں۔ ان سے ہنسی خوشی کھیلا کودا کرتی۔
اتفاقاً جس دن وزیر کو محبوس خانے میں بھیجا، وہ لڑکی اپنی ہم جولیوں میں بیٹھی تھی اور خوشی سے گڑیا کا بیاہ رچایا تھا۔ اور ڈھولک پکھاوج لیے ہوئے رت جگے کی تیاری کر رہی تھی۔ اور کڑاہی چڑھا کر گلگلے اور تلتی اور بنا رہی تھی کہ ایک بارگی اس کی ماں روتی پیٹتی، سر کھلے، پاؤں ننگے، بیٹی کے گھر میں گئی اور دو ہتڑ اس لڑکی کے سر پر ماری اور کہنے لگی کاش کہ تیرے بدلے خدا اندھا بیٹا تو میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا۔ اور باپ کا رفیق ہوتا۔ وزیر زادی نے پوچھا۔ اندھا بیٹا تمہارے کس کام آتا؟ جو کچھ بیٹا کرتا میں بھی کر سکتی ہوں۔ امّاں نے جواب دیا خاک تیرے سر پر یہ بپتا بیتی ہے کہ بادشاہ کو روبرو کچھ ایسی بات کہی کہ بندی خانے میں قید ہوا۔ اس نے پوچھا وہ کیا بات تھی؟ ذرا میں بھی تو سنوں تب وزیر کے قبیلے نے کہا کہ تیرے باپ نے شاید یہ کہا کہ نیشاپور میں کوئی سوداگر ہے۔ اس نے بارہ عدد لعل بے بہا کتے کے پٹے میں ٹانکے ہیں۔ بادشاہ کو باور نہ ہوا۔ اس نے جھوٹا سمجھا اور اسیر کیا۔ اگر آج کے دن بیٹا ہوتا تو ہر طرح سے کوشش کر کر اس بات کی تحقیق کرتا، اور اپنے باپ کا اپرالا کرتا۔ اور بادشاہ سے عرض معرض کر کے میرے خاوند کو پنڈت خانے سے مخلصی دلواتا۔
وزیر زادی بولی۔ امّاں جان! تقدیر سے لڑا نہیں جاتا۔ چاہیے انسان بلائے ناگہانی میں صبر کرے اور امیدوار فضل الٰہی کا رہے۔ وہ کریم ہے مشکل کسو کی اٹکی نہیں رکھتا اور رونا دھونا خوب نہیں۔ مبادا دشمن اور طرح سے بادشاہ کے پاس لگا دیں اور لترے چغلی کھاویں کہ باعث زیادہ خفگی کا ہو۔ بلکہ جہاں پناہ کے حق میں دعا کرو۔ ہم اس کے خانہ زاد ہیں۔ وہ ہمارا خداوند ہے۔ وہی غضب ہوا ہے، وہی مہربان ہو گا۔ اس لڑکی نے عقل مندی سے ایسی ایسی طرح ماں کو سمجھایا کہ کچھ اس کو صبر و قرار آیا۔ تب اپنے محل میں گئی اور چپکی ہو رہی۔ جب رات ہوئی وزیر زادی نے دادا کو بلایا۔ اس کے ہاتھ پاؤں پڑی، بہت سی منت کی اور رونے لگی اور کہا۔ میں یہ ارادہ رکھتی ہوں کہ امّاں جان کا طعنہ مجھ پر نہ رہے اور میرا باپ مخلصی پاوے۔ جو تیرا رفیق ہو تو میں نیشاپور کو چلوں اور اس تاجر کو، جس کے کتے کے گلے میں ایسے لعل ہیں، دیکھ کر جو بن آوے لے کر آؤں اور اپنے باپ کو چھڑاؤں۔
پہلے تو اس مرد نے انکار کیا آخر بہت کہنے سننے سے راضی ہوا۔ تب وزیر زادی نے فرمایا۔ چپکے چپکے اسباب سفر کا درست کر اور جنس تجارت کے لائق نذر بادشاہوں کے خرید کر، اور غلام و نوکر چاکر جتنے ضرور ہوں ساتھ لے۔ لیکن یہ بات کسو پر نہ کھلے۔ دادا نے قبول کیا اور اس کی تیاری میں لگا۔ جب سب اسباب مہیا کی اونٹوں اور خچروں پر بار کر کر روانہ ہوا۔ اور وزیر زادی بھی لباس مردانہ پہن کر ساتھ جا ملی ہر گز کسو کو خبر نہ ہوئی۔ جب صبح ہوئی۔ وزیر کے محل میں چرچا ہوا کہ وزیر زادی غائب ہے۔ معلوم نہیں کیا ہوئی۔
آخر بدنامی کے ڈر سے ماں نے بیٹی کا گم ہونا چھپایا، اور وہاں وزیر زادی نے اپنا نام سوداگر بچہ رکھا۔ منزل بہ منزل چلتے چلتے نیشاپور میں پہنچی۔ خوشی بہ خوشی کارواں سرا میں جا اتری، اور سب اپنا اسباب اتارا۔ رات کو رہی۔ فجر کی حمام میں ہو گئی۔ اور پوشاک پاکیزہ جیسے روم کے باشندے پہنتے ہیں پہنی، شہر کی سیر کے واسطے نکلی۔ آتے آتے جب چوک میں پہنچی چوراہے پر کھڑی ہوئی۔ ایک طرف دکان جوہری کی نظر پڑی کہ بہت سے جواہر کا ڈھیر لگ رہا ہے، اور غلام فاخرہ لباس پہنے ہوئے دست بستہ کھڑے ہیں۔ اور ایک شخص جو سردار ہے برس پچاس ایک کی اس کی عمر ہے، طالع مندوں کی سی خلعت اور نمیہ آستیں پہنے ہوئے اور کئی صاحب با وضع نزدیک اس کے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ اور آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔
وزیر زادی، جس نے اپنے تئیں سوداگر بچہ مشہور کیا تھا اسے دیکھ کر متعجب ہوئی اور دل میں سمجھ کر خوش ہوئی کہ خدا جھوٹ نہ کرے، جس سوداگر کا میرے باپ نے بادشاہ سے مذکور کیا ہے، اغلب ہے کہ یہی ہو۔ بار خدایا اس کا احوال مجھ پر ظاہر کر۔
اتفاقاً ایک طرف جو دیکھا تو ایک دکان ہے اس میں دو پنجرے آہنی لٹکے ہیں اور ان دونوں میں دو آدمی قید ہیں۔ ان کی مجنون کی سی صورت ہو رہی ہے، کہ چرم و استخوان باقی ہے، اور سر کے بال اور ناخن بڑھ گئے ہیں، سر اوندھائے بیٹھے ہیں۔ اور وہ حبشی بد ہیئت مسلح دونوں طرف کھڑے ہیں۔ سوداگر بچے کو اچنبھا آیا۔ لاحول پڑھ کر دوسری طرف جو دیکھا تو ایک دکان میں غالیچے بچھے ہیں۔ ان پر ایک چوکی ہاتھی دانت کی، اس پر گدیلا مخمل کا پڑا ہوا، ایک کتا جواہر کا پٹا گلے میں اور سونے کی زنجیر سے بندھا ہوا بیٹھا ہے، اور دو غلام امرد خوب صورت اس کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک تو مور چھل جڑاؤ دستے کا لیے جھلتا ہے اور دوسرا مال تار کشی کا ہاتھ میں لے کر منہ اور پاؤں اس کا پونچھ رہا ہے۔ سوداگر بچے نے خوب غور کر کر جو دیکھا تو پٹے میں کتے کے بارہوں لعل کے جیسے سنے تھے موجود ہیں۔ شکر خدا کیا اور فکر میں گیا کہ کس صورت سے ان لعلوں کو بادشاہ کے پاس لے جاؤں اور دکھا کر اپنے باپ کو چھڑاؤں؟ یہ تو اس حیرانی میں تھا اور تمام خلقت چوک اور رستے کی اس کا حسن و جمال دیکھ کر حیران تھی اور ہکا بکا ہو رہی تھی۔ سب آدمی آپس میں یہ چرچا کرتے تھے کہ آج تک اس صورت و شبیہ کا انسان نظر نہیں آیا۔ اس خواجہ نے بھی دیکھا۔ ایک غلام کو بھیجا کہ تو جا کر بہ منت اس سوداگر بچے کو میرے پاس بلا لا۔
وہ غلام آیا اور خواجہ کا پیام لایا۔ اگر مہربانی فرمائیے تو ہمارا خداوند صاحب کا مشتاق ہے، چل کر ملاقات کیجیے۔ سوداگر بچہ تو یہ چاہتا ہی تھا، بولا کیا مضائقہ جوں ہی خواجہ کے نزدیک آیا اور اس پر خواجہ کی نظر پڑی، ایک برچھی عشق کی سینے میں گرے، تعظیم کی خاطر سروقد اٹھا، لیکن حواس باختہ۔ سوداگر بچہ نے دریافت کیا کہ اب یہ دام آیا۔ آپس میں بغل گیر ہوئے۔ خواجہ نے سوداگر بچے کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے برابر بٹھایا۔ بہت سا تملق کر کے پوچھا کہ اپنے نام و نسب سے مجھے آگاہ کرو، کہاں سے آنا ہوا، اور کہاں کا ارادہ ہے؟ سوداگر بچہ بولا کہ، اس کمترین کا وطن روم ہے اور قدیم سے استنبول زاد بوم ہے۔ میرے قبلہ گاہ سوداگر ہیں۔ اب بہ سبب پیری کے طاقت سیر و سفر کی نہیں رہی۔ اس واسطے مجھے رخصت کیا ہے کہ کاروبار تجارت کا سیکھوں۔ آج تک میں نے قدم گھر سے باہر نہ نکالا تھا۔ یہ پہلا ہی سفر درپیش ہوا۔ دریا کی راہ ہواؤ نہ پڑا، خشکی کی طرف سے قصد کیا۔ لیکن اس عجم کے ملک میں آپ کے اخلاق اور خوبیوں کا جو شور ہے، محض آپ کی ملاقات کی آرزو یہاں تک آیا ہوں۔ بارے فضل الٰہی سے خدمت شریف میں مشرف ہوا۔ اور اس سے زیادہ پایا۔ تمنا دل کی بر آئی خدا سلامت رکھے۔ اب یہاں سے کوچ کروں گا۔ یہ سنتے ہیں خواجہ کے عقل و ہوش جاتے رہے۔ بولا اے فرزند! ایسی بات مجھے نہ سناؤ۔ کوئی دن غریب خانے میں قدم فرماؤ۔ بھلا یہ تو بتاؤ کہ تمہارا اسباب اور نوکر چاکر کہاں ہیں؟ سوداگر بچے نے کہا کہ مسافر کا گھر سرا ہے، انہیں وہاں چھوڑ کر میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ خواجہ نے کہا بھٹیار خانے میں رہنا مناسب نہیں۔ میرا اس شہر میں اعتبار ہے، اور بڑا نام ہے۔ جلد انہیں بلوا لو۔ میں ایک مکان تمہارے اسباب کے لیے خالی کر دیتا ہوں۔ جو کچھ جنس لائے ہو، میں دیکھوں۔ ایسی تدبیر کروں گا کہ یہیں تمھیں بہت سا منافع ملے۔ تم بھی خوش ہو گے اور سفر کے حرج مرج سے بچو گے اور مجھے بھی چند روز رہنے سے اپنا احسان مند کرو گے۔ سوداگر بچے نے اوپری دل سے عذر کیا۔ لیکن خواجہ نے پذیرا نہ کیا۔ اور اپنے گماشتے کو فرمایا کیا بار بردار جلدی بھیجو اور کارواں سرا سے ان کا اسباب منگوا کر فلانے مکان میں رکھواؤ۔
سوداگر بچے نے ایک زنگی غلام کو ان کے ساتھ کر دیا کہ سب مال و متاع لدوا کر لے آ ، اور آپ شام تلک خواجہ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ جب گزری کا وقت ہو چکا اور دکان بڑھائی۔ خواجہ گھر کو چلا تب دونوں غلاموں میں سے ایک نے کتے کو بغل میں لیا۔ دوسرے نے کرسی اور غالیچہ اٹھا لیا اور ان دونوں حبشی غلاموں نے ان پنجروں کو مزدوروں کے سر پر دھر دیا، اور آپ پانچوں ہتھیار باندھے ساتھ آئے۔ خواجہ سوداگر بچے کا ہاتھ، ہاتھ میں لیے باتیں کرتا ہوا حویلی میں آیا۔ سوداگر بچے نے دیکھا کہ مکان عالی شان لائق بادشاہوں یا امیروں کے ہے۔ لب نہر فرش چاندنی کا بچھا ہے، اور مسند کے روبرو اسباب عیش کا چنا ہے۔ کتے کی صندلی بھی اسی جگہ بچھائی اور خواجہ، سوداگر بچے کو لے کر بیٹھا بے تکلف وضع شراب کی کی۔ دونوں پینے لگے۔ جب سر خوش ہوئے، تب خواجہ نے کھانا مانگا۔ دسترخوان بچھا اور دنیا کی نعمت چنی گئی۔ پہلے ایک لنگری میں کھانا لے کر سر پوش طلائی ڈھانپ کر کتے کے واسطے لے گئے اور ایک دسترخوان زر بفت کا بچھا کر اس کے آگے دھر دی۔ کتا صندلی سے نیچے اترا جتنا جی چاہا اتنا کھایا اور سونے کی لگن میں پانی پیا۔ پھر چوکی پر جا بیٹھا۔ غلاموں نے رومال سے ہاتھ منہ اسکا پاک کیا۔ پھر اس طباق اور لگن کو غلام پنجروں کے نزدیک لے گئے اور خواجہ سے کنجی مانگ کر قفل قفسوں کے کھولے۔ ان دونوں انسانوں کو باہر نکال کر کئی سونٹے مار کر کتے کا جھوٹا انہیں کھلایا اور وہی پانی پلایا۔ پھر تالے بند کر کر تالیاں خواجہ کے حوالے کیں۔ جب یہ سب ہو چکا، تب خواجہ نے آپ کھانا شروع کیا۔ سوداگر بچے کو یہ حرکت پسند نہ آئی۔ گھن کھا کر ہاتھ کھانے میں نہ ڈالا۔ ہرچند خواجہ نے منت کی پھر اس نے انکار ہی کیا۔ تب خواجہ نے سبب اسکا پوچھا کہ تم کیوں نہیں کھاتے؟ سوداگر بچے نے کہا یہ حرکت تمہاری اپنے تئیں بدنام معلوم ہوئی۔ اس لیے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور کتا نجس العین ہے۔ پس خدا کے دو بندوں کو کتے کا جھوٹا کھلانا کس مذہب و ملت میں روا ہے؟ فقط یہ غنیمت نہیں جانتے کہ وہ تمہاری قید میں ہیں؟ نہیں تو تم اور وہ برابر ہو۔ اب میرے تئیں شک آئی کہ تم مسلمان نہیں۔ کیا جانوں کون ہو کہ کتے کو پوجتے ہو؟ مجھے تمہارا کھانا کھانا مکروہ ہے۔ جب تلک یہ شبہ دل سے درد نہ ہو۔
خواجہ نے کہا۔ اے بابا، جو کچھ۔ تو کہتا ہے، میں یہ سب سمجھتا ہوں اور اسی خاطر بدنام ہوں کہ اس شہر کی خلقت نے میرا نام خواجہ سگ پرست رکھا ہے اسی طرح پکارتے ہیں اور مشہور کیا ہے۔ لیکن خدا کی لعنت کافروں اور مشرکوں پر ہو جیو۔ کلمہ پڑھا اور سوداگر بچے کی خاطر جمع کی۔ تب سوداگر بچے نے پوچھا کہ اگر مسلمان بہ دل ہو تو اس کا کیا باعث ہے کہ ایسی حرکت کر کے اپنے تئیں بدنام کیا ہے۔ خواجہ نے کہا اے فرزند، نام میرا بدنام ہے اور دگنا محصول اس شہر میں بھرتا ہوں، اسی واسطے یہ بھید کسو پر ظاہر نہ ہو۔ عجب یہ ماجرا ہے کہ جو کوئی سوائے غم اور غصے کے اسے کچھ حاصل نہ ہو۔ تو بھی مجھے معاف رکھ کر نہ مجھ میں قدرت کہنے کی اور نہ تجھ میں طاقت سننے کی رہے گی۔ سوداگر بچے نے اپنے دل میں غور کی کہ مجھے اپنے کام سے کام ہے۔ کیا ضرورت ہے، جو ناحق زیادہ مجوز ہوں۔ بولا۔ اگر لائق کہنے کے نہیں تو نہ کہہ۔ کھانے میں ہاتھ ڈالا، اور نوالہ اٹھا کر کھانے لگا۔ دو مہینے تک اس ہوشیاری اور عقل مندی سے سوداگر بچے نے خواجہ کے ساتھ گزران کی کہ کسو پر ہرگز نہ کھلا کہ یہ عورت ہے۔ سب یہی جانتے تھے کہ مرد ہے۔ اور خواجہ سے روز بروز ایسی محبت زیادہ ہوئی کہ دم اپنی آنکھوں سے جدا نہ کرتا۔
ایک دن عیش مے نوشی کی صحبت میں سوداگر بچے نے رونا شروع کیا۔ خواجہ نے دیکھتے ہی خاطر داری کی اور رومال سے آنسو پوچھنے لگا اور سبب گریہ کا پوچھا۔ سوداگر بچے نے کہا۔ اے قبلہ! کیا کہوں؟ کاش کے تمہاری خدمت میں بندگی پیدا نہ کی ہوتی اور یہ شفقت جو صاحب میرے حق میں کرتے ہیں نہ کرتے۔ اب دو مشکلیں میرے پیش آئی ہیں۔ نہ تمہاری خدمت سے جدا ہونے کو جی چاہتا ہے اور نہ رہنے کا اتفاق یہاں ہو سکتا ہے۔ اب جانا ضرور ہوا۔ لیکن آپ کی جدائی سے امید زندگی کی نظر نہیں آتی۔
یہ بات سن کر خواجہ بے اختیار ایسا رونے لگا کہ ہچکی بندھ گئی، اور بولا کہ اے نور چشم! ایسی جلدی اس اپنے بوڑھے خادم سے سیر ہوئے کہ اسے دل گیر کیے جاتے ہو؟ قصد روانہ ہونے کا دل سے دور کرو۔ جب تلک میری زندگی ہے، رہو تمہاری جدائی سے ایک دم جیتا نہ رہوں گا۔ بغیر اجل کے مر جاؤں گا اور اس ملک فارس کی آب و ہوا بہت خوب اور موافق ہے۔ بہتر یوں ہے کہ ایک آدمی معتبر بھیج کر اپنے والدین کو مع اسباب یہیں بلوا لو۔ جو کچھ سواری اور برداری درکار ہو، میں موجود کروں۔ جب ماں باپ تمہارے گھر بار سب آیا، اپنی خوشی سے کاروبار تجارت کا کیا کریو۔ میں نے بھی اس عمر میں زمانے کی بہت سختیاں کھینچی ہیں، اور ملک ملک پھرا ہوں، اب بوڑھا ہوا۔ فرزند نہیں رکھا تجھے بہتر اپنے بیٹے سے جانتا ہوں، اور اپنا ولی عہد و مختار کرتا ہوں۔ میرے کارخانے سے بھی ہوشیار اور خبردار ہو۔ جب تلک جیتا ہوں، ایک ٹکڑا کھانے کو اپنے ہاتھ سے دو۔ جب مر جاؤں داب گاڑ دیجو، اور سب مال و متاع میر لیجو۔ تب سوداگر بچے نے جواب دیا کہ واقعی صاحب نے زیادہ باپ سے میری غم خواری اور خاطر داری کی کہ مجھے ماں باپ بھول گئے۔ لیکن اس عاصی کے والد نے ایک سال کی رخصت دی تھی۔ اگر دیر لگاؤں گا تو وہ اس پیری میں روتے روتے مر جائیں گے پس رضامندی پدر کی خوشنودی خدا کی ہے، اگر وہ مجھے سے ناراضی ہوں گے تو میں ڈرتا ہوں کہ شاید دعائے بد نہ کریں کہ دونوں جہاں میں خدا کی رحمت سے محروم رہوں۔ اب آپ کی یہی شفقت ہے کہ بندے کہ حکم کیجئے کہ فرمانا قبلہ گاہ کا بجا لاوے اور حق پدری سے ادا ہووے۔ اور صاحب کی توجہ کا ادائے شکر جب تلک تم میں دم ہے، میری گردن پر ہے۔ اگر اپنے میں بھی جاؤں گا تو ہر دم میں دل و جان سے یاد کروں گا، خدا مسبب الاسباب ہے۔ شاید پھر کوئی ایسا سبب ہو کر قدم بوسی حاصل کروں۔
غرض سوداگر بچے نے ایسی ایسی باتیں لون مرچ لگا کر خواجہ کو سنائی کہ وہ بچارا لاچار ہو کر ہونٹ چاٹنے لگا۔ ازبسکہ اس پر شیفتہ اور فریفتہ ہو رہا تھا، کہنے لگا اچھا اگر تم نہیں رہتے ہو تو میں ہی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ میں تجھ کو اپنی جان کے برابر جانتا ہوں۔ پس جب جان چلی جاوے تو خالی بدن کس کام آوے؟ اگر تو ایس میں رضامند ہے تو چل اور مجھے بھی لے چل۔ سوداگر بچے یہ کہہ کر اپنی بھی تیاری سفر کی کرنے لگا اور گماشتوں کو حکم کیا، بار برداری کی فکر جلدی کرو۔
جب خوجہ کے چلنے کی خبر مشہور ہوئی۔ وہاں کے سوداگروں نے سن کر سب نے تہیہ سفر کیا۔ خواجہ سگ پرست نے گنج اور جواہر بے شمار، نوکر اور غلام ان گنت، تحفے اور اسباب شاہانہ بہت ساتھ لے کر شہر کے باہر تنبو اور قنات اور بے چوبے اور سرا پردے اور کندے کھڑے کروا کر ان میں داخل ہوا۔ جتنے تجار تھے، اپنی اپنی بساط موافق سوداگری کا لے کر ہم راہ ہوئے برئے خود ایک لشکر ہو گیا۔
ایک دن چوگنی کو پیٹھ دے کر وہاں سے کوچ کیا۔ ہزاروں اونٹوں پر شلیتے اسباب کے اور خچروں پر صندوق نقد و جواہر کے لاد کر پانچ سو غلام دشت قبچاق اور زنگ و روم کے مسلح، صاحب شمشیر، تازی اور ترکی و عراق و عربی گھوڑے پر چڑھ کر چلے۔ سب کے پیچھے خواجہ اور سوداگر بچہ خلعت فاخرہ پہنے سکھپال پر سوار اور ایک تخت بغدادی اونٹ پر کسا، اس پر کتا مسند پر سویا ہوا، اور ان دونوں قیدیوں کے قفس ایک شتر پر لٹکائی ہوئے روانہ ہوئے۔ جس منزل پہنچے سب سوداگر خواجہ کی بارگاہ میں آ کر حاضر ہوتے۔ اور دستر خوان پر کھانا کھاتے اور شراب پیتے۔ خواجہ سوداگر بچے کے ساتھ ہونے کی خوشی میں شکر خدا کا کرتا اور کوچ در کوچ چلا جاتا تھا۔
بارے بخیر و عافیت نزدیک قسطنطنیہ کے آ پہنچے۔ باہر شہر کے مقام کیا۔ سوداگر بچے نے کہا۔ اے قبلہ اگر رخصت دیجئے تو میں جا کر ماں باپ کو دیکھوں اور مکاں صاحب کے واسطے خالی کروں۔ جب مزاج سامی میں آوے شہر میں داخل ہو جئے، خواجہ نے کہا تمہاری خاطر تو میں یہاں آیا۔ اچھا جلد مل جل کر میرے پاس آؤ۔ اور اپنے نزدیک میرے اترنے کو مکان دو۔ سوداگر بچہ رخصت ہو کر اپنے گھر میں آیا۔ سب وزیر کے محل کے آدمی حیران ہوئے کہ یہ مرد کون گھس آیا۔ سوداگر بچہ، یعنی بیٹی وزیر کی، اپنی ماں کے پاؤں پر جا گری اور روئی اور بولی کہ میں تمہاری جائی ہوں۔ سنتے ہی وزیر کی بیگم گالیاں دینے لگی کہ اے تتری تو بڑی شتا ہو نکلی۔ اپنا منہ تو نے کالا کیا اور خاندان کو رسوا کیا۔ ہم تو تیری جان کو رو پیٹ کر صبر کر کے تجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، جا دفع ہو۔ تب وزیر زادی کے سر پر پگڑی اتار کر پھینک دی اور بولی اے اماں جان میں بری جگہ نہیں گئی۔ کچھ بدی نہیں کی۔ مگر تمہارے بموجب فرمانے کے بابا کو قید سے چھڑانے کی خاطر یہ فکر کی۔ الحمد اللہ تمہاری دعا کی برکت سے اور اللہ کے فضل سے پورا کام کر کے آئی ہوں، کہ نیشا پور سے اس سوداگر مع کتے، جس کے گلے میں وہ لعل پڑے ہیں، اپنے ساتھ لائی ہوں، اور تمہاری امانت میں بھی خیانت نہیں کی۔ سفر کے لیے مردانہ بھیس کیا ہے۔ اب ایک روز کا کام باقی ہے۔ وہ کر کر قبلہ گاہ پنڈت خانے سے چھڑاتی ہوں، اور اپنے گھر میں آتی ہوں۔ اگر حکم ہو تو پھر جاؤں اور ایک روز باہر رہ کر خدمت میں آؤں۔
ماں نے جب خوب معلوم کیا کہ میری بیٹی نے مردوں کا کام کیا ہے اور اپنے تئیں سب طرح سلامت و محفوظ رکھا ہے۔ خدا کی درگاہ میں نک گھسنی کی اور خوش ہو کر بیٹی کو چھاتی سے لگا لیا۔ اور منہ چوما بلائیں لیں، دعائیں دیں اور رخصت کیا کہ تو جو مناسب جان سو کر۔ میری، خاطر جمع ہوئی۔
وزیر زادی پھر سوداگر بچہ بن کر خواجہ سگ پرست کے پاس چلی۔ وہاں خواجہ کو جدائی اس کی از بسکہ مشاق ہوئی، بے اختیار ہو کر کوچ کیا۔ اتفاقاً نزدیک شہر کے ادھر سے سوداگر بچہ جاتا تھا اور ادھر سے خواجہ آتا تھا۔ عین راہ میں ملاقات ہوئی۔ خواجہ نے دیکھے ہی کہا بابا مجھ بوڑھے کو اکیلا چھوڑ کر کہا گیا تھا؟ سوداگر بچہ بولا آپ سے اجازت لے کر اپنے گھر گیا تھا۔ آخر ملازمت کے اشتیاق نے وہاں رہنے نہ دیا۔ آ کر حاضر ہوا۔ شہر کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک باغ سایہ دار دیکھ کر خیمہ استاد کیا اور وہیں اترے۔ خواجہ اور سوداگر بچہ باہم بیٹھ کر شراب و کباب پینے لگے۔ جب عصر کا وقت ہوا، سیر تماشے کی خاطر خیمے سے نکل کر صندلیوں پر بیٹھے۔
اتفاقاً ایک قراول بادشاہی ادھر آ نکلا۔ ان کا لشکر اور نشست برخاست دیکھ کر اچنبھے ہو رہا اور دل میں کہا۔ شاید ایلچی کسو بادشاہ کا آیا ہے، کھڑا تماشا دیکھتا تھا کہ خواجہ شاطر نے اس کو آگے بلایا اور پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا میں بادشاہ کا میر شکار ہوں۔ شاطر نے خواجہ سے اس کا احوال کہا۔ خواجہ نے ایک غلام کافری کو کہا کہ جا کر باز دار سے کہہ کہ ہم مسافر ہیں۔ (اگر جہ چاہے تو آؤ بیٹھو، قہوہ قلیان حاضر ہے جب میر شکار نے سوداگر کا سنا تو زیادہ متعجب ہوا، اور یتیم کے ساتھ خواجہ کی مجلس میں آیا۔ لوازم اور شان و شوکت اور سپاہ و غلام دیکھے۔ خواجہ اور سوداگر بچے کو سلام کیا اور مرتبہ سگ کا نگاہ کیا۔ ہوش اس کے جاتے رہے۔ ہکا بکا سا ہو گیا۔ خواجہ نے اسے بٹھلا کر قہوہ کی ضیافت کی۔ قراول نے نام و نشان خواجہ کا پوچھا۔ جب رخصت مانگی خواجہ نے کئی تھان اور کچھ تحفے اس کو دے کر اجازت دی۔
صبح کو جب بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور درباریوں سے خواجہ سوداگر کا ذکر کرنے لگا، رفتہ رفتہ مجھ کو خبر ہوئی۔ میر شکار کو میں نے روبرو طلب کیا اور سوداگر کا احوال پوچھا۔ اس نے جو کچھ دیکھا تھا عرض کیا۔ سننے سے کتے کے تجمل کے اور وہ آدمیوں کے پنجرے میں قید ہونے کے مجھے کو خفگی ہوئی۔ میں نے فرمایا وہ مردود تاجر واجب القتل ہے۔ قشقچیوں کو حکم کیا کہ جلد جاؤ اس بے دین کا سر کاٹ لاؤ۔ قضا کار وہی ایلچی فرنگ کا دربار میں حاضر تھا، مسکرایا، مجھے اور بھی غضب زیادہ ہوا، فرمایا کہ اے بے ادب بادشاہوں کے حضور میں بے سبب دانت کھولنے ادب سے باہر ہیں۔ بے محل ہنسنے سے رونا بہتر ہے۔ اس سے التماس کیا۔ جہاں پناہ کئی باتیں خیال میں گزریں، لٰہذا فدوی متبسم ہوا۔ پہلے یہ کہ وزیر سچا ہے۔ اب قید خانے سے رہائی پاوے گا۔ دوسرے یہ کہ بادشاہ ناحق سے اس وزیر کے بچے۔ تیسرے یہ قبلہ عالم نے بے سبب اور بے تقصیر اس سوداگر کو حکم قتل کا کیا۔ ان حرکتوں سے تعجب آیا کہ بے تحقیق ایک بے وقوف کے کہنے سے آپ ہر کسو کو حکم قتل کر کر بیٹھے ہیں۔ خدا جانے فی الحقیقت اس خواجہ کا احوال کیا ہے، اسے حضور میں طلب کیجئے اور اس کی واردات پوچھئے اگر تقصیر وار ٹھہرے، تب مختار ہو، جو مرضی میں آوے اس سے سلوک کیجئے۔ جب ایلچی نے اس طرح سے سمجھایا، مجھے بھی وزیر کا کہنا یاد آیا۔ فرمایا جلد سوداگر کو اس کے بیٹے کے ساتھ اور وہ سگ اور قفس حاضر کرو۔ قورچی اس کے بلانے کو دوڑائے۔ وہ ایک دم میں سب کو حضور لے آئے۔ روبرو طلب کیا پہلے خواجہ اور اس کا پسر آیا۔ دونوں لباس فاخرہ پہنے ہوئے۔ سوداگر بچے کا جمال دیکھنے سے سب ادنیٰ اعلیٰ حیران اور بھیچک ہوئے۔ ایک خوان طلائی جواہر سے بھرا ہوا، کہ ہر ایک کو چھوٹ نے سارے مکان کو روشن کر دیا، سوداگر بچہ ہاتھ میں لئے آیا اور میرے تخت کے آگے نچھاور کیا، آداب کورنشات بجا لا کر کھڑا ہوا۔
خواجہ نے بھی زمین چومی اور دعا کرنے لگا اس گویائی سے بولتا تھا کہ گویا بلبل ہزار داستان ہے۔ میں نے اس لیاقت کو بہت پسند کیا، لیکن عتاب کی رو سے کہا۔ اے شیطان! آدمی کی صورت تو نے یہ کیا حال پھیلایا ہے اور اپنی راہ میں کنواں کھودا ہے؟ تیرا کیا دین ہے؟ اور یہ کون آئین ہے؟ کس پیغمبر کی امت ہے؟ اگر کافر ہے تو بھی یہ کیسی مت ہے؟ اور تیرا کیا نام ہے کہ تیرا یہ کام ہے؟ اس نے کہا قبلہ کی عمر و دولت بڑھتی رہے، غلام کا دین یہ ہے کہ خدا واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے بعد بارہ امام کو اپنا پیشوا جانتا ہوں۔ اور آئیں میرا یہ ہے کہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں، حج بھی کر آیا ہوں، اور اپنے مال سے خس زکوٰۃ دیتا ہوں، اور مسلمان کہلاتا ہوں، لیکن ظاہر میں یہ سارے عیب جو مجھ میں بھرے ہیں، جن کے سبب سے آپ ناخوش ہوئے اور تمام خلق اللہ میں بدنام ہو رہا ہوں اس کا ایک باعث ہے کہ ظاہر نہیں کر سکتا۔ ہر چند سگ پرست مشہور ہوں، اور مضاعف محصول دیتا ہوں۔ یہ سب قبول کیا ہے، پھر دل کا بھید کسو سے نہیں کہا۔"
اس بہانے سے میرا غصہ زیادہ ہوا اور کہا۔ " مجھے تو باتوں میں پھسلاتا ہے۔ میں نہیں ماننے کا، جب تلک اس اپنی گمراہی کی دلیل معقول عرض نہ کرئے کہ میرے دل نشین ہو۔ تب تو جان سے بچے گا۔ نہیں تو اس کے قصاص میں تیرا پیٹ چاک کرواؤں گا۔ تو سب کی عبرت ہو کہ بار دیگر کوئی دین محمدی میں رخنہ نہ کرے۔" خواجہ نے کہا۔ " اے بادشاہ! مجھ کم بخت کے خون سے درگزر کر۔ اور جتنا مال میرا ہے کہ گنتی اور شمار سے باہر ہے، سب کو ضبط کر لے اور مجھے اور میرے بیٹے کو اپنے تخت کے تصدق کر کر چھوڑ دے۔ اور جان بخشی کر۔"
میں نے تبسم کر کے کہا۔ " اے بیوقوف! اپنے مال کی طمع مجھے دکھاتا ہے، سوائے سچ بولنے کے اب تیری مخلصی نہیں۔" یہ سنتے ہی خواجہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے اور اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر ایک آہ بھری اور بولا۔ " میں تو پادشاہ کے روبرو گنہگار ٹھہرا، مارا جاؤں گا۔ اب کیا کروں؟ تجھے کس کو سونپوں؟" میں نے ڈانٹا کہ " اے مکار! بس اب عذر بہت کئے، جو کہنا ہے جلد کہہ۔"
تب تو اس مرد نے قدم بڑھا کر تخت کے پاس آ کر پائے کو بوسہ دیا اور صفت و ثنا کرنے لگا اور بولا۔ " اے شہنشاہ! اگر حکم قتل کا میرے حق میں نہ ہوتا تو سب سیاستیں سہتا اور اپنا ماجرا نہ کہتا۔ لیکن جان سب سے عزیز ہے۔ کوئی آپ سے کنویں میں نہیں گرتا۔ پش جان کی محافظت واجب ہے، اور ترک واجب کا خلاف حکم خدا کے ہے۔ خیر جو مرضی مبارک یہی ہے، تو سرگزشت اس پیر ضعیف کی سنئے۔ پہلے حکم ہو کہ وہ دونوں قفس جن میں دو آدمی قید ہیں، حضور میں لا کر رکھیں۔ میں اپنا احوال کہتا ہوں۔ اگر کہیں جھوٹ کہوں تو ان سے پوچھ کر مجھے قائل کیجئے اور انصاف فرمائیے۔ مجھے یہ بات اس کی پسند آئی۔ پنجروں کو منگوا کر اس دونوں کو نکلوا کر خواجہ کے پاس کھڑا کیا۔
خواجہ نے کہا، اے بادشاہ یہ مرد جو داہنی طرف ہے، غلام کا بڑا بھائی ہے، اور جو بائیں کو کھڑا ہے منجھلا برادر ہے۔ میں ان دونوں سے چھوٹا ہوں۔ میرا باپ ملک فارس میں سوداگر تھا۔ جب میں چودہ برس کا ہوا، قبلہ گاہ نے رحلت کی۔ جب تجہیز و تکفین سے فراغت ہوئی اور پھول اٹھ چکے، ایک روز ان دونوں بھائیوں نے مجھے کہا کہ اب باپ کا ملا جو کچھ ہے تقسیم کر لیں۔ جس کا دل جو چاہے سو کام کرے۔ میں نے سن کر کہا اے بھائیو یہ کیا بات ہے؟ میں تمہارا غلام ہوں۔ بھائی چارے کا دعوی نہیں رکھتا۔ ایک باپ مر گیا۔ تم دونوں میرے پدر کی جگہ میرے سر پر قائم ہو۔ ایک نان خشک چاہتا ہوں جس میں زندگی بسر کروں اور تمہاری خدمت میں حاضر رہوں۔ مجھے حصے بخرے سے کیا کام ہے؟ تمہارے آگے کو جوٹھے سے اپنا پیٹ بھر لوں گا اور تمہارے پاس رہوں گا۔ میں لڑکا ہوں، کچھ پڑھا لکھا بھی نہیں۔ مجھ سے کیا ہو سکے گا؟ ابھی تم مجھے تربیت کرو۔ یہ سن کر جواب دیا کہ تو چاہتا ہے اپنے ساتھ ہمیں بھی خراب اور محتاج کرے۔ میں چپکا ایک گوشے میں جا کر رونے لگا۔ پھر دل کو سمجھایا کہ بھائی آخر بزرگ ہیں۔ میری تعلیم کی خاطر چشم نمائی کرتی ہیں کہ کچھ سیکھے اس فکر میں سو گیا۔ صبح کو ایک ایک پیادہ قاضی کا آیا اور مجھے دارالشرع میں لے گیا۔ وہاں دیکھا تو یہی دونوں بھائی حاضر ہیں۔ قاضی نے کہا کیوں اپنے باپ کا ورثہ بانٹ چونٹ نہیں لیتا؟ میں نے گھر میں جو کہا تھا، وہاں بھی جواب دیا۔
بھائیوں نے کہا۔ اگر یہ بات اپنے دل سے کہتا تو ہمیں لا دعویٰ لکھ دے کہ باپ کے مال و اسباب سے مجھے کچھ علاقہ نہیں۔ تب بھی میں نے یہی سمجھا کہ یہ دونوں میرے بزرگ ہیں۔ میری نصیحت کے واسطے کہتے ہیں کہ باپ کا ملا لیکر بے جا تصرف نہ کروں۔ بہ موجب ان کی مرضی کے فارغ خطبی بہ مہر قاضی میں نے لکھ دی۔ یہ راضی ہوئے۔ گھر میں آیا۔ دوسرے دن مجھ سے کہنے لگے اے بھائی یہ مکان جس میں تو رہتا ہے ہمیں درکار ہے۔ تو اپنی بود و باش کی خاطر اور جگہ لے کر جا رہ۔ تب میں نے دریافت کیا کہ باپ کی حویلی میں بھی رہنے سے خوش نہیں۔ لاچار ارادہ اٹھ جانے کا کیا۔ جہاں پناہ جب میرا باپ جیتا تھا تو جس وقت سفر سے آتا ہر ایک ملک کا تحفہ بہ طریق سوغات کے لاتا اور مجھے دیتا۔ اس واسطے کہ چھوٹے بیٹے کو ہر کوئی زیادہ پیار کرتا ہے۔ میں نے اس کو بیچ بیچ کر تھوڑی سی اپنی نج کی پونجی بہم پہنچائی تھی۔ اسی سے کچھ خرید و فروخت کرتا۔ ایک بار لونڈی میری خاطر ترکستان سے میرا باپ لایا۔ ایک دفعہ گھوڑے لے کر آیا۔ ان میں سے ایک بچھڑا تا کند کہ ہونہار تھا، وہ بھی مجھے دیا۔ میں اپنے پاس سے دانہ گھاس کا اس کا کرتا تھا۔
آخر ان کی بے مروتی دیکھ ایک حویلی خریدی کی۔ وہاں جا رہا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ چلا آیا۔ واسطے ضروریات کے اسباب خانہ داری کا جمع کیا اور وہ غلام خدمت خاطر مول لئے اور باقی پونجی سے ایک دکان بزازی کی کر کے خدا کے توکل پر بیٹھا۔ اپنی قسمت پر راضی تھا۔ اگرچہ بھائیوں نے بد خلقی کی، پر خدا جو مہربان ہوا، تین برس کے عرصے میں ایسی دکان جمی کہ میں صاحب اعتبار ہوا۔ سب سرکاروں میں جو تحفہ چاہتا میری ہی دکان سے جاتا۔ اس میں بہت سے روپے کمائے اور نہایت فراغت سے گزرنے لگی۔ ہر دم جناب باری شکرانہ کرتا اور آرام سے رہتا۔ یہ کبت اکثر اپنے احوال پر پڑھتا :
روٹھے کیوں نہ راجا، واتیں کچھ ناہیں کاجا
ایک تو سے مہاراجا، اور کون کو سراہیے
روٹھے کیوں نہ بھائی واتیں کچھ نہ بسائیں
ایک تو ہی بے سہائی، اور کون پاس جائیے
روٹھے کیوں نہ متر، ستر آٹھوں جام
ایک راوے چرن کے نہیہ کو نبھائیے
سنسار ہے روٹھا، ایک تو ہے انوٹھا
سب چومیں گے انگوٹھا، ایک تو نہ روٹھا چاہیے
اتفاقاً جمعے کے روز میں اپنے گھر بیٹھا تھا کہ ایک غلام میرا سودا سلف کو بازار گیا تھا۔ بعد میں ایک دم کے روتا ہوا آیا۔ میں نے سبب پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ خفا ہو کر بولا کہ تمہیں کیا کام ہے؟ تم خوشی مناؤ، لیکن قیامت میں کیا جواب دو گے؟ میں نے کہا اے حبشی! ایسی کیا بلا تجھ پر نازل ہوئی؟ اس نے کہا یہ غضب ہے کہ تمہارے بڑے بھائیوں کی چوک کے چوراہے میں ایک یہودی نے مشکیں باندھی ہیں، اور قمچیاں مارتا ہے۔ اور ہنستا ہے کہ اگر میرے روپے نہ دو گے تو مارتے مارتے مار ہی ڈالوں گا۔ بھلا مجھے ثواب تو ہو گا۔ پس تمہارے بھائیوں کی یہ نوبت اور تم بے فکر ہو؟ یہ بات اچھی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے؟ یہ بات غلام سے سنتے ہی لہو نے جوش کیا۔ ننگے پاؤں بازار کی طرف دوڑا اور غلاموں کو کہا جلد روپے لے کر آؤ۔ جونہی وہاں گیا، دیکھا جو جو غلام نے کہا تھا سچ ہے ان پر مار پڑ رہی ہے۔ حاکم کے پیادوں کو کہا۔ واسطے خدا کے ذرا ٹھہر جاؤ۔ میں یہودی سے پوچھوں کہ ایسی کیا تقصیر کی ہے، جس کے بدلے یہ تعزیر کی ہے؟
یہ کہہ کر میں یہودی کے نزدیک گیا اور کہا آج روز آدینہ ہے۔ ان کو کیوں ضرب شاق کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا اگر حمائت کرتے ہو تو پوری کرو۔ ان کے عوض روپے حوالے کرو۔ نہیں تو اپنے گھر کی راہ لو۔ میں نے کہا، کیسے روپے؟ دستاویز نکال، میں روپے گن دیتا ہوں۔ اس نے کہا تمسک حاکم کے پاس دے آیا ہوں۔ اس میں تیرے دونوں غلاموں دویدرہ روپے لے کر آئے۔ ہزار میں یہودی کو دیئے اور بھائیوں کو چھڑایا۔ ان کی یہ صورت ہو رہی تھی کہ بدن سے ننگے اور بھوکے پیاسے اپنے ہمراہ گھر میں لایا۔ وونہیں حمام میں نہلوایا پوشاک پہنائی۔ کھانا کھلایا۔ برگزاں سے یہ نہ کہا کہ اتنا مال باپ کا تم نے کیا کیا؟ شاید شرمندہ ہوں۔
اے بادشاہ یہ دونوں موجود ہیں، پوچھے کہ سچ کہتا ہوں یا کوئی بات جھوٹ بھی ہے؟ خیر جب کئی دن میں مار کی گرفت سے بحال ہوئے، ایک روز میں نے کہا کہ اے بھائیوں اب اس شہر میں تم بے اعتبار ہو گئے ہو، بہتر یہ ہے کہ چند روز سفر کرو۔ یہ سن کر چپ ہو رہے۔ میں نے معلوم کیا کہ راضی ہیں، سفر کی تیاری کرنے لگا۔ پال پر تل، باربرداری، اور سواری کی فکر کر کے بیس ہزار کی جنس تجارت خرید کر دی۔ ایک قافلہ سوداگروں کا بخارے کو جاتا تھا ان کے ساتھ کر دیا۔
بعد ایک سال کے وہ کارواں پھر آیا۔ ان کی خیر خبر کچھ نہ پائی۔ آخر ایک آشنا سے قسمیں دے کر پوچھا۔ اس نے کہا جب بخارے میں گئے ایک نے جوئے میں اپنا تمام مال ہار دیا۔ اب وہاں کی جاروب کشی کرتا ہے اور پھڑ کو لیپتا پوتتا ہے۔ جواری جو جمع ہوتے ہیں، ان کی خدمت کرتا ہے، وہ بطریق خیرات کے کچھ دے دیتے ہیں وہاں گرگا بنا پڑا رہتا ہے۔ اور دوسرا بوزہ فروش کی لڑکی پر عاشق ہوا، اپنا مال سارا صرف کیا۔ اب وہ بوزہ خانے کی ٹہل کرتا ہے۔ قافلے کے آدمی اس لیے نہیں کہتے کہ تو شرمندہ ہو گا۔
یہ احوال اس شخص سے سن کر میری عجب حالت ہوئی۔ مارے فکر کے نیند بھوک جاتی رہی، زاد راہ لے کر قصد بخارے کا کیا۔ جب وہاں پہنچا دونوں کو ڈھونڈا اور اپنے مکان میں لایا۔ غسل کروا کر نئی پوشاک پہنائی اور ان کی خجالت کے ڈر سے ایک بات منہ پر نہ رکھی۔ پھر مال سوداگری کا ان کے واسطے خریدا اور ارادہ گھر کا کیا، جب نزدیک نیشاپور کے آیا، ایک گاؤں میں بہ مع مال اسباب ان کو چھوڑ کر گھر میں آیا۔ اس لیے کہ میرے آنے کی کسی کو خبر نہ تھی۔
بعد دو دن کے مشہور کیا کہ میرے بھائی سفر سے آئے ہیں کل ان کے استقبال کی خاطر جاؤں گا۔ صبح کو چاہا کہ جاؤں۔ ایک گرہست اسی موضع کا میرے پاس آیا اور فریاد کرنے لگا۔ میں اس کی آواز سن کر باہر نکلا۔ اسے روتا دیکھ کر پوچھا کیوں زاری کرتا ہے؟ بولا تمہارے بھائیوں کے سبب سے ہمارے گھر لوٹے گئے۔ کاش کہ ان کو تم وہاں نہ چھوڑ آتے!
میں نے پوچھا کیا مصیبت گزری؟ بولا کہ رات کو ڈاکا آیا، ان کا مال و اسباب لوٹا اور ہمارا گھر بھی لوٹ گئے۔ میں نے افسوس کیا اور پوچھا کہ اب وہ دونوں کہاں ہیں؟ کہا شہر کے باہر ننگے، خراب خستہ بیٹھے ہیں۔ اور یہ مارے شرمندگی کے باہر نہ نکلتے تھے۔
تین مہینے اسی طرح گزرے۔ تب میں نے اپنے دل میں غور کیا کہ کب تلک یہ کونے میں دبکے بیٹھے رہیں گے۔ بنے تو ان کو اپنے ساتھ سفر میں لے جاؤں۔ بھائیوں سے کہا۔ اگر فرمائیے تو فدوی آپ کے ساتھ چلے؟ یہ خاموش ہو رہے۔ پھر لوازمہ سفر کا اور جنس سوداگری کر کے چلا اور ان کو ساتھ لیا۔
جنس مال کی زکوٰۃ دے کر اسباب کشتی پر چڑھایا اور لنگر اٹھایا، ناؤ چلی یہ کتا کنارے پر سو رہا تھا۔ جب چونکا اور جہاز کو مانجھ دھار میں دیکھا، حیران ہو کر بھونکا اور دریا میں کود پڑا اور تیرنے لگا۔ میں نے ایک پسوئی دوڑا دی۔ بارے سگ کو لے کر کشتی میں پہنچایا۔
ایک مہینہ خیرو عافیت سے دریا میں گزرا۔ کہیں منجھلا بھائی لونڈی پر عاشق ہوا۔ ایک دن بڑے بھائی سے کہنے لگا کہ چھوٹے بھائی کی منت اٹھانے سے بڑی شرمندگی حاصل ہوئی۔ اس کا تدارک کیا کریں؟ بڑے نے جواب دیا کہ ایک صلاح دل میں ٹھہرائی ہے۔ اگر بن آوے تو بڑی بات ہے۔ آخر دونوں نے مصلحت کر کے تجویز کی کہ اسے مار ڈالیں اور سارے اسباب کے قابض متصرف ہوں۔
ایک دن میں جہاز کی کوٹھڑی میں سوتا تھا اور لونڈی پاؤں داب رہی تھی کہ منجھلا بھائی آیا اور جلدی سے مجھے جگایا۔ میں ہڑبڑا کر چونکا اور باہر نکلا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ ہو لیا۔ دیکھوں تو بڑا بھائی جہاز کی باڑ پر ہاتھ ٹیکے نہیوڑا ہوا تماشا دریا کا دیکھ رہا ہے اور مجھے پکارتا ہے۔ میں نے پاس جا کر کہا خیر تو ہے؟ بولا عجب طرح کا تماشا ہو رہا ہے کہ دریائی آدمی موتی کی سیپیاں اور مونگے کے درخت ہاتھ میں لیے ہوئے ناچتے ہیں۔ اگر اور کوئی ایسی بات خلاف قیاس کہتا تو میں نہ مانتا۔ بڑے بھائی کے کہنے کو راست جانا دیکھنے کو سر جھکایا۔ ہر چند نگاہ کی، کچھ نظر نہ آیا اور وہ یہی کہتا رہا، اب دیکھا؟ لیکن کچھ ہو تو دیکھوں۔ اس میں مجھے غافل پا کر منجھلے نے اچانک پیچھے آ کر ایسا دھکیلا کہ بے اختیار پانی میں گر پڑا۔ اور وہ رونے دھونے لگے کہ دوڑیو! ہمارا بھائی دریا میں ڈوبا۔ اتنے میں ناؤ بڑھ گئی اور دریا کی لہر مجھے کہیں سے کہیں لے گئی۔ غوطے پر غوطے کھاتا تھا اور موجوں میں چلا جاتا تھا۔ آخر تھک گیا۔ خدا کو یاد کرتا تھا، کچھ بس نہ چلتا تھا۔ یکبارگی کسو چیز پر ہاتھ پڑا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو یہی کتا ہے۔ شاید جس دم مجھے دریا میں ڈالا، میرے ساتھ یہ بھی کودا اور تیرتا ہوا میرے ساتھ لپٹا چلا جاتا تھا۔ میں نے اس کی دم پکڑ لی۔ اللہ نے اس کو میری زندگی کا سبب کیا، سات دن اور رات یہی صورت گزری۔ آٹھویں دن کنارے جا لگے۔ طاقت مطلق نہ تھی، لیٹے لیٹے کروٹیں کھا کر جوں توں اپنے تئیں خشکی میں ڈالا۔
ایک دن بے ہوش پڑا رہا۔ دوسرے دن کتے کی آواز کان میں گئی۔ ہوش میں آیا، خدا کا شکر بجا لایا، ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ دور سے شہر کا سواد نظر آیا لیکن قوت کہاں کہ ارادہ کروں! لاچار قدم چلتا پھر بیٹھتا۔ اسی حالت سے شام تک کوس بھر راہ کاٹی۔ بیچ میں ایک پہاڑ ملا۔ رات کو وہاں گر رہا۔ صبح کو شہر میں داخل ہوا۔ جب بازار میں گیا۔ نان بائی اور حلوائیوں کی دکانیں نظر آئیں، دل ترسنے لگا۔ نہ پاس پیسا جو خرید کروں۔ نہ جی چاہے کہ مفت مانگوں۔ اسی طرح اپنے دل کو تسلی دیتا ہوا کہ دکان سے لوں گا، چلا جاتا تھا۔ آخر طاقت نہ رہی اور پیٹ میں آگ لگی۔ نزدیک تھا کہ روح بدن سے نکلے، ناگاہ دو جوان کو دیکھا کہ لباس عجم کا پہنے، اور ہاتھ پکڑے چلے آتے تھے۔ ان کو دیکھ کر خوش ہوا کہ یہ اپنے ملک کے انسان ہیں شاید آشنا صورت ہو، ان سے اپنا احوال کہوں گا۔ جب نزدیک آئے تو میرے دونوں برادر حقیقی تھے۔ دیکھ کر نپٹ شاد ہوا۔ شکر خدا کا آیا کہ خدا نے آبرو رکھ لی۔ غیر کے آگے ہاتھ نہ پسارا۔ نزدیک جا کر سلام کیا اور بڑے بھائی کا ہاتھ چوما۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی غل و شور کیا۔ منجھلے نے طمانچہ مارا کہ میں لڑکھڑا گر پڑا۔ بڑے بھائی کا دامن پکڑا کہ شاید یہ حمایت کرے گا۔ اس نے لات ماری۔
غرض دونوں نے مجھے خوار و خام کیا، اور حضرت یوسف کے بھائیوں کا سا کام کیا۔ ہرچند میں نے خدا کے واسطے دیے اور گھگھیا ہر گز رحم نہ کھایا۔ ایک خلقت اکٹھی ہوئی۔ سب نے پوچھا اس کا کیا گناہ ہے؟ تب بھائیوں نے کہا۔ یہ حرام زادہ مدتوں سے تلاش میں تھے، آج اس صورت سے نظر آیا۔ اور مجھ سے پوچھتے تھے کہ اے ظالم! یہ کیا تیرے دل میں آیا کہ ہمارے بھائی کو مار کھپایا! کیا اس نے تیری تقصیر کی تھی۔ ان نے تجھ سے کیا برا سلوک کیا تھا کہ اپنا مختار بنایا تھا؟ پھر ان دونوں نے اپنے گریبان چاک کر ڈالے، اور بے اختیار جھوٹھ موٹھ بھائی کی خاطر روتے تھے، اور لات مکے مجھ پر کرتے تھے۔
اس میں حاکم کے پیادے آئے۔ ان کو ڈانٹا کہ کیوں مارتے ہو؟ اور میرا ہاتھ پکڑا کوتوال کے پاس لے گئے۔ یہ دونوں بھی ساتھ چلے اور حاکم سے بھی یہی کہا، اور بطور رشوت کے کچھ دے کر اپنا انصاف چاہا اور خون ناحق کا دعویٰ کیا۔ حاکم نے مجھ سے پوچھا۔ میری یہ حالت تھی کہ مارے بھوک اور پیٹ کے طاقت گویائی کی نہ تھی۔ سر نیچے کھڑا تھا کہ کچھ منہ سے جواب نہ نکلا۔ حاکم کو بھی یقین ہوا کہ یہ مقرر خونی۔ فرمایا کہ اسے میدان میں لے جا کر سولی دو۔ جہاں پناہ! میں نے روپے دے کر ان کو یہودی کی قید سے چھڑایا تھا۔ اس کے عوض انہوں نے بھی روپے خرچ کر کے میری جان کا قصد کیا، یہ دونوں حاضر ہیں۔ ان سے پوچھیے اس میں سرِ مو تفاوت کہتا ہوں؟ خیر مجھے لے گئے۔ جب دار کو دیکھا، ہاتھ زندگی سے دھوئے سوائے اس کتے کے کوئی میرا رونے والا نہ تھا۔ اس کی یہ حالت تھی کہ آدمی کے پاؤں میں لوٹتا اور چلاتا تھا۔ کوئی لکڑی کوئی پتھر سے مارتا لیکن یہ اس جگہ سے نہ سرکتا۔ اور میں رو بہ قبلہ کھڑا ہو خدا سے کہتا تھا کہ اس وقت میں تیری ذات کے سوا میرا کوئی نہیں، جو آڑے آوے اور بے گناہ کو بچاوے، اب تو ہی بچائے تو بچتا ہوں۔ یہ کہہ کر کلمہ شہادت کا پڑھ کر تیورا کر گر پڑا۔
خدا کی حکمت سے اس شہر کے بادشاہ کو قولنج کی بیماری ہوئی۔ امراء اور حکیم جمع ہوئے، جو علاج کرتے تھے، فائدہ نہ ہوتا تھا۔ ایک بزرگ نے کہا کہ سب سے بہتر یہ دوا ہے، کہ محتاجوں کو کچھ خیرات کرو اور بندی خانوں کو آزاد کرو۔ دوا سے دعا میں بڑا اثر ہے۔ وونہیں بادشاہی چیلے پنڈت خانوں کی طرف دوڑے۔ اتفاقاً ایک اس میدان میں آ نکلا اژدحام دیکھ کر معلوم کیا کہ کسو کو یہاں چڑھاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی گھوڑے کو دار کے نزدیک لا کر تلوار سے طنابیں کاٹ دیں۔ حاکم کے پیادوں کو ڈانٹا اور تنبیہ کی کہ ایسے وقت میں کہ بادشاہ کی یہ حالت ہے، تم خدا کے بندے کو قتل کرتے ہو، اور مجھے چھڑوا دیا۔ تب یہ دونوں بھائی پھر حاکم کے پاس گئے۔ اور میرے قتل کے واسطے کہا۔ شحنہ نے تو رشوت کھائی تھی، جو یہ کہتے تھے سو کرتا تھا۔ کوتوال نے ان سے کہا خاطر جمع رکھو۔ اب میں ایسا قید کرتا ہوں کہ آپ سے آپ مارے بھوکوں کے لیے بے آب و دانہ مر جاوے۔ کسو کو خبر نہ ہووے۔ مجھے پکڑ لائے اور ایک گوشے میں رکھا۔ اس شہر سے باہر کوس ایک پر ایک پہاڑ تھا کہ حضرت سلیمان کے وقت میں دیوؤں نے ایک کنواں تنگ و تاریک اس میں کھودا تھا۔ اس کا نام زندان سلیمان کہتے تھے، جس پر بڑا غضب بادشاہی ہوتا، اسے وہاں محبوس کرتے۔ وہ خودبخود مر جاتا۔ رات کو چپکے یہ دونوں بھائی اور کوتوال کے ڈنڈے مجھے اس پہاڑ پر لے گئے اور غار میں ڈال کر اپنی خاطر جمع کر کے پھر اے بادشاہ! یہ کتا میرے ساتھ چلا۔ جب مجھے کنویں میں گرایا، تب یہ اس کے مینڈ پر لیٹ رہا۔ میں اندر بے ہوش پڑا تھا۔ ذرا سرت آئی تو میں اپنے تئیں مردہ خیال کیا اور اس مکان کو گور سمجھا۔ اس میں دو شخصوں کی آواز کان میں پڑی کہ کچھ آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ یہی معلوم کیا کہ منکر نکیر ہیں مجھ سے سوال کرنے آئے ہیں۔ سرسراہٹ رسی کی سنی، جیسے کسو نے وہاں لٹکائی۔ میں حیرت میں تھا زمین کو ٹٹولتا تو ہڈیاں ہاتھ میں آتیں۔
بعد ایک ساعت کے آواز چپڑ چپڑ منہ چلانے کی میرے کان میں آئی۔ جیسے کوئی کچھ کھاتا ہے میں نے پوچھا کہ اے خدا کے بندو! تم کون ہو؟ خدا کے واسطے بتاؤ۔ وہ ہنسے اور بولے۔ یہ زندان مہتر سلیمان کا ہے۔ اور ہم قیدی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا۔ کیا میں جیتا ہوں؟ پھر کھلکھلا کر ہنسے اور کہا۔ اب تلک تو تو زندہ ہے، پر اب مرے گا۔ میں نے کہا تم کیا کھاتے ہو جو ہو مجھے بھی تھوڑا سا دو۔ تب جھنجھلا کر خالی جواب دیا اور کچھ نہ دیا۔ وہ کھا پی کر سو رہے۔ اور میں مارے ضعف و ناتوانی کے غش میں پڑا روتا تھا اور خدا کو یاد کرتا تھا۔ قبلہ عالم! سات دن دریا میں اور اتنے بھائیوں کے بہتان کے سبب دانہ میسر نہ آیا، علاوہ کھانے کے مار پیٹ کھائی، اور ایسے زندان میں پھنسا کہ صورت رہائی کی مطلق خیال میں نہ آتی تھی۔ آخر جان کندنی کی نوبت پہنچی۔ کبھو دم آتا کبھو نکل جاتا تھا، لیکن کبھو کبھو آدھی رات کو ایک شخص آتا اور رومال میں روٹیاں اور پانی کی صراحی ڈوری میں باندھ کر لٹکا دیتا اور پکارتا۔ وہ دونوں آدمی جو میرے پاس محبوس تھے، لے لیتے اور کھاتے پیتے۔ اوپر سے کتے نے یہ ہمیشہ احوال دیکھتے دیکھتے عقل دوڑائی کہ جس طرح یہ شخص آب و نان کنویں میں لٹکا دیتا ہے تو بھی ایسی فکر کر کہ اس بے کس جو میرا خاوند ہے آزوقہ پہنچے تو اس کا دم بچے۔ یہ خیال کر کے شہر میں گیا۔ نان بائی کی دکان پر میز پر گردے چنے ہوئے دھرے تھے۔ جست مار کر ایک کلچہ منہ میں لیا اور بھاگی۔ لوگ پیچھے دوڑے، ڈھیلے مارتے۔ لیکن اس نے نان کو نہ چھوڑا۔ آدمی تھک کر پھرے۔ شہر کے کتے پیچھے لگے ان سے لڑتا بھڑتا روٹی کو بچائے اس چاہ پر آیا، اور نان کو اندر ڈال دیا۔ روز روشن تھا۔ میں نے روٹی کو اپنے پاس پڑا دیکھا اور کتے کی آواز سنی۔ کلچے کو اٹھا لیا۔ اور یہ کتا روٹی پھینک کر پانی کی تلاش میں گیا۔
کسی گاؤں کے کنارے ایک بڑھیا کی جھونپڑی تھی۔ ٹھلیا اور بندھا پانی سے بھرا ہوا دھرا تھا پیر زن چرخا کاتتی تھی۔ کتا کوزے کے نزدیک گیا چاہا کہ لوٹے کو اٹھاوے۔ عورت نے ڈانٹا۔ لوٹا اس کے منہ سی چھٹا، گھڑے پر گرا، گھڑا پھوٹا، باقی باسن لڑکھ گئے، پانی بہہ چلا۔ بڑھیا لکڑی لے کر مارنے کو اٹھی۔ یہ سگ اس کے دامن میں لپٹ گیا۔ پھر اس کے پاؤں پر منہ ملنے اور دم ہلانے لگا۔ اور پہاڑ کی طرف دوڑ گیا۔ پھر اس پاس آ کر کبھی رسی اٹھاتا۔ کبھو ڈول منہ میں پکڑ کر دکھاتا، اور منہ اس کے قدموں پر رگڑتا، اور آنچل چادر کا پکڑ کر کھینچتا۔ خدا نے اس عورت کے دل میں رحم دیا کہ ڈول رسی کو لے کر اس کے ہمراہ چلی۔ یہ اس کا آنچل پکڑے گھر سے باہر ہو کر آگے آگے ہو لیا۔
آخر اس کو پہاڑی پر لے آیا۔ عورت کے جی میں کتے کی اس حرکت سے الہام ہوا کہ اس کا میاں مقرر اس غار میں گرفتار ہے۔ شاید اس کی خاطر پانی چاہتا ہے۔ غرض پیر زن کو لیے ہوئے غار کے منہ پر آیا۔ عورت نے لوٹا پانی کا بھر کر رسی سے لٹکایا۔ میں نے وہ باسن لے لیا۔ اور نان کا ٹکڑا کھایا۔ دو تین گھونٹ پانی پیا، اس پیٹ کے کتے کو راضی کیا۔ خدا کا شکر کر کر ایک کنارے بیٹھا اور خدا کی رحمت کا منتظر تھا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے؟ یہ حیوان بے زبان اسی طور سے نان لے آتا اور بڑھیا کے ہاتھ پانی پلواتا۔
جب بھٹیاروں نے دیکھا کہ کتا ہمیشہ روٹی لے جاتا۔ ترس کھا کر مقرر کہ جب اسے دیکھتے، ایک گروا اس کے آگے پھینک دیتے۔ اگر وہ عورت پانی نہ لاتی، تو یہ اس کے باسن پھوڑ ڈالتا۔ لاچار وہ بھی ہر روز ایک صراحی پانی کی دے جاتی، اس رفیق نے آب و نان سے میری خاطر جمع کی اور آپ زندانی کے منہ پر پڑا رہتا۔ اس طرح چھ مہینے گزرے، لیکن جو آدمی ایسی زندان میں رہے کہ دنیا کی ہوا اس کے نہ لگے اس کا کیا حال ہوا۔ نرا پوست داستخوان مجھ میں باقی رہا۔ زندگی وبال ہوئی۔ جی میں آوے کہ یا الٰہی! یہ دن نکل جاوے تو بہتر ہے۔
ایک روز رات کے وہ دونوں قیدی سوتے تھے۔ مرا دل امنڈ آیا۔ بے اختیار رونے لگا اور خدا کی درگاہ میں نک گھسنی کرنے لگا۔ پچھلے پہر کیا دیکھتا ہوں کہ خدا کی قدرت سے ایک رسی غار میں لٹکی۔ اور آواز سج میں آئی اے کم بخت بد نصیب ڈوری کا سرا اپنے ہاتھ میں مضبوط باندھ اور یہاں سے نکل۔
میں نے سن کر دل میں خیال کیا کہ آخر بھائی مجھ پر مہربان ہو کر لہو کے جوش سے آپ ہی نکالنے آئے۔ نہایت خوشی سے اس طناب کو کمر میں خوب کسا۔ کسو نے مجھے اوپر کھینچا۔ رات ایسی اندھیری تھی کہ جن نے مجھے نکالا۔ اس کو نہ پہچانا۔ کہ کون ہے۔ جب میں باہر آیا، تب اس نے کہا، جلد آ، یہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں۔مجھ میں طاقت تو نہ تھی، پر مارے ڈر کے لڑھکتا پڑتا پہاڑ سے نیچے آیا۔ دیکھوں تو دو گھوڑے زین بندھے ہوئے کھڑے ہیں۔ اس شخص نے ایک پر مجھے سوار کیا، اور ایک پر آپ چڑھ لیا۔ اور آگے ہوا۔ جاتے جاتے دریا کنارے پر پہنچا۔
صبح ہو گئی۔ اس شہر سے دس بارہ کوس نکل آئے۔ اس جوان کو دیکھا کہ اوپچی بنا ہوا زرہ بکتر پہنے چار آئنہ باندھے گھوڑے پر پاکھر ڈالے، میری طرف غضب کی نظروں سے گھر کر اور ہاتھ اپنا دانتوں سے کاٹ کر تلوار میان سے کھینچی اور گھوڑے کو جست کر مجھ پر چلائی۔ میں نے اپنے تئیں گھوڑے پر سے نیچے گرا دیا اور گھگھیانے لگا میں بے تقصیر ہوں، مجھے کیوں قتل کرتا ہے؟ اے صاحب مروت! ایسے زندان سے میرے تئیں تو نے نکالا۔ اب یہ بے مروتی کیا ہے؟ اس نے کہا۔ سچ کہہ تو کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ مسافر ہوں ناحق کی بلا میں گرفتار ہو گیا تھا۔ تمہارے تصدق سے باہر جیتا نکلا ہوں۔ اور باتیں خوشامد کی کیں۔
خدا نے اس کے دل میں رحم کیا۔ شمشیر کو غلاف کیا اور بولا خیر خدا جو چاہے سو کرے۔ جا تیری جان بخشی کی۔ جلد سوار ہو۔ یہاں توقف کا مکان نہیں۔ گھوڑوں کو جلد کیا اور چلے۔ راہ میں افسوس کھاتا اور پچھتاتا جاتا تھا۔ ظہر کی وقت تک ایک جزیرے میں جا پہنچے۔ وہاں گھوڑے سے اترا۔ مجھے بھی اتارا زین خوگیر مرکیوں کی پیٹھ سے کھولا اور چرنے کو چھوڑ دیا۔ اپنی بھی کمر سے ہتھیار کھول ڈالے اور بیٹھا۔ مجھ سے بولا۔ اے بد نصیب! اب اپنا احوال کہہ تو معلوم ہو کہ تو کون ہے۔ میں نے اپنا نام بتایا، اور جو کچھ بپتا بتی تھی، اس سے آخر تک کہی۔
اس جوان نے جب میری سرگزشت سب سنی رونے لگا۔ اور مخاطب ہوا کہ اے جوان! اب میرا ماجرا سن۔ میں کنیا زیرباد کے دیس کے راجہ کی بیٹی ہوں۔ اور وہ گبرو جو زندان سلیمان میں قید ہے، اس کا نام بہرہ مند ہے۔ میرے پتا کے منتری کا بیٹا ہے۔ ایک روز مہاراج نے آگیا دی کہ جتنے راجہ اور کنور ہیں، میدان میں زیر جھروکے نکل کر تیر اندازی اور چوگان بازی کریں تو گھڑ چڑھی اور کسب ہر ایک کا ظاہر ہو۔ میں رانی کے نیڑے میں جو میری ماتا تھیں، ٹھاری پر اوجھل بیٹھی تھی۔ اور دائیاں اور سہیلیاں حاضر تھیں تماشا دیکھتی تھی۔ یہ دیوان کا پوت سب میں سندر تھا، اور گھوڑے کو کاوے دے کر کسب کر رہا تھا۔ مجھ کو بھایا اور دل سے اس پر ریجھی مدت تلک یہ بات گپت رکھی۔
آخر جب بہت بیاکل ہوئی، تو دائی سے کہا اور ڈھیر سا انعام دیا۔ وہ اس جوان کو کسو نہ کر ڈھپ سے پوشیدہ میری دھراھر میں لے آئی، تب یہ بھی مجھے چاہنے لگا۔ بہت دن اس عشق مشک میں کٹے۔
ایک روز چوکی داروں نے آدھی رات کو ہتھیار باندھے اور محل میں آتے دیکھ کر اسے پکڑا اور راجہ سے کہا۔ اسے حکم قتل کا کیا۔ سب اراکان دولت نے کہہ سن کر جان بخشی کروائی۔ تب فرمایا کہ اس کو زندان سلیمان میں ڈال دو اور دوسرا جوان جو اس کے ہمراہ اسیر ہے اس کا بھگنا ہے۔ اس دن کو وہ بھی اس کے ساتھ تھا۔ دونوں کو اس کنویں میں چھوڑ دیا۔ آج تین برس ہوئے کہ وہ پھنسے ہیں۔ مگر کسو نے نہیں دریافت کیا کہ یہ جوان راجہ کے گھر میں کیوں آیا تھا۔ بھگوان نے میری پت رکھی۔ اس شکرانے کے بدلے میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ ان اور جل اس کو پہنچایا کروں۔ جب سے اٹھواڑے میں ایک دن آتی ہوں اور آٹھ دن کا آزوقہ اکٹھا دے جاتی ہوں۔ کل کی رات سپنے میں دیکھا کہ کوئی مانس کہتا ہے کہ شتابی اٹھ اور گھوڑا جوڑا اور کمند اور کچھ نقد خرچ کے واسطے لے کر اس غار پر جا اور اس بچارے کو وہاں سے نکال۔ یہ سن کر میں چونک پڑے اور مگن ہو کر مردانہ بھیس کیا، اور ایک صندوقچہ جواہر و اشرفی سے بھر لیا۔ اور یہ گھوڑا اور کپڑا جوڑا لے کر وہاں گئی کہ کمند سے اسے کھینچوں۔ کرم میں تیری تھا کہ ویسی قید سے اس طرح چھٹکارا پاوے۔ اور میرے اس کرتب سے محرم کوئی نہیں، شاید وہ کوئی دیوتا تھا کہ تیری مخلصی کی خاطر مجھے بھجوایا۔ خیر جو میرے بھاگ میں تھا سو ہوا۔ یہ کتھا کہہ کر پوری کچوری، اس کا سالن انگوچھے سے کھولا۔ پہلے قند نکال ایک کٹورے میں گھولا اور عرق بید مشک کا اس میں ڈال کر مجھے دیا۔ میں نے اس کے ہاتھ لے کر پیا۔ پھر تھوڑا سا ناشتہ کیا۔ بعد ایک ساعت کے میرے تئیں لنگی بندھوا کر دریا میں لے گئی۔ قینچی سے میری سر کے بال کترے، ناخن لیے، نہلا دھلا کر کپڑے پہنائے۔ نئے سر سے آدمی بنایا۔ میں دوگانہ شکرانے کا رو بہ قبلہ ہو کر پڑھنے لگا۔ وہ نازنین اس میری حرکت کو دیکھتی رہی۔
جب نماز سے فارغ ہوا، پوچھنے لگی کہ یہ تو نے کیا کام کیا؟ میں نے کہا جس خالق نے ساری خلقت کو پیدا کیا اور تجھ سی محبوبہ سے میری خدمت کروائی اور تیرے کو مجھ پر مہربان کیا اور ویسے زندان سے خلاص کروایا اس کی ذات لاشریک ہے اس کی میں نے عبادت کی اور بندگی بجا لایا۔ اور ادائے شکر کیا۔ یہ بات سن کر کہنے لگی تم مسلمان ہو؟ میں کہا شکر الحمد للہ، بولی۔ میرا دل تمہاری باتوں سے خوش ہوا۔ میرے تئیں جبھی سکھاؤ اور کلمہ پڑھاؤ۔ میں نے دل میں کہا الحمد للہ کہ یہ ہمارے دین کی شریک ہوئی۔
غرض میں نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا، اور اس سے پڑھوایا۔ پھر وہاں سے گھوڑوں پر سوار ہو کر ہم دونوں چلے۔ رات کو اترتے تو وہ ذکر دین ایمان کا کرتی اور سنتی اور خوش ہوتی۔ اسی طرح دو مہینے تلک پیہم شبانہ روز چلتے گئے۔ آ کر ایک ولایت میں پہنچے کہ درمیان سرحد ملک زیر باد اور سراندیپ کے تھی۔ ایک شہر نظر آیا کہ آبادی میں استنبول سے بڑا اور آب و ہوا بہت خوش اور موافق۔ بادشاہ اس شہر کا کسری سے زیادہ عادل اور رعیت پرور دیکھ کر دل نپٹ شاد ہوا۔ ایک حویلی خرید کر بود و باش مقرر کی۔ جب کئی دن میں رنج سفر سے آسودہ ہوئے کچھ اسباب ضروری درست کر کے اس بی بی سے موافق شرع محمدی کے نکاح کیا اور رہنے لگا۔ تین سال میں وہاں کے اکابر و اصاغر سے مل جل کر اعتبار بہم پہنچایا۔ اور تجارے کا ٹھاٹھ پھیلایا۔ آخر وہاں کے سب سوداگروں سے سبقت لے گیا۔
ایک روز وزیر اعظم کی خدمت میں سلام کے لئے چلا۔ ایک میدان میں کثرت خلق اللہ کی دیکھی، کسو سے پوچھا کیوں اتنا ازدحام ہے؟ معلوم ہوا کہ دو شخصوں کو زنا اور چوری کرتے پکڑا ہے، اور شاید خون بھی کیا ہے، ان کو سنگسار کرنے کو لائے ہیں۔ مجھے سنتے ہی اپنا احوال یاد آیا کہ ایک دن مجھے بھی اس طرح سولی چڑھانے لے گئے تھے۔ خدا نے بچایا۔ آیا یہ کون ہوں گے کہ ایسی بلا میں گرفتار ہوئے ہیں؟ معلوم نہیں کہ راست ہے یا میری طرح تہمت میں گرفتار ہوئے ہیں۔ بھیڑ کو چیر کر اندر گھسا۔ دیکھا تو یہی میرے دونوں بھائی ہیں کہ ٹنڈیاں کسے، سروپا برہنہ ان کو لیے جاتے ہیں۔ ان کی صورت دیکھتے ہی خون نے جوش کیا اور کلیجہ جلا۔ محصول کو ایک مٹھی اشرفیاں دیں، اور کہا ایک ساعت توقف کرو۔ اور وہاں سے گھوڑے کو سرپٹ پھینک کر حاکم کے گھر گیا۔ ایک دانہ یاقوت بے بہا کا نذر گزرانا اور ان کی شفاعت کی۔ حاکم نے کہا۔ ایک شخص ان کا مدعی ہے، اور ان کے گناہ ثابت ہوئے ہیں، اور بادشاہ کے ہو چکا ہے۔ میں لاچار ہوں۔
بارے بہت منت و زاری سے حاکم نے مدعی کو بلوا کر پانچ ہزار روپے پر راضی کیا کہ وہ دعوی خون کا معاف کرے۔ میں نے روپے گن دیئے اور لا دعوی لکھوا لیا۔ اور ایسی بلا سے مخلصی دلوائی۔ جہاں پناہ! ان سے پوچھئے کہ سچ کہتا ہوں یا جھوٹ بکتا ہوں۔ وہ دونوں بھائی سر نیچے کیے شرمندہ سے کھڑے تھے، خیر ان کو چھڑوا کر گھر میں لایا حمام کروا کر لباس پہنوایا۔ دیوان خانے میں مکان رہنے کو دیا۔ اس مرتبہ اپنے قبیلے کو ان کے روبرو نہ کیا۔ ان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ اور ان کے ساتھ کھانا کھاتا۔ سونے کے وقت گھر میں جاتا۔ تین برس تک ان کی خاطر داری میں گزری اور ان سے بھی کوئی حرکت بد واقع نہ ہوئی کہ باعث رنجیدگی کا ہووے جو میں سوار ہو کر کہیں جاتا تو یہ گھر میں رہتے۔
اتفاقا وہ بی بی نیک بخت ایک دن حمام کو گئی تھی۔ جب دیوان خانے میں آئی کوئی مرد نظر نہ پڑا۔ اس نے برقع اتارا۔ شاید یہ منجھلا بھائی لیٹا ہوا جاگتا تھا۔ دیکھتے ہی عاشق ہوا۔ بڑے بھائی سے کہا دونوں نے میرے مار ڈالنے کی باہم صلاح کی۔ میں اس حرکت سے مطلق خبر نہ رکھتا بلکہ دل میں کہتا تھا کہ الحمد للہ اس مرتبے اب تک انہوں نے کچھ ایسی بات نہیں کی۔ اب ان کی وضع درست ہوئی۔ شاید غیرت کو کام فرمایا۔
ایک روز بعد کھانے کے بڑے بھائی صاحب آب دیدہ ہوئے اور اپنے وطن کی تعریف اور ایران کی خوبیاں بیان کرنے لگے۔ یہ سن کر دوسرے بھی بسورنے لگے۔ میں نے کہا اگر ارادہ وطن کا ہے تو بہتر میں تابع مرضی کے ہوں۔ میری بھی یہی آرزو ہے۔ اب انشا اللہ تعالیٰ میں بھی آپ کی رکاب میں چلتا ہوں۔ اس بی بی سے دونوں بھائیوں کی اداسی کا مذکور کیا اور اپنا ارادہ بھی کہا۔ وہ عاقلہ بولی۔ تم جانو لیکن پھر کچھ دغا کیا چاہتے ہیں۔ یہ تمہاری جان کے دشمن ہیں۔ تم نے سانپ آستین میں پالے ہیں۔ اور ان کی دوستی کا بھروسا رکھتے ہو! جو جی چاہے سو کرو۔ لیکن موذیوں سے خبردار رہو۔ بہر تقدیر تھوڑے عرصہ میں تیاری سفر کی کر کے خیمہ میدان میں استاد کیا۔ بڑا قافلہ جمع ہوا اور میری سرداری اور قافلہ باشی پر راضی ہوئے۔ اچھی ساعت دیکھ کر روانہ ہوا، لیکن اس کی طرف سے اپنی جانب میں ہوشیار رہتا اور سب صورتوں سے فرماں برداری اور دلجوئی ان کی کرتا۔ ایک روز ایک منزل میں منجھلے بھائی نے مذکور کیا کہ ایک فرسخ اس مکان سے ایک چشمہ جاری ہے، مانند سلسبیل کے، اور میدان میں خود رو کوسوں تک لالہ و نافرمان اور نرگس و گلاب پھولا ہے۔ واقعی عجب مکان سیر کا ہے۔ اگر اپنا اختیار ہوتا تو کل وہاں جا کر تفریح طبیعت کی کرتے اور ماندگی بھی رفع ہوتی۔ میں بولا کہ صاحب مختار ہیں۔ فرماؤ تو کل کے دن مقام کریں اور وہاں چل کر سیر کرتے پھریں۔ یہ بولے ازیں چہ بہتر؟
میں نے حکم کیا کہ سارے قافلے میں پکار دو کہ کل مقام ہے، اور بکاول کو کہا کہ حاضری قسم بہ قسم کی تیار کر، کل سیر کو چلیں گے، جب صبح ہوئی ان دونوں برادروں نے کپڑے پہن کر کمر باندھ کر مجھے یاد دلایا کہ جلد ٹھنڈے ٹھنڈے چلیے اور سیر کیجئے۔
میں نے سواری مانگی۔ بولے کہ پاپیادہ جو لطف سیر کا ہوتا ہے، سو سواری میں معدوم نفروں کو کہہ دو گھوڑے ڈریا کر لے آویں۔ دونوں غلاموں نے قلیان اور قہوہ دان لے لیا اور ساتھ ہوئے۔ راہ میں تیر اندازی کرتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ جب قافلہ سے دور نکل گئے ایک غلام کو انہوں نے کسی کام سے دور بھیجا۔ تھوڑی دور آگے بڑھ کر دوسرے کو بھی اس کے بلانے کو رخصت کیا۔ کم بختی جو آئی میرے منہ میں جیسے کسو نے مہر دے دی۔ جو وہ چاہتے تھے سو کرتے تھے اور مجھے باتوں میں پر جائے لیے جاتے تھے۔ مگر یہ کتا ساتھ رہ گیا۔
بہت دور نکل گئے نہ چشمہ نظر آیا نہ گلزار۔ مگر ایک میدان پر خار تھا۔ وہاں مجھے پیشاب لگا۔ میں بول کرنے کو بیٹھا۔ اپنے پیچھے چمک تلوار کی سی دیکھی، مڑ کر دیکھوں تو منجھلے بھائی صاحب نے مجھ پر تلوار ماری کہ سر دو پارہ ہو گیا جب تلک بولوں کہ اے ظالم مجھے کیوں مارتا ہے بڑے بھائی نے شانے پر لگائی۔ دونوں کاری زخم لگے۔ تیورا کر گرا۔ تب ان دونوں بے رحموں نے بہ خاطر جمع میرے تئیں چور زخمی کیا اور لہو لہان کر دیا۔ یہ کتا میرا احوال دیکھ کر ان پر بھپکا۔ اس کو بھی گھائل کیا۔ بعد اس کے اپنے ہاتھوں سے اپنے بدنوں میں زخموں کے نشان کیے اور سروپا برہنہ قافلے میں گئے اور ظاہر کیا کہ حرامیوں نے اس میدان میں ہمارے بھائی کو شہید کیا اور ہم بھی لڑ بھڑ کر زخمی ہوئے۔ جلدی کوچ کرو نہیں تو کارواں پر گر کر سب کو ننگیا لیں گی۔ قافلے کے لوگوں نے بدوؤں کا نام جو سنا وونہیں بدحواس ہوئے اور گھبرا کر کوچ کیا اور چل نکلے۔ میرے قبیلے نے سلوک اور خوبیاں اور ان کی سن رکھی تھیں، جو جو مجھ سے دعائیں کی تھی۔ یہ واردات ان کا زبوں سے سن کر جلد خنجر سے تئیں ہلاک کیا اور جاں بحق تسلیم ہوئی۔
اے درویشو! اس خواجہ سگ پرست نے جب اپنی کیفیت اور مصیبت اس طرح سے یہاں تلک کہی، سنتے ہی مجھے بے اختیار رونا آیا۔ وہ سوداگر دیکھ کر کہنے لگا۔ قبلہ عالم! اگر بے ادبی نہ ہوتی تو برہنہ ہو کر میں اپنا سارا بدن کھول کر دکھاتا۔ تس پر بھی اپنی راستی پر گریبان مونڈھے تلک چیر کر دکھایا۔ واقعی چار انگل تن اس کا بغیر زخم کے ثابت نہ تھا۔ میرے حضور سر سے عمامہ اتارا۔ کھوپڑی میں ایسا بڑا گڑھا پڑا تھا کہ ایک انار سموچا اس میں سماوے۔ اراکان دولت جتنے حاضر تھے سب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں طاقت دیکھنے کی نہ رہی۔
پھر خواجہ بولا کہ بادشاہ سلامت! جب یہ بھائی اپنی دانست میں میرا کام تمام کر کے چلے گئے ایک طرف میں اور ایک طرف یہ سگ میرے نزدیک زخمی پڑا تھا۔ لہو اتنا بدن سے گیا کہ مطلق طاقت اور ہوش کچھ باقی نہ تھا۔ کیا جانوں دم کہا اٹک رہا تھا کہ جیتا تھا۔ جس جگہ پڑا تھا ولایت سراندیپ کی سرحد تھی اور ایک شہر بہت آباد اس کے قریب تھا۔ اس شہر میں بڑا بت خانہ تھا۔ اور وہاں کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی، نہایت قبول صورت اور صاحب جمال۔
اکثر بادشاہ اور شہزادے اس کے عشق میں خراب تھے۔ وہاں رسم حجاب کی نہ تھی۔ اس سے، وہ لڑکی تمام ہمجولیوں کے ساتھ شیر شکار کرتی پھرتی۔ ہم سے نزدیک ایک بادشاہی باغ تھا۔ اس روز بادشاہ سے اجازت لے کر اسی باغ میں آئی تھی۔ سیرکی خاطر اس میدان میں پھرتی پھرتی آ نکلی۔ کئی خواتین بھی ساتھ سوار تھیں، جہاں میں پڑا تھا آئیں۔ میرا کراہنا سن کر پاس کھڑی ہوئی۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر وہ بھاگیں اور شہزادی سے کہا کہ ایک مردوا اور ایک کتا لہو میں شور بور پڑا ہے۔ ان سے یہ سن کر آپ ملکہ میرے سر پر آئی، افسوس کھا کر کہا۔ دیکھو تو کچھ جان باقی ہے؟ دوچار دائیوں نے اتر کر دیکھا اور عرض کی ۔ اب تلک تو جیتا ہے ترت فرمایا کہ آمانت قالیچے پر لٹا کر باغ لے چلو۔
وہاں لے جا کر جراح سرکار کا بلا کر میرے اور میرے کتے کے علاج کی خاطر بہت تاکید اور امیدوار انعام و بخشش کا کیا۔ اس حجام نے سارا بدن میرا پونچھ پانچھ کر خاک و خون سے پاک کیا، اور شراب سے دھو دھا کر زخموں کو ٹانکے دے کر مرہم لگایا، اور بید مشک کا عرق پانی کے بدلے میرے حلق میں چوایا۔ ملکہ آپ میرے سرہانے بیٹھی رہتی اور میری خدمت کرواتی اور تمام دن رات میں دوچار بار کچھ شوربا یا شربت اپنے ہاتھ سے پلاتی۔
بارے مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ ملکہ نہایت افسوس سے کہتی ہے، کس ظالم خوں خوار نے تجھ پر یہ ستم کیا۔ بڑے بت سے بھی نہ ڈرا۔ بعد دس روز کے عرق اور شربت اور معجونوں کے قوت سے میں نے آنکھ کھولی۔ دیکھا تو اندر کا اکھاڑا میرے آس پاس جمع ہے اور ملکہ سرہانے کھڑی ہے۔ ایک آہ بھری اور چاہا کہ کچھ حرکت کروں۔ طاقت نہ پائی۔ بادشاہ زادی مہربانی سے بولی کہ اے عجمی خاطر جمع رکھ۔ کڑھ مت اگرچہ کسو ظالم نے تیرا یہ احوال کیا، لیکن بڑے بت نے مجھ کو مہربان کیا ہے۔ اب چنگا ہو جاوے گا۔ قسم اس خدا کی جو واحد لا شریک ہے، میں اسے دیکھ کر پھر بے ہوش ہو گیا۔ ملکہ نے بھی دریافت کیا اور گلاب پاش سے گلاب اپنے ہاتھ سے چھڑکا۔ بیس دن کے عرصے میں زخم بھر آئے اور انگور کر لائے۔ بلکہ ہمیشہ رات کو جب سب سو جاتے میرے پاس آتی اور کھلا پلا جاتی۔
غرض ایک چلے میں غسل کیا۔ بادشاہ زادی نہایت خوش ہوئی۔ حجام کو انعام بہت سا دیا۔ اور مجھ کو پوشاک پہنائی۔ خدا کے فضل سے اور خبر گیری اور سعی سے ملکہ کی خوب چاق و چوبند ہوا۔ اور بدن نہایت تیار ہوا۔ اور کتا بھی فربہ ہو گیا۔ ہر روز مجھے شراب پلاتی اور باتیں سنتی اور خوش ہوتی۔ میں بھی ایک آدھی نقل یا کہانی انوٹھی کہہ کر اس کے دل کو بہلاتا۔
ایک دن پوچھنے لگی کہ اپنا احوال تو بیان کرو کہ تم کون ہو اور یہ واردات تم پر کیونکر آئی؟ میں نے سارا ماجرا اپنا اول سے آخر تک کہہ سنایا۔ سن کر رونے لگی اور بولی کہ اب میں تجھ سے ایسا سلوک کروں گی کہ اپنی ساری مصیبت بھول جاوے گا۔ میں نے کہا خدا تمہیں سلامت رکھے۔ تم نے نئے سر سے میری بخشی کی ہے۔ اب میں تمہارا ہو رہا ہوں۔ واسطے خدا کے اسی طرح ہمیشہ مجھ پر اپنی مہربانی کی نظر رکھیو۔ غرض تمام رات اکیلی میرے پاس بیٹھی رہتی اور صحبت رکھتی۔ بعضے دن دائی اس کی بھی ساتھ رہتی۔ ایک طور کا مذکور سنتی اور کہتی۔ جب ملکہ اٹھ جاتی اور میں تنہا ہوتا، طہارت کر کونے میں چھپ کر نماز پڑھ لیتا۔
ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ ملکہ اپنے باپ کے پاس گئی تھی۔ میں خاطر جمع سے وضو کر کے نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک شہزادی دائی سے بولتی ہوئی کہ دیکھیں عجمی اس وقت کیا کرتا ہے۔ سوتا ہے یا جاگتا ہے، مجھے مکان پر جو نہ دیکھا تعجب میں ہوئی کہ آئیں یہ کہاں گیا ہے؟ کسو سے کوئی لگا تو نہیں لگایا۔ کونا کٹھرا دیکھنے لگی اور تلاش کرنے لگی۔ آخر جہاں میں نماز کر رہا تھا وہاں آ نکلی۔ اس لڑکی نے کبھو نماز کاہے کو دیکھی تھی۔ چپکی کھڑی دیکھا کی۔ جب میں نماز تمام کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سجدے میں گیا، بے اختیار کھلکھلا کر ہنسی اور بولی کیا یہ آدمی سودائی ہو گیا۔ یہ کیسی کیسی حرکتیں کر رہا ہے۔ میں ہنسنے کی آواز سن کر دل میں ڈرا۔ بلکہ آگے آ کر پوچھنے لگی کہ اے عجمی! یہ تو کیا کرتا تھا میں کچھ جواب نہ دے سکا۔ اس میں دائی بولی بلا لوں تو تیرے صدقے گئی مجھے یوں معلوم ہوتا ہے، کہ یہ شخص مسلمان ہے، اور لات منات کا دشمن ہے ان دیکھے خدا کو پوجتا ہے۔
ملکہ نے یہ سنتے ہی ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ بہت غصے ہوئی کہ میں کیا جانتی تھی کہ یہ ترک ہے اور ہمارے خداؤں کا منکر ہے۔ تب ہی ہمارے بت کے غضب میں پڑا تھا۔ میں نے ناحق اس کی پرورش کی اور اپنے گھر میں رکھا۔ یہ کہتی ہوئی چلی گئی۔ میں سنتے ہی بدحواس ہوا کہ دیکھئے اب کیا سلوک کرے۔ مارے خوف کے نیند اچاٹ ہو گئی۔ صبح تک بے اختیار رویا کیا اور آنسوؤں سے منہ دھوایا کیا۔
تین دن رات اسی خوف و رجا میں روتے گزرے، ہرگز آنکھ نہ جھپکی۔ تیسری شب ملکہ شراب کے نشے میں مخمور اور دائی ساتھ لیے میرے مکان پر آئی۔ غصے میں بھری ہوئی اور تیر کمان ہاتھ میں لیے باہر چمن کے کنارے بیٹھی دائی سے پیالا شراب کا مانگا، پی کر کہا۔ دیا وہ عجمی ہماری بڑے بت کے قہر میں گرفتار ہے، موا یا اب تک جیتا ہے؟ دائی نے کہا بلیا لوں کچھ دم باقی ہے۔ بولی کہ اب وہ ہماری نظروں سے گرا۔ لیکن کہہ کر باہر آوے۔ دائی نے مجھے پکارا میں دوڑا۔ دیکھوں تو ملکہ کا چہرہ مارے غصے کے تمتما رہا ہے۔ اور سرخ ہو گیا ہے۔ روح قلب میں نہ رہی۔ سلام کیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا۔ غضب کی نگاہ سے مجھے دیکھ کر دائی سے بولی۔ اگر میں اس دین کے دشمن کو تیر سے مار دوں تو میری خطا بڑا بت معاف کرے گا یا نہیں؟ یہ مجھ سے بڑا گناہ ہوا ہے کہ میں نے اسے اپنے گھر میں رکھ کر خاطر داری کی۔
دائی نے کہا بادشاہ زادی کی کیا تقصیر ہے کہ کچھ دشمن جان کر نہیں رکھا۔ تم نے اس پر ترس کھایا۔ تم کو نیکی کے عوض نیکی ملے گی اور یہ اپنی بدی کا ثمرہ بڑے بت سے پا رہے گا۔ یہ سن کر کہا دائی اسے بیٹھنے کو کہہ۔ دائی نے مجھے اشارت کی کہ بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا۔ ملکہ نے اور جام شراب کا پیا اور دائی سے کہا کہ اس کم بخت کو بھی ایک پیالہ دے تو آسانی سے مارا جاوے۔ دائی نے جام دیا۔ میں نے بے عذر پیا اور سلام کیا۔ ہرگز میری طرف نگاہ نہ کی، مگر کن انکھیوں سے چوری چوری دیکھتی تھی۔ جب مجھے سرور ہوا کچھ شعر پڑھے لگا۔ ازاں جملہ ایک بیت یہ بھی پڑھی :
قابو میں ہوں میں تیرے، گو اب جیا تو پھر کیا
خنجر تلے کسو نے ٹک دم لیا تو پھر کیا
سن کر مسکرائی اور دائی کی طرف دیکھ کر بولی۔ کیا تجھے نیند آئی ہے۔ دائی نے مرضی پر کہا ہاں مجھ پر خواب نے غلبہ کیا ہے۔ وہ تو رخصت ہو کر جہنم واصل ہوئی۔ بعد ایک دم کے ملکہ نے پیالہ مجھ سے مانگا۔ میں جلد بھر کر رو برو لے گیا۔ ایک ادا سے میرے ہاتھ سے لے کر پی لیا۔ تب میں قدموں میں گرا۔ ملکہ نے ہاتھ مجھ پر جھاڑا اور کہنے لگی۔ اے جاہل ہماری بڑے بت میں کیا برائی دیکھی جو غائب خدا کی پرستش کرنے لگا؟ میں نے کہا انصاف شرط ہے۔ ٹک غور فرمائیے کہ بندگی کے لائق وہ خدا ہے کہ جس نے ایک قطرے پانی سے تم سارا کا محبوب پیدا کیا اور یہ حسن و جمال دیا کہ ایک آن میں ہزاروں انسانوں کے دل کو دیوانہ کر ڈالا۔ بت کیا چیز ہے کہ کوئی اس کی پوجا کرے؟ ایک پتھر کو سنگ تراشوں نے گڑھ کی صورت بنائی اور دام احمقوں کے واسطے بچھایا۔ جن کو شیطان نے ورغلانا ہے۔ وہ مصنوع کو صانع جانتے ہیں۔ جسے اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں۔ اس کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ اور ہم مسلمان ہیں۔ جس نے ہمیں بنایا، ہم اسے مانتے ہیں۔ ان کے واسطے دوزخ، ہمارے لیے بہشت بنایا ہے اگر بادشاہ زادی ایمان خدا پر لاوے تب اس کا مزہ پاوے، اور حق و باطل میں فرق کرے اور اپنے اعتقاد کو غلط سمجھے۔
بارے ایسی ایسی نصیحتیں سن کر اس سنگ دل کا دل ملائم ہوا۔ خدا کے فضل و کرم سے رونے لگی۔ اور بولی اچھا مجھے بھی اپنا دین سکھاؤ۔ میں نے کلمہ تلقین کیا۔ ان نے بصدق دل پڑھا اور توجہ استغفار کر کر مسلمان ہوئی۔ تب میں اس کے پاؤں پڑا۔ صبح تک کلمہ پڑھتی اور استغفار کرتی رہی، پھر کہنے لگی۔ بھلا میں نے تمہارا دین قبول کیا، لیکن ماں باپ کافر ہیں۔ ان کا علاج کیا ہے۔ میں نے کہا تمہاری بلا سے جو جیسا کرے ویسا پاوے گا۔ بولی کہ مجھے چچا کے بیٹے سے منسوب کیا ہے اور وہ بت پرست ہے۔ کل کو خدانخواستہ بیاہ ہو اور وہ کافر مجھ سے ملے اور اس کا نطفہ میرے پیٹ میں ٹھہر جاوے تو بڑی قباحت ہے۔ اس کی فکر ابھی سے کیا چاہیے۔ کہ اس بلا سے نجات پاؤں۔ میں نے کہا تم بات تو معقول کہتی ہو۔ جو مزاج میں آوے سو کرو۔ بولی کہ میں اب یہاں نہ رہوں گی۔ کہیں نکل جاؤں گی۔
میں نے پوچھا کس صورت سے بھاگنے پاؤں گی اور کہاں جاؤں گی؟ جواب دیا کہ پہلے تم میرے پاس سے جاؤ۔ مسلمانوں کے ساتھ سرا میں جا رہو تو سب آدمی سنیں اور تم پر گمان نہ لے جاویں۔ تم وہاں کشتیوں کی تلاش میں رہو جو جہاز عجم کی طرف چلے، مجھے خبر کیجیو۔ میں اس واسطے دائی کو تمہارے پاس اکثر بھیجا کروں گی۔ جب تم کہلا بھیجو گے، میں نل کر آؤں گی اور کشتی پر سوار ہو کر چلی جاؤں گی۔ ان کم بخت دے دینوں کے ہاتھ سے مخلصی پاؤں گی۔
میں نے کہا۔ تمہاری جان و ایمان کے قربان ہوا۔ دائی کو کیا کرو گی؟ بولی اس کی فکر سہل ہے۔ ایک پیالے میں زہر ہلاہل پلا دوں گی۔ یہی صلاح مقرر ہوئی۔ جب دن ہوا، میں کارواں سرا میں ہو گیا۔ ایک حجرہ کرائے پر لیا اور جا رہا۔ اس جدائی میں فقط وصل کی توقع پر جیتا تھا۔ جب دو مہینے میں سوداگر روم و شام و اصفہان کے جمع ہوئے، ارادہ کوچ کا تری کی راہ سے کیا اور اپنا اسباب جہاز پر چڑھانے لگے۔ ایک جگہ رہنے سے اکثر آشنا صورت ہو گئے تھے۔ آشنانان صورت مجھ سے کہنے لگے کیوں صاحب! تم بھی چلو نا۔ یہاں کفرستان میں کب تلک رہو گے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس کیا ہے جو اپنے وطن کو جاؤں؟ یہی ایک لونڈی، ایک کتا، ایک صندوق بساط میں رکھتا ہوں اگر تھوڑی سی جگہ بیٹھ رہنے کو دو اور اس کو نول مقرر کرو تو میری خاطر جمع ہو۔ میں بھی سوار ہوں۔
سوداگروں نے ایک کوٹھڑی میرے تحت میں کر دی۔ میں نے اس کے نول کا روپیہ بھر دیا۔ دل جمی کر کر کسو بہانے سے دائی کے گھر گیا اور کہا اے اماں تجھ سے رخصت ہونے آیا ہوں اب وطن کو جاتا ہوں۔ اگر تیری توجہ سے ایک نظر ملکہ کو دیکھ لوں تو بڑی بات ہے۔ بارے دائی نے قبول کیا۔ میں نے کہا میں رات کو آؤں گا۔ فلانے مکان پر کھڑا رہوں گا۔ بولی اچھا۔ میں کہہ کر سرا میں آیا۔ صندوق اور بچھونے اٹھا کر جہاز میں لایا۔ اور ناخدا کو سونپ کر کہا۔ کل فکر کو اپنی کنیز کو لے کر آؤں گا۔ ناخدا بولا۔ جلد آئیو۔ صبح ہی لنگر اٹھاویں گے۔ میں نے کہا بہت خوب۔ جب رات ہوئی اسی مکان پر جہاں دائی سے وعدہ کیا تھا، جا کر کھڑا رہا۔ پہر رات گئے محل کا دروازہ کھلا اور ملکہ میلے کچیلے کپڑے پہنے ایک پیٹی جواہر کی لئے باہر نکلی۔ وہ پٹاری میرے حوالے کی اور ساتھ چلی۔ صبح ہوتے کنارے دریا کے ہم پہنچے۔ ایک لبوت پر سوار ہو کر جہاز میں اترے۔ یہ وفادار کتا بھی ساتھ تھا۔ جب صبح خوب روشن ہوئی لنگر اٹھایا اور روانہ ہوئے۔ بہ خاطر جمع چلے جاتے تھے ایک بندر سے آواز توپوں کی شلک کی آئی۔ سب حیران اور فکر مند ہوئے۔ جہاز کو لنگر کیا اور آپس میں چرچا ہونے لگا کہ کیا شاہ بندر کچھ دغا کرے گا۔ توپ چھوڑنے کا سبب کیا ہے؟ اتفاقاً سب سوداگروں کے پاس خوب صورت لونڈیاں تھیں۔ شاہ بندر کے خوف سے مبادا چھین لے، سب نے کنیزوں کو صندوقوں میں بند کیا۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا کہ اپنی شہزادی کو صندوق میں بٹھا کر قفل کر دیا۔ اس عرصے میں شاہ بندر ایک غراب پر بمع نوکر چاکر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ آتے آتے جہاز پر آ چڑھا۔ شاید اس کے آنے کا یہ سبب تھا کہ بادشاہ کو دائی کے مرنے اور ملکہ کے غائب ہونے کی خبر معلوم ہوئی مارے غیرت کے اس کا تو نام نہ لیا مگر شاہ بندر کو حکم کیا کہ میں نے سنا ہے عجمی سوداگروں کے پاس لونڈیاں خوب خوب ہیں۔ سو میں شہزادی کے واسطے لیا چاہتا ہوں، تم ان کو روک کر جتنی لونڈیاں جہاز میں ہوں، حضور میں حاضر کرو گے۔ انہیں دیکھ کر جو پسند آویں گی ان کی قیمت دی جائے گی۔ نہیں تو واپس ہوں گی۔ بموجب حکم بادشاہ کے یہ شاہ بندر اس لیے آپ جہاز پر آیا۔ اور میرے نزدیک ایک اور شخص تھا اس کے پاس بھی ایک باندی قبول صورت صندوق میں بند تھی۔ شاہ بندر اسی صندوق پر آ کر بیٹھا۔ اور لونڈیوں کو نکلوانے لگا۔ میں نے خدا کا شکر کیا کہ بھلا بادشاہ زادی کا مذکور نہیں۔
غرض جتنی لونڈیاں پائیں شاہ بندر کے آدمیوں نے ناؤ پر چڑھائیں اور خود شاہ بندر جس صندوق پر بیٹھا تھا، اس کے مالک سے بھی ہنستے ہنستے پوچھا کہ تیرے پاس بھی تو لونڈی تھی؟ اس احمق نے کہا۔ آپ کے قدموں کے سوگند میں نے ہی یہ کام نہیں کیا۔ سبھوں نے تمہارے ڈر سے لونڈیاں صندوق میں چھپائی ہیں۔ شاہ بندر نے یہ بات سن کر سب صندوقوں کا جھاڑا لینا شروع کیا۔ میرا بھی صندوق کھولا اور ملکہ کو نکال کر سب کے ساتھ لے گیا عجب طرح کی مایوسی ہوئی کہ یہ ایسی حرکت پیش آئی کہ تیری جان تو مفت گئی اور ملکہ سے دیکھئے کیا سلوک کرے۔ اس کی فکر میں اپنی بھی جان کا ڈر بھول گیا۔ سارے دن رات خدا سے دعا مانگتا رہا۔ جب بڑی فجر ہوئی، سب لونڈیوں کو کشتی پر سوار کر کے پھرا لائے۔ سوداگر خوش ہویئے۔ اپنی اپنی کنیزیں لیں۔ سب آئیں مگر ایک ملکہ ان میں نہ تھی۔ میں نے پوچھا کہ میری لونڈی نہیں آئی۔ اس کا کیا سبب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم واقف نہیں، شاید بادشاہ نے پسند کی ہو گی۔ سب سوداگر مجھے تسلی اور دلاسا دینے لگے کہ خیر جو ہوا سو ہوا تو کڑھ مت اس کی قیمت ہم سے بہری کر کر تجھے دیں گے میرے حواس باختہ ہو گئے۔ میں نے کہا کہ اب عجم میں نہیں جانے کا۔ کشتی رانوں سے کہا، یارو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو، کنارے پر اتار دیجئو۔ وہ راضی ہوئے میں جہاز سے اتر کر غراب میں بیٹھا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ چلا آیا۔
جب بندر میں پہنچا، ایک صندوقچہ جواہر کا جو ملکہ اپنے ساتھ لائی اسے تو رکھ لیا، اور سب اسباب شاہ بندر کے نوکروں کو دیا، اور میں جاسوسی میں ہر کہیں پھرنے لگا کہ شاید خبر ملکہ کی پاؤں۔ لیکن ہر گز سراغ نہ ملا اور نہ اس بات کا پتا پایا۔ ایک رات کو کسو مکر سے بادشاہ کے بھی محل میں گیا اور ڈھونڈتا کچھ خبر نہ ملی۔ قریب ایک مہینے کے شہر کے کوچے اور محلے چھان مارے اور اس غم سے اپنے تئیں قریب ہلاکت کے پہنچایا، اور سودائی سا پھرنے لگا۔ آخر اپنے دل میں خیال کیا، کہ غالب ہے شاہ بندر کے گھر میری بادشاہ زادی ہووے تو ہووے نہیں تو اور کہیں نہیں۔ شاہ بندر کی حویلی کے گرد و پیش دیکھتا تھا، کہ کہیں سے بھی جانے کی راہ پاؤں تو اندر جاؤں۔
ایک بدرو نظر پڑی کہ موافق آدمی کی آمد و رفت کے ہے مگر جالی آہنی اس کے دہانے پر جڑی ہے۔ یہ قصد کیا کہ اس بدرو کی راہ سے چلوں۔ کپڑے بدن سے اتارے اور اس نجس کیچڑ میں اترا۔ ہزار محنت سے اس جالی کو توڑا اور سنڈاس کی راہ سے چور محل میں گیا۔ عورتوں کا لباس بنا کر ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ ایک مکان سے آواز میرے کان میں پڑی، جیسے کوئی مناجات کر رہا ہے۔ آگے جا کر دیکھوں تو ملکہ ہے کہ عجب حالت سے روتی اور نک گھسنی کر رہی ہے، اور خدا سے دعا مانگتی ہے کہ صدقے اپنے رسولؐ اور اس کی آل پاک کے، مجھے اس کفرستان سے نجات دے۔ اور جس شخص نے مجھے اسلام کی راہ بتائی ہے، اس سے ایک بار خیریت سے ملا۔ میں دیکھتے ہی دوڑ کر پاؤں پر گڑ پڑا۔ ملکہ نے مجھے گلے لیا۔ ہم دونوں پر ایک دم بے ہوشی کا عالم ہو گیا۔ جب حواس بجا ہوئے میں نے کیفیت ملکہ سے پوچھی۔ بولی جب شاہ بندر سب لونڈیوں کو کنارے پر لے گیا۔ میں خدا سے یہی دعا مانگتی تھی کہ کہیں میرا راز فاش نہ ہو، اور میں پہچانی نہ جاؤں اور تیری جان پر آفت نہ آوے۔ وہ ایسا ستار ہے کہ ہرگز کسو نے نہ دریافت کیا کہ یہ ملکہ ہے۔ شاہ بندر ہر ایک کو بہ نظر خریداری دیکھتا تھا۔ جب میری باری ہوئی۔ مجھے پسند کر کر اپنے گھر میں چپکے سے بھیج دیا اوروں کو بادشاہ کے حضور میں گزارنا۔
میرے باپ نے جب ان میں مجھے نہ دیکھا، سب کو رخصت کیا۔ یہ سب پرپنچ میرے واسطے کیا تھا۔ اب یوں مشہور کیا ہے کہ بادشاہ زادی بیمار ہے۔ اگر میں ظاہر نہ ہوئی کہ کوئی دن میرے مرنے کی خبر سارے ملک میں اڑے گی۔ تو بدنامی بادشاہ کی نہ ہووے۔ لیکن اب اس عذاب میں ہوں کہ شاہ بندر مجھ سے اور ارادہ دل میں رکھتا ہے۔ اور ہمیشہ ساتھ سونے کو بلاتا ہے۔ میں راضی نہیں ہوتی ازبس کہ چاہتا ہے، اب تک میری رضا مندی منظور ہے لہٰذا چپ ہو رہتا ہے۔ پر حیران ہوں اس طرح کہاں تک نبھے گی سو میں نے جی بھر ٹھہرا لیا کہ جب مجھ سے کچھ اور قصد کرے گا تو میں اپنی جان دوں گی اور مر رہوں گی لیکن تیری ملنے سے ایک اور تدبیر دل میں سوجھی ہے۔ خدا چاہے تو سوائے اس فکر کے دوسری کوئی طرح مخلصی کی نظر نہیں آتی۔ میں نے کہا فرماؤ تو، کون سے تدبیر ہے؟ کہنے لگی اگر تو سعی اور محنت کرے تو ہو سکے۔ میں نے کہا فرمانبردار ہوں۔ اگر حکم کرو تو جلتی آگ میں کود پڑوں۔ اور سیڑھی پاؤں تو تمہاری خاطر آسمان پر چلا جاؤں جو کچھ فرماؤ سو بجا لاؤں۔
ملکہ نے کہا تو بڑے بت کے بت خانے میں جا اور جس جگہ جوتیاں اتارتے ہیں وہاں ایک سیاہ ٹاٹ پڑا رہتا ہے۔ اس ملک کی رسم ہے کہ جو کوئی مفلس اور محتاج ہو جاتا ہے۔ اس جگہ وہ ٹاٹ اوڑھ کر بیٹھتا ہے۔ وہاں کے لوگ جو زیارت کو جاتے ہیں موافق اپنے اپنے مقدور کے اسے دیتے ہیں۔ جب دوچار دن مال جمع ہو جاتا ہے، پنڈے ایک خلعت بڑے بت کی سرکار سے دیکر اسے رخصت کرتے ہیں۔ وہ تونگر ہو کر چلا جاتا ہے۔ کوئی نہیں معلوم کرتا کہ یہ کون تھا۔ تو بھی جا کر اس پلاس کے نیچے بیٹھ اور ہاتھ منہ اپنا خوب طرح چھپا لے اور کسو سے نہ بول۔
بعد تین دن کے باہم اور بت پرست ہر چند تجھے خلعت دے کر رخصت کریں تو وہاں سے ہرگز نہ اٹھ۔ جب نہایت منت کریں۔ تب تو بولیو کہ مجھے روپیہ پیسہ کچھ درکار نہیں۔ میں مال کا بھوکا نہیں۔ میں مظلوم ہوں۔ فریاد کر آیا ہوں۔ اگر برہمنوں کی ماتا میری داد دے تو بہتر ہے۔ نہیں تو بڑا بت میرا انصاف کرے گا۔ اور اس ظالم سی یہی بڑا بت میری فریاد کو پہنچے گا۔ جب تک وہ ماتا برہمنوں کی آپ تیرے پاس نہ آوے بہتیرا کوئی منائے تو راضی نہ ہو جیو۔ آخر لاچار ہو کر وہ خود تیرے نزدیک آوے گی۔ وہ بہت بوڑھی ہے۔ دو سو چالیس برس کی عمر ہے، اور چھتیس بیٹے اس کے جنے ہوئے بت خانے کے سردار ہیں۔ اور اس کا بڑے بت کے پاس بڑا درجہ ہے۔ اس سبب اس کا اتنا بڑا حکم ہے کہ جتنے چھوٹے بڑے اس ملک کے ہیں اس کے کہنے کو اپنی سعادت جانتے ہیں۔ جو وہ فرماتی ہے بسر و چشم مانتے ہیں۔ اس کا دامن پکڑ کر کہو۔ اے مائی اگر مجھ مظلوم مسافر کا انصاف ظالم سے نہ کرے گی تو میں بڑے بت کی خدمت میں ٹکریں ماروں گا۔ آخر وہ رحم کھا کر تجھ سے میری سفارش کرے گا۔
اس کے بعد جب وہ برہمنوں کی ماتا تیرا سب احوال پوچھے تو کہیو کہ میں عجم کا رہنے والا ہوں۔ بڑے بت کی زیارت کی خاطر اور تمہاری علالت سن کر کالے کوسوں سے یہاں آیا ہوں۔ کئی دنوں آرام سے رہا۔ میری بی بی بھی میرے ساتھ آئی تھی۔ وہ جوان ہے اور صورت شکل بھی اچھی ہے اور آنکھ ناک سے درست ہے۔ معلوم نہیں کہ شاہ بندر نے اسے کیونکر دیکھا۔ بہ زور مجھ سے چھین کر اپنے گھر میں ڈال دیا۔ اور ہم مسلمانوں کا یہ قاعدہ ہے کہ جو محرم عورت ان کی دیکھے یا چھین لے تو واجب ہے کہ اس کو جس طرح ہو یا مار ڈالیں اور اپنی جورو کو لے لیں۔ اور نہیں تو کھانا پینا چھوڑ دیں، کیونکہ جب تلک وہ جیتا رہے وہ عورت خاوند پر حرام ہے۔ اب یہاں لاچار ہو کر آیا ہوں۔ دیکھئے تم کیا انصاف کرتی ہو؟ جب ملکہ نے مجھے یہ سب سکھا پڑھا دیا، میں رخصت ہو اسی ناب دان سے باہر نکلا، اور وہ جالی آہنی پر لگا دی۔
صبح ہوتے ہی بت خانے میں گیا اور وہ سیاہ پلاس اوڑھ کر بیٹھا۔ تین روز میں اتنا روپیہ اور اشرفی اور کپڑا میرے نزدیک جمع ہوا کہ انبار لگ گیا۔ چوتھے دن پنڈے بھجن کرتے اور گاتے بجاتے میرے پاس آئے اور رخصت کرنے لگے۔ میں راضی نہ ہوا اور دہائی بڑے بت کی دی کہ میں گدائی نہیں کرنے آیا۔ بلکہ انصاف کے لیے بڑے بت اور برہمنوں کی ماتا کے پاس آیا ہوں۔ جب تلک اپنی داد نہ پاؤں گا۔ یہاں سے نہ جاؤں گا۔ وہ سن کر اس پیرزال کے روبرو ہو گئے۔ اور میرا احوال بیان کیا۔ بعد اس کے ایک چوبے آیا اور میرے تئیں کہنے لگا چل ماتا بلاتی ہے، میں وونہیں ٹاٹ کالا سر سے پاؤں تک اوڑھے ہوئے دھرے میں گیا۔ دیکھتا ہوں کہ ایک جڑاؤ سنگھاسن پر جس میں لعل، الماس اور موتی مونگا لگا ہوا ہے، بڑا بت بیٹھا ہے اور ایک کرسی زریں پر فرش معقول بچھا ہے۔ اس پر ایک بڑھیا سیاہ پوش مسند تکیے لگائی اور دو لڑکے دس بارہ برس کے ایک داہنے ایک بائیں شان و شوکت اور تجمل سے بیٹھی ہے۔ مجھے آگے بلایا۔ میں ادب سے گیا اور تخت کے پائے کو بوسہ دیا۔ پھر اس کا دامن پکڑ لیا۔ اس نے میرا احوال پوچھا۔ میں نے اسی طرح جس طرح ملکہ نے تعلیم کر دیا تھا، ظاہر کیا۔ سن کر بولی کیا مسلمان اپنی استریوں کو اوجھل میں رکھتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں تمہارے بچوں کی خیر ہو۔ یہ ہماری رسم قدیم ہے بولی کہ تیرا اچھا مذہب ہے میں ابھی حکم کرتی ہوں کہ شاہ بندر مع تیری جورو آن کر حاضر ہوتا ہے۔ اور اس گیدی کو ایسی سیاست کروں کہ بار دیگر ایسی حرکت نہ کرے اور سب کے کان کھڑے ہوں اور ڈریں۔ اپنے لوگوں سے پوچھنے لگی کہ شاہ بندر کون ہے؟ اس کی یہ مجال ہے کہ بگانی تریا کو بزور چھین لیتا ہے؟ لوگوں نے کہا فلانا شخص ہے۔ یہ سن کر ان دونوں لڑکوں کو، جو پاس میں بیٹھے تھے، فرمایا کہ جلدی اس مانس کو لے کر بادشاہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ ماتا فرماتی ہے کہ حکم بڑے بت کا یہ ہے کہ شاہ بندر کے آدمیوں پر زور زیادتی کرتا ہے، چنانچہ اس غریب کی عورت چھین لیا ہے۔ اس کی تقصیر بڑے ثابت ہوئی۔ جلد اس گمراہ کے مال کا تالیقہ کر کر اس ترک کے، کہ ہمارا منظور نظر ہے، حوالے کر، نہیں تو آج کو تو ستیاناس ہو گا۔ اور ہماری غضب میں پڑے گا، وہ دونوں طفل اٹھ کر منڈل سے باہر آئے اور سوار ہویئے۔ سب پنڈے سنکھ بجاتے اور آرتی گاتے جلو میں ہو لئے۔ غرض وہاں کے بڑے چھوٹے جہاں ان لڑکوں کا پاؤں پڑتا تھا وہاں کی مٹی تبرک جان کر اٹھا لیتے اور آنکھوں سے لگاتے۔ اسی طرح بادشاہ کے قلعے تک گئے۔ بادشاہ کو خبر ہوئی۔ ننگے پاؤں استقبال کی خاطر نکل آیا اور ان کو بڑے مان مہت سے لے جا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا، اور پوچھا، آج کیونکر تشریف فرمانا ہوا، ان دونوں برہمن بچوں نے ماں کی طرف سے جو کچھ سن آئے تھے، اور کہا اور بڑے بت کی خفگی سے ڈرایا۔ بادشاہ نے سنتے ہی فرمایا، بہت خوب اور اپنے نوکروں کو حکم کیا کہ محصل جاویں اور شاہ بندر کی مع اس عورت کے جلد حضور میں حاضر کریں، تو میں تقصیر اس کی تجویز کر کے سزا دوں۔
یہ سن کر میں اپنے دل میں گھبرایا کہ یہ بات تو اچھی نہ ہوئی۔ اگر شاہ بندر کے ساتھ ملکہ کو بھی لاویں تو پردہ فاش ہو گا اور میرا کیا احوال ہو گا؟ دل میں نہایت خوف زدہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کی، لیکن میرے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور بدن کانپنے لگا۔ لڑکوں نے یہ میرا رنگ دیکھ کر شاید دریافت کیا کہ یہ حکم اس کی مرضی کے موافق نہ ہوا۔ وہ نہیں خفا و برہم ہو کر اٹھے اور بادشاہ کو جھڑک کر بولے اے مردک تو دیوانہ ہوا ہے جو فرمانبرداری سے بڑے بت کی نکلا، اور ہمارے بچن کو جھوٹ سمجھا جو دونوں کو بلا کر تحقیق کیا چاہتا ہے؟ اب خبردار تو غضب میں بڑے بت کے پڑا۔ ہم نے تجھے حکم پہنچا دیا۔ اب تو جان اور بڑا بت جانے۔
اس کہنے سے بادشاہ کی عجیب حالت ہوئی کہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ اور سر سے پاؤں تلک رعشہ ہو گیا۔ منت کر کے منانے لگا۔ یہ دونوں ہرگز نہ بیٹھے، لیکن کھڑے رہے۔ اس میں جتنے امیر امرا وہاں حاضر تھے ایک منہ ہو کر بد گوئی شاہ بندر کرنے لگے کہ وہ ایسا ہی حرام زادہ بدکار اور پاپی۔ ایسی ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ حضور بادشاہ کے کیا کیا عرض کریں؟ جو کچھ برہمنوں کی ماتا نے کہلا بھیجا ہے، درست ہے۔ اس واسطے کہ حکم بڑے بت کا ہے۔ یہ دروغ کیونکر ہو گا؟ بادشاہ نے جب سب کی زبانی ایک ہی بات سنی، اپنے کہنے سے بہت خجل اور نادم ہوا۔ جلد ایک خلعت پاکیزہ مجھے دی اور حکم نامہ اپنے ہاتھ سے لکھ اس پر دستی مہر کر میرے حوالے کیا۔ اور ایک رقعہ مادر برہمناں کو لکھا اور جواہر اشرفیوں کے خوان لڑکوں کے روبرو پیش کش رکھ کر رخصت کیا۔ میں خوشی بہ خوشی بت خانے میں آیا اور اس بڑھیا کے پاس گیا۔ بادشاہ کا جو خط آیا تھا اس کا مضمون تھا۔ القاب کے بعد بندگی عجز و نیاز لکھ کر لکھا تھا کہ موافق حکم حضور کے اس مرد مسلمان کو خدمت شاہ بندر کی مقرر ہوئی اور خلعت دی گئی۔ اب یہ اس کے قتل کا مختار ہے، اور سارا مال و اموال اس ترک کا ہوا۔ جو چاہے سو کرے۔ امیدوار ہوں کہ میری تقصیر معاف ہو۔ برہمنوں کی ماں نے خوش ہو کر فرمایا نوبت خانے میں بت خانے کی نوبت بجے۔ اور پانچ سو سپاہی برق انداز جو بال باندھی کوڑی ماریں، مسلح میرے ہمراہ کر دیئے، اور حکم کیا کہ بندر میں جا کر شاہ بندر کو دستگیر کر کے اس مسلمان کے حوالے کریں۔ جس طرح کے عذاب سے اس کا جی چاہے اسے مارے اور خبردار سوائے اس عزیز کے کوئی محل سرا میں داخل نہ ہوئے، اور اس کے مال و خزانے کو امانت اس کے سپرد کریں۔ جب یہ بہ خوشی رخصت کرے، رسید اور رہائی نامہ اس سے لے کر پھر آویں۔ اور ایک سرے پاؤ بت بزرگ کی سرکار سے میرے تئیں دے کر سوار کروا کر وداع کیا۔
جب میں بندر میں پہنچا، ایک آدمی نے بڑھ کر شاہ بندر کو خبر کی۔ وہ حیران سا بیٹھا تھا کہ میں جا پہنچا۔ غصہ تو دل میں بھر ہی رہا تھا۔ دیکھتے ہی شاہ بندر کو تلوار کھینچ کر ایسی گردن لگائی کہ اس کا سر بھٹا سا اڑ گیا۔ اور وہاں سے گماشتے خزانچی، مشرف داروغوں کو پکڑوا کر سب دفتر ضبط کئے اور میں محل میں داخل ہوا۔ ملکہ سے ملاقات کی۔ آپس میں گلے لگ کر روئے اور شکر خدا کا کیا۔ میں اس کے، اس نے میرے آنسو پونچھے۔ پھر باہر مسند پر بیٹھ کر اہل کارواں کو خلعتیں دیں اور اپنی اپنی خدمتوں پر سب کو بحال کیا۔ نوکر اور غلاموں کو سرفرازی دی۔ وہ لوگ جو منڈپ سے میرے ساتھ متعین ہوئے تھے۔ ہر ایک کو انعام و بخشش دے کر ان کے جمدار، رسالہ دار کو جوڑے پہنا کر رخصت کیا اور جواہر بیش قیمت اور تھان نوریانی اور شال بانی اور زر دوزی اور جنس و تحفے ہر ایک ملک کے اور نقد بہت سا بادشاہ کی نذر کی خاطر، اور موافق ہر ایک امراؤں کے درجہ بہ درجہ اور پنڈیاین کے لیے اور سب پنڈوں کے تقسیم کرنے کی خاطر اپنے ساتھ لے کر بعد ایک ہفتے کے میں بت کدے میں آیا اور اس ماتا کے آگے بطریق بھینٹ کے رکھا۔ اس نے ایک اور خلعت سرفرازی کی مجھے بخشی اور خطاب دیا۔ پھر بادشاہ کے دربار میں جا کر پیش گزرانی اور جو جو ظلم و فساد شاہ بندر نے ایجاد کیا تھا اس کے موقوف کرنے کی خاطر عرض کی۔ اس سبب سے بادشاہ اور امیر، سوداگر سب مجھ سے راضی ہوئے۔ بہت نوازش مجھ پر فرمائی اور خلعت اور گھوڑا دے کر منصب جاگیر عنایت کی، اور آبرو حرمت بخشی۔
جب بادشاہ کے حضور سے باہر آیا شاگرد پیشوں کو اور اہلکاروں کو اتنا کچھ دے کر راضی کیا کہ سب میرا کلمہ پڑھنے لگے۔ غرض میں بہت مرفہ الحال ہو گیا اور نہایت چین و آرام سے اس ملک میں ملکہ سے عقد باندھ کر رہنے لگا۔ اور خدا کی بندگی کرنے لگا۔ میرے انصاف کے باعث رعیت پرجا سب خوش تھے۔ مہینے میں ایک بار بت خانے میں اور بادشاہ کے حضور میں آتا جاتا۔ بادشاہ روز بروز زیادہ سرفراز فرماتا۔
آخر مصاحبت میں مجھے داخل کیا۔ میرے بے صلاح کوئی کام نہ کرتا۔ نہایت بے فکری سے زندگی گزرنے لگی۔ مگر خدا ہی جانتا ہے، اکثر اندیشہ ان دونوں بھائیوں کا دل میں آیا کہ وہ کہاں ہوں گے اور کس طرح ہوں گے؟ بعد مدت دو برس کے ایک قافلہ سوداگروں کا ملک زیر باد سے اس بندر میں آیا۔ وہ سب قصد عجم کا قاعدہ یہ تھا کہ جو ہر کارواں آتا، اس کا سردار سوغات و تحفہ ہر ایک ملک کا میرے پاس لاتا اور نذر گزرانتا۔ دوسرے روز میں اس کے مکان پر جاتا۔ وہ یکے بہ طریق محصول اس کے مال سے لیتا اور پروانگی کوچ کی دیتا۔ اسی طرح وہ سوداگر زیرباد کے بھی میری ملاقات کو آئے اور بے بہا پیش کش لائے۔ دوسرے دن میں ان کے خیمے میں گیا۔ دیکھا تو دو آدمی پھٹے پرانے کیڑے پہنے گٹھڑی بقچے سر پر اٹھا میری روبرو لاتے ہیں۔ بعد ملاحظہ کرنے کے پھر اٹھا لے جاتے ہیں اور بڑی محنت سے خدمت کر رہے ہیں۔
میں نے خوب نجھا کر جو دیکھا تو یہی میرے دونوں بھائی ہیں۔ اس وقت غیرت اور حمیت نے نہ چاہا کہ ان کو اس طرح خدمت گاری میں دیکھوں۔ جب اپنے گھر کو چلا آدمیوں کو کہا کہ ان دونوں شخصوں کو لے آؤ۔ جب انکو لائے پھر لباس اور پوشاک بنوا دی اور اپنے پاس رکھا۔ ان بد ذاتوں نے پھر میرے مارنے کا منصوبہ کر کر ایک روز آدھی رات میں سب کو غافل پا کر چوروں کی طرح میرے سرہانے آ پہنچے۔ میں نے اپنی جان کے ڈر سے چوکی داروں کو دروازے پر رکھا تھا اور یہ کتا وفادار میری چارپائی کی پٹی تلے سوتا تھا۔ جوں انہوں نے تلواریں میان سے کھینچیں، پہلے کتے نے بھونک کر ان پر حملہ کیا۔ اس کی آواز سے سب جاگ پڑے۔ میں ہل ہلا کر چونکا۔ آدمیوں نے پکڑا، معلوم ہوا کہ آپ ہی ہیں۔ سب لعنتیں دینے لگے کہ باوجود اس خاطر داری یہ کیا حرکت ان سے ظہور میں آئی۔
بادشاہ سلامت! تب تو میں بھی ڈرا۔ مثل مشہور ہے ایک خطا، دو خطا، تیسری خطا مادر بہ خطا۔ دل میں یہی صلاح کہ ان کو مقید کروں، لیکن اگر بندی خانے میں رکھوں تو ان کا کون خبر گیراں رہے گا؟ بھوک و پیاس سے مر جائیں گے۔ یا کوئی اور سوانگ لائیں گے۔ اس واسطے قفس میں رکھا ہے کہ ہمیشہ میری نظروں کے تلے رہیں تو میری خاطر جمع رہے۔ مبادا آنکھوں سے اوجھل ہو کر کچھ اور مکر کریں۔ اور اس کتے کی عزت اور حرمت، اس کی نمک حلالی اور وفاداری کے سبب ہے۔ سبحان اللہ آدمی بے وفا، بدتر، حیوان وفا سے ہے۔ سے میری یہ سرگذشت تھی جو حضور میں عرض کی اب خواہ قتل فرمائیے یا جان بخشی کیجئے حکم بادشاہ کا ہے۔
میں نے سن کر اس جوان با ایمان پر آفریں کی اور کہا تیری مروت میں کچھ خلل نہیں، اور اس کی بے حیائی اور حرام زدگی میں ہرگز قصور نہیں۔ سچ ہے کتے کی دم کو بارہ برس گاڑو تو بھی ٹیڑھی رہے۔ اس کے بعد میں نے حقیقت ان بارہوں لعل کی، کہ اس کتے کے پٹے میں تھے، پوچھی۔ خواجہ بولا کہ بادشاہ کے صد و بیت سال کی عمر ہو۔ اسی بندر میں جہاں میں حاکم تھا، بعد تین چار سال کے ایک روز بالا خانے پر محل کے، کہ بلند تھا، واسطے سیر اور تماشے دریا و صحرا کے میں بیٹھا تھا اور ہر طرف دیکھتا تھا، ناگاہ ایک طرف جنگل میں کہ وہاں شاہراہ تھی، دو آدمی کی تصویر سی نظر آئی کہ چلے جاتے ہیں، دور بین لے کر دیکھا تو عجیب ہیئت کے انسان دکھائی دیئے۔
چوب داروں کو ان کے بلانے کے واسطے دوڑایا۔ جب وہ آئے تو معلوم ہوا کہ ایک عورت اور ایک مرد ہے۔ رنڈی کو محل سرا میں ملکہ کے پاس بھیج دیا اور مرد کو روبرو بلایا۔ دیکھا تو ایک جوان برس بیس بائیس کا داڑھی موچھ آغاز ہے، لیکن دھوپ کی گرمی سے اس کے چہرے کا رنگ کالے توے کا سا ہو رہا ہے۔ اور سر کے بال اور ہاتھوں کے ناخن بڑھ کر بن مانس کی صورت بن رہا ہے۔ اور ایک لڑکا برس تین چار کا ایک کاندھے پر، اور آستیں کرتے کے بھری ہوئی ہیکل کی طرح گلے میں ڈالی عجیب صورت اور عجیب یہ وضع اس کی دیکھی، میں نے نہایت حیران ہو کر پوچھا۔ اے عزیز کون ہے، اور کس ملک کا باشندہ ہے، اور یہ کیا تیری حالت ہے؟ وہ جوان بے اختیار رونے لگا۔ اور ہمیانی کھول کر میرے آگے زمین پر رکھی اور بولا۔ الجوع الجوع واسطے خدا کے کچھ کھانے کو دو۔ مدت سے گھاس اور بناس پتیاں کھاتا چلا آتا ہوں۔ ایک ذرا قوت مجھ میں باقی نہیں رہی۔ وونہیں نان و کباب اور شراب میں نے منگوا دی۔ وہ کھانے لگا اتنے میں خواجہ سرا محل سے کئی تھیلیاں اس کے قبیلے پاس سے لے آیا۔ میں نے اس سب کو کھلوایا۔ ہر ایک قسم کے جواہر دیکھے کہ ایک ایک دانہ ان کا خراج سلطنت کا کہا چاہیے ایک سے ایک انمول ڈول میں، و رتول میں اور آب داری میں۔ اور ان کی چھوٹ پڑنے سے سارا مکان بو قلموں ہو گیا۔ جب اس نے ٹکڑا کھایا اور ایک جام دارو کا پیا اور دم لیا، حواس بجا ہوئے۔ تب میں نے پوچھا جیہ پتھر تجھے کہاں ہاتھ لگے؟ جواب دیا کہ میرا وطن ولایت آذربائیجان ہے۔ لڑکپن میں گھر بار ماں باپ سے جدا ہو کر بہت سختیاں کھنچیں اور ایک مدت تلک میں زندہ درگور تھا۔ اور کئی بار ملک الموت کے پنجے سے بچا ہوں۔ میں نے کہا اے مرد آدمی مفصل کہہ تو معلوم ہو۔ تب وہ اپنا احوال بیان کرنے لگا کہ میرا باپ سوداگر پیشہ تھا۔ ہمیشہ سفر ہندوستان و روم و چین و خطا و فرنگ کا کرتا۔ جب میں دس برس کا ہوا، باپ ہندوستان کو چلا۔ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کو چاہا۔ ہر چند والدہ نے اور خالا، ممانی، پھوپھی نے کہا کہ ابھی یہ لڑکا ہے لائق سفر کے نہیں ہوا۔ والد نے نہ مانا اور کہا کہ میں بوڑھا ہوا اگر یہ میرے رو بہ رو تربیت نہ ہو گا تو یہ حسرت قبر میں لے جاؤں گا۔ مرد بچہ ہے اب نہ سیکھے گا؟
یہ کہہ کر مجھے خواہ مخواہ ساتھ لیا اور روانہ ہوا۔ خیر عافیت سے راہ کٹی۔ جب ہندوستان میں پہنچے کچھ جنس وہاں بیچی اور وہاں کے سوغات کر کرے جہاز پر سوار ہوئے کہ جلدی وطن میں پہنچیں۔ بعد ایک مہینے کے ایک روز آندھی اور طوفان آیا اور مینہ موسلادھار برسنے لگا۔ سارا زمین و آسمان دھواں دھار ہو گیا۔ اور پتوار جہاز کی ٹوٹ گئی۔ معلم ناخدا سر پیٹنے لگا۔ دس دن تلک ہوا اور موج جیدھر چاہتی تھی، لئے جاتی تھی۔ گیارھویں روز ایک پہاڑ سے ٹکر کھا کر جہاز پرزے پرزے ہو گیا۔ نہ معلوم کہ باپ اور نوکر چاکر اور اسباب کہاں گیا۔
میں نے اپنے تئیں ایک تختے پر دیکھا۔ سبہ شبانہ روز وہ پڑا بے اختیار چلا گیا۔ چوتھے دن کنارے پر جا لگا۔ مجھ میں فقط جان باقی تھی۔ اس پر سے اتر کر گھنٹوں چل کر بارے کسو نہ کسو طرح زمین پر پہنچا۔ دور سے کھیت نظر آئے اور بہت سے آدمی وہاں جمع تھے، لیکن سب سیاہ فام اور ننگے مادر زاد مجھ سے کچھ بولے، لیکن میں نے ان کی زبان مطلق نہ سمجھی۔ وہ کھیت چنوں کا تھا۔ وہ آدمی آگ کا الاؤ جل کر بوٹوں کے ہولے کرتے تھے اور کھاتے تھے۔ اور کئی ایک گھر میں وہاں نظر آئے۔ شاید ان کی خوراک یہی تھی اور وہیں بستے تھے۔ مجھے بھی اشارات کرنے لگے کہ تو بھی کھا۔ میں نے بھی ایک مٹھی اکھاڑ کر بھونے اور پھانکنے لگا۔ تھوڑا سا پانی پی کر ایک گوشے میں سو رہا۔ بعد دیر کے جب جاگا ان میں سے ایک شخص میرے نزدیک آیا اور راہ دکھانے لگا۔ میں نے تھوڑے سے چنے اور اکھیڑ لیے اور اس راہ پر چلا۔ ایک کف دست میدان تھا گویا صحرائے قیامت کا نمونہ کہا جائے وہی بونٹ کھاتا ہوا چلا جاتا تھا۔ بعد چار دن کے ایک قلعہ نظر آیا۔ جب پاس گیا تو ایک کوٹ دیکھا، بہت بلند تمام پتھر کا، اور ہر ایک النگ اس کی دو کوس کی اور دروازہ ایک سنگ کا تراشا ہوا، ایک قفل بڑا سا جڑا تھا، لیکن وہاں انسان کا نشان نظر نہ پڑا۔ وہیں سے آگے چلا۔ ایک ٹیلا دیکھا کہ اس کی خاک سرمے کے رنگ سیاہ تھی۔ جب اس تل کے پار ہوا تو ایک شہر نظر پڑا، بہت بڑا گرد شہر پناہ اور جا بجا برج، ایک طرف شہر کے دریا تھا، بڑے پاٹ کا، جاتے جاتے دروازے پر گیا اور بسم اللہ کہ کر قدم اندر رکھا۔ ایک شخص کو دیکھا پوشاک اہل فرنگ کی پہنے ہوئے کرسی پر بیٹھا ہے۔ جوں ان نے مجھے اجنبی مسافر دیکھا اور میرے منہ سے بسم اللہ سنی، پکارا کہ آگے آؤ میں نے جا کر سلام کیا۔ نہایت مہربانی سے سلام کا جواب دیا۔ ترت میز پر پاؤ روٹی اور مسکہ اور مرغ کا کباب اور شراب رکھ کر کہا۔ پیٹ بھر کھاؤ۔ میں نے تھوڑا سا کھا لیا اور پیا اور بے خبر ہو کر سویا۔ جب رات ہو گئی تب آنکھ کھلی۔ ہاتھ منہ دھویا۔ پھر مجھے کھانا کھلایا اور کہا کہ اے بیٹا اپنا احوال کہہ۔ جو کچھ مجھ پر گزرا تھا سب کہہ سنایا۔ تب بولا کہ یہاں تو کیوں آیا؟ میں نے دق ہو کر کہا شاید تو دیوانہ ہے۔ میں نے بعد مدت کے محنت کے اب بستی کی صورت دیکھی ہے۔ خدا نے یہاں تلک پہنچایا اور تو کہتا ہے کیوں آیا ہے۔ کہنے لگا اب تو آرام کر کل جو کہنا ہو گا کہوں گا۔
جب صبح ہوئی بولا کوٹھری میں پھاوڑا اور چھلنی اور توبڑا ہے، باہر لے آ، میں نے دل میں کہا کہ خدا جانے روٹی کھلا کر کیا محنت مجھ سے کروائے گا، لاچار وہ سب نکال کر اس کے روبرو لایا۔ تب اس نے فرمایا کہ اس ٹیلے پر جا اور ایک گز کے موافق گڑھا کھود۔ وہاں سی جو کچھ نکلنے اس چھلنے میں چھان سکے اسے توبڑے میں بھر کر میرے پاس لا۔ میں وہ سب چیزں لے کر وہاں گیا اور اتنا ہی کھود کر چھان چھون کر توبڑے میں ڈالا۔ دیکھا تو سب جواہر رنگ برنگ کے تھے۔ ان کو جوت سے آنکھیں چوندھیا گئیں۔ اس طرح تھیلی کو مونہاں منہ بھر کر اس عزیز کے پاس لے گیا۔ دیکھ کر بولا کہ جو اس میں بھرا ہے تو لے اور یہاں سے جا کر تیرا رہنا اس شہر میں خوب نہیں۔ میں نے جواب دیا کہ صاحب نے اپنی جانب میں بڑی مہربانی کی کہ اتنا کچھ کنکر پتھر دیا لیکن میرے کس کام کا؟ جب بھوکا ہوں گا تو نہ ان کو چبا سکوں گا، نہ پیٹ بھرے گا۔ پس اگر اور بھی دو تو میرے کس کام آئیں گے؟ وہ مرد ہنسا اور کہنے لگا مجھ کو تجھ پر افسوس آتا ہے کہ تو بھی بکاری مانند ملک عجم کا متوطن ہے۔ اس لئے میں منع کرتا ہوں، نہیں تو جان۔ اگر خواہ مخواہ تیرا یہی قصد ہے کہ شہر میں جاؤں تو میری انگوٹھی لیتا جا۔ جب بازار کے چوک میں جاوے تو ایک شخص سفید ریش وہاں بیٹھا ہو گا اور اس کی صورت شکل مجھ سے بہت مشابہ ہے۔ میرا بڑا بھائی ہے۔ اس کو یہ چھاپ دیجئو تو تیری خبر گیری کرے گا۔ اور جو کچھ وہ کہے، اسی کے موافق کا کیجیو، نہیں تو مفت میں مارا جائے گا۔ اور میرا حکم یہیں تلک ہے، شہر میں میرا دخل نہیں۔
میں نے وہ خاتم اس سے لی اور سلام کر کر رخصت ہوا۔ شہر میں گیا۔ بہت خاصہ شہر دیکھا، کوچہ و بازار، صاف اور زن و مرد بے حجاب آپس میں خرید و فروخت کرتے، سب خوش لباس۔ میں سیر کرتا اور تماشا دیکھتا، جب چوک کے چوراہے میں پہنچا، ایس ازدحام تھا کہ تھالی پھینکے تو آدمی کے سر پر چلی جائے، خلقت کا یہ ٹھٹھ بندھ رہا تھا کہ آدمی کو راہ چلنا مشکل تھا۔ جب کچھ بھیڑ چھٹی، میں بھی دھکم دھکا کرتا ہو آگے گیا، بارے اس عزیز کو دیکھا ایک چوکی پر بیٹھا ہے اور ایک جڑاؤ چاق رو برو دھرا ہے۔ میں نے جا کر سلام کیا اور وہ مہر دی۔ نظر غضب سے میری طرف دیکھا اور بولا۔ کیوں تو یہاں آیا اور اپنے تئیں بلا میں ڈالا؟ مگر میرے بے وقوف بھائی نے تجھے منع نہ کیا تھا؟ میں نے کہا انہوں نے تو کہا لیکن میں نہ مانا اور تمام کیفیت اپنی ابتدا سے انتہا تک کہہ سنائی۔ وہ شخص اٹھا اور مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر کی طرف چلا۔ اس کا مکان بادشاہوں کا سا دیکھنے میں آیا، اور بہت سے نوکر چاکر اس کے تھے۔ جب خلوت میں جا کر بیٹھا بہ ملایمت بولا کہ اے فرزند یہ کیا تو نے حماقت کی کہ اپنے پاؤں سے گور میں آیا؟ کوئی بھی اس کم بخت طلسماتی شہر میں آتا ہے؟ میں نے کہا میں اپنا احوال پیشتر کہہ چکا ہوں۔ اب تو قسمت لے آئی، لیکن شفقت فرما کر یہاں کے راہ و رسم سے مطلع کیجئے تو معلوم کروں کہ اس واسطے تم نے اور تمہارے بھائی نے مجھے منع کیا۔ تب وہ جوان مرد بولا کہ بادشاہ اور تمام رئیس اس شہر کے راندے ہوئے ہیں۔ عجب طرح کا ان کا رویہ اور مذہب ہے۔ یہاں بت خانے میں ایک بت ہے کہ شیطان اس کے پیٹ میں سے نام اور ذات اور دین ہر کسو کا بیان کرتا ہے۔ پس جو کوئی غریب مسافر آتا ہے بادشاہ کو خبر ہوتی ہے۔ اسے منڈپ میں لے جاتا ہے اور بت کو سجدہ کرواتا ہے اگر ڈنڈوت کی تو بہتر، نہیں تو پجاری کو دریا میں ڈبوا دیتا ہے۔ اگر وہ چاہے کہ دریا سے نکل کر بھاگے تو آلت اور خصئے اس کے لمبے ہو جاتے ہیں، ایسے کہ زمین میں گھسٹتے ہیں۔ ایسا کچھ طلسم اس شہر میں بنایا۔ مجھ کو تیری جوانی پر رحم آتا ہے۔ مگر تیری خاطر ایک تدبیر کرتا ہوں کہ بھلا کون دن تو تو جیتا رہے اور اس عذاب سے بچے۔
میں نے پوچھا وہ کیا صورت تجویز کی ہے؟ ارشاد ہو۔ کہنے لگا تجھے کتخدا کروں اور وزیر کی لڑکی تیری خاطر بیاہ لاؤں۔ میں نے جواب دیا کہ وزیر اپنی بیٹی مجھے مفلس کو کب دے گا، مگر جب ان کا دین قبول کروں؟ سو مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ کہنے لگا اس شہر کی یہ رسم ہے کو جو کوئی اس بت کو سجدہ کرے، اگر فقیر اور بادشاہ کی بیٹی کو مانگے تو اس کی کوشی کی خاطر حوالے کریں اور اسے رنجیدہ نہ کریں۔ اور امیر ابھی بادشاہ کے نزدیک اعتبار ہے اور عزیز رکھتا ہے لہٰذا سب اراکان اور اکابر یہاں کے میری قدر کرتے ہیں۔ اور درمیان ایک ہفتے میں دو دن بت کدے میں زیارت کو جاتے ہیں اور عبادت بجا لاتے ہیں۔ چنانچہ کل سب جمع ہوویں گے میں تجھے لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر کھلا پلا کر سلا رکھا۔ کب صبح ہوئی مجھے ساتھ لے کر بت خانے کی طرف چلا۔ وہاں جا کر دیکھا تو آدمی آتے جاتے ہیں اور پرستش کرتے ہیں۔ بادشاہ اور امیر بت کے سامنے پنڈتوں کے پاس سر ننگے کئے ادب سے دو زانو بیٹھے تھے، اور نا کتخدا لڑکیاں اور لڑکے خوب صورت جیسے حور غلماں چاروں طرف صف باندھے کھڑے تھے۔ تب وہ عزیز مجھ سے مخاطب ہوا کہ اب جو کہوں سو کر۔ میں نے قبول کیا کہ جو فرماؤ سو بجا لاؤں۔ میں نے ویسا ہی کیا بادشاہ نے پوچھا یہ کون ہے اور کیا کہتا ہے؟ اس مرد نے کہا یہ جوان میرے رشتے میں ہے۔ بادشاہ کی قدم بوسی کی آرزو میں دور سے آتا ہے۔ اس توقع پر کہ وزیر اس کو اپنی غلامی میں سربلند کرے۔ اگر حکم بت کلاں کا اور مرضی حضور کی ہووے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ ہمارا مذہب اور دین و آئین قبول کرے گا تو مبارک ہے۔ وونہیں بت خانے کا نقار خانہ بجنے لگا اور بھاری خلعت مجھے پہنائی، اور ایک رسی سیاہ میرے گلے میں ڈال کر کھینچتے ہوئے بت کی سنگھاسن کے آگے لے جا کر سجدہ کروا کر کھڑا کیا۔ بت سے آواز نکلی کہ اے خواجہ زادے خوب ہوا کہ تو ہماری بندگی میں آیا، اب ہماری رحمت اور عنایت کا امیدوار رہ۔ یہ سن کر سب خلقت نے سجدہ کیا اور زمین میں لوٹنے لگے اور پکارے دھن ہے کیوں نہ ہو تم ایسے ہی ٹھاکر ہو۔ جب شام ہوئی بادشاہ اور وزیر سوار ہو کر وزیر کے محل میں داخل ہوئے اور وزیر کی بیٹی کو اپنے طور کی ریت رسم کر کے میرے حوالے کیا۔ اور بہت سا دان دہیز دیا اور بہت منت دار ہوئے کہ بہ موجب حکم بڑے بت کے اسے تمہاری خدمت میں دیا ہے ایک مکان میں ہم دونوں کو رکھا اس نازنین کو جو میں نے دیکھا تو فی الواقع اس کا عالم پری کا تھا۔ نکھ سکھ سے درست جو جو خوبیاں پدمنی کی سنی جاتی ہیں، سو سب اس میں موجود تھیں، بفراغت تمام میں نے صحبت کی اور حظ اٹھایا۔ صبح کو غسل کر کر مے بادشاہ کے حجرے میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے خلعت دامادی کی عنایت کی اور حکم فرمایا کہ ہمیشہ دربار میں حاضر رہا کرے۔ آخر کو بعد چند روز کے بادشاہ کی مصاحبت میں داخل ہوا۔
بادشاہ میرے صحبت سے نہایت محظوظ ہوتے اور اکثر خلعت اور انعام عنایت کرتے۔ اگرچہ دنیا کے مال میں غنی تھا، اس واسطے کہ میرے قبیلے کے پاس اتنا نقد و جنس اور جواہر تھا کہ جس کی حد و نہایت نہ تھی۔ دو سال تک بہت عیش و آرام سے گزری۔ اتفاقا وزیر زادی کو پیٹ رہا۔ جب ستواں سا ہوا اور ان گنا مہینہ گزرا کر پورے دن ہوئے پیریں لگیں۔ دائی جنائی آئی تو میرا لڑکا پیٹ میں سے نکلا اس کا بس جچہ کو چڑھا وہ مر گئی۔ میں مارے غم کے دیوانہ ہو گیا کہ یہ کیا آفت ٹوٹی۔ اس کے سرہانے بیٹھا روتا تھا۔ ایک بارگی رونے کی آواز سارے محل میں بلند ہوئی اور چاروں طرف سے عورتیں آنے لگیں۔ جو آتی تھی ایک دو ہتڑ میرے سر پر مارتی اور منہ کے مقابل کھڑی رہتی اور رونا شروع کرتی، نزدیک تھا کہ جان نکل جاوے۔ اتنے میں کسو نے پیچھے سے گریبان میرا کھینچ کر گھسیٹا۔ دیکھوں تو ہی مرد عجمی ہے جس نے مجھے بیاہا تھا۔ کہنے لگا کہ احمق تو کس لیے روتا ہے؟ میں نے کہا اے ظالم یہ تو نے کیا بات کہی؟ میری بادشاہت لٹ گئی، آرام خانہ داری کا گیا گزرا۔ تو کہتا ہے کیوں غم کرتا ہے! وہ عزیز تبسم کر کے بولا کہ اب اپنی موت کی خاطر رو۔ میں نے پہلے ہی تجھے کہا تھا کہ شاید اس شہر میں تیری اجل لے آئی ہو، سو ہی ہوا۔ اب سوائے مرنے کے تیری رہائی نہیں۔ آخر لوگ مجھے پکڑ کر بت خانے میں لے گئے۔ دیکھا تو بادشاہ اور امرا اور پھتیس فرقہ رعیت پر جا وہاں جمع ہیں اور وزیر زادی کا مال اموال سب دھرا ہے۔ جو چیز جس کا جی چاہتا ہے لیتا ہے اور اس کی قیمت کے روپے دھر دیتا ہے۔ غرض سب اسباب کے نقد روپے ہوئے۔ ان روپیوں کا جواہر خریدا گیا اور صندوقچے میں بند کیا اور ایک دوسرے صندوق میں نان، حلوہ اور گوشت کے کباب اور میوہ خشک و تر کھانے کی چیزیں لے کر بھریں اور لاش اس بی بی ایک صندوق میں رکھ کر صندوق آزوقے کا ایک اونٹ پر لدا دیا، اور مجھ سوار کیا اور صندوقچہ جواہر کا میری بغل میں دیا، اور سارے باہمن آگے بھجن کرتے سنکھ بجاتے چلے، اور پیچھے ایک خلقت مبارک بادی کہتے ہوئے ساتھ ہوئی۔ اس طور سے اسی دروازے سے کہ میں پہلے روز آیا تھا، شہر کے باہر نکلا۔ جونہیں داروغہ کی نگاہ مجھ پر پڑی رونے لگا اور بولا کہ کم بخت اجل گرفتہ میری بات نہ سنی اور اس شہر میں جا کر مفت اپنی جان دی۔ میری تقصیر نہیں۔ میں نے منع کیا تھا۔ ان نے یہ کہی، لیکن میں تو ہکا بکا ہو رہا تھا۔ دربان باری دیتی تھی کہ جواب دوں، نہ اوسان بجا تھے کہ دیکھئے انجام میرا کیا ہوتا ہے۔
آخر اسی قلعہ کے پاس جس کا میں نے پہلے روز دروازہ بند دیکھا تھا، لے گئے اور بہت سے آدمیوں نے مل کر قفل کو کھولا۔ تابوت اور صندوق کو اندر لے چلے۔ ایک پنڈت میرے نزدیک آیا اور سمجھانے لگا کہ مانس ایک دن جنم پاتا ہے ا ور ایک روز ناس ہوتا ہے۔ دنیا کا یہ اوگن ہے اب یہ تیری استری اور پوست اور دھن اور چالیس دن کا اسباب بھوجن کا موجود ہے اس کو لے اور یہاں رہ جب تلک بڑا بت تجھ پر مہربان ہووے میں نے غصے میں چاہا کہ اس بت پر اور وہاں کے رہنے والوں پر اور اس ریت رسم پر لعنت کہوں اور باہمن کو دھول چھکڑ کروں۔ وہی مرد عجمی اپنی زبان میں مانع ہوا کہ خبردار ہرگز دم مت مار۔ اگر کچھ بھی بولا تو اسی وقت تجھے جلاویں گے۔ خیر جو تیری قسمت میں تھا سو ہوا۔ اب خدا کے کرم سے امیدوار رہ۔ شاید اللہ تجھے یہاں سے جیتا نکالے۔
آخر سب مجھے تن تنہا چھوڑ کر اس حصار سے باہر نکلے اور دروازہ پھر مقفل کر دیا۔ اس وقت میں اپنی تنہائی اور بے بسی پر بے اختیار رویا اور اس عورت کو اور لوتھ پر لاتیں مارنے لگا کہ اے مردار اگر تجھے جنتے ہی مر جانا تھا تو بیاہ کاہے کو کیا تھا اور پیٹ سے کیوں ہوئی تھی؟ مار مور کر پھر چپکا بیٹھا۔ اس میں دن میں چڑھا اور دھوپ گرم ہوئی سر کا بھیجا پکنے لگا۔ اور تعفن کے مارے روح نکلنے لگی۔ جیدھر دیکھتا ہوں، مردوں کی ہڈیاں اور صندوق جواہر کے ڈھیر لگے ہیں۔ تب کئی صندوق پرانے لے کر نیچے اوپر رکھے کہ دن کو دھوپ سے اور رات کو اوس سے بچاؤ۔ آپ پانی کی تلاش کرنے لگا۔ ایک طرف جھرنا سا دیکھا کہ قلعے کی دیوار میں پتھر کا تراشا ہوا گھڑے کے منہ کے موافق ہے۔ بارے کئی دن اس پانی اور کھانے سے زندگی ہوئی۔ آ کر آزوقہ تمام ہوا۔ میں گھبرایا اور خدا کی جناب میں فریاد کی۔ وہ ایسا کریم ہے کہ دروازہ کوٹ کا کھلا اور ایک مرد کو لائے۔ اس کے ساتھ ایک پیر مرد آیا۔ جب اسے بھی چھوڑ کر گئے۔ یہ دل میں آیا کہ اس بوڑھے کو مار کر اس کے کھانے کا صندوق سب کا سب لے لے۔ ایک صندوق کا پایا ہاتھ میں لے کر اس پاس گیا۔ وہ بچارا سر زانو پر دھرے حیران بیٹھا تھا۔ میں نے پیچھے سے آ کر اس کے سر میں ایسا مارا کہ سر پھٹ کر مغز کو گودا نکل پڑا اور فی الفور جاں بحق تسلیم ہوا۔ اس کا آزوقہ لے کر میں کھانے لگا، مدت تلک یہی میرا کام تھا کہ جو زندہ مردے کے ساتھ آتا، اسے میں مار ڈالتا اور کھانے کا اسباب لے کر بہ فراغت کھاتا۔
بعد کتنی مدت ایک مرتبہ ایک لڑکی تابوت کے ہمراہ آئی، نہایت قبول صورت، میرے دل نے نہ چاہا کہ اسے بھی ماروں۔ ان نے مجھے دیکھا اور مارے ڈر کے بے ہوش ہو گئی۔ میں اس کا بھی آزوقہ اٹھا کر اپنے پاس لے آیا، لیکن اکیلا نہ کھاتا۔ جب بھوک لگتی کھانا اس کے نزدیک لے جاتا اور ساتھ مل کر کھاتا۔
جب اس عورت نے دیکھا کہ مجھے یہ شخص نہیں ستاتا، دن بہ دن اس کی وحشت کم ہوئی اور رام ہوتی چلی۔ میرے مکان میں آنے جانے لگی۔ ایک روز اس کا احوال پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بادشاہ کے وکیل کی مطلق کی بیٹی ہوں۔ اپنے چچا کے بیٹے سے منسوب ہوئی تھی۔ شب عروسی کے دن اسے قولنج ہوا۔ ایسے درد سے تڑپنے لگا کہ ایک آن کی آن میں مر گیا۔ مجھے اس کے تابوت کے ساتھ لا کر یہاں چھوڑ گئے۔ تب اس نے میرا احوال پوچھا۔ میں نے بھی تمام و کال بیان کیا اور کہا خدا نے تجھے میری خاطر یہاں بھیجا ہے۔ وہ مسکرا کر چپکی ہو رہی۔
اس طرح کئی دن میں آپس میں محبت زیادہ ہو گئی۔ میں نے اسے ارکان مسلمانی کے سکھا کر کلمہ پڑھایا اور متعہ کر کر صحبت کی۔ وہ بھی حاملہ ہوئی ایک بیٹا پیدا ہوا۔ قریب تین برس کے اسی صورت سے گزری۔ جب لڑکے کا دودھ بڑھایا۔ ایک روز بی بی سے کہا کہ یہاں کب تلک رہیں اور کس طرح یہاں سے نکلیں؟ وہ بولی خدا نکالے تو نکلیں۔ نہیں تو ایک روز یونہیں مر جائیں۔ مجھے اس کے کہنے پر اور اپنے رہنے پر کمال رقت آئی۔ روتے روتے سو گیا۔ ایک شخص کو خواب میں دیکھا کہ کہتا ہے پرنالے کی راہ سے نکلنا ہے تو نکل۔ میں مارے خوشی کے چونک پڑا اور جورو کو کہا کہ لوہے کی میخیں اور سیخیں جو پرانے صندوق میں ہیں جمع کر کے لے آؤ تو اس کو کشادہ کروں۔ غرض میں اسی موری کے منہ پر میخ رکھ کر پتھر سے ایسا ٹھونکتا کہ تھک جاتا۔ ایک برس کی محنت میں وہ سوراخ اتنا بڑا ہوا کہ آدمی نکل سکے۔
بعد اس کے مردوں کی آستینوں میں اچھے اچھے جواہر چن کر بھرے اور ساتھ لے کر اسی راہ سے ہم تینوں باہر نکلے۔ خدا کا شکر کیا اور بیٹھے کو کاندھے پر بٹھایا ایک مہینہ ہوا ہے کہ سر راہ چھور کر مارے ڈر کے جنگل پہاڑوں کی راہ سے چلا آتا ہوں، جب گرسنگی ہوتی ہے گھاس پات ہوں قوت بات کہنے کی مجھ میں نہیں۔ یہ میری حقیقت ہے جو تم نے سنی۔
بادشاہ سلامت! میں نے اس کی حالت پر ترس کھایا اور حمام کروا کر اچھا لباس پہنوایا اور اپنا نائب بنایا اور میرے گھر میں ملکہ سے کئی لڑکے پیدا ہوئیے، لیکن خورد سالی میں مر گئے ایک بیٹا پانچ برس کا ہو کر مرا۔ اس کے غم میں ملکہ نے وفات پائی۔ مجھے کمال غم ہوا اور وہ ملک بغیر اسکے کاٹنے لگا۔ دل اداس ہو گیا۔ ارادہ عجم کا کیا۔ بادشاہ سے عرض کر کر خدا شاہ بندر کی اس جوان کو دلوا دی۔ اس عرصے میں بادشاہ بھی مر گیا۔ میں اس وفادار کتے کو اور سب مال خزانہ جواہر لے کر نیشا پور میں آ رہا۔ اس واسطے کہ بھائیوں کے احوال سے کوئی واقف نہ ہووے۔ میں خواجہ سگ پرست مشہور ہوا۔ اس بدنامی میں دگنا محصول آج تک بادشاہ ایران کی سرکار میں بھرتا ہوں۔
اتفاقا یہ سوداگر بچہ وہاں گیا۔ اس کے وسیلے سے جہاں پناہ کا قدم بوس کیا میں نے پوچھا کیا یہ تمہارا فرزند نہیں؟ خواجہ نے جواب دیا قبلہ عالم! یہ میرا بیٹا نہیں آپ ہی کی رعیت ہے، لیکن اب میرا مالک اور وارث جو کچھ کہے سو یہی ہے یہ سن کر سوداگر بچے میں نے پوچھا کہ تو کس تاجر کا لڑکا ہے اور تیرے ماں باپ کہاں رہتے ہیں؟ اس لڑکے نے زمین چومی اور جان کی امان مانگی اور بولا کہ یہ لونڈی سرکار کے وزیر کی بیٹی ہے۔ میرا باپ حضور کے عتاب میں بے سبب اسی خواجہ کے لعلوں کے پڑا۔ اور حکم یوں ہوا کہ اگر ایک سال تک اس کی بات کرسی نشین نہ ہو گی تو جان سے مارا جائے گا۔ میں نے سن کر یہ بھیس بنایا اور اپنے تئیں نیشا پور پہنچایا۔ خدا نے خواجہ کو بہ مع کتے اور لعلوں کو حضور میں حاضر کر دیا۔ آپ نے تمام احوال سن لیا۔ امیدوار ہوں کہ میرے بوڑھے باپ کی مخلصی ہو۔
یہ بیان وزیر زادی سے سن کر خواجہ نے ایک آہ کی اور اختیار گر پڑا۔ جب گلاب اس پر چھڑکا گیا تب ہوش میں آیا اور بولا کہ ہائے کم بختی! اتنی دور سے رنج و محنت کھینچ کر میں اس توقع پر آیا تھا کہ اس سوداگر بچے کو متبنیٰ کر کر اپنا فرزند کروں گا اور اپنے مال متاع کا اس کو ہبہ نامہ لکھ دوں گا تو میرا نام رہے گا اور سارا عالم اسے خواجہ زادہ کہے گا سو میرا خیال خام ہوا اور بالعکس کام ہوا۔ ان نے عورت ہو کر مجھ مرد پیر کو خراب کیا۔ میں رنڈی کے چرتر میں پڑا۔ اب میری وہ کہاوت ہوئی گھر میں رہے، نہ تیرتھ گئے، منڈ منڈا فضیحت۔ القصہ مجھے اس کی بے قراری اور نالہ و زاری پر رحم آیا۔ خواجہ کو نزدیک بلایا اور کان میں مژدہ اس کے وصل کا سنایا کہ غمگین مت ہو اسی سے تیری شادی کر دیں گے۔ خدا چاہے تو اولاد تیری ہو گی اور یہی تیری مالک ہو گئی۔ اس خوشخبری کے سنتے سے فی الجملہ اس کو تسلی ہوئی۔ تب میں نیک ہا کہ وزیر زادی کو محل میں لے جاؤ اور وزیر کو پنڈت خانے سے لے آؤ اور حمام میں نہلاؤ اور خلعت سرفرازی کی پہناؤ اور جلد میرے پاس لاؤ۔ جس وقت وزیر آیا، لب فرش تک اس کا استقبال فرمایا اپنا بزرگ جان کر گلے لگایا، اور نئے سر سے قلمدان اور وزارت کا عنایت فرمایا اور خواجہ کو بھی جاگیر و منصب دیا اور ساعت سعید دیکھ کر وزیر زادی سے نکاح پڑھوا کر منسوب کیا۔
کئی سال میں دو بیٹے اور ایک بیٹی اس کے گھر میں پیدا ہوئی۔ چنانچہ بڑا بیٹا ملک التجار ہے اور چھوٹا ہماری سرکار کا مختار ہے۔ اے درویشو! میں نے اس لیے یہ نقل تمہارے سامنے کی کل کی رات دو فقیروں کی سرگذشت میں نے سنی تھی۔ اب تم دونوں جو باقی رہے ہو یہ سمجھو کہ ہم اسی مکان میں بیٹھے ہیں اور مجھے اپنا خادم اور اس گھر کو اپنا تکیہ جانو، بے وسواس اپنی اپنی سیر کا احوال کہو اور چندے میرے پاس رہو۔ جب فقیروں نے بادشاہ کی طرف سے بہت خاطر داری دیکھی، کہنے لگے خیر جب تم نے گداؤں سے الفت کی اور تو ہم دونوں بھی اپنا ماجرا بیان کرتے ہیں سنئے۔
۔۔۔۔۔۔۔اختتام "سیر دوسرے درویش کی"
تیسرا درویش کوٹ باندھ بیٹھا اور اپنی سیر کا بیان اس طرح سے کرنے لگا
احوال اس فقیر کا اے دوستاں سنو
یعنی جو مجھ پہ بیتی ہے وہ داستاں سنو
جو کچھ کہ شاہ عشق نے مجھ سے کیا سلوک
تفصیل دار کرتا ہوں اس کا بیان سنو
یہ کمترین بادشاہ زادہ عجم کا ہے۔ میرے ولی نعمت وہاں بادشاہ تھی اور سوائے میرے کوئی فرزند نہ رکھتے تھے۔ میں جوانی کے عالم میں مصاحبوں کے ساتھ چوپڑ، گنجفہ، شطرنج، تختہ نرو کھیلا کرتا تھا۔ یا سوار ہو کر سیر و شکار میں مشغول رہتا۔
ایک دن کا ماجرا ہے کہ سواری تیار کروا کر اور سب یار آشناؤں کو لے کر میدان کی طرف نکلا۔ باز بہری، جرح، باشا، سرخاب اور تیتروں پر اڑاتا ہوا دور نکل گیا۔ عجب طرح کا ایک قطعہ بہار کا نظر آیا کہ جیدھر نگاہ جاتی تھی، کوسوں تلک سبز اور پھولوں سے لال زمین نظر آتی تھی۔ یہ سماں دیکھ کر گھوڑوں کی باگیں ڈال دیاں، اور قدم قدم سیر کرتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ ناگاہ اس صحرا میں دیکھا کہ ایک کالا ہرن اس پر زربفت کا جھول اور بھنوت کلی مرصع کی اور گھونگرو سونے کے زردوزی پٹے میں ٹکے ہوئے گلے میں پڑے، خاطر جمع سے اس میدان میں کہ، جہاں انسان کا دخل نہیں اور پرندہ پر نہیں مارتا، چرتا پھرتا ہے۔ ہمارے گھوڑوں کی سم کی آواز پا کر چوکنا ہوا اور سر اٹھا کر دیکھا اور آہستہ آہستہ چلا۔
مجھے اس کو دیکھنے سے یہ شوق ہوا کہ رفیقوں سے کہا تم یہیں کھڑے رہوں۔ یہ اسے جیتا پکڑوں گا۔ خبردار تم قدم آگے نہ بڑھائیو اور میرے پیچھے نہ آئیو۔ اور گھوڑا میری رانوں تلے ایسا پرند تھا کہ بارہا ہرنوں کے اوپر دوڑا کر ان کی کرچھالوں کو بھلا کر ہاتھوں سے پکڑ لیے تھے، اس کے عقب دوڑایا۔ وہ دیکھ کر چھلانگیں بھرنے لگا اور ہوا ہوا۔ گھوڑا بھی باد سے باتیں کرتا تھا لیکن اس کی گرد کو نہ پہنچا، وہ رہوار بھی پسینے پسینے ہو گیا اور میری بھی جیب مارے پیاس کو کٹخنے لگی پر کچھ بس نہ چلا۔ شام ہونے لگی۔ اور میں کیا جانوں کہاں سے کہاں نکل آیا۔ لاچار ہو کر اسے بھلاوا دیا۔ اور ترکش سے تیر نکال کر اور قربان سے کمان سنبھال کر چلے میں جوڑ کر کشش کان تلک لا کر، ران کواس کی تاک، اللہ اکبر کہہ کر مارا۔ بارے پہلا ہی تیر اس کے پاؤں ترازو ہوا۔ تب لنگڑاتا ہوا پہاڑ کے دامن کی سمت چلا۔ فقیر بھی گھوڑے پر سے اتر پڑا اور پا پیادہ اس کے پیچھے لگا۔ اس نے کوہ کا ارادہ کیا اور میں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ کئی اتار چڑھاؤ کے بعد ایک گنبد نظر آیا۔ جب پاس پہنچا ایک باغیچہ اور ایک چشمہ دیکھا۔ وہ ہرن تو نظر سے چھلاوا ہو گیا۔ میں نہایت تھکا تھا ہاتھ پاؤں دھونے لگا۔
ایک بارگی آواز رونے کی اس برج کے اندر سے میرے کان میں آئی جیسے کوئی کہتا ہے کہ اے بچے! جس نے تجھے تیر مارا، میری آہ کا تیر اس کے کلیجے میں لگیو۔ وہ اپنی جوانی سے پھل نہ پاوے اور خدا اس کو میرا سا دکھیا بنا دے میں یہ سن کر وہاں گیا۔ دیکھا تو ایک بزرگ ریش سفید اچھی پوشاک پہنے ایک مسند پر بیٹھا ہے اور ہرن آگے لیٹا ہے۔ اس کی جانگھ سے تیر کھینچتا ہے اور بددعا دیتا ہے۔
میں نے سلام کیا اور ہاتھ جوڑ کہا۔ کہ حضرت سلامت یہ تقصیر نادانستہ اس غلام سے ہوئی۔ میں یہ نہ جانتا تھا خدا کے واسطے معاف کرو۔ بولا کہ بے زبان کو تو نے ستایا ہے، اگر آن جان تجھ سے یہ حرکت ہوئی، اللہ معاف کرے گا، میں پاس جا بیٹھا، اور تیر نکالنے میں شریک ہوا۔ بڑے طاقت سے تیر کو نکالا اور زخم میں مرہم بھر کر چھوڑ دیا۔ پھر ہاتھ دھو کر اس پیر مرد نے کچھ حاضری جو اس وقت موجود تھی، مجھے کھلائی میں نے کھا پی کر ایک چارپائی پر لنبی تانی۔
ماندگی کے سبب خوب پیٹ بھر کر سویا۔ اس نیند میں آواز نوحہ و زاری کی کان میں آئی۔ آنکھیں مل کر جو دیکھتا ہوں تو اس مکان میں نہ وہ بوڑھا ہے نہ کوئی اور ہے۔ اکیلا میں پلنگ پر لیٹا ہوں اور وہ دالان خالی پڑا ہے، چاروں طرف بھیانک ہو کر دیکھنے لگا۔ ایک کونے میں پردہ پڑا نظر آیا۔ وہاں جا کر اسے اٹھایا۔ دیکھا تو ایک تخت بچھا ہے۔ اور اس پر ایک پری زادی عورت برس چودہ ایک کی، مہتاب کی صورت، اور زلفیں دونوں طرف چھوٹی ہوئیں، ہنستا چہرہ، فرنگی لباس پہنے ہوئے عجب ادا سے دیکھتی ہے اور بیٹھتی ہے اور وہ بزرگ اپنا سر اس کے پاؤں پر دھرے بے اختیار رو رہا ہے، اور ہوش حواس کھو رہا ہے۔ میں اس پیر مرد کا یہ احوال اور اس نازنین کا حسن و جمال دیکھ کر مرجھا گیا اور مردے کی طرح بے جان ہو کر گر پڑا۔ وہ مرد بزرگ میرا یہ حال دیکھ کر شیشہ گلاب کا لے آیا اور مجھ پر چھڑکنے لگا جب میں جیتا اٹھ کر اس معشوق کے مقابل جا کر سلام کیا، اس نے ہر گز نہ ہاتھ اٹھایا اور نہ ہونٹھ ہلایا میں نے کہا اے گل بدن اتنا غرور کرنا اور جواب سلام کا نہ دینا کس مذہب میں درست ہے؟
کم بولنا ادا ہے ہر چند، پر نہ اتنا
مند جائے چشم عاشق تو بھی وہ منہ نہ کھولے
واسطے اس خدا کے جس نے تجھے بنایا ہے کچھ تو منہ سے بول۔ ہم بھی اتفاقا یہاں آ نکلے ہیں۔ مہمان کی خاطر ضرور ہے۔ میں نے بہتیری باتیں بنائیں، لیکن کچھ کام نہ آئیں۔ وہ چپکی بت کی طرح بیٹھی سنا کی۔ تب میں نے بھی آگے بڑھ کر ہاتھ پاؤں پر چلایا۔ جب پاؤں کو چھیڑا تو سخت معلوم ہوا۔ آخر یہ دریافت کیا کہ پتھر سے اس لعل کو تراشا ہے، اور اس آذر نے اس بت کو بنایا ہے۔ تب اس پیر مرد بت پرست سے پوچھا کہ میں نے تیرے ہرن کی ٹانگ میں کھپرا مارا۔ تو نے اس عشق کی ناوک سے میرا کلیجہ چھید کر وار پار کیا۔ تیری دعا قبول ہوئی۔ اب اس کی کیفیت مفصل بیان کر کر یہ طلسم کیوں بنایا ہے۔ اور تو بستی کو چھوڑ کر جنگل پہاڑ کیوں سیتا ہے۔ تجھ پر جو کچھ بیتا ہے مجھ سے کہہ۔
جب اس کا بہت پیچھا لیا تب اس نے جواب دیا کہ اس بات نے مجھے تو خراب کیا، کیا تو بھی سن کر ہلاک ہو چاہتا ہے؟ میں نے کہا لو اب بہت چکر کیا۔ مطلب کی بات کہو۔ نہیں تو مار ڈالوں گا۔ مجھے نہایت در پے دیکھ کر بولا۔ اے جوان حق تعالیٰ ہر ایک انسان کو عشق کی آنچ سے محفوظ رکھے۔ دیکھ تو اس عشق نے کیا کیا آفتیں برپا کی ہیں۔ عشق ہی کے مارے عورت خاوند کے ساتھ ستی ہوتی ہے اور اپنی جان کھوتی ہے۔ اور فرہاد مجنوں کا قصہ سب کو معلوم ہے۔ تو اس کے سننے سے پھل پاوے گا؟ ناحق گھر بار، دولت دنیا چھوڑ کر نکل جاوے گا، میں نے جواب دیا بس اپنی دوستی تہہ کر رکھو، اس وقت مجھے اپنا دشمن سمجھو۔ اگر جان عزیز ہے تو صاف کہو۔ لاچار ہو کر آنسو بھر لایا اور کہنے لگا کہ مجھ خانہ خراب کی یہ حقیقت ہے کہ بندے کا نام نعمان سیاح ہے، میں بڑا سوداگر تھا۔ اس سن میں تجارت کے سبب ہفت اقلیم کی سیر کی اور سب بادشاہوں کی خدمت میں رسائی ہوئی۔ ایک بار یہ خیال جی میں آیا کہ چاروں وانگ ملک تو پھرا، لیکن جزیرہ فرنگ کی طرف نہ گیا اور وہاں کے بادشاہ کو اور رعیت و سپاہ کو نہ دیکھا اور رسم و راہ وہاں کی کچھ نہ دریافت ہوئی۔ ایک دفعہ وہاں بھی چلا چاہیے۔ رفیقوں اور شفیقوں سے صلاح لے کر ارادہ مصمم کیا۔ اور تحفہ ہدایا جہاں تہاں کا جو وہاں کے لائق تھا لیا۔ اور ایک قافلہ سوداگروں کا اکٹھا کر کر جہاز پر سوار ہو کر روانہ ہوا۔ ہوا جو موافق پائی، کئی مہینوں میں اس ملک میں جا داخل ہوا۔ ہر ایک بازار و کوچے میں پختہ سڑکیں بنی ہوئیں اور چھڑکاؤ کیا ہوا۔ صفائی ایسی کہ تنکا کہیں پڑا نظر نہ آیا کوڑے کا تو کیا ذکر ہے۔ اور عمارتیں رنگ برنگ کی، اور رات کو رستوں میں دو رستہ قدم بقدم روشنی۔ اور شہر کے باہر باغات کہ جن میں عجائب گل بوٹے اور میوے نظر آئے کہ شاید سوائے بہشت کے کہیں اور نہ ہوں گے، جو وہاں کی تعریف کروں سو بجا ہے۔
غرض سوداگروں کے آنے کا چرچا ہوا۔ ایک خواجہ سر معتبر سوار ہو کر اور کئی خدمت گار ساتھ لے کر قافلے میں آیا۔ اور بیوپاریوں سے پوچھا کہ تمہارا سردار کونسا ہے؟ سبھوں نے میری طرف اشارت کی۔ وہ محلی میرے مکان میں آیا۔ میں تعظیم بجا لایا، باہم سلام علیک ہوئی۔ اس کو سوزنی پر بٹھایا۔ تکیے کی تواضع کی۔ بعد اس کے میں نے پوچھا کہ صاحب کے تشریف لانے کا باعث ہے؟ فرمایئے۔ جواب دیا کہ شہزادی سے سنا ہے سوداگر آئے ہیں اور بہت جنس لائے ہیں، لہٰذا مجھ کو حکم دیا کہ جا کر ان کو حضور میں لے آؤ۔ پس تم جو کچھ اسباب لائق بادشاہوں کی سرکار کے ہو، ساتھ لے چلو اور سعادت آستانہ بوسی کی حاصل کرو۔
میں نے جواب دیا کہ آج تو ماندگی کے باعث قاصر ہوں۔ کل جان و مال سے حاضر ہوں گا۔ جو کچھ اس عاجز کے پاس موجود ہے، نذر گزرانوں گا۔ جو پسند آوے، مال سرکار کا ہے یہ وعدہ کر کر عطر پان دے کر خواجہ کو رخصت کیا اور سب سوداگرون کو اپنے پاس بلا کر جو جو تحفہ جس کے پاس تھا، لے لے کر جمع کیا۔ اور جو میرے گھر میں تھا وہ بھی لیا۔ اور صبح کے وقت دروازے پر بادشاہی محل کے حاضر ہوا۔
باری باری داروں نے میری خبر عرض کی۔ حکم ہوا کہ حضور میں لاؤ۔ وہی خواجہ سرا نکلا اور میرا ہاتھ ہاتھ میں لے کر دوستی کی راہ سے باتیں کرتا ہوا لے چلا۔ پہلے خواص پر سے ہو کر ایک مکان عالی شان میں لے گیا۔ اے عزیز! تو باور نہ کرے گا، یہ عالم نظر آیا گویا پر کاٹ کر پریوں کو چھوڑ دیا ہے۔ جس طرف دیکھتا تھا نگاہ گڑ جاتی۔ پاؤں زمیں سے اکھڑے جاتے تھے۔ بہ زور اپنے تئیں سنبھالتا ہوا رو برو پہنچا۔ جونہیں بادشاہ زادی پر نظر پڑی۔ غش کی نوبت ہوئی اور ہاتھ پاؤں میں رعشہ ہو گیا۔ بہر صورت سلام کیا۔ دونوں طرف دست راست اور دست چپ، صف بہ صف نازنینان پری چہرہ، دست بست کھڑی تھیں۔ میں جو کچھ قسم جواہر اور پارچہ پوشاکی اور تحفہ اپنے ساتھ لے گیا تھا، پیش کیا۔ جب کشتیاں حضور میں چنی گئیں، ازبس کہ سب جنس لائق پسند کی تھی، خوش ہو کر خانساماں کے حوالے ہوئی اور فرمایا کہ قیمت اس کی بموجب فرد کے کل دی جاوے گی۔ میں تسلیمات بجا لایا اور دل میں خوش ہوا کہ اس بہانے سے بھلا کل بھی آنا ہو گا۔ جب رخصت ہو کر باہر آیا تو سودائی کی طرح کہتا کچھ تھا اور منہ سے سدے کچھ نکلتا تھا۔ اسی طرح سرا میں آیا، لیکن حواس بجا نہ تھے۔ سب آشنا دوست پوچھنے لگے کہ تمہاری کیا حالت ہے؟ میں نے کہا اتنی آمدورفت سے گرمی دماغ پر چڑھ گئی ہے۔
غرض وہ رات تلیھے کاٹی۔ فجر کو پھر جا کر حاضر ہوا، اور اسی خواجہ کے ساتھ پھر محل میں پہنچا۔ وہی عالم جو کل دیکھا تھا۔ بادشاہ زادی نے مجھے دیکھا اور ہر ایک کو اپنے اپنے کام پر رخصت کیا۔ جب پرچھا ہوا۔ خلوت میں اٹھ گئیں اور مجھے طلب کی۔ جب میں وہاں گیا، بیٹھے کا حکم کیا۔ میں بھی آداب بجا لا کر بیٹھا۔ فرمایا کہ یہاں جو تو آتا اور یہ اسباب لایا، اس میں منافع کتنا منظور ہے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے قدم دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔ سو خدا نے میسر کی، اب میں نے سب کچھ بھر پایا۔ اور دونوں جہان کی سعادت حاصل ہوئی۔ اور قیمت کچھ فہرست میں ہے، نصف کی خرید ہے اور نصف نفع ہے۔ فرمایا نہیں جو قیمت تو نے لکھی ہے وہ عنایت ہو گی، بلکہ اور بھی انعام دیا جائے گا بشرطیکہ ایک کام تجھ سے ہو سکے تو حکم کروں۔ میں نے کہا کہ غلام کا جان و مال اگر سرکار کے کام آوے تو میں اپنے طالعوں کی خوب سمجھوں اور آنکھوں سے کروں۔ یہ سن کر قلم دان یاد فرمایا۔ ایک شقہ لکھا اور موتیوں کے درمیان میں رکھ کر ایک رومال شبنم کا اور لپیٹ کر میرے حوالے کیا اور ایک انگوٹھی نشان کے واسطے انگلی سے اتار دی اور کہا کہ اس طرف کو ایک بڑا باغ ہے۔
دل کشا اس کا نام ہے۔ وہاں تو جا کر ایک شخص کے خسرو نام داروغہ ہے، اس کے ہاتھ میں یہ انگشتری دیجئو، اور ہماری طرف سے دعا کہیو اور اس رقعہ کا جواب مانگیو۔ لیکن جلد آئیو۔ اگر کھانا وہاں کھائیو تو پانی یہاں پیئو۔ اس کام کا انعام تجھے ایسا دوں گی تو دیکھے گا۔ میں رخصت ہوا۔ اور پوچھتا پوچھتا چلا۔ قریب دو کوس کے جب گیا، وہ باغ نظر پڑا۔ جب پاس پہنچا، ایک عزیز مسلح مجھ کو پکڑ کر دروازے میں باغ کے لے گیا۔ دیکھوں تو ایک جوان شیر کی صورت، سونے کی کرسی پر زرہ داؤدی پہنے، چار آئینہ باندھے فولادی خود سر پر دھرے، نہایت شان و شوکت سے بیٹھا ہے اور پانچ سو جوان تیار ڈھال تلوار ہاتھ لئے اور ترکش کامان باندھے مستعد پرا باندھے کھڑے ہیں۔ میں نے سلام کیا، مجھے نزدیک بلایا۔ میں نے وہ خاتم دی اور خوشامد کی باتیں کر کر وہ رومال دکھایا۔ اور سقے کے بھی لانے کا احوال کہا۔ اس نے سنتے ہی انگلی دانتوں سے کاٹی اور سر دھن کر بولا کہ شاید تیری اجل تجھ کو لے کر آئی ہے۔ خیر باغ کے اندر جا، سرو کے درخت میں ایک آہنی پنجرا لٹکتا ہے اس میں ایک جوان قید ہے۔ اس کو یہ خط دے کر جواب لے کر جلدی پھرا۔ میں شتاب باغ میں گھسا۔ باغ کیا تھا، گویا جیسے جی بہشت میں گیا۔ ایک پر ایک چمن رنگ بہ رنگ کا پھول رہا تھا اور فوارے چھوٹ رہے تھے۔ جانور چہچہے مار رہے تھے میں سیدھا چلا گیا اور اس درخت میں وہ قفس دیکھا اس میں ایک حسین نظر آیا میں نے ادب سے سر نیہوڑ لیا اور سلام لیا اور وہ خریط سر بمہر پنجرے کی تیلیوں کی راہ سے دیا۔ وہ عزیز رقعہ کھول کر پڑھنے لگا اور مجھ سے مشتاق وار احوال ملکہ کو پوچھنے لگا۔ ابھی باتیں تمام نہ ہوئیں تھیں کہ ایک فوج زنگیوں کی نمودار ہوئی اور چاروں طرف سے مجھ پر آ ٹوٹی اور بے تحاشا برچھی و تلوار مارنے لگی ایک نہتے کی بساط کیا؟ ایک دم میں چور زخمی کر دیا۔ مجھے کچھ اپنی سدھ بدھ نہ رہی۔ پھر جو ہوش آیا اپنے تئیں چارپائی پر پایا کہ دو پیادے اٹھائے لیے جاتی ہیں اور آپ میں بتیاتے ہیں۔
ایک نے کہا اس مرد کی لوتھ کو میدان میں پھینک دو۔ کتے کوے کھا جائیں گے دوسرا بولا اگر بادشاہ تحقیق کرے اور یہ خبر پہنچے تو جیتا گڑوا دے اور باقی بچوں کو کولہو میں پڑوا دے۔ کیا ہمیں اپنی جان بھاری پڑے ہے جو ایسی نامعقول حرکت کریں۔
میں نے یہ گفتگو سن کر دونوں جاجوج ماجوج سے کہا واسطے خدا کے مجھ پر رحم کرو۔ ابھی مجھ میں ایک رمق جان باقی ہے۔ جب مر جاؤں گا جو تمہارا جی چاہے گا، سو کیجو، مردہ بدست زندہ لیکن یہ تو کہو مجھ پر یہ کیا حقیقت بیتی۔ مجھے کیوں مارا؟ اور تم کون ہو؟ بھلا اتنا تو کہہ سناؤ۔
تب انہوں نے رحم کھا کر کہا وہ جوان جو قفس میں بند ہے اس بادشاہ کا بھتیجا ہے اور پہلے اس کا باپ تخت نشین تھا۔ رحمت کے وقت یہ وصیت اپنے بھائی کو کی کہ ابھی میرا بیٹا جو وارث اس سلطنت کا ہے، لڑکا اور بے شعور ہے۔ کاروبار بادشاہت کا خیر خواہی اور ہوشیاری سے تم کیا کیجو۔ جب بالغ ہو اپنی بیٹی سے شادی اس کی کر دیجیو اور مختار تمام ملک اور خزانے کا کیجو۔
یہ کہہ کر انہوں نے وفات پائی اور سلطنت چھوٹے بھائی پر آئی۔ اس نے وصیت پر عمل نہ کیا بلکہ دیوانہ اور سودائی مشہور کر کے پنجرے میں ڈال دیا اور چوکی گاڑھی چاروں طرف باغ کے رکھی ہے کہ پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ اور کئی مرتبے زہر ہلاہل دیا ہے لیکن زندگی زبردست ہے اثر نہیں کیا۔ اب وہ شہزادی اور یہ شہزادہ دونوں عاشق و معشوق بن رہے ہیں۔ وہ گھر میں تلپھتی اور یہ قفس میں تڑپھے ہے۔ تیرے ہاتھ شوق کا نامہ اس نے بھیجا۔ یہ خبر ہر کاروں نے بہ جنس بادشاہ کو پہنچائی۔ حبشیوں کا دستہ متعین ہوا، تیرا یہ احوال کیا اور اس جوان قیدی کے قتل کی وزیر سے تدبیر پوچھی۔ اس نمک حرام نے ملکہ کو راضی کیا ہے کہ اس بے گناہ کو بادشاہ کے حضور اپنے ہاتھ سے شہزادی مار ڈالے۔
میں نے کہا چلو مرتے مرتے یہ بھی تماشا دیکھ لیں۔ آ کر راضی ہو کر وہ دونوں اور میں زخمی چپکے ایک گوشے میں جا کھڑے ہوئے، دیکھا تو تخت پر بادشاہ بیٹھا ہے اور ملکہ کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے اور شہزادے کو پنجرے سے باہر نکال کر رو بہ رو کھڑا کیا ملکہ جلاد بن کر شمشیر برہنہ لئے ہوئے اپنے عاشق کو قتل کرنے کو آئی۔ جب نزدیک پہنچی تلوار پھینک دی اور گلے میں چمٹ گئی۔ تب وہ عاشق بولا کہ ایسے مرنے پر میں راضی ہوں۔ یہاں تیری آرزو ہے، وہاں بھی تیری تمنا رہے گی۔ ملکہ بولی کہ اس بہانے سے میں تیرے دیکھنے کو آئی تھی۔ بادشاہ یہ حرکت دیکھ کر سخت برہم ہوا اور وزیر کو ڈانٹا کہ تو یہ تماشا دکھلانے کو لایا تھا؟ محلی ملکہ کو جدا کر کے محل میں لے گئے اور وزیر نے خفا ہر کر تلوار اٹھائی اور بادشاہ زادے کے اوپر دوڑا کہ ایک ہی وار میں کام اس بیچارے کا تمام کرے۔ جوں چاہتا ہے کہ تیغا چلاوے، غیب سے ایک تیر ناگہانی سے اس کی پیشانی پر بیٹھا کہ دوسار ہو گیا اور وہ گر پڑا۔ بادشاہ یہ واردات دیکھ کر محل میں گھس گئے، جوان کو پھر قفس میں بند کر کر باغ میں لے گئے۔ میں بھی وہاں سے نکلا۔ راہ میں سے ایک آدمی مجھے بلا کر ملکہ کے حضور میں لے گیا۔ مجھے گھائل دیکھ کر ایک جراح کو بلوایا اور نہایت تاکید سے فرمایا کہ نوجوان کو چنگا کر کے غسل شفا کے دے۔ یہی تیرا مجرا ہے اس کے اوپر جتنی محبت تو کرے گا ویسا ہی انعام اور سرفرازی پاوے گا۔ غرض وہ جراح بموجب ارشاد ملکہ کے تک و دو کر کے ایک چلے میں نہلا دھلا مجھے حضور میں لے گیا۔ ملکہ نے پوچھا کہ اب تو کچھ کسر باقی نہیں رہی؟ میں نے کہا کہ آپ کی توجہ سے اب ہٹا کٹا ہوں۔ تب ملکہ نے ایک خلعت اور بہت سے روپے جو فرمائے تھے، بلکہ اس سے بھی دوچند عطا کئے اور رخصت کیا۔
میں نے وہاں سے رفیق اور نوکر چاکروں کو لے کر کوچ کیا۔ جب اس مقام پر پہنچا سب کو کہا۔ تم اپنے وطن جاؤ۔ اور میں نے اس پہاڑ پر یہ مکان اور اس کی صورت بنا کر اپنا رہنا مقرر کیا۔ اور نوکروں اور غلاموں کو موافق ہر ایک کی قدر کے روپے دے کر آزاد کیا اور یہ کہہ دیا کہ جب تلک جیت رہوں گا، میرے قوت کی خبر گیری تمہیں ضرور ہے۔ آگے مختار ہو۔ اب وہی نمک حلالی سے میرے کھانے کی خبر لیتے ہیں اور میں بہ خاطر جمع اس بت کی پرستش کرتا ہوں۔ جب تلک جیتا ہوں میرا یہی کام ہے۔ یہ میری سرگزشت ہے جو تو نے سنی۔ یا فقر! میں نے بہ مجرد سنتے اس قصے کی کفنی گلے میں ڈالی اور فقیروں کا لباس کیا اور اشتیاق میں فرنگ ملک کے دیکھے کے لیے روانہ ہوا۔ کتنے ایک عرصہ میں جنگل پہاڑوں کی سیر کرتا ہوا مجنوں اور فرہاد کی صورت بن گیا۔
آخر میرے شوق نے اس شہر تلک پہنچایا۔ گلی کوچے میں باولا سا پھرنے لگا۔ اکثر ملکہ کے محل کے آس پاس رہا کرتا۔ لیکن کوئی ڈھبایسا نہ ہوتا جو وہاں تک رسائی ہو۔ عجیب حیرانی تھی کہ جس واسطے یہ محنت کر کر گیا، وہ مطلب ہاتھ نہ آیا۔ ایک دن بازار میں کھڑا تھا کہ ایک بارگی آدمی بھاگنے لگا اور دکاندار دکانیں بند کر کے چلے گئے۔ یا وہ رونق تھی یا سنسان ہو گیا۔ ایک طرف سے ایک جوان رستم کا سا کلہ جڑا شیر کی مانند گونجتا اور تلوار دو دوستی جھاڑتا ہوا، زرہ بکتر گلے میں ٹوپ جھلم کا سر پر طمنچے کی جوڑی کمر میں، کیفی کی طرح بکتا جھکتا نظر آیا۔ اور اس کے پیچھے غلام بنات کی پوشاک پہنے ایک تابوت مخمل کا شانی سے مڑھا ہوا سر پر لئے چلے آتے ہیں۔ میں نے یہ تماشا دیکھ کر ساتھ چلنے کا قصد کیا۔ جو کوئی آدمی میری نظر پڑتا، مجھے منع کرتا لیکن میں کب سنتا ہوں، رفتہ رفتہ وہ جوان مرد ایک عالی شان مکان میں چلا۔ میں بھی ساتھ ہوا۔ اس نے پھرتے ہی چاہا کہ ایک ہاتھ مارے اور مجھے دو ٹکڑے کرے۔ میں نے اسے قسم دی کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ میں نے اپنا خون معاف کیا۔ کسو طرح مجھے اس زندگی کے عذاب سے چھڑا دے کہ نہایت تنگ آیا ہوں۔ میں جان بوجھ کر تیرے سامنے آیا ہوں، دیر مت کر، مجھے مرنے پر ثابت قدم دیکھ کر خدا نے اس کے دل میں رحم ڈالا اور غصہ ٹھنڈا ہوا۔ بہت توجہ اور مہربانی سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اور کیوں اپنی زندگی سے بیزار ہوا ہے؟ میں نے کہا ذرا بیٹھئے تو کہوں۔ میرا قصہ بہت درو و دراز ہے۔ اور عشق کے نیچے میں گرفتار ہوں۔ اس سبب سے لاچار ہوں۔ یہ سن کر اس نے اپنی کمر کھولی اور ہاتھ منہ دھو دھا کر کچھ ناشتا کیا۔ مجھے بھی عنایت ہوا۔ جب فراغت کر کے بیٹھا، بولا۔ کہہ تجھ پر کیا گزری؟ میں نے سب واردات اس پیر مرد کی اور ملکہ کی اور وہاں اپنے جانے کی کہہ سنائی۔ پہلے سن کر رویا اور یہ کہا کہ اس کم بخت نے کس کس کا گھر گھالا۔ مراد کو پہنچے اور تو اندیشہ نہ کر اور خاطر جمع رکھ حجام کو فرمایا کہ اس کی حجامت کر کے حمام کروا دے۔ ایک جوڑا کپڑا اس کے غلام نے لا کر پہنایا۔ تب مجھ سے کہنے لگا کہ یہ تابوت جو تو نے دیکھا، اس شہزادے مرحوم کا ہے، جو قفس میں مقید تھا۔ اس کو دوسرے وزیر نے آخر کمر سے مارا، اس کو تو نجات ہوئی کہ مظلوم مارا گیا۔ میں اس کا کوکا ہوں۔ میں نے اس وزیر کو بہ ضرب شمشیر مارا اور بادشاہ کے بھی مارنے کا ارادہ کیا۔ بادشاہ گڑگڑایا اور سوگند کھانے لگا کہ میں بے گناہ ہوں۔ میں نے اسے نامرد جان کر چھوڑ دیا۔ تب سے میرا کام یہی ہے کہ ہر مہینے کی نو چندی جمعرات کو میں اس تابوت کو اسی طرح شہر میں لئے پھرتا ہوں، اور اس کا ماتم کرتا ہوں۔ اس کی زبانی یہ احوال سننے سے مجھے تسلی ہوئی کہ اگرچہ یہ چاہے گا تو میرا مقصد بر آوے گا۔ خدا نے بڑا احسان کیا جو ایسے جنونی کو مجھ پر مہربان کیا۔ سچ ہے خدا مہربان تو کل مہربان۔
جب شام ہوئی اور آفتاب غروب ہوا۔ اس جوان نے تابوت کو نکالا اور ایک غلام کے عوض وہ تابوت میرے سر پر دھرا اور اپنے ساتھ لے کر چلا۔ فرمانے لگا کہ ملکہ کے نزدیک جاتا ہوں۔ تیری سفارش تابہ مقدور کروں گا۔ تو ہرگز دم نہ ماریو، چپکا بیٹھا سنا کیجو۔ میں نے کہا جو کچھ صاحب فرمائے ہیں وہی کروں گا، خدا تم کو سلامت رکھے جو میرے احوال پر ترس کھاتے ہو۔ اس جوان نے قصد بادشاہی باغ کا کیا، جب اندر داخل ہوا ایک چبوترا سنگ مرمر کا ہشت پہلو باغ کے صحن میں تھا اور اس پر ایک نم گیرہ سفید بادلے کا موتیوں کی جھالر لگی ہوئی الماس کے استادوں پر کھڑا تھا اور ایک مسند مغرق بچھی تھی۔ گاؤ تکیہ اور بغلی تکیے زربفت کے لگے ہوئے۔ وہ تابوت وہاں رکھوایا اور ہم دونوں کو فرمایا کہ اس درخت کے پاس جا کر بیٹھو۔ بعد ایک ساعت کے مشعل کی روشنی نظر آئی۔ ملکہ آپ کئی خواصیں پس و پیش اہتمام کرتی ہوئیں تشریف لائیں لیکن اداسی اور خفگی چہرے پر ظاہر تھی۔ آ کر مسند پر بیٹھیں۔ فاتحہ پڑھی اور کچھ باتیں کرنے لگا۔ میں کان لگائے سن رہا تھا۔ آخر اس جوان نے کہا کہ ملکہ جہان سلامت! ملک عجم کا شہزادہ آپ کی خوبیاں اور محبوبیاں غائبانہ سن کر اپنی سلطنت کو برباد دے فقیر بن مانند ابراہیم ادہم کے تباہ ہوا، اور بڑی محنت کھینچ کر یہاں تک آ پہنچا۔ سائیں تیرے کارن چھوڑا شہر بلخ۔ اور شہر میں بہت دنوں سے حیران پریشان پھرتا ہے۔ آخر وہ قصد مرنے کا کر کے میرے ساتھ لگ چلا۔ میں نے تلوار سے ڈرایا۔ اس نے گردن آگے دھر دی کہ اب میں یہی چاہتا ہوں، دیر مت کر۔ غرض تمہارے عشق میں ثابت ہے میں نے خوب آزمایا۔ سب طرح پورا پایا۔ اس سبب سے اس کا مذکور میں درمیان لایا۔ اگر حضور سے اس کے احوال پر مسافر جان کر توجہ ہو تو خدا ترسی اور حق شناسی سے دور نہیں۔
یہ ذکر ملکہ نے سن کر فرمایا کہاں ہے؟ اگر شہزادہ ہے تو کیا مضائقہ؟ رو بہ رو آوے وہ کوکا وہاں سے اٹھ کر آیا اور مجھے ساتھ لے کر گیا۔ میں ملکہ کے دیکھنے سے نہایت شاد ہوا، لیکن عقل و ہوش برباد ہوئے۔ عالم سکوت کا ہو گیا۔ یہ ہواؤ نہ پڑا کہ کچھ کہوں۔ ایک دم میں ملکہ سدھاری اور کوکا اپنے مکان کو چلا۔ گھر آ کر بولا کہ میں نے تیری سب حقیقت اول سے آخر تک کہہ سنائی اور سفارش بھی کی، اب تو ہمیشہ رات کو بلا ناغہ جایا کر اور عیش خوشی منایا کر۔ میں اس کے قدم پر گر پڑا۔ اس نے گلے لگا لیا۔ تمام دن گھڑیاں گنتا رہا کہ کب سانجھ ہو، جو میں جاؤں۔ جب رات ہوئی میں اس جوان سے رخصت ہو کر چلا اور پائیں باغ میں ملکہ کے چبوترے پر تکیہ لگا کے جا بیٹھا۔ بعد ایک گھڑی کے ملکہ تن تنہا ایک خواص کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ آ کر مسند پر بیٹھیں۔ خوش طالعی سے یہ دن میسر ہوا، میں نے قدم بوس کیا۔ انہوں نے میرا سر اٹھا لیا اور گلے سے لگا لیا۔ اور بولیں کہ اس فرصت کو غنیمت جان میرا کہا مان۔ مجھے یہاں سے لے نکل، کسو اور ملک کو چل۔ میں نے کہا چلئے یہ کہہ کر ہم دونوں باغ کے باہر تو ہوئے پر حیرت سے اور خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ راہ بھول گئے اور ایک طرف کو چلے جاتے تھے، پر کچھ ٹھکانا نہیں پاتے تھے۔ ملکہ برہم ہو کر بولیں اب میں تھک گئی تیرا مکان کہاں ہے، جلدی چل کر پہنچ۔ نہیں تو کیا کیا چاہتا ہے؟ میرے پاؤں میں پھپھولے پڑ گئے، رستے میں کہیں بیٹھ جاؤں گی۔
میں نے کہا کہ تیرے غلام کی حویلی نزدیک ہے، اب آ پہنچے، خاطر جمع رکھو اور قدم اٹھاؤ۔ جھوٹ تو بولا پر دل میں حیران تھا کہ کہاں لے جاؤں؟ عید راہ پر ایک دروازہ مقفل نظر پڑا۔ جلدی سے قفل کو توڑ کر مکان کے بھیتر گئے۔ اچھی حویلی، فرش بچھا ہوا شراب کے شیشے بھرے، قرینے سے طاق میں دھرے اور باورچی خانے میں نان کباب تیار تھے۔ ماندگی کمال ہو رہی تھی ایک ایک گلاب شراب پرتگالی کی اس گزک کے ساتھ پی اور ساری راہ باہم خوشی کی۔ جب اس چین سے صبح ہوئی، شہر میں غل مچا کہ شہزادی غائب ہوئی۔ محلہ محلہ، کوچہ کوچہ، منادی پھرنے لگی اور کٹنیاں اور ہرکارے چھوٹے کہ جہاں ہاتھ آوے پیدا کریں، اور سب دروازوں پر شہر کے بادشاہی غلاموں کی چوکی آ بیٹھی۔ گزر بانوں کو حکم ہوا کہ بغیر پروانگی، چیونٹی باہر شہر کے نہ نکل سکے۔ جو کوئی سراغ ملکہ کا لاوے گا ہزار اشرفی اور خلعت انعام پاوے گا۔ تمام شہر کٹنیاں پھرنے اور گھر گھر میں گھسنے لگیں۔ مجھے جو کم بختی لگی دروازہ بند نہ کیا۔ ایک بڑھیا شیطان کی خالہ، اس کا خدا کرے منہ کالا، ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھلا پا کر ندھڑک چلی آئی اور سامنے ملکہ کے کھڑی ہو کر ہاتھ اٹھا کر دیا دینے لگی کہ الٰہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماو کی پگڑی قائم رہے میں غریب رنڈیا فقیرنی ہوں۔ ایک بیٹی میری ہے کہ وہ دو جی سے پورے دونوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ کو اتنی وسعت نہیں کہ ادھی کا تیل چراغ جلاؤں، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گورو کفن کیونکر کروں گی؟ آج دو دن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اسے صاحب زادی! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا تو اس کو پانی پینے کا آدھار ہو۔
ملکہ نے ترس کھا کر اپنے نزدیک بلا کر چار نان اور کباب اور ایک انگوٹھی چھینگیا سے اتار کر حوالے کی کہ اس کو بیچ بانچ کر گہنا پاتا بنا دیجو۔ اور خاطر جمع سے گزران کیجو۔ اور کبھو آیا کیجو، تیرا گھر ہے، اس نے اپنے دل کا مدعا، جس کی تلاش میں آئی تھی بہ جنس پایا۔ خوشی سے دعائیں دیتی اور بلائیں لیتی دفع ہوئی۔ ڈیوڑھی میں نان کباب پھینک دیئے، مگر انگوٹھی کو مٹھی میں لے لیا کہ پتا ملکہ کے ہاتھ کا میرے ہاتھ آیا۔ خدا اس آفت سے جو بچایا چاہے اس مکان کا مالک جواں مرد سپاہی، تازی گھوڑے پر چڑھا ہوا، نیزہ ہاتھ میں لئے شکار بن سے ایک ہرن لٹکائے آ پہنچا، اپنی حویلی کا تالا ٹوٹا اور کواڑ کھلے پائے۔ اس دلالہ کو نکلتے دیکھا، مارے غصے کے ایک ہاتھ سے اس کے جھونٹے پکڑ کر لٹکایا اور گھر میں آیا۔ اس کے دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر ایک درخت کی ٹہنی میں لٹکایا۔ سر تلے پاؤں اوپر کئے ایک دم میں تڑپہ تڑپہ مر گئیں۔ اس مرد کی صورت دیکھ کر یہ ہیبت غالب ہوئی کہ ہوائیاں منہ پر اڑنے لگیں اور مارے ڈر کے کلیجہ کانپنے لگا۔ اس عزیز نے ہم دونوں کو بدحواس دیکھ کر تسلی دی کہ بڑی نادانی تم نے کی۔ ایسا کام کیا اور دروازہ کھول دیا۔
ملکہ نے مسکرا کر فرمایا کہ شہزادہ اپنے غلام کی حویلی کہہ کر مجھے لے آیا اور مجھ کو پھسلایا۔ اس نے التماس کیا کہ شہزادے نے بیان واقعی کہا۔ جتنی خلق اللہ ہے بادشاہوں کے لونڈی غلام ہیں۔ انہیں کی برکت اور فیض سے سب کی پرورش اور نباہ ہے۔ یہ غلام بے دام و درم زر خریدہ تمہارا ہے۔ لین بھید چھپانا، عقل کا مقتضا ہے۔ اے شہزادے تمہارا اور ملکہ کا اس غریب خانے میں توجہ فرمانا اور تشریف لانا سعادت دونوں جہان کی ہے۔ اور اپنے فدوی کو سرفراز کیا۔ میں نثار ہونے کو تیار ہوں۔ کسو صورت میں جان و مال سے دریغ نہ کروں گا۔ آپ شوق سے آرام فرمائیے اب کوڑی بھر خطرہ نہیں۔ یہ مردار کٹنی اگر سلامت جاتی تو آفت لاتی۔ اب جب تلک مزاج شریف چاہے بیٹھے رہیے اور جو کچھ چاہیے درکار ہو اس خانہ زاد کو کہیے سب حاضر کرے گا اور بادشاہ تو کیا چیز ہے! تمہاری خبر فرشتے کو بھی نہ ہو گی۔ اس جواں مرد نے ایسی ایسی باتیں تسلی کی کہیں کہ تک خاطر جمع ہوئی۔ تب میں نے کہا شاباش تم مرد ہو۔ اس مروت کا عوض ہم سے بھی جب ہو سکے گا تب ظہور میں آوے گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ غلام کا اسم بہزاد خاں ہے۔ غرض چھ مہینے تک جتنی شرط خدمت کی تھی۔ بہ جان و دل بجا لایا۔ خوب آرام سے گزری۔
ایک دن مجھے اپنا ملک اور ماں باپ یاد آئے اس لیے نہایت متفکر بیٹھا تھا۔ میرا چہرہ ملین دیکھ کر بہزاد خان روبرو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس فدوی سے اگر کچھ تقصیر چرن برداری میں واقع ہو تو ارشاد ہو۔ میں نے کہا از برائے خدا یہ کیا مذکور ہے! تم نے ایسا سلوک کیا کہ اس شہر میں ایسے آرام سے رہے، جیسے اپنی ماں کے پیٹ میں کوئی رہتا ہے۔ نہیں تو یہ ایسی حرکت ہم سے ہوئی تھی کہ تنکا تنکا ہمارا دشمن تھا۔ ایسا دوست ہمارا کون تھا کہ ذرا دم لیتے۔ خدا تمہیں خوش رکھے بڑے مرد ہو۔ تب اس نے کہا اگر یہاں سے دل برداشتہ ہوا ہو۔ تو جہاں خیر عافیت سے پہنچا دوں۔ فقیر بولا کہ اگر اپنے وطن تک پہنچوں تو والدین کو دیکھوں، میری تو یہ صورت ہوئی، خدا جانے ان کی کیا حالت ہوئی جس واسطے جلا وطن ہوا تھا میری آرزو بر آئی۔ اب ان کی بھی قدم بوسی واجب ہے۔ میری خبر ان کو کچھ نہیں کہ مرا یا جیتا ہے؟ ان کے دل پر کیا قلق گزرتا ہو گا۔ وہ جوان مرد بولا کہ بہت مبارک ہے چلئے یہ کہہ کر ایک راس گھوڑا ترکی سو کوس چلنے والا اور ایک گھوڑی جلد جس کے پر نہیں کٹے تھے۔ لیکن شائستہ، ملکہ کی خاطر لایا اور ہم دونوں کو سوار کروایا۔ پھر زرہ بکتر پہن سلاغ باندھ اوپچی بن اپنے مرکب پر چڑھ بیٹھا اور کہنے لگا غلام آگے ہو لیتا ہے، صاحب خاطر جمع سے گھوڑے دبائے چل آویں۔ جب شہر کے دروازے پر آیا ایک نعرہ مارا اور تیرے قفل کر توڑا اور نگہبانوں کو ڈپٹ کر للکارا کہ برچودو! اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خان ملکہ مہر نگار اور شہزادہ کا مار کو جو تمہارا داماد ہے ہانکے پکارے لئے جاتا ہے اگر مروی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور ملکہ کو چھین لو۔ یہ نہ کہیو کہ چپ چاپ لے گیا، نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔ کہ خبر بادشاہ کو جلد جا پہنچے۔ وزیر اور میر بخشی کو حکم ہوا کہ ان تینوں زاد مفسدوں کو باندھ کر لاؤ، یا ان کے سر کاٹ کر حضور میں پہنچاؤ، ایک دم کے بعد رغٹ فوج کا نمودار ہوا اور تمام زمین و آسمان گرد باد ہو گیا۔ بہزاد خاں نے ملکہ کو اس فقیر کو ایک در میں پل کے کہ بارہ پلے اور جون پور کے پل کے برابر کھڑا تھا۔ اور آپ گھوڑے کو تنگیا کر اس فوج کی طرف پھرا اور شیر کی مانند گونج کر مرکب کو ڈپٹ کر فوج کے درمیان گھسا۔ تمام لشکر کائی سا پھٹ گیا اور یہ دونوں سرداروں تلک جا پہنچا۔ دونوں کے سر کاٹ لئے جب سردار مارے گئے لشکر تتر بتر ہو گیا۔ وہ کہاوت ہے سر سے سر واہ جب بیل پھوٹی رائی رائی ہو گی۔ وہ نہیں آپ بادشاہ کتنی فوج بکتر پوشوں کے ساتھ لے کمک کو آئے۔ ان کو بھی لڑائی اس پکا جوان نے مار دی شکست فاس کھائی۔
بادشاہ پسپا ہوئے۔ سچ ہے فتح داد الٰہی ہے لیکن بہزاد خان نے ایسی جوانمردی کی کہ شاید رستم سے بھی نہ ہو سکتی تھی۔ جب بہزاد خان نے دیکھا کہ مطلق صاف ہوا، اب کون باقی رہا ہے جو ہمارا پیچھا کرے گا، بے وسواس ہو کر اور خاطر جمع کر جہاں ہم کھڑے تھے آیا اور ملکہ اور مجھ کو ساتھ لے کر چلا۔ سفر کی عمر کو تاہ ہوتی ہے۔ تھوڑے عرصے میں اپنے ملک کی سرحد میں جا پہنچے۔
ایک عرضی صحیح سلامت آنے کی بادشاہ کے حضور میں، جو قبلہ گاہ مجھ فقیر کے تھے، لکھ کر روانہ کی، جہاں پناہ پڑھ کر شاد ہوئے۔ دوگانہ شکر کا ادا کیا، جیسے سوکھے دھان میں پانی پڑا۔ خوش ہو کر سب امیروں کو جلو میں لے کر اس عاجز کے استقبال کی خاطر لب دریا آ کر کھڑے ہوئے۔ اور نواڑوں کے واسطے میر بحر کو حکم ہوا۔ میں نے دوسرے کنارے پر سواری بادشاہ کی کھڑی دیکھی۔ قدم بوسی کی آرزو میں گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ ہیلہ مار کر حضور میں حاضر ہوا مجھے مارے اشتیاق کلیجے سے لگا لیا۔ اب ایک اور آفت ناگہانی پیش آئی کہ جس گھوڑے پر میں سوار تھا شاید وہ بچہ اسی مادیان کا تھا جس پر ملکہ سوار تھی۔ باجنسیت کے باعث میرے مرکب کو دیکھ کر گھوڑی نے بھی جلد کر کر اپنے تئیں ملکہ سمیت میرے پیچھے دریا میں گرایا اور پیرنے لگی، ملکہ نے گھبرا کر باگ کھینچی، وہ منہ کی نرم تھی الٹ گئی۔ ملکہ غوطے کھا کر مع گھوڑے دریا میں ڈوب گئی۔ کہ پھر ان دونوں کا نشان نظر نہ آیا۔ بہزاد خان نے یہ حالت دیکھی کہ اپنے تئیں گھوڑے سمیت ملکہ کی مدد کی خاطر دریا میں پہنچایا۔ وہ بھی اس بھنور میں آ گیا، پھر نکل نہ سکا۔ بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے، کچھ بس نہ چلا، ڈوب گیا۔ جہاں پناہ نے یہ واردات دیکھ کر مہا جال منگوا کر پھنکوایا، ملاحوں اور غوطہ خوروں کو فرمایا۔ انہوں نے سارا دریا چھان مارا۔ تھاہ کی مٹی لے لے آئے۔ پر وہ دونوں ہاتھ نہ آئے۔ یا فقرا! یہ حادثہ ایسا ہوا کہ میں سودائی اور جنونی ہو گیا اور فقیر بن کر یہی کہتا پھرتا ان نینوں کا یہی بسیکہ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔ اگر ملکہ کہیں غائب ہو جاتی یا مر جاتی تو دل کو تسلی آتی۔ پھر تلاش کو نکلتا یا صبر کرتا۔ لیکن جب نظروں کے رو بہ رو غرق ہو گئی تو کچھ بس نہ چلا۔ آخر جی میں یہی لہر آئی کہ دریا میں ڈوب جاؤں شاید اپنے محبوب کو مر کر پاؤں۔
ایک روز ایک رات کو اسی دریا میں بیٹھا اور ڈوبنے کا ارادہ کر کر گلے تک پانی میں گیا۔ چاہتا ہوں کہ آگے پاؤں رکھوں اور غوطہ کھاؤں۔ وہی سوار برقعہ پوش جنہوں نے تم کو بشارت دی ہے آ پہنچے۔ میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دلاسا دیا کہ خاطر جمع رکھ۔ ملکہ اور بہزاد خان جیتے ہیں۔ تو اپنی جان ناحق کیوں کھوتا ہے؟ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے خدا کی درگاہ سے مایوس مت ہو۔ اگر جیتا رہے گا تو تیری ملاقات ان دونوں سے ایک نہ ایک روز ہو رہے گی۔ اب تو روم کی طرف جا۔ اور بھی دو درویش دل ریش وہاں گئے ہیں۔ ان سے جب ملے گا اپنی مراد کو پہنچے گا۔ یا فقرا! یہ موجب حکم اپنے ہادی کے میں بھی خدمت شریف میں آ کر حاضر ہوا ہوں۔ امید قوی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مطلب کو پہنچے۔ اس ٹکڑ گدا کا یہ احوال تھا جو تمام کمال کہہ سنایا۔۔۔۔۔۔۔۔اختتام "سیر تیسرے درویش کی"
چوتھا فقیر اپنی سیر کی حقیقت رو رو کر اس طرح دھرانے لگا۔
قصہ ہماری بے سروپائی کا اب سنو
ٹک اپنا دھیان رکھ کر مرا حال سب سنو
کس واسطے میں آیا ہوں یاں تک تباہ ہو
سارا بیان کرتا ہوں اس کا سبب سنو
یا مرشد اللہ! ذرا متوجہ ہو۔ یہ فقیر جو اس حالت میں گرفتار ہے۔ چین کے بادشاہ کا بیٹا ہے۔ ناز و نعمت سے پرورش پائی اور بخوبی تربیت ہوا۔ زمانے کے برے بھلے سے کچھ واقف نہ تھا۔ جانتا تھا کہ یونہیں ہمیشہ نبھے گی۔ عین بے کفر میں یہ حادثہ روبکار ہوا کہ قبلہ عالم، جو والد اس یتیم کے تھے انہوں نے رحلت فرمائی۔ جان کندنی کے وقت اپنے چھوٹے بھائی کو، جو میرے چچا ہیں، بلایا اور فرمایا کہ ہم نے تو سب مال ملک چھوڑ کر ارادہ کوچ کا کیا۔ لیکن یہ وصیت میری تم بجا لائیو، اور بزرگی کا کام فرمائیو۔ جب تلک شہزادہ جو مالک اس تخت و چھتر کا ہے، جوان ہو اور شعور سنھالے اور اپنا گر دیکھے بھالے، اور اپنا گھر دیکھے بھالے، تم اس کی نیابت کیجو اور سپاہ و رعیت کو خراب نہ ہونے دیجو۔ وہ بالغ ہو، اس کو سمجھا بجھا کر تخت حوالے کرنا اور روشن اختر جو تمہاری بیٹی ہے، اس سے شادی کر کے تم سلطنت سے کنارہ پکڑنا۔ اس بندوبست اور سلوک سی بادشاہت ہمارے خاندان میں قائم رہے گی۔ کچھ خلل نہ آوے گا۔ یہ کہہ کر آپ تو جاں بحق تسلیم ہوئے، چچا بادشاہ ہوئے اور بندوبست ملک کا کرنے لگے مجھے حکم کیا کہ تلک بیگمات اور خواصوں میں پلا کیا اور کھیلا کودا کیا۔ چچا کی بیٹی سے شادی سن کر شاد تھا اور اس امید پر بے فکر رہتا، اور دل میں کہتا کہ اب کوئی دن میں بادشاہت بھی ہاتھ لگے گی اور کتخدائی بھی ہو گی۔ دنیا بہ امید قائم ہے۔ ایک حبشی مبارک نام کہ والد مرحوم کی خدمت میں تربیت ہوا تھا اور اس کا بڑا اعتبار تھا، اور صاحب شعور نمک حلال تھا۔ میں اکثر اس کے نزدیک جا بیٹھا۔ وہ بھی مجھے بہت پیار کرتا اور میری جوانی دیکھ کر خوش ہوتا اور کہتا کہ الحمد للہ اے شاہ زادے اب تم جوان ہوئے انشا اللہ عنقریب تمہارا عموغل سبحانی نصیحت پر عمل کرے گا، اپنی بیٹی اور تمہارے والد کا تخت تمہیں دے گا۔
ایک روز یہ اتفاق ہوا کہ ایک ادنیٰ سہیلی نے بے گناہ میرے تئیں ایسا طمانچہ کھینچ کر مارا کہ میری گال پر پانچوں انگلیوں کا نشان اکھڑ آیا۔ میں روتا ہوا مبارک کے پاس گیا۔ ان نے مجھے گلے لگا لیا اور آنسو آستیں سے پونچھے اور کہا کہ چلو آج تمہیں بادشاہ پاس لے چلوں۔ شاید دیکھ کر مہربان ہو۔ اور لائق سمجھ کر تمہارا حق تمہیں دے۔ اسی وقت چچا کے حضور میں لے گیا۔ چچا نے دربار میں نہایت شفقت کی اور پوچھا کہ کیوں دل گیر ہو اور یہاں کیوں کر آئے؟ مبارک بولا کچھ عرض کرنے آئے ہیں یہ سن کر خود بخود کہنے لگا کہ اب میاں کا بیاہ کر دیتے ہیں۔ مبارک نے کہا بہت مبارک ہے۔ وونہیں نجومی اور تالوں کو رو بہ رو طلب کیا۔ اوپری دل سے پوچھا کہ اس سال کونسا مہینہ اور کونسا دن اور گھڑی مہورت مبارک ہے کہ سر انجام شادی کا کروں؟ انہوں نے مرضی پا کر گن گنا کر عرض کی کہ قبلہ عالم یہ برس سارا نحس ہے۔ کسی چاند میں کوئی تاریخ سعد نہیں ٹھہرتی۔ اگر یہ سال تمام بخیر و عافیت کٹے تو آئندہ کار خیر کے لیے بہتر ہے۔
بادشاہ نے مبارک کی طرف دیکھا اور کہا شاہ زادے کو محل میں لے جا۔ خدا چاہے اس سال کے گزرنے سے اس کی امانت اس کے حوالے کر دوں گا۔ خاطر جمع رکھی اور پڑھے لکھے۔ مبارک نے سلام کیا اور مجھے ساتھ لیا۔ محل میں پہنچا دیا۔ دو تین دن کے بعد میں مبارک کے پاس گیا، مجھے دیکھتے ہی رونے لگا۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ دادا خیر تو ہے۔ تمہارے رونے کا کیا باعث ہے؟ تب وہ خیر خواہ کہ مجھے دل و جان سے چاہتا تھا بولا کہ میں اس روز تمہیں اس ظالم کے پاس لے گیا کاش کہ اگر یہ جانتا تو نہ لے جتا۔ میں نے گھبرا کر کہا۔ میرے جانے میں کیا ایسی قباحت ہوئی؟ کہو تو سہی۔ تب اس نے کہا کہ سب امیر وزیر ارکان دولت، چھوٹے بڑے تمہارے باپ کے وقت کے تمہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور خدا کا شکر ادا کرنے لگے کہ اب ہمارا صاحبزادہ جوان ہوا اور سلطنت کے لائق ہوا۔ اب کوئی دن میں حق حق دار کو ملے گا۔ تب ہماری قدر دانی کرے گا اور خانہ زاد مورویوں کی قدر سمجھے گا۔ یہ خبر اس بے ایمان کو پہنچی۔ اس کی چھاتی پر سانپ پھر گیا۔ مجھے خلوت میں بلا کر کہا اے مبارک اب ایسا کام کر کہ شہزادے کو کسو فریب سے مار ڈال۔ اور اس کا خطرہ میرے جی سے نکال جو میری خاطر جمع ہو۔ تب سے میں بے حواس ہو رہا ہوں کہ تیرا چچا تیری جان کا دشمن ہوا۔ جونہیں مبارک سے یہ خبر میں نے سنی، بغیر مارے مر گیا اور جان کے ڈر سے اس کے پاؤں پر گر پڑا کہ واسطے خدا کے میں سلطنت سے گزرا کسو طرح میرا جی بچے۔ اس غلام با وفا نے میرا سر اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا اور جواب دیا کہ کچھ خطرہ نہیں۔ ایک تدبیر سوجھی ہے اگر رات آئی تو کچھ پرواہ نہیں زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ اغلب ہے کہ اس فکر سے تیری جان بھی بچے اور اپنے مطلب سے کامیاب ہو۔ یہ بھروسا دے کر مجھے ساتھ لے کر اس جگہ جہاں بادشاہ غفور یعنی والد اس فقیر کے سوتے بیٹھتے تھے، گیا اور میری بہت خاطر جمع کی۔ وہاں ایک کرسی بچھی تھی۔ ایک طرف مجھے کہا اور ایک طرف آپ پکڑ کر صندلی کو سرکایا اور کرسی کے تلے کا فرش اٹھایا اور زمین کو کھودنے لگا۔ ایک بارگی ایک کھڑکی نمودار ہوئی کہ زنجیر اور قفل اس میں لگا ہے مجھے بلایا۔ میں اپنے دل میں مقرر یہ سمجھا کہ میرے ذبح کرنے اور گاڑ دینے کو یہ گڑھا اس نے کھودا ہے۔ موت آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ لاچار چپکے چپکے کلمہ پڑھتا ہوا نزدیک گیا دیکھتا ہوں تو اس دریچے کے اندر عمارت ہے اور چار مکان ہیں۔ ہر ایک دالان میں دس دس خمیں سونے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی لٹکتی ہیں اور ہر ایک گولی کے منہ پر سونے کی اینٹ اور ایک بندر جڑاؤ کا بنا ہوا بیٹھا ہے انتالیس گولیاں چاروں مکان میں گئیں اور ایک خم کو دیکھا کہ مونہا منہ اشرفیاں بھری ہیں۔ اس پر نہ میمون ہے، نہ خشت ہے، اور ایک حوض جواہر سے لبالب بھرا ہوا دیکھا۔ میں نے مبارک سے پوچھا کہ اے دادا یہ کیا طلسم ہے اور یہ کس کام کے ہیں؟ بولا کہ یہ بوزے جو دیکھتے ہو، ان کا یہ ماجرا ہے کہ تمہارے باپ نے جوانی کے وقت سے ملک صادق، جو بادشاہ جنوں کا ہے، اس کے ساتھ دوستی اور آمدورفت پیدا کی تھی۔
چناچہ ہر سال میں ایک دفعہ کئی طرح کے تحفے، خوشبوئیں اور اس ملک کی سوغاتیں لے جاتے، اور مہینے کے قریب اس کی خدمت میں رہتے۔ جب رخصت ہوتے تو ملک صادق ایک بندر زمرد کا دیتا، ہمارا بادشاہ اسے لا کر اس تہہ خانے میں رکھتا۔ اس بات سی سوائے میرے کوئی دوسرا مطلع نہ تھا۔ ایک مرتبہ غلام نے عرض کی کہ جہان پناہ! لاکھوں روپے کے تحفے لے جاتے ہیں اور وہاں سے ایک بوزنہ پتھر کا مردہ آپ لے آتے ہیں۔ اس کا آخر فائدہ کیا ہے؟ جواب میری اس بات کا مسکرا کر فرمایا خبردار کہیں ظاہر نہ ہو۔ کیجو خبر شرط ہے۔ یہ ایک میمون بے جان جو تو دیکھتا ہے، ہر ایک کے ہزار دیو زبردست تابع اور فرماں بردار ہیں۔ لیکن جب میرے پاس چالیسوں بندر پورے جمع نہ ہوویں، تب تک یہ سب نکمے ہیں۔ کچھ کام نہ آویں گے۔ سو ایک بندر کی کمی تھی کہ اس بادشاہ نے وفات پائی۔
اتنی محنت کچھ نیک نہ لگی۔ اس کا فائدہ ظاہر نہ ہوا۔ اے شہزادے تیرے یہ حالت بے کسی کی دیکھ کر مجھے یاد آیا اور جی میں ٹھہرایا، کسو طرح تجھ کو ملک صادق کے پاس لے چلوں اور تیرے چچا کا ظلم بیان کروں غالب ہے کہ وہ درستی تمہارے باپ کی یاد کر کر ایک بوزنہ جو باقی ہے تجھے دے۔ تیرا ملک تیرے ہاتھ آوے اور چین ماچین کی سلطنت توبہ خاطر جمع کرے۔ اور بالفعل اس حرکت سے تیری جان بچتی ہے۔ اگر اور کچھ نہ ہوا تو اس ظالم کے ہاتھ سے سوائے اس تدبیر کے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی۔ میں نے اس کی زبانی یہ سب کیفیت سن کر کہا کہ دادا جان اب تو میری جان کا مختار ہے۔ جو میرے حق میں بھلا ہو، سو کر۔ میری تسلی کر کے آپ عطر اور بخور اور جو کچھ وہاں کے لیے جانے کی خاطر مناسب جانا، خرید کرنے بازار میں گیا۔
دوسرے دن میرے اس کافر چچا کے پاس، جو بجائے ابوجہل کے تھا، گیا اور کہا جہاں پناہ! شہزادے کے مار ڈالنے کی ایک صورت میں نے دل میں ٹھہرائی ہے۔ اگر حکم ہو تو عرض کروں۔ وہ کم بخت خوش ہو کر بولا۔ وہ کیا تدبیر ہے؟ تب مبارک نے کہا کہ اس کے مار ڈالنے میں سب طرح آپ کی بدنامی ہے۔ مگر میں اسے باہر جنگل میں لے جار کر اسے ٹھکانے لگاؤں اور گاڑ داب کر چلا آؤں۔ ہر گز کوئی محرم نہ ہو گا کہ کیا ہوا۔ یہ بندش مبارک سے سن کر بولا کہ بہت مبارک۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ سلامت نہ رہے۔ اس کا دغددغہ میرے دل میں ہے۔ اگر مجھے اس فکر سے تو چھیڑ دے گا تو اس خدمت کے عوض کچھ پاوے گا۔ جہاں تیرا جی چاہے لے جا کے کھپا دے، اور مجھے یہ خوشخبری لا دے۔ مبارک نے بادشاہ کی طرف سے اپنی دل جمعی کر کے مجھے ساتھ لیا اور وہ تحفے لیکر آدھی رات کو شہر کوچ کیا اور اتر کی سمت چلا۔ ایک مہینے تک پیہم چلا رکھا۔ ایک روز رات کو چلے جاتے تھے، جو مبارک بولا کہ شکر خدا کا اب منزل مقصود کو پہنچے۔ میں نے سن کر کہا دادا یہ تو نے کیا کہا؟ کہنے لگا کہ اے شہزادے تو جنون کا لشکر کیا نہیں دیکھتا؟ میں نے کہا مجھے تیرے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ مبارک نے ایک سرمہ دانی نکال کر سلیمانی سرمے کی دو سلائیں میری دونوں آنکھوں میں پھیر دیں وونہیں جنوں کی خلقت اور لشکر تنبو قنات نظر آنے لگے، لیکن سب خوش رو اور خوش لباس مبارک کو پہچان کر ہر ایک آشنائی کی راہ سے گلے ملتا اور مزاخیں کرتا۔
آخر جاتے جاتے بادشاہ سراچوں کے نزدیک گئے اور بارگاہ میں داخل ہوئے۔ دیکھتا ہوں تو روشنی قرینے سے روشن ہے اور صندلیاں طرح بہ طرح کی دو رویہ بچھی ہیں۔ اور عالم، فاضل، درویش اور امیر وزیر، میر بخشی، دیوان ان پر بیٹھے ہیں۔ اور یسا دل گرز بردار احدی چپکے چپکے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور درمیان میں ایک تخت مرصع کا بچھا ہے۔ اس پر ملک صادق تاج اور چارقب موتیوں کی پہنے ہوئے مسند پر تکیے لگائے بڑی شان و شوکت سے بیٹھا ہے۔ میں نے نزدیک جا کر سلام کیا۔ مہربانگی سے بیٹھنے کا حکم کیا۔ پھر کھانے کا چرچا ہوا۔ بعد فراغت کے دسترخوان بڑھایا گیا۔ تب مبارک کی طرف متوجہ ہو کر احوال میرا پوچھا۔ مبارک نے کہا کہ اب ان کے باپ کی جگہ پر چچا ان کی بادشاہت کرتا ہے۔ اور ان کا دشمن جانی ہوا ہے۔ اس لئے میں انہیں وہاں سے لے بھاگ کر آپ کی خدمت میں لایا ہوں کہ یتیم ہیں اور سلطنت ان کا حق ہے۔ لیکن بغیر مربی کسو سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ حضور کی دستگیری کے باعث اس مظلوم کی پرورش ہوتی ہے۔ ان کے باپ کی خدمت کا حق یاد کر کے ان کی مدد فرمائیے اور وہ چالیس بندر عنایت کیجئے جو چالیس پورے ہوں۔ اور یہ اپنے حق پر پہنچ کر تمہارے جان و مال کو دعا دیں۔ سوائے صاحب کی پناہ کی خوئی ان کا ٹھکانا نظر نہیں آتا۔ یہ تمام کیفیت سن کر صادق نے تامل کر کے کہا کہ واقعی حقوق خدمت اور دوستی بادشاہ مغفور کے ہمارے اوپر بہت تھے اور یہ بچارہ تباہ ہو کر اپنی سلطنت موروثی چھوڑ کر جان کے واسطے یہاں تلک آیا ہے اور ہمارے دامن دولت میں پناہ لی ہے۔ تا مقدور کسی طرح ہم سے کمی نہ ہو گی اور در گزر نہ کروں گا۔ لیکن ایک مقام ہمارا ہے اگر وہ اس سے ہو سکا اور خیانت نہ کی اور بخوبی انجام دیا اور اس امتحان میں پورا اترا تو میں قول قرار کرتا ہوں کہ زیادہ بادشاہ سے سلوک کروں گا، اور جو یہ چاہے کام سو دوں گا۔
میں نے ہاتھ باندھ کر التماس کیا کہ اس فدوی سے تابہ مقدور جو خدمت سرکار کی ہو سکے گی بہ سرو چشم بجا لاوے گا۔ اور اس کی خوبی و دیانت داری اور ہوشیار سے کرے گا اور اپنی سعادت دونوں جہاں کی سمجھے گا۔ فرمایا کہ تو ابھی لڑکا ہے اس واسطے بار بار تاکید کرتا ہوں، مبادا خیانت کرے اور آفت میں پڑے۔ میں نے کہا خدا بادشاہ کے اقبال سے آسان کرے گا اور میں حتی المقدور کوشش کروں گا اور امانت حضور تلک لے آؤں گا۔ یہ سن کر ملک صادق نے مجھ کو قریب بلایا اور ایک دستکی سے نکال کر میرے تئیں دکھلایا اور کہا یہ جس شخص کی شبیہ ہے اسے جہاں سے جانے تلاش کر کے میری خاطر پیدا کر کے لا۔ اور جس گھڑی تو اس کا نام و نشان پائے اور سامنے جاوے، میری طرف سے بہت اشتیاق ظاہر کیجو۔ اگر یہ خدمت تجھ سے سر انجام ہوئی تو جتنی توقع تجھے منظور ہے، اس سے زیادہ غور پرداخت کی جائے گی۔ والانہ نہ جیسا کرے گا ویسا پاوے گا۔
بادشاہ کو خبر پہنچی۔ سر پیٹتا ہوا دوڑا۔ تمام ارکان سلطنت کے جمع ہوئے۔ پر کسو کی عقل کام نہیں کرتی کہ اس احوال کو دریافت کرے۔ نہایت کو بادشاہ نے اس خلق کی حالت میں حکم کہا کہ اس کم بخت بھوند پیری دلہن کا بھی سر کاٹ ڈالو۔ یہ بات بادشاہ کی زبان سے جو نکلی، پھر ویسا ہی ہنگامہ برپا ہوا۔ بادشاہ اور اپنی جان کے خطرے سے نکل بھاگا اور فرمایا کہ اسے محل سے باہر نکال دو۔ خواصوں نے اس لڑکی کو میرے گھر میں پہنچا دیا۔ یہ چرچا دنیا میں مشہور ہوا۔ جن نے سنا حیران ہوا اور شہزادے کے مارے جانے کے سب سے خود بادشاہ جتنے باشندے اس شہر کے ہیں میرے جانی دشمن ہوئے۔
جب ماتم داری سے فراغت ہوئی اور چہلم ہو چکا۔ بادشاہ نے ارکان دولت سے صلاح پوچھی کہ اب کیا کیا چاہیے سبھوں نے کہا کہ اور تو کچھ نہیں ہو سکتا پر ظار میں دل کی تسلی اور صبر کے واسطے اس لڑکی کو اس کے باپ سمیت مروا ڈالیے اور گھر بر ضبط کر لیجئے۔ جب میری یہ سزا مقرر کی کوتوال کو حکم ہوا۔ اس نے اگر چاروں طرف سی میری حویلی کو گھیر لیا اور نرسنگا دروازے پر بجایا، اور چاہا کہ اندر گھسیں اور بادشاہ کا حکم بجا لاویں، غیب سے اینٹ پتھر ایسے برسنے لگے کہ تمام فوج تاب نہ لا سکی اپنا سر منہ بچا کر جیدھر تیدھر بھاگی۔ اور ایک آواز مہیب بادشاہ نے محل میں اپنے کانوں سنی کہ کیوں کم بختی آئی ہے، کیا شیطان لگا ہے۔ بھلا چاہتا ہے تو اس نازنین کے احوال کا معرض نہ ہوا۔ نہیں تو جو کچھ تیرے بیٹے نے اس سے شادی کر کر دیکھا تو بھی اس کی دشمنی سے دیکھے گا۔ اب اگر ان کو ستاوے گا تو سزا پاوے گا۔
بادشاہ کو مارے دہشت کے تپ چڑھی۔ وونہیں حکم کیا۔ ان بدبختوں سے کوئی مزاحم نہ ہو۔ کچھ کہو نہ سنو۔ حویلی میں پڑا رہنے دو۔ زور ظلم ان پر نہ کرو۔ اس دن سے عامل باؤ بتاس جان کر دعا، تعویذ اور سیانے جنتر منتر کرتے ہیں اور سب باشندے اس شہر کے اسم اعظم اور قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ مدت سے یہ تماشا ہو رہا ہے لیکن اب تک کچھ اسرار معلوم نہیں ہوتا۔ اور مجھے بھی ہرگز اطلاع نہیں۔ مگر اس لڑکی سے ایک بار پوچھا تم نے اپنی آنکھوں سے کیا دیکھا تھا؟ یہ بولی کہ اور تو کچھ نہیں جانتی، لیکن یہ نظر آیا کہ جس وقت میرے خاوند نے قصد مباشرت کا کیا، چھت پھٹ کر ایک تخت مرصع کا نکلا۔ اس پر ایک جوان خوبصورت شاہانہ لباس پہنے بیٹھا تھا اور سات بہت سے آدمی اہتمام کرتے ہوئے اس مکان میں آئے اور شہزادے کے قتل کے مستعد ہوئے۔ وہ شخص سردار میرے نزدیک آیا اور بولا کہ کیوں جانی! ہم سے کہاں بھاگو گی؟ ان کی صورتیں آدمی کی سی تھیں لیکن پاؤں بکریوں کے سے نظر آئے۔ میرا کلیجہ دھڑکنے لگا اور خوف سے غش میں آ گئی۔ پھر مجھے کچھ سدھ نہیں کہ آخر کیا ہوا۔
تب سے میرا یہ احوال ہے کہ اس پھوٹے مکان میں ہم دونوں جی پڑے رہتے ہیں۔ بادشاہ کے غصے کے باعث اپنے رفیق سب جدا ہو گئے۔ اور میں کدائی کرنے جو نکلتا ہوں تو کوڑی نہیں دیتا بلکہ دکان پر کھڑے رہنے کے روا دار نہیں۔ اس کم بخت لڑکی کے بدن پر لتا نہیں کہ سر چھپاوے اور کھانے کو میسر نہیں جو پیٹ بھر کھاوے۔ خدا سے یہ چاہتا ہوں کہ موت ہماری آوے یا زمین پھاٹے اور یہ ناشدنی سماوے۔ اس جینے سے مرنا بھلا ہے۔ خدا نے شاید ہمارے ہی واسطے تجھے بھیجا ہے جو تو نے رحم کھا کر ایک مہر دی۔ کھانا بھی مزے دار پکا کر کھایا اور بیٹی کی خاطر کپڑا بھی بنایا۔ خدا کی درگاہ میں شکر کیا اور تجھے دعا دی۔ اگر اس پر آسیب جن یا پری کا نہ ہوتا تو تیری خدمت میں لونڈی کی جگہ دیتا اور اپنی سعادت جانتا۔ یہ احوال اس عاجز کا ہے۔ تو اس کے درپے مت ہوا اور اس قصد سےدرگزر۔
یہ سب ماجرا سن کر میں نے بہت منت و زاری کی کہ مجھے اپنی فرزندی میں قبول کر، جو میری قسمت بدا ہو گا سو ہو گا۔ وہ پیر مرد ہرگز راضی نہ ہوا۔ شام جب ہوئی اس سے رخصت ہو کر سرا میں آیا۔ مبارک نے کہا لو شہزادے مبارک ہو، خدا نے اسباب تو درست کیا ہے۔ بارے یہ محنت اکارت نہ گئی۔ میں نے کہا آج کتنی خوشامد کی، پر وہ اندھا بے ایمان راضی نہ ہوا۔ خدا جانے دیوے گا یا نہیں پر میرے دل کی یہ حالت تھی کہ رات کاٹنی مشکل ہوئی کہ صبح ہو تو پھر جا کر حاضر ہوں۔ کبھو یہ خیال آتا، اگر وہ مہربان ہو اور قبول کرے تو مبارک ملک صادق کی خاطر لے جائے گا۔ پھر کہتا بھلا ہاتھ تو آوے۔ مبارک کو منا ونا کر میں عیش کروں گا پھر جی میں یہ خطرہ آتا کہ اگر مبارک بھی قبول کرے تو جنوں کے ہاتھ سے وہی نوبت میری ہو گی جو بادشاہ زادے کی ہوئی۔ اور اس شہر کا بادشاہ کب چاہے گا کہ اس کا بیٹا مارا جائے اور دوسرا خوشی منائے۔
تمام رات نیند اچاٹ ہو گئی اور اسی منصوبے کے الجھیڑے میں کٹی۔ جب روز روشن ہوا، میں چلا۔ چوک میں سے اچھے اچھے تھان پوشاکی اور گوٹا کناری اور میوہ خشک و تر خرید کر اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نہایت خوش ہو کر بولا کہ سب کو اپنی جان سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔ پر اگر میری جان بھی تیرے کام آوے تو دریغ نہ کروں اور اپنی بیٹی ابھی تیرے حوالے کروں۔ لیکن یہی خوف آتا ہے کہ اس حرکت سے تیری جان کو خطرہ نہ ہو کہ یہ داغ لعنت کا میرے اوپر تا قیامت رہے میں نے کہا کہ اب اسی بستی میں بے کس واقع ہوں اور تم میرے دین دنیا کے باپ ہو، میں اس آرزو میں مدت سے کیا کیا تباہی اور پریشانی کھینچتا ہوا اور کیسے کیسے صدمے اٹھاتا ہوا یہاں تلک آیا اور مطلب کا بھی سراغ پایا۔ خدا نے تمہیں بھی مہربان کیا جو بیاہ دینے پر رضا مند ہوئے۔ لیکن میرے واسطے آگا پیچھا کرتے ہو۔ ذرا منصف ہو کر غور فرماؤ تو عشق کی تلوار سے سر بچانا اور اپنی جان کو چھپانا کس مذہب میں درست ہے؟ ہر چہ بادا باد۔ میں سب طرح اپنے تئیں برباد دیا ہے۔ معشوق کے وصال کو میں زندگی سمجھتا ہوں۔ اپنے مرنے جینے کی مجھے کچھ پروا نہیں، بلکہ اگر ناامید ہوں گا تو بن اجل مر جاؤں گا اور تمہارا قیامت میں دامن گیر ہوں گا۔
غرض اس گفت و شنید اور ہاں نان میں قریب ایک مہینے کے خوف و رجا میں گزرا۔ ہر روز اس بزرگ کی خدمت میں دوڑا جاتا اور خوشامد برآمد کیا کرتا۔ غرض اس گفت و شنید اور ہاں نان میں قریب ایک مہینے کے خوف و رجا میں گزرا۔ ہر روز اس بزرگ کی خدمت میں دوڑا جاتا اور خوشامد برآمد کیا کرتا۔ اتفاقا وہ بوڑھا کا ہلا ہوا۔ اس کی بیمار داری میں حاضر رہا۔ ہمیشہ قارورہ حکیم پاس لے جاتا۔ جو نسخہ لکھ دیتا، اسی ترکیب سے بنا کر پلاتا۔ اور شولا اور غذا اپنے ہاتھ سے پکا کر کوئی نوالا کھلاتا۔ ایک دن مہربان ہو کر کہنے لگا اے جوان تو بڑا ضدی ہے۔ میں نے ہر چند ساری قباحتیں کہہ سنائیں اور منع کرتا ہوں کہ اس کام سے باز آ۔ جی ہے تو جہان ہے۔ پر خواہ مخواہ کنویں میں گرا چاہتا ہے۔ اچھا آج اپنی لڑکی سی تیرا مذکور کروں گا۔ دیکھوں وہ کیا کہتی ہے؟ یا فقر اللہ! یہ خوشخبری سن کر میں ایسا پھولا کہ کپڑوں میں نہ سمایا۔ آداب بجا لایا اور کہا کہ اب آپ نے میرے جینے کی فکر کی۔ رخصت ہو کر مکان پر آیا اور تمام شب مبارک یہی مذکور رہا۔ کہاں کی نیند اور کہاں کی بھوک؟ صبح کو نور کے وقت پھر جا کر موجود ہو۔ سلام کیا۔ فرمانے لگا کہ لو اپنی بیٹی ہم نے تم کو دی۔ خدا مبارک کرے۔ تم دونو کو خدا کے حفظ و امان میں سونپا۔ جب تلک میرے دم میں دم ہے، میری آنکھوں کے سامنے رہو۔ جب میری آنکھ مند ہو جائے گی جو تمہارے جی میں آوے گا سو کیجیو، مختار ہو۔
کتنے دن پیچھے وہ بزرگ جاں بحق تسلیم ہوا۔ رو پیٹ کر تجہیز و تکفین کیا۔ بعد تیجے کے اس نازنین مبارک ڈولے کر کارواں سرا میں لے گیا اور مجھ کہا کہ یہ امانت ملک صادق کی ہے۔ خبر دار خیانت نہ کیجو اور یہ محنت مشقت برباد نہ دیجو۔ میں نے اے کاکا! ملک صادق یہاں کہاں ہے، دل نہیں مانتا میں کیونکر صبر کروں؟ جو کچھ ہو سو ہو، جیوں یا مروں، اب تو عیش کر لو۔ مبارک نے دق ہو کر ڈانٹا کہ لڑکپن نہ کرو۔ ابھی ایک دم کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ ملک صادق کو دور جانتے ہو، جو اس کا فرمانا نہیں ہو؟ اس نے چلتے وقت پہلے ہی اونچ نیچ سب سمجھا دی ہے۔ اگر اس کے کہنے پر رہو گے اور صحیح سلامت اس کو وہاں لے چلو گی تو وہ بھی بادشاہ ہے۔ شاید تمہاری محنت پر توجہ کر کے تمہوں کو بخش دے تو کیا اچھی بات ہووے۔ پیت کی پیت رہے اور میت کا میت ہاتھ لگے۔ بارے اس کے ڈرانے اور سمجھانے سے میں حیران ہو کر چپکا ہو رہا۔ دو سانڈنیاں خرید کیں اور کجاؤں پر سوار ہو کر ملک صادق کے ملک کی راہ لی۔ چلتے چلتے ایک میدان میں آواز شور غل کی آنے لگی۔ مبارک نے کہا شکر خدا ہماری محنت نیک لگی۔ یہ لشکر جنوں کا آ پہنچا۔ بارے مبارک نے ان سے مل جل کر پوچھا کہ کہاں کا ارادہ کیا ہے؟ وہ بولے کہ بادشاہ نے تمہارے استقبال کے واسطے ہمیں تعینات کیا ہے۔ اب تمہاری فرماں بردار ہیں۔ اگر کہو تو ایک میں روبرو لے چلیں، مبارک نے کہا دیکھو کس کس محنتوں سے نے بادشاہ کے حضور میں ہمیں سرخ رو کیا اب جلدی ضرور ہے؟ اگر خدانخواستہ کچھ خلل ہو جاوے تو ہمارے محنت اکارت ہو، اور جہاں پناہ کی غضبی میں پڑیں۔ سبھوں نے کہا کہ اس کے ہم تم مختار ہو۔ جس طرح جی چاہے چلو۔ اگرچہ سب طرح کا آرام تھا پر رات دن چلنے سے کام تھا۔
جب نزدیک جا پہنچے۔ میں مبارک کو سوتا دیکھ کر اس نازنین کے قدموں پر سر رکھ کر اپنے دل کی بے قراری اور ملک صادق کے سبب سے لاچاری نہایت منت و زاری سے کہنے لگا کہ جس روز سے تمہاری تصویر دیکھی ہے، خواب و خورش اور آرام میں نے اپنے اوپر حرام کیا ہے۔ اب جو خدا نے یہ دن دکھایا تو محض بے گانہ ہو رہا ہوں۔ فرمانے لگی کہ میرا بھی دل تمہاری طرف مائل ہے کہ تم نے میری خاطر کیا کیا ہرج مرج اٹھایا اور کس کس مشقتوں سے لے آئے ہو۔ خدا کو یاد کرو اور مجھے بھی بھول نہ جائیو۔ دیکھو تو پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے یہ کہہ کر ایسی بے اختیار دھاڑ مار کر روئی کہ ہچکی لگ گئی۔ ایدھر میرا یہ حال، ادھر اس کا وہ احوال۔ اس گفتگو میں مبارک کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ ہم دونوں مشتاقوں کا رونا دیکھ کر رونے لگا اور بولا کہ خاطر جمع رکھو۔ ایک روغن میرے پاس ہے اس گل بدن کے بدن میں مل دوں گا۔ اس کی بو سے ملک صادق کا جی ہٹ جائے گا۔ غالب ہے کہ تمہیں بخش دے۔
مبارک سے یہ تدبیر سنکر دل کا ڈھارس ہو گئی۔ اس کے گلے سے لگ کر لاڈ کیا اور کہا اے دادا اب تو میرا باپ کی جگہ ہے۔ تیرے باعث میری جان بچی۔ اب بھی ایس کام کر جس میں زندگانی ہو۔ نہیں تو اس غم میں مر جاؤں گا۔ اس نے ڈھیر سی تسلی دی۔ جب روز روشن ہوا آواز جنوں کی معلوم ہونے لگی دیکھا تو کئی خواص ملک صادق کے آتے ہیں۔ اور دوسری پاو بھاری ہمارے لئے لائے ہیں اور ایک چودول موتیوں کی توڑ پڑے ہوئی ان کے ساتھ ہے۔ مبارک نے اس نازنین کو وہ تیل مل دیا۔ اور پوشاک پہنا، بناؤ کروا کر ملک صادق کے پاس لے چلا۔ بادشاہ نے دیکھ کر مجھے بہت سرفراز کیا اور عزت و حرمت سے بٹھایا اور فرمانے لگا کہ تجھ سے میں ایسا سلوک کروں گا کہ کسو نے آج تک نہ کیا ہو گا۔ بادشاہت تو تیرے باپ کی موجود ہے، علاوہ اب تو میرے بیٹے کی جگہ ہو۔ یہ توجہ کی باتیں کر رہا تھا، اتنے میں وہ نازنین بھی رو برو آئی۔ اور روغن کی بو سے یک بہ یک دماغ پراگندہ ہوا اور حال بے حال ہو گیا۔ تاب اس باس کی نہ لا سکا۔ اٹھ کر باہر چلا اور ہم دونوں کو بلوایا اور مبارک کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیوں جی، خوب شرط بجا لائے۔ میں نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر خیانت کرو گے تو خفگی میں پڑو گی۔ یہ بو کیسی ہے اب دیکھو تمہارا کیا حال کرتا ہوں۔ بہت جزبز ہوا۔ مبارک نے مارے ڈر کے اپنا ازار بند کھول کر دکھایا کہ بادشاہ سلامت جب حضور کے حکم سے اس کام کے ہم متعین ہوئے تھے، غلام نے پہلے اپنی اپنی علامت کاٹ کر ڈبیا میں بند کر کے ربہ مہر سکرار کے خزانچی کے سپرد کر دی تھی اور ہم مرہم سلیمانی لگا کر روانہ ہوا تھا۔
مبارک سے یہ جواب سن کر تب میری طرف آنکھیں نکال کے گھور اور کہنے لگا تو یہ تیرا کام ہے اور طیش میں آ کر منہ سے برا بھلا بکنے لگا۔ اس وقت اس کے بت کہاو سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ شاید جان سے مجھ مروا ڈالے گا۔ جب میں نے اس کے بشرے یہ وقت دریافت کیا، اپنے جی سے ہاتھ دھو کر اور جان رکھو کر سر غلاف مبارک کی کمر سے کھینچ کر ملک صادق کی توند میں ماری۔ چھری کے لگتے ہی نہوڑا اور جھوما۔ میں نے حیران ہو کر جانا کہ مقرر مر گیا۔ پھر اپنے دل میں خیال کیا کہ زخم ایسا کاری نہیں لگا۔ یہ کیا سبب ہوا؟ میں کھڑا دیکھتا تھا کہ وہ زمین پر لوٹ لاٹ گیند کی صورت بن کر آسمان کی طرف اڑ چلا۔ ایسا بلند ہوا کہ آخر نظروں سے غائب ہو گیا۔ پھر ایک پل کے بعد بجلی کی طرح کڑکتا اور غصے میں کچھ بے معنی بکتا ہوا نیچے آیا۔ اور مجھ ایک لات ماری کہ میں تیورا کر چاروں شانے چت گر پڑا اور جی ڈوب گیا۔ خدا جانے کتنی دیر میں ہوش آیا۔ آنکھیں کھول کر جو دیکھا تو ایک ایسے جنگل میں پڑا ہوں کہ جہاں سوائے کیکر اور سیٹے اور جھڑبیری کے درختوں کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اب اس گھری عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ ناامید سے ایک آہ بھر کر ایک طرف کی راہ لی۔ اگر کہیں کوئی آدمی کی صورت نظر پڑتی تو ملک صادق کا نام پوچھتا۔ وہ دیوانہ جان کر جواب دیتا تو یہ کہ ہم نے اس کا نام بھی نہیں سنا۔
ایک روز پہاڑ پر جا کر میں نے یہی ارادہ کیا کہ اپنے تئیں گرا کر ضائع کروں جو مستعد گرنے کا ہوا، وہی سوار صاحب ذوالفقار برقع پوش آ پہنچا اور بولا کہ کیوں تو اپنی جان کھوتا ہے؟ آدمی پر دکھ درد سے ہوتا ہے۔ اب تیری برے دن گئے اور بھلے دن آئے۔ جلد روم کو جا۔ تین شخص ایسی ہی آگے گئے ہیں۔ اس سے ملاقات کر اور وہاں کے شیطان سے مل۔ تم پانچوں کا مطلب ایک ہی جگہ ملے گا۔
اس فقیر کی سیر کا یہ ماجرا ہے، جو عرض کیا۔ بارے بشارت سے اپنے مولا مشکل کشا کی مرشدوں کی حضور میں آ پہنچا ہوں اور بادشاہ ظل اللہ کی بھی ملازمت حاصل ہوئی چاہیے کہ اب سب کی خاطر جمع ہو۔
یہ باتیں چار درویش اور بادشاہ آزاد بخت میں ہو رہی تھی کہ اتنے میں ایک محل بادشاہ کے محل میں سے دوڑتا ہوا آیا اور مبارک باد کی تسلیمیں بادشاہ کے حضور بجا لایا اور عرض کی کہ اس وقت شاہ زادہ پیدا ہوا کہ آفتاب و مہتاب اس کے حسن کے روبرو شرمندہ ہیں۔ بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ ظاہر میں تو کسو کو حمل نہ تھا۔ یہ آفتاب کس برج حمل سے نمود ہوا؟ اس نے التماس کیا کہ ماہ رو خواص جو بہت دنوں سے غضب بادشاہی میں پڑی تھی بے کسوں کی مانند ایک کونے میں رہتی تھی۔ اور مارے ڈر کے اس کے نزدیک کوئی نہ جاتا نہ احوال پوچھتا تھا اس پر یہ فضل الٰہی ہوا کہ چاند سا بیٹا اس کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ بادشاہ کو ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ شاید شادی مرگ ہو جائے۔ چاروں فقیر نے بھی دعا دی کہ بھلا بابا تیرا گھر آباد رہے اور اس کا قدم مبارک ہے۔ تیرے سائے کے تلے بوڑھا بڑا ہو۔ بادشاہ نے کہا یہ تمہارے قدم کی برکت ہے۔ والا تو اپنے سان گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ اجازت ہو تو جا کر دیکھوں درویشوں نے کہا بسم اللہ سدھاریے بادشاہ محل میں تشریف لے گئے، شہزادے کو گود میں لیا اور شکر پروردگار کی جناب میں کیا کلیجہ ٹھنڈا ہوا وونہیں چھاتی سے لگائے ہوئے لا کر فقیروں کے قدموں پر ڈالا۔ درویشوں نے دعائیں پڑھ کر جھاڑ کر پھونک دیا۔ بادشاہ نے جشن کی تیاری کی۔ دہری نوبتیں چھڑنے لگیں۔ خزانے کا منہ کھول دیا۔ داد دہش سے ایک کوڑی کے محتاج کو لکھ پتی کر دیا۔ ارکان دولت جتنے تھے۔ سب کو دوچند جاگیر و منصب کے فرمان ہو گئے۔ جتنا لشکر تھا، انہیں پانچ برس کی طلب انعام ہوئی۔ مشائخ اور اکابر کو مدد معاش اور المعنا عنایت ہوا، بے نواؤں کے میتے اور ٹکڑ گداؤں کے چملے اشرفی اور روپیوں کی کھچڑی سے بھر دیئے، اور تین برس کا خزانہ رعیت کو معاف کیا کہ جو کچھ بوویں جوتیں، دونوں حصے اپنے گھروں میں اٹھا لے جائیں۔ تمام شہر میں ہزاری بزاری کے گھروں میں جہاں دیکھوں وہاں تھئی تھئی ناچ ہو رہا ہے، مارے خوشی کے ہر ایک ادنی اعلی بادشاہ وقت بن بیٹھا۔ عین شادی میں ایک بارگی اندرون محل سے رونے پیٹنے کا غل اٹھا۔ خواصیں اور ترکنیاں اور اردا بیگساں اور محلی، خوجے سر میں خاک ڈالتے ہوئے باہر نکل آئے اور بادشاہ سے کہا کہ جس وقت شہزادے کو نہلا دھلا کر دائی کی گود میں دیا ایک ابر کا ٹکڑا آیا اور دائی کو گھیر لیا۔ بعد ایک دم کے دیکھیں تو انگا بے ہوش پڑی ہے اور شہزادہ غائب ہو گیا۔ یہ کیا قیامت ٹوٹی! بادشاہ تعجبات سن کر حیران ہو رہا اور تمام ملک میں واویلا پڑی۔ دو دن تلک کسو کے گھر میں ہانڈی نہ چڑھی۔ شہزادے کا غم کھاتے اور اپنا لہو پیتے تھے۔
غرض زندگی سے لاچار تھے جو اس طرح جیتے تھے۔ جب تیسرا دن ہوا، وہی بادل کھول کر پڑھا تو شقے کا تھا۔ یہی دو سطریں لکھی تھیں کہ ہمیں بھی اپنا مشتاق جانیئے، سواری کے لئے تخت جاتا ہے۔ اس وقت اگر تشریف لایئے تو بہتر ہے۔ باہم ملاقات ہو۔ سب اسباب عیش و طرب کا مہیا ہے صاحب ہی کی جگہ خالی ہے، بادشاہ آزاد بخت درویشوں کو ہمراہ لے کر تخت پر بیٹھے۔ وہ تخت حضرت سلیمان کے تخت کے مانند ہوا چلا۔ رفتہ رفتہ ایسے مکان پر جا اترے کہ عمارت عالی شان اور تیاری کا سامان نظر آتا ہے لیکن معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی ہے یا نہیں۔ اتنے میں کسو نے ایک ایک سلائی سلیمانی سرمے کی ان پانچوں کی آنکھوں میں پھیر دی۔ دو دو بوندیں آنسو کی ٹپک پڑیں۔ پریوں کا اکھاڑا دیکھا کہ استقبال کی خاطر گلاب پاشیں لئے ہوئے اور رنگ برنگ کے جوڑے پہنے ہوئے کھڑا ہے۔ آزاد بخت آگے چلے تو وہ رویہ ہزاروں پری زاد مودب کھڑے ہیں اور صدر میں ایک ایک تخت زمرد کا دھرا ہے۔ اس پر ملک شہبال شاہ رخ کا بیٹا تکیے لگائے بڑے تزک سے بیٹھا ہے اور ایک پری زاد لڑکی رو برو بیٹھی شہزادہ بختیار کے ساتھ کھیل رہی ہے اور دونوں بغل میں کرسیاں اور صندلیاں قرینے سے بچھی ہیں۔ ان پر عمدہ زاد بیٹھے ہیں۔ ملک شہبال بادشاہ کو دیکھتے ہی سروقد اٹھا اور تخت سے اتر کر بغل گیر ہوا اور ہاتھ میں ہاتھ پکڑے اپنے برابر تخت پر لا بٹھایا اور بڑے تپاک اور کرم جوشی سے باہم گفتگو ہونے لگی۔ تمام دن ہنسی خوشی، کھانے اور میوے اور خشبوؤں کی ضیافت رہی اور راگ رنگ سنا کئے دوسرے دن پھر دونوں بادشاہ جمع ہوئے۔ شہبال نے بادشاہ سے درویشوں کے ساتھ لانے کی کیفیت پوچھی۔
بادشاہ نے چاروں بے نواؤں کا ماجرا جو سنا تھا مفصل بیان کیا۔ اور سفارش کی اور مدد چاہی کہ انہوں نے محنت اور مصیبت کھینچی ہے۔ اب صاحب کی توجہ سے اگر اپنے اپنے مقصد کو پہنچیں تو ثواب عظیم ہے۔ اور یہ مخلص بھی تمام عمر شکر گزار رہے گا۔ آپ کی نظر توجہ سے ان سب کا بیڑا پار ہوتا ہے۔ ملک شہبال نے سن کر کہا پھر آیا اور ایک پنگھولا جڑاؤ موتیوں کی توڑ پڑے ہوئی لایا۔ اسے محل میں رکھ کر آپ ہوا ہوا لوگوں نے شہزادے کو اس میں انگوٹھا چوستے ہوئے پایا۔ بادشاہ بیگم نے جلدی بلائیں لے ہاتھوں میں اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا۔ دیکھا تو کرتا آب رواں کا موتیوں کا درد امن ٹکا ہوا گلے میں ہے اور اس پر شلوکا تمامی کا پہنایا ہے، اور ہاتھ پاؤں میں کھڑدے مرصع کے اور گلے میں ہیکل نورتن کی پڑی ہے جھنجھنا، چسنی، چٹے پٹے جڑاؤ دھرے ہیں۔ سب مارے خوشی کے واری پھری ہونے لگیں اور دعائیں دینے لگیں کہ تیری ماں کا پیٹ ٹھنڈا رہے اور تو بوڑھا آڑھا ہو۔
بادشاہ نے ایک بڑا محل تعمیر کروا کر اور فرش بچھوا اس میں درویشوں کو رکھا جب سلطنت کے کام سے فراغت ہوئی تب آ بیٹھے اور سب طرح سے خدمت اور خبر گیری کرتے۔ لیکن ہر چاند کی نو چندی جمعرات کو وہی پارہ ابر آتا اور شہزادے کو لے جاتا۔ بعد دو دن کے تحفہ کھلونے اور سوغاتیں ہر ایک ملک کی اور ہر ایک قسم کے شہزادے کے ساتھ لے آتا۔ جن کے دیکھنے سے عقل انسان کی حیران ہو جاتی۔ اسی قاعدے سے بادشاہ زادے نے خیریت سے ساتویں برس میں پاؤں دیا۔ عین سالگرہ کے روز بادشاہ آزاد بخت نے فقیروں سے کہا کہ سائیں اللہ! کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ شہزادے کو کون لے جاتا ہے اور پھر دے جاتا ہے؟ بڑا تعجب ہے دیکھئے انجام اس کا کیا ہوتا ہے؟ درویشوں نے کہا ایک کام کرو ایک شقہ شوقیہ اس مضمون کا لکھ کر شہزادے کے گہوارے میں رکھ دو کہ تمہاری مہربانی اور محبت دیکھ کر اپنا بھی دل مشتاق ملاقات کا ہوا ہے۔ اگر دوستی کی راہ سے اپنے احوال کی اطلاع دیجئے تو خاطر جمع ہو اور حیرانی بالکل رفع ہو۔ بادشاہ نے موافق اصلاح درویشوں کے افشانی کاغذ پر ایک رقعہ اسی عبارت کا رقم کیا اور مہد زریں میں رکھ دیا۔
شہزادہ بہ موجب قاعدہ قدیم کے غائب ہوا۔ جب شام ہوئی آزاد بخت درویشوں کے بستروں پر آ بیٹھے اور کلمہ کلام ہونے لگا۔ ایک کاغذ لپٹا ہوا بادشاہ کے پاس آ پڑا۔
بہ سرو چشم، میں تمہارے فرمانے سے قاصر نہیں۔ یہ کہہ کر نگاہ کرم سے دیوؤں اور پریوں کی طرف دیکھا اور بڑے بڑے جن جو جہاں سردفار تھے، ان کو نامے لکھی کہ اس فرمان کو دیکھتے ہی اپنے تئیں حضور پر نور میں حاضر کرو۔ اگر کسی کے آنے میں توقف ہو گا تو اپنی سزا پاوے گا اور پکڑا ہوا آوے گا۔ اور آدم زاد خواہ عورت، خواہ مرد جس کے پاس ہو اسے اپنے ساتھ لئے آوے۔ اگر کوئی پوشیدہ کر رکھے گا اور ٹافی الحال ظاہر ہو گا تو اس کا زن و بچہ کولہو میں پیڑا جائے گا اور اس کا نام نشان باقی نہ رہے گا۔
یہ حکم نامہ لے کر دیو چاروں طرف متعین ہوئے۔ یہاں دونوں بادشاہ میں صحبت گرم ہوئی اور باتیں اختلاط کی ہونے لگیں۔ اس میں ملک شہبال درویشوں سے مخاطب ہو کر بولا کہ اپنے تئیں بھی بڑی آرزو لڑکے ہونے کی تھی اور دل میں عہد کیا تھا کہ اگر خدا بیٹا دے یا بیٹی تو اس کی شادی بنی آدم کے بادشاہ کے یہاں جو لڑکا پیدا ہو گا۔ اس سے کروں گا۔ اس نیت کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ بادشاہ کے بیگم پیٹ سے ہیں۔ بارے دن اور گھڑیاں اور مہینے گنتے گنتے پورے دن ہوئے اور یہ لڑکی پیدا ہوئی موافق وعدے کے تلاش کرنے کے واسطے عالم جنیات کو میں نے حکم کیا کہ چار دانگ دنیا میں جستجو کرو۔ جس بادشاہ یا شہنشاہ کے یہاں فرزند پیدا ہوا ہو، اس کو بہ جنس احتیاط سے جلد اٹھا کر لے آؤ۔ وونہیں بہ موجب فرمان کے پری زاد چاروں سمت پراگندہ ہوئے۔ بعد دیر کے اس شہزادہ کو میرے پاس لے آئے۔ میں نے شکر خدا کا کیا اور اپنی گود میں لے لیا۔ اپنی بیٹھی سے زیادہ اس کی محبت میرے دل میں پیدا ہوئی۔ جی نہیں چاہتا کہ ایک دم نظروں سے جدا کروں۔ لیکن اس خاطر بھیج دیتا ہوں کہ اگر اس کے ماں باپ نہ دیکھیں گے تو ان کا کیا احوال ہو گا۔ لہٰذا ہر مہینے میں ایک بار منگا لیتا ہوں۔ کئی دن اپنے نزدیک رکھ کر پھر بھیج دیتا ہوں۔ انشا اللہ تعالیٰ اب ہمارے تمہارے ملاقات ہوئی۔ اس کی کتخدائی کر دیتا ہوں۔ موت حیات سب کو لگی پڑی ہے۔ بھلا جیتے جی اس کا سہرا دیکھ لیں۔
بادشاہ آزاد بخت یہ باتیں ملک شہبال کی سن کر اور اس کی خوبیاں دیکھ کر نہایت محظوظ ہوئے اور بولے۔ پہلے ہم کو شہزادے کے غائب ہو جانے اور پھر آنے سے عجب عجب طرح کے خطرے دل میں آتے تھے۔ لیکن اب صاحب کی گفتگو سے تسلی ہوئی۔ یہ بیٹا اب تمہارا ہے۔ جس میں تمہاری خوشی ہو سی کیجئے۔ غرض دونوں بادشاہوں کی صحبت مانند شکر شیر کے رہتی اور عیش کرتے۔ دس پانچ کے عرصے میں بڑے بڑے بادشاہ گلستان ارم کے اور کوہستان کے اور جزیروں کے، جن کے طلب کی خاطر لوگ تعینات ہوئے تھے، سب آ کر حضور میں حاضر ہوئے۔ پہلے ملک صادق سے فرمایا کہ تیرے اس جو آدم زاد ہے حاضر کر۔ اس نے نپٹ غم و غصہ کھا کر لاچار اس گل عذار کو حاضر کیا۔ اور ولایت عمان کے بادشاہ سے زادی جن کی جس کے واسطے شہزادہ ملک نیم روز کا گاؤ سوار ہو کر سودائی بنا تھا، مانگی اس نے بہت سی عذر معذرت کر کے حاضر کی۔ جب بادشاہ فرنگ کی بیٹی اور بہزاد خان کو طلب کیا سب منکر پاک ہوئے اور حضرت سلیمان کی قسم کھانے لگے۔ آخر دریائے قلزم کے بادشاہ سب جب پوچھنے کو نوبت آئی تو وہ سر نیچا کر کے چپ ہو رہا۔ ملک شہبال نے اس کی خاطر کی اور قسم دی اور امیدوار سرفرازی کا کیا اور کچھ دھونس دھڑکا بھی دیا۔ تب وہ بھی ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا کہ بادشاہ سلامت حقیقت یہ ہے کہ جب بادشاہ اپنے بیٹے کے استقبال کی خاطر درپا پر آیا اور شہزادے نے مارے جلدی کے گھوڑا دریا میں ڈالا۔ اتفاقا میں اس روز سیر و شکار کی خاطر نکلا تھا۔ اس جگہ میرا گزر ہوا۔ سواری کھڑی کر کے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس میں شہزادی کو بھی گھوڑی دریا میں لے گئی۔ میری نگاہ جو اس پر پڑی، دل بے اختیار ہوا۔ پری زادوں کو حکم کیا کہ شہزادی کو مع گھوڑی لے آؤ۔ اس کے پیچھے بہزاد خان نے گھوڑا پھینکا۔ جب وہ غوطے کھانے لگا۔ اس کی دلاوری اور مردانگی پسند آئی۔ اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ پکڑ لیا۔ ان دونوں کو لیکر میں نے سواری پھیری۔ سو وہ دونوں صحیح سلامت میرے پاس موجود ہیں۔
یہ احوال کہہ کر دونوں کو روبرو بلایا۔ اور سلطان شام کی شہزادی کی تلاش بہت کی اور سبھوں سے بہ سختی و ملائمت استفسار کیا لیکن کسو نے حامی نہ بھوری اور نہ نام و نشان بتایا۔ تب ملک شہبال نے فرمایا، کہ کوئی بادشاہ یا سردار غیر حاضر بھی ہے یا سب آ چکے؟ جنوں نے عرض کی کہ جہاں پناہ سب حضور میں آئے ہیں، مگر ایک مسلسل جادوگر جس نے کوہ قاف کے پردے میں ایک قلعہ جادو کے علم سے بنایا ہے وہ اپنے غرور سے نہیں آیا ہے۔ اور ہم غلاموں کو طاقت نہیں جو بہ زور اس کو پکڑ لاویں وہ بڑا قلب مکان ہے اور خود بھی بڑا شیطان ہے۔
یہ سن کر ملک کو طیش آیا اور لڑکی فوج جنوں اور عفریتوں اور پری زادوں کی تعینات کی اور فرمایا۔ اگر راستے میں اس شہزادی کو ساتھ لیکر حاضر ہو۔ فبہا والانہ، اس کو زیر و زیر کر کے مشکیں باندھ کر لے آؤ۔ اور اس کے گڑھ اور ملک کو نیست و نابود کر کے گدھے کا ہل پھروا دو۔ وونہیں حکم ہوتے ہی ایسی کتنی فوج روانہ ہوئی کہ ایک آدھ دن کے عرصے میں ویسے جوش خروش والے سرکش کو حلقہ بگوش کر کے پکڑ لائے اور حضور میں دست بستہ کھڑا کیا۔ ملک شہبال نے ہر چند سرزش کر کر پوچھا لیکن اس مغرور نے سوائے ناں کے ہاں نہ کی۔ نہایت غصے ہو کر فرمایا کہ اس مردود کے بند بند جدا کرو اور کھال کھینچ کر کر بھس بھرو۔ اور پری زاد کے لشکر کو تعین کیا کہ کوہ قاف میں جا کر ڈھونڈ ڈھانڈھ کر پیدا کرو۔ وہ لشکر متغیہ، شہزادی کو بھی تلاش کر کے لے آیا۔ اور حضور میں پہنچایا۔ اس سب اسیروں نے اور چاروں فقیروں نے ملک شہبال کا حکم اور انصاف دیکھ کر دعائیں دیں اور شاد ہوئے۔ بادشاہ آزاد بخت بھی بہت خوش ہوا۔ تب ملک شہبال نے فرمایا کہ مردوں کو دیوان خاص میں اور عورتوں کو بادشاہی محل میں داخل کرو اور شہر میں آئینہ بندی کا حکم کرو اور شادی کی تیاری جلدی کرو۔ گویا حکم کی دیر تھی۔
ایک روز نیک ساعت مبارک مہورت دیکھ کر شہزادہ بختیار کا عقد اپنی بیٹی روشن اختر سے باندھا اور خواجہ یمن کی دمشق کی شہزادی سے بیاہا۔ اور ملک فارس کے شہزادے کا نکاح بصرے کی شہزادی سے کر دیا۔ اور عجم کے بادشاہ زادے کے فرنگ کی ملک سے منسوب کیا، اور نیم روز کے بادشاہ کی بیٹی کو بہزاد خان کو دیا۔ اور شہزادہ نیم روز کو جن کی شہزادی کے حوالے کی اور چین کے شہزادے کو اس پیر مرد عجمی کی بیٹی سے، جو ملک صادق کے قبضے میں تھی، کتخدا کیا۔ مگر ایک نامراد بدولت ملک شہبال کے اپنے اپنے مقصد اور مراد کو پہنچا۔ بعد اس کے چالیس دن تلک جشن فرمایا اور عیش و عشرت میں رات دن مشغول رہے۔ آخر ملک شہبال نے ہر ایک بادشاہ زادے کو تحفے و خاطر سوغاتیں اور مال اسباب دے دے کر اپنے اپنے وطن کو رخصت کیا۔ سب بہ خوشی بہزاد خان اور خواجہ زادہ یمن کا اپنی خوشی سے بادشاہ آزاد بخت کی رفاقت میں رہے، یعنی بختیار کی فوج کا کیا۔ جب تلک جیتے رہے، عیش کرتے رہے الٰہی! جس طرح ہر ایک نامراد کا مقصد دلی اپنے کرم اور فضل سے برلا۔ بہ طفیل پنج تن پاک، دوازادہ امام چہاردہ معصوم علیہم الصلوۃ والسلام کے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔
اختتام
*****
ٹائپنگ: اردو ویب ڈاٹ آرگ کی اردو محفل کے مختلف ارکان
تدوین، پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید