اسٹرجی: ماجد بیٹا! آج تم کچھ گم سُم سے ہو کیا بات ہے گھر پہ سب خیریت تو ہے؟
ماجد: جی ماسٹر جی! بس آج یونہی کچھ طبعیت افسردہ سی ہے۔
ماسٹرجی:مجھے بتاؤ کس بات پر تم اُداس ہو؟
ماجد:بس اپنے ملک کے حالات دیکھ کر مجھے دکھ ہو رہا ہے۔ حالات دن بہ دن ناگفتہ بہ ہوتے جار ہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے حالات کبھی بدلیں گے۔
ماسٹر جی:نا بیٹا نا! مایوسی کفر ہے۔ یہ ملک اللہ کے نام پر اُس کے دین کی سربلندی کے لیے بنایا گیا تھا۔ اللہ خود اِس ملک کا نگہبان ہے۔ ان شاء اللہ یہاں کے حالات بھی ضرور بدلیں گے۔
ماجد:لیکن کیسے ماسٹر جی؟ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت برائیوں کی بدبوُدار دلدل میں گردن تک دھنس چکا ہے۔ اِسے اب کون بچائے گا؟
ماسٹرجی:دیکھو ! جو دلدل میں دھنس رہا ہوتا ہے وہ باہر نکلنے کے لیے بد حواسی میں بری طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور اس طرح وہ مزید تیزی سے دلدل میں دھنسنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں انسان کو اپنے اوسان خطا نہیں کرنے چاہیئیں بلکہ اُسے ساکت ہو جانا چاہیے تاکہ اُس کے دلدل میں دھنسنے کی رفتار کم ہو سکے اور اُسے سوچنے کا کچھ وقت مل سکے۔ اس کے بعد جب وہ ہوش و حواس کے ساتھ سوچنا شروع کرتا ہے تو اکثر اُسے اپنی مشکل حالت سے باہر نکلنے کا راستہ نظر آجاتا ہے۔
ماجد: میں تو کب سے بیٹھا سوچ رہا ہوں مگر مجھے توکوئی بھی حل سجھائی نہیں دیتا۔ میری تو بس اب یہی دُعا ہے کہ کوئی اچھا لیڈر آجائے جو میرے پیارے وطن کو ڈوبنے سے بچالے۔
ماسٹر جی:دیکھو اللہ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں۔ وہ جب محض"کن فیکون" کہہ کر پوری کائنات تخلیق کر سکتا ہے تو پاکستان کے حالات کو ٹھیک کرنا اُس کے لیے کیا بڑی بات ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی یہ کہا ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں. اب اگر تم اپنے آپ میں تبدیلی نہ لاؤ اور شارٹ کٹ لینے کے لیے ایک نجات دہندہ ڈھونڈتے رہو تو پھر یہ تمہاری مرضی ہے۔ بس اتنا ذہن میں رکھنا کہ تم میں سے تمہارے جیسا ہی کوئی شخص لیڈر بنے گا کوئی فرشتہ نہیں آئے گا ۔
ماجد: مگر مجھ میں کیا خرابی ہے؟
ماسٹر جی: یہی تو مسئلہ ہے ہمارا کہ ہمیں دوسرے کی آنکھ کا بال تو صاف دکھائی دیتا ہے مگر خود اپنی آنکھ کا شہتیر ہمیں نظر نہیں آتا۔ تمہاری کل اپنے پڑوسی لڑکے خالد سے توُ توُ میں میں ہورہی تھی میں قریب ہی کھڑا سن رہا تھا کہ تم اُسے سب کے سامنے کس قدر بری بری گالیاں دے رہے تھے۔ کیا یہ اخلاقی برائی قابل اصلاح نہیں؟ اسی طرح اگر انسان اپنے اخلاق کا بغور جائزہ لے تو اُسے شاید اِس میں بہتری کی کافی گنجائش نظر آئے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں برائیوں کا کثیر اَنبار لگا ہوا ہے۔
ماجد: لیکن ماسٹر جی ! خالدمجھ سے بلا وجہ اُلٹی بحث کر رہا تھا اس لیے مجھے غصہ آگیا اور غصہ میں میرے مُنہ سے نا جانے کیا کیا نکل گیا۔
ماسٹر جی: بیٹا اسی لیے غصہ حرام ہے کہ یہ انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس کی سوچنے اور سمجھنے کی طاقت کو زائل کر دیتا ہے اور پھر انسان وہ کرتا ہے جو وہ کبھی نارمل حالت میں نہیں کرتا، بالکل نشہ کی طرح۔ دوسری بات یہ کہ غصہ میں انسان اُس وقت آتا ہے جب اُس کے پاس اَگلے شخص کو قائل کرنے کے لیے دلیل ختم ہو جاتی ہے۔ اور جس کے پاس دلیل نہ ہو اُس کو بحث کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔
ماجد: ماسڑ جی! بات تو آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں اگر بغور دیکھوں تو مجھ میں بھی کئی خامیاں ہیں لیکن میں اگر اپنے آپ کو ٹھیک کرنے بیٹھ گیا تو شاید بہت وقت لگ جائے۔ اور اگر مان لیں کے میں ٹھیک ہو بھی گیا تو اِس سے کیا سار ا زمانہ ٹھیک ہو جائےگا؟ میرے خیال میں اس طویل راہ کے بجائے ہمیں اگر ایک اچھا لیڈر مل جائے تو وہ ہماری تقدیر راتوں رات بدل دے گا۔
ماسٹر جی: بیٹا قوموں کی تقدیریں یوں بیٹھے بیٹھے تبدیل نہیں ہو جاتیں۔ اس کے لیے ایک طویل عرصہ تک خون کے آنسوُ بہانے پڑتے ہیں۔ تم کیا سمجھتے ہو کے یہاں کوئی بھی لیڈر کسی بھی لالچ کے بغیر اقتدار میں آیا تھا یا آج موجود ہے یا مستقبل میں آئے گا؟ اگر واقعی تم ایسا سمجھتے ہو تو تم بہت ہی نادان ہو۔ بیٹے! یہاں کسی کو پیسے کی ہوس ہے تو کسی کو زمین کی اورکسی کو عیاشی کی مگر ایک ہوس ایسی ہے جو بلا تخصیص سب میں پائی جاتی ہے اور وہ ہے طاقت کی ہوس۔ جانتے ہو ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اِس دُنیا میں ماسوائے اُن لوگوں کے کہ جن کے دل میں خوف خدا ہے انسان کے لیے طاقت سے بڑھ کر کوئی اور ہوس نہیں، شہوت نہیں، چاہت نہیں، آرزو نہیں، تمنا نہیں، شوق نہیں، جنون نہیں، دیوانگی نہیں!۔۔۔۔ یاد رکھنا! طاقت وہ دیوی ہے کہ جس کے قبضے میں ہو اُس کے آگےزر، زن، زمین اور دنیا کی دیگر تمام نعمتیں باندیوں کی طرح ہمہ وقت ہاتھ جوڑے حکم کی تعمیل کے لیے چوکس کھڑی رہتی ہیں۔ مگر طاقت کی چاشنی کو حقیقی طور پر وہی سمجھ سکتا ہے جس کے پاس کسی نہ کسی طور کسی نہ کسی درجہ طاقت رہی ہو۔
ماجد: اچھا۔ تو پھر آپ فرمائیے کہ ہم شروع کہاں سے کریں؟
ماسٹر جی: چلو ہم دونوں اس بات کا پکا ارادہ کرتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کریں گے۔ پھراپنی اولاد کو اچھی تعلیم اور تربیت دیں گے اور اُنہیں یہ سمجھائیں گے کہ صراط مستقیم در اصل کیا ہے۔ اور یہ سلسلہ اگر چلتا رہا تو اسی طرح ان شاء اللہ یہ ملک ٹھیک ہو گا۔
ماجد: واہ ماسٹر جی! 20 کروڑ کی آبادی والے ملک کو ہم اس طریقہ سے بھلا کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟
ماسٹر جی: سادہ سی بات ہے"ضرب کی تقسیم" سے!
ماجد: ماسٹرجی! میں ضرب بھی جانتا ہوں اور تقسیم بھی اور یہ بھی کے دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں مگریہ ضرب کی تقسیم کیا شئے ہوتی ہے؟
ماسٹر جی: اس کا مطلب ہے تعلیم و تربیت کو اپنی اولاد یا نئی نسل سے ضرب دے کر اسے معاشرے میں تقسیم کیا جائے۔
ماجد: میں اب بھی نہیں سمجھا!
ماسٹر جی: اس کے لیے تمہیں ضرب کی طاقت اور تقسیم کی برکت کو سمجھنا پڑے گا۔ تمہیں وہ قصہ تو یاد ہو گا جس میں چین کے ایک بادشاہ نے تمام ملک میں یہ منادی کروا دی کہ جو شخص اُسے شطرنج کے کھیل میں زیر کر دے گا وہ اُس کی کوئی بھی ایک خواہش پوری کر دے گا۔
ماجد: بچپن میں سنا تو تھا شاید مگر پوری طرح سے یاد نہیں!
ماسٹر جی: اچھا تو پھرسنو! بادشاہ کے منادی کرانے پر بہت لوگ قسمت آزمائی کے لیے آئے مگر کوئی بھی بادشاہ کو شطرنج کے کھیل میں ہرا نہیں سکا۔ لیکن ایک دن ایک مفلوک الحال شخص آیا اور اُس نے بادشاہ کو باآسانی ہرا دیا۔ بادشاہ کو بڑی مایوسی ہوئی مگر وعدے کے مطابق اُس نے پوچھا کہ اپنی خواہش بیان کرو؟ اس شخص نے کہا کہ عالم پناہ!آپ تو جانتے ہیں کہ شطرنج کی بساط میں کل چونسٹھ (64) خانے ہوتے ہیں ۔ بادشاہ نے کہا ہمیں معلوم ہے۔ وہ شخص بولا چین میں دُنیا بھر سے زیادہ چاول پیدا ہوتا ہے اس لیے سستی شئے ہے۔ بس میری خواہش یہ ہے کہ آپ شطرنج کے پہلے خانے پر چاول کا ایک دانہ میرے لیے رکھ دیں۔ دوسرے خانے میں دگنے یعنی 2 دانے اور تیسرے میں اس کے دُگنے یعنی 4 اور چوتھے میں اس کے دُگنے یعنی 8 اور اس طرح ہر خانے میں چاول کے دانوں کی تعداد کو دُگنا کرتے چلے جائیں یہاں تک کے بساط کے 64 خانےمکمل ہو جائیں۔ پھر آپ وہ تمام چاول میرے حوالے کردیں۔ بس یہی میری خواہش ہے! بادشاہ نے کہا بس اتنی سی بات! یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ہم تمہاری خواہش ابھی پوری کیے دیتے ہیں۔ یوں بادشاہ نے اپنے وزیر کو چاول کی بوری اور شطرنج کی بساط لانے کو کہا اور اُس شخص کی مرضی کے مطابق چاول کے دانے بساط کے خانوں میں رکھنے کو کہا۔ شروع کے خانوں میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا مگر بیس خانوں کے بعد صورتحال انتہائی مشکل ہو گئی اور بالآخر بادشاہ کو سمجھ آگیا کے اُس داناشخص نے بادشاہ سے اتنا چاول مانگ لیا تھا جو چین کی پوری مملکت میں تو چھوڑو پوری دُنیا میں موجود نہ تھا!
ماجد: کیا بات کر رہے ہیں ماسڑجی آپ! ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
ماسٹر جی: وہ اس طرح کے اگر تم پہلے خانے میں ایک پھر دوسرے میں دو اور اسی طرح 64 خانوں میں چاول کے دانوں کی تعداد دگنی کرتے جاؤ تو ضرب کے قانون کے حساب سے چونسٹھویں خانے میں کل چاول کے دانوں کی تعداد 9,223,372,036,854,780,000 (نو ّے سنکھ یا 9 quintillion)ہو جائے گی۔ اور مجموعی طور پہ بساط پر چاول کے دانوں کی تعداد 18,446,744,073,709,600,000 اور ان کا کُل وزن تقریباً تین کھرب اُنہتر اَرب میٹرک ٹن ( metric ton 368,934,881,474) بنے گا۔ جانتے ہو یہ کتنا ہوتا ہے؟
ماجد: پتہ نہیں۔۔۔۔۔ شاید بہت زیادہ!
ماسٹر جی: بہت!!؟ تم اس بات سے اندازہ لگا لو کے 2014 یعنی اس سال پوری دُنیا میں جو چاول کی فصل ہو گی اُس کا کل وزن پچھتر کروڑ ٹن ہو گا یعنی جتنا چاول اُس شخص نے مانگا تھا وہ اُس زمانے کی پیداوار کو چھوڑو آج کی پوری دنیا کی کل پیداوار سے بھی پانچ سو گنا زیادہ تھا!!! دوسرے لفظوں میں پوری دُنیا میں اس سال جو چاول کی کاشت ہو گی اُتنی پیداوار اگر پانچ سو سال تک مسلسل ہوتی رہے گی تو اُتنا چاول بنے کا جتنا اُس شخص نے مانگا تھا!
ماجد: اوہ! اتنا زیادہ؟ مگر اس کہانی کا مقصد کیا ہوا؟
ماسٹر جی: مقصد یہ ہوا کہ آج کے دن اگر 20 کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ایک لاکھ افراد یعنی 0.05 فیصد عوام یہ تہیا کر لیں کے وہ ساری دنیا کو نہیں ، سارے ملک کو نہیں، پورے شہر کو نہیں، تمام اہل محلہ کو نہیں بلکہ صرف اپنی 3 اولادوں کو یا 3عدد پڑوس کے بچوں کویا پھر کسی رشتہ دار کے بچوں کو صحیح تعلیم اور تربیت دیں گے اور اگر فرض کریں کے وہ تربیت یافتہ بچے بھی 3 بچوں کو پڑھائیں گے تو صرف 10 نسلوں میں یہ تعداد ایک لاکھ لوگوں سے بڑھ کر 2 ارب (2 billion) تک پہنچ جائے گی! اوراگر اس ضرب کی طاقت کو عام پاکستانیوں میں فی سبیل اللہ تقسیم کیا جائے گا تو اس تعداد میں ان شاء اللہ اتنی برکت آجائے گی کے تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اسے کہتے ہیں ضرب کی تقسیم!
ماجد: لیکن میری زندگی میں تو کچھ نہیں تبدیل ہو گا؟
ماسٹر جی: کیا ضرور ی ہے تمہاری ہر تمنا تمہاری زندگی میں ہی پوری ہو؟ کیا تم اپنی آنے والی نسلوں کے اچھے مستقبل کے لیےآج ایک معمولی سی قربانی بھی نہیں دے سکتے؟
ماجد: واہ ماسٹر جی! کیا آپ اپنی بات کو ایک انتہائی خوش کُن تصور نہیں کہیں گے؟
ماسٹر جی: ہاں! شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔ بلکہ لوگ تو اسے دیوانے کی بَڑ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اگر نیت صاف ہو، سوچ مثبت ہو، حدف کو اونچا رکھا جائے اور پھر اُس کے حصول کے لیے جہد مسلسل سے کام لیا جائے تو پھر یقیناً اللہ بھی مدد کرتا ہے۔ اورغور سے سنو! جب اللہ کسی کی مدد کرنے پرراضی ہو جائےتو ہدف چاہے جتنا بھی دشوارہو ناکامی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس لیے میرے پیارے بیٹے ابھی سے اقبالؒ کے اس شعر پر عمل شروع کرو :
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
والسلام،سرفراز صدیقی