12:31    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

14496 5 0 15

ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

جدید نظم میں ہیئت کے تجربے

اردو ادب میں بہت سارے مسائل ہنوز حل طلب ہیں۔ ’’نظم‘‘ اُن میں سے ایک صنف ہے۔  ہم جیسے طالب علموں کی سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ آخر وہ کون سی مجبوری تھی کہ مشاہیر ادب نے ایک معروف و مقبول صنف کا نام بھی ’’نظم‘‘ ہی ر کھ دیا جب کہ نثر سے شعری اصناف کو جدا کرنے کے لیے کل شعری سرما یے کو بھی ’’نظم‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔

بہرحال میرا یہ مضمون بھی دو الگ الگ موضوع کا مجموعہ ہے جدید نظم اور ہیئت کے تجربے۔ ان دونوں موضوعات پر الگ الگ تفصیلی مضمون لکھنے کی گنجائش بھی ہے اور ضرورت بھی کیوں کہ یہ تینوں موضوعات ہنوز بحث طلب ہیں۔ نظم پر سب سے پہلے با قا عدہ مضمون پروفیسر کلیم الدین احمد نے لکھا اور اس کے حدود کی وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے نظم کی تعریف میں جن پہلو ں پر روشنی دالی اور جن شرائط کو ضروری قرار دیا وہ نثر کے مقبول اصناف ناول،  افسانہ اور ڈرامے وغیرہ میں بھی مشترک تھے۔لہٰذا بات وہیں کی وہیں رہی۔کلیم الدین احمد کے بعد متعدد ناقدین نے ا س موضوع پر مضامین لکھے لیکن نظم کی کو ئی جامع تعریف متعین نہیں کی جا سکی۔ لہٰذا بحیثیت صنف جب بھی ’’نظم‘‘ کی بات کی جاتی ہے تو اندھیرے کمرے میں کالی بلّی کی تلاشِ بے سود سے زیادہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

ڈ اکٹر وزیر آغا نے ’’نظم ‘‘ پر کتابیں ا ور متعدد مضامین لکھے ہیں جن میں انہوں نے نظم کے مختلف پہلوں پر سیر حاصل بحث کی ہے لیکن غزل اور نظم کے فرق کی وضاحت کے دوران وہ بھی سرسری طور پر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں کہ ’’غزل مشرق کی پیداوار ہے اور نظم مغرب کی‘‘۔  ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ کہنا تو بجا ہے کہ غزل مشرق کی پیداوار ہے لیکن نظم مغرب سے اسمگل کیا ہوا مال ہے اس کے بارے میں تھوڑا رک کر سوچنا ہو گا کیوں کہ نظم کی جو بھی تشنہ ہی سہی تعریف ہمارے سامنے ہے اس کی روشنی میں قصیدہ،  مثنوی،  رباعی،  مرثیہ اور مسدس اور مثمن وغیرہ بھی نظم کی حدود میں آ جاتے ہیں یا اس سے آگے بڑھ کر اگر ہم اپنے اپنے طور پر نظم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات صاف طور سے سمجھ میں آتی ہے کہ اردو کا شعری سرمایہ یا ہر وہ منظومہ جو غزل نہیں ہے نظم ہے۔  لہٰذا اگر آپ ہماری اس بات سے متفق ہیں تو آپ کو ہماری اس بات سے بھی اتفاق ہونا چاہئے کہ نظم مغرب کی صنف نہیں ہے بلکہ مشرق میں اس کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ البتّہ ۱۸۵۷ کے بعد انگریزی ادب کے زیرِ اثر اور بعد میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں کی مدد سے جو شاعری اردو ادب میں متعارف ہوئی اس کا تعلق مغرب سے ضرور ہے ا ور اسے جدید نظم کہا جا تا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے غزل کو مشرق اور نظم کو مغرب میں فروغ پانے کی جن سماجی اور معاشی وجوہات کا ذکر کیا ہے اس سے اتفاق کرتے ہوے میرا یہ ماننا بھی ہے کہ مشرق میں مشاعرے اور شعری نشستوں کی جو مقبول روایت رہی ہے وہ مغرب میں مفقود ہے۔لہٰذا مغرب کی شاعری کا تعلق انفرادیت سے قریب رہا جب کہ مشرق میں اجتماعیت کا رجحان پورے تمکنت کے ساتھ جلوہ گر رہا ہے۔

مغرب اور مشرق کی شاعری کے بیچ یہ خطِ تمیز کھینچ کر میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میں اس کے آگے جس شاعری کا ذکر کروں گا وہ شاعری کس ماحول کا نقشہ آپ کے سامنے کھینچتی ہے اس نقشہ کا ڈانڈا صرف اور صرف انفرادیت سے ملتا ہے۔ جدید شاعری نے انفرادی فکر کو عام کرنے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے اور جدید نظم کی یہی خوبی اسے قدیم نظموں سے الگ کرتی ہے۔اسی لیے نظم کو شخصی تاثرات کا بہتا ہوا سر چشمہ کہا جاتا ہے جس کی بے شمار لہریں تصور کی نگاہوں کے سامنے ایک منظر پیش کرتی ہیں جن کا پس منظر انفرادی تجربہ ہو تا ہے۔قوم کا مجموعی شعور جب نئے ماحول،  نئے حالات اور مغربی اثرات سے متاثر ہوا تو اردو میں جدید نظم کا آغاز ہوا۔  جدید نظم کے آغاز کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت اور تکنیک میں تجربے کا دور بھی شروع ہوا۔

ہیئت ایک ایسا لفظ ہے جس کی بے شمار جہتیں ہیں۔  ان جہتوں پر افلاطون سے آج تک متعدد فلسفیوں اور مفکروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن ابھی تک اس موضوع کا بھرپور جائزہ نہیں پیش کیا گیا ہے۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کائنات میں ہزاروں مادّی اور غیر مادّی اشیا ایسی ہیں جن کی حقیقتیں ہنوز منکشف نہیں ہوئی ہیں۔  انسانی ذہن بے شمار حقیقتوں کو عیاں کر نے کے لیے کوشاں ہے۔ جب تک ان اشیا کی حقیقتوں سے پردہ اٹھانے کا کام پوری طرح مکمّل نہیں ہو گا تب تک ہیئت کی تعریف متعین نہیں ہو گی اور ہیئت کے متعلق متضاد خیالات پیش ہوتے رہیں گے۔ کسی بھی شے کی ہیئت متعین کرنے کے لیے اس شے کی خارجی اور باطنی پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔  خارجی پہلوؤں کی تفصیل معلوم کرنا تو آسان کام ہے لیکن داخلی پہلوؤں کے متعلق معلومات حاصل کرنا مشکل کام ہے کیوں کہ اس کا تعلق روحانی ادراک اور محسوسات سے ہوتا ہے۔ مثلاً غزل کی اصل روح اس کا تغزل ہے ا ور تغزل ایک مخصوس کیفیت کا نام ہے جسے محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح نظم میں اس کی خارجی ساخت کے علاوہ داخلی کیفیت بھی ایک اہم جز ہے جس کی تشریح کرنا مشکل ہے۔  پھر بھی نظم کے تمام نکات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظم کی مکمل فنّی تکمیل کے عمل میں استعمال ہونے والے وہ تمام داخلی و خارجی لوازمات مثلاً مواد، الفاظ،  ترتیبِ الفاظ،  زبان و اسلوب،  تہذیبی فضا، ذہنی کیفیت،  حسن و لطافت،  جذبات و احساسات اور پیرایۂ اظہار وغیرہ آپس میں پوری طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور ایک وحدت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو اسے نظم کی ہیئت کہتے ہیں۔  بعض نقادوں نے مواد کو ہیئت سے الگ شے قرار دیا ہے۔  مثلاً ڈاکٹر شوکت سبزواری(نئی پرانی قدریں ) (ص۔٤٢)لکھتے ہیں :

’’مواد ہیئت کے مقابلے میں ہے۔ اسِ لیے مواد کو ذہنی طور پر الگ کرنے سے جو کچھ بچتا ہے وہ ہیئت ہے۔ مواد ہیئت میں شامل نہیں ہے۔‘‘ شوکت سبزاوری کے خیالات سے میں اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ در حقیقت ہیئت اور مواد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہیئت کے موضوع پر اردو کے متعدد ناقدین نے بے شمار لکھا ہے لیکن ان نقّادوں نے کوئی اضافہ یا کوئی نئی بات کہنے کی کوشش نہیں کی ہے۔  مثلاً پروفیسر حنیف کیفی نے ہیئت کو ظاہری ساخت یعنی بناوٹ کے معنی میں استعمال کیا ہے جب کہ پروفیسر عنوان چشتی نے کہا ہے کہ کسی چیز کے کل مجموعہ میں جو کچھ اس کو محسوس کرنے میں مدد دیتا ہے وہی مجموعی طور پر اس کی ہیئت ہے۔  اسی طرح پروفیسر احتشام حسین نے کہا ہے کہ ہیئت ایک ایسا فنکارانہ طریقہ اظہار ہے جو شاعر اور سماج کے درمیان رابطے اور رشتے کا کام دیتا ہے۔  ان تمام ناقدین نے ہیئت کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے وہ مائیکل روبرٹس کے مضمون مین پہلے سے موجود ہے۔ ما ئیکل روبرٹس نے لکھا ہے کہ:

’’محدود مفہوم میں لفظ ہیئت مخصوص عروضی ارکان اور نظم کے بندوں کی ترتیب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔  وسیع معنی میں لفظ ہیئت کا

استعمال ایک طرح کے ان تمام رشتوں کے لیے ہوتا ہے جو نظم میں سماعی خطابت اور فنی پیکریت کے درمیان پائے جاتے ہیں ‘‘

(فیبر بک آف ماڈرن ورس۔ ص۔٧)

افلاطون کے مطابق تمام اشیاء کی ہیئتیں اور فنّی تخلیقات اس دُنیا کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھیں۔  افلاطون اس کی توجیہ یہ کرتا ہے کہ اصل حقیقت عالمِ مثال میں ہے اور یہ دنُیااوراس کے مظاہر، اصل حقیقت کے عکس ہیں۔

ہیئت میں تبدیلی کی اگر بات کی جاتی ہے تو اس کا محدود مفہوم مراد لیا جاتا ہے یعنی عروضی ارکان اور نظم کے بندوں کی ترتیب، تبدیلی اور تجربے، زبان و اسلوب کی سطح پربھی ہوتے ہیں لیکن انکا جائزہ لینا مشکل کام ہے کیوں کہ ہر تخلیق کار کی زبان و اسلوب ہر تخلیق میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ شاعر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار جب شاعری کی زبان میں کرتا ہے تو اُسے کسی سانچے کی ضرورت پڑتی ہے جسے شاعری کی اصطلاح میں وزن و بحر یا عروضی ارکان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔  عروضی ارکان یا بحریں شاعروں کے حافظے میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں جن میں اکثر و بیشتر اشعار کہے جاتے ہیں۔  بعض شعرا اپنی جدّت پسندی کی وجہ سے نئے نئے سانچے وضع کر لیتے ہیں۔  بعض شعرا جب پرانے سانچوں کو اپنے اظہار کے لیے نا کافی سمجھتے ہین تو نئے نئے سانچے ایجاد کر لیتے ہیں نئے سانچے ایجاد کرنے کے لیے کبھی پرانے سانچوں میں جزوی انحراف تو کبھی کلّی انحراف کرنا پڑتا ہے۔ سانچوں میں انحراف کے اس عمل کو ہیئتی تجربہ کہا جاتا ہے۔

سماجی تغیرات کے سبب ہیئتیں پیدا ہوتی ہیں اور مر بھی جاتی ہیں۔  مگر بعض ہیئتیں اپنا وجود ہمیشہ برقرار رکھتی ہیں مثلاً غزل کی ہیئت ایک طویل سفر طے کرنے کے باوجود بھی مری نہیں بلکہ آج بھی تازہ ہے۔  تجربے کے بعد تشکیل شدہ نئی ہیئتیں بھی بالکل نئی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان میں پرانی ہیئتوں کی نشانیاں موجود ہو تی ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ نئی ہیئتیں مانوس ہوتی ہیں اور شہرت پا جاتی ہیں۔  شہرت پا جانے کے بعد پھر وہ روایت بن جاتی ہیں جو کامیاب تجربے کی دلیل ہے۔

ہیئت میں تجربے کی روایت نئی نہیں ہے بلکہ اردو شاعری کے ہر دور میں تجربے ہوئے ہیں۔  ۱۸۵۷ سے پہلے کے کلاسیکی اردو شاعری میں بھی ہیئت کے تجربے کی مثالیں مل جاتی ہیں مثلاً غزل کے اشعار کے ساتھ ساتھ قطعے،  مرثیے، مسدس اور مستزاد وغیرہ۔ اس کے علاوہ قلی قطب شاہ کے زمانے میں بعض نظمیں جو نظیر اکبرآبادی کی نظموں کی ابتدائی شکل ہیں،  تجربے کی بہترین مثالیں ہیں۔ لیکن ان تجربوں کا دائرہ کافی محدود ہے۔ ان ہیئتوں میں بعض اصناف تو فارسی شاعری میں پہلے سے موجود تھیں۔  لہٰذا ان تجربوں کی ادبی اہمیت نہیں کے برابر ہے۔

اردو میں تجربوں کا آغاز ۱۸۵۷ء کے بعد اُس شاعری میں ہوا جو سماجی، سیاسی اور تہذیبی تغیرات، نیز انگریزی ادب کے زیرِ اثر سرسید،  آزاد اور حالی کی اصلاحی کوششوں سے وجود میں آئی تھی جسے جدید نظم نگاری کا نام دیا گیا۔ اس سلسلے کا پہلا تجربہ حالی کے ایک شاگرد برج موہن دتّاتریہ کیفی نے ۱۸۸۷میں کیا جو انگریزی شاعری کی ایک مخصوص ہیئت’’اسٹنزا‘‘فارم(الف ب الف ب) پر مشتمل تھا۔کیفی نے اسٹنزا فارم پر مشتمل مربع کی شکل میں دو نظمیں ’’تہنیتِ کامیابی‘‘ اور ’’ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جبلی جن کے ہر بند میں متبادل قوافی کے چار چار مصرعے تھے۔ اسٹنزا فارم کے بندوں کی مثالیں اردو شاعری میں قطع کی صورت میں پہلے سے موجود تھیں لہٰذا ناقدین نظم کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ شاعری کی کوئی نئی ہیئت ہے جس کے موجد برج موہن دتا تریہ کیفی ہیں۔  البتہ کیفی نے انگریزی کی اس فارم میں طویل نظمیں لکھنے کی بنیاد ڈال کر ادیبوں اور شاعروں میں ہیئت کے تجربے کی تحریک پیدا کرنے کی کوشش ضرور کی جس میں انہیں کامیابی نہیں ملی کیوں کہ ان کی ان دونوں نظموں کی کوئی ادبی اہمیت نہیں ہے اور دوسری بات یہ تھی کہ اس وقت تک کسی نئے تجربے کے لیے ادیب و شاعر ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان نظموں کے شائع ہونے کے دس برسوں کے بعد تک اس فارم میں کوئی دوسری نظم شائع نہیں ہوئی اسی لیے عبدالحلیم شرر،  پروفیسر عبدالقادر سروری،  خلیل الرحمان اعظمی،  ڈاکٹر سیدہ جعفر اور ڈاکٹر عنوان چشتی کے علاوہ کئی دیگر نقادوں اور محققوں نے کیفی کے بجائے نظم طباطبائی کو اردو نظم میں تجربہ کرنے والا پہلا شاعر قرار دیا جو تاریخی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔

کیفی کی ان دونوں نظموں کا ایک ایک بند یہاں پیش کیا جاتا ہے جن کی ادبی اہمیت نہ سہی لیکن تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے:

 

مبارک تجھے ہند یہ روزِ فرخ

کہ تیرے خراباتِ دیریں کے اندر

ہوے ہیں وہ شہوار گنجینے ثابت

ہیں محروم جن سے شہ ہفت کشور

(تہنیتِ کامیابی )

جُگ گزرے ہیں مینہ کو برستے

لاکھوں بار آئی ہیں گھٹائیں

قرن ہوئے کلیوں کو بکستے

اور چلتے جاں بخش ہوائیں

(ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جبلی پر)

کیفی کی دوسری نظم کا بند پہلی نظم کے بند کے مقابلے میں بہتر ہے۔

دس سالوں کے لمبے انتظار کے بعد اسی فارم یعنی ’’اسٹنزا‘‘ کو نظم طبا طبائی نے ایک نظم ’’گورِ غریباں ‘‘ لکھ کر نئے انداز سے متعارف کرایا۔یہ نظم اگر چہ ’’گرے ‘‘کی نظم ’’ایلجی‘‘ کا منظوم ترجمہ ہے لیکن اس میں تخلیقیت بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نظم کے شائع ہونے کے بعد کئی نظمیں لکھی گئیں جن میں اسٹنزا فارم کو بنیاد بنا کر نئے نئے تجربے کیے گئے جو رسالہ دلگداز میں عبدالحلیم شرر کے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع ہو تی رہیں۔  اس فارم میں جن شعرا نے نظمیں لکھیں ان میں نظم طبا طبائی کے علاوہ سید محمد ضامن کنتوری، سجاد حیدر یلدرم، مولانا وحید الدین سلیم،  ظفر علی خان،جسٹس محمد میاں شاہ، بدرالزماں،  نادر کاکوری، درگا سہائے سرور،اوج گیاوی، عزیز لکھنوی، غلام محمد طور، قیصر بھوپالی،ارشد تھانوی، لا اوبالی امروہوی اور تلوک چند محروم قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے نئے نئے تجربے کیے لیکن بدقسمتی سے یہ شعرا دوئم درجے کے تھے اور ان کی نظموں میں زیادہ تر نظمیں انگریزی نظموں کے ترجمے تھے یا انگریزی نظموں سے ماخوذ تھیں جن میں وہ دلکشی نہیں تھی جو انگریزی کی Original نظموں میں پائی جاتی ہے لہٰذا اسٹنزا کے فارم میں جو تجربے کیے گئے اور اس پر مشتمل جو نظمیں لکھیں گئیں وہ روایت نہیں بن سکیں اسی لیے اس فارم میں شائع ہونے والی نظموں کی مثالیں صرف بیسویں صدی کے اوائل تک ہی ملتی ہیں۔

نظم طبا طبائی کی نظم ’’گورِ غریباں ‘‘میں بتیس بند ہیں لیکن یہاں مثال کے طور پر صرف ایک بند پیش کیا جاتا ہے:

 

دواعِ روزِ روشن ہے گجر شامِ غریباں کا

چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے

قدم گھر کی طرف کس شوق سے اٹھتا ہے دہقاں کا

یہ ویرانہ ہے،  میں ہوں اور طائر آشیانوں کے

 

نظم طبا طبائی کی ایک دوسری نظم ’’اس طرح وطن کی خیر مناتے ہیں ‘‘ جس کے ہر بند کے پہلے تین مصرعے ہم وزن و ہم قافیہ ہیں جب کہ چوتھا مصرع دوسرے قافیہ میں ہے اور چھوٹا بھی ہے۔اس نظم میں بھی اسٹینزا فارم کی جھلک ملتی ہے۔ایک بند ملاحظہ ہوں :

 

جس وقت حوادث کا ہو طوفانِ شدید

اے خالقِ بحر و بر اے خداوندِ مجید

رکھنا اس ملک کو ہر آفت سے بعید

دکھلا دینا تو اپنی قدرت

۱۸۹۸

 میں سید محمد ضامن کنتوری نے انگریزی کے ایک شاعر ’’گولڈ اسمتھ‘‘ کی نظم کا ترجمہ ’’ایلی جائک‘‘ کے عنوان سے اسٹنزا فارم میں کیا جو دلگداز میں شرر کے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا۔ اس نظم کا ایک بند پیش کیا جاتا ہے:

 

دیکھ ادھر اے راہبِ صحرا نشیں نیک خوُ

رہبری کو میری اس صحرائے وحشت ناک میں

واں جہاں وہ شمع روشن کر رہی ہے دشت کو

جاں فزا ہے جس کا نور اس جائے وحشت ناک کو

 

اسی سلسلہ کی دوسری نظم ’’انتہائے یاس‘‘ سجاد حیدر یلدرم نے لکھی تھی جو پچھلے تجربوں پر اضافہ تھا اور جو ۱۸۹۷ کے دلگداز میں شرر کے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔’’نئی شاعری ‘‘کے عنوان سے شرر نے اس نظم کا تعارف اس طرح کرایا ہے:

’’گزشتہ دو ترجموں کو دیکھ کر علی گڑھ کے ایک ہونہار طالب علم سید سجاد حیدر یلدرم نے ’’انتہائے یاس‘‘کے عنوان سے ایک نئی نظم ہمارے پاس بھیجی ہے۔یہ بہت مختصر ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ا س رنگ اور اس طریقہ سے دائرۂ عروض میں وسعت چاہنے والوں کے لیے نیا نمونہ ہے۔اور یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہم ان چند اشعار کو شائع کرتے ہیں۔ ‘‘

(بحوالہ اردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم از حنیف کیفی،ص۔۵۶)

اس نظم کا صرف ایک بند پیش کیا جاتا ہے:

 

دست و پا ا پنے ہی جب ہو گئے اپنے غماز

تو ہی اے خاک چھپا لے ہمیں ہو کر فیاض

اب تو اس عالمِ عصیاں کی ہوا ہے نا ساز

ہم سے خالی ہو کہیں جلد یہ دنیا کی بیاض

لے اجل جانِ حزیں

 

اس نظم کے ہر بند میں پہلا مصرع تیسرے مصرع کا اور دوسرا مصرع چوتھے مصرع کا ہم قافیہ ہے۔ صوتی اعتبار سے اس بند کے چاروں مصرعے ہم قافیہ ہیں۔ اس نظم کے ہر بند کے آخر میں مستزاد کے طور پر ایک ٹکڑا رکھا گیا ہے جس کا قافیہ، بند کے مصرعوں کے قافیے سے مختلف ہے لیکن تمام مستزاد ٹکڑے ہم قافیہ ہیں۔ اس نظم میں بہ یک وقت تین تجربے کیے گئے ہیں۔ اس نظم میں تصنع ہونے کے باوجود جدّت ہے اور تجربہ کے لحاظ سے اس کی ایک خاص اہمیت ہے۔

۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۰ء میں مولانا وحید الدین سلیم کی دو نظمیں ’’برسات کا پہلا دن‘‘ اور ’’دریا کا آغاز و انجام‘‘رسالہ معارف علی گڑھ میں شائع ہوئیں جِن میں پہلی نظم اسٹنزا فارم میں اور دوسری نظم میں اسٹنزا فارم کو بنیاد بنا کر مسدّس لکھنے کا نیا تجربہ کیا گیا تھا۔دوسری نظم کا ایک بند پیش کیا جاتا ہے:

 

دھندلا ہے آج منظر،  مطلع پہ تیرگی ہے

اٹھتا ہے کچھ دھواں سا رہ رہ کے آسماں پر

بھیگی ہوئی ہوا ہے،  بجلی تڑپ رہی ہے

جل تو جلال تو ہے،  ہر ایک کی زباں پر

دیکھو وہ سر اٹھایا سبزے نے بانکپن سے

مرجھا کے رہ گیا تھا جو دھوپ کی کرن سے

 

۱۹۰۱ء میں ایک تجربہ سامنے آیا جب ظفر علی خاں کی نظم ’’ندی کا راگ ‘‘اسٹنزا فارم ’’الف ب الف ب ‘‘کی شکل میں مخزن میں شائع ہوئی۔یہ نظم ٹینیسن کی نظم کا با محاورہ اور آزاد ترجمہ ہے۔اس نظم میں چار بند ہیں اور ہر بند کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے کی ترتیبِ قوافی ’’الف ب الف ب ج ب ج ب ‘‘ ہے ا ور دوسرا حصہ چار مصرعوں کا ہے۔اس کا ترتیبِ قوافی ’’د ب د ب‘‘ ہے۔دوسرا حصہ ہر بند کے آخر میں ٹیپ کے طور پر آتا ہے۔نظم کے اشعار ملاحظہ ہوں :

 

بگلوں اور چہوں کے نشیمن سے میں نکل کر نا گہاں

چشمِ زدن میں سیلِ بلا کی طرح جھپٹ کر آتی ہوں

سبزہ کے فرشِ استبرق پر مثلِ دراری غلطاں

کروٹیں لیتی ہوئی وادی میں پہنچ کر شور مچاتی ہوں

کتنی گھاٹیوں کے دامن کو راہ میں آئی جھٹک کر میں

 کتنے ٹیکروں اور ٹیلوں کے تلوے میں سہلاتی ہوں

بیسیوں گا ؤ ں اور قصبوں کے پہلو سے نکلی مٹک کر میں

سیکڑوں پُل ہیں مٹھی میں دل جن کا میں چرا کر لاتی ہوں

زید کے کھیت کے نیچے بہہ کر تھوڑی سی دور پہ آخر کار

جا کے چھلکتے د ر یا کو میں شربتِ وصل پلاتی ہوں

عمر و زید کی ہستی ہی کیا ہے صبح آئے گئے شام سدھار

مجھ کو دیکھو کہ ایک روش پر صبح و شام چلی جاتی ہوں

 

اس نظم کو دیکھ کر ایسالگتا ہے کہ اس میں جو ہیئت اپنائی گئی ہے وہ اسٹنزا فارم ہے لیکن یہ خیال غلط یوں ہے کہ اشعار کے دوسرے مصرعوں کی ہم قافیگی سے اسٹنزا کے فارم میں انحراف کا پہلو پیدا ہو گیا ہے جو ہیئت کا ایک نیا تجربہ تھا۔

جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں نے اسٹنزا فارم ’’الف ب الف ب ‘‘کو بنیاد بنا کر ایک نظم ’’چمن کی سیر ‘‘ لکھی جو مسدس کی ہیئت میں ہے۔اس نظم کے بندوں میں پہلے چار مصرعوں کی ترتیبِ قوافی ’’الف ب الف ب ‘‘ ہے لیکن آخری دو مصرعوں کے قافیے جداگانہ تھے۔ہر بند کے آخری دو مصرعے فارسی میں ہیں۔ اس نظم کا پہلا بند پیش کیا جاتا ہے:

 

غنچوں نے چٹکیوں میں مرا دل لبھا لیا

اے باغباں چمن میں ترے کیا بہار ہے

لالہ ہے یا کہ حسن کا ہے جل رہا دیا

اڑتی ہے بو،  کہ جاتا ختن کا سوار ہے

ہنگامِ صبح سیرِ گلستاں بسا خوش است

بر شاخِ سبز بلبلِ شیریں نوا خوش است

 

انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزی اسٹنزا کی ہیئت میں نظمیں لکھنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بیسویں صدی کے اوائل تک قائم رہا۔رسالہ مخزن اور دلگداز میں ایسی بے شمار نظمیں شائع ہوئیں جو اسٹنزا کی ہیئت میں تھیں لیکن چند ایسی نظموں کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں جن میں اس ہیئت سے انحراف کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر حسرت موہانی کی نظم ’’موسمِ بہار کا آخری پھول ‘‘۔اس نظم کا صرف آخری بند اسٹنزا کے فارم میں ہے ورنہ باقی بندوں میں دوسرے اور چوتھے مصرعے ہم قافیہ ہیں۔ اسی زمانے میں کلکتے کے ایک شاعر بدر الزماں کا نام بھی قابلِ ذکر ہے جنہوں نے ’’اسیرِغربت ‘‘  اور ’’بیریل آف سر جان مور ‘‘ کے عنوانات سے نظمیں لکھیں جو مخزن اور دلگداز میں شائع ہوئیں۔ بیسویں صدی کے پہلی دو دہائیوں میں کئی دیگر شعرا نے بھی اسی ہیئت میں نظمیں لکھیں جو انہیں رسالوں میں شائع ہوتی رہیں۔ ان شعرا میں نادر کاکوروی، درگا سہائے سرور، اوج گیاوی، عزیز لکھنوی، غلام محمد طور،  قیصر بھوپالی،  ارشد تھانوی، لااوبالی امروہوی اور تلوک چند وغیرہ خاص ہیں۔

انگریزی نظموں کے منظوم ترجموں سے نہ صرف اسٹنزا کی ہیئت اردو میں متعارف ہوئی بلکہ اردو کے ا دیبوں نے انگریزی ادب کا کثرت سے مطالعہ بھی کیاجس کی وجہ سے اردو میں نظمِ معرّا کی تحریک و ترویج عمل میں آئی۔نظمِ معرّا وہ نظم ہے جس میں وزن تو ہوتا ہے لیکن قافیہ نہیں ہوتا یعنی ہر وہ نظم جس میں قافیہ نہ ہو خواہ وہ کسی بھی بحر میں ہو،نظمِ معرّا ہے۔

نظمِ معرّا کی ابتدا آزاد اور اسمٰعیل میرٹھی نے کی تھی۔ محمد حسین آزاد نے دو نظمیں ’’جغرافیہ کی پہیلی‘‘ اور  ’’جذبہ دوری ‘‘اور اسمٰعیل میرٹھی نے ’’چڑیا کے بچے ‘‘ اور  ’’تاروں بھری رات ‘‘ لکھیں جن میں قافیہ نہیں ہے لیکن وزن ہے۔ان کے علاوہ اکبر الہ آبادی نے بھی دو نظمیں لکھیں جو نظمِ معرّا تھیں لیکن ان نظموں کا نظم گو ئی کی روایت پر کوئی اثر نہیں پڑا کیوں کہ ان نظموں میں تخلیقی تجربوں کی پوری عکاسی نہیں ملتی ہے۔

نظمِ معرّا کا باقاعدہ آغاز عبدالحلیم شرر کی کوششوں سے ہوا۔بیسویں صدی کے ابتدا میں شرر نے نظمِ معرّا کو رواج دینے اور اسے جدید نظم نگاری کی ایک اہم روایت بنانے کے لیے شعوری طور پر تحریک چلائی۔نظمِ معرّا کی تعریف اور اس اہمیت پرنہ صرف مضامین شائع کیے بلکہ نظمِ معرّا کی شکل میں منظوم ڈرامے بھی لکھے۔ساتھ ہی اس دور کے شعرا کو بھی نظمِ معرّا لکھنے کی ترغیب دی اور یہ حقیقت ہے کہ شرر کی ہمت افزائی سے متاثر ہو کر کئی دوسرے شعرا نے بھی نظمِ معرّا کی شکل میں نظمیں لکھیں۔ ان نظموں کی ادبی اہمیت ہو یا نہ ہو لیکن نظمِ معرّا کی ہیئت کو رائج کرنے میں ان کا اہم رول رہا۔

عبدالحلیم شرر نے نظمِ معرّا کی شکل میں جو منظوم ڈرامہ لکھا تھا اس کا عنوان تھا ’’نظم کی ایک نئی قسم ‘‘۔اس منظوم ڈرامے کا پہلا سین شرر کے ایک تعارفی نوٹ کے ساتھ دلگداز میں ۱۹۰۰ء کے جون میں شائع ہوا۔اس کا دوسرا سین اسی سال ستمبر اور تیسرا سین دسمبر میں شائع ہوا جب کہ چوتھا،  پانچواں اور چھٹا سین، جنوری، فروری اور مئی ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا۔شرر نے اپنے منظوم ڈرامے کا پہلا سین جب شائع کیا تو اس کا تعارف انہوں نے ان الفاظ میں کرایا:

’’لہٰذا ہم اب اس جانب توجہ کرتے ہیں اور بالکل اسی انگریزی شان سے ایک موزوں ڈراما لکھنے کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اگر ملک نے توجہ کی اور اہلِ سخن نے پسند کیا تو پورے سین موزوں کر دیے جائیں گے ورنہ دو ہی تین سین موزوں کرنے کے بعد یہ سلسلہ چھوڑ دیا جائے گا۔اس وقت ہمارا مقصود صرف اس قدر ہے کہ بلینک ورس یا نظمِ غیر مقفیٰ کو اس کی اصلی شان میں دکھا دیں تاکہ جن اہلِ سخن کو پسند آئے وہ بھی ایسی ہی نظمیں لکھیں اور ہم سے زیادہ بے تکلفی،  سادگی اور کمالاتِ شاعری دکھائیں ‘‘۔ ( دلگداز،جون۔۱۹۰۰ء،  ص۔۱۰ )

شرر کے اس منظوم ڈرامے کے شائع ہونے کے بعد ۱۹۰۰ء میں نظم طباطبائی نے ’’بلینک ورس ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جو رسالہ دلگداز میں شائع ہو ئی۔  نظم طباطبائی کی یہ نظم غیر مقفیٰ ہے اور ہر بند رباعی کے اوزان میں ہے۔یہ نظم اپنی جگہ ایک عجیب و غریب تجربہ تھا۔اس نظم کا پہلا بند پیش کیا جاتا ہے۔

 

ہیں نثر کی تین قسمیں مشہور،ان میں

اک نثرِ  مرجز بھی ہے یعنی وہ کلام

جس میں کہ ہو وزن شعر اور قافیہ کی

قید اس میں نہ ہو، رہیں معانی آزاد

 

۱۹۰۱ء میں راجہ بھوج کی تعریف میں ایک ڈرامائی انداز کی نظم منشی احمد فرہاد نے لکھی تھی جس کی کوئی ادبی اہمیت نہیں تھی البتہ اس کی ایک تاریخی اہمیت ضرور ہے۔۱۹۰۲ء میں نذیر حسین احمد انبالوی نے انگریزی کی ایک نظم کا ترجمہ ’’ایذائے حیوانات ‘‘ کے عنوان سے کیا جو نظمِ معرّا کی شکل میں ہے۔اس کے بعد ۱۹۰۹ء میں بدرالدین سیو ہاروی کی نظم شائع ہوئی جو نظمِ معرّا کی شکل میں ہے اور جس کا عنوان تھا ’’تنازع ا للبقا ‘‘۔یہ ایک مختصر نظم ہے۔

 

چشمہ جو یہ بہہ رہا ہے

کہتا ہے اپنی رو میں

دریائے زندگانی

میری طرح رواں ہے

 

عبد الحلیم شرر نے اپنی پہلی نظم کے شائع ہونے کے دس سال بعد یعنی ۱۹۱۰ء دوسرا منظوم ڈرامہ ’’مظلوم ورجینا ‘‘ کے عنوان سے رسالہ دلگداز میں شائع کیا جو رومۃ الکبریٰ کی تاریخ سے ماخوذ ہے۔ابتدائی چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

 

لڑ جھگڑ کر مدتوں کے بعد اب حاصل کیے

ہیں حقوق اپنے کہاں آزاد یاں، یہ پہلے تھیں

پہلے میں تھا اک غریب ادنیٰ سپاہی،آج ہوں

حکمرانِ روم، اب وہ کون ہے جو چار آنکھیں

کر سکے، میرے مقابل یا کرے انکار میرے حکم سے

 

اس کے بعد ۱۹۱۱ء میں ’’الحجاب ‘‘ کے ا یڈیٹر، قیصر کا ایک منظوم ڈرامہ ’’وہ ‘‘ شائع ہوا جو نظمِ معرّا کی شکل میں تھا۔ اس نظم کا موضوع فطرت کے مظاہر اور اس کے ذریعہ خدا کی پہچان ہے۔۱۹۱۳ء میں سید علمدار حسین واسطی کا ایک منظوم ڈراما ’’شہیدِ ناز ‘‘ شائع ہوا جس میں اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء اور عاقل خان کے معاشقہ کا ذکر ہے۔۱۹۱۸ء میں عبدالحلیم شرر کا تیسر ا منظوم ڈرامہ’’اسیرِ بابل ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو گولڈ اسمتھ کے ڈرامہ کا ترجمہ ہے۔اس کے الفاظ تو اردو ہیں لیکن باقی ہر چیز انگریزی ہے۔ شرر نے اس میں کئی بحروں کا استعمال کیا ہے۔

نظمِ معرّا کی ہیئت کو اردو شاعری میں رائج کرنے کی جو تحریک شرر نے شروع کی تھی، اس پر نظریاتی بحث کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا۔شاعروں اور ادیبوں کی ایک جماعت شرر کے ذریعہ چلائی گئی تحریک کے ساتھ تھے اور ان کی حمایت کرتی تھی جب کہ دوسری جماعت ان کی مخالفت کرتی تھی اور نظمِ معرّا کی ہیئت کے خلاف مضامین شائع کراتی تھی۔مخالف جماعت کے ادیبوں نے نظمِ معرّا کو نظم ماننے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ ان کے مطابق نظمِ معرّا اصل میں نثرِ  مرجز تھی۔ ان ادیبوں اور شاعروں میں نظم طباطبائی،  احسن مارہروی اور نجم ا لغنی وغیرہ خاص ہیں۔ نظمِ معرّا کی حمایت جن ادیبوں اور شاعروں نے کی ان میں مخدوم عالم اثر مارہروی، سید اولاد حسین شاداں بلگرامی اور دلگیر اکبر آبادی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ بہر حال شرر کی تمام کوششوں کے باوجود نظم معرّا کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی اور رفتہ رفتہ نظمِ معرّا کی لہر کم ہونے لگی۔۱۹۱۰ء کے بعد دس بارہ سالوں تک کے لمبے انتظار کے بعد محمود اعظم فہمی ترمذی کی نظم ’’اﷲ بس باقی ہوس ‘‘ اور مخمور اکبر آبادی کی نظم ’’شامِ چمن ‘‘ رسالہ ’’زمانہ ‘‘ اور ’’نگار‘‘ میں ۱۹۲۲ء میں شائع ہوئیں۔

عبدالحلیم شرر کے بعد مولانا تاجور نجیب آبادی نے بھی نظمِ معرّا کو فروغ دینے کی کوششیں کی۔دراصل مولانا جب رسالہ ’’مخزن ‘‘ کے مدیر تھے تو انہوں نے اردو نظم و نثر کے متعلق کچھ اصلاحی تجاویز پیش کی تھیں جن میں دو خالصتاً اردو نظم کی ہیئتی توسیع کے متعلق تھیں، ان میں پہلا اردو نظم میں بلینک ورس کو رواج دینا اور اسی کے ساتھ مقفیٰ نظموں میں ہم قافیگی کی پابندی کو کم کرنا اور دوسرا اردو نظم کو ہندی وزنوں میں منتقل کرنا تھا۔ مولانا نے اپنی تجاویز کی تبلیغ کے لیے نہ صرف مضمون لکھا بلکہ چند معرّا نظمیں بھی لکھیں اور کئی دوسرے شعرا کو بھی اس طرح کی نظمیں لکھنے کی ترغیب دی لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی اور اس طرح کی نظمیں جنوری ۱۹۲۳ء سے جنوری ۱۹۲۴ء تک لکھی گئیں اسکے بعد ڈھائی سالوں تک اس فارم میں کو ئی د وسری نظم شائع نہیں ہوئی۔ مولانا نے اپنی بے قافیہ نظم ’’مشرق کا پیام اخوت مغرب کے نام‘‘ لکھی جو ۱۹۲۳ء میں رسالہ ’’ہمایوں ‘‘ میں شائع ہو ئی اِ س کے علاوہ نظیر لدھیانوی کی نظم ’’پیامِ صبح ‘‘، وتسہ پرساد فدا کی نظم ’’کوہ ایورسٹ سے خطاب ‘‘، سید حسن کی نظم ’’سار ناتھ ‘‘،  سید محمد ثاقب کانپوری کی نظم ’’آبشار ‘‘ اور حامداﷲافسر کی نظم ’’وقت کی ڈبیہ‘‘ رسالہ ہمایوں میں جنوری ۱۹۲۳ء سے جنوری ۱۹۲۴ء کے درمیان شائع ہوئیں۔  ان نظموں کی اشاعت کے بعد جون ۱۹۲۷ءمیں اشتیاق حسین قریشی کی نظم ’’درسِ فطرت ‘‘ شائع ہوئی جسے نظمِ معرّا میں ایک نیا تجربہ کہا گیا جو یقیناً صحیح تھا۔اس نظم کے مصرعوں کمی بیشی ہے پھر بھی اس کی روانی اور نغمگی میں کوئی کمی نہیں ہے۔مثال کے طور اس نظم کا صرف ایک بند پیش کیا جاتا ہے:

 

دریا کنارے شام کو اک دن گزر میرا ہوا

دیکھا وہاں آبِ رواں اور سبزہ غلطیدہ جو

پھیلا ہوا تھا ہر طرف

خواہش ہوئی دل میں کہ بس ٹھہروں یہیں

کرتا ہوں نظارہ صحرائے رشک بوستاں

 

ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی نے اس نظم کو آزاد نظم قرار دیا ہے لیکن نظم کے فنی تجزیہ کے مطابق خلیل الرحمن اعظمی کا خیال غلط ہے کیوں کہ آزاد نظم کے آہنگ کی خصوصیت یہ ہے کہ ا س میں مصرعوں کے اوزان میں کمی بیشی کسی خاص التزام کے تحت نہیں ہوتی جب کہ زیرِ بحث نظم میں بحرِ رجز مثمن سالم استعمال کی گئی ہے جس کا وزن ’’مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن ‘‘ ہے۔

اسی سال ستمبر ۱۹۲۷ء میں منصور کی نظم ’’محبت کا دن‘‘ بھی ہمایوں میں شائع ہوئی جو انگریزی کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ ہے لیکن شعریت کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

 

رفعتِ گردوں سے صبح ایک سنہری کرن

آئی لرزتی ہوئی کانپتی ڈرتی ہوئی

اور بکھرتی ہوئی لرزشِ سیماب پر

نہر کی ہر موج کے سینہ بے تاب پر

جیسے محبت سے چور ایک چھچھلتی ہوئی

عشق کے جذبات سے ایک چھلکتی ہوئی

کوئی نگہ ڈال دے چہرہ محبوب پر

 

۱۹۳۰ءمیں شوق مرادآبادی نے ایک نظم لکھی تھی جسکا عنوان ہے ’’صبح کا منظر ‘‘جو رسالہ ’’نگار‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔یہ نظم در اصل نظم طباطبائی کی نظم ’’گورِ غریباں ‘‘ کا چربہ ہے۔انہیں دنوں چند مزاحیہ نظمیں بھی لکھی گئیں جن میں مرزا عظیم بیگ چغتائی کا مضمون ’’پپیہے کی شہادت ‘‘ماہنامہ ’’ساقی ‘‘میں ۱۹۳۱ءمیں شائع ہوا۔ یہ مزاحیہ معرّا نظم سات بندوں پر مشتمل ہے جس میں کئی بندوں کے عنوانات بھی دئے گئے ہیں۔ یہ نظم، نظمِ معرّا کی ہیئت میں ایک دلچسپ تجربہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس نظم کا پہلا بند پیش کیا جاتا ہے:

 

جنگل کی ڈاک بنگلیا میں ہم تھک کر رات کو لیٹے تھے

پُرویا د ھر دھر چلتی تھی پیڑوں پر جھینگر گاتے تھے

اک سناٹے کے عالم میں خوشبو سے رات مہکتی تھی

کالے بادل سے چھم چھم چھم جب تارے آنکھ مچولی میں آنکھیں چمکا کر ہنستے تھے

 

اسی زمانے میں عبدالرحمٰن بجنوری نے ٹیگور کی ’’گیتانجلی‘‘ کے چند مقامات کا ترجمہ نظمِ معرّا میں کیا تھا جو رسالہ ’’اردو‘‘ میں اپریل ۱۹۲۵ میں شائع ہوا تھا۔یہ ترجمہ بعد میں ’’نیرنگِ خیال ‘‘ کے عید نمبر ۱۹۲۸ءمیں بہ عنوانِ ’’داعی اجل‘‘ شائع ہوا۔نظمِ معرّا کی ہیئت میں عظمت اﷲ خان نے بھی تجربہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک گیت کا ترجمہ کیا جو ’’سریلے بول‘‘ میں بے ردیف و قافیہ ‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ نظم دس مصرعوں پر مشتمل ہے جس پہلا،دوسرا،ساتواں اور آٹھواں مصرع بحر متقارب مثمن محذوف(فعولن فعولن فعولن فعل) میں ہیں اور باقی مصرعے ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر نظم کیے گئے ہیں۔ اس نظم کی ادبی اہمیت تو نہیں ہے لیکن تجربہ کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت ضرور ہے۔نظمِ معرّا کی ہیئت میں ایم۔ حسن لطیفی نے دو نظمیں لکھیں جس میں پہلی نظم ’’لین وُڈ میں خزاں ‘‘ رسالہ ’’مطالعہ‘‘ میں اگست ۱۹۳۲ء میں اور دوسری نظم ’’مہتاب زمستاں ‘‘ رسالہ ’’فلمکار‘‘ میں اپریل ۱۹۳۳ میں شائع ہوئیں۔

نظمِ معرّا کا دوسرا دور ۱۹۳۵ء کے آس پاس ختم ہو گیا لیکن اس دور میں بھی نظمِ معرّا کے سرمائے میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا کیوں کہ اس کا معیار بلند نہیں کیا جا سکا پھر بھی اس دور کی نظموں میں پہلے سے نسبتاًکچھ زیادہ پختگی،روانی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔تکنیکی اعتبار سے بھی دونوں دور کی نظموں میں فرق محسوس ہوتا ہے اس دور کی نظموں میں زیادہ تر مصرعوں کی ترتیب مثنوی کی شکل میں دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مصرع مصرع کر کے لکھنے کا انداز نہیں پایا  جاتا ہے۔اس دور کی نظموں میں فنی رچاؤ کے ارتعاشات ۱۹۳۵ء کے بعد کی معرّا نظموں میں نظر آتے ہیں لیکن اس وقت تک نظمِ معرّا کا فنی شعور شعرا میں پیدا نہیں ہوا تھا۔اس دور میں عام طور پر مانوس اور مقبول بحریں جیسے بحرِ رمل، بحرِ ہزج اور بحرِ رجز وغیرہ استعمال کی گئی تھیں جس کی وجہ سے ان نظموں میں روانی اور ترنم پایا جاتا ہے۔

دوسرے دور کے بعد کا دور اس لیے اہم ہے کہ اس دور میں نظمِ معرّا کے ساتھ ساتھ آزاد نظم بھی اردو شاعری میں متعارف اور رواج پانے کے بعد ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی۔ اس دور میں نظمِ معرّا کا آغاز یوسف ظفر، مخمور جالندھری، وشوا متر عادل اور بعض دوسرے نوجوان شعرا سے ہوا۔ان شعرا کے علاوہ آزاد نظم لکھنے والے شعرا نے بھی معرّا نظمیں لکیں۔ ان شعرا میں تصدق حسین خالد اور میرا جی وغیرہ خاص ہیں۔ راشد نے نظمِ معرّا کی ہیئت میں کوئی نظم نہیں لکھی لیکن ان کی بعض نظموں میں معرّا اور پابند نظم کے انداز نظر آتے ہیں۔ ۱۹۳۵ء کے بعد کی معرّا نظمیں لگاتار اور تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے لگیں اور مقبول ہونے لگیں۔ اس دور میں خالص معرّا نظموں کے ساتھ نیم معرّا نظمیں بھی لکھی گئیں جن میں پابند نظموں کی تھر تھراہٹیں بھی پائی جاتی ہیں۔ تصدق حسین خالد کی نظم ’’راہ دیکھی نہیں ‘‘ اور میرا جی کی نظم ’’کلرک کا نغمہ محبت‘‘ میں معرّا نظم اور آزاد نظم کا امتزاج ملتا ہے۔جب کہ قیوم نظر کی نظم ’’اپنی کہانی‘‘ میں معرّا نظم میں آزاد نظم کا انداز ہے۔اسی طرح تصدق حسین خالد کی نظم ’’صبحِ ازل‘‘ میں معرّا نظم میں مستزاد کا انداز ہے۔فیض احمد فیض اپنی بعض نظموں میں ترتیبِ قوافی کی پابندی نہیں کرتے اور اس کے استعمال میں تنوع پیدا کرتے رہتے ہیں مثلاً بیچ بیچ میں ایک دو معرا مصرعے بھی کہہ دیتے ہیں جس سے معرّا نظم کا دھوکا ہوتا ہے ورنہ ان کی تمام نظمیں پابند ہیں۔

نئے سماجی، سیاسی،تہذیبی اور مغربی افکار و اسالیب کے زیرِ اثر قدیم اصنافِ شاعری میں بھی ہر سطح پر تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں۔ یہی وجہ کہ محمد حسین آزاد شاعری کے موضوعات میں وسعت دینے کے علاوہ ہیئت میں تجربوں، تبدیلیوں اور اضافوں کے خواہاں تھے۔اس سلسلے میں انہوں نے عملی قدم اٹھایا اور اپنی مثنویوں کو بندوں میں تقسیم کیا۔ان بندوں میں مصرعوں کی تعداد برابر نہیں ہیں۔ مثلاً ان کی مشہور مثنوی ’’شبِ قدر ‘‘ میں کم سے کم چار مصرعوں کا اور زیادہ سے زیادہ سولہ مصرعوں کا بند ہے۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بندوں کی تقسیم خیال کے مختلف حصوں کے مطابق ہے۔ان کی نظموں میں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ہر نظم کے ابتدائی شعر تمہیدی ہوتے ہیں پھر اصل موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہیں جس سے ان کی نظموں میں قصیدوں کی جھلک آ گئی ہے۔اسی طرح مولانا حالی نے اپنی مشہور نظم ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ ہندی کی بحر میں لکھی ہے۔اس مثنوی کے کئی مصرعے ساقط الوزن ہیں۔ اکبر بنیادی طور پر قدامت پسند تھے لیکن ان کی شاعری میں روایت کی توسیع کا شعور ملتا ہے۔ان کی ایک نظم ’’دو تتلیاں ‘‘مثنوی کی ہیئت اور رباعی کی بحر میں ہے۔یہ ایک عجیب و غریب تجربہ ہے۔شوق قدوائی کی ایک نظم ’’عالمِ خیال ‘‘ مثنوی کے دائرے کا ایک نمایاں تجربہ ہے۔یہ نظم مثنوی کی بحر میں لکھی گئی ہے۔یہ نظم چار حصوں میں منقسم ہے اور چاروں کی بحریں مختلف ہیں۔ محمد حسین آزاد کی طرح اقبال نے بھی اپنی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ کو سات بندوں میں تقسیم کیا ہے اور یہ ساتوں بند سات خیالات کے جُز ہیں۔  یہ بھی ایک طرح کا تجربہ ہے۔

مرثیہ کی ہیئت میں بھی کئی طرح کے تجربے کیے گئے ہیں مثلاً حالی نے جو نظم ’’مرثیہ غالب‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی وہ کئی بندوں میں منقسم ہے۔ہر بند کا پہلا شعر مطلع ہے بعد کے اشعار غزل کی شکل میں ہیں اور آخری شعر دوسرے قافیہ میں ہے جو ٹیپ کے شعر کی طرح ہے۔اس کے ابتدائی بند قصیدے کی تشبیب کی طرح ہے۔اقبال نے بھی جو مرثیۂ داغ لکھا تھا وہ مثنوی کی بحر میں ہے۔یہ مرثیہ بھی کئی بندوں پر مشتمل ہے۔ہر بند میں اشعار کی تعداد مختلف ہے اور بند کا خیال بھی مختلف ہے۔حفیظ جالندھری نے بھی ایک مرثیہ ’’شہسوارِ کربلا‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس کی ہیئت بالکل نئی ہے۔یہ مرثیہ بھی کئی بندوں میں منقسم ہے اور ہر بند اپنی جگہ اوزان و قوافی کی ترتیب کا شاہکار ہے۔

نظم طباطبائی نے قصیدہ کی ہیئت میں زبردست تبدیلی کی ہے۔انہوں نے کئی ایسی نظمیں لکھیں جو قصیدہ کی طرز پر ہیں اور صنف کی اعتبار سے قصیدہ ہے لیکن یہ تمام نظمیں قصیدہ کی روایتی ہیئت میں نہیں ہیں۔ سالگرہ اور تخت نشینی کے قصیدوں میں ترتیبِ قوافی پہلے بند میں ’’الف الف الف الف‘‘،دوسر ے بند میں ’’ب ب ب الف‘‘ اور تیسرے بند میں ’’ج ج ج الف ‘‘ہے۔پہلے بند کے علاوہ باقی بندوں کے تین مصرعے ایک طرح کے قافیے میں ہیں اور چوتھا قافیہ مطلع کے بند کے مطابق ہے۔

عظمت اﷲ خان نے ہندی کی ہیئتوں کو اردو شاعری میں متعارف کرانے اور اپنانے کی پُر زور حمایت کی۔انہوں نے رباعی کے اوزان کے نعم البدل کے طور پر ماترائی چھند کے استعمال کی ترغیب دی۔ اس کے علاوہ وہ رباعی کو قطع بند نظم کی طرح وحدتِ مضمون کی ایک مسلسل کڑی بنا دینا چاہتے تھے۔ان کے خیال میں اگر ماترائی چھند کے اصول کو اختیار کر لیا جائے تو رباعی کے بحروں کی تعداد چوبیس سے بڑھ کر دس ہزار نو سو چھیالیس تک پہنچ جائے گی۔ عظمت اﷲ خاں نے اپنی نظموں میں ہندی بحروں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ان کی نظموں میں اردو اور ہندی بحروں کے علاوہ دونوں کا امتزاج بھی ہے۔

ہندی کے اثر سے اردو میں گیت اور گیت نما نظموں کا رواج ہوا جو ہیئت کے تجربے کی ایک کامیاب مثال ہے۔گیت اور گیت نما نظمیں ہیئت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف اور جدا گانہ اہمیت کے حامل ہیں۔ گیت در اصل ایک غنائی نظم ہے جس کے ہر بند کے کے فوراً بعد ایک ٹیک کے طور پر مصرع یا پنکتی ہوتی ہے۔یہ پنکتی بند کے مصرعوں کے کبھی برابر، کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے۔ بند کی آخری پنکتی اور ٹیک کی پنکتی مقفیٰ ہوتی ہے۔ہر بند کی پنکتی مقفیٰ ہونے کے باوجود ان کی ترتیبِ قوافی مختلف ہو سکتی ہے۔جن گیتوں میں ٹیک کی پنکتی نہیں ہوتی ہے اسے گیت نما نظم کہتے ہیں۔ گیت نما نظم کی ہیئت میں تجربہ کرنے والوں میں خود عظمت اﷲ خاں اور حفیظ جالندھری قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں نے کئی گیت نما نظمیں لکھیں۔ مثال کے طور پر عظمت اﷲ خاں کی ایک گیت نما نظم کا ایک ٹکڑا پیش کیا جاتا ہے۔

 

ایک تو شباب اور پھر اس کا نشہ نیا نیا

حسن پرست آنکھ تھی من مرا پاک صاف تھا

دام میں یاں نہ آئیے دل نہ یہاں لگائیے۔

 

حفیظ جالندھری کی لکھی ہوئی ایک گیت نما نظم پیش کی جاتی ہے:

 

میرے دل کا داغ

پیا ری میرے دل کا داغ

میں ہوں دل کے باغ کا مالی

لایا ہوں پھولوں کی ڈ الی

نازک نازک پھول ہیں جیسے اجلے اجلے داغ

ایسا ہی بے داغ ہے پیاری میرے دل کا داغ

پیاری میرے دل کا داغ

 

ان گیت نما نظموں میں ٹیک کا مصرع نہیں ہے لیکن باقی خصوصیتیں گیت جیسی ہیں۔

اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے مغربی ادبی تحریکات، افکار و نظریات سے متاثر ہو کر مغربی زبانوں کی نئی ہیئتوں کو اپنا کر اور اسے اردو شعر و ادب کا حصہ بنا نے کی کوشش کیں لیکن ان ہیئتوں میں تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی کیں۔ مثلاً سانیٹ، آزاد نظم،مختصر نظم اور ترائیلے وغیرہ کی ہیئتوں میں تجربے کا عمل اردو شاعری میں بہت ملتا ہے۔

سانیٹ غنائی شاعری کی ایک ایسی ہیئت کو کہتے ہیں جس میں مصرعوں کی تعداد چودہ ہوتے ہیں اور جس کی بحر و قافیہ کی ترتیب ایک خاص نظام کے تحت ہوتی ہے۔اس کے بندوں کی تعداد اور قافیے کی ترتیب مختلف ہوتی ہے۔اردو سانیٹ میں انگریزی سانیٹ کی طرح کوئی ایک بحر مخصوص نہیں ہوتی ہے۔اردو شاعروں نے سانیٹ میں بہت سی بحروں کو برتا ہے۔

عزیز تمنائی،جنہوں نے اردو میں سب سے زیادہ سانیٹ لکھے ہیں، ایک بحر کے اصول کو نہیں مانا ہے۔انہوں نے ’’برگِ نوخیز ‘‘ کے سانیٹوں میں مختلف بحروں کا استعمال کیا ہے۔اختر شیرانی، ن م راشد،سلام مچھلی شہری،احمد ندیم قاسمی اور عزیز تمنائی کے چند سانیٹوں میں کامیاب تجربے کی مثالیں ملتی ہیں لیکن زیادہ تر سانیٹوں میں کامیاب تجربے نہیں ہوئے ہیں۔ مثلاً مئی ۱۹۰۱میں حسرت موہانی کی نظم ’’بر بطِ سلمیٰ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس میں سانیٹ اور اسٹنزا کی تکنیک کا اثر ہے۔اس نظم کو سانیٹ نما نظم ضرور کہا جا سکتا ہے۔ویسے سانیٹ اردو میں سب سے پہلے اختر جونا گڑھی نے لکھا تھاجس کا عنوان ہے ’’شہرِ خموشاں‘‘ یہ سانیٹ ۱۹۱۴ء میں شائع ہوا تھا۔اس کے چند مصرعے پیش کیے جاتے ہیں۔

 

کیا ہی یہ شہرِ خموشاں دل شکن نظارہ ہے

کتنی عبرت خیز ہے اس کی یہ پر غم خامشی

ایک حسرت سی برستی ہے دمِ نظارگی

دیکھ کر جس کو دلِ مضطر بھی پارہ پارہ ہے

 

اس سانیٹ کی ترتیبِ قوافی ’’الف ب ب الف ‘‘ ہے۔

اختر جونا گڑھی کے بعد سانیٹ میں تجربہ کرنے والے شعرا میں ن م راشد، اختر شیرانی،  شائق وارثی بریلوی وغیرہ خاص ہیں جن کے کئی سانیٹ شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں بعض شعرا کے مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں جو صرف سانیٹ پر ہی مشتمل ہے۔ ان شعرا کے علاوہ احمد ندیم قاسمی،اختر ہوشیار پوری،طفیل ہوشیار پوری،تابش صدیقی،منوہر لالہادی اور سلام مچھلی شہری وغیرہ نے بھی اس کی ہیئت میں تجربے کیے ہیں۔

سانیٹ کے بعد اردو شاعری میں سب سے زیادہ آزاد نظم کی ہیئت میں تجربے کیے گئے۔آزاد نظم دراصل انگریزی کے فری ورس کا اردو ترجمہ ہے۔ فری ورس کی کوئی معین ہیئت نہیں ہوتی اور اس کا آہنگ بھی متنوّع ہوتا ہے۔اس کا آہنگ جذبہ و خیال کے اتار چڑھاؤ سے تشکیل پاتا ہے۔فری ورس کی اکائی رکن یا مصرع ہونے کے بجائے اسٹرافی ہوتا ہے جس میں تمام مصرعے ایک دوسرے سے پیوست ہو تے ہیں۔ چوں کہ آزاد نظم میں آہنگ کی بنیاد لہجے کی تاکیدوں پر رکھی جاتی ہے اس لیے نہ صرف مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں بلکہ مختلف بحروں کے امتزاج سے بھی تعمیر ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو محض نثری ترتیب سے قایم ہوتے ہیں۔ اس طرح فری ورس نظم اور نثر کے بیچ کی چیز ہوتی ہے جس میں وزن و قافیہ کی بندش سے چھٹکارا پانے کا جذبہ موجزن ہوتا ہے لیکن اس میں قافیہ کے اہتمام ممنوع بھی نہیں ہے۔اردو کی لسانی ساخت اور شعری مزاج کے باعث اردو شعرا کے لیے اتنی آزادی ممکن نہیں ہے۔اردو آزاد نظم میں مصرعے جذبہ و خیال کے نشیب و فراز کے ہم قدم تو ہوتے ہیں لیکن اس میں کسی ایک مخصوص بحر کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔یعنی بحر کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے۔اس میں مصرعوں کی ترتیب پابند نظموں کی طرح معّین ارکان پر نہیں ہوتی۔ان کا انحصار جذبہ و خیال کے ایک جزو کی تکمیل پر ہوتا ہے۔جذبہ خیال کے بہاؤ کے تحت مصرعوں کے ارکان گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں

اردو میں آزاد نظم نگاری کا باقاعدہ آغاز پہلی جنگِ عظیم کے بعد ہوا اور شعرا اس کی طرف رجوع ہوے مگر عام خیال یہ ہے کہ اردو میں تصدق حسین خالد نے سب سے پہلے آزاد نظم لکھی۔ویسے عبدالحلیم شرر کے منظوم ڈراموں میں آزاد نظم کا اولین نقش نظر آتا ہے۔شرر کے منظوم ڈرامے، معرّا نظموں کے ذیل میں آتے ہیں۔ خود شرر نے بھی انہیں نظمِ معّرا ہی قرار دیا تھا لیکن ان نظموں کے ٹکڑوں میں آزاد نظم کی پوری خصوصیت موجود ہیں۔ اس کی ہیئت آزاد نظم کی سی ہے۔ ان کے ڈراموں میں اکثر ایسے ٹکڑے ملتے ہیں جنہیں نثری ترتیب سے قریب کرنے کے بعد آزاد نظم وجود میں آ جاتی ہے۔

عظمت اﷲ خاں نے شیلی کی نظم ’’کلا و ڈ ‘‘ کے چند مصرعوں کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔اس کی تکنیک اور ہیئت آزاد نظم کی تکنیک اور ہیئت سے کافی ملتی ہے۔جذبہ اور خیال کے بہاؤ اور دباؤ سے مصرعوں کی لمبائی بھی یکساں نہیں ہے۔اس نظم کے مصرعے ملاحظہ ہوں :

 

ہاں ہاں میں ہوں لاڈلا بیٹا سندر پر تھی اور پانی کا

امبر نے ہے گود میں پالا

میں گزرا ہوں مساموں میں سے،  ساحل کے اور سمندر کے

روپ بدلتا پر نہیں مر تا


تصدق حسین نے ۱۹۲۵ء کے آس پاس اردو نظم میں آزاد نظم کے تجربے کا آغاز کیا تھا اور شاعری کی مروجہ اسالیب سے مختلف راہیں نکالیں تھیں۔ تصدق حسین خالد کے بعد ن م راشد، میرا جی،  محمد دین تاثیر، حفیظ ہوشیار پوری، مجید امجد، یوسف ظفر، علی جواد زیدی وغیرہ شعرا نے آزاد نظموں کی طرف توجہ کیا۔  آزاد نظم کی ہیئت کو معیار و وقار عطا کرنے میں ن م راشد اور میراجی کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ ن م راشد کی پہلی آزاد نظم ’’جرعاتِ پرواز ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔اس نظم نے اس دور کے تمام ادیبوں اورشاعروں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھالیکن بعض نقادوں کے مطابق ن م راشد کی پہلی آزاد نظم ’’اتفاقات‘‘ تھی جو ۱۹۳۵ءمیں شائع ہوئی تھی جس نے تمام ادیبوں اور شاعروں کو چونکا دیا۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

 

آج اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی

جسم ہے خواب سے لذت کشِ خمیازہ ترا

تیرے مژگاں کے تلے نیند کی شبنم کا نزول

جس سے ڈھل جانے کو ہے غازہ ترا

زندگی تیرے لیے رس بھرے خوابوں کا ہجوم

زندگی میرے لیے کاوشِ بیداری ہے

اتفاقات کو دیکھ

اس زمستاں کی حسین رات کو دیکھ

 

اس نظم میں آزاد نظم کی تکنیک اور ہیئت کا پورا رچاؤ اور حسن موجود ہے۔

حفیظ ہوشیار پوری کی نظم ’’بے وفائی ‘‘ ۱۹۳۴میں شائع ہوئی جو بائرن کی نظم کا منظوم ترجمہ ہے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

 

شکستہ دل

خموش آنکھوں میں آنسو

ہوئے اس طرح برسوں کے لیے ہم

جدا

کمہلا گئے تھے

 

فرطِ غم سے

ترے گلہائے عارض

لمس جن کا

رواں کرتا تھا ہر افسردگی

رگ و پے میں

کھلی اب یہ حقیقت

غمِ انجام کا اک آئینہ تھا

جدائی کا وہ لمحہ

 

آزاد نظم کا آغاز ۱۹۰۱ء میں عبد ا لحلیم شرر اور عظمت اﷲ خاں کے ہاتھوں ہوا۔ان کے کامیاب تجربوں کے بعد آزاد نظم لکھنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آزاد نظم اردو شاعری میں اظہار کا ایک مقبول و مشہور وسیلہ بن گیا۔

اردو میں آزاد نظم کے منتقل ہونے کے بعد ’’ترائیلے‘‘ اردو میں متعارف ہوئی۔ ترائلے فرانسیسی شاعری کی ایک خاص ہیئت ہے جس میں مصرعوں کی تعداد آٹھ ہوتی ہے۔ان مصرعوں میں دو قافیے برتے جاتے ہیں۔  اس کا پہلا، چوتھااور ساتواں مصرع ایک ہی ہوتا ہے اور دو سرا اور آٹھوا ں مصرع بھی ایک ہی ہوتا ہے۔اسکی ترتیب ’’الف ب الف الف الف ب الف ب‘‘ہوتی ہے۔ترائلے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جا تا ہے کہ جن مصرعوں کی تکرار ہو وہ موقع محل کے مطابق با معنی ہوں اور وہ فضول معلوم نہ ہوں۔ ترائیلے کے فن کی کامیابی کا انحصار خیال کی وحدّت اور مصرعوں کے ربطِ کامل پر ہوتا ہے۔اردو شاعری میں ترائلے کے موجد عطا محمد خاں شعلہ ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ ترائیلے کی ہیئت میں ایک نظم ’’زندگی‘‘ لکھی تھی جو ماہنامہ شاعر میں نومبر ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم ان کے ایک تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے اپنے آپ کو ترائیلے کا پہلا شاعر قرار دیا ہے۔یہ نظم پیش کیا جاتا ہے:

 

آگے سوچیں تو مہ و مہر کی عمر وں سے طویل

پیچھے دیکھیں تو ہو اک پل کا تماشہ جیسے

ہے کھڑی بیچ میں اک عمرِ گریزاں کی فصیل

آگے سوچیں تو مہ و مہر کی عمروں سے طویل

پیار کر نے کو تڑپ اٹھیں کبھی اتنی جمیل

ماہرِ فن نے کوئی بت ہو ترا شا جیسے

آگے سوچیں تو مہ و مہر کی عمر وں سے طویل

پیچھے دیکھیں تو ہو اک پل کا تماشہ جیسے

 

عطا محمد شعلہ کے بعد نریش کمار شاد نے ترائیلے کی ہیئت پر توجہ دیا۔  ترائیلے کی ہیئت میں ان کی یہ نظم ملاحظہ ہوں :

 

میسر تو نہیں ہے شادمانی

مگر دل انتقاماً شادماں ہے

بہت پُر درد ہے میری کہانی

میسر تو نہیں ہے شادمانی

نہیں مجھ پر کسی کی مہربانی

خدائی کیا خدا نا مہربان ہے

میسر تو نہیں ہے شادمانی

مگر دل انتقاماً شادماں ہے

 

عطا محمد خاں شعلہ کے علاوہ اس کی ہیئت میں فرحت کیفی نے بھی طبع آزمائی کی تھی جن کا ایک مجموعہ کلام’’پتہ پتہ ّ بوٹا بوٹا‘‘ شائع ہو چکا ہے۔کئی دوسرے شعرا نے بھی ترائیلے لکھے ہیں لیکن اس فن کو زیادہ مقبولیت نہیں مل سکی کیوں کہ اس کی ہیئت سخت ہیئتی اصولوں کی پابند ہے۔

انگریزی شاعری کے زیرِ اثر اردو میں جدید تصورِ نظم آیا جس کے تحت اردو میں مختصر نظمیں رائج ہوئیں۔ مختصر نظم قطعہ اور رباعی سے مختلف ہوتی ہے۔۱۹۲۲ء سے ۱۹۴۷ء تک مختصر نظم کو صرف مختصرہونے کی وجہ سے مختصر نظم کہی جاتی تھی لیکن ۱۹۴۷ء کے بعد اسے اردو شاعری کی نئی ہیئت قرار دے دی گئی۔مختصر نظم میں جذبہ کا ارتکاز اور بیان کے ایجاز کا ہونا ضروری ہے۔

مختصر نظم کا اولین نمونہ سجاد حیدر یلدرم کی نظم ’’شملہ کالکہ ریلوے اسٹیشن پر ایک نظارہ ‘‘ ہے جو ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی تھی۔نظم ملاحظہ ہوں :

 

ماتھے پہ بِندی آنکھ میں جادو

ہونٹوں کی بجلی گِر تی تھی ہر سو

چال لچکتی بات بہکتی

جیسے کسی نے پی ہو دارو

انکھڑیاں ایسی جن میں تھے رقصاں

لمحے میں رادھا لمحے میں راہو

ایسی بھڑک تھی خلق تھی حیراں

ریل پہ آیا کہاں سے آہو

 

اسی طرح کی یک مختصر نظم عبدارحمٰن بجنوری نے بھی لکھی تھی جو۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی تھی۔نظم ملاحظہ ہوں :

 

جامن کے سایہ کے تلے

جوئے رواں اور نیم جاں

شامل ہوں جس میں سب مرے

بچے اور ان کی نیک ماں

 

پیغمبری ہو یا شہی

یا ہو حیاتِ جاوداں

مجکو تو بس دیجو یہی

آبِ زلال اور نیم جاں

 

اس کے بعد مخمور جالندھری، خورشید الا سلام کے مجموعہ کلام شائع ہوئے اورس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔

جاپانی شاعری کے وسیلے سے اردو شاعری میں جاپانی شاعری کی ہیئتیں متعارف ہوئیں۔ جاپانی شاعری کی ہیئت اردو شاعری کی ہیئت سے بالکل مختلف ہے۔جاپانی شاعری میں قافیہ اور بحر نہیں ہوتی ہے لیکن اس میں آہنگ ضرور ہوتا ہے۔یہ آہنگ اردو کے آہنگ سے مختلف اور پیچیدہ ہوتا ہے۔جاپانی شاعری کی جو ہیئت اردو شاعری میں برتی جا تی ہے اسے ہائکو کہا جاتا ہے۔ہائکو تین مصرعوں کی نظم ہوتی ہے جس کا پہلا مصرع پانچ رکن کا،دوسرا سات رکن کا اور تیسرا پانچ رکن کا ہوتا ہے۔تینوں مصرعوں کے رکن کے ارکان کی کل تعداد سترہ (۱۷) ہوتی ہے۔

ہائکو جاپانی شاعری میں طویل نظم بھی ہوتی ہے اور مختصر نظم بھی اور آزاد بھی۔ ان مختصر نظموں میں وسیع معنویت بھی ہوتی ہے۔ہائکو کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔

 

ننھی چڑیا

راستہ سے میرے ہٹ جاؤ

ایک گھوڑا آرہا ہے

 

دوسری زبانوں کے ادب سے جتنی بھی ہیئتیں اردو ادب میں آئی ہیں ان کو من وعن نہیں اختیار کیا گیا بلکہ کچھ تبدیلیوں کے بعد اسے اپنایا گیا۔نثری نظم بھی ایسی ہی ایک ہیئت ہے جسے کافی بحث و مباحث کے بعد تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اردو شاعری میں اپنا لیا گیااور اسے نثری نظم کا نام دیا گیا۔نثری نظم دراصل انگریزی کے پروز پوئم کا ترجمہ ہے جسے کچھ ناقدین ادب نے ’’ادب لطیف ‘‘ یا ’’نثرِ لطیف‘‘ کہتے ہیں اور چند ناقدین نے اسے خالص ایک علاحدہ صنف قراع دیتے ہیں۔ بہر حال اگر کوئی تجربہ جیتا جاگتا ہو اور اعتبار و استناد رکھتا ہو تو اسے کسی بھی ہیئت میں ظاہر کیا جاسکتا ہے۔نثری نظم کا کلیدی عنصر فکرِ محسوس کی توانائی ہے۔اس میں غزل جیسا فکرِ محسوس کا ارتکاز اور ایجاز ہو تا ہے۔نثری نظم قاری کے لیے ایک پوری کیفیت عطا کرتی ہے۔نثری نظم لکھنے والوں کے بہاؤ کو فن اپنی گرفت میں کبھی نہیں لیتا ہے۔

اس صنف کو اردو میں فروغ دینے والوں میں سجاد ظہیر، میرا جی، بلراج کومل،محمد حسن،خورشید الاسلام، ندا فاضلی، قاضی سلیم،زبیر رضوی، عادل منصوری،باقر مہدی،خلیل الرحمٰن اعظمی،احمد ندیم قاسمی،شہر یار،مخمور سعیدی، کشور ناہید اور محمد صلاح الدین پرویز قابلِ ذکر ہیں۔

خورشید الاسلام کی نثری نظم کا مجموعہ ’’جستہ جستہ ‘‘ پہلے مجموعہ کی حیثیت سے آیا۔ موجودہ دور میں محمد صلاح الدین پرویز نثری نظم کی ہیئت میں نئے نئے تجر بے کرنے والے شاعروں میں بڑا نام ہے۔ ڈاکٹر مولا بخش نے اپنے مضمون ’’نثری نظم کے تجربے کا ایک شاعر‘‘ میں پاکستان کے ایک معتبر شاعر نصیر احمد ناصر کی نظموں کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہوے نثری نظم کی شناخت اور معیار پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔لکھتے ہیں کہ :

’’دراصل نثر میں شاعری کا رواج بڑا پرانا ہے جو نثرنگار اپنی نثر میں جذبے کے وفور کے تحت یا رومانی خیالات کے اظہار کے تحت رنگین،مختلف النوع صفات،مبالغہ اور حسین استعارات کی بھرمار کرتا تھا،ناقدین نے اس قبیل کی نثر کو نثر رنگین قرار دیا اور پھر اس نثر کو نثر میں شاعری کا نام دیا۔ نثری شاعری یا نثری نظموں کی ابتدا یونہی ہوئی مگر نثری نظم نثر میں محض شاعری نہیں ہے بلکہ شاعری کے تصورات میں انقلاب کا نام بھی ہے۔‘‘ (استعارہ، سہ ماہی،نئی دہلی،۲۵ جولائی،اگست،ستمبر ۲٠٠٠، دوسرا اڈیشن،ص۔۲۶۷)

نثری نظم پر جو اعتراض ہوتے ہیں اس کا تعلق اکثر و بیشتر شعریت سے ہے۔معاصر نظم نگاروں کے یہاں نثری نظم کے جو نمونے ملتے ہیں وہاں شعریت سے متعلق جو اصول نظر آتا ہے وہ قدیم تصور شعر سے انحراف کی حیثیت رکھتا ہے مثلاّ جب ہم اخترالایمان کو پڑھتے ہیں تو نظم کی زبان میں زبردست Deviationکا اندازہ ہوتا ہے۔یہاں غزل کا ڈکشن جو جدیدیت سے تعلق رکھنے والے شاعروں کے یہاں حد درجہ دکھائی دیتا تھا۔اختر نے کھردری نثر میں شعریت پیدا کر کے یہ بتایا ہے کہ نظم قائم کرنے کے لیے الگ نوع کی زبان کی سخت ضرورت ہے۔اختر نہ صرف ہیئت بلکہ زبان میں بھی تجربے کی مثال پیش کرتے ہیں۔ ’’ایک لڑکا‘‘ پروفیسر محمد حسن کی نظر میں نثری نظم کی بھی ایک مثال ہے تو وہیں اختر کی نظم ’’کرم کتابی‘‘ معاصر ادب وشعر کے رجحانات اور فکروفلسفے یعنی ہیئت کے فلسفے کو پیش کرتی ہے۔نظم ملاحظہ ہو:

 

کتاب راہ نما ہے نہ منزلِ مقصود

یہ صرف نقشِ قدم ہے گزرنے والوں کا

نئے نقوش جسے محو کرتے رہتے ہیں

ہمارے ذہنوں سے ہر روز اک شگوفہ نیا

یہاں پہ کھلتا ہے یہ رسم ہے یونہی تازہ

اور سائرس،  نہ زیست، آج کوئی زندہ نہیں

وہ روزنامچہ مردوں کا وہ عمل نامہ

جسے خداؤں نے لکھا تھا کھو گیا ہے کہیں

منوسمرتی نہ توریت سب وہ ہنگامہ

بگولہ بن کے اٹھا تھا جو سو گیا ہے کہیں

 

موجودہ دور میں اختر ا لایمان کے بعدجن شاعروں نے نظم میں نت نئے تجربے کیئے ہیں ان میں صلاح الدین پرویزکا نام نمایاں طور پر اور عموماًستیہ پال آنند، کمار پاشی،عمیق حنفی اور عنبر بہرائچی کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔صلاح الدین دراصل ایک ما بعد جدید شاعر ہیں جن کے یہاں مابعد جدیدیت کے واضح نقوش مثلاً بین المتنیت کے علاوہ تہذیب و ثقافت کی گہری بصیرت نیز جڑوں کی تلاش پر زور ہے۔صلاح الدین پرویز نظم میں ایک ساتھ کئی تجربے کرتے ہیں اور یہ صرف بین المتنیت کے اقدار سے قریب ہونے کی وجہ سے ہے۔وہ نثری نظموں میں ما قبل متون یعنی با وزن اشعار کو اس طرح سے جڑ دیتے ہیں کہ نظم جاگ اٹھتی ہے اس پر طرہ یہ کہ ان کی زبان لوک بھاشایعنی جڑوں کی خمیر سے تیار ہوتی ہے۔پوربیا،بھوجپوری،پنجابی،اور اردو کا خالص انداز ان کی نظم کی زبان کو پوری اردو شاعری سے الگ کر دیتا ہے۔صلاح الدین نے نثری نظم کو واقعتاایک ایسی شاعری بنا دی ہے جسے نثری نظم کا جواز کہا جا سکتا ہے۔مثالیں بہت ہیں میں صرف ان کی نظموں میں پائے جانے والے موسم کے احساس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ صلاح الدین پرویز نے کئی نثری وشعری قدیم اصناف کا احیاء کیا ہے اور اسکی ہیئت میں انوکھے تجربے کیے ہیں۔ ان کے مشہور مجموعہ کلام’’آتما کے پتر پرماتما کے نام‘‘ سے ماخوذ یہ بند ملاحظہ کریں :

 

جیسے ساون کی رم جھم کے پیچھے

بھادوں کے سانپوں کا ڈیرہ ہوتا ہے

جیسے کنوار کے سنًاٹے کے پیچھے

کارتک کے چندا کا لہرا ہوتا ہے

جیسے اگہن کی سردی کے پیچھے

پوس کا ڈسنے والا کہرہ ہوتا ہے

جیسے ماگھ کی مدماہٹ کے پیچھے

پھاگن کی ہولی کا پھیرا ہوتا ہے

جیسے ہر دو آنکھوں کے پیچھے

اک سپنا ہوتا ہے

ویسے ہی ہر موسم میں وہ تیرے موسم ہوں یا میرے موسم، اے نظم اے میری ازلی محبوبہ میں ہوتا ہوں

 

آج کی نظم نثر کے قریب ہے تو کوئی حیران کن بات نہیں کیوں کہ سر سید کے بعد سے ہی نظم پر نثر کے اثرات نماں ہونے لگے جس کی طرف اس مضمون میں تفصیل سے میں نے ذکر کیا ہے۔دراصل نثر کی قسمیں ہی اب نثری نظم بن گئی ہیں۔ میرا اشارہ نثر مرجز اور نثر مقفیٰ یا دیگر اقسام نثر کی طرف ہے جس میں رنگین نثر بھی شامل ہے۔آج میڈیاتماشہ کی وجہ سے ہر چیز دیکھنے والا کلچر سے وابستہ ہے۔ اس لیے بصارتی احساسات نظموں کا طرۂ امتیاز بن چکے ہیں جو کئی معاصرشاعروں کے یہاں محسوس کیے جا سکتے ہیں یعنی نظموں میں مونتاژ کی تکنیک اور مصوری نیز فلم کی کئی تکنیکوں کا استعمال ہم کئی شاعروں کے یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ اس رو سے ہم کہ سکتے ہیں کہ آج کی نظم ہیئتی سطح پر نت نئے تجربوں سے دو چار ہے جس کے لیے باضابطہ ایک اور مضمون کی درکار ہے جس میں ان تجربوں کا تجزیہ کیا جا سکے۔

٭٭٭

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

5.0 "4"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

محمد رمضان
دیکھ ادھر اے راہبِ صحرا نشیں نیک خوُ رہبری کو میری اس صحرائے وحشت ناک میں واں جہاں وہ شمع روشن کر رہی ہے دشت کو جاں فزا ہے جس کا نور اس جائے وحشت ناک کو یہ نظم مل سکتی ہے؟

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔