12:27    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ اندیشۂ زوال

4409 1 0 00




مناجات

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھِلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

***






نعت پاک

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں

نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا

کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے

چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم

مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی

میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے

مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں

صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں

جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں

ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو

نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے

رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی

اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا

***

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

موسمِ گل میں سرِ شاخِ گلاب

شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے

مسکراتا ہے جو اس عالم میں

بخدا مجھ کو خدا لگتا ہے

اتنا مانوس ہوں سناٹے سے

کوئی بولے تو برا لگتا ہے

ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا

درد سے سب سے جدا لگتا ہے

نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن

شکر کرتا ہوں گِلہ لگتا ہے

اس قدر تند ہے رفتارِ حیات

وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے

**

وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے

شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے

ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا

ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے

تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی

کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے

تمام عمر وفا کے گنہگار رہے

یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے

شبِ خاموش کو تنہائی نے زباں دے دی

پہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھے

وہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار

جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے

نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے ذہن میں

ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں

پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے

ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی

کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے

***






ایک درخواست

زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں

دیکھنا، حدِ نظر سے اگے دیکھنا بھی جرم ہے

سوچنا،اپنے یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے

آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں الٹ کر جھانکنا بھی جرم ہے

کیوں بھی کہنا جرم ہے

کیسے بھی کہنا جرم ہے

سانس لینے کی آزادی میسّر ہے

مگر

زندہ رہنے کیلئے کچھ اور بھی درکار ہے

اور اس "کچھ اور بھی" کا تذکرہ بھی جرم ہے

زندگی کے نام پر بس ایک عنایت چاہیئے

مجھے ان جرائم کی اجازت چاہیئے

مجھے ان سارے جرائم کی اجازت چاہیئے

***






ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں

میں تیرے سامنے انبار لگا دوں لیکن

کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا

سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا

یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر

جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے

کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی

جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے

اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید

اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے

اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر

ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے

جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں

شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر

میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر

اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے

ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

***

کس کو قاتل میں کہوں کس کو مسیحا سمجھوں

سب یہاں دوست ہی بیٹھے ہیں کسے کیا سمجھوں

وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر وہم یقیں ہوتا تھا

اب حقیقت نظر آئے تو اسے کیا سمجھوں

دل جو ٹوٹا تو کئی ہاتھ دعا کو اٹّھے

ایسے ماحول میں اب کس کو پرایا سمجھوں

ظلم یہ ہے کہ ہے یکتا تیری بیگانہ روی

لطف یہ ہے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں

***

ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے

وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی

میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں

صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی

یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا

اور ماضی کا ہیولٰی ہے سَرہانے میرے

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا

اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب

زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا

تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اڑتی ہوگی

اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

صرف اِک حسرتِ اظہار کے پر تو ہیں ندیم

میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے

***

ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں

شب صحرا سے مگر صبح چمن مانگتے ہیں

وہ جو ابھرا بھی تو بادل میں لپٹ کر ابھرا

اسی بچھڑے ہوئے سورج کی کرن مانگتے ہیں

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام

ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

ایسے غنچے بھی تو گل چیں کی قبا میں ہیں اسیر

بات کرنے کو جو اپنا ہی دہن مانگتے ہیں

فقط اس جرم میں کہلائے گنہ گار ، کہ ہم

بہر ناموس وطن ، جامہ تن مانگتے ہیں

ہم کو مطلوب ہے تکریم قد و گیسو کی

آپ کہتے ہیں کہ ہم دار و رسن مانگتے ہیں

لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے ، لیکن

ہم تو اے وطن ، درد وطن مانگتے ہیں

__________________

اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا

حسن بر حق ہے ، مگر جب بجھ چکا ہو جی تو کیا

جب ترا کہنا ہے ، تو تقدیر کا محکوم ہے

تُو نے نفرت کی تو کیا، تُو نے محبت کی تو کیا

اب کہاں سے لاؤں وہ آنکھیں جو لذت یاب ہوں

دستِ باراں نے مرے در پر جو دتک دی تو کیا

دھوپ کرنوں میں پرو لے جائے گی ساری نمی

رات بھر پھولوں نے دستِ شب سے شبنم پی تو کیا

اب تو سیلابوں سے جل تھل ہو گئیں آبادیاں

اب مرے کھیتوں کی لاشوں پر گھٹا برسی تو کیا

چور جس گھر میں پلیں، اُس گھر کو کیسے بخش دیں

لُوٹنے آئے ہیں ہم لوگوں کو اپنے ہی تو کیا

ہم نہیں ہوں گے تو پھر کس کام کی تحسینِ شعر

روشنی اک روز ان لفظوں سے پھُوٹے گی تو کیا

دُور کی آہٹ تو آ پہنچی ہے اب سر پر ندیم

آگہی نے مدتوں کے بعد کروٹ لی تو کیا

***

ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں

اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں

ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں

یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں

وہ کڑا موڑ ہے ہمیں درپیش

راستے ہر طرف نکلتے ہیں

کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی

دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں

وہ ہوئیں بارشیں، کہ کھیتوں میں

کرب اگتے ہیں ، درد پلتے ہیں

پتھروں کا غرور ختم ہوا

اب اِنساں شرر اگلتے ہیں

ٹھوکریں کھا رہے ہیں صدیوں سے

گو دلوں میں چراغ جلتے ہیں ۔۔۔

***

بھرم غزال کا جس طرح رَم کے ساتھ رہا

مرا ضمیر بھی میرے قلم کے ساتھ رہا

جُدائیوں کے سفر، سرخوشی میں گزرے ہیں

کہ اُس کا عکس، مری چشمِ نم کے ساتھ رہا

اِک آفتاب مرے سرَ سے ڈھل سکا نہ کبھی

کہ میرا سایہ میرے ہر قدم کے ساتھ رہا

نہ بھول پائے وطن کو جلا وطن جیسے

ہر آدمی کا تعلق ارم کے ساتھ رہا

دُعا کو ہاتھ اُٹھانے سے خوف آتا ہے

کہ جبرِ برق بھی ابرِ کرم کے ساتھ رہا

گواہ ہے مرا اندازِ جاں کنی کے ندیم

مرا غرورِ ہنر میرے دم کے ساتھ رہا

***

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

کبھی جھانکا تری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے

لمس کے دم سے بصارت بھی، بصیرت بھی ملی

چھُو کے دیکھا تو جو پتھر تھے نرے ریشم تھے

تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں

میرے گھر کے یہی ہیرے تھے، یہی نیلم تھے

برف گرماتی رہی، دھوپ اماں دیتی رہی

دل کی نگری میں جو موسم تھے، ترے موسم تھے

مری پونجی مرے اپنے ہی لہو کی تھی کشید

زندگی بھر کی کمائی میرے اپنے غم تھے

آنسوؤں نے عجب انداز میں سیراب کیا

کہیں بھیگے ہوئے آنچل، کہیں باطن نم تھے

جن کے دامن کی ہوا میرے چراغوں پہ چلی

وہ کوئی اور کہاں تھے وہ مرے ہمدم تھے

میں نے پایا تھا بس اتنا ہی صداقت کا سُراغ

دُور تک پھیلتے خاکے تھے، مگر مبہم تھے

میں نے گرنے نہ دیا مر کے بھی معیارِ وقار

ڈوبتے وقت مرے ہاتھ مرے پرچم تھے

میں سرِ عرش بھی پہنچا تو سرِ فرش رہا

کائناتوں کے سب امکاں مرے اندر ضم تھے

عمر بھر خاک میں جو اشک ہوئے جذب ندیم

برگِ گل پر کبھی ٹپکے تو وہی شبنم تھے

***

ہم اپنی قوّتِ تخلیق کو اکسانے آئے ہیں

ضمیرِ ارتقاء میں بجلیاں دوڑانے آئے ہیں

جو گردش میں رہیں گے اور کبھی خالی نہیں ہوں گے

ہم ایسے جام بزمِ دہر میں چھلکانے آئے ہیں

اجل کی رہزنی سے ہر طرف طاری ہیں سنّاٹے

سرودِ زندگی کو نیند سے چونکانے آئے ہیں

ہوائیں تیز ہیں جل جل کے بجھتے ہیں چراغ اپنے

ارادے تند ہیں ہم شمعِ نو بھڑکانے آئے ہیں

وہ دیوانے جو ہمّت ہار کے بیٹھے تھے صدیوں سے

اب اپنی منجمد تقدیر سے ٹکرانے آئے ہیں

عروسِ زندگانی کا سوئمبر رچنے والا ہے

نئے ارجن مشیت کی کماں لچکانے آئے ہیں

***






یہ رات

دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا

مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں

پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر

مگر یہ پردۂ ظلمات ہٹ چکے تو کہوں

یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت

اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا

مجھے تو نیند نہیں آئے گی کہ میرا شعور

شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا

اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی

میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا

شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم

سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں

***

بڑی مانوس لے میں ایک نغمہ سن رہا ہوں میں

کسی ٹوٹی ہوئی چھاگل کی کڑیاں چن رہا ہوں میں

یہاں اب ان کے اظہارِ محبت کا گزر کیا ہو

کہ سناٹے کی موسیقی پہ بھی سر دھن رہا ہوں میں

شبِ وعدہ ابھی تک ختم ہو نے میں نہیں آئی

کہ بر سوں سے مسلسل ایک آہٹ سن رہا ہوں میں

تصور میں ترے پیکر کا سونا گھل گیا ہوگا

ابھی تک لمس کی کیفیتوں میں بھن رہا ہوں میں

خدا کا شکر ہے احساس زیاں مرنے نہیں پایا

ستارے چننے نکلا تھا، شرارے چن رہا ہوں میں

***

روز، اک نیا سورج ہے تری عطاؤں میں

اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں

شاید ان دیاروں میں خوش دلی بھی دولت ہے

ہم تو مسکراتے ہی گھر گئے گداؤں میں

بھائیوں کے جمگھٹ میں، بے ردا ہوئیں بہنیں

اور سر نہیں چھپتے ماؤں کی دعاؤں میں

بارشیں تو یاروں نے کب کی بیچ ڈالی ہیں

اب تو صرف غیرت کی راکھ ہے ہواؤں میں

سُونی سُونی گلیاں ہیں، اُجڑی اُجڑی چوپالیں

جیسے کوئی آدم خور، پھر گیا ہو گاؤں میں

جب کسان کھیتوں میں دوپہر میں جلتے ہیں

لوٹتے ہیں سگ زادے کیکروں کی چھاؤں میں

تم ہمارے بھائی ہو، بس ذرا سی دوری ہے

ہم فصیل کے باہر ، تم محل سراؤں میں

خون رسنے لگتا ہے اُن کے دامنوں سے بھی

زخم چھپ نہیں سکتے، ریشمی رداؤں سے

دوستی کے پردے میں، دشمنی ہوئی اتنی

رہ گئے فقط دشمن اپنے آشناؤں میں

امن کا خدا حافظ۔ جب کہ نخل زیتوں کا

شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاؤں میں

ایک بے گناہ کا خوں، غم جگا گیا کتنے

بٹ گیا ہے اک بیٹا، بے شمار ماؤں میں

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی

تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

خاک سے جدا ہو کر اپنا وزن کھو بیٹھا

آدمی معلق سا رہ گیا خلاؤں میں

اب ندیم منزل کو ریزہ ریزہ چنتا ہے

گھر گیا تھا بےچارہ کتنے رہنماؤں میں

***

وہ جو اک عمر سے مصروف عبادات میں تھے

آنکھ کھولی تو ابھی عرصۂ ظلمات میں تھے

صرف آفات نہ تھیں ذاتِ الٰہی کا ثبوت

پھول بھی دشت میں تھے، حشر بھی جذبات میں تھے

نہ یہ تقدیر کا لکھا تھا نہ منشائے خدا

حادثے مجھ پہ جو گزرے مرے حالات میں تھے

میں نے کی حدِ نظر پار تو یہ راز کھلا

آسماں تھے تو فقط میرے خیالات میں تھے

میرے دل پر تو گریں آبلے بن کر بوندیں

کون سی یاد کے صحرا تھے جو برسات میں تھے

اس سبب سے بھی تو میں قابلِ نفرت ٹھہرا

جتنے جوہر تھے محبت کے مری ذات میں تھے

صرف شیطاں ہی نہ تھا منکرِ تکریمِ ندیم

عرش پر جتنے فرشتے تھے مری گھات میں تھے

***






ایک نظم

ریستوراں کے فرش پہ لرزاں ساۓ رقاصاؤں کے

ذہن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچیں راز خداؤں کے

چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟

جس کی لؤ سے پھول لجائیں، اس چہرے پہ غازے کیوں

یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر

وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر

(2)

راوی کی لہروں پہ رواں ہیں قاشیں چاند ستاروں کی

کس منزل کو لپکی یہ نورانی فوج سواروں کی

چپ شپ !۔ جھکتے تنتے مانجھی! تجھ کو سبک ڈانڈوں کی قسم

دھیرے دھیرے ہو لے ہولے، کاٹ یہ ابرو کا سا خم

یوں مڑ جیسے پھول کی پتی، یوں چل جیسے سر گوشی

وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مد ہوشی

(3)

کھیتوں کی ہر یاول پر یہ دھبے ہیں دہقانوں کے

یا گیتی نے اگلے بو سیدہ تابوت انسانوں کے

سر سر ! دھپ دھپ! اے محنت کش!چھوڑ درانتی توڑ کدال

چاک ہوئ دھرتی کی چھاتی مجھ کو اس محشر سے نکال

چار طرف سے گھیر چکے ہیں جلتی سانسوں کے پیچاک

وقت کے اس لمحے کی حقیقت، آتش ناک ہے آتش ناک

(4)

یہ کس راجہ کا ایواں ہے ملبے کے انباروں میں

جیسے بلوائ کی بیٹھک، لٹے لٹے بازاروں میں

الٹی سانسیں اٹکی آہیں ، اے راہی یہ راز ہیں کیا

پچکے پیٹ دریدہ رانیں، زیست کے یہ انداز ہیں کیا

راجہ اٹھا ڈال کے اپنی بقچی میں فردا کا نظام

وقت کے اس لمحے کا ارادہ خون آشام ہے خون آشام!

(5)

معصوم انساں کے لاشے پہ فتح کے پرچم لہراۓ

استبداد کی بیخ کنی میں کتنے انساں کام آۓ

ہاریں استبدادی قومیں، لیکن کس کی جیت ہوئ

یورپ کی بے رحم سیاست، پورب کی کب میت ہوئ

تمغوں کی تقسیم ہوئ ہے یورپ کے بلوانوں میں

"مال غنیمت" سجتا ہے یورپ کے تمدن خانوں میں

(6)

نو میدی کی دھند میں غلطاں جگنو احساسات کے ہیں

اوّس کے پرّاں قطرے ہیں یا تارے پچھلی رات کے ہیں

جگنو اڑتے شعلے بن کر دھرتی سے ٹکراتے ہیں

جھلمل جھلمل، ڈگمگ ڈگمگ، ہچکولے سے آتے ہیں

موت سے بھڑ جانے کے ارادے اور جینے کی تیاری

وقت کے اس لمحے کا بلاوا بیداری ہے بیداری

***

انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا

دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر

عادی فنا کا تھا تو پجاری بقاء کا تھا

اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں

تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا

ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی

اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا

چھپ چھپ کے روؤں اور سرِ انجمن ہنسوں

مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی

یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا

اس حسنِ اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں

تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا

حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیمؔ

وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا

***

میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا

دُکھی تھے وہ بھی، سو میں اپنے دکھ بھلا بیٹھا

سنی جو شہرتِ آسودہ خاطری میری

وہ اپنے درد لئے، میرے دِل میں آ بیٹھا

بس ایک بار غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی

میں تیرے ہجر میں دستِ دُعا اٹھا بیٹھا

خُدا گواہ کہ لُٹ جاؤں گا، اگر میں کبھی

تجھے گنوا کے ترا درد بھی گنوا بیٹھا

ترا خیال جب آیا تو یوں ہوا محسوس

قفس سے اُڑ کے پرندہ شجر پہ جا بیٹھا

سزا ملی ہے مجھے گردِ راہ بننے کی

گناہ یہ ہے کہ میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا

کٹے گی کیسی اس انجامِ نا شناس کی رات

ہوا کے شوق میں جو شمع ہی بُجھا بیٹھا

مجھے خُدا کی خُدائی میں یہ ہوا محسوس

کہ جیسے عرش پہ ہو کوئی دوسرا بیٹھا

***

طور سے کوئی علاقہ ہے نہ ربط ایمن سے

روشنی میں نے سمیٹی ہے کسی چتون سے

بجلیوں کو تو برسنا تھا سو برسیں شب بھر

ورنہ خرمن تھے بہت دور مرے مسکن سے

میرا سرمایہ ہیں جذبات و خیالات مرے

سر جو کٹتا ہے کٹے ، سر نہ جدا ہو تن سے

مجھ کو ان رابطوں پہ ٹوٹ کے پیار آتا ہے

گرد لپٹی چلی آئی ہے مرے دامن سے

شعلۂ حسن دبانے سے نہیں دب سکتا

کہ شعاعیں تو چھلک پڑتی رہیں چلمن سے

ایسا دیوانہ کیا ہے مجھے تنہائی نے

کہ رفاقت کی توقع ہے مجھے دشمن سے

لٹ رہا ہوں ، مگر اتنی تو تسلی ہے ندیم

شہر کا راستہ پوچھوں گا اسی رہزن سے

***

کسے معلوم تھا اس شے کی تجھ میں بھی کمی ہوگی

گماں تھا تیرے طرزِ جبر میں شائستگی ہوگی

مجھے تسلیم ہے تو نے محبت مجھ سے کی ہوگی

مگر حالات نے اظہار کی مہلت نہ دی ہوگی

میں اپنے آپ کو سلگا رہا ہوں اس توقع پر

کبھی تو آگ بھڑکے گی کبھی تو روشنی ہوگی

وہ وقت آئے گا چاہے آج آئے چاہے کل آئے

جب انساں دشمنی اپنے خدا سے دشمنی ہوگی

سنا ہے عالمِ لاہوت میں پھر زندہ ہونا ہے

مگر دھرتی سے کٹ کر زندگی کیا زندگی ہوگی

***

جب تیرا حکم ملا ، ترک محبت کر دی

دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی

تجھ سے کس طرح میں اظہارِ تمنا کرتا

لفظ سوجھا تو معنی نے بغاوت کر دی

میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے

تو نے تو جا کہ جدائی مری قسمت کر دی

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے

تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی

پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے تیرے کوچے کا پتہ

تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی

کیا ترا جسم ، تیرے حسن کی حدت میں جلا

راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

***

اک محبت کے عوض ارض و سما دے دوں گا

تجھ سے کافر کو تو میں اپنا خدا دے دوں گا

جستجو بھی مرا فن ہے ، مرے بچھڑے ہوئے دوست!

جو بھی در بند ملا ، اس پہ صدا دے دوں گا

اک پل بھی ترے پہلو میں جو ملے ، تو میں

اپنے اشکوں سے اسے آبِ بقا دے دوں گا

رخ بدل دوں گا صبا کا ، ترے کوچے کی طرف

اور طوفان کو اپنا ہی پتہ دے دوں گا

***

اپنے ماحول سے بھی قیس کے رشتے کیا کیا

دشت میں آج بھی اُٹھتے ہیں بگولے کیا کیا

عشق معیار وفا کو نہیں کرتا نیلام

ورنہ ادراک نے دکھلائے تھے رستے کیا کیا

جیسے ہم آدم و حوا کی سزا بھول گئے

ورغلاتے رہے جنت کے نظارے کیا کیا

یہ الگ بات کہ بر سے نہیں گرجے تو بہت

ورنہ بادل مرے صحراؤں پہ اُمڈے کیا کیا

آگ بھڑکی تو درو بام ہوئے راکھ کے ڈھیر

اور دیتے رہے احباب دلاسے کیا کیا

***

اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی

کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی

اپنی پوشاک سے ہشیار! کہ خدام قدیم

دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی

صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں ، مگر اس کے ساتھ

سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی

دل میں وہ زخم کھلے ہیں چمن کیا شے ہے

گھر میں بارات سی اتری ہے گلدانوں کی

ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا ، یا ڈوبا

بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی

تیری رحمت تو مسلّم ہے مگر یہ تو بتا

کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی

مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند

کِس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی

ایک اِک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت

کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی

***

بھلا کیا پڑھ لیا ہے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں

کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں

کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے

کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دُکھ پہ بھیگنا بھُولی نہیں آنکھیں

ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں

نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک شخص کو دِل سے لگا رکھتا

میں دُشمن کو بھی گنتا ہوں محّبت کے سفیروں میں

سبیلیں جس نے اپنے خون کی ہر سو لگائی ہوں

میں صرف ایسے غنی کا نام لکھتا ہوں امیروں میں

بدن آزاد ہے، اندر میرے زنجیر بجتی ہے

کہ میں مختار ہو کر بھی گنا جاؤں اسیروں میں

***

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا

گھر میں گِھر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا

تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے

صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا

اب تیرے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح

سایہ ابر کی مانند گزر جاؤں گا

تیرا پیمانِ وفا راہ کی دیوار بنا

ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا

چارہ سازوں سے الگ ہے میرا معیار کہ میں

زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا

اب تو خورشید کو گزرے ہوئے صدیاں گریں

اب اسے ڈھونڈنے میں تابہ سحر جاؤں گا

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم

بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

***

مروں تو میں کسی چہرے میں رنگ بھر جاؤں

ندیم کاش یہی ایک کام کر جاؤں

یہ دشتِ ترکِ محبت، یہ تیرے قرب کی پیاس

جو اذن ہو تو تیری یاد سے گزر جاؤں

میرا وجود میری روح کو پکارتا ہے

تیری طرف بھی چلوں تو ٹھر ٹھر جاؤں

تیرے جمال کا پر تو ہے سب حسینوں پر

کہاں کہاں تجھے ڈھونڈوں کدھر کدھر جاؤں

میں زندہ تھا کہ تیرا انتظار ختم نہ ہو

جو تو ملا ہے تو اب سوچتا ہوں مر جاؤں

یہ سوچتا ہوں کہ میں بت پرست کیوں نہ ہوا

تجھے قریب جو پاؤں ، خدا سے ڈر جاؤں

کسی چمن میں بس اس خوف سے گزر نہ ہوا

کسی کلی پہ نہ بھولے سے پاؤں دھر جاؤں

یہ جی میں آتا ہے کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں

کہ خون بن کے رگِ سنگ میں اتر جاؤں

***

جانے یہ محّبت کیا شے ہے، تڑپا بھی گئی، ٹپکا بھی گئی

ایک آدھ اُفق دھُندلا بھی گئی، آفاق نئے چمکا بھی گئی

کیوں کہتے ہو قیس اکیلا تھا جب قریۂ نا پرساں سے گیا

ساتھ اس کے، روائے لیلیٰ کی خوشبو بھی اور ہوا بھی گئی

جّدت سے مجھے انکار نہیں یاروں سے مگر یہ پوچھنا ہے

یہ کون سا ہے معیارِ وفا، اُمید گئی تو وفا بھی گئی

یہ صدی بظاہر بُری سہی، یہ صدی کچھ ایسی بُری نہ تھی

گو اس نے بجھائے چراغ کئی، قندیلیں نئی جلا بھی گئی

کچھ خال و خد پہچانو تو، یہ لَو کا تھپیڑا وہی نہ ہو

اِک موج ہوائے گلشن کی، کہتے ہیں، سوئے صحرا بھی گئی

رحمت پہ ندیم نہ طنز کرو، کھیتوں کو خُشک ہی رہنے دو

اب سوئے فلک کیا دیکھتے ہو، بدلی تو برس برسا بھی گئی

***






پابندی

مرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی

راز کیوں کھولتی ہے

اور میں پوچھتا ہوں، تیری سیاست فن میں

زہر کیوں گھولتی ہے

میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا

رات دن رولتی ہے

یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا

اپنے پر تولتی ہے

اِک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر

بوند بھی بولتی ہے






ایک نظم

میں جب شعر کہتا ہوں

دیوارِ فردا پہ میرا قلم

خون کے رنگ میں

پھول سے لفظ لکھتا ہے

لیکن کوئی یہ زباں پڑھنے والا نہیں

***






آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء

لکھوں تو کیا لکھوں!

‫کیسے لکھوں!

لفظوں کی ٹوٹی ہڈّیوں کو کیسے جوڑوں

سبھی روندے ہوۓ حرفوں سے،

نقطوں سے

جو پھوٹا پڑ رہا ہے جیتا جیتا خوں

صفحۂ قرطاس پر چنگاریاں بن کر ٹپکتا ہے

زباں کچلی پڑی ہے

اور اگر بولوں

تو لگتا ہے

مجھے چیخوں کے سوا کچھ بھی نہیں آتا

جنازوں پر یہاں زندہ جنازے سینہ زن ہیں

کچھ اگر باقی ہے تو رگ و پے میں اترتا درد ہے

قلب و جگر کو چیرتا دُکھ ہے

مجھے تو یہ کہنا نہیں آتا

کچھ آتا ہے

تو ایسے المیے پر

اور عناصر کے مقابل اپنی فطری بے بسی پر

ٹوٹ کر رہنا ہی آتا ہے

لکھوں تو کیا لکھوں!

بشکریہ ’کتاب نما‘ اگست ۲۰۰۶ء






عنفوانِ شباب

شبنم آئینہ بدست آئی سرِ برگِ گلاب

ایک معصوم کلی

شاخساروں سے ہمک کر نکلی

آئینہ دیکھ کے شرمائی لجائی، کانپی

جھرجھری لے کے سنبھلنا چاہا

لیکن احساسِ جمال

ایک کوندا ہے جو پہلے تو لپکتا ہی چلا جاتا ہے

اور معصوم کلی

کپکپاہٹ کے تسلسل سے چٹکنے پہ جو مجبور ہوئی

چور ہوئی

غنچہ تخلیق ہوا

آئینہ چونک اٹھا






گونج

رات کا پُر وقار سنّاٹا

گونجتی ہے صدائے پائے نجوم

اصل میں گونج ہے سکوت کا گیت

اور پھر کس قدر لطیف و بسیط

گونج ہی گونج کبریا کی ذات

گونج ہی گونج ماورائے حیات

یہ حقیقت مگر کسے معلوم!

زندگی گونج کے سوا کیا ہے

ایک انسان، دوسرے کا نقیب

پھول کی گونج پھول کی مہکار

اور یہی ہے اثاثۂٔ گلزار

ایک اک پھول گلستاں کا غرور

ایک اک آدمی جہاں کا غرور

کاش سب کو مری نظر ہو نصیب!

***






انسان

خدا عظیم، زمانہ عظیم، وقت عظیم

اگر حقیر ہے کوئی یہاں تو صرف ندیم

وہی ندیم، وہی لاڈلا بہشتوں کا

وہی ندیم، جو مسجود تھا فرشتوں کا

وہ جس نے جبر سے وجدان کو بلند کہا

وہ جس نے وسعتِ عالم کو اک زقند کہا

وہ جس نے جرمِ محبت کی جب سزا پائی

تو کائنات کے صحراؤں میں بہار آئی

وہ جس نے فرش کو بھی عرش کا جمال دیا

وہ جس نے تند عناصر کو ہنس کے ٹال دیا

بڑھا تو راہیں تراشیں، رُکا تو قصر بنائے

اُڑا تو گیت بکھیرے، جھکا تو پھول کھلائے

وہ جس کے نام سے عظمت قسم اٹھاتی ہے

اسی کی آج خدائی ہنسی اڑاتی ہے

نہیں ۔۔۔کسی سے بگڑنا مرا سبھاؤ نہیں

مری سرشت میں گلزار ہیں، الاؤ نہیں

ہزار بار شکستوں پہ مسکرایا ہوں

مصیبتوں کی گرج میں بھی گنگنایا ہوں

اگر حریمِ بقا سے فنا ملی ہے مجھے

اسی فنا میں بقا کی ادا ملی ہے مجھے

خدا شناس بھی ہوں اور خود شناس بھی ہوں

خدا سے دور بھی ہوں اور خدا کے پاس بھی ہوں

یہاں زمیں پہ بھی تخلیق کام ہے میرا

کہ کبریائی سے منسوب نام ہے میرا

زمیں مری ہے، فضا بھی مری، خلا بھی مری

خلا مری ہے تواقلیم ماورا بھی مری

خدا کے ذہن کا فن پارۂ عظیم ہوں میں

تمام دہر کا دولھا ہوں میں۔۔۔۔ندیم ہوں میں

(’’شعلۂ گل‘‘) اپریل 1947

***






وقت

سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں

چاند بلّور کی ٹوٹی ہوئی چوڑی کی طرح اٹکا ہے

دامنِ کوہ کی اک بستی میں

ٹمٹماتے ہیں مزاروں پہ چراغ

آسماں سرمئی فرغل میں ستارے ٹانکے

سمٹا جاتا ہے، جھکا آتا ہے

وقت بیزار نظر آتا ہے!

سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں

صبح کی نقرئی تنویر رچی جاتی ہے

دامنِ کوہ میں بکھرے ہوئے کھیت

لہلہاتے ہیں تو دھرتی کے تنفّس کی صدا آتی ہے

آسماں کتنی بلندی پہ ہے اور کتنا عظیم

نئے سورج کی شعاعوں کا مصفّا آنگن

وقت بیدار نظر آتا ہے!

سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں

آفتاب ایک الاؤ کی طرح روشن ہے

دامنِ کوہ میں چلتے ہوئے ہل

سینۂ دہر پہ انسان کے جبروت کی تاریخ رقم کرتے ہیں

آسماں تیز شعاعوں سے ہے اس درجہ گداز

جیسے چھونے سے پگھل جائے گا

وقت تیار نظر آتا ہے!

سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں

زندگی کتنے حقائق کو جنم دیتی ہے

دامنِ کوہ میں پھیلے ہوئے میدانوں پر

ذوقِ تخلیق نے اعجاز دکھائے ہیں لہو اُگلا ہے

آسماں گردشِ ایّام کے ریلے سے ہراساں تو نہیں

خیر مقدم کے بھی انداز ہوا کرتے ہیں

وقت کی راہ میں موڑ آتے ہیں، منزل تو نہیں آ سکتی!

(’’شعلۂ گل‘‘) 1949

***






فکر

راتوں کی بسیط خامشی میں

جب چاند کو نیند آ رہی ہو

پھولوں سے لدی خمیدہ ڈالی

لوری کی فضا بنا رہی ہو

جب جھیل کے آئنے میں گھل کر

تاروں کا خرام کھو گیا ہو

ہر پیڑ بنا ہوا ہو تصویر

ہر پھول سوال ہو گیا ہو

جب خاک سے رفعتِ نما تک

ابھری ہوئی وقت کی شکن ہو

جب میرے خیال سے خدا تک

صدیوں کا سکوت خیمہ زن ہو

اس وقت مرے سلگتے دل پر

شبنم سی اتارتا ہے کوئی

یزداں کے حریم بے نشاں سے

انساں کو پکارتا ہے کوئی

(’’دشت وفا‘‘) دسمبر1953

***






بولنے دو

بولنے سے مجھے کیوں روکتے ہو؟

بولنے دو، کہ میرا بولنا دراصل گواہی ہے مرے ہونے کی

تم نہیں بولنے دو گے تو میں سناٹے کی بولی ہی میں بول اٹھوں گا

میں تو بولوں گا

نہ بولوں گا تو مر جاؤں گا

بولنا ہی تو شرف ہے میرا

کبھی اس نکتے پہ بھی غور کیا ہے تم نے

کہ فرشتے بھی نہیں بولتے

میں بولتا ہوں

حق سے گفتار کی نعمت فقط انساں کو ملی

صرف وہ بولتا ہے

صرف میں بولتا ہوں

بولنے مجھ کو نہ دو گے تو مرے جسم کا ایک ایک مسام بول اٹھے گا

کہ جب بولنا منصب ہی فقط میرا ہے

میں نہ بولوں گا تو کوئی بھی نہیں بولے گا






چاند

اسے میں نے دیکھا

تو سوچا

کہ اب چاند نے

اپنے سورج سے

لَو مانگنا چھوڑ دی ہے!

(’’دوام‘‘) جنوری1976

***






پت جھڑ کی تنہائی

عجب خال و خد تھے!

ستارہ سی آنکھیں

شرارہ سے لب

اور صحیفہ سا چہرہ!

بدن۔۔۔۔اک چمن

چال۔۔۔۔بادِ صبا

بات۔۔۔۔خوشبو

محبت۔۔۔۔بہت گہری آسودگی فصلِ گل کی!

مگر آج وہ خال و خد دیکھ کر سوچتا ہوں

کہ میری بصارت کو پت جھڑ کی تنہائی نے کھا لیا ہے

(’’دوام‘‘) جنوری1976

***






منفیّت کا منشور

چلو کچھ اور سوچیں

ہم نے اب تک جو بھی سوچا ہے

وہ صدیوں کی پرانی سوچ ہے

اب عہدِ جوہر ہے

یہ وہ لمحہ ہے

جس کے شہپروں پر بیٹھ کر

ہم کو زمیں سے اپنا ناتا توڑنا اور آسماں سے جوڑ لینا ہے

چلو کچھ اور سوچیں

اب یہ دنیا

اور انساں

اور اس کے دُکھ

پرانے، کرم خوردہ، بھربھرے، بد رنگ، بے لذت فسانے ہیں

چلو کچھ اور سوچیں

اور محبت کی بساطیں تہہ کریں

اور حسن کی قدریں بدل ڈالیں

چمکتی دھوپ پر

اور چاندنی راتوں پہ لعنت بھیج کر

پھولوں پہ تھوکیں

ندیوں کو پتھروں سے پاٹ دیں

رشتوں کو کاٹیں

رابطوں کو روند ڈالیں

سولیاں گاڑیں

چلو کچھ اور سوچیں

لفظ سے مفہوم کی دولت اچک لیں

اور اسے پتھر بنا ڈالیں

زبانیں نوکِ خنجر کی طرح سینوں میں گاڑیں

نغمگی کو چیخ میں بدلیں

سمندر خشکیوں پر کھینچ لائیں

وادیوں میں دلدلیں بھر دیں

چلو کچھ اور سوچیں

اب یہی سوچیں

کہ جو کچھ آدمی نے آج تک سوچا ہے

وہ سب کفر ہے

اور حق فقط یہ ہے

کہ جو کچھ ہے

نہیں ہے

کچھ نہیں ہے

واہمہ ہے

خواب ہے

اور خواب سوچوں کی قدامت کا نتیجہ ہیں!

(’’دوام‘‘) جنوری1976

***






خواب

چاندنی نے رنگِ شب جب زرد کر ڈالا۔۔۔۔تومیں

ایک ایسے شہر سے گزرا۔۔۔۔جہاں

صرف دیواریں نمایاں تھیں

چھتیں معدوم تھیں

اور گلیوں میں فقط سائے رواں تھے

جسم غائب تھے

***






دعا

مجھے بھی مژدۂ کیفیت دوامی دے

مرے خدا! مجھے اعزازِ نا تمامی دے

میں تیرے چشمۂ رحمت سے شاد کام تو ہوں

کبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دے

مجھے کسی بھی معزز کا ہمرکاب نہ کر

میں خود کماؤں جسے، بس وہ نیک نامی دے

وہ لوگ جو کئی صدیوں سے ہیں نشیب نشیں

بلند ہوں، تو مجھے بھی بلند بامی دے

تری زمین یہ تیرے چمن رہیں آباد

جو دشتِ دل ہے، اسے بھی تو لالہ فامی دے

بڑا سرور سہی تجھ سے ہمکلامی میں

بس ایک بار مگر ذوقِ خود کلامی دے

میں دوستوں کی طرح خاک اڑا نہیں سکتا

میں گردِ راہ سہی، مجھ کو نرم گامی دے

اگر گروں تو کچھ اس طرح سربلند گروں

کہ مارکر، مرا دشمن مجھے سلامی دے

(’’دوام‘‘) مارچ1976

***






لاتعداد

ابھی وقت کے ہاتھ میں

ایک شاخِ شکستہ تو ہے

اس کے سائے میں چلنا

بڑا لطف دے گا

کہ جو سورجوں کی تمازت میں جلتے رہے

یہ نہیں دیکھتے

ان پہ جس شاخ کی چھاؤں ہے

اس میں پتوں کی تعداد کیا ہے

(’’بسیط‘‘) فروری1989

***






ایک نظریۓ کا نوحہ

وہ جو عشق پیشہ تھے

دل فروش تھے

مر گئے!

وہ ہوا کے ساتھ چلے تھے

اور ہوا کے ساتھ بکھر گئے

وہ عجیب لوگ تھے

برگِ سبز کو برگِ زرد کا روپ دھارتے دیکھ کر

رخِ زرد اشکوں سے ڈھانپ کر

بھرے گلشنوں سے

مثالِ سایۂ ابر

پل میں گزر گئے

وہ قلندرانہ وقار تن پہ لپیٹ کر

گھنے جنگلوں میں گھری ہوئی کھلی وادیوں کی بسیط دھند میں

رفتہ رفتہ اتر گئے!

***

(’’بسیط‘‘) اپریل 1989






مجروح

جہاں بھی ہاتھ لگایا، تمام زخم تھا جسم

مری قبا سے تو ملبوسِ قیس بہتر تھا

خراشیں سر سے مری ایڑیوں تک آ پہنچیں

ادھر سے تیر چلے اور ادھر سے شمشیریں

کہیں ہے ضرب تبر کی، کہیں ہے نیزے کی

میں اک جہاں کا ہدف ہوں، کہ مجھ سے جیتے جی

کسی بھی ظلم کی تائید کا نہ جرم ہوا

میں بار گاہِ شہی میں بھی سربلند رہا

(جولائی 1992)

***






ڈیپریشن

کہاں گئی ہیں وہ صبحیں، کدھر گئیں شامیں؟

کہاں گئے وہ طلوع و غروب کے منظر؟

نہ ظلمتیں، نہ اجالے، نہ رات اور نہ دن

یہاں سے حد نظر تک ہے ملگجی سی فضا

بچھا ہوا ہے زمیں پر بسیط سناٹا

صدا کہیں سے بھی آتی نظر نہیں آتی

سماعتوں پر گھنی خامشی کے پہرے ہیں

(جولائی 1992)

***






’شعلۂ گل‘ سے

ابھی نہیں اگر اندازۂ سپاس ہمیں

تو کیوں ملی تھی بھلا تابِ التماس ہمیں

افق افق پہ نقوشِ قدم نمایاں ہیں

تلاش لائی کہاں سے تمھارے پاس ہمیں

کبھی قریب سے گزرے، بدن چرائے ہوئے

تو دور تک نظر آتے رہے اداس ہمیں

جو ہو سکے تو اس ایثار پر نگاہ کرو

ہماری آس جہاں کو، تمھاری آس ہمیں

ڈبو چکا ہے امنگوں کو جس کا سناٹا

بلا رہا ہے اسی بزم سے قیاس ہمیں

یہ پوچھنا ہے، کب آدم زمیں پہ اترے گا

جو لے چلے کوئی کامل، خدا کے پاس ہمیں

یہیں ملیں گے تمھیں پھول بھی، ستارے بھی

بتا رہی ہے دلآویزیِ لباس ہمیں

***

میں کب سے گوش بر آواز ہوں، پکارو بھی

زمین پر یہ ستارے کبھی اتارو بھی

مری غیور امنگو، شباب فانی ہے

غرورِ عشق کا دیرینہ کھیل ہارو بھی

سفینہ محوِ سفر ہو تو نا رسیدہ نہیں

قدم قدم پہ کنارے ہیں، تم سدھارو بھی

مرے خطوط پہ جمنے لگی ہے گردِ حیات

اداس نقش گرو، اب مجھے نکھارو بھی

بھٹک رہا ہے دھندلکوں میں کاروانِ خیال

بس اب خدا کے لیے کاکلیں سنوارو بھی

مری تلاش کی معراج ہو تمھی لیکن

نقاب اُٹھاؤ، نشانِ سفر ابھارو بھی

یہ کائنات ازل سے سپردِ انساں ہے

مگر ندیم! تم اس بوجھ کو سہارو بھی

***

بڑی مانوس لَے میں ایک نغمہ سن رہا ہوں میں

کسی ٹوٹی ہوئی چھاگل کی کڑیاں چن رہا ہوں میں

یہاں اب ان کے اظہارِ محبت کا گزر کیا ہو

کہ سناٹے کی موسیقی پہ بھی سر دھُن رہا ہوں میں

شبِ وعدہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آئی

کہ برسوں سے مسلسل ایک آہٹ سن رہا ہوں میں

تصور میں ترے پیکر کا سونا گھل گیا ہوگا

ابھی تک لمس کی کیفیتوں میں بھن رہا ہوں میں

خدا کا شکر، احساس زمیں مرنے نہیں پایا

ستارے چننے نکلا تھا، شرارے چن رہا ہوں میں

***

ہجومِ فکر و نظر سے دماغ جلتے ہیں

وہ تیرگی ہے کہ ہر سو چراغ جلتے ہیں

کچھ ایسا تند ہوا جا رہا ہے بادۂ زیست

کہ ہونٹ کانپتے ہیں اور ایاغ جلتے ہیں

چمک رہے ہیں شگوفے، دہک رہے ہیں گلاب

وفورِ موسمِ گل ہے کہ باغ جلتے ہیں

نہیں قریب تو کچھ دور بھی نہیں وہ دور

شفق کے روپ میں جس کے سراغ جلتے ہیں

ترے نصیب میں راتیں، مرے نصیب میں دن

ترے چراغ، مرے دل کے داغ جلتے ہیں

***






دشتِ وفا سے

شام کو صبحِ چمن یاد آئی

کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی

جب خیالوں میں کوئی موڑ آیا

تیرے گیسو کی شکن یاد آئی

یاد آئے ترے پیکر کے خطوط

اپنی کوتاہیِ فن یاد آئی

چاند جب دور اُفق پر ڈوبا

تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی

دن شعاعوں سے الجھتے گزرا

رات آئی تو کرن یاد آئی

***

انجمنیں اجڑ گئیں، اٹھ گئے اہلِ انجمن

چند چراغ رہ گئے، جن کی لویں ہیں سینہ زن

اب ترا التفات ہے، حادثۂ جمال و فن

اندھے عقاب کی اڑان، زخمی ہرن کا بانکپن

ہائے یہ مختصر حیات، ہائے یہ اک طویل رات

اے مرے ’’دوست‘‘ اک نظر اے مرے چاند، اک کرن

حسن اگر جھکا رہا، بر درِ خسروانِ دہر

کٹتے رہیں گے کوہسار، مرتے رہیں گے کوہکن

اترے ہیں برگہائے زرد لالہ و گل کے روپ میں

ایسے نحیف جسم پر، اتنا مہین پیرہن

***

کتنے خورشید بیک وقت نکل آئے ہیں

ہر طرف اپنے ہی پیکر کے گھنے سائے ہیں

ذہن پر تنگ ہوا جب بھی اندھیرے کا حصار

چند یادوں کے دریچے ہیں، جو کام آئے ہیں

کون کہتا ہے، محبت ہے فقط جی کا زیاں

ہم تو اک دل کے عوض حشر اٹھا لائے ہیں

کتنے پل کے لیے وہ زینتِ آغوش رہے

کتنے برسوں کے مگر زخم نکھر آئے ہیں

گونج گونج اُٹھتی ہے آواز شکستِ دل کی

جب بھی تارہ کوئی ٹوٹا ہے، وہ یاد آئے ہیں

داستانِ غمِ دنیا ہو کہ افسانۂ دل

وہی قصے ہیں جو ہر دور نے دہرائے ہیں

سینۂ ارض میں بیدار ہے احساسِ جمال

جب سے فن کار ستاروں سے اُتر آئے ہیں

اے سحر، آج ہمیں راکھ سمجھ کر نہ اُڑا

ہم نے جل جل کے ترے راستے چمکائے ہیں

***

فاصلے کے معنی کا کیوں فریب کھاتے ہو

جتنے دور جاتے ہو، اتنے پاس آتے ہو

رات ٹوٹ پڑتی ہے جب سکوتِ زنداں پر

تم مرے خیالوں میں چھپ کے گنگناتے ہو

میری خلوتِ غم کے آہنی دریچوں پر

اپنی مسکراہٹ کی مشعلیں جلاتے ہو

جب تنی سلاخوں سے جھانکتی ہے تنہائی

دل کی طرح پہلو سے لگ کے بیٹھ جاتے ہو

تم مرے ارادوں کے ڈوبتے ستاروں کو

یاس کی خلاؤں میں راستہ دکھاتے ہو

کتنے یاد آتے ہو، پوچھتے ہو کیوں مجھ سے

جتنا یاد کرتے ہو اُتنے یاد آتے ہو

***

تو جو بدلا تو زمانہ ہی بدل جائے گا

گھر جو سُلگا تو بھرا شہر بھی جل جائے گا

سامنے آ، کہ مرا عشق ہے منطق میں اسیر

آگ بھڑکی تو یہ پتھر بھی پگھل جائے گا

دل کو میں منتظرِ ابرِ کرم کیوں رکھوں

پھول ہے، قطرۂ شبنم سے بہل جائے گا

موسمِ گل اگر اس حال میں آیا بھی تو کیا

خونِ گل، چہرۂ گلزار پہ مل جائے گا

وقت کے پاؤں کی زنجیر ہے رفتار، ندیم

ہم جو ٹھہرے تو اُفق دور نکل جائے گا

’دوام‘ سے

***

سونی سونی گلیاں ہیں، اجڑی جڑی چوپالیں

جیسے کوئی آدم خور، پھر گیا ہو گاؤں میں

جب کسان، کھیتوں پر دوپہر میں جلتے ہیں

لوٹتے ہیں سگ زادے، کیکروں کی چھاؤں میں

تم ہمارے بھائی ہو۔۔۔بس ذرا سی دوری ہے

ہم فصیل کے باہر، تم محل سراؤں میں

خون رسنے لگتا ہے، ان کے دامنوں سے بھی

زخم چھپ نہیں سکتے، ریشمی رداؤں میں

دوستی کے پردے میں، دشمنی ہوئی اتنی

رہ گئے فقط دشمن، اپنے آشناؤں میں

امن کا خدا حافظ۔۔۔جب کہ نخل زیتوں کا

شاخ شاخ بٹتا ہے، بھوکی فاختاؤں میں

ایک بے گنہ کا خوں، غم جگا گیا کتنے!

بٹ گیا ہے اِک بیٹا، بے شمار ماؤں میں

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی

تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

خاک سے جدا ہو کر، اپنا وزن کھو بیٹھا

آدمی معلق سا رہ گیا خلاؤں میں

اب ندیم منزل کو ریزہ ریزہ چُنتا ہے

گھِر گیا تھا بے چارہ، کتنے رہنماؤں میں

***

آپ ہی اپنا تماشائی ہوں

میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں

نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید

میں مجسم شبِ تنہائی ہوں

ہے سفر شرط مجھے پانے کی

میں کہ اک لالۂ صحرائی ہوں

سیدھے رستے پہ چلوں تو کیسے

بھولی بھٹکی ہوئی دانائی ہوں

مجھ سے خود کو نہ سمیٹا جائے

اور خدائی کا تمنائی ہوں

میرے ماضی کے اندھیروں پہ نہ جا

صبحِ آئندہ کی رعنائی ہوں

کاش یہ جانتا دشمن میرا

میں ہر انسان کا شیدائی ہوں

میں پہاڑوں کی خموشی ہوں ندیم

اور میں بحر کی گویائی ہوں

*

اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا

وہ جو اسکی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا

مرا درد کیسے وہ جانتا مری بات کیسے وہ مانتا

وہ تو خود فنا ہی کے ساتھ تھا اسے روکنا بھی محال تھا

وہ جو اسکے سامنے آگیا کسی روشنی میں نہا گیا

عجب اسکی ہیبتِ حسن تھی عجب اسکا رنگِ جمال تھا

دمِ واپسیں اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی

وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ جو اپنی آپ مثال تھا

وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا

اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا

میرے ساتھ لگ کے وہ رودیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا

جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا

***






قطعات

کنجِ زنداں میں پڑا سوچتا ہوں

کتنا دلچسپ نظارا ہوگا

یہ سلاخوں میں چمکتا ہوا چاند

تیرے آنگن میں بھی نکلا ہوگا

(دسمبر1958)

*

حد سے جب بڑھنے لگا تلخیِ حالات کا زہر

ذائقے کو تری شیریں دہنی یاد آئی

جب بھی میں راہ سے بھٹکا، ترا پیکر چمکا

جب بھی رات آئی، تری سیم تنی یاد آئی

*

داور حشر مجھے تیری قسم

عمر بھر میں نے عبادت کی ہے

تو مرا نامۂ اعمال تو دیکھ

میں نے انساں سے محبت کی ہے

(جنوری 1959)

*

چاند نکلا ہے سرِ بام لب بام آؤ

دل میں اندیشۂ انجام نہ آنے پائے

کچھ اس انداز سے اترو مری تنہائی میں

کھوج میں گردشِ ایام نہ آنے پائے

*

اس درد کا بھی کریں مداوا

اس دَور کے چارہ گر کہاں ہیں

آنسو مرے دل میں گر رہے ہیں

نالے مرے خون میں رواں ہیں

(’’دشت وفا‘‘ سے ماخوذ)






میرے شعر

تم بھی اے دوستو ہجوم کے ساتھ

اصطلاحوں کی رو میں بہتے ہو

یہ جوانی کے چند سپنے ہیں

تم جنھیں میرے شعر کہتے ہو






گہرائیاں

بہت اٹھے محبت کے مفسر

کوئی اس راز میں کامل نہ پایا

تہوں سے سیپیاں چنتے رہے سب

مگر اس بحر کا ساحل نہ پایا






رم جھم

میں دور سہی لیکن تیرے اشکوں کی رم جھم سنتا ہوں

بیٹھا ہوا دیس پرائے میں روتا ہوں اور سر دھنتا ہوں

جب برکھا دھوم مچاتی ہے اور کوئل بن میں گاتی ہے

احساس کے موتی چنتا ہوں تخیل کے نغمے بنتا ہوں






شبنم کے چراغ

گل و نسریں کے محلات میں شبنم کے چراغ

یہ فقط ایک تصور ہی نہیں اے ہمدم

یہ اگر صرف تصور ہے مرا تو اے کاش

ہوتی اس طرح حقیقت بھی حسیں اے ہمدم






عشق یا ہوس

بجتے ہی گجر اڑے پتنگے

لالچ تھا یہ بندگی نہیں تھی

مٹی کے دیئے کا ذکر کیسا

دراصل دیئے کی لو حسیں تھی






فریب نظر

رخسار ہیں یا عکس ہے برگ گل تر کا

چاندی کا یہ جھومر ہے کہ تارا ہے سحر کا

یہ آپ ہیں یا شعبدہ ء خواب جوانی

یہ رات حقیقت ہے کہ دھوکا ہے نظر کا






یاد ماضی

جبیں بے رنگ کاکل گرد آلود

لبوں پر پپڑیاں گالوں پہ سایہ

تری آنکھوں کے ڈورے سرخ کیوں ہیں

تجھے کیا عہد ماضی یاد آیا؟






جوگ

شکستہ مقبروں میں ٹوٹتی راتوں کو اک لڑکی

لئے ہاتھوں میں بربط جوگ میں کچھ گنگناتی ہے

کہا کرتے ہیں چرواہے کہ جب رکتے ہیں گیت اس کے

تو اک تازہ لحد سے چیخ کی آواز آتی ہے






ہرجائی

مری ہی دین ہے تیرا تبسم ہمہ گیر

ترے خرام کا لہراؤ ہے مرا ہی کمال

قدم قدم پہ نگاہوں نے وہ چراغ جلائے

ہر آئینے میں جھلکتا ہے صرف تیرا جمال

تشکر: اردو دنیا ستمبر 2006ء

*






ایک نظم

بھلا کسی کا ستاروں پہ کیا اجارہ چلے

زمانے بھر کے لئے وقف ہیں یہ قندیلیں

یہ سلسبیل تجلی اسی لئے ہے رواں

کہ تیرگی کے ستائے ہوئے ذرا جی لیں

*

مجھے خبر نہ ہوئی اور مری محبت خام

کئی فسردہ دلوں کے لئے علاج بنی

مجھے پتہ نہ چلا اور مری یہی نیکی

جہاں کی لاج بنی میری احتیاج بنی

*

میں سوچتا ہوں کہ اے کاش تیرا پیکر ناز

بس ایک پل کے لئے صرف میرا ہو جاتا

مری نظر میں ستارے کچھ ایسے گھل جاتے

کہ آسمان و زمیں پر اندھیرا ہو جاتا

*

مگر یہ خام خیالی خلاف فطرت ہے

کبھی رکے ہیں پتنگے اگر چراغ جلے

زمانے بھر کے لئے وقف ہیں ‌یہ قندیلیں

بھلا کسی کا ستاروں پہ کیا اجارہ چلے

***

بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے

وہ زود رنج تو ہے، وہ وفا شناس بھی ہے

تقاضے جِسم کے اپنے ہیں، دل کا مزاج اپنا

وہ مجھ سے دور بھی ہے، اور میرے آس پاس بھی ہے

نہ جانے کون سے چشمے ہیں ماورائے بدن

کہ پا چکا ہوں جسے، مجھ کو اس کی پیاس بھی ہے

وہ ایک پیکرِ محسوس، پھر بھی نا محسوس

میرا یقین بھی ہے اور میرا قیاس بھی ہے

حسیں بہت ہیں مگر میرا انتخاب ہے وہ

کہ اس کے حُسن پہ باطن کا انعکاس بھی ہے

ندیم اُسی کا کرم ہے، کہ اس کے در سے ملا

وہ ا یک دردِ مسلسل جو مجھ کو راس بھی ہے

***

کمپوزنگ: ماہنامہ اردو دنیا گوشۂ احمد ندیم قاسمی (افروز عالم کے توسط سے) ، مختلف اردو فورمس کے ارکان، اعجاز عبید

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔