10:21    , پیر   ,   06    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

19380 3 0 14.7

شکیل الرّحمٰن

تصوّف کی جمالیات اور اس کی رُومانیت۔۔۔ دو امتیازی جہتیں

رقص کرتے  ہوئے  حسین ابن منصور الحاج سوُئے  دار جا رہے  تھے، اُنھیں  ’انا الحق‘ کہنے  کی سزا ملنے  والی تھی۔

          جو لوگ وہاں  کھڑے  تھے  وہ ان پر پتھر پھینک رہے  تھے۔

          منصور لہولہان تھے، لہو کا پیکر بن گئے  تھے۔

          ’انا الحق‘ کی آواز اُن کے  رقص کا آہنگ۔۔۔ دونوں  ایک دوسرے  میں  جذب تھے، لہو کے  چھینٹے  اس آواز کے  ساتھ اِدھر اُدھر بڑی تیزی سے  پڑ رہے  تھے  ’انا الحق انا الحق‘ وہ ہنستے  جا رہے  تھے۔

          ان ہی لوگوں  کے  درمیان جو وہاں  کھڑے  پتھر پھینک رہے  تھے، ایک شخص تھا جو منصور کو بخوبی جانتا تھا  اور  یہ بھی جانتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے  ہیں۔ سوئے  دار جاتے  ہوئے  وہ رقص کیوں  کر رہے  ہیں اور یہ بھی جانتا تھا کہ ’انا الحق‘ کی آواز کیوں  گونج رہی ہے۔ وہ جانتا تھا منصور بے  قصور ہیں۔ حسین ابن منصور الحاج وہاں  ہیں  کہاں، وہاں  تو صرف اللہ، کی آواز ہے۔ منصور کا رقص تو اس آواز کا مترنم تحرّک ہے، اس آواز سے  جو سرمستی پیدا ہوئی ہے  اس کا متحرّک نقش ہے۔

          وہ شخص جو اُن لوگوں  کے  درمیان کھڑا تھا۔۔۔ جو  پتھر پھینک رہے  تھے۔

          آگے  بڑھا  اور  اس نے  آہستہ سے  ایک خوبصورت پھول منصور کی جانب پھینک دیا۔

           اور  گم ہو گیا لوگوں  کے  درمیان۔۔۔ خوفزدہ تھا، کوئی دیکھو نہ لے  پتھروں  کی بارش میں  خوبصورت پھول کس نے  پھینکا ہے۔

          حسین ابن منصور الحاج جو سنگ باری کے  درمیان لہولہان تھے۔

          جو رقص کرتے  ہوئے  اپنی زندگی کا سب سے  خوبصورت جشن منا رہے  تھے۔

          جو مسلسل ہنس رہے  تھے، ہنستے  جا رہے  تھے۔

          اچانک خاموش ہو گئے۔

           اور  پھر اُن کی آنکھوں  سے  آنسو کے  قطرے  ٹپکنے  لگے۔

          پاس کھڑے  ایک شخص نے  دریافت کیا ’’ابھی تو آپ ہنس رہے  تھے، لہولہان ہونے  کے  باوجود آپ کا رقص جاری تھا، آپ کی آواز گونج رہی تھی۔ یہ اچانک کیا ہوا رونے  کیوں  لگے؟‘‘

          کسی شخص کے  پھول پھینکنے  کے  بعد ہی آپ اچانک رونے  لگے  کیوں؟

          منصور نے  جواب دیا۔

          ’’جس شخص نے  پھول پھینکا ہے، جانتا ہے  میں  بے  قصور ہوں، لیکن اس میں  اتنا حوصلہ نہیں  کہ وہ ان تمام لوگوں  کے  سامنے، جو مجھ پر پتھر پھینک رہے  ہیں، کہہ سکے  منصور بے  قصور ہے، جو لوگ پتھر پھینک رہے  ہیں  وہ بے  خبر ہیں، میں  اُن کے  لیے  دعا کر رہا ہوں، اللہ سے  کہہ رہا ہوں  انھیں  معاف کر دے  یہ بے  خبر ہیں۔ حقیقت نہیں  جانتے، معصوم ہیں، سب لوگ جو مجھ پر اس طرح مسلسل پتھر پھینک کر لہولہان کیے  جا رہے  ہیں، تم ہی بتاؤ اُس شخص کے  لیے  اللہ سے  کیا کہوں  جو جانتا ہے  کہ میں  بے  قصور ہوں، جس شخص میں  یہ حوصلہ نہ تھا کہ کہہ سکے  منصور بے  قصور ہے  اس شخص کے  لیے  اللہ سے  کیا مانگوں؟ میری آنکھوں  سے  جو یہ آنسو ٹپک رہے  ہیں  وہ اسی لیے  کہ ایک پھول پھینک کر یہ تو بتا گیا کہ میں  بے  قصور ہوں  لیکن یہ حوصلہ پیدا نہ کر سکا کہ لوگوں  سے  کہہ سکے  کہ منصور بے  قصور ہے!‘‘

          مولانا رُومی نے  کہا۔۔۔ بہادر اپنے  لہو میں  رقص کرتے  ہیں  رقص اندر خونِ مرداں  کنند

مطرباں  شاں  از دروں  دَف می زنند

بحرہا در شورشاں  کف می زنند

تو نہ بینی بر گہا بر شاخہا

کف زناں  رقصاں  ز تحریکِ صبا

تو نہ بینی لیک بہر گوشِ شاں

برگہا بر شاخ شد کف زن عیاں

تو نہ بینی بر گہا را کف زدن

گوشِ دل باید نہ ایں  گوشِ بدن

(مولانا رُومی)

اُن کے  مطرب اندر سے  دف بجاتے  ہیں، سمندر اُن کے  شور میں  تالیاں  بجاتے  ہیں، تو نے  شاخوں  پر پتوں  کو نہیں  دیکھا ہے، بادِ صبا کی حرکت سے  ناچتے  تالیاں  بجاتے  میں، تجھے  نظر نہیں  آتا لیکن اُن کے  کان کے  لیے  شاخوں  پر پتے ّ آپس میں  ٹکراتے  ہیں، تالیاں  بجاتے  ہیں، پتوّں  کا رقص تیری آنکھیں  نہیں  دیکھتیں، پتوّں  کی تالیوں  کی آواز تجھے  سنائی نہیں  دیتی۔

          منصور جیسے  صوفی سوئے  دار بڑھتے  ہوئے  جب اپنے  لہو میں  رقص کرتے  ہیں  تو اس میں  تمام اشیاء و عناصر کا رقص شامل ہو جاتا ہے، اُن کے  نغمے  شامل ہو جاتے  ہیں، اُن کا آہنگ اس میں  شامل ہو جاتا ہے، ایسا رقص زندگی کے  انتہائی حیرت انگیز تجربے  کا رقص ہے  جو مسرّت  اور  شادمانی  اور  جشنِ زندگی کی علامت ہے۔ اس رقص میں  زندگی کا حسن ہر جانب بکھر نے  لگتا ہے، یہ رقص باطن کی گہرائیوں  سے  باہر آتا ہے۔ وہ مطرب بھی ہوتے  ہیں  جو وجود کے  اندر دَف بجاتے  ہیں اور دَف کی آواز باہر ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔ یہ تصوّف کی جمالیات  اور  اس کی رُومانیت کی بلندی، وسعت، گہرائی  اور  تہہ داری کی ایک انتہائی روشن  اور  ارفع جہت ہے۔

           اور  دوسری جہت یہ ہے:   برکشا گنجینۂ اسرار را     (مولانا رُومی)

                                             تمام اسرار کا راز کھول دے!

          پہلی جہت کا جلال و جمال  اور  اس کی رُومانیت یہ ہے  کہ منصور اپنے  پُر اسرار پُر نور تجربے اور اس کے  رَس کو لیے  رقص کرتے  ہوئے  سوئے  دار چلے  گئے  راز راز ہی رہا، کھلا نہیں، وجدان نے  جو پایا تھا اس کا اسرار، اسرار ہی رہا۔ خالقِ کائنات کے  جلال و جمال کے  تعلق سے  کچھ سرگوشیاں  ہوئیں اور بس، راز سینے  میں  چھپا ہی رہا۔

           اور  دوسری جہت کا جلال و جمال  اور  اس کی رُومانیت یہ ہے  کہ مولانا رُومی یہ کہتے  ہوئے  آتے  ہیں:

تمام اسرار کا راز کھول دے

برُکشا گنجینۂ اسرار را!

پھر وہ زندگی کی سچائیوں اور اپنے  وجدانی تجربوں  سے  آشنا کرتے  جاتے  ہیں۔ وہ بھی رقاّص ہیں، اُن پر بھی وجد طاری ہوتا ہے، وہ بھی گھومتے اور چکر لگاتے  ہیں۔ انھیں  Whirling Dervishکہا جاتا ہے  کہ جنھوں  نے  اس رقص کی روایت قائم کی۔ انسان کے  وجود  اور  زندگی کی سچائیوں  کو سمجھاتے  ہیں:

اوّل ہر آدمی خود صورت است

بعد ازاں  جاں  کو جمال سیرت ست

اوّل ہر میوہ جز صورت کے  ست

بعد ازاں  لذّت کہ معنی ولیست

(مثنوی مولانا روم دفتر سوم)

یعنی انسان کی ابتدا خود صورت ہے اور اس کے  بعد جان ہے  جو باطن کا جمال ہے، ہر میوے  کی ابتداء جز صورت کے  کیا ہے  اس کے  بعد لذّت ہے  جو اس کے  معنی ہیں۔

 

          مولانا رُومی نے  باطن کی تو انائی  اور  وجود کی خوشبو کا احساس طرح طرح سے  دیا ہے، کہتے  ہیں  جس طرح ہرن کے  بچے ّ کو کچھ دیر ماں  کے  قدموں  کی ضرورت ہے  اس کے  بعد خود اس کا نافہ اس کا رہنما بن جاتا ہے، اسی طرح انسان اپنے  وجود کی خوشبو کو جان لیتا ہے اور یہ خوشبو اس کی رہنما بن جاتی ہے:

چند گاہش گامِ آہو درخورست

بعد ازاں  خود نافِ آہو رہبرست

اپنے  وجدان  اور  اپنے  ’وژن‘ پر اعتماد ضروری ہے، باطن کی تو انائی  اور  وجود کی خوشبو غیر معمولی نعمت ہے، نافہ کی خوشبو پر ایک منزل چلنا  چکر کی سیکڑوں  منزلوں  سے  بہتر ہے:

رفتنِ یک منزلے  بر بوئے  ناف

بہتر از صد منزلِ گام و طواف

وجود کی خوشبو اللہ سے  قریب کرتی ہے، یہ خوشبو  اور  خوشبو کا پراسرار رِشتہ ہے، خوشبو جو دل میں  ہوتی ہے، معبودِ حقیقی تک پہنچا دیتی ہے۔ اس سے  معارف کے  دروازے  کھلتے  ہیں، جو عارف ہوتے  ہیں  اُن کے  لیے  یہ دل دیوار نہیں  دروازہ ہے، پتھر نہیں  موتی ہے۔ ہم سب جو کچھ آئینے  میں  دیکھتے  ہیں  ایک عارف لوہے  کے  ٹکڑے  میں  اس سے  قبل دیکھ لیتا ہے۔ یہ دل بہت سے  آفتابوں  کا مشرق ہے:

آں  دلے  کو مطلعِ مہتابہا ست

بہر عارف فتحت ابوابہا ست

با تو دیوار است و با ایشاں  درست

با تو سنگِ و عزیزاں  گوہرست

آنچہ تو در آئینہ بینی عیاں

پیر اندر خشت بیند پیش ازاں

پیر ایشانند کایں  عالم بنود

جانِ ایشاں  بود در دریائے  جود

پیش ازیں  تن عمرہا بگذاشتند

پیشتر از کشتِ بر برداشتند

پیشتر از نقشِ جاں  پذ رفتہ اند

پیشتر از بحر دُرہا سُفتہ اند

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

یہ کہتے  ہوئے  ہم رموز و اسرار کے  کھولنے  والے  ہیں، یہی ہمارا کام ہے  کہ اسرار کو پوشیدگی سے  باہر لے  آئیں:

کاشف السریم و کارِ ما ہمیں

کایں  نہا نہا را بر آریم از مکیں

اُنھوں  نے  یہ بتایا ہے  کہ علم سب سے  بڑی دولت ہے، علم و عرفان ہی سے  انسان لوہے  کے  ٹکڑے  میں  رونما ہونے  والے  واقعات کا مشاہدہ کر لیتا ہے، کھیتی سے  پہلے  ہی پھلوں  کا رَس چکھ لیتا ہے، اپنے  نافہ کی خوشبو پر چلتے  ہوئے  آہنگ  اور  آہنگ کی وحدت کا عرفان حاصل کر لیتا ہے۔ مولانا رُومی نے  کائنات کے  آہنگ  اور  اس کی پراسرار موزونیت کو شدّت سے  محسوس کرتے  ہوئے  یہ فرمایا ہے  کہ انسان نے  جو ساز بنائے  ہیں  وہ آفاقی ساز سے  ملتے  جلتے  ہیں، ’ترم‘ ہو یا ’تری‘، ’ڈھول‘ ہو یا ’نوبت‘ ان کی تند و تیز آواز  اور  ان کے  تھپتھپاتے  ہوئے  آہنگ  اور  آفاقی آواز و آہنگ میں  ایک پُر اسرار رشتہ ہے۔ ہم نے  آفاقی و کائناتی نغموں  کی جو دلکش  اور  شیریں  لہروں  کو پایا ہے، اُن ہی سے  اپنے  ساز کی تخلیق کی ہے، آواز تندو تیز ہو یا اتنی بلند کہ اس میں  للکار کی کیفیت محسوس ہو۔ ’ترم‘  اور  ’نرسنگا‘ کی آواز ہو یا ڈھول  اور  نقاّرے  کی آواز، آواز میں  آہستگی  اور  دھیماپن ہو یا محض تھپتھپانے  کی کیفیت وہ سب آفاقی و کائناتی آہنگ سے  اپنی ہم آہنگی کا احساس دلاتی ہیں۔ عظیم آہنگ نے  ہر آواز کو حسن بخش دیا ہے، جو لوگ اس راز سے  واقف ہیں  وہ یقیناً عاشق ہیں، ’سماع‘ تو عاشقوں  کی غذا ہے، ذہن  اور  قلب کی پُر سکون کیفیت میں  عظیم  اور  عظیم تر آہنگ ہی سے  تحرّک پیدا ہوتا ہے۔ تخیل بیدار ہوتا ہے، قلب و ذہن کی مخفی قوّتیں  متحرّک ہو جاتی ہیں اور فینتاسی کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جو جمالیاتی صورتیں  خلق ہوتی ہیں  وہ اسی تحرّک کی دین ہیں، آفاقی و کائناتی آہنگ عشق کی آگ کو تیز سے  تیز کرتا ہے۔

          مولانا رُومی فرماتے  ہیں  کہ دل چقماق ہے  کہ جس میں  آتش پوشیدہ ہے، موسیقی کی لہروں  سے  آتش رقص کرتے  ہوئے  باہر آتی ہے اور وجد آفریں  فضاؤں  کی تخلیق ہوتی ہے، یہ کیا ہے؟ مرکز نور کے  جلوؤں  کے  آہنگ کی بازگشت ہی تو ہے، ان فضاؤں  میں  نغموں  کا جو رقص جاری ہوتا ہے  اُسی سے  انسان  اور  انسان  اور  کائنات کے  رِشتوں  کا عرفان حاصل ہوتا ہے، عشق کے  جذبے  کی ایسی حیرت انگیز گہرائی کا احساس ملتا ہے  کہ کوئی اس کی تشریح یا وضاحت نہیں  کر سکتا، جو رقص سامنے  ہوتا ہے اور جس آہنگ پر رقص جاری رہتا ہے  اُن کی جہتوں  کا اندازہ نہیں  کیا جا سکتا، ان کی بلیغ کیفیتوں  کو جاننا مشکل ہے، اس لیے  کہ وجود کی گہرائیوں  میں  ان کی صورت  اور  کیفیت قطعی مختلف ہوتی ہے، رقص و آہنگ دونوں  کا رِشتہ تو دل  اور  دل کی آتش سے  ہوتا ہے، اندر ’رقصِ آتش‘ کا منظر ہوتا ہے، رقص و آہنگ زمینی ہو یا حسّی رُومانی ہو یا آفاقی، ’رقصِ آتش‘ کے  تیوروں اور اس کی کیفیتوں  کو محسوس کرنا مشکل نہیں  ہے۔ ایسے  تجربوں  کی ماہیت کو مولانا رُومی نے  خود اس طرح سمجھا دیا ہے  کہ ہم صرف ’’صورت‘‘  اور  ’’خارجی تجربے‘‘ کو نہ دیکھیں  بلکہ موضوع کی باطنی کیفیت  اور  داخلی تجربے  کو اپنے  تخیل  اور  وجدان سے  ہم آہنگ کریں  سچائی سامنے  آ جائے  گی۔

ما بروں  را ننگریم و قال را

مادروں  را نیگریم و حال را

٭٭٭

مولانا رُومی ۔ فنکار معلم

مولانا رُومی ایک بڑے  فنکار معلّم ہیں  جو خارجی  اور  داخلی زندگی میں  ایک خوبصورت توازن دیکھنا چاہتے  ہیں۔ معلّم کی تخلیقی فکر وجود میں  ایک دلکش مناسبت یا ’سیمٹری‘ پیدا کرنا چاہتی ہے۔ دل کے  آئینے  میں  ایسی چمک دمک ہو کہ دل صورتوں  بھرا آئینہ بن جائے  جس میں  ہر جانب چاندی کے  جسم کا جمال ہو:

تادلت آئینہ گردد پر صور

اندر و ہر سو ملیحے  سیم بر

انسان چاہے  تو اپنے  دل کے  آئینے  کو اتنا صاف شفّاف بنا سکتا ہے  کہ اس میں  زندگی کی تمام سچائیاں اور تمام اشیا و عناصر  اور  تمام صورتیں  نظر آ سکتی ہیں، لوہا سیاہ  اور  بے  نور ہوتا ہے، صیقل کر نے  سے  اس کی کالک صاف ہو جاتی ہے۔ جس طرح لوہا صیقل حاصل کر کے  اپنے  چہرے  کو حسین  اور  خوبصورت بنا لیتا ہے۔۔۔ اس حد تک کہ اس میں  صورتیں  دیکھی جا سکتی ہیں، اسی طرح انسان بھی اپنے  دل کو چمکتا ہوا آئینہ بنا سکتا ہے۔ کہتے  ہیں:

آہن ارچہ تیرۂ و بے  نور بود

صیقلی آں  تیرگی ازوے  زُدود

صیقلی دید آہن و خوش کر د رُو

تاکہ صورتہا تواں  دید اند رُو

مولانا رُومی نے  مادّی زندگی کی حقیقتوں اور وجود کے  رُوحانی پہلو کو سمجھنے  کے  لیے  علم کو سب سے  زیادہ اہمیت دی ہے۔ علم کے  بغیر زندگی کا عرفان حاصل نہیں  ہو سکتا، ذہنی  اور  رُوحانی سکون حاصل نہیں  ہو سکتا، بصیرت پیدا نہیں  ہو سکتی، حقائق کو دیکھنے اور پہچاننے  کے  لیے  ’وژن‘ میں  کشادگی نہیں  آ سکتی، زندگی کے  تعلق سے  نئی دریافتوں  کی لذّت نہیں  مل سکتی، وہ ذہنی  اور  قلبی سکون حاصل نہ ہو گا جس سے  رُوحانی انبساط حاصل ہو۔

          مولانا رُومی نے  دروں  بینی کو اہمیت دیتے  ہوئے  یہ بات بتانے  کی کوشش کی ہے  کہ انسان کے  دل میں  ایک نہ دِکھائی دینے  والا دبستان ہے  جو پُر اسرار علوم کی وجہ خود پُر اسرار بن گیا ہے، یہاں  مطالعہ کے  لیے  اُس نگہ، کی ضرورت ہے  جو آنکھوں  کے  اندر رہتی ہے، زندگی کی سچائیوں  سے  جو سچی بصیرت حاصل ہو گی اسی سے  یہ ’وژن‘ پیدا ہو گا یہ نگہ، متحرّک ہو گی۔ باطن کا علم حاصل کر نے  والا عارف ہوتا ہے، ظاہر  اور  باطن کے  اسرار سے  آگاہ ہو جاتا ہے  تو دل کے  ذریعے  معارف کے  دروازے  کھل جاتے  ہیں اور اُسے  زندگی کا مخمور کر دینے  والا انبساط حاصل ہوتا ہے۔ کائنات  اور  اس کے  اسرار کے  جلال و جمال کے  جلوؤں  کا سچاّ عرفان حاصل کر لیتا ہے، وہ دل جو بہت سے  آفتابوں  کا مشرق ہے  عارف کے  لیے  فتّحت ابوابہا کا تجربہ بن جاتا ہے:

آں  دلے  کو مطلعِ مہتابہا ست

بہر عارف فتحت ابوابہا ست

(مولانا رُومی)                            

علم سے  رُوح کا نور حاصل ہوتا ہے، لوہے  کا جوہر ہاتھ میں  موم بن جاتا ہے:

جوہرِ آہن بکف مومے  شود

جس طرح آگ ابراہیمؑ کے  لیے  نسرین بن جاتی ہے  (نارِ ابراہیمؑ را نسریں  شود) اسی طرح علم مادّی  اور  رُوحانی زندگی کو پاکیزگی عطا کرتا ہے، آتش کو گلستاں  میں  تبدیل کر دیتا ہے۔ وجدانی علم سے  پُر اسرارمحبتوں اور رِشتوں  کے  تئیں  ایک دلکش خواب آلود بیداری پیدا ہوتی ہے۔۔۔ انتہائی خوبصورت بیداری کہ جس سے  بعض پُر اسرار معنی خیز ذرّوں  کی چمک دمک تھوڑی بہت سمجھ میں  آنے  لگتی ہے۔ اس سچائی کو واضح کر نے  کے  لیے  مولانا رُومی نے  ایک عمدہ تمثیل پیش کی ہے  جس سے  تصوّف کی جمالیات کی معنی خیز سطح واضح ہوتی ہے اور اس کی رُومانیت المیہ کے  جمال کو لیے  ہوئے  جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہے:

بود بازرگانے  اُو را طوطے

در قفس محبوس زیبا طوطے ٔ

چونکہ با زر گاں  سفر را ساز کر د

سوئے  ہندوستاں  شدن آغاز کر د

ہر غلام و ہر کنزک راز جوُد

گفت بہر توچہ آرم گوئے  زُدد

ہر یکے  ازوے  مرادے  خواست کر د

جملہ را وعدہ بداد آں  نیک مرد

گفت طوطی را چہ خواہی ارمغاں

کآرمت از  ّخطۂ ہندوستاں

گفتش آں  طوطی کہ آنجا طوطیاں

چوں  بہ بینی کن زحالِ من بیاں

کہ فلاں  طوطی کہ مشتاقِ شماست

از قضائے  آسماں  در حبس ماست

برشما کر د اُو سلام و داد خواست

و ز شما جارہ رہِ ارشاد خواست

گفت میشاید کہ من در اشتیاق

جاں  و ہم اینجا بمیرم در فراق

ایں  روا باشد کہ من در بند سخت

گہ شما برسبزہ گاہے  بر درخت

ایں  چنیں  باشد وفائے  دوستاں

من دریں  حبس و شما در بوستاں

یاد آرید اے  مہاں  زیں  مرغ زار

یک صبوحے  درمیانِ مرغزار

یاد آرید از محبتّہائے  ما

حقِ مجلسہا و صحبتہائے  ما

یاد یاراں  را میموں  بود

خاصہ کاں  لیلیٰ و ایں  مجنوں  بود

اے  حریفاں  بابت موزون خود

من قدحہامی خورم از خون حود

یک قدح مے  نوش کن برباد دمن

گرہمی خواہی کہ بدہی داد من

یا بیاد ایں  فتارہ خاک بیز

چونکہ خوردی جرعۂ برخاک ریز

اے  عجب آں  عہد و آں  سوگند کوُ

وعدہ ہائے  آں  لب چوں  قند کوُ

گر فراقِ پندہ از بد بندگی ست

چوں  تو باید بدکنی پس فرق چیست

اے  بدی کہ تو کنی در خشم و جنگ

با طرب تر از سماعِ بانگ چنگ

اے  جفائے  تو ز دولت خوب تر

و انتقامِ تو زجاں  محبوب تر

نارِ تو این ست نورت چوں  بود

ماتم ایں  تاخود کہ سورت چوں  بود

از حلاوتہا کہ دارد جورِ تو

و ز لطافت کس نیابد غورِ تو

فی المثل جودت  اگر  عریاں  شود

گر جہاں  گریاں  بود خنداں  شود

نالم و ترسم کہ اُو ب اور  کند

و ز ترّحم جور را کمتر کند

عاشقم بر قہر و بر لطفش بجدّ

اے  عجب من عاشقِ ایں  ہر دو ضد

عشق من بر مصدر ایں  ہر دو شد

چوں  نباشد عشق کر د بے  نیست بد

واللہ ارزیں  خار در بستاں  شوم

ہمچو بلبل زیں  سبب نالاں  شوم

ایں  عجب کہ بکشاید دہاں

تاخورد اُو خار را باگلستاں

ایں  نہ بلبل ایں  مہنگ آتش ست

جملہ ناخوش ہا زعشق اُو را خوش ست

عاشقِ گل ست و خود کل ست اُو

عاشق خویش ست و عشق خویش جوُ

(  قصۂ بازرگاں  کہ بہ ہندوستان تیجارت میرفت و پیغام دادن

طوطی محبوس بطوطیانِ ہندوستان۔ دفتر اوّل مثنوی مولانا رُوم)

 

مردِ بازرگاں  پذیرفت ایں  پیام

کورساند سوئے  جنس ازوے  سلام

چونکہ تا اقصائے  ہندوستاں  رسید

در بیاباں  طوطیِ چندے  بدید

مرکب استایند و پس آواز داد

آں  سلام و آں  امانت باز داد

طوطیِ از طوطیاں  لرزید و پس

اُو فتاد و زود بگستش نفس

شد پشیماں  خواجہ از گفت خبر

گفت رفتم در ہلاکِ جانور

ایں  مگر خویش ست با آں  طوطیک

ایں  مگر دو جسم بود و رُوح یک

ایں  چرا کر دم چرا دادم پیام

سوختم بیچارہ را زیں  گفت خام

ایں  زباں  چوسنگ وفم آہن وش ست

آنچہ بجہد از زباں  چوں  آتش ست

سنگ و آہن را مزن برہم گزاف

گہہ ز رُوئے  نقل و گہہ از رُوئے  لاف

زانکہ تاریکی ست ہر سو پنبہ زار

درمیانِ پنبہ چوں  باشد شرار

ظالم آں  قومیکہ چشماں  دوختند

و ز سخن ہا عالمے  را سوختند

عالمے  را یک سخن ویراں  کند

رُو بہانِ مردہ را شیراں  کند

جانہا دراصل خود عیسیٰ دم اند

یک زماں  زخم اند و دیگر مرہم اند

گر حجاب از جانہا بر خاستے

گفت ہر جانے  سچ آساستے

گر سخن خواہی کہ گوئی چوں  شکر

صبر کن زیں  حرص و ایں  حلوا مخور

صبر باشد منتہائے  زیرِ کاں

ہست حلوا آرزوئے  کودکاں

ہر کہ صبر  اور  د گردوں  بر رَود

ہر کہ حلوا خور واپس تر رود

(دیدن خواجہ در دشت طوطیاں  را و پیغام رسانیدن

دفتر اوّل، مثنوی مولانا رُوم)

          ایک سوداگر کا   قصہ ہے  جو تجارت کے  لیے  ہندوستان روانہ ہو رہا تھا۔ ایک قیدی طوطی نے  ہندوستان کی طوطیوں  کو پیغام بھیجا۔ یہ طوطی بہت خوبصورت تھی، پنجرے  میں  بند تھی، جب سوداگر نے  سفر کا سامان ٹھیک کر لیا  اور  ہندوستان جانے  کو تیار ہوا تو اُس نے  ہر غلام  اور  لونڈی (کنیزک) سے  پوچھا تمھیں  کیا چاہیے، تمھارے  لیے  ہندوستان سے  کیا لاؤں۔ ہر ایک نے  اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ سوداگر نے  طوطی سے  پوچھا تیرے  لیے  کون سی سوغات لاؤں۔ طوطی نے  جواب دیا جہاں  تم جا رہے  ہو وہاں  بہت طوطیاں  ہیں، اُن پر نظر پڑے  تو میرا حال بتادینا، کہنا میں  مشتاق ہوں، قدرت کا فیصلہ ہے  لہٰذا قید میں  ہوں۔ میرا سلام کہنا  اور  انصاف کی درخواست کرنا۔ کہنا میں  راستہ کی تدبیر  اور  رہنمائی چاہتی ہوں۔ طوطی نے  پیغام دیا۔ کہنا کیا یہ مناسب ہے  کہ میں  شوق میں  اپنی جان دے  دوں اور فراق میں  تڑپ تڑپ کر مر جاؤں، کیا یہ درست بات ہو گی کہ میں  اس طرح سخت قید میں  رہوں اور وہ کبھی سبزہ  اور  کبھی درخت پر خوبصورت لمحے  گزارے۔ اے  دوستو! کیا محبت اسی کا نام ہے، میں  قید رہوں اور وہ باغ میں! طوطی نے  کہا۔ اے  سوداگر کہنا طوطیوں  سے  اس برباد  اور  تباہ حال مرغزار کو یاد کر لیں، سبزہ زار میں  جب کوئی خوبصورت صبح آئے  تو ہماری محبتوں  کو یاد کریں اور یاد کریں  ہماری صحبتوں  کو، دوستوں  کی یاد دوست کے  لیے  مبارک (میموں ) ہوتی ہے، خصوصاً جبکہ وہ لیلیٰ  اور  یہ مجنوں  ہو۔ اے  دوستو تم تو اپنے  حسین محبوب کے  ساتھ جام نوش کر رہے  ہو  اور  میں  اپنے  لہو کے  پیالے  پی رہی ہوں۔ میری یاد میں  شراب کا ایک پیالہ پی لو  اور  میری یاد میں  ایک گھونٹ زمین پر بہا دو، تم نے  وعدہ کیا تھا، قسمیں  کھائی تھیں، پوچھنا اے  شکر جیسے  ہونٹ تمھارے  وعدے  کہاں  گئے؟

          اے  خدا تیرا ظلم دنیا کی دولت سے  بہتر ہے اور تیرا انتقام جان سے  زیادہ پیارا ہے، تیری آگ یہ ہے  تو تیرا نور کیسا ہو گا، تیرا غم ایسا ہے  تو تیری خوشی کیسی ہو گی، تیرا ظلم لطیف ہے  کوئی شخص تیری گہرائی کو نہیں  پاسکتا، تیرا ظلم معلوم ہو جائے  تو دُنیا  اگر  رو رہی ہو تو ہنسنے  لگے، میری آنکھیں  پرنم ہیں اور میں  خوف زدہ ہوں۔ تمنّا ہے  کہ تو رحم کھا کر ظلم کم کر دے۔ میں  اس کے  قہر  اور  کرم پر عاشق ہوں، حیرت کی بات ہے  نا کہ میں  ان دو مخالف چیزوں  پر فریفتہ ہوں، میرا عشق ان دونوں  کے  منبع سے  ہے، عشق کے  بغیر چارہ نہیں  ہے، باغ میں  بلبل کی طرح نالہ کروں، یہ عجیب بلبل ہے  عشق کی وجہ سے  ہر بات اسے  گوارا ہے، وہ کل کا عاشق ہے اور وہ خود کل ہے۔ اپنے  آپ کا عاشق ہے، اپنے  آپ کا عاشق  اور  اپنے  عشق کا جویاں!

          غور کیجیے  طوطی کی کہانی سناتے  سناتے  اس کے  درد و غم سے  آشنا کرتے  کرتے  شاعر اپنے  باطن کے  درد و غم کے  ساتھ کس طرح نمایاں  ہوا ہے۔ خالقِ کائنات سے  ایک صوفی کی محبت کی پہچان کس طرح ہوتی ہے۔ صوفی اہلِ دل  اور  صاحبِ دل ہوتا ہے۔ عشقِ الٰہی سے  سرشار، اس کی مستی  اور  سرشاری اس عشق کے  سوز و گداز سے  آشنا کرتی رہتی ہے۔ طوطی کا غم شاعر کے  وجود کا آہنگ بن جاتا ہے، خالقِ کائنات کے  قہر  اور  کرم دونوں  کے  عاشق کی ایک تصویر سامنے  آ جاتی ہے۔ بنیادی سچائی یہ ہے  کہ جو کوئی اپنی اصل سے  دُور ہو جاتا ہے  وہ اپنے  وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے:

ہر کسے  کوُد و رماند از اصل خویش

باز جوید روزگارِ وصلِ خویش

یاد کیجیے  مولانا رُومی کے  یہ اشعار:

بشنو از نے  چوں  حکایت می کند

وز جدائی ہا شکایت می کند

کز نیستاں  تا مرا ببریدہ اند

از نقیرم مرد و زن نالیدہ اند

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق

تابگویم شرح دردِ اشتیاق

ہر کسے  کوُد و رماند از اصلِ خویش

باز جوید روز گارِ وصلِ خویش

من بہر جمعیتے  نالاں  شدم

جفتِ خوشحالان و بدحالاں  شدم

ہر کسے  از ظنِّ خود شد یار من

و ز درونِ من، جست اسرار من

ِسرِّ من از نالۂ من دور نیست

لیک چشم و گوش را آں  نور نیست

تن زجان و جاں  رتن مستور نیست

لیک کس را دیدِ جاں  دستور نیست

آتش ست ایں  بانگِ نائے  و نیست باد

ہر کہ ایں  آتش ندارد نیست باد

آتش عشق ست کاندر نے  فتار

جوششِ عشق ست کاندرمے  فتاد

نے  حریفِ ہر کہ از یارے  برید

پردہایش پردہائے  مادرید

ہمچونے  زہرے  و تریاقے  کہ دید

ہمچونے  دمساز و مشتاقے  کہ دید

نے  حدیثِ راہِ پرخوں  می کند

  ّقصہ ہائے  عشقِ مجنوں  می کند

(مثنوی مولانا روم، دفتر اوّل)

          بانسری سے  سنوکیا بیان کرتی ہے، جدائی کی شکایت کس طرح کرتی ہے۔ ’’جب سے  مجھے  بنسلی سے  کاٹا ہے  میرے  نالہ سے  سب روتے  ہیں۔‘‘ ایسا کلیجہ چاہتی ہوں  جو جدائی سے  پارہ پارہ ہوتا کہ عشق کے  درد کی تفصیل سناؤں  جو اپنی اصل سے  دُور ہو جاتا ہے، وہ اپنے  وصل کا زمانہ پھر تلاش کر نے  لگتا ہے، میں  ہر جگہ روئی، خوش اوقات  اور  بداحوال لوگوں  کے  ساتھ رہی، ہر شخص اپنے  خیال کے  مطابق میرا یار بنا لیکن میرے  باطن سے  میرے  رازوں  کی جستجو نہ کی، میرا راز میرے  نالہ سے  دُور نہیں  ہے  لیکن آنکھ  اور  کان کے  لیے  وہ نور نہیں  ہے۔ جسم رُوح سے اور رُوح جسم سے  چھپی ہوئی نہیں  ہے  لیکن کسی کے  لیے  رُوح کو دیکھنے  کا دستور نہیں  ہے۔ بانسری کی یہ آواز آگ ہے، ہوا نہیں  ہے  جس میں  یہ آگ نہ ہو وہ نیست و نابود ہو، عشق کی آگ ہے  جو بانسری میں  لگی ہے  عشق کا جوش ہے  جو شراب میں  آیا ہے، بانسری اُس کی ساتھی ہے  جو یار سے  کٹا ہو اُس کے  راگوں  نے  ہمارے  دل کے  پردے  پھاڑ دیے، بانسری جیسا زہر  اور  تریاق کس نے  دیکھا ہے۔ بانسری جیسا ساتھی  اور  عاشق کس نے  دیکھا ہے، بانسری خطرناک راستہ کی بات کرتی ہے  مجنوں  کے  عشق کے   قصے  بیان کرتی ہے۔ بنیادی جمالیاتی  اور  رُومانی احساس یہ ہے  کہ جس طرح کہ جسم کی قدر جان کی وجہ سے  ہے  جان کی قدر جاناں  کے  پرتو کی وجہ سے  ہے:

ہمچناں  کہ قدرِ تن از جاں  بود

قدرِ جاں  از پرتوِ جاناں  بود

مولانا رُومی ایک قطرے  میں  سمندر دیکھنے  والی نگاہ  اور  ہر ذرّے  میں  سورج کو پانے  والا ’وژن‘ رکھتے  ہیں:

تا بہ بینم قلزمے  در قطرہ

آفتابے  درج اندر ذرّہ

اب طوطی والی تمثیل کا دوسرا  اور  آخری منظر دیکھئے:

          سوداگر ہندوستان آیا تو اس نے  وہاں  جنگل میں  چند طوطیاں  دیکھیں، سواری روک کر آواز دی۔ طوطی کا پیغام پہنچا دیا، طوطیوں  میں  سے  ایک طوطی کانپنے  لگی، گر پڑی  اور  اس کا دَم نکل گیا:

طوطیِ از طوطیاں  لرزید و پس

اُو فتاد و زود بگتش نفس!

سوداگر حد درجہ پریشان ہو،ا سوچنے  لگا یہ کیا ہوا، یہ طوطی اُس طوطی کی رشتہ دار تو نہیں، شاید یہ دو جسم  اور  ایک جان ہوں۔ میں  نے  پنجرے  میں  بند طوطی کا پیغام کیوں  دیا:

گر حجاب از جانہا بر خاستے

گفتِ ہر جانے  مسیح آساستے

اگر رُوحوں  سے  پردہ اُٹھ جائے  تو ہر رُوح کی بات مسیح جیسی ہے!

          اِس تمثیل میں  جو پُر اسرار ڈرامائی کیفیت ہے  تو جہ طلب ہے۔ داخلی  اور  باطنی کیفیتوں اور رِشتوں  سے  پردے  اُٹھتے  ہیں  لیکن پُر اسراریت قائم رہتی ہے، علم رِشتوں  کی پُر اسراریت تک لے  جاتا ہے  یہی بڑی بات ہے۔ وجود کے  رُوحانی پیکر کو علم کی روشنی کے  بغیر سمجھ نہیں  سکتے۔

          مولانا رُومی کی رُوحانی تعلیم سے  انسان کے  ذہن کا کوئی نہ کوئی دریچہ کھلتا ہے اور جو ٹھنڈی  اور  لطیف ہوائیں  ملتی ہیں  اُن سے  بڑی جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔

          مولانا رُومی ایک بڑے  تخلیقی فنکار  اور  ایک بڑے  فنکار معلّم کی طرح انسان کی سائیکی (Psyche) کو اِس قدر متحرّک کر دیتے  ہیں  کہ ایک تخلیقی جاگرتی پیدا ہو جاتی ہے۔ طوطی والی تمثیل ایک رُوحانی اُٹھان پیدا کرتی ہے، آخری منظر سے  جو داخلی بیداری پیدا ہوتی ہے، اس سے  باطن کی ’میلوڈی‘ (Melody) یا باطن کا آہنگ سنائی دینے  لگتا ہے۔ مولانا کی تمثیلیں  اُن کے  ذہن کی زرخیزی کا احساس دیتی ہیں۔ افسانوی یا تمثیلی کردار ’فینتاسی‘ کی دُنیا میں  ایسے  انکشافات کرتے  رہتے  ہیں  جن سے  باطن میں  سچائیوں  کی لطافتوں  کا احساس ملتا رہتا ہے۔ مولانا رُومی کی بعض تمثیلوں  کا مطالعہ کرتے  ہوئے  اس بات کی پہچان ہو جاتی ہے  کہ وہ پیتھوس (Pathos) کے  نغمہ یا ’میلوڈی‘ کے  ایک بڑے  فنکار ہیں۔ طوطی والی تمثیل اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ مولانا رُومی کی تمثیلوں  میں  فکشن  اور  شاعرانہ دروں  بینی (Poetic Vision)کی وجہ سے  تخلیق کی جمالیاتی سطح بلند ہو گئی ہے۔ دُنیا میں  ایسے  فنکاروں  کی کمی ہے  جو داخلی بیداری پیدا کر کے  ذہن کو تخلیقی ارتقا کی راہ پر گامزن کر دیں۔ مولانا رُومی نے  اپنے  قصوں، تمثیلوں اور کہانیوں  سے  یہ کام کیا ہے۔ اُنھوں  نے  کہانیاں  مختلف ذرائع سے  حاصل کی ہیں۔ بعض کہانیاں  بہت پرانی ہیں۔ ہندوستان کی بھی بعض کہانیاں  ملتی ہیں۔ (کلیلہ و دمنہ) قرآن حکیم  اور  احادیث  اور  پیغمبروں  کے  واقعات بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں، ان باتوں  کے  باوجود ایک بڑے  تخلیقی فنکار کی طرح نئی معنویت پیدا کرتے  رہے  ہیں۔ Unknown کی دریافت مقصد نہیں  ہے،  اگر  ہے  بھی تو بہت کم ہے، بنیادی مقصد 'Known' کے  تئیں  بیداری ہے، یہ بیداری پیدا کرتے  ہوئے  مولانا رُومی آرٹ کو تخلیقی اسرار (Creative Mystery) بنا دیتے  ہیں۔ جانی پہچانی سچائیوں  کا جب نیا احساس ملتا ہے  تو اچانک ایک قسم کی تخلیقی بیداری پیدا ہوتی ہے اور ’سائیکی‘ میں  ایک حیرت انگیز چمک دمک پیدا ہو جاتی ہے۔

          مثنوی مولانا رُوم میں  علم کی دو صورتوں  کا ذکر ملتا ہے، ایک صورت کا تعلق مادّیت  اور  مادّی علوم سے  ہے اور دوسری صورت کا تعلق نظر نہ آنے  والی دُنیا کے  تئیں  بیداری سے  ہے  جو انسانی وجود کی سچائی سے  آگاہ کرتی ہے۔ مثنوی کی تمثیلوں  کو پڑھتے  ہوئے  اندازہ ہوتا ہے  کہ مولانا رُومی باطنی تجربوں  کی کتنی گہرائیوں  میں  اُترے  ہوئے  تھے،محبت کو انسان کا بنیادی جذبہ تصوّر کرتے  ہوئے  باطن میں  خوبصورت دلکش  مہکتے  ہوئے  گلابوں  کے  باغ کی جانب اشارہ کرتے  ہیں، اس باغ میں  اُترجانے  کے  بعد انسان کا پورا وجود خوشبوؤں  سے  بھر جاتا ہے۔ مولانا رُومی کے  کلام میں  خشک فلسفیانہ نکات نہیں  ملتے۔ تصوّف کی جمالیات  اور  اس کی رُومانیت کے  اَنگنت پہلو  اور  سطحیں  ملتی ہیں۔ مولانا نے  تصوّف کی جمالیات میں  اپنی فکر و نظر سے  بڑی کشادگی پیدا کی ہے اور اس کی رُومانیت کو نئی جہتیں  بخشی ہیں۔ مثنوی کی تمثیلیں  بیداری  اور  جاگرتی پیدا کرتی ہیں۔ کچھ اس طرح کہ اچانک چراغاں  کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اُنھوں  نے  جہالت  اور  علم کی روشنی کو تاریکی  اور  روشنی کے  استعاروں  سے  سمجھانے  کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے  میں  اُن کی معروف تمثیل ’’اندھیری رات میں  ہاتھی کی شکل  اور  کیفیت میں  اختلاف‘‘ مثال کے  لیے  پیش کی جا سکتی ہے۔ یہ ہندوستان کی معروف کہانی ہے۔ مولانا نے  بھی اسے  ہندوستانی کہانی ہی کہا ہے، لیکن مولانا رُومی نے  کہانی کے  آخر میں  جو بات کہہ دی ہے اور جس کی وجہ سے  ذہن  اور  وِجدان میں  چراغاں  کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے  اس کی مثال نہیں  ملتی۔ مندرجۂ ذیل دو باتیں  بہت اہم ہیں:

در کفِ ہر یک  اگر  شمعے  بدے

اختلاف از گفتِ شاں  بیروں  شدے

یعنی ہر ایک کے  ہاتھ میں   اگر  شمع ہوتی تو اُن کی باتوں  سے  اختلاف دُور ہو جاتا۔۔۔۔  اور :

جنبشِ کفہاز دریا روز و شب

کف ہمی بینی و دریانے  عجب

یعنی شب و روز جھاگوں  کی حرکت دریا کی وجہ سے  ہے۔ حیرت کی بات ہے  تو جھاگ کو دیکھتا ہے  دریا کو نہیں:

پیل اندر خانۂ تاریک بود

عرضہ را  اور  دہ بودندش ہنود

از برائے  دیدنش مردم بسے

اندراں  ظلمت ہمی شد ہر کسے

دیدنش باچشم چوں  ممکن بنود

اندراں  تاریکیش کف می بسود

آں  یکے  را کف بخرطوم او فتاد

گفت ہمچونا و دانست ایں  نہاد

آں  یکے  را دست بر گوشش رسید

آں  بر و چوں  باد بیزن شد پدید

آں  یکے  را کف چو برہایش بسود

گفت شکلِ پیل دیدم چوں  نمود

آں  یکے  بر پشت اُو بنہاد دست

گفت خود ایں  پیل چوں  تختے  بدست

ہم چنیں  ہر یک بخروے  کو رسید

فہم آں  می کر د ہر جا می شنید

از نظر گہہ گفتِ شاں  شد مختلف

آں  یکے  دانش لقب داد ایں  الف

در کفِ ہر یک  اگر  شمعے  بدے

اختلاف از گفتِ شاں  بیروں  شدے

چشم حس ہم چوں  کفِ د ستست و بس

نیست کف را بر کل او دسترس

(اختلاف کر دن در چگونگی و شکل پیل در شبِ تار

مثنوی مولانا رُوم، دفتر سوم)

          ہاتھی ایک اندھیرے  گھر میں  تھا، بہت سے  اُسے  دیکھنے  آئے، ہر شخص اندھیرے  میں  داخل ہو گیا۔ تاریکی میں  ہاتھی کو دیکھنا ممکن نہ تھا اس لیے  اُس پر ہاتھ پھیر کر اُسے  محسوس کیا جانے  لگا۔ ایک شخص کا ہاتھ سونڈ پر پڑا تو اس نے  کہا یہ جسم پرنالے  کی طرح ہے، دوسرے  کا ہاتھ ہاتھی کے  کان پر پہنچا تو وہ پنکھے  کی طرح لگا، تیسرے  شخص کا ہاتھ پیر پر پہنچا تو اس نے  کہا ہاتھی ستون جیسا ہے، چوتھے  نے  کمر پر ہاتھ رکھا تو کہا ہاتھی تو تخت کی مانند ہے۔ اسی طرح ہاتھی کی پہچان ہونے  لگی، نقطۂ نگاہ کی وجہ سے  سب کی بات الگ الگ تھی۔ اس طرح کہانی پیش کر کے  فنکار معلّم نے  دانشورانہ سطح پر اس طرح رابطہ قائم کر نے  کی کوشش کی ہے:

چشم حس ہمچوں  کف دستست و بس

نیست کف را ابر کل اُو دسترس

جسم دریا دیگرست و کف دِگر

کف بہل و ز دیدہ در دریا نگر

جنبشِ کفہا ز دریا روز و شب

کف ہمی بینی و دریانے  عجب

ما چو کشتیہا بہم برمی زینم

تیرہ چشمیم و دَر آبِ رو شنیم

اے  تو در کشتیِ تن رفتہ بخواب

آب را دیدی نگر در آبِ آب

کہتے  ہیں  جس کی آنکھ صرف ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح ہے  اُس کی پہنچ پورے  ہاتھی تک نہیں  ہے، دریا کا وجود  اور  ہے اور جھاگ  اور  ہیں، جھاگ کو چھوڑ کر اپنی آنکھ کے  دریا کو دیکھو، شب و روز جھاگوں  کی حرکت دریا کے  سبب ہے۔ حیرت کی بات ہے  کہ تو جھاگ کو دیکھتا ہے  دریا کو نہیں  دیکھتا۔ ہم کشتیوں  کی طرح آپس میں  ٹکرا رہے  ہیں، ہم اندھی آنکھوں  والے  صاف دریا میں  ہیں۔ جسم کی کشتی میں  سونے  والے  پانی تو دیکھ لیتے  ہیں  پانی کے  پانی کو نہیں  دیکھتے۔ مولانا رُومی چاہتے  ہیں  کہ ہماری آنکھیں  ایسی ہوں  جو پوری سچائی پوری حقیقت کو دیکھیں۔ یہ سمجھانا چاہتے  ہیں  کہ جسم کا تحرّک رُوح  اور  رُوح کے  تحرّک پر قائم ہے۔ مختلف قسم کے  استعاروں  سے  وہ آہستہ آہستہ ذاتِ حق کے  مشاہدے  تک لے  جاتے  ہیں۔ مولانا انسان کو آسمان  اور  ’’دریائے  عمیق‘‘ تصوّر کرتے  ہیں۔ رُوحانی سطح پر سچائیوں  کے  تئیں  بیداری پیدا ہو جاتی ہے  تو انسان غموں  کی کان کو ’’مست دل‘‘ عطا کر دیتا ہے:

کانِ غمہا را دلِ مستے  دہد

اُس کے  گلے  میں  زہر شکر ہو جاتا ہے  اس کے  راستے  کا پتھر جوہر ہو جاتا ہے:

زہر در حلقومِ شاں  شکر بود

سنگ اندر راہ شاں  گوہر بود

          معلّم مولانا رُومی عام حقیقتوں  کا ذکر کرتے  کرتے  رُوحانی کیفیتیں  طاری کر دیتے  ہیں۔ اُنھوں  نے  مشرقِ وسطیٰ کے  پرانے اور قدیم قصوں  کہانیوں  کو تمثیلوں  کی صورتیں  دی ہیں، قدیم تاریخی واقعات  اور  قصے  ان کی شاعری میں  اہمیت اختیار کر لیتے  ہیں، ان میں  ایسے

  قصے اور واقعات بھی ہیں  جو بڑے  کھردرے اور فحش ہیں، بعض سچائیوں اور خصوصاً نفسیاتی  اور  جبلّی سچائیوں  کو سمجھاتے  ہوئے  اُنھوں  نے  ایسے  مشرقی قصوں اور علامتوں  کا بھی سہارا لیا ہے  کہ جن میں  بڑی عریانیت ہے۔ لہجہ بھی کبھی کھردرا ہو جاتا ہے، وہ طنز و مزاح کا بھی سہارا لے  کر بڑی بات کہہ جاتے  ہیں۔ اُن کی ایک معروف تمثیل ہے۔ ’’ماجرائے  مرد نحوی در کشتی باکشتی بان و جواب دادن اُو‘‘ (ملاّح کے  ساتھ کشتی میں  نحوی کا ماجرا  اور  اس کا جواب دینا) اس تمثیل کا لطف ہی کچھ  اور  ہے:

آں  یکے  نحوی بہ کشتی در نشست

رُو بکشتیباں  نہاد آں  خود پرست

گفت ہیچ از نحو خواندی گفت لا

گفت نیم عمر تو شد در فنا

دل شکستہ گشت کشتیباں  زتاب

لیک آندم گشت خاموشی از جواب

باد کشتی را بہ گردابے  فگند

گفت کشتیباں  بداں  نحوی بلند

ہیچ دانی آشنا کر دن بگو

گفت نے  از من تو سبّاحی مجو

گفت کل عمرت اے  نحوی فناست

زانکہ کشتی غرق اب گردا بہاست

ایک نحوی کشتی میں  سوار ہوا، اس خودپرست نے  ملاّح سے  مخاطب ہو کر دریافت کیا تو نے  کچھ نحو پڑھی ہے، ملاّح نے  کہا نہیں۔ اُس متکبر نحوی نے  کہا تیری آدھی عمر فنا ہو گئی۔ کشتی بان دل شکستہ ہو گیا، لیکن اُس وقت خاموش رہا، کوئی جواب نہیں  دیا، ہوا یہ کہ کشتی ہوا کی وجہ سے  بھنور میں  چکرانے  لگی۔ کشتی باں  نے  بلند آواز سے  پوچھا ’’تو کچھ تیرنا جانتا ہے؟‘‘ نحوی نے  جواب دیا تو مجھ سے  تیراکی کی اُمید نہ کر۔ کشتی بان نے  کہا ’’اے  نحوی! تیری ساری عمر برباد ہے  اس لیے  کہ کشتی اس بھنور میں  ڈُوب رہی ہے۔‘‘

          انسان جتنا بھی علم حاصل کر لے  علم کبھی مکمل نہیں  ہوتا، تھوڑا سا علم حاصل کر کے  تکبر کرنا غلط ہے۔ علم حاصل کر کے  انسان کو خودپرست نہیں  ہونا چاہیے۔ نحوی  اور  کشتی بان کی یہ پیش کر نے  کے  بعد مولانا رومی فرماتے  ہیں:

مرد نحوی را ازاں  در دوختیم

تا شمارا نحوِ محو آموختیم

یعنی نحوی کا  قصہ اس لیے  منسلک کر دیا ہے  کہ تمھیں  فنا کا طریقہ سکھا دیں:

فقہ کا فقہ  اور  نحو کی نحو  اور  صرف کی صرف

درگم آمد یابی اے  یارِ شگرف

یعنی فنا ہی میں  فقہ کا فقہ  اور  نحو کی نحو  اور  صرف کی صرف پائے  گا:

آبِ دریا مژدۂ را بر سر نہد

در بود زندہ ز دریا کے  رہد

یعنی دریا کا پانی مردے  کو سر پر اُٹھا لیتا ہے   اگر  زندہ ہو تو دریا سے  کب بچ سکتا ہے۔  اگر  تو بشری خصوصیتوں  سے  مردہ ہو جائے  تو اسرار کا سمندر تجھے  سر پر اُٹھا لے  گا:

گر بمردی تو زا اوصافِ بشر

بحرِ اسرارت نہد بر فرق سر

علم کی روشنی میں  سچی بات اس طرح کہتے  ہیں  کہ  اگر  تو دُنیا میں  علاّمہ زماں  ہے  تو اب دُنیا کے  فنا ہونے  کو دیکھ:

گر تو علاّمہ زمانی در جہاں

نگ فنائے  ایں  جہاں  بیں  ایں  زماں

مولانا اس خوبصورت تمثیل کے  ساتھ ذہن کو علومِ معرفت کی جانب لے  جاتے  ہیں۔ مولانا کہتے  ہیں  انسان کی رُوح پاک ہو، وہ پاک نسب رکھتا ہو  اور  اس کی عقل لطیف ہو تو اُس کا پورا وجود مہذّب ہو جاتا ہے:

لطفِ عقل خوش نہاد خوش نسب

چوں  ہمہ تن را در آرد در ادب

شوخ، بے  قرار  اور  بے  چین عشق پورے  وجود کو جنوں  میں  مبتلا کر دیتا ہے۔ علم کے  بحر کی لطافت آبِ کوثر کی طرح ہے  اس کے  سنگریزے  موتی  اور  گوہر ہیں:

لطفِ آبِ بحر گوچوں  کوثر ست

سنگریزش جملہ دُرّ و گوہر ست

جس ہنر میں  استاد معروف و مشہور ہوتا ہے  اس کے  شاگرد کی وابستگی اسی ہنر سے  ہوتی ہے۔ کامیاب شاگرد استادِ اصولی کے  سامنے  اصول کی تعلیم حاصل کرتا ہے، فقہ پڑھنے  والا فقیہ استاد کے  سامنے  فقہ پڑھتا ہے اور اس اُستاد کے  پاس جو نحوی ہو شاگرد نحوی بن جاتا ہے:

ہر ہنر کاستا بداں  معروف شد

جانِ شاگردش بداں  موصوف شد

پیش اُستاد فقیہ آں  فقہ خواں

فقہ خواند نے  اصول ونے  بیاں

پیشِ استادے  کہ اُو نحوی بوَد

جانِ شاگردش از و نحوی شود

اس گفتگو کے  بعد فرماتے  ہیں  کہ وہ استاد جو اللہ کی راہ میں  محو ہے  اپنے  شاگردوں  کی روح میں  عشق حقیقی کا رس گھول دیتا ہے۔ علم کی تمام قسموں  میں  اُنھوں  نے  علم فقر یا دانش فقر ہی کو زیادہ اہمیت دی ہے:

باز اُستادے  کہ آں  محسورہ ست

جانِ شاگردش از و محسوسہ ست

زیں  ہمہ انواعِ دانش روزِ مرگ

دانشِ فقرست ساز راہ و برگ

 

          معلّم کی فکر و نظر کی پہچان اس وقت ہوتی ہے  جب وہ خرد کی گتھیاں  سلجھاتے  ہوئے  ’’صاحبِ جنوں‘‘ بن جاتا ہے۔ اس جنوں  میں  ذوقِ نظر بھی ہے اور ضربِ کلیمی بھی۔ اسی ذوقِ نظر سے  زندگی کی قدروں  کا تعین ہوتا ہے اور فلسفہ، مذہب  اور  فنونِ لطیفہ وغیرہ کی قدروں  کی حقیقی معنویت اُجاگر ہوتی ہے اور اسی ضربِ کلیمی سے  امکانات کے  سرچشمے  پھوٹتے  ہیں۔ معلّم فنکار ہے اور فنکار معلّم، دونوں  حسن کاروں  کے  عرفان، دل کے  گداز، دماغ کی جولانی، جذبۂ تلاش و جستجو  اور  لذّتِ بے  تابی کے  قائل ہیں۔ معلم کی نگاہوں  سے  ضمیرِ کائنات  اور  ضمیر قوم پوشیدہ نہیں  ہوتا، اس کی شوخیِ فکر و کردار میں  عالمِ نو کی تصویر ہوتی ہے، اس کی فقیری اسرارِ نور کا گہوارہ ہے اور انقلاب اندر شعور کا سانچہ۔ اس کے  دیدۂ تر کی بے  خوابیوں اور اس کے  دل کی پوشیدہ بے  تابیوں  کا اندازہ کرنا آسان نہیں  ہے۔ معلّم کی اسکندری  اور  اس کے  فقر سے  آئینہ سازی بھی ہوتی ہے اور آدم گری بھی۔ شرط یہ ہے  کہ ’متاعِ فقیر‘ کی تفسیر یہ ہو:

مِرے  دیدۂ تر کی بے  خوابیاں

مرے  دل کی پوشیدہ بیتابیاں

مِرے  نالۂ نیم شب کا گداز

مری خلوت و انجمن کا گداز

اُمنگیں  مِری آرزوئیں  مری

اُمیدیں  مری، جستجوئیں  مری

مرا دل، مری رزمِ گاہِ حیات

گمانوں  کا لشکر، یقیں  کا اثبات

یہی کچھ ہے  ساقی متاعِ فقیر

اسی سے  فقیری میں  ہوں  میں  امیر

مرے  قافلے  میں  لٹا دے  اسے

لٹا دے  ٹھکانے  لگا دے  اسے

                                                                                                (محمد اقبال)

معلّم اپنے  رومانی ذہن، جمالیاتی تجربوں، تخلیقی عمل، ذوقِ تپش، حسرتِ تعمیر  اور  داغِ آرزو سے  پہچانا جاتا ہے۔ مولانا رُومی بلاشبہ ایک ایسے  بڑے  معلّم کی نمائندگی کرتے  ہیں  جو علوم  اور  فقر کی نعمتوں  کا سرچشمہ ہے۔ علم کے  تعلق سے  ’’مثنوی مولانا ئے  روم‘‘ میں  کئی معنی خیز اصطلاحیں  ملتی ہیں  مثلاً’ نظر‘، ’بصر،‘ ’دید‘، ’چشمِ دل، چشمِ راست‘ نور دل‘‘ وغیرہ۔ علم سے  دل کا آئینہ پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ انسان آب و خاک کے  علاوہ  اور  بھی جانے  کتنے  نقش دیکھنے  لگتا ہے:

آئینہ دل چوں  شود صافی و پاک

نقشہا بینی بروں  از آب و خاک

علم انسان کے  ہاتھ کا پلا ہوا پرندہ بن جاتا ہے۔ جب وہ صرف ظاہری علم پر بھروسہ نہیں  کرتا۔ کہتے  ہیں:

ورنہ خوانی و ببیند سوزِ تو

علم باشد مرغِ دس آموزِ تو

یعنی تو ’’ظاہری علم‘‘ نہ پڑھے  ( اور  وہ ]خدا[ تیرے  شوق کو دیکھتا ہے، تیرے  علم کی چاہت  اور  آرزو  اور  سوز کو جانتا ہے )تو علم تیرے  ہاتھ کا پلا ہوا پرندہ ہو گا!

          مولانا کی ایک چھوٹی پیاری تمثیل ہے  ’’یافتن بادشاہ باز گم کردہ را نجانۂ پیر زن‘‘ (بادشاہ کا گمشدہ باز کو بوڑھی عورت کے  گھر میں  پالینا) مولانا رومی کہتے  ہیں:

علم آں  بازیست کو از شہ گریخت

گندہ پیر از جہل پیشش کاہ ریخت

علم وہ باز ہے  جو بادشاہ سے  بھاگا  اور  بوڑھی نے  اپنی حماقت سے  اس کے  سامنے  گھاس ڈالی:

علم بازے  داں  کہ اُو از شہ گریخت

سوئے  آں  کمپید کو می آرد بیخت

علم کو وہ باز سمجھ جو بادشاہ سے  بھاگا اُس بوڑھی کے  پاس آیا جو آٹا چھانتی تھی:

پا یکشس بست و پرش کوتاہ کر د

ناخنش ببرید و قوتش کاہ کر د

اس کے  نازک پیر باندھے اور اُس کے  پَر کاٹے، اس کے  ناخن تراشے اور اُسے  گھاس کا چارہ دیا۔ بادشاہ تلاش کرتا رہا، بڑھیا کے  خیمے  کی طرف روانہ ہوا، اچانک دیکھا دھوئیں اور غبار میں  اس کا باز موجود ہے، وہ رو پڑا  اور  نوحہ کر نے  لگا۔

روزِ شہ در جستجو پیگاہ شد

سوئے  آں  کمپیرو آں  خرگاہ شد

دید ناگہ باز را در دو دو گرد

شہ برو بگریست زار و نوحہ کر د

مولانا رُومی نے  یہ بتانے  کی کوشش کی ہے  کہ علم بادشاہ کے  باز کی طرح ہے، اسے  کسی لمحہ نظر انداز نہیں  کرنا چاہیے  ورنہ علم بھی جہالت کی تاریکی  اور  اس کے  دھوئیں  میں  لپٹ جائے  گا۔ بوڑھی عورت کہ جس نے  باز کے  نازک پیر باندھے اور اس کے  پَر کاٹے، اس کے  ناخن چھانٹے اور اسے  گھاس دی جو باز کی غذا نہیں  ہے، وہ جہالت کی علامت ہے۔ مولانا کہتے  ہیں  عقلمند وہ ہے  جو جاہل سے  نجات حاصل کر لے:

عاقل آں  باشد کزیں  جاہل برست

اس کے  بعد اس تمثیل کی روشنی میں  مولانا رُومی نے  کئی سچائیوں  کو سمجھانے  کی کوشش کی ہے۔ بات اللہ کی ذات پاک  اور  اس کی رحمتوں  تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ نے  کہا میں  رحمت کا ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ کُنْت کَنْزاً رَحْمَۃً مَخْفِیَّۃً۔ میں نے  چاہا میں  پہچانا جاؤں  تو میں  نے  مخلوق پیدا کی۔ مولانا نے  حضرت موسیٰؑ، حضرت نوحؑ  اور  حضرت محمد مصطفیؐ  پر اللہ کی رحمتوں  کا ذکر کیا ہے، اللہ نے  انھیں  علم بخشا تھا جس کی وجہ سے  بہت سے  بت ٹوٹے، علم خوبصورت یوسفؑ کی خوشبو ہے  کہ جس سے  کمزور یعقوبؑ کو نئی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ وجود کی گہرائیوں  میں  جو علم حاصل ہوتا ہے  وہ اُس حسّی نُور سے  مختلف ہے  جو مٹّی کی طرف کھینچتا ہے۔ حقیقی علم اللہ کے  نُور تک لے  جاتا ہے، بلندیوں  کی جانب:

نورِ حسّی می کشد سوُئے  ثر یٰ

نور حقّش می برد سوُئے  علیٰ

زانکہ محسوسات دوں  تر عالمے  ست

نور حق دریا و حسّ چو شبنمے  ست

محسوسات کا عالم نیچے  ہے، نورِ الٰہی دریائے  نُور ہے  اس کے  سامنے  نورِ حسّی شبنم کی مانند ہے۔ علم کا معجزہ ’عشق‘ ہے  جو لاٹھی کو سانپ  اور  ہتھیلی کو سورج بنا دیتا ہے۔

          مولانا رُومی کہتے  ہیں  ہمارے  پانچ حواس مادّی ہیں، ان کے  علاوہ باطن میں  دِکھائی نہ دینے  والے  پانچ حواس ہیں  جنھیں  سمجھنا جاننا ضروری ہے:

پنج حِسّ ظاہرِ و پنج نہاں

کہ بشر شد نطفہ مُردہ ازاں

حواسِ باطن ہی سے  مادّی ظاہری حواس میں  تبدیلی آتی ہے، انسان حواسِ باطن سے  کام لینے  لگے  تو ظاہری باطنی حواس میں  بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ مولانا رُومی کے  کلام کے  مطالعہ سے  یہ حقیقت واضح ہوتی ہے  کہ تمام علوم  اور  تمام ثقافتی  اور  تمدّنی تہذیبی ترقی کے  لیے  رُوحانی منزلیں  خالقِ کائنات  اور  ابدی حسن سے  رِشتے  کی پہچان ہو سکتی ہے اور یہی پہچان سب سے  بڑی پہچان ہے:

          مولانا رُومی فرماتے  ہیں:

حِس خفاشت سوئے  مغرب دواں

حِس دُرپاشت سوئے  مشرق رواں

یعنی تیری چمگادڑ والی حِس مغرب کی جانب دوڑنے  والی ہے اور تیری موتی برسانے  والی حِس مشرق کی جانب رواں  ہے  جس خفاشت سے  مراد مادّی ظاہری حواس یا خمسہ ظاہرہ ہے:

پنج حسّے  ہست جز ایں  پنج حِس

آں  چو زر سرخ و ایں  حسّہا چومس

یعنی پانچ ظاہری حواس کے  علاوہ پانچ  اور  حِس ہیں، وہ سرخ سونے  کی مانند ہیں اور یہ دوامی تانبے  کی مانند:

اندراں  بازار کا ہل محشر اند

حِسّ مسِ را چوں  حِسّ زر کے  خرند

یعنی جس بازار میں  اہلِ محشر ہیں  تانبے  کے  حِسّ کو سونے  کے  حِسّ کی طرح کب خریدتے  ہیں:

حِس ابداں  قوّتِ ظلمت می خورد

حِس جاں  از آفتابے  می چرد

بدن کی حِس ظلمت سے  روزی حاصل کرتی ہے اور رُوح کی حِس آفتاب سے  غذا حاصل کرتی ہے۔

          اللہ  اور  اس کے  جلوؤں  کی پہچان قلب، رُوح  اور  نفس کے   ذریعے  ہوتی ہے۔ جو حواسِ خمسہ ظاہرہ ہیں  وہ رُوحانی سطح پر جمالیاتی انکشافات نہیں  کر سکتے۔ اللہ  اور  اس کے  جمال کا عرفان حواسِ باطن ہی سے  ہو سکتا ہے۔ یوں  انسان غور کرے  تو اللہ کے  جلال و جمال کی پہچان کے  لیے  سورج کافی ہے:

اے  صفاتت آفتابِ معرفت

و آفتاب چرخ نہد یک صفت

تیری صفات کو جاننے  پہچاننے  کے  لیے  سورج موجود ہے اور آسمان کا سورج ایک صفت کا پابند ہے۔ جمالِ الٰہی کا خیال آیا  اور  مولانا رُومی کے  وجدان میں  عجیب چمک دمک آ جاتی ہے:

گاہ خورشید و گہے  دریا شوی

گاہ کوہِ قاف و گہ عنقا شوی

اے  اللہ تو کبھی آفتاب کی روشنی  اور  کبھی دریا کے  بہاؤ  اور  اس کی لہروں  میں  نظر آتا ہے، کبھی کوہِ قاف میں اور کبھی عنقا کی مانند کہیں  نظر نہیں  آتا۔

تو نہ ایں  باشی نہ آں  در ذاتِ خویش

اے  فزوں  از و ہمہما و ز بیش بیش

اے  اللہ تو اپنی ذات میں  تو نہ یہ ہے اور نہ وہ ہے، تیری ذات و ہموں  سے  آگے  ہے اور آگے  سے  بھی آگے  ہے۔

          غور کیجیے  کیا خوبصورت بات کہی ہے۔ اَنگنت مظاہرِ جلال و جمال کے  باوجود اللہ بے  نقش ہے، اے  بے  نقش اتنے  خوبصورت مظاہر کے  باوجود تیری وجہ سے  اہلِ تشبیہ بھی  اور  اہلِ توحید بھی حیرت زدہ ہیں۔ تو کبھی اہلِ تشبیہ کو اہلِ توحید بنا دیتا ہے  کبھی اہلِ توحید کو رہزن:

از تو اے  بے  نقش با چندیں  صور

ہم مشتبہ ہم مو ّحدِ خیرہ سر

گہ مشبّہ را مو ّحد می کنی

گہ موحّد را بصورت رہزنی

کہتے  ہیں  حواسِ باطنی سے  جب دل کا آئینہ صاف شفاّف ہو جائے  گا تو انسان آب و خاک سے  بالا نقش دیکھنے  لگے  گا، نقش بھی دیکھے  گا  اور  نقاّش کو بھی:

آئینۂ دل چوں  شود صافی و پاک

نقشہا بینی بروں  از آب و خاک

اللہ حسن ہے اور حسن پسند ہے  (او جمیل ست و یحبّ للجمال) جان کا آئینہ یار کے  چہرے  کے  علاوہ  اور  کیا ہے، اس یار کا چہرہ جو اس دیار کا ہو، عالمِ ملکوت کا ہو۔ لوہے  کا آئینہ جسموں  کے  لیے  ہے۔ رُوح کے  چہرے  کا آئینہ زیادہ قیمتی ہے:

آئینہ جاں  نیست الاّ روئے  یار

روے  آں  یارے  کہ باشد زاں  دیار

آئینۂ آہن برائے  پوستہا ست

آئینہ سیمائے  جاں  سنگیں  بہا ست

خالقِ کائنات کے  جلال و جمال کو دیکھ پا کر مولانا رومیؒ جھوم جھوم گئے  ہیں، اشعار میں  رقص کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے:

گفتم اے  دل آئینہ کلّی بجوَ

رَو بدریا کار بر ناید زجوَ

زیں  طلب بندہ بکوئے  تو رسید

درد مریم را بجز ما بن کشید

دیدۂ تو چوں  دلم را دیدہ شد

صد دلِ نادیدہ غرق دیدہ شد

آئینہ کلّی بر  اور  دم زِدود

دیدم اندر آئینہ نقش تو بود

آئینہ کلّی ترا دیدم اَبد

دیدم اندر چشم تو من نقشِ خود

گفتم آخر خویش را من یافتم

در دو چشمش راہِ روشن یافتم

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

میں  نے  کہا اے  دل مکمل آئینہ تلاش کر، دریا پر جا نہر سے  کام نہ ہو گا، اس طلب کی وجہ سے  خادم تیرے  کوچے  میں  پہنچا، مریم کو درد کھجور کے  درخت کی جانب لے  گیا، تیرا نور جب میرے  دل کا نور بن گیا سیکڑوں  نہ دیکھے  ہوئے  دل دیکھے  ہوئے  میں  سما گئے، میں  نے  دھوئیں  سے مکمل آئینہ نکالا، دیکھا آئینے  میں  تیرا نقش تھا، میں  نے  تجھے  ہمیشہ مکمل آئینہ سمجھا تیری آنکھوں  میں  اپنا نقش دیکھا۔ میں  نے  کہا آخر میں  نے  خود کو پا لیا اس کی دونوں  آنکھوں  میں  روشن راستہ پالیا۔

          علم کے  تعلق سے  مولانا رُومی کی خوبصورت تمثیل ’’جستن آں  درخت کہ ہر کہ میوۂ  آں  خورد ہر گز نمیرد‘‘ (اس درخت کی تلاش کرنا کہ جس کا میوہ جو کھا لے  کبھی مرے  گا نہیں ) توجہ چاہتی ہے:

گفت دانائے  برائے  داستاں

کہ درختے  ہست در ہندوستاں

ہر کسے  کز میوۂ او خورد و برد

نے  شود اُو پیرد نے  ہر گز نمبرد

بادشا ہے  ایں  شنید از صادقے

بر درخت و میوہ آں  شد عاشقے

قاصدِ را ناز دیوانِ ادب

سوُئے  ہندوستاں  رواں  کردار طلب

سالہا می گشت آں  قاصد ازو

گِرد ہندوستاں  برائے  جستجو

شہر شہر از بہر ایں  مطلوب گشت

نے  جزیرہ ماندنے  کوہ و نہ دشت

ہر کرا پرسید کر دش ریشخند

کایں  نحوید جز مگر مجنون ہند

بس کساں  صفعش زدند اندر مزاح

بس کساں  گفتند کاے  صاحب فلاح

جستجوی چوں  تو زیرک سینہ صاف

کے  تہی ماند کجا باشد گزاف

دین مرا عاتش یکے  ضلع دگر

ویں  ز صفع آشکار سخت تر

می ستودندش تمسخر کاے  بزرگ

در فلاں  اقلیم بس ہول دسترگ

(ق)

در فلاں  بیشہ درختے  ہست سبز

بس بلند و پہن و ہرشاخیش گبز

قاصدِ شہ بستہ در جستن کمر

می شنید از ہر کسے  نوعِ دگر

بس سیاحت کر د آنجا سالہا

می فرستادش شہنشہ مالہا

چوں  بسے  دید اندراں  غربت تعب

عاجز آمد آخر الامر از طلب

ہیچ از مقصود اثر پیدا نشد

زاں  غرض غیر خبر پیدا نشد

رشتۂ امید او بکستہ شد

جستہ اُو عاقبت ناجستہ شد

کر د عزمِ بازگشتن سوئے  شاہ

اشک می بارید و می ببرید راہ

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

ایک عقلمند نے  کہانی کے  طور پر کہا کہ ہندوستان میں  ایک ایسا درخت ہے  کہ جس کا میوہ کھا لیا جائے  تو میوہ کھانے  والا کبھی بوڑھا نہیں  ہوتا  اور  وہ کبھی مرتا بھی نہیں، بادشاہ نے  جب یہ سنا تو میوے  کے  لیے  تڑپنے  لگا، عاشق ہو گیا میوے  پر ایک دانا قاصد کو درخت کی تلاش کے  لیے  ہندوستان روانہ کیا، قاصد سالوں  ہندوستان کا چکر لگاتا رہا، تلاش کرتا رہا وہ درخت، شہر شہر گیا، کوئی جزیرہ نہ چھوڑا  اور  نہ کوئی پہاڑ اور  جنگل، جب کسی سے  اس درخت کی بابت دریافت کرتا تو مذاق کا نشانہ بن جاتا، کہا جاتا کہ کوئی مجنوں  جیسا پاگل دیوانہ ہی ایسے  درخت کی تلاش کر سکتا ہے۔ کہیں  چپت  اور  کہیں  سخت چپت پڑی۔ کسی نے  کہا فلاں  علاقے  میں  یہ درخت ہے  گھنے  جنگل کے  درمیان، بہت اونچا، گھنا درخت ہے اور اس کی ہر شاخ موٹی ہے۔ بادشاہ کا قاصد ہر ایک سے  نئی بات سنتا ہوا سالوں  سفر کرتا رہا، جب عاجز آ گیا  اور  مقصود کا کوئی نشان نہ ملا تو اس نے  سوچا بہتر ہے  کہ واپس چلا جائے، آنسو بہاتے  راستہ طے  کر نے  لگا۔

          اس کی ملاقات ایک شیخ، عالم قطب سے  ہوئی، آنسو بھری آنکھوں  سے  مخاطب ہو کر کہا:

گفت شیخا وقتِ رحمت رافت است

نا اُمیدم وقتِ تطف ایں  ساعت ست

گفت و اگو کزچہ نومید یستت

چیست مطلوبِ تو رُوما کیستت

گفت شاہنشاہ کر دم اختیار

از برائے  جستنِ یک شاخسار

کہ درختے  ہست نادرِ درجہات

میوۂ او مایۂ آبِ حیات

سالہا  جستم ندیدم زو نشاں

جزکہ طنز و تمسخر ایں  سرخوشاں

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

قاصد نے  کہا اے  شیخ رحم  اور  مہربانی کا وقت ہے، میں  بہت مایوس ہوں، شیخ نے  دریافت کیا بتا تیری نا اُمیدی کس چیز سے  ہے، تیرا مقصد کیا ہے، کیا چاہتا ہے، قاصد نے  جواب دیا کہ بادشاہ نے  ایک ایسے  درخت کی تلاش کے  لیے  مجھے  منتخب کیا ہے  کہ جس کا پھل آبِ حیات کا سرمایہ ہے، میں  بر سوں سے  تلاش کرتا ہوں  سوائے  طنز  اور  مذاق کے  مجھے اور کچھ نہیں  مل رہا ہے:

شیخ خندید و بگفتش اے  سلیم

ایں  درختِ علم باشد در علیم

بس بلند و بس شگرف و بس بسیط

آبِ حیوانے  ز دریائے  محیط

تو بصورت رفتۂ اے  بے  خبر

زاں  ز شاخ معنی بے  بار و بر

گہ درختش نام شد گہ آفتاب

گاہ بحرش نام گشت و گہ سحاب

آں  یکے  کش صد ہزار آثار خاست

کمتریں  آثار اُو عمر بقاست

شیخ نے  ہنس کر کہا کہ معصوم یہ درخت علم کا درخت ہے، عالم کے  اندر جو بہت بلند، بہت عجیب  اور  بہت پھیلا ہوا ہے، محیط سمندر کا، آب حیات ہے، اے  بے  خبر تو صورت کے  پیچھے  چل پڑا اسی لیے  تو معنی کی شاخ سے  بے  میوہ  اور  پھل کے  ہے  اس درخت کا نام کبھی آفتاب ہے  کبھی اس کا نام سمندر ہوا  اور  کبھی ابر، وہ ایسا عمل ہے  کہ جس سے  لاکھوں  نتیجے  پیدا ہوتے  ہیں۔

          سچا علم حاصل کرنا رُوح کے  نور کو حاصل کرنا ہے۔ علم کی روشنی ہی سے تجلیاتِ الٰہی کا عرفان حاصل ہوتا ہے، اِسی سے  اللہ  اور  بندے  کے  سچے ّ رِشتے  کی پہچان ہوتی ہے۔ اس کی روشنی میں  یہ بات سمجھ میں  آتی ہے  کہ حضرت موسیٰ کی بے  حس و بے  حرکت لاٹھی سانپ کی طرح بن گئی ہے اور پہاڑو اودی لہجہ کس طرح اختیار کر لیتے  ہیں اور ہوا کسی سلیمانؑ کو کس طرح اُٹھا کر لے  جاتی ہے اور لوہے  کا جوہر ہاتھ میں  کس طرح موم بن جاتا ہے اور آگ ابراہیمؑ کے  لیے  کس طرح نسریں  بن جاتی ہے اور سمندر موسیٰ کی بات کس طرح سمجھنے  لگتا ہے۔ کہتے  ہیں:

خاتمِ مِلک سلیمانؑ ست علم

جملہ عالم صورت و جان ست علم

یعنی علم حضرت سلیمانؑ کے  ملک کی انگوٹھی ہے، تمام دنیا صورت  اور  علم رُوح ہے۔

          مولانا رومیؒ نے  ایک جگہ فرمایا ہے  کہ علم کے  دو بازو ہیں اور گمان یا شک کا صرف ایک بازو ہے:

علم را دو پر گماں  را ایک پرست

ناقص آمد ظن بیرواز ابترست

علم کے  دو بازو ہیں  گمان کا ایک، گمان اُڑنے  میں  ناقص ہے اور دُم کٹا ہے۔

مرغِ یک پر زود افتد سرنگوں

باز بر پرّد دو گامے  یا فزوں

ایک باز کا پرندہ جلد سرنگوں  ہو جاتا ہے  پھر دو قدم یا کچھ زیادہ اُڑتا ہے۔

آفت و خیزاں  می رود مرغِ گماں

با یکے  پر برامید آشیاں

گمان کا پرندہ گرتا پڑتا روانہ ہوتا ہے  ایک باز سے  آشیانہ کی امید پر۔

چوں  زطن و ارست علمش رُو نمود

شد دو پر آں  مرغ و پرہا برکشود

جب وہ گمان سے  نجات حاصل کر چکا تو اس کا علم ظاہر ہوا، وہ پرندہ دو بازوؤں  کا ہو گیا  اور  کھول دے۔

بعد ازاں  یمشی سویاً مستقیم

نے  عَلیٰ اوجھہ مُکِباً اَو سقیم

اس کے  بعد ٹھیک سیدھا روانہ ہوتا ہے  نہ اپنے  چہرے  کے  بل اوندھا یا بیمار۔

با دو پر برمی پر و چوں  جبرئیلؑ

بے  گماں  بے  فکرت و بے  قال و قیل

دو بازوؤں  سے  جبریلؑ کی طرح اونچا پرواز کرتا ہے  بغیر گمان، بغیر فکر  اور  بے  قال و قیل۔

(مثنوی مولانا روم دفتر سوم)

          عشق کے  ساتھ علم کے  نور میں  غرق ہونا حیات و کائنات کا عرفان پانا ہے۔ علم ہی سے  انسان قطرے   میں  سمندر  اور  ذرّے  میں  آفتاب دیکھتا ہے:

تا بہ بینم قلزمے  در خطرۂ

آفتابے  درج اندر ذرّۂ

(رومی)        

٭٭٭

عشق کا جمال۔۔عشق کی رُومانیت

صوفی کے   لیے  روحانیت کوئی سنسنی خیز یا ہیجان انگیز تجربہ نہیں  ہے، صوفی باطن کی گہرائیوں  میں  اُتر کر ایک ارفع  اور  بلند سطح پر پہنچ جاتا ہے، اس کا شعور صاف شفاف آئینے  کی مانند چمکتا ہے۔ اسی شعور کے  آئینے  میں  وہ حیات و کائنات کے  رموز و اسرار کو دیکھ لیتا ہے۔ عشق کا جذبہ اتنا روشن ہو جاتا ہے  کہ اس کے  علاوہ  اور  کچھ نظر نہیں  آتا اسی کی روشنی میں 

تجلیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرتا ہے اور خالق کو پا لیتا ہے۔ اسی عشق کی خوبصورت شعاعیں  اُسے  تمام انسانوں  کے  دلوں  تک پہنچا دیتی ہیں اور ایک دلکش جمالیاتی وحدت کا عرفان عطا کرتی ہیں۔ مولانا رومیؒ فرماتے  ہیں  جس نے  خلوت میں  بصیرت کی راہ پا لی (ہر کہ در خلوت بہ بینش یافت راہ) اسے  کسی  اور  چیز کی ضرورت نہیں  ہوتی۔ جس نے  روح کے  حسن کو پا لیا یا جو روح کے  حسن کا ہم پیالہ بن گیا (باجمالِ جاں  چو شدہم کاسۂ) اسے اور کیا چاہیے۔ مولانا رومیؒ کا خیال یہ ہے  کہ عشق بے  نیاز خدا کے  اوصاف میں  سے  ہے:

عشق زا و صافِ خدائی بے  نیاز

عشقِ کمال کا آفتاب ہے  وہ سارے  عالم کا نور ہے  عا   لم خلق سب سایوں  کی مانند ہیں۔

عشق ربّانی ست خورشیدِ کمال

امر نور اوست خلقاں  چوں  ظلال

عشق کی راہ ایسی ہے  کہ اس میں  عمل  اور  علم دونوں  کی راہیں  جذب ہو جاتی ہیں، عمل کی راہ پر انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر چیلنج سامنے  ہوتا ہے، علم کی راہ زندگی کو سمجھاتے اور بہت سی گتھیاں  سلجھاتے  ہوئے  آگے  بڑھتی ہے، عشق کی راہ میں  یہ دونوں  راہیں  جذب ہو جاتی ہیں، عشق کی راہ ایسی ہے  جو انسان کو گم کر دیتی ہے۔ عشق کی راہ پر انسان کی خودی نظر نہیں  آتی، انسان کا عمل خالقِ کائنات کا عمل بن جاتا ہے۔ خدا ہی نئی تراش خراش کرتا ہے  خود کھوکھلا بانس بن جاتا ہے  وہ تراش خراش کے  بعد انسان کو بانسری کی صورت دے  دیتا ہے۔ ایک صوفی اُس کلی کی مانند ہوتا ہے  جو صبح سویرے  سورج کی کرنوں  کو اجازت دیتی ہے  کہ انھیں  کھول دے، اپنی پنکھڑیوں  کو کھول دینے  کی اجازت دیتی ہے  خود نہیں  کھلتی۔ سورج کی شعاعیں  اس کی خوبصورت نازک پنکھڑیوں  کو کھولتی ہیں، بڑی خاموشی سے  آہستہ آہستہ، جیسے  جیسے  کرنیں  پڑتی ہیں  پنکھڑیاں  کھلتی جاتی ہیں، کلی تو عشق کے  جذبے  سے  سرشار صرف اس بات کی اجازت دیتی ہے  کہ سورج کی کرنیں  اس کی پنکھڑیوں  کو کھول دیں، وہ خود کچھ بھی نہیں  کرتی، صوفی جب کلی کی صورت اختیار کر لیتا ہے  تو وہ بھی خاموش رہتا ہے۔ وہ دشوار را ہوں  سے  گزر چکا ہے، عمل کی راہ سے  گزر چکا ہے  علم کی راہِ سے  گزر چکا ہے، دیکھ چکا ہے  کہ اب وہ جس راہ پر ہے  وہ عشق کی راہ ہے  کہ جہاں  اس کی خودی گم ہو چکی ہے اور جہاں  عمل  اور  علم کی راہیں  جذب ہو گئی ہیں۔ صوفی پھر سورج مکھی کے  پھول کی طرح گھومتا ہے۔ جس جانب آفتاب ہوتا ہے  اس کا رُخ بھی اسی طرف ہوتا ہے، عشقِ الٰہی کی شعاعیں  اس کی شخصیت تبدیل کر دیتی ہیں۔ مولانا رومیؒ نے  عشق و  محبت پر اظہار خیال کرتے  ہوئے  کہا ہے:

از  ّمحبت تلخہا شیریں  شود

از  ّمحبت مِسّہا زرّیں  شود

از  ّمحبت دُردہا صافی شود

و ز  ّمحبت دردہا شافی شود

از  ّمحبت خا رہا گل می شود

و ز  ّمحبت سر کہا مُل می شود

از  ّمحبت دار تختے  می شود

و ز  ّمحبت بار بختے  می شود

از  ّمحبت سجن گلشن می شود

بےمحبت روضہ گلخن می شود

از  ّمحبت نار نورے  می شود

و زمحبت دیو حورے  می شود

از  ّمحبت سنگ روغن می شود

بےمحبت موم آہن می شود

از  ّمحبت حزن شادی می شود

و ز  ّمحبت غول ہا دی می شود

از  ّمحبت نیش نوشے  می شود

و ز  ّمحبت شیر موشے  می شود

از  ّمحبت سُقم صحت می شود

و ز  ّمحبت قہر رحمت می شود

از  ّمحبت خار سوسن می شود

و ز  ّمحبت خانہ روشن می شود

از  ّمحبت مردہ زندہ می شود

و ز  ّمحبت شاہ بندہ می شود

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

 محبت سے  کڑوی چیزیں  میٹھی ہو جاتی ہیں،محبت سے  تانبہ سونا بن جاتا ہے،محبت سے  درد شفا بخشنے  والے  بن جاتے  ہیں، کانٹے  پھول  اور  سر کے  شراب بن جاتے  ہیں، سولی تخت بن جاتی ہے، بوجھ خوش نصیبی بن  جاتی ہے، قید خانہ چمن، آگ نور بن جاتی ہے،محبت نہ ہو تو باغ بھٹیّ بن جائے، موم لوہے  میں  تبدیل ہو جائے،محبت سے پتھر تیل  اور  غم خوشی بن جاتا ہے، بچھو کا ڈنک شہد بن جاتا ہے،محبت قہر کو رحمت میں  تبدیل کر دیتی ہے، کانٹے  کو سوسن  اور  گھر کو روشنی کی صورت دے  دیتی ہے۔ مولانا رومیؒ نے  عشق و محبت کو طرح طرح سے  سمجھانے  کی کوشش کی ہے۔ انسان  محبت  اور  عشقِ الٰہی کے  جذبے  کے  ساتھ اپنے  وجود کی گہرائیوں  میں  اُترتا ہے، جتنی گہرائیوں  میں  اُترتا ہے  اسی اعتبار سے  اس کی جڑیں  مضبوط ہوتی ہیں۔ محبت  کے  درخت کو تیزی سے  بڑا ہونا ہے  تو اس کی جڑوں  کو گہرائیوں  میں  ہونا چاہیے۔ جب درخت بڑا ہوتا ہے  تو وہ تو انائی یا انرجی کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کے  پھول پھل تجربے  عطا کر نے  لگتے  ہیں، یہ پھل  اور  پھول غیر معمولی نوعیت کے  ہوتے  ہیں، اپنے  پھولوں  کی خوبصورتی  اور  خوشبو  اور  پھلوں  کی خوشبو  اور  شیرینی  اور  زبردست لذتوں  سے  آشنا کرتے  ہوئے  یہ تو انائی سچائیوں اور حقیقتوں اور زندگی کے  رموز و اسرار کو طرح طرح سے  سمجھانے  لگتی ہے، ایسی ہی ایک تو انائی کا نام محمد جمال الدین مولانائے  روم ہے  جنھیں  ہم سب مولانا رومیؒ کہتے  ہیں۔

           انسان کے  تعلق سے  مولانا رومیؒ کے  یہ خیالات ہمیشہ توجہ طلب رہے  ہیں:

آمدہ اوّل بہ اقلیم جماد

و ز جمادی در نباتی دفتاد

سالہا اندر نباتی عمر و کر د

و ز نباتی یار ناؤ رو از نبرد

و ز نباتی چوں  بہ حیوانی فتاد

نامہ ش حالِ نباتی ہیچ یاد

جز ہماں  میلے  کہ دار دسوئے  آں

خاصہ در وقتِ بہارِ ضمیراں

ہمچو میل کو دُکاں  با مادراں

سرّ میلِ خود نہ داند در لباں

باز از حیواں  سوانسانیش

میکشدآں  خالقے  کہ دانیش

ہمچنیں  اقلیم تا اقلیم رفت

تاشد اکنوں  عاقل و دانا و زفت

ابتدا میں  انسان جماد تھا پھر نبات بنا، صدیوں  صدیوں  نبات رہا۔ نباتی زندگی اُسے  یاد نہیں  ہے۔ نبات سے  حیوان بنا، نباتی حالت اسے  یاد نہیں  سوائے  اس کے  کہ وہ موسمِ بہار کی جانب لپکتا ہے  اس کا ضمیر کھیلنا چاہتا ہے، جس طرح بچے ّ ماؤں  کی طرف لپکتے  ہیں اور پھر اپنے  میلان کی یاد جاتی رہتی ہے، اپنے  میلان کا راز نہیں  جانتا اس کے  بعد حیوان سے  انسان بنا، اس طرح انسان ایک عالم سے  دوسرے  عالم کی طرف چلتا رہتا یہاں  تک کہ وہ عاقل  اور  دانا بن گیا۔ مولانا شبلی نعمانی نے  تحریر کیا ہے  کہ ڈارون سے  بہت پہلے  مولانا رومی ؒ ارتقا کی ان منزلوں  کے  قائل تھے۔

          مولانا رومیؒ نے  انسان کی عظمت کو طرح طرح سے  سمجھا نے  کی کوشش کی ہے۔ مندرجۂ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے:

گر کفِ خاکے  شود چالاک اُو

پیشِ خاکش سر نہد افلاکِ اُو

خاکِ آدم چونکہ شد چالاکِ حق

پیشِ خاکش سر نہد املاکِ حق

اَ لسّماءُ انشقَّت آخر از چہ بود

از یکے  چشمے  کہ خاکے  بر کشود

خاک از دردی نشنید زیرِ آب

خاک بیں  کز عرش بگذشت از شتاب

آں  لطافت پس بداں  کز آبِ نیست

جز عطائے   مبدعِ وہّاب نیست

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

اگر ایک مٹھی مٹی اللہ کی اطاعت کرے  تو اس مٹّی کے  سامنے  آسمان جھک جائیں، خاکِ آدم کی مثال سامنے  ہے۔ اس مٹّی کے  آگے  اللہ کی مملوک نے  سر رکھ دیا، آسمان پھٹ گیا (شق القمر) اس کا سبب یہی تھا کہ مٹّی نے  آنکھ کھولی تھی، مٹّی تلچھٹ ہو جانے  کے  سبب پانی کے  نیچے  بیٹھ جاتی ہے، غور کرو یہی مٹّی تیزی سے  عرش سے  بھی اوپر چلی گئی، یہ لطافت آب و گل کی نہیں  ہے  یہ تو اللہ کی دین ہے، عطا کر نے  والے  نے  یہ تو انائی عطا کی ہے۔

          مومن سے  دوزخ بھی خوفزدہ ہے:

مصطفیؐ فرمود از گفت جحیم

کو بمومن لابۂ گر گردو زبیم

گویدش بگزر زمن اے  شاہ زدد

بیں  کہ نورت سوزِ نارم را ربود

پس ہلاکِ نار نورِ مومن ست

زانکہ بے  ضد دفعِ ضدلا یمکن ست

نار ضد نور باشد روزِ عدل

کاں  زقہر انگیختہ شد دیں  ز فضل

گرہمی خواہی تو دفعِ شرِّ نار

آبِ رحمت بر دلِ آتش گمار

چشمۂ آں  آبِ رحمت مومن ست

آبِ حیواں  روحِ پاکِ محسن ست

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

رسول کریمؐ نے  فرمایا ہے  کہ دوزخ ڈر  اور  خوف سے  مومن کی خوشامد کرے  گی، کہے  گی میرے  پاس سے  جلد چلا جا۔ تیرے  نور نے  میری آگ کی گرمی ختم کر دی، مومن کا نور، آگ کی تباہی ہے، قیامت کے  دن آگ نور کی ضد ہو گی اس لیے  کہ وہ قہر سے  بھڑکی ہے اور یہ فضل و کرم سے  وجود میں  آیا ہے۔  اگر  آگ کے  شر کو ختم کرنا چاہتا ہے  تو اس کے  لیے  رحمت کے  پانی کی ضرورت ہے۔ آبِ رحمت ہی اس آگ کو بجھا سکتا ہے۔ آبِ رحمت کا چشمہ کون ہے  مومن، اس کی پاک روح آب حیواں  ہے۔

          انسان کا دل پاک و صاف ہوتا ہے  تو وہ آب و خاک سے  بہت اوپر نقش دیکھنے  لگتا ہے:

آئینۂ دل چوں  شود صافی و پاک

نقشہا بینی برُوں  از آب و خاک

وہ نقش بھی دیکھتا ہے اور نقاّش کو بھی:

ہم بہ بینی نقش وہم نقاّش را

فرشِ دولت را وہم  ّفراش را!

جسم کی موت اس کے  لیے  سخت پریشان کن  اور  کڑوی نہیں  ہوتی اس لیے  کہ وہ کنویں اور قید خانے  سے  نکل کر چمن میں  جاتا ہے:

تلخ بنوہ پیشِ ایشاں  مرگِ تن

جوں  ردنداز چارہ و زنداں  در چمن

انسان اللہ میں  جذب ہو سکتا ہے، ذرّہ ہونے  کے  باوجود سورج بن سکتا ہے، قطرہ ہونے  کے  باوجود دریا بن سکتا ہے:

غرقِ دریائیم گرچہ قطرہ ایم

جملگی شمیم گرچہ ذرّہ ایم

ہم دریا میں  غرق ہیں   اگر چہ قطرہ ہیں،  اگر چہ ہم ذرّہ ہیں، مجسّم سورج ہیں۔ اعلیٰ انسانی صفات پیدا ہوں  تو انسان عرش تک پہنچ جاتا ہے۔ تمثیل  اور  استعاروں  کے  سہارے  مولانا رومی نے  یہ بات کتنی خوبصورتی سے  سمجھائی ہے، غور فرمائیے:

گندم از بالا بزیرِ خاک شد

بعد ازاں  اُو خوشۂ چالاک شد

دانہ ہر میوہ چوں  گردد دفیں

بعد ازاں  سرہا بر آرد از زمیں

اصل نعمتہا  ز گردوں  تا بخاک

زیر آمد شد غذاے  جان پاک

از تواضح چوں  ز گردوں  شد بزیر

گشت جزو آدمی حیّ دلیر

پس صفاتِ آدمی شد آں  جماد

بر فراز عرش  ّپراں  گشت شاد

کز جہانِ زندہ اوّل آمدیم

باز از پستی سوئے  بالا  شدیم

جملہ اجزا در تحرّک در سکون

ناطقاں  کہ انّا اِلیہِ راجعون

ذکر و تسبیحاتِ اجزاے  نہاں

غلغلے  افگند اندر آسماں

(مثنوی مولانا روم، دفتر سوم)

گیہوں  بلندی سے  مٹّی کے  نیچے  گیا پھر خوبصورت لہلہاتا خوشہ بنا، پھل کا دانہ جب زمین میں  گڑتا ہے  اس کے  بعد ہی زمین سے  سر اُبھارتا ہے، تمام نعمتوں  کی اصل آسمان سے  مٹّی تک نیچے  آئی تو جانِ پاک کی غذا بن گئی، تواضع کی وجہ سے  جب وہ آسمان سے  نیچے  آیا تو وہ زندہ بہادر دلیر انسان کا جزو بن گیا، پس بے  جان آدمی کی صفات سے  موصوف ہو گیا۔ خوش ہو کر آسمان کی بلندی پر اُڑ گیا ہم پہلے  زندہ جہان (عالمِ ارواح) سے  آئے  پھر پستی سے  بلندی کی طرف گئے، تمام اجزا حرکت  اور  سکون میں  کہتے  ہیں  کہ ہم اسی کی جانب لوٹنے  والے  ہیں، پوشیدہ اجزا کے  ذکر  اور  تسبیح نے  آسمان میں  غلغلہ ڈال دیا۔

          یہ انسان، اس کی صفات، اس کے  وجود، اس کی مختصر زندگی  اور  موت  اور  اس کے  لوٹ جانے  کی خوبصورت کہانی ہے۔ وہ لوگ جو اس دُنیا سے  چمٹے  رہتے  ہیں، اپنی رُوح کی آنکھ میں  روشنی پیدا کرنا نہیں  چاہتے، لالچ کی وجہ سے  سچائی کو جاننا نہیں  چاہتے اور حاصل ہوئی لذّت سے  لطف اندوز ہوتے  رہتے  ہیں، ان کی حیثیت وہی ہے  جو ماں  کے  پیٹ میں  بچے ّ کی ہوتی ہے  جو خون چوستا رہتا ہے۔  اگر  پیٹ کے  بچے ّ سے  کوئی رحم میں  کہے  باہر ایک بڑی خوبصورت منظم دنیا ہے  ایک لمبی چوڑی دل کو لبھانے  والی زمین ہے، بے  شمار نعمتیں  ہیں، غذائیں  ہیں:

گر جنیں  را کس بگفتے  در رحم

ہست بیروں  عالمے  بس منتظم

یک زمینِ خرمی باعرض و طول

اندر و بس نعمت و بیحد اکول

پہاڑہیں، دریا ہیں، جنگل ہیں، گلستاں  ہیں، خوبصورت دلفریب باغ ہیں، کھیتیاں  ہیں، بہت بلند اُونچا آسمان ہے  جو حد درجہ تابناک  اور  منوّر ہے۔ آفتاب، چاند  اور  اَنگنت ستارے  ہیں:

کوہسارو بحر ہا و دشتہا

بوستاں  ہا باغہا و کشتہا

آسمانے  بس بلند و پرضیا

آفتاب و ماہتاب و صد سہا

(نبات النعش کا باریک پہلا ستارہ)

جنوبی، شمالی  اور  مغربی ہواؤں  سے  باغوں  میں  حد درجہ تازگی ہے، خوبصورت پھولوں  کی وجہ سے  باغوں  میں  جشن کا ماحول ہے، اس دُنیا کے  عجائب بیان نہیں  کیے  جا سکتے  تو اس اندھیرے  میں  کیوں  ہے؟

از جنوب و از شمال و از دبور

باغہا دارد عروسیہا و سور

در صفت ناید عجائب ہائے  آں

تو دریں  ظلمت چہ در امتحاں

تنگ تاریک قیدخانے  میں  تو خوف کھا رہا ہے:

خوں  خوری در چار میخ تنگنا

درمیان حبس و انجان و عنا

تو بھلا وہ کیوں  سنے:

          اس زندگی کے  بعد جو دوسرا عالم ملے  گا اس کے  متعلق ایسی باتیں  سننے  کو جو لوگ تیاّر نہیں  ہوتے  وہ کچھ اس طرح سوچتے  ہیں  کہ وہ بہت تاریک  اور  تنگ کنواں  ہے۔ (کایں  جہاں  چاہے  ست بس تاریک و تنگ) موت ایک ٹھوس حقیقت ہے، اس کا خوف طاری رہتا ہے اور وہ دُنیا کی لذتوں  کو چھوڑنا نہیں  چاہتے، سمجھتے  ہیں  اس کے  بعد کوئی خوبصورت دنیا نہیں  ہے، ایسی لذتیں  جو ہم حاصل کر رہے  ہیں  پھر کبھی حاصل نہ ہوں  گی۔ لالچ حرص کی وجہ سے  وہ دیکھتے  سنتے  ہیں، وہ پیٹ کے  بچے ّ کی طرح رحم میں  خون چاٹتے  چوستے  رہتے  ہیں:

گوش را بندِ طمع از استماع

چشم را بند غرض از ا ّطلاع

ہمچناں  کہ آں  چنیں  را طمع خوں

کاں  غذائے  اوست در اوطانِ دوں

از حدیثِ ایں  جہاں  محجوب کر د

خون تن را درویش محبوب کر د

زیں  ہمہ انواعِ نعمت ماند فرد

غیر خوں  اُو می نداند چاشت خورد

مولانا رومی کہتے  ہیں  کہ انسان سچائی سمجھ لے  تو اس کی رُوح کی آنکھ روشن ہو جائے، حق دیکھنے  لگے:

چشمِ جانت روش و حق بیں  شود!

(مثنوی مولانا روم، دفتر سوم)

مولانا نے  ’موت‘ کی ایک انتہائی خوبصورت تصویر پیش کی ہے، ’سبلائم‘ (Sublime)کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ جلال و جمال کی آمیزش توجہ چاہتی ہے:

چوں  قضا بیروں  کند از چرخ سر

عاقلاں  گردند جملہ کوروکر

ماہیاں  اُفتند از دریا بروں

مرغِ پرّاں  گرد را ز دامے  زبوں

تاپری و دیو در شیشہ شود

بلکہ ہادتے  ببابل دَر رود

موت جب آسمان سے  سر نکالتی ہے  سب عقلمند اندھے  بہرے  ہو جاتے  ہیں، مچھلیاں  دریا سے  باہر نکل پڑتی ہیں، اُڑنے  والا پرند ایک جال سے  عاجز آ جاتا ہے، یہاں  تک کہ دیو  اور  پری بوتل میں  بند ہو جاتے  ہیں  بلکہ ہار وت بابل چلا جاتا ہے۔ مولانا رُومی کے  داستانی مزاج کی سحرانگیزی کا عجیب اثر ہوتا ہے، کردار گم ہونے  لگتے  ہیں، انتہائی پراسرار طور پر ’مچھلیاں ‘ پرندے، دیو، پری، ہار وت۔

          موت آبِ حیات ہے  اسی لیے  تاریکی میں  ہے:

مرگ راں  آں  کا  ّتفاق امت ست

کاب حیوانی نہاں  دار ظلمت ست

لوگ اس بات پر اتفاق کرتے  ہیں  کہ آبِ حیات تاریکی میں  پوشیدہ ہے  لہٰذا موت کو اچھی طرح سمجھ لے  کہ یہ کیا ہے۔ موت کے  بعد پیالے  کا پانی نہر کے  پانی سے  مل جاتا ہے، اس میں  فنا ہو جاتا ہے اور اُس جیسا ہو جاتا ہے:

آبِ کوزہ چوں  در آبِ جو شود

محو گردہ دردے  و چوں  اُو شود

جب انسان اپنی اصل کے  سامنے  بیخود ہو جاتا ہے  تو اصل میں  جذب ہونے  سے  پہلے  اس کی صورت ختم ہو جاتی ہے، اس کے  باطن کا جلوہ نمودار ہو جاتا ہے:

پیش اصلِ خویش چوں  بیخویش شد

رفت صورت جلوہ مغیش شد!

مولانا کہتے  ہیں  جب تو کنویں  سے  روز مٹّی نکالے  گا تو پانی تک پہنچ جائے  گا:

چوں  ز چاہے  میکن ہر روز خاک

عاقبت اندر رسی در آبِ پاک

یہ دُنیا دُھوپ  اور  چاند کی روشنی سے  بھری ہوئی ہے اور تو ہے  جو سر لٹکائے  کنویں  میں  گھسا ہے:

ایں  جہاں  پر آفتاب و نور ماہ

تو بہشتہ سرخرو بروہ بچاہ

مشرق  اور  مغرب  اور  تمام جہانوں  نے  نور کو محسوس کیا، جب تک تو کنویں  میں  ہے  وہ تجھ پر کیسے  چمکے  گا:

جملہ عالم شرق غرب آں  نور یافت

تا تو در چاہی نخواہد بر تو تافت

فرماتے  ہیں:

پس بصورت عالم صغریٰ توئی

پس بمعنیٰ عالمِ کبریٰ توئی

یعنی صورت کے  اعتبار سے  یہ عالم چھوٹا ہے  لیکن باطن کے  اعتبار سے  بہت بڑا ہے، وسیع ہے، پھیلا ہوا ہے۔ انسان بظاہر ایک چھوٹی دُنیا ہے  لیکن اندر یہ دنیا بہت بڑی  اور  پھیلی ہوئی ہے، باطن میں  ایک بڑا جہاں  رنگ و بو  اور  جانے  کتنی خوبصورت جہتوں  کا جہان ہے:

ظاہراً آں  شاخ اصل میوہ است

باطناً بہر ثمر شد شاخ ہست

یوں  ہر شاخ پھل کی جڑہے  لیکن حقیقت یہ ہے  کہ شاخ پھل کے  لیے  وجود میں  آئی ہے۔ پھل کے  لیے  شاخیں  پیدا ہوئی ہیں:

گر نبودے  میل و اُمّیدِ ثمر

کے  نشاندے  باغباں  بیخ شجر

اگر پھل کی تمنّا  اور  امید نہ ہوتی تو باغباں  جڑ کبھی لگاتا ہی نہیں، اللہ کا مقصد انسان کو پیدا کرنا تھا اسی لیے  یہ خوبصورت دُنیا خلق کی:

پس بمعنی آں  شجر از میوہ زاد

گر بصورت از شجر بودشِ ولاد

پس درخت نے  پھل سے  جنم لیا ہے   اگر چہ ظاہر یہ ہے  کہ درخت سے  اُس کا جنم ہوا ہے۔

          وہ اللہ ہی ہے  جو ایک وقت میں  تجھے  مٹّی کی طرح سرسبز کر دیتا ہے، ایک وقت میں  عزّت بخشتا ہے۔ سالک کے  جسم کو مٹّی کی خاصیت عطا کر نے  والا بھی وہی ہے، وہ چاہتا ہے  اُس پر پھول  اور  نسرین کی بہار آئے:

یک زماں  چوں  خاک سبزت می کند

یک زماں  پرباد و گنبرت می کند

جسمِ عارف را دہد و صفِ جماد

تا برو روید گل و نسرین شاد

مولانا رُومی کہتے  ہیں  باغ  اور  سبزے  وجود کے  اندر میں، باطن میں  ہیں  باہر تو محض اُن کا عکس ہے، اسی طرح کہ جس طرح رواں  پانی میں  باغ کا عکس ہوتا ہے  جو پانی کی لطافت کی وجہ سے  جنبش کرتا رہتا ہے۔ باغ پھل سب دل کے  اندر ہیں  اس کی لطافت کا عکس اس پانی  اور  مٹّی پر ہے:

باغہا و سبزہا درعینِ جاں

بر بروں  عکسش چو در آبِ رواں

آں  خیالِ باغ باشد اندر آب

کہ کند از لطفِ آب آں  اضطراب

باغہا و میوہا اندر دل ست

عکسِ لطفِ آو بریں  آب و گل ست

(مثنوی مولانا روم، دفتر چہارم)

یہ شعر سنئے:

اصلِ ارض اللہ قلبِ عارفست

لامکاں  ست دندارد فوق و پست

یعنی عارف کا دل ہی اللہ کی زمین ہے، جو لامکاں  ہے اور بلندی و پستی نہیں  رکھتا!کہتے  ہیں:

حدِّ جسمت یک دو گز خود بیش نیست

جانِ تو تا آسماں  جولاں  کنیست

یعنی تیرے  جسم کی حد ایک دو گز سے  زیادہ نہیں  ہے، لیکن تیری جان، تیری رُوح آسمان تک چکر لگاتی ہے۔

          یہ شعر بھی معنی خیز ہے:

خاموشی بحرست و گفتن ہمچو جو

بحر می جوید ترا جو رامجو

یعنی خاموشی سمندر ہے اور گفتگو نہر کی طرح ہے۔ تجھے  سمندر تلاش کر رہا ہے  تو نہر کی تلاش نہ کر۔ خاموشی سمندر ہے  جس سے  گفتگو کی نہر نکلتی ہے  جب سمندر خود انسان کی جستجو میں  ہے  تو اُس نہر کو تلاش کر نے  سے  فائدہ کیا ہے؟کہتے  ہیں  جو شخص تقلید کے  پردے  سے  باہر آ گیا وہ ہر موجود کو اللہ کے  نور سے  دیکھتا ہے، کھال سے  گزر کر اُس کی نگاہیں  باطن تک پہنچ جاتی ہیں:

آنکہ آواز پردۂ تقلید جست

اُو بنود حق بہ بیند ہرچہ ست

نور پاکش بے  دلیل و بے  بیاں

پوست بشگافد در آید درمیاں

(مثنوی مولانا روم، دفتر چہارم)

انسان کو باطن کو دیکھنے  والی نگاہ چاہیے، ظاہر کو نہیں، دل کو دیکھنے  والی نگاہ:

ما کہ باطن بین جملہ کشوریم

دل بہ بینم و بظاہر ننگریم

ہم تمام عالم کے  باطن کے  دیکھنے  والے  ہیں  ہم دل دیکھنے  میں  ظاہر کو نہیں  دیکھتے۔

          مولانا رُومی کا جمالیاتی رُومانی ’وژن‘ دُنیا کی ایک خوبصورت تصویر اس طرح پیش کرتا ہے۔ ہر وقت نئی صورت ہے اور نیا جمال ہے، نئے  مشاہدوں  سے  غم دُور ہو جاتا ہے:

ہر زماں  نو صورتے  و نو جمال

تاز نو دیدن فرد میرد ملال

میں  دُنیا کو نعمتوں  سے  بھرا دیکھتا ہوں  چشموں  سے  پانی ہر دَم جوش مار رہا ہے:

من ہمی بینم جہاں  را پر نعیم

آبہا از چشمہا جو شاں  مقیم

جب پانی کی آواز میرے  کان تک آتی ہے  تو میرا دل مست ہو جاتا ہے، میرے  حواس جھومنے  لگتے  ہیں:

بانگِ آبش می رسد در گوشِ من

مست می گردد ضمیر و ہوشِ من

شاخیں  صوفیوں  کی طرح رقص کر رہی ہیں، پتے ّ گویوّں  کی طرح تالیاں  بجا رہے  ہیں:

شاخہا رقصاں  شدہ چوں  تائباں

بر گہا کف زن مثالِ مطرباں

آئینہ برق کی طرح نمدے  سے  چمکتی ہے،  اگر  آئینہ نظر آ جائے  تو کیا ہو گا؟

برق آئینہ است لامع از نمد

گر نماید آئینہ تا چوں  بود

لامحدود رحمتوں  کے  سائے  ہیں، لامحدود رحمتیں  ہر زمانے  میں  جاری ہیں اور تم ہو کہ سوئے  ہوئے  ہو:

رحمتِ بیحد روانہ ہر زماں

خفتہ اید از درکِ آں  اے  مردماں

مولانا رُومی بھی عشق  اور  وجدان کو عقل پر فوقیت دیتے  ہیں۔ کہتے  ہیں  عقلِ جزوی بجلی کی چمک کی طرح ہے، ایسی ہلکی چمک سے  راستہ کیسے  طے  کیا جا سکتا ہے:

عقلِ جزوی ہمچو برق ست و درخش

در درخشی کے  تواں  شد سویِ و حش

عقل کی پیش بینی قبر تک ہے اور صاحبِ دل کی ملکیت صور پھونکنے  تک:

پیش بینی ایں  خرد تا گور بود

واں  صاحب دل بنفخ صور بود

عقل قبر  اور  مٹّی سے  آگے  نہیں  جاتی، رموز و اسرار سے  بھری را ہوں اور عجائب کے  میدان کو اس کے  ذریعے  طے  نہیں  کر سکتے:

ایں  خرد از گور و خاکے  نگزرد

دیں  قدم عرصۂ عجائب پسرد

مولانا رُومی چشم بینی  اور  وجدان کو اہمیت دیتے  ہیں، کہتے  ہیں  ایسی عقل سے  دُور رہ کر غیبی آنکھ تلاش کر تاکہ تو  تجلیاتِ الٰہی  اور  رموزِ کائنات تک پہنچ سکے:

زیں  قدم زیں  عقل رَو بیزار شو

چشمِ غیبی جوی و برخوردار شو

وجدان وجود کا سورج ہے، یہ سورج انسان کے  باطن میں  چھپا ہوا ہے، روپوش ہے:

در بشرروپوش گشت ست آفتاب

عقل دریا کے  اُوپر جھاگ دیکھتی ہے  وجدان دریا کو دیکھتا ہے  جوتحیرات کی ایک دنیا لیے  ہوئے  ہے:

گردشِ کف را چو دیدی مختصر

حیرتت باید بدریا، در نگر

جھاگ دیکھنے  والے  سر پیٹتے  ہیں  جو دریا دیکھتا ہے  وہ تحیرات کی ایک کائنات میں  ہوتا ہے:

آنکہ کف را دید سر کو باں  بود

و آنکہ دریا دید اُو حیراں  بود

جھاگ دیکھنے  والے  محض تعینات کو دیکھتے  ہیں، وجدان کا معاملہ یہ ہے  کہ جس نے  دریا دیکھا اس نے  اپنے  دل ہی کو دریا بنا دیا:

آنکہ کف را دید نیتہا کند

و آنکہ دریا دید دل دریا کند

دریا کو دیکھنے  والا بے  اختیار ہو جاتا ہے  جبکہ جھاگوں  کو دیکھنے  والا اپنے  افعال کی گنتی کرتا رہتا ہے:

آنکہ کفہا دیدۂ باشد در شمار

و آنکہ دریا بدیدہ شد بے  اختیار

جو دریا کو دیکھتا ہے  وہ بے  کھوٹ ہے، کسی چکر میں  نہیں  ہے، صاف شفاّف ہے، پاکیزہ ہے اور جو جھاگ دیکھتا ہے  وہ چکر میں  رہتا ہے:

آنکہ کف را دید در گردش بوُد

و آنکہ دریا دید اُو بینش بوُد

دریا کو دیکھنے  والے  خدا میں  غرق رہتے  ہیں  اُنھیں  سولی پر بھی چڑھایا جاتا ہے۔ دریا دیکھنے  والے  بیخود ہوتے  ہیں:

          ۔۔۔       و آنکہ دریا دید برد ارش کند

          ۔۔۔       و آنکہ دریا دید باشد غرقِ   ہو

          ۔۔۔       و آنکہ دریا دید شد بے  ما و من

حضرت ابراہیمؑ سے  فرمایا گیا تھا  اگر  تجھے  ہماری صفت زندہ کر نے اور مار نے  میں  شک ہے  تو چار پرندوں  کو ذبح کر دے  (الآیۃ)مولانا رُومی کہتے  ہیں  کہ یہ چار پرندے  انسان کی چار بری صفات ہیں۔ انسان اُنھیں  مار ڈالے  تو وہ حد درجہ پاکیزہ ہو جائے  گا۔ ایک پرندہ ہے  ’بطخ‘ جو حرص و لالچ کی علامت ہے۔ جاہ و رُتبہ کی چاہت ’مور‘ ہے، ’مرغ‘ شہوت ہے اور ’کوّا‘ آرزوئے  نفس  اور  درازیِ عمر کی علامت ہے۔ مولانا کا ’آئیڈیل‘ انسان انھیں  زندہ نہیں  رکھتا۔ مولانا کہتے  ہیں  کہ یہ چار وصف انسان کے  دل کو نچوڑنے  والے  ہیں، یہ چاروں  عقل کی چار میخ ہیں:

چار وصف ست ایں  بشررا دل فشار

چار میخ عقل گشتہ ایں  چہار

اے  خورشیدِ ہوش تو اس عہد کا خلیلؑ ہے، ان چاروں  کو مار دے، یہ چار ڈاکو پرندے  ہیں:

تو  خلیلِ وقتی اے  خورشید ہش

ایں  چہار اطیار رہزن را بکش

اس لیے  کہ ان میں  سے  ہر زاغ صفت پرندہ عقلمندوں  کی آنکھ نکال لینے  والا ہے:

زانکہ ہر مرغے  از نیہا زاغ وش

ہست عقلِ عاقلا نرا دیدہ کش

انسان کے  جسم کے  یہ چار اوصاف خلیلؑ کے  پرندوں  کی طرح ہیں، ان کی قربانی رُوح کی راہ صاف کرتی ہے:

چار وصفِ تن چو مرغانِ خلیلؑ

بسملِ ایشاں  دہد جانرا سبیل

ان چار باطنی ڈاکوؤں  نے  لوگوں  کے  دل کے  اندر گھر بنا لیا ہے:

چار مرغِ معنویِ راہزن

کردہ اند اندر دلِ خلقاں  وطن

فرماتے  ہیں:

بط و طاؤس ست زاغست و خروس

ایں  مثالِ چار مرغ اندر نفوس

بط حرص است و خروس آں  شہوتست

جاہ چوں  طاؤس و زاغ آں  ینت ست

منتش آنکہ بود اُمّید ساز

طامعِ تابید یا عمر دراز

بط حرص آمد کہ نولش در زمیں

در تردد در خشک می جوید دفیں

یک زماں  نبود  ّمعطل آں  گلو

نشنود از حکم جز اَمر کلوا

یعنی بطخ  اور  مور ہے، کوّا ہے اور مرغ ہے، انسان کے  نفس کے  اندر یہ چار پرندوں  کی طرح ہیں۔ بطخ حرص ہے اور مرغ شہوت، جاہ و رُتبہ مور کی طرح ہے اور آرزو و نفس کا نمائندہ کوّا ہے، اس کی آرزو سے  یہ امید پیدا ہوتی ہے  کہ انسان ہمیشہ لالچی رہے  اس کی عمر دراز ہوتی جائے۔ حرص بط ہے  کہ اس کی چونچ زمین میں  ہے، تر و خشک میں  دفینہ تلاش کرتی ہے۔

          مولانا فرماتے  ہیں  تیرے  اندر دُودھ کا لامحدود چشمہ ہے  تو گڑھے  سے  دُودھ حاصل کرنا کیوں  چاہتا ہے:

چشمۂ شیرست دَر تو بے  کنار

تو چرا می شیر جویٔ از تغار

نور  اور  تحرّک کا جمال

***

 

          مولانا رُومی کے  کلام میں  نور  اور  تحرّک کے  جو جمالیاتی تجربے  ہیں  وہ آفتاب، روشنی، نور  اور  حرکت کے  جانے  کتنے  پیکروں  کے  ساتھ اُبھرے  ہیں، جمالیاتی وحدت کے  عرفان نے  انسانی رِشتوں  کی معنویت واضح کی ہے۔ فارسی شعرا نے  اس وحدت سے  انسان دوستی کے  جذبے  کو روشن کیا ہے،نورِ حقیقی  اور  حسنِ حقیقی  اور  اس کی حسین  اور  حسین تر تخلیقات کے  تئیں  ایسی بیداری ہے  کہ سب ایک ہی رِشتے  سے  بندھے اور پیوست نظر آتے  ہیں، تمام مذاہب کا جوہر ایک ہے، مذاہب  اور  مشرق و مغرب سے  ذات کی وابستگی کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے، رقص  اور  تحرّک  اور  نور  اور  روشنی کا اضطراب اس وقت منتہا کو پہنچتا ہے  جب ذات، لامکاں  میں  پہنچ جاتی ہے اور اس منزل سے  کائنات کی وحدت کا نظارہ کرتی ہے، کچھ ایسے  ہی تجربوں  کا اظہار اس طرح ہوا ہے:

چہ تدبیر اے  مسلماناں  کہ من خود را نمید انم

نہ ترسانے  یہودم من نہ گبرم نے  مسلمانم

نہ شرقیم نہ غربیم نہ بریم نہ بحریم

نہ از کان طبیعیم نہ از افلاک گرد انم

نہ از ہندم نہ از چینم نہ از بلغار و سقینم

نہ از ملکِ عراقیم نہ از خاک خراسانم

مکانم لامکاں  باشد نشانم بے  نشاں  باشد

نہ تن باشد نہ جاں  باشد کہ من از جانِ جانانم

دویٔ از خود بدر کر دم یکے  دیدم دو عالم را

یکے  جویم یکیِ دانم یکے  بینم یکے  خوانم

(مولانا رومی)

عرفانِ نور نے  تحرّک کی جو نعمت عطا کی ہے  اس کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے  کہ ’ذات‘ محبوب سے  عبارت ہو گئی ہے  اس لیے  جسم ہے اور نہ رُوح، دونوں  دُنیا ایک ہو گئی ہے، ایک کی چاہت، ایک کی جانکاری لہٰذا ایک ہی دیکھتا  اور  محسوس کرتا ہوں۔۔۔ ’ایک‘ ہی کی آواز کا جادو بکھرتا ہے، ’ایک‘ ہی کے  جلال و جمال کے  مظاہر سامنے  آتے  ہیں، اپنا ہی حسن ہے  جو ہر جانب ہے، جب یہ حال ہو تو بتاؤ کہ میں  کس طرح کہوں  کہ میں  مسلمان ہوں  یا عیسائی، یہودی ہوں  یا گبر۔۔۔ میں  تو نہ مشرق ہوں اور نہ مغرب، نہ زمین  اور  نہ سمندر، ہندی ہوں اور نہ چینی، عراق، بلغاریہ  اور  خراسان سے  بھلا میرا کیا رشتہ، میری جگہ تو لامکاں  ہے، میرا نشاں  بے  نشاں  ہے، یہ ’کچھ نہیں ‘ ہی سب کچھ ہے۔

          شمس تبریز کی پُر اسرار شخصیت کے  تعلق سے  ایک غزل میں  جو تاثرات اُبھرے  ہیں  اُن میں  احساسِ نور کے  ساتھ اس پُر اسرار شخصیت کے  تحرّک کو سمجھا جا سکتا ہے، خوبصورت غزل ہے  کہ جس میں  پیکروں  کا متحرّک عمل قابل غور ہے:

بگیر دامن لطفش کہ ناگہاں  بگریزد

ولی مکش تو چو تیرش کہ از کماں  بگریزد

چہ نقشہا کہ ببازد و چہ حیلہا کہ بسازد

بنقش حاضر باشد زراہِ جہاں  بگریزد

در آسمانش بجویٔ چومہ در آب بنابد

در آب چونکہ در آلیٔ بآسماں  بگریزد

ز لامکانش بجویٔ نشاں  و ہمہ لامکاں  بمکانت

چو در مکانش بجویٔ بہ نشاں  بگریزد

چو تیر می برود از کماں  چو مرغ گمانت

یقیں  بداں  کہ یقین وا راز گماں  بگریزد

ز ایں  و آں  بگریزم ز ترس نے  زملال

کہ آن نگار لطیفم ز این و آں  بگریزد

گریزپائے  چو بادم زعشق گل چو صبا دم

گلے  ز بیم خزانی ز بوستاں  بگریزد

چناں  گریزد از تو کہ گر نویسی نقش

زلوح نقش بپرد و ز دل نشاں  گریزد!

قلندر کی پرواز کو مختلف انداز سے  محسوس بنانے  کی اس سے  عمدہ مثال  اور  کہیں  نہیں  ملتی، ’تیر و کمان‘، ’صورت و رُوح‘ پانی میں  مہتاب کا عکس، مکان و لامکان، تخیل کے  طیور، گلاب کی خوشبو، گل و گلستاں، تصویر تاثرات  اور  رُوح سب قلندر کی پرواز کے  اشارے  بن کر نور  اور  تحرّک کے  تہہ دار تاثرات پیدا کرتے  ہیں، اسے  کمان کی طرح کھینچو گے  تو اچانک کماں  سے  پرواز کر جائے  گا،  اگر  کسی ’صورت‘ میں  مجسم ہو گا تو رُوح کی راہ سے  نکل بھاگے  گا، پانی میں  مہتاب کی مانند چمکتا نظر آئے  گا، قریب جاؤ گے  تو وہ آسمان کی جانب پرواز کر جائے  گا، تمھارے  تخیل کے  پرندے  کی مانند پرواز کرتا رہتا ہے، یہ رقص  اور  تحرّک اس لیے  ہے  کہ عظیم تر نور کا رقص  اور  تحرّک جاری ہے، یہ تلاش کا پُر اسرار عمل ہے  جو آرزو کی نغمہ ریز لہروں  کو لیے  ہوئے  ہے، ایسا نہ ہو کہ میں  وہاں  جاؤں  تو وہ یہاں  ہو، میں  یہاں  آؤں  تو وہ وہاں  رہے، اُس میں  جذب  اور  تحلیل ہو جانے  کی آرزو جو عشق کی تخلیق ہے  ایسے  رقص و تحرّک سے  جمالیاتی وحدت کا سچا عرفان حاصل کرنا چاہتی ہے۔

          مولانا رُومی نے  عشق کے  نقطۂ عروج کی ایک ایسی تصویر پیش کی ہے  جو فنّی نقطۂ نظر سے  ایک جمالیاتی تمثیل بن گئی ہے۔ سب کچھ تیاگ دینے اور سب کچھ اُسے  دے  دینے  کے  بعد بھی آنسوؤں  کے  قطروں  سے  یہ احساس دیا ہے  جیسے  ابھی کچھ دینا باقی رہ گیا ہے، عبادت جاری ہے، ایسی آتشیں  عبادت کی کوئی دوسری تصویر کہیں  نہیں  ملتی۔ چند لمحوں  کی تمثیل میں  عشق کا نور کس طرح جلوہ گر ہوا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

چو نمازِ شام ہر کس بند چراغ و خوانے

منم و خیال باری غم و نوحہ و فغانے

چو وضو ز اشک سازم بود آتش نمازم

در مسجدم بسوزد چو در رسد اذانے

عمیاً نماز مستاں  تو بگو درست ہست آں

کہ نداند او زمانے  نہ شناسد او مکانے

عمیاً در رکعت است ایں  عمیاً چہارم است ایں

عمیاً چہ سورہ خواندم چو نداشتم زبانے

در حق چگونہ کوبم کہ نہ دست ماندنی دل

دل و دست چوں  تو بردی بدہ ای خدا امانے

بخدا خبر ندارم چو نماز می گزارم

کہ تمام شد رکوعی کہ امام شد فلانے

شام کی نماز کے  بعد جب چراغ روشن ہو جاتے  ہیں  تو میں  اپنے  محبوب کے  تصوّر میں  کھو جاتا ہوں، اپنے  تمام درد و غم  اور  اپنے  تمام فغاں  کو لیے  ہوئے!

          چونکہ اپنے  آنسوؤں  سے  وضو کرتا ہوں  اس لیے  میری عبادت آتشیں  ہو جاتی ہے! جب عبادت کر نے  کا حکم ہوتا ہے  تو میری مسجد کے  دروازے  میں  آگ لگ جاتی ہے!

          عاشق کی عبادت بھی کتنی حیرت انگیز  اور  پُر اسرار ہوتی ہے!

          کیا یہ کہنا درست ہے  کہ ایسی عبادت زماں  و مکان کے  اصولوں اور قاعدوں  کے  خلاف ہے۔ ایسی عبادت میں  زمان و مکان کے  تئیں  غفلت برتنے  کا کوئی انداز ہے!

          یہ دو رکعتیں  تو حیرت انگیز ہیں  لیکن سب سے  زیادہ حیرت انگیز  اور  پُر اسرار چوتھی رکعت ہے، کتنی حیرت کی بات ہے  کہ زبان کے  بغیر کوئی سورہ پڑھتا ہوں۔

          میرے  جسم میں  دل ہے اور نہ کوئی ہاتھ، اللہ کے  دروازے  کو کس طرح کھٹکھٹا سکتا ہوں، تو نے  اے  اللہ میرا دل بھی لے  لیا  اور  میرے  ہاتھ بھی لے  لے،مجھے  پناہ دے  میرے  آقا۔

          قسم ہے  اللہ کی، میں  عبادت کرتے  ہوئے  یہ نہیں  جانتا کہ میرا کوئی امام آگے  کھڑا ہے  یا نہیں اور رکوع کا اختتام ہو گیا!

          یہ عشق کی آتشیں  عبادت ہے  جو خود نور  اور  تحرّک کا سرچشمہ بنا ہوا ہے!

          جمالیاتِ رومی میں  محسوسات کی ایک طلسمی کائنات ہے  کہ جسے  جس قدر محسوس کریں  گے  نور  اور  تحرک کے  طلسم سے  قریب تر ہوتے  جائیں  گے۔ جو بات کائنات کے  متعلق کہی گئی ہے  وہی بات فنونِ لطیفہ کے  طلسم  اور  مولانا رومی کے  کلام کی پُر اسرار بلاغت کے  متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ ایک شب میں  نے  درویش سے  دریافت کیا کہ کائنات کے  طلسم کا راز کیا ہے، اس راز کو مجھ سے  پوشیدہ نہ رکھو تو اس نے  آہستہ سے  میرے  کان میں  کہا ’’خاموش! یہ جاننے اور محسوس کر نے  کا معاملہ ہے، بیان کر نے اور اظہار کا معاملہ نہیں  ہے۔‘‘ حقیقت بھی یہی ہے، بڑے  تخلیقی فنکاروں  کے  تخیل کی آزادی، ان کے  وژن کے  کرشمے اور اُن کی فنتاسی کے  پیکر اتنے  طلسمی ہوتے  ہیں  کہ انھیں  شدّت سے  محسوس کیے  بغیر کچھ سمجھا نہیں  جا سکتا۔ محبوب کے  جلوے  کو دیکھنے  کے  لیے  ذہن اس طرح تیاّر ہونا چاہتا ہے:

در کش قدح سود اہل تانشوی رُسوا

بر پند دو چشم سر تا چشم نہاں  بینی

یکشائی دو دست خود گر میل کنارستت

بشکن بت خاکی را تار روی بتاں  بینی

تلچھٹ تک پی جاؤ، جام خشک کر دو تاکہ کسی قسم کی شرمندگی نہ ہو، اپنی آنکھیں  بند کر لو تاکہ تم پوشیدہ آنکھوں  کو دیکھ سکو، اپنے  بازوؤں  کو پھیلادو،  اگر  تمھیں  ہم آغوشی کی آرزو ہے، مٹّی کے  تمام بتوں  کو توڑ دو تاکہ تم حسنِ مطلق کا نظارہ کر سکو۔

           اور  جب محبوب سامنے  آتا ہے  تو جمال کے  ساتھ جلال کے  مظاہر بھی رونما ہوتے  ہیں، محبوب کو دیکھتے  ہی جمالیاتی وحدت کا احساس بنیادی احساس بن جاتا ہے، اس کے  باوجود محسوس ہوتا ہے  جیسے  محبوب اس کے  وجود سے  ہم آہنگ نہیں  ہے۔ اس وسوسے  کو شاعر نے  تصویریت کے  احساس کے  ساتھ اُبھارا ہے:

صورت گر نقاشم ہر لحظہ بتی سازم

وانگہ ہمہ بتہا را درپیش تو اندازم

صد نقش بر انگیزم یا رُوح در آمیزم

چوں  نقش ترا بینم در آتشش اندازم

تو ساقیِ خماری یا دُشمن ہشیاری

یا آنکہ کنی ویراں  ہر خانہ کہ برسازم

جاں  ریختہ شد با تو آمیختہ شد باتو

چوں  بویٔ تو دارد جاں  جاں  راہلہ بنوازم

ہر خوں  کہ زمن روید باخاک تو میگوید

با مہر تو ہمرنگم باعشق تو انبازم

در خانۂ آب و گل بے  تست خواب ایں  دل

یا خانہ در آ ای جاں  یا خانہ بپردازم

میں  ایک نقاّش  اور  مصوّر ہوں، تصویریں  بناتا ہوں، ہر لمحہ ایک خوبصورت پیکر خلق کرتا ہوں  لیکن جب تو موجود ہوتا ہے  تو میں  تمام تصویروں  کو ختم کر دیتا ہوں، تمام تصویریں  پگھل جاتی ہیں، بہت سی وہمی صورتیں  بنا کر اُن میں  حرکت پیدا کرتا ہوں، سیکڑوں نقش میں  زندگی پیدا کر دیتا ہوں، لیکن جب میں  تیرا جلال دیکھتا ہوں  تو اپنے  تمام نقش کو نذرِ آتش کر دیتا ہوں، تو ساقی ہے  یا دشمن؟تو میرے  ہر گھر کو تباہ کر دیتا ہے  کہ جسے  میں  بناتا ہوں، میری رُوح تجھ میں  تحلیل ہو چکی ہے۔ میری رُوح کی ہر لہر میں  تیری خوشبو جذب ہے، میں  تو اپنی رُوح کا جشن مناؤں  گا، میرے  وجود سے  جو لہو بہہ رہا ہے  اس کا ہر قطرہ خاک سے  یہ کہہ رہا ہے  تیری

  محبت کی وجہ سے  میرا ایک ہی رنگ ہے۔ تیرے  عشق کا حقدار ہوں، اس خانۂ آب و گل میں  دل تیرے  بغیر ویران۔ ہے  اے  میرے  محبوب اس گھر میں  داخل ہو جا، ایسا نہ ہو کہ میں  اسے  چھوڑ دوں، تو داخل نہ ہوا تو میں  اس خانۂ آب و گل کو چھوڑ کر چلا جاؤں  گا۔۔۔ رُومی کی جمالیاتی وحدت کو تمام رِشتوں  کے  استحکام  اور  ان کی تحلیلی صورت سے  پہچانتے  ہیں۔

          فارسی شعرا نے  عشق کو زندگی کا سرچشمہ تصوّر کیا ہے، یہ عشق ہی کا سفر ہے  جو جاری ہے، اس طرح عشق ایک ایسا کائناتی اصول بن جاتا ہے  کہ جس سے  زندگی کی ابتدا ہوتی ہے، زندگی کی وحدت ہو یا کائنات کے  جلال و جمال کی وحدت، اس کا شعور صرف عشق سے  حاصل ہوتا ہے، ذرّوں  کی کشش  اور  سیّاروں  کی کشش عشق کی وجہ سے  ہے، کوئی شے  اپنی صورت تبدیل کرتی ہے  تو اسی جذبے  کے  تحت اس کی دوسری صورت خلق ہو جاتی ہے، حیات و کائنات کے  جلال و جمال کے  مظاہر کے  ارتقا کا سبب بھی یہی ہے۔ ’’حقیقت‘‘ عشق کی تخلیق ہے  لہٰذا اس کی روشنی کی اَنگنت جہتیں  ہیں، یہی وجہ ہے  کہ حقیقت متحرّک رہتی ہے اور مختلف صورتوں  میں  ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے۔

          مولانا رُومی نے  فرمایا تھا:

عشق ز اوصافِ خدایٔ بے  نیاز

عشق بے  نیاز خدا کے  اوصاف میں  سے  ہے۔

          کہتے  ہیں  میرے  محبوب کے  جانے  کتنے  پیکر ہیں،اس کا حسن اپنے  نور کی متحرّک جلو وں  سے  جانے  کتنی صورتیں  لے  کر آیا ہے۔ وحدت نے  کثرت کے  جلو وں  کی تخلیق کی ہے اور کثرت میں  وحدت کی روشنی ہے۔ اس کا تحرّک ہے، کہیں  یہ احساس ہے  کہ ایک ہی جوہر ہے  جو خالق بھی ہے اور مخلوق بھی، کثرت کو باطن میں  سمیٹ کر اس جوہر کے  حسن  اور  تحرّک کو محسوس کرو، کہیں  یہ تصوّر ہے  کہ کائنات میں  جمالیاتی وحدت ہی مختلف جلو وں  میں  نمایاں اور جلوہ گر ہوئی ہے، کثرت ہی سے  وحدت کی پہچان ممکن ہو سکتی ہے، ہر شے  فوراً وحدت کا احساس پیدا کر دیتی ہے، جمالِ نور  اور  تحرّکِ نور کے  سلسلے  کا کوئی اختتام نہیں  ہے۔ کہیں  تجربہ یہ ہے  کہ جس جانب نظر جاتی ہے  وہی نظر آتا ہے، جس شے  کو دیکھتا ہوں  اس شے  کے  ساتھ اس کا نور شامل ہوتا ہے، کبھی کائنات کے  حسن و جمال کے  ذریعے  اسے  پاتا ہوں اور کبھی اس کے  ذریعے  کائنات کے  حسن و جمال کو پاتا ہوں، ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے  کہ جس میں  وہی سب کچھ ہوتا ہے، اسی میں  سب کچھ ہوتا ہے اور دوسرا لمحہ ایسا ہوتا ہے  کہ اسی سرچشمے  سے  ہر شے  پھوٹتی نظر آتی ہے، بنیادی احساس  اور  تصوّر یہ ہے  کہ ایک ہی نور ہے اور صرف ایک ہی نور کا تحرّک ہے  کہ جسے  ہم کائنات کے  تمام اشیا و عناصر میں  پاتے اور محسوس کرتے  ہیں۔ کثرت کی روشنیاں اور ان کے  تحرکات سب ایک ہی وحدت کے  جمالیاتی رموز ہیں، اسی عرفان سے  محسوس ہوتا ہے  کہ جسم رُوح کی تخلیق ہے  رُوح جسم کی تخلیق نہیں  ہے:

قالب از ماہست شد نے  ما ازو!

اسی سے  منصور کا رقص، رقصِ نور بن کردار تک گیا تھا، اسی عرفان سے  قلب کے  مرکز پر پورے  وجود کا رقص شروع ہو جاتا ہے، ایسا پُر اسرار  اور  مترنم رقص کہ آہنگ  اور  آہنگ کی وحدت کا احساس ہر ادا سے  ملنے  لگتا ہے:

روز و شب در سماع رقصاں  شد

بر زیں  ہمچو چرخ گرداں  شد

بانگ و افغان اُو بعدش رسید

نالہ اش را بزرگ و خورد شنید

سیم و زر را بہ مطرباں  میداد

ہرچہ بودش نجارماں  میداد

یک زماں  بے  سماع و رقص نبود

روز و شب لحظۂ نمی آسود

(مولانا رومی)

حضرت شمس تبریز کے  وجد آفریں  رقص کا ذکر ہے، حقیقت یہ ہے  کہ یہ اُن کے  اپنے  وجود کا رقص ہے، کیف  اور  کیفیتوں  کو بیان کرتے  ہوئے  مولانا نے  باطن  اور  وجود کے  رقص کو ایک بلّوری پیکر (Crystal Image) کی صورت پیش کر دیا ہے۔ یہ وجد و کیف میں  وجد آفریں اور کیف  اور  رقص ہے، شب و روز یہ رقص جاری ہے، وجد و کیف کا یہ رقص ساری کائنات میں  کیف  اور  فضا خلق کر دیتا ہے،جنتوں  کے  تمام جلو وں  کو لیے  زمین پر رقص جاری ہے، وجود ایک وجد آفریں  چیخ کی صورت مجسّم ہو کر اتنا متحرّک ہو جاتا ہے  کہ آسمانوں  کے  منتہائے  کمال تک پہنچ جاتا ہے۔  اور  کون ہے  جو اس آواز کو نہیں  سنتا! سب دَم بخود رہ جاتے  ہیں، اس رقص کے  آہنگ  اور  اس کی موسیقی کو مرتب کر نے  والوں  میں  وہ اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے، ایسے  وجد آفریں  رقص کو دیکھ کر صرف شہر میں  نہیں  بلکہ ساری دُنیا میں  ایک ہنگامہ بپا ہے۔ اس میں  احتجاج بھی ہے، حیرت بھی ہے، یہ کہا جا رہا ہے  کہ ایسا معلّم قطب اسلام کا ایسا فقیہ جسے  ہم نے  دونوں  جہانوں  کا رہنما قبول کر لیا تھا اسی پر ایسا جنون کیونکر طاری ہو گیا ہے، لوگ سرگوشیاں  بھی کر رہے  ہیں  اس کے  باوجود لوگوں  نے  مرکزِ نور کی چاہت، عشق  اور  عشق کے  تحرک۔۔۔  اور  آہنگ  اور  آہنگ کے  رِشتے  کو بخوبی سمجھ لیا ہے، یہی وجہ ہے  کہ وہ عقائد  اور  مذہب سے  ہٹ کر عشق کے  سحر کی جانب بے  اختیار دوڑے  جا رہے  ہیں۔ اب وہ موسیقاروں  کے  ساتھ آزادانہ طور مل کر وہی نغمے  سنا رہے  ہیں۔ اسی رقص کے  دائرے  میں  ساری کائنات کا رقص شروع ہو گیا ہے:

غلغلۂ او فتاد اندر شہر

شہر چہ بلکہ در زمانہ دوہر

کایں  چنیں  قطب و مفتیِ اسلام

کوست اندر دو کون شیخ و امام

شورہا می کند چو شیدا اُو

گاہ پنہاں  و گاہ ہویدا اُو

خلق از وی ز شرع و دیں  گشتند

ہمہ گاں  عشق را رہیں  گشتند

حافظاں  جملہ شعر خواں  شدہ اند

بسوے  مطرباں  رواں  شدہ اند

(مولانا رومی)

یہ ذات کی وسعت کا جمالیاتی اظہار ہے، صاحبِ عشق و عرفان کا رقص ایک ایسی جمالیاتی فضا کی تخلیق کر دیتا ہے  کہ جہاں  ہم تالی کی آواز میں  خود اپنے  لہو میں  رقص کا نظارہ کرتے  ہیں  ایک نہایت ہی آزاد فضا کے  آہنگ میں  پودوں، درختوں  کی  پتیوں اور پتوّں کی تالیوں  کے  آہنگ کو محسوس کرتے  ہیں، رقص اتنا غیر معمولی ہے  کہ ساری کائنات پر وجد طاری ہے۔

          کائنات  اور  وجود کا آہنگ، رقص، تحرّک  اور  رقص آتشیں، نور  اور  روشنی  اور  عشق مولانا رومی کی جمالیات کے  انتہائی روشن  اور  معنی خیز پہلو ہیں۔

          مولانا رومی اتنے  ذہین  اور  تعلیم یافتہ تھے  کہ انھوں  نے  تصوّف کو مذہب کا نغمہ بنا دیا۔ یہ نغمہ کلامِ رُومی میں  اتنا اہم ہے  کہ اس سے اور اس کے  آہنگ سے  ہم اپنے  باطن کی گہرائیوں  سے  بڑی تیزی سے  اُگنے  لگتے  ہیں۔ اس نغمے  سے  ایسی دروں  بینی پیدا ہوتی ہے  کہ اپنی پہچان ہونے  لگتی ہے۔ تصوّف کو مذہب کا نغمہ بنانے  والے  اس بڑے  صوفی شاعر کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے  کہ سچائی کی سچائی اس طرح سمجھ میں  آنے  لگتی ہے  کہ کوئی بھی عالم فاضل ہو، فلسفی صوفی ہو، دانشور ہو وہ ’’ سچائی‘‘ کسی کو بخش نہیں  سکتا۔ کوئی ایسا نہیں  کر سکتا کہ وہ سچائی کو کسی کے  حوالے  کر دے، ہوتا یہ ہے  کہ ہم خود ’ سچائی‘ بن جاتے  ہیں، مولانا رُومی کا کارنامہ یہ ہے  کہ انھیں  پڑھتے  ہوئے  ہم خود ’ سچائی‘ (Truth)بن جاتے  ہیں۔ زندگی کی تاریکی میں  ہم خود روشنی بن جاتے  ہیں، ہم سے  یہ کہا جاتا ہے  کہ تمھارا جسم رُوح کی دین ہے۔ رُوح تمھارے  جسم کی دین نہیں  ہے  تو ہم سمجھ جاتے  ہیں  کہ:

قالب از ما ہست شد نے  ما ازو

کا مفہوم کیا ہے، کوئی بھی عالم صوفی دانشور استاد اللہ کے  نور کو دیکھنے  میں  مدد نہیں  کر سکتا۔ وہ یہی کر سکتا ہے  کہ ہم میں  تشنگی بڑھا دیتا ہے، ہماری پیاس بڑھ جاتی ہے، وہ اپنی پیاس بھی ہمیں  دے  دیتا ہے، وہ اپنے  باطن کی آگ ہمیں  عطا کر دیتا ہے، یہی بڑی بات ہے، ایک بار ہم جلے، ایک بار بھی ہماری تشنگی بڑھی پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں  رہتا، جو ہونا چاہیے  ہو جاتا ہے۔ ہم اللہ کو پالیتے  ہیں  اپنے  اندر  اور  اس کے  جلال و جمال دونوں  کو خوب سمجھنے  لگتے  ہیں، ہم اس کی آواز کو خوب پہچاننے  لگتے  ہیں:

بحر را گویم کہ ہیں  پرنار شو

گویم آتش را کہ رَو گلزار شو

کوہ را گویم سبک شو ہمچو پشم

چرخ را گویم فرد شو پیشِ چشم

گویم اے  خورشید مقروں  شو بماہ

ہر دو را سازم چو دو ابرِ سیاہ

چشمۂ خورشید را سازیم خشک

چشمۂ خوں  را بفن سازیم شک

آفتاب و مہ چو دو گاوِ سیاہ

یوغ بر گردن بہ بنود شاں  آلہ

میں  سمندر کو کہہ دوں  کہ آگ سے  بھرجا! آگ کو کہہ دوں  کہ گلشن بن جا، پہاڑ کو کہہ دوں  کہ گالے  کی طرح ہو جا، آسمان سے  کہہ دوں  کہ آنکھوں  کے  سامنے  نیچے  آ جا، سورج کو کہہ دوں  کہ چاند سے  جا مل، دونوں  کو دو کالے  ابر کی مانند بنادوں، چا ہوں  تو چشمۂ خورشید کو خشک کر دوں۔ چشمۂ خوں  کو مشک بنا دوں، آفتاب  اور  مہتاب کو دو کالے  بیلوں  کی طرح اُن کے  کندھے  پر اللہ چاہے  تو جوا باندھ دے!

          اللہ کے  جلال و جمال دونوں  کی پہچان ہوتی ہے، یہ آواز وجود کی گہرائیوں اور باطن ہی سے  آ رہی ہے۔ چونکہ ہم خود سچائی (Truth)ہیں  اس لیے  جانتے  ہیں  کہ پانی گہرائی میں  پوشیدہ ہو جائے اور چشمے  خشک ہو کر ریگستان بن جائیں  تو پانی کو چشمے  کی صورت دینے  والا وہ بے  مثال، بزرگ  اور  عظیم ہی ہو گا  اور  کوئی نہیں:

آب را در غور  اگر  پنہاں  کنم

چشمہا را خشک و خستلتاں  کنم

آب را در چشمہ کہ آرد دگر

جز منِ بیمثل با فضل و خطر

یہی آواز خود اپنے  وجود کی گہرائی کی آواز ہے۔ اسی آواز  اور  اسی آواز کے  آہنگ سے  محبت کا جذبہ شدّت سے  بیدار ہوتا ہے۔ اس کی بیداری سے  منطق گم ہو جاتی ہے، اس کا سحر غیر معمولی تو انائی رکھتا ہے، عقل تجزیہ کرتی ہے،محبت عقل کی طرح امتحان لینے  کے  لیے  آگے  نہیں  بڑھتی:

لا اُبالی عشق باشد نے  خود

عقل آں  جوید کزاں  سودے  برد

نے  خدا را امتحانے  می کنند

نے  در سود و زیانے  می زند

مولانا رُومی کہتے  ہیں  زلیخا نے  حضرت یوسفؑ کا جو حسن دیکھا تھا وہ اللہ کا جلوہ تھا اس لیے  عقل حیرت سے  تکتے  تکتے  جانے  کہاں  گم ہو گئی!

          انسان اللہ کی  محبت میں  ڈُوب ڈُوب جاتا ہے  تو اس کی دیوانگی شیریں  دیوانگی بن جاتی ہے۔ وہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے  کہ جس طرح اللہ کو وہ محبوب بنائے  ہوتا ہے، مولانا رُومی نے  ’مردِ خدا‘ کو طرح طرح سے  پہچاننے  کی کوشش کی ہے:

مردِ خدا مست بود بے  شراب

مردِ خدا سیر بود بے  کباب

مردِ خدا والہ و حیواں  بود

مردِ خدا را نبود خورد و خواب

مردِ خدا شاہ بود زیر دلق

مردِ خدا گنج بود در خراب

مردِ خدا نیست زبادوز خاک

مردِ خدا نیست زناّر و ز آب

مردِ خدا بحرِ بودِ بے  کراں

مردِ خدا بارہ در بے  سحاب

مردِ خدا دارد صد ماہ و چرخ

مردِ خدا دارد صد آفتاب

مردِ خدا عالم از حق بود

مردِ خدا نیست فقیہ از کتاب

مردِ خد زاں  سوئے  کفرامت ودیں

مردِ خدا را چہ خطا و صواب

مردِ خدا گشت سوار ازِ عدم

مردِ خدا آمدِ عالی رکاب

مردِ خدا ہست نہاں  شمس دین

مردِ خدا را تو بجوی و بیاب

شراب کے  بغیر مست،ہے  نشے  میں  ہے، محبت کا زبردست نشہ طاری ہے، اُسے  کھانے  پینے  کا کب ہوش ہے، اُسے  نیند کب آتی ہے، درویش کے  پیرہن میں  بادشاہ ہے، تباہ شدہ عمارتوں  کے  نیچے  جس طرح کوئی خزانہ دفن ہوتا ہے، نکلتا ہے  تو آنکھیں  بس دیکھتی رہتی ہیں  اسی طرح پیرہن کے  اندر یہ بادشاہ اپنی چمک دمک، شان و شوکت کے  ساتھ ہوتا ہے، مٹّی، ہوا، اتش و آب سے  بھلا اس کا کیا تعلق، وہ تو ایسا پھیلا ہوا سمندر ہے  کہ اس کا کنارا ہی نظر نہیں  آتا، وہ ہیروں  کی بارش کرتا ہے اور اُوپر کہیں  بادل نہیں  ہوتے، اس کے  پاس سیکڑوں  چاند  اور  آسمان ہیں، سیکڑوں  آفتاب ہیں، اس نے سچائی سمجھ لی ہے۔ مولانا رُومی کے  سامنے  حضرت شمس تبریزی کا پیکر ہے، مردِ کامل کا پیکر، اللہ سے  محبت ہو جائے اور انسان اللہ کو اپنے  باطن میں  پالے  تو وہ سچائی (Truth)کو اپنے  طور پر پانے  والا شخص ہے۔ اُس کے  دل میں  خوف نہیں  ہوتا، وہ تردّد نہیں  کرتا، اپنے  وژن  اور  وجدان میں  اللہ  اور  تجلّیاتِ الٰہی کو پالیتا ہے، اس طرح مادّی  اور  رُوحانی دونوں  زندگی پر اس کی گرفت حد درجہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ ایسے  شخص کے  اشارے  پر دُنیا گھومتی ہے، اس کی خواہش کے  مطابق دریاؤں  کے  رُخ بدلتے  ہیں۔ ہر دریا کے  بہاؤ پر اس کا اختیار ہوتا ہے، چاند سورج ستارے  سب کی گردش پر اس کا اختیار ہوتا ہے، زندگی  اور  موت دونوں  ہاتھ باندھے  اس کے  سامنے  کھڑے  رہتے  ہیں، مولانا رُومی کے  یہ اشعار سنئے:

بلکہ والی گشت موجودات را

بے  گمان و بے  نفاق و بے  ریا

بے  مثال و بے  نشان و بے  مکاں

بے  زمان و بے   چنیں  و بے  چناں

بے  شکال و بے  سوال و بے  جواب

دَم مزن واللہ اعلم بالصواب

انسان جب خالقِ کائنات میں  جذب ہو جاتا ہے  تو عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جلال سے  زیادہ جمال کی تصویریں  اُبھر نے  لگتی ہیں، نغمۂ سرمدی کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، محبوب (اللہ) کے  حسن کو دیکھتا ہے  تو بس دیکھتا رہ جاتا ہے اور تمنا جنم لیتی رہتی ہے:

معشوقہ بہ ساماں  شد تا باد چنیں  بادا

کفرش ہمہ ایماں  شد تاباد چنیں  بادا

زاں  طلعت شاہانہ زاں  مشعلۂ خانہ

ہر گوشہ چو بستاں  شد تا باد چنیں  بادا

غم رفت و فتوح آمد شب رفت و صبوح آمد

خورشید درخشاں  شد تا باد چنیں  بادا

اپنے  تمام حسن کے  ساتھ محبوب سامنے  ہے، وہ اسی طرح سامنے  رہے  یہ لمحے  ہمیشہ قائم رہیں، کفر ایمان میں  تبدیل ہو گیا ہے، یہ صورت بھی قائم رہے، یہ سلسلہ بھی قائم رہے، ہمیشہ قائم رہے، وہ اپنے  حسن و جمال کے  ساتھ کیا آیا ہے  کہ گلستاں  میں  ہر جانب حسن کی بہار سی آ گئی ہے، میرے  گھر میں  مشعلِ جمال سے  عجیب روشنی پھیل گئی ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ اسی طرح قائم رہے، غم دُور ہو گیا ہے، مسرّتیں  حاصل ہو رہی ہیں، غم کی جگہ مسرتوں  نے  لے  لی ہے، صبح کے  لیے  رات گزر گئی ہے، یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے، ہمیشہ کے  لیے  قائم رہے۔

          مولانا روم فرماتے  ہیں  میرا دین کیا ہے؟ عشق کے  ذریعے  زندہ رہنا:

دینِ من از عشق زندہ بودن ست

زندگی زیں  جان و سر ننگ منست

اس جان  اور  سر سے  جینا توہین ہے  میں  تو عشق میں  ڈُوب ڈُوب جانا چاہتا ہوں، ظاہری زندگی کی کوئی حیثیت نہیں  ہے، میں  معنوی زندگی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

          جب جسم ختم ہوا تو میرا ’وجود‘ چمکا، میری جان کے  چاند کو صاف ستھری فضا مل گئی:

چوں  غبارِ تن بشد ماہم بتافت

ماہِ جانِ من ہوایِ صاف یافت

کبھی میرے  سینے  میں  صبر تھا، عشق کے  بعد صبر نہیں  رہا، عشق نے  صبر کی جگہ آگ بٹھا دی ہے:

صدر را صبرے  بد اکنوں  آں  نماند

بر مقامِ صبر عشق آتش نشاند

انسان خطرناک زندگی گزارتا ہے  اس لیے  وہ خوفزدہ رہتا ہے اور خوف ایک خالق کا پیکر خلق کر دیتا ہے، یہ ’خدا‘ خوف کے  شدید احساس سے  جنم لیتا ہے، حقیقت یہ ہے  کہ حقیقی خالق کا خوف سے  کوئی تعلق نہیں  ہوتا، وہ تو محبت کے  سمندر کی لہروں  سے  اُبھرتا ہے، وہ عبادت بھی بیکار جاتی ہے  جو ایسے  خالق کے  لیے  ہو جو خوف کا پیکر ہو، ایسی عبادت جھوٹی ہوتی ہے  رائیگاں  جاتی ہے،سچی عبادت پیار سے  ہوتی ہے،سچی عبادت محبت سے  ہوتی ہے، اللہ نورِ عشق ہے، وہ اپنی محبت سے  ہمیں  نوازتا ہے، اس کے  سامنے  بھیک مانگنے  کی ضرورت نہیں  ہوتی اس لیے  کہ ہم اس کے  سامنے  ایک بچے ّ کی طرح ہوتے  ہیں، اپنی معصومیت کے  ساتھ،محبت  چاہتے  ہیں، جیسے  جیسے  محبت ملتی جاتی ہے  شعور کا ارتقا ہوتا جاتا ہے، جیسے  جیسے  شعور کا ارتقا ہوتا جاتا ہے  ہم بھی محبت دینے  لگتے  ہیں، اللہ کے  لیے  ہماری محبت میں  گہرائی  اور  وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ مولانا رومی کہتے  ہیں  محبت یکطرفہ نہیں  ہوتی، اللہ بھی اپنی محبتوں  سے  نوازتا رہتا ہے، ہر وقت نوازتا رہتا ہے:

چون شدی من کانَ للّٰہ از دلہ

من ترا باشم کہ کانَ اللہ لہ

گہ توئی گویم ترا آگاہے  منم

ہر چہ گویم آفتابے  روشنم

ہر کجا تابم زمشکاتت دمے

حل شد آنجا مشکلاتِ عالمے

ہر کجا تاریکی آمد تا سزا

از فروغِ مابود شمس الضحیٰ

ظلمتے  را کافتابش براندشت

ازدمِ ما گردد آں  ظلمت چو چاشت

(مثنوی مولانا روم، دفتر اوّل)

          یعنی جب تو عشق کی وجہ من کانَ للّٰہ بنا، میں  تیرا ہو گیا کیونکہ کانَ اللہ ہے  میں  روشن آفتاب ہوں  تھوڑی دیر کے  لیے  چمک جاتا ہوں  تو اس جگہ دنیا کی مشکلیں  دُور ہو جاتی ہیں، جس جگہ نامناسب تاریکی آتی ہے  ہماری تجلی شمس الضحیٰ بن جاتی ہے۔ جس تاریکی کو آفتاب اُٹھا نہ سکا ہم اسے  چاشت بنا دیتے  ہیں۔ مولانا رُومی کی نظر دراصل اس حدیث پر ہے: ’’جو شخص اللہ کے  لیے  ہو گیا اللہ اس کے  لیے  ہو گیا‘‘ (مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہ لَہٗ) ایک حدیث یہ بھی ہے: ’’میں  جب بندہ سے  محبت کرتا ہوں  تو اس کا کان بن جاتا ہوں  جس سے  وہ سنتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں  جس سے  وہ پکڑتا ہے، جو بندہ اللہ کا ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا۔‘‘ من و تو کا قصہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ مولانا اسی لیے  فرماتے  ہیں  کہ  اگر  تو وجود  اور  عدم سے  گزر جائے  تو تجھے  ابدی زندگی حاصل ہو جائے:

از وجود و از عدم گربگزری

از حیاتِ جاودانی بر خوری

فرماتے  ہیں:

روزِ باراں  ست میرد و تابہ شب

نے  ازیں  باراں  ازاں  بارانِ رب

ہست باراں  ہا جز ایں  باراں  بداں

می نمی بیند و را جز چشم جاں

چشم جاں  را باز کن نیکو نگر

تا ازاں  باراں  عیاں  بینی خضر

(مثنوی مولانا روم، دفتر اوّل)

بارش کا دن ہے، رات تک چل اس بارش سے  نہیں  اللہ کی بارش سے، سمجھ لے  اس بارش کے  علاوہ  اور  بارش بھی ہے  جس کو صرف جان کی آنکھ دیکھتی ہے، جان کی آنکھ کھول کر اچھی طرح دیکھ تاکہ اُس بارش کا سبزہ صاف نظر آئے۔ اللہ پاک کی رحمتوں  کی بارش ہر وقت ہو رہی ہے۔ صرف وہ نگہ اس بارش کو دیکھ سکتی ہے  جو آنکھ کے  اندر رہتی ہے۔ ’وژن‘ کشادہ ہو تو کوئی وجہ نہیں  کہ تو بارش کو نہ دیکھ سکے، محبت  اور  محبت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے  تو انسان ایسا پھول بن جاتا ہے  جو اپنے  اندر سے  خوشبو عطا کر رہا ہو، اس خوشبو کے  ذریعے  تمام اسرار کا پتہ مل جاتا ہے:

ہر گلے  کاندر دروں  بویا بود

آں  گل از اسرارِ گل گویا بود

یہ پھول اپنی خوشبو کے  ساتھ پوری کائنات کو سمجھا دیتا ہے،  اگر  کوئی اس پھول کی صورت، اس کی پتیوں اور اس کی جڑ کو سمجھ لے  تو کوئی وجہ نہیں  کہ وہ کائنات کو سمیٹ نہ لے، ایک ہی پھول اپنی خوشبو کے  ساتھ ایک گہرا ’وژن‘ دے  جاتا ہے، اس پھول کے  ساتھ تمام ستاروں، سیّاروں  ’آفتابوں ‘ مہتابوں  کی وابستگی  اور  گہرائی میں  اُترتی جاتی ہے، زمین اس پھول سے  وابستہ ہے، سورج اس پھول سے  وابستہ ہے، اس پھول کا کوئی رنگ ہی نہیں  ہوتا  اگر  سورج نہ ہوتا  اور  اس کی کوئی صورت ہی نہ ہوتی،  اگر  زمین نہ ہوتی۔ کون جانے   اگر  ستارے  نہ ہوتے  تو اس پھول کی صورت کیا ہوتی۔ آنکھیں  نہ ہوتیں  تو پھول وہ پھول کب رہتا، آنکھیں  ہیں  اس لیے  رنگ ہیں، رنگوں  کا تعلق آنکھوں  سے  ہے۔۔۔ اس طرح تمام اشیا و عناصر  اور  تمام حسّیات پھول  اور  اس کی خوشبو  اور  اس کی صورت  اور  اس کے  رنگ سے  وابستہ ہیں۔ اللہ نے  کائنات میں  جمالیاتی وحدت پیدا کر دی ہے، وہ خود اس وحدت میں  جذب ہے، وہی اس وحدت کا مرکز ہے، وہی اس وحدت کا جلال و جمال ہے، انسان  اور  اللہ جب  محبت میں  جذب ہو جاتے  ہیں  تو انسان ایک خوبصورت پھول کی مانند اپنی خوشبو لیے  تمام اشیا و عناصر سے  ایک باطنی رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ اس سچائی کا انکشاف کوئی معلّم کوئی گرو نہیں  کرتا اس سچائی کا انکشاف خود فرد کے  باطن میں  ہوتا ہے اور پھر ایک چراغاں  کی سی کیفیت ہو جاتی ہے، وحدت کے  اندر جشن کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ اللہ عظیم ہے  وہ عارف کے  جسم کو مٹّی کی ایسی خاصیت عطا کرتا ہے  جس سے  اس پر خوبصورت رنگ برنگے  پھول  اور  دلکش گلِ سیوتی اُگیں:

جسمِ عارف را دہد وصفِ جماد

تا برو روید گل و نسرینِ شاد    (مثنوی مولانا روم، دفتر چہارم)

٭٭٭

تصوّف کی جمالیات۔۔۔ دو بڑے سرچشمے

مولانا رُومی اسطور، قصص، مذاہب وغیرہ سے  گہری دلچسپی رکھتے  ہیں۔ مطالعہ بہت وسیع  اور  گہرا ہے۔ ہمیں  اس بات کا علم ہے  کہ تصوّف  اور  صوفی ازم کے  جو بنیادی ذرائع ہیں  اُن میں  قرآنِ حکیم  اور  احادیث کو سب سے  زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ مولانا رُومی نے  اپنی مثنوی میں  ان دونوں  سرچشموں  سے  بڑا فیض حاصل کیا ہے۔ آیتوں اور ارشادات نبویؐ کو کہانیوں، قصوں اور تمثیلوں  کے  ذریعے  انتہائی فنکارانہ انداز میں  اُجاگر کر نے  کی کوشش کی ہے، استعاروں اور علامتوں  کے  ذریعے  اللہ پاک کے  احکامات  اور  رسولِ کریمؐ کے  ارشادات دل و دماغ میں  اُتار نے  کی کوشش غیر معمولی ہے۔ صوفیانہ ذہن کی رومانیت حد درجہ متحرّک ہے۔ جانے  کتنے  ملکوں، علاقوں  کے قصوں  سے  مدد لی ہے، انھیں  سچائی  اور  حقیقت کو واضح کر نے  کا ذریعہ بنایا ہے، ایک کہانی سے  دوسری کہانی پیدا ہوئی ہے، نبیوں  کی کہانیاں  تمثیلی صورتوں  میں  ملتی ہیں۔

          صوفیوں  کا عقیدہ ہے  کہ قرآنِ حکیم کے  ذریعے  اللہ کی جو پہلی آواز سنائی دی  اور  یہ آواز اپنے  حد درجہ خوبصورت  اور  لطیف آہنگ کے  ساتھ انسان تک پہنچی اس نے  اللہ  اور  انسان کے  شیریں  رِشتے  کو شدّت سے  محسوس بنایا، یہ آواز ایک نغمہ تھی، اس نغمے  کے  جانے  کتنے  آہنگ تھے، الگ الگ سُر تھے، کانوں  میں  رس گھولنے  والے  سُر، وجد طاری کر دینے  والے  سُر، انسان جھوم جھوم گیا، اللہ کی آواز کی سحرانگیزی سے  انسان کے  وجود میں  زبردست تبدیلی آ گئی، عجیب و غریب نغماتی شعور پیدا ہوا یا یہ کہیے  کہ اپنے  اب تک کے  اجنبی عجیب و غریب نغماتی شعور کا احساس ملا۔ کیا یہ نغماتی شعور پہلے  سے  موجود تھا؟ یا اس آواز کے  آہنگ سے  اچانک پیدا ہوا؟ یا اللہ نے  یہ شعور عطا کر رکھا تھا  اور  انسان کے  ہمہ گیر لاشعور میں  کہیں  گم تھا کہ اچانک یہ آواز سنائی دی، اچانک جانے  کتنے  آہنگ پیدا ہوئے، کائنات کا ذرّہ ذرّہ متاثر ہوا، دل متاثر ہوا دماغ متاثر ہوا پورا وجود متاثر ہوا، پہلی آواز کا نغمہ غیر معمولی نغمہ تھا، اس نغمے  نے  کائناتی شعور (Cosmic Consciousness) عطا کیا۔۔۔ قرآنِ حکیم کا نغمہ اللہ کی آواز کا آہنگ ہے، معبودِ حقیقی کی پہلی آواز خالق  اور  انسان کے  عشق کی بنیاد ہے، اِسی آبِ عشق کے  سامنے  آبِ حیات بیکار ہو گیا، مولانا فرماتے  ہیں:

آبِ عشق تو چو مارا دست داد

آبِ حیواں  شد بہ پیشِ ماکساد

یعنی جب تیرے  عشق کا آب ہاتھ آ گیا تو میرے  لیے  آبِ حیات بیکار ہو گیا۔ عقل موت سے  لرزتی رہتی تھی۔ عشق نے  بیباکی سکھائی اس لیے  کہ یہ خود بیباک ہے:

عقل لرزاں  از اجل واں  عشق شوخ

اللہ کی پہلی آواز  اور  اس آواز کے  آہنگ سے  سرور تو پیدا ہوا ہی سرمستی اپنے  عروج پر ایسی پہنچی کہ نطق پر حیرت طاری ہو گئی، اس کا ہوش ہی نہ رہا کہ محبوب سے  گفتگو کی جائے:

حیرتے  آید زعشق آں  نطق را

زہرہ نبود کہ کند اُو ماجرا

عشق کی آگ کے  بھڑکنے  کی کیفیت ایسی ہو گئی کہ زمین  اور  آسمان میں  فرق کرنا ممکن نہ ہوا:

آتشِ عشقش فروزاں  آں  چناں

کہ ندا کنست اُو زمیں  از آسماں

پھر ایسا ہوا اِس عظیم نغمے  کے  پیچھے  وہ چھپ گیا، اس طرح کہ جس طرح کسی پتھر سے  چشمہ پھوٹ پڑتا ہے  توپتھر چشمے  میں  چھپ جاتا ہے، سامنے  صرف چشمہ ہوتا ہے، اس کی خوبصورت آواز ہوتی ہے، اس آواز سے  عشق کی شدّت بڑھ جاتی ہے:

چوں  زسنگے  چشمۂ جاری شود

سنگ اندر چشمہ متواری شود

عشق ٹھاٹھیں  مارتا ہوا ایک سمندر بن گیا، آسمان اس پر ایک جھاگ نظر آنے  لگا۔۔۔ جیسے  کہ زلیخا یوسفؑ کے  عشق میں  تھی:

عشق بحرے  آسماں  بروے  کفے

چوں  زلیخا در ہوایِ یوسفے ؑ

ظاہر ہے  جس کے  لیے  نورِ حقیقی نمودار ہو گیا وہ اندھیرے اور دھویں  پر کب قناعت کرتا ہے:

ہر کہ را نورِ حقیقی رُو نمود

کہ شود قانع بتاریکی و دُود

جس طرح آبِ باراں  سے  گلستاں  میں  سیکڑوں  رنگ پیدا ہو جاتے  ہیں  اسی طرح اس عظیم آواز  اور  نغمے اور اس کے  آہنگ سے  انسان کے  وجود میں  سو رنگ پیدا ہو گئے، اس نے  مٹّی کو سونابنا دیا:

اے  مبدّل کردہ خاکے  را بزر

تاریک مٹّی میں  زندگی پیدا کر دی:

اے  کہ خاکِ تیرہ را تو جاں  دہی

اس نے  زمین کے  جزو کو آسمان بنا دیا:

لیکنجزوِ زمیں  را آسماں

مکاں اور لامکاں  کے  حاکم نے  جس طرح چاہا اسی طرح ہوا:

حاش للّٰہ ایش شاہ اللہ کاں

حاتم آمد در مکاں  و لامکاں

اس کا کرشمہ یہ ہے  کہ اس نے  آگ کو پانی کی شکل دے  دی  اور  آگ کے  اندر چشمہ جاری کر دیا:

آتشے  را شکل آبی دادہ اند

و اندر آتش چشمۂ بکشادہ اند

اس نغمے  نے  انسان کے  دل کو انوار کا علم عطا کر دیا جو کسی کتاب یا کسی گفتگو سے  حاصل نہیں  ہو سکتا تھا:

دانش انوار ست در جانِ رجال

نے  ز راہ دفتر نے  قیل و قال

اللہ کی پہلی آواز  اور  اس کے  آہنگ نے  ایسی سرمستی پیدا کر دی کہ رُوح میں  ایک عجیب شیریں  دیوانگی پیدا ہو گئی، محبت  اور  عشق کے  اس رِشتے  کی وضاحت ممکن نہیں۔

          قدرت کے  عظیم تخلیقی سلسلے  کو دیکھ کر جب ذہن میں  یہ سوال اُٹھا ’’اللہ کون ہے‘‘ تو اس طرح استعاروں  میں  سمجھایا گیا:

          اَللّٰہ نُوْر السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، مَثَل نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ، اَلْمِصْبَاح فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃ کَاَنَّہَا ک۔ وْکَبٌ دُرِّیٌِّ یُّوْقَد مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لّا شَرْقِیَّۃٍ وَ لَاغَرْبِیَّۃٍ یَّ۔ کَاد زَیْ۔ تُہَا یُضِیٔٓ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْہ نَارٌ نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہ لِ۔ نُوْرِہٖ مَنْ یَّشَاء وَ یَضْرِب اللّٰہ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ، وَاللّٰہ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم ٌ۔

          اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس نور کی مثال ایسی ہے  کہ گویا ایک طاق ہے  جس میں  چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں  ہے اور قندیل (ایسی صاف شفاّف کہ) گویا موتی کاسا چمکتا ہوا تارا ہے، اس میں  ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے  (یعنی) زیتون کے، نہ مشرق کی طرف ہے  نہ مغرب کی طرف (ایسا لگتا ہے  کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے  نہ بھی چھوئے، جلنے  کو تیاّر ہے  (بڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے ) اللہ اپنے  نور سے  جس کو چاہتا ہے  سیدھی راہ دِکھاتا ہے اور اللہ (جو) مثالیں  بیان کرتا ہے  (تو) لوگوں  کے  (سمجھانے  کے ) لیے اور اللہ ہر چیز سے  واقف ہے۔ (النور)

          آسمان  اور  زمین سے  مراد کائنات ہے، اللہ ساری کائنات کا نور ہے، یہ نور ساری کائنات میں  جذب ہے، کائنات کے  اندر  اور  باہر۔ اس کے  بہاؤ کے  حسن کا اندازہ کرنا مشکل ہے، یہ اللہ ہی کا نور ہے  کہ جس کی بدولت اشیاء و عناصر کا وجود  اور  ظہور ہے، اشیاو عناصر کے  ظہور کا ایک سلسلہ قائم ہے۔ یہ نور صرف خود ظاہر نہیں  ہوا بلکہ اس نے  کائنات  اور  اس کی ہر شے  کو ظاہر کیا، ہر شے  کو تو انائی بخشی، ہر شے  کو منوّر کیا، عظیم تر نور ہی کی وجہ سے  ہر جانب روشنیوں  کا ظہور ہے، ہر شے  کو روشن کر نے اور ہر شے  کو تو انائی بخشنے  کا سلسلہ اسی نور کی وجہ سے  قائم ہے۔ آسمانوں اور زمین کا نور علم و دانش کا سرچشمہ ہے،  ّ سچائیوں  کا علم اسی سرچشمے  سے  حاصل ہو سکتا ہے۔

          اس دلکش تمثیل میں  ’’چراغ‘‘ ، ’’طاق‘‘  اور  ’’فانوس‘‘ کے  استعارے  معنی خیز ہیں۔ حسن کے  تئیں  بیدار کرتے  ہوئے  اللہ  اور  کائنات  اور  اس پردے  کی جانب ذہن کو لے  جایا گیا ہے  جس کے  پیچھے  حیات و کائنات کے  رموز و اسرا رہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے  نور اتنا شدید  اور  بسیط ہے  کہ آنکھیں  ٹھہر نہیں  سکتیں۔ رموز و اسرار تک پہنچنے  میں  ناکامی ہوتی رہتی ہے، یہاں  نور کا استعارہ اپنے  اندر جلال و جمال کا ایک عالمِ بیکراں  لیے  ہوئے  ہے، حسن کا یہ معنی خیز کیف و سرور بخشنے  والا استعمارہ دل و دماغ، پورے  وجود کو گرفت میں  لے  لیتا ہے۔

          قرآنِ حکیم نے  جمالِ نور کے  مشاہدے  کی جو دعوت دی ہے  صوفی اس پر غور و فکر کرتا ہے، غور و فکر کرتے  ہوئے  تحیّر کے  مقامات کا تجربہ حاصل کرتا رہتا ہے۔ جیسے  جیسے  تحیّر بڑھتا ہے  حسن کی ارفع ترین دلکش شعاعوں  کا شعور حاصل ہوتا رہتا ہے۔ اس جمالیاتی احساس سے  جہاں  کائنات کے  رنگ و نور  اور  کائنات کے  انگنت جلو وں  کی پہچان ہوئی وہاں  کائنات کے  خالق  اور  مرکزی جلال و جمال کے  سرچشمے  تک پہنچنے  کی خواہش بھی تیز تر ہو گئی۔ ’’جدھر رُخ کرو گے  اُدھر اللہ ہی کا چہرہ نظر آئے  گا۔‘‘ فَاَیْنَمَا تَوَلُّوْ فَثَمَّ وَجْہُ۔

          کائنات کے  جلال و جمال  اور  خصوصاً نوری شعاعوں اور رنگوں  کے  حسن کے  احساس کے  ساتھ جب انسان کی نگاہ اپنے  وجود پر پڑتی ہے  تو تحیّر کا جمال اسے  اپنی مکمّل گرفت میں  لے  لیتا ہے  اس لیے  کہ وہ خود اللہ کے  رنگ سے  شرابور پاتا ہے۔ اس کے  کیف و سرور  اور  سرمستی کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے، انسانی وجود کی نوری شعاعوں  سے  جو رنگ بنتا ہے  وہ اللہ ہی کا رنگ ہوتا ہے۔ صوفی اللہ کے  رنگ میں  شرابور ہونا چاہتا ہے۔

          اس کے  باوجود کہ ہر جانب اللہ کا چہرہ ہے اور اس کے  باوجود کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کے  نور سے  شرابور ہے، انسان اللہ کا رنگ اختیار کیے  ہوئے  ہے  اس کے  جلوے  پر نظر ٹھہر نہیں  سکتی، حسن و جمال کے  بنیادی سرچشمے  کو یہ آنکھیں  دیکھ نہیں  سکتیں، حضرت موسیٰ نے  اسے  دیکھنا چاہا تو جواب ملا تو دیکھ نہیں  سکتا۔ (موسیٰ علیہ السلام نے  کہا) ’’اے  رب مجھے  (جلوہ) دِکھا کہ میں  تیرا دیدار کروں  (اللہ نے ) کہا تو مجھے  ہر گز نہ دیکھ سکے  گا۔

          لاَ تُدْرِکُہ الْاَبْصَار وَ ہُوَ یُدْرِک الْاَبْصَارَ، وَہُوَ اللَّطِیْف الْخَبِیْرُ۔

          (وہ ایسا ہے  کہ) نگاہیں  اس کا ادراک نہیں  کر سکتیں اور وہ نگاہوں  کا ادراک کر سکتا ہے اور وہ راز داں  خبردار ہے۔ (الانعام، ۶:۱۰۴)

          حسن کی انتہا حیرت ہے، یہ نور دل و دماغ کو تحیّر کے  لیے  ایسے  مقام پر پہنچا دیتا ہے  کہ جس کا کبھی تصوّر ہی نہیں  کیا گیا ہو، یہ حسنِ تحیّر (Beauty and sublime of wonder) تحیّر کی جمالیات کے  تئیں  جو بیداری پیدا کرتا ہے  اس سے  وِژن میں  گہرائی پیدا ہوتی ہے اور وِجدان روشن ہو جاتا ہے۔ مولانا رومی نے  تمام مقدّس مقامات  اور  تمام عبادت گا ہوں  کے  بعد اللہ کو اپنے  دل کے  اندر پایا  اور  حیرت انگیز سرور  اور  جمالیاتی انبساط پایا۔

          بعض دوسرے  اہم صوفیوں  کی طرح قرآن حکیم مولانا رومی کے  افکار و خیالات  اور  حسّی تجربات کے  لیے  ایک بہت بڑا سرچشمہ ہے، دوسرے  صوفیوں  کی طرح مولانا رُومی نے  بھی قرآنِ حکیم ہی سے  اللہ کی تخلیقی تو انائی کا اپنی سطح پر اندازہ کیا، قرآنِ حکیم نے  اللہ کی تخلیقی تو انائی کا ذکر بار بار کیا ہے، مختلف انداز سے  کیا ہے۔ مندرجہ ذیل ارشادات سے  صوفیوں  کے  ذہن کے  دریچے  وا ہوئے، ذہن میں  زبردست کشادگی پیدا ہوئی:

          لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔

          اللہ بڑا ہی فضل والا ہے۔ وَ اللّٰہ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْم،اس لیے  کہ اس نے  کائنات کو اس کے  جلال و جمال کے  ساتھ خلق کیا، انسان کی تخلیق کی، انسان کی فطرت کو بہت ہی حسین بنایا، وہ علم بخشا جس سے  وہ آشنا نہ تھا:

          عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔

          جس نے  ہر چیز خوب ہی تخلیق کی (بنائی)۔

          اَلَّذِیْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ۔

          ہم نے  انسان کو احسن (بہترین) تقویم (اندازہ کے  ساتھ) خلق کیا۔

          لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔

          قُلْ ہُوَ اللّٰہ اَحَدٌ* اَللّٰہ الصَّمَد * لَمْ یَلِدْ، وَلَمْ یُوْلَدْ * وَلَمْ یَکُنْلَہٗ کُفُواً اَحَدٌ*۔

          آپ ان لوگوں  سے  کہہ دیجیے  کہ وہ یعنی اللہ (اپنے  کمال ذات و صفات سے ) ایک ہے، اللہ ایسا بے  نیاز ہے  کہ وہ کسی کا محتاج نہیں اور اس کے  سب محتاج ہیں، اس کے  اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔

          فَاَیْنَمَا تَوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ۔

          جدھر رُخ کرو گے  اُدھر اللہ ہی کا چہرہ نظر آئے  گا۔

          اللہ نے  انسان کو وہ جمالیاتی حسن عطا کیا کہ جس سے  وہ آسمانوں اور زمین کے  نور  اور  اس نور کے  پُر اسرار تخلیقی عمل کو پہچان سکے، حسین  اور  حسین تر اشیا و عناصر سے  لطف اندوز ہو سکے۔ جمالیاتی انبساط حاصل کرتا رہے،  ّسچی جمالیاتی بصیرت (حسن تقویم) اسے  نورِ الٰہی جمالِ کائنات  اور  جمالِ وجود کے  تئیں  بیدار کرتی رہے، وہ ظلمات (تاریکیوں ) سے  نکال کر نور  اور  روشنی کی جانب لے  آیا:

          یُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلیٰ النُّوْرِ۔

          ظلمات (تاریکیوں ) سے  نکال کر نور کی جانب لے  جاتا ہے، یہ سب رحمتِ نور کی وسیع رحمت ہے۔

          مَا خَلَقَ اللّٰہ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَہُمَا اِلّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُسَمّیً۔

          اللہ نے  زمین کو  اور  آسمانوں  کو  اور  ان ساری چیزوں  کو جو اُن کے  درمیان ہیں  برحق  اور  ایک مدّتِ مقرر ہی کے  لیے  پیدا کیا ہے۔

          یہاں  ’’ایک مدّت تک ہی‘‘ غور طلب ہے۔ مدّت ختم ہوتے  ہی سب کچھ گم ہو جائے  گا۔

          وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَابَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۔

          ’’نہیں  پیدا کیا ہم نے  آسمانوں اور زمین کو  اور  جو کچھ ان دونوں  کے  درمیان ہے  لعب (کھیل تماشا) کے  لیے۔‘‘

          بلکہ آسمانوں اور زمین کو حق پر پیدا کیا ہے۔

          کائنات کی تخلیق کھیل تماشا نہیں  ہے، اس کے  جلو وں  کو تماشا نہ جانو، خالق نے  انھیں  کھیل کھیل میں  خلق نہیں  کیا ہے۔

          ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ۔

          وہ (اللہ) ہی تو ہے  جس نے  تم کو ایک نفس سے  پیدا کیا۔

 اور  پھر اس کے  رگِ جاں  سے  بھی قریب ہو گیا۔

          وَنَحْن اَقْرَب اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔

          ہم تو اس کی رگِ جان سے  بھی قریب ہیں۔

          بَدِیْع السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، اِذَا قَضَا اَمْراً فَاِنَّمَا یَقُوْل لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔

          وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کر نے  والا ہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے  تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے  ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتا ہے۔

          اِنَّمَا اَمْرُہٗ  اَرَادَ شَیْئاً اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنَُ۔

          اس کی عظمت یہ ہے  کہ جب وہ کسی بات کا ارادہ کرتا ہے  تو اس سے  کہہ دیتا ہے  ہو جا  اور  وہ ہو جاتی ہے۔

          صوفیوں  نے  ارشاداتِ خالق کو بہت عزیز رکھا ہے، قرآنِ حکیم ان کے  لیے  ایک بہت وسیع گہرا  اور  تہہ دار نقش ہے۔ مولانا رومی نے  تو قرآنِ کریم کی آیتوں  کے  مفاہیم کی وضاحت کی ہے اور ان کی روشنی میں سچائیوں  کو پانے  کی کوشش کی ہے، قصوں  کہانیوں اور تمثیلوں  کی مدد سے  قرآنِ پاک کی شعاعوں  کو ذہن میں  اُتار نے  کی کوشش کی ہے۔

          حدیث ہے:

          ’’قرآن کا ظاہر  اور  باطن ہے اور اس کے  باطن کا باطن ہے  سات باطنوں  تک۔‘‘

مولانا رومی نے  اس کی تشریح اس طرح کی ہے:

حرفِ قرآں  را بداں  کہ ظاہرست

زیر ظاہر باطنے  بس قاہر ست

جان لے  کہ قرآن کے  لفظ اس کا ظاہر ہیں، ظاہر کے  نیچے  ایک مضبوط باطن ہے۔

زیرِ آں  باطن یکے  بطنِ دگر

خیرہ گردد اندر و فکر و نظر

اس باطن کے  نیچے  ایک دوسرا باطن ہے، جس میں  فکر و نظر حیران ہو جاتی ہے۔

زیر آں  باطن یکے  بطنِ سوم

کہ درد گردد خرد ہا جملہ گم

اس باطن کے  نیچے  ایک تیسرا باطن ہے  کہ اس جا تمام عقل گم ہو جاتی ہے۔

بطن چارم از بنے  خود کس ندید

جز خدائے  بے  نظیر و بے  ندید

قرآن کا چوتھا باطن کسی نے  نہیں  دیکھا، بے  نظیر  اور  لاشریک خدا کے  سوا۔

ہمچنیں  تا  ہفت بطن اے  ذوالکریم

می شمر تو زیں  حدیث مستعم

اسی طرح سات باطن تک تو اس محفوظ حدیث سے  گن لے۔

تو ز قرآں  اے  پسر ظاہر مبیں

دیو آدم را نہ بیند جز کہ طیں

اے  پسر تو قرآن کے  صرف ظاہر کو نہ دیکھ، ابلیس نے  آدمؑ کو سوائے  مٹّی کے  کچھ نہ دیکھا۔

ظاہر قرآں  چو شخص آدمی ست

کہ نقوشش ظاہر و جانش خفی ست

قرآن کا ظاہر آدمی کے  وجود کی طرح ہے، کہ اس کے  نقش ظاہر ہیں اور اس کی رُوح پوشیدہ ہے۔

(مثنوی مولانا روم، دفتر سوم)

          مولانا قرآن کی معنویت کا اندازہ کس طرح کر رہے  ہیں اور ان کی فکر و نظر کس طرح گہرائیوں  میں  اُتری ہے  اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

          قرآنِ حکیم کے  مطالعہ سے  جو تاثرات اُبھرے  ہیں  اُنھیں  مولانا نے  مختلف انداز سے  پیش کر نے  کی کوشش کی ہے۔ ایک جگہ کہتے  ہیں:

قطرہ ہائے  بحر نتواں  شمرد

 ہفت دریا پیشِ آں  بحر ست خرد

 سمندر کے  قطروں  کو شمار نہیں  کیا جا سکتا، اُس سمندر کے  سامنے  ساتوں  دریا چھوٹے  ہیں۔

قالبت پیدا و آنجاں  بس نہاں

راست شد زیں  ہر دو اسبابِ جہاں

تیرا جسم ظاہر ہے اور وہ رُوح پوشیدہ ہے، دنیا کے  کام ان دونوں  سے  درست ہوئے  ہیں۔

تلخ نبود پیش ایشاں  مرگ تن

چوں  روند از چاہ و زنداں  در چمن

جسم کی موت اُن کے  لیے  تلخ نہیں  ہوتی جو کنویں اور قید خانے  سے  نکل کر چمن میں  جاتے  ہیں۔

عشق بشگافد فلک را صد شگاف

عشق لرزاند زمیں  را از گزاف

عشق آسمان میں  سو شگاف ڈال دیتا ہے، عشق زمین میں  لرزش پیدا کر دیتا ہے۔

گردشِ کف را چو دیدی مختصر

حیرتت باید بدریا در نگر

جب تو نے  دریا کے  مختصر جھاگ دیکھے  تجھے  حیرت چاہیے  تو دریا کو دیکھ۔

          مولانا ذہن کو دریائے  حیرت (اللہ) کی جانب لے  جاتے  ہیں، یہ بھی اُن کا بہت خوبصورت شعر ہے:

حیرتے  آید ز عشقِ آں  نطق را

زہرہ نبود کہ کند اُو ماجرا

عشق سے  گویائی پر حیرت طاری ہو جاتی ہے، گفتگو کر نے  کا ہوش کب رہتا ہے۔

          مولانا رُومی نے  حسن  اور  عشق دونوں  کو اپنی فکر و نظر  اور  اپنی شاعری میں  افضل جمالیاتی اقدار کی صورت دی ہے، فرمایا ہے:

عشق قہار ست و من مقہورِ عشق

چوں  شکر شیریں  شدم از شورِ عشق

یعنی عشق غالب ہے اور میں  عشق سے  مغلوب ہوں، میں  عشق کے  نمک سے  شکر کی طرح میٹھا ہو گیا ہوں۔

عشق بینا یاں  بود برکانِ زر

لا جرم ہر روز باشد بیشتر

صاحبِ دل  اور  صاحبِ نگاہ کا عشق سونے  کی کان سا ہوتا ہے  جو ہر روز بڑھتا ہی رہتا ہے۔

   تصوّف کا دوسرا بڑا معنی خیز سرچشمہ رسولِ کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلّم کی ذات پاک  اور  شخصیت ہے۔ اللہ نے  کہا تھا  اگر  تم نہ ہوتے  تو میں  زمین و آسمان کو خلق ہی نہیں  کرتا۔

          مولانا کہتے  ہیں:

گر نبودے  اُو نیابیدے  فلک

گردش و نور و مکانی ملک

گر نبودے  او نیابیدے  بحار

ہیئت ماہی و دُرِّ شا ہوار

گر نبودے  اُو نیا بیدے  زمیں

در درد نہ گنج و بیروں  یاسمیں

(مثنوی مولانا روم، دفتر ششم)

یعنی  اگر  وہ نہ ہوتا آسمان کو حاصل نہ ہوتی گردش  اور  نور  اور  فرشتے  کا مکان بننا،  اگر  وہ نہ ہوتا سمندر کو حاصل نہ ہوتی مچھلی  اور  دُرِّ شاہوار کی کی ہیئت و صورت،  اگر  وہ نہ ہوتا تو زمین کو حاصل نہ ہوتا اندر خزانہ  اور  باہر چنبیلی۔

          مولانا رُومی نے  حضورِ کریمؐ کی سیرتِ پاک کے  کئی پہلو واقعات و تماثیل میں  پیش کیے  ہیں اور ان کے  اقوال کی تشریحیں  کی ہیں۔ مثلاً حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا قصہ، رسولِ کرؐیم کی محبت میں  اُن کی آواز کی گونج ’’اَحد اَحد‘‘ ایک جان کی خوشبو میری جان کو پہنچ رہی ہے۔ مجھے  مہربان دوست کی خوشبو آ رہی ہے:

بوے  جانے  سوی جانم می رسد

بوے  یارِ مہربانم می رسد

حضرتِ بلالؓ کے  تعلق سے  محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  گفتگو، حضورِ کرؐیم کا مزاج پرسی کے  لیے  حضرت بلالؓ کے  پاس آنا، حضور کریمؐ  اور  موت کے  متعلق ان کے  ارشادات:

نقش چوں  کف کے  بجنبد بے  ز موج

خاک بے  بادے  کجا آید باوج

نقش، جھاگ کی طرح بغیر موج کے  کب حرکت کرتا ہے، خاک بغیر کسی ہوا کے  بلندی پر کب پہنچتی ہے۔ ’’حضورِ کریمؐ کا مہمان کے  لیے  حجرے  کا دروازہ کھولنا  اور  اپنے  آپ کو چھپا لینا تاکہ وہ دروازہ کھولنے  والے  کی پرچھائیں  نہ دیکھے اور شرمندہ نہ ہو، بے  دھڑک باہر چلا جائے۔‘‘

مصطفی صبح آمد و در را کشاد

صبح آں  گمراہ را اُو را داد

در کشاد د گشت پنہاں  مصطفی

تا نگردد شرمسار آں  مبتلا

تا بروں  آید رَود گستاخِ اُو

تا نہ بیند در کشادا پشت ورو

یا نہاں  شد در پسِ دیوار یا

از ویش پوشید دامانِ خدا

صبغۃ اللہ گاہ پوشیدہ کند

پردۂ بیچوں  بر آں  ناظر تند

تا نہ بیند خصم را پہلوئے  خویش

قدرتِ یزداں  ازیں  بیش ست بیش

مصطفی می دید احوالِ شبش

لیکِ مانع بود فرمانِ ربش

تاکہ پیش از خبط بکشاید زہے

تانیفند زاں  فصیحت درچہے

لیک حکمت بود و اَمر آسماں

تا بہ بیند خویشتن را اُو چناں

بس عداوت ہا کہ آں  یاری بود

بس خرابیہا کہ معماری بود

چونکہ کافر باب را بکشادہ دید

نرم نرمک از کمیں  بیروں  دوید

(مثنوی مولانا روم، دفتر پنجم)

صبح حضرت محمد مصطفی تشریف لائے اور دروازہ کھول دیا، صبح سویرے  اُس گمراہ کو انھوں  نے  راستہ دے  دیا، دروازہ کھول کر حضورِ کریمؐ چھپ گئے  تاکہ وہ مصیبت میں  گرفتار شرمسار نہ ہو، وہ باہر آ جائے اور بے  دھڑک چلا جائے، دروازہ کھولنے  والے  کی پشت  اور  چہرے  پر اس کی نظر نہ پڑے، دیوار کے  پیچھے  چھپ گئے  یا خدا کے  دامن نے  اُنھیں  چھپا لیا، تاکہ وہ دشمن کو اپنے  پہلو میں  نہ دیکھے، حضورؐ اس کے  رات کے  احوال دیکھ رہے  تھے  لیکن ان کے  لیے  اللہ کا حکم مانع تھا، تاکہ صبح کے  دھاگے  سے  پہلے  وہ راستہ کھول دیں  تاکہ وہ اُس رسوائی سے  کنویں  میں  نہ گرے، جب اس نے  دروازہ کھلا دیکھا تو آہستہ آہستہ باہر نکل گیا۔

          اس واقعہ کے  بعد حضور کریم اُس کے  کپڑے  دھوتے  ہیں، اللہ کے  حکم سے  نجاست صاف کرتے  ہیں، وہ شخص واپس آتا ہے، حضور کو کپڑے  صاف کرتے  دیکھ شرمندہ ہوتا ہے اور مسلمان ہو جاتا ہے۔ اس واقعہ کے  ساتھ دوسرے اور واقعات کو مولانا رومی نے  اپنی عمدہ فنکاری کے  ساتھ پیش کیا ہے۔ حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کا عرب مہمان کو نوازنا  اور  ایسے  واقعات جابجا ملتے  ہیں  کہ جن سے  اعلیٰ اقدار کی خوبصورت تشکیل ہوتی ہے۔ حدیث ہے  کہ میری اُمّت کی مثال حضرتِ نوحؑ  کی کشتی کی سی ہے  جو اس سے  وابستہ ہوا وہ بچا  اور  اُس سے  بچھڑا وہ ڈوبا۔ مولانا رومی نے  اس حدیث کی ایک انتہائی دلکش تشریح کی ہے۔ قرآنِ حکیم نے  رسولِ کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلّم کو ایک انتہائی ممتاز درجہ عطا کیا ہے، جس کا اثر صوفیوں  کے  ذہن پر بہت گہرا ہوا ہے، احادیث کے  مطالعہ سے  حضور ا کرؐم کی سیرت  اور  شخصیت کی جو دلآویز تصویر اُبھرتی ہے  وہ صوفیوں  کے  ذہن پر نقش ہے، ایسا روشن ’وژن‘ صوفیوں  کو  اور  کہیں  بھی نہیں  ملا تھا۔ تاریخ میں  اتنی بلند  اور  دلآویز شخصیت نے  جنم ہی نہیں  لیا تھا:

آئینہ کز زنگ و آلائش جداست

پُر شعاعِ نورِ خورشید خداست

وہ آئینہ جو زنگ  اور  آلائش سے  دُور ہے  وہ اللہ کے  نور کے  آفتاب کی شعاعوں  سے  بھرا ہے!

          رسولِ کریمؐ کے  متعلق مولانا فرماتے  ہیں:

ہفت دریا اندر و یک قطرہ

جملہ ہستہا زمہرش ذّرہ

جملہ پاکیہا ازاں  دریا برند

قطرہ ہا یش یک بیک مینا گزند

یعنی ساتوں  سمندر اُن کے  نزدیک ایک قطرہ ہیں، تمام ہستیاں  اُن کی محبت کا ایک ذرّہ ہیں، سب اُس دریا سے  پاکی حاصل کرتے  ہیں، اُس کا ایک ایک قطرہ مینا بنانے  والا ہے۔

          صوفیوں  نے  ’’معراجِ رسولؐ‘‘ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ حضرت ابن العربیؒ نے  معراج کی جو تصویر پیش کی تھی ڈانٹے  بھی اس سے  بیحد متاثر ہوا تھا  اور  اس نے  ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ میں  جنت  اور  جہنم کی تصویریں  پیش کرتے  ہوئے  ’’معراجِ رسولؐ‘‘  اور  خصوصاً ابن العربی کی تصویر کشی کو ذہن میں  رکھا تھا۔ مولانا رومی نے  بھی معراج کا ذکر کیا ہے اور انتہائی ڈرامائی انداز میں  منظر کشی کی ہے:

چوں  گذشت احمدؐ زسدرہ و مرصدش

از مقام جبریل و از حدش

یعنی جب حضورِ کریمؐ سدرۃ المنتہیٰ  اور  اس کے  مقام سے  گزرے  تو جبریلؑ کے  مقام  اور  اُن کی حد سے  گزرے۔

گفت اُو را کزبیم او مالیست

گفت روزیں  پس مرا دستور نیست

حضور کرؐیم نے  جبریل سے  کہا میرے  پیچھے  آ جاؤ  اور  نہ ٹھہرو۔ جبریل نے  کہا آپ تشریف لے  جائیے۔ اس مقام سے  میرے  لیے  آگے  جانے  کی اجازت نہیں  ہے۔

گفت اُو را ہیں  بپراندر پیم

پیم گفت رَو رومن حریف تونیم

حضورؐ نے  فرمایا میرے  پیچھے  اُڑ آئیے، جبریلؑ نے  کہا آپ تشریف لے  جائیں  میں  آپ کا ساتھی نہیں  ہوں۔

باز گفت اور  ا بیا اے  پردۂ سوز

من باوجِ خود نرفتتم ہنوز

حضورؐ نے  اُن سے  پھر کہا اے  پردہ سوز آ جا میں  تو ابھی اپنی بلندی پر نہیں  پہنچا ہوں۔

گفت بیروں  زیں  حد اے  خوش فرمن

گر زنم پرّے  بسوز و  ّپرِ من

جبریلؑ نے  جواب دیا اے  بلند اقبال  اگر  میں  پر ہلاؤں  تو میرے  پر جل جائیں  گے!

          ان اشعار سے  پہلے  یہ اشعار ہیں:

نقشِ احمدؐ زاں  نظر بیہوش گشت

بحر اُو از مہر کف پرجوش گشت

مہ ہمہ کف ست معطی نور پاش

ماہ را گر کف نباشد گو مباش

احمدؐ ار بکشاید آںپرِ جلیل

تا ابد بیہوش ماندِ جبریلؑ

چوں  گذشت احمد ز سدرہ و مرصدش

ایں  مقامِ جبریل و از حدش

جبریلؑ حضورِ کریمؐ کے  جسم کو دیکھتے  ہی بیہوش ہو گئے۔ رُوح (بحر سمندر) میں  تو اللہ کی محبت کی وجہ سے  ایک عجیب و غریب جوش تھا، رسولِ کریمؐ اللہ کے  ہاتھ ہیں اور اللہ کا ہاتھ ہونا ایسا ہی ہے  جیسے  کہ مجسّم چاند ہاتھ میں  ہو۔ حضورِ کریمؐ  اگر  وہ عظیم پر کھول دیں  تو جبریلؑ تا ابد بیہوش ہو جائیں۔ جب حضورؐ سدرۃ المنتہیٰ سے  گزرے  تو جبریلؑ کے  مقام  اور  اُن کی حد سے  آگے  چلے  گئے۔ حضورؐ نے  فرمایا میرے  پیچھے  آ جاؤ رُکو نہیں، جبریلؑ نے  کہا یہاں  سے  آگے  جانے  کی اجازت نہیں  ہے، آپ تشریف لے  جائیں، یہاں  سے  میں  آپ کا ساتھی نہیں  ہوں،  اگر  اس حد سے  آگے  بڑھا تو میرے  پر جل جائیں  گے۔

باز گفت اُو را بیا اے  پردۂِ سوز

من باوجِ غود نرفتتم ہنوز

گفت بیروں  زیں  حد اے  خوش فرمن

گر زنم پرّے  بسوزد  ّپرِ من

٭٭٭

حضرتِ موٗسیؑ ۔۔ ایک معنی خیز تہہ دار ’آرچ ٹائپ‘

حضرتِ موسیٰؑ ایک معنی خیز تہہ دار ’آرچ ٹائپ‘ (Archetype)بن گئے  ہیں، مولانا رُومی نے  بھی اُنھیں  معنی خیز حسّی پیکر بنایا ہے۔ ایک جگہ کہتے  ہیں:

چوں  ندید اُو مارِ موسیٰؑ را ثبات

در حبال السحر پندار و حیات

یعنی جب اس نے  موسیٰؑ کے  سانپ کا ثبات نہیں  دیکھا تو جادو کی رسیوں  میں  زندگی سمجھنے  لگا۔

          یہ شعر دیکھئے:

صدق موسیٰؑ بر عصا و کوہ زد

بلکہ بر دریائے  پُر اشکوہ زد

یعنی حضرت موسیٰؑ کی سچائی نے  لاٹھی  اور  پہاڑ پر اثر کیا بلکہ ہیبت ناک دریا پر اثر کیا۔

          صوفی کے  تعلق سے  یہ اشعار سنئے، حضرت موسیٰؑ  اور  ان کے  عصا کے  استعارے  اپنی چمک دمک لیے  کس طرح آئے  ہیں:

نقشِ صوفی باشد اُو را نیست جاں

صوفیاں  بدنام ہم زیں  صوفیاں

بر در و دیوار جسم گلِ سرشت

حق ز غیر ت نقش صوفی نوشت

تا زسحر آں  نقشہا جنباں  شود

تا عصای موسوی پنہاں  شود

نقش ہا را می خورد صدقِ عصا

چشمِ فرعونی ست پر گردد حصا

(مثنوی مولانا روم، جلد پنجم)

وہ جو صوفی کی تصویر ہے  اس میں  کوئی حرکت کوئی زندگی نہیں  ہے، ان صوفیوں  سے  صوفی بدنام ہو گئے  ہیں۔ مٹّی کے  بنے  ہوئے  بدن و جسم کے  درودیوار پر اللہ نے  غیر ت سے  سیکڑوں  صوفیوں  کی تصویریں  بنا دیں  تاکہ وہ تصویریں  سحرِ جادو سے  متحرّک رہیں، جب تک حضرت موسیٰؑ کا عصا مخفی  اور  پنہاں  رہے، ان تصویروں  کو عصا کی سچائی نگل جاتی ہے، فرعون کی آنکھ گرد  اور  کنکریوں  سے  بھری ہوئی ہے۔

          یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

موسیا کشفِ طع برکہ فراشت

آں  مخیّل تابِ تحقیقت نداشت

اے  موسیٰؑ تجلّی کا کشف پہاڑ پر پڑا وہ خیال کر نے  والا آپ کی تحقیق کی طاقت نہیں  رکھتا۔

          یہ اشعار سنئے:

شد عصا اندر کفِ موسیٰؑ گوا

شد عصا اندر کفِ ساحر ہبا

عصا حضرتِ موسیٰؑ کے  ہاتھ میں  گواہی بنا، لاٹھی اژدہا بن گئی جو معجزہ ہونے  کے  سبب رسالت کی گواہ بنی، ساحر شکست کھا گئے، سحر تو کیا لیکن لاٹھی ہاتھ میں  بیکار ہو گئی۔

رفت موسیٰؑ در و غا بایک عصاش

زد براں  فرعون و بر شمشیر ماش

جب جنگ ہوئی تو حضرتِ موسیٰؑ صرف ایک عصا لے  کر گئے اور اسی کو فرعون  اور  اُس کی شمشیروں  پر چلایا۔

غوطۂ خود موسیا اندر بحار

و زمیانِ دورِ احمدؐ سر بر آر

اے  موسیٰؑ سمندروں  کے  اندر غوطہ لگا  اور  احمدؐ کے  دور کے  درمیان سر اُبھار۔

گفت یا موسیٰؑ بداں  نمبود مت

راہِ آں  خلوت بداں  بکشود مت

اللہ نے  کہا اے  موسیٰؑ اسی لیے  میں  نے  نہیں  اس خلوت کا راستہ تم پر کھولا ہے۔

حق ہمی گوید کہ اے  مغرورِ کور

نے  زنامم پارہ پارہ گشت طور

دھوکے  بتلا اندھے  کیا میرے  نام سے  کوہِ طور ریزہ ریزہ نہیں  ہوا؟

          غور کیجیے  گا کہ موسیٰؑ سے  بات کہاں  تک پہنچا دی ہے:

تا ز زخمِ لخت یابم من حیات

چوں  قتیل از گاوِ موسیٰؑ اے  ثقات

تاز زخمِ لخت گاوے  خوش شوم

ہمچو کشتہ گاوِ موسیٰؑ گش شوم

زندہ شد کشتہ ز زخم دُمّ گاؤ

ہمچوِمس از کیمیا شد زر ساؤ

کشتہ برجست و بگفت اسرار را

دا نمودِ آں  زمرۂ خونخوار را

گفت روشن کایں  جماعت کشتہ اند

تخم ایں  آشوب ایشاں  کشتہ اند

چونکہ کشتہ گردد ایں  جسمِ گراں

زندہ گردد ہستیِ اسرار داں

جانِ اُو بیند بہشت و نار را

باز داند جملۂ اسرار را

وا نماید خونیانِ دیو را

وا نماید دام خدعہ و ریو را

گاؤ کشتن ہست از شرط طریق

تا شود از زخم دمش جاں  مفیق

گاؤ نفس خویش را زو تر بکش

تا شود روحِ خفی زندہ بہُش

ایں  سخن را مقطع وپایاں  مجو

حالِ ذو النوّں  بامریداں  باز گو

(مثنوی مولانا روم، دفتر دوم)

چمڑے  کے  ٹکڑے  کی چوٹ سے  مجھے  زندگی مل جائے، جس طرح موسیٰؑ کی گائے  سے  مقتول نے  حیات پائی، تاکہ گائے  کے  چمڑے  کے  ٹکڑے  میں  خوش ہو جاؤں۔ موسیٰؑ کی گائے  کے  مقتول کی طرح شاداں  ہو جاؤں، گائے  کی دُم کی چوٹ سے  مقتول زندہ ہو گیا، جیسے  تانبا کیمیا سے  خالص سونا بن جاتا ہے، مقتول اُٹھ کر بیٹھ گیا  اور  راز بتانے  لگا،  اور  قاتل کو ظاہر کر دیا۔ صاف طور پر بتایا کہ اس جماعت نے  قتل کیا۔ فساد کے  بیج اُن کے  بوئے  ہوئے  ہیں، جب یہ بھاری بھرکم جسم مردہ ہو جاتا ہے، راز داں  زندہ ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی دوزخ  اور  جنت دیکھتی ہے۔  اور  تمام رموز اسرار سے  باخبر ہو جاتی ہے۔ قاتل کو ظاہر کر دیتی ہے، مکر  اور  فریب کے  جال کو صاف دِکھا دیتی ہے، گائے  کو ذبح کرنا معرفت کی شرط ہے  تاکہ پوشیدہ رُوح ہوش کے  ساتھ زندہ ہو جائے۔ حضرتِ موسیٰؑ کے  دور میں  ایک بھتیجے  نے  اپنے  چچا کو قتل کر دیا تھا۔ قاتل کا پتہ نہیں  چل رہا تھا تو حضرتِ موسیٰؑ نے  ایک گائے  ذبح کی  اور  اُس کا چمڑہ لے  کر مردے  کے  چہرے  پر مارا، مردہ زندہ ہو گیا  اور  اُس نے  قاتل کا پتہ بتا دیا۔ مولانا رُومی کہتے  ہیں  کہ جس طرح اُس مقتول کی رُوح نے  قاتل کا نام بتا دیا، اسرار کا انکشاف کر دیا اسی طرح انسان اپنی ہستی کو فنا کر دے  تو اسرار منکشف ہونے  لگیں  گے۔ حضرت موسیٰؑ کے  زمانے  کے  اس واقعے  کو مولانا رُومی نے  فنکارانہ طور پر استعاروں  میں  پیش کیا ہے۔ اللہ نے  حضرتِ موسیٰؑ کو جو تو انائی بخشی تھی یہ اسی کا کرشمہ ہے۔ اسرار کا انکشاف اُس عشق سے  ہوتا ہے  جو خالق  اور  انسان کے  درمیان ہوتا ہے۔ ’’از محبت خا رہا گل می شود۔‘‘ مولانا نے  یہ بھی کہا ہے  ’’آتشے  از عشق درجاں  بر فروز‘‘ یعنی عشق کی آگ جان میں  روشن کر۔۔۔ اُسی طرح کہ جس طرح حضرت موسیٰؑ نے  کیا تھا۔ مولانا رُومی کا بنیادی خیال یہ ہے:

ملّتِ عشق از ہمہ ملّت جداست

عاشقاں  را مذہب و ملّت خداست

یعنی عشق کا مذہب تمام مذہبوں  سے  جدا ہے۔ عاشقوں  کا مذہب  اور  دین اللہ ہے۔

          اللہ کا عاشق غم کے  دریا سے  غمگین نہیں  ہوتا۔ ’’عاشق از دریائے  غم غمناک نیست!‘‘ اللہ نے  حضرتِ موسیٰؑ کو منتخب کیا  اور  اُن کے  باطن میں  وہ راز مضمر کر دیے  کہ جنھیں  بتایا نہیں  جا سکتا۔ موسیٰؑ کے  دل میں  بہت سی باتیں  ڈال دیں، مشاہدہ  اور  گفتگو کو ایک دوسرے  میں  ضم کر دیا۔ چند بار بیہوش ہوئے، چند بار ہوش میں  آئے، چند بار ازل سے  ابد تک پرواز کی۔ اشعار سنئے:

بعد ازاں  درِ سر موسیٰؑ حق نہفت

رازہائے  گفت کاں  ناید بگفت

بر دلِ موسیٰؑ سخنہا ریختند

دیدن و گفتن بہم آمیختند

چند بیخود گشت و چند آمد بخود

چند پرّید از ازل سوئے  ابد

(مثنوی مولانا روم، دفتر دوم)

حضرت موسیٰؑ کے  تعلق سے  مولانا رومی نے  کئی قدیم قصوں اور حکایتوں  کو پیش کیا ہے اور ان کی تمثیلی صورتیں  بھی خلق کی ہیں، مثلاً ’’انکار کر دن موسیٰ علیہ السلام بر مناجات شباں‘‘ (ایک چروا ہے  کی دعا پر حضرتِ موسیٰؑ کا انکار) ’’عتاب کر دن حق تعالیٰ با موسیٰ علیہ السلام بہر شباں‘‘ (چروا ہے  کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ کی موسیٰؑ پر ناراضگی) ’’وحی آمدن بموسیٰ علیہ السلام در عذر خواستنِ آں  شباں‘‘ (حضرتِ موسیٰؑ پر وحی آنا اس گڈریے  سے  معذرت کے  سلسلہ میں ) ’’پرسیدنِ موسیٰ علیہ  السلام از سرِ غلبہ ظالماں  (حضرتِموسیٰؑ کے  غلبہ کے  راز کا سوال کرنا) ’’گفتن موسیٰؑ گوسالہ پرست را کہ آں  خیال اندیشی‘‘ (حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کا ایک بچھڑے  کی عبادت کر نے  والے  سے  فرمانا کہ تیری سوجھ بوجھ  اور  خیال اندیشی کہاں  گئی) ’’وحی آمدن از حق تعالیٰ بہ موسیٰؑ کہ چرا بہ عیادت من نیامدی‘‘ (حضرت موسیٰؑ کے  پاس خدا کی طرف سے  وحی آنا کہ تو میری بیماری میں  عیادت کے  لیے  کیوں  نہ آیا) ’’ذکرِ قومِ موسیٰ علیہ السلام و پشیمانیِ ایشاں‘‘ (موسیٰ علیہ السلام کی قوم  اور  ان کی شرمندگی کا تذکرہ) وغیرہ۔ مولانا رومی نے  سب سے  زیادہ اہمیت حضرتِ موسیٰ  اور  اللہ کے  عشق کو دی ہے،  اور  فرعون کے  سامنے  عصا کے  سانپ بن جانے  کے  واقعے  کو طرح طرح سے  بیان کیا ہے۔ کلامِ رومی میں  حضرتِ موسیٰؑ ایک بہت حاوی ’’آرچ ٹائپ‘‘ (Archetype) ہیں۔ ایک جگہ فرماتے  ہیں:

شد عصا مار و کفم شد آفتاب

آفتاب از عکسِ رویم شد شہاب

عصا سانپ بنا  اور  میری ہتھیلی سورج، سورج میرے  چہرے  کے  عکس سے  ٹوٹا ہوا ستارہ بن گیا۔

کیا خوبصورت شعر ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

حضرتِ موسیٰ کا عصا اژدہا بن گیا

پتھر میں  پھول اُگ آئے

چوں  عصا در دستِ موسیٰؑ گشت مار

جملہ عالم را بدیں  ساں  می شمار

جیسا کہ عصا موسیٰؑ کے  ہاتھ میں  سانپ بنا، تمام عالم کو ایسا ہی سمجھ!

          اس شعر پر غور فرمائیے:

چوں  عصائے  موسیٰؑ اینجا مار شد

عقل را از ساکناں  اخبار شد

یعنی جب حضرت موسیٰؑ کا عصا اس عالم میں  سانپ بن گیا تو عقل کو جمادات کے  بارے  میں  علم ہو گیا، یعنی عقل کو اس سچائی کا علم ہو گیا کہ ان جمادات میں  بھی تحرّک پیدا ہو سکتا ہے۔

          یہ شعر بھی توجہ چاہتا ہے:

ہست قرآں  مر ترا ہمچوں  عصا

کفر ہار ا در کشد چوں  اژدہا

قرآن تمھارے  لیے  حضرتِ موسیٰؑ کے  عصا کی طرح ہے  جو اژدہے  کی طرح تمام کفر کو نگل جائے  گا۔

          اللہ پاک نے  حضرتِ موسیٰؑ کو ایک دل دیا  اور  ایک عصا دیا، ان ہی دو سے  اُنھوں  نے  فتح حاصل کی:

موسیٰؑ را دل دہم با یک عصا

تا زند بر عالم شمشیر ہا

اللہ پاک نے  موسیٰؑ کے  ہاتھ کو ایک نور دیا کہ جس کی چمک دمک غیر معمولی تھی سورج کو طمانچہ لگانے  والا ہاتھ ہی نوری ہاتھ ہے:

دستِ موسیٰ را دہم یک نور وناب

کہ طپانچہ میزند بر آفتاب

اللہ پاک نے  حضرتِ موسیٰؑ کو سات سروں  والا سانپ دیا جسے  نہ مادہ سانپ جن سکے  نہ نر۔

چوب را مارے  کنم من  ہفت سر

کہ نہ زاید مادہ مار اور  ا نہ نر

حضرتِ موسیٰؑ رحمتِ الٰہی ہیں، وہ دریائے  نیل کے  خون کو پانی بنا دیتے  ہیں۔:

موسیے ؑ رحمت بہ بینی آمدہ

نیل خوں  بینی از و آبے  شد

مولانا رومی نے  کہا ہے  کہ رُوح میں  اللہ کا نور ہے  لہٰذا وہ مکان میں  کب جاتی ہے، جو نور لامحدود ہوتا ہے  اس کی حد کہاں  ہوتی ہے:

جان بے  سود مکاں  کے  در رود

نورِ نامحدود را حد کے  بود

حضرتِ موسیٰؑ کے  تعلق سے  دفتر چہارم (مثنوی مولانا روم) میں  موسیٰؑ  اور  اللہ کی گفتگو انتہائی دلچسپ  اور  معنی خیز ہے۔ حضرتِ موسیٰؑ اللہ سے  سوال کرتے  ہیں  تو نے  ہمیں  کیوں  پیدا کیا، تو کیوں  ایک مخلوق پیدا کرتا ہے  پھر اس کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اللہ کی جانب سے  موسیٰؑ کو جواب ملتا ہے۔ مولانا رومی کا اپنا نقطۂ نگاہ بھی توجہ طلب ہے۔ حضرتِ موسیٰؑ  اور  اللہ کے  سوال و جواب میں  شاعر کی اُس نگہ پر نظر رکھئے  جو آنکھ کے  اندر ہے۔ اس نگہ کی پہچان اس شعر سے  ہوتی ہے:

ہم سوال از علم خیز دہم جواب

ہمچنانکہ خار و گل از خاک و آب

سوال  اور  جواب علم سے  پیدا ہوتا ہے، جس طرح مٹّی  اور  پانی سے  کانٹا  اور  پھول، مٹّی سے  کانٹا  اور  پھول دونوں  اُگتے  ہیں۔ علم ہدایت کا سبب بھی ہے اور گمراہی کا بھی۔

          چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

گفت موسیٰؑ اے  خداوندِ حساب

نقش کر دی باز چوں  کر دی خراب

نر و مادہ نقش کر دی جانفزا

وان گہے  ویراں  کنی ایں  را چرا

یعنی تونے  صورت بنائی پھر اسے  تباہ کر دیا۔ کیوں؟ تو نے  خوبصورت نر  اور  مادہ بنائے  پھر اُنھیں  ختم کر دیا، کیوں؟ تیرے  ایسے  مسلسل عمل کا سبب کیا ہے؟

          اللہ نے  جواب دیا:

گفت حق دانم کہ ایں  پرسش ترا

نیست از انکار و غفلت و زہوا

ورنہ تادیب و عنابت کر دمے

بہر ایں  پرسش ترا آزر دمے

لیک می خواہی کہ در افعالِ ما

باز جوئی حکمت و  ّسرِ قضا

تا ازاں  واقف کنی مرعام را

پختہ گردانی بدیں  ہر گام را

قاصداً سائل شدی در کاشفی

بہر عامی ارچہ تو زاں  واقعی

زانگہ نیم علم آمد ایں  سوال

ہر بردنے  را نباشد ایں  مجال

جانتا ہوں  تیرا یہ سوال انکار، غفلت  اور  نفسانی خواہش کی وجہ سے  نہیں  ہے  ورنہ میں  تجھے  سزا دیتا  اور  اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا، تو حکمت  اور  فیصلہ کا راز معلوم کرنا چاہتا ہے  تاکہ اسے  عام کر دے۔ وضاحت کے  لیے  جان بوجھ کر تو سائل بنا ہے  حالانکہ تو جانتا ہے  کہ میں  ایسا کیوں  کرتا ہوں۔ تیرا یہ سوال نصف علم کی وجہ سے  ہے، یہ اشعار بھی تو جہ طلب ہے:

موسیا تخمے  بکار اندر زمیں

تاکہ تو خود داد ہی انصاف ایں

اے  موسیٰؑ! زمین میں  بیج بودے  تاکہ تو خود انصاف کر لے۔

چونکہ موسیٰؑ کشتِ شد کشتش تمام

خوشہایش یافت خوبی و نظام

داس بگرفت و مرآں  را می برید

پس ندا از غیب در گوشش رسید

کہ چرا کشتے  کنی و پروری

چوں  کمالے  یافت آں  را می بری

حضرت موسیٰؑ نے  کھیتی کی پھر اس کے  خوشوں  نے  اچھائی حاصل کر لی یعنی کھیتی لہلہانے  لگی، انھوں  نے  درانتی سے  اس کو کاٹ لیا تو اُن کے  کان میں  غیب سے  آواز آئی کہ کیوں  بوتا ہے اور پرورش کرتا ہے  جب وہ مکمّل ہو جاتی ہے  تو اس کو کاٹ دیتا ہے۔

          موسیٰؑ کو جواب تو مل جاتا ہے  لیکن چونکہ سوال کیا گیا ہے  اس لیے  وہ جواب بھی دیتے  ہیں:

گفت یارب زاں  کنم ویران و پست

کہ دریں  جا دانہ ہست و کاہ ہست

دانہ لایق نیست در انبارِ کاہ

کاہ در انبار گندم ہم تباہ

نیست حکمت ایں  دو را آمیختن

فرق وا جب می کند در بیختن

حضرتِ موسیٰؑ نے  جواب دیا اے  خدا میں  کھیت کو ویران اس لیے  کرتا ہوں  کہ اس میں  دانہ  اور  بھوسا دونوں  ہیں، دانہ کا بھوسے  میں  رہنا مناسب نہیں  ہے، بھوسا بھی گیہوں  کے  انبار میں  برباد ہوتا ہے۔ ان دونوں  کو ملا کر رکھنا دانشمندی نہیں  ہے، انھیں  ایک دوسرے  سے  جدا کرنا ضروری ہے  یہی دانائی بھی ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے  کہا اے  خدا یہ سمجھ تونے  مجھے  عطا کی، اللہ نے  فرمایا:

بہر اظہار ست ایں  خلقِ جہاں

تا نماند گنج حکمتہا نہاں

دُنیا کا پیدا کرنا ظاہر کر نے  کے  لیے  ہے  کہ حکمتوں  کا خزانہ پوشیدہ نہ رہے۔

          حضرتِ موسیٰؑ کے  تعلق سے  مثنوی مولانا روم میں  کئی معنی خیز واقعات منظوم کیے  گئے  ہیں، مثلاً ’’فرعون کے  ساتھ سوال و جواب‘‘ (مجاوبات موسیٰؑ کہ صاحبِ عقل بودہا فرعون کہ صاحب وہم بود) اِس میں  ڈرامائی انداز شدّت سے  متاثر کرتا ہے، مکالمے  انتہائی پرکشش ہیں، اسی طرح ’’فرعون کی دھمکی کا جو جواب حضرتِ موسیٰؑ دیتے  ہیں‘‘ (جواب دادن موسیٰ علیہ ا لسلام فرعون را در تہدید اُو) یہاں  بھی مکالمے  کا حسن متا  ّثر کرتا ہے۔ جب موسیٰؑ کہتے  ہیں  ’’میں  اژدہے  کے  لیے  اژدہا لایا ہوں‘‘ ، ’’اژدہا را اژدہا،  اور  دہ اَم‘‘ ، ’’تو ایک عجیب پراسرار فضا بن جاتی ہے‘‘ ، جادو  اور  سحر سے  انکار کرنا بھی ایک عمدہ ڈرامائی منظر ہے  (نفی کر دن موسیٰ علیہ السلام جادوئی و سحر را از محور) ایک جگہ کہتے  ہیں  میری جان سے  کتابیں  نور حاصل کرتی ہیں  بھلا مجھے  جادو گروں  سے  کیا مشابہت ہے:

من بجاد و یاں  چہ مانم اے  جنب

کہ زجانم نور می گیرد کتب

اسی منظر میں  حضرتِ موسیٰؑ فرماتے  ہیں  کہ رُوح کا نفس ہر لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، مشاہدہ کرو تو ایک تازہ جہاں  دیکھتے  جاؤ گے:

ہر زماں  مبدّل شود چوں  نقشِ جاں

نو بنو بیند جہانے  در عیاں

ایک  اور  دلکش منظر ہے  جس میں  حضرتِ موسیٰؑ کہتے  ہیں، میری ایک نصیحت مان لے اور بدلے  میں  چار فضیلتیں  حاصل کر لے۔ فرعون کہتا ہے:

موسیاؑ باشد کہ بکشایم در

وز فضیلت ہات گردم باخبر

موسیاؑ باشد کہ یابم مانے

وار ہم از کثرت ماومنے

ہیں  بگومامن کدا ست آں  چہار

کہ عوض خواہیم دادن برشمار

اے  موسیٰؑ ہو سکتا ہے  کہ تو مجھ پر ایسے  دروازے  کھول دے  کہ میں  فضیلتوں  سے  واقف ہو جاؤں۔ ہو سکتا ہے  میں  امن کی جگہ حاصل کر لوں اور تکبر  اور  خودی سے  چھٹکارا حاصل کر سکوں، ہاں  بتا مجھے  وہ چار کیا ہیں  جو مجھے  تو بدلے  میں  دے  گا؟

          کلامِ رومی میں  حضرتِ موسیٰؑ بھی ایک معنی خیز تہہ دار حسّی پیکر یا ’’آرچ ٹائپ‘‘ (Archetype) ہیں۔

          مولانا رومی کے  قصوں  کہانیوں اور تمثیلوں  میں  مذاہب، تاریخ  اور  فینتاسی سے  جو معنی خیز کردار  اور  پیکر اُبھرے  ہیں  اُن میں  آدم  اور  حوّا، حضرتِ موسیٰؑ، حضرتِ نوحؑ، حضرتِ عیسیٰؑ  اور  حضرتِ مریم، حضرتِ خضرؑ، فرعون، حضرتِ یعقوبؑ، حضرتِ یوسفؑ، زلیخا، حضرتِ ہودؑ، حضرتِ عزرائیلؑ، حضرتِ ابراہیمؑ، حضرتِ سلیمانؑ، حضرتِ عمرؓ، حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا، بلقیس، مجنوں اور لیلیٰ، خسروشیریں، حضرتِ بایزید، حضرتِ ابوالحسن خرقانی، حضرتِ شمس تبریزی، حضرتِ بایزید بسطامیؒ، حضرتِ منصور، حضرتِ ضیا الحق حسام الدین وغیرہ کے  نام اہم ہیں۔

          مولانا رومی کے قصوں اور کہانیوں اور تمثیلوں  میں  یہ کہیں  مرکزی کردار ہیں اور کہیں  استعارہ۔ مادّی  اور  رُوحانی زندگی کی مختلف سطحوں  پریہ اہم کردار ادا کرتے  ہیں۔ ان کرداروں اور استعاروں  سے  کسی نہ کسی سطح پر سچائی کا انکشاف ہوتا ہے۔ مولانا کا ذہن بڑا زرخیز ہے، وہ ایک بہت ذہین کہانی کار ہیں، ایک عمدہ داستان  اور  افسانوی مزاج رکھتے  ہیں، اتنا بڑا تخلیقی داستان نگار کہانی کار فارسی ادب میں  پیدا ہی نہیں  ہوا۔ کوئی کہانی شروع ہوئی لگا کوئی چشمہ پھوٹ پڑا ہو۔ داستان  اور  کہانی کا تخلیقی فنکار غیر معمولی صلاحیتوں  کا مالک ہے، کہانی یا داستان شروع ہوئی تو پہاڑی دریا کی طرح کبھی اوپر  اور  کبھی نیچے، کبھی دائیں  کبھی بائیں  تیزی سے  آگے  بڑھتی گئی۔ اکثر کہانیوں  میں  تخلیقی شاعری کا رنگ اپنی تیزی کا احساس دیتا ہے۔ شاعر کا اپنا زاویۂ نگاہ (Personal Vision)بھی توجہ طلب بنتا ہے۔ کہانیوں  میں  پلاٹ  اور  کرداروں  کے  علاوہ مکالموں  کی بھی بڑی اہمیت ہے، ایسے  فطری مکالمے  ملتے  ہیں  جن سے  افراد کے  ذہن  اور  اس کی نفسیات کی پہچان بہت حد تک ہو جاتی ہے۔ لفظوں  کے  انتخاب  اور  اشعار کی پیشکش میں  شاعرانہ اسلوب  اور  زیادہ توجہ طلب بن جاتا ہے۔ قدیم پرانے  واقعات، قدیم قصص  اور  پرانے  لیکن ماضی میں  اپنی چمک دمک لیے  ہوئے  کردار ’آرچ ٹائپ‘ (Archetype)کا ایک سلسلہ قائم کر دیتے  ہیں۔ بہت سے قصوں، کہانیوں اور تمثیلوں  میں  مولانا رومی کا ’’ڈرامائی ذہن‘‘ شدّت سے  متاثر کرتا ہے۔

          آخر میں  حضرتِ موسیٰؑ کے  حوالے  سے  یہ دو انتہائی خوبصورت معنی خیز اشعار بھی سن لیجیے:

کوہِ طور از نورِ موسیٰؑ شد برقص

صوفیِ کامل شد ورست اُو بقص

چہ عجب گر کوہ صوفی شدید عزیز

جسمِ موسیٰؑ از کلوخ بود نیز

یعنی کوہِ طور موسیٰؑ کے  نور سے  رقص میں  آ گیا، کامل صوفی بن گیا  اور  اس میں  کوئی نقص باقی نہ رہا، اے  عزیز  اگر  پہاڑ صوفی ہو گیا تو کیا   تعجب ہے، حضرتِ موسیٰؑ کا جسم بھی تو مٹّی کا ہی تھا!

٭٭٭

جمالیاتِ رُومی میں حضرت یوسفؑ ۔۔۔ ایک جمالیاتی پیکر اور ’آرچ ٹائپ‘

جمالیاتِ رُومی میں  ’’حضرتِ یوسفؑ‘‘ ایک بہت ہی اہم حسّی پیکر  اور  ’آرچ ٹائپ‘ ہیں، وہ حسن و جمال  اور  محبت کی ایک معنی خیز علامت ہیں اور ایک بلیغ استعارہ بھی۔ مولانا رومی کے  محبوب استعاروں  میں  حضرتِ یوسفؑ کی پہچان مثنوی میں  بھی ہوتی ہے اور غزلوں  میں  بھی۔ یوسفؑ رُوح کی خوشبو کا استعارہ ہیں۔ اس استعارے  میں  عشق و محبت کی خوشبو ملتی ہے، عاشق کی یادوں  میں  خوشبو کی بڑی اہمیت ہے  جو دیکھتے  نہیں  خوشبو سے  اپنے  پیاروں اور محبوبوں  کو محسوس کرتے اور پاتے  ہیں، حضرتِ یعقوبؑ یوسفؑ کو یوسفؑ کی خوشبو سے  پہچان لیتے  تھے اور ان کے  پورے  وجود میں  تازگی آ جاتی تھی۔ حضرتِ یوسفؑ کی خوشبو کلامِ رومی میں  ایک نہایت خوبصورت  اور  بلیغ اشارہ  اور  علامت ہے۔ یہ شعر سنئے:

ایں  نفس جاں  دامنم بر تافتہ ست

بوئے  پیراہانِ یوسفؑ یافتہ ست

یوسفؑ کے  لباس کی خوشبو سے  رُوح میں  تازگی آ گئی ہے۔

          کہتے  ہیں:

 بو دوائے  چشم باشد نور ساز

شد زبوُئے  دیدۂ یعقوب بار

خوشبو آنکھ میں  نور پیدا کر نے  والی دوا ہے، خوشبو سے  حضرتِ یعقوبؑ کی آنکھیں  کھل گئیں۔

          اس شعر میں  یوسفؑ کا استعارہ توجہ طلب ہے:

پیشِ یوسف نازش و خوبی مکن

جز نیاز و آہ یعقوبی مکن

یعنی یوسف ؑ کے  سامنے  ناز نہ کر، عاجزی  اور  یعقوبی آہ ہی کو اہم تصوّر کر۔

          مثنوی مولانا روم کے  دفتر اوّل میں  ایک تمثیلی کہانی ہے  ’’آمدن آشنائے  از سفر بدیدن حضرتِ یوسف علیہ السلام (حضرتِ یوسفؑ کے  دیدار کے  لیے  ایک دوست کا آنا)۔ کہانی شروع ہوتی ہے  فنکار رومی کا ’وژن‘ اسے  ایک خوبصورت تمثیل کی صورت دے  دیتا ہے۔ ایک مہربان دوست  اور  دُور سے  آیا  اور  یوسفِ صدیق کا مہمان بنا، دونوں  ایک دوسرے  کو بچپن سے  جانتے  تھے، دوست نے  حضرتِ یوسفؑ کے  بھائیوں  کے  ظلم  اور  حسد کی یاد  دلائی، پوچھا قیدخانے اور کنویں  میں  آپ کا کیسا حال تھا۔ حضرتِ یوسفؑ نے  نے  جواب دیا ’’جیسے  زوال میں  چاند کا حال ہوتا ہے۔‘‘

گفت چوں  بودی تو در زندان و چاہ

گفت ہمچوں  در محاق و کاست ماہ

در محاق ارماہِ نو گردد دوتا

نے  در آخر بدرِ گردد برَسما

بلاشبہ نیاچاند گھٹاؤ میں  دوہرا ہو جاتا ہے  لیکن وہی تو آسمان پر بدر کامل بنتا ہے۔

          حضرتِ یوسفؑ نے  اُس دوست سے  سوغات طلب کی (طلب کر دن یوسف علیہ السلام ارمغان ازاں  مرد بعد از ملاقات) تو اس نے  کہا آپ کے  لیے  آئینہ لایا ہوں  تاکہ جب آپ خود کو اس میں  دیکھیں  تو میری یاد آئے۔ مناسب یہ سمجھا کہ ایک آپ کو دوں  جو سینہ کے  نور جیسا ہو:

لائقِ آں  دیدم کہ من آئینہ

پیش تو آرم چو نورِ سینہ

آپ کا چہرہ سورج  اور  چاند کی طرح ہے، انتہائی خوبصورت  اور  حسین چہرہ ہے  آپ کا۔

          آپ اپنا چہرہ جب بھی دیکھیں  گے  سورج  اور  چاند کی مانند چمکتا نظر آئے  گا، آپ کو اپنی خوبصورتی  اور  اپنے  حسن کا اندازہ ہو گا۔ آئینہ اس لیے  لایا ہوں  کہ آپ اس میں  اپنا چہرہ جب بھی دیکھیں  مجھے  یاد کریں:

تا بہ بینی روئے  خوبِ خود دراں

اے  تو چوں  خورشید و شمع آسماں

آئینہ  اور  د مت اے  روشنی

تا چو بینی روئے  خود یا دَم کنی

یہاں  سے  کہانی میں  حد درجہ سنجیدگی پیدا ہو جاتی ہے، مولانا رومی اپنی فکر کی تہوں  میں  اُترتے  محسوس ہونے  لگتے  ہیں۔ دوست نے  بغل سے  آئینہ نکالا، حسین صورت کے  لیے  آئینہ ایک مشغلہ ہوتا ہے، ہستی کا آئینہ کیا ہے؟ فنا، فنا اختیار کرنا، ہستی کو فنا میں  دیکھا جا سکتا ہے، بھوکا خود روٹی کا صاف آئینہ ہے۔ سوختہ چقماق کا آئینہ ہے، فنا  اور  نقص جس جگہ پیدا ہوا تمام خوبیوں  کے  حسن کا مظہر ہے، اس لیے  کہ فنا صفائی  اور  ستھرائی ہے اور یہ ہستی سراسر آلودگی:

آئینہ بیروں  کشید اُو از بغل

خوب ز آئینہ باشد مشتغل

آئینۂ ہستی چہ باشد نیستی

نیستی بگر۰یں  گر آبلہ نیستی

ہستی اندر نیستی بتواں  نمود

مالداراں  بر فقیر آرند جود

آئینہ صافی ناں  خود گرسنہ است

سوختہ ہم آئینہ آتش زنہ است

نیستی و نقص ہر جائیکہ خاست

آئینہ خوبیٔ جملہ بیشہا ست

بہر آنکہ نیستی پا لودگی ست

و آنچہ ایں  ہستی ہمہ آلودگی ست

یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

دیو گر گست و تو ہمچوں  یوسفی

دامنِ یعقوبؑ مگد۰ار اے  صفی

شیطان بھیڑیا ہے اور تو یوسفؑ کی مانند ہے، اے  میرے  بزرگ یعقوبؑ کا دامن نہ چھوڑ۔

جرمِ اُو اینست کو بازست و بس

غیر خوبی جرمِ یوسف چیست پس

اس کا جرم صرف یہی ہے  کہ وہ باز ہے، یوسفؑ کا جرم اس کے  علاوہ  اور  کیا ہے  کہ وہ بہت حسین  اور  انتہائی خوبصورت ہیں، ان کے  بھائیوں  کی دشمنی کا سبب بھی تو اُن کا حسن ہے۔

یوسفے  جستم لطیف و سیمتن

یوسفستا نے  بدیدم در تو من

میں  نے  لطیف چاندی جیسے  جسم والا یوسف تلاش کیا، آپ کے  اندر تو یوسفستان دیکھ لیا ہے۔

برّہ پیش گرگ امانت می نہی

گرگ و یوسف را مفر ماہمرہی

تو بکری کے  بچے  کو بھیڑیے  کے  پاس امانت رکھتا ہے، بھیڑیے اور یوسف کو ساتھ رہنے  کا حکم نہ دے۔

چونکہ اخواں  را دل کنبہ ورست

یوسفم را قعر چہ اولیٰ ترست

بھائیوں  کا دل کینہ سے  بھرا ہوا ہے، میرے  یوسف کے  لیے  کنویں  کی گہرائی زیادہ بہتر ہے۔

بو کنم دانم زہر پیراہنے

گر بود یوسف و گر اہرمنے

ہر لباس میں  سے  ہمیشہ سونگھ لیتا ہوں، خواہ بوئے  یوسفؑ ہو خواہ شیطان کی بو۔

مالک الملک ست بدہد ملک حسن

یوسفے  را تابود چوں  ماہی مزن

مالک الملک حسن کی سلطنت عطا کر دیتا ہے، ایک یوسف کو اس حد تک کہ وہ ابر کے  پانی کی طرح بن جاتا ہے:

یوسفؑ و موسیٰؑ ز حسن بردند نور

در رُخ و رخسار و دردات العدور

یوسفؑ  اور  موسیٰؑ نے  اللہ پاک سے  نور حاصل کیا تھا، رُخ  اور  رُخسار میں اور ذات الصدور میں  حضرت موسیٰؑ کے  چہرے  پر برق دیکھنے  کے  بعد یہ کہتے  ہیں  کہ  اگر  کوہِ قاف بھی سامنے  آ جائے  تو یہ برق اسے  کوہِ طور کی طرح جھلس دے  گی:

کوہِ قاف از پیش آید بہر ستد

ہمچو کوہِ طور نورش بر درد

جس کے  ذرّے  کو طور برداشت نہ کر سکے  قدرت نے  ایک شیشے  میں  اس کی جگہ بنا دی ہے:

آنچہ طورش برتنا بد ذرّۂ

گشت مشکوٰۃِ زجاجی جایِ نور

قدرتش جا سازد از قارورۂ

کہ ہمی دُرد ز نورِ آں  قاف و طور

شیشے  والا طاقچہ نور کی جگہ بن گیا کہ جس کے  نور سے  کوہِ قاف  اور  طور ٹکڑے  ٹکڑے  ہوتا ہے۔ کہا گیا ہے  حسن کی انتہا حیرت ہے، مولانا رُومی کہتے  ہیں:

نورِ شاں  حیرانِ ایں  نور آمدہ

چوں  ستارہ زیں  ضحی فانی شدہ

اُن کا نُور اس نور سے  حیران رہ گیا، ستارے  کی طرح اس چاشت کے  وقت سے  غائب ہو گیا۔ اس کے  بعد حضرتِ یوسفؑ کے  چہرے  کے  نور کی جانب آتے  ہیں:

تو رویِ یوسفیؑ وقتِ عبور

می فتادے  در شباک و در قعور

حضرت یوسفؑ کے  چہرے  کا نور گزرتے  وقت جالیوں اور محلات پر پڑتا تھا۔ گھروں  میں  لوگ کہتے  یوسفؑ اس راہ سے  گزرے  ہیں۔

پس بگفتندے  درونِ خانۂ در

یوسفست ایں  سو بسیراں  در گزر

اس لیے  کہ اُن کے  نور کی شعاع دیواروں  پر نظر آتی تھی۔

زانکہ بر دیوار دید ندے  شعاع

فہم کر دند یش اصحابِ بقاع

جس مکاں  کا دریچہ اُس طرف ہے  وہ یوسفؑ کے  حسن کو دیکھتا ہے۔ یوسفؑ کی جانب دریچہ کھول کر رکھ۔

خانۂ راکش دریچہ ست آں  طرف

دارد ازسیرانِ آں  یوسفؑ شرف

بیں  دریچہ سوی یوسفؑ باز کن

وز شکافش فرجہ آغاز کن

اس کے  بعد مولانا رومی اللہ کے  نور کو موضوع بنا لیتے  ہیں، دریچہ کھولنے  کا مفہوم یہ ہے  کہ اپنے  دل کا دریچہ کھول دو، عشق کی خوشبو دُور دُور تک جائے،تجلیاتِ الٰہی سے  فیض حاصل ہو، حسن  اور  عشق دونوں  کلامِ رومی میں  اس طرح بڑی اہمیت اختیار کر لیتے  ہیں۔

در قضا یعقوبؑ چوں  بنہاد سر

چشم روشن کر د از بوئے  پسر

حضرتِ یعقوبؑ نے  جب اللہ کے  حکم کے  آگے  سر رکھ دیا تو بیٹے  کی خوشبو سے  آنکھوں  کو روشن کیا۔

یوسفِؑ مہ رو چو دید آں  آفتاب

شد چناں  بیدار در تعبیرِ خواب

چاند جیسے  مکھ والے  یوسفؑ نے  جب اللہ کے  نور کا آفتاب دیکھا تو خواب کی تعبیر بتاتے  میں  بہت بیدار ہو گئے۔

          حضرتِ یوسفؑ  اور  زلیخا کے  تعلق سے  یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

آں  زلیخا از سپند اں  تا بعود

نامِ جملہ چیز یوسف کردہ بود

نامِ اُو در نامہا مکتوم کر د

محرماں  را سرِّ آں  معلوم کر د

چوں  بگفتے  موم ز آتش نرم شد

ایں   بدے  کاں  یار باما گرم شد

ور بگفتے  مہ بر آمد بنگرید

ور بگفتے  سبز شد آں  شاخِ بید

ور بگفتے  آبہا خوش می تنند

ور بگفتے  خوش ہمی سوز و سپند

ور بگفتے  برگہا خوش می طپند

دست برہم رقص و مستی می کنند

ور بگفتے  گل بہ بلبل راز گفت

ور بگفتے  شہ پسرِ شہباز گفت

ور بگفتے  چہ ہما یونست بخت

ور بگفتے  کہ بر افشانید رخت

ور بگفتے  کہ سقا  اور  د آب

ور بگفتے  کہ بر آمد آفتاب

ور بگفتے  دوش دیگے  پختہ اند

یا حوائج از پرش یک لختہ اند

ور بگفتے  ہست نانہا بے  نمک

ور بگفتے  عکس می گردد فلک

ور بگفتے  کہ بدرد آمد سرم

ور بگفتے  دردِ سر شد خوشترم

صد ہزاراں  نام گر برہم زدے

قصدِ اُو و خواہ اُو یوسفؑ بدے

گرسنہ بودے  چو گفتے  نامِ اُو

می شدے  اُو سیر و مست از جام اُو

تشنگیش از نامِ اُو ساکن شدے

نامِ یوسفؑ شربت باطن شدے

(مثنوی مولانا روم، دفتر ششم)

زلیخا نے  کالے  دانے  سے  عود تک ہر چیز کا نام یوسفؑ رکھا تھا!

ہر نام میں  یوسف کا نام پوشیدہ تھا!

جب وہ یہ کہتی موم آگ سے  نرم ہو گیا تو مطلب یہ ہوتا کہ یوسفؑ اس پر مہربان ہو گئے  ہیں۔

اگر کہتی چاند نکل آیا ہے  یا بید کی شاخ سبز ہو گئی ہے۔

پانی میں  ا چھی لہریں  اُٹھ رہی ہیں۔

یا کالا دانا خوب جل رہا ہے۔

پتے ّ لہلہا رہے  ہیں، تالیاں  بجا رہے  ہیں، رقص کر رہے  ہیں۔

اگر وہ کہتی۔

پھول نے  بلبل کو راز بتادیا۔

اگر وہ کہتی قسمت کتنی اچھی ہے، نصیبہ کتنا مبارک ہے۔

اگر وہ کہتی سورج نکل آیا ہے۔

اگر وہ کہتی آسمان اُلٹا گھوم رہا ہے۔

اگر وہ کہتی میرے  سر میں  درد تھا ٹھیک ہو گیا۔

تو محرم سمجھ جاتے  کہ کہنے  کا مقصد کیا ہے۔

اگر وہ ہزاروں  نام ملا دیتی مقصد صرف یوسفؑ ہوتے۔

جب اُسے  بھوک لگتی،

اُن کا نام لیتی۔

اُن کے  جام سے  مست ہو جاتی پیاس یوسفؑ کے  نام سے  بجھ جاتی!

          یہ حصہ مثنوی مولانا روم کے  بہترین حصوں  میں  ایک ہے، شاعری کا خوبصورت نمونہ تو ہے  ہی، عورت کی نفسیات کا بھی ایک پراسرار پہلو نمایاں  ہوتا ہے۔

          ان اشعار میں  بخت، سقاّ، آفتاب، دیگ، بے  نمک، عکس جیسے  الفاظ معنی خیز ہیں۔ ’’وصل کی آرزو‘‘ ، آرزو پوری ہونے  کی پہلی کرن‘ وصل کے  لیے  مناسب فضا  اور  ماحول، وصل کی جانب سے  نا امیدی، وغیرہ کے حسی تصوّرات  اور  احساسات لفظوں  میں  جذب ہیں۔ پوری نظم میں  ایک مترّنم بہاؤ ہے، حسن  اور  عشق کے  پیکر ایک دوسرے  سے  دور کھڑے  ہیں۔ حضرت یوسفؑ حسن کی علامت ہیں  خوبصورتی کے  پیکر ہیں اور زلیخا عشق و محبت کی علامت  اور  پیکر، زلیخا کا تصوّر ہی رُوح کے  اندر دیوانگی (Madness in the soul)کا تصوّر ہے۔ اس کی دیوانگی بھی شیریں  دیوانگی ہے  جو الوہی دیوانگی (Divine madness) کی حد کو چھو لیتی ہے۔ زلیخا ایک ہیجان انگیز  اور  سنسنی خیز پیکر ہے۔ حسن کو پہچاننے  والی نظر رکھتی ہے۔ اس کی جمالیاتی حسیت (Aesthetic Sensibility) متاّثر کرتی ہے۔ زلیخا  اور  یوسف کا فسانہ عشق  اور  حسن کی کشمکش کا اتنا خوبصورت فسانہ ہے  کہ جس کی مثال کسی داستان میں  شاید ہی ملے۔

          یوسفؑ  محبوب ہیں اور زلیخا عاشق ہے۔ مولانا رومی نے  ان دونوں  کو اسی رنگ روپ میں  پیش کیا ہے۔ انھوں  نے  انھیں  خوبصورت، معنی خیز استعاروں  کی صورتیں  بھی عطا کی ہیں۔ وہ یوسفؑ کہ جنھیں  ان کے  حاسد بھائیوں  نے  اندھے  کنویں  میں  ڈال دیا تھا، جو تاریکی میں  پھنسے  ہوئے  تھے، زلیخا کے  عشق کے  قصے  کی وجہ سے  جس طرح وہ روشنی میں  آئے  ہیں  اس سے  ایک فینومینن (Phenomenon)خلق ہو گیا ہے۔ مصری عورت کا یہ عشق عورت کے  وجود، اُس کے  عشق  اور  اُس کی چاہت کا ایک  پراسرار مگر دلچسپ سرچشمہ ہے۔ پہاڑی آبشار کی آواز  اور  اس کی سرمستی میں  اس عورت کا چہرہ دِکھائی دینے  لگتا ہے۔ فراق کے  لمحوں  میں  تڑپتی ہوئی اس عورت کی آواز کچھ اس طرح سنائی دیتی ہے:

چند دردِ فرقتش بکشد مرا

سر ببر تا عشق سر بخشد مرا

یعنی اُس کے  فراق کا درد مجھے  کتنی بار قتل کرے  گا، سر کاٹ دے  تاکہ عشق مجھے  سر بخش دے۔

          مولانا رومی نے  حضرتِ یوسفؑ، حضرتِ یعقوبؑ  اور  حضرتِ یوسفؑ کے  حاسد بھائیوں  کا ذکر زیادہ کیا ہے۔ حضرتِ یعقوبؑ کی بینائی سے  محروم آنکھیں، حضرتِ یوسفؑ کا خوبصورت روشن چہرہ، حاسد بھائیوں  کا عمل،کنویں  کی تاریکی  اور  بوئے  پیراہن۔۔۔ مولانا رومی کے  بنیادی موضوعات ہیں  ان سے  اکثر استعاروں  کا کام لیا ہے۔ آئیے  چند اشعار  اور  دیکھیں:

کردہ یوسفؑ را نہاں  و مخبتی

حیلتِ اخواں  ز یعقوبؑ نبی

بھائیوں  کے  حیلے  نے  حضرتِ یوسفؑ کو حضرتِ یعقوبؑ سے  چھپا دیا تھا۔

خفیہ کر دندش بحیلت سازیے

کر د آخر پیرہن غماّزیے

اُنھوں  نے  اُنھیں  ایک حیلہ بازی سے  چھپا دیا تھا، لباس نے  راز فاش کر دیا۔

یا چو بوُئے  یوسفِ خوبِ لطیف

میزند بر جانِ یعقوبِ نحیف

حضرتِ یعقوبؑ کی جان پر یوسفؑ کی لطیف خوشبو اثر کرتی ہے۔

یوسفؑ حسینی و ایں  عالم چو چاہ

ویں  رسن صبرست بر امرِ الٰہ

یوسفا آمد رسن در زن دو دست

از رسن غافل مشو بیگہ شدست

حمد للّٰہ کایں  رسن آویختند

فضل و رحمت را بہم آمیختند

در رسن زن دست بیروں  روزِ چاہ

تا بہ بینی بار گاہِ بادشاہ

تا بہ بینی عالمِ جانِ جدید

عالمے  بس آشکار و ناپدید

(مثنوی مولانا روم، دفتر دوم)

تو حسن کا یوسف ہے اور یہ دنیا کنواں  جیسی ہے اور یہ رسّی خدا کے  حکم پر صبر کرنا ہے۔ اے  یوسفؑ رسّی آ گئی ہے  دونوں  ہاتھ سے  تھام لے، رسّی سے  غافل نہ ہو، الحمد للّٰہ کہ یہ رسّی لٹکا دی ہے، فضل و رحمت کو باہم ملا دیا ہے، رسّی پکڑ لے اور کنویں  سے  باہر آ جا، تاکہ بادشاہ کے  دربار کو دیکھے، تاکہ تو زندگی کے  نئے  عالم دیکھ لے  وہ عالم جو بہت واضح  اور  پوشیدہ ہے! یا

یوسفاں  از رشک زشتاں  مخفی اند

کز عدو خوباں  در آتش می زیند

یعنی بہت سے  یوسف لوگوں  کے  اشک کی وجہ سے  چھپے  رہتے  ہیں  کیونکہ حسین، دشمن کے  سبب انگاروں  پہ لوٹتے  ہیں۔

یوسفاں  از مکرا خواں  درچہ اند

کز حسد یوسف بگرگاں  می دہند

بہت سے  یوسف بھائیوں  کی مکاّری کے  سبب کنویں  کے  اندر ہیں  کیونکہ وہ حسد کی وجہ سے  یوسف کو بھیڑیوں  کو دے  دیتے  ہیں:

از حسد بر یوسفِ مصری چہ رفت

ایں  حسد اندر کمیں  گرگسیت زفت

حسد کی وجہ سے  مصری یوسف پر کیا گزری، یہ جو حسد ہے  وہ چھپا ہوا موٹا بھیڑیا ہے۔

لا جرم زیں  گرگ یعقوبِ حلیم

داشت بر یوسفؑ ہمیشہ خوف و بیم

اس بھیڑیے  کی وجہ سے  حضرتِ یعقوبؑ یوسف کے  معاملے  میں  خوف  اور  خطرہ محسوس کرتے  ہیں۔

گرگِ ظاہر گردِ یوسف خود نگشت

ایں  حسد در فعل از گرگاں  گذشت

ظاہری بھیڑیا حضرتِ یوسفؑ کے  پاس بھی نہ آیا، یہ حسد کارنامہ میں  بھیڑیوں  سے  بھی بڑھ گیا۔ حضرتِ یوسفؑ کے  بھائی رُسوا ہوئے اور اُنھوں  نے  اقرار کیا کہ یوسفؑ پر اُنھوں  نے  ظلم کیا ہے۔ مولانا نے  حضرتِ یوسفؑ کے  واقعے  کی بنیاد پر کئی خوبصورت باتیں  کہی ہیں  ان میں  ایک یہ ہے  کہ بہت سے  یوسفؑ بھائیوں  کی مکاّری کی وجہ سے  کنویں  کے  اندر گہری تاریکی میں  چھپے  ہوئے  ہیں۔ اپنی خوبصورت باتیں  کہنے  کے  لیے  مولانا رومی کو یوسفؑ کے  ’آرچ ٹائپ‘ (Archetype)سے  بڑی روشنی ملی ہے۔ ان کے  نظام اخلاقیات میں  یوسفؑ کی کہانی کئی افضل اقدار کی تشکیل کرتی ہے۔ ایک جگہ انھوں  نے  کیا خوب کہا ہے، کنویں  کا پانی یوسفؑ کے  حسن سے  ’’محبت‘‘ میں  تبدیل ہو گیا جب تک یوسفؑ کنویں  میں  رہے  آبِ عشق میں  ہلچل سی رہی۔ مولانا نے  حضرتِ یوسفؑ کو ایک خوبصورت پھول کہا ہے اور اس قید خانے  کو کہ جس میں  وہ قید تھے، گلستاں  سے  تعبیر کیا ہے۔ ایک بہت ہی خوبصورت خیال یہ ہے  کہ یوسفؑ کو زلیخا کا درد معلوم نہ تھا، وہ عشقِ یوسفؑ میں  رو رو کر آنکھوں  کی روشنی کھو چکی تھی۔ حسنِ یوسفؑ  اور  خوشبوئے  پیراہن کے  ساتھ زلیخا کا عشق الوہی بن جاتا ہے۔ پیراہن یوسفی نے  اس کے  باطن میں  یوسفؑ کے  وجود کی خوشبو بھر دی تھی۔

          ایک شعر ہے:

ذکرِ یوسفؑ ذکر زلف پر خمش

ذکرِ یعقوبؑ و زلیخا و غمش

یوسفؑ کا ذکر ہے  ان کی بل کھائی ہوئی زلف کا ذکر ہے، یعقوبؑ  اور  زلیخا  اور  اُس کے  غم کا ذکر ہے!۔۔۔۔ یہ شعر بھی سنئے:

بویِ پیراہانِ یوسف کن سند

زانکہ بویش چشم روشن می کند

یوسفؑ کے  پیرہن کی خوشبو کا سہارا لو اس لیے  کہ اس کی خوشبو آنکھ روشن کرتی ہے!

          کہتے  ہیں:

شد ز یوسف آں  زلیخا نوجواں

عشرت از سر گیر خوش خوش شادماں

یوسفؑ کی وجہ سے  زلیخا جوان ہو گئی، خوشی خوشی مسرّت سے  از سرِ نو تو عیش منا۔

          فرماتے  ہیں  سیکڑوں  یوسفوں  کی اصل اللہ کا حسن ہے:

اصلِ صد یوسفؑ جمالِ ذو الجلال

’’مثنوی مولانا روم‘‘ دفتر سوم کے  مندرجۂ ذیل اشعار پر بھی نظر ڈالیے، موضوع ہے  ’’مخصوص بودنِ یعقوب علیہ السلام بچشیدن جام حق تعالیٰ از روئے  یوسف و کشیدن بوئے  حق تعالیٰ از بوئے  یوسف و حرمانِ برادراں  و غیر ہم ازیں  ہر دو صفت‘‘ (یعنی حضرت یوسفؑ کے  چہرے  سے  خدائی پیالہ پینے اور حضرتِ یوسفؑ کی خوشبو سے  اللہ تعالیٰ کی خوشبو حاصل کر نے  میں  حضرتِ یعقوبؑ کی خصوصیت  اور  بھائیوں  کا ان دونوں  خوبیوں  سے  محروم رہنا)

آنچہ یعقوب از رُخِ یوسف چشید

و آنچہ اُو از بوئے  اُو اندر کشید

وانچہ دُردے  بود اندروے  بدید

خاصِ اُو بد اُو با خواں  کے  رسید

ایں  زعشقش خویش درجہ می کند

واں  بکیں  از بہر او چہ می کند

سفرۂ اُو پیشِ ایں  از ناں  تہی ست

پیشِ یعقوب ست پر کو شتہیت

جوع یوسفؑ بومرا یعقوب را

بوئے  نانش می رسید از دُور جا

آنکہ بستہ پیرہن را می شناخت

بوئے  پیراہانِ یوسفؑ می نیافت

وانکہ صد فرسنگ زاں  سو بود اُو

چونکہ بد یعقوبؑ می بوئید بو

حضرتِ یعقوبؑ نے  یوسفؑ کے  رُخ سے  جو کچھ چکھا  اور  جو کچھ اُنھوں  نے  ان کی خوشبو سے  باطن میں  حاصل کیا  اور  جو کچھ یوسفؑ کے  اندر تھا اُنھوں  نے  دیکھا، وہ اُن کی خصوصیت تھی بھائیوں  کو کب حاصل ہوا۔ یہ اُن کے  عشق سے  اپنے  آپ کو کنویں  میں  گرا رہے  ہیں۔ وہ کینہ وری سے  ان کے  لیے  کنواں  کھود رہے  ہیں۔ حضرتِ یعقوبؑ کو یوسفؑ کی بھوک تھی اُن کو اُن کی روٹی کی خوشبو دُور سے  آ رہی تھی۔ جس نے  پیرہن حاصل کیا تھا وہ دوڑ رہا تھا، یوسفؑ کے  لباس کی خوشبو محسوس نہیں  کر رہا تھا۔ حضرت یعقوب ہی وہ خوشبو سونگھ رہے  تھے۔

          مولانا رومی کا اجتماعی شعور (Collective Consciousness) بہت زرخیز ہے۔ متھ، مذہب، اسطور، قدیم کہانیوں  قصوں  سے  گہرا رشتہ قائم ہے۔ چونکہ ان کا ’وِژن‘ دوہرا (Difocal Vision) ہے  اس لیے  وہ دُور کی چیزیں  دیکھتے  دیکھتے  نزدیک آ جاتے  ہیں اور نزدیک کی چیزیں  دیکھتے  دیکھتے  بہت دور چلے  جاتے  ہیں۔ ’فینتاسی‘  اور  فینتاسی کے  جمال میں  قاری کے  ذہن کا ارتقا ہونے  لگتا ہے۔ لگتا ہے  ہم کبھی آہستہ آہستہ  اور  کبھی تیز تیز اُگ رہے  ہیں۔

٭٭٭

جمالیاتِ رُومی ۔ چار امتیازی جمالیاتی جہات

ایک پرانی تمثیل ہے، چند دوست جمع ہوئے  خوب شراب پی، خوب کھایا، خوب رقص کیا، ہر شخص مستی میں  جھوم رہا تھا، پورے  چاند کی رات تھی، وہ ایک دریا کے  کنارے  آئے  سوچا کشتی لے  کر سیر کی جائے، کشتی بان موجود نہ تھا، چاندنی رات میں  دریا کا حسن انھیں  مست کر رہا تھا، رات کافی گزر چکی تھی، ہر جانب خاموشی تھی، ان کے  پاؤں  نشے  کی وجہ سے  ڈگمگا رہے  تھے، خوب لہک لہک کر گانے  لگے، رقص کر نے  لگے، کشتی پر بیٹھ گئے، پتوا رہا تھ میں  لے  کر ان میں  سے  دو دوستوں  نے  کشتی چلانا شروع کی۔ وہ تیز تیز آگے  بڑھ رہے  تھے  اس لیے  کہ وہ پتوار تیز تیز چلا رہے  تھے۔ کئی گھنٹے  گزر گئے  سب یہی محسوس کر رہے  تھے  کہ وہ کشتی میں  سفر کر رہے  ہیں، صبح ہونے  کو آئی، خوشگوار ٹھنڈی ہوائیں  چلنے  لگیں، آہستہ آہستہ اب وہ ہوش میں  بھی آنے  لگے۔ ایک دوست نے  کہا ’’ہم رات بھر چلتے  رہے  اب کنارے  پر پہنچے  ہیں  ذرا یہ تو دیکھ لیں  یہ کون سی جگہ ہے، ہمیں  گھر بھی لوٹنا ہے، صبح ہو گئی ہے۔ ان دوستوں  میں  ایک کنارے  پر اترا، چند لمحوں  تک اُس پر حیرت طاری رہی پھر وہ کسی پاگل کی طرح ہنسنے  لگا  اور  وہیں  زمین پر لوٹنے  لگا۔

          ساتھیوں  نے  پوچھا ’’بات کیا ہے! تم اس طرح ہنس کیوں  رہے  ہو؟‘ ‘ 

          پاگل کی طرح ہنسنے  والے  دوست نے  ہنستے  ہوئے  کہا ’’ذرا کشتی سے  تو اُترو پھر دیکھو کیا ہوا ہے، سب کشتی سے  اتر گئے۔ ’’پھر سب اسی طرح ہنسنے  لگے  کہ جس طرح وہ پہلا دوست ہنس رہا تھا۔ وہ کشتی چلاتے  ہوئے  یہ بھول گئے  تھے  کہ انھوں  نے  کشتی سے  رسّی کھولی ہی نہیں، کشتی وہیں  کھڑی ہے  کہ جہاں  تھی، رات بھر وہ جدّ و جہد کرتے  رہے، یہ سوچتے  رہے  کہ وہ چاندنی رات میں  کشتی پر بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہے  ہیں، وہ تو ایک اِنچ بھی آگے  نہیں  بڑھے  تھے۔ یہ حالت ہر اُس شخص کی ہوتی ہے  جو یہ سوچ لیتا ہے  کہ اس نے  حقیقت سمجھ لی،  ّ سچائی کو پا لیا یا سچائی کے  قریب آ گئے۔ دماغ کا نشہ غلط فہمی پیدا کرتا رہتا ہے اور اس کا احساس نہیں  ہوتا۔ مولانا رومیؒ نے  مثنوی میں  ایک سچائی اس طرح بیان کی ہے  کہ وہ شخص جو خوابوں  کی دنیا میں  رہتا ہے، خواب میں  پیاس لگتی ہے اور خواب ہی میں  وہ ندی کی جانب دوڑتا ہے، اسے  ندی نہیں  ملتی، وہ فینتاسی کی دُنیا میں  ہوتا ہے  لہٰذا حقیقت  اور  سچائی سے  دور رہتا ہے۔ مولانا رومیؒ کی جمالیات حسی  اور  باطنی سطح پر سچائی  اور  اس کے  حسن و جمال کے  تئیں  بیدار رکھتی ہے۔

          کلامِ رومیؒ کا مطالعہ کرتے  ہوئے  مجھے  چار امتیازی جمالیاتی جہتوں  کا احساس بڑی شدّت سے  ہوا۔ پہلی جہت ’’جاگرتی  اور  بیداری‘ ‘  کی ہے۔ شاعر زندگی کے  جلال و جمال کے  تئیں  بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کی خواہش ہے  کہ کائنات کے  حسن و جمال کی پہچان ہو، انسان میں  خالقِ کائنات کی تخلیقات کو سمجھنے  کا شعور پیدا ہو، زندگی بہت خوبصورت ہے، اس کی تاریخ کی سچائیوں  میں  بڑے  معنی خیز جمالیاتی تجربے  ہیں، انسان  اور  کائنات  اور  انسان  اور  اللہ کے  درمیان عشق کا خوبصورت رشتہ ہے۔ ایسی جاگرتی پیدا ہو، ایسی بیداری آئے  کہ اللہ کے  حسن، کائنات کے  جلال و جمال  اور  انسان کی تخلیقی صلاحیتوں  کی سچی پہچان ہو سکے۔ اس کے  لیے  ذہن کو روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔ مولانا رومیؒ کے  مطابق سینوں  کو مانجھنا پڑتا ہے۔ آئینے  کی صفائی دل کی صفت بن جاتی ہے  جو لا انتہا صورتوں  کو قبول کر نے  والا ہے۔ حسن و جمال کی ایک صورت وہ ہے  جو چینیوں  کے  فن میں  ہے، رنگ و روغن  اور  خوبصورت نقشوں اور خاکوں  سے  جمالیاتی انبساط عطا کر نے  کی کوشش  اور  دوسری صورت وہ ہے  جو رومیوں  کے  فن میں  ہے، نہ رنگ نہ روغن، سادگی کا حسن، سادگی کا جلوہ۔ رنگا رنگی میں  مٹی کی چمک دمک  اور  خوشبو ہے، سادگی میں  عالمِ وحدت کی جانب اشارہ، جاگرتی ایسی ہو کہ ’عالم کثرت‘   اور  ’عالم وحدت‘  دونوں  کی پہچان ہو سکے۔

          دوسری جہت کا تعلق ’دل‘  سے  ہے۔ عشق کا مرکز دل ہے  لہٰذا دل ہی عشق کر نے  پر اکساتا تا ہے۔ خالقِ کائنات جو خود اپنی مخلوق سے   محبت کرتا ہے  اس سے   محبت کا رشتہ قائم ہو جائے  تو زندگی، موت  اور  موت کے  بعد کی زندگی کا جمال ظاہر ہو جائے۔ ایک مذہبی شخص اپنے  کٹرّپن سے  نہیں  بلکہ اپنے  کھلے  ہوئے  دل سے  پہچانا جاتا ہے۔ مذہب سے  وابستہ شخص اپنے  کھلے  ہوئے  دل  اور  اس دل کے  اندر  محبت کی خوشبو سے  جانا جاتا ہے۔ عشق الٰہی کے  مرکز پر جو پھول کھلتا ہے  اس کی خوشبو زمین سے  عرش تک پہنچتی ہے۔ عشق  اور  عشق کے  رشتوں  کا جشن اسی مرکز پر منایا جاتا ہے۔ کہتے  ہیں  خود بینائی کا نور، دل کا نور ہے:

حضرتِ یوسف بازار میں  فروخت ہو رہے  ہیں۔ (۱۶۱۵ء)

نور نورِ چشم خود نور دل ست

بینائی کا نور دلوں  کے  نور سے  حاصل ہوتا ہے:

نورِ چشم از نورِ دلہا حاصل ست!

دل کی بصیرت کا نور خدا کا نور ہے

باز نور نورِ دل نورِ خداست

جو عقل  اور  حس کے  نور سے  پاک  اور  جدا ہے:

کوز نور عقل و حس پاک و جداست

وہ سرخ  اور  سبز  اور  گلابی کو کب دیکھ سکے  گا:

کے  بہ بینی سرخ و سبز و بور را

جب تک ان تین سے  پہلے  نور کو نہ دیکھ لے  گا:

تا نہ بینی پیش ازیں  سہ نور را!

رنگ کا دیکھنا، بیرونی روشنی کے  بغیر نہیں  ہوتا یہی حال اندرونی خیال کے  رنگ کا ہے:

نیست دید رنگ بے  نور بروں

ہم چنیں  رنگِ خیالِ اندروں

وہ آنکھ یا وہ نگہ جو دل کے  اندر ہوتی ہے  اس کے  متعلق مولانا رومیؒ کہتے  ہیں:

چشم داند فرق کر دن رنگ را

چشم داند لعل را و سنگ را

چشم داند گوہر و خاشاک را

چشم را زاں می خلد خاشا کہا

یعنی آنکھ رنگ میں  غرق کرنا جانتی ہے  آنکھ لعل  اور پتھر کو پہچانتی ہے، آنکھ موتی  اور  تنکے  کو جانتی ہے  اسی لیے  آنکھ میں  تنکا کھٹکتا ہے۔

          تیسری جمالیاتی جہت یہ ہے  کہ شاعر چاہتا ہے  کہ فطرت کے  رموز و اسرار کو سمجھنے  کی کوشش کی جائے، جیسے  جیسے  سمجھتے  جائیں  گے  جمالیاتی بصیرت  اور  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا جائے  گا۔ فطرت یا نیچر کی معنویت کیا ہے؟ جو مشکلات  اور  پریشانیاں  آتی ہیں اور انسان کبھی کبھی جن اذیتوں  سے  گزرتا ہے  ان کی سچائی کیا ہے؟ الوہی عشق سے  مشکلات  اور  پریشانیوں  کو دور کر نے اور اذّیتوں  پر فتح حاصل کر نے  میں  کس طرح کامیابی ہوتی ہے اور اس کے  کیا نتائج سامنے  آتے  ہیں، مشکل دُور ہوتی ہے، کوئی پریشانی ختم ہوتی ہے  تو جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے اور ایسی جمالیاتی آسودگی سے  باطن میں  کتنا سکون پیدا ہوتا ہے۔ الوہی عشق سے  ایک جانب مشکلات دُور ہوتی ہیں اور انسان بہت سے  خطروں  کو نظر انداز کر کے  آگے  بڑھ جاتا ہے  اس کے  ساتھ ہی اس عشق سے  موت کی سچائی کا شعور حاصل ہوتا ہے اور موت کی جمالیات پورے  وجود میں  کس طرح کی چاہت  اور  آرزو پیدا کرتی ہے۔ ’وحدت کا شعور‘  (Unity-Consciousness) حاصل ہوتا ہے  تو پر اسرار سفر کی آرزو کس طرح بے  چین کرتی ہے۔ دل کا آئینہ اس سطح پر پاک و صاف ہو جاتا ہے  لہٰذا انسان آب و خاک سے  بالاتر نقش دیکھنے  لگتا ہے، نقش بھی دیکھتا ہے اور نقاّش کو بھی دیکھتا ہے:

آئینہ دل چوں  شود صافی و پاک

نقشہا بینی بروں  از آب و خاک

ع   اذ  اذ  ّجو خانقا ہم بہ بینی نقش وہم نقاّش را!

کہتے  ہیں:

تا بود کز دیدگانِ  ہفت رنگ

دیدۂ پیدا کند صبر و درنگ

رنگہا بینی بجز ایں  رنگہا

گوہراں  بینی بجائے  سنگہا

گوہرے  چہ بلکہ دریائے  شوی

آفتابِ چرخ پیمائی شوی

یعنی ممکن ہے  کہ سات پروں  والی آنکھوں  کی بجائے  صبر  اور  استقلال ایک آنکھ پیدا کر دے  جس سے  ان رنگوں  کے  علاوہ تو  اور  رنگ دیکھے۔ سنگریزوں  کی بجائے  تو موتی دیکھے، موتی کیا بلکہ تو دریا بن جائے۔ آسمان کو طے  کر نے  والا سورج  بن جائے۔

لطف گشت و نور شد مرنارِ اُو

یعنی وہ  محبت بن گیا، اس کی آگ نور بن گئی!

 

           اور  چوتھی جمالیاتی جہت ’وصل‘  یا وحدت ہے۔ وصل  اور  وحدت کے  ساتھ ہی ایک انتہائی خوبصورت  اور  پر اسرار آہنگ سنائی دینے  لگتا ہے۔ مولانا رومیؒ نے  اس آہنگ کو صوفیانہ آہنگ (Mystical Symphony) میں  تبدیل کر دیا ہے۔ وصل، حیرت کے  جمال کی انتہا ہے۔ مولانا رومیؒ نے  اسے  اللہ کی جانب بڑھ کر وحدت کی بات نہیں  کی ہے  بلکہ اللہ کے  اندر سفر کر نے  کی بات کہی ہے۔ یہاں  موت کی جمالیات شدّت سے  متا  ّثر کرتی ہے۔ یہ جمالیات زماں  و مکاں  سے  کہیں  آگے  اپنے  حد درجہ معنی خیز  اور  پر اسرار پروں  کو کھولتی ہے، ایک پر کھلتا ہے اور جلال و جمال کا ایک پر اسرار منظر سامنے  ہوتا ہے۔ مولانا رومیؒ نے  یہاں  دنیا کے  بہت سے  شعرا  اور  خصوصاً صوفی شعرا سے  اوپر اٹھ کر deathless Consciousness کو حد درجہ محسوس بنا دیا ہے، یہاں  وقت کا تصور ہی گم ہو جا تا ہے۔

مردہ بدم زندہ شدم گریہ بدم خندہ شدم

دولت عشق آمد و من دولت پایندہ شدم

(مولانا رومیؒ دیوان شمس تبریزی)

          زلیخا کے  تعلق سے  وہ اشعار یاد کیجیے  کہ جن کا ذکر میں  نے  پچھلے  صفحات میں کیا ہے اور غور فرمائیے  کہ زلیخا کس طرح ایک عاشق کے  پیکر میں  ڈھل گئی ہے۔ مولانا رومیؒ نے  کچھ آگے  بڑھ کر کیا کہا تھا؟ انہوں  نے  کہا تھا جب تم سچے ّ دل سے  ہمیشہ کے  لیے   محبت میں  گم ہو جاتے  ہو تو تمھاری رُوح اللہ میں  جذب ہو جاتی ہے، روح کے  متعلق بات کیجیے  تو اللہ کے  متعلق ہوتی ہے اور اللہ کے  بارے  میں  بات کیجیے  تو وہ روح کے  بارے  میں  ہوتی ہے۔ زلیخا نے  یوسفؑ سے  بے  پناہ محبت کی، یہ راز ظاہر نہ ہو جائے  اس کے  لیے  اس نے  مختلف اصطلاحیں  وضع کر رکھی تھیں  ’سپند‘  سے  مراد یوسف ہیں، اس لفظ سے  اس دھونی کا خیال آتا ہے  کہ جس کے  دھوئیں  کو نظرِ بد سے  بچنے  کے  لیے  استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح ’اگر‘  کا لفظ ہے  کہ جس کی خوشبو حضرتِ یوسفؑ کے  وجود کو ظاہر کرتی ہے۔ زلیخا نے  کالے  دانہ سے  لے  کر  اگر  تک ہر چیز کا نام یوسف رکھا تھا، ان کا نام ان ناموں  میں  چھپا ہوا تھا، وہ کہتی موم آگ سے  نرم ہو گیا تو بتانا مقصود یہ ہوتا کہ یار مہربان ہو گیا ہے   اگر  کہتی چاند نکل آیا ہے  یا اس بید کی شاخ سبز ہو گئی ہے، کہتی پانی میں  عمدہ لہریں  پیدا ہو رہی ہیں  پتے ّ تالیاں  بجا کر رقص کر رہے  ہیں  یا پھول نے  بلبل سے  راز کہہ دیا ہے  تو مقصد یہی ہوتا کہ یوسف کا ذکر کر رہی ہے۔

ور بگفتے  دوش دیگے  پختہ اند

یا حوائج از پزش یک لختہ اند

اگر کہتی کل رات انھوں  نے  دیگ  پکائی ہے  یا مصالحہ پکنے  سے  ایک جان ہو گئے  ہیں  تو اشارہ عشق میں  وحدت کی جانب ہوتا۔ اس نے  اس طرح ہزاروں  نام ملا رکھے  تھے  اسی طرح کہ جس طرح عاشقِ خدا اللہ کے   ہزاروں  ناموں  کو اپنے  دل میں  ملائے  رکھتا ہے، بھوکی ہوتی پیاسی ہوتی تو یوسف کا نام لیتی  اور  بھوک پیاس مٹ جاتی، موسم سرما میں  یوسف کے  ذکر سے  بدن میں  حرارت  اور  گرمی پیدا ہو جاتی۔ اللہ کے  ذکر سے  بھی تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ حرارت  اور  گرمی آ جاتی ہے۔ مولانا روم کی چوتھی جمالیاتی جہت اس طرح ابھرتی ہے:

چونکہ باحق متصل گردید جاں

ذکر آں  نیست ذکر ایں  نست آں

یعنی جب جان اللہ سے  وابستہ ہو گئی تو اللہ کا ذکر اس کا ذکر  اور  اس کا ذکر اللہ کا ذکر ہے۔ عاشق خود سے  خالی ہو جاتا ہے اور عشقِ محبوب سے   پر ہو جاتا ہے، پھر پیالے  سے  وہی ٹپکتا ہے  جو اس میں  ہوتا ہے۔ مولانا رومیؒ کی چوتھی جمالیاتی جہت کی یہ بہت ہی خوبصورت مثال ہے۔

          موت کی شیرینی  اور  مٹھاس کا یہ احساس دیکھئے:

جزوِ مرگ ارگشت شیریں  مَر ترا

داخکہ شیریں  میکند گل را خدا

اگر موت  کا جزو تیرے  لیے  شیریں  ہو گیا ہے  تو سمجھ لے  کہ خدا   کل کو میٹھا کر دے  گا۔ مولانا رومیؒ کے  لڑکے  سلطان ولد نے  لکھا تھا کہ ایک دن میں  نے  اپنے  والد سے  کہا کہ ’’آپ کے  کچھ احباب جب آپ کو نہیں  دیکھتے  تو انھیں  بے  حد تکلیف ہوتی ہے، ان کی خوشیاں  گم ہو جاتی ہیں۔‘ ‘  میرے  والد نے  جواب دیا ’’وہ احباب جو میری غیر موجودگی میں  خوش نہیں  ہوتے  وہ حقیقتاً مجھے  جانتے  ہی نہیں، جو مجھے  جانتا ہے  وہ میرے  بغیر بھی خوشی محسوس کرتا ہے، وہ میری  محبت میں  ڈوب جاتا ہے، میرے  تعلق سے  سوچنے  لگتا ہے، میرے  خیالات پر غور کرتا رہتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے۔‘ ‘  مولانا رومیؒ نے  اپنے  بیٹے  سے  کہا ’’تم جب بھی تصوف کی مٹھاس  اور  شیرینی میں  ڈوبے  رہو یہ سوچتے  رہو کہ یہ شیریں  کیفیت‘  میں  ہوں  تمھارے  اندر۔۔۔!‘ ‘  سلطان ولد نے  آگے  لکھا تھا ’’میرے  والد اکثر کہتے  جب بھی تم مجھے  تلاش کرو مسرتوں  میں  ڈوب جاؤ، ہم لوگ، ہم سب مسرت و انبساط ہی کی دنیا میں  تو ہیں۔‘ ‘ 

          غور فرمائیے  یہ کیسا خوبصورت یقین  اور  کتنا دلکش عقیدہ ہے، اسی لیے  میں  نے  کہا ہے  کہ تصوّف مذہب کا شیریں  نغمہ ہے، یہ  کل باطنی تجربے  کی دلکش موسیقی ہے، مولانا کا جمالیاتی انبساط غیر معمولی نوعیت کا ہے، مولانا رومیؒ نے  کہا ہے  کہ اللہ نے  مجھے  ’شرابِ عشق ‘  سے  خلق کیا ہے، میں  خود وہ عشق ہوں، موت مجھے  گرد نہیں  بنا سکتی،  اگر  تم اندر جھانک کر دیکھو گے  تو تمھاری رُوح کے  گلستاں  میں  ایک میخانہ نظر آئے  گا۔ تصوّف کی شیریں  لذیذ شراب جو نشہ طاری کرتی ہے  اس سے  میں  شمس تبریز کی روح کے  بلند مینار کے  گرد چکر لگاتے  ہوئے  بہت دور نکل جاتا ہوں، میری روح ایک لمحے  کو نہیں  رُکتی بس اڑتی ہی رہتی ہے، پرواز ہی کرتی رہتی ہے  لہٰذا میری قبر یہ چاہے  گی تم سب یہاں  خوب رقص کرو تیز تیز  اور  ہر جانب نغمے  اُچھالتے  رہو۔

٭٭٭

’وقت‘ کا جمالیاتی رومانی تصوّر

تصوّف نے  تحّیرات کے  جمال  اور  اس کی گہری رومانیت میں  جنم لیا ہے، تحّیرات کے  حسن  اور  رومانیت کے  رسوں  (Rasas) سے  جمالیاتی انبساط حاصل کرتا رہا ہے  اس لیے  کہ وہ ان ہی میں  پلا بڑھا ہے  تحّیرات کے  جمال ہی میں  اس کی ابتداء ہوئی ہے اور تحیرّ کے  جلال و جمال ہی میں  اس کی تکمیل ہوئی ہے  تکمیل کی منزل تک تحیرّ زیادہ ہی بڑھتا رہا ہے، اس میں  زیادہ شدّت پیدا ہوئی ہے، لہٰذا اس کی جمالیات میں  زیادہ کشادگی  اور  تہہ داری آئی ہے اور اس کی رُوحانیت میں اور بھی زیادہ اٹھان پیدا ہوئی ہے۔ فلسفہ  اور  تصوّف میں  یہی فرق ہے۔ ممکن ہے  فلسفہ کی ابتدا بھی تحّیرات  اور  ان کے  حسن کے  اندر ہوئی ہو لیکن فلسفہ تحیرّ  اور  اس کی جمالیات سے  دُور ہوتا گیا ہے۔ تصوّف نے  رموز و اسرار (Mystics) میں  جھانکنے  سے  اپنی ابتدا کی  اور  اس کے  اس عمل کے  ساتھ ہی رموز و اسرار  اور  گہرے  ہوتے  گئے، تحیرّ بڑھتا گیا، جس قدر جاننا چاہا اسی قدر کم جانا  اور  پھر تحّیرات کے  حسن و جمال  اور  ان کی رومانیت کے  دھُندلکوں  نے  گرفت میں  لے  لیا، لگا وہ کچھ بھی جان نہ سکا،  اگر  اسے  کوئی چیز نصیب ہوئی تو وہ معصومیت (Innocence) کی سطح تھی۔ یہی پیاری  اور  دلکش معصومیت تصوّف کی سب سے  بڑی دین ہے۔ یہ وہی معصومیت کی سطح ہے  جہاں  شاعری  اور  آرٹ کی جمالیات  اور  رومانیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس طرح کہ آرٹ مذہب بن جاتا ہے۔

          جب تک تلاش و جستجو  اور  نئے حسی تجربوں  کو پانے  کی آرزو رہتی ہے، باطن میں  نغمہ پیدا ہوتا رہتا ہے، شاعری پیدا ہوتی رہتی ہے، اس کا آہنگ پیدا ہوتا رہتا ہے، جیسے  ہی حسی سطح پر نیا تجربہ پا لیا جاتا ہے اور اس تجربے  کو جان لیتے  ہیں  وہ نغمہ سنائی نہیں  دیتا، وہ شاعری جنم نہیں  لیتی  اور  اس کا وہ آہنگ سنائی نہیں  دیتا جو تلاش و جستجو کے  پورے  عمل میں  موجود ہوتا ہے۔۔۔  اور  اس کے  ساتھ ہی باطن کی ہر خوبصورت شے  گم ہوتی نظر آتی ہے۔ تصوّف میں  تلاش و جستجو کا سلسلہ قائم رہتا ہے حسی تجربوں  کو پانے  یا نئے  تجربوں  کو حاصل کر نے  یا دھُند لکوں  میں  ڈھونڈھنے  کا عمل جاری رہتا ہے، باطن میں  نغمہ موجود رہتا ہے، تغزّل یا شعریت کا رس موجود ہوتا ہے، آہنگ پیدا ہوتا رہتا ہے، اس کی جمالیات  اور  اس کی رومانیت اپنی تمام تر شدّت کے  ساتھ ہر دم  اور  ہر لمحہ موجود رہتی ہے، جس کی وجہ سے  سرمستی میں  اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ تصوّف نغمہ بن جاتا ہے، شاعری بن جاتا ہے، پورے  وجود کو نئے  نئے  سُروں اور نئے  نئے  آہنگ سے  آشنا کرتا رہتا ہے۔ باطنی سطح یا’ معصومیت‘  (Innocence) کی سطح پر صوفی عشق کی کیفیت کو خوب جاننے  بوجھنے  لگتا ہے  اس لیے  کہ یہ اس کے  اپنے  عشق کی کیفیت ہوتی ہے۔ عشق کی کیفیت سے  سرشار ہوتے  ہی وہ معصومیت کی اس خوبصورت، دلکش  اور  نازک سطح پر جشن منانے  لگتا ہے، اللہ  اور  اس کے  درمیان کوئی شے  حائل نہیں  ہوتی، خود کلامی یا مونولاگ اپنے  بہترین سُروں  کو لیے  ہوتا ہے۔ تصوّف وجود  اور  زندگی کے  حسن میں  پگھل جانے  کا نام ہے۔ چونکہ صوفی اپنے  دل کے  مرکز پر جشن مناتا ہے اور اس میں  شریک رہتا ہے  اس لیے  وہ خالقِ کائنات سے  عشق کے  رشتے  کو جانتا پہچانتا ہے، یہ اس کا اپنا جمالیاتی تجربہ  اور  اس کا اپنا روحانی رویّہ ہوتا ہے۔ چاہیں  کہ اس کے  جشن میں  ہم گھس جائیں  تو یہ ممکن نہیں، ہم باہر رہ کر جشن دیکھ بھی نہیں  سکتے، یہ صوفیانہ شاعری یا شاعروں  کے  صوفیانہ تجربوں  کا فیض ہے  کہ ہم اس جشن کے  بارے  میں  کچھ جانتے  بوجھتے  ہیں۔۔۔  اگر  کوئی صوفی گلاب کا خوبصورت پھول نظر آ رہا ہے  تو ہم اسے  دیکھ کر خود گلاب نہیں  بن سکتے، اس گلاب کو سمجھنے  کے  لیے  صوفیوں  کی گفتگو ان کی شاعری  اور  ان کے  عمل کے  مختلف پہلو ہی مدد کرتے  ہیں۔ تصوّف خاموشی سے  بہت قریب ہے  اس لیے  کہ وہ کچھ کہتا ہے  پھر بھی کچھ نہیں  کہتا، بڑے  صوفیوں  کی وہ باتیں  جو ہم تک آئی ہیں، ان کا کلام جو ہم  تک پہنچا ہے، لفظوں  سے  پر ہے  لیکن وہ الفاظ اس طرح استعمال ہوئے  ہیں  کہ خاموشی نہ ٹوٹے، خاموشی میں  کوئی خلل نہ پڑے۔

          تصوّف کا پیغام یہ ہے  تحیرّ  اور  اس کے  جمال کو اپنا مذہب بنا لو، اسے  نجات کی راہ تصوّر نہ کرو، تصوّف تو مذہب کا نغمہ ہے، مذہب کی مدھر آواز ہے، مذہب کا آہنگ ہے، مذہب نے  تو خود ہی تحّیرات  اور  اس کے  حسن میں  جنم لیا ہے، اللہ کے  حسن و جمال ہی سے  ہر شے  کی تخلیق ہوئی ہے۔ اللہ تحیرات  اور  اس کے  جمال کا مرکز  اور  سرچشمہ ہے۔ تم صرف تحیرّ  اور  اس کے  حسن کو اپنی جہت (Dimension) بنا لو، مذہب  اور  تصوّف کی رُوح  اور  ان کے  جلو وں  کو دیکھنے اور معصومیت کی سطح پر انھیں  محسوس کر نے  کے  لیے  ایک بار پھر بچوّں  کی طرح حیرت سے  ٹکر ٹکر دیکھتی  اور  اِدھر اُدھر نظر گھمانے  والی آنکھوں  کی ضرورت ہے۔ تصوّف وہ نگہ چاہتا ہے  جو قطرے  میں  سمندر کو دیکھ لے اور وہ ’وژن‘  (Vision) جو ہر ذرّے  میں  سورج کو پالے:

تابنیم قلزمے  در قطرہ

آفتابے  درج اندر ذرّہ!

(مولانا رومیؒ)

          تصوّف نے  اسی نگہ (جو آنکھ کے  اندر رہتی ہے )  اور  اسی ’وِژن‘  (جو دل کے  مرکز پر عشق کے  تحرّک کی دین ہے ) کے  ساتھ وقت، (Time) کے  حسی جمالیاتی رومانی تصوّر کو پیش کیا ہے۔ حسی جمالیاتی رومانی موج غیر معمولی موج ہے، اس سے  تو عقل کے  بڑے  بڑے  پہاڑ ٹوٹ جاتے  ہیں، مولانا رومیؒ کہتے  ہیں:

در بلندی کوہِ فکرت کم نگر

کہ یکے  موجش کند زیر و زبر

(مولانا رومیؒ)

اپنی عقل کے  پہاڑ کو زیادہ بلند نہ سمجھو، اس کو ایک موج تہہ و بالا کر دے  گی!

          اگر آپ آئین اسٹائن (Albert Einstein) سے  دریافت کریں  ’’وقت‘ ‘  (Time) کیا ہے  تو ان کا جواب ہو گا وقت ’’مکاں‘ ‘  (Space) کی چوتھی جہت ہے، اس جواب سے  ’وقت‘  کا اسرار کھلتا نہیں۔ وقت کا اسرار اسی طرح موجود رہتا ہے  کہ جس طرح آئین اسٹائن سے  پہلے  تھا۔ واقعی ’وقت‘  بہت پر اسرار ہے، ہم سب وقت میں  رہتے  ہیں، وقت پر گزرتے  ہیں، وقت ہم پر گزرتا ہے، ہم اسے  ہر وقت محسوس کرتے  ہیں۔ اسے  جانتے  پہچانتے  ہیں  لیکن اس کی وضاحت  اور  اس کی تشریح ممکن نہیں  ہوتی۔ یہ کہا جا سکتا ہے  کہ انسان کا ذہن ’’نفسیاتی وقت‘ ‘  ہے۔ یہ کہا جائے  تو غلط نہ ہو گا کہ باطن میں  ’’کلاک ٹائم‘ ‘  (Cock's Time) کا تصوّر پگھل جاتا ہے۔۔۔ انسان مراقبے  میں  جیسے  جیسے  ڈوبتا جاتا ہے  وقت گم ہوتا جاتا ہے۔ جب مراقبہ خوبصورت پھول کی طرح  کھل جاتا ہے  تو وقت کا وجود ہی نہیں  ہوتا، پھول ہوتا ہے، اس کی دلفریب خوشبو ہوتی ہے۔ دماغ کے  گم ہوتے  ہی وقت گم ہو جاتا ہے، چونکہ دماغ ’’نفسیاتی وقت‘ ‘  بھی ہے  اس لیے  یہ بھی گم ہو جاتا ہے۔ صوفیوں  نے  کہا ہے  کہ دماغ  اور  وقت دونوں  ایک ہی تصویر کے  دو پہلو ہیں۔ دماغ میں  خواہشوں  کی ایک دنیا ہوتی ہے، مختلف قسم کی خواہشیں  جنم لیتی رہتی ہیں، یہ سچ ہے  کہ انسان ان ہی خواہشوں  کی وجہ سے  مستقبل کے  بارے  میں  سوچتا رہتا ہے، خواہش کے  مطابق مستقبل کا خواب دیکھتا رہتا ہے  حالانکہ سچائی یہ ہے  کہ مستقبل کا وجود ہی نہیں  ہوتا۔ اسی طرح ماضی کا بھی کوئی وجود نہیں  ہوتا، ذہن، دماغ ماضی کی جانب جاتا رہتا ہے، وہ گزر چکا ہے  اس کا وجود ہی نہیں  ہے۔ یہ ماضی  اور  مستقبل دونوں  دماغ سے  چمٹے  رہتے  ہیں، ان دونوں  کو انسان کا دماغ زندہ رکھے  ہوتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے  ’وقت‘  کا احساس ہوتا رہتا ہے  جو کبھی کبھی بہت تیز ہوتا ہے۔ ہم نے  ’وقت‘  کو تین حصوں  میں  تقسیم کر رکھا ہے  ماضی حال  اور  مستقبل۔ صوفی ’حال‘  کو اہمیت دیتے  ہیں، وہ ’حال‘  کہ جس میں  نہ دماغ کا عمل دخل ہو  اور  نہ وقت کا!

          گوتم بدھ نے  کہا تھا ’’لمحوں  میں  زندہ رہو، لمحوں  ہی میں  ہر شخص اپنے  طور سچائی کو پا سکے  گا۔  اگر کسی نے  موجود لمحوں  کا خیال نہ رکھا تو اسے سچائی حاصل نہ ہو سکے  گی۔ کوئی کسی کو ’اپنا لمحہ‘   اور  وہ ’لمحہ کہ جس لمحے  میں  اس نے سچائی پائی ہو‘  نہیں  دے  سکتا۔ ’حال‘  ہی وہ لمحہ عطا کر سکے  گا کہ جس میں  کوئی شخص اپنے  طور سچائی کو پا سکے  گا۔‘ ‘ 

          گوتم بدھ کو جب یہ محسوس ہوا کہ وہ اب اس دنیا سے  گزر نے  والے  ہیں  تو انھوں  نے  اپنے  شاگردوں  کو بلا کر یہ کہا: ’’تم اپنے  اندر خود ایک چراغ کی مانند روشن ہو جاؤ۔‘ ‘ 

          اُن کا معروف شاگرد آنند جو اُن کے  ساتھ پچاس برسوں  تک رہا تھا، روتے  ہوئے  بولا: ’’میں  آپ کے  ساتھ آپ کی پرچھائیں  بن کر پچاس برس رہا، اس کے  باوجود اپنے  اندر خود ایک چراغ بن کر روشن نہ ہوا، اب آپ جا رہے  ہیں  میرا کیا ہو گا؟‘ ‘ 

گوتم بدھ مسکرائے، کہا: ’’ممکن ہے  میں  رکاوٹ بنا رہا تم اپنے  اندر خود ایک چراغ بن کر روشن نہ ہو سکے، اب میرے  جانے  کے  بعد کوئی رکاوٹ نہیں  ہو گی  اور  تم لمحوں  میں  خود ایک چراغ بن کر روشن ہو جاؤ گے، میں  تم سے  ہمیشہ کہتا رہا کہ میں  تمھیں ’ سچائی‘  نہیں  دے  سکتا کوئی کسی کو ’ سچائی‘  نہیں  دے  سکتا’ سچائی‘  کو خود پانا ہوتا ہے، لیکن خواہ مخواہ اُمّید لگائے  بیٹھے  رہے، میں  تو صرف تمھاری پیاس بڑھا سکتا تھا جو بڑھاتا رہا ہوں، اب تم بہت پیاسے  ہو، میرے  جانے  کے  بعد یقین ہے  تمھارے  اندر ایک چراغ روشن ہو گا  اور  وہ چراغ تم ہو گے۔‘ ‘ 

           اور  وہی ہوا، گوتم بدھ کے  انتقال کے  بعد ہی وہ لمحہ آ گیا کہ جس میں  آنند نے  اپنے  وجود میں  ایک آواز سنی، ایک دھماکہ ہوا، زبردست دھماکہ  اور  وجود کے  اندر چراغ روشن ہو گیا، اس کا اپنا چراغ۔۔۔۔ آنند خود چراغ تھا!

          ’اسے  حال‘  کے  چمکتے  روشن لمحوں  کا اچانک احساس ہوا

           اور  دھماکہ ہو گیا!!

گوتم بدھ نے  کہا تھا: ’’تم ایک ہی ندی میں  دوسری بار قدم نہیں  رکھ سکتے  اس لیے  کہ تم بدلتے  رہتے  ہو۔‘ ‘  ہر دوسرے  لمحے  انسان خود ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔

          بدھ ازم میں  یہ بات اس حد تک آگے  بڑھی ہے  کہ روح بھی یکساں  نہیں  رہتی اس میں  بھی ہمیشگی نہیں ہے، یہ بھی مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

          جین ازم کے  مطابق چراغ کی لو، ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہے، یکساں  نہیں  رہتی، روشنی کا تسلسل تو قائم رہتا ہے  لیکن لو میں  تبدیلی بھی مسلسل ہوتی رہتی ہے  ہر لمحہ لو کی صورت بدل جاتی ہے، پہلی صورت گم ہو جاتی ہے اور نئی صورت پیدا ہو جاتی ہے، شام کے  روشن کیے  چراغ کو صبح تک بجھاتے  ہوئے  لاکھ تبدیلیاں  ہو چکی ہوتی ہیں۔

          مولانا رومی کے  اشعار سنئے:

ہر نفس نومی شود دنیا وما

بے  خبر از نو شدن اندبقا

یعنی ہر نفس، ہر لمحہ دُنیا نئی ہو جاتی ہے اور ہم زندگی میں  اس کے  نئے  ہونے  سے  بے  خبر ہیں۔

عمر ہمچوں  جوئے  نو نو می رسد

مستمرے  می نماید در جسد

نہر کی طرح عمر نئی نئی آتی رہتی ہے  جو جسم میں  مسلسل دکھائی دیتی ہے۔

آں  زتیزی مستمر شکل آمدست

چوں  شرر کش تیز جنباتی بدست

تیزی کے  باعث وہ مسلسل شکل بنی ہے، اس انگارے  کی مانند جس کو تو ہاتھ سے  تیز گھمائے۔

شاخِ آتش از بجنبانی بساز

در نظر آتش نماید بس دراز

اگر تو جلتی لکڑی کو کوشش سے  گھمائے  تو وہ بہت لمبی آگ نظر آئے  گی۔

ایں  درازی مدت از تیزی صنع

می نماید سرعت انگیزی صنع

ایجاد کی تیزی سے  یہ بقا کا طول اللہ کی ایجاد کی تیزی کو ظاہر کرتا ہے۔

          ’وقت‘  کے  تعلق سے  مولانا رومیؒ کا جمالیاتی رومانی تصوّر بنیادی طور پر وہی ہے  جو گوتم بدھ کا ہے۔

           ’’روحانیت‘ ‘  کوئی ہیجان انگیز تجربہ نہیں  ہے۔ یہ خواہشات کے  ختم ہونے  کا خوبصورت دلکش نتیجہ ہے۔ انسان تنہا ہو جاتا ہے  شعور اس کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ آئینہ ہی روحانیت ہے  روحانیت جمالیات کا سر چشمہ  اور  روحانی وژن کا مرکز ہے، دُنیا کے  حسن و جمال  اور  اس حسن سے  بہت آگے  جلال و جمال کے  بنیادی مرکز تک پہنچنے  کے  لیے  رُوحانیت ہی ایک نظر عطا کرتی ہے اور یہ نظر یا وژن اپنی بے  پناہ تو انائی کی وجہ سے  انتہائی رومان پرور فضاؤں  میں  پہنچ جاتا ہے  عشق کا اضطراب غیر معمولی ہوتا ہے، یہی رومانی تو انائی کی پہچان ہے۔ انسان اپنے  دل کی گہرائیوں  میں  اتر کر اللہ کو پا لیتا ہے  جو خالص ’انرجی‘  یا خالص تو انائی ہے۔ اسی تو انائی یا انرجی سے  جمالیاتی وژن میں  شدّت پیدا ہوتی ہے اور رومانی پرواز میں  تیزی آتی ہے، اللہ کوئی فلسفیانہ نظر یہ یا تھیوری نہیں  ہے، یہ زبردست حسی کیفیت  اور  زبردست باطنی پیمان کا انتہائی خوبصورت  اور  لطیف تجربہ ہے۔ خالص تو انائی ہے، کائنات اسی تو انائی کا کرشمہ ہے۔

          صوفیوں  کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے  کہ انھوں  نے  مذہب کی داخلیت  اور  داخلی فضا کی تشکیل میں  نمایاں   حصہ لیا ہے، دل کو روحانی آرزوؤں  کا مرکز بنایا ہے۔ تصوّف نے  ’وقت‘  یا ’ٹائم‘  کی پر اسراریت کو بھی بہت اہم تصوّر کیا ہے۔ یہ بتایا ہے  کہ ’ماضی‘  ’حقیقت‘  نہیں  ہے اور ’مستقبل‘  بھی ’حقیقت‘  نہیں  ہے  ’حال‘  ہی حقیقت ہے، ’ماضی‘  گزر چکا ہے  ’مستقبل‘  آیا نہیں  ہے۔ لہٰذا ’حال‘  ہی اہم ہے، یہی ’وقت‘  ہے  ’حال‘  ہی کے  لمحے  ’وقت‘  ہیں۔ ہم ماضی کو واپس نہیں  لاسکتے، ماضی میں  کسی قسم کی تبدیلی نہیں  کر سکتے، مستقبل کے  بارے  ہمیں  بھی کچھ علم نہیں۔

          مسلمان مفکروں اور صوفیوں  نے  ’وقت ‘  یا ’ٹائم‘  کے  تعلق سے  کئی نظریے  پیش کیے  ہیں۔ عرب  ّمفکروں  نے  ’’دہر‘ ‘  (وقت) کا تصوّر پیش کیا، دن  اور  رات، قدر  اور  تقدیر کے  تصوّرات ’دہر‘  سے  وابستہ رہے۔ ’دہر‘  کی تبدیلی کو فلسفیانہ گفتگو کا موضوع بنایا۔

          قبائلی عرب ذہن  اور  پرانی عربی شاعری میں ’دہر‘   اور  ’تقدیر‘  کا مفہوم کم و بیش ایک ہی تھا۔ اسلامی مفکروں  نے  یہ سمجھانے  کی کوشش کی کہ موجود زندگی (حال) ہی اہم ہے۔ ہم جیتے اور مرتے  ہیں  تو وقت (دہر) کی وجہ سے، قبائلی عرب ذہن نے  اُس ’وقت‘  کا تصوّر نہیں  کیا تھا جو موت کے  بعد کا وقت ہے۔ قرآن حکیم نے  ایام اللہ کی بات کی، حضرت موسیٰؑ سے  کہا گیا اپنی قوم کو ’’پرچھائیوں‘ ‘  سے  باہر نکال کر روشنی میں  لے  آؤ  اور  انھیں  اللہ کے  ’وقت‘  کی یاد دلاؤ۔ دنیا کے  خاتمے  پر وہ دن بھی آئے  گا جب اللہ انصاف کرے  گا۔ پلک جھپکتے  (لمحہ البصر) ہی اللہ کا حکم جاری ہو گا۔ حدیث قدسی ہے  کہ ’وقت‘  کو برا نہ کہو کہ وقت خدا ہے۔ اللہ ہی وقت ہے،! حضرت ابن العربیؒ نے  اللہ کو وقت (دہر) کہا ہے۔ ’دہر‘  زماں ‘  زروان، یہ سب الفاظ وقت کو سمجھنے  کے  لیے  استعمال ہوتے  رہے  ہیں۔ وقت کا داخلی تصوّر صوفیوں  کو عزیز رہا ہے۔ دن، رات، ’لمحہ، ’وقفہ، سب باطن میں  ہیں، تاریکی  اور  روشنی کے  تصوّرات صوفیوں  کے  بنیادی تصوّرات ہیں۔ فارسی صوفی شعرا کے  کلام میں  ’روشنی‘   اور  ’تاریکی‘   اور  ’کرامات‘ ،’نغمہ‘ ، ’رقص‘   اور  ’ موسیقی‘   اور  ’وجد‘  کی کیفیت وغیرہ کا گہرا مطالعہ کیا جائے  تو ’وقت‘  کا ایک انتہائی خوبصورت جمالیاتی رومانی تصوّر سامنے  آئے  گا۔ صوفیوں  کے  رقص نے  فارسی تصوّف کو’ وقت‘  کی وہ زبان بخشی ہے  کہ جسے  ’’جسم کی بھاشا‘ ‘  (Body language) کہہ سکتے  ہیں۔ ’وجد‘   اور  ’سماع‘  میں  ’وقت‘  کے  ’کلاک ٹائم‘  کا تصوّر ہی پگھل جاتا ہے۔ تصوّف میں  ’الوہی وقت‘  (Divine Time)  اور  ’الوہی مکاں ‘  (Divine Space) کے  تصوّرات جمالیاتی رومانی رس سے  لبریز ہیں

          ابنِ خلدون نے  وقت، زندگی  اور  تاریخ کا ایک عمدہ تصوّر پیش کیا۔ ان کے  نزدیک تاریخ وقت کے  اندر ایک مسلسل اجتماعی تحریک ہے۔ تبدیلیاں  ہوتی رہتی ہیں، تاریخ وقت پر اثر انداز ہوتی ہے اور تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ ایک تخلیقی اجتماعی تحریک ہے۔ یہ ایسی تحریک نہیں  کہ جس کے  عمل کے  مختلف اوقات پہلے  سے  مقرر ہوں۔ ابنِ خلدون مابعد الطبیعیاتی تصوّرِ وقت کو پسند نہیں  کرتے  تھے۔

           مولانا رومیؒ فرماتے  ہیں:

ہر زماں  نو صورتے  و نو جمال

تاز نو دیدن فرو سیرو ملال

من ہمی بینم جہاں  را پر نعیم

آبہا از چشمہا جوشاں  مقیم

بانگِ آبش می رسددر گوشِ من

مست می گرد د ضمیر و ہوشِ من

شاخہا رقصاں  شدہ چوں  تائباں

بر گہا کف زن مثالِ مطرباں

برق آئینہ است لامعِ از نمد

گر نماید آئینہ تا چوں  بوَد

(مثنوی مالانا روم دفتر چہارم)

یعنی ہر وقت نئی صورت  اور  نیا حسن ہے، نئے  مشاہدے  سے  غم زائل ہو جاتا ہے، دنیا کو نغموں  سے  بھرا دیکھتا ہوں، چشموں  سے  پانی ہمیشہ جوش مار رہا ہے، میرے  کان میں  پانی کی آواز پہنچتی ہے، میرا دل  اور  میرے  حواس مست ہو جاتے  ہیں، شاخیں  صوفیوں  کی طرح رقص کر رہی ہیں، پتے ّ گویوّں  کی طرح تالیاں  بجا رہے  ہیں، آئینہ کی چمک  نمدے  میں  ہے   اگر  آئینہ نظر آ جائے  تو کیا ہو گا!

          مولانا رومیؒ کے  جمالیاتی وژن میں  ’وقت‘  کا جمال یہ ہے  کہ وہ متحرّک ہے، اس کے  ہر تحرّک سے  نئی صورتیں  جنم لے  رہی ہیں اور اس طرح نئے  حسن کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ایک ایک لمحہ نئی جمالیاتی صورت کی تخلیق ہو رہی ہے، ان خوبصورت صورتوں  کو دیکھتے  رہیے  غم زائل ہو جائے  گا۔ یہ وقت ہی کا تحرّک ہے  کہ دنیا طرح طرح کی نعمتوں  سے  بھرتی رہتی ہے اور چشموں  کے  پانی میں  ہلچل رہتی ہے۔ اس جوش  اور  ہلچل کا آہنگ کانوں  تک پہنچتا ہے  تو بڑی جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے  انسان کا پورا وجود مست  اور  دیوانہ ہو جاتا ہے۔ شاخوں  پر نظر پڑتی ہے  تو وہ صوفیوں  کی طرح رقص کرتی نظر آتی ہیں، پتوّں  پر نگاہ جاتی ہے  تو لگتا ہے  جیسے  وہ گانے  والوں  کی طرح تالیاں  بجا رہے  ہیں، یہ سب اس ’وقت‘  کا کرشمہ ہے  جو اللہ کی دین ہے، ’وقت‘  کا تعلق اللہ سے  ہے  یعنی بنیادی تو انائی یا انرجی سے  ہے  جب اس طرح ہر لمحہ دنیا میں  نیا حسن جنم لے  رہا ہے، نئی حسین صورتیں  جنم لے  رہی ہیں  تو جانے  اس وقت یا اس لمحے  کیا ہو گا جب جلوۂ الٰہی سامنے  ہو گا۔ مولانا رومی کی جمالیات میں  وقت کے  متحرّک جمالیاتی تصوّر کو نمایاں  حیثیت حاصل ہے۔

          مولانا رومی اچھی طرح محسوس کرتے  ہیں  کہ وقت ہر لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، باطن کا حال کوئی کس کو بتا تو نہیں  سکتا ہاں  یہ کہہ سکتا ہوں  کہ بہت سے  تلخ لمحے  باطن میں  شیریں  ہو جاتے  ہیں، عالم کے  لاکھوں  احوال غیب کی جانب چلے  جاتے  ہیں، ہر روز کا حال کل کی مانند نہیں  ہوتا، ایک ’حال‘  کے  بعد دوسرا ’حال‘  آ جاتا ہے، جس طرح نہر کا پانی گرتا رہتا ہے اور اس کی جگہ نیا پانی لے  لیتا ہے  اسی طرح ایک ’حال‘  کی جگہ دوسرا ’حال‘  نمودار ہو جاتا ہے۔ ہر روز، ہر لمحے  کی خوشی دوسری قسم کی ہوتی ہے، ہر دن کی فکر مختلف ہوتی ہے۔

صد ہزار احوالِ عالم ایں  چنیں

باز سویٔ غیب رفتند اے  امیں

حالِ ہر روزے  بہ دل مانند نے

ہمچو جو اندر روش کش بندنے

شادیِ ہر روز از نوعِ دگر

فکرتِ ہر روز را دیگر اثر

(مثنوی مولانا روم، دفتر پنجم)

باطن میں  خوبصورت وقت  اور  لمحوں  کا ذکر کرتے  ہوئے  مولانا رومیؒ نے  فرمایا ہے  یہ جسم مہمان خانہ ہے، ہر صبح ایک نیا مہمان آ جاتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ آتا ہے، خوشی  اور  غم کا نیا مہمان، ہمیں  میزبان بنا رہنا چاہیے، دروازہ کھلا رکھنا چاہیے، نئے  لمحوں  کے  انتظار میں  رہنا چاہیے، یہ وقت، یہ لمحے  غیب سے  آتے  ہیں اور تیرے  دل میں  رہنا چاہتے  ہیں۔ انھیں  خوش رکھنا چاہیے۔ مولانا رومیؒ باطن میں  خوبصورت لمحوں  کے  بہاؤ  اور  نئے  نئے  لمحوں  کی آمد پر یقین رکھتے  ہیں۔ وقت  اور  لمحے  کو مہمان کہا ہے  یعنی خوشی مسرت کی آمد۔ ہر لمحے  کی قدر کرو، ہر لمحے  کا استعمال کرو اس لیے  کہ وہ غیب سے  آتے  ہیں، اللہ کی جانب سے  آتے  ہیں  وہ عظیم تر تو انائی کا بہاؤ ہیں، وہ عظیم تر تو انائی ہیں، وہ اللہ کی رحمتیں  ہیں۔۔۔ ہر لمحے  میں  عظیم تر تو انائی موجود ہے، اللہ موجود ہے:

ہست مہماں  خانہ ایں  تن ایجاں

ہر صباحے  ضیفِ نو آید دواں

نے  غلط گفتم کہ آید د مبدم

ضیفِ تازہ فکرت شادی و غم

 میزبانِ تازہ رو شواے  خلیل

ہر چہ آید از جہانِ غیب وش

در مبند و منتظر شودر سبیل

در دلت ضیفت اُو را دار خوش

حضرت رابعہ بصریؒ کے  دور میں  ایک بہت بزرگ صوفی تھے  حضرت حسنؒ، وہ ہر نماز کے  بعد بے  اختیار روتے، آنکھیں  بند رہتیں، دونوں  ہاتھ اُوپر اٹھائے  رہتے، روتے  جاتے، چیخ چیخ کر روتے  زور زور سے  اللہ کو پکارتے، کہتے  اے  اللہ دروازہ کھول دے اور مجھے  اندر آنے  دے، ہر نماز کے  بعد وہ ایسا ہی کرتے  ان کی آواز ہر جانب گونجتی ’’اے  اللہ دروازہ کھول دے اور مجھے  اندر آنے  دے۔‘ ‘  حضرت رابعہ بصری ان کے  گھر کے  سامنے  سے  گزرتیں  تو ان کی چیخ  اور  ان کی پکار سنتیں، حضرت حسنؒ کے  گھر کا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اس لیے  گزرتے  ہوئے  کوئی بھی دیکھ سکتا تھا کہ وہ کیا کر رہے  ہیں۔ حضرت رابعہ بھی اُنھیں  اس حال میں  دیکھتیں اور مسکرا کر گزر جاتیں۔

          ایک صبح فجر کی نماز کے  بعد حضرت حسنؒ اسی طرح چیخ چیخ کر رونے  لگے، آنکھیں  بند دونوں  ہاتھ اوپر اُٹھائے  چیخ رہے  تھے، ’’اے  اللہ دروازہ کھول دے، مجھے  اندر آنے  دے۔‘ ‘ 

          حضرت رابعہ برداشت نہ کر سکیں، حضرت حسنؒ کے  دروازے  کے  پاس کھڑی ہو کر بولیں  ’’اے  حسن تم یہ سب کب تک کرتے  رہو گے، جانے  میں  کب سے  دیکھ سن رہی ہوں  تم ایک احمق کی طرح چیختے  رہتے  ہو، ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے، ادھر سے  گزرتے  ہوئے  میں  کتنی بار تمھاری چیخ  اور  تمھاری پکار سن چکی ہوں، اب برداشت نہیں ہوتا، میں  یہ کہنے  کھڑی ہو گئی حسن کہ دروازہ کھلا ہوا ہے  صرف اپنی آنکھیں  کھول دو بس!!‘ ‘ 

صوفیوں  کی محفل (عجمی آرٹ)

          وہ نگہ، جو آنکھ کے  اندر ہوتی ہے  وہی اہم ہے، وہی سچائی دیکھتی  اور  پاتی ہے، صوفیوں  نے  اس نگہ کو بہت اہمیت دی ہے۔ مولانا رومیؒ نے  کہا ہے  اے  اللہ میں  نے  تجھے  کہاں  کہاں  تلاش کیا، مسجد، گرجا گھر، مندر ہر جگہ تیری تلاش کی تو کہیں  نہیں   ملا، ملا تو میرے  دل میں! اللہ کو اپنے  دل میں  پالینے  کے  بعد وقت کا میکانکی تصوّر کوئی اہمیت ہی نہیں  رکھتا۔ الوہی لمحوں اور الوہی وقت کا تحرّک  اور  اس کا حسن و جمال ہی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ مولانا رومی کہنے  لگتے  ہیں :

 دمبدم می بین بقا اندر فنا( لمحہ لمحہ فنا میں  بقا دیکھ!)

          دل ہی مرکزِ نور ہے، اللہ ہی نور ہے، سلسلۂ روز و شب اسی نور کا کرشمہ ہے، عشقِ الٰہی ہی سے  یہ بات سمجھ میں  آتی ہے  کہ اللہ وقت ہے، وقت تخلیقی تو انائی ہے، اس کا سلسلہ تخلیقی تو انائی کے  خوبصورت مظاہر کا سلسلہ ہے۔ انسان کہ جس کے  دل میں  اللہ ہے، وہ وقت کے  ساتھ مل کر تخلیق کے  پورے  عمل میں  صرف حصہ ہی نہیں  لیتا بلکہ موزونیت یا ’ہارمونی‘  (Harmony) پیدا کر نے  کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ ’منطق الطیر‘  میں  حضرت فرید الدین عطارؒ نے  اس کی وضاحت اس طرح کی ہے  کہ دل عشق و  محبت کی خوبصورت وادی ہے  کہ جس میں  اللہ ہے اور انسان ہے، انسان کی پیاس بجھتی ہی نہیں، اسی پیاس سے  اس کی تخلیقی قوّت بیدار ہوتی ہے،  ّ سچائی اس کے  سامنے  چراغ کی مانند روشن ہو جاتی ہے، یہ چراغ ہی اللہ کا باطنی تجربہ ہوتا ہے۔ اللہ پیاس بجھاتا بھی ہے اور پیاس بڑھاتا بھی ہے۔ پیاس کے  بڑھنے  کی وجہ سے  انسان الوہی لمحات  اور  وقت کے  مظاہر سے  آشنا ہوتا رہتا ہے۔ مولانا رومیؒ نے  اس سلسلے  میں  بڑی خوبصورت بات کہی ہے، کہتے  ہیں: ’’تم ان جہتوں  کی دکان بند کرو کہ جن جہتوں  سے  تم آئے  ہو پھر نئی دکان کھولو۔‘ ‘  عشق ہی کی وجہ سے  انسان کی باطنی حس بیدار ہوتی ہے  جوجسمانی حس سے  مختلف ہوتی ہے، جسمانی حس تانبا ہے اور باطنی  حس سونا! باطنی  حس ہی تخلیقی وقت میں  جذب ہو کر اس کے  ساتھ آگے  بڑھتی ہے۔

           ’وقت‘   اور  ’لمحوں ‘  کے  تعلق سے  مولانا رومیؒ دوسرے  کئی صوفیوں  کے  اس تصوّر کو نہیں  مانتے  کہ ماضی سے  ہمارا کوئی لینا دینا نہیں  ہے۔ ماضی گزر چکا ہے  لہٰذا اس سے  ہمارا کوئی واسطہ نہیں  ہے۔ مولانا رومیؒ کا جمالیاتی رومانی ذہن انسان کے  ماضی کو ٹٹولنے  کے  لیے  ماضی کے  اندھیرے  میں  اس طرح اترتا ہے۔

آمدہ اوّل بہ اقلیمِ جماد

وزجمادی در نباتی فتاد

ابتدا میں  انسان جماد تھا جماد سے  نبات بنا۔

سالہا اندر نیاتی عمر کر د

وزنباتی باد ناؤ رد از نبرد

سالہا سال نبات رہا اسے  نباتی زندگی یاد نہیں  ہے۔

وز نباتی چوں  بہ حیوان فتاد

تا دوش حال نباتی بیچ باد

نبات سے  جب حیوان بنا نباتی حال اسے  یاد نہیں  ہے۔

جز ہماں  میلے  کہ دارد سوئے  آں

خاصہ در وقت بہار ضمیراں

ہاں  سوائے  اس رجحان کے  جو نباتات کی جانب ہے  خصوصاً موسم بہار میں  ضمیران کے  کھلنے  کے  وقت۔

ہمچو میلِ کود کاں  بامادراں

 ّسرِ میلِ خود نہ داند در لباں

جس طرح بچوّں  کا ماؤں  کی طرف میلان ہوتا ہے،شیر خوارگی کے  زمانہ میں  اپنے  میلان کا راز نہیں  جانتا۔

بازاز حیواں  سو انسانیش

می کشدآں  خالقے  کہ دانیش

پھر حیوان سے  انسان کی جانب خدا لے  جاتا ہے  کہ جو اُسے  جانتا ہے۔

ہمچنیں  اقلیم تا اقلیم رفت

تاشد اکنوں  عاقل و دانا و زفت

اس طرح وہ ایک عالم سے  دوسرے  عالم کی طرف چلتا رہا یہاں  تک کہ وہ عاقل و دانا بن گیا۔

          ان اشعار کے  ساتھ یہ دو اشعار بھی ذہن میں  رکھئے:

اوّل ہر آدمی خود صورت است

بعد ازاں  جاں  کو جمال سیرت ست

اوّل ہر میوہ جز صورت کے  ست

بعد ازاں  لذّت کہ معنی ولیست

یعنی انسان کی ابتدا خود صورت ہے  اس کے  بعد جان ہے  جو باطن کا جمال ہے۔ ہر میوے  کی ابتدا سوائے  صورت کے  کیا ہے، اس کے  بعد لذّت ہے  جو اس کے  معنی ہیں۔

          ان ہی خیالات کا اظہار دوسرے  انداز سے  اس طرح کیا ہے، یہاں  انسان کے  تعلق سے  ماضی کا شعور وہی ہے  لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے  کہ صدیوں  صدیوں  سے  سفر کرتا ہوا انسان وقت کی رفتار کے  ساتھ آگے  بڑھتا ہے اور پھر تمام اشیا و عناصر کی طرح فنا ہو جاتا ہے۔

از جمادی مردم و نامی شدم

وزنما مردم بحیواں  سر زدم

مردُم از حیوانی و آدم شدم

پس چہ ترسم کے  زمردن کم شدم

حملۂ دیگر بمیرم از بشر

تا بر آرم از ملائک بال و پر

و ز ملک ہم بایدم جستن زجو

کُلِّ شَیئٍ ہَالِک اِلاّ وَجہہ‘

بارِ دیگر از ملک قرباں  شوم

آنچہ اندر وہم ناید آں  شوم

پس عدم گردم چوں  ارغنون

گویدم کہ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

مرگ داں  آں  کاتفاق امت ست

کاب حیوانی نہاں  در ظلمت ست

آبِ کوزہ چوں  در آب جو شود

محو گرد د دروے  و چوں  اُوشود

وصف رُو فانی شود ذاتش بقا

زیں  سپس نے  کم شود نے  بدلقا

(مثنوی مولانا روم، دفتر سوم)

میں  ’جمادیت‘  سے  مرا  اور  ’نباتی‘  بن گیا۔ ’نباتیت‘  سے  مرا تو ’حیوان‘  بن گیا، ’حیوانیت‘  سے  مرا تو ’آدمی‘  بن گیا۔ تو میں  کیا ڈروں  میں  مر نے  سے  کب گھٹا، دوسری مرتبہ میں  بشریت سے  فنا ہو جاؤں  گا تاکہ فرشتوں  میں  ہو کر بال و پر نکالوں، فرشتے  سے  بھی مجھے  نہر کو کودنا چاہیے  کیونکہ بجز اس کی ذات کے  ہر چیز فنا ہونے  والی ہے، دوسری مرتبہ ملکیت سے  میں  قربان ہو جاؤں  گا، وہ جو عقل میں  نہیں  آ سکتا وہ ہو جاؤں  گا، پھر عدم بن جاؤں  گا، عدم ارغنون کی طرح مجھ سے  کہتا ہے  کہ ہم سب اس کی طرف لوٹنے  والے  ہیں، موت کو سمجھ لے  کیونکہ تمام لوگوں  کا اتفاق ہے  کہ آبِ حیات تاریکی میں  پوشیدہ ہے۔

          پیالے  کا پانی جب نہر کے  پانی میں  مل جاتا ہے، اُس میں  فنا ہو جاتا ہے اور اُس جیسا ہو جاتا ہے، اس کا وصف فانی  اور  اس کی ذات باقی بن جاتی ہے، اس کے  بعد وہ نہ گھٹتا ہے  نہ بدصورت بنتا ہے۔

          ’وقت‘  کے  تعلق سے  یہاں  تین باتیں  اہم ہیں:

۱۔       ارتقا کی بنیاد مادّیت ہے۔ پہلے  آگ، پانی  اور  ہوا بادل پھر نئے  وجود کا ظہور، پودوں  کی زندگی، پھر وقت کے  لمبے  سفر کے  بعد جانوروں  کی زندگی۔۔۔  اور  پھر وقت کے  ایک طویل سفر کے  بعد انسان کا ظہور۔

۲۔       ماضی سے  حال تک آئے  ہیں  پھر مستقبل میں  فنا ہو جائیں  گے۔

۳۔       مولانا رومی کے  وقت کا جمالیاتی رُومانی تصوّر یہ ہے  کہ تخلیقی ارتقا رُکے  گا نہیں، انسان کے  وجود کے  بعد بھی منزلیں  آئیں  گی، انسان کے  ارتقا کے اور انگنت امکانات پر یہ جمالیاتی رومانی ذہن یقین رکھتا ہے۔

          مولانا کا رُومانی ذہن ماضی کے  حسن کو بھی دیکھتا ہے  ’حال‘  کے  جمال پر بھی نظر رکھتا ہے اور مستقبل کے  ایک نہیں  اَنگنت امکانات کو محسوس کرتا ہے، مستقبل میں  تحیرات کی جانے  کتنی زندگیاں  ہوں  گی۔

          مولانا رومیؒ کا تخلیقی ذہن خوبصورت تخلیقی زندگی کے  ایک ایسے  طویل سلسلے  کی جانب اشارہ کرتا ہے  جو تحیرات کے  دھُندلکوں  کے  اندر تک چلا گیا ہے، جانے  کہاں۔۔۔۔ اس طویل سلسلے  کو مستقبل میں  صرف ایک بیدار رومانی ذہن ہی محسوس کر سکتا ہے۔ مولانا کے  جمالیاتی رُومانی مزاج کی پہچان وہاں  بھی ہوتی ہے  جہاں  وہ یہ کہتے  ہیں  کہ انسان موسم بہار کی جانب اس لیے  بھی لپکتا ہے  کہ وہ ’آدمی‘  ہونے  سے  پہلے  نباتاتی منزل سے  گزر چکا ہے، اس کے  اجتماعی لاشعور میں  یہ بات کہیں  نہ کہیں  موجود ہے، اُنھوں  نے  کہا ہے  کہ جس طرح بچوں  کا ماؤں  کی جانب میلان ہوتا ہے  اسی طرح انسان کا نباتات کی جانب رُجحان ہے، اپنے  میلان کا یہ راز وہ نہیں  جانتا!

          مولانا رُومی کے  جمالیاتی رُومانی تصوّر کے  پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے  کہ جس طرح وہ زندگی کے  سلسلے  کو اپنی جمالیاتی رومانی فکر و نظر سے  پرکشش  اور  دلفریب بنا دیتے  ہیں  اسی طرح موت کے  سلسلے  کو بھی اپنی رومانیت سے  دلکشی عطا کر دیتے  ہیں۔ موت کا بھی اسی طرح ایک طویل سلسلہ ہے  کہ جس طرح زندگی کا سلسلہ ہے:

شاہِ جاں  مرجسم را ویراں  کند

بعد ویرانیش آباد آں  کند

رُوح کا بادشاہ جسم کو ویران کرتا ہے اور اس کی ویرانی کے  بعد اس کو آباد کرتا ہے۔ یہ تصوّر زبردست جمالیاتی رومانی ذہن کی دین ہے۔

          مولانا کہتے  ہیں  کہ زندگی  اور  موت کا یہ ڈراما جو ’وقت‘  کے  اسٹیج پر ہوتا ہے  وہ صرف پیغمبروں اور بڑے  صوفیوں، سنت سادھوؤں  کے  لیے  نہیں  بلکہ ہر شخص کے  لیے  ہے۔ مولانا رُومی ڈاروِن کی طرح ارتقا کو ’میکانکی‘  تصور نہیں  کرتے  بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے  ہیں  کہ ارتقا کا انحصار انسان کی خواہش  اور  تمنّا پر ہے، انسان یہ چاہے  کہ وہ زندگی کی بلند سطح پر پہنچ جائے  تو اسے  یقیناً کامیابی ہو گی، ظاہر ہے  ’ڈاروِن ازم‘  یا سائنسی فکر و نظر میں  خواہش  اور  تمنّا کی کوئی گنجائش نہیں  ہے۔ ہاں  یہ ضرور ہے  کہ ایسی خواہش یا ایسی تمنّا کے  لیے  انسان خود میں  صلاحیت بھی پیدا کرے، اس میں  اعلیٰ صفات بھی ہوں، یہ  ّ سچائی واضح ہو جاتی ہے  کہ سائنس یا ڈارون ازم کے  مطالعے  کا دائرہ صرف ’ظاہری‘  صورت کے  اندر ہے، یہاں  باطنی  اور  رُوحانی دائرہ ہے  جو لامحدود ہے۔ ڈاروِن ’انسان‘  تک رُک جاتا ہے۔ مولانا رومی کا جمالیاتی رُومانی تصوّر ہمیں اور بھی آگے  لے  جاتا ہے، اس ’وقت‘  یا ’ٹائم‘  سے اور آگے  بہت آگے  زندگی کے  اَنگنت امکانات کی طرف،تحیرات کے  گہرے   دھُندلکوں  کے  اندر۔ مولانا رومی کے  نزدیک تخلیق کا جو سلسلہ جاری ہے  اس سے  پھیلاؤ پیدا ہوتا رہے  گا، وسعت پیدا ہوتی رہے  گی  اور  وجود میں  تنظیم پیدا ہوتی رہے  گی، ’وجود‘  کے  منظم ہونے  کا ایک سلسلہ قائم رہے  گا۔ ماضی سے  حال  اور  حال سے  مستقبل  اور  اس کے  اَنگنت امکانات پر اظہارِ خیال کرتے  ہوئے  مولانا رومی کا جمالیاتی رومانی ذہن بڑی شدّت سے  متا  ّثر کرتا ہے۔ اُنھوں  نے  عشق کو اہمیت دی ہے اور یہ کہا ہے  کہ وقت کا یہ خوبصورت سفر عشق ہی سے  طے  ہو گا۔ عشق جتنا گہرا ہو گا اتنا ہی وقت پر اثر انداز ہو گا۔ یہ کہتے  ہوئے  کہ موت انسان کو آبِ حیات تک لے  جاتی ہے، جو تاریکی میں  پوشیدہ ہے۔

مرگ واں  آں  کاتفاقِ اُمّت ست

کاب حیوانی نہاں  در ظلمت ست

 اور  پیالے  کا پانی جب نہر کے  پانی میں  مل جاتا ہے  تو فنا ہو جاتا ہے، اُس جیسا ہو جاتا ہے۔

آبِ کوزہ چوں  در آب جو شود

محو گردد دُردے  و چوں  اُو شود

وہ یہ کہتے  ہیں  کہ وقت عشق کی گرفت میں  ہے، عشق کا سفر جاری رہتا ہے، تو وقت کا سفر بھی جاری رہتا ہے، عشق ہی وقت کو مستقبل کے  اَنگنت امکانات سے  قریب تر کرتا رہتا ہے۔ پستی سے  بلندی پر جانے  کا سلسلہ قائم رہتا ہے:

بر فرازِ عرش بر آں  گشت شاد

خوش ہو کر آسمان کی بلندی پر اُڑگیا!

کز جہانِ زندہ اوّل آمدیم

باز از پستی سوئے  بالا شدیم

ہم پہلے  زندہ جہاں  سے  آئے  پھر پستی سے  بلندی کی جانب گئے۔

          مولانا رومی نے  قرآن پاک کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ’مثنوی مولانا رُوم‘  میں  قرآن پاک کی کئی آیتوں  کی تشریحیں  ملتی ہیں  نیز قرآن کے  حوالے  سے  باتیں  ملتی ہیں۔ ’وقت‘  کے  پیشِ نظر قرآنِ پاک کے  اس ارشاد پر مولانا کی نظر گہری ہے:

 ’’اُس نے  آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے  ساتھ پیدا کیا ہے، اُس نے  رات  اور  دن کے  اختلاف  اور  ظہور کا ایسا انتظام کر دیا کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا آتا ہے اور سورج  اور  چاند دونوں  کو اس کی قدرت نے  مسخر کر رکھا ہے۔ سب (اپنی اپنی جگہ) اپنے  مقرّرہ وقت تک کے  لیے  گردش کر رہے  ہیں۔‘ ‘  (۳۹:۵)

’وقت‘  کے  تعلق سے  قرآنِ حکیم میں  یہ ارشاد بھی انتہائی اہم ہے:

 ’’وہ (کارفرمائے  قدرت) جس نے  سورج کو درخشندہ  اور  چاند کو روشن بنایا  اور  پھر چاند کی گردش کے  لیے  منزلیں  ٹھہرا دیں  تاکہ تم برسوں  کی گنتی  اور  اوقات کا حساب معلوم کر لو، بلاشبہ اللہ نے  یہ سب کچھ پیدا نہیں  کیا ہے، مگر حکمت و مصلحت کے  ساتھ۔ وہ ان لوگوں  کے  لیے  جو جاننے  والے  ہیں  (علم و معرفت کی) نشانیاں  الگ الگ کر کے  واضح کر دیتا ہے۔‘ ‘  (۱۰:۵)

’وقت‘  کے  پیشِ نظر فارسی شاعری میں اور خصوصاً مولانا رُومی کے  کلام میں  ’رات‘   اور  ’دن‘  کی بڑی اہمیت ہے۔ ’رات ‘   اور  ’دن‘  (رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا چلا آتا ہے ) نے  ماضی  اور  حال دونوں  کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔ ’فنا‘   اور  موت کے  تصوّرات نے  مستقبل میں  وقت کے  سفر کا بہت خوبصورت رومانی جمالیاتی احساس بخشا ہے۔ ظاہر ہے  کوئی ماضی کو تبدیل نہیں  کر سکتا لیکن مولانا رومی کے  مطابق وقت کے  سفر میں  ماضی علیحدہ نہیں  ہو سکتا۔ ماضی وقت کے  ساتھ چلتا رہتا ہے اور حال میں  عمل بھی کرتا رہتا ہے۔

          علم کی تلاش بنیادی طور پر عبادت کی ایک صورت ہے، مولانا رومی نے  علم کی تلاش کے  لیے  ماضی کا جو سفر کیا ہے  اس کی مثال  اور  کہیں  نہیں  ملتی۔ اللہ، فرد، کائنات، زندگی، موت، اس سے  آگے  کی زندگی، اقدارِ حیات، نفسیاتِ انسانی، جسم  اور  رُوح، وقت زمانہ وغیرہ کو سمجھانے  کے  لیے  اُنھوں  نے  ماضی کے  واقعات  اور  ماضی کے قصوں  کہانیوں  کا سہارا لیا ہے۔ قرآنِ حکیم  اور  احادیث کے  علاوہ پیغمبروں  کے قصوں، بزرگوں  کی زندگی کے  واقعات  اور  جانے  کتنی تمثیلوں  کی مدد لی ہے۔ ماضی کے  واقعات  اور  اسطور و قصص کی سچائیوں  کو سمجھانے  کا ذریعہ بنایا ہے۔ تاریخ  اور  ’فنتاسی‘  دونوں  میں  تاریکی  اور  روشنی کی علامتوں  کو اہم تصور کیا ہے۔ ماضی کے  قدیم حسی پیکر کلامِ رومی میں  بڑے  متحرّک  اور  روشن ’آرچ ٹائیپس‘  (Archetypes)بن گئے۔ ’وقت‘  کے  موجود لمحوں  میں  ماضی جذب ہو گیا ہے۔ انھوں  نے  بہت سے  ملکوں اور علاقوں  کی کہانیوں اور حکایتوں اور لوک قصوں  کی مدد لی ہے۔ انھیں  اپنی تخلیقی فکر و نظر سے  ایک بار پھر بامعنی بنا دیا ہے۔ بنیادی مقصد علم کی تلاش ہے  تاکہ وہ علم دوسروں  کو دے  سکیں۔ وہ ’مولوی‘  ہیں  یعنی معلّم ہیں۔ معلّم کے  لیے  علم کی ہر تلاش ایک عبادت ہوتی ہے۔ ’حکایتِ بقائی و طوطی‘ ٰ ’داستانِ آں  بادشاہِ جمہور‘ ، ’سوال کر دنِ خلیفہ بغداد از لیلیٰ‘ ، ’حکایت بادشاہِ جمہور دیگر‘ ، ’ قصہ مکر خرگوش باشیر‘ ،’  قصہ ہدہد سلیمانؑ‘ ، ’  قصہ آدم علیہ السلام‘ ، ’تفسیرِ قول شیخ فرید الدینؒ، ’تعظیم ساحراں  مر موسیٰؑ را‘ ، ’شنیدنِ آں  طوطی حرکاتِ طوطیاں ‘ ، ’حکایت ماجرائے  نجوی، تمہید کر دن نوحؑ‘ ، ’آمدن آشنائے  از سفر بدیدن حضرت یوسف علیہ السلام‘ ، ’افتادن رکابدار دریائے  امیر المومنین‘ ، ’ قصہ اہل سبا‘ ، ’دعویٰ کر دنِ فرعون الوہیت را‘ ، ’قصہ ہلال‘ ، ’معجزہ ہود پیغمبر‘ ، ’قصہ ابراہیم ادؒہم‘ ، ’دعوتِ سلیمانؑ‘ ، ’بلقیس را‘   اور  جانے  ایسے  کتنے  موضوعات ہیں  جو ماضی سے  آئے  ہیں۔ ’حال‘  کے  ساتھ جذب ہوئے  ہیں  ان کی معنی خیزی سے  ’حال‘  بھی روشن ہوا ہے۔ یہ معنی کا سمندر ہے  کہ جس کا احساس خود مولانا رومی کو ہے:

گر شدی عطشان بحر معنوی

فرجہ کن در جزیرہ مثنوی

اگر تو معنوی سمندر کا پیاسا ہے  تو مثنوی کے  جزیرے  کی سیر کر!

       کلامِ رومی میں  ’دل‘ ، ’اللہ‘ ، ’عشق‘   اور  ’وقت‘  کی جمالیاتی وحدت (Aesthetic Unity) غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ ’وقت‘  کا سفر اُس عشق کا سفر ہے  جو فرد  اور  اللہ کے  درمیان ہے۔ وقت تحیرات کی پراسراریت کا احساس ہر دَم دلاتا رہتا ہے۔ اس عشق کی اہمیت کا احساس اس طرح بھی دلاتے  ہیں:

عشقِ زندہ در روان و در بصر

ہر دمے  باشد ز غنچہ تازہ تر

عشقِ آں  زندہ گزیں  کو باقی ست

و ز شراب جانفزایت ساقی ست

اللہ کا عشق رُوح  اور  آنکھ میں  ہر لمحہ غنچے  سے  بھی زیادہ تر و تازہ رہتا ہے۔ ظاہر و باطن دونوں  میں  اس کی خوشبو پھیلی ہوتی ہے۔ اُس کا عشق اختیار کرنا چاہیے  جو ہمیشہ رہنے  والا ہے اور جانفزا شراب سے  ہمیں  تمھیں  سیراب کر نے  والا ہے۔ اللہ نے  جو گوہر دریاؤں اور آسمانوں  کو نہ دیا وہ قطرۂ دل کو عطا کر دیا:

قطرۂ دل را یکے  گوہر فتاد

کاں  بدریاہا و گردوں  ہا نداد

آسمانوں  کو ظاہری بلندی حاصل ہے، عشق کی وجہ سے  انسان کو معنوی بلندی حاصل ہو جاتی ہے:

صورتِ رفت بود افلاک را

معنیِ رفت روانِ پاک را

جسم کی بلندی ظاہری ہے، معنی کے  سامنے  جسم محض ایک نام ہے۔

صورتِ رفعت برائے  جسمہاست

جسمہا در پیش معنی اسمہا ست

عشقِ الٰہی میں  انسان زندگی  اور  موت سے  کہیں  آگے  چلا جاتا ہے، اُسے  نغمہ سنائی دیتا ہے۔ یہ اللہ کا نغمہ نہیں  یہ نغمہ ہی خود اللہ ہے، نغمہ سنتے  سنتے  انسان خود نغمہ بن جاتا ہے۔ اللہ نغمہ ہے  انسان نغمہ ہے، دونوں  مل کر ایک نغمہ بن جاتے  ہیں  اس نغمے  کی دھُن پر کوئی بھی گانے  والا نہیں  ہوتا، اس نغمے  کو سننے  والا بھی کوئی نہیں  ہوتا!

٭٭٭

مولانا رُومی کا داستانی مزاج

لوک کہانیاں، اسطوری قصے، حکایتیں، داستانیں، قصے،فسانے، تمثیلیں، فینتاسی، ڈرامے

دُنیا کی تخلیق کے  ساتھ ہی کہانیاں  شروع ہو گئی تھیں۔ آدم  اور  حوّا کا فسانہ تو بہت پہلے  ہی شروع ہو چکا تھا لیکن اِس مٹّی پر قدم رکھتے  ہی ایک خوبصورت داستان شروع ہو گئی، فطرت کے  جلال و جمال  اور  ماحول کی رس بھری کیفیتوں  نے  داستان آگے  بڑھا دی، پھر کہانیاں  ہی کہانیاں  تھیں  ہر طرف، زندگی کی داستان جانے  کتنے  نشیب و فراز سے  گزرتی ہوئی، جانے  کتنی جہتوں  کو خلق کرتی ہوئی، جانے  کتنے  کرداروں  کو تراشتی  اور  انھیں  عجیب و غریب کشمکش سے  دو چار کرتی ہوئی تیزی سے  آگے  بڑھتی گئی۔ بہت پیاری پیاری کہانیاں  وجود میں  آئیں، لوک قصوں  نے  جنم لیا، اسطوری کرداروں  فسانوں  نے  رُومانیت کو گہرا کیا، مذاہب نے  تحیرات میں  زبردست اضافہ کیا  اور  مذہبی  قصوں  نے  جادو کا اثر کیا۔ مذہبی واقعات  اور   قصے  انسان کے  دل و دماغ میں  جذب ہو گئے۔

          رومانی کہانیاں  خلق ہوئیں، بے  حد رومانی کہانیاں  خلق ہوئیں، حقیقی کرداروں  کے  لطیف  اور  پرکشش افسانے  سامنے  آئے، یہ افسانے  وقت کے  ساتھ چلتے  چلتے  کئی صورتیں  اختیار کر گئے۔  محبت کے  فسانے  آئے  نفرت  اور  حسد کے  فسانے  آئے، انسانی جذبات کے  رنگوں  کو لیے اور حسی کیفیتوں  سے  پُر فسانے  آئے، ہم مسکرائے، ہم روئے، ہم نے  قہقہے  لگائے اور پھر اچانک چپ ہو گئے، بعض فسانوں  کو حیرت سے  ٹکر ٹکر دیکھنے  لگے۔

          حقیقت فسانہ بنی  اور  فسانہ حقیقت، یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا، فکشن کی ایک عجیب و غریب دنیا سامنے  آ گئی۔

          یہ واقعہ ہے  یا فسانہ؟

          سمجھ میں  نہیں  آیا، جب لوگوں  نے  سقراط کے  ہاتھ میں  زہر کا پیالہ دیا، تماشائی بن کر تکتے  رہے، جب سقراط نے  زہر پی لیا  اور  پھر اس دنیا سے  گزر گیا تو اُن ہی لوگوں  نے  اُسے  دنیا کا ایک بڑا معلّم  اور  دانشور کہنا شروع کیا، اس کی باتوں  سے  جو پھول جھڑے  تھے  انھیں  وہ اپنے  ہاتھوں  اُٹھانے  لگے، انھیں  آنکھوں  سے  لگایا، اُن پھولوں  کو ایسی جگہ سجایا کہ انھیں  ساری دُنیا دیکھے، کتنی صدیاں  بیت گئیں  اُن پھولوں  کی خوشبو آج تک مل رہی ہے۔

          یہ واقعہ ہے  یا فسانہ؟

          حضرتِ عیسیٰؑ کو صلیب پر چڑھا دیا، جانے  کتنے  تماشائی کھڑے  تھے، اُن میں  وہ بھی تھے  کہ جو اُن کے  ساتھ شب میں  کھانا کھا رہے  تھے، وہ شخص بھی تھا جو خود کو بڑا دانشور سمجھتا تھا، جس کا اپنا فلسفہ تھا، جس نے  حضرتِ عیسیٰؑ کو فریب دیا۔۔۔ جو یہ بات سمجھ نہ سکا کہ حضرتِ عیسیٰؑ جو باتیں  کر رہے  تھے  وہ عام ذہن سے  اُوپر کی باتیں  تھیں، اس کی دانشوری کم از کم اسے  اتنا تو سمجھاتی کہ جب عام ذہن سے  اُوپر کوئی ’واقعہ‘  رونما ہو رہا ہے  تو خاموش رہنا چاہیے!

          وہ سب تماشائی ہی بنے  رہے  جو حضرتِ موسیٰؑ سے  اپنی  محبت کا دعویٰ کر رہے  تھے۔ کسی میں  اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ آگے  بڑھ کر کہے  یہ غلط ہو رہا ہے، عیسیٰؑ سچے ّ ہیں، تماشائی تماشائی ہی ہوتے  ہیں، ایسی بھیڑ میں  سمجھ بوجھ رکھنے  والا حوصلہ مند بھی محض تماشائی ہی بن جاتا ہے۔

           اور  حضرتِ  عیسیٰؑ کے  گزرتے  ہی اُن ہی لوگوں  نے  اُن کی عبادت شروع کر دی، آج بھی عبادت کر رہے  ہیں، انھیں  سولی پر چڑھانے  والے  بھی وہی تھے، تماشائی بھی وہی تھے، عابد بھی وہی ہیں!

          یہ واقعہ ہے  یا فسانہ؟

          حضرتِ منصورؒ دار پر چڑھا دیے  گئے، اُنھوں  نے  کہا تھا ’’انا الحق‘ ‘  (میں  تخلیقی سچائی ہوں؟) جن لوگوں  نے  اُنھیں  موت کی سزا دی، جو قاتل تھے  وہی لوگ اُنھیں  بہت بڑا صوفی کہنے  لگے۔ جب وہ اس دنیا سے  گزر گئے  تب وہ ایک ممتاز صوفی بن گئے۔

          منصورؒ کے  دار پر نظارہ دیکھنے  والوں  کی بڑی بھیڑ تھی، اُن میں  کون نہ تھا۔ صوفی بھی موجود تھے، کسی نے  نہیں  کہا، فتویٰ غلط ہے، جو کیا جا رہا ہے، غلط ہے، کسی میں  جرأت نہ تھی، موجود صوفیوں  میں  بھی کسی نے  نہیں  ٹوکا، کیا کسی بھی صوفی کا کلیجہ بڑا نہ تھا؟ آخر وہ کیسے  صوفی تھے۔

          حضرت منصورؒ آج ایک بہت بڑے اور انتہائی ممتاز صوفی ہیں!

          ایسی  اور  ایسی جانے  کتنی دل  اور  دماغ کو جھنجھوڑنے  والی  اور  کلیجے  میں  چبھ جانے  والی کہانیاں  آئی ہیں، حقیقتوں  کی کہانیاں، خالص حقیقتیں  کہانیاں  بن کر!

          دُنیا کے  اسٹیج پر ایسے  جانے  کتنے  ڈرامے  اسٹیج ہوئے  ہیں۔ یہ دُنیا ہی کہانیوں اور فسانوں  کی دُنیا ہے، اس دُنیا سے  کہانیاں  چھن جائیں  تو اس کا سارا حسن پھیکا پڑ جائے۔

          دنیا کے  تمام ممالک داستانوں اور حکایتوں اور قصوں  سے  بھرے  پڑے  ہیں۔ مولانا رومی ایک ٹھوس، تہہ دار معنی خیز  اور  حیرت انگیز داستانی ذہن کے  مالک ہیں۔ دنیا کے  ادبیات میں  خلاّق داستانی ذہن کے  پیش نظر بھی وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ لوک کہانیاں، علاقائی  اور  اسطوری قصوں، تمثیلوں، داستانوں اور فینتاسی وغیرہ سے  ان کی گہری دلچسپی کا اندازہ مثنوی کے  مطالعے  سے  ہو جاتا ہے۔ مطالعہ بہت وسیع ہے، جانے  کہاں  کہاں  کی کہانیاں  پڑھی ہیں اور اُن میں  اپنی فکر و نظر  اور  اپنے  ’وِژن‘  سے  نئی معنویت پیدا کی ہے۔ اس طرح پرانی حکایتوں، کہانیوں اور داستانی واقعات و مناظر میں  نئی معنویت پیدا ہو گئی، واقعات  اور  قصے  قرآن کے  بھی ہیں اور احادیث کے  بھی۔ افغانستان کے  بھی ہیں اور ہندوستان کے  بھی، وسط ایشیا کے  مختلف علاقوں  کے  بھی ہیں اور لوک کہانیوں اور صوفیوں  کے  بھی، واقعات، قصص، حکایات  اور  داستانی مناظر وغیرہ سے  ’مثنوی مولانا روم‘  کی حیثیت منفرد ہو گئی ہے۔ مولانا رومیؒ نے  روحانی تجربوں  کے  رنگوں  سے  انھیں اور بھی پرکشش بنا دیا ہے۔ شاعر کے  تخیل کی پرواز  اور  باطن میں  اُتر نے  کی کیفیت دونوں  متا  ّثر کرتی ہیں، ایک بڑا زرخیز رومانی ذہن ہے  جس کا تحرک غیر معمولی ہے، بات کرتے  کرتے  یہ رومانی ذہن اچانک گریز کرتا ہے اور کچھ دیر بعد پھر اسی موضوع کی جانب آ کر دلچسپی لینے  لگتا ہے۔ حکایتوں،قصوں، کہانیوں اور داستانوں  کے  واقعات سناتے  ہوئے،  اور  ان میں  نئی معنویت پیدا کرتے  ہوئے  ایک بڑے  فنکار کی طرح مولانا رومی کی فکر ’تصویری‘  ہو جاتی ہے۔ Visual Thinkingکی ایسی مثال فارسی مثنویوں  میں  شاید ہی کہیں  ملے۔ ’تصویری فکر‘  فنکار کے  تخئیل کی روشنی لیے  ہوئے  ہے۔ یہ فکر کبھی کسی کہانی کو فینتاسی بنا دیتی ہے اور کبھی تمثیل،  اور  کبھی تمثیل  اور  فینتاسی دونوں۔ کسی تجربے  کو پیش کر نے  یا کسی سچائی سے  پردہ اُٹھانے  کے  لیے قصوں  کہانیوں  کی مدد لی جاتی ہے اور جیسے  ہی  قصہ ختم ہوتا ہے  انسانی تجربے  کی ایک واضح، دل میں  اُتر جانے  والی تشریح سامنے  آ جاتی ہے، کہانی کی ’تھیم‘  بہت اہم ہوتی ہے  اس لیے  کہ آگے  کہی جانے  والی بات کا انحصار اسی ’تھیم‘  پر ہوتا ہے، اسی تھیم (Theme) کی وجہ سے  فنکار کے  تجربے  کی سچائی منکشف ہوتی ہے۔ مولانا رومی کا تخیل بڑا زرخیز ہے  اسی کی وجہ سے  بعض کہانیوں  کی ایک سے  زیادہ جہتیں  پیدا ہو جاتی ہیں۔

          مولانا رومی کے  داستانی ذہن نے  جن موضوعات کو منتخب کیا ہے  وہ تاریخی، مذہبی، نیم تاریخی  اور  نیم مذہبی بھی ہیں اور حکایتوں  کی روایات  اور  داستانیت سے  بھی گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ بعض موضوعات  اور  واقعات تہہ دار  اور  معنی خیز ہیں اور ان کی ایک سے  زیادہ جہتیں  ہیں۔

          ’مثنوی مولانائے  روم‘  میں  فنکار کے  داستانی مزاج نے  مندرجۂ ذیل کرداروں اور موضوعات کو زیادہ اہمیت دی ہے:

          حضرتِ موسیٰؑ  اور  کوہِ طور

          حضرتِ موسیٰؑ  اور  فرعون  اور  ساحر

          حضرتِ یوسف ؑ، حضرت یعقوبؑ۔ حضرتِ یوسف ؑ کے  بھائی

          حضرتِ یوسف ؑ  اور  زلیخا

          حضرتِ آدمؑ

          حضرتِ خضر  اور  آبِ حیات

          حضرتِ سلیمانؓ  اور  بلقیس  اور   ہد  ہد

          ابلیس

          حضرتِ عیسیٰؑ

          حضرتِ مریمؑ

          حضرتِ امیر المومنین معاویہؓ

          کرامات حضرت ابراہیم ادہیمؒ بر لبِ دریا

          حضرتِ عثمانؓ

          کرامات حضرت شیخ عبداللہؒ

          جبریلؑ

          حضرتِ نوحؑ۔۔۔  اور  سیلاب

          حضرتِ لوطؑ  اور  قومِ لوط

          ہاروت و ماروت

          حضرتِ داؤدؑ

          حضرتِ عمرؓ

          اصحابِ فیل

          ابو ہریرہؓ۔۔۔۔ وغیرہ

          حکایتوں، لوک کہانیوں اور عوامی قصوں  کہانیوں  کے  ذریعے  جو کردار آئے  ہیں  اُن میں  ’درویش‘ ، ’قاضی‘ ، ’صوفی‘ ، ’بادشاہ‘ ، ’وزیر‘ ، ’منافق‘ ، ’سوداگر‘ ، ’عطار‘ ، ’عارف‘ ، ’آقا‘ ، ’غلام‘ ، ’بقاّل‘ ، ’خلیفہ‘ ، ’تاجر‘ ،’زن و شوہر‘   اور  ’صیّاد’ وغیرہ اہم ہیں۔

          حکایتوں، لوک کہانیوں اور عوامی قصوں  کہانیوں  سے  جانوروں اور پرندوں  کے  جو کردار ملتے  ہیں  اُن میں  ’شیر‘ ، ’سگ‘ ، ’گدھا‘ ، ’ہاتھی‘ ، ’خرگوش‘ ، ’طوطی‘ ، ’بلبل‘ ، ’ہدہد‘  وغیرہ اہم ہیں۔

          ’مثنوی مولانائے  روم‘  کے  قصوں، حکایتوں اور کہانیوں  کو پڑھتے  ہوئے  یہ بات بڑی شدّت سے  محسوس ہوتی ہے  کہ مولانا رومی ایک مسعود شعور یا Blissful Consciousness رکھتے  ہیں  اور  اس کی بنیاد اُس  محبت پر ہے  جو انسان کے  لیے  دل کی گہرائیوں  میں  پوشیدہ ہے۔ قصوں  میں  تلخی  اور  مٹھاس کی آمیزش ایسی ہے  کہ قاری جمالیاتی انبساط حاصل کر نے  لگتا ہے۔ مولانا رومی اپنی شاعری کی عظمت  اور  اشعار کی زرخیزی کی وجہ سے  دنیا کے  ایک بڑے  شاعر ہیں، حکایتوں،قصوں  کہانیوں  میں  جو حالات پیدا ہوتے  ہیں  اُن سے  قاری کی تخلیقی وابستگی فوراً ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک سبب اظہار کی بے  ساختگی یا بے  ساختہ اظہار ہے۔ اسلوب کی سادگی، فطری امیجری  اور  پیشکش کے  انداز میں  ستھرائی صفائی سے  اشعار پرکشش بن گئے  ہیں۔ تجربے  کی پیشکش میں  زبردست بہاؤ ہے، اشعار تجربوں  کے  آہنگ کی وجہ سے  پر آہنگ اظہار کی عمدہ مثال بن گئے  ہیں، مولانا کے  قصوں  کہانیوں  میں  ڈرامائی کیفیتوں  نے  بڑی جان پرور کیفیت پیدا کر دی ہے۔ یہ ڈرامائی کیفیتیں  ایسی ہیں  کہ قاری واقعات و کردار کو دیکھتے  ہوئے، کرداروں  کی گفتگو سنتے  ہوئے، وقت  اور  مقام کو بھول جاتا ہے، ڈرامائی تکنیک کا کرشمہ ہے  کہ احساس میں  بڑی شدّت پیدا ہو جاتی ہے۔ مولانا کی عمدہ ترین کہانیاں اور تمثیلیں  وہ ہیں  کہ جن میں  اُس عظیم تر سچائی (Higher Truth)کی پہچان ہوتی ہے  کہ جسے  فنکار نے  اپنے  روشن وجدان پر محسوس کیا ہے۔ پچھلے  صفحات میں  کہیں  زلیخا کے  تعلق سے  بات کر چکا ہوں، دیکھئے  شاعر نے  اپنے  وجدان پر عظیم تر سچائی کو کس طرح محسوس کیا ہے اور اپنا یہ خوبصورت تجربہ ہمیں  کس طرح مطالعہ کیا ہے۔ زلیخا نے  کانے  دانے  سے  عود تک ہر چیز کا نام یوسفؑ رکھ دیا تھا، ہر نام میں  یوسف کا نام پوشیدہ تھا، جب وہ کہتی موم آگ سے  نرم ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ یوسف اس پر مہربان ہو گئے  ہیں،  اگر  کہتی چاند نکل آیا ہے  یا بید کی شاخ سبز ہو گئی ہے  پانی میں  اچھی لہریں  اُٹھ رہی ہیں  یا کالا دانا خوب جل رہا ہے، پتے ّ لہلہا رہے  ہیں، تالیاں  بجا رہے  ہیں، رقص کر رہے  ہیں، پھول نے  بلبل کو راز بتا دیا ہے،  اگر  وہ کہتی سورج نکل آیا ہے،  اگر  وہ کہتی آسمان اُلٹا گھوم رہا ہے،  اگر  وہ ہزاروں  نام ملا دیتی تو مقصد صرف یوسف ہوتے!

          جو محبوب کے  عشق میں  اس طرح گم ہو جاتا ہے، اس کے  متعلق یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رُوح اللہ میں  جذب ہو گئی ہے، اللہ کے  بارے  میں  کچھ کہنا رُوح کے  بارے  میں  کہنا ہے اور رُوح کے  متعلق کچھ کہنا اللہ کے  متعلق کہنا ہے، عاشق زلیخا ہے  جو اللہ کی  محبت میں  گم ہے۔ زلیخا کے  اس عمل میں  شاعر نے  اپنے  روشن وجدان پر عظیم تر سچائی (Higher Truth)کو بڑی شدّت سے  محسوس کیا ہے۔

          حضرتِ عیسیٰؑ  اور  حضرتِ یوسفؑ مولانا رومی کے  محبوب حسی پیکر ہیں، مسعود شعور یا Blissful Consciousness نے  ان کے  کرداروں اور ان کے  قصوں  سے  بہت سی سچائیوں  کو فکری  اور  جمالیاتی سطحوں  پر واضح کیا ہے۔ یہ دونوں  ’آرچ ٹائپ‘  (Archetypes) ہیں اور ان کا دباؤ تخلیقی فنکار کے  ذہن میں  بار بار محسوس ہوتا ہے۔ ان کے  تعلق سے  مولانا رومی نے  بہت سے  واقعات کو ڈراما بنا دیا ہے۔

          مثنوی میں  حضرتِ موسیٰؑ کی ولادت کو روکنے  کی تدبیر  اور  فرعون کی پریشانی سے  موسیٰؑ کی کہانی شروع ہوئی ہے۔ فرعون خواب میں  حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو دیکھتا ہے اور ان کی ولادت ہی کو روکنے  کی تدبیر کرتا ہے۔ ’’خواب دیدن فرعون آمدن موسیٰ علیہ السّلام را وتدارک آں‘ ‘   اور  ’’بمیدان خواندن فرعون بنی اسرائیل را از برائے  حیلہ منع ولادتِ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام‘ ‘  سے  کہانی شروع ہوتی ہے اور کئی ڈرامائی صورتیں  اختیار کرتی ہے۔ مولانا نے  فرعون کی نفسیات کو بھی نمایاں  کیا ہے، خصوصاً وہاں  کہ جہاں  فرعون شور و غل سے  ڈر نے  لگتا ہے، ایسا تو نہیں  کہ موسیٰؑ کی پیدائش ہو گئی ہو  اور  یہ آواز وہیں  سے  آ رہی ہو۔ (ترسیدن فرعون از بانگ و غریود غوغا)۔   قصے  کے  تعلق سے  مولانا کے  یہ اشعار توجہ طلب ہیں:

ہر پیمبر کا ندر آید در رحم

نجمِ اُو بر چرخ گردد منتجم

ماں  کے  رحم میں  جو پیغمبر آتا ہے  اس کا ستارہ آسمان پر طلوع ہوتا ہے۔

برفلک پیدا شد آں  استارہ اش

کوریِ فرعون و مکرو چارہ اش

فرعون  اور  اس کے  مکر و سازش کے  خلاف آسمان پر موسیٰؑ کا ستارہ نمودار ہوا۔

          مولانا فرماتے  ہیں  جب مکان والا لامکاں  پر حملہ کرتا ہے  تو دراصل اپنا خون کرتا ہے اور اپنے  لیے  مصیبتیں  خریدتا ہے۔ جب زمین آسمان سے  دشمنی کرتی ہے  تو بنجر بن جاتی ہے۔ موت سے  ٹکراتی ہے:

چوں  مکاں  بر لامکاں  حملہ برد

خونِ خود ریزد بلاہا را خرد

بر قضا ہر کوشب خوں   اور  د

سرنگوں  آید زخونِ خود خورد

چوں  زمیں  بآسماں  خصمی کند

شور گردد سر ز مرگے  برزند

حضرتِ موسیٰؑ کی پیدائش کے  بعد جو واقعات رونما ہوتے  ہیں  مولانا رُومی نے  اُنھیں  ایک پرکشش ڈراما بنا دیا ہے۔ فرعون بنی اسرائیل کی اُن تمام عورتوں  کو میدان میں  بلاتا ہے  کہ جن کے  حال میں  بچے  ہوئے  ہیں۔ گھر گھر کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ذرا یہ ڈرامائی منظر دیکھئے:

وحی آمد سوئے  زن از داد گر

کہ ز نسلِ خلیل ست ایں  پسر

در تنور اندازِ موسیٰ را تو زود

تا نگہدا ہمیش اندر نار و دود

عصمتِ یَا نَارُکُوْنِیْ بارِداً

لد تَکُوْنَ النّار حَرّا شَارِداً

زن بوحی انداخت اُو را در شرر

بر تنِ موسیٰؑ نکر د آتش اثر

پس عواناں  خانہ را جستند زود

ہیچ طفلے  اندر آں  خانہ نبود

پس عواناں  بے  مراد آں  سو شدند

باز غماّزاں  کزاں  واقف بدند

باز وحی آمد کہ در آبش فگن

روی در امیددار و موفگن

در فگن در نیلش و کن اعتمید

من و زا باتو سانم رُو سفید

مادرش انداخت اندر رودِنیل

کار را بگذاشت بانعم الوکیل

(مثنوی مولانا روم، دفتر سوم)

اللہ کی جانب سے  عورت کے  پاس وحی آتی ہے  کہ یہ بچہ ابراہیم خلیل اللہ کی نسل سے  ہے  تو موسیٰؑ کو فوراً تنور میں  ڈال دے  تاکہ آگ  اور  دھویں  میں  مَیں  اس کی حفاظت کروں۔ (حضرت ابراہیمؑ پر آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی لہٰذا اُن کی نسل کا یہ بچہ بھی اسی طرح محفوظ رہے  گا) آواز آتی ہے  ’’اے  آگ تو ٹھنڈی ہو جا‘ ‘   اور  آگ گرم  اور  سرکش نہیں  ہوتی، عورت وحی کے  سبب  بچے  کو انگاروں  میں  ڈال دیتی ہے۔ موسیٰؑ کے  جسم پر آگ کا کوئی اثر نہیں  ہوتا، سپاہی گھر کی تلاشی لیتے  ہیں  لیکن اس گھر میں  کوئی بچہ نہیں  ہوتا۔ فرعون کے  سپاہی واپس چلے  جاتے  ہیں  پھر وحی آتی ہے، اس بچے ّ کو پانی میں  ڈال دے، اپنے  مالک پر بھروسہ رکھ تجھے  کوئی پریشانی نہ ہو گی، اس بچے  کو دریائے  نیل میں  پھینک دے اور بھروسہ رکھ اسے  عزّت کے  ساتھ تیرے  پاس پہنچا دوں  گا۔ ماں  موسیٰ کو دریائے  نیل میں  ڈال دیتی ہے، معاملہ اللہ کے  سپرد کر دیتی ہے۔ رحمتِ خداوندی کے  سائے  میں  ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوتا ہے، تحیر کا حسن متاثر کرتا ہے۔ مولانا رومی کے  تخلیقی ذہن نے  اسے  ایک ڈرامائی منظر بنا دیا ہے۔

          شاعر نے  حضرتِ موسیٰؑ کے  عصا کو سانپ بنتے اور سمندر کو موسیٰؑ کی بات سمجھتے  ہوئے  دِکھایا ہے، یہ دونوں  تاثرات غضب کے  ہیں۔

          مولانا رومی کا ذہن دیکھئے  کہاں  پہنچتا ہے:

ہست قرآں  مرا تر ہمچوں  عصا

کفر ہا را در کشد چوں  اژدہا

یعنی قرآن پاک تمھارے  لیے  حضرتِ موسیٰؑ کا عصا ہے  جو اژدہے  کی طرح کفروں  کو نگل جائے  گا!

          حضرتِ موسیٰؑ  اور  فرعون کے  قصے  میں  مولانا رومی نے  جو ڈرامائی مناظر شامل کیے  ہیں  وہ شاہکار ہیں  خصوصاً ’’تہدید کر دن فرعون موسیٰ علیہ السّلام را‘ ‘  (فرعون کا حضرت موسیٰؑ کو دھمکی دینا) ’’جواب گفتن موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السّلام فرعون را در تہدید یکہ با اُو می نمود‘ ‘  (حضرتِ موسیؑ کا اس دھمکی کا جواب دینا جو فرعون نے  اُنھیں  دی) ’’پاتخ دادن فرعون موسیٰ علیہ السّلام را و مہلت خواستن تا چہل روز از موسیٰ علیہ السلام‘ ‘  (فرعون کا حضرتِ موسیٰؑ کو جواب دینا  اور  حضرت موسیٰؑ سے  چالیس روز کی مہلت مانگنا) ’’جواب موسیٰ علیہ السلّلام فرعون را‘ ‘  (حضرتِ موسیٰؑ کا فرعون کو جواب) ’’جوابِ فرعون موسیٰ علیہ السّلام را و وحی آمدن بموسیٰ علیہ السّلام (حضرت موسیٰؑ کو فرعون کا جواب  اور  حضرتِ موسیٰؑ کے  وحی کا آنا) مہلت دادن موسیٰ علیہ السّلام فرعون را تا ساحراں  راجمع از مدائن کند‘ ‘  (فرعون کو حضرتِ موسیٰؑ کا مہلت دینا تاکہ وہ شہروں  کے  جادوگروں  کو جمع کر لے ) ’’فرستادنِ فرعون بمدائن در طلبِ ساحراں‘ ‘  (فرعون کا ساحروں  کو بلانے  کے  لیے  شہروں  کی جانب لوگوں  کو روانہ کرنا) ’’استفسار کر دن ہر دو ساحر از مادر، گورِ پدر را و  پرسیدن از روان اُو حقیقت موسیٰ‘ ‘  (دونوں  ساحروں  کا ماں  سے  باپ کی قبر دریافت کرنا  اور  اُن کا اس کی رُوح سے  حضرتِ موسیٰ کی اصلیت دریافت کرنا) ’’جواب گفتن ساحر مردہ بافرندانِ خود‘ ‘  (مردہ ساحر کا اپنے  لڑکوں  کو جواب دینا)  اور  ’’جمع آمدن ساحراں  از مدائن پیش فرعون و تشریفہا از وے  یافتن و دست برسینہ زدن در قہر خصم او کہ ایں  کار را دفع برما نویس‘ ‘  (شہروں  سے  فرعون کے  سامنے  ساحروں  کا پیش ہونا  اور  اُس کی جانب سے  خلقتیں  پانا  اور  اس کے  مخالف کو مغلوب کر نے  کے  لیے  سینہ پر ہاتھ مارنا کہ اس کام کی مدافعت ہمارے  ذمّہ لکھ لے )

          ایک کے  بعد دوسرا ڈرامائی منظر تیزی سے  سامنے  آتا ہے، کرداروں  کے  عمل  اور  ان کے  مکالموں  سے  فضا پراسرار بنی ہے، شاعر کے  تخیل  اور  احساس نے  ڈرامے  کو تو انائی بخشی ہے، اس ڈرامے  کا جو جذباتی اثر ہوتا ہے  اس سے  آخر میں  تزکیۂ نفس ہوتا ہے، مولانا رومی کی فنکاری عروج پر ہے۔ اُنھوں  نے  حضرتِ موسیٰ  اور  فرعون کے  قصے  کے  کئی نکات کو خوبصورت استعاروں  کی صورت دی ہے۔ مولانا رومی نے  تخیل نگاری  اور  فینتاسی دونوں  سے  بڑا کام لیا ہے۔

          مولانا رومی کے  داستانی ذہن کا ایک کرشمہ ’’سمندری بیل  اور  نایاب گوہر‘ ‘  ہے  جسے  اُنھوں  نے  ایک خوبصورت تمثیل کی صورت دی ہے۔ کہانی یوں  ہے  کہ ایک دریائی بیل سمندر سے  ایک نایاب گوہر نکال کرلاتا ہے  جو درجہ روشن ہے، بیل اُسے  چراگاہ میں  رکھتا ہے اور اسی کے  گرد چرتا ہے، گوہر کے  نور کی شعاع میں  سنبل  اور  سوسن چرتا ہے، اس کی غذا نرگس  اور  نیلوفر ہے، نایاب روشن گوہر کے  نور میں  چر نے  والا یہ بیل اچانک گوہر سے  بہت دُور چلا جاتا ہے، ایک تاجر کی اُدھر سے  گزر ہوتی ہے، وہ اس نایاب روشن گوہر کو حیرت سے  دیکھتا ہے، جلدی سے  اس موتی پر کالی کیچڑرکھ دیتا ہے  تاکہ چراگاہ  اور  سبزہ زار جو اس کی روشنی ہے  تاریک ہو جائے، تاجر درخت پر چڑھ جاتا ہے۔ بیل اپنی سخت سینگ لیے  واپس آتا ہے، بیس مرتبہ چراگاہ کے  گرد دوڑتا ہے  تاکہ اپنے  دشمن یعنی تاجر کو سینگ میں  بیندھ لے۔ مایوس  اور  نا اُمّید ہو کر اُس مقام پر آتا ہے  کہ جہاں  اُس نے  وہ روشن گوہر رکھا تھا، کیا دیکھتا ہے  اُس درّ شہوار پر کیچڑ ہے، مٹّی کیچڑ دیکھ کر شیطان کی طرح بھاگ جاتا ہے، وہ گوہر اُسے  نظر نہیں  آتا کیچڑ نظر آتی ہے، دریائی بیل کو کیا معلوم تھا کہ مٹّی میں  گوہر پوشیدہ ہے۔

          مولانا کہتے  ہیں  کہ جسم میں  روح اسی طرح ہے  کہ جس طرح مٹّی کے  نیچے  گوہر، گوہر (رُوح) کو جوہری (صاحبِ نظر) ہی پہچان سکتا ہے:

تاجرش داند و لیکن گاؤ نے

اہلِ دل دانند ہر گلِ کاؤنے

یعنی گوہر کو تاجر جانتا ہے  نہ کہ بیل اہلِ دل جانتے  ہیں  نہ کہ ہر مٹّی کھودنے  والا!

          مولانا اپنی بات بڑی خوبصورتی سے  کہہ جاتے  ہیں، اکثر داستانی واقعات و مناظر میں  کہانی سے  کہانی پیدا ہوتی رہتی ہے، مولانا رومی کا داستانی مزاج بھی  قصے  سے   قصے  پیدا کرتا رہتا ہے، اس داستانی تمثیل میں  بھی کہانی سے  کہانی پیدا ہوتی گئی ہے۔ تمثیل کی تھیم، جذبات کے  اندر اپنی جڑ رکھتی ہے۔

          مولانا رومی کے  داستانی مزاج نے  ایک طویل حکایت پیش کی ہے  کہ جس میں  روحانی عشق بنیادی جوہر ہے، یہ حکایت یا مختصر داستان اس لیے اور طویل ہو گئی ہے  کہ اس میں  داستانوں  کی طرح درمیان میں اور بہت سی باتیں  شامل ہوتی گئی ہیں۔ تخلیقی فنکار کی جمالیات  اور  اس کی رومانیت کی بیشتر خصوصیات و جہات اس مختصر سی داستان میں  موجود ہیں۔

            قصہ یوں  ہے:

بود بادشا ہے، شاہ رابد سربسر

ہر سہ صاحب فطنت و صاحب نظر

ایک تھا بادشاہ اس کے  تین لڑکے  تھے، تینوں  سمجھ دار  اور  صاحبِ نظر تھے۔

          عام داستانی شہزادوں  کی طرح ان تینوں  میں  تمام بہتر خصوصیات موجود تھیں، سخی تھے  بہادر تھے  اپنے  والد کی آنکھوں  کی ٹھنڈک تھے  وغیرہ وغیرہ۔ تینوں  شہزادے  اپنے  والد کے  ملکوں  کا سفر کرنا چاہتے  ہیں، بادشاہ اجازت تو دیتا ہے  لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کرتا ہے  کہ ایک خاص قلعہ ملے  گا اس میں  ہر گز داخل نہ ہونا  اور  نہ اس کے  گرد چکر لگانا، بادشاہ کی ہدایت کو گرہ باندھ لیتے  ہیں  یعنی ’’ہوش اُڑانے  والے  قلعے  میں  نہ جانا‘ ‘  (وصیت را کہ بقلعہ ہوش ربا نروید)۔ بادشاہ بیٹوں  کو رخصت کرتے  ہوئے  کہتا ہے:

ہر کجا تاں  دل کشد عازم شوید

فی امان اللہ دستا افشاں  روید

جہاں  بھی جانا چا ہو،جاؤ، جہاں  تمھارا دل لے  جائے، جاؤ۔ اللہ کی حفاظت میں  خوش خوش روانہ ہو جاؤ۔

غیر آں  یک قلعہ نامش ہشربا

تنگ آرد برکلہ دار راں  قبا

البتہاس قلعے  میں  قدم نہ رکھو کہ جس کا نام ہوش ربا ہے  وہ تاجداروں  پر قبا تنگ کر دیتا ہے:

اللہ اللہ زاں  دژِ ذاتِ الصوَر

دور باشید و بترسید از خطر

اللہ کے  لیے  تصویروں  والے  قلعے  سے  دور رہنا  اور  خطرے  پر نظر رکھنا۔

روی و پشت و برجہاں  و سقف و پست

جملہ تمثال و نگار و صورتست

اس کے  رو  اور  پشت  اور  برجیاں  چھت  اور  فرش سب تصویر  اور  نقش کی صورت ہیں۔

ہمچواں  حجرہ زلیخا بر صور

تاکند یوسف نبا کامش نظر

زلیخا کے  حجرے  کی طرح کہ جس میں  تصویریں  تھیں  تاکہ یوسفؑ بغیر مقصد اُنھیں  دیکھ لیں۔

تا بہر سو کاں  نگرد آں  خوش عذار

رویِ اُو را بیند اُو بے  اختیار

تاکہ وہ خوبصورت رُخ والا جس طرف بھی دیکھے  بے  اختیار اس کا چہرہ دیکھ لے۔

تینوں  شہزادے  اُسی قلعے  کی جانب جاتے  ہیں  جس کی طرف جانے  سے  والد نے  روکا تھا، ہوتا یہ ہے  کہ جو بات منع کی جاتی ہے  انسان اس بات کی جانب جانا چاہتا ہے۔

          اس خوبصورت قلعے  میں  حسین ترین تصویریں  ہیں، پانچ دروازے  دریا کی طرف  اور  پانچ خشکی کی جانب ہیں۔ ان میں  پانچ رنگ و بو کے  ظاہر حس کی طرح ہیں۔ ان میں  سے  پانچ باطن حس کی طرح راز کو تلاش کر نے  والے  ہیں۔ اس قلعے  میں  شہزادے  ایک حسین پر شکوہ تصویر دیکھتے  ہیں اور حیرت زدہ رہ جاتے  ہیں، ایسا چہرہ تو اُنھوں  نے  کبھی دیکھا نہ تھا۔ تینوں  اس پر عاشق ہو جاتے  ہیں، وہ جاننا چاہتے  ہیں  کہ یہ کس کی تصویر ہے، ایک صاحبِ بصیرت شیخ راز فاش کرتے  ہیں، کہتے  ہیں  یہ چین کی شہزادی کی تصویر ہے۔ وہ پری  اور  جان کی طرح پوشیدہ ہے، وہ قلعہ کے  چھپانے  والے  پردے  میں  ہے:

ہمچو جان و چوں  پری پنہا نست اُو

در مکتم پردہ ابوانست اُو

تینوں  بھائی  محبت و مباحثے  کے  بعد چین کے  لیے  روانہ ہوتے  ہیں، چین پہنچ کر بڑا بھائی بے  صبر ہو جاتا ہے، کہتا ہے  میں  خود کو شاہِ چین کے  سامنے  پیش کروں  گا۔ کہانی آگے  بڑھتی ہے، صبر کا پیمانہ چھلکنے  لگتا ہے، عشق کی آگ روشن ہو جاتی ہے:

صدر را صبرے  بد اکنوں  آں  نماند

بر مقامِ صبر عشق آتش نشاند

صبرِ من مرد آں  شبے  کہ عشق زاد

در گذشت و حاضراں  را عمر باد

جس شب عشق پیدا ہوا، صبر مرگیا۔

          تینوں  شہزادوں  کے  دل میں  عشق کی آگ روشن ہوتی ہے، پوشیدہ معشوق کی راہ اختیار کرتے  ہیں، اسی طرح کہ جس طرح ابراہیم ادہم تخت چھوڑ کر فقیر بن جاتے  ہیں  یا جس طرح حضرت ابراہیم عشق الٰہی میں  آگ میں  کود پڑتے  ہیں  یا جس طرح حضرت اسماعیلؑ عشق الٰہی سے  سرشار خنجر کے  سامنے  گردن رکھ دیتے  ہیں  یہ تینوں  تلاشِ محبوب میں  نکل جاتے  ہیں۔

          اس داستان کو پیش کرتے  ہوئے  مولانا رومی مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے  ہیں اور جانے  کتنے  اہم نکات پیش کرتے  جاتے  ہیں۔ قلعے  کے  حسن کی تصویر کشی میں  ایک بڑے  تخلیقی فنکار کا جمالیاتی رجحان اچھی طرح نمایاں  ہوا۔ داستان کی رومانیت اختتام تک پہنچتے  پہنچتے  بڑی تہہ دار  اور  معنی خیز بن جاتی ہے۔ داستان  اور  فینتاسی دونوں  کی عمدہ خصوصیتوں  کے  ساتھ یہ تمثیل پرکشش ہو گئی ہے۔

          مولانا رومی کے قصوں  کہانیوں، حکایتوں اور تمثیلوں  میں  انسانی تجربوں  کی عمدہ تشریحیں  ملتی ہیں، فنکار کے  تخیل کی تو انائی متا  ّثر کرتی ہے، جو جذبات پیش ہوتے  ہیں  اُن کی بنیاد بڑی گہرائیوں  میں  محسوس ہوتی ہے، فینتاسی کی پیشکش کا معیار بھی بلند ہے، اعلیٰ اقدار کی روشنی سے  یہ تجربے  زیادہ روشن ہو گئے  ہیں، کہانی سناتے  سناتے  اچانک ایک ہلکا سا دھماکہ ہوتا ہے اور فنکار کا داستانی مزاج ابدی آفاقی سچائی سے  آشنا کر دیتا ہے۔ کہانیوں اور تمثیلوں  میں  ایڈونچر کی بھی اہمیت ہے۔ تخلیقی فینتاسی اس ایڈونچر کو بہت پرکشش بنا دیتی ہے۔قصوں  کے  تسلسل سے  فنکار زندگی کی زرخیزی کا بھی احساس دِیے  چلتا ہے۔ بولتے  ہوئے  جانور  اور  پرندے  انسانی جذبات سے  پر ہیں، ان کی علامتی اہمیت کم نہیں  ہے۔ وہ زندہ کرداروں  کی طرح عمل کرتے  ہیں۔ مولانا رومی نے  ڈرامائی تکنیک بھی استعمال کی ہے، کئی واقعات  اور  کئی مناظر ڈرامائی بن گئے  ہیں، کرداروں  کے  مکالموں  سے  شخصیتوں  کی پہچان ہوتی ہے۔

          مولانا رومی کا داستانی مزاج ایک ہمہ گیر جمالیاتی رومانی رجحان کو نمایاں  کرتا ہے!

 

٭٭٭

غزل کی جمالیات

دیوانِ شمس (تبریزی) میں  کم و بیش چالیس ہزار اشعار ہیں  (مثنوی مولانائے  روم میں  پچیس ہزار اشعار ہیں )’دیوانِ شمس‘  بھی مولانا رومی کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے، اُنھوں  نے  تغزّل کا جو نفیس معیار قائم کیا ہے  وہ منفرد ہے۔ خیال، لفظ  اور  آہنگ کی اتنی خوبصورت آمیزش فارسی شاعری میں اور کہیں  نہیں  ملتی۔ ’دیوانِ شمس‘  بھی ’مثنوی مولانائے  روم‘  کی طرح دُنیا کی بہترین شاعری کا نمونہ ہے۔

          مولانا روم نے  غزل کی جمالیات میں  وسعت، گہرائی  اور  نئی جمالیاتی جہتیں  پیدا کی ہیں، تغزّل کی چاشنی میں  اُس وقت زبردست اضافہ ہوا ہے  جب وہ رومانی اقدار کی شعاعوں  سے  عشق، محبوب  اور  عاشق کی کیفیتوں  کو اُجاگر کرتے  ہیں۔ ’دیوانِ شمس‘  کی غزلوں  میں  عام جانے  پہچانے  پیکر  اور  استعارے  ہیں  لیکن تجربے اور تجربے  کے  آہنگ نے  ان میں  ایسی معنویت  اور  ایسی تابناکی پیدا کر دی ہے  کہ پڑھنے  والا مست ہو جاتا ہے۔ تجربوں اور لفظوں  کے  آہنگ کے  پیشِ نظر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

سار بانا اشترانِ دیں  سر بسر قطار مست

بسرست و خواد مست ویار مست اغیار مست

باغبانا رعد مطرب ابر ساقی گشت و شد

باغ مست و راغ مست و غنچہ مست و خارمس

اس کے  بعد رُوح مست و عقل مست و دہم مست افکار مست، بانگ مست و چنگ مست و زخم مست تار مست کی آواز سنائی دیتی ہے اور مست کی تکرار  اور  اس کے  آہنگ سے  ایک فضا بن جاتی ہے:

بانگ یار امیزنیم از آرزوی دلبران

بانگ مست و چنگ مست و زخمہ مست و تار مست

غور فرمائیے  کیسی گونج ہے، ایسی غزلوں  سے  جو جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے  اسے  ایک اچھا قاری ہی شدّت سے  محسوس کر سکتا ہے۔

          مولانا رُومی کی غزلوں  میں  جو پیکر  اور  استعارے  ملتے  ہیں  وہ بہت جانے  پہچانے  ہیں  مثلاً شراب، ساقی، موتی، سمندر، آفتاب، مہتاب، شب، صبح، کارواں، محبوب، معشوقہ، لبِ شیریں، غمخوار، خورشیدِ درخشاں، افسوں، گل، گلستاں، مطرب، درویش، کفر، ایمان، روح، چنگ، زخمہ، تار، یوسف، موسیٰ، فرعون، قارون، سلطان، عیسیٰ، سلیمان وغیرہ۔ مولانا رومی کی غزلوں  کا مطالعہ کرتے  ہوئے  اس سچائی کا احساس ہوتا ہے  کہ وہ اُن صوفی شعرا سے  مختلف ہیں  جو اپنے  صوفیانہ تصوّرات و خیالات کو غزلوں  میں  سموتے  رہے  ہیں۔ مولانا رومی اپنی غزلوں  میں  صوفیانہ خیالات شعوری طور پر شامل نہیں  کرتے، وہ غزل کے  ایسے  منفرد شاعر ہیں  جو اپنے  حسی  اور  جمالیاتی تجربوں  سے  قاری کے  احساسِ جمال کو متاثر کرتے  ہیں، قاری کے  جمالیاتی وژن میں  ایسی کشادگی پیدا کرنا چاہتے  ہیں  جس سے  وہ اُوپر اُٹھے اور شاعر کے  اُن تجربوں  کو چھولے  جو تصوف کی جمالیات کے  رسوں  سے  لبریز ہیں۔ مولانا رومی کے  استعارے اور پیکر ارضی ہیں  لیکن وہ اپنے  ’وژن‘  کو کبھی ارضی پیکروں اور استعاروں  سے  وابستہ کر کے  نہیں  رہ جاتے  بلکہ ان کی شاعری اس بات کا تقاضا کرتی ہے  کہ قاری کی خود ایسی روحانی اُٹھان ہو جو شاعر کے  حسی، نفسی  اور  جمالیاتی تجربات سے  رشتہ قائم کر لے، یہی وجہ ہے  کہ ان کے  اشعار میں  کئی جمالیاتی سطحیں  ملتی ہیں، قاری کا رشتہ کبھی ایک  اور  کبھی ایک سے  زیادہ سطحوں  سے  قائم ہو جاتا ہے۔ مولانا رومی کی غزلوں  کا مطالعہ کرتے  ہوئے  مجھے  بڑی شدّت سے  محسوس ہوا کہ ان کی غزلوں اور ان کی غزلوں  کے  اشعار کا ترجمہ صرف خیالات کی وضاحت کسی طرح کر سکتا ہے  ان کے  آہنگ  اور  تجربوں  کے  جمال کو پیش نہیں  کر سکتا۔ ’دیوانِ شمس‘  میں  جمالیات کا ایک نظام قائم ہے اور اس جمالیاتی نظام میں  آہنگ (Rhythm) کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اشعار پڑھتے  ہوئے  بھی جمالیاتی تجربے  تو جمالیاتی آسودگی بخشتے  ہی ہیں، آہنگ بھی بڑا جمالیاتی انبساط بخشتا رہتا ہے۔ تجربے اور آہنگ دونوں  کا سرچشمہ متصوفانہ تو انائی (Mystical Energy) ہے  کہ جس کی پہچان آسان نہیں  ہوتی۔ بہت سی غزلوں  میں  الفاظ دہرائے  گئے  ہیں۔ دہرانے  کے  عمل کا تعلق وجود کی وجد آفریں  کیفیت سے  ہے، لفظوں  کے  دہرائے  جانے  سے  وجد طاری ہونے  لگتا ہے، اس عمل کے  تحرّک کا تعلق روحانی کیف سے  ہے، اشعار پڑھتے اور گنگناتے  ہوئے  ایک عجیب مسرت حاصل ہوتی ہے، لگتا ہے  اپنے  وجود سے  باہر پرواز کرتے  جا رہے  ہیں:

          ۔۔۔۔۔      اے  یارِ ما دلدارِ ما رونقِ بازار ما

          ۔۔۔۔۔      باغ مست و راغ مست و غنچہ مست و خار مست

          ۔۔۔۔۔      من ایں  نقاّش جادو را نمیدانم نمیدانم

          ۔۔۔۔۔      اے  جانِ من، اے  جانِ من، سلطانِ من، سلطانِ من

          ۔۔۔۔۔      اے  یارِ من اے  یارِ من

          ۔۔۔۔۔      خلق منم خانہ منم دام منم دانہ منم

          ۔۔۔۔۔      کعبہ اسرار منم  جبہ و دستار منم

          ۔۔۔۔۔      شام منم روز منم عشقِ جگر سوز منم

          ۔۔۔۔۔      روضہ منم حور منم، نار منم نور منم

          ۔۔۔۔۔      یار منم غار منم دلبر و دلدار منم

          لفظوں  کی تکرار سے  جو آہنگ پیدا ہوتا ہے  اُس سے  ایک لذّت آمیز فضا بن جاتی ہے۔ لفظوں  کو دہرانے  سے  غنائی کیفیت کا جادو کام تو کرتا ہی ہے۔ ردیفوں  کا حسن بھی کم پر اثر نہیں  ہوتا۔ مثلاً چنیں  بادا چنیں  بادا، باست امشب باست امشب، مصلحت نیست مصلحت نیست، مرایافت مرایافت، نمیدانم نمیدانم، دُور شود، دور شود، افکندہ ای افکندہ ای وغیرہ۔ کسی نے  کہا تھا مولانا رومی کی غزل پڑھنے اور موسیقی کے  ساتھ سننے  کی چیز ہے، یہ اپنے  تجربوں  کے  رَس سے  لبریز ہے، اپنی غنائیت کا حسن رکھتی ہے۔ رومی کی غزل نغمہ ہے، موسیقی ہے  رقص ہے۔ اس سے  جو جمالیاتی لذّت حاصل ہوتی ہے اور جو جمالیاتی انبساط ملتا ہے  وہ دوسرے  شعرا کی غزلوں  سے  قطعی مختلف ہے۔ لفظوں اور ان کے  آہنگ کی تکرار باطن کی دین ہے، وجد آفریں  کیفیت کی دین ہے۔

          اللہ حسن ہے اور حسن ایک ہمہ گیر  اور  تہہ دار ’’آرچ ٹائپ (Archetype) ہے، فنکار مرکز حسن کی کیف  اور  فضا میں  رقص کرتا ہے، اس پر وجد طاری ہو جاتا ہے اور وجد آفریں  تجربے  خلق کرتا ہے، عشقِ الٰہی  اور  حسنِ الٰہی سے  رُوح بڑی شدّت سے  متاثر ہوتی ہے اور پھر عشق سب سے  بڑی تو انائی بن جاتا ہے۔ ہر تحرّک کا انحصار پھر اسی پر ہوتا ہے، کائنات کی تنظیم کیسے  ممکن ہے   اگر  عشق  اور  اس کی تو انائی موجود نہ بھی ہو، عشق کی تو انائی یا انرجی سے  ہی حسن کا ’آرچ ٹائپ‘  بیدار  اور  متحرّک ہوتا ہے اور عاشق حسن کے  مختلف رنگوں اور جہتوں  کو پہچاننے  لگتا ہے۔ مولانا رومی کی غزل کی بنیاد اسی خیال  اور  تصوّر پر ہے۔ تمام روشن علامتیں  اسی مرکز سے  آئی ہیں۔

          مولانا رومی کی غزل کی اپنی خاص جمالیاتی فضا ہے  کہ جس میں  ان کی داخلی کیفیات کی مختلف تصویروں اور رنگوں  سے  ہم لطف اندوز ہوتے  ہیں۔ حسن و عشق کے  معاملات کا اظہار دوسرے  فارسی شعرا سے  مختلف ہے، مثلاً ایک غزلِ مسلسل میں  کہتے  ہیں، اپنا چہرہ دِکھاؤ، میں  باغ  اور  گلستاں  کی آرزو لیے  بیٹھا ہوں، یعنی محبوب کا چہرہ باغ ہے، گلستاں  کا جلوہ لیے  ہوئے  ہے، گلابوں  کے  باغ کا تصوّر پیدا ہوتا ہے  جب عاشق محبوب کے  چہرے  یا رُخ کے  بارے  میں  سوچتا ہے، ظاہر ہے  محبوب حسن و جمال کا پیکر ہے، اس کی خوشبو غیر معمولی ہے۔ عاشق کہتا ہے  مجھے  شیرینی چاہیے، مٹھاس چاہیے  لہٰذا اپنے  لب کھول دے۔ اس کی تمنّا ہے  کہ اس کے  ایک ہاتھ میں  شراب کا پیالہ ہو  اور  دوسرے  ہاتھ میں  محبوب کی زلف، اس طرح وہ ہر جگہ، ہر مقام پر رقص کرنا چاہتا ہے، محبوب کہتا ہے  ’’مجھے  زیادہ پریشان نہ کرو۔‘ ‘  عاشق بھی کہتا ہے  میری خواہش بھی بس اتنی ہے  ’’مجھے  زیادہ پریشان نہ کرو۔‘ ‘ 

بنُمائی رُخ کہ باغ و گلستانم آرزو ست

بکشائی لب کہ قند فرا وانم آرزو ست

یکدست جام بادہ و یکدست زلفِ بار

رقصِ چنیں  میانۂ میدانم آرزو ست

گفتی زنار بیش مرنجاں  مرا برد

آں  گفت کہ بیش مرنجانم آرزو ست

(دیوان شمس تبریزی)

          مولانا رومی کی غزلوں  کی جمالیات میں  محبوب حسن کا ایک دلفریب  اور  دلکش پیکر ہے  کہ جس کا چہرہ، جس کے  ہونٹ  اور  جس کی زلفیں  حسن کی علامتیں  ہیں، محبوب عاشق کو للچاتا ہے، اس کی دیوانگی میں  اضافہ کرتا ہے، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے  کہ وہ اچانک عاشق کے  سامنے  آ جاتا ہے۔ عاشق کو یقین ہی نہیں  آتا کہ جس کا انتظار وہ اب تک شدّت سے  کر رہا تھا  اور  جو اپنے  حسن سے  دُور سے  للچا رہا تھا وہ اس کے  سامنے  ہے، وہ سخت اُلجھن میں  پڑ جاتا ہے۔۔۔ بہت دیر بعد یقین آتا ہے  کہ حسن کہ جس کی چاہت تھی وہ آنکھوں  کے  سامنے  ہے:

یار آمد زور خلوتیاں  دوست دوست

دیدہ نما می کند نیست غلط اوست اوست

تحیر کو کتنی خوبصورتی کے  ساتھ ڈرامائی صورت دے  دی ہے! باطنی اضطراب اچانک کس طرح کم ہو جاتا ہے، تغزّل کا ایسا حسن آسانی سے  نہیں  ملتا، عشق  اور  حسن دونوں  مولانا رومی کی جمالیات کے  بنیادی موضوعات ہیں۔

          محبوب سے  براہِ راست گفتگو کتنی دلفریب  اور  خوبصورت ہے اور لب و لہجہ کس قدر دلچسپ  اور  پیارا ہے، غور فرمائیے، عاشق یہ کہہ رہا ہے  کہ  اگر  تم بھی مجھ سے  اسی طرح  محبت کرنا چاہتے  ہو کہ جس طرح میں  تم سے  کرتا ہوں  تو میں  تمھاری تمام غلطیاں  معاف کر دیتا  اور  تمھیں  ایک بوسہ لینے  کی اجازت دے  دیتا،  اگر  تم عشق میں  اسی طرح ثابت قدم ہوتے  کہ جس طرح میں  ہوں  تو میں  کسی  اور  کو ہر گز پسند نہیں  کرتا کہ جس طرح تم نے  پسند کیا،  اگر  مجھ میں  ظلم و ستم ڈھانے  کی طاقت ہوتی تو میں  نے  ہر گز ایسا ظلم ڈھایا نہ ہوتا کہ جس طرح تم نے  ڈھایا ہے، اس طرح کرتے  ہوئے  مجھے  خلق سے  بھی شرم آتی  اور  میں  خوفِ خدا سے  لرز بھی اُٹھتا، اندازِ تخاطب تو  ّجہ طلب ہے، مولانا رومی کا محبوب بھی ظلم ڈھانے  والا  اور  غیر سے  رِشتے  کا احساس دلا کر تکلیف پہنچانے  والا ہے:

گر بدیں  زاری تو بودی عاشقِ من ہر زماں

بر دلت بخشید می و بوسۂ بخشید می

ور تو بودی من ثابت قدم در راہِ عشق

بر تو ہر گز چوں  تو برمن دیگری نگزید می

گرچہ برجور و جفائی تو مرا قدرت بدی

یا ز خلقم شرم بودی یا ز حق ترسید می

غزل کا تیور ہی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ مولانا رومی غزل کے  رموز و علامات ہی میں  اپنے  منفرد تیور کا اظہار کر دیتے  ہیں۔ اندازِ بیان  اور  تیور عام روایتی باتوں  سے  شاعر کو الگ کر دیتا ہے۔

          مولانا رومی کی غزلوں  کی رومانیت پرکشش ہے اور اس کا بنیادی سبب شاعر کی درون بینی ہے۔ شاعر اپنے  باطن کی گہرائیوں  میں  ڈوبا ہوا محسوس ہوتا ہے، اپنی ذات ہی میں  محبوب کو پا لیتا ہے۔ داخلی تجربوں میں  تخیل  اور  جذبے  کی آمیزش جمالیاتی وجدان کی رُومانیت کو نمایاں  کر دیتی ہے۔ بلاشبہ مولانا رومی کی غزلیں  طلسمی کشش رکھتی ہیں، قاری ان کے  قریب آتے  ہی حسی تجربوں اور رُومانی احساسات کو جذب کر نے  کی کوشش کرتا ہے۔

          ’آفتاب‘  مولانا رومی کا محبوب پیکر ہے۔ مثنوی میں  بھی آفتاب ایک مرکزی پیکر، علامت  اور  استعارہ ہے، مثلاً:

نور از دیوار تا خور می رَود

تو بداں  خور رو کہ در خور می رَود

یعنی نور دیوار سے  آفتاب کی جانب چلا جاتا ہے  تو اُس آفتاب کی جانب جا کہ یہ مناسب ہے۔

قرب بر انواع باشد اے  پدر

میزند خورشید بر کہسار و زر

بابا قرب کی قسمیں  ہوتی ہیں، آفتاب پہاڑپر بھی چمکتا ہے اور سونے  پر بھی!

شاخِ خشک و تر قریب آفتاب

آفتاب از ہر دوئے  دارد حجاب

یعنی تر اور  خشک شاخ آفتاب کے  قریب ہے، آفتاب دونوں  سے  کب پردہ رکھتا ہے۔

یا نمی دانی کہ نورِ آفتاب

عکسِ خورشیدبرونست از حجاب

یعنی تم سورج کے  نُور کو نہیں  جانتے، اُس سورج کا عکس ہے  جو پردے  سے  باہر ہے۔

          مولانا رومی نے  ’آفتاب‘  کو خالقِ کائنات کی علامت کے  طور پر استعمال کرتے  ہوئے  اس کے  حسن کا احساس و شعور عطا کیا ہے۔

          اپنی ایک غزل میں  کہتے  ہیں  کہ اے  آفتاب ایک بار پھر میرے  گھر کو اپنی روشنی سے  بھر دے، اپنے  تمام دوستوں  کو مسرّتیں  عطا کر، پہاڑ کے  پیچھے  سے  طلوع ہو  اور  پتھروں  کو جواہر ریزوں  میں  تبدیل کر دے، کھٹے ّ انگور کو لذیذ شراب بنا دے، عاشقوں  کی تکلیفوں اور اذیتوں  کو دُور کر دے۔۔۔ اپنا روشن چہرہ دِکھا دے  تاکہ تیرے  نور سے  ساری دنیا روشن ہو جائے،  اگر  تونے  اپنا تابناک چہرہ چھپائے  رکھا تو ساری دنیا تاریکی میں  ڈوب جائے  گی، سب سے  تاریک رات زندگی میں  اُتر آئے  گی!

          مولانا رومی نے  مثنوی  اور  غزلیات دونوں  میں  آفتاب کو خالقِ کائنات  اور  محبوب کی علامت  اور  استعارہ بنایا ہے۔

          اپنی ایک خوبصورت غزل میں  کہتے  ہیں  اے  اللہ آفتاب میں  جو روشنی ہے  وہ تیرے  ہی نور کا کرشمہ ہے، آفتاب کی روشنی کا سرچشمہ تیرا نور ہے، میرا دل میرا وجود جہنم بنا ہوا ہے، اپنا نور بخش دے  تاکہ اس عذاب سے  نکل جاؤں۔ صبح کے  وقت تیرا الوہی جلوہ میرے  لیے  بہت بڑی نعمت ہے۔

          مندرجۂ ذیل اشعار توجہ طلب ہیں:

  آتشِ خورشید را در مشعل سبز فلک

ہر سحر از آبگیرد بنشانم چو شمع

  موج زنور روی پرشدہ بود کوئی دل

کوزۂ آفتاب و مہ گشتہ کمینہ جام دل

  چشمۂ خورشید تو مئی سایہ کہ بید منم

چونکہ زدی بر سر من پست و گدا زندہ شدم

   تابش جاں  یافت دلم واشد بشکافت دلم

اطلس نوبافت دلم دشمن این زندہ شدم

   صورتِ جان وقتِ سحر لاف ہمی زورِ نظر

بندہ و خر بندہ شدم شاخ و خدا بندم شدم

   آن آفتاب خ اور  مہمان ماست امشب

قرص سپر گردون در خوان ماست امشب

  شب رفت و صبوح آمد غم رفت و فتوح آمد

خورشید درخشاں  شد تا باد چنیں  باد

          ’آفتاب‘  کے  پیکر میں  اندرونی تجربے  کا اظہار جس طرح ہوا ہے  وہ مولانا رومی کے  جمالیاتی احساس کی دین ہے۔ تخیل  اور  جذبے  کی آمیزش نے  ہر شعر میں  ایک میٹھا سُر پیدا کر دیا ہے۔ رمز و ابہام کا طلسم متا  ّثر کرتا ہے۔ شاعر کے  جمالیاتی شعور نے  باطنی تجربوں  کو مختلف انداز میں  منکشف کیا ہے۔ ہر انداز پرکشش ہے،تجربے  کی نزاکت  اور  لطافت سے  جمالیاتی سرور و انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے۔ مولانا رومی کے  جمالیاتی شعور نے  آفتاب کے  پیکر کو کہیں  جلوہ بنایا ہے اور کہیں  محض استعارہ۔ پیکروں اور استعاروں  سے  شاعر جہاں  طلسمی فضا خلق کرتا ہے  وہاں  اپنی زبردست تخلیقی صلاحیتوں  کو بھی محسوس بنا دیتا ہے۔

          مولانا رومی کا کلام اپنی گہری رومانیت، احساس کی شدّت، جذبوں  کے  مختلف رنگوں، حسیتِ ماضی، نازک  اور  نرم خیالات، نغمگی  اور  ’میلوڈی‘  کے  جمال  اور  تخلیقی تخیل کے  کرشموں  سے  پہچانا جاتا ہے۔ مندرجۂ ذیل غزلوں  میں  یہ تمام خصوصیات موجود ہیں:

بوی مشکی در جہان افکندہ اِی

مشک را در لامکان افکندہ اِی

صد ہزاراں  غلغلہ زین بوے  مشک

در زمین و آسمان افکندہ اِی

از شعاع نور و نار خویشتن

آتشی در عقل و جان افکندہ اِی

از کمالِ لعل جان افزای خویش

شورشی در بحر و کان افکندہ اِی

بایقین ناکسان بسرسشتہ ای

چون یقینشان در گمان افکندہ ای

چون بدست خویششان کر دی خمیر

خونشان در قدمان افکندہ اِی

پر دلانِ را ہمچو دل بشکستہ ای

بید لان را در فغان افکندہ اِی

شمس تبریزی بیاکز لطف خود

سوز با در عاشقان افکند ای

اللہ نے  خوشبوؤں  سے  ساری دُنیا بھر دی ہے  لیکن کچھ ایسی خوشبوئیں  ہیں  کہ جنھیں  مالک نے  پوشیدہ کر رکھا ہے۔ زمین  اور  آسمانوں  پر اللہ نے  جو خوشبوئیں  بکھیر دی ہیں  اُن سے  ہر جانب غلغلہ سا پیدا ہو گیا ہے، جانے  کتنی پرجوش کیفیتیں  پیدا ہو گئی ہیں، اپنی شعاعوں  کی درخشانی  اور  تابناکی  اور  گرمی سے  ذہن  اور  دل دونوں  میں  ایک آتش روشن کر دی ہے۔

          اللہ ہی نے  وہ لعل بخشا تھا کہ جس سے  زندگی قائم تھی، وہ لے  لیا میرے  باطن میں اور سمندر میں  عجیب شورش پیدا ہو گئی، دونوں  ہوش میں  نہ رہے، لاکھوں  روحیں  کہ جن کے  چہرے  دمک رہے  تھے  تاریکی میں  سمٹ گئی ہیں۔

اے  یارِ من اے  یار من اے  یار بے  زنہار من

اے  ہجر تو دلسوز من اے  لطف تو غمخوار من

خوش میروی در جان من چون میکنی درمان من

اے  دین و اے  ایمان من اے  سحر گوہر بار من

ہم مونس غمخوارِ من ہم دولت خندان من

واللہ کہ صد چندان من یکدست از بسیار من

اے  شبراؤن را مشغلہ دیوانگان را سلسلہ

اے  منزل ہر قافلہ اے  قافلہ سالار من

ہم رہزنی ہم رہبری ہم ماہی و ہم مشتری

ہم این سری ہم آن سری ہم گنج استظہار من

اے  جان من اے  جان من سلطان من سلطان من

دریاے  بے  پایان من بالاتر از پندار من

اے  خاک تو افلاک من اے  زہر تو تریاک من

ذوق دل غمناک من شوق ہمہ اسرار من

گوید بیاشر حی بگو گویم چگویم پیش تو

گوید بیا حیلہ مجو اے  بندۂطرارِ من

گر گنج خواہی سربنہ ور عشق خواہی جان بدہ

در صف در آوپس مجہ اے  حیدرِ  ّکرار من

پہلی منزل میں  مولانا رومی نے  دُنیا میں  پھیلی ہوئی بے  پناہ خوشبوؤں  کے  ذکر کے  ساتھ اپنے  احساسِ جمال کو حد درجہ محسوس بنایا ہے، ساتھ ہی جمالیاتی لاشعور نے  اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے  کہ ابھی جانے  کتنی  اور  کیسی کیسی خوشبوئیں  ہیں  جو چھپی ہوئی  اور  پوشیدہ ہیں، یہ پراسرار خوشبوؤں  کے  بکھر نے  کا وقت کب آئے  گا کوئی نہیں  جانتا، خوشبوؤں  کے  ذکر کے  ساتھ روشنی  اور  تاریکی کا بھی ذکر ہے، اللہ ہی کے  نور کی شعاعیں  ہیں  جو زندہ رکھتی ہیں، یہ شعاعیں  کھینچ لی جاتی ہیں  تو ہر جانب تاریکی پھیل جاتی ہے۔ دمکتے  ہوئے  روشن چہرے  تاریکی میں  سمٹ جاتے  ہیں، گم ہو جاتے  ہیں۔ اس دوسری منزل میں  جمالیاتی وحدت کا شعور بیدار ہے۔ ’’ای یار من ای یار من‘ ‘  کی آواز گونجتی ہے، یہ پیار کا بلاوا ہے، عاشق کے  دل میں  جو سوز پیدا ہوا ہے  وہ محبوب کے  ہجر کی دین ہے، عاشق کی تمنّا یہ ہے  کہ یار آئے اور اس کی رُوح میں  جذب ہو جائے، وہ استقبال کرے  گا،  اگر  محبوب اس کی روح میں  جذب ہونے  کے  لیے  قریب آئے، عاشق اس وقت تک ادھورا ہے  جب تک کہ محبوب اس کی روح میں  جذب نہیں  ہو جاتا، اس کے  آتے  ہی وجود کے  اندر جو سوراخ پیدا ہو گیا ہے، بند ہو جائے  گا  اور  عاشق کے  وجود کی تکمیل ہو جائے  گی۔ عاشق اپنے  محبوب کو سمندر تصوّر کرتا ہے  اس سمندر سے  اس کی وابستگی ہی وہ وحدت پیدا کرے  گی کہ جس کا وہ خواہش مند ہے۔ عاشق کے  لیے  محبوب ہی سب کچھ ہے، محبوب کی زمین عاشق کے  لیے  آسمان ہے، تمام اسرار کی مسرتوں  کے  لیے  عاشق کا اضطراب خوبصورت اشعار میں  ڈھل گیا ہے۔ اس غزل مسلسل کا مطالعہ کرتے  ہوئے  مولانا رومی کے  منفرد تیور  اور  منفرد اندازِ بیان کی بخوبی پہچان ہو جاتی ہے۔ اس غزل کا آہنگ وجد طاری کر دیتا ہے۔ سرمدی انبساط کو پانے  کی آرزو نے  باطن کے  تحرّک کو لفظوں اور آہنگ کا تحرّک بنا دیا ہے۔ یہ دو اشعار غضب کے  ہیں:

اے  جان من اے  جان من سلطانِ من سلطانِ من

دریاے  بے  پایانِ من بالاتر از پندارِ من

اے  خاک تو افلاک من اے  زہر تو تریاک من

ذوقِ دلِ غمناک من شوق ہمہ اسرار من

اشعار کا اندرونی آہنگ جذبہ  اور  احساس کے  آہنگ سے  قریب تر کر دیتا ہے۔ لفظوں  کے  زیر و بم  اور  آہنگ کا صوتی تاثر غضب کا ہے۔

          مولانا رومی کی غزلوں  کی جمالیات میں  ’’روشنی  اور  تحرّک‘ ‘  (آفتاب) خوشبوؤں  سے  بھری کائنات  اور  ’’جمالیاتی وحدت‘ ‘  کے حسی تصوّر کے  ساتھ سرمستی  اور  دیوانگی  اور  شیریں  دیوانگی کے  حسن  اور تحیر کے  جمال کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ سرمستی  اور  شیریں  دیوانگی کے  حسن کے  پیشِ نظر مندرجۂ ذیل غزل ملاحظہ فرمائیے:

من مست و تو دیوانہ مارا کہ برد خانہ

صدر بار ترا گفتم کم خورد و سہ پیمانہ

در شہر یکے  کس را ہشیار نمی بینم

ہر یک بتر از دیگر شوریدہ و دیوانہ

جانا بحزابات آی تا لذّت جان بینی

جان را چہ خوشی باشد بی صحبت جانانہ

ای لولی بربط زن تو مست تری یامن

ای پیش چو تو مستی افسون من افسانہ

از خانہ برون رفتم مستیم بپیش آمد

در ہر نظرش مضمر صد گلشن و کاشانہ

گفتم ز کجائی تو تسخر زد و گفتا من

نیمیم ز ترکستان نیمیم ز فرغانہ

نیمیم ز آب و گل نیمیم ز جان و دل

نیمی زلبِ دریا نیمی ہمہ دردانہ

گفتم کہ رفیقی کن بامن کہ منت خویشم

گفتا کہ بنشناسم من خویش زبیگانہ

من بی سرو دستارم در خانۂ  ّخمارم

یک سینہ سخن دارم زان شرح و ہم یانہ

 اور  تحیر کے  جمال (Aesthetic of Wonder)کا ایک انوکھا تجربہ اس غزل میں  دیکھئے:

مارا سفری فتاد بی ما

آنجا دل ماکشاد بی ما

آن مہ کہ زمانہان ہمی شد

رُخ برزخ مانہاد بی ما

چون د رغم یار جان بدا دیم

مارا غم او بزاد بی ما

مائیم ہمیشہ مست بی می

مائیم ہمیشہ شاد بی ما

مارا مکنید یاد ہرگز

ماخود ہستیم یاد بی ما

بی ماشدہ ایم شاد گوئیم

ای ما کہ ہمیشہ باد بی ما

در ہا ہمہ بستہ بود برما

بکشاد چو راہ داد بی ما

با ما دل کیقباد بندہ است

بندہ است چو کیقباد بی ما

مستیم زجام شمس تبریز

جام می او مباد بی ما

پہلی غزل میں  سرمستی  اور  شیریں  دیوانگی کی عجیب و غریب کیفیت ہے۔ شاعر کی رُوح کے  اندر جو میخانہ ہے  وہ حد درجہ نشہ طاری کر دینے  کے  لیے  کافی ہے، ایسا نشہ طاری ہے  کہ لگتا ہے  سارے  شہر پر دیوانگی برس رہی ہے، بارش کی طرح۔۔۔! ہر شخص دیوانہ نظر آ رہا ہے۔ ’’خود میری رُوح اختیار میں  نہیں  ہے۔‘ ‘  شاعر کی ذہنی  اور  نفسیاتی کیفیت نے  پورے  ماحول پر نشہ طاری کر دیا ہے، مستی  اور  دیوانگی سے  لمحہ لمحہ مسرّت حاصل ہو رہی ہے، جس طرف نظر جاتی ہے  ہر شے  خوبصورت  اور  دلکش نظر آتی ہے اور جب محبوب پر نظر پڑتی ہے  تو ’’میری رُوح  اور  میرے  وجود کے  ساتھی کا حسن  اور  نکھرا نظر آتا ہے۔‘ ‘  محبوب سے  گزارش کرتا ہے  کہ تم میرے  دوست بن جاؤ اس طرح کہ ہم دو نہ ہوں  ایک ہو جائیں۔ اس کے  جواب کے  بعد ’’من و تو‘ ‘  کی تقسیم ختم ہو گئی۔ اس غزل میں  لمسیاتی  اور  حسیاتی تاثر پارے  بڑے  پرکشش ہیں، نشے  کی کیفیت میں  وجد آفریں  ترّنم ہے  جو مصرعوں  کا ترّنم بھی بنا ہے۔ حسی فضا  اور  لہجے  کی دلکشی متاثر کرتی ہے۔ مولانا رومی کی غزلیں  مسلسل ہوتی ہیں اور ان کی حیثیت نظم کی ہو جاتی ہے،  اگر  ہم انھیں  مختصر نظم سمجھ کر پڑھیں  تو مجموعی تاثر جمالیاتی انبساط میں  اضافہ کرتا ہے۔ مولانا رومی کی غزل کا ڈکشن عام فارسی غزلوں  سے  مختلف ہے، یہاں  ایک ہی خیال  اور  ایک ہی تجربہ مختلف رنگین  اور  دلکش کڑیوں  میں  اُجاگر ہوتا رہتا ہے، کئی خیال ایک ہی تجربے  سے  بندھے  ہوتے  ہیں۔ مولانا کی یہ غزل خود اُن کے  اس شعر کی خوبصورت ڈرامائی تشریح لگتی ہے، کہتے  ہیں:

عشقِ شنگِ بے  قرار بے  سکوں

چوں  در آرد گلِ تن را درجنوں

یعنی شوخ، بے  چین  اور  بے  قرار عشق کس طرح سارے  بدن کو جنون میں  مبتلا کر دیتا ہے!

          دوسری غزل تحیر کے  جمال (Aesthetic of Wonder) کی ایک انتہائی خوبصورت مثال ہے۔ دنیا کی شاعری میں  ایسی تخلیق کی مثال شاید ہی کہیں  ملے، جمالیاتی حسیت (Aesthetic Sensibility)  اور  تخیل  اور  فینسی (Fancy) نے  ایک نہایت ہی خوبصورت تخلیق سامنے  رکھ دی ہے، یہ غزل عام روایتی انداز  اور  جانے  پہچانے  تجربے  سے  علاحدہ ہے۔ یہ اُس نگہ کا حسی جمالیاتی تجربہ ہے  جو آنکھوں  کے  اندر رہتی ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر کا یہ عجیب و غریب مشاہدہ  اور  جمالیاتی تجربہ ہے۔ میں  ایک سفر پر گیا لیکن اپنے  بغیر وہاں  مجھے  جو مسرّتیں  حاصل ہوئیں  وہ ’’اپنے  بغیر‘ ‘  میرے  محبوب نے  مجھے  آزاد کر دیا، میری روح کو آزاد کر دیا، میرا دوسرا جنم ہوا، ’’اپنے  بغیر‘ ‘  تمام دروازے  بند ہو گئے  لیکن اندر داخل ہو گیا ’’اپنے  بغیر‘ ‘  ۔۔۔ اس قسم کے  متحیر کر دینے  والے  تاثرات سامنے  آتے  رہتے  ہیں۔ آرٹ کی دنیا واقعی ’فکشن‘  ہوتی ہے، یہ پراسرار لمسیاتی  اور  حسیاتی تجربہ ایک پرکشش تجریدی افسانہ لگتا ہے۔ رُوح کی شیریں  دیوانگی کو جمالیاتی تجربہ بنا دینا آسان نہیں  ہوتا۔

          انسان اپنے  محبوب میں  جذب ہو جاتا ہے  اس کے  باوجود اپنے  وجود کے  تعلق سے  ایک ڈراما دیکھتا ہے۔ یہ جمالیاتی مشاہدہ (Aesthetic Observation) عشق  اور  اس کی تو انائی کی وجہ سے  ممکن ہو سکا۔ میں  وہاں  موجود نہیں  ہوں  لیکن میری زندگی کا عمل میرے  بغیر جاری ہے، اس منزل کے  جمالیاتی ارتعاشات (Vibrations) جو تاثر دیتے  ہیں  ان سے  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔۔۔ اس غزل کو پڑھتے  ہوئے  اندازہ ہوتا ہے  کہ فنکار کی ’سائیکی‘  نے  کیسی تخلیقی بیداری یا جاگرتی پیدا کر دی ہے۔ یہ غزل ایک تخلیقی اسرار (Creative Mystery) ہے۔ شاعر کی داخلی بیداری  اور  باطن کی ’’میلوڈی‘ ‘  کی وجہ سے  ایسی شاہکار تخلیقات وجود میں  آتی ہیں۔ اس غزل کی نغماتی صورت (Melodic Form) کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔ ایک راگ کی طرح اُٹھان ملتی ہے اور پھر ایک ایسی نغماتی صورت پیدا ہو جاتی ہے  کہ جس سے  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ ردیف کا آہنگ تحیر پیدا کرتا ہوا ایک حسی فضا کی تشکیل کر دیتا ہے۔ یہ غزل شاعر کی درون بینی  اور  تخیل نگاری کا ایک خوبصورت نمونہ ہے، جس کردار کا یہ ڈراما ہے  وہ وہاں  موجود نہیں  ہے  لیکن ڈراما ہو رہا ہے اور وہ کردار صرف اپنے  ڈرامے  کا مشاہدہ ہی نہیں  کر رہا بلکہ اپنے  جمالیاتی تجربوں اور مسرتوں  سے  لطف اندوز بھی ہو رہا ہے۔ رمز و کنایہ کی ایمائی قوت راگ کو تو انائی بخشتی ہے اور اس مختصر غزل کے  حسن  اور  تاثیر میں  اضافہ کرتی ہے۔ عبارت، اشارت  اور  ادا نے  اس غزل کو احساس  اور  جذبے  سے  بہت قریب کر دیا ہے۔ غزل میں  قطرے  میں  سمندر دیکھنے اور سورج کو ذرّے  میں  داخل دیکھنے  کی بات کہاں  ملتی ہے۔ یہ ’’خود بینائی‘ ‘  کا ایک انتہائی عمدہ جمالیاتی تجربہ ہے، مولانا رومی خود کہتے  ہیں  کہ ’’خود بینائی کا نور‘ ‘  دل کا نور ہے، بینائی کا نور دِلوں  کے  نور سے  حاصل ہوتا ہے:

نور نورِ چشم خود نورِ دل ست

نور چشم از نور دلہا حاصل ست

مندرجۂ ذیل غزل کا موضوع عشق ہے۔ یہ بھی انتہائی خوبصورت غزل ہے، موضوع دل کی دھڑکن بنا ہے اور دل کی دھڑکن سے  آہنگ پھوٹ پڑا ہے، لفظ  اور  خیال دونوں  کی ہم آہنگی نے  غزل کو ایک نغمہ، ایک رقص بنا دیا ہے، راگ کی ابتدا ہوئی ’’زہی عشق زہی عشق کہ ماراست خدایا‘ ‘   اور  دل کی حرکت (Beat)کے  ساتھ لفظوں  کے  خوبصورت آہنگ کی تھاپ (Beat)پڑنے  لگی۔ موسیقی میں  تال کی تقسیم ہوتی ہے  یا یہ کہئے  کہ تال موسیقی میں  وقت کی لمحاتی تقسیم ہے۔ یہاں  بھی لفظوں  کی موسیقی وقت کی لمحاتی تقسیم (تال) کے  تئیں  بیدار کر کے  جمالیاتی انبساط بخشتی ہے:

زہے  عشق زہے  عشق کہ ماراست خدایا

چہ تفرست و چہ خوبست و چہ زیباست خدایا

چہ گرمیم چہ گرمیم ازین عشق چو خورشید

چہ پنہان و چہ برہان و چہ پیداست خدایا

فتادیم فتادیم بد انسان کہ یخزیم

ندانیم ندانیم چہ غوغا ست خدایا

رہے  ماہ رہے  ماہ زہے  بادۂ حمرا

کہ مر جان و جہان را بیاراست خدایا

فروتاخت فروتاخت شہنشاہ سواران

زہے  گرد زہے  گرد کہ برخاست خدایا

چہ نقشست چہ نقشست براین صفحۂ دلہا

غیریبست غریبست زبالا ست خدایا

خمش باش خمش باش کہ تافاش نگردد

کہ اغیار گرفتست چپ و راست خدایا

از آن آب چنانست کہ ما چرخ زنانیم

نہ از کف و نہ از دفّ و نہ از ناستِ خدایا

نہ وامست نہ زنجیر ہمہ بستہ چرائیم

چہ بندست و چہ زنجیر کہ برپاست خدایا

یہاں  بھی پکے ّ گانوں  کی طرح لفظوں  کی تکرار کا حسن اُسی طرح نمایاں  ہے  کہ جس طرح پچھلی ایک غزل میں  نمایاں  تھا، اے  جانِ من اے  جانِ من سلطانِ من سلطانِ من اے  یارِ من ای یار من ای یارِ من۔ اس غزل میں  احساس  اور  جذبے اور لفظوں اور لفظوں  کی معنویت کی ہم آہنگی سے  ’تال‘   اور  اس کے  آہنگ کے  تئیں  بیداری پیدا ہوتی ہے:

          زہے  عشق زہے  عشق

          چہ گرمیم چہ گرمیم ازین عشق چو خورشید

          چہ پنہاں  و چہ برہان و چہ پیداست خدایا

          فتادیم فتادیم

          مذانیم مذانیم چہ غوغا ست خدایا

          زہے  ماہ زہے  ماہ زہے  بادۂ حمرا

          کہ مر جان و جہان را بیاراست خدایا

          فرو تاخت فرو تاخت شہنشاہ سوا ران

          زہے  گرد زہے  گرد کہ برخاست خدایا

          چہ نقشست چہ نقشست بر این صفحہ دلہا

          غریبست غریبست زبالاست خدایا

          خمش باش خمش باش کہ تاقاش نگرد

لفظوں  کی تکرار حسی کیفیت کی تکرار ہے۔ تکرار کا جمال پرکشش ہے، قاری کے  باطن میں  نغمہ ریز لہریں  پیدا ہونے  لگتی ہیں۔

          الوہی عشق کا نغمہ پورے  وجود کو سرور و انبساط بخش رہا ہے۔ یہ عشق نازک ہے، خوبصورت ہے، شفیق ہے، زبردست احساس ہے، زبردست جذبہ ہے، آفتاب کی مانند گرم ہے، جل رہا ہے، یہ پوشیدہ ہے، پراسرار ہے، ہم اس میں  ڈوب گئے  ہیں، نکلنا بہت کٹھن ہے۔ اس اُلجھی ہوئی پیچیدہ کیفیت کو جاننا مشکل ہے، دل کے  کینوس پر حیرت انگیز تصویر کھنچ گئی ہے، صراحی میں  جو نابِ عشق ہے  وہ ایک راز ہے، سب اسے  پینا چاہتے  ہیں۔ حیرت ہے  عشق نے  اتنی آزادی بخشی ہے  اس کے  باوجود یہ کیوں  محسوس ہوتا ہے  کہ ہم گرفتار ہیں؟ مولانا رومی لمسیاتی  اور  حسیاتی کیفیتوں  کے  بڑے  شاعر ہیں، حسی کیفیتوں  کی تکرار سے  جو آہنگ وجود میں  آتا ہے  وہی غزلوں  کی بنیاد بنتا ہے۔ مولانا کی غزلوں  کو پڑھتے  ہوئے  کبھی کبھی چھٹی  اور  ساتویں  عیسوی کے  ہندوستانی علمائے  جمالیات ڈنڈی (Dandi)  اور  بھامھ (Bhama)کی اس بات کی سچائی پر یقین آنے  لگتا ہے  کہ ’شبد‘  (الفاظ)میں  اتنی طاقت، اتنی تو انائی ہے  کہ وہ اپنے  حسن کے  ساتھ موضوع کو مرکز نگاہ بنا دیتے  ہیں۔ ’شبد‘  سے  جذبات کے  رنگ ظاہر ہوتے  ہیں۔ نویں  صدی کے  علمائے  جمالیات وامن (Vamana) اور  اُدبھٹ (Udabhatta) نے  اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ’شبد‘  تصویر بھی ہے اور آواز بھی، حسی تجربے  کا نقش بھی ہے اور کلام کا مفہوم بھی، حسی تصور جو صورت خلق کرتا ہے  اس کی تصویر شبد سے  اُجاگر ہوتی ہے۔ اس کے  آہنگ  اور  اس کے  رنگ سب اسی سے  اُبھرتے  ہیں۔

          مولانا رومی کی غزلوں  کا بنیادی مقصد جمالیاتی انبساط عطا کرنا ہے۔ ان کے  کلام سے  جمالیاتی انبساط کا جو تصوّر حاصل ہوتا ہے  وہ انتہائی ارفع  اور  جمیل تر ہے۔ (اسی تصوّر کو ہندوستانی جمالیات میں  ’آنند‘  کہا گیا ہے ) مولانا رومی کی جمالیات کانٹوں  کو پھول  اور  جسموں  کو جان بنا دیتی ہے:

خار را گل جسمہا را جاں  کند       (رومی)

شاعر کانٹوں  کو پھولوں  میں  تبدیل کر دیتا ہے اور جسموں  کو جان بنا دیتا ہے۔ اس طرح مسرّتِ سرمدی حاصل ہوتی ہے:

ای خداوند یکے  یار جفارش دہ

دلبر عشوہ گرد سرکش وخونخوارش دہ

چند روزی زیے  تجربہ بیمارش کن

با طبیباں  دغا پیشہ سرو کارش دہ

تابداند کہ شب ما بہ چساں  می گزرد

درد عشقش دہ و عشق دہ و بسیارش دہ

(مولانا رومی)

ان اشعار کا تیور ہی مختلف ہے، مفہوم یہ ہے۔۔۔۔ عاشق کہتا ہے  اے  خدا میرے  محبوب کو ایک ظالم، جفاکار دوست عنایت کر دے  جو ہر جائی ہو، فریبی ہو، جس کے  سینے  میں  دل نہ ہو، کچھ روز میرا محبوب درد سے  تڑپتا رہے، گھلتا جائے اور بے  وفا دھوکے  باز طبیبوں کے  زیر علاج رہے، پھر اس کے  دل میں  عشق کی آگ روشن کر دے، دل میں  عشق بھر دے اور عشق بھر دے اور عشق بھر دے  تاکہ اُسے  اچھی طرح احساس ہو کہ میں  اب تک راتیں  کس طرح بسر کرتا رہا ہوں۔

          اللہ سے  جو گزارش کی جا رہی ہے  وہ عاشق کے  عشق ہی کی ایک صورت ہے، بنیادی رس (Rasa)شرینگار رس(Sringara Rasa) ہی ہے،  ّ محبت  اور  عشق کا رس، دو وجود کے  ملاپ کی آرزو کا رس، یہاں  محسوس ہوتا ہے  عشق یکطرفہ ہے، وصل کی آرزو ہے  جو قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے۔ شرینگار رس نے  ایک اُمید دلا رکھی ہے، محبوب کو پا لینے  کی امید۔ عاشق کی بے  قراری غضب کی ہے، اس کی دیوانگی عروج پر ہے، جھنجھلایا ہوا ہے  اس حد تک کہ اللہ سے  کہتا ہے  کہ وہ محبوب کو دُکھ  اور  اذیت دے، شرینگار رس میں  کرون رس (Karuna Ras) شامل ہو گیا ہے۔ یہ المیہ  اور  دُکھ کا بھی رس ہے اور خفگی  اور  ناراضگی کا بھی رس۔ باطن میں  غم کا جذبہ ہے، محبوب کی چاہت  اور  ناکامی نے  غم کے  جذبے  کو کرون رس میں  تبدیل کر دیا ہے۔ ’کرون رس‘  میں  اُمید کی کرن بھی نظر آتی ہے، لہٰذا یہاں  بھی اُمید کی کرن موجود ہے، جہاں  محبوب کو اذیت میں  مبتلا دیکھنا چاہتا ہے  وہاں  یہ تمنّا بھی ہے  کہ وہ بھی عشق میں  مبتلا ہو جائے، اُسے  محسوس ہو کہ عشق کیا ہے، اس کی تڑپ کیسی ہوتی ہے  اس کی اذیت کیسی ہوتی ہے، ہجر کے  لمحے  کتنے  نوک دار  اور  زخمی کر نے  والے  ہوتے  ہیں، اللہ سے  ساتھ ہی یہ بھی دعا ہے  کہ محبوب کے  دل میں  عشق کی آگ روشن کر دے، کرون رس  اور  شرینگار رس دونوں  کی اتنی خوبصورت جمالیاتی آمیزش ہے  کہ مولانا رومی کی فنکاری اس آمیزش کی بھی ایک مثال بن جاتی ہے۔

          غزل میں  مکالمے  کی تکنیک سے  کیا کام لیا گیا ہے، غور فرمائیے:

گفتم شہابس قطرہ ہا در ہجر تو باریدہ اَم

گفتاچہ غم ہر قطرہ را من لولوئی مکنوں  کنم

گفتم شہا بسیار شب دیدہ نیا لودم بخواب

گفتا شبے  را صد شبے  در عمر تو افزوں  کنم

مفہوم یہ ہے، میں  نے  کہا اے  شہزادے  تیرے  ہجر میں  میں  نے  بہت آنسو بہائے، اُس نے  کہا تو اس میں  افسوس کی کیا بات ہے، تمھارے  آنسو کا ہر قطرہ قیمتی ہیرا بن جائے  گا، میں  نے  کہا اے  شہزادے  جانے  کتنی راتیں  میں  نے  جاگ کر بسر کی ہیں، اس نے  کہا ایسی ہر رات کے  لیے  جو تم نے  بسر کی ہے  تمھیں  سیکڑوں  راتیں  نصیب ہوں  گی۔

          ذرا شاعر کے  ’موڈ‘  پر غور کیجیے، ایک ہی ’موڈ‘  ہے  جس سے  یہ دلکش مکالمہ خلق ہوا ہے۔ براہِ راست گفتگو کا یہ خوبصورت منظر دلچسپ ہے۔ یہ منظر عاشق کے  درد کے  احساس کو جذب کیے  ہوئے  ہے۔ ان چار اشعار کی نغمگی عاشق کے  درد سے  پیدا ہوئی ہے۔ اظہار کا حسن ایک بڑے  تخلیقی فنکار کا کارنامہ ہے۔ مولانا رومی کا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے، محبوب کا انداز کچھ ایسا ہے:

آن خود دیدی فسونِ من ببیں

یعنی تو نے  اپنا منتر دیکھا (دکھایا!) اب میرا منتر دیکھ لے!

          وصل کے  لمحوں  میں  جو جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے  مولانا رومی نے  اسے  اس طرح پیش کیا ہے:

معشوقہ بہ ساماں  شد تا باد چنیں  بادا

کفرش ہمہ ایماں  شد تا باد چنیں  بادا

زاں  طلعتِ شاہانہ زاں  مشعلۂ خانہ

ہر گوشہ چو بستاں  شد تا باد چنیں  بادا

شب رفت و صبوح آمد غم رفت و فتوح آمد

خورشید درخشاں  شد تا باد چنیں  بادا

مفہوم یہ ہے  کہ وصل کے  لمحوں  میں  ہر جانب حسن بکھرا ہوا ہے، محبوب اپنے  حسن و جمال کے  ساتھ سامنے  ہے، پاس ہے، اللہ کرے  یہ لمحے  اسی طرح رہیں  ہمیشہ اسی طرح حسن و جمال کا یہ نظارہ قائم رہے، کفر مکمّل طور پر ایمان کی صورت اختیار کر گیا ہے، محبوب کا اس طرح پاس ہونا کہ وحدت پیدا ہو جائے  کفر کا ایمان میں  تبدیل ہو جانا ہے، اللہ کرے  یہ حالت ہمیشہ اسی طرح رہے، ہر جانب باغ کا منظر ہے، ہر جانب پھول ہی پھول ہیں، ہر گوشہ ایک خوبصورت گلستاں  میں  تبدیل ہو گیا ہے، اس کا سبب بس یہی ہے  کہ ارفع  اور  اعلیٰ برتر  اور  عظیم جلوہ اپنی تمام خوبصورتی کے  ساتھ موجود ہے، اس کی وجہ سے  میرا گھر روشن ہو گیا ہے، اللہ کرے  یہ حالت ہمیشہ اسی طرح قائم رہے۔ غم دُور ہو چکا ہے، غم نے  مسرتوں  کے  لیے  جگہ چھوڑ دی ہے۔ مسرتوں  نے  غم کی جگہ حاصل کر لی ہے، رات گزر چکی ہے، صبح ہو رہی ہے، دیکھو آفتاب کی درخشانی بھی اپنے  جلوے  کے  ساتھ جلوہ گر ہو گئی ہے۔ اللہ کرے  یہ حالت اسی طرح ہمیشہ قائم رہے، یہ لمحے  ہمیشہ اسی طرح رہیں۔

          یہ غزل اس طرح ہے:

معشوقہ بساماں  شد تا باد چنیں  بادا

کفرش ہمہ ایماں  شد تا باد چنیں  بادا

ملکی کہ پریشاں  شد از شومی شیطاں  شد

باز آنِ سلیماں  شد تا باد چنیں  بادا

یاری کہ دلم خستی در برزخ ما بستی

غمخوارۂ یاراں  شد تا باد چنیں  بادا

ہم بادہ جدا خوردی ہم عیش جدا کر دی

نک سردہ مستاں  شد تا باد چنیں  بادا

زاں  طلعت شاہانہ زاں  مشعلہ خانہ

ہر گوشہ چو میدان شد تا باد چنیں  بادا

زاں  خشم در و غینش زاں  شیوۂ شہر نیش

عالم شکر ستاں  شد تا باد چنیں  بادا

شب رفت و صبوح آمد غم رفت و فتوح آمد

خورشید درخشاں  شد تا باد چنیں  بادا

از دولتِ محزوماں  و زحمت مجنوناں

آں  سلسلہ جنباں  شد تا باد چنیں  بادا

عید آمد و عید آمد یاری کہ رمید آمد

عید از فراوان شد تا باد چنیں  بادا

اے  مطرب صاحب دل در زیر مکن منزل

کان زہرہ بمیزاں  شد تا باد چنیں  بادا

درویش فریدوں  شد ہم کیسۂ قاروں  شد

ہمکاسۂ سلطاں  شد تا باد چنیں  بادا

آں  باد ہوا را بین زا فسوں  لب شیریں

بانای در افغاں  شد تا باد چنیں  بادا

فرعون بداں  سختی بآنہمہ بد بختی

نک موسیٰ عمران شد تا باد چنیں  بادا

واں  گرگ بداں  زشتی با جہل و فرامشتی

نک یوسف کنعاں  شد تا باد چنیں  بادا

شمس الحق تبریزی از بسکہ در آمیزی

تبریز خراساں  شد تا باد چنیں  بادا

از اسلم شیطانی شد نفس تو ربّانی

ابلیس مسلماں  شد تا باد چنیں  بادا

آں  ماہ چو تاباں  شد کونین گلستاں  شد

اشخاص ہمہ جاں  شد تا باد چنیں  بادا

آں  اشعث نابینا بینا شدہ چوں  زرقا

نک عیسیٰ کوراں  شد تا باد چنیں  بادا

بر روح بر اقرو دی تا بود چنیں  بودی

فزّ تو فروزاں  شد تا باد چنیں  بادا

قہرش ہمہ رحمت شد زہرش ہمہ شربت شد

ابرش شکر افشاں  شد تاباد چنیں  بادا

از کاخ چہ رنگستش و ز شاخ چہ ننگستش

ایں  گاہ چو قرباں  شد تا باد چنیں  بادا

خاموش کہ سرمستم بر بست کسی دستم

اندیشہ پریشاں  شد تا باد چنیں  بادا

یہ مولانا رومی کی ایک نمائندہ غزل ہے۔

           مختلف ’موڈ‘   اور  مختلف جہتیں  ہیں۔

           محبوب کے  حسن و جمال کا بھی ذکر ہے اور وصل کے  لمحوں  کے  حاصل ہونے اور محبوب کی قربت کا بھی بیان ہے۔

           ماضی کے  لمحوں  کی یاد بھی ہے، کچھ تلخ یادیں  بھی ہیں، دل کو محبوب کے  رویے ّ سے  تکلیف پہنچی تھی  اور  اُس نے  عاشق کو دیکھتے  ہی دروازہ بند کر دیا تھا۔

          محبوب کے  چہرے  کی دمک سے  گھر میں  ہر جانب روشنی ہے۔

          رات کی جگہ صبح لے  رہی ہے، تمام غم دُور ہو گئے  ہیں، غم کی جگہ مسرتوں اور خوشبوؤں  نے  لے  لی ہے۔ شاعر وصل کا جشن منانا چاہتا ہے، محبوب کے  جلوے  کے  درمیان، پورے  ماحول کے  حسن و جمال کے  اندر، میٹھے  لذیذ ہونٹوں  کے  ساتھ اللہ کو محبوب کی صورت محسوس کر نے  لگتا ہے اور مختلف استعاروں  میں  اپنے  جذبات کا اظہار کر نے  لگتا ہے۔

          ایک عمدہ پیاری غزل ہے:

عجب آں  دلبر زیبا کجا شد

عجب آں  سرو خوش بالا کجا شد

میان ما چو شمعی نورمیداد

کجا شد ای عجب بی ماکجا شد

دلم چوں  برگ می لر زد شب و روز

کہ دلبر نیم شب تنہا کجا شد

برو از رہ بپرس از راہداراں

کہ آں  ہمراہ جان افزا کجاشد

در آ در باغ پرس از باغباناں

کہ آں  سلطان بی ہمتا کجا شد

برآبر بام پرس از پاسباناں

کہ آں  شاخِ گلِ رعنا کجا شد

چو دیوانہ ہمی گردم بصحرا

کہ آں  آہو دریں  صحرا کجا شد

دو چشمِ من چو جیحوں  شد زگریہ

کہ آں  گوہر دریں  دریا کجاشد

چو آں  ماست چوں  بادیگر انست

چو اینجا نیست اُو آنجا کجا شد

محبوب کی تلاش ہے، تلاشِ حسن و جمال ہے، محبوب کی تلاش تمام اشیا و عناصر کے  جلال و جمال کی تلاش ہے، وہ خوبصورت حسین پیکر کہاں  ہے؟ دلبرِ زیبا کہاں  ہے؟ عجب ہے  وہ پر وقار وجود کہاں  ہے؟ ابھی تو ایک روشن درخشاں  چراغ جل رہا تھا، کہاں  ہے؟ میرا دل لرز رہا ہے  کراہ رہا ہے، جس طرح کوئی پتہ لرزتا ہے، اسی طرح میرا دل کانپ رہا ہے، ابھی نصف شب گزری تھی کہ محبوب چلا گیا، کہاں؟ کہاں  چلا گیا؟ کہاں  ہے  وہ؟ راہگیروں  سے  دریافت کرو، رُوح کو انبساط و جمالیاتی آسودگی بخشنے  والا محبوب، میرا دوست کہاں  ہے، گلستاں  میں  باغباں  سے  دریافت کرو، میرے  دل کا بادشاہ جو اپنا ثانی نہیں  رکھتا، کہاں  ہے؟ پہرہ داروں  سے  دریافت کرو کہ گلاب کی خوبصورت ٹہنی کہاں  ہے، عاشق تلاشِ محبوب میں  دیوانہ ہو گیا ہے، ریگستانوں اور پہاڑوں  میں  دیوانہ وار گھوم گھوم کر محبوب کو تلاش کر رہا ہے، عاشق کی آنکھیں  آنسوؤں  سے  بھری ہوئی ہیں۔ آنسو کے  قطرے  دریا بن گئے  ہیں، اسی دریا میں  وہ قیمتی گوہر ہو گا، کہاں  ہے  وہ؟ وہ کہاں  چلا گیا؟

          محبوب کی تلاش پوری کائنات کے  حسن کی تلاش ہے، بے  قراری  اور  بے  چینی کی اس تصویر سے  ایک بہت ہی شیریں  دیوانگی کی پہچان ہوتی ہے۔ مولانا رومی کی غزلوں  کی تشریح کیجیے  تو سارا حسن جاتا رہے  گا۔ موضوع  اور  مفہوم کو کسی قدر سمجھا جا سکتا ہے، باقی پڑھنے، لطف اندوز ہونے اور لفظوں  کے  آہنگ  اور  مفہوم کی معنی خیز لہروں  سے  جمالیاتی انبساط پاتے  رہنے  کا معاملہ ہے، ان کی غزلوں  میں  رقص کی کیفیتیں اور نغمہ ریز جنبشیں  ہیں، اس غزل میں  بھی عشق بنیادی موضوع ہے اور اس کی تڑپ  اور  بے  چینی، اس کا اضطراب اپنے  آہنگ کو لیے  ایک حیرت انگیز فضا کی تشکیل کر رہا ہے۔تحیر کا حسن متا  ّثر کرتا ہے، خوبصورت نکتہ یہ ہے  کہ محبوب عاشق کے  آنسوؤں  کے  سمندر یا دریا میں  قیمتی گوہر کی مانند ہے، یہ سمندر یا دریا آنسوؤں  کی یہ موجیں  باطن میں  ہیں اور یہ قیمتی گوہر باطن کے  ان ہی موجوں  میں  ہے۔۔۔ عاشق کے  دل ہی میں  یہ گوہر چھپا ہوا ہے!

          موسیقی  اور  ’میلوڈی‘  سے  مولانا رومی کے  کان خوب آشنا ہیں۔ یہ واقعہ ہے  کہ ایک صبح مولانا رومی صلاح الدین زرکوب کی دکان کے  پاس سے  گزرے، صلاح الدین زرکوب چاندی کے  ورق کوٹ رہے  تھے، ان کے  ہتھوڑے  کی آواز مولانا کے  لیے  ایک ’میلوڈی‘  بن گئی، دُکان کے  سامنے  ہی کھڑے  رہے، ان پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، کہا جاتا ہے  صلاح الدین زرکوبی نے  اپنا پیشہ ترک کر دیا  اور  مولانا رومی کے  دوست ساتھی بن گئے۔ یہ سلسلہ نو برسوں  تک قائم رہا، ۶۶۲ھ میں  صلاح الدین زرکوب کا انتقال ہو گیا تو مولانا پر قیامت سی ٹوٹ پڑی۔ اپنے  حبیب کے  متعلق مولانا نے  کہا تھا:

یکے  گنجے  پدید آمد ازیں  دُکان زرکوبی

زہے  صورت زہے  معنی زہے  خوبی زہے  خوبی

یعنی مجھے  اس زرکوبی کے  دُکان سے  ایک گنجینہ، ایک خزانہ حاصل ہو گیا۔ عجیب صورت، عجیب معنی، عجیب خوبی، عجب خوبی۔ مولانا کے  کان موسیقی  اور  میلوڈی سے  آشنا تھے، جس طرح صلاح الدین زرکوب کے  ہتھوڑے  کی آواز سے  الفاظ اسی آہنگ کے  ساتھ اُبلنے  لگے  تھے  اُسی طرح کئی  اور  تخلیقات میں  آہنگ کے  زیر و بم کی کیفیت ملتی ہے اور اسی کیفیت کے  مطابق الفاظ ملتے  ہیں، مثلاً:

ہر لحظہ بشکل بت عیار برآمد

دل بر دونہاں  شد

ہر دم بلباسی دگر آں  یار برآمد

کہ پیر و جواں  شد

خود کوزہ و خود گوزہ گر و خود گل کوزہ

خود رند سبوکش

خود بر سرِ آں  کوزہ خریدار بر آمد

بشکست و رواں  شد

خود گشت صراحی و مے  ساغر و ساقی

خود بزم نیش شد

خورد آں  می و سرست ببازار بر آمد

شورِ دل و جاں  شد

رومی سخنی گفت و نگفتہ است و نگوید

کس در ہمہ عالم

مردود شدہ آں  کہ بہ انکار برآمد

مردود جہاں  شد!

مولانا رومی کے  نزدیک زندگی کی ابتدا بھی عشق ہے، انتہا بھی عشق  اور  اختتام بھی عشق۔ عشق ہی سے  ہر مرض کا علاج ممکن ہے۔ جب بھی عشق کے  تجربے  پیش کرتے  ہیں، محسوس ہوتا ہے  کہ تجربوں  کی ’میلوڈی‘  ساتھ موجود ہے۔ موسیقی کے  آہنگ سے  تجربے  رقص کرتے  ہوئے  سامنے  آ رہے  ہیں۔ یہاں  تال، آہنگ  اور  جذبے  کے  ریر و بم پر نظر رکھئے  تو ایک عجیب جمالیاتی انبساط ملے  گا۔ الفاظ کی تکرار سے  تال، آہنگ  اور  جذبے  کے  زیر و بم سے  جمالیاتی لطف حاصل ہوتا ہے، مثلاً مندرجۂ ذیل غزل میں  ’توئی‘  کی تکرار ملاحظہ فرمائیے:

یار مرا غار مرا عشقِ جگر خوار مرا

یار توئی غار توئی خواجہ نگہدار مرا

نوح توئی رُوح توئی فاتح و مفتوح توئی

سینۂ مشروح توئی پردۂ اسرار مرا

نور توئی سور توئی دولتِ منصور توئی

مرغ کہ طور توئی خستہ بمنقار مرا

قطرہ توئی بحر توئی لطف توئی قہر توئی

قند توئی زہر توئی بیش میازار مرا

گفتمش ای جان جہاں  مفلس و بے  مایہ شدم

گفت منم مایۂ تو نیک نگہدار مرا

روز توئی روزہ توئی حاصلِ دریوزہ توئی

آب توئی کوزہ توئی آب دہ ای یار مرا

دانہ توئی دام توئی بادہ توئی جام توئی

پختہ توئی خام توئی خام بگزار مرا

خواند مرا خواند مرا گفت بیاگفت بیا

میروم ای و ای بمن گرندبد بار مرا

شمس شکر ریز توئی مفخر تبریز توئی

لخلخہ آمیز توئی خواجۂ عطاّر مرا

اسی طرح اس غزل میں  ’’بمیرید‘ ‘  کی تکرار کے  آہنگ سے  ایک سماں  بندھ جاتا ہے، جاؤ مر جاؤ، جاؤ مر جاؤ اس عشق کے  لیے  جاؤ مر جاؤ، موت سے  خوف زدہ نہ ہو، جب اس مٹّی میں  تم جاؤ گے  تو تمھاری رُوح بڑی بلندیوں  پر پرواز کرے  گی، جاؤ مر جاؤ، عشق کے  لیے  مر جاؤ:

بمیرید بمیرید دریں  عشق بمیرید

دریں  عشق چو میرید ہمہ رُوح پذیرید

بمیرید بمیرید ازیں  مرگ مترسید

ازیں  خاک بر آئید و سمٰوٰت بگیرید

بمیرید بمیرید ازیں  نفس بمیرید

کہ ایں  نفس چو بند است و شمار ہمچو اسیرید

یکی تیشہ بگیرید پی حفرۂ زنداں

چو زنداں  بشکستہ ہمہ شاہ و امیرید

بمیرید بمیرید بہ پیش شہ زیبا

بر شاہ چو مروید ہمہ میرو وزیرید

بمیرید بمیرید ازیں  ابر برآئید

چو زیں  ابر برآئید ہمہ بدر منیرید

خموشید خموشید خموشی دم مرگست

ہمہ زندگی آنست کہ خاموش نفیرید

اس غزل میں  ’’امروز‘ ‘  کی تکرار سے  ایک فضا بن گئی ہے، میخانے  کا ماحول  اور  نشے  کی کیفیت ساقی، شراب، دعوت، صراحی، جام، مسکراہٹیں،  ّمسرتیں، الوہی شراب  اور  اس شراب کا مدہوش کر دینے  والا نشہ۔۔۔ دیکھئے  ایسے  میخانے  کی فضا، امروز کی صوتی تکرار نے  پورے  میخانے اور پورے  وجود میں  کیسا آہنگ پیدا کر دیا ہے، یہ آواز اُس میخانے  میں  گونج رہی ہے  کہ جہاں  الوہی شراب کا عجیب و غریب نشہ طاری ہے:

امروز نشستیم چو رنداں  بخرابات

امروز نداریم سر زہد و مناجات

امروز چہ گوئیم چہ بزمست و چہ بادہ

امروز چہ ساقی ہمہ لطفت و مراعات

امروز زہجراں  نہ اثر ماند و نہ بوئی

امروز ز دلدار وصالست و ملاقات

امروز عطاہا و نواہاست زساقی

امروز قدحہا و فرحہا و شرابات

امروز ندانیم زمستی سحر از شام

امروز ز اوقات گذشتیم و زساعات

امروز ہمہ مشغلہ و فتنہ و سوزیم

امروز ہیا ہوست دریں  مجلسِ ہیہات

از خویش برستیم و ہمہ بادہ پرستیم

جز دیدن ساقی برمانیست کرامات

شمس الحق تبریز صلا داد حریفاں

پر بادۂ توحید نہ از کاس خرافات

مولانا رومی کی غزلوں  کی جمالیات میں  تکرار کے  حسن  اور  لفظوں اور تجربوں  کی وحدت کی ’میلوڈی‘  (Melody)کو نمایاں  حیثیت حاصل ہے۔

          مولانا جلال الدین رومی فارسی شعریات میں  ایک بڑے  مظاہر (Phenomenon) ہیں  جو دنیا کی بوطیقا میں  ایک ممتاز درجہ رکھتے  ہیں، ان کی شعری کائنات بہت وسیع، بہت گہری  اور  تہہ دار ہے۔ ان کی جمالیات مختلف قسم کے  رسوں  کی لذّتوں  سے  آشنا کرتی ہے۔ ان کا تفکر اس جمالیات میں  پگھل گیا ہے اور شدید ذاتی تاثرات کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ خصوصاً غزلوں  میں  پراسرار کیفیتوں  کی جلوہ گری نظر آتی ہے، ان کی غزلوں  کی جذباتی حسی کیفیتیں  اکثر تحیر پیدا کرتی ہیں، خارجی تجربوں  کا اظہار کرتے  کرتے  مولانا رومی اچانک باطن میں  اُتر جاتے  ہیں اور انتہائی بلیغ اشارے  کر نے  لگتے  ہیں۔ آہنگ بھی اچانک تبدیل ہو جاتا ہے  اس کے  باوجود کسی طرح کی پیچیدگی پیدا نہیں  ہوتی، ہم اشعار کی گہری معنویت، فنّی لطافت  اور  نغمگی سے  متاثر ہونے  لگتے  ہیں۔ مولانا کی ایک مشہور غزل ہے  ’’بہار آمد بہار آمد بہارِ خوش عذار آمد/ خوش و سرسبز شد عالم او انِ لالہ زار آمد‘ ‘  اس کا مطالعہ کیجیے  تو بہار  اور  اس کے  جلو وں اور اس کی خوبصورتی سے  شاعر کا ذہن گہرے  طور پر وابستہ نظر آئے  گا۔ شاعر کے  جذبوں  میں  بہار کے  گلوں  کے  رنگ نظر آئیں  گے  لیکن آخر میں  ساتھ ہی ایک رُوحانی سرشاری کا احساس ملے  گا۔ شاعر کے  خلاّق ذہن نے  فطرت کے  جلال و جمال کے  تعلق سے  نکتہ آفرینیاں  کی ہیں، نیچر کے  حسن کو اس کے  جمالیاتی شعور نے  گرفت میں  لینے  کی کوشش کی ہے، مولانا کا حکیمانہ مزاج غیر معمولی نوعیت کا ہے، جمالیاتی فکر  اور  جذبے اور حسیات  اور  ذہنی کیفیات میں  جذب ہو کر ان ہی کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ اس غزل میں  مولانا نے  جو پیکر  اور  استعارے  پیش کیے  ہیں  وہ اپنی زندگی  اور  تازگی  اور  روشنی کا احساس دلاتے  ہیں، اس غزل سے  بھی قاری کے  احساس و شعور میں  تازگی  اور  بیداری پیدا ہوتی ہے۔ پوری غزل کے  متعلق یہ کہا جا سکتا ہے  کہ یہ ایک انتہائی پرکشش جمالیاتی تجربہ ہے۔ غزل ملاحظہ فرمائیے:

بہار آمد بہار آمد بہارِ خوش عذار آمد

خوش و سرسبز شد عالم او ان لالہ زار آمد

زسوسن بشنوای ریحاں  کہ سوسن و ہ زباں  دارد

بدشت آب و گل بنگر کہ پرنقش و نگار آمد

گل از نسریں  ہمی پرسد کہ چونِ بودی دریں  غربت

ہمی گوید خوشم زیرا خوشیہازان و بار آمد

سمن با سرومی گوید کہ مستانہ ہمی رقصی

بگوشش سرومی گوید کہ یار بردبار آمد

ہمی زد چشمک آں  نرگس بسوی گل کہ خندانے

بلی گفتا کہ خندانم کہ یارم درکنار آمد

صنوبر گفت راہ سخت آسان شد بفضل شہ

کہ ہر برگی کہ سربرز و چو تیغ آبدار آمد

شقایق زیب گلشن شد حقائق جملہ روشن شد

گلِ رعنا ازیں  شادی ہمہ تن درنثار آمد

فراواں  شد دریں  مجلس ریا حسن و گل ونرگس

از آنچہ بود ہر باری شگوفہ صد ہزار آمد

زشمس الدین تبریزی رسد بادہ نبوروزی

کہ ہر قطرہ از آں  جرعہ چو در شا ہوار آمد

بہار آئی ہے اور ہر جانب حسن نکھر گیا ہے، ساری دنیا سبزہ زار بنی ہوئی ہے، سبزے  میں  کتنی تازگی ہے۔ ریحان نے  مستانہ وار سر اُٹھا رکھا ہے، سوسن کی میٹھی زبان کیا کہہ رہی ہے، ذرا سنو۔ پانی کی لہروں  کو دیکھو، ان کا مشاہدہ کرو، دیکھو ماحول میں  رنگ کس طرح تبدیل ہو رہے  ہیں۔ کیسے  کیسے  رنگ سامنے  آ رہے  ہیں، پھولوں  کا اپنا نشہ ہے، وہ بھی  مسرتوں  کا راز سمجھنا چاہتے  ہیں۔ سمن نے  سرو سے  دریافت کیا کہ تم اس طرح مستانہ وار رقص کیوں  کر رہے  ہو؟ تم پر نشہ طاری ہو گیا ہے! اس غزل میں  مختلف قسم کے  پھول کردار بنے  ہوئے  ہیں۔ بہار کے  آتے  ہی اُن میں  نئی زندگی آ گئی ہے  ان میں  نیا تحرّک پیدا ہو گیا ہے۔۔۔  اور  آخر میں  مولانا رومی کا حکیمانہ مزاج احساسِ جمال کو اس طرح پیش کرتا ہے:

زشمس الدین تبریزی رسد بادہ بنو روزی

کہ ہر قطرہ از آں  جرعہ چو در شا ہوار آمد!

          مولانا رومی کی غزلیں  مثلاً ’’عشق ہی حاکم ہے‘ ‘  ، ’’تم میری جاں  کے  قریب رہو‘ ‘  ، ’’آگ سے  عاشق کا گھر روشن ہوتا ہے‘ ‘  ، ’’اے  محبوب میری رُوح آزاد کر دے‘ ‘  ، ’’شب میں  جو نیا تارا دیکھا اسے  اپنا پیامبر بنا دیا‘ ‘  ، ’’صبح کی مسرتیں  تیرے  تین بوسے‘ ‘  ، ’’آج کی شب، شب وصل ہے‘ ‘  ، ’’عشق تانبے  کو سونا بنا دیتا ہے‘ ‘  ، ’’اے  آفتاب ایک بار پھر میرے  گھر کو روشن کر دے‘ ‘  ، ’’رُوح کی طاقتِ پرواز کیوں  نہ ہو جب اللہ کے  جلوے  کی رحمت ہو‘ ‘  وغیرہ فارسی کی خوبصورت غزلیں  ہیں۔ ان کے  شعری تجربات و مشاہدات ہمہ گیر ہیں۔ ان میں  بڑی گہرائی ہے۔ غزل پڑھتے  ہوئے  شاعر کے  باطن کے  تموّج کا اندازہ ہوتا ہے۔ حسنِ حقیقی کا احساس غیر معمولی ہے، اس احساس میں  جو لذتیت ہے  اس کا اظہار کھل کر ہوا ہے۔ اسی طرح شبِ وصل کی لذتیت بھی متاثر کرتی ہے، محبوب  اور  عشق بنیادی موضوعات ہیں، ان میں  سے  کوئی بھی موضوع سامنے  آیا شاعر کا والہانہ انداز متاّثر کر نے  لگا۔ غزلوں  کی نغمگی غیر معمولی ہے، مولانا رومی حسیات کے  بہت بڑے  شاعر ہیں۔ ان کی حکیمانہ فکر بھی حسیات میں  جذب ہے، لفظوں، استعاروں اور تشبیہوں  کی تازگی  اور  صفائی  اور  نفاست و پرکاری کا انحصار حسیات پر ہے، والہانہ کیفیت پیدا ہوتی ہے  لفظ، استعارے اور پیکر متحرّک ہو جاتے  ہیں۔ شبِ وصل  اور  بوسوں  وغیرہ کے  ذکر میں  بڑی حلاوت  اور  تابناکی ہے  جس سے  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ مولانا رومی کی غزلوں  کو پڑھتے  ہوئے  آپ کو محسوس ہوا ہو گا کہ  اگر چہ وہ غزل کو اشاروں  کا فن تصوّر کرتے  ہیں  اس کے  باوجود خیال  اور  تجربے  کے  تسلسل کو پسند کرتے  ہیں۔ اکثر خیال  اور  تجربہ پوری غزل میں  مکمل ہوتا ہے۔ غزل کی رمزیت  اور  ایمائیت کے  وہ ایک بڑے  فنکار ہیں، کبھی کبھی تصویر ہلکی نظر آتی ہے  لیکن حقیقت یہ ہے  کہ اس کے  اندر لکیریں  بڑی معنی خیز  اور  رنگ بہت گہرے  ہوتے  ہیں۔ مولانا رومی بڑے  پرگو شاعر ہیں۔ مثنوی  اور  غزلیات کے  مطالعے  میں  اس خلاّق ذہن کی جمالیات، جذباتی کائنات کی پہچان ہوتی ہے، تجربے  انتہائی پختہ  اور  شاداب ہیں، شاعر کی جمالیاتی بصیرت شدّت سے  متاثر کرتی ہے۔ مندرجۂ ذیل اشعار سے  مولانا رومی کی جمالیات کی بعض  اور  خوبصورت جہتوں  کی پہچان ہو گی:

عشق ست در آسماں  پریدن

صد پردہ بہر نفس دریدن

اوّل نفس از نفس گستن

آخر قدم از قدم بریدن

زاں  سوئے  نظر نظارہ کر دن

در کوچۂ مینہا دریدن

 

اے  عاشقاں  اے  عاشقاں  ہنگام کوچست از جہاں

در گوش جانم میرسد طبل رحیل از آسماں

نک سارباں  بر خاستہ قطا رہا آراستہ

از ما حلالی خواستہ چہ خفتہ اید اے  کارواں

اے  دل سوئے  دلدار شو اے  یار سوئے  یار شو

اے  پاسباں  بیدار شو خفتہ نشاید پاسباں

ہر سوئے  بانگ و مشغلہ ہر کوئے  شمع و مشعلہ

کاشب جہانِ حاملہ زاید جہانِ جاوداں

 

ہر نفس آواز عشق می رسد از چپ و راست

ما بہ فلک می رویم عزم تما شا کراست

ما بہ فلک بودہ ایم یار ملک بودہ ایم

بازہما نجا رویم خواجہ کہ آں  شہر ماست

خود ز فلک بر تریم و ز ملک افزوں  تریم

زیں  دو چرا نگزریم منزل ما کبریاست

عالم خاک از کجا گوہر پاک از کجا

گرچہ فردو آمدیم باز رویم ایں  چہ جاست

بخت جواں  یار مادادن جاں  کارِ ما

قافکہ سالار ما فخر جہاں  مصطفی ست

 

صورت گر نقاشم ہر لحظہ بنی سازم

وانگہ ہمہ بتہا را درو پیش تو اندازم

صد نقش بر انگیزم با روح در آمیزم

چوں  نقش ترا بینم در آتشش اندازم

تو ساقی خماری یا دشمن ہشیاری

یا آنکہ کنی ویراں  ہر خانہ کہ بر سازم

جاں  ریختہ شد باتو آمیختہ شد باتو

چوں  بوئی تو دارد جاں  جاں  را ہلہ بنو ازم

ہر خوں  کہ زمن روید باخاک تو میگوید

با مہر تو ہمرنگم باعشق تو انبازم

در خانۂ آب و گل بے  تست خراب ایں  دل

یا خانہ در آ ای جاں  با خانہ بپردازم

 

کناری ندارد بیابان ما

قراری ندارد دل و جان ما

جہاں  در جہاں  نقش صورت گرفت

کہ است ازیں  نقش ہا آن ما

چو در راہ بینی بریدہ سری

کہ غلطاں  رود سویٔ میدانِ ما

از و پرس از و پرس اسرارِ دل

کزو بشنوی  ّسرِ پنہان ما

چہ بودی کہ یک گوش پیدا شدہ

حریفِ زباں  ہائی مرغان ما

چہ بودی کہ یک مرغپراں  شدہ

بد و طوق سر سلیمان ما

چہ گویم چہ دانم کہ زیں  داستاں

فز و نست از حد و امکان ما

 

گر بدیں  زاری تو بودی عشق من ہر زماں

بر دلت بخشید می و بوسۂ بخشید می

ور تو بودی ہمچو من ثابت قدم در راہِ عشق

بر تو ہر گز چوں  تو برمن دیگری نگزیدمی

گرچہ برجور و جفائی تو مرا قدرت بدی

یاد ز خلقم شرم بودی یا ز حق ترسیدمی

 

ما دل اندر راہ جہاں  انداختیم

غلغلے  اندر جہاں  انداختیم

ما ز قرآں  بر گزیدیم مغز را

پیوست را پیش سکاں  انداختیم

جبہ و دستار و علم و قیل و قال

حجلہ در آب رواں  انداختیم

از کمانِ شوق تیر معرفت

راست کردہ بر نشاں  انداختیم

 

آں  رُوح را کہ عشق حقیقی شعار نیست

نابودہ بہ کہ بودن او غیر عار نیست

در عشق مست باش کہ عشق است ہر چہ ہست

بے  کار و بار عشق بر یار بار نیست

عشق است و عاشق است کہ باقیست تا ابد

دل جز بریں  منہ کہ  بجز مستعار نیست

تاکے  کنار گیری معشوق مردہ را

جاں  را کنار گیر کہ اور  اکنار نیست

نظارہ گر مباش دریں  راہ منتظر

واللہ کہ ہیچ مرگ بترز انتظار نیست

          تمام اشعار میں  عشق بنیادی جذبہ ہے، عشق وجود کا جوہر ہے، پہلے  تین اشعار میں  (عشق است در آسماں  پریدن) عشق آسمان کی جانب پرواز کرتا ہے، یہ اس کی فطرت ہے  یہ اس کی زبردست تو انائی کا تقاضا ہے۔ یہ ہر نفس، ہر لمحہ سیکڑوں  پردوں  کو چاک کر دیتا ہے  ٹکڑے  ٹکڑے  کر دیتا ہے۔ پہلے  ہی لمحے  میں  کاروباری زندگی سے  قطع تعلق کر لیتا ہے اور اس کا آخری قدم پاؤں  کے  بغیر ہوتا ہے۔ مولانا رومی عشق کی قدر و قیمت سمجھاتے  ہوئے  یہ کہنا چاہتے  ہیں  کہ اپنی آنکھوں  سے  کہیں  آگے  دیکھنے  کی ضرورت ہے، ایسی نگہ پیدا کر نے  کی ضرورت ہے  کہ جس سے  عشق کی پرواز  اور  اس کی منزل نظر آ جائے، عشق تو چھاتی کے  اندر گھس جاتا ہے۔ مولانا رومی کا جذبۂ عشق اپنی اُٹھان پرواز، حد درجہ تحرّک کا نقش ذہن پر قائم کر دیتا ہے، عشق پر گفتگو کرتے  ہیں  تو ایک عجیب سرمستی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں  یہ بتانا چاہا ہے  کہ عشق کیا ہے، اس کی بے  پناہ تو انائی  اور  برقی قوّت کا احساس بالیدہ کیا ہے۔

          دوسرے  چار اشعار میں  (اے  عاشقاں  اے  عاشق! ہنگام کو چست از جہاں ) میں  شاعر نے  انسان کے  وجود کو لامحدود کہا ہے، وہی تخلیق کا مرکز ہے، وہی ابدیت حاصل کرتا ہے، یہ سب عشق کا کرشمہ ہے، اے  محبوبو! اے  محبوبو! دُنیا سے  قطع تعلق کر نے  کا وقت آ گیا ہے۔ رخصتی کا نقاّرہ بج رہا ہے، اسی نقاّرے  کی آواز رُوح کی گہرائیوں  میں  اُترتی جا رہی ہے۔ ساربان، اُونٹوں  کے  کارواں اور مسافر وغیرہ سے  عشق کے  سفر کو سمجھانے  کی کوشش کی ہے۔ کہتے  ہیں  ’’کاشب جہاں  حاملہ زاید جہاں  جادواں۔‘ ‘  آ!ج کی شب یہ دُنیا ایک ایسی دُنیا کو جنم دے  رہی ہے  کہ جس کا کوئی اختتام نہیں  ہے۔

          تیسرے  پانچ اشعار میں  (ہر نفس آوازِ عشق می رسد از چپ وراست) بھی عشق  اور 

   محبت کی آواز کا ذکر ہے، ہر لمحہ عشق کی آواز آ رہی ہے، ہر جانب سے  اس کی آواز سنائی دے  رہی ہے، انسان کو آسمان کی جانب پرواز تو کرنا ہی ہے۔ یہ عشق کے  تحرک کا تقاضا ہے۔ یہ دراصل اپنے  مقام کی جانب واپسی ہے۔ ہم آسمان سے  بلند  اور  فرشتوں  سے  بہت اوپر ہیں۔ انسان کو دونوں  سے  آگے  جانا ہے، آسمان سے  بھی  اور  فرشتوں  سے  بھی، اس کی منزلِ مقصود کبریا ہے، نئی خوبصورت قسمت دوست ہے، عشق ایک نئی دُنیا سے  آشنا کرے  گا، ہمارے  رہنما حضرت مصطفیؐ ہیں  جو فخرِ جہاں  ہیں۔ خاکِ عالم  اور  ہے  گوہر پاک کچھ  اور  ، گوہر پاک خالص جوہر ہے،  اگر چہ ہم نیچے  آئے  ہیں، اب ہمیں  واپس جانا ہے، منزلِ مقصود کی جانب! غزل میں  عشق کا جوہر روشن ہے، خیال کے  پیش نظر مختلف آہنگ رکھنے  والے  الفاظ ہیں  کہ جن سے  عشق کا نغمہ  اور  پرکشش بن گیا ہے۔ ایسی تمام غزلوں  میں  کہ جن میں  عشق کا آہنگ ہے  تجربہ  اور  لفظ کی موسیقی موجود ہے۔ مولانا رومی کی غزلوں  کی جمالیات نے  نازک  اور  لطیف خیالات  اور  چمکتے  ہوئے  روشن لفظوں  کی ایک دُنیا عطا کی ہے۔ سعدی شیرازی نے  اس غزل کو فارسی شاعری کی سب سے  ممتاز غزل کہا ہے۔

          چوتھے  چھ اشعار میں  (صورت گر نقاشم ہر لحظہ بنی سازم) بھی عشق مرکزی جذبہ  اور  احساس ہے۔ محبوب میں  رُوح جذب ہو جاتی ہے، گھل جاتی ہے، پھر بھی رُوح کی خوشبو موجود رہتی ہے۔ اس لیے  کہ اس میں  محبوب کی خوشبو جذب ہوتی ہے، میرے  وجود کا ہر قطرہ مٹّی سے  کہتا ہے  دیکھ میرا ایک ہی رنگ ہے، میں  تیری  محبت کا ساتھی ہوں۔ اس آب و خاک کے  گھر میں  دل تیرے  بغیر سنسان ہو گیا۔ اے  محبوب آ جا میرے  گھر کے  اندر ورنہ میں  چلا جاؤں  گا۔ ایک مصوّر ہوں، تصویریں  بناتا ہوں، ہر لمحہ ایک خوبصورت تصویر بناتا ہوں اور تیری موجودگی میں  اسے  پگھلا دیتا ہوں۔ جب میں  نے  تجھے  دیکھا میں  نے  تمام پیکروں  کو نذر آتش کر دیا۔ عشق نے  عاشق کو حد درجہ حساس بنا دیا ہے۔ مولانا رومی بڑی سادگی  اور  صفائی سے  ایسی گہری باتیں  کہہ جاتے  ہیں، احساسات بہت نازک ہیں، تمام عشقیہ غزلوں  میں  شاعر یا عاشق کی انفرادی کیفیات کو سب سے  زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ تخلیقی فنکار کی پیچیدہ مرّکب بصیرت اشعار کے  اندر روشنی پیدا کرتی رہتی ہے  جس کی وجہ سے  جمالیاتی سچائی کو سمجھنے  میں  کوئی دُشواری نہیں  ہوتی۔

          پانچویں  سات اشعار میں  (کناری ندارد بیابان ما) شاعر نے  غزل کے  رموز کو بھی موضوع بنایا ہے اور پوشیدہ اسرار کی جانب بھی اشارہ کیا ہے، کہتے  ہیں  کہ میرے  بیاباں  کی کوئی حد ہی نہیں  ہے، لامحدود ہے، دل  اور  رُوح کو سکون نہیں، جہاں  درجہاں  کے  نقوش نے  صورتیں  اختیار کر لی ہیں، ان میں  کون سی صورتیں  ہماری ہیں؟  اگر  تم راہ پر کٹے  سر کو دیکھو جو ہماری جانب لڑھکتا ہوا آ رہا ہو تو اس سے  دریافت کرو کہ دل میں  کون سے  راز چھپے  ہوئے  ہیں اور دل میں  کیسے  کیسے  اسرار پوشیدہ ہیں۔ اس طرح اسرارِ دل کا پتہ چل جائے  گا۔ مولانا نے  رُوح کی پرواز کی بات کرتے  ہوئے  حضرت سلیمانؑ کے  اسرار کا بھی ذکر کیا ہے۔ معرفت کا ایک سانچا تو موجود ہے  لیکن تجربوں  کا جمال ہی قاری کو متا  ّثر کرتا ہے۔ مولانا رومی کی غزلوں  کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے  کہ ان میں  مجسّم احساسات و جذبات کی دل چھولینے  والی کیفیتیں  ملتی ہیں۔ غزلیں  سادگی کا حسن بھی رکھتی ہیں اور رنگا رنگ تجربے  بھی۔ مولانا کی بصیرت کی لطافت غیر معمولی اثر پیدا کرتی ہے۔

          چھٹے  تین اشعار میں  (گربدیں  زاری تو بودی عشق من ہر زماں ) مولانا رومی کا احساسِ جمال شدّت سے  متا  ّثر کرتا ہے۔ عاشق کہتا ہے   اگر  وہ محبوب ہوتا تو ہر گز اس کا برتاؤ ایسا نہ ہوتا کہ جیسا محبوب کا ہے۔ وہ بڑا ذمہ دار ہوتا۔ اپنی خواہش کے  ساتھ بوسے  دیتا، بوسے  دینے  میں  ذرّہ برابر جھجک نہیں  ہوتی، اپنی وفاداری کا ہمیشہ ثبوت دیتا۔  اگر  تم میری طرح

  محبت کرتے، خود کو میرے  سپرد کر دیتے  تو تمھاری تمام خطاؤں  کو معاف کر چکا ہوتا  اور  تمھیں  بوسے  دیتا،  اگر  تم صرف مجھ سے   محبت کرتے، تو میں  ہر گز کسی  اور  کی جانب نہیں  دیکھتا (جیسا کہ تم نے  کیا ہے ) مجھ میں  طاقت ہوتی تو تمھاری طرح ظلم نہیں  کرتا۔ مولانا رومی کی غزلوں  کی جمالیات محبوب  اور  کائنات کے  حسن کو سمیٹے  ہوئے  کائنات سے  پرے  حسن کے  عظیم تر واحد سرچشمے  کی جانب پرواز کرتی ہے۔ غزلوں  کی تازگی  اور  لمسیاتی کیفیتیں  ہمیشہ زندہ رہنے  والی ہیں۔ یہ نازک خیالات جذبے  کی موزونیت یا ہار مونی (Harmony) تخلیقی تخیل کی اُٹھان، رومانیت کی گہرائی، مختلف جذبوں  کے  خوبصورت رنگوں اور دلکش ’میلوڈی‘  کی غزلیں  جن کا اثر براہِ راست دل پر ہوتا ہے، یہ جلال و جمال، تابناک رُوح، باطن کی تو انائی، لفظوں  کی نغماتی ترتیب کے  تئیں  بیدار کر نے  والی شاعری ہے۔

          مولانا رومی نے  اپنی مثنوی میں  ’’نقاشی  اور  مصوری کے  علم میں  رومیوں اور چینیوں  کے  مقابلے  کا جو قصہ ( قصہ مرے  کر دن رومیان و چینیاں  در علم نقاشی و صورت گری) لکھا ہے  اسے  یاد کیجیے۔ چینیوں اور رومیوں  کے  درمیان مقابلہ ہوا کون بڑا فنکار ہے، چینیوں  نے  کہا ہم بڑے  نقاّش ہیں:

 ’’چینیاں  گفتند ما نقاش تر‘ ‘ 

 اور  رومیوں  نے  کہا ہم بڑے  شان و شوکت والے  ہیں:

 ’’رومیاں  گفتند مارا کرّ و فر‘ ‘ 

بادشاہ نے  دونوں  کا امتحان لیا۔ آمنے  سامنے  دو گھر دیے  گئے۔ ایک گھر میں  چینی بیٹھے  اپنے  فن کا مظاہرہ کر نے اور دوسرے  گھر میں  رومی بیٹھے۔ چینیوں  نے  بادشاہ سے  سو رنگ کے  رنگ مانگے:

چینیاں  صدرنگ از شہ خواستند

رومیوں  نے  کہا ہمیں  نہ نقش چاہیے اور نہ رنگ

رومیاں  گفتند نے  نقش و نے  رنگ

رومیوں  نے  دروازہ بند کیا  اور  لگے  دیواروں  کو مانجھنے، دیوار آسمان کی طرح سادہ بن گئی، صاف ہو گئی، چاند کی مانند چمکنے  لگیں، چینیوں  نے  خوب نقش بنائے اور خوب رنگ آمیزی کی، دیواریں  خوبصورت رنگین تصویروں  سے  بھر گئیں۔ دونوں  نے  اپنے  طور پر آرٹ کے  خوبصورت نمونے  پیش کیے، رومیوں  کے  فن میں  حسن کی سادگی  اور  صفائی تھی، چینیوں  کے  فن میں  رنگوں اور لکیروں  کا جمال تھا۔ وہاں  بھی حسن تھا یہاں  بھی حسن تھا، حسن کا ایک پہلو وہاں  تھا دوسرا پہلو یہاں  تھا۔ رومیوں  کی صفائی  اور  سادگی عالم وحدت کی جانب اشارہ ہے اور چینیوں  کی رنگارنگ تصویریں  عالم کثرت کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ مولانا رومی کے  کلام میں  تخلیقی آرٹ کے  یہ دونوں  جمالیاتی پہلو  اور  رُخ ہیں، آئینہ کی صفائی بھی ہے اور نقشوں اور رنگوں  کی چمک دمک بھی۔ ان کی جمالیات میں  استعاروں  کی چمک دمک  اور  ان کی تہہ داری بھی اہمیت رکھتی ہے اور صاف  اور  واضح انداز میں  بات کہہ دینے  کا انداز بھی۔ ’’عالم کثرت‘ ‘  کا حسن بھی ہے اور ’’عالم وحدت‘ ‘  کا جمال بھی ہے۔

          مولانا رومی کی جمالیات دُنیا کی شاعری میں  انتہائی بلند مقام رکھتی ہے!

اندر آئید اندریں  بحر عمیق

تاکہ گردد رُوح صافی و رقیق   (مولانا رومی)

          اس گہرے  سمندر میں اندر آ جاؤ

          تاکہ رُوح صاف  اور  لطیف بن جائے!!

٭٭٭

شمس تبریزی ۔ روشنی کی علامت

نام      :        محمد

          لقب     :        جلال الدین

          شہرت :        مولانا رُومی، مولوی، مولانائے  روم

          دادا     :        حسین ابن احمد خطیبی

          والد     :        شیخ بہاء الدین محمد ابن ال حسین

          وطن   :        بلخ

          ولادت :        ۱۲۰۷ء (۶۰۴ھ) بلخ

          وفات   :        ۱۲۷۳ء (۶۷۲ھ) قونیہ

          عہد     :        ابتدائی تیرہویں  صدی (ساتویں  صدی ہجری)

          مولانا رومی کے  دادا حسین ابن احمد خطیبی اپنے  عہد کے  ایک بڑے  عالم  اور  دانشور تھے۔ شہرت دُور دُور تک تھی، بہت سے  علما اُن سے  سبق لینے  دُور دراز علاقوں  سے  بھی آتے  تھے، ان میں  حضرت راضی الدین نیشاپوری کا نام سب سے  اہم ہے۔ حسین ابن احمد خطیبی کی شخصیت رُوحانیت کے  ایک بڑے  رہنما کی حیثیت سے  اُبھری۔ عوام کے  ہر طبقے  میں  اُنھیں  بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ حکام  اور  حکمران بھی اُن کا بیحد احترام کرتے  تھے۔ علاء الدین محمد خوارزم کے  حاکم تھے، انھوں  نے  حسین ابن احمد خطیبی سے  اپنی بیٹی ملکہ جہاں  کی شادی کر دی۔ (اس سلسلے  میں  اختلاف ہے   اگر چہ مولانا شبلی نعمانی اسے  درست مانتے  ہیں )۔

          مولانا رومی کے  والد شیخ بہاء الدین مئی ۱۱۴۷ء میں  پیدا ہوئے  (بحوالہ کتاب المعارف مصنف شیخ بہاء الدین) وہ اپنے  والد کی شخصیت سے  بیحد متاثر تھے، ابتدائی زندگی میں  جو علم حاصل کیا وہ اپنے  والد ہی کے  ذریعے  حاصل کیا۔ حسین ابن احمد خطیبی روحانی تعلیمات کی دنیا میں  ایک روشن نشان بن گئے  تھے، شیخ بہاء الدین نے  اپنے  والد کی روایات کی گہری روشنی حاصل کی۔ مولانا رومی کے  والد کا مطالعہ بہت وسیع  اور  گہرا تھا۔ اُنھوں  نے  مختلف علوم سے  اپنی پیاس بجھائی تھی، لوگ اُنھیں  ’’سلطان العلماء‘ ‘  کہتے  تھے، جب مولانا رومی کی پیدائش ہوئی (۱۲۰۷ء) اُس وقت شیخ بہاء الدین کی عمر لگ بھگ ساٹھ برس تھی۔ وہ چوبیس برس  اور  جیے، غالباً یہ دیکھنے  کے  لیے  کہ اُن کے  بیٹے  محمد (مولانا رومی) علم و دانش کی دُنیا میں  کتنی بلندیوں  تک پہنچتے  ہیں۔ اُس وقت تک حضرت امام غزالیؒ فلسفے  کی یونانی بنیادوں اور مشرق پر ان کے  اثرات پر زبردست حملے  کر چکے  تھے۔ شیخ بہاء الدین نے  جب مسائلِ زندگی، حیات و کائنات  اور  دوسرے  موضوعات پر غور کرنا شروع کیا اُس وقت یونانی فلسفے  پر زبردست حملے  ہو رہے  تھے۔ اُنھوں  نے  امام غزالیؒ  اور  ان کے  خیالات میں  بڑی کشش محسوس کی۔ ۱۲۰۸ء میں  جبکہ مولانا رومی کی عمر صرف ایک سال تھی، ان کے  والد فلسفیوں  کے  خیالات پر حملے  کرتے  کرتے  بہت آگے  نکل چکے  تھے۔ اُن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ فلسفوں  کے  گہرے  بادلوں  کو ہٹا کر اسلام کے  چمکتے  روشن چاند کا نظارہ کیا جائے۔

          شیخ بہاء الدین کے  خیالات کی مخالفت بھی ہوئی، فخر رازی شیخ کے  بہت بڑے  مخالف ثابت ہوئے۔ کہا جاتا ہے  فخر رازی کی مخالفت ہی کی وجہ سے  شیخ بہاء الدین کو بلخ چھوڑنا پڑا۔ فخر رازی صوفیوں  کے  بڑے  مخالف تھے، کہا جاتا ہے  ان ہی کی سازش کی وجہ سے  ماجدالدین بغدادی جو ایک بڑے  عالم بزرگ صوفی تھے، دریا میں  ڈال دیے  گئے اور اُن کی لاش کا پتہ ہی نہ چلا۔ حاکم وقت صوفیوں  کی بڑی قدر کرتے  تھے اور اکثر ان سے  مشورے  بھی لیتے  تھے۔ اس کے  باوجود فخر رازی اپنی سازش میں  کامیاب ہو جایا کرتے  تھے۔ شیخ بہاء الدین نے  اپنی کتاب ’’المعارف‘ ‘  میں  رازی کے  خلاف کئی باتیں  تحریر کی ہیں۔ رازی شیخ بہاء الدین کے  خلاف عوام کے  درمیان تقریریں  کرتے  تھے۔ اُنھوں  نے  شیخ بہاء الدین کے  خلاف بھی سازش کی  اور  شیخ کو بلخ چھوڑنا پڑا۔ جب شیخ نے  بلخ چھوڑا اُس وقت مولانا رومی کی عمر پانچ برس سے  زیادہ نہ تھی۔ یہ غالباً ۱۳۔ ۱۲۱۲ء کا واقعہ ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چنگیز خاں  ایک خطرناک طوفان کی مانند اُٹھا تھا۔ منگولوں  نے  ہر جانب تباہی مچادی تھی۔ سعدی شیرازی نے  ۲۶۔ ۱۲۲۵ء میں  شیراز چھوڑا  اور  قونیہ چلے  آئے۔ منگلوں  نے  بلخ کو تباہ کر دیا، یہی وہ زمانہ ہے  جب مولانا رومی کہ جن کی عمر صرف چھ برس تھی، فریدالدین عطار سے  ملے  تھے  (کہا یہ جاتا ہے  کہ فریدالدین عطاّر سے  مولانا رومی کی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ بارہ تیرہ برس کے  تھے ) مولانا رومی اس عمر میں  بھی عطاّر سے  بیحد متاثر ہوئے اور اس کا اثر اُس وقت تک نظر آتا ہے  جب وہ مثنوی تحریر فرما رہے  تھے۔ مولانا رومی کے  والد شیخ بہاء الدین ترکِ وطن کر کے  نیشاپور چلے  گئے، خواجہ فریدالدین عطاّرؒ کی ملاقات شیخ سے  نیشاپور ہی میں  ہوئی۔

          شیخ بہاء الدین نیشاپور سے  بغداد آئے، وہاں  کچھ عرصہ قیام کر کے  حجاز  اور  شام ہوتے  ہوئے  زنجان پہنچے اور وہاں  سے  لارندہ کا رُخ کیا۔ مولانا اُس وقت اٹھارہ اُنیس برس کے  ہو چکے  تھے۔ مولانا کی شادی ہو گئی  اور  اسی مقام پر مولانا کے  فرزند رشید سلطان پیدا ہوئے۔

          چونتیس برس کی عمر تک مولانا رومی کے  علم و دانش کی شہرت دُور دُور تک پہنچ چکی تھی۔ وہ ایک بڑے  دانشور، معلّم کا درجہ حاصل کر چکے  تھے، مذہب، فلسفہ، تصوّف وغیرہ پر اُن کی پر مغز تقریریں  لوگوں  کو متا  ّثر کرتی تھیں۔ ان کی مثنوی کا مطالعہ کرتے  ہوئے  یہ بات واضح ہوتی ہے  کہ وہ اپنے  والد کی فکر و نظر  اور  امام غزالی  اور  عطاّر سے  متاثر ہوئے  تھے۔ مثنوی میں  عطاّر کی تخلیق ’منطق الطیر‘  کی کئی کہانیاں  ملتی ہیں، بغداد کے  ماحول میں  مولانا کو اپنی فکر و نظر کی اشاعت میں  بڑی مدد ملی۔

          شاہِ روم علاء الدین کیقباد کی دعوت پر شیخ بہاء الدین مولانا رومی کے  ساتھ قونیہ پہنچے۔ (اس کا یونانی نام آئیکونیم (Iconium)تھا، مسلمانوں  نے  اسے  قونیہ کر دیا) قونیہ ہی میں  باقی زندگی بسر کی۔ ۲۹۔ ۶۲۸ھ میں  انتقال ہوا۔

          والد کے  انتقال کے  بعد مولانا رومی نے  معروف صوفی بزرگ سیّد برہان الدین سے  رابطہ قائم کر لیا۔ مولانا نے  ان کا ذکر بڑے  احترام کے  ساتھ کیا ہے۔ شام میں  اُن کا تعلق مولانا کمال الدین مصنف ’تاریخ جلی‘  سے  بھی رہا ہے۔

مولانا کی تصنیفات:

          ۔۔۔۔      مثنوی (۲۶۶۶، اشعار ہیں )

          ۔۔۔۔      دیوان شمس تبریزی (کم و بیش چالیس ہزار اشعار ہیں )

          ۔۔۔۔      فیہ مافیہ (گفتگو  اور  خطوط کا مجموعہ ہے ) مولانا معین الدین پرواز کو کبھی کبھی خط لکھا کرتے  تھے۔ معین الدین پرواز کا تعلق دربارشاہ  قونیہ سے  تھا، احباب سے  گفتگو کرتے  ہوئے  کچھ اہم باتیں  کہہ جاتے  تو اُنھیں  جمع کر لیا جاتا۔

          کہا جاتا ہے  مولانا رومی کے  کسی استاد نے  سنائی کے  فن سے  اُنھیں  بیحد متا  ّثر کیا تھا، اس کے  بعد اُنھوں  نے  خود سنائی کا بھرپور مطالعہ کیا  اور  حد درجہ متاثر ہوئے۔ اپنے  دیوان میں  سنائی کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:

گفت کسی خواجہ سنائی بمرد

مرگ چنیں  خواجہ زکار یست خرد

کاہ نبود اُو کہ ببادی پرید

آب نبود او کہ بسر ما فرد

شانہ نبود او کہ بموئی شکست

دانہ نبود او کہ زمینش فشرد

قالب خاکی سوئی خاکی فگند

جان و خرد سوئی سموٰات برد

صاف بر آمیختہ با درد می

بر سرخم رفت و جداگشت درد

کسی نے  کہا سنائی کا انتقال ہو گیا۔ ایسے  استاد ایسے  خواجہ کا انتقال معمولی بات نہیں  ہے۔ ہوا میں  چوکربھوسی کی مانند کوئی نہیں  اُڑ سکتا، وہ چوکر بھوسی تو نہیں  تھے  جو ہوا میں  اُڑ گئے، وہ پانی تو نہیں  تھے  جو موسمِ سرما میں  جم جاتے، وہ کوئی کنگھی تو نہیں  تھے  جو سر جھاڑتے  ہوئے  ٹوٹ جاتے، وہ کوئی بیج تو نہ تھے  کہ زمین اُنھیں  توڑ دیتی، وہ تو۔۔۔ وہ تو خاکداں  میں  سونے  کا خزانہ تھے! اُنھوں  نے  دوجہاں  کی قیمت کا اندازہ جو کے  دانے  سے  کیا تھا۔ اُنھوں  نے  قالبِ خاکی کو زمین پر چھوڑ رکھا تھا  اور  وہ رُوح و دانش کے  ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے  تھے۔ خالص اکسیر شراب کی تلچھٹ سے  مل جائے اور اسے  صراحی میں  ڈالا جائے  تو صراحی کے  نیچے  میل صاف دِکھائی دے  گی، اکسیر الگ، میل الگ۔ سنائی اکسیرِ حیات تھے۔

          مولانا رومی سنائی  اور  عطاّر دونوں  کے  بڑے مداح تھے۔ اُنھوں  نے  کہا ہے: میں  سنائی  اور  عطاّر کے  بعد آیا ہوں، اُنھوں  نے  عطار کو رُوح  اور  سنائی کو اپنی دو آنکھیں  کہا ہے:

عطار رُوح بود و سنائی دو چشم اُو

ما از پی سنائی و عطار آمدیم

مولانا رومی نے  تین شخصیتوں  کو بیحد عزیز رکھا۔

ایک شخصیت تھی شمس تبریزؒ کی،

دوسری شخصیت صلاح الدین زرکوب کی تھی،

 اور  تیسری حسام الدین چلپی کی جو مولانا رومی کے  مرید تھے۔ اُن کے  ہمدم و ہمراز تھے۔

          ایک تحقیق کے  مطابق شمس تبریز نومبر ۱۲۴۵ء (۶۴۲ھ) میں  قونیہ تشریف لائے، اُس وقت اُن کی عمر ساٹھ برس سے  زیادہ تھی۔ مولانا  اور  شمس تبریز کی ملاقات قونیہ میں  کب ہوئی معلوم نہیں۔ دونوں  کی ملاقات کے  تعلق سے  کئی واقعات ملتے  ہیں  جو افسانوی رنگ اختیار کر گئے  ہیں۔ شمس تبریز کے  تعلق سے  جو معلومات حاصل ہیں  ان سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ روحانیات میں  غرق ایک مضطرب قلندر تھے۔ مولانا رومی ان سے  بیحد متاثر ہوئے اور اُنھیں  اپنا روحانی رہنما پیشوا مان لیا، ان کی عقیدت  اور  محبت اس قدر جذباتی تھی کہ اپنے  دیوان کا نام ’دیوان شمس تبریزی‘  رکھا  اور  مقطع میں  شمس ہی کا نام دیتے  رہے۔ کہا جاتا ہے  کہ مولانا شمس تبریز کے  ساتھ ایک حجرے  میں  چالیس روز تک چلہ کش رہے۔ شمس تبریز اچانک گم ہو گئے، قونیہ چھوڑ کر چلے  گئے، معلوم ہوا دمشق میں  ہیں، مولانا رومی پر اس جدائی کا بڑا گہرا اثر ہوا، بڑے  رقت پیدا کر دینے  والے  اشعار کہنے  لگے۔ مولانا کے  لڑکے  سلطان ولد کچھ لوگوں  کے  ساتھ مولانا کا ایک منظوم خط لے  کر دمشق گئے، شمس تبریز خط پڑھ کر متاثر ہوئے اور قونیہ واپس آ گئے، اس کے  بعد شمس تبریز پھر گم ہو گئے، ان کا کوئی نشان کہیں  بھی نہ ملا۔ اس سلسلے  میں  کئی واقعات پیش کیے  جاتے  ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے  کہ مولانا سے  ان کے  گہرے  روابط کو کچھ لوگ برداشت نہ کر سکے اور اُنھیں  شہید کر دیا۔

          شمس تبریزؒ مولانا رُومی کے  لیے  ایک ضعیف دانشمند (Wise Old Man)تھے۔ صرف یہی نہیں  بلکہ روشنی کی ایک زبردست علامت تھے، فوق الفطری، روحانی  اور  کائناتی تو انائی کی علامت، شمس تبریز کے  متعلق مولانا کے  اشعار یہ کہتے  ہیں  کہ ان کی روح پاکیزہ ہے، ان کا رنگ پاکیزہ ہے، شمس کے  نام سے  دل و دماغ روشن ہو جاتے  ہیں، شمس کے  عشق کا نشہ ایسا ہے  کہ میں  رقص کر نے  لگتا ہوں۔ بیخودی چھا جاتی ہے، میں  مٹّی تھا، اُنھوں  نے  آسمان بنا دیا۔ وہ عشق کے  پیکر تھے، عشق ہی زندگی کی قوّت بن جاتا ہے، میرے  ہر تحرّک کا انحصار اسی پر ہے، مولانا رومی نے  غالباً بڑی شدّت سے  محسوس کیا تھا کہ شمس تبریز کی شخصیت کی چھاؤں  میں  اُن کا قد بڑھا ہے، اُنھیں  روحانی عروج حاصل ہوا ہے   اور  ایسی مسرتیں اور خوشیاں  حاصل ہوئی ہیں  حد درجہ پراسرار ہیں، شمس تبریز کا تجزیہ وجد آفریں  تجربہ ہے۔ باطن کے  آہنگ کی ترتیب و تنظیم میں  شمس تبریز نے  بڑی مدد کی ہے۔ وہ روشنی  اور  جلال و جمال کی علامت ہیں۔ شمس تبریز ایک قلندر تھے اور ایک سلگتی ہوئی رُوح کے  مالک تھے۔ مولانا رُومی کے  تصوّر میں  روشنی  اور  جلال و جمال کے  اس پیکر کی حیثیت کیا تھی اس کا اندازہ مندرجۂ ذیل اشعار سے  کیا جا سکتا ہے:

بشنیدہ ام کہ عزم سفر میکنی مکن

مہر حریف دیار دگر میکنی مکن

تو درجہاں  غریبی و غربت ندیدہ ای

قصد کدام خستہ جگر میکنی مکن

ای مہ کر چرخ زیر و زبر برائے  تست

مارا خراب و زیر و زبر میکنی مکن

کو عہد و کو وثیقہ کہ باما تو کردہ ای

از قول و عہد خویش عبر میکنی مکن

چہ وعدہ میدیِ وچہ سوگند میخوری

سوگند و عشوہ را چہ سپر میکنی مکن

ای برتر از وجوہ و عدم بانگاہ تو

ایں  لحظہ از وجود گزر میکنی مکن

ای دوزخ و بہشت غلامان امر تو

برما بہشت ہمچو سفر میکنی مکن

اندر شکر ستاں  تواز زہرا یمنم

آں  زہر را حریف شکر میکنی مکن

جانم چو کورۂ پر آتش بست نکر د

روئی من از فراق چو زر میکنی مکن

چوں  روی درکشی تو شود مہ زغم سیہ

قصد کسوف قرص قمر میکنی مکن

ماخشک لب شویم چو تو خشک  اور  ی

چشم مرا باشک چہ تر میکنی مکن

چوں  طاقت عقیلۂعشاق نیستت

پس عقل را چہ خیرہ نگر میکنی مکن

چشمِ حرام خوارۂ من دُزد حسن تست

ای جاں  سزائی دزد بصر میکنی مکن

غور فرمائیے  کتنی گہری جذباتی عقیدت  اور  محبت ہے۔ صرف یہ سنا کہ شمس تبریزی قونیہ سے  باہر جانے  والے  ہیں، عقیدت  اور   محبت کی لہریں  اُٹھنے  لگیں اور آرزو کا اظہار ہونے  لگا۔ یہ احساس بھی ہونے  لگا کہ میرا محبوب کسی نئے  دوست یا ساتھی کو اپنی  محبت تو عطا نہیں  کر دے  گا! عاشق کا حسد توجہ طلب ہے۔ ایسا لگتا ہے  مولانا رومی اپنے  محبوب سے  براہِ راست گفتگو کر رہے  ہیں، تم نے  جو وعدہ کیا ہے  اس کے  خلاف کچھ نہ کرنا، تم نے  مجھ سے  جو اتنے  وعدے  کیے  ہیں  وہ غلط ثابت تو نہ ہوں  گے۔ تمھاری جدائی ناقابل برداشت ہے، میں  بہشت نما جہنم  اور  اس کی آگ میں  رہنا نہیں  چاہتا، تم تو اس طرح شکر میں  زہر ملا رہے  ہو ایسا تو نہ کرو۔ اس وقت میری رُوح آتشیں  ہے، تم چلے  جاؤ گے  تو میرا چہرہ زرد ہو جائے  گا سونے  کی مانند، ایسا نہ کرو میرے  ساتھ۔  اگر  تم نے  اپنا چہرہ چھپا لیا تو چاند غم سے  نڈھال ہو کر سیاہ ہو جائے  گا، کیا تم یہ چاہتے  ہو کہ چاند میں  گہن لگ جائے، چاند کا حلقۂ چشم تاریک ہو جائے۔ میرے  لب سوکھ گئے  ہیں، تم میری آنکھوں  کو آنسوؤں  سے  بھلا کیوں  بھر رہے  ہو، ایسا تو نہ کرو، میری آنکھیں  تمھارے  حسن کو   چرا چکی ہیں، اے  میرے  محبوب کیا تم میری آنکھوں  سے  انتقام لینا چاہتے  ہو، ایسا نہ کرو۔

          کتنا درد بھرا نغمہ ہے

          شمس تبریز کا وجود محبوب کے  پیکر میں  ڈھل گیا ہے

          فراق قبول نہیں  ہے

          شاعر اس اندیشے  سے  مضطرب ہے اور اپنے  درد کا اظہار کر رہا ہے  کہ فراق کے  لمحے  آئیں  گے!

          مولانا رومی کے  لڑکے  سلطان ولد جب شمس تبریز کو منانے  دمشق جا رہے  تھے  تو مولانا نے  یہ شعر پڑھا تھا:

بہ بہانہ ہائے  شیریں  بہ ترا نہ ہائے  موزوں

بکشید کوئے  خانہ مہ خوب خوش لقارا

 ’’ترانہ ہائے  موزوں‘ ‘  (نرم لفظوں )  اور  ’’بہانہ ہائے  شیریں‘ ‘  (خوبصورت بہانے ) سے  اس درخشاں، تابندہ حسن کو میرے  تاریک گھر میں  لے  آؤ۔

          شمس تبریز کے  متعلق مولانا رومی کی مندرجۂ ذیل غزل توجہ طلب ہے  اس کا ذکر پچھلے  صفحات میں  کہیں  کر چکا ہوں:

بگیرد امن لطفش کہ ناگہاں  بگریزد

ولی مکش تو چو تیرش کہ از کماں  بگریزد

چہ نقشہا کہ بیا زد و چہ حیلہا کہ بسازد

بنقش حاضر باشد ز راہ جاں  بگریزد

در آسمانش بجوئی چومہ در آب تبابد

در آب چونکہ در آئی بآسماں  بگریزد

زلامکانش بجوی نشاں  دہد لامکاں  بمکانت

چو در مکانش بجوئی بہ بگریزد

چو تیرمی برود از کماں  چو مرغ گمانت

یقیں  بداں  کہ یقیں  وا راز گماں  بگریزد

از این و آں  بگریزم ز ترس نے  زملال

کہ آن نگار لطیفم زاین و آں  بگریزد

گریز پائے  چو بادم زعشق گل چو صبادم

گلے  زبیم خزانی زبوستاں  بگریزد

چناں  گریزد از تو کہ گر نویسی نقش

ز لوح نقش بیرد و ز دل نشان بگریزد

 

شمس تبریز کی قلندری کی یہ کتنی خوبصورت تصویر ہے،  اگر  وہ صورت وجود بن کر سامنے  ہوں  گے  تو رُوح کی راہ اختیار کر لیں  گے۔ اُنھیں  کماں  کی طرح نہ کھینچو، تیر کی مانند بھاگ جائیں  گے۔  اگر  اُنھیں  آسمان پر تلاش کرو گے  تو وہ چاند کے  عکس کے  مانند پانی پر چمکتے  ملیں  گے۔  اور  جب تم پانی کے  اندر آؤ گے  تو وہ آسمان کی جانب اُڑجائیں  گے، وہ لامکاں  میں  ملیں  گے، لامکاں  میں  ڈھونڈھو گے  تو وہ مکاں  میں  ہوں  گے اور  اگر  مکاں  میں  تلاش کرو گے  تو لامکاں  میں  ہوں  گے۔

          شمس تبریز کی قلندری، رُوح کی تو انائی یا انرجی کی علامت ہے، رُوح کی تو انائی روشنی  اور  نور کی تو انائی ہے۔ جس طرح تخیل کا پرندہ اُڑجاتا ہے  اسی طرح یہ تو انائی پرواز کر جاتی ہے، وہ حسن ہے، رُوح کی تو انائی ہی حسن ہے۔

          مولانا رومی کی جمالیات میں  ایسے  شعری تجربوں  کی بڑی اہمیت ہے۔

          شمس تبریز ہی کا اثر تھا کہ مولانا رومی نے  درویشانہ لباس پہن لیا تھا۔

          جب قونیہ میں  یہ خبر پھیلی کہ شمس تبریز کا انتقال ہو گیا تو مولانا رومی کو یقین ہی نہیں  آیا، انھوں  نے  کہا:

کہ گفت کہ آں  زندۂ جاوید بمرد

کہ گفت کہ آفتاب اُمید بمرد

آں  دشمن خورشید بر آمد بر بام

دو چشم بیست و گفت خورشید بمرد

کون کہتا ہے  کہ وہ شخص زندہ نہیں  ہے  کہ جو ہمیشہ رہنے  والا ہے، زندۂ جاوید ہے۔ کس نے  کہا کہ اُمیدوں  کا آفتاب غروب ہو گیا؟ دیکھو بام پر آفتاب کا ایک دشمن آن کھڑا ہوا ہے  آنکھیں  بند کر کے  کہہ رہا ہے  کہ آفتاب ڈوب چکا ہے!

          اس کے  بعد مولانا رومی پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی، کہا جاتا ہے  زندگی کر نے  کا طریقہ ہی بدل گیا وہ سماع میں  گم ہو گئے، وجد آفریں  رقص میں  کھو گئے، ان کی کیفیت ان کے  بیٹے  نے  بتائی ہے:

روز و شب در سماع رقصاں  شد

بر زمیں  ہمچوں  چرخ گرداں  شد

غزلوں  میں  شمس تبریز کا نام بار بار آیا ہے، مقطع میں  مولانا شمس تبریز ہی کا نام لکھتے  تھے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

ہمہ عالم بسان شمس تبریز

بزیر سایۂ چتراست مارا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمس تبریزی بیا کز لطف خود

سو زما در عاشقان افکندہ ای

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میستم زجام شمس تبریز

جام می او مباد بی ما

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمس شکر ریز توئی مفخر تبریز توئی

لخلخہ آمیز توئی خواجہ عطار مرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمس الحق تبریز صلاد اد حریفاں

پر بادۂ توحید نہ از کاس خرافات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ز شمس الدین تبریزی رسد بادہ بنوروزی

کہ ہر قطرہ از آن جرعہ چو دُرِّ شہوار آمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گر تو دلیل این را پرسی ز شمس تبریز

صحرا و کوی وحدت برہان ماست امشب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفخر تبریز توئی شمس دین

حسرت روزی و تمنای شب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از سوئی تبریز تافت شمس حق گفتمش

نور تو  ّہممتصل باہمہ دبم جداست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفخر تبریز توئی شمس الدین

در دوجہاں  بہ ز تو یاریم نیست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمس الحق تبریز چو بکشود نظر را

در روشنی دیدۂ دیدار مرا یافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمس الحق تبریزی صد گونہ کند دل را

گاہیش کند تیغی کا ہیش سپر سازد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوش وقت کسانی کہ چو شمس الحق تبریز

در خانہ نشتند و بیابان نبریدند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چون طلعت شمس الحق تبریز بدیدید

خود رانگراں  گل و گلزار مدارید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسے  سیکڑوں  اشعار دیوان میں  بھرے  پڑے  ہیں۔

          مولانا رُومیؒ کے  لیے  شمس تبریز ایک روشن رُوحانی پیکر عشق کے  نور کی علامت ہیں۔ ایسی پاکیزہ رُوح سے  اُنھیں  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔

          مولانا رومی کی جمالیات کے  ان چند پہلوؤں  کا مطالعہ کر نے  کے  بعد اُن کے  ان خوبصورت جمالیاتی تاثرات کو پیش کرنا چاہتا ہوں:

          میری قبر تمھیں  رقص کر نے  کی دعوت دے  گی!

          میری مٹّی سے  گیہوں  پیدا ہو گا، تم اس سے  روٹیاں  بنانا، ان روٹیوں  سے  تم پر نشہ طاری ہو جائے  گا۔

          دونوں۔۔۔ نانبائی  اور  روٹی کھانے  والا دیوانے  ہو جائیں  گے۔ ان پر عجب مستی چھا جائے  گی  اور  چولھا

          نشے  میں  مست جھومنے  والوں  کو نغمہ سنائے  گا

          جب تم پاس آؤ گے  تو

          میری قبر تمھیں  رقص کر نے  کی دعوت دے  گی!

          لہٰذا تم طنبورہ کے  بغیر نہ آنا

          جشن میں  غم کی گنجائش نہیں  ہوتی

          موت زمین کے  اندر سوتی ہے، اس کی زبان بند رہتی ہے

          انسان عشقِ حبیب کا افیون پی کر سویا پڑا رہتا ہے

          جب کفن پھاڑ کر دیکھو گے  تو تمھیں  خود اپنی رُوح میں  ایک میخانہ دِکھائی دے  گا

          ہر جانب سے  موسیقی کی آواز آئے  گی، بنسری کی آواز سنائے  دے  گی۔

          اللہ نے  مجھے  عشق کی شراب سے  خلق کیا ہے، پرواز میرا کام ہے، میری قبر تمھیں  رقص کر نے  کی دعوت دے  گی!

٭٭٭

کتابیات

(۱)     مثنوی معنوی  مولانا جلال الدین محمد بلخی مطابق نسخہ تصحیح شدہ رینولانیکس

                             مؤسسہ انتشارات گاہ تہران (نسخۂ شیراز)

(۲)     مثنوی مولانائے  روم (دفتر اوّل تا دفتر ششم)       مولانا قاضی سجاد حسین صاحب

(۳)     دیوان شمس تبریز

(4)    A. J. Arberry: Classical Persian Literature, 1958 (London)

(5)    A. J. Arberry: Sufism, George Allen & Unwiv Ltd., London

(6)    Carl W. Ernest: Sufisim, (South Asia Editions), 1950

(7)    M. Shojakhani, Dr. & M. R. Rikhtehagarar, Dr. (Edited(

          Indo - Iranian Thought - A word Heritage (Renaissance

          Publishing House, Delhi) 1955

(8)    Khalifah Abdu Hakeem: The Metaphysics of Rumi) Lahore,  1959

(9)    Nicholson R.A.: Selected Poems from the Diwan-i-Shams-i Tabriz, (London(

(10)  Nicholson R.A.: Rumi: The Mystic (London)

(11)  Afzal Iqbal: The Life and Thought of Rumi: (Bazm-i-Iqbal) Lahore)

(12)  Andrew Harvey: Teachings of Rumi

٭٭٭

 

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل عنایت کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین، اور ای بک کی تخلیق: اعجاز عبید

4.7 "3"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

صداقت علی
بہت ہی اچھی معلومات فراہم کر رہے ہیں ۔کیا اس کی کوئی ایپلیکیشن بھی ہے ۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔