12:46    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ انتخاب نصیر الدین نصیر

17224 16 1 44.8




کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی

کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی

نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی

جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے

وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی

وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا

کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری رہی

مجھے بس ترا ہی خیال تھا ترا روپ میرا جمال تھا

نہ کبھی نگاہ تھی حور پر ، نہ کبھی نظر میں پری رہی

ترے آستاں سے جدا ہوا تو سکونِ دل نہ مجھے ملا

مری زندگی کے نصیب میں جو رہی تو دربدری رہی

ترا حسن آنکھ کا نور ہے ، ترا لطف وجہ سرور ہے

جو ترے کرم کی نظر نہ ہو تو متاع دل نظری رہی

جو ترے خیال میں گم ہوا تو تمام وسوسے مٹ گئے

نہ جنوں کی جامہ دری رہی ، نہ خرد کی درد سری رہی

مجھے بندگی کا مزا ملا ، مجھے آگہی کا صلہ ملا

ترے آستانہ ناز پر ، جو دھری جبیں تو دھری رہی

یہ مہ و نجوم کی روشنی ترے حسن کا پرتو بدل نہیں

ترا ہجر ، شب کا سہاگ تھا ، مرے غم کی مانگ بھری رہی

رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر

نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر ، مرے ساتھ بے خبری رہی

ترے حاسدوں کو ملال ہے ، یہ نصیر فن کا کمال ہے

ترا قول تھا جو سند رہا ، تری بات تھی جو کھری رہی

٭٭٭






دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے

دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے

آخر کو تعلق ہے اسے دیدہ تر سے

کچھ دیر تو اس قلب شکستہ میں بھی ٹھہرو

یوں تو نہ گزر جاؤ اس اجڑے ہوئے گھر سے

ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حدی خواں

مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے

یہ حسن یہ شوخی یہ تبسم یہ جوانی

اللہ بچائے تمہیں بد بیں کی نظر سے

خورشید تو کیا ، غیرت خورشید ہوا ہے

وہ ذرہ جو ابھرا ہے تری راہگزر سے

نکلی نہ جو دیدار کی حسرت تو یہ ہو گا

سر پھوڑ کے مر جائیں گے دیوار سے ، در سے

سو رنج ہیں ، سو شکوہ شکایات ہیں ، لیکن

مجبور ہیں ، کچھ کہتے نہیں آپ کے ڈر سے

صیاد! خدا خیر کرے اہل چمن کی

دیکھے ہیں فضاؤں میں کچھ اڑتے ہوئے پَر سے

وہ روٹھ گئے ہم سے ، جدا ان سے ہوئے ہم

اب چھیڑ اٹھے گی نہ اِدھر سے نہ اُدھر سے

لوگوں کا حسد شعر کی شہرت سے بڑھے گا

خوف آتا ہے خود مجھ کو نصیر اپنے ہنر سے

٭٭٭






وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا

وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا

ہم کو آنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا

لاکھ ٹھُکرایا ہمیں تو نے مگر ہم نہ ٹلے

تیرے قدموں سے الگ ہو کے کہاں جانا تھا

جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں

ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا

بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا

لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا

نزع کے وقت تو دُشمن بھی چلے آتے ہیں

ایسے عالم میں تو ظالم تجھے آ جانا تھا

عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر

حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا

٭٭٭






یہ زمانہ یہ دور کچھ بھی نہیں

یہ زمانہ یہ دور کچھ بھی نہیں

اک تماشہ ہے اور کچھ بھی نہیں

اک تری آرزو سے ہے آباد

ورنہ اس دل میں اور کچھ بھی نہیں

عشق رسم و رواج کیا جانے

یہ طریقے یہ طور کچھ بھی نہیں

وہ ہمارے ہم ان کے ہو جائیں

بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں

جلنے والوں کو صرف جلنا ہے

ان کی قسمت میں اور کچھ بھی نہیں

اے نصیر انتظار کا عالم

اک قیامت ہے اور کچھ بھی نہیں

٭٭٭






جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا

جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا

اُسے دل کون کہہ سکتا ہے ، وہ دل ہو نہیں سکتا

وہ بندہ ، جس کو عرفاں اپنا حاصل ہو نہیں سکتا

کبھی خاصانِ حق کی صف میں شامل ہو نہیں سکتا

زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں

کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا

محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے

یہاں جو عقل دوڑائے ، وہ عاقل ہو نہیں سکتا

پہنچتے ہیں، پہنچنے والے اُس کوچے میں مر مر کر

کوئی جنّت میں قبل از مرگ داخل ہو نہیں سکتا

نہیں جب اذنِ سجدہ ہی تو یہ تسلیم کیونکر ہو

مرا سر تیرے سنگِ در کے قابل ہو نہیں سکتا

مرا دل اور تم کو بھول جائے ، غیر ممکن ہے

تمہاری یاد سے دم بھر یہ غافل ہو نہیں سکتا

مرا ایمان ہے اُن پر ، مجھے اُن سے محبت ہے

مرا جذبہ ، مرا ایمان ، باطل ہو نہیں سکتا

نزاکت کے سبب خنجر اُٹھانا بار ہو جس کو

وہ قاتل بن نہیں سکتا، وہ قاتل ہو نہیں سکتا

مرے داغِ تمنّا کا ذرا سا عکس ہے ، شاید

کسی کے عارضِ دلکش پہ یہ تِل ہو نہیں سکتا

نہ ہو وارفتہ جو اُس جانِ خوبی پر دل و جاں سے

وہ عاشق بن نہیں سکتا ، وہ سائل ہو نہیں سکتا

ہمیں منظور مر جانا ، اگر اُن کا اِشارہ ہو

یہ کام آسان ہو سکتا ہے ، مشکل ہو نہیں سکتا

جو رونق آج ہے ، وہ آج ہے ، کل ہو نہیں سکتی

ہمارے بعد پھر یہ رنگِ محفل ہو نہیں سکتا

نصیر اب کھیلنا ہے بحرِ غم کے تیز دھارے سے

سفینہ زیست کا ممنونِ ساحل ہو نہیں سکتا

٭٭٭






مری نظر سے مکمل بہار گزری ہے

مری نظر سے مکمل بہار گزری ہے

کہ مُسکراتی ہوئی شکلِ یار گزری ہے

غم و الم کے ، اذیت کے ، کرب زاروں میں

تڑپ تڑپ کے شبِ انتظار گزری ہے

نفس نفس پہ چُبھن تھی قدم قدم پہ خلش

تمام عمر سرِ نوکِ خار گزری ہے

قفس میں حال نہ پوچھا صبا نے آ کے کبھی

مرے قریب سے بیگانہ وار گزری ہے

سکونِ دل نہ میسر ہوا زمانے میں

نصیر زیست بڑی بے قرار گزری ہے

٭٭٭






دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے

دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے

اُن کی خوشبو ، کہاں سے آتی ہے

حدِ اوہام سے گزر کے کھُلا

خوش یقینی ،گُماں سے آتی ہے

جراتِ بندگیِ ربِ جلیل

بت شکن کی اذاں سے آتی ہے

ایسی طاقت کہ جو نہ ہو تسخیر

دل میں عزمِ جواں سے آتی ہے

اُن کی آواز میرے کانوں میں

آ رہی ہے ، جہاں سے آتی ہے

سر کو توفیق سجدہ کرنے کی

یار کے آستاں سے آتی ہے

آدمیت وہاں نہیں ہوتی

کبر کی بُو جہاں سے آتی ہے

وقت کیسا قیامتی ہے آج

دھوپ اب سائباں سے آتی ہے

رات پڑتے ہی کچھ نہیں کھُلتا

یادِ جاناں کہاں سے آتی ہے

آدمی میں جمالیاتی حس

قربتِ مہ وشاں سے آتی ہے

دو قدم چل کے تم نہیں آتے

چاندنی آسماں سے آتی ہے

زندگی میں نصیر ! آسانی

ترکِ سُود و زیاں‌ سے آتی ہے

یاد فن کے اساتذہ کی نصیر

تیرے طرزِ بیاں سے آتی ہے

٭٭٭






نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے

نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے

اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے

بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی

فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے

یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا

یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے

بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا

مری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے

ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو

قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج ، دریا ، نے

تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا

بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے

نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار

نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے

نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار

نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے

نہ با یزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی

نہ اب و سوز ، نہ آہیں ، نہ ہا و ہو خانے

خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی

نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے

نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست

فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے

بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ

نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے

تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا ، لیکن

انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے

یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا

الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے

ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے

کوئی تو ہو ، جو مرے دل کا درد پہچانے

ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!

کہ ہو گئے ہیں پھر آباد آج میخانے

وہی ہجوم ، وہی رونقیں ، وہی میکش

وہی نشہ ، وہی مستی ، وہی طرب خانے

جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر

یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے

اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے

یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے

ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز

کہ جس کی لو پہ لپکتے رہیں گے پروانے

کوئی نشاط کا ساماں کوئی طرب کی سبیل

لگی ہے پھر سرِ میخانہ بدلیاں چھانے

تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ

تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے

یہ مستیاں نہیں جام و سُبو کے حصے میں

تیری نگاہ سے پتے ہیں تیرے دیوانے

نصیر ! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے

گزر رہی ہے جو دل پر ، وہ کوئی کیا جانے

٭٭٭






ترے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں

ترے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں

نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے

کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم

یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن

مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں‌ جس میں تیری تجلیاں ، اسے جانچتی ہے نظر کہاں

تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے

نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم

مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک

ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا

مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے

کریں‌اس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم

٭٭٭






اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو

اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو

زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو

بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو

قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو

جلایا آتشِ گُل نے چمن میں ہر تنکا

بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو

جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رُموز بہت

مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو

قدم قدم پہ رُلایا ہمیں مقدر نے

ہم اُن کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو

نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں

سُنا تو دی ہے انہیں داستاں "سُنانے کو"

کہو کہ ہم سے رہیں دور، حضرتِ واعظ

بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو

اب ایک جشنِ قیامت ہی اور باقی ہے

اداؤں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو

شب فراق نہ تم آ سکے نہ موت آئی

غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو

نصیر! جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی

تُلے ہیں مجھ پہ وہی انگلیاں اُٹھانے کو

٭٭٭






غمِ ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں

غمِ ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں

جاں بلب ہے ترا بیمار ، سنا ہے کہ نہیں

وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں

جھانک لے سینے میں کم بخت ذرا ، ہے کہ نہیں

مخمصے میں تری آہٹ نے مجھے ڈال دیا

یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں

سامنے آنا ، گزر جانا ، تغافل کرنا

کیا یہ دنیا میں قیامت کی سزا ہے کہ نہیں

اہل دل نے اُسے ڈھُونڈا ، اُسے محسوس کیا

سوچتے ہی رہے کچھ لوگ ، خدا ہے ، کہ نہیں

تم تو ناحق مری باتوں کا برا مان گئے

میں نے جو کچھ بھی کہا تم سے ، بجا ہے کہ نہیں؟

آبرو جائے نہ اشکوں کی روانی سے نصیر

سوچتا ہوں ، یہ محبت میں روا ہے کہ نہیں

٭٭٭






ہم کسی کا گِلا نہیں کرتے

ہم کسی کا گِلا نہیں کرتے

نہ ملیں ، جو ملا نہیں کرتے

چند کلیاں شگفتہ قسمت ہیں

سارے غنچے کھلا نہیں کرتے

جن کو دستِ جنوں نے چاک کیا

وہ گریباں سلا نہیں کرتے

آپ محتاط ہوں زمانے میں

ہر کسی سے ملا نہیں کرتے

جو محبت میں سنگِ میل بنیں

وہ جگہ سے ہلا نہیں کرتے

ناز ہے اُن کو بے وفائی پر

ختم یہ سلسلا نہیں کرتے

رِستے رہتے ہیں بھیگی راتوں میں

زخم دل کے سِلا نہیں کرتے

اُن سے بس اک نصیر شکوہ ہے

ہم سے وہ کیوں ملا نہیں کرتے

٭٭٭






بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو

بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو

رہا دنیا میں اب کیا دیکھنے کو

میں خود اک قدِ آدم آئنہ ہوں

ترا اپنا سراپا دیکھنے کو

کہاں ساحل پہ موجوں کا تبسم

اُنہیں آتا ہے دریا دیکھنے کو

نکل آئے فلک پر چاند سُورج

ترا نقشِ کفِ پا دیکھنے کو

دمِ آخر کروں گا راز اِفشا

مجھے آپ آئیں تنہا دیکھنے کو

تجھے دیکھے نہ کیوں سارا زمانہ

کہاں ملتا ہے تجھ سا دیکھنے کو

مجھے اٹھ اٹھ کے سب محفل نے دیکھا

وہی ظالم نہ اٹھا دیکھنے کو

حریمِ ناز سے باہر وہ آئیں

کھڑی ہے ایک دنیا دیکھنے کو

ترا ثانی سنا ہم نے ، نہ دیکھا

زمانہ ہم نے دیکھا ، دیکھنے کو

بس اس کے بعد تو راہِ عدم ہے

یہی باقی ہے رَستا دیکھنے کو

اِدھر دَم دے دیا بیمارِ غم نے

اُدھر آیا مسیحا دیکھنے کو

نصیر! اُن کی گلی میں کیوں گئے تھے

یہی ، اپنا تماشا دیکھنے کو؟

٭٭٭






دین سے دور ، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں

دین سے دور ، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں

تیری دہلیز پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں

ڈھنگ کی بات کہے کوئی ، تو بولوں میں بھی

مطلبی ہوں، کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں

بزمِ احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے

مطمئن دل ہے بہت ، جب سے الگ بیٹھا ہوں

غیر سے دور، مگر اُس کی نگاہوں کے قریں

محفلِ یار میں اس ڈھب سے الگ بیٹھا ہوں

یہی مسلک ہے مرا، اور یہی میرا مقام

آج تک خواہشِ منصب سے الگ بیٹھا ہوں

عمر کرتا ہوں بسر گوشۂ تنہائی میں

جب سے وہ روٹھ گئے ، تب سے الگ بیٹھا ہوں

میرا انداز نصیر اہلِ جہاں سے ہے جدا

سب میں شامل ہوں ، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں

٭٭٭






کوئی اِس دشتِ وفا میں نہ چلا میرے بعد

کوئی اِس دشتِ وفا میں نہ چلا میرے بعد

ذرّے ذرّے پہ مرا نقش رہا میرے بعد

یوں نہ پھر ہو گا کوئی نغمہ سرا میرے بعد

اور ہی ہو گی گلستاں کے ہوا میرے بعد

اس طرح کون اسیرِ خم کاکل ہو گا

کس کو راس آئے گی زنداں کے فضا میرے بعد

پھر نہ پابندِ وفا ہو گا کوئی مجھ جیسا

رکھّے رہ جائیں گے آدابِ وفا میرے بعد

میں نے تو زہر بھرے جام محبت میں پیئے

دیکھئے کس کو شرَف ہو یہ عطا میرے بعد

دستِ رنگیں پہ ترے کس کا لہو چمکے گا

رنگ لانے سے رہا ، رنگِ حنا میرے بعد

٭٭






مئے کشی کے ساتھ لطفِ رقصِ پیمانہ الگ

مئے کشی کے ساتھ لطفِ رقصِ پیمانہ الگ

اور اس پر التفاتِ پیرِ میخانہ الگ

میکدے میں ہم ہیں، اپنے ہر نفس میں موجِ مئے

اب نہ شیشہ ہے جدا ہم سے ، نہ پیمانہ الگ

زاہدوں کو بادہ نوشوں سے ہو کیوں کر التفات

پارسائی اور شئے ، اندازِ رندانہ الگ

پی رہا ہوں ، جی رہا ہوں، شاد ہوں ، سرشار ہوں

دل لگی مئے سے الگ ، ساقی سے یارانہ الگ

میکدے میں اب بھی اتنی ساکھ ہے اپنی نصیر

اک ہمارے نام کا رہتا ہے پیمانہ ’’ الگ‘‘

٭٭٭






آنا جانا تو ہے واعظ! مرے کاشانے تک

آنا جانا تو ہے واعظ! مرے کاشانے تک

ایک دن آپ چلے آؤ گے میخانے تک

مسندِ پیر مغاں دور بہت ہے مجھ سے

ہاتھ اٹھ کر بھی پہنچتے نہیں پیمانے تک

قدم اٹھتے نہیں ، اب ضعف کا عالم ہے نصیر

کوئی لے جائے مجھے تھام کے میخانے تک

تجھ کو بھولے سے بھی میں بھول سکوں ، نا ممکن

یہ تعلق تو رہے گا مرے مر جانے تک

تم تو اپنے تھے ، نہ تھی تم سے یہ امید ہمیں

کوئی مرتا ہو تو آ جاتے ہیں بیگانے تک

موت برحق ہے ، مگر آخری خواہش یہ ہے

سانس چلتی رہے میری ، ترے آ جانے تک

بات کرنی ہے نکیرین سے تنہا سب کو

ساتھ رہتے ہیں یہ احباب تو دفنانے تک

٭٭٭






تابشِ حسن سے یہ رنگ ہے میخانے کا

تابشِ حسن سے یہ رنگ ہے میخانے کا

دل دھڑکتا ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

چشمِ ساقی ہے اُدھر اور مرا دل ہے اِدھر

آج ٹکراؤ ہے پیمانے سے پیمانے کا

واعظِ شہر نے کیوں بیعتِ ساقی کر لی

اُس نے تو عہد کیا تھا مجھے بہکانے کا

زاہد و رند میں ایسی کوئی دوری تو نہیں

فاصلہ ہے ، تو چھلکتے ہوئے پیمانے کا

شیخ صاحب کبھی اپنوں کی طرح آ کے پئیں

مرتبہ غیر پہ کھلتا نہیں میخانے کا

پیرِ میخانہ ! تری ایک نظر کافی ہے

میں طلب گار نہ شیشے کا نہ پیمانے کا

ایک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی !

سلسلہ ٹوٹ نہ جائے کہیں پیمانے کا

وہ بہار آئی نصیر اور وہ اٹھے بادل

بات ساغر کی چلے ، ذکر ہو میخانے کا

٭٭٭






ہنس دئیے چمن میں گُل ، کس لئے خدا جانے

ہنس دئیے چمن میں گُل ، کس لئے خدا جانے

کیا کہا بہاروں نے ، بات یہ صبا جانے

وہ ہمیں الگ سمجھے ، وہ ہمیں جدا جانے

ہم جنہیں زمانے میں، اپنا آشنا جانے

اک چھُپی شئے کی، اصل کوئی کیا جانے

دردِ دل کا قصہ ہے ، کون دوسرا جانے

ہم تو آپ پر صدقے ، آپ ہم سے بیگانہ

ابتدا میں یہ عالم ، انتہا خدا جانے

میں تو ہوش کھو بیٹھا، دیکھ کر دمِ زینت

آئینے پہ کیا گزری، اس کو آئینا جانے

ہم نے ان سے جب پوچھا ، کیا ہوا ہمارا دل

ہنس کے چپ رہے پہلے ، پھر کہا، خدا جانے

تیرے در کے ٹکڑوں نے ، جس گدا کو پالا ہو

وہ کسی کو کیا سمجھے ، وہ کسی کو کیا جانے

آپ کیوں ہوئے مضطر ، آپ کیوں پریشاں ہیں

ہم پہ جو گزرتی ہے ، آپ کی بلا جانے

خلق کی نگاہوں میں ، میں برا سہی لیکن

آپ کیوں برا سمجھے ، آپ کیوں برا جانے

یہ شرف نصیر اس کی بارگہ میں کیا کم ہے

وہ تری دعا سن لے ، تیرا مدعا جانے

٭٭٭






وفا ہو کر ، جفا ہو کر ، حیا ہو کر ، ادا ہو کر

وفا ہو کر ، جفا ہو کر ، حیا ہو کر ، ادا ہو کر

سمائے وہ مرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر

مرا کہنا یہی ہے ، تو نہ رخصت ہو خفا ہو کر

اب آگے تیری مرضی ، جو بھی تیرا مدعا ہو ، کر

نہ وہ محفل ، نہ وہ ساقی ، نہ وہ ساغر ، نہ وہ بادہ

ہماری زندگی اب رہ گئی ہے بے مزا ہو کر

معاذ اللہ ! یہ عالم بتوں کی خود نمائی کا

کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خدائی پر ، خدا ہو کر

بہر صورت وہ دل والوں سے دل کو چھین لیتے ہیں

مچل کر، مسکرا کر ، روٹھ کر ، تن کر ، خفا ہو کر

نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے تارو !

نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں ، مرے غم آشنا ہو کر

مرے دل نے حسینوں سے مزے لوٹے محبت کے

کبھی اِ س پر فدا ہو کر ، کبھی اُس پر فدا ہو کر

جہاں سے وہ ہمیں ہلکی سی اک آواز دیتے ہیں

وہاں ہم جا پہنچتے ہیں محبت میں ہوا ہو کر

سنبھالیں اپنے دل کو ہم کہ روئیں اپنی قسمت کو

چلے ہیں اے نصیرِ زار ! وہ ہم سے خفا ہو کر






پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں

پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں

وہ سچ مچ ہم سے ناخوش ہو گئے ، یا بن کے بیٹھے ہیں

غضب کیا ہے جو ہم کوچے میں اس پُر فن کے بیٹھے ہیں

کسی کو کیا غرض، مالک ہیں اپنے من کے ’’ بیٹھے ہیں‘‘

الٰہی ! خیر دل کی ، جان کی ، چشمِ تماشا کی

بلا کی شان سے محفل میں وہ بن ٹھن کے بیٹھے ہیں

بٹھا کر پاس اس نے دور دل سے کر دیا ہم کو

یہ کیا معلوم تھا پہلو میں ہم دشمن کے بیٹھے ہیں

جنہوں نے جیتے جی مجھ سے نہ میرا حال تک پوچھا

وہی اب سر جھکائے سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں

کہاں ایسا مقدر تھا کہ ہو تا یہ شرف حاصل

عنایت ہے کہ سائے میں ترے دامن کے بیٹھے ہیں

یہ میری بزم ہے آئینہ بندی عہدِ ماضی کی

یہاں مل جل کے کچھ ساتھی مرے بچپن کے بیٹھے ہیں

ستم صیاد کا برحق، زباں اپنی بیا ں اپنا

قفس میں ہیں ، مگر قصّے لیے گلشن کے بیٹھے ہیں

حیات و موت ہیں دونوں ترے کوچے سے وابستہ

جنازہ بن کے اٹھیں گے ، تمنا بن کے بیٹھے ہیں

نصیر! ان کو کوئی پہچان لے ، یہ غیر ممکن ہے

کچھ ایسا روپ بدلا ہے ، کچھ ایسے بن کے بیٹھے ہیں

٭٭٭






متفرقات

جان پیاری تھی ، مگر جان سے پیارے تم تھے

جو کہا تم نے وہ مانا گیا ، ٹالا نہ گیا

صرف اک بار نظر بھر کے انھیں دیکھا تھا

زندگی بھر مری آنکھوں کا اجالا نہ گیا

٭٭

دل تمہاری طرف سے صاف کیا

جاؤ ہم نے تمہیں معاف کیا

جان کر ان سے بے رخی برتی

ہم نے اپنا حساب صاف کیا

٭٭

آغوشِ جنو ں میں جا رہا ہوں

ہر غم سے نجات پا رہا ہوں

وہ ناؤ مجھی کو لے کے ڈوبی

جس ناؤ کا ناخدا رہا ہوں

٭٭

راہوں سے تری گزر رہا ہوں

انگاروں پہ پاوں دھر رہا ہوں

ہے مدِّ نظر ترا تصوّر

آئینے سے بات کر رہا ہوں

٭٭

ان سے ہر وقت مری آنکھ لڑی رہتی ہے

کیا لڑاکا ہے کہ لڑنے پہ اڑی رہتی ہے

جو کبھی خونِ شہیداں سے حنا بند رہے

اب انہیں پھول سے ہاتھوں میں چھڑی رہتی ہے

٭٭

لاکھ ڈھونڈا مگر نہیں ملتا

کوئی بھی ہم سفر نہیں ملتا

ہ بھی اس سے کبھی نہیں ملتے

کوئی ہم سے اگر نہیں ملتا

٭٭

اس کو چل پھر کے ڈھونڈنے والو

وہ سرِ رہگذر نہیں ملتا

٭٭

جگمگانے لگی بام و در چاندنی

ہر طرف آ رہی ہے نظر چاندنی

ان کے جلووں کی تشریح ممکن نہیں

سر بہ سر نور ہیں سر بہ سر چاندنی

٭٭

بلا کی نامۂ اعمال پر ہے گل کاری

کسی کی ہو گی عبارت ، مرا قلم تو نہیں

٭٭

یہ بزمِ بتا ں ہے نظاروں کی دنیا

اداؤں کی بستی اشاروں کی دنیا

ہمیں ہے فقیری میں شاہی میسّر

کہاں ہم ، کہا ں تاجداروں کی دنیا

٭٭

شبِ فراق نہ تم آ سکے نہ موت آئی

غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو

٭٭

اب تو کہتے ہیں کہ جا ! میری نظر سے دور ہو

تم منانے آؤ گے مجھ کو َ مرے مر جانے کے بعد

٭٭

کر دیا قتل تو میّت بھی اٹھا تے جاتے

میری مٹّی تو ٹھکانے وہ لگاتے جاتے

٭٭

چارہ سازو ! کیوں دوا کرتے ہو، مر جانے بھی دو

بزم ہو جائے گی سُونی میرے اُٹھ جانے سے کیا ؟

٭٭

یہ کس کو لوگ لیے جا رہے ہیں کاندھوں پر

کہیں یہ شخص تمہارا وفا شناس نہ ہو

٭٭

یہی دعا ہے کہ تم آؤ یا قضا آئے

نجات پائیں محبت میں جیت ہار سے ہم

٭٭

ہمیں اٹھانے کو آئے وہ فتنۂ محشر

نصیر! یوں نہ اٹھیں گے کبھی مزار سے ہم

٭٭

رکھ دو جو اپنے ہاتھو ں سے میّت اتار کے

ذرّے دعائیں دیں مری خاکِ مزار کے

٭٭

تا دمِ زیست شکایت رہے آہوں سے نصیر

موت آئی ، تو نظر آئی اثر کی صورت

٭٭

عدم کو لے کے چلا ہوں نصیر داغِ فراق

یہ زادِ راہ بہت ہے مجھے سفر کے لیے

٭٭

مر ہی جائیں جو ہم کو مرنا ہے

کیوں اُنہیں اشتباہ میں رکھیے

٭٭

کفن بھی ہو گا مرا پاک صاف اور نیا

رہیں گی قبر میں خوش لباسیاں میری

٭٭

چلے بھی آئیے ! کل کا کچھ اعتبار نہیں

مریضِ ہجر، سحر تک جیا جیا نہ جیا

٭٭

میں چراغِ ناتواں ہوں، کوئی دم کا میہماں ہو

مرے سامنے سے اٹھ کر کوئی ایک پل نہ جائے

٭٭

فرقت میں تو مرنا بھی گوارا نہیں مجھ کو

تم سامنے آ جاؤ تو آ جائے قضا بھی

٭٭

یہ ممکن ہے ترے کوچے میں رہ کر جان سے جائیں

مگر تا مرگ تیرے در کی دربانی نہیں جاتی

٭٭

ہم تو جینے کے لیے مرتے ہیں ان پر ہر دم

جن کو جینا نہیں آتا ہے ، وہ مر جاتے ہیں

٭٭

رند مِل مِل کے گلے روئے تھے پیمانے سے

جب مری لاش اٹھائی گئی میخانے سے

٭٭

اب اس کے بعد چمن جانے یا صبا جانے

گزارنے تھے ہمیں چار دن ، گزار چلے

٭٭

لگا دی تہمتِ بادہ کشی ا ن پر بھی واعظ نے

نصیر ان کی نظر کو جو مئے و مینا سمجھتے ہیں

٭٭

گفتگو شیشہ و ساغر کی عبث ہے ساقی !

ہم و پیتے ہیں جو آنکھوں سے پلائی جائے

٭٭

جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رموز بہت

مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو

٭٭

سلسلہ ٹوٹے نہ ساقی ہوش اڑ جانے کے بعد

مجھ کو ملتا ہی رہے پیمانہ ، پیمانے کے بعد

٭٭

نہ وہ اہتمام کہن ، نہ وہ میکدے کا نظام ہے

نہ وہ رند ہیں ، نہ وہ ہا و ہو، نہ وہ دور ہے نہ وہ جام ہے

٭٭

دیر بوتل کے اٹھانے میں لگے گی کچھ نہ کچھ

مجھ کو اتنی ہی بہت ہے جتنی پیمانے میں ہے

میکدے میں آنے والو ! میکدہ مت چھوڑنا

مرنے جینے کا مزا کچھ ہے ، تو میخانے میں ہے

پی رہا ہوں، جی رہا ہوں ، شاد ہوں ، مسرور ہوں

زندگی ہی زندگی لبریز پیمانے میں ہے

٭٭

رقص کے عالم میں ہو ، جیسے یہ سارا میکدہ

آنکھ ساقی نے ملا رکھی ہے پیمانے سے کیا ؟

دیکھ زاہد! بادۂ سر جوش کے چھینٹے نہ ہوں

تیرے دامن پر ہیں یہ تسبیح کے ’’دانے سے ‘‘ کیا

مئے کشی لازم نہیں ہے بزمِ ساقی میں نصیر

کام جاب آنکھوں سے چل جائے تو پیمانے سے کیا

٭٭

جنابِ شیخ کی در پردہ رندی کا بھی کیا کہنا

پہنچ جاتے ہیں اکثر میکدے میں محترم پہلے

٭٭

پی لیں جو کبھی شیخ تو پی پی کے پکاریں

اے ساقیِ میخانہ ! ذرا اور ، ذرا اور

٭٭

زاہد نے چھلکتا ہوا ساغر نہیں دیکھا

ہر موج میں پوشیدہ ہیں طوفان ہزاروں

٭٭

شرمندہ ہو نہ جائے کہیں شامِ میکدہ

نکلیں نہ آپ اس طرح زلفیں سنوار کے

ساقی نہ ہو نصیر ! تو ویراں ہے میکدہ

ایسے میں کیا کریں گے یہاں دن گزار کے

٭٭

ساقیِ بزم ! پلا ، دیر نہ کر

منتیں کرتے ہیں پیاسے تیرے

٭٭۔

تمھارا حسن جسے لے اڑی تھی انگڑائی

شعاعِ مہر تھا ، موجِ شراب تھا ، کیا تھا

تمام میکدہ سراب ہو گیا جس سے

وہ چشمِ یار تی ، جام شراب تھا کیا تھا

٭٭

مئے کے چھینٹوں سے ابھی پیاس بجھے گی زاہد !

جھوم کر ابر سرِ میکدہ چھانے تو لگے

٭٭

تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ

ہم بنا لیں گے کہیں چھوٹا سا میخانہ الگ

٭٭

خرد اٹھا نہ سکی پھر کوئی بھی ہنگامہ

چڑھی وہ ٹوٹ کے بوئے شرابِ نابِ جنوں

٭٭

تیرے صدقے اب نہیں ساقی مجھے کوئی گلہ

مجھ کو مل جاتی ہے مئے ، پینے کو روزانہ الگ

٭٭

ترے بغیر کبھی مئے کا نام تک نہ لیا

ہزار جام ملے ، سامنے سبو بھی رہے

٭٭

نظر میں بھی نہیں اب گھومتا پیمانہ برسوں سے

قسم کھانے کو بھی دیکھا نہیں میخانہ برسوں سے

٭٭

پلائے گا ساقی تو پینی پڑے گی

کسی دن روا ، ناروا کہتے کہتے

٭٭

سرِ میخانہ کوئی پارسا اب تک نہیں آیا

ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا

٭٭

نہ وہ محفل ، نہ وہ ساقی، نہ وہ ساغر، نہ وہ بادہ

ہماری زندگی اب رہ گئی ہے بے مزا ہو کر

٭٭

مئے یقیناً حرام ہے ، زاہد !

گھونٹ دو گھونٹ پی ، دوا کی طرح

٭٭

پیالہ ہاتھ میں لینا ہی میگساری ہے

بلا سے گھونٹ جو ہم نے پیا پیا نہ پیا

٭٭

ملی تو دیدۂ ساقی سے ، تشنگی تو مِٹی

بہت نہیں ہے تو کم بھی اِ سے نہیں کہتے

٭٭

اے ساقیِ میخانہ ! عنایت کی نظر ہو

تھوڑی سی ملے مجھ کو بھی، شیشے میں اگر ہے

٭٭

بادۂ ناب کا کیا ہے وہ تو پی ہی لیں گے

مہرباں پہلے مگر پیرِ خرابات تو ہو

٭٭

پی تو لیتے ہیں حضرتِ واعظ

لیکن ایسے ، کہ زہر ہو جیسے

٭٭

یوں تبسم ہے ان کے ہونٹوں پر

مئے کی، ساغر میں لہر ہو جیسے

٭٭

میکشوں سے نہ الجھ اے واعظ !

بے پیے مفت میں رسوا ہو گا

٭٭

شرابِ ارغوانی چاہتا ہوں

مگر وہ بھی پرانی چاہتا ہوں

٭٭

آج ساقی پلا شیخ کو بھی

اک یہی محترم رہ گئے ہیں

٭٭

ساقیِ ء کوثر و تسنیم سے نسبت ہے نصیر

کیوں نہ دنیا مِرے میخانے کے چکّر کاٹے

٭٭

ٹوٹتا ہے نشّہ ، اے پیرِ مغاں ! اک جام دے

پھر نہ یہ کہنا کہ تَلپٹ کر گئے میخانہ ہم

کل نصیر ایک جام کا ملنا ہمیں دشوار تھا

آج آنکھوں میں لیے بیٹھے ہیں اک میخانہ ہم

٭٭

پھر آپ جام لیے آرہے ہیں میری طرف

جنابِ شیخ ! ابھی تو پلا کے بیٹھا ہوں

٭٭

نہیں تھے وہ ، تو میخانہ تھا سُونا، جام ویراں تھے

وہ آ پہنچے تو پھر پینے پلانے کا مزا آیا

٭٭

یہ کہ کہ کر پلا دی مجھ کو میخانے میں ساقی نے

ارے اب پی بھی لے ، ایسا کہاں کا پارسا آیا

٭٭

سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا

نشّہ ہر رند کو ہے ایک ہی پیمانے کا

٭٭

تشکر: الف نظامی، اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


4.8 "8"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 4 تبصرے

محمد مدثر
حق نصیر یا نصیر
خدیجہ عبد الرحمٰن
کمااااااااااال است بہترین کام ، جزاک اللہ خیرا
ندیم اکبر
کلام نصیر بھی ایک سلوک ہے
فلک ناز سید
بہت اچھی کمال کی شاعری ہے پیر نصیر الدین نصیر گیلانی کی اللّہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین یارب العالمین

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔