11:19    , بدھ   ,   19    فروری   ,   2025

تحقیق و تنقید - نثر

6291 0 0 00

پروفیسر شکیل الرحمن

ادب اور جمالیات

جمالیات کی جستجو

بابائے جمالیات پروفیسر شکیل الرحمٰن ہندوستانی جمالیات کا تنقیدی استعارہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے ادب اور  فنونِ لطیفہ کی جمالیاتی جہتوں سے اردو کے قارئین کو روشناس کرایا ہے۔ ’’ہندوستانی جمالیات ‘‘ میں ہندوستان کی ہزاروں سال پرانی تہذیبی جمالیات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ہندوستان جمالیاتی سطح پر دیگر ممالک سے زیادہ زندہ و تابندہ نظر آتا ہے۔ ’’غالب اور  ہند مغل جمالیات ‘‘ میں غالب کی شاعری ہی نہیں بلکہ مغل دور کے فنونِ لطیفہ کی لطافت اور  نزاکت پر عالمانہ جمالیاتی ڈسکورس ہے۔ ’’رومی کی جمالیات‘‘  اور ’’حافظ کی جمالیات ‘‘ تصوّف اور  روشنی کے فلسفے کی جمالیات پر محیط ہے۔’اس کتاب میں شامل تمام مضامین میں ’تصوّف کی جمالیات‘‘ اور  ’’روشنی کی جمالیات‘‘ شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جمالیات ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی تعریف و توضیح پیش کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیوں کہ اس میں اتنی تہیں اور  جہتیں پائی جاتی ہیں کہ ان کی تہوں اور  جہتوں کو کھولنا اور  ان پر روشنی ڈالنے کا کام کبھی ختم نہیں ہو سکتا ہے۔کوئی ماہرِ جمالیات اس کی تہوں کو اتنا ہی کھول سکتا ہے اور  اس پر روشنی ڈال سکتا ہے جتنا اس کا مطالعہ اور  مشاہدہ وسیع ہو گا۔شکیل الرحمٰن نے فیثا غورث، سقراط، ارسطو، لیونارڈ، بوآئیلو(Boileau )، بام گارٹن(Baumgarten )، ہیگل، نوالس (Novalis )، چرنی شاسکی (Chernyshoiski ) اور بلسکی (Belinsky ) وغیرہ جیسے فلسفیوں کی نظریات پر تبصرہ کرتے ہوئے جمالیات کی جو توضیح و تشریح پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح کثیر الجہات صورت میں مظاہر قدرت ہے اور  سمٹی ہوئی حالت میں خدائے واحد کے مترادف ہے جس کی تعریف، توضیح اور  تشریح جتنی بھی کی جائے کم ہے۔جس طرح اس دنیا کو بہتر سے بہتر بنانے کا کام ابھی جاری ہے اسی طرح  بقول شکیل الرحمٰن  ’’جمالیات‘‘  کی تعریف، توضیح اور  تشریح کا کام ابھی جاری ہے اور  اس کی معنویت پھیلتی جا رہی ہے اور  اس کی نئی جہتیں مزید نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔

شکیل الرحمٰن کے مطابق فنون لطیفہ یا مناظر کائنات کے کسی بھی ذرّہ کے اصل جوہر کی دریافت جمالیات کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔فلسفیوں کا خیال ہے کہ کسی بھی شے کا اصل جوہر خدا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمالیات ایک ایسا Tool ہے جس کی مدد سے خدا اور  اس کی صفات کو بھی دریافت کیا جا سکتا ہے۔شکیل الرحمٰن نے تو اپنی تخلیقات میں ادب اور  آرٹ کے نہ جانے کتنے ہی جواہرات دریافت کیے ہیں، لیکن افسوس کہ شکیل الرحمن کی تنقیدی جمالیات کو کما حقہ ابھی تک کسی نے دریافت نہیں کیا ہے۔شاید کم ظرف صوفیوں کی طرح ان کے نقاد بھی راہِ مقام میں ہی بھٹک جاتے ہیں۔

شکیل الرحمن نے ادب اور  آرٹ کی تخلیق میں اساطیر کی اہمیت پر زور دیا ہے کیوں کہ شاہد ہی کوئی اعلیٰ درجہ کا ادب یا فن لطیف ہو جس کی تخلیق میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اساطیر کے اثرات موجود نہ ہوں۔ شکیل الرحمٰن کا خیال ہے کہ اساطیری روایت اور  کردار تخلیق کار یا فنکار کے لاشعور کی گہرائیوں میں موجود رہتے ہیں۔ اجتماعی یا نسلی شعور سے اساطیر کی لہریں نا محسوس طور پر آتی رہتی ہیں اور  شعور کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ اسی لیے کوئی بھی بڑا تخلیقی فنکار اساطیر سے گریز نہیں کر سکتا۔اسی لئے انہوں نے اساطیر کو ایک خاموش متحرک روایت سے تعبیر کیا ہے جس کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے اور  تخلیقی آرٹ کا باطنی رشتہ کسی نہ کسی سطح پر اساطیر اور  اس کی روایت سے قائم رہتا ہے۔ ’’آرچ ٹائپ‘‘  کی توضیح و تشریح پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ تخلیقی فنکاروں کی حسی اور  نفسی کیفیتوں کی شدّت سے آرچ ٹائپ میں تحرک پیدا ہوتا ہے اور  بنیادی اور  قدیم علامتیں اپنی تہہ داری اور  معنی خیز جہتوں کے ساتھ نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ شکیل الرحمن نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ لوک کہانیوں کی جڑیں اساطیر کی گہرائیوں میں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو بے جڑ کا پودا قرار دیا ہے جو متِھ اور  لوک کہانیوں کے بغیر رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لوک کہانیاں اعلیٰ درجہ کی جدید تخلیق کا سرچشمہ ہیں۔

لوک کہانیوں میں فینتاسی کی خاص اہمیت ہے۔بلکہ اس کے بغیر لوک کہانیوں کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔لوک کہانیوں کے اثر سے فینتاسی اردو کی کلاسیکی شاعری میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اردو کے پہلے ناقد مولانا حالی نے ادب میں فینتاسی (Fantasy) کی تخلیق یا مافوق الفطرت عناصر کے استعمال پر سخت تنقید کی تھی کیوں کہ یہ خواب و خیال کی دنیا خلق کرتی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔اس کے بعد تمام ناقدین نے مولانا حالی سے اتفاق کرتے ہوئے فینتاسی کو ادب میں ممنوع قرار دے دیا لیکن شکیل الرحمٰن ناقدین کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ فینتاسی کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ تخلیقی فکر و نظر کی ایک صورت ہے اور  انسان کی نفسیات سے اس کا گہرا رشتہ ہے۔شکیل الرحمن نے کارل مارکس کے حوالے سے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ انسان کی ترقی اور  اس کی فکری ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس کی اہمیت صرف ادبیات ہی میں نہیں بلکہ مصوری، موسیقی، فیزکس اور  علم ریاضی میں بھی ہے۔ شکیل الرحمٰن نے اسے ذہن کا وہ نفسیاتی عمل قرار دیا ہے جس سے نئی دوربینی پیدا ہوتی ہے اور  وژن نئی صورتوں کو پانے لگتا ہے۔شکیل الرحمن نے کلیات غالب اور  اردو کی کلاسیکی مثنویوں میں شکیل الرحمٰن نے فینتاسی کے کمالات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ان کے مطابق اردو ادب میں غالب فینتاسی کے سب سے بڑے تخلیقی فنکار ہیں جن کی سائیکی نے ’امیجری‘ کو صرف خلق ہی نہیں کیا بلکہ اسے توانائی بھی بخشی۔غالب کے علاوہ فینتاسی کی عمدہ مثالیں اردو کی کلاسیکی مثنویوں میں ملتی ہیں۔ دراصل ان مثنویوں کا تعلق عوامی قصّوں اور  دیومالا سے بھی رہا ہے اسی لئے مثنوی نگاروں نے ان قصّوں میں تصادم اور کشمکش کی پیشکش کے لیے فینتاسی پیدا کرنے کی کوشش کی۔شکیل الرحمٰن نے کدم راو پدم راو، قطب مشتری، سیف الملوک اور  بدیع الجمال، چندر بدن اور مہیار، پھول بن، گلشن عشق اور طوطی نامہ وغیرہ مثنویوں میں فینتاسی کے جو جوہر ملتے ہیں ان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان مثنویوں میں جو فینتاسی پیدا کی گئی ہے، وہ اس لیے بھی پُر کشش ہیں کہ ہمارے لا شعور میں ان کا حسن اور  ان کے تحیر کا حسن موجود ہے۔فینتاسی کے کرداروں کی نفسیات یا ان کے ہیجانات ہم سے علاحدہ نہیں ہیں کیوں کہ مسرتوں اور  اداسیوں کی نہ جانے کتنی داستانیں ہم اپنے لاشعور میں لیے پھرتے ہیں۔ غرض شکیل الرحمن کی تنقید ہندوستانی تہذیب کی جڑوں سے وابستہ ہے۔

علامہ اقبال کی شاعری میں ’روشنی‘، ’رنگ‘ اور ’رفتار کا استعمال بطور استعارہ اور علامت کثرت سے ہوا ہے اس کی معنویت پر بھی شکیل الرحمٰن نے روشنی ڈالی ہے۔ دراصل روشنی، رنگ اور  رفتار کے درمیان گہرا رشتہ ہے۔روشنی میں کئی رنگ پنہاں ہیں لیکن اس کی رفتار شدید تیز ہونے کی وجہ سے اس کے رنگ نظر نہیں آتے ہیں البتہ انہیں Prism یا قوسِ قزح میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے اقبال کی شاعری میں استعارہ کے طور پر روشنی کے استعمال کی فلسفیانہ توضیح پیش کی ہے۔دراصل اشراقی فلسفہ کے مطابق نور اعلیٰ تمام حرکات کا مبدا ہے اور  حرکت کا سبب منور کرنے کی خواہش ہے اور یہی وہ خواہش ہے جو نور کو مضطرب کر دیتی ہے تاکہ یہ اپنی شعاعوں کو تمام چیزوں پر منعکس کر کے ان کی زندگی میں ایک روح پھونک دے۔اس سے جو تجلیات نمو کرتی ہیں ان کی تعداد لا محدود ہوتی ہے اور  ایسی تجلیات جن کی روشنی شدید ہوتی ہے وہ دوسری تجلیات کا سرچشمہ بن جاتی ہیں۔ گویا یہ کائنات ایک سایہ ہے ان بے پناہ تجلیوں کی شعاعوں کاجو نور اعلیٰ سے آتی ہیں۔ کائنات کی اشیا میں ان تجلیوں کے سبب جن کی جانب یہ مستقل حرکت میں رہتی ہیں ایک عشق کا جذبہ نمو پاتا رہتا ہے تاکہ وہ حقیقی نور کے سرچشمہ سے مستفیض ہوتی رہیں۔ یعنی یہ کارخانۂ  عالم محبت و عشق کا ابدی ڈرامہ ہے۔اسی لئے شکیل الرحمٰن نے اشارہ کیا ہے کہ اقبال کی شاعری میں عشق ایک ہمہ گیر تخلیقی جذبہ ہے اور  عشق کی گرمی سے ہی معرکۂ  کائنات ہے۔اقبال کے اس شعر

عشق کی جست نے کر دیا قصّہ تمام

اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمٰن نے ’روشنی‘ کی جمالیات کی توضیح اس طرح کی ہے کہ عشق سے روشنی کا شعور حاصل ہوا اور  تنویر نگاہ سے کائناتی جلوؤں کی پہچان ہوئی اور  لامکاں کی روشنیوں کا ادراک حاصل ہوا۔انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ نگاہ، نگاہِ شوق اور  نظر بطور استعارہ استعمال ہونے کے پیچھے  ’’روشنی‘‘ کا ’آرچ ٹائپ ،حد درجہ متحرک ہے۔  ’’روشنی کی جمالیات‘‘ میں شکیل الرحمن نے فکر و فلسفہ کی جس بلندی پر پہنچ کر اقبال کی شاعری میں روشنی، رنگ اور  رفتار بطور استعارہ اور  علامت استعمال کئے جانے کا جو جواز پیش کیا ہے، وہاں تک پہنچنے میں بڑے سے بڑے ماہر اقبالیات کی پوری زندگی ختم ہو جائے گی۔انہوں نے مطالعہ اقبال کا نظریہ ہی بدل دیا ہے۔

امیر خسرو کے متعلق شکیل الرحمٰن کا خیال ہے کہ وہ حسن ازلی، حسن انسانی اور  حسن حیات و کائنات کے ایک بڑے شاعر ہیں، حسن کے مظہر کے عاشق ہیں اور ’’ہیومنزم‘‘ (Humanism ) ان کے کلام کا اصل جوہر ہے کیوں کہ انسان ہی وہ مخلوق ہے جو حسن مطلق اور  حسن کائنات کو دیکھنے اور  محسوس کرنے کا وژن رکھتا ہے۔شکیل الرحمن نے انسان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہہ کر کہ ’’انسان روح کی مانند کائنات میں سما جاتا ہے اور  اس میں تحرک پیدا کر دیتا ہے اور  یہ بھی سچائی ہے کہ یہ دنیا اتنی چھوٹی ہے کہ انسان کا وجود اس میں سما ہی نہیں سکتا۔‘‘ ابن عربی کے اس قول کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ انسان خدا کا آئینہ ہے اور  خدا انسان کا آئینہ ہے۔تبھی تو انسان کا وجود اتنی چھوٹی سی دنیا میں سما نہیں سکتا ہے۔انسان روح کی مانند دنیا میں سما کر تحرک پیدا کر سکتا ہے تو پھر وہ انسان ہی ہے جو کائنات کے ہر شے کے جمال اور  زندگی کے تمام رنگوں کا عاشق ہے۔امیر خسرو نے اپنی شاعری میں رنگ اور  روشنی کے علاوہ سیاہی یا ظلمت کے حسن کو بھی پہچاننے کی بات کہی ہے۔دراصل فلسفیوں کا خیال ہے کہ ظلمت کوئی ایسی متمائز شے نہیں جو کسی قائم بالذات ماخذ سے ظہور کرتی ہو بلکہ نور کے اثبات میں ہی اس کی نفی پوشیدہ ہے، یعنی یہ خود کو قائم رکھنے کے لیے ظلمت کو منور کر دیتا ہے۔ اسی لیے شکیل الرحمٰن کا خیال ہے کہ سیاہی کے حسن کے جلوے کو بھی جس نے پہچان لیا دراصل وہی صاحب فکر و نظر ہے، جمال و جلال کا رسیا ہے، خالق کی تخلیقات کے حسن کا حصہ اور  جوہر ہے۔شکیل الرحمٰن نے امیر خسرو کی جمالیات کے ضمن میں جس طرح انسان کی عظمت، مظاہر خدا اور  مناظر کائنات پر روشنی ڈالی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تصوف کے رموز سے بخوبی واقف ہیں۔

شکیل الرحمٰن کو مشرقی شعریات کی جمالیات پر دسترس حاصل ہے۔وہ جب بھی سنسکرت جمالیات کے جوہر مثلاً راگ راگنیوں، رس اور رسوں میں شرنگار رس، بھوں اور  بھوؤں میں رتی بھو وغیرہ کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو ساتوں طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے عورت کے وجود کو جشن زندگی کا سرچشمہ قرار دیا ہے کیوں کہ عورت کا وجود ایک نغمہ ہے۔ اسی کی وجہ سے اردو ادب کو راگ راگنیوں کی خوبصورت متحرک تصویریں حاصل ہوئی ہیں۔ سات سروں میں عورت مختلف راگوں کے درمیان ابھرتی ہے۔شکیل الرحمن نے محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کا مطالعہ سنسکرت جمالیات کی روشنی میں کیا ہے اور  مرکزی جمالیاتی پیکر یعنی عورت کو روشنیوں، خوشبوؤں، رنگوں، راگوں اور  راگنیوں کا سرچشمہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ راگ راگنیوں کا تعلق ’وقت‘ اور موسموں سے گہرا ہے، عورت ہر وقت اور  ہر موسم میں ایک نئی میلوڈی ہے۔ اسی عورت کے جمال کی وجہ سے قلی قطب شاہ کی شاعری میں شرینگار رس یعنی جنسی لذتوں کا احساس ہوتا ہے۔بابائے جمالیات نے سنسکرت جمالیات کے ماہر بھرت کے ایجاد کردہ اکتالیس بھوؤں کا ذکر کرتے ہوئے  ’’رتی بھو‘‘ کی اہمیت پر زور دیا جو جنسی محبت کا شدید جذبہ ہے۔ قلی قطب شاہ کی شاعری میں جو شرینگار رس ہے وہ اسی جذبے کی دین ہے۔ قلی قطب شاہ کی شاعری میں ’سیکس‘ کے تعلق سے جو لمسی اور  حسی احساسات ابھرے ہیں اس سلسلے میں شکیل الرحمٰن کا خیال ہے کہ ان سے انتہائی پرکشش ’جمالیاتی‘ فینومینن خلق ہو گیا ہے جس کا تعلق کئی سطحوں پر قاری کے تجربوں اور  مشاہدوں سے ہے۔ اس لیے ان تجربوں سے قاری کو جمالیاتی انبساط حاصل ہونے لگتا ہے۔شکیل الرحمٰن نے قلی قطب شاہ کی شاعری میں جمالیات کے انہیں پہلوؤں کو دریافت کیا ہے۔

شرینگار رس کی چار منازل یعنی  ’’وکاس‘‘، ’’وستار‘‘، ’’اہنکار اور  ’’کشوبھا‘‘  کی وضاحت کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے اچھی تخلیق کو اس کلی سے تعبیر کیا ہے جو آہستہ آہستہ پھول بنتی ہے جسے  ’’وکاس ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’وکاس‘‘ کے بعد پھول سے جب خوشبو پھیلنے لگتی ہے تو  ’’وستار‘‘ شروع ہوتا ہے۔ ’’وستار‘‘ کے بعد پھول کو جب یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا حسن اور  اس کی خوشبو اپنا اثر دکھانے لگے ہیں تواس میں  ’’اہنکار‘‘ پیدا ہو جاتا ہے جو فطری ہے۔ ’’وکاس اور  ’’وستار‘‘ کے بعد ایک قسم کی مستی اور سرشاری آ جاتی ہے جس کی کیفیت تیز جھولا جھولنے کی مانند ہوتی ہے۔یہ شرینگار رس کی آخری منزل ہے جسے ’’کشوبھا‘‘ کہا گیا ہے۔ شرینگار رس کے اس نظریہ کی روشنی میں شکیل الڑحمٰن نے مرزا شوق کی مثنویوں کاجو مطالعہ پیش کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے اور  ان کی جمالیاتی Approach کی خوبصورت مثال ہے۔ شکیل الرحمن نے مثنوی بہار عشق میں اس تجربہ  کو کلی کی مانند چٹخنے سے تعبیر کیا ہے جب عاشق لبِ بام ایک خوبصورت چہرہ دیکھتا ہے۔یہ  ’’وکاس‘‘ کی منزل ہے۔ خوبصورت چہرہ دیکھنے کے بعد عاشق اور  معشوق کے درمیان کشش محسوس ہونے، ذہنی اور  نفسی تصادم، حسی کیفیات اور  عشق وغیرہ کے تاثرات کو شکیل الرحمٰن نے  ’’وستار‘‘ کہا ہے۔عاشق اور معشوق کے تجربے رفتہ رفتہ جب جمالیاتی تجربے بننے لگے  اور  معشوق کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اس پر کوئی فریفتہ ہو گیا ہے تو اس منزل کو شکیل الرحمٰن نے ’’اہنکار‘‘ سے اور جب دونوں کے تعلقات میں ایک خاص طرح کی مستی اور  سرشاری پیدا ہو جاتی ہے تواس منزل کو ’’کشوبھا‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے اس مثنوی کا تجزیہ شرینگار رس کے ان چاروں منازل کی روشنی میں جس طرح کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنسکرت جمالیات پر ان کو دسترس حاصل ہے۔

 فراق کی شاعری میں بھی شکیل الرحمٰن نے جنسی محبت کے شدید جذبہ کو دریافت کیا ہے۔انہوں نے فراق کی شاعری میں دو آرچ ٹائپس(Archetypes) تحرک یعنی ’رات ‘اور ’عورت‘ کی موجودگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں فراق کی سائیکی میں اترے ہوئے ہیں اور  ان کی جمالیات مختلف رنگوں اور  جہتوں کے ساتھ نمایاں ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے فراق کا وجود رقص کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے فراق کی جمالیات میں عورت، اس کے جسم اور  اس کے پورے وجود کو جمالِ کائنات کا نقش قرار دیا ہے  اور  کہا ہے کہ اس عمل میں ’سیکس‘ کی لہروں کی شدّت موجود رہتی ہے۔شکیل الرحمٰن کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہرِ سنسکرت جمالیات بھرت کے ایجاد کردہ انتہائی پُر اثر ’’رتی بھَو‘‘  کے ارتعاشات فراق کی شاعری میں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے فراق کی شاعری میں انتہائی پرکشش ’جمالیاتی‘ فینومینن خلق ہو گیا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے ہندوستانی جمالیات اور بدھ مفکر و معلم جمالیات اشوگھوش، جس نے فنی تخلیق سے جمالیاتی انبساط پانے کی جانب اشارے کیے تھے کے حوالے سے ’مہا سکھا‘ کی اصطلاح سے جمالیاتی انبساط کو سمجھاتے ہوئے کہا ہے کہ فراق کی شاعری سے وہی انبساط حاصل ہوتا ہے جو ’’یوگ اور  سیکس کی ہم آہنگی کے تجربے سے ہوتا ہے۔

شکیل الرحمٰن نے ’’آہنگ‘‘  کو موسیقی کی اصل روح قرار دیا ہے اور  اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ دنیا میں ایسی کوئی شے نہیں ہے جس میں ہم آہنگی موجود نہ ہو۔ انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کو آواز، آہنگ اور  روشنی کا ظہور سمجھا گیا ہے۔سورج اس فکر و نظر کی بنیادی مرکزی علامت ہے۔انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ سورج(سوریہ)کی روشنی کے ساتوں رنگ موسیقی میں سات ’سروں ‘ سے قریب ہیں۔ ’سوریہ‘ روشنی اور  آواز دونوں کی علامت ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ روشنی اور  آواز کی ہم آہنگی سوریہ ہے۔

دنیا کے تمام مقدس یا آسمانی کتابوں میں بھی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک خاص نظام کے تحت اس کائنات کی تخلیق کی اور  تخلیق کردہ موجودات میں ہم آہنگی پیدا کی۔ مثلاً چاند، سورج اور  زمین اپنے اپنے مدار میں ایک دوسرے کی گردش ایک نظام کے تحت کرتے ہیں جس کی وجہ سے صبح ہوتی ہے، دن ہوتا ہے، شام ہوتی ہے پھر رات ہوتی ہے اور  یوں ہی وقت گزرتا رہتا ہے یعنی ان تینوں سیاروں میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور ان میں ہونے والے تغیرات کے اثرات بلاواسطہ یا با لواسطہ طور پر بے شمار چیزوں پر پڑتے ہیں۔ آسمان، زمین اور  سمندر میں پائی جانے والی ایسی کوئی چیز نہیں ہے جن کا رشتہ دوسری چیزوں سے نہ ہو اور ان میں ہونے والے تغیرات کے اثرات ایک دوسرے پر نہ پڑتے ہوں اور  ان تمام چیزوں میں ہم آہنگی نہ پائی جاتی ہو۔ لہٰذا کائنات میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے انسانی رشتے بھی قائم نہ ہو سکیں۔ اس کی وضاحت علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کی ہے:

فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ  رحمن

شکیل الرحمن نے شاعری میں  ’’آہنگ‘‘  کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ شاعری میں اکثر دو مصرعے جب ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں تو بہاؤ کے ساتھ ایک جذبہ خلق ہو جاتا ہے، آہنگ کی ایک جمالیاتی تصویر ابھر آتی ہے۔شکیل الرحمٰن نے آہنگ کے کرشمے کو فراق کی شاعری میں دریافت کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ فراق نے ادبی روایات کے جلال و جمال کے آہنگ کی مکمل طور پر نمائندگی کی ہے۔ان کی شاعری میں لفظوں کی تکرار نے شاعر کی حسی اور  لمسی کیفیتوں کو تخلیقی سطح پر حد درجہ محسوس بنا دیا ہے۔

شکیل الرحمن نے فراق کی شاعری میں ’شب‘ اور ’شام‘ کے استعمال سے عجیب و غریب کیفیت پیدا ہونے پر گفتگو کرتے ہوئے رات کے فلسفہ پر جس طرح روشنی ڈالی ہے اور  اس کی خوبیوں اور  پراسرار کیفیتوں کی وضاحت کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات کی تاریکی کو دن کی روشنی پر ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے بعض مذہبی خیالات کے حوالے سے لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے دن کی روشنی سے رات کو جنم دیا ہے لیکن بے شمار مثالوں اور  دلیلوں سے رات کی تاریکی کودن کی روشنی سے افضل قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے ممتاز مصوّرVincent Van Gogh کے اس خیال سے اتفاق کیا کہ رات دن سے زیادہ زندہ اور  مختلف گہرے رنگوں کو لیے ہوتی ہے۔اس کی وضاحت انہوں نے اس طرح کی ہے:

 ’’اس کی تصویروں میں اکثر محسوس ہوتا ہے جیسے رات ابدی حسن کے اسرار لیے سرگوشی کر رہی ہے۔شب کی عطا کی ہوئی تاریکی جتنی گہری اور  پراسرار ہوتی ہے اُتنی دن کی روشنی نہیں ہوتی۔ دن کی روشنی میں وہ تہہ داری کہاں جو رات کی تاریکی میں ہے۔شب کے اسرار اور  اس کی تاریکی سے جو جمالیاتی لذت اور  انبساط حاصل ہوتا ہے وہ روح میں جان پرور کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔‘‘  

اسی لیے شکیل الرحمٰن کا خیال ہے کہ فراق کی شاعری میں  ’’شب، شام اور احساس و ادراک کی ہم آہنگی اور  وحدت سے ایک عمدہ جمالیاتی منظرنامہ سامنے آ گیا ہے، جس سے حسّی سطح پر جذباتی رومانی قدروں کا مطالعہ جمالیاتی انبساط بخشنے لگتا ہے‘‘ ۔انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ فراق نے شب اور  آہنگِ شب سے جو باطنی رشتہ قائم کیا ہے اس سے ان کی شاعری میں میلوڈی پیدا ہو گئی ہے۔شکیل الرحمٰن نے فراق کی شاعری کو کئی رسوں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔

 سنسکرت جمالیات میں  ’’اَدبھُت رَس‘‘ یعنی تحیر کی جمالیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے ابھینو گپت، بھرت منی، ممٹ اور  اچاریہ نارائن کے حوالوں کی روشنی میں اَدبھُت رَس یا چمتکار رس یا ’لوکوٹ تارا(Lokottara)پر جس طرح بحث کی ہے اور  اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اسے پڑھ کر قاری خود ’اَدبھُت رَس‘ میں ڈوب جاتا ہے اور  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنسکرت جمالیات پر ان کی نظر کتنی گہری ہے۔وہ لکھتے ہیں :

 ’’تحیر رسوں کا نقطۂ  عروج ہے، تحیر کی جمالیات کے بغیر کسی بھی اعلیٰ فن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تخلیقی آرٹ میں تحیر کی جمالیات قاری کے ذہن میں کشادگی پیدا کر کے اسے ایک افضل سطح پر لے جاتی ہے۔ یہ وہ سطح ہے جو زندگی کے جلال و جمال کو صرف حد درجہ مقوی ہی نہیں بناتی بلکہ زندگی کے حسن کو دیکھنے کے لیے ایک وژن بھی عطا کر دیتی ہے۔‘‘

انہوں نے غالب کی  ’’مثنوی چراغِ دیر‘‘ کا مطالعہ اَدبھُت رس یعنی تحیر کی جمالیات کی روشنی میں کر کے غالب کی تنقید کا ایک نیا پہلو ایجاد کیا ہے۔شکیل الرحمٰن نے غالب کی مثنوی میں جو تحیر کی کیفیت  پائی جاتی ہے اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالی داس نے اپنی شاعری میں تحیر پیدا کرنے کے لیے پرانی ایپک سے فوق الفطری کیفیتوں کا سہارا لیا تھا لیکن غالب اپنی شاعری میں ادبھُت تجربوں کے لیے کسی رزمیہ یا ایپک کے پاس نہیں گئے بلکہ اپنی سائیکی کی مدد سے شاعری میں اَدبھُت رس یا تحیر پیدا کیا جس نے ان کی شاعری کو عظیم سے عظیم تر بنا دیا۔شکیل الرحمٰن نے غالب کی مثنوی چراغِ دیر کے کینوس میں تین رنگوں کو دریافت کیا ہے جس میں پہلا سرخ رنگ جو جبلت کا رنگ ہے، دوسرا آسمانی جو آسمان کا رنگ ہونے ساتھ ساتھ روح اور  باطن کا رنگ بھی ہے اور  تیسرا اس سرخ اور  نیلے کے امتزاج سے بنا ہے یعنی بنفشی(Violet)جسے صوفیانہ فکر کا رنگ کہا جاتا ہے۔ان رنگوں کی موجودگی نے مثنوی میں جو جمالیاتی وحدت پیدا کی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شکیل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اس سے حیرت انگیز مسرت حاصل ہوتی ہے۔ان رنگوں کی مدد سے بنارس کے حسن کا تحیر جو جمالِ زندگی کی علامت ہے، کے پس منظر میں جس طرح جلال و جمال کے تحیر کو ابھارا گیا ہے، وہ ایک بڑے تخلیقی فنکار ہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔

شکیل الرحمن نے غالب کا تہذیبی مطالعہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ غالب ایک تہذیب کی طرح پھیلے ہوئے تھے اور وہ ہند مغل جمالیات کی زندہ مثال تھے۔ ان کے شعور اور لاشعور میں داستان ایک مستقل روایت کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے ان کی شاعری اور  نثری تخلیقات میں اساطیری اور  داستانی رجحان حد درجہ متحرک ہے۔غالب دراصل ایک ایسا تخلیق کار تھا جنہوں نے برصغیر کے بے شمار قصوں، کہانیوں اور داستانوں کی عظیم روایتوں سے تخلیقی نوعیت کا رشتہ قائم کر رکھا تھا جن کا انعکاس ان کی تخلیقات میں موجود ہے۔شکیل الرحمٰن نے غالب کی نثری اور  شعری تخلیقات سے متعدد مثالیں پیش کی ہیں جن میں دیومالا، قصص، مذہب اور امیجری کی وہ کائنات ہے جو داستانیت کے تحیر اور  اس کی فینتاسی(Fantasy) سے تخلیقی رشتہ رکھتی ہے۔ شکیل الرحمن کے مطابق غالب کی تخلیقات میں جو فکر کی توانائی اور  تخیل کی بلند پروازی پائی جاتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ غالب نے  ہند مغل تہذیب کی بے پناہ گہرائیوں میں اپنی جڑیں پھیلا رکھی تھیں۔

شکیل الرحمن نے اپنے ہر مضمون میں ایک نیا زاویہ پیش کیا ہے۔مثلاً اسلوبیات کے موضوع پر اب تک جتنی کتابیں اور  مضامین لکھے گئے ہیں ان میں تمام ماہرینِ اسلوبیات نے صرف خارجی پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے لیکن شکیل الرحمٰن نے ترجمان القرآن کے اسلوب کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اس کے باطنی پہلو کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں روح کی جو اہمیت ہے وہی اہمیت اسلوب میں باطنی پہلو کی بھی ہے جس کی بہترین مثالیں مولانا ابوالکلام آزاد کی تخلیقات میں موجود ہیں۔ شکیل الرحمٰن کے مطابق ترجمان القرآن کا اسلوب جو ابلاغ کا اپنا حسن رکھتا ہے، تزکیہ نفس بھی کرتا ہے اور ایک معروضیObjective زاویہ نگاہ بھی عطا کرتا ہے۔شکیل الرحمٰن کا خیال ہے کہ اب تک قرآن کی متعدد تفسیریں لکھی جاچکی ہیں لیکن ان میں بیشتر تفسیروں کا اسلوب عربی آمیز ہے۔ اردو کلچر میں پوری طرح ڈھل نہیں پائی ہیں جس سے بعض مفاہیم کی تشریح پیچیدہ معلوم ہوتی ہے لیکن مولانا نے قرآن کے آہنگ کو اپنی شخصیت میں پوری طرح جذب کر کے اس کے دقیق سے دقیق مسائل کو بھی اس کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے اردو تہذیب کے سانچے میں ایسے ڈھال دیا ہے کہ اسے پڑھ کر بعض ایسی سچائیاں اور  حقیقتیں قاری پر منکشف ہو جاتی ہیں کہ آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ شکیل الرحمن نے جہاں مولانا کی اردو زبان و ادب پر بے پناہ قدرت کی بات کہی ہے وہیں اردو کلچر اور زبان کی توانائی اور  برقی کیفیتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کس طرح قرآن کا جلال و جمال اردو کے سانچے میں ڈھل گیا۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’قرآن مجید کی پاکیزہ خوشبوؤں سے قاری کے احساس و شعور اور  اس کے پورے وجود کو معطر کرنے کا جو اسلوب مولانا نے خلق کیا ہے وہ ان کی پچھلی تحریروں کے اسالیب سے مختلف تو ہے ہی، تسویہ، مطابقت اور  ہم آہنگیHarmony کا بھی منفرد اور  خوبصورت نمونہ ہے۔ ‘‘  

مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے علاوہ غبارِ خاطر میں بھی نثری اسلوب کا جادو جگایا ہے۔احمد نگر کے قلعہ میں نظربند ہونے کے دوران لکھے گئے تمام مضامین یقیناً ان کے دل کے غبار ہی ہیں لیکن مولانا نے اس غبار کو نثر کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے قلعہ کے بند کمرے میں اپنی ایک الگ دنیا بنائی جس میں قدرت کے تمام رنگین نظارے، قطار در قطار خوشبو بکھیرتے ہوئے پھول اور نغمے گاتے ہوئے پرندے موجود تھے۔اس لیے ان کے نثری اسلوب میں ایسی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کہ ہر شخص اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔غبار خاطر کی نغمگی اور  خوشبو نے  شکیل الرحمٰن کو بھی اپنی طرف کھینچا اور  انہوں نے مولانا کے مضامین میں ان کی رومانیت کو دریافت کیا۔ مولانا کی رومانیت کو دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ شکیل الرحمٰن نے رومانیت کی جمالیات کی طرف جو اشارے کئے ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ  ’’رومانیت انجمن سے نکل کر تنہائی کی ایسی فضا چاہتی ہے، جہاں احساسات پر کسی قسم کی گرفت نہ ہو‘‘ ۔ شکیل الرحمٰن کا خیال ہے کہ رومانی فنکار کو اپنے باطن کی سرمستیاں اس قدر عزیز ہیں اور  وہ انہیں اس قدر عزیز جانتا ہے کہ انہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ہے۔رومانیت باطن کی آگہی ہے۔باطن کی روشنیوں کے تئیں بیداری ہے‘‘ ۔ شکیل الرحمٰن نے مولانا کی رومانیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فطرت کا حسن اور  انسان کی تخلیقات کا حسن، دونوں فنکار کی رومانیت کو بیدار اور  متحرک کئے رہتے ہیں۔ مولانا کی رومانیت میں علم کا دباؤ نہیں ہے اور حسن سے ایک معصوم سا رشتہ قائم ہے۔علم سے جو آگہی حاصل ہوئی ہے اور  حسن کو دیکھنے و محسوس کرنے کا جو وژن ملا ہے اس کا جوہر بھی ان کی رومانیت میں موجود ہے۔

اسی طرح شکیل الرحمن منٹو اور  پریم چند کو فکشن کے فنکار کی حیثیت سے جب متعارف کراتے ہوئے ان کی فنّی خوبیوں یا جمالیات کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے ہم عصر فکشن کے نقاد معمولی نظر آنے لگتے ہیں اور  ان کی کوتاہ قامتی عیاں ہو جاتی ہے۔پریم چند نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مختلف کرداروں کے ذریعے ان کی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو ابھارا ہے اور  یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ عورتیں مختلف روپ میں کس طرح نفسیاتی کشمکش میں مبتلا رہتی ہیں۔ شکیل الرحمٰن نے پریم چند کی خلق کی ہوئی ان عورتوں کے مختلف روپ کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے اور  ان کرداروں میں نرگسیت کی نشاندہی کی ہے اور  اس نرگسیت سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کشمکش سے افسانے کے فن میں کیا کیا خوبیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔مثلاً افسانہ  ’’دو بہنیں ‘‘  میں روپ کماری اور  افسانہ ’’بازیافت‘‘  کی عورت کے کردار کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے  ’’نرگسیت‘‘  اور  نرگسیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے شعور اور  لا شعور کے تصادم کی اہمیت پر زور دیا ہے اور  یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح پریم چند نے اپنے افسانوں میں نرگسی مزاج یا نرگسی ذہن کے ذریعے پیدا ہونے والی کشمکش سے افسانے کے فن کا جادو جگایا ہے۔

 عورتوں کے کردار اور  ان کی نفسیات کو فکشن میں شروع سے ہی پیش کیا جاتا رہا ہے جس سے فکشن کا معیار بلند ہوا ہے لیکن کم ہی نقادوں نے اس کی طرف توجہہ دی ہے۔فکشن کے زیادہ تر ناقد ترقی پسند اور  غیر ترقی پسند تخلیق کاروں کی فہرست سازی میں مصروف رہے لیکن شکیل الرحمٰن شاید اس دور کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے پریم چند کے افسانوں پر تنقید کرتے ہوئے نرگسیت اور  عورتوں کی نفسیات کا باریک بینی سے تنقیدی جائزہ پیش کیا اور  افسانے کے فن کی اصل روح تک رسائی حاصل کی۔مثلاً  ’’زاد راہ کی ایک کردار ’’پدما‘‘  جو پیشے سے وکیل ہے، فرائیڈ کے اصولوں کو پسند کرتی ہے اور  اس کے اصولوں پر چلتی ہے۔ شادی کے بندھن میں بندھنا نہیں چاہتی ہے بلکہ آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہے لیکن جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے کوشاں بھی رہتی ہے۔پدما کے اندر ایسی سوچ اس لئے پیدا ہوئی کہ اس کے والدین کے درمیان رشتے کبھی خوشگوار نہیں تھے اور  بڑی بہن  ’’رتنا‘‘  اور  اس کے شوہر  ’’مسٹر جھلّا کے درمیان ہمیشہ کشیدگی رہتی تھی اور  دونو ں ایک دوسرے سے جدا ہونا چاہتے تھے۔پدما اپنی بڑی بہن رتنا سے مل کر دونوں کے درمیان کشیدگی کی شدت کا حال معلوم کرتی ہے اور  دونوں کو عدالت کے ذریعے الگ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے دونوں کو قانونی طور پر الگ کر دیتی ہے لیکن خود مسٹر جھلّا کی قربت کی پیاسی بن جاتی ہے۔

 شکیل الرحمن نے فکشن کی تنقید میں علم نفسیات اور  علم نفسیات کی اصطلاحات سے کام لے کر جس طرح فکشن کی جمالیات کا معیار بلند کیا ہے اور  جس طرح مسٹر جھلّا کی ذات میں (پدما کی)ذات کو ضم کرنے کی کوشش اور  بے قراری کو ’’آتش مانیا‘‘  کے مریض سے مشابہ قرار دے کر خارجیت کے جادو کو ٹوٹتے ہوئے اور  پدما کے لا شعور کے تقاضوں کو پورا ہوتے ہوئے دکھایا ہے اس کا جواب نہیں ہے۔ نیز پدما کی نفسیات سے یہ اخذ کرنا کہ حیاتی تسلسل یعنی Vital Continuity کی واحد جبلّت جو دو جبلّتوں یعنی تحفظِ ذات اور  اشاعت ذات پر مشتمل ہے، ان کے وسیع المطالعی اور  نفسیاتی تنقید پر غیر معمولی دسترس ہونے کا ثبوت ہے۔پریم چند کے نقادوں میں شاید ہی کسی نقاد نے پریم چند کے نسوانی کرداروں کی نفسیات کا تجزیہ اس انداز سے کیا ہو گا۔

 شکیل الرحمٰن فکشن میں فنی جمالیات کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک فکشن میں موضوع سے زیادہ اہم فن ہے۔فن کو نقطۂ  عروج تک پہنچانے میں جن چیزوں کا اہم رول ہوتا ہے ان میں مختلف کرداروں کے حرکات و سکنات، عمل اور  ردّ عمل سے پیدا ہونے والی کشمکش، تصادم اور  ہیجانات ہیں۔ فکشن کے انہیں کرداروں کی شخصیت میں قاری اپنے بعض جبلتوں، ہیجانات اور  جذبات کو دیکھتے اور  محسوس کرتے ہیں۔ بابائے جمالیات نے ان کرداروں کو مرکزی کرداروں سے الگ ایک تیسرے کردار کے روپ میں دریافت کیا ہے۔ جنہیں تیسرا آدمی یا تیسری شخصیت سے تعبیر کیا ہے۔یہ تیسرا آدمی مرکزی کرداروں کی طرح مثالی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ بے ہنگم ہوتا ہے جو اپنی موجودگی کا احساس ہر جگہ دلاتا رہتا ہے۔یہ کردار اپنے حرکات و سکنات اور  اعمال سے مرکزی کرداروں کی پُر سکون زندگی میں کشیدگی پیدا کر دیتا ہے لیکن کبھی کبھی اپنے اندر خوش گوار تبدیلی پیدا کر کے مرکزی کرداروں کی زندگی کی ہیجانی کیفیت اور  کشمکش کو دور بھی کر دیتا ہے۔بابائے جمالیات کے مطابق یہ تیسرا آدمی مرکزی کرداروں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ کیوں کہ ناظر یا قاری اس تیسرے آدمی سے اپنے آپ کو زیادہ قریب پاتا ہے بلکہ بعض دفعہ قاری اپنے آپ کو تیسرا آدمی بھی سمجھنے لگتا ہے۔ شکیل الرحمٰن کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسرا آدمی قاری پر اپنے اعمال کا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے تیسرے آدمی کی پہچان کے لئے انگریزی کے مشہور ومعروف ڈرامہ نگار شکسپیر کی لاثانی تخلیقات  ’’رومیو اور  جیولیٹ‘‘  میں ’پیرس‘ اور ’’جولیس سیزر ‘‘ میں مارکس انٹونی یا بروٹس کی مثال د ی ہے کیوں کہ یہ وہ کردار ہیں جو علامت بن گئے ہیں۔ چونکہ یہ کردار قاری کے دل و دماغ پر پہلے سے چھائے ہوئے ہیں اس لئے انہیں تیسرے آدمی کے طور پر پیش کر کے پریم چند کے افسانوں میں تیسرے آدمی کی شناخت بہتر طریقے سے کرائی گئی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے پریم چند کے افسانہ  ’’گھاس والی‘‘  میں چین سنگھ، دو سکھیاں میں بھون داس گپتا اور  حقیقت میں پورنما کا بوڑھا شوہر اور  بعد میں اس کے پرانا عاشق امرت کو تیسرے آدمی سے تعبیر کیا ہے۔یہ تینوں کردار ’پیرس‘ اور ’ بروٹس‘ کی طرح اپنی زندگی اور  شخصیت کے نشیب و فراز اور  مختلف موڑ پر اپنے خاص تعمیری اور  تخریبی حرکات و سکنات سے مرکزی کرداروں کی زندگی اور  افسانے کی فضا میں عجیب و غریب کیفیت پیدا کرتے ہیں، مثلاً چین سنگھ ملیا اور  اس کے شوہر مہا بیر، بھون داس گپتا، پدما اور  اس کے شوہر ونود اور  امرت اپنی پرانی محبوبہ پورنما کی زندگیوں میں اس طرح ہلچل اور  کشیدگی پیدا کر دیتے ہیں کہ افسانے کا فن اپنی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔

 شکیل الرحمن نے تیسرے آدمی کی کردار نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اُن جملوں کو خاص اہمیت دی ہے جنہیں یہ کردار مرکزی کرداروں کی زندگی میں زہر گھولنے اور  کشیدگی پیدا کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔ ایسے جملوں کو شکیل الرحمٰن نے  ’’الفاظ کی زنجیر‘‘  سے تعبیر کیا ہے اور  اسے بطور عنوان استعمال کر کے افسانے میں موجود ایسی عبارتوں کو جگہ جگہ کوٹ کیا ہے اور  ان کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لفظوں سے کھیلنے کے ہنر کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ مثلاً افسانہ  ’’دو سکھیاں ‘‘  میں پدما اور  ونود کے درمیان بگڑتے ہوئے رشتوں کو بھانپ کر اور  پدما کو روتے ہوئے دیکھ کر ہمدردی کے جو جملے استعمال کرتا ہے وہ کسی بھی عورت کو اپنے دام میں پھانسنے کے لئے کافی ہے۔

 شکیل الرحمٰن نے تیسرے آدمی کی نفسیات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اس کے بعض ایسے حرکات و سکنات کی طرف توجہ دلائی ہے جو اُس وقت پیش آتے ہیں جب کردار خواب و خیال کی دنیا میں جیتا ہے اور  خوبصورت سپنے دیکھتا ہے لیکن خیالی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں واپس لوٹتا ہے تو اس کے سارے سپنے ریت کے محل کی مانند بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور  کرداروں کے محسوسات کے ذریعے المیہ نمایاں ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔اس وقت ایسے کرداروں کے چہروں کے تاثرات اور  بدلتے ہوئے رنگ بھی دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں۔ شکیل الرحمٰن نے ایسی صورتِ حال کو  ’’شیش محل‘‘  کے عنوان کے تحت پیش کیا ہے کیوں کہ سپنے شیش محل کی طرح حسین ہوتے ہیں لیکن جلد ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔

 تیسرے آدمی کی شخصیت کے بعض پہلوؤں سے نسوانی کردار کس طرح متاثر ہو کر اس کی طرف کھینچتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کا جائزہ بے حد خوبصورت اور  موثر انداز میں پیش کیا ہے۔مثلاً افسانہ  ’’نئی بیوی‘‘  میں ایک سولہ سترہ سال کا اُجڑ اور  دہقانی لڑکا تیسرے آدمی کی شکل میں بڈھا لالہ ڈنگا مل کی نئی بیوی آشا جو سادگی پسند ہے، کی زندگی میں آ کر کس طرح اس کی زندگی کا سلیقہ بدل دیتا ہے اور  آشا خود نمائی کرنے لگتی ہے۔اسی طرح افسانہ  ’’مالکن‘‘  کی رام پیاری جو ایک بیوہ ہے لیکن اس بیوہ میں جوکھو اپنی ہونے والی بیوی کی پرچھائیں دیکھتا ہے اور  موقع پا کر باتوں باتوں میں اپنی پسندیدگی بھی ظاہر کر دیتا ہے جس کی وجہ سے رام پیاری کی زندگی اور  سوچ بدل جاتی ہے اور  کس طرح اس کی سنسان زندگی میں وہ ایک ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔ رام پیاری اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتی ہے  ’’تم بڑے دل لگی باز ہو، ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ گئے‘‘ ۔شکیل الرحمٰن نے اس جملے پراس طرح تبصرہ کیا ہے  ’’رام پیاری کی جذباتی زندگی، زندگی کے المیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور  یہی اس افسانے کا حسن ہے۔تیسرے آدمی کی پرچھائیں عورت کے بنیادی رجحان پر اثر انداز ہوتی ہے اور  نفسیاتی رویے کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔‘‘  ا س تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نفسیات پر ان کی نظر کتنی گہری ہے اور  تیسرے آدمی کے رول کو خاص کر عورتوں کی زندگی اور  نفسیات کو بدلنے میں کتنا اہم ہے۔ ان دونوں افسانوں میں عورتوں کی زندگی میں کسی مرد کی پرچھائیں اور  دہقانی اور  اُجڑ نوجوانوں کی اہمیت کو دکھانے کے لئے  ’’اجڑ اور  دہقانی‘‘  اور ’’پرچھائیں ‘‘  کے عنوان کے تحت اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ایسے ہی چند عنوانات مثلاً  ’’جال‘‘  اور  ’’تعلیم یافتہ‘‘  وغیرہ قائم کر کے تیسرے آدمی کے مختلف رول پر روشنی ڈالی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے افسانے کی تنقید میں ایک انفرادیت قائم کی ہے۔جبکہ عام طور پر افسانے کے نقادوں نے صرف مرکزی کرداروں کی کردار نگاری پر روشنی ڈالی ہے اور  ’’تیسرے آدمی ‘‘  جیسے کرداروں کو ذیلی کردار کہہ کر نظر انداز کر دیا ہے جس سے فنی اعتبار سے افسانے کی تنقید کا حق ادا نہیں ہو سکا ہے۔غالباً  شکیل الرحمٰن فکشن کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے افسانے کیMicroscopic اور  بصیرت افروز تنقید پیش کی ہے۔

 شکیل الرحمن نے سماج میں موجود تیسری طاقت کو بھی دریافت کیا ہے جس کا رول افسانوں کے کرداروں پر کافی اہم ہوتا ہے اور جس سے کرداروں کی زندگی کافی حد تک اثر انداز ہوتی ہے اور  کبھی مختلف کرداروں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے جس سے کہانی میں قاری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ یہ تیسری طاقت سماج کی وہ منظم طاقت ہے جو اپنے مفاد کے لئے مذہب، ذات پات، سماج اور  برادری کے نام پر لوگوں کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہے۔ شکیل الرحمن افسانہ  ’’زاد راہ‘‘  میں سیٹھ دھنی رام، کبیر چند، بھیم چند، سنت لال اور  افسانہ  ’’خون سفید‘‘  میں جگن کو تیسری طاقت کے نمائندے قرار دیتے ہیں جو کہانیوں میں کشیدگی پیدا کرتے ہیں اور  انہیں کرداروں سے کہانی میں المیہ پیدا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شکیل الرحمن تیسری طاقت کی موجودگی کو اہم قرار دیتے ہیں۔

شکیل الرحمن کے تنقیدی تحرکات کی یہ چند تمثیلیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی تنقیدی لہروں کی دریافت کے لیے سمندر سطح چاہیے۔ ان کی تنقید میں ایک نئی روح ہے۔ اور  سچی بات تو یہ ہے کہ ان کا تنقیدی اسلوب دوسروں سے بالکل منفرد ہے، وہ فکشن کی زبان میں تنقید لکھتے ہیں، اس لیے ان کی تنقید بنیادی طور پر تخلیقی تنقید ہے، ان کی بعض عبارتیں تو ایسی ہیں جنہیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ نثر نہیں شعری واحدے ہیں۔

میں نے ان کے تنقیدی تفردات کے حوالے سے جو دعوے کیے ہیں، وہ کھوکھلے نہیں ہیں۔ ان دعووں کی دلیل کے طور پر ان کی تحریروں کا ایک انتخاب بھی پیش ہے تاکہ قاری غیر جانب داری اور  معروضیت کے ساتھ یہ پرکھ سکے کہ میرے دعوے بلا دلیل نہیں ہیں بلکہ دلیل کے مقابلے میں دعوے کچھ بھی نہیں ہیں۔

شیخ عقیل احمد

ستیہ وتی کالج، نئی دہلی

امیر خسرو کی جمالیات

امیر خسرو کے کلام کی رومانیت اور  جمالیات کو ممتاز درجہ حاصل ہے۔ اس رومانیت اور جمالیات میں ’ہیومنزم’ کے جوہر ہی سے مختلف رنگوں کی شعاعیں پھوٹی ہیں، ’ہیومنزم‘ کلام کی روح ہے۔ امیر خسرو نے انسان کو بلند تر درجہ عطا کر کے اسے کائنات کے مرکز پر کھڑا کر دیا ہے۔ تمام رومانی افکار و خیالات اور جمالیاتی تصورات کا سرچشمہ انسان ہے۔ حسن مطلق اور  حسن کائنات دونوں کو محسوس کرنے اور  دیکھنے کا ’وژن‘ انسان ہی رکھتا ہے، انسان اور  انسان کا رشتہ عظیم ہے۔ اسی رشتے اور  اسی محبت سے کائنات کا حسن و جمال قائم ہے۔ انسان کو ’دُر پاک‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے اور  کہا ہے اے در پاک (انسان) تیری تلاش میں آسمان، مدتوں خاک چھانتا رہا، تب کہیں تو ملا ہے:

چنبر نہ چرخ بسے بیخت خاک

تا تو بروں آمدی ای درِّ پاک!

(مطلع الانوار)

انسان پر نگاہ ڈالتے ہیں، اس کے ذہن کے کرشموں اور  اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر سوچتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک قطرے سے گوہر بنا وجود اپنے اندر نو سمندر رکھتا ہے، ایک قطرے میں نو سمندروں کا جلال و جمال ہے:

ساخت زیک قطرہ چو مردم گہر

طرفہ کہ نُہ بحر بیک قطرہ دکر

(مطلع الانوار)

امیر خسرو کی نظر میں انسان کائنات کی زندگی ہے، وہ روح کی مانند کائنات میں سما جاتا ہے اور  اس میں تحرک پیدا کرتا ہے اور  ساتھ ہی یہ بھی سچائی ہے کہ یہ دنیا اتنی چھوٹی ہے کہ انسان کا وجود اس میں سما ہی نہیں سکتا۔

جان و جہانِ ہمہ عالم توئی

وانک نگجند بجہاں ہم توئی!

(مطلع الانوار)

امیر خسرو علم و حکمت، عقل و شعور و آگہی اور  شخصی آزادی اور  آزادی روح وغیرہ کی اہمیت کے اس وقت قائل ہیں جب یہ سب انسانی مرتبے کی بلندی میں حصہ لیں۔ انسانی مرتبے کی بلندی کے لیے انسان کی نظر کی کشادگی اور  تہہ داری کو اہم تصور کرتے ہیں، فکر و نظر کی گہرائی ہی سے انسان فقیری میں امیری کرتا ہے، اہل نظر اور  صاحب فکر و نظر کو گدڑی میں لپٹا دیکھتے ہیں تو لگتا ہے وہ گدڑی میں لعل دیکھ رہے ہیں، اسے دنیا کا حاکم اور  ملک کا پاسباں تصور کرتے ہیں۔

مرد بینا در گلیم و بادشاہ عالم است

تیغ خفتہ در نیام و پاسبان کشور است!

(نہایۃ الکمال)

تلوار میان میں سوئی رہے، چھپی رہے مگر ملک کی پاسبانی تو وہی کرتی ہے، اسی طرح مرد بینا گلیم میں دنیا کی بادشاہت کرتا ہے!

امیر خسرو فکر و نظر کی کشادگی اور  تہہ داری یا ’وژن‘ کی تیز اور  تیز تر شعاعوں کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو صاحب نظر دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں یقین ہے کہ اسرار کائنات کی خبر صرف صاحب نظر کو ملتی ہے۔ کائنات کی سچائیاں صرف اس وقت بے نقاب ہوتی ہیں جب صاحب نظر کے ’وژن‘ کی تیز کرنیں پڑتی ہیں، فرماتے ہیں :

چشم حاصل کن کہ آنگہ می نماید بے حجاب

آنچہ پنہاں در پسِ ایں شیشۂ  صافی دراست

(نہایۃ الکمال)

کائنات کے پردے کی ہر سچائی بے نقاب ہو جائے اگر تم صاحب نظر بنو۔

امیر خسرو نے بار بار تکبر اور  غرور سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا ہے اور  انسانی رشتوں اور  محبت کی قدر و قیمت سمجھائی ہے، ایک جگہ کہتے ہیں وہ لوگ جو تکبر اور  غرور کی علامت تھے مخلوق کے سر کے تاج بنے ہوئے تھے آج وہ سب پاؤں کے دھول بن گئے ہیں، جنہوں نے انتہائی غرور کے ساتھ حکومت کی، اب کہاں ہیں ؟ زمین کے اندر جانے کہاں ! ان کے تو نام و نشان مٹ گئے ہیں :

آں سروراں کہ تاج سر خلق بودہ اند

اکنوں نظارہ کن کہ ہمہ خاک پاشدند

سری کہ زیرِ زیں شدنہفتہ شاہاں را

ہماں سراست کہ بر آسماں فراختہ اند!

نفس کی غلامی پسند نہیں کرتے، انہیں تو وہ لوگ عزیز ہیں جو نفس کی غلامی پر اپنی آزادی کو فوقیت دیتے ہیں :

اے من غلام ہمت آپ پاک بندۂ

کز بندگئ نفس بد آزاد می رود!

امیر خسرو کے نزدیک صاحب نظر تو وہ ہے کہ جو حسن و جمال کا اعلیٰ ترین نظریہ اور  تصور رکھتا ہو۔ کائنات کی ہر شے کے جمال کا عاشق ہو، زندگی کے تمام رنگوں کا عاشق ہو، وہ نابینا ہے جو عاشق میں شمار کیا جائے، لیکن سیاہ فام شخص کے حسن کو نہ پہچان سکے، سیاہی کے حسن کے جلوے کو بھی جس نے پہچان لیا دراصل وہی صاحب فکر و نظر ہے، جلال وجمال کا رسیا ہے، خالق کی تخلیقات کے حسن کا حصہ اور  جوہر ہے۔ فرماتے ہیں :

نزدیک اہل بینش کو رست و کور بیشک

عاشق کی پیش چشمش زنگی صنم نہ باشد!

وہ عاشق ہی کیا ہوا کہ جس نے سیاہ فام فرد کے جمال کو نہ پہچانا اور  اس کی پرستش نہ کی، جمال کا یہ تصور پوری انسانیت کو ایک دائرے میں کھینچ لیتا ہے، بنیادی تصور یہ ہے:

جمال مطلق آمد جلوہ آہنگ

مقید گشت یک رنگی بصد رنگ

ابدی اور  ازلی حسن نے اپنا جلوہ دکھانا چاہا تو اپنے رنگ کو سیکڑوں رنگوں کے سانچے میں ڈھال دیا۔

’ہیومنزم‘ انسان اور  انسان کی محبت اور  انسان اور  جمال حیات و کائنات کا عشق امیر خسرو کے فن کی روح ہے، اسی سے ان کے شعری تجربوں میں گہرائی اور  تہہ داری آئی ہے، ایمان کے لیے عشق و محبت کو ضروری جانتے ہیں، محبت نہیں تو پھر ایمان کہاں۔ فرماتے ہیں : عشق و محبت ہی نشان صحت ایماں ہے، کوئی نہ ملے تو گھر کی بلی سے محبت کرو، یہ بھی ممکن نہ ہو تو اپنے دل کو پتھر سے کچل دو اس لیے کہ وہ مر چکا ہے:

دلت برگربہ ای گرمہر بانست

نشان صحت ایماں ہمانست

دلت را گربہ برد، دگز نہ بردست

بروپیش سنگ اندازش کہ مردست!

انسان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں تو خدا کے خزانوں کی کنجی ہے تو کوئی کھلونا نہیں کہ اس سے کھیلنے کے سوا اور  کوئی کام نہیں لیا جا سکتا:

گنج خدا را تو کلید آمدی

نز پی بازیچہ پدید آمدی!

زندگی حاصل ہوئی ہے تو دریا میں غوطے لگاؤ اور  قیمتی موتی نکالتے رہو، اتنے موتی نکالو کہ دریا خالی ہو جائے اور  دنیا موتیوں سے بھر جائے، کہتے ہیں جب فیصلہ کر لیا کہ دریا میں غوطے لگانا اور  موتی نکالنا ہے تو غور وفکر کے دریا میں غوطے لگائے اور  ہر بار اتنے موتی نکال لائے کہ دریا خالی ہو گیا اور  دنیا میرے تجربوں کے موتیوں سے بھرگئی:

دلَم چوں بہ گوہر کشی خاص گشت

بدریائ اندیشہ غواص گشت

بہر غوطہ چنداں بروں ریخت دُر

کہ دریا تہی گشت و آفاق پُر!

بہتر رشتے کے لیے زبان شیریں ضروری ہے، میٹھی زبان ’ہیومنزم‘ کے لیے ہر دَم بہترین آہنگ ہے۔ یہ رشتے قائم کرتی ہے، اسے مضبوط اور  مستحکم بناتی ہے:

خسرو گر انگبیں می خواہی اور  شکّر لباں

اول اندر کام شیریں کن زبان خویش را

امیر خسرو کے رومانی ذہن اور  جمالیاتی شعور کی تشکیل میں ترک ہندی روایات و اقدار، ہندوستان کے خوب صورت ماحول کے جلوؤں، مذہب کی روشنی اور  پاکیزگی اور  تصوف کی داخلی آنچ نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ ان کے کلام میں احساس جمال کی گہرائی اور  رومانیت کی صحت مندی اور لطافت توجہ کا مرکز ہے۔ وہ حسن ازلی، حسن انسانی اور  حسن حیات و کائنات کے ایک بڑے شاعر ہیں۔ حسن کے ہر مظہر کے عاشق ہیں۔ ان کے نزدیک عشق جوہرِ زندگی ہے، عشق ہی سے انسان اور  انسان کے رشتے قائم ہوتے ہیں۔ انسان دوستی کا جذبہ باطن سے ابھرتا ہے، ’ہیومنزم‘ ہی وہ نگاہ عطا کرتی ہے کہ جس سے کائنات کے حسن کی نئی تشکیل ہوتی نظر آتی ہے اور  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے۔ جلوہ نمائی کے لیے مضطرب حسن نے منادی کرا دی ہے کہ جو جان دے بس اسی عاشق کا منتظر اور  مشتاق ہوں :

منادی کرد حسن جلوہ مشتاق

کہ ایک درما کو جان عاشق

حسن و جمال کے حوالے سے تغزل کی چاشنی لیے ہوئے کلام کا یہ رُخ دیکھئے:

چوں جمالت آیت رحمت شد اندر شان خلق

آخر ایں چندیں زبہر کشتم تاویل چیست

اس حیرت کی لطافت کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ جب خلق میں تیرا جمال رحمت کی نشانی ہے تو پھر جو میں نظارۂ  جمال کی تاب نہ لا کے ختم ہو گیا یا قتل ہو گیا تو اس کا سبب کیا ہے؟

کبھی حسن حقیقی کی لا محدودیت کا احساس ہوتا ہے تو انہیں یقین آ جاتا ہے کہ یہ حسن انسان کی عقل و فہم میں سما نہیں سکتا:

در نیائ بہ فہم عالمیاں

ورنہ گنجی بہ وہم آدمیاں

معبود حقیقی اور  اس کے جمال کو بھلا کوئی اپنی عقل سے پہچان سکتا ہے، اس کے لیے ظاہر ہے وجدان کو خود ایک لطیف ترین مظہر بننا پڑے گا، وجدان بھی شاید ایک پہلو کو کسی حد تک محسوس کر لے، پورے حسن کو دیکھنا قطعی ناممکن ہے۔ عقل میں بھلا اتنا دم کہاں کہ وہ جمال حقیقی تک پہنچے۔ امیر خسرو ان فلسفیوں کی باتوں پر ماتم کرتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جمال خالق کو عقل سے پہچانتے ہیں :

حکیم گفت شناسم بہ عقل یزداں را

زہے کمال حماقت و ایں چہ گفتار است!

عاشق کو محبوب کی خوشبو ملتی رہتی ہے، معبود حقیقی کے جمال کا ذکر ہر جگہ ہے اور  وہ ہے کہ بس اپنے چہرے کو چھپائے رہتا ہے، پھول سیکڑوں ہزاروں پردے میں رہے اس کی خوشبو اسے پردے میں رہنے نہیں دیتی۔

رُخ چہ پوشی چوں حدیث حسن تو پنہاں نماند

گل بصد پردہ دراواز بوئے خود مستور نیست!

خالق کائنات جو حسن حقیقی ہے، کبھی ظاہر ہوتا ہے اور  کبھی پوشیدہ رہتا ہے، حسن کے چند پہلو اجاگر ہوتے ہیں تو جانے کتنے پہلو پوشیدہ رہتے ہیں، اگر وہ مکمل طور سامنے آ جائے تو ہوش اڑ جائیں، سانس رُک جائے، جان نکل جائے۔

چہ پوشی پردہ بروئ کہ آں پنہاں نمی ماند

وگربی پردہ می واری تنی راجاں نمی ماند!

اگر یہ حسن بے نقاب ہو جائے تو مسیح و خضر کی جان بھی جاتی رہے:

مسیح و خضر راں آں روئ بنمائی

بکُش جانم مرا گر زندہ مانند

امیر خسرو کے نزدیک یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ جس سے آدم کی تخلیق ہوئی اس قطرے کے دل میں ایک عالم ایک جہاں پوشیدہ اور  پنہاں ہیں :

قطرہ آبے کہ تن مردم است

در دل آں قطرہ جہانے گم است

یہ بہت بڑی سچائی ہے، اسی کے احساس و شعور کی وجہ سے کائنات اور  حسن کائنات انسان کے وجود اور  باطن میں سمٹ آیا ہے، اسی نے عارف کی وہ نگاہ عطا کی ہے کہ جس سے نئی شعاعیں پھوٹتی رہتی ہیں۔ اسی نگاہ کے جادو سے عشق پیدا ہوتا ہے اور  عشق کی سرمستی جنم لیتی ہے اور  وجدان حسن حقیقی کے بعض جلوؤں کو دیکھ لیتا ہے۔ خالق کا حسن، جلال و جمال کا مرکز اور  انسان کی نگاہ عشق کا سرچشمہ! یقیناً حسن حقیقی نے عشق کو جنم دیا ہے لیکن یہ عشق ہی ہے کہ جس کی وجہ سے سوز و گداز پیدا ہوتا ہے اور  معبود حقیقی سے رشتے کی پہچان ہوتی ہے۔ امیر خسرو کا خیال یہ ہے کہ کائنات اور  اس کے جلال و جمال کا عرفان حاصل ہو جائے تو انسان اس سے پرے چلا جاتا ہے اور  محبوب کے حسن اور  اس کی لطیف شعاعوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی نگاہیں مجازی اور مادی جلوؤں میں گم ہو کر نہیں رہ جاتیں :

تا تو نمودی جمال نقش ہمہ نیکواں

رفت بروں از دلم نقشِ تو از جاں نہ رفت!

عشق کیا ہے یہ عاشق ہی جانتا اور  محسوس کرتا ہے، عشق میں گرفتار ہونا یا خود کو عشق میں ڈبو دینا بظاہر جس قدر بھی نشان بخت بد نظر آئے حقیقت یہ ہے کہ وہ ابدی سعادت ہے، کہتے ہیں :

عشق اگرچہ نشان بخت بداست

نزد عاشق سعادت ابداست!

حضرت محبوب الٰہی شیخ خواجہ نظام الدین چشتیؒ امیر خسرو کے مرشد تھے، آپ کی ہستی عشق و محبت کی علامت تھی۔ امیر خسرو کو عزیز تر جانا اور  عزیز تر رکھا۔ حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہیؒ نے فرمایا تھا کہ روز قیامت ہر فرد سے سوال ہو گا تم کیا لائے ہو، مجھ سے دریافت کیا جائے گا تو کہوں گا کہ اس ترک اللہ (امیر خسرو) کے سینے کا سوز لایا ہوں  اور  جب حضرت محبوب الٰہی کا وصال ہوا تو امیر خسرو دیوانے سے ہو گئے اپنے آنسوؤں کے قطروں کو ان لفظوں میں جذب کر دیا:

گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس

چل خسرو گھر آپنے سانج بھئی چوندیس

یعنی میرا محبوب سیج پر سوگیا ہے، مکھڑے پر گیسو بکھر گئے ہیں چل خسرو تو بھی اپنے گھر چل ہر جانب شام ہو رہی ہے! دو مصرعوں میں عاشق کا درد سمٹ آیا ہے!

امیر خسرو کو تصور کا سرچشمہ حضرت محبوب الٰہی کی چوکھٹ ہی پر ملا تھا، خواجگان چشت کی افضل روایات کو اسی چوکھٹ کے آس پاس پایا تھا۔ عشق الٰہی کا سبق اسی مقام پر پڑھا تھا، عشق کے سوز و گداز کو اسی مقام پر جانا تھا۔ یہی وہ چوکھٹ تھی کہ جہاں انسان اور  انسان کے بہتر رشتوں، محبت کی قدر و قیمت، انسان دوستی کے جوہر، عوام کی خدمت اور  دل نوازی کی بابت خبر اور نظر دونوں ملی تھی، غیر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ محبت اور  شفقت کا سبق حاصل ہوا تھا۔ ان اسباق کو پڑھ کر امیر خسرو کے احساس و شعور اور پورے وجود میں چراغاں کی سی کیفیت ہو گئی۔

امیر خسرو کے اپنے تجربے یقیناً بہت قیمتی ہیں لیکن ان اسباق کا رول کم اہم نہیں ہے، ’ہیومنزم‘ اور انسان کی قدر و قیمت اور  انسان دوستی کے جذبے نے انہیں ملک کی مٹی کی خوشبو سے آشنا کیا۔ وہ اپنے ملک کی ہر شے کے حسن پر فریفتہ ہو گئے، ہر شے اور  ہر انداز کو پسند کرنے لگے۔ مثنوی ’نُہ سپہر‘ میں کہتے ہیں : ہندو اتنا وفادار ہے کہ اپنی وفاداری میں تلوار اور  آگ سے کھیل سکتا ہے اور  ہندو عورت اپنے شوہر سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ اپنی وفاداری میں اس کی چتا میں جل کر مر جاتی ہے۔ ہندو مرد اپنے دیوتا کے لیے اپنی زندگی قربان کر دیتا ہے، اسلام میں ان باتوں کی اجازت نہیں ہے۔ اگر اجازت ہوتی تو بہت سے افراد اس سعادت مندی کو حاصل کرنے کے لیے قربان ہو جاتے۔ بلاشبہ یہ باتیں قابل ستائش ہیں۔ ہندوؤں کے عقیدے کو دیکھتے ہوئے اسے دوسرے کئی مذاہب کے ماننے والوں کے عقیدوں سے برتر تصور کرتے ہیں۔ ہندوؤں کی توحید پرستی کی اہمیت کا احساس اس طرح دلایا ہے:

 

نیست ہنوز ار چہ کہ دیندار چوما

ہست بسے جائے باقرار چوما

معترف وحدت و ہستی وقدم

قدرت ایجاد ہمہ بعد عدم

رازق ہر پُر ہنرو بے ہنری

عمر بروجاں وہ ہر جا نوری

خالق امغاں بہ نیکی و بدی

حکمت و حکمش ازلی و ابدی

فاعل مختارو مجازی بہ عمل

عالم ہر کلّی و جزوی ز ازل

عیسویاں روح و دلدبستہ برد

ہندو ازیں جنس نہ پیوستہ برد

اختریاں ہفت خدا کردہ یقیں

ہندوئ توحید سرا منکر ازیں

عنصریاں چار خدا بردہ گماں

گفتہ یکی ہندو ثابت بہماں

خلق دگر نور وظلم خواندہ بدل

ہندو از ینہا ہمہ پیوند گل

وانچہ کہ معبود برہمن بفرق

معترف است اور  کہ نہ مثلی است ز حق

معتقد انند بتقلید دراں

کانچہ رسیدہ است بما از پدراں

(مثنوی نُہ سپہر)

 

امیر خسرو کہتے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ توحید پرست ہیں، دین مختلف ہے لیکن اکثر عقیدے وہی ہیں کہ جو ہمارے ہیں، وہ خالق کو واحد اور  ازلی و ابدی مانتے ہیں اور  اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ خدا عدم سے ہر شے کو وجود میں لا سکتا ہے، خدا رازق ہے، ہر شّخص کا رازق و ہُنر مند ہو یا بے ہنر، ہر جاندار کی جان اسی کی دی ہوئی ہے اور  ہر جان دار کی جان وہی لیتا ہے، وہ خالق ہے نیک و بَد افعال کا اور  اس کی حکمت ازلی و ابدی ہے، عمل میں تنہا حاکم و مختار ہے، کُل اور  جزو کا علم ازل سے ہے۔ امیر خسرو کہتے ہیں کہ نصرانیوں نے روح اور بیٹے کو شامل کر لیا۔ ہندوؤں نے ایسا نہیں کیا۔ ہندو ستارہ پرستوں کی طرح سات خداؤں کو نہیں مانتے، عنصری کا گمان ہے کہ خدا چار ہیں، لیکن ہندو ایک ہی خالق کو مانتے ہوئے توحید پر قائم رہے، پارسی (زرتشتی) ثنویت کے قائل ہیں دو خدا کو مانتے ہیں، ہندو ایسا نہیں سمجھتے، وہ (ہندو) مختلف اشیاء و عناصر کی عبادت کرتے ہیں، لیکن اس بات کو مانتے ہیں کہ سب ایک ہی خالق کی تخلیق و مخلوق ہیں، ’حق‘ تنہا ہے، ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، مختلف اشیاء و عناصر کی پوجا دراصل تقلیدی عمل ہے۔ وراثت میں جو حاصل ہوا اس کی پیروی کی۔

امیر خسرو کی ’ہیومنزم‘ ایک مثبت رجحان ہے، کون سا عقیدہ درست ہے اور  کون سا غلط، کوئی بھی شخص وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ حقیقت یا سچائی کی بنیادی صورت اور  فطرت کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے، مختلف عقائد اور  نظریات ہیں اور  ہو سکتے ہیں، اس مثبت رجحان کے مطابق ایک بڑی سچائی زندگی ہے۔ یہ ہے اور  ہم اسے بسر کرتے ہیں۔ لہٰذا اس زندگی کو آگے بڑھانے، نکھارنے اور  اسے زیادہ سے زیادہ حقیقی اور  خوبصورت بنانے کی کوشش ضروری ہے۔ مشائخ چشت کی روایات میں یہ ’ہیومنزم‘ یا انسان دوستی، یہ محبت اور  یہ عشق بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ احتجاج بھی ہے اور انسان کے لہو کے رنگ کی پہچان کا خوبصورت تجربہ بھی۔ اس مثبت رجحان نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا اور  یہ زندگی ہماری بنیادی دلچسپی کا مرکز ہے اور  ہیومنزم ہمارا نصب العین یا آئیڈیل ہے۔ انسان اور  انسان کے باہمی رشتوں کی ہم آہنگی ’ہیومنزم‘ کا تقاضا ہے۔ اللہ کا جلوہ ہر شخص میں ودیعت ہے۔ اس جلوے سے رشتہ قائم کرنا خالق سے رشتہ قائم کرنا ہے۔ انسان سب سے بڑی قوم ہے، انسانیت جو عشق و محبت کی صورت جلوہ گر ہوتی ہے، اسی قوم کی زندگی ہے۔ اس رجحان سے وہ ’تیبوز‘ (Taboos) ٹوٹ سکتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہماری  رگوں سے لہو جاری ہوتا رہتا ہے۔ اخلاقیات کی سب سے بہتر بنیاد ’ہیومنزم‘ ہی ہو سکتی ہے۔ امیر خسرو کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے اس حقیقت کی پہچان ہو جاتی ہے کہ ’ہیومنزم‘ کے تصور میں توازن ہے، وہ داخلی موزونیت یا ’ہارمونی‘ کو ضروری جانتے ہیں۔ ہزار برس پہلے چین کے معروف مفکر اور  دانشور کنفیوسیش (Confucius) نے اس رجحان کو بڑی شدت سے نمایاں کیا تھا اس نے کہا تھا انسان کا وجود ایک بہت بڑی حقیقت اور  سچائی ہے۔ انسان اور  انسان کے متوازن رشتوں اور انسانی قدروں کی اہمیت کا احساس دیا ہے۔ انسانی قدریں، ’ہیومنزم‘ میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ انسان ہونے کا احساس و شعور اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ رشتوں کا احساس نہ ہو۔ انسان کی بنیادی خواہشوں یا بنیادی جبلتوں میں ایک جبلت یہ ہے کہ دوسروں سے خوبصورت رشتے قائم ہوں۔ امیر خسرو رشتوں کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا جمالیاتی شعور حسن کو ٹٹول لیتا ہے اور  جمال زندگی کی وحدت کو عزیز جانتا ہے۔ کلام خسرو میں فن کار کا ذہن اعلیٰ اور  عمدہ قدروں کی تلاش میں سرگرداں ہے، حسن اور  وحدت حسن کی تلاش ہی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ حسن اور  وحدت حسن ہی میں سب کچھ ہے۔ عشق حسن کامعاملہ یہ ہے:

کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست

ہر رگِ من تار گشتہ حاجتِ زنّار نیست

یعنی میں عشق کا مارا کافر، مجھے مسلمانی کی بھلا کیا ضرورت، میری ہر رگ تار بن گئی ہے، مجھے زنّار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انسان وجود کُل کے حسن کا حصہ ہے، اپنے حسن کا عاشق، امیر خسرو کہتے ہیں میں نہ گل ہو ں اور نہ بلبل، نہ شمع نہ پروانہ، اپنے حسن کا عاشق اور  دیوانہ ہوں، میرا وجود بھی دراصل حصہ ہے وجود کُل کے حسن کاء

نے گلم نے بلبلم نے شمع نے پروانہ ام

عاشق حسن خودم پر حسن خود دیوانہ ام

قبلہ ہو یا بُت کدہ ہر جگہ محبوب کا عشق میرے ساتھ رہتا ہے، دوست کے عاشقوں کو بھلا کفر و ایماں سے کیا سروکار:

ما و عشقِ یار اگر در قبلہ گر در بتکدہ

عاشقانِ دوست را باکفر و ایماں کار نیست

سیاہ رنگ کو تو آنکھوں میں جگہ دی گئی ہے اور  آنکھ کی پتلی میں تو ہر فرد سیاہ ہی دکھائی دیتا ہے، سیاہ رنگ پر طعنہ زن کیوں ہو۔ اس رنگ میں (ہندوستانیوں کے سیاہ رنگ میں ) آب حیات (چشمۂ  ظلمات یا بحر ظلمت سیاہی کا دریا چشمہ) کی آمیزش ہے:

سیہ را خود بدیدہ جانگاہ است

کہ اندر دیدہ ہم مردم سیاہ است

 

ہند را اے مدعی طعنہ بہ تاریکی مزن

زانکہ اندر ظلمتِ او اْبِ حیواں مدغم است!

(دول رانی خضر خاں )

کہتے ہیں :

باکہ دمہ صحبت از انساں گزیں

یعنی میل جول اور محبت اور  دوستی سے عقل بڑھتی ہے، تجربہ وسیع ہوتا ہے۔

خسرو کعبہ میں ہو یا بُت خانہ میں، ہر جگہ اس کا دل تیرے در پر رہتا ہے، تیری دیوار دل میں بسی ہوتی ہے:

در کعبہ و بُت خانہ ہر جاکہ رود خسرو

دل با درِ تو بد خو دیوار ہماں در دل!

اور تیرے چہرے کے ہزار نام ہیں :

یک روئے ترا ہزار نام اس

٭٭٭

جمالیات

منطق پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہیگل نے کہا تھا کہ پہلے ہی بتا دینا کہ منطق کیا ہے ممکن نہیں ہے، جب تک ہم اس کی پوری وضاحت کر کے اس کے خدوخال نہیں ابھاریں گے اور  مکمل آگاہی حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک اس بات کا علم ممکن نہیں کہ منطق کیا ہے۔

جمالیات کے تعلق سے بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ ’جمالیات‘ اور  اس کے بنیادی موضوع کے متعلق ہم اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک کہ اس کا علم حاصل نہ ہو جائے اور  اس کے جوہر کی پہچان نہ ہو جائے، بڑی معنیٰ خیز، تہہ دار اصطلاحوں کی تشریحیں اور  تعبیریں ہو سکتی ہیں اور  صرف تشریحوں اور  تفسیروں ہی سے ان کے مفاہیم کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عنوان کی اصطلاحیں سائنسی اصطلاحوں کی طرح ٹھوس اور  صرف خاص رُخ کو پیش کرنے والی اصطلاحیں نہیں ہوتیں۔

جمالیات کی ایک بڑی تاریخ ہے۔ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے جانے کتنے تصورات پیدا ہوئے ہیں، تصورات تبدیل ہوئے ہیں، مختلف تصورات میں مفاہیم کی نئی جہتیں پیدا ہوئی ہیں، خود جمالیات نے جانے کتنی اصطلاحوں کو خلق کیا ہے اور  یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب ایسی صورت ہے تو ظاہر ہے جمالیات کے اندر سے پھوٹے ہوئے سوالات میں بھی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیات کی کوئی ایک تعریف نہیں ہو سکتی، اس کی مختلف تشریحوں سے اس کے ایک سے زیادہ پہلوؤں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ معنی خیز ادبی اور  فنی اصطلاحوں کا حسن تو یہی ہے۔ بعض ادبی اور  فنی اصطلاحیں غالبؔ کی اصطلاح میں ’چراغاں ‘ کی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں اور جانے کتنے مناظر کے ساتھ ’تماشا‘ بن جاتی ہیں۔

یونانی فلسفیوں خصوصاً فیثا غورث وغیرہ نے جمالیات کو فلسفے کا ایک پہلو قرار دیا تھا۔ ارسطو نے اسے حسن، حسن کی فطرت و ماہیت اور  فنون لطیفہ سے قریب تر کیا اور  فن کارانہ تجربے کو جمالیاتی تجربہ سمجھا۔ اور  حقیقت یہ ہے کہ اس منزل سے جمالیات کے باطن سے ایسے سوالات پھوٹنے اور  ابھرنے لگے کہ جن کا تعلق حسن، حسن کی ماہیت اور  تخلیقی عمل اور  فنون لطیفہ کے جوہر سے تھا، حالانکہ اس سے قبل سقراط نے اسے صرف اخلاقیات سے وابستہ کر رکھا تھا اور  افلاطون نے اپنی ’ری پبلک‘ کے اچھے شہریوں کے لیے اسے علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا تھا۔ لیونارڈ نے فطرت کے جلال و جمال اور  فنون کے رشتوں کو سمجھنے کے لیے جمالیات کا سہارا لیا، بوآئیلو (Boileau) نے تخلیقی فن کے معیار کے لیے ’جمالیت‘ کو عزیز جان، بام گارٹن (Baumgarten) نے آرٹ کے ذریعہ دنیا کے حسن کو پانے اور  فن کار اور  حیات و کائنات کے حسی رشتوں کو سمجھنے میں اس کی مدد لی۔ ہیگل نے اسے زندگی اور  آرٹ کے حسن کو سمجھنے کا ذریعہ جانا اور  کائنات کی روح کے عمل اور  تخلیقی آرٹ کی جگہ تلاش کرتے ہوئے جمالیات کو بڑا ذریعہ سمجھا۔ نووالس (Novalis) نے رومانیت کی قدرو قیمت کا اندازہ کرتے ہوئے فن کار کے منفرد جمالیاتی رویے کو اہمیت دی۔ چرنی شوسکی (Chernyshoiski) نے انسان اور  وجود کے رشتے کو سمجھنے کے لیے تمام جمالیاتی کیفیتوں اور  رشتوں کو غیر معمولی اہمیت دی۔ بلنسکی (Belinsky) نے جمالیات کو ’فنی صداقت‘ اور  حقیقت کو سمجھنے کا ایک بڑا ذریعہ بنایا۔ کسی نے کہا کہ سماجی تبدیلیوں اور  انسانی زندگی کی تبدیلی سے جمالیاتی قدریں تبدیل ہو جاتی ہیں، لہٰذا حسن کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔ کسی نے یہ بتایا کہ حسن قدر نہیں جبلت ہے اور جبلت تبدیل نہیں ہوتی۔ قدروں کی تبدیلی سے حسن کو دیکھنے، اسے محسوس کرنے اور  اس سے لطف اندوز ہونے کا انداز بظاہر جتنا بھی بدل جائے بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ایک دبستان اس طرح سوچتا ہے کہ جمالیات فرد کے باطن کا معاملہ ہے۔ تخلیقی عمل میں باطنی جمالیاتی تجربے یقیناً اہم ہیں، لیکن وہ تجربے خارجی جمالیاتی قدروں کی دین ہے۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ’جمالیات‘ کی تعریف ممکن نہیں ہے۔ جمالیات کے تعلق سے یہ تشریحیں، تعبیریں اور  تفسیریں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان تصورات کے علاوہ دوسرے جانے کتنے تصورات موجود ہیں کہ جن کی اہمیت ہے۔ یہ سب جمالیات کی مختلف جہتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ ہر خیال اور  ہر تصور میں کوئی نہ کوئی سچائی موجود ہے۔ ایسے سیکڑوں تصورات سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ جمالیات کی اصطلاح ایک انتہائی معنی خیز معمولی اصطلاح ہے اور  فنون لطیفہ میں اس کی معنویت اپنی تہہ داری کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اور  ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ جمالیات کی دین ہے۔ جمالیات ہی تجربہ کو فنی تجربہ بناتی ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر ہی سے تخلیق ہوتی ہے، جمالیات سے ہی فن کار کے وژن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے، اس سے فنون لطیفہ میں جلال و جمال کا ایک نظام قائم ہوتا ہے۔

فن و ادب کی تنقید تو بنیادی طور پر جمالیاتی ہوتی ہے۔ ناقد اور  فن کار کے جمالیاتی شعور سے رشتہ قائم ہوتا ہے تو فن کا سچا جوہر سامنے آتا ہے۔ فن کار تو اپنے جلال و جمال کے مظاہر ہی پیش کرتا ہے اور  ان مظاہر کو محسوس کرنے اور  ان کی وضاحت و تشریح کرنے کے لیے ناقد کو اپنے جمالیاتی شعور ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ زبان و ادب کا معاملہ ایسا ہے کہ اساطیری، مذہبی، صوفیانہ، فکری، سائنسی، طبی، غرض ہر قسم کی اصطلاحیں جذب ہو جاتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان اصطلاحوں میں جمالیاتی جہتوں کی نشاندہی اور  تخلیق کے جلوؤں اور  فن کار کی شخصیت کے رموز کی نقاب کشائی کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ ایسی اصطلاحیں جو ان کارناموں کو انجام دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں وہ فنی اور  جمالیاتی معنویت کو واضح کرتی ہیں اور اکثر اپنی تہہ دار اور  پہلو دار خصوصیتوں سے قاری کے ذہن کو فن کی عظمت اور  بزرگی اور  جمالیاتی جہتوں سے آشنا کرتی ہیں۔ جمالیاتی انبساط پانے میں مدد کرتی ہیں، فن و ادب کی اپنی اصطلاحیں سماجیات، عمرانیات، معاشیات، نفسیات اور اساطیر و مذاہب کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ مختلف علوم سے اصطلاحیں حاصل ہوتی رہتی ہیں اور  ادبی اقدار کی جمالیاتی وضاحت و تشریح اور  تجزیے کے قابل ہوتی ہیں تو وہ ادبی اور  فنی اصطلاحوں کی صورتیں اختیار کر لیتی ہیں۔

بام گارٹن (۱۷۱۴ء-۱۷۶۲) نے سب سے پہلے فلسفۂ  حسن کے لیے Aesthetics کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ کہا تھا کہ یہ فلسفے کا ایک علاحدہ مستقل موضوع ہے۔ اس اصطلاح کا مآخذ یونانی لفظ Aisthetikos ہے۔ اس کے معنی ایسی شئے کے ہیں کہ جس کا ادراک حواس کے ذریعہ ہو۔ بام گارٹن نے اس میں احساس اور  ادراک دونوں کو اہمیت دی اور  اسے ایک علم سے تعبیر کیا۔ جمالیات کی تاریخ اپنے نام سے زیادہ قدیم ہے، قدیم ترین علماء نے حسن، فن اور  فنی صداقت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یونانی جمالیات اور  ہندوستانی جمالیات کی اپنی تہہ دار تاریخ  ہے۔ ہندوستان کے قدیم اچاریوں نے ’بھَو‘ یعنی ذہنی کیفیات، ’رَس‘ یعنی جلال و جمال کے عرفان کا جوہر، جمالیاتی تجربوں کی فنی ترسیل کی خوشبو اور  جمالیاتی انبساط ’آنند‘ کا جادو، آہنگ اور آہنگ کی وحدت اور  ’النکار‘ یعنی اظہار کے حسن وغیرہ پر جس شدت سے اظہار خیال کیا ہے، جمالیات کی تاریخ میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔

اس ادبی اصطلاح کی معنویت پھیلتی جا رہی ہے اور  اس کی نئی جہتیں نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ تاریخی جوہروں سے معمور انسانی اقدار، فن کاروں کی تخلیقات، احساس و ادراک، کائنات کے جلال و جمال کے مظاہر، شعور و عرفان، آسودگی اور  انبساط، پیکر تراشی، آواز اور  اس کی گونج، اشارتی مفاہیم، رمزیت و اشاریت، ڈرامائی خصوصیات، فضا آفرینی، سچائی کی صورت کی تبدیلی، شعوری اور  لاشعوری کیفیات، خارجی اور  باطنی تحرکات کی وحدت، تخلیقی عمل کی پُر اسرار کیفیتیں، تخیل اور  ’وژن‘، تجربوں کا حسن اور  تخلیق یا کلام کی آرائش و زیبائش، سب اس کے دائرے اور  اس کی گرفت میں ہیں۔ جمالیات کی مدد کے بغیر فنون لطیفہ کا مطالعہ ہی ممکن نہیں ہے۔ جمالیات تو فنون کی روح ہے۔ اس اصطلاح کا سب سے صاف اور  واضح مفہوم یہ ہے کہ فن کار کے جمالیاتی شعور نے حیات و کائنات کے جلال و جمال سے کس نوعیت کا تخلیقی رشتہ قائم کیا ہے اور  جو تخلیق سامنے آئی ہے اسکا حسن کیا ہے، کیسا ہے۔ ایسی دریافت سے جہاں سماج کے جمالیاتی مزاج اور  رجحان کی پہچان ہوتی ہے، وہاں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ فن کار کے جمالیاتی تجربوں نے سوسائٹی کے باطن میں کس نوعیت کی تحریک پیدا کی ہے۔ کبھی کبھی تو فن کاروں کے ایسے تجربوں کی تحرک سے سماج کا مزاج ہی بدل جاتا ہے۔ رجحان اور  رویے میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہندوستان کی مجسمہ سازی کی تاریخ اس کی عمدہ مثال ہے۔

جمالیات کا تعلق انسان اور  اس کے سماج سے ہے، انسان کے حواس خمسہ سے ہے، اس کے شعور اور  لاشعور سے ہے۔ وہ عمر بھر حسن کی تلاش ہی میں مصروف سفر رہا ہے، خالق کائنات کا حسن ہو یا سماجی زندگی کا، اپنی ذات کا حسن ہو یا دوسرے افراد کا، حیات و کائنات کا حسن ہو یا فطرت کے جلال و جمال کا، زندگی کا حسن ہو یا موت کا، فنونِ لطیفہ میں تو اس کے تجربے پیش ہوئے ہیں۔ وہ ’تری مورتی‘ ہو یا ’نت راج‘، وینس کا پیکر ہو یا بدھ کا مجسمہ، تاج محل، اجنتا اور  ایلورا ہو یا حافظ، کبیر اور  غالبؔ، ڈیوائن کامیڈی، میک بتھ اور  شاہنامہ فردوسی ہو یا عجمی اور  غل آرٹ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اب بھی جمالیات کا ذکر آتا ہے تو بعض حضرات اسے علم سماجیات یا علم عمرانیات یا علم نفسیات کی طرح، تاریخی تسلسل میں صرف چند علمائے جمالیات کے نظریات کی روشنی ہی میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظریات یقیناً اہم ہیں لیکن یہی سب کچھ نہیں ہیں۔ اب جمالیات کی اصطلاح کا معاملہ دوسری تمام ادبی اور  فنی اصطلاحوں سے مختلف ہے۔ اس اصطلاح نے جہاں فنونِ لطیفہ کی روح کی گہرائیوں کو سمجھانا شروع کیا ہے وہاں ماضی کے فنون کو دیکھنے کے لیے نیا وژن بھی عطا کر دیا ہے۔ ماضی کے فنون کے جلال و جمال کو دیکھنے، پرکھنے اور  ان سے جمالیاتی انبساط پانے کا انداز ہی تبدیل کر دیا ہے۔ جمالیات نے ماضی کے فنون کے نئے جمالیاتی انکشافات کے لیے اکسایا اور بے قرار کیا ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی فنونِ لطیفہ کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اتنا بڑا انقلاب جو فنونِ لطیفہ کو دیکھنے کے لیے ایک ہمہ گیر ’وژن‘ عطا کرنے نہیں آیا تھا۔ اس کے لیے جمالیات کو ایک سائنس یا ایک ایسا علم کہ جس کے حدود مقرر ہوں سمجھنا غلط ہے۔ یہ اصطلاح ایک ایسا نقطہ یا بندو ہے کہ جس میں تمام مظاہر سمٹ آتے ہیں اور  تمام مظاہر کے رنگ روپ کو سمیٹ کر سکڑتا ہے تو ایک نقطہ بن جاتا ہے۔ ایک معنی خیز تہہ دار اصطلاح!

جمالیات کی اصطلاح نے یہ احساس عطا کیا ہے کہ جمالیات فنونِ لطیفہ کی روح ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر، جمالیاتی نقطۂ  نگاہ۔ وجدان و عرفان، جمالیاتی شخصیت و شعور، جمالیاتی موضوع اور  طرزِ ادا کے بغیر کسی فن کا کوئی تصور پیدا نہیں ہو سکتا۔ ہر بڑے تخلیقی فن کار کا ایک اپنا جمالیاتی نظام ہوتا ہے جو اپنی جمالیاتی روایات اور  اپنے عہد کے جمالیاتی نظام سے گہرا تخلیقی رشتہ رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عہد کے جمالیاتی نظام سے کسی تخلیقی فن کار کا اپنا جمالیاتی نظام قائم ہوتا ہے۔ حسن کا احساس ہی فن کی تخلیق کا باعث بنتا ہے اور  اس کا بنیادی مقصد جمالیاتی سطحوں پر عرفان عطا کرنا اور  مسرت سرمدی سے آشنا کرتا ہے، المیہ یا ٹریجڈی بھی اپنے حسن سے متاثر کرتی ہے۔ بڑے فن کار اپنی جمالیاتی فکر و نظر اور  اپنے ’وژن‘ ہی سے ٹریجڈی کو حسن کا جلوہ دیتا ہے۔ ہر اچھی اور  بڑی تخلیق جمالیاتی ہوتی ہے۔ معاشرتی، معاشی یا نفسیاتی نہیں ہوتی۔ اگرچہ معاشرتی، معاشی اور  نفسیاتی اقدار و عوامل کے تحرک ہی سے کوئی تجربہ تخیل کا جوہر بنتا ہے۔ جمالیات صرف کروچے، ہیگل، کانٹ، بام گارٹن، ینگ، شلر، وائٹ ہیڈ، برک اور  ہیوم وغیرہ کے تصورات و خیالات کا نام نہیں، اگرچہ یہ اور ایسے جانے کتنے علما نے جمالیات کی گرہیں کھولی ہیں اور بصیرتیں عطا کی ہیں۔ فنون لطیفہ کی روح تک رسائی ایسے خیالات سے یقیناً مختلف انداز سے ہوتی ہے، لیکن جب فنون لطیفہ کے جوہروں کی پہچان کا معاملہ پیشِ نظر ہوتا ہے تو قاری یا ناقد کی اپنی جمالیاتی بصیرت ہی فن کاروں کی جمالیات سے تخلیقی رشتہ قائم کرتی ہے اور  اسی رشتے سے جمالیاتی انکشافات ہوتے ہیں۔

٭٭٭

اساطیر کی جمالیات

اساطیر فنونِ لطیفہ کی سب سے قدیم پُر اسرار متحرک روایت ہے۔ انسان کے نسلی لاشعور (Collective Unconsciousness) میں سیال پگھلی ہوئی سرسراتی ہوئی روایت، رقص، مجسمہ سازی، مصوری اور  لٹریچر کی اس قدیم پُر اسرار روایت نے عمدہ اور  عمدہ ترین تخلیقات عطا کی ہے۔ لیجنڈ لوک کہانی اور  ’خالص مِتھ‘ تینوں اساطیر کی تشکیل میں شامل ہیں۔ تمثیل (Allegory) نے اساطیر کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشیا و عناصر کو شخصیتیں ملی ہیں، چاند سورج ستارے، پانی، ریت، قوس قزح، آبشار، سمندر وغیرہ کو شخصیتیں عطا کی ہیں، ان میں تحرک پیدا کیا ہے۔ واقعات و کردار کو اجتماعی ’فینتاسی‘ (Collective Fantasy) کی صورت عطا کرنے میں تمثیل ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔

1952-53 میں پٹنہ یونیورسٹی میں ایم اے کا طالب علم تھا۔ اس وقت کرسٹوفرFollective Phتشکیل: اعجاز عبید

غزلیں کاڈوِل (Christopher Caudwell) کی مشہور تصنیف  ’’الیوژن اینڈ ریئلیٹی‘‘  (Illusion and Reality) نظر سے گزری تھی۔ کاڈوِل نے مارکسی نقطۂ  نظر سے شاعری کے تعلق سے مختلف موضوعات پر گفتگو کی تھی۔ مثلاً ’شاعری کا جنم‘، ’جدید شاعری کا ارتقا‘، ’انگریزی شعرا اور  پرانی روایت‘، ’انگریزی شعرا اور  صنعتی انقلاب‘، ’انگریزی شعرا اور  سرمایہ داری کا زوال‘، ’شاعری کی خصوصیات‘، ’سائیکی اور  فینتاسی‘، ’شاعری اور  خواب کا عمل‘، ’شاعری کا مستقبل‘ وغیرہ۔ ان ہی موضوعات میں ایک موضوع تھا ’اساطیر کی موت‘ (The Death of Mythology)۔ کرسٹوفر کاڈوِل نے مارکسی نقطۂ  نظر سے اساطیر کی موت کا اعلان کیا تھا اور  کہا تھا کہ شاعری کو اساطیر کی نہیں مادی سچائیوں کی شعور کی ضرورت ہے۔ اس خیال سے اتفاق کیا تھا کہ ’مِتھ‘ سچی نہیں ہوتی، اس میں صرف فوق الفطری کردار ہوتے ہیں۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا تھا کہ تخلیق کے تعلق سے کوئی نہ کوئی تصور موجود ہوتا ہے، جو احساس کی دین ہوتا ہے اور  اس تصور کی بڑی اہمیت ہے۔ اساطیر ایک خاموش متحرک روایت ہے کہ جس کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔ تخلیقی آرٹ کا باطنی رشتہ کسی نہ کسی سطح پر اساطیر اور  اس کی روایت سے قائم رہتا ہے۔ معروف علم نفسیات جے سی یونگ (J.C. Yuang) نے نسلی اور  اجتماعی لاشعور (Collective Unconsciousness) کا تصور پیش کر کے اور  اس پر تفصیلی گفتگو کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اساطیری روایت و کردار انسان کے لاشعوری کی گہرائیوں میں موجود رہتے ہیں اور  کوئی بڑا تخلیقی فنکار ان سے خود کو بچا کر نہیں جا سکتا۔ اجتماعی یا نسلی شعور سے اس کی لہریں نا محسوس طور پر آتی رہتی ہیں، شعور متاثر ہوتا رہتا ہے، اجتماعی لاشعور میں اس کی آنچ بہت تیز ہوتی ہے۔

’مِتھ‘ (Myths) اور  آرچ ٹائپس کی علامتوں (Archetypal Symbols) کو تین دائروں میں رکھ کر لٹریچر کے مطالعے میں مدد لیں تو بہتر ہو گا۔ ایک دائرہ ایسے مِتھ کا جو خالص ہیں، دیوتاؤں اور  عفریتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دو مختلف دنیاؤں کی پہچان ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن استعارے انہیں ایک دوسرے سے منسلک رکھتے ہیں۔ لٹریچر میں جنت جہنم کا ذکر ہوتا رہتا ہے اور  مذہب ایک سے زیادہ سطح پر انہیں ایک دوسرے سے قریب رکھتا ہے۔ دوسرا دائرہ رومانی ہے۔ اپنی دنیا میں اساطیری دنیا کے نقش ابھرتے رہتے ہیں، جو انسان کے تجربوں سے بہت قریب ہوتے ہیں، رومانی ذہن انہیں بہت قریب کر لیتا ہے اور  تیسرا دائرہ بہت حد تک حقیقی مادی دنیا سے تعلق رکھتا ہے لیکن اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فنکار کا تخلیقی ذہن اساطیری فضاؤں کی جانب لپک رہا ہے یا لپکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایلن پو (Ellen Poe)، ٹھامس ہارڈی (Thomas Hardy) اور  ورجنیاولف (Virginia Wolf) کی تخلیقات میں مثالیں ملتی ہیں۔ اساطیر میں جو دنیا آباد ہے اس میں پانچ دنیاؤں کی پہچان مکمل طور پر ہوتی ہے۔ ایک روحانیت کی دنیا، دوسری انسان کی، تیسری جانوروں اور پرندوں کی چوتھی نباتات کی اور  پانچویں معدنیات کی۔ ان سب کے پیکر، ان سب کی علامات موجود ہیں۔

لٹریچر میں اساطیر کی روشنی کہیں بہت تیز رہی ہے اور کہیں ہلکی، ادیبوں کا رشتہ ’مِتھ‘ سے براہ راست بھی رہا ہے اور  یہ بھی ہوا ہے کہ کلاسیکی اور  پرانی ’مِتھ‘ سے ہلکی روشنی حاصل کر کے تخلیقی فنکاروں کے ’وژن‘ نے اپنی ’مِتھ‘ بنالی ہے۔ یونانی، رومن، چینی، ہندوستانی، مصری اور  لاطینی امریکی اساطیر کی روایات سے فائدہ تو اٹھاتا ہے ساتھ ہی اپنے تجربوں اور  خصوصاً مذہبی تجربو ں کی روشنی میں اپنی ’مِتھ‘ خلق کر لی ہے۔ ولیم بلیک (William Blake) نے اساطیر کی جمالیات کے رنگ وآہنگ سے اپنی نظموں میں جو حرارت اور  چمک دمک پیدا کی ہے ہم جانتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عیسائیت نے بھی اسے خوب متاثر کیا ہے اور  اپنی ’مِتھ‘ کی تخلیق میں اس نے اپنے مذہب کو بہت قریب رکھا ہے۔ (محمد اقبال کی تخلیق ’جاوید نامہ‘ سے بھی اسی قسم کی سچائی سامنے آتی ہے) بعض شعرا کو اس بات کا احساس تھا کہ وہ اپنی ’مِتھ‘ بھی خلق کر رہے ہیں۔ ڈبلیو بی ایٹس(W.B. Yeats) نے 1926 میں 'A Vision' میں اپنی ’مِتھ‘ کی وضاحت کی ہے۔ ہرمین ملول (Herman Melvile) نے ’موبی ڈِک‘ (Moby Dick) میں، جیمس جوائس (James Joyce) نے ’یولائی سس‘ (Ulysses) میں اور  ڈی ایچ لارنس (D.H. Lawrence)نے 'The Plumed Serpant' میں جہاں کلاسیکی اساطیر سے مواد حاصل کیے وہاں اپنی ’مِتھ‘ بھی تخلیق کی ہے۔ ان تخلیق کے مطالعے سے ایک بات کا احساس بڑی شدت سے ہوتا ہے کہ ان فنکاروں نے کلاسیکی اساطیر سے براہ راست روشنی بہت کم لی ہے اس ’لاشعور‘ کا عمل بہت زیادہ ہے کہ جسے یونگ نے اجتماعی یا نسلی لاشعور (Collective Unconsciousness) کہا ہے۔

اس سے قبل کہ ’سائیکی‘ اور  آرچ ٹائپ (Archetypes) پر کچھ اور  گفتگو کی جائے، خود اساطیر کی ایک گہری اور  معنی خیز روایت ’لوک کہانی‘ کی بابت کچھ جانکاری حاصل کر لیں تو بہتر ہے۔’لوک کہانی‘ بلاشبہ اساطیرکی گہرائیوں میں اپنی جڑیں پھیلائے بیٹھی ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں کی لوک کہانیوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اساطیر کی بنیادیں مضبوط کی ہیں، کہانیاں پہلے زبانی سنائی جاتی تھیں۔ ہر جگہ Oral Traditions کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک علاقے سے دوسرے علاقے کا سفر کہانیوں کو مسلسل متاثر کرتا رہا ہے، تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں لیکن کہانیاں موجود رہی ہیں۔ سفر کرتے ہوئے کہانیوں میں جو تبدیلیاں ہوئیں وہ عین فطری ہیں۔ ’مِتھ‘ اور  ’ایپک‘ کی روایتوں کی مددگار کہانیاں آج بھی موجود ہیں، ’مہابھارت‘ اور  مقامی اساطیر میں ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لوگ کہانیوں میں ’علاء الدین اور  اس کا چراغ‘، ’علی بابا چالیس چور‘، ’حضرت سلیمان اور  جنات‘، ’پری بانو اور  جادوگر‘، ’شرون کمار‘، ’ماہی گیر اور  جن‘، ’سند باد جہازی‘، ’آبِ حیات اور  خوجہ خضر‘ کیکاؤس[’اوستا‘ میں کاوی اوسان (Kavi Us'an) رِک وید میں ’کاویہ اوساناس‘ (Kaya Us'anas)] ’پورن بھگت‘، ’الاودل‘، ’ہیرانجھا‘، ’سوہنی مہینوال‘، ’لیلیٰ مجنوں ‘، ’شیریں فرہاد‘، ’مرزا صاحبان‘ اور  جانے کتنی لوک کہانیاں صدیوں صدیوں سے احساس اور  جذبے سے قریب ہیں۔ نسل در نسل یہ کہانیاں چلی آرہی ہیں، مختلف علاقوں اور  مختلف زبانوں اور  بولیوں میں انگنت لوک کہانیاں موجود ہیں۔ بہت سی لوک کہانیاں گیتوں اور  لوک نغموں میں بھی پیش ہوتی رہی ہیں اور  آج بھی گاؤں، دیہاتوں میں سنائی جاتی ہیں۔ فردوسی کے ’شاہنامہ‘ اور  مہابھارت میں پرانی لوک کہانیاں شامل ہیں جو جگہ جگہ موضوعات میں چمک دمک پیدا کرتی ہیں۔

آئیے اپنے ملک کے ایک دور دراز علاقے سنتھال پرگنہ کی ایک لوک کہانی سناتے ہیں جو اپنی معنی خیزی لیے توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ ہم نے پچھلے صفحات میں دیکھا ہے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں تخلیق کے تعلق سے ایک سے زیادہ کہانیاں موجود ہیں۔ تخلیقِ کائنات، دنیا کی تخلیق، زندگی کی تخلیق، انسان اور  اشیا و عناصر کی تخلیق، یونان، روم، مصر چین، ہندوستان ایسے ممالک ہیں کہ جہاں اجتماعی احساس اور  اجتماعی فکر نے ’تخلیق‘ کو بہت اہمیت دی ہے۔ کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی، دنیا کس طرح بنی، انسان کب اور کیسے وجود میں آیا، اشیا و عناصر کی تخلیق کیونکر ہوئی، کہانیوں کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سنتھال پرگنہ (جھارکھنڈ) کی یہ لوک کہانی اس طرح ہے (موضوع ’تخلیق‘ ہے):

’ابتداء میں ہر جانب صرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا ’ٹھا کر جیو‘ (خالق) نے سب سے پہلے مگرمچھ، کیکڑے، مچھلیاں اور  چھوٹے بڑے آبی جانور پیدا کیے اور  انہیں پانی میں ڈال دیا، اس کے بعد پرندوں کا ایک جوڑا بنایا جو اس کے کلیجے کے اندر سے نکلے پھراس جوڑے کو زندہ کر دیا، اس کے بعد حکم دیا کیکڑوں کو، مگرمچھوں کو، مچھلیوں اور  تمام چھوٹے بڑے آبی جانوروں کو کہ وہ پانی کے اندر سے زمین کو باہر نکالیں۔ ان سب نے مل کر زمین کو اوپر کیا اس کے بعد ٹھاکر جیو نے پہاڑ پیدا کیے، پھر زمین میں بیج ڈالے، گھاس لگائی، درخت اُگائے، پرندوں کو غذا ملی اور  وہ چہچہانے لگے، ان پرندوں نے اپنا گھونسلہ بنایا، مادہ پرندے نے دو انڈے دیے، ان سے ایک لڑکے اور ایک لڑکی نے جنم لیا، انہوں نے کھیتوں سے دانے کھائے، دونوں اس وقت تک ننگے رہے جب تک کہ ٹھاکر جیو نے انہیں لباس کا احساس نہ بخشا، دونوں نے پتوں سے اپنا ننگا پن دور کیا، دونوں بڑے ہوئے اور  سات اولادیں ہوئیں پھر تعداد بڑھتی گئی، اس کے بعد ٹھاکر جیو کو ایسا لگا جیسے انسان گمراہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے انہیں پہاڑوں اور  غاروں کے اندر جگہیں دیں، پھر آگ کی بارش کی، سب آگ کی اس بارش میں نہائے۔ اس کے بعد افزائش نسل کا سلسلہ اور  تیز ہو گیا۔ ٹھاکر جیو نے آبادی کو تقسیم کر کے مختلف علاقوں میں آباد کر دیا اور  وہ آج وہیں ان علاقوں میں آباد ہیں۔

ایسی لوک کہانیوں میں پانی، مٹی، ہوا اور  آگ کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ دنیا، انسان اور  اشیا و عناصر کی تخلیق میں ان کا ذکر کم و بیش ہر جگہ ہے۔ دھرتی، بیج، اناج، جنس، رحم مادر، موسم اور  موسم کی تبدیلی وغیرہ کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔اکثر لوک کہانیوں میں مادی زندگی سے آگے بڑھ کر روحانی زندگی کی جہتوں کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم نے یونانی اساطیر میں ایسے کئی قصے پچھلے صفحات میں پڑھے ہیں کہ جن میں لہو کے قطروں سے گلِ لالہ اور  دوسرے کئی سُرخ پھولوں نے جنم لیا ہے اور  آنسوؤں کے قطروں سے سفید پھولوں کی بہار آ گئی ہے۔ہندوستان میں ایسی لوک کہانیاں بھی ملتی ہیں کہ جن میں انسان کا جسم نغموں اور آہنگ کا مرکز ہے، اس کی ہڈیوں سے سریلے نغمے نکلنے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک سنتھال لوک کہانی توجہ طلب ہے کہ جس میں اساطیر کا جوہر صاف دکھائی دے رہا ہے۔

ایک ضعیف جوڑے کے سات بیٹے تھے اور  ایک بیٹی تھی، ایک روز ایسا ہوا کہ لڑکی کی انگلی زخمی ہو گئی، جو سبزی کاٹ رہی تھی اس میں انگلی سے ٹپکتا لہو جذب ہو گیا۔ سات بھائیوں نے سبزی کھائی تو بڑی لذت ملی، وہ سوچنے لگے کہ میری بہن کے لہو کے چند قطروں سے سبزی اتنی لذیذ ہو گئی ہے تو یقیناً اس کے گوشت میں بھی بڑی لذت ہو گی۔ ان بھائیوں نے یہ سوچ کر اپنی بہن کو قتل کر دیا۔ گوشت نکال کر ہڈیاں لے کر ایک تالاب کے پاس آئے۔ ایک مچھلی تالاب سے اوپر آئی کہا، ان ہڈیوں کو تالاب کنارے دفن کر دو وہاں جہاں چونٹیاں رینگ رہی ہیں، بھائیوں نے مچھلی کی بات مان لی اور  اپنی بہن کی ہڈیاں کو چیونٹیوں کے پاس تالاب کے کنارے دفن کر دیا۔ ابھی زیادہ دن گزرے نہ تھے کہ وہاں کہ جہاں ہڈیاں دفن تھیں ایک انتہائی خوبصورت پودا نکل آیا کہ جس میں نفیس، پُرکشش پھول آ گئے، پودا بڑھتے بڑھتے درخت ہو گیا اور  پھلوں سے جھک گیا پھر ایسا ہوا درخت سے ایک انتہائی خوشگوار موسیقی سنائی دینے لگی۔ ایک بھائی نے درخت کی ایک چھوٹی سی ڈالی کاٹ لی اور  اس سے بنسری بنالی، بنسری منہ پر رکھتے ہی سریلی آواز نکلنے لگی۔ بجائے بغیر صرف ہونٹوں پر رکھنے سے اتنی دلفریب آواز سن کر علاقے کے تمام لوگ دیوانے سے ہو گئے، لگے رقص کرنے۔

اور پھر اس کے بعد اس درخت کی ڈالیوں سے بنسریاں بننے لگیں !

انسان غور نہیں کرتا اس کا وجود نغموں سے بھرا ہوا ہے، اس کا جسم گنگناتا رہتا ہے۔ اس کی ہڈیوں سے انتہائی لطیف آہنگ پھوٹتا رہتا ہے۔

ٹھاکر جیو(خالق کائنات) نے انسان میں کائناتی آہنگ (Cosmic Rythm) کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ مرتب کر دیا ہے۔ ذرا سنتے رہیے اپنے وجود کے آہنگ کودیکھئے پوری کائنات میں کیسی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں !

ہندوستان میں آریا، یونانی، ہون، عرب، ترک، ایرانی، منگولی، افغانی سب آئے، جنگیں بھی ہوئیں اور  محبتوں کے رشتے بھی قائم ہوئے۔ صدیوں میں تمدنی اور  تہذیبی آمیزشوں کی تاریخ پھیلی ہوئی ہے۔ زبانیں متاثر ہوئیں، مذاہب اور  تمدنی اقدار متاثر ہوئے، زندگی کو دیکھنے کا زاویہ نگاہ بھی تبدیل ہوتا رہا، قصوں کہانیوں پر گہرے اثرات ہوئے، لوک کہانیوں میں نئے موضوعات شامل ہوتے گئے، ایک قوم کی کہانیاں دوسری قوم کی کہانیوں پر اثر انداز ہوئیں۔ لوک کہانیوں کے موضوعات میں جہاں فوق الفطری پیکروں، پریوں، روحوں، عفریتوں، دیوؤں اور  دیوی دیوتاؤں کے کردار موجود رہے وہاں پرندوں، جانوروں اور  سانپوں کے کردار بھی متحرک رہے۔ جنگل و جدل، جادو ٹونا، شاہی خاندانوں میں سازشیں اور  بادشاہوں کے خلاف سازشیں گاؤں کی زندگی، چور، ڈاکو، لٹیرے، مذہبی پیشوا، صوفیوں اور  سادھو مہاتماؤں کی عظمت لوک قصوں کہانیوں میں یہ موضوعات بھی شامل رہے۔ مذہبی اور  روحانی تجربوں سے نئے تجربوں تک عوامی ذہن نے سفر کیا اور  عام سمجھ بوجھ کی کہانیاں سامنے آئیں۔

مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر کہانیاں سنانے کی روایت بہت ہی قدیم ہے۔رامائن اور  مہابھارت کی کہانیاں بھی اسی طرح سنائی جاتی تھیں۔ پرانے لوک کہانیاں سنانے والوں کو کتھا کار کہاجاتا تھا۔ کہانیاں سنانے والے تنہا بھی ہوتے اور  کئی لوگوں کے ساتھ بھی۔ کہانیاں سنانے کے لیے شاعری، ڈراما، رقص موسیقی سب کا سہارا لیا جاتا، ’پنچ تنتر‘ کی کہانیاں پیش ہوئیں تو کردار اکثر خود جانوروں کا روپ دھار لیتے۔ آج بھی گاؤں دیہات میں گیتوں کے سہارے کہانیاں سنا کر بھیک دکشنا لینے والے نظر آتے ہیں۔

اس بات میں یقیناً بڑی صداقت ہے کہ جو شخص ’مِتھ‘ اور  لوک کہانیوں کے بغیر رہتا ہے وہ بے جڑ کا پودا ہے۔ اس کی جڑیں مضبوط اور  گہرائیوں میں اتری ہوئی نہیں ہیں۔ اجتماعی ذات (Collective Self)سے رشتہ رکھے بغیر بھلا کون سچائی یا حقیقت کو بخوبی جان سکتا ہے۔ اجتماعی اور  نسلی شعور ہی سے حقیقت کی معنویت میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ اپنے وجود کی سچائی کا علم ہوتا ہے۔

’ذہن اور  ’ذہنی عمل‘ کی جگہ یونگ نے ’سائیکی‘ اور  ’سائیکک‘ (Psychic) کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں اس لیے کہ ’ذہن اور  ’ذہنی عمل‘ دونوں شعور (Consciousnes) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’سائیکی‘ اور  ’سائیکک‘ کا شعور اور  لاشعور دونوں سے تعلق ہے۔ یونگ کا خیال ہے کہ شعوری ذہن ’لاشعوری سائیکی‘ سے ابھرتا ہے۔ اور  اجتماعی یا نسلی لاشعور (Collective Unconsciousness) ذات کے شعور سے کہیں زیادہ گہرائیوں میں ہے۔ ’آرچ ٹائپس‘ (Archetypes) اجتماعی لاشعور میں جذب ہیں، جو مختلف علامتوں اور  پیکروں میں ظاہر ہوتے ہیں اور  جو بہت قدیم ہیں۔ ’مِتھ‘ اور  اساطیر کے گہرے مطالعے سے یونگ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ انسانی فطرت کے بنیادی اظہار کے ذرائع ہیں۔

یونگ نے ’سائیکی‘ کو پیچیدہ، مرکب اور  الجھا ہوا (Complex) کہا ہے۔ یہ نفسیاتی الجھنوں کا گہوارہ ہے۔ جس طرح انسان کا جسم مختلف حصوں سے جڑا ہوا ہے، ہاتھ پاؤں، گردن، دھڑ وغیرہ اسی طرح ’سائیکی‘ کے بھی لاشعوری حصے میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم ’سائیکی‘ کی بھی ایک مرکب الجھی ہوئی زندگی بسر کرتے ہیں۔ لاشعور کے دو واضح حلقے میں ایک حصہ ’ذات‘ کا ہے اور  دوسرا ’نسل‘ کا۔ ذاتی لاشعور میں آرچ ٹائپس‘ (Archetypes) ہوتے ہیں۔ ’سائیکی‘ کا داخلی ماحول لاشعور کا ماحول ہے جو شعور کے ماحول سے قطعی مختلف ہے۔ ’ذات‘ کے حصے کے پس منظر میں نسلی لاشعور ہے کہ جس میں ’آرچ ٹائپس‘ ہیں۔

’آرچ ٹائپ‘ جو ایک نفسیاتی اصطلاح ہے اس کی بنیاد یونانی لفظ ’آرچ‘ (Arche)ہے۔ ’آرچ‘ کے لغوی معنی ہیں ’خالص، بنیادی، اولین، قدیم ترین، قدیمی! ’ٹائپ ٹائپوس (Typos) ہے یعنی ’صورت‘، ’فارم‘ اصطلاحی معنی ہیں۔ بنیادی صورت، اولین، قدیم ترین یا خالص فارم، یونگ نے ’آرچ ٹائپ‘ (آر کی ٹائپ) کی اصطلاحی ’نسلی اور  اجتماعی لاشعور‘ (Collective Unconsciousness) کے مواد، مضمون یا مافیہ کے لیے استعمال کیا اور  اس کے بعد یہ اصطلاح ادبی اور  فنی تنقید میں استعمال ہونے لگی، رفتہ رفتہ یہ ایسی جمالیاتی اصطلاح بن گئی جو تخلیقی فنکار کے اجتماعی یا نسلی لاشعورکے اولین قدیمی اور  بنیادی جمالیاتی علامتوں اور  استعاروں اور نسلی تجربوں کو سمجھانے لگی۔ یونگ سے قبل بھی ’آر کی ٹائپ‘ کی اصطلاح کے استعمال ہونے کی خبر ملتی ہے۔ فیلو جوڈیوز (Philo Judeaus) نے انسان کے ذہن میں خدا کے پیکر (God Image) کو سمجھانے کے لیے اس اصطلاح کو استعمال کیا تھا، اس طرح آئرنیوس (Irenaeus) نے اس اصطلاح کو اپنی ذات یا اپنے وجود کے اندر سے خلق نہیں کیں بلکہ اس کے وجود کے باہر جو ’آر کی ٹائپس‘ تھے ان کی نقل کی ہے‘‘ ۔ قدیم یونانی مفکروں نے خالقِ کائنات کو نور اور  روشنی ’آر کی ٹائپ‘ کہا تھا اور  خیال، تصور یا ’آئیڈیا‘ میں اُلوہی خصوصیات کو پانے کی کوشش کی تھی۔

’آرچ ٹائپ‘ اولین، بنیادی، قدیمی، یا خالص تصورات کا سرچشمہ ہے۔ تخلیقی فنکاروں کی حسی اور  نفسی کیفیتوں کی شدت سے ’آرچ ٹائپس‘ میں تحرک پیدا ہوتا ہے اور  بنیادی اور  قدیمی علامات اپنی تہہ داری اور  معنی خیز جہتوں کے ساتھ نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ خود فنکار ان کے مسلسل عمل اور  اظہار کی پہچان بن سکتا یا پہچان نہیں پاتا۔ نسلی یا اجتماعی لاشعور سے بعض ایسی بنیادی صورتیں اور  تصویریں سامنے آ جاتی ہیں جواپنی معنویت کو لیے ہوئے فنکار کے تجربوں کی معنویت میں وسعت، گہرائی، کشادگی پیدا کر دیتی ہیں، تخلیقی فنکار کے اپنے تجربے اور  پیکر ’آرچ ٹائپس‘ کی شدت کے وسیلے سے روشن اور  معنی خیز بن جاتے ہیں۔ تخلیق کا پُر اسرار عمل ہی ’آرچ ٹائپس‘ کے سرچشمے سے باطنی رشتہ قائم کر کے انہیں متحرک کرتا ہے۔ بنیادی معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر فنکار کے تخلیقی عمل کا ہے۔ پہلی جہت کی شاعری اور  دوسری جہت کی شاعری کا تحرک ’آرچ ٹائپس‘ کو متحرک نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف بڑے تخلیقی فنکاروں کی تخلیقات میں ’آرچ ٹائپس‘ کا مطالعہ ادبی تنقید میں اہمیت رکھتا ہے، اس لیے کہ بڑی تخلیق ایک انتہائی پُر اسرار تخلیقی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے، نیز دوسری جہت سے اور  آگے بڑھ کر تیسری اور  چوتھی جہت تک پہنچ جاتی ہے۔ پہلی اور  دوسری جہت تک پہنچنے والے ادیبوں اور  شاعروں کی تخلیقات میں بعض لفظوں یا بعض علامتوں یا استعاروں کے بار بار استعمال سے اکثر یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ ’آرچ ٹائپس‘ ہیں یا ’آرچ ٹائپس‘ کے تحرک کا نتیجہ ہیں۔ ادبی تنقید میں تخلیقی فنکار کی شخصیت اور  اس کے ذہن کی حیثیت غیر معمولی ہے، شخصیت اور  ذہن کا بہترمطالعہ کیا جائے تو ’سائیکی‘ کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی، ’آرچ ٹائپس‘، ’سائیکی‘ ہی میں موجود  ہوتے ہیں، نفسیات کے علما نے اسے اہمیت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سائیکی‘، ’مدر لکوڈ‘ (Mother Liquid) ہے، پچھلی نسلوں، قوموں اور  قبیلوں کے بنیادی تجربوں کا سفر جاری رہتا ہے اور  انسان کے نسلی لاشعورمیں یہ تجربے موجود رہتے ہیں۔ تخلیقی فنکار کی ’سائیکی‘ میں جب شدت پیدا ہوتی ہے تو ان تجربوں سے ایک انتہائی پُر اسرار معنوی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ ’آرچ ٹائپس‘ کا اظہار عموماً استعاروں اور  علامتوں میں ہوتا ہے۔ دیومالا اور  قدیم ترین قصوں کہانیوں کے کردار اور  حسّی تصورات نے تجربوں کی معنویت میں ابھرتے ہیں، صرف ایک ’امیج‘ یاپیکر جانے کتنی سچائیوں کا مظہر اور  علامیہ بن جاتا ہے۔ انسان کی پچھلی نسلوں، قوموں اور  قبیلوں میں آگ، روشنی، سانپ، عورت، مرد، آفتاب، آسمان، رات، لہو، پانی، جادو وغیرہ جو اہمیت رکھتے ہیں ہمیں اس کا علم ہے۔ یہ سب اور  ان کے علاوہ جانے اور  کتنے کا رشتہ ان سے قائم ہوتا ہے اور  ان کی معنی خیزی نئے تجربوں میں جہتیں پیدا کرتے ہوئے جانے کتنے جلوؤں کو کھینچ لیتی ہے، ان کے تعلق سے جانے کتنے جلوے سامنے آ جاتے ہیں۔ جمالیاتی ’آرچ ٹائپس‘ کی پہچان اسی منزل پر ہوتی ہے کہ جہاں کوئی بڑا فنکار ’سائیکی‘ سے گہرا معنی خیز باطنی رشتہ کر کے (جو عموماً لاشعوری ہوتا ہے) اپنی انفرادی اسطوری کیفیتوں اور نقوش کی تخلیق کر دیتا ہے۔ ا ردو بوطیقا میں غالبؔ اس کی سب سے بڑی مثال ہیں کہ جنہوں نے آتش، نور، خدا، محبوب، لہو، پرچھائیں وغیرہ سے ایک انفرادی اساطیر کی جمالیات سامنے رکھ دی ہے۔ دنیا کے کسی بھی ادب کی تاریخ سامنے رکھ لیجئے اور  کسی بھی ادب کی عمدہ تخلیقات کا مطالعہ کیجئے ایک سچائی بار بار ابھرے گی کہ کسی بھی بڑے تخلیقی فنکار کے فن میں تجربہ اور  ’مِتھ‘ کا رشتہ حد درجہ گہرا ہے اور  ’مِتھ‘ کے گہرے رشتے کی وجہ سے فن میں تابناکی اور  معنی خیزی پیدا ہوئی ہے اور  کبھی کبھی اس حد تک کہ خود فنکار کی تخلیق ایک اعلیٰ ’مِتھ‘ کا جمالیاتی نمونہ بن کر لیجنڈ بن گئی ہے۔شیکسپیئرؔ، غالبؔ، گوئٹےؔ، حافظ، رومیؔ، کبیرؔ اور  اقبالؔ سب مِتھ سے ایک پُر اسرار ذہنی رشتہ رکھتے ہیں۔ ’آرچ ٹائپس‘ میں مِتھ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ ’مِتھ‘ سے ذہنی اور  جذباتی رشتہ اور  اس رشتے کی جمالیاتی صورتیں ’آرچ ٹائپس‘ کی قدر وقیمت اور  اہمیت کو اور  بڑھادیتی ہیں، اس لیے کہ حقیقت نگاری اور  فطرت نگاری کی ایک نئی جہت توجہ طلب بن جاتی ہے۔

’سائیکی‘ کے ’آرچ ٹائپس‘ کی کئی جہتیں نمایاں ہوتی رہتی ہیں۔ سب سے اہم اور  معنی خیز جہت علامتوں کی ہے، جو اکثر تخلیقی فنکاروں کے ذاتی ’مِتھ‘ کو نمایاں کرتی ہے اور  نفسی سطح پر ایک آہنگ بخشتی ہے، جس سے فنکار کے تخلیقی ذہن تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔

یونگ نے چند اہم ’آرچ ٹائپس‘ کا ذکر کیا ہے ان میں ’مدر آرچ ٹائپ‘ (Mother Archetype)، شیڈو (پرچھائیں ) (The Shadow)’ضعیف دانش مند‘ (Wise Old Man)، منڈل (Mandala) ’ذات‘ (The Self) وغیرہ معنی خیز سرگوشیاں کرتے ہیں۔

اردو کے جن تخلیقی فنکاروں کے تخلیقی وژن میں ’سائیکی‘ کی لہروں اور  سائیکو اساطیر (Psycho-mythology) کی چمک دمک کی زیادہ پہچان ہوتی ہے ان میں کبیرؔ، میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، فراقؔ اور  اختر الایمانؔ وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

٭٭٭

قلی قطب شاہ کی جمالیات

’عورت‘ اور  اس کا جمال محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی جمالیات کا مرکز ہے، ایک بڑے حسن پسند اور حسن پرست اور ایک حیرت انگیز رومانی ذہن کے اس شاعر نے عورت اور  اس کے جمال کو جیسے اپنے وجود میں جذب کر لیا تھا۔ اس کے کلام میں رنگ و نور، نغمہ و آہنگ اور  خوشبوؤں کی جو دنیا ملتی ہے وہ اسی جذبی کیفیت کی دین ہے۔ شاعری کی حسن پسند نے ماحول کے تمام حسن کو سمیٹ لیا ہے، عورت کا وجود ایک نغمہ ہے، یہ غیر معمولی شعور ہے، اس کی وجہ سے اردو ادب کو راگ راگنیوں کی خوبصورت متحرک تصویریں حاصل ہوئی ہیں۔ مثلاً داؤد راگ (لحنِ داؤد)، رام کیسری (رام کلی راگ)، سری راگ، دھنا سری، کماچ (ایک راگنی)، کنرا (ایک راگ) ملہار (راگنی)، سات سروں (سبد سات) میں عورت مختلف راگوں (راگاں ) کے درمیان ابھرتی ہے۔ یہ سب سر اس کے وجود کے نغمے کی جہتیں بن جاتے ہیں۔ عورت ہی کے مرکز سے زندگی کے خوبصورت جشن کا آغاز ہوتا ہے اور  شاعری جشنِ زندگی کا پہلا بڑا فنکار بن کر سامنے آتا ہے۔ زندگی کا جشن مناتے ہوئے مسرتوں اور  لذتوں کی ایک خوبصورت دنیا خلق ہو جاتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ ’سیکس‘ اور  شیرینگار رَس کے پہلے بڑے شاعر ہیں، جنسی تجربوں کی لذتوں اور  خاص لمحوں کی شیرینی اور مٹھاس کے ایسے نمونے اردو شاعری میں موجود نہ تھے۔ پہلی بار ایسے تجربے سامنے آئے ہیں :

چنچل کا مکھ چھبیلا ہے ادھر امرت رسیلا ہے

یا

قطب شہ کوں کھلاتیاں ہیں سہیلیاں رنگ بھرا میوا

عورتوں کے تعلق سے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ اپنی خاص مٹھاس اور  شیرینی لیے ہوئے ہیں۔ ’سیکس‘ کی لذتوں کو لیے ہوئے یہ الفاظ اپنی مثال آپ ہیں، مثلاً:

دھن (عورت، محبوبہ) ساجنا، سجن، سجائی، سودھن (خوبصورت عورت) لالن، لالہ (محبوب) گوریاں، للات (پیارا) للن، للنا (محبوب) موہناں، مہن(محبوب) موہنیاں، استری، پدمتی، پیو، پیا، پیبو (محبوب) آرسے (اروقتی) انکھیاں، انگ (جسم، بدن) بالاں (بال) باہاں (باہیں ) بھنواں (بھنویں ) ٹھڈی (تھاڑی) ادھراں (ادھر کی جمع-ہنوٹ) لباں (لب کی جمع) مرگ نینی (غزال آنکھیں ) کچ(پستان) کچلے (سر پستان) گیسواں (گیسوکی جمع) گالاں (گال) مکن (چہرہ) کنچکی (انگیا) کنجک (چولی) کجل (کاجل) کسنان (چولی) رپے (روپ) دھڑی (مسّی کی تہہ) سرخاں (سرخ رنگ والیاں ) سرنگ (خوش رنگ) سنبھوگ (جنسی عمل) شوانی (شہوانی) کاجلا (کاجل) لٹاپٹ (ہم آغوشی) لذتاں (لذتیں ) گدگمیاں (گدگدیاں ) لیلاٹ (خوشی) النکار (حسن) باس (خوشبو) بوسیاں (بوسے) بھیٹن (سرپستان) پیم، پم، پیرم، پرم (محبت)

یہ رس بھرے الفاظ شاعر کے جمالیاتی تجربوں کے آئینے بن گئے ہیں۔ حسّی، نفسی، جنسی جمالیاتی تجربوں نے ان لفظوں اور  ان لفظوں کے اشاروں سے تغزل کا ایک پرکشش معیار قائم کر دیا ہے۔ انبساط اور  مسرت اور  Joy and Passion کی ایسی تصویریں اردو کی بوطیقا کے ابتدائی عنوانات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان تجربوں میں مختلف تحرک اور آہنگ کی کیفیتوں میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ احساسِ حسن گہرا ہے، حسن کی کئی جہتوں پر شاعر کی نظر ہے۔ یہ جہتیں جمالیاتی وحدت قائم کر دیتی ہیں اور ہمیں جمالیاتی انبساط (Aesthetic Pleasure) حاصل ہوتا ہے:

بھواں آبرو میں مادے برد باندے

عشق کے راگ تاں میں بھید باندے

ترے کیس میں کنول ہور سور آوے

کمان بھنواں میں کاجل ساج ساندے

چولی تنگ انگ میں نت نارنگ پنجھی

نین سوکاں سوں موچِت نت پھاندے

٭

پھل گلالاں ایسے گالاں تھے ہوا بلبل مست

رنگیلا جام لے اپ ہت منج کسّی محبوب

٭

دو نین ابرو تلیں ہیں نار کیرے خواب میں

دو مست شوخی سوں سہتے مسجد کیرے محراب میں

بت خانہ نین تیرے ہوریت نین کیاں پتلیاں

مج نین میں پوجاری پوجا اردھان ہمارا

اس پتلیاں کی صورت کی خواب میں جو دیکھے

رشک آئے مج کرے مت کوئی سجدہ اس دورا

تمن مکھ میں خدا کا نور مج نیناں بھریا دیکھے

کنن صورت تمن سر بھر نہ ہمرا ہی کرن سکتا

مکھ میں بنفشہ رنگ تلا کا نور میں تو پائیا

جیوں سیام رنگ چندا سو مل سب جگ پہ چندنا چھائیا

تری تھوڑی کے جل منے سو جیو کا جیون ہے

    زندگی کی روح

او چشمہ منے مین نمن جیو کیا ٹھارا

  میں

داکھ کا ہنگام ہے ساقی پلامے جیوں گلاب

ہے تھڈی پانی تیرا سر چشمۂ  آبِ حیات

تمارا حسن میرے دو نین میں نقش باندیا ہے

  آنکھوں  باندھ دیا

جے کوئی دیکھیں تمن کوں کج ہوویں ان کے نہالاں کچ

 جو   تم کو    کچھ

٭

سینے کے باغ میں تیرے بہشتی میوے چنتا ہوں

کہ تازے میوے کے انگے سو کے سو میوے ہے سب تچ

تمہارا حسن دیکھیا جب ہوا ہوں جیوں جمشید

              نظر آیا

تمہارے ذکر تھے پایا ہوں عمر میں جیوں نوح

تھڈی کے خم تھے پلاؤ ہمیں کوں لعل مد

چاہ زغن  سے   ہم کو

ہمارے ہونٹ ہوئے تم کو بے چومن مجروح

                           نہ چومنے سے

ہونٹاں کے بود سے تھے پایا جیاں روح

ہونٹاں کے ناد میانے ہے دوا روح

                        مانند درمیان

اس چومن تھے موچو من دور خدایا نہ کریں

کہ حیات آب و لب ہے مرا دل اس پہ کشید

سجن کے ہونٹ امرت کا لذت یک دس چاکے تھے

                                    ون چکھنے سے

سود و لذت کوں اجنوں لک کیا ہے منج رسن تعویذ

وہ   کو اب تک  میری زبان

 

ادھر تیرے کا عکس پیالے میں جھمکے

عجب ہے کہ دستا ہے پانی میں آتش

ترے دو زلف ہیں سحراں میں ماہر

ترے دو لعل ہیں خونخوار اوباش

انکھیاں پتلیاں و پلکاں ہور بھوّاں

اہے یک ٹھار میں دو چار اوباش

٭

 

محمد قلی قطب شاہ کی جنسی حسیت (Sex Sensibility) بہت بیدار اور  متحرک ہے، بھرت نے جن اکتالیس ’بھوؤں ‘ (Bhavas) کا ذکر کیا ہے ان میں ’رتی بھو‘ (Rati Bhava) کو بھی بہت اہمیت دی ہے۔ ’رتی بھو‘ جنسی محبت کا شدید جذبہ ہے۔ شاعر کے کلام میں جو شرینگار رَس ہے وہ اسی جذبے کی دین ہے۔ چہرے کے ذکر کے ساتھ زلف، بھوں، ابرو، نین، گال، تھڈی اور ہونٹ کی خوبصورتی اور  لذتوں کا ذکر ملتا ہے۔ ہونٹ اور  تھڈی کے ذکر کے ساتھ ہی سرچشمۂ  آبِ حیات کی یاد آ جاتی ہے اور  شاعر اس کی لذت حاصل کرنے لگتا ہے۔ جنسی حسیت کی بیداری کی وجہ سے محبوب کی ایسی تصویریں سامنے آتی ہیں کہ جن میں گلاب کی مانند گال، محراب اور  کمان کی طرح بھنویں، بنفشی رنگ کے چہرے، رس بھرے ہونٹ، کسی ہوئی تنگ چولی  سب توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ گلاب کی طرح گال دیکھ کر بلبل بھی مست ہے، آنکھوں کی پتلیاں دیکھ کر عاشق یہ محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی بت خانے میں کھڑا ہے، تنگ چولی پر نظر جاتی، لگتا ہے چولی کے اندر دو پرندے بند ہیں، محبوب کے چہرے کا عکس اگر پیالے میں جھلکے تو پانی میں آگ لگ جائے، ہونٹوں کے رَسوں سے روح تازہ دم ہو جائے۔

رومانیت اپنے رنگوں اور  تیور کے اظہار کے لیے آزادی چاہتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے پابند غزلوں کے اندر بھی اپنی رومانیت کے بیباکانہ اظہار کے لیے آزاد فضا کی تخلیق کی ہے لیکن رومانیت کو سب سے زیادہ آزادی جشنِ زندگی مناتے ہوئے ملی ہے۔ بسنت، شب برات اور  برسات جیسی نظموں میں رومانیت جیسے اپنی سچی آزادی کے ساتھ ظاہر ہوئی ہو، ایسا احساس ملتا ہے، مثلاً:

بسنت کا پھول کھلیا ہے سو جیو یاقوت رُمانی

کرومل کر سہیلیاں سب بسنت کے تائیں مہمانی

 

بسنت کا رُت بجھایا ہے براہ اگ کوں خوشیاں سیتی

نویلیاں مل کرو مجلس نویلا آج شاہانی

                           نئی

 

سکل جھاڑاں کوں لاگے ہیں جواہر کے نمن پھولاں

سب          لگے       مانند

سو پھولاں سو کرے تل تل پیا پر گوہر افشانی

 

بسنت پھولاں کا شبنم مے سو بھر ساقی صحراحی میں

جوں اس مد تھے مدن چڑکر ہمن رنگ ہوئے نورانی

              سے

 

جو گرجے مست ہو بادل صرحای نت کرے غلغل

پیو پیالا  او غلغل تا دسوں ہے میگھ نیسانی

            وہ

 

پلا ساقی سراسرے کہ تا ہوئے کشف ہمنا کوں

کہ اس مے تھے دیسے منج کوں سدا سب راز پنہائی

   سے دکھائی دے مجھے

عنبر ہور عود و مشک و زعفراں کا روت آیا ہے

اَسی تھے باس انو کا جگ میں کرتا ہے گلستانی

 لیے        آن

 

نچھل پھل کے عرق میا نے کلاؤ تم کدم چھند سوں

              میں

ولے فتنۂ  عرق سب باس میں کرتا ہے سلطانی

 

بندھاؤ حوض خانے چاند و سورج کے سہیلیاں مل

بھر اُو نیر امرت کا کہ کھیلیں رنگ افشانی

 

بسنت پھل کا حمایل پہن کر آئی انگن میں دھن

                                     عورت

سو پھل سنگار کے نقشاں منے حیراں ہے نانی

پھولوں کے                          میں

 

بسنت کا جشن غیر معمولی نوعیت کا ہے، رومانی ذہن بسنت کے رنگوں اور  حسن میں جذب ہے، مست اور آزاد ہے، بسنت کا پھول یاقوت رمانی کی مانند کھلا ہے۔ اس پھول کا جلوہ اور  اس کی خوشبو اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اس کا استقبال کرو، اے سہیلیوں سب مل کر بسنت کو اپنا مہمان بنا لو۔ بسنت کی رُت سے ہر جانب مسرتیں بکھر گئی ہیں۔ فراق کی آگ بجھ گئی ہے، لہٰذا اس کے لیے ایک نئی مجلس شاہانہ ترتیب دو، دیکھو بسنت کے آتے ہی تمام درخت اپنے پھولوں کی چمک دمک اور  خوشبوؤں کو لیے دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔ لگ رہا ہے جیسے یہ پھول جواہرات کی طرح لدے ہوئے ہیں۔ تم اپنے پیا پر پھولوں کو موتیوں کی طرح نچھاور کرو۔ شاعر کے جمالیاتی احساس کی یہ جہت دیکھئے، کہتا ہے اسے ساقی بسنت کے پھولوں پر شبنم کے جو قطرے ہیں، انہیں شراب کی طرح صراحی میں ڈال دو تاکہ اس شراب کے پینے سے مجھ پر ایسی مستی طاری ہو جائے کہ چہرہ نورانی ہو جائے۔ اچانک شاعر کی نظر اس صراحی پر پڑتی ہے کہ جس سے شراب ڈھل رہی ہے۔ غلغل کی آواز سے لگتا ہے جیسے بادل بھی مست ہو کر گرج رہے ہیں۔ اس غلغل کی آواز کو ابرِ نیساں کی آواز سمجھ کر بس پیتے جاؤ، پیالہ پر پیالہ پیتے جاؤ۔

بسنت میں، شراب میں پھولوں کا رَس جیسے پراسرار طور پر شامل ہو جاتا ہو۔ ایک تو شراب کا نشہ اور  پھر بسنت کے خوبصورت پھولوں کا رس، اے ساقی یہ شراب مجھے پلاتا جا تاکہ میں پراسرار روحانی دنیا کا سفر کرنے لگوں۔ مجھ کو کشف ہونے لگے، ایسی شراب سے مخفی راز بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ جو بسنت رُت ہے دراصل عنبر، عود، مشک، زعفران کا رُت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب کی خوشبو جذب ہو کر دنیا کو گلستان میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ہم افشانی رنگ کھیلنا چاہتے ہیں لہٰذا تم سب مل کر چاند اور  سورج کے حوض خانوں کو آبِ حیات سے بھر دو۔ بسنت کے پھولوں کا ہار پہن کر مہ جبیں صحن میں نکل آئی ہے، جس کے پھولوں کے نقش و نگار کو دیکھ کر مانیؔ بھی حیرت زدہ ہے۔ سورج کی کرنوں کو پھولوں کی چھڑیاں بنا کر ہم ایک دوسرے کو مارتے ہیں، سہیلیوں کے ساتھ یہ کھیل اللہ کرے میں ہمیشہ کھیلتا رہوں۔

بسنت جشنِ زندگی کا ایک دلکش پہلو ہے، جمالیاتی تجربوں اور رومانیت کا بیباکانہ اظہار ہوا ہے، ایک بہت ہی آزاد فضا میں رومانیت کا اظہار ہوا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے جمالیاتی رومانی شعور نے بسنت کو زندگی کی بے پناہ مسرتوں اور  لذتوں کا سرچشمہ بنا دیا ہے۔ اشعار پڑھتے ہوئے جمالیاتی احساس اور  جمالیاتی استعارے متاثر کرتے ہیں، بسنت کے پھول یاقوت رمانی ہیں۔ بسنت رُت میں ہجر کا غم جاتا رہتا ہے۔ نئی نئی مسرتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ شاعر کے جمالیاتی وژن کی پہچان وہاں زیادہ ہوتی ہے جہاں وہ یہ کہتا ہے:

بسنت پھولاں کا شبنم مئے سو بھر ساقی صراحی میں

جو اس مد تھے مدن چڑ کر ہمن رنگ ہوئے نورانی

بسنت کے پھولوں پر شبنم کے جو قطرے گرے ہیں انہیں شراب کی صراحی میں ڈال دے، اس سے شراب کا نشہ اتنا بڑھ جائے گا کہ میرا وجود نور سے بھرجائے گا۔

شاعر غلغل کی آواز کو ابر نیساں کی آواز تصور کرتا ہے، ایسی شراب پینے سے زندگی کے رموز و اسرار کھلنے لگیں گے۔ شاعر کی جمالیات میں خوشبوؤں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں بھی عود، عنبر، مشک اور  زعفران کی خوشبو موجود ہے کہ جس سے دنیا گلستان بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح کلامِ مانیؔ میں رنگوں کی بھی ہے، یہاں بھی یاقوتِ رمانی، جشنِ زندگی کا ایک بہت بڑا جشن سمجھتے ہوئے اسے ہمیشہ منانا چاہتا ہے۔

بندھاؤ حوض خانے چاند و سورج کے سہیلیاں مل

بھر او نیر امرت کا کہ کھیلیں رنگ افشانی!

کلاسیکی شاعری میں جذبہ (Passion) اور  تخیل (Fancy) دونوں کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں بھی جذبے کی شدت اور  تخیل کی پرواز کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، بسنت کے موضوع پر ان کے شعری تجربے دونوں خصوصیتیں لیے آئے ہیں :

بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا

تمہیں ہیں چاند میں ہوں جوں ستارا

  تم

 

نچھل کندن کے تاراں انک جھونا

بندی ہوں چھند بندسوں کر سنگارا

 

بسنت کھیلیں ہمن ہور ساجنا یوں

                        ہم  اور ساجن

کہ اسماں رگ شفق پایا ہے سارا

شفق رنگ  جھینے میں تارے مگٹ جوں

سرج کرنا نمن زرتار تارا

 

پیا پگ پرملا کر لیائی پیاری

بسنت کھیلی ہوا رنگ رنگ سنگارا

 

جو بن کے حوض خانے رنگ مدن بھر

سو روما روم چرکیاں لائے دھارا

   رُواں رُواں

 

بھیگی چولی میں بھیٹن نس نشانی

عجب سورج میں ہے کیوں نس کوٹھارا

                                     رات

 

بسنت ونت جھد سو کندن گال اوپر

پھولایا آگ کیسر کی بہارا

٭

 

’عشق کی بسنت‘ کھیلنے کی آرزو ہے، محبوب چاند ہے عاشق تارا۔ ’عشق کی بسنت‘ کھیلنے کے لیے جسم کندن کی مانند بنا ہوا ہے، جس میں عجیب چمک دمک ہے۔ عاشق (عورت) کا بدن کندن کی طرح چمک تو رہا ہے سنگار نے اسے اور  بھی جاذبِ نظر بنا دیا ہے، جس طرح آسمان شفق کی وجہ سے رنگا رنگ دکھائی دیتا ہے، ہم اسی طرح ساجن کے ساتھ بسنت کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ سورج کی کرنوں کی طرح زر کے تاروں سے بنا ہوا لباس اسی طرح جھلک رہا ہے کہ جیسے شفق کے رنگ کے پیچھے سے تارے اپنی جھلکیاں دکھاتے ہیں۔ اپنی بسنت کو پیا کے قدموں سے مل کر آئی ہوں اس لیے بسنت کھیل کے رنگ رنگ کو سنگار حاصل ہو گیا ہے۔ جوبن کے حوض خانوں میں عشق کا رنگ بھر کر جسم کے روئیں روئیں میں بجلی سی دوڑ جاتی ہے۔ چولی رنگ سے بھیگ جاتی ہے، رنگ سے بھیگی چولی میں سے سر پستان رات کی نشانی بنی سیاہ دکھائی دیتی ہے اور  اسے دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ سورج کی مانند پستان کے درمیان شب کو کیسے جگہ مل گئی، جسم کا رنگ بسنتی ہے اور  گال کندن جیسے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ زعفران کی آگ کی بہار جوش میں آئی ہوئی ہے۔ قطب شاہ نے ایسی بسنت کھیلی ہے کہ تینوں عالم رنگ رنگ ہو گئے ہیں۔

بسنت پر ایسی پیاری خوبصورت نظمیں شاید ہی کسی نے کہی ہوں کہ جیسی محمد قلی قطب شاہ نے کہی ہیں۔ بسنت جشنِ زندگی کا استعارہ بن گئی ہے۔ ایسی نظموں میں غنائی شاعری کی لطافت اور  نغمگی ہے، نفسیاتی تخیل متاثر کرتا ہے، احساس اور  جذبے میں نفاست ہے، شعور اور  لاشعور کی کیفیتیں متاثر کرتی ہیں۔ شاعر کے جمالیاتی شعور کی پہچان مشاہدوں سے ہوتی ہے۔ دل کی باتوں میں سادگی اور  دل نشینی ہے۔

شاعر نے بسنت کو ’عشق کی بسنت‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ روشنی، رنگوں اور  عورت کے جسم کے اشاروں اور  استعاروں کی وجہ سے بڑی چمک دمک پیدا ہو گئی ہے۔ حسی اور  جذباتی تجربوں نے لفظوں اور  استعاروں کو منور کیا ہے۔ نفسی اور جذباتی تجربوں کی روشنی اور  حرارت اشعار میں روشنی اور  گرمی پیدا کرتی ہے۔ چھٹی اور  ساتویں صدی کے دو علمائے جمالیات ڈنڈی (Dandi) اور  بھامہ (Bhama) نے کہا تھا کہ اچھی شاعری میں جذبے کے مطابق ’شبد‘ (الفاظ) ہوں تو جذبات کے رنگوں کا ظاہر ہونا عین مظہری ہے۔ ڈنڈی نے عمدہ مرتب لفظوں کو کلام کا خوبصورت لباس نہیں بلکہ کلام کا خوبصورت جسم کہا ہے۔ جذبوں کے رنگوں کے مطابق لفظوں کی ترتیب کلام کی روح بن جاتی ہے۔ پھول، یاقوتِ رمانی، جواہر، شبنم، شراب، صراحی، نورانی رنگ، غلغل کی آواز، بادل کی مستی، عنبر، عود، مشک، زعفران اور ان کی خوشبو، چاند، سورج، افشانی رنگ، پھولوں کے نقش و نگار، سورج کی کرنیں وغیرہ نظم کی جمالیاتی سطح بلند کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسری نظم میں چاند، تارا، کندن جیسا جسم، سنگار، بسنت کا رنگ، آسمان شفق کا رنگ، زر کے تاروں سے بنا ہوا لباس، جوبن اور  اس کے حوض خانوں میں عشق کا رنگ، رنگ سے بھیگی چولی، س رپستان رات کی نشانی، کیسر کی آگ، تینوں عالم کی رنگینی ان سے ایک انتہائی دلکش، پرکشش فضا تشکیل ہوتی ہے۔ تمام ’شبد‘ جمالیاتی تجربوں کا جسم بن جاتے ہیں۔ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ یہ بسنت کی تصویر کشی نہیں ہے بلکہ احساس اور جذبے کے پیکروں کی تشکیل ہے۔ بسنت پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے:

پیارے بسنت کا ہوا آئیا

                                                آئی

سکیاں تن مشک زعفراں لائیا

                                                لائی

 

گلالی رنگا کے برن بہو جنس سوں

                           بہت طریقہ سے

چھبلیاں رنگیلیاں کے قد پر شہایا

 

نبیؐ صدقے اے قطب شہ اس بسنت میں

رتن میگھ برس عجائب دکھایا

  موتی کی بارش برس کر

٭

 

پپیہا گاؤتا ہے میٹھے بیناں

مدھر رس دے ادھر پھل کا پیالہ

                          ہونٹ  پھول جیسے

پیاری ہور پیا ہت میں سو ہت لے

 اور                   ہاتھ ہاتھ

سرو بن میں ہنڈ میں گل پھول مالا

 

کنٹھی کویل سَرسِ ناداں سناوے

                        نغمے

تنن تن تن تنن تن تن تلالا

 

گرج بادل تھے دا در گیت گاوے

              سے

کویل کوکے سو پھل بن کے خیالا

                        پھولیں

٭

پیاری کے مکھ میانے کھیلا بسنت

پھولاں حوض تھے چرکے چھڑکیا بسنت

 

بسنت باس چن چن کے چنری بند ہے

جوا بہر کے لہراں سوں آیا بسنت

 

جوبن حوض میں نورتن رنگ بھرے

بسنت راگ گاؤ سہایا بسنت

 

رنگا بند میانک بندے گلسری

گلے گل لڑاں سو دکھایا بسنت

 

نوی بالی کونلی کدم میں بھیجے

پرت پیالے بھر بھر پلایا بسنت

محبت

 

بسنت کی خماری نین میں بھری

ہنڈولے نین دل ڈلایا بسنت

 

اومنگاں سوں بسنت آیا نورانی

  امنگوں کے ساتھ

کریاں کسوت سکیاں سب آروسانی

  کرتی ہیں                                      عروسی

 

بسنت کے پھُل کھلے ہیں اب رنگیلے

             پھول

ہوا حیران دیکھ اس تائیں مانیؔ

                                      کو

گنتل کے جھولے سہتے ہیں او مکھ پر

                                     اس

کہ جو پھُل پر ڈلے بھونرا سوگیانی

            پھول

 

کوبک کویل بسنت کے راگ گائی

کہ پائی ہے اسے رت میں سک نشانی

               اس                    سکھ کی

٭

 

سبز سارے نورتن کسوٹ کیے ہیں رنگ رنگ

سرونیا میں سو شبنم کا سراپا بسنت

 

سارے پھولاں تئیں بسنت کا پھول مہمانی کیا

گل پیالہ ہو کے خدمت تائیں چت لایا بسنت

                          کے لیے

 

جوت مانک سوں بسنت کے گل کھلے عالم منے

                                                میں

پھل بست تھے سب فلک پر لال رنگ چھایا بسنت

 

سور کا رنج میں بسنت کا رنگ جھلکتا نورسوں

ہور چندر کے حوض میں چندن سو مہکایا بسنت

                         چاند

 

ترنیاں چڑکہ ترنگ نکلیاں بسنت کے ڈھنک سوں

پھول ہر اِک کھل کے اب باساں سیتیں گایا بسنت

 

سرتھے انچل ڈھال کر بھیج پر پلوکر یوں سٹے

 سے

بجلی چڑکے ہاتھ لے تھاڈی تو رنگ پایا بسنت

 

چرکیاں کے منبر بند تھے سب فلک پکڑیا ہے رنگ

             بوند سے

اس گہر ابراں کے رنگ تھے موتی برسایا بسنت

                         سے

 

موتیاں یاقوت گھر گھر یوں دھک انباراں پھرے

ہر گدا مسکیں خاقاں سم کا دکھلایا بسنت

                         برابر

 

شکر ایزد کر معانیؔ رات دن آنند سوں

تیرے مندر میں خوشیاں آنند سوں آیا بسنت

٭

 

خیالات کی دلآویزی متاثر کرتی ہے، رنگا رنگ تجربوں کی وجہ سے اشعار میں لطف کی کئی سطحیں پیدا ہو گئی ہیں کہ جن سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ خواب جیسے فکشن (Dream Fiction) میں لطف انبساط کی ایسی ہی تصویریں ابھرتی ہیں۔ شاعر کے صاف شفاف تخیل کی وجہ سے ایسے جمالیاتی تاثرات حاصل ہوئے ہیں۔ رَس بھرے لفظوں کے ذریعے رَس بھرے تجربوں تک پہنچتے ہیں۔

سلطان محمد قلی قطب شاہ کی رومانیت اپنی مکمل آزادی کا اظہار اس طرح کرتی ہے: بسنت کی ہوا آئی اور  سکھیوں کے تن مشک و زعفران کی خوشبو سے معطر ہو گئے۔ کوئلوں کے نغمے گونجنے لگے، موروں کی رسیلی آواز سے دِل متاثر ہونے لگا، طرح طرح کے گلابی لباس نظر آنے لگے، موتیوں کی بارش ہونے لگی، پپیہا کے رسیلے گیت گونجنے لگے، پھول جیسے ہونٹوں کے پیالوں سے شہد ملنے لگا، محبوب اور  عاشق سرو کے بن میں گلاب کے پھولوں کی مالا پہنے گھومنے لگے۔ کوئلوں کے نغموں سے لگا جیسے یہ آواز نکل رہی ہے تنن تن تن تنن تن تن! بسنت کی آنکھ سے آنکھوں کا چمن پھولوں اور  پھلوں سے معمور ہو گیا ہے۔ بسنت کی روشنی ایسی ہے کہ جس سے دنیا کے تمام پھول کھل گئے ہیں۔ آسمان پر لال رنگ چھایا ہوا ہے۔ سورج کی دھوپ میں بسنت کا رنگ ہی نور بنا ہوا ہے اور  چاند کے حوض میں بسنت نے چندن بھر دیا ہے کہ جس کی خوشبو ہر جانب بکھری ہوئی ہے۔ بسنت کی وجہ سے ہر گھر میں موتی اور  یاقوت بھر گئے ہیں۔ تمام جنگل آسمان کی مانند سبز ہو گئے ہیں، جن پر ستاروں کی طرح پھول کھل گئے ہیں :

رتن میگھ برسن عجائب دکھایا

 موتی کی بارش برس کر

محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات میں خوشبو (مشک و زعفران) سریلی نشیلی آوازیں (کوئل، پپیہا، مور) رنگ (گلابی، سبز، سرخ) چمکتی قیمتی اشیاء (موتی، یاقوت) روشنی (سورج، چاند، تارے (نغمے) اور  نغموں کی دھن (تنن تن تن تنن تن تن) جمالِ محبوب (روشنی  شیریں لب، ہونٹوں کے پیالوں میں شہد) کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ شاعر کے نفسیاتی تخیل اور  اس کے احساس اور جذبے کے حسن اور  نفاست کی پہچان ہوتی ہے۔ جذبہ مناسب لفظوں اور استعاروں میں مجسم ہو گیا ہے۔ خوشبو، آواز، رنگ اور  نغموں کے تعلق سے جو الفاظ سامنے ہیں وہ باطنی آہنگ لیے ہوئے ہیں۔ یہ جمالیاتی اشاروں کی صورتیں اختیار کر کے ذہن کو مفاہیم کی جمالیاتی جہتوں تک لے جاتے ہیں۔ الفاظ اور  استعارے اور  کلام کی غنائیت اور  نغمگی یہ سب قاری اور  فنکار کا رشتہ بن جاتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ اور  یہ استعارے حسن کے ارتعاشات کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔

جشنِ زندگی کے عاشق نے بسنت کے بعد ’شب برات‘ کو ہی خاص موضوع بنایا ہے۔ اس موضوع پر کم و بیش دس نظمیں ملتی ہیں، ان نظموں میں بھی شاعر کا جمالیاتی احساس گہرا ہے۔ اردو زبان کا پہلا رومانی شاعر روشنیوں کا عاشق ہے ’شب برات‘ چونکہ روشنیوں کا دلکش تہوار ہے اس لیے اس سے اس کی جذباتی وابستگی ہے:

خدا کے کرم سیتے شبرات آیا

                        شب برات

خوشیاں کا اجالا جگت میں دکھایا

 

براتاں لے کر آیا ساریاں میں خوش ہو

                         سب

خوشیاں عشرتاں سوں کہ جگ جگ جگایا

                         کے ساتھ دنیا جگ جگ کرنا

 

مندرجہ ذیل اشعار توجہ طلب ہیں :

خوشیاں عشرتاں ذوق دایم سونت نت

شہا کے مندر ٹمٹما ایاں بجایا

              درگاہ میں

 

جو شبرات ات جھلک سوں جگ میں آیا

تو سب جگ اس جھلک تھے جگ جگایا

                         سے

 

شرف شبرات تھے سب رات پائے

شرف سب رات تے شبرات پایا

گگن درپن نمن جھکمن لگیا ات

آسمان آئینہ کی مانند   روشن ہو گیا

رین روشنی سرج بن دن گنوایا

رات                 سورج بغیر

رین ظلمات میں جوں خضر کا نیر

  رات                   مثل                 پانی

ہے مہتاباں کی تاباں کا سمایا

 

سرج چند تار پھل بازباں تھے رہی دھرت

 سورج چاند  پھول بازی  سے  زمین

انبر گلشن تھے روشن جھلک پایا

آسمان        سے

 

تجلی یوں دیا حق قطب شہ کوں

کہ نس کوں دن تھے روشن کرد پایا

 رات  سے زیادہ  کر کے روشن کیا

 

شب برات کے آتے ہی ایک انتہائی خوشگوار روشنی پھیل جاتی ہے، شب برات کی آمد خوشیوں اور  عشرتوں کی باراتوں کی آمد ہے، روشنی ہی روشنی ہے، ہر جانب تمام عالم جگمگانے لگتا ہے، چراغوں کے سلسلے قائم ہو جاتے ہیں، چراغوں کی کثرت سے رات اتنی روشن ہو گئی ہے کہ لگتا ہے کہ سورج کے طلوع ہوئے بغیر دن نمودار ہو گیا ہے، دھرتی کے ان چراغوں کا عکس آسمان پر پڑتا ہے تو آسمان آئینہ کی مانند جھلکنے لگتا ہے۔ آتش بازی اور  چراغوں کی وجہ سے آفتاب شرم سے چھپ جاتا ہے۔ شب میں نظر نہیں آتا۔ مہتاب چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی تابناکی اور  تابانی ظلمات میں آب حیات کا منظر پیش کرتی ہے، پھول بازیوں سے لگتا ہے جیسے سورج چاند تارے زمین پر اتر آئے ہیں۔

رین ظلمات میں جوں خضر کا نیر

  رات                   مثل   آب حیات

ہے مہتاباں کی تاباں کا سمایا

سرج چند تار پھل بازباں تھے رہی دھرت

 سورج چاند  پھول بازی  سے  زمین

انبر گلشن تھے روشن جھلک پایا

آسمان        سے

 

یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی کے جشن یا تہواروں کے جشن کا ذکر ہو اور  عورت کا ذکر نہ ہو۔ ابھی ہم نے دیکھا ’بسنت‘ کے رنگوں اور  بھیگے بھیگے رنگوں میں عورت کس طرح ابھری تھی، اس کا جسم کس طرح خوبصورت نغمہ بن گیا تھا۔ عورت تو محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کا مرکز، چشمۂ  جمالیات ہے۔ جشنِ شب برات میں عورت اور  اس کے جمال کی جہتیں اس طرح ابھری ہیں :

دہن پستے نین شکر اَدھر بند گھریکے نازک

            آنکھ       ہونٹ   پنکھڑنی

کہ جوں خشخش نمن باریک ہے خوئے مکھ پہ ناریاں کی

مثل      کے مانند               پسینہ چہرہ عورتوں

 

کجل نیناں سہیلیاں کے سوپر مل سیام باداماں

کاجل

تھوڈی ہے سیب دستاں جوں کے چار ولیاں ہیں چاریاں کی

             دانت جس طرح

برن اسمانی پانیاں تِس منے دالاں ہوایاں کے

 جسم         اس میں

ٹھسی کندن کی یوں دستی کہ جو جھیلی ہے تاریاں کی

               نظر آتی   خوشہ

 

سورج مشعل، چندر جوتاں، ستارے جونکہ گلریزاں

                                      مثل

دیپائی تنکوں مکھ پیشانی خویاں آکنواریاں کی

  چمکائی       چہرہ        کا عرق

 

یو حاجب ہور کھڑی بازی نلی پھل جت میں پرگٹ سو

                                                ظاہر

جو ابرو ہور جو بن مکٹ تھے نیچے گلعذاریاں کی

 اور                     سے

 

نچھل پیالے جوہیریاں کے کمل  ہاتاں میں لے سکیاں

             مہروں     کنول  ہاتھوں

کرن بھنجن ادھر سے سوں خماراں سب خماریاں کی

  توڑنے ہونٹ کی سے

 

جو سر تھے پگ لگوں موتیاں ہیں دپ ہور جوہریاں ناریاں

 سے پاؤں تک        چمکتی

سبھیں تو ہے نبیؐ صدقے قطب صاحب جھاریاں کی

                                      جھلکاریاں

 

سہاگن رات شبرات آسجن گھر آئے بھی سر تھے

                                                 پھر از سرِ نو

جھلک جوتاں کے ابرن تن چڑا جھلکائے بھی سر تھے

                           پھر از سرِ نو

 

سجن کے پھول سے تن کوں لٹاپٹ ہوا نندوں سوں

عروسانی سو باساں میں اوک مہکائے بھی سر تھے

٭

شب برات روزی کا برات پھر لیایا

پیا کا مکھ کا عرق دیکھ سے پیا روشن

 

شب برات دِکھا دے برس کوں یک نِس جوت

پھنواں ہلال تھے نس دِن ہے موجیا روشن

                                     میرا دل

٭

نین مستی کے گل ریزاں سو بھر کر

نلی طاؤس چک چومن کری رے

 

لڑاں موتیاں کیاں تج ہنسنے کیاں جھیلاں

              کی                     کی

تو جھیلاں تھے جگت درپن کری رے

             سے دنیا  آئینہ

 

نشانی گال تج مشرق و مغرب

             تیرے

بنداں خوئے تار کی سر پر کری رے

  بوند        پسینے

ترا صورت عطارد کیا لکھے گا

تو قدرت سیتے تن ابرن کری رے

              سے        جسم پر لباس

 

عشق کے نو بہار کی توں کلی ہے

پھلاں امریت کے جوبن کری رے

  میوۂ  آب حیات

(کوئی اور  شب برات)

٭

 

اس رات میں محبوباؤں کے دہن، پستے، آنکھیں شکر کی مانند میٹھی اور  ہونٹ گھڑوں کی مصری کی طرح نازک نظر آتے ہیں، ان کے چہرے پر پسینہ کی بوندیں خشخش کی طرح باریک دکھائی دیتی ہیں۔ محبوباؤں کی کاجل لگی آنکھیں باداموں کی طرح، تھوڑی سیب کی طرح اور  دانت چار ولیوں کی طرح آتے ہیں۔ اس رات محبوبہ آتی ہے تو لاکھوں چاند سورج کی روشنی ہوتی ہے۔ دوشیزائیں نغمہ سرا ہوتی ہیں، دنیا کے دِل میں ایک بار پھر زندگی کا نور پیدا ہو جاتا ہے۔ محبوباؤں کے رخسار سے عاشق کی آنکھوں میں نور بھر جاتا ہے، اس شب کو زلفِ محبوب کے سات نسبت ہے، محبوباؤں کے جسم پر آرائش و زیبائش سے نور جھلک رہا ہے۔ شب نورانی لباس میں انتہائی پرکشش نظر آتی ہے۔شبِ برات محبوباؤں کے چہروں سے روشن ہے۔ کسی ایک کا چہرہ سورج ہے تو دوسرے کا چاند  ہر محبوب کا لباس نورتن کا لباس ہے، بادشاہ کو رِجھانے کے لیے شراب کی طرف راغب کرنے کے لیے، یہ تمام محبوبائیں شرابِ عشق پئے ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چہرہ آفتاب کی مانند روشن ہے، ان کی زلفیں لہرا رہی ہیں اور  ان کے زلفوں کی خوشبو آسمان تک پہنچ رہی ہے۔ سارا آسمان خوشبو خوشبو ہے، خوشبو میں وہ سحر ہے کہ لاکھوں فرشتے اُتر آئے ہیں، کیسے کیسے پرکشش خوبصورت پستان ہیں ان پر سیاہ بالوں کی لٹیں ایسی نظر آ رہی ہیں جیسے پہاڑوں پر کالے بادل آ گئے ہوں۔ مہتاب کی طرح رُخسار اور  پھولوں کے ہار پھول جھڑیاں نظر آتے ہیں۔  ’’پیا باج پیالا پیا جائے نا‘‘  کا معاملہ ہے۔ پیا کے بغیر زندگی کیا، جشن زندگی کیا، تہوار کیا، محفل کیا، عورت کی حیثیت مرکزی ہے۔ عورت مسرتوں اور خوشیوں کا سرچشمہ ہے، زندگی کی مستی اسی سے قائم ہے، شراب وہ ہے، نشہ وہ ہے، اس کے حسن کے سامنے شمع پگھلنے لگتی ہے، جس طرح سورج کے سامنے اولے پگھل جاتے ہیں :

پگلتے جوں ہولے سورج سامنے

             اولے

تجھے دیکھ دھن دوں پگلتا شمع

عورت کی جمالیات کے گہرے احساس نے جو غنائی شعور بخشا ہے، اس کی نغمگی شاعر کے کلام میں سرایت کر گئی ہے، اس کا وجود مست مست ہے، لہٰذا ہر شے مست مست ہے۔ موسمِ سرما میں بھلا محبوب کیوں یاد نہ آئے:

ہوا آئی ہے لے کے بھی تھنڈ کالا

                                    پھر

پیا بن سنتا تا مدن بالے بالا

 

رہن نا سکے من پیا باج دیکھے

نہ رہ سکے دل محبوب بغیر

ہووے تن کوں سکھ جب ملے پیو بالا

اے ستیل ہوا منج مگے نا پیا بن

                        مجھے گزرے

مگر پیو کنٹھ لا کرے منجن نہالا

             گلے لگا                   مجھے نہال

 

سجن مکھ شمعے باج اوجالا نہ بھاوے

   کی شمع کے بغیر

بھلایا ہے منج جیوں کوں او اوجالا

             میرے دل کو  وہ

جو رات آواے چندنی کی مثج کوں ستاوے

              چاندنی  مجھے

کہ چند نامنجے نہیں نین سوز لالا

میرے لیے چاندنی نہیں بلکہ چشم سوز لال

٭

 

تن ٹھنڈت لرزت جوبن گرجت

   ٹھنڈے  لرزتا ہے               گرجتا ہے

پیا مکھ دیکھت کنچلی کس ہکتے آج

 

ناری مکھ جھمکے جیسے بجلی

انجل بارک میں سہے اُس لاج

 

موسموں پر غور کرتے اور  موسموں سے لطف اندوز ہوتے عورت کا حسی پیکر (Psychic Image) موجود رہتا ہے، اس پیکر کے ابھرتے ہی شاعر مست ہو جاتا ہے، خود کہتا ہے:

مکہہ تیرا دیکھ کر میں آج مست

تیرے مکھ کے تئیں ہوا ہوں بُت پرست

یونگ (Jung) نے اسے ’سول امیج‘ (Soul Image) کہا ہے۔ اس ’امیج‘ کا تحرک غیر معمولی ہوتا ہے۔ یہ ’امیج‘ باطن میں عجیب سی ہلچل پیدا کیے رہتا ہے اور  پورا وجود مستی میں جھومنے لگتا ہے۔ ’مکھ تیرا دیکھ کر میں آج ہوا مست‘ اسی مستی کی پہچان ہے، جمالِ محبوب عاشق کے پورے وجود کو مست کر دیتا ہے لہٰذا تمام اشیاء و عناصر مست مست دکھائی دیتے ہیں، ایسی رومانی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی، محبوب کا پورا وجود غنائی شعور میں جذب ہوتا محسوس ہوتا ہے:

مدن مست بدل مست کجن مست پری مست

عشق کا دیوتا بادل               محبت

ہوی مست پون مست لگن مست پری مست

  ہوا                     لگاؤ محبت

 

چڑھی مست بہی مست ڈالی مست رہی مست

مکھا مست سوا مست سہن مست پری مست

چہرہ

 

کھڑی مست انچل مست ڈھلی مست اور  ہی مست

                                      وہ

گزک مست نقل مست بچن مست پری مست

مٹھائی بوسہ  ذائقہ تبدیل کرنے والی شیرینی  بات

پری مست پیوں مست سرا مست ہوی مست

                         شراب   ہوا

ملی مست کبھی مست رسن مست پری مست

                         زبان

 

کھیا مست پھلاں مست کجل مست کھلی مست

             پھول        کاجل

لٹاں مست نین مست دیکھن مست پری مست

زلف   آنکھ          دیکھتی ہے

 

تلا مست طرامست دھری مست دھڑی مست

ٹیکا                                   مسی کی تہہ

شکر مست چمن مست ہنسن مست پری مست

 چومنا، بوسہ             ہنسی

 

چولی مست کھلی مست کمل مست بھنور مست

                         کنول

قطب مست کری مست یون مست پری مست

                          جوانی

محبوب کے وجود اور  لباس سب پر مستی چھائی ہوئی ہے، محبوب ایک متحرک پیکر ہے، پھول کی مالا ہو، زلف ہو، آنکھیں ہوں، کاجل یا ٹیکا ہو، مسّی کی تہہ ہو، ہنسی ہو، سب متحرک ہیں مست ہیں۔ پری کی مستی غیر معمولی ہے اس لیے کہ جوانی کی مستی حسن کی کئی جہتوں کو لیے ہوئے ہے۔ عاشق کی مستی ان ہی خوبصورت جہتوں کی وجہ سے ہے۔ عاشق چولی کو دیکھ ہرا ہے، مست بھنور میں مست کنول کو دیکھ رہا ہے۔ عورت رنگ ہے، خوشبو ہے، نشہ ہے، شاعر اس کے ہونٹ پر فدا ہے:ع تیرے ہونٹاں کے حصے میں تھے دِلامنج کوں دوا، اس کی آنکھوں پر عاشق ہے:ع نین جھلکا رتری بجلی نمن جب جھمکے گی، اس کی زلف میں کشش محسوس کرتا ہے:ع زلف کی جدوں میں ہلجیا ہے دیکھو بادِ صبا، جب سگھڑ سندری اپنے بال کھولتی ہے تو چمن کے تمام پھول اس کی خوشبو پاتے ہیں، چمن کے پھولوں کو سندری کے بال ہی سے خوشبو حاصل ہوتی ہے:

چمن پھول سب باس خوشبو پائے

سگھڑ سندری جب اپس کیس کھولے

                                    بال

عورت کے تعلق سے یہ اشعار شاعر کے گہرے رومانی جمالیاتی ذہن کو بڑی شدت سے نمایاں کرتے ہیں :

پیا کے نین میں بہوت چھند ہے

                         بہت عشوہ

او دو زلف میں جیو کا آنند ہے

 

سجن یوں مٹھائی سوں بونے بچن

                          سے

کہ اس خوش بچن میں لذت قند ہے

٭

 

اَدھر رنگ بھرے سنہتے مانک نمن

ہونٹ رنگین  زیب دیتے ہیں موتیوں کی طرح

کہ یاقوت رنگ رنگ ان تھے  درساز ہے

                           سے

٭

نین ہیں دو پیاری کے جیسے ممولے

بھنواں کی ترازو دسوں بھوچھند تولے

بھوں                   سے       بہت عشوہ

 

دھن کا دہن ہیریاں کا کھن، لب لعل کندن ہے ذقن

عورت ہیروں کی کان

سُنّے سینے پر کچ رتن نیں ایسی کیس کس یوکری

سونے جیسے سینہ  سرپستانی کے موتی نہیں  ایسی کہیں

 

جو چولی ناز کی توں جینت پینی چست  پہنی

عجب نیں جو گگن تج گن کوں گاوے

   نہیں       تیرے

 

چندر تج مکھ انگے کاں دسے گا

چاند تیرے چہرے آگے کہاں مقابل آئے گا

سورج بی تیری جوت مانگے نہ آوے

  بھی   روشنی کے سامنے

٭

نکر بھانہ پیو مد دیو اپ ادھر تھے

   بہانہ       اپنے  ہونٹ سے

کہ اس کی مد کی منج کوں لگی ہے خماری

             شراب      مجھ کو

ترے دو نین ہیں بدمست متوال

              آنکھ       شراب کے متوالے

ترے دو گال ہیں خوبی کے گلال

 

ترے مکھ کی لٹاں نئیں ہیں کہ دو ناگ

  چہرہ  زلفیں نہیں

سلیماں کی انگھوٹھی کے ہیں رکھوال

              انگوٹھی

 

بھواں تیریاں کوں کیوں لیکھے گا نقاش

            تیری       لکھے

کمال دو کھینچا ہے سخت اشکال

 

سکیاں کے ہات میں دیکھ پیالی مد کی

              ہاتھ  دیکھے   شراب

نہیں دیکھیا اگن کے تئیں جوسیاں

 دیکھا  آگ کو

 

توں موتی بے بہا ہے تج بہا نئیں

 تو                       تجھے قیمت نہیں

جگت کا مال ہے تیرا سو پامال

  دنیا

 

جہاں ہے سیمیاء کا نقش اس تھے

                          اس لیے

کہے ہیں عارفاں سب اس کوں ش تمثال

 

پیا ائے ہے روپ کا رنگ سوں

کہ چوتا ہے اس مکھ تھے نیر زلال

عورت کی آنکھوں میں جادو ہے، زلف میں زندگی کا آنند ہے، لفظوں میں لذتِ قند ہے، ہونٹ رنگین اور  دانت موتیوں کی طرح، ہونٹ کی رنگ یاقوتی ہے، دہن ہیروں کی کان ہے، چھاتیاں سونے کی مانند چمک رہی ہے، سر پستاں قیمتی موتی ہیں دنیا میں ایسے موتی کہاں ! چست چولی کا دلکش نظارہ دیکھ کر کون جانے آسمان بھی جھوم جائے، نغمہ سرا ہو جائے۔ چاند محبوب کے چہرے کے مقابل نہیں آ سکے گا، چاند کا حسن اس کے سامنے ماند ہے، سورج کی روشنی اس کے وجود کی روشنی کے سامنے نہیں آسکتی، اس جمال کا بھلا وہ کیا مقابلہ کرے گی۔ اے میرے محبوب کوئی بہانہ نہ کر، اپنے ہونٹ میرے حوالے کر دے تاکہ اس کی شراب سے میرا خمار اور  بڑھ جائے۔ تیری زلف میں کنول کا رس ہے کہ جس کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے، بھوئیں کمان کی مانند تنی ہوئی ہیں، کاجل کا حسن اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔ تنگ چولی کے اندر دو پنچھی ہیں، آنکھ میں جو سرمہ ہے اس نے میرے دل کو جیت لیا ہے، آنکھیں شراب کا نشہ لیے ہوئی ہیں، دونوں گال گلال بنے ہوئے ہیں، یہ جو تیری زلفیں ہیں، وہ حضرت سلیمان کی انگوٹھی کی رکھوالی کر رہی ہے، تیری بھوئیں کماں کی طرح کھنچی ہوئی ہیں، سخت، بھلا نقاش کیسے اس کی تصویر بناسکے گا، محبوب موتی ’بے بہا‘ ہے بھلا اس کی قیمت کوئی کیا لگا سکے گا، ساری دنیا کی دولت بھی اس کا سودا نہیں کر سکتی:

ترا کنٹھ سَن کویلاں پائیں حظ

 آواز                   کوئل

ترا ننگ دہن دیکھ کلیاں پائیں حظ!

’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘‘  کا مرکزی جمالیاتی پیکر (عورت) روشنیوں، خوشبوؤں، رنگوں، نغموں، راگوں اور  راگنیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کے سامنے کوئی بھی روشنی، کوئی بھی خوشبو، کوئی بھی رنگ، کوئی بھی نغمہ اور  کوئی بھی راگ اہمیت نہیں رکھتا:

تمہارا حسن دیکھیا جب ہوا ہوں جیوں جمشید

تمہارے ذکر تھے پایا ہوں عمر میں جیوں نوح

              سے

 

حاجت نہیں جو سور چند دن رات یوں نکلیا کریں

بس ہے دِپانے دو جگت تج مکھ کا درپن چراغ

 

سرج چاند تج مکھ تھے پاتے فروغ

اَپے دیپ جگ میں دِپاتے فروغ

 

تمہارا حسن سو قدرت تھے روشنی پایا

ہوراں کا حسن ترے حسن آنگنے جیسے چراغ

 

تج حسن کیرے دور میں رقاص ہوئے کر

کرتا ہے رقص مستی سو پا کر گگن اُمس

عورت کا وجود مختلف راگوں کا سنگم ہے۔ اس کے ہونٹ ہر راگ الاپ سکتے ہیں، اساوری ہو یا دھناسری، بسنت ہو یا کلیان، گوری ہو یا ملہار رام کلی:

مگت راگاں پیاری اب رگے راگ گاتی ہے

مکھاری رات گاتی مکھ لہاراں سوں سہاتی ہے

 

صباحی راگ گا کر منج صبا کے تخت بسلادو

                        مجھے         بٹھاؤ

دھنا سریکا کہہ دھن منج کوں سو رنگ پیالا پلاتی ہے

              عورت   سیکڑوں رنگ

مرے سنگ مل بجاتی سنگھ گاتی سنگھرا اُبھرتا

سری راگاں جوگاتی استری توں منج کو بھاتی ہے

                                    مجھ کو

 

الاپے گا گڑاگڑرا کماں بہوں کا چڑائی ہے

            ایک راگ

عشق کی آگ میں ابرو کماں کوشی سکاتی ہے

 

کہ گوری راگ جو گاوے تو گوریاں کا ملک جنتیوں

سو سارنگ نینی سب رنگ میں سورنگاں سو سہاتی ہے

 

سبھی راگاں کے گل پھل ہار بایا ہے سو ملہارا

               گلے میں پھول کا ہار ڈالا

جو گاوے رام کیری رام کر راواں ریجھاتی ہے

            رام کیری

٭

 

جو بن حوض میں تو رتن رنگ بھرے

بسنت راگ گاؤ سہایا بسنت

 ایک راگ کا نام

٭

کرے مشتری رقص مجسہ بزم میں نت

برس گانٹھ میں زہرہ کلیاں گایا

                                     کلیان

راگ راگنیوں کا تعلق ’وقت‘ اور  موسموں سے گہرا ہے، عورت ہر ’وقت‘ اور  ہر موسم میں ایک نئی میلوڈی (Melody) ہے۔

’جمالِ محبوب‘ محمد قلی قطب شاہ کا محبوب ترین موضوع ہے۔ جمالِ رُخ پر نظر جاتی ہے تو نظر کے ایسے تجربے اپنے آہنگ کے ساتھ متاثر کرنے لگتے ہیں :

چھبیلی ہے صورت ہمارے سجن کی

نازو ادا والی

کیا پُوتلی اس کہوں اپ نین کی

   پتلی                   آنکھوں کی

 

یہ دیکھیا نچھل کوئی اس سار صورت

  دیکھا  صاف چمکدار               مانند

سراؤں کتے زیب اپنے موہن کی

 

چندا سا دیکھیا مکھ اس سرو قد پر

             دیکھا

تو ہوتی ہے شرمندہ پتلی گگن کی

 

ترا حسن پھل بن تھے نازک ویسے تو

            پھول

نہ ویسے تیرے انگے چھپ کوئی بن کی

نین تیرے دو پھول نرگس تھے زیبا

آنکھیں

نزاکت ہے تج مکھ میں رنگین چمن کی

 

تیرے زلفت پھنداں میں دل عاشقاں کے

رہے ہیں سو عاشق ہو پیو کی نین کی

 

نبی صدیق قطبا سوں اوپیو لمیا ہے

تو کیا کہہ سکوں بات اس مکھ سُمن کی

’مست شباب‘ (سورج تارے دِپائی ہے سندر چندر پشانی میں l مگر رستا ہے عکس اس کا گگن سمدور پانی میں ) ’ادارئے حسن‘ (میں اس نورسوں بعد یا کیا عجب lدرجگ روشنی پایا کس نئیں خبر) ’چنچل نین‘ (دو نین تج ابرو تیں ہیں نار کیرے خواب میں lدوست شوقی سوں سہتے مسجد کیرے محراب میں ) ’ہلال بھوں ‘ (نِس دن دُعا تھے مو نظر پڑیا ہلال بھوں اوپر lاس روشنی کے سم نہ آوے روشنی خورشید کا) ’سروِ رواں ‘ (سرو خوش قد دیکھیا سب سرو کے بن میں عجبl اس کے سر کوئی نہیں سب باغ و گلشن میں عجب) ’تصویر حسن‘ ( پیاری ہے نازک کلی جوں چپنے کیlتو ریشم تھے آلے ہیں بالاں کے اُس کھب) ’کندن کی پتلی‘ (نین ہیں پیاری کے جیسے ممولے lبھنواں کی ترازو سوں بھوچھند تولے) ’سجن مکھ کا اُجالا‘ (سجن مکھ کا اوجالا چند تھے آلاl اِدھر تھے چودے جم امرت پیالہ) وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو سلطان محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات کی سب سے ممتاز جہت کو نمایاں کرتی ہیں۔ جنسی حسیت بصری تجربوں میں کیا خوب ڈھلی ہے۔ ذکر صورت کا ہو یا زلف (الک، بال) کا، آنکھ (لوچن) کا ہو یا ابرو (بھنواں ) کا، ہونٹ (ادھر) کا ہو یا دانت (دسن) کا، کان (سرون) کا ہو یا پستان (کنج) یا سر پستان (کچ-کچوبن)کا، چھاتی پر کسی چولی (کسنان) کا ہو یا آنکھوں میں کاجل (کجلی) ةا محمد قلی قطب شاہ اپنے جمالیاتی احساس اور  سرمستی سے قاری کے احساسِ جمال پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ تشبیہوں کے خوبصورت نگینوں سے اشعار کو پرکشش بناتے رہتے ہیں۔ کماچ، منڈل، پکھاوج اور طنبورے- اور  بسنت راگ، دھنا سری اساوی، گوری، ملہار کلیان کا یہ عاشق اپنے وجود کے آہنگ کے ساتھ رقص کرتا محسوس ہوتا ہے:

امنگاں آپ اُمنگاں سوں اپس میں آپ مل ناچیں

تنت کا تنن ناچیں ہوئے تن تن تنن سارا!

جمالِ محبوب عاشق کے دل میں رقص کو جنم دیتا ہے، اس کا وجود رقّاص بن جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ خود جمالِ محبوب میں رقص اور  تحریک ہے، اس کا اثر عاشق کے دلر پر ہوتا ہے:

ہوئی تج نین پتلی دل میں رقّاص

سدا منج نین کی منزل میں رقّاص

 

تمہیں منج خواب سو بیداری میں دٖیسے

جدھر دیکھوں کھڑی تل تل میں رقّاص

 

بھواں کا طاق میں سجدا کروں میں

ہوئے سائیں مری محفل میں رقّاص

رقص میں جھوم جھوم جانے اور  محبوب کی ہر ادا کو مست دیکھنے اور  پورے ماحول اور  پوری فضا میں مستی کی ایسی تصویریں اردو شاعری میں نہیں ملتیں۔ مدن مست، کجن مست، پری مست، پون مست، لگن مست، مکھا مست، کھپا مست، پھلا مست، کجل مست، لٹاں مست، نین مست، دیکھن مست، ہنسن مست، چمن مست، چولی مست، کنول مست، بھنور مست، جھومے جانے اور  مستی کی ایسی تصویریں کہاں ملتی ہیں۔ محبت اور  لذتیت بت پرستی میں تبدیل ہو گئی ہے:

بھیٹن کدو پٹ سیتی دھن کُچ کُچ اپنا طول کر

سر پستان                          پستان پستان

ہم دونو کچ سوں کچ لگا کُچ کُچ کریں ہر بار عیش

 پستان       پستان پستان

 

چھاتی ہوں چھاتی ایک کریک جیب ہور یک میت سوں

                          اور  دوست

تج نکھ سیتی نکھ منج کرنے میں ہے ٹھارے ٹھار عیش

تیرے ناخن  ناخن میرے

 

میرے ترے رَوما دِلی جمنا و گنگا جوں مل اہیں

  وہ لکیر جو ناف نیچے کی طرف سیدھی جاتی ہے

روں روں سو مچھلی ہوئے کر کرتے ہیں تج گنگ دھار عیش

رواں رواں                                   تیری گنگا کی دھاریں

تیرے میرے پاؤں سکی جوں ناگ ناگن مل رہے

صدقے نبیؐ کرتا قطبت کرتار تھے آپار عیش

                         خدا کی عنایت سے

(نقشۂ  وصال)

’سیکس‘ کے تعلق سے جو لمسی اور  حسی احساسات اُبھرے ہیں اور  جنسی عمل کا جو نقش اُبھرا ہے ان سے ایک انتہائی پرکشش ’جمالیاتی فینومینن‘ (Aesthetic Phenomenon) خلق ہو گیا ہے۔ چونکہ اس جمالیاتی فینومینن کا تعلق کئی سطحوں پر قاری کے تجربوں اور  مشاہدوں (Observation) سے ہے، اس لیے قاری کے اپنے جذبے میں ہیجان پیدا ہوتا ہے، جسے وہ خود ہی زیادہ پہچانتا ہے۔ یہ سچے جذبے (Genuine Emotion) ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ مجرد (Abstract) اشارے نہیں ہیں۔ جو بات کہی گئی ہے صاف صاف کہی گئی ہے اس لیے اس شعری جمالیاتی فینومینن سے حسی اور  جمالیاتی سطح پر ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ عاشق کی آنکھیں محبوب کے جسم کو چکھتی ہیں، ہونٹ سے ہونٹ ملتے ہیں اور  عاشق کو آبِ حیات نصیب ہوتا ہے۔ جنسی لذت حاصل کرنے کے لیے ہونٹ ایک بڑا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بازو گلے کا ہار بن جاتے ہیں، محبوب بازوؤں میں سما جاتا ہے، سینے سے سینہ ملتا ہے۔ سرِ پستان اور پستان سے لذت حاصل ہوتی ہے۔ ناف سے نیچے کی طرف جو لکیر جاتی ہے وہ گنگا اور  جمنا کے سنگم تک پہنچا دیتی ہے اور  پھر محبوب کی گنگا کی دھاریں تیز ہو جاتی ہیں، ناگ ناگن کی طرح پاؤں مل جاتے ہیں۔ یہ اپنے سچے جذبے اور  اپنے سچے تجربے لگتے ہیں، لہٰذا قاری کو ہر لمحہ جمالیاتی انبساط حاصل ہونے لگتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات اس طرح جو جمالیاتی لذت و مسرت اور  آسودگی یا Poetic Relish عطا کرتی ہے اس کی مثال اردو کی بوطیقا میں نہیں ملتی۔ انسان ہی جنسی عشق کی خوبصورت راہوں سے گزر سکتا ہے، فرشتے نہیں۔ وہ یہ لذت حاصل نہیں کر سکتے:

محبت کی لذت فرشتاں کو نئیں ہے

بہت سعی سوں ہوں یہ لذّت پچھانی

٭٭٭

’مثنوی چراغِ دیر‘ ۔۔۔ تحیر کی جمالیات کی ایک مثال

ہندوستانی جمالیات میں تحیر کی جمالیات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اسے ادبھُت رَس کہا گیا ہے، اسے چمتکار سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ابھینوگپت، بھرت منی، ممّٹ سب کے یہاں اس کا ذکر ملتا ہے۔ نٹ شاستر میں بھرت نے تحیر کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اکیسویں باب میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی تجربے کی عظمت کا انحصار تحیر پر ہوتا ہے، تجربہ اس طرح پیش ہو کہ تحیر پیدا ہو۔ ابھینو گپت کے ابھینو بھارتی کے مطابق حالات اور  ماحول تحیر پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہندوستان کے اس معروف معلّمِ جمالیات نے کئی ایسے حالات کا ذکر کیا ہے کہ جن کے سبب تحیر پیدا ہو سکتا ہے۔ آچاریہ نارائن بھی ایک معروف معلم جمالیات گزرے ہیں۔ انہوں نے جمالیات کے موضوع پر جو کام کیا تھا موجود نہیں ہے۔ اس کا ذکر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آچاریہ نارائن ہی نے تحیر اور  تحیر کی جمالیات کو اہم جانا تھا، ادبھُت سے زیادہ تحیر کے ’چمتکار‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے، ان کے پوتے وشواناتھ کی دلچسپی بھی جمالیات سے بہت گہری تھی۔ ان کی تحریروں میں آچاریہ نارائن کے خیالات ملتے ہیں۔ آچاریہ نارائن نے ادبھت رس اور  تحیر کے اپنے تصور کی آمیزش کے بعد ’چمتکار‘ کی اصطلاح سامنے رکھی تھی۔ فنون اور  خصوصاً ڈراما اور  شاعری میں ’چمتکار‘ کی قدر و قیمت کا احساس دلایا تھا۔ ’رس گندھار‘ کے مصنف جگن ناتھ پنڈت نے تحیر اور  انبساط پر اچھی گفتگو کی تھی، انہوں نے ادبھت اور ’چمتکار‘ کی جگہ ’لوکوٹ تارا‘ (Lokottara) کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس کا مفہوم ہے ایسی تیز چمک کہ جس سے تحیر پیدا ہو۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں تحیر اور  تحیر کی جمالیات کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ فوق الفطری واقعات سے ان تجربوں تک کہ جو عام زندگی کے تجربوں سے علاحدہ ہوں جن کے اچانک پن اور  جن کی تازگی اور اجنبیت سے تحیر پیدا ہو، ہندوستانی جمالیات میں موضوع بنے رہے ہیں۔ سنسکرت ادب فوق الفطری واقعات و کردار سے بھرا پڑا ہے، انہونی باتیں طرح طرح سے تحیر پیدا کر کے چونکادیتی ہیں۔ بھاسا کالیداسؔ اور  بھوانبھوتی کے اہم رزمیوں میں فوق الفطری حالات و کردار موجود ہیں، ان سے تحیر پیدا کیا گیا ہے۔ کالیداس کی عظمت کی ایک بڑی پہچان یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ پرانی ایپک سے فوق الفطری کیفیتوں کو حاصل کرتے ہیں اور  قاری کو متحیر کرتے رہتے ہیں۔ ’شکنتلا‘ کے چوتھے، پانچویں، چھٹے اور  ساتویں ایکٹ میں پرانی ایپک سے متحیر کرنے والے واقعات ملتے ہیں۔ ارویشی کا کردار بھی حیرت انگیز ہے۔ اس طرح نارائن جب مہابلی کے آشیرواد سے بونے سے دیو ہیکل  پیکر بن جاتے ہیں تو ادبھُت رس کی پہچان ہوتی ہے۔

غالبؔ تحیر کی جمالیات کے ایک بڑے شاعر ہیں۔ وہ ادبھُت تجربوں کے لیے کسی رزمیہ یا ایپک کے پاس نہیں جاتے بلکہ اپنی سائیکی کی مدد سے چمتکار کرتے رہتے ہیں۔ اردو اور  فارسی کی غزلوں میں تحیر پیدا کرتے رہنے کا ایسا سلسلہ ہے کہ چمتکار اور  اس کے جلووں کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ حیرت اور  تحیر اور  طلسمی کیفیتوں نے کلام غالب کو بڑی عظمت بخش دی ہے۔ کثرتِ انشائے مضمونِ تحیر سے  ’’جہاں اردو اور  فارسی بوطیقا کو ایک انوکھا طرزِ احساس ملا ہے، وہاں گنجینۂ  معنی کے طلسم کی ایک دنیا بھی حاصل ہوئی ہے۔ محبوب کے عکس سے آئینے میں آگ لگ جاتی ہے، آبلو ں میں آنکھیں پیدا ہو جاتی ہیں، محبوب کی خوب صورت کلائیوں کو دیکھ کر شاخِ گل جلنے لگتی ہے، حلقۂ  زنجیر میں نگاہیں پیدا ہو جاتی ہیں، شیریں کی سیاہ زلف کو سانپ کہہ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن جادوگری یہ ہے کہ اس کا ماورا دفن ہو جاتا ہے تو پورا پہاڑ سبزے کی شدت سے سبز ہو جاتا ہے اور  زمرد کا مزار بن جاتا ہے۔ لہو کے قطرے دامن پر گرتے ہیں تو پھول بن جاتے ہیں، چاند آفتاب کے ہاتھ میں کاسۂ  گدائی نظر آتا ہے۔ مہندی سے رنگے ہاتھ دیکھ کر گل، پروانے کی طرح رقص کرنے لگتے ہیں۔ محبوب کے ذکر سے اس کے خوب صورت لب شراب کے پیالے پر ابھرتے ہیں۔

تحیر کے حسن و جمال کی یہ خوبصورت مثالیں ہیں۔

’مثنوی چراغِ دیر‘ تحیر کی جمالیات کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ یہ ایک بڑے حسن پسند فن کار کی تخلیق ہے، جو ادب کی دنیا میں گریٹ ونڈر (Great wonder) کا ایک بڑا فن کار ہے۔ ’مثنوی چراغِ دیر‘ پر اپنی تازگی اور اجنبیت کے ساتھ تخلیق فن کا ایک شاہکار بن گئی ہے۔ تازگی اور اجنبیت ہی بڑے تخلیقی آرٹ کا جوہر ہے۔ تحیر کی جمالیات کی یہ دونوں بنیادی خصوصیتیں اس مثنوی میں توجہ طلب بن جاتی ہیں۔ ’رسو‘ اور  خصوصاً ’شرنگار رس‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس بڑی شدت سے ہوا کہ تحیر رسوں کا نقطۂ  عروج ہے، تحیر کی جمالیات کے بغیر کسی بھی اعلیٰ فن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تخلیقی آرٹ میں تحیر کی جمالیات قاری کے ذہن میں کشادگی پیدا کر کے ایسے ایک افضل سطح پر لے جاتی ہے۔ یہ وہ سطح ہے جو زندگی کے جلال و جمال کو صرف حد درجہ مقوی ہی نہیں بناتی بلکہ زندگی کے حسن کو دیکھنے کے لیے ایک وژن بھی عطا کر دیتی ہے۔ تحیر کی جمالیات کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ حسن کا سحر قاری کو فن کار کے تخیلی اور  وجدانی تجربوں کی گہرائیوں میں اس قدر اتار دیتا ہے کہ خود قاری کی فکر و نظر میں تبدیلی پیدا ہونے لگتی ہے، اس حد تک کہ اسے خود اپنی شخصیت تبدیل ہوتی محسوس ہونے لگتی ہے، وہ فن کار کے تحیر آمیز تجربوں میں جذب ہو جاتا ہے۔ ’مثنوی چراغِ دیر‘ تحیر کی جمالیات کا ایسا نمونہ ہے کہ جس کا حسن قاری کی فکر و نظر کو اس طرح گرفت میں لے لیتا ہے کہ زندگی کے نقش ہائے رنگ رنگ کی تصویریں دیگر نظر آنے لگتی ہیں۔

غالبؔ کی مثنویوں کا ذکر آیا کہ مثنوی ’ابر گہر بار‘ کی مناجات کے جوشِ طوفاں اور  اس مثنوی کے خوب صورت تجربوں سے ذہن وابستہ ہو جاتا ہے۔ مثنوی ’ابر گہر بار‘ یقیناً ایک اچھی مثنوی ہے اور  سرمہ بینش ’درد و داغ‘، ’بادِ مخالف‘، ’رنگ و بو‘ وغیرہ کی تخلیقی سطح سے بلند ہے لیکن ’مثنوی چراغ دیر‘ کو غالبؔ کی جمالیات میں جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسری مثنوی کو نصیب نہیں ہے، اس لیے کہ اس مثنوی کے دوسرے حصے میں کاشی یا بنارس کی تصویر کشی میں ان کا جمالیاتی شعور ایک مرکز پر سمٹ آیا ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ مکمل تخلیقی کارنامہ ہے، تحیر کی جمالیات کا ایک خوبصورت نمونہ۔

غالبؔ اپریل ۱۸۲۷ء میں دہلی سے کلکتے کے لیے روانہ ہوئے اور  تین چار ماہ بنارس میں رہے، سرائے تو رنگ میں قیام کیا، اس وقت ان کی عمر انتیس برس تین ماہ تھی، ’مثنوی چراغِ دیر‘ کا خالق انتیس -تیس برس کا فن کار ہے، حد درجہ حساس اور باطنی طور پر بیدار! ہند مغل جمالیات کی آمیزش اور آویزش سے قریب تر اس مثنوی کی تکنیک اور  اس کے تخلیقی سانچے میں اس جمالیات کا وہ جلیل و جمیل پہلو بھی موجود ہے، جس میں خوب صورت اور  دلکش، حسین اور  دل فریب عناصر کی کثرت تو ہے لیکن جمالیاتی وحدت بھی ہے۔ مختلف اور متضاد بکھرے ہوئے جمالیاتی پیکر اور  عناصر اپنے باطنی رشتے کا احساس لاتے ہیں اور  اس طرح جلیل اور جمیل عناصر کی وحدت پیدا ہو جاتی ہے۔

’مغل جمالیات‘ اور  خصوصاً مغل مصوری میں خیال کے تنوع سے مختلف عناصر کی صورتیں جنم لیتی ہیں، لیکن ذہن ان کی ترتیب اور  وحدت کو پا لیتا ہے۔ اس نظم کی وحدت بظاہر نظر نہیں آتی لیکن گہرے مطالعے سے محسوس ہو جاتی ہے۔ ذہن تین مختلف صورتوں کی وحدت اور  اس وحدت کے حسن کو پالتا ہے بظاہر تین بے ربط تصویروں میں جو باطنی رشتہ ہے وہی جمالیاتی وحدت کا احساس دیتا ہے۔ غالبؔ اس مثنوی میں ایک بڑے تشبیہ کار، کنایہ ساز اور  علامت نگار نظر آتے ہیں۔ مغل جمالیات میں تشبیہ، کنایہ اور علامت کی جو اہمیت ہے اس کا ہمیں علم ہے۔ یہی جمالیاتی تجربوں کے اظہار کے عمدہ ذرائع ہیں، ان تینوں کی تخلیقی صورت مجرد ہو جاتی ہے تو جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ اس مثنوی کی تکنیک کا حسن بھی یہی ہے۔

غالبؔ کی دوسری مثنویوں کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’چراغِ دیر‘ کا تخلیقی سانچہ مختلف ہے۔ زمانے کے دستور کے مطابق یہ مثنوی مناجات اور  حمد یا شکرِ خدا سے شروع نہیں ہوتی، تجربوں کا مزاج کے مطابق غالبؔ نے ابتدائیہ کی صورت ہی بدل دی ہے۔ وہ چاہتے تو حمد یا مناجات میں ایک نیا انداز پیدا کر سکتے تھے، جس طرح انہوں نے ’مثنوی ابر گہر بار‘ میں کیا ہے۔ ’مثنوی ابر گہر بار‘ کے گیارہ سو اشعار میں حمد، مناجات، نعت (جس میں معراج کا خصوصی ذکر بھی شامل ہے) منقبت وغیرہ سب ہیں۔ ’مثنوی رنگ و بو‘ کی طرح ’چراغ دیر‘ میں کوئی تمثیل پیش نہیں ہوئی ہے۔ مثنوی ’درد و داغ‘ کی طرح اس میں کوئی کہانی نہیں ملتی، مثنوی ’سرمہ بینش‘ کی طرح اس میں کسی بادشاہ کی مدح نہیں ہے اور  حسن و عشق کے بیان کو تصور کا رنگ نہیں دیا ہے۔ مثنوی ’بادِ مخالف‘ کا انداز بھی نہیں ہے۔ غالبیات میں ’چراغ دیر‘ کا تخلیقی سانچہ مختلف نوعیت کا ہے۔ غالب کی کسی مثنوی کا کینوس ایسا نہیں ہے کہ جس پر تین مختلف رنگوں سے ایسی تصویریں بنی ہوں اور  ان کا باطنی طلسمی رشتہ بھی ہو۔ بلاشبہ اس مثنوی میں ایک اجنبیت ہے اور اجنبیت کی تازگی ہے جو تحیر کی جمالیات کی سطح بلند کر دیتی ہے۔ ’مثنوی چراغ دیر‘ مرزا غالب کی ایک نمائندہ تخلیق ہے، جو جلال و جمال کا ایک عمدہ معیار قائم کرتی ہے۔ جلال کا پہلو اس طرح ابھرتا ہے:

رنگِ سنگم شرارے می نویسم

کفِ خاکم غبارے می نویسم

تو جمال کا پہلو اس طرح:

زر نگیں جلوہ ہا غارت گرِ ہوش

بہارِ بستر و نو روز آغوش!

’مثنوی چراغِ دیر‘ کی تکنیک بھی تحیر کے حسن سے آشنا کرتی ہے۔ غور فرمائیے اس نظم کے کینوس میں تین واضح رنگ ہیں، جو بظاہر ایک دوسرے سے مختلف اور  متضاد ہیں لیکن مجموعی طور پر جو جمالیاتی وحدت پیدا کرتے ہیں، اس سے حیرت انگیز مسرت حاصل ہوتی ہے۔ آئیے ہم ان تینوں رنگوں کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ نفسیاتی نقطۂ  نظر سے پہلا رنگ سرخ ہے یعنی جبلت کا رنگ، دوسرا آسمانی یا نیلا ہے جو آسمان کا رنگ بھی ہے اور  روح اور  باطن کا رنگ بھی اور  تیسرا اس سرخ اور  نیلے کے امتزاج سے بنا ہوا بنفشئ (Violet)  جسے نفسیات کے بعض علما نے صوفیانہ تخیل اور  صوفیانہ فکر کا رنگ کہا ہے۔ جمالیاتی نقطۂ  نظر سے یہ تینوں رنگ اس نظم میں اہمیت رکھتے ہیں۔

درد و غم، باطنی اضطراب، تپش اور بے چینی اور  جبلّتو کے اظہار میں پہلا رنگ یعنی سرخ مثنوی کے پہلے حصے میں موجود ہے، محسوس ہوتا ہے جیسے ’کینوس‘ پر پہلے جبلت اور  احساس اور جذبے کی گرمی اور  شدت کا سرخ رنگ اچانک پھیلتا ہے:

نفس باصورد مسازست امروز

خموشی محشرِ راز است امروز

رگِ سنگم شرارے می نویسم

کفِ خاکم غبارے می نویسم

جذبات میں حددرجہ گرمی ہے، رگِ سنگ سے لہو ٹپکنے والا ہے، بے چینی ہے، اضطراب ہے، غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے، شوق اور  خواہشوں کا دم گھٹنے لگا ہے۔ اپنے وجود میں ’خونِ صد برق‘ کا شدید احساس ہے۔ داستانِ غم سنانے کے لیے ہونٹ کانپ رہے ہیں، فغاں ایسی ہے کہ باہر نکلے تو جگر کے ٹکڑے ہو جائیں، تنہائی کا احساس کاٹے جا رہا ہے، یہ احساس شدید ہے کہ سمندر کی لہروں نے باہر پھینک دیا ہے، رگِ سنگ بن کر چنگاریوں سے لکھنے کی خواہش ہے تاکہ سانس، جو صورِ محشر کی ہم نوا ہے اور  خاموشی جو اسرارِ محشر ہے اپنی تپش، گرمی اور  آواز کے ساتھ سامنے آ جائے، قیامت بپا ہو جائے۔

ذات کا آتشیں چکر ہے، جلیل و جلیل تر تجربوں کی شدت ہے، جمالیاتی تناؤ توجہ طلب ہے۔ یہ پہلا رنگ یعنی سرخ، حد درجہ باطنی ہے۔ اس رنگ کے ساتھ جو تصویریں ابھرتی ہیں وہ باطن کے درد و غم، اضطراب اور بے چینی اور بہت حد تک فن کار کی چیخ کو پیش کرتی ہیں۔ ان کے پس منظر میں زندگی کی شکست و ریخت اور  انفرادی محرومی کا شدید تر احساس موجود ہے۔

صحرا نوردی کے تجربوں سے لاشعور اچانک بیدار ہو جاتا ہے اور یہ احساس عطا کرتا ہے کہ تم اپنے دل میں پھولوں کی ایک ایسی زمین رکھتے ہو جس کا آئین بہار ہے اور جس کا ماحول دل نشیں ہے:

بخاطر دام اینک گل زمینی

بہار آئیں سوادِ دل نشینی

اور آہستہ آہستہ یہ احساس باطن کے نگار خانے میں آتا رہتا ہے۔ گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ اچانک دوسری رنگین موج تیزی سے آ جاتی ہے، دوسرا رنگ ’نیلا‘ اسی شدت سے ’کینوس‘ پر پھیل جاتا ہے۔ بہ ظاہر اس حصے کے تجربے حد درجہ خارجی نظر آتے ہیں، لیکن یہ اتنے ہی باطنی بھی ہیں۔ سرخ رنگ پر آسمانی یا نیلا رنگ چھا جاتا ہے۔ اچانک آہنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔ بحر وہی ہے لیکن شخصیت کا آہنگ چونکہ مختلف ہو جاتا ہے، اس لیے تجربوں کا آہنگ بھی بدل جاتا ہے۔ خوب صورت اور  کومل اور  نازک الفاظ سامنے آتے ہیں، عمدہ کنایے اور  تشبیہیں اور بصیرت افروز تراکیب، غم کی لہروں کو حسرت اور  تحیر کی لہریں جذب کر لیتی ہیں، عام قاری کے دل کو بنارس کے جلوے شعری تجربوں میں چھوتے ہیں، لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ سرخ پر آسمانی یا نیلے رنگ کی لہریں فن کار کی روح کی گہرائیوں کے جلوؤں کو پیش کرنے لگتے ہیں :

بنارس را کسے گفتا کہ چین ست

ہنوز از گنگ چینش بر جبین ست

تناسخ مشرباں چوں لب کشایند

بہ کیشِ خویش کاشی راستایند

کہ ہر کس کاندراں گلشن بمیرد

دگر پیوند جسمانی نگیرد

چمن سرمایۂ  امید گردد

بہ مردن زندۂ  جاوید گردد

زہے آسودگی بخش روا نہا

کہ داغِ چشم می شوید ز جانہا

شگفتے نیست از آب و ہوایش

کہ تنہا جاں شود اندر فضایش

بیا اے غافل ازکیفیتِ ناز

نگاہے بر پری زادانش انداز

ہمہ جانہائے بے تن کن تماشا

ندارد آب و خاک ایک جلوہ حاشا

نہاد شاں چو بوئے گل گراں نیست

ہمہ جانند جسمے درمیاں نیست

دریں دیرینہ دیرستانِ نیرنگ

بہارش ایمن ست از گردشِ رنگ

شہر بنارس، بہشت و فردوں کی صورت سامنے ہے۔ اس ویر کے سامنے عقیدت سے سر جھک جاتا ہے۔ حسن بنارس سرمستی اور  وجدانی کیفیت کا باعث بنتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے جلوے باطن کے جلوے بن جاتے ہیں۔ اپنے وجود کے حسن، اپنے باطن کے جمال اور اپنی روح کی روشنی کا احساس غیر شعوری طور پر بڑھتا ہے۔ شہر کا جلوہ باطن کا جلوہ ہے اور  باطن کا جلوہ شہر کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے۔ جمیل تر احساسات شعری تجربے بن جاتے ہیں۔ ’پرجکشن‘ کا یہ عمل اپنی پراسراریت اور طلسمی کیفیتوں سے متاثر کراتا ہے۔ مثنوی کے اس حصے میں تحیر کی جمالیات کے جانے کتنے نقش ابھرتے ہیں۔ پراسراریت، طلسمی کیفیت، تجربے کی اجنبیت اور  اس کی تازگی خود شاعر کو اس کا علم نہیں رہتا کہ کس لمحے وہ ’خارج‘ میں ہے اور  کس لمحے باطن میں۔ شہر آرزو کی تصویر بھی سامنے آتی ہے۔ باطن کے جلوے بھی نمایاں ہوتے ہیں اور بنارس کا حسن بھی ظاہر ہوتا ہے۔ شاعر اس شہر کو اپنے وجود کی بہشت کا آئینہ بنا لیتا ہے۔ جلوۂ  تمثال ذات میں گم ہو جاتا ہے اور  اس کی آواز گہرائیوں سے سنائی دیتی ہے۔

بنارس کی تعریف میں وہ اجنبیت (strangeness) ہے جو تحیر کے حسن کا بنیادی جوہر ہے۔ بنارس کی تعریف محبوب کی تعریف ہے۔ حسن کے شدید احساس سے ایسے تجربے سامنے آئے ہیں جن میں ’شہر‘ محبوب بن گیا ہے اور ایک محبوب کا جلوہ جانے کتنے محبوبوں میں نظر آنے لگا ہے۔ سرمستی پیدا ہوتی ہے تو بنارس کی آب و ہوا میں صرف روح ہی روح نظر آتی ہے:

شگفتے نیست از آب و ہوایش

کہ تنہا جاں شود اندر فضایش

غالبؔ کے سومناتِ خیال میں خوب صورتوں اور پیاری پیاری پری زادوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ ان پیاری خوبصورت پری زادوں اور  صورتوں کو اپنے نگار خانے میں سجاتے ہیں۔ اسی طرح کہ جس طرح آزر اپنے بتوں کو سجاتا تھا۔ ان دلکش حسین پیکروں کے تحرک اور  رقص سے اسی طرح لطف اندوز ہوتے ہیں کہ جس طرح آزر اپنے بتوں کے تحرک سے لطف اندوز ہوتا تھا:

بیا اے غافل از کیفیتِ ناز

نگاہے بر پری زادانش انداز

کلام میں تحیر کا حسن ان لمحوں میں زیادہ متاثر کرتا ہے جب ہم جسم سے بے نیاز روحوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ آب و خاک سے بنے ہوئے ایسے پیکروں کا حسن کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ لگتا ہے یہ وہ چہرے اور وہ وجود ہیں کہ جن کا آب و خاک سے کوئی تعلق نہیں ہے:

ہمہ جانہائے بے تن کن تماشا

ندارد آب و خاک ایں جلوہ حاشا

تحیر کا جمال اپنی تازگی لیے اس طرح سامنے آیا ہے کہ ان کی فطرت ایسی ہلکی پھلکی ہے جس طرح پھول کی خوشبو ہوتی ہے۔ شعلۂ  طور جلوہ تھا، ان بتوں کا بدن جلوۂ  طور سے خلق ہوا ہے، جس پیکر کو دیکھئے سر سے پاؤں تلک خدا کا نور ہے۔ جلوے میں ایسی دمک ہے کہ شعلہ سا اٹھنے لگتا ہے۔ ان کے وجود کی تابناکی کی تابش سے آرزو میں تڑپ پیدا ہو جاتی ہے۔ آتشِ شوق بھڑک اٹھتی ہے، یہ خوب رو بت، بت پرست برہمنوں کو بھی جلا ڈالتے ہیں۔ غالبؔ کی حسن پسندی نے حیرت انگیز پیکر سجائے ہیں، مثلاً کہتے ہیں ان کے چہرے گلستاں کی مانند شگفتہ ہیں اور  چہروں کی روشنی سے گنگا کے کنارے چراغاں کی سی کیفیت ہے:

بسامان دو عالم گلستاں رنگ

زتابِ رخ چراغان لب گنگ

تحیر کی جمالیات کی پہچان وہاں بھی ہوتی ہے جب حسینوں کی مستی دیکھ کر موجوں کی مستی خاموش ہو جاتی ہے، پانی مجسم ہو جاتا ہے، پانی جو جسم مل جاتا ہے اور  گنگا اپنی تمنا کے اظہار کے لیے بے تاب اور مضطرب نظر آتی ہے۔ موج کی صورت آغوشیں کھولے ہوئے ہے۔ سیپ کے اندر موتی بے قرار محسوس ہوتا ہے، پانی پانی ہو جاتا ہے۔ بتانِ آزر کی مانند متحرک، سحر انگیزیت سجے ہوئے ہیں۔ تحیر کے حسن کو اس طرح پیش کرنے کے عمل کو ہندوستانی جمالیات میں ’چمتکار‘ بھی کہا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تجربے معجزہ اور  فوق الفطری فضا سے قریب ہونے کے باوجود تحیر کا اپنا حسن رکھتے ہوں۔ بنارس کے اسٹیج پر حسینوں کے جلوؤں کا ایک ڈراما اسٹیج ہوتا ہے جو ’چمتکار‘ کے جادو کو لیے متحرک پیکروں کی حیرت انگیز کیفیتوں کو ذہن پر نقش کر دیتا ہے۔

اس مثنوی کی تیسری اور آخری تصویر یہ ہے کہ شاعر جلوۂ  تمثالِ ذات کے شدید تر احساس کے ساتھ ’جنوں ‘ کو حاصلِ سفر سمجھتا اور  اسی لمحہ اسی جوں میں سرمستی اور  اس سرمستی میں توازن پیدا کرنے کے لیے اپنی ’سائیکی‘ کو متحرک کرتا ہے اور اجتماعی لاشعور سے ’بزرگ دانش مند‘ کا حسی پیکر ابھارتا ہے جو خود اس کی اپنی پرچھائیں اور  اس کے اپنے وجود کا روشن حصہ ہے۔ یہ ’پیکر روشن بیاں ‘ اور  آسمان کی گردش کے راز داں کی صورت جلوہ گر ہوتا ہے۔ ’روشن بیان‘ بنارس کی جانب جو اشارہ کرتا ہے وہ فن کار کے باطن کا اشارہ بن جاتا ہے۔ یہ باطن کے بھی جلوے ہیں جو نظر آرہے ہیں۔ اس کا ہر اشارہ معنی خیز ہے اور  فن کار کی باطنی کیفیتوں کی غمازی کر رہا ہے:

سوئے کاشی باندازِ اشارت

تبسم کرد و گفتا ایں عمارت

کہ حقا نیست صانع را گوارا

کہ از ہم ریزد ایں رنگیں بنارا

بلند افتادہ تمکین بنارس

بود بر اوج او اندیشہ نارس

پہلے حصے میں غم و درد کی تیز لہروں کے ساتھ ٹوٹ کر گر جانے، زمانے کی شکست و ریخت سے وجود کے بکھر جانے کا جو لاشعوری خوف ہے اسے اپنی ذات کی عظمت کا احساس سہارا دیتا ہے:

بخاطر دارم اینک گل زمینے

بہار آئیں سوادِ دل نشینے

 

اور اس کے بعد ’روشن بیاں ‘ باطن کی اس روشنی کی تصدیق کر دیتا ہے، جو بنارس کے خوب صورت پیکروں کے احساس سے باطن میں نظر آتی ہے اور  اس لاشعوری خوف کو اس طرح دور کرتا ہے کہ خدا نہیں چاہتا کہ یہ عمارت ٹوٹ جائے۔ یہ عمارت رنگین ہے، بلند ہے، پُر وقار ہے۔ آخر میں یہ آواز گونجتی ہے، ہوس کو فنا کر دے اور  اپنے نفس کو دل کی آگ سے بے قرار رکھ، عقل و دانش سے کام نہیں نکلتا تو جنوں سے کام لے، جب تک سانس کی ڈور نہیں ٹوٹتی راستہ طے کرنا نہ چھوڑ، شرارے کی مانند فنا ہونے کے لیے اٹھ اور  دامن جھٹک کر آزاد ہو جا، ’لا‘ کو تسلیم کر کے الا کا نعرہ بلند کر، اللہ کا ورد کر اور  ماسوا اللہ کو پھونک ڈال۔

اس مثنوی کا حسن بنیادی طور پر وہی ہے جو کسی بھی اچھی مغل تصویر کا ہے۔ تصویریں بظاہر بکھری ہوئی ہیں لیکن ان میں ایک معنوی ربط ہوتا ہے۔ یہاں بھی تین تصویریں ہیں، تین حصے ہیں، تینوں اپنا رَس اور  اپنا جلوہ رکھتے ہیں۔ بہ ظاہر تینوں تصویریں اپنی علاحدہ حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان میں معنوی ربط موجود ہے۔ جلال و جمال کے تحیر کو جس طرح ابھارا گیا ہے، وہ ایک بڑے تخلیقی فن کار ہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ یہ تین پہلو یا یہ تین تصویریں زندگی کو سمیٹ لیتی ہیں۔ فرد، ذات یا اس کا وجود، اس کی باطنی کیفیات، درد و کرب، اضطراب، ایک تصویر اس طرح ابھرتی ہے، دوسری تصویر جلالِ فرد کے برعکس جمالِ زندگی کی ہے، بنارس کے حسن کا تحیر جمالِ زندگی کی علامت ہے، جلالِ فرد کے تحیر سے جمالِ زندگی کے تحیر تک غالبؔ نے تحیر کی جمالیات کی زندگی اور  اجنبیت کو انتہائی فن کارانہ طور پر احساس سے قریب تر کر دیا ہے۔ آخر میں یعنی تیسری تصویر میں تحیر کا حسن اس طرح نمایاں ہوتا ہے کہ ایک بزرگ دانش مند، روشن بیاں کا پیکر ابھرتا ہے، وجد کے جلال اور  زندگی کے جمال سے آشنا، انتہائی تجربہ کار، یہ تصویر بھی سحر انگیز ہے، یہ روشن بیاں جو وجود ہی کے باطن کا پیکر ہے، جنوں کی تعلیم دیتا ہے، کہتا ہے شرارے کی مانند فنا ہونے کے لیے ہاتھ اور  دامن جھٹک کر آزاد ہو جا، اس آخری حصے میں زندگی کے جمال اور  اس کے تحیر کی ایک اور  ہی انوکھی تصویر سامنے آتی ہے۔ بلاشبہ ’مثنوی چراغِ دیر‘ مرزا غالبؔ کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔

٭٭٭

مرزا غالب کا داستانی مزاج

مرزا غالب ایک تہذیب کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایک بڑی تہذیب کی علامت کے طور پر زندہ ہیں۔ وہ صدیوں کے جمالیاتی اقدار کے سفر کی داستان پیش کرتے ہیں، ان کے ذریعہ ایک بڑی تہذیب کا جمالیاتی شعور حاصل ہوتا ہے، ایک ایسی علامت ہیں کہ جن کی مدد سے ایک بڑی تہذیب اور  ہندوستان کی مٹی پر دو بڑی تہذیبوں کی خوبصورت ترین آمیزشوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ غالب ایک بڑی سچائی کا نام ہے، ایک ہمہ گیر تہذیب کی ایک بڑی علامتی سچائی! ان کے ساتھ تو وہ تہذیب ہی رخصت ہو گئی کہ جس نے ایک ہمہ گیر نظام جمال کی تشکیل کی تھی، ہندوستانی جمالیات کے تسلسل کو قائم رکھا تھا اور  جمالیاتی تجربوں کی خوبصورت آمیزش سے تہذیب کی اعلیٰ اور  افضل ترین اقدار کو دیکھنے کے لیے ایک ’نگاہ‘ بخش دی تھی۔

مرزا غالب کے جمالیاتی شعور اور  ان کے ’وژن‘ میں وسط ایشیا اور  اسلامی ملکوں کی تہذیبی قدروں کی آمیزش کے جمالیاتی تجربوں کے تاریخی سفر اور  تہذیبی مرکزوں کے جمالیاتی تجربوں، ہندوستانی تہذیب اور اسلامی تہذیب کی آمیزش اور  اس کے تہذیبی جلوؤں، ہند مغل جمالیات کی مصوری، نقاشی، صورت گری، موسیقی، رقص اور  فن تعمیر کی جمالیاتی جہتوں، مابعد الطبیعیاتی سطح تک لے جانے والے عوامی نغمہ نگاروں اور  فنکاروں کے تجربوں اور  مغل شعری اسالیب کی جمالیاتی اور  سبک ہندی کی سحر انگیزی یعنی نظیریؔ، عرفیؔ، ظہوریؔ، خسروؔ اور  بیدلؔ، صائبؔاور حزیں ؔ وغیرہ کے اسالیب کی جہتوں کی جو اہمیت ہے اس سے کم ہند مغل جمالیات کے داستانی طلسمات اور  قدیم قصوں، حکایتوں، فسانوں اور  داستانوں کے ذخائر اور  سحر انگیزیوں کی نہیں ہے۔ مرزا غالب کے شعور اور  لاشعور میں ’داستان‘ ایک مستقل روایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی شاعری اور نثری تخلیقات میں داستان کی روایت حد درجہ متحرک ہے۔

’ہند مغل جمالیات‘ میں داستانی فضا، داستانی رومانیت اور  داستانی سحر آفریں واقعات و کردار کی جو اہمیت ہے، ہمیں معلوم ہے۔ سنسکرت اور  پراکرتوں کی کہانیاں اور  عربی اور  فارسی حکایتیں اور  داستانیں اپنی بے پناہ رومانیت کے ساتھ اس جمالیات کے پس منظر میں موجود ہیں۔ ہند مغل جمالیات نے شاعری، مصوری، صورت گری، مجسمہ سازی، فن تعمیر اور  عوامی گیتوں اور نغموں میں داستانیت کو شدت سے جذب کیا ہے، شعری روایات میں داستانی کردار اور ان سے وابستہ حکایات و واقعات ملتے ہیں۔ ہند مغل مصوری نے اکبر کے عہد میں ہندی اور  عجمی داستانوں کے واقعات نقش کیے اور  ’داستانیت‘  ہندمغل مصوری کی روح میں جذب ہو گئی۔ غالبؔ جو ان روشن روایتوں کی علامت تھے، شعوری طور پر بھی ان سے بے خبر نہ تھے۔ انھوں نے جہاں محلوں کی آرائش و زیبائش دیکھی تھی، وہاں قلعوں کی اندرونی دیواروں کی تصویریں بھی دیکھی تھیں۔ جہاں صورت گری اور  مجسمہ سازی کے نمونے دیکھے تھے، وہاں مثنویوں اور  رزمیہ نظموں میں مصوروں کی تصویر کاری کے شاہکار بھی دیکھے تھے۔ جہاں تخیلی قصوں اور  داستانوں کو پڑھا تھا، وہاں مذہبی اور  اخلاقی حکایتوں اور  میدان کربلا کے واقعات اور  قصص الانبیا، قصص القرآن اور  دوسرے مذاہب کی تمثیلوں اور  حکایتوں سے بھی واقف تھے۔ ان عظیم روایات سے ان کا رشتہ تخلیقی نوعیت کا ہے۔ اس تخلیقی رشتے کی بہتر پہچان ان کی تہذیبی شخصیت کی بھی پہچان ہو گی۔

ہندوستان بھی قصوں، کہانیوں اور  داستانوں کا ایک قدیم ملک ہے۔ ہندوستانی ذہن نے اساطیری ماحول میں نت نئی کہانیاں اور  حکایتیں خلق کی ہیں، جس نے کتنے اساطیری کرداروں کو تراشا ہے۔ ہندوستانی حکایتوں اور  قصوں میں جہاں انسان کی بنیادی جبلتوں کا اظہار ہے، وہاں زندگی میں تنظیم پیدا کرنے اور  زندگی کے حسن سے لطف اندوز ہونے اور  مختلف ذہنی سطحوں پر جمالیاتی آسودگی حاصل کرنے کی آرزو بھی ہے۔ جذبات کی عجیب و غریب دنیا ملتی ہے، جہاں رموز و اسرار، تحیر، دہشت، محبت اور  جنس اور  مابعد الطبیعیاتی اور  دینی تجربوں کی انگنت جہتیں ہیں۔ اسی طرح عرب اور ایران بھی قصوں اور کہانیوں کے بڑے ممالک رہے ہیں۔ ان علاقوں میں بھی قصوں اور  کہانیوں کی روایات ماضی کے اندھیروں میں ہیں۔ عربی ذہن اور  عجمی شعور دونوں قصوں کہانیوں کے معاملے میں ہمیشہ شاداب رہے ہیں۔ عرب اور ایران کی کہانیوں اور  داستانوں کی زندہ روایتوں کا طویل سلسلہ رہا ہے۔ عربوں اور ایرانیوں نے ہندوستانی قصوں، کہانیوں اور  حکایتوں کو بھی اپنے ذہنوں و شعور اور  اپنی روایات سے اس طرح جذب کیا ہے کہ ان کی صورتیں بدل گئی ہیں۔ عرب میں داستان گوئی ایک فن کی صورت زندہ رہی ہے۔ ایرانیوں کا فوق الفطری اور  رومانی ذہن بڑا شاداب تھا۔ ۵۵۰ء کے لگ بھگ ’پنج تنتر‘ کے ترجمے ایران میں بے حد مقبول ہوئے اور  انوار سہیلی اور  عیار دانش نے ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ شاہنامہ فردوسی کے کرداروں اور بعض افسانوی قصائص نے بے حد متاثر کیا۔ ’اخلاق محسنی، گلستاں، چہار درویش، سیر حاتم، گل بکاؤلی، گل صنوبر اور  داستان امیر حمزہ نے داستان نگاری کا ایک بڑا دبستان قائم کر دیا۔ عربی اور  فارسی کی مشہور داستانوں، قصوں اور  حکایتوں کے ترجمے اردو زبان میں ہوئے اور  انہیں پورے ملک میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ’الف لیلیٰ‘ نے داستانی خصوصیات کو لوگوں کے احساس اور  جذبات سے ہم آہنگ کر دیا اور  داستانِ امیر حمزہ نے داستان کی ایک عمدہ روایت قائم کر دی۔ عربی اور  فارسی داستانیں، قصے اور  حکایتیں تہذیبی آمیزش کے دور میں بے حد مقبول رہی ہیں اور  دو بڑی تہذیبوں کی خوبصورت آمیزش میں پر اسرار طور پر شریک بھی رہی ہیں۔ ہندوستانی ذہن نے انہیں فوراً قبول کر لیا اور  انہیں بازاروں اور گھروں میں مقبول بنایا۔ ہمیں اس حقیقت کا علم ہے کہ عربی اور  فارسی داستانیں گھروں اور بازاروں میں کس حد تک پسند کی جاتی تھیں۔ اردو نے اس ہمہ گیر تہذیبی آمیزش میں اس طور پر بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کہ ان کے ترجمے ہوئے اور  اردو زبان کے ذریعہ یہ قصے مقبول ہوئے۔ اردو داستان نگاروں اور  کہانی نویسوں نے انہیں پیش کرتے ہوئے اپنے فن کا بھی شدت سے مظاہرہ کیا۔ بعض قصوں کو تہذیبی مزاج کے مطابق ڈھالا۔ ان میں اضافے کیے۔ کرداروں سے دوسرے کئی واقعات اور حادثات وابستہ کر دیے۔ ترمیم و تنسیخ اور اضافوں کا ایک طویل سلسلہ رہا۔ اردو زبان نے اس سلسلے میں بھی بلا شبہ ایک بڑی تہذیبی خدمت انجام دی ہے۔ تہذیبی شعور کی تشکیل اور  اس کی آبیاری میں اس نے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ یہ زبان نہ ہوتی تو داستانوں کا اتنا بڑا سرمایہ ہندوستان میں حاصل نہ ہوتا اور  تہذیبی آمیزش کا ایک بڑا پہلو تشنہ رہ جاتا۔

’داستانی طلسمات اور  قصوں، فسانوں اور  داستانوں کی سحر انگیزی ’ہند مغل جمالیات‘ کا ایک مستقل موضوع ہے۔ہندوستان میں ان کی طویل داستان ہے اور  مختلف ملکوں کی تہذیبی آمیزش سے ان میں انگنت جمالیاتی جہتیں پیدا ہوئی ہیں۔ داستانیت نے اس ملک کے تخلیقی فنکاروں کے شعور اور  لاشعور کو ہمیشہ کسی نہ کسی سطح پر اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ علامتوں، استعاروں، تشبیہوں اور  اشاروں اور  تمثیلوں کی تخلیق میں پُر اسرار حصہ لیا ہے۔ عوامی شعراء کے مزاج کو متاثر کیا ہے۔ مابعد الطبیعیاتی اور  رومانی تصورات میں تازگی پیدا کی ہے۔

مرزا غالبؔ کے عہد تک داستانوں کا ایک بڑا طویل سلسلہ رہا ہے۔ ان کی روایات نے تہذیبی آمیزش میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ ہندوستانی روایات میں داستانوں، قصوں اور  کہانیوں کی روایات نے تہذیبی آمیزشوں کے ساتھ پُراسرار سفر کیا ہے۔ اعلیٰ فنون میں ’روایت‘ نہیں، روایات کام کرتی ہیں۔ ظاہری روایت اور  روایات کی جتنی بھی پہچان ہو جائے، روایات کے باطن میں، انتہائی گہرائیوں میں گزرتی ہوئی روایتوں کی روشنیوں کی پہچان آسان نہیں ہوتی۔ اندر ہی اندر ان کا رشتہ جانے کتنی خوبصورت اور  دلآویز لہروں اور کیفیتوں سے قائم ہو جاتا ہے۔ غالبؔ ایک بڑے شاعر تھے۔ ایک بڑے خلاق ذہن کے مالک۔ شعوری اور  لاشعوری طور پر انہوں نے بر صغیر کی جانے کتنی روایتوں اور ان کے باطن میں گزرنے والی روشن لہروں سے رشتہ قائم رکھا تھا۔ قصوں، فسانوں اور  داستانوں کی عظیم تر روایتوں سے ان کا رشتہ تخلیقی نوعیت کا ہے اور  مطالعہ غالب میں اس تخلیقی رشتے کو نظر انداز کر کے غالب کے خلاق ذہن اور  ان کے ہمہ گیر ’وژن‘ کی دریافت نہیں ہو سکتی۔

غالبؔ کے عہد میں داستانیں بے حد مقبول رہی ہیں۔ عربی اور  فارسی کی داستانیں گھروں میں پڑھی جاتی تھیں۔ اردو کی بعض مختصر داستانیں اور  داستان امیر حمزہ، الف لیلہ اور بوستاں خیال وغیرہ خواص و عوام میں مقبول تھیں۔ منثور اور  منظوم قصوں اور  مثنویوں کو پسند کیا جاتا تھا۔ قدیم شعراء کی مثنویاں اور  نثر نگاروں کی کئی تمثیلیں اور  داستانیں لوگ شوق سے پڑھتے۔ شاہنامہ فردوسی، الف لیلہ، داستان امیر حمزہ وغیرہ کے نسخوں کی مسوری کی بھی دھوم تھی اور  ساتھ ہی ان تصویروں کے چربے بھی اتارے جاتے۔ ان تصویروں نے داستانی رجحان کی تشکیل میں اپنے طور پر بھی ایک نمایاں حصل لیا ہے۔ غدر سے پہلے اور  غدر کے بعد دہلی، لکھنؤ، رام پور، حیدرآباد اور  بنارس وغیرہ میں داستان سنانے والے چھوٹے بڑے درباروں سے وابستہ تھے، اور بعض داستان گویوں کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ شہروں میں داستان گوئی کی مجلسیں منعقد ہوا کرتی تھی۔ داستان گوئی ایک رنگین اور  لطیف فن بن گئی تھی۔ رامائن اور  مہابھارت کے قصے، طوطا کہانی، شکنتلا، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، آرائش محفل، گل صنوبر، کلیلہ و دمنہ کی بعض کہانیاں، نو طرز مرصع، باغ و بہار، الف لیلہ، بوستان خیال، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، جام جمشید، فسانہ عجائب، گلزار سرور، شگوفۂ  محبت، حاتم طائی کے سات سفر کی کہانیاں، الٰہ دین کا چراغ، سند باد جہازی، خلیفہ ہارون رشید، سیف الملوک و بدیع الجمال، سند باد نامے، کل کا گھوڑا، راجہ اندر اور پریاں پری بانو، بغداد کا سوداگر، گل بکاؤلی اور  جانے کتنی کہانیاں اور  داستانیں مقبول تھیں۔ باورچی خانے کی دیوار کا پھٹنا اور نکلنا ایک عورت کا، شہر بغداد کے مزدور کی کہانی، یک چشم قلندر، شہزادی کا عقاب بن جانا، پہاڑ پر پیتل کا گنبد، سند باد جہازی کا سفر، مردم خور سردار، کبڑا دولھا، چین کی شہزادی، شاہ جنات کی کہانی، سوتے جاگتے کا قصہ، علی بابا اور  مرجینا، عمر و عیار اور  ان کی زنبیل، ملکہ مہر نگار، امیر حمزہ کو لے جانا کوہ قاف میں اور  وہاں پُر اسرار تجربوں سے دوچار ہونا وغیرہ ایسے داستانی واقعات تھے جن سے لوگ واقف تھے۔ عام گفتگو میں بھی ان کے حوالوں اور اشاروں سے کام لیتے تھے۔ بار بار سنی ہوئی کہانیوں کو بھی دوسروں سے بخوشی اور  لگن کے ساتھ سنتے اور  مسرور ہوتے۔ عام بول چال میں داستانی محاوروں اور  ترکیبوں کا استعمال ہوتا۔داستانیت اس دور کے تہذیبی مزاج کا ایک تابناک پہلو بنی ہوئی تھی۔ اس عہد کے تہذیبی مزاج و شعور کا مطالعہ کرتے ہوئے اس تابناک پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

مرزا غالب کا فعال شعور ان عظیم روایات اور  ان کے تحرک سے ایک مستحکم باطنی رشتہ قائم کرتا ہے۔ داستانوں، قصوں اور  کہانیوں اور  ان کی تصویروں سے فنکار کا شعوری اور غیر شعوری رشتہ غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ غالبؔ جو اس تہذیب کی علامت تھے، اپنے تہذیبی شعور کو اس تابناک حیثیت کے ساتھ بھی نمایاں کرتے ہیں۔

فارسی شعراء کے مصور دواوین اور  قلمی نسخوں اور ایران اور  وسط ایشیا کے فنکاروں کے داستانی رجحان سے ان کا رشتہ تخلیقی نوعیت کا تھا۔ انہوں نے اس عظیم سرمائے کا رس حاصل کیا تھا۔ ہند مغل فنکاروں کی تصویروں میں ان داستانوں کے حسن کے جلوے دیکھے تھے۔ داستانوں اور  قصوں کے عاشق تھے، لہٰذا ان روایات سے بھی ان کا ایک غیر معمولی تخلیقی رشتہ قائم ہوا ہے۔ ان کے عہد میں داستان امیر حمزہ، الف لیلہ اور  بوستان خیال وغیرہ مقبول تھیں اور  یہ داستانیں غالب کے زیر مطالعہ رہی ہیں۔

’ذکر غالب‘ میں جناب مالک رام نے تحریر فرمایا ہے:

 ’’انہیں قصے کہانی کی کتاب سے بھی دلچسپی تھی، جن دنوں داستان امیر حمزہ اور  بوستان خیال، ان کے مطالعے میں تھیں، بہت خوش تھے‘‘ ۔            (۲۶۱)

سید وقار عظیم نے لکھا ہے:

 ’’داستان سے غالب کی جو گہری دلچسپی تھی، اس کا اظہار اول تو گلزار سرور اور  ’بوستان خیال‘ کے دیباچوں سے ہوتا ہے اور  دوسرے اس مزیدار خط سے جو انہوں نے میر مہدی مجروح کو لکھا تھا‘‘ ۔ (ہماری داستانیں : ص۱۹)

غالبؔ، میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں :

 ’’مولانا غالب علیہ الرحمہ ان دنوں میں بہت خوش ہیں۔ پچاس ساٹھ جزو کی کتاب  ’’امیر حمزہ کی داستان‘‘  کی اور  اسی قدر حجم کی ایک جلد ’بوستان خیال‘ کی آ گئی ہے۔ سترہ بوتلیں بادۂ  ناب کی توشک خانے میں موجود ہیں۔ دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں، رات بھر شراب پیا کرتے ہیں :

کسے کیں مرادش میسر بود

اگر جم نہ باشد سکند بود‘‘

(اردوئے معلیٰ، ص ۱۲۴، ۱۸۶۱ء)

حدایق انظار کے دیباچے میں یہ جملے توجہ طلب ہیں :

 ’’افسانہ و داستان میں وہ کچھ سنو کہ کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو نہ سنا ہو!‘‘

 ’’داستان طرازی، من جملہ فنون سخن ہے، سچ یہ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے‘‘ ۔

 ’’ہر چند خرد مند بیدار مغز تواریخ کی طرف بالطبع مائل ہوں گے لیکن قصہ کہانی ذوق بخشی و نشاط انگیزی کے بھی دل سے قائل ہوں گے‘‘ ۔ (عود ہندی ص ۱۸۲۔۱۸۳)

جناب مالک رام تحریر فرماتے ہیں :

 ’’…یہ شوق اس حد تک تھا کہ کبھی کبھی وہ گھر پر داستان گوئی کا سلسلہ بھی شروع کروا دیتے تھے۔ ان دنوں دوست احباب کا مجمع رہتا، یوں ان کا شوق بھی پورا ہو جاتا اور  گھڑی دو گھڑی دوستوں کے جمع ہو جانے سے رونق بھی ہو جاتی۔ اسی طرح کی داستان گوئی کسی زمانے میں جمعرات اور  جمعہ کو، ہفتے میں دو دن ان کے مکان پر ہوتی تھی۔ اس کی اطلاع سالکؔ کو ایک خط میں دیتے ہیں :

 ’’گھر میں تمہارے سب طرح خیر و عافیت ہے، محمد مرزا پنج شنبہ اور  جمعہ کو داستان کے وقت آ جاتا ہے، میں نے ان سے بھی فیض پایا ہے۔ بہت سے اشارات، تلمیحات اور  کردار و واقعات کو داستان نگاروں نے اپنا لیا ہے اور  انہیں داستانی رنگوں میں پیش کیا ہے۔ مذہبی جنگوں میں حصہ لینے والے جانے کتنے سورماؤں کے واقعات کو داستانی صورت دے کر انہیں یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ مذاہب کی تمثیلوں اور  حکایتوں کی روشنی لی ہے۔ اشاروں، علامتوں، تلمیحوں، نیم تاریخی اور  فرضی کرداروں اور  شخصیتوں سے غالب کی ذہنی وابستگی ایک بڑے رومانی فنکار کی وابستگی ہے۔ روایات اور  داستانوں سے انہوں نے کہاں کیا حاصل کیا، یہ بتانا ناممکن ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مختلف مذاہب کی تمثیلوں، تلمیحوں اور  روایتی واقعات سے رشتہ قائم ہونے کا ایک بڑا ذریعہ داستانیں بھی ہیں۔ غالب کے فعال لاشعور اور  شعور اور  ان کی صناعی نے ایک ایسی عظیم روایت کا جوہر عطا کیا ہے، جس نے تہذیبی شعور کی تشکیل میں حصہ لیا تھا اور  جس کی وجہ سے خود غالب کے ذہن کا ایک دریچہ کھلا تھا۔ انہوں نے اپنے خلاقانہ ذہن سے اپنی تخلیق میں اس روایت کی روشنی حاصل کی تھی اور  خود اس بڑے تہذیبی شعور کی علامت بن گئے تھے، ہم ان کے ذریعہ بھی اس روایت کی اعلیٰ ترین روشنی اور  اس کے دور رس اثرات تک پہنچتے ہیں۔

’مکاتیب غالب‘ میں ایک ایسے داستان گو کا ذہن ملتا ہے، جس کی اپنی امتیازی خصوصیات ہیں۔ ’داستانیت‘ کا حسن ایک نئے انداز سے متاثر کرتا ہے۔ مکاتیب غالب ایک اہم ترین داستان گو اور  داستان نگار ہے۔ ان کا افسانوی رجحان فوراً توجہ طلب بن جاتا ہے۔ دنیا جہان کی باتیں سنانے والا ایک داستان نگار یا داستان گو، توجہ کا مرکز بنتا ہے اور  ہم اس کے اسلوب میں داستانی لب ولہجہ کو پاتے ہوئے ان کے افسانوی رجحان کو پا لیتے ہیں۔ داستانی روایات کے گہرے اثرات قبول کرتے ہوئے غالب اپنے مکاتیب میں اپنے عہد کے ایک ایسے ممتاز داستان نگار کی صورت میں بھی ملتے ہیں، جو تفصیل اور اختصار، منظر کشی اور جزئیات نگاری کے ساتھ نکتہ آفرینی کو بھی اہم سمجھتا ہے۔ اس داستان نگار کی نکتہ آفرینی کی غفلت، واقعات کے آفاقی پہلوؤں میں نمایاں ہے۔ غالب نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا کہ مراسلہ کو داستانی خصوصیتیں بھی عطا کر دیں اور ایسے مکالمے تحریر کیے کہ ہم داستانی فضاؤں کو محسوس کرنے لگے۔ ہجر میں وصال کے مزے اس طرح بھی ملے ہیں۔

ایک منظر اس طرح پیش ہوا ہے:

 ’’…۲۱ واں دن ہے، آفتاب اس طرح نظر آتا ہے، جس طرح بجلی چمک جاتی ہے، رات کو اگر کبھی کبھی تارے دکھائی دیتے ہیں تو لوگ ان کو جگنو سمجھنے لگتے ہیں، اندھیری راتوں میں چوروں کی بن آئی ہے، کوئی دن نہیں کہ دو چار گھر کی چوری کا حال نہ سنا جائے، مبالغہ نہ سمجھنا، ہزارہا مکانات گر گئے، سیکڑوں آدمی جا بجا دب کر مر گئے، گلی گلی ندی بہہ رہی ہے۔ پانی نہ برسا، اناج نہ پیدا ہوا‘‘ ۔

دوسرا منظر دیکھئے:

 ’’…خود کالے میاں صاحب مغفور کا گھر اس طرح تباہ ہ وا کہ جیسے جھاڑو پھیر دی۔ کاغذ کا پرزہ، سونے کا تار، پشمینہ کا بال باقی نہ رہا، شیخ کلیم اللہ جہان آبادی کا مقبرہ اجڑ گیا، ایک اچھے گاؤں کی آبادی تھی، ان کی اولاد کے لوگ تمام اس موضع میں سکونت پذیر تھے، اب ایک جنگل ہے اور میدان میں قبر، اس کے سوا کچھ باقی نہیں، وہاں کے رہنے والے اگر گولی سے بچے ہوں گے تو خدا ہی جانتا ہو گا کہ کہاں ہیں ‘‘ ۔

ایک المناک منظر یہ بھی ہے:

 ’’پانچ لشکر کا حملہ پے در پے اس شہر پر ہوا، پہلا باغیوں کا لشکر، اس میں شہر کا اعتبار لٹا، دوسرا خاکیوں کا، اس میں جان و مال و ناموس و مکان و مکیں و آسمان و زمیں و آثار ہستی سراسر لٹ گئے، تیسرا لشکر کمال کا، اس میں ہزارہا آدمی بھوکے مرے، چوتھا لشکر ہیضے کا، اس میں ہزارہا آدمی پیٹ بھر مرے، پانچواں لشکر تپ کا اس میں تاب و طاقت نہ پائی، اب تک اس لشکر نے شہر سے کوچ نہیں کیا‘‘ ۔

یہ غالب کا منفرد داستانی انداز اور  لب و لہجہ ہے۔ داستان اس طرح سناتے ہیں اور  زندگی کی المناکی کو محسوس بناتے ہیں۔ نئی داستانیت کے موجود کا اندازہ ملاحظہ فرمائیے:

 ’’قاری کا کنواں بند ہو گیا۔ لال ڈگی کے کنویں یک قلم کھاری ہو گئے، خیر کھاری ہی پانی پیتے، گرم پانی نکلتا ہے، پرسوں میں سوار ہو کر کنویں کا حال دریافت کرنے گیا تھا، مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازے تک بے مبالغہ ایک صحرائے لق و دق ہے، اینٹوں کے ڈھیر جوپڑے ہیں اگر اٹھ جائیں تو ہُو کا مکان ہو جائے۔ مرزا گوہر کے باغیچے کے اس طرح کو کئی بانس نشیب تھا، اب وہ باغیچہ کے صحن کے برابر ہو گیا یہاں تک کہ راج گھاٹ کا دروازہ بند ہو گیا، فصیل کے کنگورے کھلے رہے ہیں، باقی سب لٹ گیا ہے۔ کشمیری دروازے کا حال تم دیکھ گئے ہو، اب آہنی سڑک کے واسطے کلکتہ دروازے سے کابلی دروازے تک میدان ہو گیا۔ پنجابی کٹرہ، دھوبی کٹرہ، رامجی گنج، سعادت خاں کا کٹرہ، جرنیل کی بیوی کی حویلی، رامجی داس گودام رضوان ہر شب کو آتا ہے‘‘  (اردوئے معلی ۲۳۷)

 ’’یہ اسی مطالعے اور  شوق کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے نواب کلب علی خاں کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا جس کی تشبیب اور  مدح میں حمزہ اور  اس کی اولاد اور  اس کے دوسرے افراد کا ذکر کیا ہے‘‘ ۔ (ذکر غالب ص ۲۶۲)

بنارس کے مہاراجہ کی فرمائش پر مرزا رجب علی بیگ سرور نے ملا رضی کے  ’’حقائق العشاق‘‘  (فارسی) کو گلزار سرور کے نام سے اردو میں پیش کیا تو غالبؔ نے اپنی تقریظ میں سرور کے اسلوب بیان کی تعریف کرتے ہوئے داستانی رنگ پیدا کر دیا ہے۔ اس تقریظ کو لکھتے ہوئے خود ان کا اپنا ذہن ایک داستان نگار کا نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ داستانیت میں جذب ہو گئے ہیں۔

ہمیں اس کی بھی خبر ہے کہ مرزا کے بھتیجے خواجہ امان دہلوی نے  ’’بوستان خیال‘‘  کے چھ حصوں کا ترجمہ  ’’حدائق انظار‘‘  کے نام سے کیا تھا اور  غالب نے دیباچہ لکھا تھا۔ تیسری اور  چوتھی جلد کا ترجمہ پہلے کیا اور  پھر باقی جلدوں کے ترجمے کیے، آخری حصے کا ترجمہ کر رہے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا اور  ان کے بیٹے قمر الدین خاں راقم نے اسے مکمل کیا۔ منشی نول کشور نے  ’’بوستان خیال‘‘  کا ترجمہ کرا کر علاحدہ شائع کیا تھا۔ غالب کے اس دیباچے سے بھی داستانوں سے ان کی گہری دلچسپی اور  وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔

’بوستان خیال‘ سے غالب کو طلسمات کی ایک کائنات حاصل ہوئی تھی، جو ان کے مزاج سے قریب تھی۔ طلسمی روح، طلسمی خط، اور  شاہنامۂ  خورشیدی، وغیرہ سے ان کا ذہن جتنا متاثر ہوا ہو گا اس کا اندازہ ہم لفظ ’طلسم‘ اور  ’طلسم‘ سے وابستہ تصورات اور  خیالات اور  تراکیب سے بخوبی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ’داستان امیر حمزہ‘ نے غالب کے ذہن و شعور کو متاثر کیا ہے۔ غالب نے اس طویل داستان میں جلوۂ  صد رنگ اور  طلسمات کی ایک کائنات دیکھی ہو گی۔ انہوں نے داستانوں سے جتنا بھی دل بہلایا ہو، حقیقت یہ ہے کہ داستانیت ان کے مزاج کا ایک حصہ بنی ہے۔ انہوں نے اپنی ’فینتاسی‘ اور  اپنے شعری تجربوں میں داستانیت کو شعوری اور  لاشعوری طور پر جذب کیا ہے۔ غالبیات میں داستانیت ایک مستقل زندہ متحرک رومانی اور  جمالیاتی روایت بھی ہے اور ایک منفرد مزاج بھی۔

غالب کے دور میں ’قصص القرآن‘ اور  ’قصص الانبیا‘ وغیرہ بھی بہت مقبول تھے۔ داستانوں والے کے مکانات، صاحب رام کا باغ اور  حویلی، ان میں کسی کا پتہ نہیں چلتا۔ قصہ مختصر شہر ایک صحرا ہو گیا ابجو کنویں جاتے رہے اور  پانی گوہر نایاب ہو گیا تو یہ صحرا، صحرائے کربلا ہو جائے گا۔

ڈرامائی منظر نگاری، داستانوں کی ایک بڑی خصوصیت رہی ہے۔ مکاتیب غالب میں جو داستانی مزاج ملتا ہے، وہ ڈرامائی منظر نگاری پسند کرتا ہے اور  ڈرامائی مناظر کو حد درجہ محسوس بنا دیتا ہے۔ واقعات المیہ ہوں اور  کردار ٹریجڈی سے دوچار ہوں تو داستانیت کا جوہر اور  توجہ طلب بن جاتا ہے۔ مثلاً:

 ’’…بڑے زور کی آندھی آئی، پھر خوب مینھ برسا، وہ جاڑہ پڑا کہ شہر کرۂ  زم ہریر بن گیا۔ بڑے دریبہ کا دروازہ ڈھا گیا، قابل عطار کے کوچے کا بقیہ مٹا گیا، کشمیری کٹرے کی مسجد زمین کا پیوند ہو گئی، سڑک کی وسعت دو چند ہو گئی‘‘ ۔  (۲۶  مئی ۱۸۶۵)

یا

 ’’… عالم بیگ خان کے کٹرے کی طرف کا دروازہ گر گیا، مسجد کی طرف کے دالان کو جاتے ہوئے جو دروازہ تھا گر گیا، سیڑھیاں گرا چاہتی ہیں، صبح کے بیٹھنے کا حجرہ جھک رہا ہے، چھتیں چھلنی ہو گئی ہیں، مینھ گھڑی بھر برسے تو چھت گھنٹہ بھر بسے‘‘ ۔ (۱۶ستمبر ۱۸۶۴)

یہ کسی داستان سے وابستہ کوئی تصویر یا تفصیل کا کوئی حصہ لگتا ہے۔ عالم بیگ خان جیسے اس قصے کا کوئی کردار ہو اور  کہانی میں اس کے دروازے کا گرنا غیر معمولی بات نظر آئے۔ پوری فضا شدید بارش سے متاثر ہوئی ہے۔ چھت کے ٹوٹنے کا امکان دل میں وسوسے پیدا کرنے لگتا ہے۔ کسی غریب مفلوک الحال کردار کا مکان کہیں گر نہ جائے، کہانی سننے والے کی ساری ہمدردی اس شخص سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ مرزا غالب اپنے ایک خط میں جہاں یہ کہتے ہیں :

 ’’سون عالم دو ہیں، ایک عالم ارواح اور  ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے… ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں، لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہ گار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں ‘‘ ۔

تو لگتا ہے جیسے یہ کسی داستان کی ابتداء ہے جس سے نفس داستان کے اشارے مل رہے ہیں۔

جون ۱۸۶۱ء کا ایک مشہور خط ہے:

 ’’… تیرہ برس حوالات میں رہا… میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور  دلّی شہر کو زنداں مقرر کیا اور  مجھے زنداں میں ڈال دیا… برسوں کے بعد جیل میں خانہ سے بھاگا۔ تین برس بلاد شرقیہ پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور  پھر اسی مجلس میں بیٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے، دو ہتھکڑیاں اور  بڑھا دیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار، مشقت مقرری اور  مشکل ہو گئی۔ طاقت یک قلم زائل ہو گئی…سال گزشتہ بیڑی کو زاویۂ  زندانی میں چھوڑ کر مع دو ہتھکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مرادآباد ہوتا ہوا رام پور پہنچا۔ کچھ دن دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑ آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں کیا، بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی ہے۔ حکم رہائی دیکھئے کب صادر ہو… بہر تقدیر بعد رہائی کے تو آدمی سوائے اپنے گھر کے اور  کہیں مل جاتا، میں بھی بعد نجات سیدھا عالم ارواح کو چلا جاؤں گا‘‘۔

غالب کو تھوڑی دیر کے لیے علاحدہ کر دیجئے اور جن حالات کا ذکر ہے، انہیں نظر انداز کر دیجئے تو محسوس ہوتا ہے کہ داستان کا کوئی اہم کردار دشمنوں کے ہاتھوں اپنی گرفتاری، اپنے فرار ہونے اور پھر اپنی گرفتاری کے واقعات سنا رہا ہے۔ دشمنوں کے نرغے میں تین بار پھنسا اور  دو بار فرار ہوا، اور  اب اتنا نحیف اور  کمزور ہو گیا ہے اور  بار بار کی گرفتاری سے اتنا ٹوٹ گیا ہے کہ موت ہی میں راہ نجات نظر آ رہی ہے۔ ایک خوبصورت فارسی شعر :

فراخ آں روز کہ از خانہ زنداں بردم

سوی شہر ازیں داری، ویران بردم

غالب نے اس فارسی سے اپنی موجودہ ذہنی کیفیت کو اس طرح واضح کر کے سکون پایا ہے کہ وہ دن کتنا مبارک ہو گا، جب میں زنداں سے نکل جاؤں گا اور  ویران وادی سے اپنے شہر کی طرف روانہ ہو جاؤں گا۔

ایک ڈرامائی منظر کو اگر ہم اس طرح دیکھیں، سلطان وقت کے خلاف بغاوت ہوئی ہے۔ بادشاہ نظر بند ہے، سارے شہر میں بے چینی سی ہے۔ باغیوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک ہوشیار اور  چالاک باغی نے بغاوت میں شریک ہونے کے باوجود خود کو بچائے رکھا ہے۔ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر میں دبکا بیٹھا ہے اور اپنے کسی ساتھی سے سرگوشیاں کر رہا ہے۔

 ’’…میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی لہٰذا طلبی نہیں ہوئی ورنہ بڑے بڑے جاگیردار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آتے ہیں، میری کیا حقیقت تھی۔ غرض اپنے مکان میں بیٹھا ہوں، دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور  کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے، رہا یہ کہ کوئی پاس آوے، شہر میں ہے کون؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے ہیں جرنیلی بندوبست‘‘ ۔ (۵ ستمبر ۱۸۵۷ئ)

غالب نے اپنی زندگی اور  اپنے تجربوں سے مکاتیب میں جن چند اہم باتوں کا ذکر کیا ہے، انہیں میں نے اپنی کتاب  ’’مرزا غالب اور  ہند مغل جمالیات‘‘  میں سند باد جہازی اور ایک ضعیف شخص کے مکالموں میں پیش کیا ہے۔ غالب کا ہر بیان داستان کا ایک حصہ نظر آنے لگا ہے۔ سند باد جہازی کے کردار کے ساتھ جزیرے پر پڑے ایک ضعیف نڈھال شخص کی باتیں سند باد کے سفر کی داستانوں کا حصہ بن گئی ہیں۔ مثلاً وہ ضعیف شخص سند باد سے گویا ہوتا ہے:

 ’’…آدمی ہوں، دیو نہیں، بھوت نہیں، ان رنجوں کا تحمل کیونکر کروں ؟ بڑھاپا، ضعیف قویٰ اب بولو دیکھو تو جانو میرا کیا رنگ ہے، شاید کوئی دو چار گھڑی بیٹھتا ہوں ورنہ پڑا رہتا ہوں، گویا صاحب فراش ہوں، نہ کہیں جانے کا ٹھکانا، نہ کوئی میرے پاس آنے والا، وہ عرق جو بقدر طاقت بنائے رکھتا تھا، اب میسر نہیں …‘‘ ۔ (۲۸ نومبر ۱۸۵۹)

 ’’…برس دن میں اوجاع (دکھ تکلیف) سہتے سہتے روح تحلیل ہو گئی۔ نشست و برخواست کی طاقت نہ رہی اور  پھوڑے تو خیر، مگر دونوں پنڈلیوں میں ہڈیوں کے قریب دو پھوڑے ہیں۔ کھڑا ہوا اور  ہڈیاں چرچرانے لگیں اور  رگیں پھٹنے لگیں۔ بائیں پانو پر کیفِ پا سے جہاں پھوڑا ہے، پنڈلی تک ورم ہے، رات دن پڑا رہتا ہوں ‘‘ ۔ (۱۸۶۲)

جب سند باد پوچھا کہ کیا تم اٹھ نہیں سکتے تو جواب ملا:

 ’’ناتواں دست ہوں، حواس کھو بیٹھا، حافظہ کو رو بیٹھا، اگر اٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اٹھتا ہوں کہ جتنی دیر میں قد آدم دیواراٹھے‘‘ ۔(۱۵ فروری ۱۸۶۴ء)

سند باد اس شخص کو غور سے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کتنا خوبصورت شخص ہو گا یہ شخص اپنی جوانی میں ؟ وہ ضعیف دل کی کیفیت بھانپ کر بولا:

 ’’…تمہارا حلیہ دیکھ کر تمہارے کشیدہ قامت ہونے پر مجھ کو رشک نہ آیا۔ کس واسطے کہ میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے۔ تمہارے گندمی رنگ پر رشک نہ آیا، کس واسطے کہ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چمپئی تھا اور  دیدہ ور لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے، اب جب کبھی مجھ کو وہ اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے‘‘ ۔ (۱۸۵۹ء)

۱۸۵۷ء کے واقعات اور  تجربات… اور خود ان کی اپنی زندگی اور  ان کی ذات، مکاتیب کے بنیادی موضوعات کہے جا سکتے ہیں اور  یہ کم نہ تھے، واقعات کا مشاہدہ کرنے والے وہ خود تھے، اس لیے وہ خود اس کے مرکزی کردار ہیں۔ ان کی نئی داستانیت نے ان مشاہدوں کو ایک ہمہ گیر اور  تہہ دار شخصیت کے ساتھ جذب کیا ہے۔ جمالیاتی داستانی رجحان کے لیے یہ موضوعات بڑے اہم تھے، چونکہ داستان نگار خود اس داستان کا مرکزی کردار تھا اور  ذات اور  سماجی واقعات کی ایک وحدت قائم تھی، اس لیے یہ نئی داستان اور  زیادہ جاذب نظر بن گئی۔

۱۸۵۷ء کے واقعات کے تعلق  سے جو خط ہیں، وہ نئی داستانیت کے مختلف پہلو ہیں۔ الفاظ، احساسِ غم و اندوہ سے پھوٹے ہیں اور  ساتھ ہی اس احساس کے مرہم بن گئے ہیں۔ ہر بیان میں درد گہرا ہے۔ اظہار کا انوکھا پن درد کی گہرائی کا احساس دیتا جاتا ہے۔ ہر نقش عہد کی تلخیوں کو لیے ہوئے ہے۔ رزم و بزم کے معرکے نہیں ہیں، ایسے عبرتناک اور حیرت انگیز مرقعے ہیں کہ جن کا تصور اس دور میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کوئی خضر ہے اور نہ دستگیر، کوئی اس اعظم ہے نہ کوئی تعویذ، زمانے کی شکست و ریخت میں ایک داستاں گو اپنی ذات اور  اپنے عہد کے تجربوں کو لیے سحر و تسخیر کی ایک ایسی داستان سنا رہا ہے، جو نہ کبھی سنی گئی اور نہ لکھی گئی۔ یہ طلسمات کی نئی سیر ہے، نئے جادوگر اور  دیو پسِ پردہ عمل کر رہے ہیں اور  مظلوم اسی طرح مٹ رہے ہیں، جیسے پھر کبھی ان کا کوئی نقش نہیں ابھرے گا۔ زخموں کا چراغ ہے جو ذات سے معاشرے تک روشن ہے اور  یہ اسی چراغ کی داستان ہے۔ ’حلقۂ  یک بزم‘ کا ماتم تاریخی اور  تہذیبی اقدار کے المیے کی معنویت طرح طرح سے ابھارتا ہے۔ ’حیرت تپیدن ہا‘ اور  ’خوں بہائے دیدن ہا‘ سے یہ داستان نئی داستان بنی ہے۔ عالم طلسم شہر خموشاں کے یہ نئے مناظر فنکار غالب کے کرشمے ہیں۔ یہ داستانی استعارے ہیں جو خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں واقعات کی جانب اشارے کر رہے ہیں۔ لفظوں کا تاثر ان کے آہنگ میں پوشیدہ ہے۔ چہروں کی دھندلی پرچھائیاں سرگوشیاں کرتی ہیں۔ ایکالمناک لمحے میں کئی المناک لمحے بہ یک وقت یکجا ہو گئے ہیں، کوئی بڑا آئینہ ٹوٹا ہے اور  اس کے ٹکڑے بکھر گئے ہیں، انہیں جوڑ دیجئے تو عہد کی داستان ایک ساتھ جانے کتنے عکس کو ایک دوسرے میں پیوست کرے گی۔ داستان نگار کا وجود پھیلتا ہے اور ایک وسیع تر وجود کا احساس عطا کرنے لگتا ہے۔ تجربے اور  خاموشی دونوں کے آہنگ سے یہ آواز جنم لیتی ہے جو قاری کے حواس پر چھانے لگتی ہے۔

غالب کی دیو مالا میں فینتاسی (Fantasy) کو نمایاں حیثیت حامل ہے۔ اس ’فینتاسی‘ کی آبیاری میں داستانیت اور  داستانی مزاج نے یقیناً بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ ’امیجری‘ کی ایسی تخلیقی صورتیں بر صغیر کے کسی فنکار کے آرٹ میں موجود نہیں ہیں۔ پیکر اور  ’امیجری‘ کی یہ کائنات نفسی تجربوں کی دین ہے۔ سائیکک فینومینا (Psychic Phenomena) کی صورت جمالیاتی بن گئی ہے۔ غالب کی داستانیت کلاسیکی رموز اور آہنگ سے متاثر کرتی ہے۔ ان کی تہذیبی شخصیت کی تشکیل میں تہذیب کی داستانیت نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان تخلیقی پیکروں کے پس پردہ اساطیری داستانی رجحان بھی حد درجہ متحرک ہے اور  تخلیقی عمل سے حسّی تجربے بے حد درجہ جمالیاتی بن گئے ہیں، یہ پیکر فنکار کے تخلیقی وجدان، اس کے عرفان اور  اس کی آگہی کے خوبصورت ترین آئینے ہیں۔ داستانیت نے تغزل میں جان پرور کیفیتیں پیدا کی ہیں۔ شعری اسلوب کو پُر وقار اور  دلنشیں بنایا ہے۔ فضا آفرینی کو طلسمات سے آشنا کیا ہے۔ محبوب کے ذکر سے اس کے خوبصورت لب شراب کے پیالے پر اُبھرتے ہیں۔ مہندی لگے ہاتھ دیکھ کر گل، پروانے کی طرح رقص کرنے لگتا ہے۔ آگ دست چنار میں حنا نظر آتی ہے، دھوئیں کی طرح نگاہیں حلقۂ  زلف میں جمع ہوتی ہیں۔ شام خیالِ زلف سے صبح طلوع ہوتی ہے، دشت کا ہر بگولہ شراب کا پیالہ بن جاتا ہے۔

شیریں کی سیہ زلف کو سانپ کہہ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن جادوگری یہ ہے کہ اس کا مارا ہوا دفن ہو جاتا ہے تو پورا پہاڑ سبز ے کی شدت سے سبز ہو جاتا ہے اور  زمرد کا مزار بن جاتا ہے۔ حلقۂ  زنجیر میں نگاہیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آسمان عقد ثریا کا آئینہ توڑتا ہے، ساری دنیا طلسم شہر خموشاں بن جاتی ہے، حلقۂ  گرداب شعلۂ  جوالہ بن جاتا ہے، داغوں کا سلسلہ چراغوں کا سلسلہ بن جاتا ہے، محبوب کی خوبصورت کلائیوں کو دیکھ کر شاخِ گل جلنے لگتی ہے، ایک نقش پا کے اندر پورا صحرا سماجاتا ہے، آنسو کا ہر قطرہ حلقۂ  زنجیر بن جاتا ہے، عکس رُخ یار سے آئینہ پگھلنے لگتا ہے، آبلوں میں آنکھیں پیدا ہو جاتی ہیں، آگ شعلوں کے پیکروں کے سہارے اڑتی ہے اور  پروانے کی طرح جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ سمندر شعلوں کا سمندر بن جاتا ہے، تیزی رفتار سے گھبرا کر صحرا کی زمین صحرا چھوڑ کر بھاگتی ہے، چاند، آفتاب کے ہاتھ میں کاسۂ  گدائی نظر آتا ہے، شرر و شعلہ کے بغیر انسان جلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ یہ غالب کی دیو مالا ہے۔ ’امیجری‘ کی وہ کائنات جو داستانیت کے تحیر اور  اس کی ’فینتاسی‘ سے تخلیقی رشتہ رکھتی ہے۔ تجربوں کو معنی خیز اور  تہہ دار اور  شعری اسلوب کو پُر وقار اور  دلنشیں بنانے میں داستانی مزاج نے بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ غالب نے دنیا اور پوری زندگی کو ’داستانوں کے طلسم‘ کی طرح محسوس کیا ہے۔

عالم طلسم شہر خموشاں ہے سر بہ سر

یا میں غریب کشور بود و نبود تھا

داستانوں کے طلسمی شہروں میں جس طرح باغ، پہاڑ، پُر اسرار قلعے اور  لعل و گوہر سے چمکتی ہوئی دیواریں دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو جاتی ہیں اور  اچانک محسوس ہوتا ہے جیسے طلسمی شہر گم ہو گیا ہے، اچانک ایک شہر خموشاں نگاہوں کے سامنے ہے، اسی طرح اس عالم میں دیکھتے ہی دیکھتے اشیاء و عناصر گم ہو جاتے ہیں۔ اس فریب افسوں اور  فریب تماشا کو کیا کیجئے کہ یہ پتہ نہیں چلتا یہ سب کہا ں چلے جاتے ہیں، ابھی جلوہ تمثال ہوتا ہے اور  دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو جاتا ہے۔ انسان صحرائے تحیر میں حیرت آئینہ بن جاتا ہے۔ ایسی طلسمی کیفیتوں کا نتیجہ صرف مایوسی اور  حسرت۔ جلوۂ  گل کو جب سمیٹ لیا جاتا ہے اور  تمام اشیاء و عناصر گم ہو جاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے، ابھی ابھی ان سے جو رشتہ تھا اب نہیں ہے، ذہن اس سوال سے پریشان ہو جاتا ہے کہ واقعی ان سے کوئی رشتہ تھا؟ داستانی رجحان سے ایک جمالیاتی تجربہ خلق ہوا ہے، جس سے نقشہائے دلفریب اور  ’طلسم دہر‘ کے ساتھ ’فضائے حیرت آباد تمنا‘ کے جمالیاتی تاثرات حاصل ہوتے ہیں۔

فوق الفطری کرداروں میں غالب نے ’پری‘ کو پسند کیا ہے۔ محبوب بھی پری کی طرح پُر اسرار ہے لہٰذا وہ پری بھی ہے۔ پری کا حسن محبوب میں نظر آتا ہے۔ ابتدائی شاعری میں داستانی رجحان لیے حسن کو اس پیکر میں زیادہ محسوس کیا ہے اور  اسے محبوبانہ طلسمی ادائیں عطا کی ہیں۔ یہ طلسمی ادائیں رفتہ رفتہ تجریدی بن گئی ہے۔ پری جمال کا پیکر ہے، اس کے پروں کے رنگ دلکش اور انوکھے ہیں، اس میں فوق الفطری طلسمی کیفیتیں ہیں۔ پری کو دیکھنے کا شوق بڑھتا ہے اور  جب وہ سامنے آ جاتی ہے تو حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ دیکھنے والا دم بخود ہو جاتا ہے:

حیرت، حدِ اقلیم تمنائے پری ہے

آئینے پہ آئین گلستان ارم باندھ

’پرستان‘ (گلستانِ ارم) بھی ہے اور  پری بھی اور  پُر اسراریت کی شدت کا نتیجہ ’حیرت‘ بھی ہے! پرستان کو بہشت کا گلستان کہا ہے۔ حیرت کی تعریف یہ کی ہے کہ محبوب کی تمنا حد سے بڑھ جاتی ہے تو تمنا حیرت بن جاتی ہے۔ پرستان تک پہنچنے کے واقعات داستانوں میں سنتے ہوئے اسے دیکھنے کی تمنا بڑھتی ہے اور جب داستان نگار پرستان پہنچا دیتا ہے تو یہ تمنا حیرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی کم و بیش وہی کیفیت ہے۔ کسی پری کو چاہنے، دیکھنے اور  محسوس کرنے کی تمنا جب انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو وہ حیرت کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور حیرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ جلد سامنے آ جائے۔ غالب نے حیرت اور پرستان کو ایک دوسرے سے بہت قریب دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ آئینہ حیرت کی علامت ہے، وہ اس پر آئین گلستان ارم کو باندھ دینا چاہتے ہیں تاکہ حقیقی مادی دنیا اور پرستان ایک دوسرے سے مل جائیں۔ دوسرے مصرعے کے انداز اور  اس کی ردیف سے تعویذ باندھنے کا سا تاثر پیدا ہوتا ہے اور  ساتھ ہی پُر اسرار کشش کا احساس ملتا ہے۔ غالب نے حیرت کو ’حد اقلیم تمنائے پری‘ اور  آئینے کو حیرت کا استعارہ بنا کر اس شعر کا حسن بڑھا دیا ہے۔ داستانی اسرار سے شعر کی فضا میں ایک طلسمی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ اردو کے بعض کلاسیکی اور  روایتی شعراء نے بھی ’پری‘ کے لفظ کو استعمال کیا ہے، لیکن محبوب کے ظاہری حسن اور  اس کے چند اشاروں سے بات آگے نہیں بڑھی ہے۔ غالب تو پوری فضا کی جانب لپکتے ہیں۔ جلوۂ  محبوب کو پھیلا کر دیکھنے کا بنیادی جمالیاتی رویہ موجود ہے۔ ’حیرت‘ اور  گلستان ارم میں رشتہ قائم کر کے جلوۂ  محبوب کو ایک وسیع تر ’کینوس‘ پر دیکھنے کی خواہش توجہ طلب ہے۔

غالب نے اپنے تجربوں کے اظہار کے لیے داستانی رجحان کو کبھی کبھی بڑی شدت سے نمایاں کیا ہے اور  پُر اسرار کیفیتوں میں اپنی انفرادیت کا احساس دلایا ہے:

آئینہ دام کو سبزے میں چھپاتا ہے عبث

کہ پری زاد نظر، قابل تسخیر نہیں

شعر پڑھتے ہوئے نگاہوں کے سامنے ایسے مرتبان، بوتل اور  شیشے کے صندوق ابھرنے لگتے ہیں جن میں ’پری‘ اور  ’جن‘ اور  دوسرے فوق الفطری پیکر اور  عناصر بند ہیں۔ اس داستانی روایت سے بلاشبہ غالب کے ذہن کا ایک تعلق ہے۔ پری زاد اور  تسخیر کے لفظوں سے کام لیتے ہوئے اور آئینے کو شیشے کی صورت دیتے ہوئے غالب نے کچھ اور  ہی لطف پیدا کر دیا ہے۔ آئینہ اور  نظر ایسے پیکر ہیں جو شیشے کے مرتبان اور پری زاد، پری، دیو، یا جن سے گہرا معنوی رشتہ رکھتے ہیں، بلکہ یہ ان ہی کے واضح اشارے ہیں۔ شیشے میں پری زاد کو بند کرنے کی کوشش کے عمل کے لمحوں کی پُر اسراریت نے اس شعر کی فضا کو متاثر کیا ہے۔ یہاں ’جو ہر سبز‘ وہ عمل ہے جو پری زاد کو شیشے میں اتارنے کی قوت یا پُر اسرار طاقت کا نتیجہ ہے۔ آئینے کا ’جو ہر سبز‘ نظر کو دام بنا کر کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ غالب یہ کہنا چاہے ہے کہ نظر جب تک آئینے کے سامنے ہوتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس شیشے میں گرفتار ہو گئی ہے۔ جب ہٹ جاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے اسے تسخیر کرنا ممکن نہیں۔ آئینہ پری زاد نظر کو خود میں اتار نہیں سکتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے داستانی رجحان کو شدت سے نمایاں کیا ہے۔ پری زاد نظر سے نظر کی پھسلتی اور  گم ہوتی پُر اسرار کیفیت کا جو تاثر دیا ہے، اس کی داد کس طرح دی جائے! جوہر آئینہ یا جوہر سبز کو دام کی صورت میں پیش کرنا غالب ہی کا کارنامہ ہے۔

غالبیات میں کہیں پری شیشے میں اتری نظر آتی ہے، کہیں پری کا سایہ پڑتے ہی دیوانگی طاری ہو جاتی ہے، کہیں محبوب کی آنکھیں پری کی آنکھوں کی مانند خوبصورت اور  پُر اسرار ہیں اور  خیالات کو پریشان کرتی ہیں، کہیں پری کی آنکھوں کے عکس سے آئینے کا حسن بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ کہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ عشق جنون سے پہچانا جاتا ہے اور  جب تک پری کا سایہ نہ پڑے جنون پیدا نہیں ہوتا اور  کہیں یہ سرگوشی ہے کہ پری کے سائے سے محفوظ رہنے کے لیے آئینے کے پیچھے موم تعویذ بن گیا ہے۔ محبوب کی آرائش اسے پری کی صورت جلوہ گر کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ آئینہ دیوانہ ہو جائے گا۔ وہ تعویذ بازو کی وجہ سے محفوظ ہے۔ کہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ محبوب کی بوجھل پلکیں شہد کی مکھی کی طرح آئینے پر ڈنک مار رہی ہیں۔ اس جادو کا اثر آئینے کے موم پر یہ ہوتا ہے کہ وہ خود جادو کا طلسم بن جاتا ہے اور  کہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ وحشت جنون بہار کے تصور سے پری کے پروں کے سائے کا تصور پیدا ہوتا ہے، افسونِ خواب وہ جادو ہے جسے پڑھنے سے دشمن کو نیند آ جاتی ہے۔ کہیں چشم پری رموز و اسرار کی کائنات بن گئی ہے اور کہیں زلف پری کا سلسلہ دراز ہے۔ پھر پری کا طلسم غالب کے محبوب کے تصور میں جذب ہو گیا تو اردو شعریات کے اعلیٰ ترین جمالیاتی تجربے سامنے آنے لگے:

بسکہ آئینے نے پایا گرمیِ رخ سے گداز

دامنِ تمثال مثلِ برگِ گل تر ہو گیا

دیکھ اس کے ساعد سیمیں و دست پُر نگا

شاخِ گل جلتی تھی مثلِ شمع، گل پروانہ تھا

محبوب کے اعلیٰ ترین اور  ارفع ترین شعری تجربوں میں ’پری‘ کے طلسمی تاثرات جذب ہوتے گئے۔ محبوب کے تعلق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پری اپنے تمام طلسمات کو جمالیاتی تجربوں میں جذب کر کے آہستہ آہستہ اڑتی گئی ہے۔ اس کے بعد غالب کا محبوب اپنے جلوؤں اور  طلسمی کیفیتوں کے ساتھ اس طرح ابھرا ہے کہ کسی پری یا کسی طلسمی (داستان) پیکر کی ضرورت ہی نہ رہے۔

غالب کے کلام میں جہاں ’پری‘ کی اہمیت ہے وہاں کالے جادو، روحوں کو بلانے کے نقش، جادوگر، پہاڑ کی آواز اور  اس کی بازگشت، تعویذ، افسونِ ربط (یعنی کسی شئے پر جادو کرنا اور  اس کا اثر دوسرے پر ہونا) صحرا کے چھوٹے ہو جانے کے عمل، پُر اسرار وحشت اور  اس وحشت کی پرواز، تحیر کی پُر اسرار فضا، وسیع تر صحرا کو ایک ہی جنبش میں طے کرنے کے عمل، طلسمی تجربوں، قیس، فرہاد، سد سکندر، حضر، زلیخا، شیریں، صور اسرافیل، بت خانۂ  آزر، تخت سلیمان، دست موسیٰ، لقا کی داڑھی، عمر کی زنبیل، فرعون، عنقا وغیرہ کی بھی کم اہمیت نہیں ہے۔ ان سب کا رشتہ اسطور، مذاہب، قصص اور  داستانوں سے ہے۔ غالب کی بصیرت اور  ان کی صورت گری ہندوستان کی صدیوں کی روایات اور  اس ملک کی مٹی اور  فضا کی دین ہے۔

غالب کی داستانی مزاج نے طلسم، تحیر، دام، فسوں، حلقۂ  حصار، صحرا، بیاناں، جادو، دشت، وحشت، سراب، صدا اور  سراغ وغیرہ کو شدت سے قریب کیا ہے۔ یہ سب صورت گر فنکار کی تخلیق کے محرک بھی ہیں اور  تکنیک اور اظہار کے ذرائع بھی۔ ان سے متحرک ہو کر تجربے اپنی صورتیں بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ اشارات و علامات کی صورت میں بھی ابھرتے ہیں اور آئینے کی طرح چمکتے ہوئے ارتفاعی پیکر بھی بن جاتے ہیں۔ ان سے تخلیق ابہام کا فن متاثر ہوتا ہے۔ آزاد تلازموں کی تخلیق میں بھی فنکار کا ذہن ان کی روشنی حاصل کرتا ہے۔ مثلاً  ’’طلسمِ شہر خموشاں، طلسم رنگ، طلسم خاک، طلسم آئینہ، طلسم موم جادو، طلسم قفل  ایجد، طلسم پیچ و تاب، حیرت تماشائی، حیرت کش یک جلوہ، معنی، حیرت، جلوہ، حیرت نظارہ، حیرت گلزار، حیرت کاغذِ آتش زدہ، حیرتِ نقش پا، حیرتِ نگاہ، سرمۂ  حیرت، حیرت رم، صحرائے تحیر، حیرت زدہ جلوۂ  نیرنگِ خیال، دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ، دام تہِ سبز، دام تمنا، دام نشاط، دام رغبت نظارہ، دام رگ گل، دام جوہر آئینہ، قفس گرم، فسون اثر، فسونِ نشاط، فسون خواب، افسون آگاہی، حلقۂ  صد کام، حلقۂ  دام تماشا، حلقۂ  دام بلا، حلقۂ  پُرسش آزر، حلقۂ  دام خیال، حلقۂ  یک بزم ماتم، حصارِ شعلۂ  جوالہ، صحرائے تحیر، صحرائے طلب، صحرائے محشر، بیابان خراب، بیابان تمنا، جادۂ  صحرائے جنون، جادو صحرائے آگاہی، خاک دشتِ مجنوں، جنون شوق، وحشت چشم پری، وحشت اندیشہ، وحشت جنون باہار، وحشت سراغ، وحشت شور تماشا، دیباچۂ  وحشت، وحشت تسخیر، سراب یک تپش، سراب حسن، موج سراب، موج سراب صحرا، صید زبوں، صید وحشت طاؤس، صید دیوانگی‘‘  وغیرہ۔

جانے کتنے داستانی روح اور  جوہر لیے  ’’لفظوں ‘‘  جانے کتنی افسانوی رنگ لیے ترکیبوں اور پیکروں کے ذریعے غالب کے تخلیقی تخیل کا اظہار ہوا ہے۔ شاعر کے تخیل نے اپنی تہذیب اور  اپنے عہد کی قدروں سے ایک گہرا رشتہ پیدا کر کے اپنے تخلیقی تجربوں کو تابناکی بخشی ہے اور  ساتھ ہی ماضی کے جلال و جمال کے رس کی لذت سے آشنا کیا ہے۔ آزاد تخیل، اسطور مذاہب، قصص اور  داستانوں کے نقوش، واقعات و کردار کے تئیں حسِ بیداری بھی پیدا کرتا ہے اور  ان کے ذریعہ تخلیقی تجربوں کا اظہار بھی کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فنکار کے تخیل نے تہذیب کے ایک بہت بڑے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم اور  جدید پیکروں کو اپنے نئے تجربوں سے ہم آہنگ کر کے جہاں امتزاجی رنگوں کی تخلیق میں مصروف رہا ہے، وہاں ان سے اپنے جذباتی اور  حسی پیکروں اور  تمثالوں کی ایک بڑی دنیا خلق کر دی ہے۔

اردو ادب میں ایسی تخلیقی فکر نہیں ملتی کہ جس میں علم، تخیل، جذبہ اور  تاثر سب ایک دوسرے میں جذب ہوں۔ ایسے اجتماعی اور  نسلی شعور کی مثال نہیں ملتی جو صدیوں کے تجربوں کی روشنی اور  رنگوں کی آمیزش سے رمز و ایما اور  علامات و تماثیل سے ایسی کائنات خلق کر دے کہ کلام کی تاثیر اپنی جگہ قائم رہے اور  ذہن صدیوں کے تخیلات سے رشتہ قائم کرے۔ غالب کی فکر کی توانائی اور ان کے تخیل کی بلندی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تہذیب کی بے پناہ گہرائیوں میں جڑیں پھیلائے ہوئے ہیں۔ اردو ادب میں اتنا بڑا صورت گر پیدا نہیں ہوا۔ لفظوں میں کسمساتے ہوئے پیکروں کی تخلیق کا فن وہی ہے جو ہندوستان کے بت تراشوں اور  صورت گروں کا رہا ہے۔ مذاہب، اسطور اور  قصص کی طویل پُر اسرار روایتوں سے تخلیقی رشتے کی پہچان دراصل غالب کی تہذیبی شخصیت کے ایک اہم ترین پہلو کی پہچان ہے۔

٭٭٭

’روشنی ‘کی جمالیات

محمد اقبالؔ کی شاعری جمالیاتی طور پر خبر کا تجربہ نہیں، نگاہ، نظر، وژن اور  ’وجدان‘ کا تجربہ ہے، ان کی نگاہ تجربے کو وجدانی اور  حد درجہ حسیاتی بنا دیتی ہے۔

کہا جاتا ہے جب ’نظر اور  نگاہ‘ کا تجربہ حسیاتی اور  وجدانی بن جاتا ہے تو وہ ہواؤں کی لہروں سے زیادہ خوش گوار اثر پیدا کرتا ہے۔ وہ رنگ اور  وہ روشنی جو انسان کے لاشعور میں ہے یا اس دنیا سے باہر ہے، وجدان کے تجربے سے سامنے آتی ہے۔

بڑے فنکاروں کے وجدانی تجربوں میں ’ایتھر‘ کی لہروں کی کیفیت ملتی ہے، اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے وقت یا اپنے زمانے سے نہیں ’ باہر‘ سے تجربے آرہے ہیں۔ ایسے تجربوں سے لفظوں اور  علامتوں میں تیز تر لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ کئی جہتوں کا احساس ایک ساتھ ہوتا ہے، پہلے ہم رنگ، روشنی، خوشبو اور  پیکروں کی لہروں سے متاثر ہوتے ہیں اور  اس کے بعد ’سچائی‘ متاثر کرتی ہے، انسان میں ان سچائیوں کی وجہ سے ایک حسّاس ’آرگن‘ (Organ) پیدا ہوا ہے جو روشنی اور  رنگ کی لہروں کو محسوس کرتا ہے، اپنے وقت سے دور، روشنی اور  رنگ کو محسوس کرتا ہے۔

اقبالؔ کی شاعری میں یہ حِس بہت بیدار ہے!

 ’’اقبال کی جمالیات‘‘  میں روشنی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے کئی پہلو شعری تجربوں میں نمایاں ہوئے ہیں۔ ’روشنی‘ کو نقطۂ  ارتکاز سمجھ کر ’اقبالیات‘ کا مطالعہ کیا جائے تو تجربوں کی باز آفرینی کا احساس شدید تر ہوتا جائے گا۔

اقبالؔ نگاہ اور  نظر کی تیزی، شوخی، روشنی اور  اس کی لطیف چبھن کو حرکت اور  بیداری قلب کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ نگاہ، نگاہ شوق اور نظر کے پیچھے ’روشنی‘ کا ’آرچ ٹائپ‘ Archetype حد درجہ متحرک ہے۔ یہ اقبالیات کے کلیدی پیکر اور  استعارے ہیں۔ پیہم جستجو اور  تسخیرِ کائنات کے شعری تجربوں اور باطن اور  خارج میں دور تک روشنیوں اور  سچائیوں کو پانے کے لیے باطنی، لاشعوری تخلیقی ہیجانات میں انہیں اہمیت حاصل ہے۔ عشق، خودی اور  ذوقؔ و شوق کا ان سے گہرا رشتہ ہے۔ معنوی استعارہ بن کر کبھی ان میں سے کوئی استعارہ یا پیکر شعری تجربے میں یہ رنگ پیدا کرتا ہے۔

کچھ اور  ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں

نگاہِ شوق اگر ہو شریک بینائی

اور کبھی جاں پرور جمالیاتی اور  رومانی استعارہ بن کر لامکاں کی فضاؤں اور حریم ناز اور  خدا کی تجلیوں تک پہنچ جاتا ہے اور  شعری تجربے کو حد درجہ معنی خیز بنا دیتا ہے۔

حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں

میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں

’یہ نگاہ اور  نظر‘ کی تیز روشنی کا احساس ہے جس کا اثر کائنات سے دور سچائیوں پر ہوتا ہے۔ نگاہ اور  نظر باطنی روشنیوں کی علامتیں ہیں۔ باطنی روشنی یا لاشعوری تخلیقی نور کی کرنوں نے ایسے شعری تجربے بھی روشن کیے ہیں :

گاہ مری نگاہِ تیز، چیر گئی دل وجود

گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو

تیری نگہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ

دلوں میں وَلوَلے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے

نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور  نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

اور ع تری نگاہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں۔ !

عشق ایک ہمہ گیر تخلیقی جذبہ ہے۔ اقبالؔ اس کی گرمی، تپش اور  روشنی اور  رفتار پر زبردست اعتماد رکھتے ہیں۔ عشق کی گرمی سے معرکۂ  کائنات ہے۔ علم سے پیدا ہوئے تمام سوالوں کا جواب عشق دیتا ہے۔ اسی میں تمام جواب پنہاں ہیں۔ ہنگامۂ  زیست اسی سے قائم ہے۔ اسی سے خودی مستحکم ہوتی ہے۔ اقبالؔ کی جمالیات میں عشق، روشنی، وجدان، گرمی، تپش اور  رفتار کی ایک معانی خیز قدر ہے۔ آرزو، سرمستی اور جنونی اس کی خصوصیات ہیں۔ ایک جست میں اس کا نوری سفر مکمل ہو جاتا ہے اور زماں و مکاں کا میکانکی تصور پاش پاش ہو جاتا ہے۔ تسخیر اس کی فطرت ہے، اس کی روشنی سچائیوں کا احساس عطا کر کے انسان کو تکمیل ذات کا عرفان عطا کرتی ہے۔ اقبالؔ کے اہم ترین روشنی پیکر، نگاہ اور  نظر کے پیچھے اس کی روشنی ہے۔ یہ عشق کی خلق کی ہوئی نظر کا کرشمہ ہے:

در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے

یزداں بکمند آور، اے ہمتِ مردانہ

حیرت کو بصیرت میں تبدیل کرنے والے اس جذبے کے پیچھے روشنی کا حسیاتی پیکر اس قدر متحرک ہے کہ اقبالؔ اسے دانش نورانی، کہتے ہیں اور  اقبالیات میں اس ہمہ گیر تخلیقی جذبے اور پراسرار اور  معانی خیز تخلیقی قوت کا اس سے عمدہ نام اور  کہیں نظر نہیں آتا، خدائی صفات کے عکس کو پیدا کرنے کے لیے عشق کو نور کی صورت میں محسوس کرنا عین فطری ہے۔

انسان ایک مشتِ خاک ہے لیکن اس خاک میں ذوق تجلی بھی پنہاں ہے۔ جب وہ خود آگاہ ہو جاتا ہے۔ عشق کی روشنی اس کے وجود میں پگھل جاتی ہے اور  دل میں آفاق گیری کے ساتھ جب عشق کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور  لامکاں تک نظر اور  نگاہ اپنی روشنی کے ساتھ پہنچنے لگتی ہے اور  تجربے حد درجہ روشن اور  حد درجہ تابناک ہو جاتے ہیں تو اقبالؔ کی جمالیات میں روشنی کے ’آرچ ٹائپ‘ کے تحرک سے ایسے لطیف شعری تجربے ملتے ہیں :

آیۂ  کائنات کا معنی دیریاب تو

نکلتے تری تلاش میں قالہ ہائے رنگ و بو

وہ آیۂ  کائنات کا اصل مفہوم ہے، اس لیے اس کی تلاش میں رنگ و بو کا قافلہ نکل پڑا ہے۔ رنگ و بو کی یہ دنیا اسی کے وجود کا نتیجہ ہے، اور  اس صورت میں نہ ہوتا تو رنگ و بُو کی یہ دنیا بھی نہیں ہوتی، وہ ہے، آیۂ  کائنات کا اصل مفہوم بن کر ہے، اسی لیے رنگوں اور  خوشبوؤں کی یہ دنیا وجود میں آئی ہے، دوسرے مصرعے میں جمالیاتی پیکر تراشی توجہ چاہتی ہے، رنگ و بُو کے قافلے کی ایسی تصویر سامنے آ جاتی ہے جس میں تلاش کے عمل میں کئی تاثرات ابھرتے ہیں، حیرت بھی ہے، دیکھنے کی آرزو بھی ہے، قریب ہو جانے کی تمنا بھی ہے، مسرت کی انجانی لہریں بھی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ساتھ کئی رنگ اور جانے کتنی خوشبو مختلف گوشوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ محبوب کی تلاش کی یہ تصویر حد درجہ جاذبِ نظر بن جاتی ہے۔ قافلہ ہائے رنگ و بو کی یہ تلاش ’روشنی‘ کی تلاش ہے، وہ روشنی جو تمام رنگوں اور تمام خوشبوؤں سے عظیم تر ہے۔

اور بات اسی حد تک نہیں ہے!

اسے ایک نظر دیکھنے اور  ایک نظر التفات کے لیے پھیلے ہوئے آسمانوں میں نوری پیکر ایک دوسرے کے رقیب بن گئے ہیں، کش مکش تجلیات کا یہ جمالیاتی تجربہ بھی کتنا لطیف ہے۔

زہرہ و ماہ و مشتری از تو رقیب یک دگر

از پئے یک نگاہ تو کش مکشِ تجلیات

’روشنی‘ کے حسیاتی پیکر نے کیسی خوبصورت تصویر پیش کی ہے، یہ شاعر کے وجدان اور  اس کی نظر کا جمالیاتی تجربہ ہے۔ کشمکش تجلیات کی اس سے عمدہ تصویر شاید ہی کہیں نظر آئے۔ میں نے ایسے ہی تجربوں کو ’ایتھر میڈیم‘ سے حاصل کردہ حسیاتی تجربوں کی صورتوں سے تعبیر کیا ہے۔

عشق ہی ’درون خانہ‘ کے ہنگاموں کوس مجھتا ہے۔ دانش نورانی، دانش برہانی سے بلند تر ہے۔ عقل کے ساتھ سرمستی اور  حیرت کی بات کرتے ہوئے اسے سراپا تنویر اور  سراپا نور کہا ہے۔ ’تمام آگاہی‘ میں نور اور  تنویر ہی کا احساس ملتا ہے۔

ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک

ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی

’خرد‘ کو چراغِ رہگزر سے تعبیر کرتے ہوئے عشق کی تمام آگاہی کی طرف نہایت ہی لطیف اشارہ اس طرح ملتا ہے:

خرد سے راہرو روشن بصر ہے

خرد کیا ہے چراغِ رہگزر ہے

درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا

چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے

عشق کی عظیم تر روشنی ہی معراج ہے، جسے اقبالؔ نے ’انقلاب اندر شعور‘ کہا ہے، اس کی رفتار سے یہ شعری تجربہ حاصل ہوا ہے:

عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

’روشنی‘ کے احساس سے ’عشق‘ کی تہہ دار اور  معنی خیز روشنی حاصل ہوئی اور  عشق سے روشنی کا شعور حاصل ہوا اور  تنویر نگاہ سے کائناتی جلوؤں کی پہچان ہوئی اور  لامکاں کی روشنیوں کا ادراک حاصل ہوا۔ ان شعری تجربوں کے پیچھے کائناتی اور  لاشعوری روشنیوں کا احساس شدید تر ہے:

اپنی جَولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں

آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم

اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں

کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا

مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

عشق کی اِک جست نے طے کر دیا قصۂ  تمام

اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

’بے حجابی‘ حسن کا انکشاف بھی ہے اور  حسن کی جلوہ گری بھی، ابدی حسن اور  نور نے نگاہوں کے طلسم کو توڑ دیا، نظر کو اپنی روشنی پر اعتماد آیا۔ اس نیلی سی چادر سے اور  دور میں اس روشنی کے سہارے چلا گیا۔ نگاہ نے اسی کو آسمان سمجھ لیا تھا، اس طلسم کو تیرے نور نے توڑا اور  میری نگاہ کی روشنی کا سفر شروع ہو گیا، میرے لیے یہ نیلی چادر آسماں نہ رہی اور  یہ آفتاب، یہ چاند، یہ مشتری، یہ ستارے جو میرے ہم سفر بنے ہوئے تھے تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گئے، یہ میرے ہم سفر تھے۔ لیکن ان کی روشنی اتنی تیز، اتنی گرم، اتنی سرمست، اتنی بے خود، اس قدر طلسمات کو کاٹنے والی نہیں تھی جتنی کہ میرے عشق کی روشنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ہم سفر پیچھے رہ گئے اور میں آگے بڑھتا جا رہا ہوں، جب تک ابدی حسن کو شدت سے محسوس نہیں کیا تھا، اس نور نے میرے شعور میں انقلاب پیدا نہیں کیا تھا، جلوہ بے حجاب نہ تھا، اس وقت تک عشق اور باطن کی روشنی میں اضطراب، تیزی، لپک، گرمی اور سرمستی نہ تھی، جب اس کی بے حجابی سے نگاہوں کا طلسم ٹوٹا تو عظیم روشنی سے میرا ایک باطن رشتہ قائم ہو گیا اور  میں خود روشنی کا ایک متحرک پیکر بن گیا اور  اس کی ایک جست نے زمان و مکاں کی زنجیریں توڑ دیں، زمین و آسماں اب میرے لیے بیکراں نہ تھے، لا انتہا اور  بے کنارہ نہ تھے۔

اقبال کے یہ انتہائی حسیاتی اور  وجدانی تجربے ہیں اور ایسے تجربوں میں بلا شبہ ہواؤں کی خوش گوار لہروں سے زیادہ اثر ہے۔ روشنی کے یہ تجربے انتہائی قیمتی ہیں، اس لیے بھی کہ ان کا ’میڈیم‘ مختلف ہے۔

 ’’خودی‘‘  انسان کی تخلیقی صلاحیتوں اور  تخلیقی قوتوں کا جوہر ہے، اس لیے کہ ’عشق‘ اس کی روح ہے، ’اسرار خود‘ میں ’جوہر الماس‘ اس کی خوبصورت علامت ہے، عشق اور  خودی دونوں روشنی کے شدید ترین احساس کی جمالیاتی صورتیں ہیں، جلال و جمال کے پیکر اور  اقبالیات کے معنی خیز پیکر! انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ نگاہ اور نظر ان ہی کے معنی خیز پیکر ہیں۔ تنویر عشق اور نور خودی کے پس منظر میں ’نگاہ‘ اور  ’نظر‘ کے تجربوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ نگاہ اور نظر کی روشنی دراصل عشق اور  خودی کی روشنی ہے، جس سے جمالیاتی مسرت اور  جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔

تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا

مری نگاہ میں ہے حادثہ کی دنیا

عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی

وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر یہ نگیں ہے

دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتویٰ

وہ کوہ یہ دریا ہے، وہ گردوں یہ زمیں ہے

حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں کہتا

تو ہے! تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے!

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ  افلاک میں ہے

عکس اس کا مرے آئینۂ  ادراک میں ہے

 

نظر آئے گا اسی کو یہ جانِ دوش و فردا

جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ

 

خودی بلند تھی اس خوں گرفتہ چینی کی

کہا غریب نے جلاد سے دمِ تعزیر

ٹھہر ٹھہر کر بہت دل کشا ہے یہ منظر

ذرا میں دیکھ تو لوں تابناکی شمشیر

 

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا

کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی

کچھ اور  ہی نظر آتا ہے کاروبارِ جہاں

نگاہِ شوق اگر ہو شریکِ بینائی

اسی نگاہ میں ہے قاری و جبّاری

اسی نگاہ میں دلبری و رعنائی

اسی نگاہ سے ہر ذرہ کو جنوں میرا

سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی

نگاہِ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو

ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

 

حیات و موت نہیں التفات کے لائق

فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

 

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے

افلاک منور ہو ترے نور سحر سے

خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے

ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے

دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے

شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے

 

اغیار کے افکار و تخیل کی گیرائی

کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی

 

عالمِ نو ہے ابھی پردۂ  تقدیر میں

میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

یہ سب اسی ’نگاہ‘ اور  ’نظر‘ کے حسیاتی جمالیاتی تجربے ہیں، حادثات اور  ممکنات کی دنیا میں جانے کتنے پُر اسرار تجربے انتظار میں ہیں، حسن کی تجرید یا حسن کے مبہم لیکن پُر اسرار سَرسَراتے ہوئے تجربوں کے تاثرات ابھرتے ہیں۔ پردۂ  افلاک کے حادثوں کا عکس آئینۂ  ادراک میں ہے۔ اسی نگاہ میں قاہری اور جباری بھی ہے اور دلبری و رعنائی بھی، یعنی جلال اور  جمال دنوں کا گہوارہ ہے۔ نگاہ کی روشنی کا کرشمہ ہے جس سے ہر ذرہ دشت پیمائی کا سبق سیکھ رہا ہے، جس طرح پردۂ  افلاک کے حادثوں کا عکس آئینۂ  ادراک میں ہے، اسی طرح عالم نو، جو ابھی پردۂ  تقدیر میں ہے، اس نگاہ پر بے حجاب ہے۔

یہ تجربے ’اقبالیات‘ کے قیمتی جمالیاتی تجربے ہیں، ہر تجربے کی جمالیاتی سطح ادراک نور سے خلق ہوئی ہے۔ اردو کی بوطیقا میں یہ آواز پہلی بار دور سے سنائی دیتی ہوئی اچانک احساس اور جذبے سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ آپ ایک بار پھر ان اشعار کو پڑھیے۔ یہ الفاظ جو روشنی کے اساس سے خلق ہوئے ہیں۔ ایسی آوازوں کی صورتیں اختیار کر لیتے ہیں کہ ہم ان آوازوں کو دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ جمالیاتی  ’’اورا‘‘  Aesthetic Aura  کے تجربے ہیں جن کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ خارجی فضا اور  اشیا کی بصیرت افروز صورتیں پیدا ہو جائیں۔ التباس اور  واہمہ کی پُر اسراریت کے ساتھ ان کے تاثرات اور ان کی آوازیں محسوس بھی ہوتی ہیں اور  دکھائی بھی دیتی ہیں۔ اس لیے کہ ان کے محبوبانہ حملے حَواس پر انتہائی پُر اسرار طور پر لیکن انتہائی شدت سے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں کائناتی التباس  Cosmic Illusion بھی ہے اور  اس التباس کے رد عمل کا نتیجہ بھی ہے۔ کائناتی التباس کے جمالیاتی تجربے حادثات اور  ممکنات کی دنیا میں مجرد صورتوں میں ہیں، آئینہ ادراک میں پردۂ  افلاک میں پوشیدہ حادثوں کے عکس اور  نگاہوں میں بے حجاب پردۂ  تقدیر میں چھپے عالمِ نو کی تصویروں کے تاثرات میں ان جمالیاتی تجربوں کو دیکھا جا سکتا ہے اور  اس کے رد عمل کی پہچان ’نظر‘ تو ہے۔ شوخیِ نظارہ، ذوقِ آشکارائی، نگاہِ شوق، جنون، خودی اور  خودی کی نگاہ، نورِ سحر، شرر، سیمائے قمر، متلاطم دریا، موجِ گہرا، اعجازِ ہنر اور  تاب ناکیِ شمشیر کو دیکھنے والی نگاہ سے ہوتی ہے۔

تمام کلیدی الفاظ اور  تمام کلیدی تراکیب روشنی کے پیکر ہیں، نور اور  روشنی کے جمالیاتی ادراک نے  ’’مائیکی‘‘  پر ان لفظوں، استعاروں اور  ترکیبوں کو جمالیاتی اظہار اور جمالیاتی تموج کے اظہار کا عمدہ ذریعہ بنایا ہے۔ یہ سارا عمل ’ذات‘ کے فنکارانہ اور جمالیاتی انکشاف کا عمل ہے اور  یہی عمل جمالیات میں جمالیاتی مسرت اور  بصیرت کا نقطۂ  آغاز سمجھا جاتا ہے۔ غالباً پروست نے کہا تھا کہ انسان کے تمام تجربوں کا عطر  ’’اسرار‘‘  ہے اور  اس کا انکشاف ذہن ہی کرتا ہے یا آرٹ! اسرار و رموز کی آزادی فن کار کے ادراک کا شعور اور  اس کے پر اسرار تخلیقی عمل سے گہرا رشتہ رکھتی ہے۔ بڑے فنکاروں کے تاثرات سے اس عطر کی خوشبو پھیلتی ہے، اسرار کو آزادی صیب ہوتی ہے۔ اقبالؔ کا یہ کارنامہ اردو بوطیقا میں اپنی نوعیت کا پہلا ما بعد الطبعیاتی جمالیاتی کارنامہ ہے۔ مابعد الطبعیات نے یہ تجربے جانے کب پیش کیے تھے لیکن موسیقی کے آہنگ کی طرح ان کی ترتیب اور  حواس پر روشنیوں کی پُر اسرار آوازوں کی طرح چھا جانے کی جو کوشش اقبال نے کی ہے وہ صرف ایک فنکار ہی کر سکتا ہے، فلسفی نہیں کر سکتا۔

دنیا کے بڑے شاعروں کے کلام میں رنگوں کا احساس ’جمالیات‘ میں مطالعے کا اہم ترین پہلو ہے۔ شعرا کے حسی تجربوں میں ایک یا ایک سے زیادہ رنگوں کے احساس سے بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور بلاغت کی جلوہ گری کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ پھولوں کا رنگ، آسمانوں کا رنگ، جھیلوں اور  سمندروں کا رنگ، محبوب کے چہرے کا رنگ، حسن حقیقی کا رنگ، درختوں اور جنگلوں کا رنگ، روشنیوں کا رنگ، شراب کا رنگ، شعراء کے کلام میں ایک یا ایک سے زیادہ رنگ ’امیج‘ یا ذہنی پیکر بھی بن گئے ہیں۔ رنگ کے استعارے حسی پیکروں کی معنویت کی گہرائی اور  اس کی مختلف جہتوں کی معانی خیز علامتیں بن گئے ہیں۔ اکثر بڑے شعرا اس جہان رنگ و بو کے تجربوں کو پیش کرتے ہوئے رنگوں کے احساس اور  کبھی کبھی شدید ترین احساس کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔ ہومرؔ، تُلسیؔ داس، کالیؔ داس، فردوسیؔ، شیکسپیئرؔ، غالبؔ، ورڈس ورتھ، ٹینی سنؔ، شیلےؔ، کیٹسؔ اور  دوسرے شعرا کے یہاں رنگوں کا ذکر موجود ہے۔ بعض فنکاروں نے اپنے محبوب رنگ کو امتیازی صورت دی ہے۔ غالبؔ کا محبوب رنگ سرخ ہے۔ ٹینی سنؔ ’گلِ آفتاب‘ کے رنگ کا عاشق ہے، ایٹس گلابوں کے کئی رنگوں کو پسند کرتا ہے۔ فارسی شعرا بھی گلاب اور  سرخ رنگ کے عاشق ہیں۔

اقبالؔ کا محبوب رنگ بھی سُرخ ہے اور  ’لالہ‘ اس رنگ کی بھی علامت ہے لیکن ان کے پورے کلام میں رنگ کی اہمیت زیادہ نہیں ہے، روشنی نے اپنے نور میں جیسے تمام رنگوں کو جذب کر لیا ہو، رنگ کے مقابلے میں روشنی زیادہ توجہ طلب ہے۔ اگرچہ انہوں نے سرخ رنگ، خون جگر، لہو ترنگ اور لالے کی سرخی کا ذکر کیا ہے، لیکن ان کی جمالیات میں اسے کوئی نمایاں جگہ حاصل نہیں ہے۔ ان کی جمالیات میں بار بار روشنی کے شدید احساس سے واسطہ پڑتا ہے اور  کوئی رنگ، استعارہ بن کر اس طرح توجہ کا مرکز نہیں بنتا، جس طرح غالبؔ کی شاعری میں سرخ رنگ بن جاتا ہے۔ ’لالہ‘ ایک خوب صورت معنی خیز، ذہنی پیکر ضرور ہے لیکن اس سے محبت محض رنگ کی وجہ سے نہیں ہے۔ اقبالؔ لالہ کے کئی رنگوں کا ذکر کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اقبال نگاہ، نظر اور  وژن کی روشنی کو دنیا کے تمام رنگوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ انہیں غالباً خود اس سچائی کا احساس تھا۔ فرمایا ہے:

نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے

نگاہ وہ ہے جو محتاج مہر و ماہ نہیں

دانشِ نورانی نے جو روشنی عطا کی ہے اس سے ’نگاہ‘ کا کام صرف رنگوں کو پہچاننا نہیں ہے اور  یہ نگاہ تو مہر وماہ کی بھی محتاج نہیں ہے۔ کائنات اور  لامکاں تک اس روشنی کا سفر جاری ہے۔ اس روشنی میں حیرت بھی ہے اور  سرمستی بھی۔ عقل میں بھی حیرت اور  سرمستی لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک سراپا تاریک ہے، دوسرا یعنی عشق  ’’تمام آگاہ‘‘ ! یہ نگاہ اپنی روشنیوں کے ساتھ جانے کتنی بلندیوں تک جاتی ہے اور جانے کتنی گہرائیوں میں اترتی ہے۔  ’’میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں ‘‘ ، ’’میری نگاہِ تیز چیر گئی دل وجود‘‘،  ’’عشق تماشائے ذات‘‘  اور  ’’عشق کی گرمی سے معرکۂ  کائنات‘‘  کے شاعری تجربے، ایتھر، کی لہروں جیسی کیفیتوں کو سمجھاتے ہیں، قافلہ ہائے رنگ و بو تواسی روشنی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔

اقبالؔ نے جہانِ رنگ و بُو کا ذکر کئی بار کیا ہے، لیکن یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی رنگ یا کوئی خوشبو ان کے احساس اور  جذبے میں اس طرح جذب ہے کہ روشنی کے مقابلے میں اس کی اہمیت کسی طرح بھی بڑھ گئی ہو، یا برابر ہو۔ ایسا کوئی تجربہ نہیں ملتا۔ سرخ رنگ پسند کرتے ہیں، لیکن غالبؔ کی طرح اس پر عاشق نہیں ہیں، وہ نظر اور نگاہ جو کائنات اور  لامکاں میں اپنی روشنی کے ساتھ جانے کتنی روشنیوں، جانے کتنے رنگوں اور جانے کتنی خوشبوؤں اور  جانے کتنی تجلیوں کو پا لیتی ہے۔ وہ اس زمین کے رنگوں یا خوشبوؤں کو یقیناً زیادہ اہمیت نہیں دے گی۔ جہانِ رنگ و بو کا ذکر انہوں نے اس طرح کیا ہے:

اسی سے پوچھ کہ پیشِ نگاہ ہے جو کچھ

جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی

جو کچھ سامنے ہے نظر اور نگاہ کی روشنی کے لیے فقط رنگ و بو کی طغیانی ہے۔ یہ نظر تو ’جہاں ‘ کا کوئی اور  ہی تصور رکھتی ہے، جو نگاہ لامکاں تک پہنچے، جس سے خالقِ کائنات کی تجلیات میں خلل پڑے، جس سے آئینۂ  مہر و ماہ ٹوٹے اور  جس سے اندازِ آفاقی سے آفاق گیری کے ولولے پیدا ہوں اور  جس کی شوخیِ نظارہ کا اندازہ کرنا ممکن نہ ہو، وہ نگاہ، رنگ و بو کی طغیانی کو یقیناً زیادہ اہمیت نہیں دے گی۔

اقبالؔ نیلگوں فضا کو دیکھتے ہیں تو آسمان اور  اس کے رنگ سے پرے روشنیوں کی دوسری دنیاؤں کو محسوس کرنے لگتے ہیں، یہ ان کا وژن ہے اور  روشنی کا بالیدہ ادراک ہے، ظاہر ہے یہ ادراک آسمان کو حسن کی حد سمجھنے نہیں دے گا، پھیلا ہوا اور  حد نگاہ بنا ہوا نیلا آسمان ان کے احساس جمال کو کسی لمحے نہیں روک سکا، آسمان کے رنگ کی طرف ا شارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں

ہمت ہو پَر کشا تو حقیقت میں کچھ نہیں

یہ اس لیے کہ تخلیقی فکر نے ’سائیکی‘ میں روشنی کے ’آرچی ٹائپ‘ کو متحرک کر کے جو میڈیم پایا ہے اس سے ضمیرِ فلکِ نیل فام کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے۔ع

فاش ہے مجھ پہ ضمیرِ فلکِ نیل فام

 ’’مقامِ رنگ و بو کی تسخیر‘‘  کو نگاہ کی روشنی کے سفر کا نقطۂ  آغاز سمجھنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ سفر خرد کے سہارے نہیں، خودی اور  عشق کی روشنی کے ساتھ روشنیوں کی دنیا میں ہوتا ہے۔

اقبالؔ اگرچہ  ’’اودے اودے‘‘،  ’’نیلے نیلے پیرہن‘‘ ،  ’’رنگ و بو کی طغیانی‘‘،  ’’نیلگوں فضا‘‘،  ’’ہنگامۂ  رنگ و صورت‘‘،  ’’مقامِ رنگ و بو‘‘،  ’’چراغِ لالہ‘‘،  ’’پردۂ  رنگ‘‘،  ’’نیلی نیلی فضا‘‘،  ’’روائے نیلگوں ‘‘  کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن ان سے صرف رنگوں کے احساس کا پتہ نہیں چلتا۔ ان کی حسی تجربوں میں ان کی اہمیت زیادہ نہیں ہے۔ اکثر اشعار میں ان رنگوں کو معمولی درجہ بھی دیا ہے۔ یہ احساس ان کی جمالیات کا کوئی عنوان نہیں بن سکتا۔ ان کی شاعری میں روشنی کا احساس زیادہ گہرا اور بلیغ ہے اور  روشنی کے تجربے زیادہ معنی خیز ہیں، بلاشبہ وہ رنگ سے زیادہ روشنی کے عاشق اور  روشنی کے شاعر ہیں۔ اردو شاعری میں ان کی طلسماتی فضا اس طرح منفرد نظر آتی ہے۔ یہ جادو مختلف ہے۔ یہاں روشنی کی جمالیات کے وہ پہلو ہیں جو اردو شاعری میں پہلے موجود نہ تھے۔

اقبالؔ کی شاعری میں روشنی کے ایک تجربے وہ ہیں جو لاشعور میں ایتھر برادر لہروں سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں، تجربوں کی حساسیت اور  لفظوں کی بلند آہنگی کے ساتھ طلسماتی فضاؤں اور کائناتی جلوؤں کے تاثرات شدت سے ابھارتے ہیں اور  ان سے متاثر کرتے ہیں۔

اور دوسرے تجربے وہ ہیں جو فرد کے وجود سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔ تجربوں کی شادابی اور لفظوں کی سیمابیت کے ساتھ حرکت اور  عمل کی فضاؤں اور  اضطراری کیفیتوں کے تاثرات شدت سے ابھارتے اور  متاثر کرتے ہیں۔

ان دونوں تجربوں میں ایک بامعنی رشتہ ہے۔ پہلی روشنی کے لیے آفتاب، چاند، تارے، تجلیات، صبح، جلوہ گاہِ لامکاں، وغیرہ کی علامتیں۔ بلاشبہ اقبالؔ پھولوں میں نرگس، سوسن، لالہ اور  گلاب وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ پھولوں کی مہک، غنچوں کی چٹک، کلیوں کی دل تنگی اور  عارضوں کی تابانی اور  عروسِ لالہ کے حسن اور  نرگس کی بینائی کا ذکر بھی ان کے کلام میں ملتا ہے، لیکن کہیں بھی ان کے رنگوں پر فریفتہ نظر نہیں آتے۔ اپنے تاثرات میں ان کے رنگوں کو شامل نہیں کرتے۔ ان کے مقابلے میں خورشید، آفتاب، چاند، ستارے، انجم، تجلی، عشق، شوق، ذو، صبح، ضمیر کی روشنی، جگنو، جلوہ گاہ، لامکاں وغیرہ کا ذکر زیادہ بھی ہے اور  ان سے اٹوٹ ذہنی، جذباتی اور  حسیاتی رشتہ بھی قائم ہے۔ ان کی روشنیاں ان کے تاثرات میں شامل ہیں اور  یہ سب استعاروں، پیکروں اور  علامتوں کی صورتوں میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ ان کے کلام میں ان ہی روشنیوں کی تیز اور  معانی خیز لکیریں ابھرتی ہیں اور  وہ روشنی کے متحرک ’آرچ ٹائپ‘ کے ایک بڑے شاعر نظر آتے ہیں۔

’لالہ‘ سے ان کی ذہنی وابستگی اور ان کا جذباتی رشتہ ان کی خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی کی وجہ سے بھی ہے۔ اس پھول کے مختلف Shades پر ان کی نظر ہے، لیکن اس کی رمزیت صرف رنگ کی وجہ سے نہیں ہے۔ ’لالۂ  طور‘ (پیام مشرق) کی رباعیوں تک اس کی صورت تہذیبِ حجاز اور  امتِ محمدی کی علامت کی ہو جاتی ہے۔ ایک سو باسٹھ رباعیوں میں اس کا رنگ اپنی جگہ اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ پھول ایک بڑی تہہ دار، حسین تر اور  اعلیٰ ترین اقدار کی محافظ تہذیب کا علامیہ ہے، اس کے رنگ سے زیادہ اس کی دل سوزی، اس کی پراسراریت اور  اس کی رعنائی و سرمستی متاثر کرتی ہے۔ اس کی خونی کفنی شہیدوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ آتشِ لالہ میں کشمیر نظر آتا ہے، وہ کشمیر کے جذبات اور  احساسات کی تصویر بن جاتا ہے۔ ’ارمغان حجاز‘ کی نویں نظم میں ’لالہ‘ آتشیں پیرہن، عاشق کے دل کی علامت ہے، وہ زندگی کے تسلسل کا احساس عطا کرتا ہے۔ لالہ کبھی کشمیری نوجوان کی علامت (ارمغان حجاز کی سولہویں نظم) لہُو کی علامت بن کر ابھرتا ہے اور  کبھی حسنِ ازل کی علامت (کوشش ناتمام) کبھی عرب کی تہذیب کا استعارہ بنتا ہے اور  کبھی خود اقبالؔ کے نفس کی آگ کی علامت۔ ظاہر ہے صرف اس کا رنگ شاعری کی توجہ کا مرکز نہیں ہے۔ آخری دور میں جب اقبالؔ اسے کائنات کی تسخیر کا ذریعہ اور ایک بڑی تہذیب کی علامت بناتے ہیں تو وہ رنگ کے پیکر سے زیادہ روشنی کا پیکر بن جاتا ہے۔ ایک روشن تہذیب کا علامیہ اور  عشق کی روشنی کا استعارہ۔ اس مصرعے میں :

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

روشنی ہی کا احساس ہے ’لالۂ  صحرا‘ اقبالؔ کی ایک نمائندہ نظم ہے اور میرے نزدیک یہ نظم اردو نظم کی تاریخ میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ پوری نظم میں اس پھول کے رنگ کا کوئی تاثر موجود نہیں ہے۔

’لالۂ  صحرا‘ کو اپنے وجود کا آئینہ بنالیا ہے۔ ’پیامِ مشرق‘ کی بعض نظموں اور  غزلوں میں ’لالہ‘ کے پیکر ملتے ہیں۔ پھول کی صورت میں بھی یہ جلوہ گر ہوا ہے۔ لالہ، تنہائی، ساقی نامہ، جوئے آب، شاعر، بائرن، شوپن ہار و نطشہ وغیرہ، تو وہاں اس کے شرار اور  اس کی آتشیں روشنی پر نظر ہے۔’فصل بہار‘ پر نظر ہے لیکن بہار کے رنگوں کا کوئی تاثر نہیں ہے۔ لالہ، ان کا محبوب پھول ہے۔ اس کے ذکر کے ساتھ اس کے رنگوں کا احساس طرح طرح سے دلا سکتے تھے۔ ظاہر ہے ان کی دل چسپی اس کے رنگوں سے نہیں تھی۔ جس فنکار کے آئینۂ  ادراک میں، پردۂ  افلاک میں پوشیدہ حادثوں کا عکس ہو اور  روشنی کے ’آرچ ٹائپ‘ کو اتنی شدت سے ابھارا ہو۔ ظاہر ہے اس کے یہاں رنگوں کے حسیاتی تجربے یا تاثرات نہیں ہوں گے۔ وہ ایسے تجربوں کو معنی خیز استعارہ بھی نہیں بنائے گا۔ لطیف معنوی رمز کی صورتوں میں بھی اسے پیش نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ’شعر اقبال‘ کے آخر میں اقبالؔ کے یہاں ایسے تجربے نہیں ملتے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی کتاب ’اردو غزل‘ کے اقتباسات اور  بعض شعراء کے کلام میں رنگوں کے تعلق سے چند اشعار پیش کرنے کے بعد اقبالؔ کے معاملے میں انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے جو توجہ طلب ہو، یا جس سے یہ محسوس ہو کہ اقبالؔ کے بعض اشعار میں رنگوں کا جس طرح ذکر آیا ہے اس کی اہمیت ایسی نہیں ہے کہ ایک یا ایک سے زیادہ رنگوں کو معنی خیز استعارہ یا لطیف معنوی رمز تصور کریں۔ اقبال کا تو یہ خیال ہے کہ جہانِ رنگ و بو کی معنویت ’نگاہ‘ اور  ’نظر‘ سے قائم ہے، یا یہ کہا جائے کہ نگاہ اور  نظر کے فیض ہی سے جہانِ رنگ و بو میں معنویت پیدا ہوتی ہے:

جہان رنگ و بو گلدستۂ  ما

زما آزاد وہم وابستۂ  ما

 

دلِ مارا باد پوشیدہ راہے است

کہ ہر موجود ممنوِ نگاہے است

 

جہاں غْر از تجلی ہائے مانیست

کہ بے ما جلوۂ  نور و صدانیست

جہانِ رنگ و بو کی مصوری کرتے ہیں تو کہیں کہیں رنگ کے چھینٹے پڑ جاتے ہیں۔ مثلاً صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں یا ایسے دوسرے مصرعے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ فوراً ندی کے پانی، موجِ حسین اور  آئینے کے پیکر اور  تلازمے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ سیماب، موج، آب جُو، جگنو، شمع، ستارہ، ماہتاب کی کرن، دن کا سفیر، ماہتاب، سورج کا پیرہن، آئینہ، کوکب، ماہِ تاباں، آبشار کی چادر، سنگ مر مر، صنیا، چاندی، مہتاب کی قبا، رخسار، نور، اختر اور  روشنی کے دوسرے پیکر توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔

فطرت پسندی کے تمام تاثرات پر نظر ڈالیے اور  فطرت کی تصویروں کا ایک جائزہ لیجئے تو محسوس ہوتا کہ اقبالؔ کی نظر رنگوں کی طرف زیادہ توجہ دینا نہیں چاہتی۔ حالانکہ فطرت کی مصوری میں رنگوں کے ذکر کی بڑی گنجائش تھی۔ وہ تو گُل کی پتی کو بھی دیکھتے ہیں تو  ’’ہست و بود‘‘  کے راز پر غور کرنے لگتے ہیں۔ ’بانگ درا‘ کی نظم ’آرزو‘ میں بھی سوئے ہوئے سبزے، سبزے کے بچھونے، اور  دہرے دہرے بوٹے کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے محض ہرے رنگوں کے چھینٹوں سے بعض مصرعوں میں کام لے رہے ہیں۔ ’چشمہ‘، ’ندی‘، ’کہسار‘، ’پانی کی موج‘، ’آئینہ‘، ’سورج‘، ’دیا‘، ’بجلی‘، ’صبح‘، ’شبنم‘ اور  تاروں کے الفاظ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ حسن اور  فنکار کے جلال و جمال کے متعلق اقبال کا تصور یہ ہے:

حسن خلاق، بہار آرزوست

جلوہ اش پروردگار آرزوست

 

سینۂ  شاعر، تجلی زارِ حسن

خیزد از سیناے او انوارِ حسن

 

از نگاہش خوب گردو خوب تر

فطرت از افسونِ او محبوب تر

انہوں نے شاعر کے باطن میں حسن کے گہوارے اور  سرچشمے کو پایا ہے اور  انوار حسن کو باطن کے سینائی سے جلوہ گر ہوتے دیکھا ہے۔ حسن کو نور کی صورت میں محسوس کیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی جمالیات میں رفعت، وسعت اور  گہرائی کے حسن کی اہمیت بڑھی ہے۔ فطرت پسندی میں اقبالؔ کی نظر عام رومانی شعرا کی طرح محض خارجی پہلوؤں پر نہیں ہوتی۔ روشنی کے امیج نے حسن کا جو احساس عطا کیا ہے اس سے وہ داخلی اور  باطنی جلوؤں تک پہنچ جاتے ہیں اور  ساتھ ہی فطرت کو اپنے احساس، جذبے اور  اضطراری کیفیتوں کا آئینہ بنا دیتے ہیں۔ فطرت اپنی جمالیات یعنی اپنے جلال و جمال اور اپنی مسرت آمیز لہروں اپنی سوگواری کے ساتھ ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔

فطرت پسندی کے خوبصورت شعری تجربوں میں چھوٹے چھوٹے لفظوں کی تصویریں جمع ہو گئی ہیں۔ ان کا رشتہ انسان کے ماضی کے تصورات سے گہرا اور معنی خیز ہے اور  یہ سب تصویریں اپنے تلازمات میں زرخیز بھی ہیں اور  قابلِ شناخت بھی۔ روشنی کے یہ پیکر صرف فنکار کے جذبات اور  احساسات سے متاثر نہیں کرتے بلکہ اپنے تلازموں کی گہرائی اور زرخیزی سے بھی متاثر کرتے ہیں۔ فضا آفرینی اور  اظہار تاثرات کے پیش نظر ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اقبالؔ نے ان صورتوں کے شعری کردار کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ فطرت اور  فنکار کے درمیان جیسے دونوں کے نغموں کے آہنگ سے کوئی باطنی رشتہ قائم ہو۔ اس آہنگ نے فطرت کو وجود کی روشنی کا آئینہ بھی بنا دیا ہے اور  خود ’وجود‘ کے اندر فطرت اپنے جلال و جمال کے ساتھ پھیل گئی ہے۔ اقبالؔ کے حسن کے تصور میں تبدیلی بھی آئی ہے۔ زمینی پیکروں مثلاً پہاڑ، ندی، برف، دریا، غنچۂ  گل، کہسار، باغ، گلستاں وغیرہ کے پیکروں سے گریز کا عمل ملتا ہے۔ کائناتی پیکر جو پہلے بھی ان پیکروں کے ساتھ موجود تھے زیادہ ابھرنے لگتے ہیں۔ جمالیاتی فکر میں وسعت، گہرائی اور  تہہ داری آتی ہے اور  روشنی کا ’آرچ ٹائپ‘ اور  زیادہ متحرک ہو جاتا ہے۔ کائناتی روشن پیکر اور  نوری علامتیں زیادہ واضح اور  معنی خیز بنتی ہیں۔

 ’’بانگِ درا‘‘  کی نظموں کے عنوانات پر ایک سرسری نظر ڈالیے تو روشنی کے حسیاتی پیکر کے تحرک کا اور  احساس ہو گا۔

’آفتاب‘، ’صبح آفتاب‘، ’ماہِ نَو‘، ’پیامِ صبح‘، ’چاند‘، ’جگنو‘، ’صبح کا تارہ‘، ’ایک پرندہ اور  جگنو‘، ’بچہ اور  شاعر‘، ’اختر صبح‘، ’چاند اور  تارے‘، ’جلوۂ  حسن‘، ’دو ستارے‘، ’نمودِ صبح‘، ’چاند، ’بزمِ انجم‘، ’شمع اور  شاعر‘، ’نویدِ صبح‘، ’شعاعِ امید‘۔

 ’’بانگِ درا‘‘  کی کم و بیش تمام اچھی نظموں میں روشنی کا شدید تر احساس موجود ہے اور  تخیل کی نوری لکیریں پھیلی ہوئی ہیں۔

 ’’ابر کہسار‘‘  میں  ’’درافشاں، لبِ جُو، گرداب، زادۂ  بحر، پروردۂ  خورشید، شورشِ قلزم، شبستاں ‘‘ ۔

 ’’آفتابِ صبح‘‘  میں سیمائے افق، کوکب، نیّر اعظم، نور سجود ملک۔

 ’’انسان اور بزمِ قدرت‘‘  میں پر توِ مہر، سیم سیال، سورۃ الشمس۔

 ’’نالۂ  فراق‘‘  میں خورشید آشنا، عالم نما۔

اسی طرح دوسری نظموں میں ضوگستری، چشمۂ  حیواں، کشتی سیمیں، جلوہ آشام، ضو، تابِ دوام، کوہِ نور، بزم انجم، فلک فروزی، فکر فلک رس، فلک تاب اور  دوسرے الفاظ و تراکیب موجود ہیں۔

 ’’بالِ جبریل‘‘  اور  دوسرے مجموعوں میں  ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔‘‘  ساقی نامہ، نگاہِ شوق، فصل بہار، شعاع امید، ذوق و شوق ایسی نظمیں تھیں جن میں رنگوں کے ذکر کی بڑی گنجائش تھی۔

’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ ایسی نظم ہے جس میں فلک، زمین، فضا اور  مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج، جلوۂ  بے پردہ، خورشید جہاں تاب کا ذکر ملتا ہے۔ ساقی نامہ میں پردۂ  رنگ اور نیلی نیلی فضا کی باتیں دو اشعار میں اس طرح ختم ہو جاتی ہیں :

جہاں چھپ گیا پردۂ  رنگ میں

لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں

 

فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور

ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

 ’’پردۂ  رنگ‘‘  اور  نیلی نیلی فضا سے بات آگے نہیں بڑھتی۔ ضمیر حیات کی روشنی زندگی کی تابناکی اور  بیداری کائنات وغیرہ کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔

وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات

وہ مے جس سے ہے ہستی کائنات

 

دل طور و سینا و فاراں دو نیم

مری خاکِ جگنو بنا کر اُڑ!

 

جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے

مرا عشق، میری نظر بخش دے

 

چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے

یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے

روشنی کے متحرک اور  بیدار ’آرچ ٹائپ‘ نے پردۂ  رنگ اور  نیلی نیلی فضا سے ذہن کو کس طرح موڑا ہے۔ ضمیر حیات کی روشنی، تجلی، جگنو، نظر، عشق، بجلی، تارے، اور  چاندی، سونے اور  پارے اسی احساس کے ساتھ شعری تجربوں میں ابھرتے ہیں اور  آگے بڑھئے:

یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے

خود کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے

 

خودی کیا ہے رازِ درون حیات

خودی کیا ہے؟ بیداری کائنات

 

فروزاں ہے سینے میں شمع نفس

مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس

اگر یک سرموئے بر تر پرم

فروغِ تجلی بسوزد پرم

 ’’موجِ نفس‘‘  تلوار، تلوار کی دھار، فروزاں، شمعِ نفس، تجلی، یہ سب روشنی کے پیکر اور  اشارے ہیں۔

 ’’شاعِ امید‘‘  میں سورج، شعاعیں، صبح، تجلی کدۂ  دل، خورشید، اجالا، لذتِ نظارہ، سینۂ  روشن، مہر جہاں تاب، شوخ کرن، جوہر سیماب، تنویر، روشن، چشم مہ و  پرویں، سحر وغیرہ کے الفاظ اور  تراکیب سے روشنی کے متحرک لاشعوری حسیاتی پیکر کے تیز عمل کو سمجھا جا سکتا ہے۔  ’’شعاعِ امید‘‘  اقبالؔ کی ایک نمائندہ نظم ہے اور  عمدہ تخلیقی کارنامہ۔ شاعر نے تخیلی آرٹ کی خوبصورت مثال پیش کی ہے۔ تخلیقی عمل کے کرب اور  خارجی تصادم کی صورتوں کے جلوے نمایاں ہوتے ہیں۔

 ’’نگاہِ شوق‘‘  میں نگاہ کی تکرار سے ایک فضا بنتی ہے۔ اقبالؔ باطن کی روشنی کے لیے نگاہ، نگاہِ شوق اور نظر کے استعاروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

 ’’جبرئیلؑ و ابلیس‘‘  میں جب جبرئیلؑ پوچھتے ہیں :

ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بو

تو ابلیس جہانِ رنگ و بو کو سوز و سازو درود داغ و جستجو و آرزو میں تبدیل کر دیتا ہے۔ رنگ و بو کی دنیا اس طرح بدل جاتی ہے، معنی خیز بن جاتی ہے۔ وہ رنگ و بو پر تبصرہ نہیں کر سکا اس لیے کہ وہ اقبالؔ کا المیہ کردار تھا۔ اقبالؔ دراصل اس کے قائل ہیں :

خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

 ’’بالِ جبریل‘‘  میں داغِ جگر کو چراغ بنانے کی بات کرتے ہیں اور ’’ستارے کے پیغام‘‘  میں کہتے ہیں :

تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا

کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی

اس شعر کی تصویریں بھی توجہ چاہتی ہیں :

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ  آفتاب سے نورکی ندیاں رواں

جیسے جیسے تجربے پیچیدہ اور  تہہ دار ہوتے گئے ہیں۔ روشنی کے احساس میں تجریدیت Abstraction پیدا ہوتی گئی ہے۔ روشنی کا تجربہ مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوا ہے۔ ذوق و شوق، مسجد قرطبہ، لالۂ  صحرا، ساقی نامہ، ابلیس و جبریل میں روشنی کی تجریدیت موجود ہے۔ ہر اس قیمتی شعری تجربے میں روشنی کی سیال صورت ہے جو تجریدیت کے پیکر میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اچھی نظموں میں بھی یہ بات ملتی ہے۔ لفظوں نے صورتیں بدل لی ہیں۔ لیکن یہ سب روشنی کے تجربوں کی تخلیق ہیں۔

اقبالؔ نے تلمیحوں کو بھی اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان تلمیحوں میں کئی معنی خیز تلمیحیں روشنی سے وابستہ ہیں۔ مثلاً:

جلوۂ  طور و کلیم، آسمانِ فارس کے ستارے، چشم خلیل اور  غروبِ آفتاب، آتش نمرود، والنجم صاحب مازاغ شقِ قمر، دستِ سفید، جلوۂ  او، ان لطیف و، جمالِ زہرہ، چاہ بابل، شبِ معراج وغیرہ۔

ان میں تین تلمیحیں ان کے بنیادی تصورات سے اس طرح جذب ہو گئی ہیں کہ ان کی کرنیں مختلف شعری تجربوں میں جذب ہو گئی ہیں۔ ’جلوۂ  طور و کلیم، جلوہ او اور  شب معراج‘ عشق، جستجو اور  آرزو، جلوۂ  لامکاں، خودی، نورِ الٰہی، آئینۂ  ادراک اور  کائنات کے سفر کے تجربوں میں ان تلمیحوں کی روشنی پگھل گئی ہے۔

کلامِ اقبالؔ میں ان جمالیاتی تصویروں کی امتیازی صفات، تابناکی، حرارت، وسعت و تہہ داری، بصیرت اور  حرارت کے پیکر، روشنی کے ’آرچ ٹائپ‘ کی متحرک اور  فعال کیفیت کو سمجھاتے ہیں۔ اردو شاعری میں ذوق دیدہ و ری اور  روشن اور تابناک ذہنی تصویروں کی ایسی مثالیں نہیں ملتی ہیں۔ ان نوری پیکروں کے پیچھے حرکت کا احساس حد درجہ زندہ اور  بیدار ہے۔

اقبالؔ کی شاعری میں روشنی کی جمالیات کے ان پہلوؤں کو  ’’ہندوستانی جمالیات‘‘  کی معنی خیز اصطلاح ’پرتیبھا‘ سے سمجھئے تو شعری تجربوں کی جمالیاتی کیفیتوں کا احساس گہرا ہو گا۔

 ’’پرتی بھا‘‘  کے معنی وہ وجدانی تجربے ہیں جو وژن اور  ’کائنات‘ کے گہرے رشتے سے جنم لیتے ہیں اور  افضل اور  عمدہ ترین Super Eminent  تجربوں کی صورتیں اختیار کر لیتے ہیں۔ صدیوں کے باطنی تجربوں پر ان کی بنیاد ہوتی ہے اور  جو روشنی عطا کرتی ہیں، اور  اس روشنی کو متحرک بھی بنا دیتے ہیں۔  ’’ہندوستانی جمالیات‘‘  میں اسے  ’’کوی پرتی بھا‘‘  بھی کہا گیا ہے۔ شیو کی افضل ترین تخلیقی قوت کو  ’’پار پرتی بھا‘‘  کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی اپنی ذات اور اپنے وجود کے اندر بیٹھ کر تمام اشیا اور  ساری کائنات کا تخلیقی اظہار یعنی خود اپنے وجود کا اظہار۔

اقبالؔ کے تخیل اور  ان کے اظہار کے سامنے ساری کائنات اور  اس کے سارے نوری پیکر عریاں ہیں اور  وہ زندہ اور جانے پہچانے لفظوں اور  ان سے خلق کی ہوئی اصطلاحوں سے ان پیکروں اور  علامتوں کو اپنی وجدانی کیفیتوں سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں۔ ’پرتی بھا‘ میں عقل سے پرے ان شعاعوں کا احساس بھی شدید تر ہے جن سے تازگی اور  پاکیزگی کے تاثرات وابستہ ہیں اور  جنہیں ذہن’ ایتھرمیڈیم‘ کے ذریعہ آہستہ آہستہ جانتا اور  پہچانتا اور  محسوس کرتا ہے۔ خودی، عشق، جنوں، جستجو، آرزو وغیرہ کے تمام جمالیاتی تاثرات کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ حرکت، گرمی، تابناکی، حرارت اور بصیرت کے تمام شعری تجربوں کے پیچھے صدیوں کے باطنی تجربے بھی ہیں اور  شاعر کے افضل اور  عمدہ ترین احساسات بھی۔

اقبالؔ کے نوری پیکروں کا کردار  ’’جذباتی‘‘  ہے۔ یہ اپنے طور پر خاص کیفیتوں کا اظہار کرتے ہیں اور  ہم انہیں ان کی کیفیتوں کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ تجربے میں شامل ہو کر ان تجربوں کی علامتیں بن کر ان کی حیثیت موسیقی کی لہروں کی ہو جاتی ہے۔ ایک تجربے کی جذباتی کیفیت، دوسرے تجربے کی جذباتی کیفیت سے مختلف ہے۔ اقبال کی جمالیات میں التباس کے حسن کے ساتھ منفرد اظہاری کردار کو پہچانتے ہوئے نوری پیکروں کی جذباتی کیفیتوں کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہے۔

اقبالؔ کے لفظوں، ترکیبوں اور  استعاروں میں نا محسوس طور پر اظہاری تبدیلی ہو جاتی ہے۔ بہ ظاہر ایک ہی قسم کے پیکر مختلف اشعار میں ملتے ہیں، لیکن موسیقی کی لہروں کی طرح یہاں بھی اظہاری تبدیلی ہوتی ہے اور  تاثرات مختلف ہوتے ہیں۔ اس لیے جانے پہچانے پیکر خود کو جتنا خاموش اور  منجمد ظاہر کریں اور  یہ بتائیں کہ وہ تو عام خاموش پیکر ہیں۔ وہ خاموش اور  منجمد نہیں ہوتے، شعری تجربوں کے آہنگ سے اکثر ان کی صورت بظاہر بدلتی نظر نہیں آتی۔ لیکن ان کی اظہاری صورت کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں ترسیل کا شعری اور  تصویری ذریعہ سمجھتے وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم جمالیاتی بصیرت اور  جمالیاتی مسرت اور  آسودگی حاصل کرنے میں زیادہ خوش نصیب نہ ہوں گے۔ اقبالؔ کے ایسے شعری تجربوں سے اپنے عزیز اور  محبوب پیکروں سے ایک بار پھر ذہنی اور  جذباتی رشتہ قائم ہوتا ہے اور  اس طرح ان سے وابستہ بہت سی یادوں اور  تجربوں کے ساتھ شاعر کے جذبات تخیل اور  حسی تجربوں سے جمالیاتی انبساط اور  جمالیاتی مسرت حاصل ہوتی ہے، اور  یہ اقبالؔ کا کارنامہ ہے۔

اقبالؔ کے تمام بنیادی پیکروں مثلاً چاند، ستارے، آسمان، آفتاب، صبح، برق، دریا، چشمہ، سمندر وغیرہ قدیم انسان کے ذہنی پیکروں کی طرح جانے پہچانے ہیں، اجتماعی لاشعور میں یہ جانے کتنے تجربوں کی علامتیں ہیں۔ یہ قدیم ترین حسی پیکر ہیں۔ ان پیکروں کا تعلق  ’’افسانوی مذہبی رجحان‘‘  یعنی قبائلی زندگی کے اس رجحان سے بھی گہرا ہے جو  ’’مِتھ اور  مذہب‘‘ کا عطا کیا ہوا رجحان ہے۔  ’’اقبال کی جمالیات‘‘  میں ان تاب کار اور  روشن پیکروں اور  ان سے خلق کی ہوئی ترکیبوں اور ان کی شعاعوں میں بنی ہوئی صورتوں سے قدیم انسان کے ذہنی اور  حسی پیکروں کی طرف بھی ذہن جاتا ہے، جس میں مخصوص سیاروں، ستاروں اور  درختوں کی اہمیت ہے، جو اپنے تحرک کے باوجود ذہن میں ٹھہرے ہوئے جمے ہوئے ہیں اور  حسیاتی بن گئے ہیں۔ اور  قدیم قبائلی تجربوں کی طرف بھی جاتا ہے، جن میں متھ اور  مذہب کے عطا کیے رجحان Mythico Religious Attitude نے ایسے پیکروں کو بے حد محبوب رکھا ہے، ان پیکروں میں انجماد Movement اور  تحرک Concentration  دونوں کی کیفیتیں متاثرکرتی ہیں، ساتھ ہی ان کی حسی کیفیت مختلف جذبات کو بیدار کرتی ہے۔ ان پیکروں سے جانے کتنے تاثرات، تصورات اور  تجربات وابستہ ہیں، انسان کے سفر کے تجربوں کے جانے کتنے راز پنہاں یا  ’’مسٹری‘‘  جانے کتنے معمے اور  جانے کتنے موثر، درد انگیز اور  مسرت آمیز تاثرات جذب ہیں۔ تصوف اور  طریقِ معرفت کے پاکیزہ اور پیچیدہ حسی اور  جذباتی فکری اور  وجدانی تصورات اور  تجربات کا بھی ان سے گہرا بامعنی رشتہ ہے۔ پوشیدہ معاملات کے تعبیر کنندگان Mystagogues کے بھی یہ محبوب پیکر رہے ہیں۔ یہ ’امیج‘ حیرت انگیز، ناقابلِ یقین، مخفی اور پوشیدہ خلاؤں میں پنہاں حسی تاثرات کی ظہور پذیر صورتوں اور  فینومینا Phenomena کی تصویریں ہیں۔ جذبہ اور احساس کی آمیزش اور  ترکیب اور  تخیل کے پُر اسرار عمل نے ان میں جانے کتنی جہتیں پیدا کی ہیں۔ یہ پیکر ذہنی اور جذباتی اسی وقت بنے ہیں جب ادراک نے انہیں مصور کر کے  ’’گیان‘‘  بنا نداا مکتے ہوئے ارتقدیا ہے۔

اور اقبالؔ نے بھی اپنے احساس جمال سے انہیں گیان بنا دیا ہے اور  ہر پیکر نفی کیفیتوں کی وجہ سے اور  زیادہ معنی خیز بن گیا ہے۔

اقبال کے کلام میں جمالیاتی پیکروں کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ روشن، تابناک، اور  تاب کار کائناتی اور زمینی صورتوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کا پورا شعور ان کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ان روشن، تابناک اور  تاب کار کائناتی صورتوں کے اثرات ان پر ہوتے ہیں، ان سے ایک ذہنی فضا بنتی ہے، ان کے کلام میں  ’’امیج‘‘  کا شعور نمایاں ہوتا ہے۔  ’’بانگِ درا‘‘  میں ایسی کئی نظمیں ہیں جن میں جمالیاتی پیکروں کی یہ صورت موجود ہے۔ آفتاب، ستارے، ابر، کہسار، اور  جگنو وغیرہ سے جہاں وہ مخاطب ہیں وہاں روشنی کے پیکر اسی انداز سے سامنے آئے ہیں۔ پیکروں سے ایک ذہنی رشتہ اور ایک جذباتی تعلق قائم ہے۔

جمالیاتی پیکروں کی دوسری صورت یہ ہے کہ تاب ناک اور  تاب کا ر صورتوں کی تیز لہریں آتی ہیں اور  ان تیز لہروں میں سائیکی، انہیں پگھلتا ہوا محسوس کرتی ہے۔ ایک موجود صورت سے جانے کتنی صورتیں جنم لیتی ہیں۔ جمالیاتی بیداری یا جاگرتی Aesthetic Awareness کی پہچان ہوتی ہے، اصل صورت قائم نہیں رہتی۔ سارترؔ کے الفاظ میں ایسے  ’’موجود پیکر‘‘  لامعنویت میں گم ہو جاتے ہیں اور ان کا  ’’امیج‘‘  ہر لمحہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ  ’’امیج‘‘  اپنی ذات میں کچھ نہیں ہوتے۔ وہ شعور کی لہروں پر خود شعور کاحصہ بن جاتے ہیں، جو  ’’نہیں ‘‘  ہوتا اس کے پیکر یا  ’’امیج‘‘  کو شدت سے محسوس کرنا اور  دیکھنا اپنے جمالیاتی تجربوں میں اسے سیال بنا دینا اور  اس حد تک کہ  ’’امیج‘‘  جو کچھ ظاہر کرے اس سے زیادہ جہتیں پیدا کرے یا اپنی ظاہری صورت سے زیادہ جہتوں کا احساس دلائے معمولی کارنامہ نہیں ہے۔

بالِ جبریل، ضرب کلیم، جاوید نامہ اور  اسرار خودی میں ایسے روشن اور  تاب ناک پیکر موجود ہیں، ہم انہیں جتنا دیکھیں اور  جتنا محسوس کریں، یہ پیکر ہم سے سرگوشیاں کریں گے۔

 ’’اقبالؔ کی جمالیات‘‘  میں جہاں روشنی کا احساس  ’’جمالیاتی جذبہ‘‘  یا رَس بن گیا ہے وہاں جمالیاتی شعری تجربہ بے حد قیمتی ہو گیا ہے اور  یہ احساس  ’’جمالیاتی جذبہ‘‘  اسی وقت بنا ہے جب خارجی کیفیت نے سائیکی پر باطنی ہیجانات سے ایک معنی خیز رشتہ قائم کیا ہے۔ جمالیاتی رجحان نے اپنے طور پر  ’’خارجی کیفیتوں ‘‘  کا فنکارانہ انتخاب کیا ہے۔

ہندوستان میں علمائے جمالیات نے یہ کہا ہے کہ  ’’رس‘‘  یا جمالیاتی جذبہ‘‘  پہلے موجود نہیں ہوتا۔ تخلیقی عمل میں پیدا ہوتا ہے اور  پیکروں کی صورتیں اختیار کرتا ہے۔ حقیقی اور  غیر حقیقی کے درمیان کی شئے جمالیاتی جذبے کی تخلیق ہوتی ہے اور  جمالیاتی مسرت اور  آسودگی عطا کرتی ہے۔ اس کا جمالیاتی آفاقی کردار متاثر کرتا ہے۔ ’رس‘ بنایا نہیں جاتا۔ شعوری طور پر اس کی تخلیق نہیں ہوتی، خارج اور باطن کی پُر اسرار آمیزش سے جنم لیتا ہے، یہ عام نفسیات کا موضوع نہیں ہے بلکہ جمالیاتی نفسیات کا موضوع ہے۔ اس لیے تخلیقی عمل ہے لاشعور میں پوشیدہ جمالیاتی تجربوں سے جب کسی خارجی کیفیت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت اپنی صورت میں موجود نہیں رہتی۔ پُر اسرار داخلی عمل سے اس کی صورت جمالیاتی ہو جاتی ہے۔ حقیقی اور  غیر حقیقی کے درمیان اس کے جمالیاتی آفاقی کردار کی پہچان ہوتی ہے۔ ایک سے زیادہ جذبے اپنے رنگوں کے ساتھ گھل جاتے ہیں اور  ’رس‘ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ آہنگ بدل جاتا ہے اور  اسی پُر اسرار آہنگ سے ہمیں جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔

اقبالؔ کے خوبصورت شعری تجربوں میں ’رس‘ کی یہ کیفیت موجود ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں جن ’دس گنوں ‘ پر زور دیا گیا ہے ان میں کئی گن روشنی کے تجربوں میں ملتے ہیں۔ لفظوں کی مستحکم ترتیب، پیکروں کی جاگرتی، سمادھی یعنی سی مسٹری، عام لفظوں میں گہری معنویت، نرمی، مناسب آہنگ، لہجے کی فطری کیفیتیں، غیظ و غضب سے آزادی، استعاروں اور  پیکروں کی متحرک صورتیں، معنوی کیفیت سے فوراً ذہنی رشتہ قائم کرنے کی صلاحیت اور  لفظوں کی آفاقی چمک، دَمک، ان کی نوری اور  آتشیں کیفیت ظاہر ہے اقبالؔ کی وہ شاعری جو سچائی کا اظہار، متعلق، میں کرتی ہے۔ جمالیاتی نقطۂ  نظر اور  شاعری کی بہتر سچائیوں کے پیش نظر اہمیت نہیں رکھتی، وہی شاعری اہم ہے جو سچائی کا اظہار  ’’روشنی‘‘  میں کرتی ہے۔

٭٭٭

ترجمان القرآن کے اسلوب کا جمالیاتی معیار

ترجمان القرآن کا اسلوب نئے اردو کلچر کا عطا کیا ہوا وہ روشن اسلوب ہے جو صرف شعور و احساس کو متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ بصیرت بھی عطا کرتا رہتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی اپنی بصیرت نے اس اسلوب کو خلق کیا ہے، جس کے لہجہ و انداز اور  طریق استدلال سے مفاہیم و اقدار کی وحدت کا احساس ملتا رہتا ہے۔ اس اسلوب میں شخصیت کو اس لیے زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ قرآن حکیم شخص کا تجربہ بن گیا ہے۔ تجربہ جو نگاہ اور  وجدان، بصیرت اور  انبساط کا سرچشمہ ہے، قرآن پاک کے اٹھارہ پاروں کا ترجمہ قرآنی مفاہیم کے جوہر کو جس طرح نمایاں کرتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مطالعہ کس طرح آزادانہ طور پر انہماک اور  شوق سے کیا گیا ہے، مختلف موضوعات اور  مواد اور  سادہ اور  پیچیدہ مسائل کو سمجھنے میں وژن کا کارنامہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے وژن ہی کا کرشمہ ہے کہ مفسرین کی بہت سی باتوں سے گریز کر کے جانے کتنی سچائیوں تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ملتی ہے۔ جذبات کے اظہار میں توازن ہے، استعاروں کی گرہیں کھولی گئی ہیں۔ قرآن مجید کی پاکیزہ خوشبوؤں سے قاری کے احساس و شعور اور  اس کے پورے وجود کو معطر کرنے کا جو اسلوب مولانا نے خلق کیا ہے وہ ان کی پچھلی تحریروں کے اسالیب سے مختلف تو ہے ہی، تسویہ، مطابقت اور  ہم آہنگی Harmony کا بھی ایک منفرد خوبصورت نمونہ ہے۔ مختلف موضوعات کی تشریح اور  قرآنی مفاہیم کے گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے آہنگ قرآن کو اس طرح جذب کیا گیا ہے کہ اکثر اس کا اثر تشریح کے آہنگ پر ہوا، جس سے اسلوب کی دل کشی اور  دل آویزی اور  بڑھ گئی ہے۔ ہم جسے حکیمانہ احساس کہتے ہیں وہ اسی آہنگ کی دین ہے۔ ترجمان القرآن کے اسلوب میں موضوع اور  ہیئت کی مطابقت اور  ہم آہنگی راحت بخشتی بھی ہے اور مسرت بھی، شاد بھی کرتی ہے اور  انسانیت کے تئیں بیدار بھی کرتی ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ قاری اس اسلوب کے خالق کی طرح سوچنے اور  محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے حواس بیدار ہونے لگتے ہیں، تخلیق کائنات اور  تخلیق آدم، خالق اور  مخلوق اور  تخلیقی جمالیاتی عوامل سب کو سمجھنے کے لیے ایک نظر مل جاتی ہے۔ یہ اسلوب جو ابلاغ کا اپنا حسن رکھتا ہے، تزکیہ نفس بھی کرتا ہے اور  ایک معروضی Objective زاویہ نگاہ بھی عطا کرتا ہے۔ جملوں کی تعدیل یا سی میٹری (Symmetry) اور  عبارتوں کے داخلی آہنگ نے ترجمان القرآن کے اسلوب میں بڑی مطابقت، ہم آہنگی یا ہارمونی (Harmony) پیدا کی ہے۔

ترجمان القرآن، میں مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب کی دو جہتیں واضح ہیں۔ پہلی جہت وہ ہے جو جلد اول کے لیے بے مثال مقدمے میں ہے۔ نیز دونوں جلدوں کے وضاحتی بیانات میں ہے اور  دوسری جہت تفسیروں میں۔ دونوں کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں، لیکن مفاہیم اور  اقدار کی وحدت کے شعور نے دونوں میں ایک باطنی رشتہ قائم کر دیا ہے۔ ایک ہی شخصیت ہے، اردو کا صاحب اسلوب فنکار ہے جو قرآن اور آہنگ کی قدر و قیمت جانتا ہے اور  شارح اور  مفسر کی حیثیت سے اپنی بصیرت میں ایسی روشنی پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس سے وہ قرآن فہمی کو آسان بنا سکے اور بعض ایسے گوشے بھی اجاگر کر سکے جو اب تک مفسرین سے پوشیدہ تھے۔

ایک جہت یہ ہے:

’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ سہل اور  دلنشیں بھی ہوتی ہے اور  خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے، الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور  تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہو گی ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور  دل نشیں بھی ہو دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آ جائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو وہ اس طرح قبول کرے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات ہے۔

…اس سے زیادہ سہل اور  دلنشیں اسلوب بیان کیا ہو سکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں۔ ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں، ہر لفظ صاف اور  دلنشیں معانی کا نگینہ ہے جو اس اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن جلد اول ص 28-27 سورہ فاتحہ اسلوب بیان)

 ’’ربوبیت اور  رحمت کے بعد مالک یوم الدین کے وصف نے یہ حقیقت بھی آشکار کر دی کہ اگر کائنات میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے۔ بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عادل ہے اور  اس کی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور  نتیجہ مقرر کر دیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں بلکہ عین رحمت ہے‘‘ ۔         (ایضاً)

تفسیر سورہ فاتحہ کا فکر انگریز اور  معنی خیز مقدمہ ایک مظہر ہے جو ایک فینومینا، خلق کر دیتا ہے، فکر و نظر اور  اسلوب کی ہم آہنگی نے حکیمانہ احساس کو حد درجہ محسوس بنا دیا ہے۔ عبارتیں سادگی کے حسن کو لیے پرکار ہیں، موضوع اور  ہیئت کی وحدت نے اس اسلوب کو زیادہ موثر اور  جاذب نظر بنا دیا ہے۔ پورے مقدمے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اسلوب کی اس جہت کی کئی سطحیں نمایاں ہوں گی۔ مصنف کی منظم شخصیت، اس کا رجحان، ذہن، عقل و فہم، دانشوری کی صحت اور  اصابت اور پوری مذہبی اور  تمدنی وراثت ان سطحوں پر ان کی پہچان ہو جاتی ہے، ان سب کی وجہ سے انتہائی گہرائی میں ایک برقی سطح پیدا ہو گئی ہے کہ جس کا گہرا رشتہ کلچر یا ثقافت سے ہے۔ ایسے اسلوب میں مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایک مظہر کی ہو گئی ہے۔

دوسری جہت یہ ہے:

 ’’ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے (ایک آدمی رات کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا اس) نے (روشنی کے لیے) آگ سلگائی لیکن جب (آگ سلگ گئی اور  اس کے شعلوں سے) آس پاس روشن ہو گیا تو قدرت الٰہی سے ایسا ہوا کہ (اچانک شعلے بجھ گئے اور ) روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی کے بعد پھر اندھیرا چھا گیا اور  آنکھیں اندھی ہو کر رہ گئیں کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا، بہرے، گونگے، اندھے ہو کر رہ گئے۔ پس  جن لوگوں کی محرومیِ شقاوت کا یہ حال ہے) وہ کبھی اپنی گم گشتگی سے نہیں لوٹ سکتے‘‘ ۔(تفسیر: از البقرہ)

 ’’اور (پھر غور کرو وہ واقعہ) جب ابراہیمؑ کو اس کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا تھا اور  وہ ان میں پورا اترا تھا، جب ایسا ہوا تو خدا نے فرمایا اے ابراہیم! میں تجھے انسانوں کے لیے امام بنانے والا ہوں (یعنی دنیا میں آنے والی قومیں تیری دعوت قبول کریں گی اور  تیرے نقش قدم پر چلیں گی۔ ابراہیمؑ نے عرض کیا جو لوگ میری نسل میں سے ہوں گے ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ ارشاد ہوا جو ظلم کی راہ اختیار کریں تو ان کا میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں ‘‘ ۔                   (تفسیر: از البقرہ)

مولانا واضح تفسیر و تشریح کے ساتھ مختلف مقامات پر تشریح و وضاحت بھی کرتے جاتے ہیں۔ قرآن فہمی کو آسان بنانے اور  دل و دماغ میں اتارنے کے لیے مولانا کے اسلوب کی یہ جہت نمایاں ہوئی ہے۔ اسلوب کی اس دوسری جہت میں جو توانائی اور  آہنگ ہے وہ قرآن مجید کی عبارتوں کی برقی کیفیت توانائی اور آہنگ سے گہرا رشتہ رکھتی ہے۔ تشریح اور  وضاحت میں مولانا کے مزاج اور  رجحان نے تفسیر کو تاویلات و توجیہات سے بچائے رکھا ہے اور ان کا اثر اسلوب پر بھی ہوا ہے، سادگی کا حسن پیدا ہوتا گیا ہے۔ اگر صرف فقہی اور کلامی بحثوں میں پڑ جاتے تو انداز گفتار دوسرا ہوتا اور ایسی شیرین اور  دلآویزی پیدا نہ ہوتی، عربی زبان کے نکات اور  رموز کو بخوبی سمجھتے تھے۔ عربی محاوروں کے مفاہیم اور  طریقہ استعمال سے واقف تھے۔ تفسیر اور  تشریح میں انہوں نے اپنی فکر و نظر سے کام لیتے ہوئے جانے کتنی اسرائیلی روایات کو الگ کر دیا ہے۔ان کے وژن نے دانشوری کی اس سطح پر روشنی عطا کی کہ جہاں عقل اور  وجدان دونوں کی اہمیت ہے، وضاحت و تشریح میں عقل اور  وجدان دونوں کے تحرک ہی نے ایسے اسلوب کو جان پرور بنا دیا ہے جو اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے  ’’اصول ترجمہ و تفسیر‘‘  کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس میں بہت سی باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ مولانا نے اپنے مطالعہ سے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا تھا کہ پچھلی تفسیروں اور  تشریحوں سے قرآن مجید کو سمجھنے میں دشواریاں بھی پیدا ہوئی ہیں، قرآن کی حقیقت نگاہوں سے پوشیدہ ہوتی گئی ہے اور  اس کے مطالعہ و فہم کا عمدہ معیار قائم نہ ہو سکا ہے۔ فرماتے ہیں :

 ’’صدیوں سے اس طرح کے اسباب و  موثرات نشوونما پاتے رہے ہیں جن کی وجہ سے بتدریج قرآن کی حقیقت نگاہوں سے مستور ہوتی گئی اور  رفتہ رفتہ اس کے مطالعہ و فہم کا ایک نہایت پست معیار قائم ہو گیا… یہ پستی صرف معانی و مطالب ہی میں نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز میں ہوتی ہے۔ حتی کہ اس کی زبان، اس کے الفاظ، اس کی تراکیب اور  اس کی بلاغت کے لیے بھی نظرو فہم کی کوئی بلند جگہ نہیں رہی‘‘ ۔ (ترجمان القرآن جلد اول ص۹)

یہی وجہ ہے کہ مولانا نے قرآن فہمی کو آسان بنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور  بلند پایہ شارح اور  مفسر کی حیثیت سے قرآن مجید کی حقیقت کو واضح کرنا چاہا، کوشش کی کہ فکر و نظر کی نئی راہیں نکلیں۔ مولانا کو اس حقیقت کا علم تھا کہ قرآن مجید سچائیوں کے تئیں بیدار کر کے اعتماد اور  یقین پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف اقوال اور  تاویل و توجیہ میں ذہن کو الجھایا نہیں بلکہ چاہا کہ قرآن کی عمومیت کے تئیں بیداری پیدا ہو، لہٰذا ان کے مطابق اسلوب تراشا، ایسا اسلوب یا ایسا نیا تازہ آزاد اسلوب جو کلام الٰہی کی تعلیمات کی آزاد فضا کے مطابق ہو۔

مولانا نے قرآن حکیم کے اسلوب بیان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے:

 ’’قرآن حکیم اپنی وضع، اپنے اسلوب، اپنے انداز بیان، اپنے طریق خطاب، اپنے طریق استدلال، غرض کہ اپنی ہر بات میں ہمارے وضعی اور صناعی طریقوں کا پابند ہے اور  نہ اسے پابند ہونا چاہیے، وہ اپنی ہر بات میں اپنا بے میل فطری طریقہ رکھتا ہے اور  یہی وہ بنیادی امتیاز ہے جو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے طریقہ ہدایت کو علم و حکمت کے وضعی طریقوں سے ممتاز کر دیتا ہے۔            (ترجمان القرآن ص 10)

 ’’قرآن جب نازل ہوا تو اس کے مخاطبوں کا پہلا گروہ بھی ایسا ہی تھا، تمدن کے وضعی اور  صناعی سانچوں میں ابھی ان کا دماغ نہیں ڈھلا تھا، فطرت کی سیدھی سادی فکری حالت پر قانع تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن اپنی شکل و معنی میں جیسا واقع ہوا تھا، ٹھیک ٹھیک ویسا ہی اس کے دلوں میں اتر گیا اور  اسے قرآن کے فہم و معرفت میں کسی طرح کی دشواری محسوس نہیں ہوئی۔ صحابہ کرام پہلی مرتبہ قرآن کی کوئی آیت یا سورت سنتے تھے اور  سنتے ہی اس کی حقیقت کو پا لیتے تھے‘‘ ۔ (ایضاً: ص 10)

یہی وجہ ہے کہ مولانا نے یہ چاہا کہ قرآن پاک کو ٹھیک ٹھاک سمجھ لینے کے لیے سادہ، دل کش اور  دل نشیں اسلوب اختیار کیا جائے، زبان مشکل نہ ہو، مولانا یقیناً کامیاب رہے اور ان کی وجہ سے اردو ادب کو ایک روشن اسلوب بھی ملا جو مقدمۂ  تفسیر، تفسیر البیان اور ’’ترجمان القرآن‘‘  میں اپنی ان دو جہتوں کو محسوس بناتا ہے کہ جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ لفظوں اور  عبارتوں کے تعلق سے وہ اتنے محتاط اور  چوکنے تھے کہ مشکل لفظوں کو سہل اور آسان لفظوں سے بدلتے رہے ہیں۔ تحریر کیا ہے:

 ’’یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ  ’’ترجمان القرآن‘‘  کے نوٹ تشریح و وضاحت کا ایک مزید درجہ ہیں ورنہ قرآن کا صاف صاف مطلب سمجھ لینے کے لیے متن کا ترجمہ پوری طرح کفایت کرتا ہے۔ میں نے تجربے کے لیے سورہ بقرہ کا مجرد ترجمہ ایک پندرہ برس کے لڑکے کو دیا جو اردو کی آسان کتابیں روانی کے ساتھ پڑھ لیتا تھا پھر ہر موقع پر سوالات کر کے جانچا۔ جہاں تک مطلب سمجھ لینے کا تعلق ہے وہ ایک مقام پر بھی نہ اٹکا اور  تمام سوالوں کا جواب دیتا گیا پھر ایک دوسرے شخص پر تجربہ کیا جس نے بڑی عمر میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہے اور  ابھی اس کی استعداد اس سے زیادہ نہیں کہ اردو کے تعلیمی رسائل بہ آسانی پڑھ لیتا تھا، یہ تین جگہ تین فارسی لفظوں پر اٹکا لیکن مطلب سمجھنے میں اسے بھی کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی۔ میں نے وہ الفاظ بدل کر نسبتاً زیادہ سہل الفاظ رکھ دیے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن حصہ اول ص ۷۱)

بہتر قرآن فہمی کے لیے اسلوب بیان کے تئیں ان کا جو محتاط رویہ تھا اس سے ایک طرف قرآن مجید کو ٹھیک ٹھاک سمجھ لینے میں مدد ملی اور  دوسری طرف اردو ادب کو ایک منفرد اسلوب ملا، ترجمان القرآن کے اسلوب کے متعلق مولانا نے فرمایا ہے:

 ’’اس کی ترتیب سے مقصود یہ ہے کہ مطالب قرآن کے فہم و تدبر کے لیے ایک ایسی کتاب تیار ہو جائے جس میں کتب تفسیر کی سی تفصیلات تو نہ ہوں لیکن وہ سب کچھ ہو جو قرآن کو ٹھیک ٹھاک سمجھ لینے کے لیے ضروری ہے۔ اس غرض سے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے امید ہے کہ اہل نظر اس کی موزونیت بہ یک نظر محسوس کر لیں گے۔ پہلے کوشش کی ہے کہ قرآن کا ترجمہ اردو میں اس طرح مرتب ہو جائے کہ اپنی وضاحت میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہ رہے، اپنی تشریحات خود اپنے ساتھ رکھتا ہو پھر جا بجا نوٹوں کا اضافہ کیا ہے، جو سورت کے مطالب کی رفتار کے ساتھ ساتھ برابر چلے جاتے ہیں اور  جہاں کہیں ضرورت دیکھتے ہیں مزید رہنمائی کے لیے نمودار ہو جاتے ہیں۔ یہ قدم قدم پر مطالب کی تفسیر کرتے ہیں، اجمال کو تفصیل کا رنگ دیتے ہیں، مقاصد و وجود سے پردے اٹھاتے ہیں، دلائل و شواہد کو روشنی میں لاتے ہیں، احکام و نواہی کو مرتب و منضبط کرتے ہیں ا ور زیادہ سے زیادہ مختصر لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی و معارف کا سرمایہ فراہم کرتے جاتے ہیں ‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۷)

زیادہ سے زیادہ مختصر لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی و معارف کا سرمایہ مولانا کے اس اسلوب کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔

مولانا فرماتے ہیں کہ قرآن کی صحت فہم کے لیے عربی لغت و ادب کا صحیح ذوق شرط اول ہے۔ چونکہ یہ ذوق کمزور پڑتا گیا اس لیے مطالب میں بے شمار الجھاؤ پڑ گئے، عربی زبان کے محاورات و  مدلولات کا ذوق سلیم باقی نہ رہا۔ ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے جہاں مولانا کے علم اور ان کے عربی لغت و ادب اور  محاورات و  مدلولات کے صحیح ذوق کا پتہ چلتا ہے وہاں اردو کلچر اور  زبان کی توانائی اور  برقی کیفیتوں کی بھی بہتر پہچان ہوتی ہے۔ اس کی توانائی اور  اس کی برقی کیفیتوں کا کرشمہ ہے کہ قرآن کا جلال و جمال مولانا کی قرآن فہمی کے ساتھ اس سانچے میں ڈھل گیا۔

 

اردو کے تعلق سے بات بہت اہم ہے کہ قرآن پاک کے فطری اسلوبوں سے آشنا ایک شخصیت نے اسے منتخب کیا اور  تشریح و تعبیر اور  ترجمانی میں اس زبان کی وجہ سے کوئی الجھاؤ پیدا ہوا اور  نہ کسی سطح پر مایوسی ہوئی۔ مولانا کا ایک بڑا مقصد پورا ہوا اس لیے کہ انہیں علم تھا کہ جوں جوں وضعیت کا ذوق بڑھا ہے، قرآن کے فطری اسلوبوں سے طبیعتیں نا آشنا ہوتی گئی ہیں اور  پھر وہ وقت آ گیا کہ قرآن کی ہر بات وضعی اور  صناعی طریقوں کے سانچوں میں ڈھالی جانے لگی، چونکہ ان سانچوں میں ڈھل جانا مشکل تھا اس لیے مختلف قسم کے الجھاؤ پیدا ہونے لگے۔ مولانا ایسے اسلوب کے خواہش مند تھے کہ جس میں سادگی کا حسن بھی ہو، حسن کا جلال و جمال بھی اور  اردو زبان نے ان کی ایسی مدد کی کہ ایک جانب قرآن کی تفسیروں کی تاریخ میں ایک تاریخی کارنامہ انجام پایا اور  دوسری جانب اردو کی مروج اصطلاحات اور  ان کے جوہر کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ اردو زبان کی مدد سے مولانا نے قرآن پاک کا طریق استدلال نمایاں کیا، اپنی زبان اور  اپنے اسلوب کا رشتہ قرآن کی بلاغت سے قائم کیا، وضاحت کی ایسی تکنیک وضع کی جو اپنی تشریحات خود اپنے ساتھ لیے رہی، قرآن مجید کے عربی اسلوب کا تناسب اور  اس کی ہم آہنگی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اسلوب  ’’سی میٹری‘‘ Symmetry اور  ہارمونی Harmony کا ایک اعلیٰ اور  افضل جمالیاتی معیار قائم کرتا ہے، مولانا کی ذات اور  شخصیت، ان علم اور  مطالعے اور ان کی فکر و نظر اور  وژن نے اردو زبان کی سحر انگیزی سے جو کام لیا ہے، کے اور  عربی زبان میں موضوع اور  ہیئت کے پیش نظر اور  قرآن کی آیتوں کے جوہر کے پیش نظر اردو اسلوب میں جو  ’’سی میٹری‘‘  اور ’’ہارمونی‘‘  پیدا کی ہے وہ ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ اردوالفاظ مضمون کی نوعیت اور  موقع ومحل کے لحاظ سے جمالی اور  جلالی صفات کے آئینہ دار بنتے ہیں اور  صوتی تاثر عطا کرتے جاتے ہیں، ساتھ ہی معنی ومفہوم کی بلاغت کو محسوس بناتے جاتے ہیں، مشرقی اسلوبیات کی تاریخ میں ان باتوں کی وجہ سے اردو زبان اور مولانا کے اسلوب بیان دونوں کو ممتاز درجہ حاصل ہوتا ہے۔

مولانا ابو الکلام آزاد کے اسلوب کی پہلی جہت فصاحت، بلاغت اور  سحر انگیزی کی عمدہ مثال ہے، یہ اسلوب دل و ذہن میں اترکر بصیرت عطا کرتا ہے۔ ایسا حکیمانہ احساس ہے کہ جس سے موجود بصیرت تیز اور  تیز تر ہو جاتی ہے، حقیقتوں کو واضح کرنے کے لیے لہجہ، خطاب اور  انداز گفتار کا رنگ انتہائی پرکشش ہے۔ قرآن جو شخص کا تجربہ بنا ہے، جمالیاتی انبساط کا سرچشمہ محسوس ہوتا ہے۔ اپنے اپنے منتخب کیے ہوئے مواد پر مولانا کی زبردست گرفت ہے، اپنے حاصل شدہ اور  منتخب کیے ہوئے مواد کا استعمال آزادانہ طور پر کرتے ہیں تاکہ قرآن حکیم کے جوہر تیزی سے سامنے آتے جائیں، کہیں بھی یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی بات پوشیدہ رکھی جا رہی ہے۔ مولانا کے اسلوب کی اسی جہت نے  ’’فنکار نثر نگار‘‘  کے جمالیاتی احساس و شعور کے تعلق کو بھی بیدار کیا ہے اور ایک جمالیاتی سطح کا احساس بخشا ہے کہ جو اس اسلوب کی بنیادی سطح ہے، اکثر مقامات پر انکشافات کا معجزہ اپنی آب و تاب سے متاثر کیا ہے۔

 

تفسیر سورۂ  فاتحہ کے مقدمے کا اسلوب تجزیہ چاہتا ہے، اس کی کئی سطحیں ہیں۔ غور کیا جائے تو ایک سطح پر  ’’اپنی شخصیت‘‘  کا احساس ملے گا یعنی فنکار نثر نگار، اپنی شخصیت سے واقف ہے۔ لہٰذا اسے معلوم ہے کہ خود اپنی ذات سے گفتگو کرتے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہونے کے لیے کس سطح تک جانا ہے۔ فلسفیانہ، تاریخی اور  نفسیاتی موضوعات و مسائل لیے اسی سطح سے اٹھتا ہے۔

دوسری سطح وہ ہے کہ جہاں وہ دوسروں تک اپنی باتیں پہنچاتا ہے، فلسفیانہ، تاریخی اور  نفسیاتی موضوعات اور  مسائل کے ساتھ اخلاقی اور  کسی حد تک سماجی اور  ثقافتی موضوعات و مسائل بھی موجود ہوتے ہیں کہ جن پر وہ اظہار خیال کرتا ہے۔

تیسری سطح وہ کہ جہاں اپنے سماجی اور  ثقافتی ماحول سے رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ پوری انسانیت اور  انسانیت کی تاریخ سے براہ راست گفتگو کرتا نظر آتا ہے۔

اور چوتھی سطح وہ ہے کہ جہاں انتہائی عمدہ جمالیاتی شعور اور  زاویہ نگاہ کو محسوس بناتے ہوئے پوری کائنات کے حسن و جمال پر گفتگو کرتا ہے اور  فلسفیانہ اور  مابعد الطبعیاتی مسائل سے خود ان کی روشنی میں زندگی کے مقاصد پر اظہار خیال کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا  ’’ہر کتاب اور  تعلیم کچھ مرکزی مقاصد ہوتے ہیں اور  اس کی تمام تفصیلات انہیں کے گرد گردش کرتی ہے۔ جب تک یہ مراکز سمجھ میں نہ آئیں دائرے کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آسکتی‘‘ ۔ جو تین بنیادی موضوعات ترجمان القرآن کے محور ہیں، وہ ہیں ’تصور الوہی‘، ’وحدت ادیان‘ اور  ’مذہبی گٹ بندی کی مخالفت‘۔ مولانا نے دین و مذہب کی بنیاد پر الگ جماعت بندی کی مخالفت کی، خدا اور  مخلوق کے رشتوں پر جو بحث کی اور  ربوبیت رحمت اور  الطاف کے اصولوں کے تئیں جس طرح بیدار کیا اس سے انسانیت اور  انسانی رشتوں کا ایک ہمہ گیر تصور سامنے آتا ہے۔ بنیادی تصور یا یہ کہئے کہ ترجمان القرآن کا بنیادی رس یہی ہے کہ  ’’کوئی ہو، کسی نسل و قوم سے ہو، کسی نام سے پکارا جاتا ہو، لیکن اگر خدا پر سچا ایمان رکھتا ہے اور  اس کے اعمال بھی نیک ہیں تو دین الٰہی پر چلنے والا ہے اور  اس کے لیے نجات ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن) مولانا فرماتے ہیں :

 ’’خدا کے ٹھہرائے ہوئے دین کی حقیقت تو یہ تھی کہ نوع انسانی پر خدا پرستی اور نیک عملی کی راہ کھولنا تھا یعنی خدا کے اس قانون کا اعلان کرنا تھا کہ دنیا ہر چیز کی طرح انسانی افکار و اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں۔ اچھے فکر و عمل کا بدلا اچھا ہے، برے فکر و عمل کا بدلا برا ہے۔ لیکن لوگوں نے یہ حقیقت فراموش کر دی اور  دین و مذہب کو نسلوں، قوموں، ملکوں اور  طرح طرح کی رسموں اور  رواجوں کا ایک جتھا بنا لیا، نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان کی نجات و سعادت کی راہ یہ نہیں سمجھی جاتی کہ کس کا اعتقاد اور  عمل کیسا ہے بلکہ سارا دار و مدار اس پر آ کے ٹھہر گیا ہے کہ کون کس جتھے اور  گروہ بندی میں داخل ہے، اگر ایک آدمی کسی خاص مذہبی گروہ بندی میں داخل، اگر ایک آدمی کسی خاص مذہبی گروہ بندی میں داخل ہے تو یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ نجات کا دروازہ اس پر بند ہو گیا اور  دین کی سچائی میں اس کا کوئی حصہ نہیں، گویا دین کی سچائی، آخرت کی نجات اور  حق و باطل کا معیار تمام تر گروہ بندی اور  گروہ پرستی ہو گئی، اعتقاد اور  عمل کوئی چیز نہیں ہے، پھر باوجودیکہ تمام مذاہب کا مقصود اصل ایک ہی ہے اور  سب ایک ہی پروردگار عالم کی پرستش کرنے کے مدعی ہیں لیکن ہر گروہ یقین کرتا ہے کہ دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے، باقی تمام نوع انسانی اس سے محروم ہے۔ چنانچہ ہر مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کے خلاف نفرت و تعصب کی تعلیم دیتا ہے اور  دنیا میں خدا پرستی اور  دین داری کی راہ سر تا سر بغض و عداوت، نفرت و توحش اور  قتل و خوں ریزی کی راہ بن گئی ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۹۲)

اس بنیادی تصور کی وجہ سے جو اسلوب خلق ہوا ہے وہ قاری کے شعور سے رشتہ قائم کر لیتا ہے، تصور کا نیا پن اظہار کی جس آزادی کا متلاشی تھا وہ آزادی جیسے اسے مل گئی ہو، مولانا نے بڑی آزادی سے گفتگو کی ہے اور  اس کا سلسلہ قائم رکھا ہے۔ یہ اسلوب مولانا کی شخصیت، ان کی بنیادی امتیازی رجحان اور  زاویہ نگاہ اور  بر صغیر کے تمدنی اور  ثقافتی ورثے کو محسوس بناتا ہے۔ کلام پاک کی آیتوں نے مولانا کے اس تصور کو بڑی تقویت بخشی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

وما کان الناس الا امۃ واحدۃ فاختلفوا ولو لاکلمۃ سبقت من ربک لقضی بینہم فیما فیہ یختلفون (۔۱۔۱۹)

اور ابتداء میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا (الگ الگ گروہوں میں متفرق نہ تھے) پھر ایسا ہوا کہ وہ باہم دگر مختلف ہو گئے اور  اگر اس بارے میں تمہارے پروردگار نے پہلے سے ایک فیصلہ نہ کر دیا ہوتا (یعنی یہ کہ انسانوں میں اختلاف ہو گا اور  مختلف راہیں لوگ اختیار کریں گے) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرتے ہیں، ان کا (یہیں دنیا میں ) فیصلہ کر دیا جاتا‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۸۱)

مولانا اس کے پیش نظر جمعیت بشری کی ابتدائی وحدت اور  ہدایت وحی کے ظہور پر اظہار خیال کرتے ہیں تو اسلوب مفہوم اور  قدر کی وحدت کی علامت بن جاتا ہے، سنجیدگی کا حسن دل و ذہن کو متاثر کرنے لگتا ہے۔ کچھ اس طرح کی بصیرت تیز ہو جاتی ہے۔ تشریح اور  وضاحت کا آہنگ بھی توجہ طلب ہے۔ فرماتے ہیں :

 ’’وہ (قرآن) کہتا ہے ابتداء میں انسانی جمعیت کا یہ حال تھا کہ لوگ قدرتی زندگی بسر کرتے تھے ان میں نہ تو کسی طرح کا باہمی اختلاف تھا نہ کسی طرح کی مخاصمت۔ سب کی زندگی سی ایک ہی طرح کی تھی اور  سب اپنی قدرتی یگانگت پر قانع تھے، پھر ایسا ہوا کہ نسل انسانی کی کثرت اور  ضروریات معیشت کی وسعت سے طرح طرح کے اختلافات پیدا ہو گئے اور  اختلافات نے تفرقہ، انقطاع اور  ظلم و فساد کی صورت اختیار کر لی، ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرنے لگا اور  ہر زبردست زیردست کے حقوق پامال کرنے لگا۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو گئی تو ضروری ہوا کہ نوع انسانی کی ہدایت اور  عدل و صداقت کے قیام کے لیے وحی الٰہی کی روشنی نمودار ہو، چنانچہ یہ روشنی نمودار ہوئی اور  خدا کے رسولوں کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ ان تمام رہنماؤں کو جن کے ذریعے اس ہدایت کا سلسلہ قائم ہوا رسول کے نام سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ وہ خدا کی سچائی کا پیغام پہنچانے والے تھے اور  رسول کے معنی پیغام پہنچانے والے کے ہیں ’‘ (ترجمان القرآن ص ۱۸۱)

انسانیت اور  انسان اور  انسان کے ہمہ گیر رشتوں پر مولانا نے بہت صاف اور واضح گفتگو کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ہدایت کبھی کسی خاص ملک و قوم یا عہدے کے لیے مخصوص نہ تھی بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے تھی چنانچہ ہر زمانے میں اور  ہر ملک میں یکساں طور پر اس کا ظہور ہوا۔ ہدایت ہمیشہ ایک ہی رہی اور  وہ ایمان اور  عملِ صالح کی دعوت کے سوا کچھ نہ تھی‘‘  مولانا جب جب اس کی وضاحت کرتے ہیں، اسلوب میں جذبے کی چمک دمک محسوس ہوتی ہے اور  لفظوں اور  عبارتوں کا آہنگ متاثر کرنے لگتا ہے۔ لفظوں کی موزونیت اور  عبارتوں کی ہم آہنگی سے تاثیر بڑھ گئی ہے، ملاحظہ فرمائیے:

 ’’فطرت الٰہی کی راہ کائنات ہستی کے ہر گوشے میں ایک ہی ہے وہ نہ تو ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے نہ باہم دگر مختلف۔ پس ضروری تھا کہ یہ ہدایت بھی اول دن سے ایک ہی ہوتی اور ایک ہی طرح پر تمام انسانوں کو مخاطب کرتی، چنانچہ قرآن کہتا ہے خدا کے جتنے پیغامبر پیدا ہوئے خواہ وہ کسی زمانے اور  کسی گوشے میں ہوئے ہوں۔ سب کی راہ ایک ہی تھی اور  سب خدا کے ایک ہی عالمگیر قانون، سعادت کی تعلیم دینے والے تھے، یہ عالمگیر سعادت کیا ہے؟ ایمان اور  عمل صالح قانون کا قانون ہے۔ یعنی ایک پروردگار عالم کی پرستش کرنی اور  نیک عمل کی زندگی بسر کرنی ہے، اس کے علاوہ اور  ان کے خلاف جو کچھ بھی دین کے نام سے کیا جاتا ہے، دین حقیقی کی تعلیم نہیں ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۸۳)

 

مولانا ابوالکلام آزاد ایک عمدہ جمالیاتی شعور رکھتے تھے، قرآن حکیم کے نظام جلال و جمال نے اسے اور  بھی بالیدہ بنا دیا، جمالیاتی فکر و نظر اور  کائنات کے تعلق سے ایک وسیع زاویہ نگاہ نے اسلوب بیان کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے۔ ترجمان القرآن کا جمالیاتی اسلوب منفرد خصوصیتوں کا حامل ہے۔ احساس جمال کی شدت سے اسلوب میں جوش، ولولہ، تیزی اور بہاؤ پیدا ہوا ہے۔ رومان پرور فضاؤں کی تشکیل ہوئی ہے، کہیں کہیں بلند پہاڑوں کے جگر کو چاک کر کے تیزی سے گرتے آبشاروں کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، انداز بیان کا حسن قاری کے احساس اور جذبے کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

 ’’چیونٹی اپنے بل میں رینگ رہی ہے، کیڑے مکوڑے کوڑے کرکٹ میں ملے ہوئے ہیں، مچھلیاں دریا میں تیر رہی ہیں، پرند ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ پھول باغ میں کھل رہے ہیں، ہاتھی جنگل میں دوڑ رہا ہے اور  ستارے فضا میں گردش کر رہے ہیں، لیکن فطرت کے پاس سب کے لیے یکساں طور پر پرورش کی گود اور  نگرانی کی آنکھ ہے اور  کوئی نہیں جو فیضان ربوبیت سے محروم ہو‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۳۶)

 ’’اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کی زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا، اگر بادل کی گرج اور  بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو زمین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کمرے کی تمام سطح پارہ پارہ کر دیتا‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۶۹۔۷۰)

 ’’فطرت کے افادہ و فیضان کی سب سے بڑی گنجائش اس کا عالمگیر حسن و جمال ہے۔ فطرت صرف بناتی اور  سنوارتی ہی نہیں بلکہ اس طرح بنتی سنوارتی ہے کہ اس کے ہر بناؤ میں حسن و زیبائش کا جلوہ اور  اس کے ہر ظہور میں نظر افروزی کی نمود پیدا ہو گئی، کائنات ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو یا اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو۔ اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقاب زیبائش نہ ڈال دی ہو، ستاروں کا نظام اور  ان کی سیر و گردش، سورج کی روشنی اور  ان کی بوقلمونی، چاند کی گردش اور  اس کا اتار چڑھاؤ، فضاء آسمانی کی وسعت اور  اس کی نیرنگیاں، بارش کا سماں اور  اس کے تغیرات، سمندر کا منظر اور  دریاؤں کی روانی، پہاڑوں کی بلندیاں اور  وادیوں کا نشیب حیوانات کے اجسام اور  ان کا تنوع، نباتات کی صورت آرائیاں اور  باغ و چمن کی رعنائیاں، پھولوں کی عطر بیزی اور  پرندوں کی نغمہ سنجی، صبح کا چہرہ خنداں اور  شام کا جلوہ محبوب، غرض کہ تمام تماشا گاہ ہستی حسن کی نمائش اور  نظر افروزی کی جلوہ گاہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس پردہ ہستی کے پیچھے حسن افروزی اور  جلوہ گاہی کی کوئی قوت کام کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے، حسن و زیبائش کے ساتھ ظہور میں آئے اور  کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے نشاط، سامعہ کے لیے سرور اور  روح کے لیے بہشتِ راحت و سکون بن جائے‘‘ ۔ (جمال فطرت، ترجمان القرآن ص۷۰)

مولانا کا یہ عقیدہ ہے کہ  ’’کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے، فطرت نے جس طرح اس کے بناؤ کے لیے مادی عناصر پیدا کیے، اسی طرح اس کی خوب روئی و رعنائی کے لیے معنوی عناصر کے بھی رنگ و روغن سے آراستہ کر دیا۔ روشنی، رنگ، خوشبو اور  نغمہ حسن و رعنائی کے وہ اجزاء ہیں جن سے مشاطہ فطرت چہرہ وجود کی آرائش کر رہی ہے۔

 ’’جس طرح تمہارے آلات موسیقی کے پردوں میں زیرو بم کے تمام آہنگ موجود ہوتے ہیں، اسی طرح ساز فطرت کے تاروں میں بھی اتار چڑھاؤ کے تمام آہنگ موجود ہیں، اس میں ہلکے سے ہلکے سر بھی ہیں، جس میں باریک اور  سریلی صدائیں نکلتی ہیں، موٹے سے موٹے سر بھی ہیں جو بلند سے بلند اور بھاری سے بھاری صدائیں پیدا کرتے ہیں۔ ان تمام سروں کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہی موسیقی کی حلاوت ہے کیونکہ دنیا کی تمام چیزوں کی طرح موسیقی کی حقیقت بھی مختلف اجزاء کے امتزاج و تالیف سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک ہی سُر سے نغمے کی حلاوت پیدا ہو جائے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص۷۱)

مولانا کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے، قرآن حکیم کے نظام جمال کی دین ہے دیکھئے قرآن کہتا ہے:

3         (و صورکم فاحسن صورکم۔ ۶۴۔۳)

3         ’’اور تمہاری صورتیں بنائیں تو کیا ہی حسین صورتیں بنائیں ‘‘ ۔

3         الذی خلق فسویٰ۔ ۸۷۔۲)

3         ’’اس نے ہر شے کو پیدا کیا اور  اس میں مناسبت و ہم آہنگی حد کمال تک پیدا کی‘‘ ۔

3         (الذی احسن کل شئی خلقہ۔ ۳۲۔۷)

3         ’’اس نے جو چیز بنائی حسین بنائی‘‘ ۔

3         (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ۹۵۔۴)

3         ’’بلا شبہ ہم نے انسان کی فطرت کو بھی حسین بنایا ہے‘‘ ۔

3         ’’اور تمہارے چوپاؤں میں جب شام کے وقت چراگاہ سے واپس لاتے ہو اور  صبح کو لے جاتے ہو، جمال ہے‘‘ ۔ (۱۶۔۶)

3         اللہ آسمانوں اور  زمین کا نور ہے‘‘ ۔

3         (اللہ نور السموات والارض۔ (۲۴۔۳۵)

3         اور (پھر دیکھو) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور  درختوں میں اور  ان ٹیٹوں میں جو اسی غرض سے بلند کر دی جاتی ہیں، اپنے لیے گھر بنائے، پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے، پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں پر کامل فرماں برادری کے ساتھ گامزن ہو…‘‘  کیا کبھی ان لوگوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم نے اسے بنایا ہے اور  کس طرح اس کے منظر میں خوشنمائی پیدا کر دی ہے اور  پھر یہ کہ کہیں بھی اس میں شگاف نہیں اور  اسی طرح زمین کو دیکھو، کس طرح ہم نے اسے فرش کی طرح پھیلا دیا اور  پہاڑوں کی لنگر ڈال دیے اور  پھر کس طرح قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگا دیں … (۵۰۔۶۔۸)

قرآن پاک نے کائنات اور  فطرت کائنات کے حسن کا ذکر طرح طرح سے کیا ہے۔ کائنات اور  انسان کی مکمل ہم آہنگی کے حسن کو سمجھایا ہے، حسن کے تحرک اور  آہنگ کو محسوس بنایا گیا ہے۔ حسن قلب اور حسن مشاہدہ کی اہمیت سمجھائی ہے۔ کائنات کے نگار خانے کے طلسم کے تئیں بیدار کیا ہے۔ جمال کائنات کی موزونیت اور  بوقلمونی سمجھائی ہے۔ کہا ہے:

  ’’اور ہم نے زمین میں ہر چیز کو موقع محل، کیفیت اور  کمیت کے لحاظ سے مناسب اور  خوبصورت پیدا کیا ہے۔ (۱۵۔۱۹)

 ’’بلاشبہ ہم نے اس دنیا کے آسمان کو ستاروں کے حسن سے آراستہ کیا ہے۔‘‘  (۳۷:۶)

 ’’اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور  دیکھنے والوں کے لیے اس میں خوشنمائی پیدا کر دی‘‘ ۔

ظاہر ہے کہ مولانا کے وجدان نے قرآن پاک کے نظام جمال سے گہرا رشتہ قائم کیا ہے اور  صرف یہی نہیں بلکہ یہ نظام جمال ان کا تجربہ بھی بنا ہے۔

اردو نثر میں  ’’ترجمان القرآن‘‘  کے پیش نظر مولانا کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس نثر کو سبلائم Sublime کا حسن اور  جادو بخشا۔

سبلائم ان کی شخصیت میں ودیعت تھا کہ جو ترجمان القرآن میں جمال کے سرکا تاج بن گیا اور  قرآن حکیم کی آواز اور  اس کا آہنگ تو خود ہی سبلائم کے اعلیٰ ترین اور  افضل ترین معیار کو پیش کرتا ہے۔

٭٭٭

غبار خاطر کی رومانیت

مولانا ابو الکلام آزاد کی رومانی فکر و نظر ایک دلچسپ اور  فکر انگیز موضوع ہے۔ غبار خاطر، ایک ایسی ادبی تخلیق ہے جو اپنی رومانیت کی وجہ سے بھی توجہ کا مرکز ہے۔ تنقید نگار ڈاکٹر سید عبد اللہ کی اس تحریر سے اردو ادبی تنقید کی آبرو ہی جاتی رہی کہ  ’’غبار خاطر‘‘  ہی ایک ایسی کتاب ہے جو ابوالکلام کی اصلی نثر سے بہت دور ہے، اس میں ابوالکلام کی تقریر بہت مدھم اور  دھیمی ہے، اس میں ابوالکلام کا قلم بیمار اور  ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ ’غبار خاطر‘ ایک لحاظ سے بیکاری کا مشغلہ ہے، اس میں خیال نے فرضی مکتوب الیہ کے نام فرضی خط لکھوائے ہیں، ان کی اکثر بحثیں فرضی ہیں ‘‘ ۔

[ابو الکلام کی تکرار پر نہ جائیے] اردو کے بعض تنقید نگار جب کسی وجہ سے لاشعوری دباؤ محسوس کرتے ہیں تو ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور  ایسی ہی نثر لکھتے ہیں۔ ’غبار خاطر‘ مولانا کی ’اصلی نثر سے بہت دور ہے‘ یہ اصلی نثر کون سی ہے؟ اسی مضمون میں بات واضح ہو جاتی ہے۔ مولانا کی اصلی نثر ’الہلال‘ کی نثر ہے۔ ’غبارِ خاطر‘ اس داعیہ عظیم اور  جذبہ شدید سے بھی خالی ہے جس کے شعلے ’الہلال‘ میں مشتعل ہو کر اقصائے ہند میں آگ لگا چکے تھے۔ تنقید نگار نے مولانا کی ’با رعب‘ اور  ’پر جلال نثر‘ ہی کو ان کی اصل نثر سمجھ لیا ہے۔ ’الہلال‘ کی صحافتی نثر اور  ’غبار خاطر‘ کے فنی اسلوب کو سمجھے بغیر اور یہ سمجھے بغیر کہ فنکاری کہاں ہے، رویہ اور  میلان، مزاج اور  رجحان اور  موضوعات کے انتخاب کی کیفیت اور  صورت کیسی ہے، وہ ’غبار خاطر‘ میں بھی ایسی ’پر جلال نثر‘ پانے کے متمنی تھے کہ جس میں قوت، توانائی، سخت کوشی اور  دشوار پسندی ہو۔ ’غبارِ خاطر‘ کے متعلق ڈاکٹر سید عبد اللہ کی مجموعی رائے یہی ہے ’غبار خاطر‘ ایک جوئے نغمہ خواں ہے جو حیات کے ضعف اور  ولولہ ہائے زندگی کی غنودگی کی ترجمانی کر رہی ہے۔ اس میں صد ہزار نوائے جگر خراش کا سماں پایا نہیں جاتا‘‘ … نہیں جانتا کس حد تک اسے ادبی تنقید کا انداز اور اسلوب کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو کی ادبی تنقید آرٹ کے تئیں زیادہ بیدار نہیں ہوئی ہے۔ آرٹ کے شعور یا فنی شعور (Art Consciousness) کی کمی یقیناً محسوس ہوتی ہے۔ ’لسان الصدق‘ اور  ’الوکیل‘ سے ’الہلال‘، ’البلاغ‘ اور  تذکرہ تک اور  ترجمان القرآن سے غبار خاطر تک مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر نے ایک سفر کیا ہے، یہ ان کی نثر کی مختلف منزلیں ہیں کہ جن پر ان کی شخصیت کا چھاپ پڑی ہوئی ہے، ترجمان القرآن کے اسلوب کی جمالیات اور  غبار خاطر کی رومانیت سے اردو نثر میں سبلائم اور  جمال کا ایک عمدہ معیار قائم ہوتا ہے۔

یکسانیت سے گریز کا عمل بنیادی طور پر رومانی عمل ہے۔ ’غبار خاطر‘ کے مضامین مجموعی طور پر یکسانیت، ماحول کی شکست و ریخت، سیاسی اتھل پتھل اور  انتشار سے گریز کے عمل کے غماز ہیں، اسی عمل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رومانی مزاج کی پہچان ہوتی ہے، نیز اردو نثر کو ایک رومانی رجحان اور  رویہ حاصل ہوتا ہے۔ رومانی مزاج خلوت میں اپنے احساس اور جذبے اور  تخیل سے ایک دنیا خلق کرتا ہے، اپنے خوابوں کو سجاتا ہے، احساس حسن سے نئی تخلیق کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔

مولانا اپنی طبیعت کی افتاد کا ذکر اس طرح کرتے ہیں :

 ’’ابداء ہی سے طبیعت کی افتاد کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ خلوت کا خواہاں اور  جلوت سے گریزاں رہتا تھا، یہ ظاہر ہے کہ زندگی کی مشغولیتوں کے تقاضے اس طبع وحشت سرشت کے ساتھ نبھائے نہیں جا سکتے، اس لیے یہ بہ تکلف خود کو انجمن آرائیوں کا خوگر بنانا پڑتا ہے، مگر دل کی طلب ہمیشہ بہانے ڈھونڈھتی ہے، جونہی ضرورت کے تقاضوں سے مہلت ملی اور  وہ اپنی کامجوئ ٭٭وں غزلیں دیکھ لی ہیں:

غم ہے یا محبت! مطلب یہ ہے کہ تا ہے۔ اور دوسرے مصرع میں ’مگر‘ کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔

یوں میں لگ گئی‘‘ ۔

در خرابا تم نہ دیدستی خراب

بادہ پنداری کہ پنہاں می زنم

(غبار خاطر: ساہتیہ اکارمی ص ۸۰)

آگے تحریر فرماتے ہیں :

 ’’…بارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور  کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں، کلکتہ میں آپ نے ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھا ہو گا، جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے۔ اسے عام طور پر لال ڈگی کہا کرتے تھے، اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھئے تو درخت ہی درخت، اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ ہے اور  ایک بنچ بھی بچھی ہوئی ہے، معلوم نہیں اب بھی یہ جھنڈ ہے کہ نہیں میں جب سیر کے لیے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اور  اس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہو جاتا‘‘ ۔ (ایضاً ص ۸۰۔۸۱)

خلوت اور  تنہائی میں رومانی ذہن متحرک ہو جاتا ہے تو حسن پسندی کی پہچان ہونے لگتی ہے، تخیل بیدار ہونے لگتے ہیں، فطرت کے جلال و جمال سے ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے، جذبات کے رنگوں کے تاثرات ابھرنے لگتے ہیں، باطنی اور  روحانی خواہش اپنی تکمیل کے لیے بے چین رہنے لگتی ہیں، ’آزاد احساسات‘ خارجی اور  باطنی مشاہدات میں بڑی کشادگی پیدا کرنے لگتے ہیں، گریز کے باوجود تہذیب، تاریخ اور انسانی رشتوں سے ذہن کا رشتہ قائم رہتا ہے، ان کے حسن و جمال سے شعوری اور  غیر شعوری رشتہ غیر معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، فنکار کا رومانی ذہن مرکزی حیثیت اختیار کر کے تاریخ و تمدن اور  اپنے علم اور مشاہدوں کا آئینہ بن جاتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں :

 ’’میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا، کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ کبھی دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہانِ زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدہ خلوت کے دم سے ہیں، یہ اجڑا اور  ساری دنیا اجڑ گئی:

از صد سخنِ پیرم یک حرف مرا یادست

عالم نہ شود ویراں تا میکدہ آبادست

باہر کے ساز و سامان عشرت مجھ سے چھن جائیں لیکن جب تک یہ نہیں چھنتا میرے عشق و طرب کی سرمستیاں کون چھین سکتا ہے؟‘‘ (غبار خاطر ص۷۰)

مولانا کا ذہن جلوت سے گریزاں اور  خلوت کا خواہاں ہے، رومانیت انجمن سے نکل کر تنہائی کی ایسی فضا چاہتی ہے، جہاں احساسات پر کسی قسم کی گرفت نہ ہو، آزاد احساسات کے تصور سے راحت ملتی ہے، شعوری اور غیر شعوری سطح پر جمالیاتی انبساط پانے کی تمنا ہی گریز کرنے پر مجبور کرتی ہے اور  گریز کے عمل میں ننھے ننھے چراغ روشن کرتی ہے۔ مولانا اپنے رومانی ذہن کو عزیز جانتے ہیں اپنے ’دل کو مرنے نہیں دیتے‘ رومانی فنکار خارجی اور  داخلی یا باطنی زندگی میں ایک گہرا رشتہ پا لیتا ہے اور  یہ سمجھتا ہے کہ جہاں زندگی کا بھرم باطنی زندگی کی روشنی اور  رنگ سے قائم ہے، میکدہ خلوت کی رونقیں نہ ہوں یعنی احساسات اور  جذبات کے مختلف رنگ نہ ہوں، تخیل کی پرواز نہ ہو، احساسات کی آزادی نہ ہو تو جہان زندگی کا حسن بھی جاتا رہتا ہے۔ مولانا کی رومانیت تو یہ بتاتی ہے کہ میکدہ خلوت اجڑا تو پھر یہ سمجھو ساری دنیا اجڑ گئی، رومانی فنکار کو اپنے باطن کی سرمستیاں اس قدر عزیز ہیں اور  وہ انہیں اس قدر عزیز جانتا ہے کہ انہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ہے۔ رومانیت باطن کی آگہی ہے، باطن کی روشنیوں کے تئیں بیداری ہے۔ مولانا کہتے ہیں  ’’باہر کے ساز و سامان عشرت مجھ سے چھن جائیں لیکن جب تک یہ نہیں چھنتا میرے عیش و طرب کی سرمستیاں کون چھین سکتا ہے‘‘ ۔ مولانا اپنے رومانی رجحان اور  رویے کو اس طرح واضح کر دیتے ہیں :

 ’’… طبیعت کی اس افتاد (خلوت پسندی) نے بڑا کام یہ دیا کہ زمانے کے بہت سے حربے میرے لیے بے کار ہو گئے، لوگ اگر میری طرف سے رخ پھیر لیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ دل گلہ مند ہو اور  منت گزار ہونے لگتا ہے، کیونکہ جو ہجوم لوگوں کو خوش کرتا ہے، میرے لیے بسا اوقات ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ میں اگر عوام کا رجوع و ہجوم گوارا کرتا ہوں تو یہ میرے اختیار کی پسند نہیں ہوتی، اضطراب و تکلیف کی مجبوری ہوتی ہے۔ میں نے سیاسی زندگی کے ہنگاموں کو نہیں ڈھونڈا تھا، سیاسی زندگی کے ہنگاموں نے مجھے ڈھونڈ نکالا، میرا معاملہ سیاسی زندگی کے ساتھ وہ ہوا جو غالب کا شاعری کے ساتھ ہوا تھا۔

مابنودیم بدیں مرتبہ راضی غالب

شعر خود خواہش آں کرد کہ گرد دفن ما!

(غبار خاطر)

میں نے عرض کیا ہے کہ یکسانیت سے گریز کا عمل بنیادی طور پر رومانی عمل ہے، مولانا گریز کے عمل کو خوب جانتے پہچانتے ہیں، فرماتے ہیں :

 ’’…یکسانی اگرچہ سکون و راحت کی ہو، یکسانی ہوئی اور  یکسانی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی بے نمکی ہے۔ تبدیلی اگرچہ سکون سے اضطراب کی ہو مگر پھر تبدیلی ہے اور  تبدیلی بجائے خود زندگی کی ایک بڑی لذت ہوئی۔ عربی میں کہتے ہیں  ’’حمّضوا مجالسکم‘‘  اپنی مجلسوں کا ذائقہ بدلتے رہو، سو یہاں زندگی کا مزہ بھی انہی کو مل سکتا ہے، جو اس کی شیرینیوں کے ساتھ اس کی تلخیوں کے بھی گھونٹ لیتے رہتے ہیں اور  اس طرح زندگی کا ذائقہ بدلتے رہتے ہیں، ورنہ وہ زندگی ہی کیا جو ایک ہی طرح کی صبحوں اور ایک ہی طرح کی شاموں میں بسر ہوتی ہے‘‘ ۔ (غبار خاطر ص ۴۴)

آگے لکھتے ہیں :

 ’’یہاں پانے کا مزہ انہی کو مل سکتا ہے جو کھونا جانتے ہیں، جنہوں نے کچھ کھویا ہی نہیں انہیں کیا معلوم کہ پانے کے معنی کیا ہوتے ہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۴۵)

مولانا کی رومانیت حرکت اور  اضطراب پسند کرتی ہے، سکون کو موت سمجھتی ہے، اسے خود فراموشی اچھی لگتی ہے، یہ سمجھتی ہے کہ زندگی کے لیے بیخودی ضروری ہے۔ مولانا کا عقیدہ یہ ہے کہ راحت اور  الم کا احساس ہمیں باہر سے لا کر کوئی نہیں دے دیا کرتا، یہ خود ہمارا ہی احساس ہے جو زخم لگاتا ہے، کبھی مرہم بن جاتا ہے۔ طلب و سعی کی زندگی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی لذت ہے بشرطیکہ کسی مطلوب کی راہ میں ہو۔ مولانا مسرتوں کے لمحوں کو عزیز جانتے ہیں، ان کی رومانیت جمالیاتی انبساط کی تلقین کرتی ہے، گریز دراصل مسرتوں کی تلاش ہے، خوش رہنے کے لیے یکسانیت سے گریز ضروری ہے، مولانا کہتے ہیں خوش رہنا محض ایک طبعی احتجاج ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔

گریز اور  تنہائی کے تعلق سے مولانا کے رومانی انداز نظر کی پہچان واضح طور پر اس طرح ہو جاتی ہے:

 ’’…جب کبھی میں قید خانے میں سنا کرتا ہوں کہ فلاں قیدی کو قید تنہائی کی سزا دی گئی تو حیران رہ جاتا ہوں کہ تنہائی آدمی کے لیے سزا کیسے ہو سکتی ہے، اگر دنیا بھی اس کو سزا سمجھتی ہے تو کاش ایسی سزائیں عمر بھر کے لیے حاصل کی جا سکیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص ۸۳)

مولانا 9اگست 1942 کو سوا دو بجے قلعہ احمد نگر میں بند ہوتے ہیں، لاشعور میں یہ احساس ہے کہ تنہائی نصیب ہو رہی ہے، قلعے کے اندر پہنچتے پہنچتے رومانی فکر و نظر میں اضطراب سا پیدا ہوتا ہے۔ ذہن خارجی زندگی کے انتشار اور  پیچھے چھوڑی ہوئی شکست و ریخت کی زندگی سے خود کو علیحدہ کر کے پورے وجود کو قلعہ احمد نگر کے حوالے کر دیتا ہے۔  ’’دل حکایتوں سے لبریز تھا، مہلت کا منتظر تھا‘‘  یہ مہلت مل جاتی ہے تو رومانیت مختلف انداز سے چہکنے لگتی ہے۔ کہتے ہیں  ’’آج قلعہ احمد نگر کے حصار تنگ میں اس کے حوصلہ فراخ کی آسودگیاں دیکھئے کہ جی چاہتا ہے دفتر کے دفتر سیاہ کر دوں۔

وسعتے پیدا کن اے صحرا کی امشب درغمش

لشکرِ آہِ من ازدل خیمہ بیروں می زند

مشاہدہ اور بصیرت سے اس رومانیت میں بڑی کشادگی پیدا ہوتی ہے، تخیل اپنے عمل میں مصروف، تاریخ اپنے اوراق لیے کھڑی، ماضی کا حسن جلوہ گر اور ایک بڑی بات یہ کہ ذاتی رد عمل اور  تاثرات کے ساتھ مختلف قسم کی تصویروں کے نقوش اور ڈرامائی کیفیتیں، مولانا بعض تصویروں کے نقوش اور  ان کے تحرک کو پیش کرتے ہوئے کبھی فکشن اور کبھی ڈراما کا حسن نمایاں کر دیتے ہیں مثلاً:

 ’’…دو بجنے والے تھے کہ ٹرین احمد نگر پہنچی، اسٹیشن میں سناٹا تھا، صرف چند فوجی افسر ٹہل رہے تھے، انہی میں مقامی چھاؤنی کا کمانڈنگ آفیسر بھی تھا جس سے ہمیں ملایا گیا ہم اترے اور  فوراً اسٹیشن سے روانہ ہو گئے، اسٹیشن سے قلعہ تک سیدھی سڑک چلی گئی ہے۔ راہ میں کوئی موڑ نہیں ملا، میں سوچنے لگا کہ مقاصد کے سفر کا بھی ایسا ہی حال ہے، جب قدم اٹھا دیا تو پھر کوئی موڑ نہیں ملتا، اگر مڑنا چاہیں تو صرف پیچھے ہی کی طرف مڑ سکتے ہیں لیکن پیچھے مڑنے کی راہ یہاں پہلے سے بند ہو جاتی ہے‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۲۸)

مولانا گرفتار ہو کر قلعہ احمد نگر میں داخل ہوتے ہیں، حکایتوں سے لبریز دل اظہار چاہتا ہے، جیسے خارجی زندگی کی اتھل پتھل اور  یکسانیت سے گریز کر کے رومانی ذہن کو آسودگی حاصل ہو گی، جمالیاتی انبساط ملے گا، اسٹیشن سے قلعہ تک رومانی ذہن کس طرح متحرک ہے غور فرمائیے:

 ’’… قلعہ کا حصار پہلے کسی قدر فاصلے پر دکھائی دیا پھر یہ فاصلہ چند لمحوں میں طے ہو گیا، اب اس دنیا میں جو قلعہ سے باہر ہے اور  اس میں جو قلعہ کے اندر ہے صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا، چشم زدن میں یہ بھی طے ہو گیا اور  ہم قلعہ کی دنیا میں داخل ہو گئے، غور کیجئے تو زندگی کی تمام مسافتوں کا یہی حال ہے خود زندگی اور  موت کا باہمی فاصلہ بھی ایک قدم سے زیادہ نہیں ہوتا‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۲۸)

9اگست 1942 کو سوا دو بجے جب قلعہ احمد نگر کے حصار کا کہنہ کا نیا پھاٹک بند ہوتا ہے تو رومانی ذہن کا یہ تاثر ملتا ہے:

 ’’… کل 9اگست 1942 کو سوا دو بجے قلعہ احمد نگر کے حصار کہنہ کا نیا پھاٹک میرے پیچھے بند کر دیا گیا، اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور  کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تاکہ کھلیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۱۹)

کھڑکیوں کو چن کر بند کر دیا جاتا ہے، قلعہ کی سنگی دیواروں تک ہی نگاہیں جاتی ہیں اور  پھر ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے، روشندان کے آئینے تک بند کر دیے جاتے ہیں … پھر رومانی ذہن کتاب باطن کھولتا ہے، اپنے علم کی روشنی حاصل کرتا ہے، بند کمرے میں چراغاں کرتا ہے، اپنے آزاد خیالات اور  تاثرات کو سمیٹ لیتا ہے، خیالات، تاریخ اور  تجربوں کی روشنی کو سمیٹ لاتے ہیں، انہیں، سنگی دیواریں ہوں یا بند روشندان اور کھڑکیاں روک نہیں سکتیں، آزادی کا ایک عجیب احساس ملتا ہے، مولانا لکھتے ہیں :

 ’’…میری پچھلی زندگی مجھے قید خانے کے دروازے تک پہنچا کر واپس چلی گئی اور اب ایک دوسری ہی زندگی سے سابقہ پڑا ہے، جو زندگی کل تک اپنی حالتوں میں گم اور  خوش کامیوں اور  دل شگفتگیوں سے بہت کم آشنا تھی آج اچانک ایک ایسی زندگی کے قالب میں ڈھل گئی جو شگفتہ مزاجیوں اور  خندہ روئیوں کے سوا اور  کسی بات سے آشنا ہی نہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۶۶)

یہاں رومانیت کے آہنگ کے شعور کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ داخلیت کی آنچ بھی محسوس کی جا سکتی ہے، تصویریت اور  ڈرامائیت مولانا کی رومانیت کی اہم خصوصیات ہیں۔ یہ دونوں مل کر ایک ایسے فکشن کو جنم دیتی ہیں کہ جس میں تخیلی اور جذباتی نقطہ نگاہ کے ساتھ تحریر کا انوکھا پن بھی ہے۔ مولانا فکشن میں حقیقت کو خوب پہچانتے ہیں لیکن ساتھ ہی حقیقت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ تحلیل ہوتے بھی دیکھتے ہیں، اسلوب کی رنگینی اور  فنکار کی مرصع کاری کے باوجود تجربے اور  احساس کی لطافت، انداز بیان کی ندرت اور بعض جملوں کی دلآویزی غور طلب بن جاتی ہے، یہ رومانیت اپنی ماضی پسندی کوبڑی شدت سے نمایاں کرتی ہے اور  اندرونی کیفیات کے ساتھ تاریخ اور  تہذیب کے جلوؤں کو محسوس بناتی ہے۔

مولانا کو تنہائی اور  خلوت کی وجہ سے قید خانے کی زندگی پسند آئی ہے، ان کی رومانیت نقش آرائیوں کا گوشہ چھوڑنا نہیں چاہتی، مولانا جانتے ہیں کہ ایک زندگی کے اندر کتنی ہی متحرک اور  کتنی ہی مختلف زندگیاں ہیں، فرماتے ہیں :

 ’’…انسان اپنی ایک زندگی کے اندر کتنی ہی مختلف زندگیاں بسر کرتا ہے، مجھے بھی اپنی زندگی کی دو قسمیں کر دینی پڑیں، ایک قید خانے سے باہر کی، ایک اندر کی:

ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در اقلیم عشق

روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است

دونوں زندگیوں کے مرقعوں کی الگ الگ رنگ و روغن سے نقش آرائی ہوئی ہے، آپ شاید ایک کو دیکھ کر دوسری کو پہچان نہ سکیں :

لباسِ صورت اگر واژگوں کنم بیند

کہ خرقہ خشنم مایہ طلا باف است‘‘ !

(غبار خاطر ص۶۵)

آگے بڑھتے ہیں تو ان کی رومانی فکر و نظر اور  واضح ہو جاتی ہے:

 ’’…قید سے باہر کی زندگی میں اپنی طبیعت کی افتاد بدل نہیں سکتا، خود رفتگی اور  خود مشغولی مزاج پر چھائی رہتی ہے، دماغ اپنی فکروں سے باہر آنا نہیں چاہتا اور  دل اپنی نقش آرائیوں کا گوشہ چھوڑنا چاہتا، بزم و انجمن کے لیے بارِ خاطر نہیں ہوتا لیکن یارِ شاطر بھی بہت کم بن سکتا ہوں :

تاکے چو موجِ بحر بہر سوشتا فتن

در عینِ بحر پاے چو گرداب بند کن!

لیکن جو ں ہی حالات کی رفتار قید و بند کا پیغام لاتی ہے، میں کوشش کرنے لگتا ہوں کہ اپنے آپ کو یک قلم بدل دوں، میں اپنا پچھلا دماغ سر سے نکال دیتا ہوں اور  ایک نئے دماغ سے اس کی خالی جگہ بھرنی چاہتا ہوں، حریمِ دل کے طاقوں کو دیکھتا ہوں کہ خالی ہو گئے تو کوشش کرتا ہوں کہ نئے نئے نقش و نگار بناؤں اور  انہیں پھر سے آراستہ کروں :

دقتست و گربت کدہ سازند حرم را

اس تحول صورت (Metamorphism) کے عمل میں کہاں تک مجھے کامیابی ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو دوسروں ہی کی نگاہیں کر سکیں گی لیکن خود میرے فریب حال کے لیے اتنی کامیابی بس کرتی ہے کہ اکثر اوقات اپنی پچھلی زندگی کو بھولا رہتا ہوں اور  جب تک اس کے سراغ میں نہ نکلوں اسے واپس نہیں لا سکتا۔

دل کہ جمع ست، غم از بے سر و سامانی نیست

فکرِ جمعیت اگر نیست، پریشانی نیست!‘‘

(غبار خاطر ص۶۵۔۶۶)

مولانا کو جب بھی تنہائی نصیب ہوتی ہے وہ حریم دل کے طاقتوں پر نئے نئے نقش و نگار ابھارنے لگتے ہیں، چھوٹے بڑے خوبصورت دئے جلانے لگتے ہیں، زندگی کی شگفتگی اور  تازگی کو نئے انداز سے دیکھنے اور  محسوس کرنے لگتے ہیں، انہیں لذت حاصل ہوتی ہے، جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے، اس بات کی جانب وہ خود اس طرح اشارہ کرتے ہیں :

 ’’…میں نے قید خانے کی زندگی کو دو متضاد فلسفوں سے ترکیب دی ہے، اس میں ایک جز رواقیہ (Stoics) کا ہے، ایک لذتیہ (Epicureans) کا:

پنبہ را آشتی ایں جا بہ شرار افتاد است

جہاں تک حالات کی ناگواریوں کا تعلق ہے رواقیت سے ان کے زخموں پر مرہم لگاتا ہوں اور  ان کی چبھن بھول جانے کی کوشش کرتا ہوں :

ہر وقتِ بد کہ رَوے دہد آب سیل رواں

ہر نقشِ خوش کہ جلوہ کند موجِ آب گیر!

جہاں تک زندگی کی خوشگواریوں کا تعلق ہے، لذتیہ کا زاویہ نگاہ میں کام لاتا ہوں اور  خوش رہتا ہوں :

ہر وقتِ خوش کہ دست دہد، مغتنم شمار

کس را وقوف نیست کہ انجام کار چیست!

(غبار خاطر ۶۶۔۶۷)

لذتیہ کے زاویہ نگاہ میں سے مولانا کی جمالی اور  روحانی فکر و نظر کی بڑی حد تک پہچان ہو جاتی ہے۔ تخیل کی دنیا ہو یا حقیقی زندگی کے نقوش، تہذیب و تمدن کے آثار ہوں یا تاریخ اور  فنون کے کردار، مولانا اپنے وجدان کی مدد سے احساسات کے رنگ ابھارتے ہیں اور  ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سرمستی سی پیدا ہو جاتی ہے تو لذت اور  انبساط میں گم ہو جاتے ہیں، ان کے رومانی ذہن کی پہچان ان کے اپنے اس کاک ٹیل (Cocktail) کے جام سے ہو جائے گی:

 ’’… میں نے اپنے کاک ٹیل (Cocktail) کے جام میں دونوں بوتلیں انڈیل دیں، میرا ذوقِ بادہ آشامی بغیر اس جام مرکب کے تسکین نہیں پا سکتا تھا، اسے قدیم تعبیر میں یوں سمجھئے کہ گویا حکایتِ بادہ و تریاک میں نے تازہ کر دی ہے:

چناں افیون ساقی درے افگند

حریفاں را نہ سرما ندونہ دستار!

البتہ  ’’کاک ٹیل‘‘  کا یہ نسخہ خاص ہر خامکار کے بس کی چیز نہیں ہے، صرف بادہ گساران کہن مشق ہی اسے کام میں لا سکتے ہیں ورموتھ (vermouth) اور  جِن (Gin) کا مرکب پینے والے اس رطلِ گراں کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ مولانا روم نے ایسے ہی معاملات کی طرف اشارہ کیا تھا:

بارہ آس در خور ہر ہوش نیست

حلقہ آں مسخرہ ہر گوش نیست

(غبار خاطر ص ۶۷)

اس سوال کا جواب کہ قید و بند کی محروم زندگی میں لذتیہ کا سر و سامان کہاں میسر آ سکتا ہے۔ مولانا یہ دیتے ہیں  ’’انسان کا اصلی عیش دماغ کا عیش ہے جسم کا نہیں، میں لذتیہ سے ان کا دماغ لے لیتا ہوں جسم ان کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ ‘‘  ان کا تجربہ اور  عقیدہ یہ ہے کہ لذتیں اور  انبساط، حسن، لذت آمیزش، عیش و مسرت سب ہم سے باہر نہیں خود ہمارے اندر ہی موجود ہیں، بڑی خوبصورتی سے یہ بات اس طرح کہی ہے:

 ’’… عیش و مسرت کی جن گل شگفتگیوں کو ہم چاروں طرف ڈھونڈھتے ہیں اور  نہیں پاتے وہ ہمارے نہانخانۂ  دل کے چمن زاروں میں ہمیشہ کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں، لیکن محرومی ساری یہ ہوتی کہ ہمیں چاروں طرف کی خبر ہے مگر خود اپنی خبر نہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۶۸)

مولانا کی یہ پیاری معنی خیز بات کبھی بھول نہیں پاتا کہ جنگل کے مور کو کبھی باغ و چمن کی جستجو نہیں ہوتی، اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے، جہاں کہیں اپنے پَر کھول دے گا ایک چمنستان باو قلموں کھل جائے گا۔

غبار خاطر پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی رومانیت نے جنگل کے مور کی طرح اپنے پَر کھول دیے ہیں اور ایک ایسے چمن کی تخلیق ہو گئی ہے کہ جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔

احساس حسن، اس رومانیت کا جوہر ہے، حسن پسندی کے رجحان اور  احساس حسن کی شدت سے یہ رومانیت پرکشش اور جاذب نظر بنی ہے۔ حسن پسندی اور  حسن کے احساس کی وجہ سے ہی رومانیت پھیلا ہے اور  اس میں لمسیت، مظاہر حسن فطرت، تخیلیت، ماضی پسندی اور  ماضی کا جلال و جمال، تمثیلیت، تصویریت، ڈرامائیت، جذبہ اور  احساس کے مختلف رنگ سب شامل ہو گئے ہیں۔ یہ حسن پسندی اور  احساس حسن ہے کہ جن کی وجہ سے مولانا کا رومانی ذہن ماضی کے جلوؤں تک پہنچ جاتا ہے، حکایت، تمثیل، فکشن اور  ڈراما کی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ مولانا کی حسن پسند طبیعت ہی کا کرشمہ ہے کہ ’غبار خاطر‘ میں مظاہرِ حسن فطرت کے دلکش اور  دلفریب نمونے ملتے ہیں، احساسات کی لطافت اور  رنگینی کے ساتھ فطرت کے جمال سے ایک باطنی رشتہ محسوس ہونے لگتا ہے۔

 ’’…داہنی طرف جھیل کی وسعت، شالامار اور  نشاط باغ تک پھیلی ہوئی ہے۔ بائیں طرف نسیم باغ کے چناروں کی قطاریں دور تک چلی گئی ہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر: ص۶)

 ’’…رات بھر کی امس بھی ختم ہو گئی تھی، اب جوار کی لہریں ساحل سے ٹکرا رہی تھیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر:ص۲۱)

 ’’…صبح مسکرا رہی تھی، سامنے دیکھا تو سمندر اچھل اچھل کر ناچ رہا تھا، نسیم صبح کے جھونکے احاطہ کی روشنی میں پھرتے ہوئے ملے، یہ پھولوں کی خوشبو چُن چُن کر جمع کر رہے تھے اور سمندر کو بھیج رہے تھے کہ اپنی ٹھوکروں سے فضا میں پھیلاتا رہے‘‘ ۔ (ایضاً ص ۲۱)

 ’’… قید خانے کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے اور  چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا، اندھیری راتوں میں جب آسمان کی قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں تو وہ صرف قید خانے کے باہر ہی نہیں چمکتیں، اسیران قید و محن کو بھی اپنی جلوہ فروشیوں کا پیام بھیجتی رہتی ہیں، صبح جب طباشیر بکھیرتی ہوئی آئے گی اور  شام جب شفق کی گلگوں چادر پھیلانے لگے تو صرف عشرت سراؤں کے دریچوں سے ہی ان کا نظارہ نہیں کیا جائے گا۔ قید خانے کے روزنوں سے لگی ہوئی نگاہیں بھی انہیں دیکھ لیا کریں گی، فطرت نے انسان کی طرح کبھی یہ نہیں کیا کہ کسی کو شادکام رکھے کسی کو محروم کر دے، وہ جب کبھی اپنے چہرے سے نقاب الٹتی ہے تو سب کو یکساں طور پر نظارہ حسن کی دعوت دیتی ہے‘‘ ۔ (غبار خاطر: ص۶۹)

 ’’… اس وقت آسمان کی بے داغ نیلگونی اور  سورج کی بے نقاب درخشندگی کا جی بھر کے نظارہ کروں گا اور  رواق دل کا ایک ایک دریچہ کھول دوں گا، گوشہ ہائے خاطر افسردگیوں اور  گرفتگیوں سے کتنے ہی غبار آلود ہوں لیکن آسمان کی کشادہ پیشانی اور  سورج کی چمکتی ہوئی خندہ روئی دیکھ کر ممکن نہیں کہ اچانک روشن نہ ہو جائیں ‘‘ ۔ (ایضاً: ص ۷۲۔۷۳)

 ’’… یہ ماننا پڑے گا کہ… ایک فلسفی، ایک زاہد، ایک سادھو کا خشک چہرہ بنا کر ہم اس مرقع میں کھپ نہیں سکتے جو نقاش فطرت کے موقلم نے یہاں کھینچ دیا ہے، جس مرقع میں سورج کی چمکتی ہوئی پیشانی، چاند کا ہنستا ہوا چہرہ، ستاروں کی چشمک، درختوں کا رقص، پرندوں کا نغمہ، آب رواں کا ترنم اور  پھولوں کی رنگین ادائیں اپنی اپنی جلوہ طرازیاں رکھتی ہوں، اس میں ہم ایک بجھے ہوئے دل اور  سوکھے ہوئے چہرہ کے ساتھ جگہ پانے کے یقیناً مستحق نہیں ہو سکتے، فطرت کی اس بزم نشاط میں تو وہی زندگی سج سکتی ہے جو ایک دہکتا ہوا دل پہلو میں اور  چمکتی ہوئی پیشانی چہرے پر رکھتی ہو اور  جو چاندنی میں چاند کی طرح نکھر کر ستاروں کی چھاؤں میں ستاروں کی طرح چمک، پھولوں کی صف میں پھولوں کی طرح کھل کر اپنی جگہ نکال لے سکتی ہو‘‘ ۔        (ایضاً: ص۷۶)

 ’’…حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں حسن ہے اور  حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے، افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو‘‘ ۔             (غبار خاطر: ص۲۵۷)

 ’’… فطرت کائنات میں ایک مکمل مثال (Pattern) کی نموداری ہے ایسی مثال جو عظیم بھی ہو اور  جمالی (Aesthetics) بھی، اس کی عظمت ہمیں مرعوب کرتی ہے۔ اس کا جمال ہم میں محویت پیدا کرتا ہے‘‘ ۔ (ایضاً: ص۱۱۳)

 ’’…کائنات ساکن نہیں ہے متحرک ہے اور  ایک خاص رخ پر بنتی اور  سنورتی ہوئی بڑھی چلی جا رہی ہے، اس کا اندرونی تقاضہ ہر گوشہ میں تعمیر و تکمیل ہے، اگر کائنات کی اس عالمگیر ارتقائی رفتار کی کوئی مادی توضیح ہمیں نہیں ملتی تو ہم غلطی پر نہیں ہو سکتے، اگر اس معمہ کا حل روحانی حقائق میں ڈھونڈھنا چاہتے ہیں ‘‘ ۔ (ایضاً: ۱۲۸)

 ’’… کوئی پھول یاقوت کا کٹورا تھا، کوئی نیلم کی پیالی تھی، کسی پھول پر گنگا جمنی کی قلم کاری کی گئی تھی، کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ برنگے کی چھپائی ہو رہی تھی، بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑ گئی تھیں کہ خیال ہوتا تھا صناع قدرت کے موقلم میں رنگ زیادہ بھر گیا ہو گا، صاف کرنے کے لیے جھٹکنا پڑا اور  اس کی چھینٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں ‘‘ ۔  (ایضاً: ۱۹۷)

حسن پسند طبیعت میں سچائی یا حقیقت تحلیل ہوتی ہے تو داخلیت کی آنچ تیز ہوتی ہے۔ لیکن جذبات میں تندی پیدا نہیں ہوتی، ایک پر وقار توازن قائم رہتا ہے، فطرت کا حسن اور  انسان کی تخلیقات کا حسن، دونوں فنکار کی رومانیت کو بیدار اور  متحرک کئے رہتے ہیں۔ مولانا کی رومانیت کا تقاضا یہ ہے کہ علم کا دباؤ کہیں محسوس نہ ہو، حسن محسوس بنے، حسن سے ایک معصوم سا رشتہ قائم رہے، لیکن ساتھ ہی علم سے جو آگہی حاصل ہوئی ہے، حسن کو دیکھنے اور  محسوس کرنے کا جو وژن ملا ہے اس کا جوہر بھی موجود رہے۔ اس طرح رومانیت کی سطح بلند ہوتی ہے، حسن پسندی کا ایک معیار قائم ہوتا ہے۔ مولانا کے رومانی ذہن نے تلاش حسن کی بعد رموزِ حسن تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ ’غبار خاطر‘ میں ہر مشاہدہ خوبصورت تجربہ بنا ہے، پھولوں پر گفتگو ہو رہی ہو یا درختوں اور  پودوں پر، پرندوں پر اظہار خیال کیا جا رہا ہو یا جانوروں پر، ہر جگہ محسوس ہوتا ہے، مشاہدہ گہرا ہے اور  مشاہدہ جمالیاتی تجربہ بنا ہے۔ حسن کی تلاش دراصل انبساط اور  مسرت کی تلاش ہے، مسرت کی جستجو سے حسن قلب و نظر سے قریب ہو جاتا ہے تو غبار خاطر کے فنکار کے حواس کو آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ حسن کے تعلق سے جہاں بھی کوئی بات کہی گئی ہے آگہی اور  وژن نے حواس کو صحت مند اور  متوازن تاثرات عطا کیے ہیں۔ ذکر موسمی پھولوں کا ہو یا نازک کلیوں کا، بہار صبح کی بیلوں کا ہو یا خوبصورت نازک شاخوں کا، گل خطمی کی بات ہو رہی ہو یا پھولوں کی رنگ آمیزی کی بات، بلبلوں کا ذکر ہو یا کوئلوں کا، رومانی ذہن کی محویت متاثر کرتی ہے۔ یہ محویت انبساط اور  سرور حاصل کرنے کے لیے بھی ہے اور  عطا کرنے کے لیے بھی۔ حسن کے تعلق سے باتیں عام سی ہوں یا خاص، ہر جگہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے رومانیت نے کوئی انکشاف کیا ہے، انکشاف کی تازگی اور  توانائی متاثر کرتی ہے۔

ماضی پسندی، رومانیت کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ مولانا بھی ماضی پسند ہیں، ماضی کے کھنڈروں میں اتر جاتے ہیں۔ ماضی کے جلال و جمال سے اس طرح دلچسپی لینے لگتے ہیں کہ اندرونی کیفیات اور احساسات کی بھی پہچان ہونے لگتی ہے۔ حسن پسند مزاج اور  حسن کا طلسم فنکار کو ماضی کے جلوؤں تک لے جاتا ہے، ماضی کا جلوہ ہو یا ماضی کا المیہ، فنکار کا ذہن دونوں سے دلچسپی لینے لگتا ہے۔ اور  اس طرح بھی غبار خاطر میں بصیرت افزائی کا سامان مہیا ہو جاتا ہے۔ احمد نگر کے قلعے میں نظر بند ہوتے ہیں تو احمد نگر اور  اس کے قلعے کی تاریخ سے دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ چند تاریخی کرداروں کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ ملک احمد نظام الملک بھیری، فرشتہ، برہان نظام شاہ، چاند بی بی، عبد الرحیم خان، دولت خاں لودی، ابوالفضل، سب کی پرچھائیاں آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگتی ہیں، اچانک ماضی کے کسی انجان اور  نامعلوم ڈرامے کا ایک انتہائی دھندلا منظر سامنے آ جاتا ہے، دھند میں جیسے کوئی شکستہ قبر دکھائی دے رہی ہو:

 ’’…احاطہ کے شمالی کنارہ میں ایک ٹوٹی ہوئی قبر ہے، نیم کے ایک درخت کی شاخیں اس پر سایہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتیں، قبر کے سرہانے ایک چھوٹا ساطاق ہے، طاق اب چراغ سے خالی ہے، مگر محراب کی رنگت بول رہی ہے کہ یہاں کبھی ایک دیا جلا کرتا تھا۔‘‘             (غبار خاطر: ۲۹)

مولانا ابوالکلام آزاد موسیقی کے شیدائی ہیں، فرماتے ہیں کہ زندگی کی احتیاجوں میں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لکھتے ہیں آواز خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور  جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔ موسیقی کا ذکر آ جاتا ہے تو ان کی رومانیت میں وہی اٹھان پیدا ہو جاتی ہے جو کسی کلاسیکی نغمے یا پکے گانے میں ہوتی ہے۔ موسیقی کے تعلق سے اندرونی کیفیت کی وضاحت نہیں کر پاتے تو کہتے ہیں کیا کہوں اور  کس طرح کہوں کہ فریب و تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہیں آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں۔ موسیقار ابو الکلام کے ہاتھوں میں ستار ہے، تاج محل کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھے ہیں۔ جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ہے ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتے ہیں اور  اس میں گم ہو جاتے ہیں، رومانی ذہن کی حیثیت مرکزی ہے، رومانیت سے لبریز تصور کس طرح سامنے آ رہا ہے، غور فرمائیے:

’… رات کا سناٹا، ستارو ں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور  اپریل کی بھیگی ہوئی رات چاروں طرف تاج کے منارے سر اٹھائے کھڑے تھے، برجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، بیچ میں چاندنی سے دھلا ہوا مرمریں گنبد اپنی کرسی پر بے حس و حرکت متمکن تھا، نیچے جمنا کی روپہلی جدولیں بل کھا کھا کر دوڑ رہی تھیں اور  اوپر ستاروں کی انگنت نگاہیں حیرت کے عالم میں تک رہی تھیں، نور و ظلمت کی اس ملی جلی فضا میں اچانک پردہ ہائے ستارے نالہ ہائے بے حرف اٹھتے اور  ہوا کی لہروں پر بے روک تیرنے لگتے، آسمان تارے جھڑ رہے تھے اور  میری انگلی کے زخموں سے نغمے:

زخمہ برتا رک جاں میزنم

کس چہ داند تاچہ دستاک میزنم

کچھ دیر تک فضا تھمی رہتی گویا کان لگا کر خاموشی سے سن رہی ہے، پھر آہستہ آہستہ ہر تماشائی حرکت میں آنے لگا، چاند بڑھنے لگتا یہاں تک کہ سر پر آ کھڑا ہوتا، ستارے دیدے پھاڑ پھاڑ کر تکنے لگتے۔درختوں کی ٹہنیاں کیف میں آ کر جھومنے لگتیں، رات کے سیاہ پردوں کے اندر سے عناصر کی سرگوشیاں صاف صاف سنائی دیتیں، بارہا تاج کی برجیاں اپنی جگہ سے مل گئیں اور  کتنے ہی مرتبہ ایسا ہوا کہ منارے اپنے کاندھوں کو جنبش سے نہ روک سکے۔ آپ باور کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں بارہا میں نے برجیوں سے باتیں کی ہیں اور  جب کبھی نگاہ تاج کے گنبد خاموش کی طرف اٹھائی ہے تو اس کے لبوں کو ہلتا ہوا پایا ہے:

تو چندار کہ ایس قصہ ز خود میگویم

گوش نزدیک لبم آر کہ آوازے ہست

(غبار خاطر: ص۲۵۹)

مولانا کا رومانی ادب کس طرح رومانی کشادگی پیدا کرتا ہے اور  کس طرح سکون و راحت اور  مسرت بخشتا ہے اس کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ آسمان، چاند اور  ستاروں کا تحرک، رات کی سیاہی کے اندر سے عناصر کی سرگوشیوں کا آہنگ، درختوں اور  میناروں اور  گنبد تاج وغیرہ کی جنبشیں، ان سے ایک دلکش پر اسرار فضا بنتی ہے، ان تمام پیکروں کا آہنگ محسوس ہونے لگتا ہے۔جمالیاتی حس کی بیداری بھی ہے اور  اندرونی وجدانی زندگی سے ابھرے ہوئے تاثرات بھی ہیں۔ مولانا نے اس سحر آمیز اور  سحر آفریں فضا کی تشکیل اس لیے کی ہے کہ وہ ماضی میں اترنا چاہتے تھے۔ ماضی میں موسیقی اور  اس کے حسن کو ٹٹولنا چاہتے تھے، یہ اقتباس دراصل موسیقی کی تاریخ کا ابتدائیہ ہے۔ موسیقی کی تاریخ اور  ماضی میں اترتے ہوئے ہر جگہ اپنی بصیرت اور  بلند نگہی کا ثبوت دیتے ہیں۔ حسن پسند رومانی ذہن ماضی کے جمال کے تئیں بیدار ہے۔ حجازیوں کا ذوق موسیقی، ہارون الرشید کی شبستانِ طرب میں اسحاق موصلی اور ابراہیم بن مہدی کے مضرابوں کا آہنگ، مصر کی مغنیہ طائرہ کی آواز، ام کلثوم کی فنکاری، ان کے ساتھ قدیم یونانیوں کا ذوق، ہندوستانی موسیقی اور ڈرامے کا فن، یونانی فن موسیقی پر عربی میں کتابوں کی تالیف، امیر خسرو اور  ان کے راگ، ملتان، ایودھن، گور اور  دہلی کے خانقاہوں میں موسیقی کی سحر آفریں فضائیں، خلجی اور  تغلق کے درباروں میں ہندوستانی موسیقی کا ذوق، رس، تار، سازگری، ایمن، خیال، دھرید، مالوا، بنگال اور  گجرات میں راگ راگنیاں، تان سین دربار اکبری اور  دربار جہانگیری کے موسیقار، شاہ جہاں کے دور میں موسیقی کی دھوم، شیخ جمالی اور  شیخ گدائی۔ مولانا کی تحریر سے یہ سب افسانوی کردار کی طرح ابھرتے اور  ماضی کی عظمت کے حسن کا احساس دلاتے ہیں۔ بعض کتابوں سے چند واقعات پیش کیے ہیں کہ جن سے دلچسپی بڑھ جاتی ہے، یہ نغمے کا احساس اور  احساس آہنگ ہے جو مولانا کے رومانی ذہن کو موسیقی کی تاریخ تک لے جاتی ہے، کہتے ہیں  ’’…موسیقی کا ذوق اور  تاثر جو دل کے ایک ایک ریشہ میں رچ گیا تھا دل سے نکالا نہیں جا سکتا تھا اور  آج تک نہیں نکلا‘‘ ۔ انہوں نے موسیقی کی کوئی تاریخ بیان نہیں کی ہے، بلکہ اپنے مطالعے اور  تجربے سے حاصل کی ہوئی روشنی کی کرنوں کو بکھیر دیا ہے۔  ’’چڑیا چڑے کی کہانی‘‘  رومانی تمثیلیت کی پیاری سی مثال ہے۔ گہرے مشاہدے کی وجہ سے رومانی ذہن نے لطف، انبساط عطا کیا ہے، بے تکلفی اور  بے ساختگی نے اس تمثیلی افسانے کے جاذبِ نظر بنا دیا ہے۔ یہ سب مولانا ابوالکلام آزاد کی خلوت پسند رومانی فکر و نظر کی دین ہے۔

٭٭٭

عورت(۱)

پریم چند کے رومانی ذہن نے صنم کدہ خلق کیا ہے۔ اس میں عورت کے مختلف و متحرک پیکر ملتے ہیں۔ ’عورت‘ کی نفسیات کی باریکیوں پر نظر ملتی ہے۔ افسانوں میں نرگسی عورتیں بھی ہیں اور  شاداب محبت سے سرشار لڑکیاں بھی۔شادی شدہ عورتوں کی ’بت پرستی‘ بھی ملتی ہے اور بیوہ عورتوں کی ویران زندگی بھی۔ طوائفیں بھی ہیں اور نفسیاتی کشمکش میں گرفتار لڑکیا ں بھی۔ شوہر، بیوی اور  ماں، بیٹے کے رشتوں کے مختلف پہلو نمایاں ہوئے ہیں۔ خود فریبی میں گرفتار عورتوں کی زندگی بھی پیش ہوئی ہے۔

نرگسیت(Narcissism)کی واضح مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً:

 ’’کہیں آئینہ ملتا تو وہ ذرا اپنی صورت بھی دیکھتی۔ گھر سے چلتے وقت اس نے اپنی صورت دیکھی تھی۔ اسے چمکانے کے لیے جتنا صیقل کر سکتی تھی وہ کیا تھا لیکن اب وہ صورت جیسے یادداشت سے مٹ گئی ہے۔ اس کی محض ایک دھندلی سی پرچھائیں ذہن میں ہے۔ اسے پھر سے دیکھنے کے لیے وہ بے قرار ہو رہی ہے۔ یوں تو اس کے ساتھ میک اَپ کے لوازمات کے ساتھ آئینہ بھی ہے لیکن مجمع میں وہ آئینہ دیکھنے یا بناؤ سنگار کرنے کی عادی نہیں ہے۔ یہ عورتیں دل میں خدا جانے کیا سمجھیں، یہاں کوئی آئینہ تو ہو گا ہی۔

ڈرائنگ روم میں تو ضرور ہو گا، وہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئی اور  قد آدم شیشہ میں اپنی صورت دیکھی۔اس کے خدوخال بے عیب ہیں مگر وہ تازگی، وہ شگفتگی وہ نظر فریبی نہیں ہے۔ رام دلاری آج کھلی ہے اور اسے کھلے زمانہ ہو گیا لیکن اس خیال سے اسے تسکین نہیں ہوئی۔ وہ رام دلاری سے ہیٹی بن کر نہیں رہ سکتی۔ یہ مرد بھی کتنے احمق ہوتے ہیں۔ کسی میں اصلی حسن کی پرکھ نہیں۔ انھیں تو جوانی اور نفاست چاہیے۔ آنکھ رکھ کر بھی اندھے بنتے ہیں۔ میرے کپڑوں میں رام دلاری کو کھڑا کر دو پھر دیکھو یہ سارا جادو کہاں اُڑ گیا۔ چڑیل سی نظر آئے۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے؟‘‘           (دو بہنیں )

خود پسندی اور  نرگسیت کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ روپ کماری نے اپنی بہن رام دلاری کو دو سال قبل اس کی شادی میں دیکھا تھا۔ اب رام دلاری کلی کی مانند کھل گئی ہے۔ لیکن روپ اسے اپنی نظر کا فریب سمجھنا چاہتی ہے۔ پریم چند نے عورت کی نفسیات کے اس پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے شعور اور لاشعور کے تصادم کی ایک عمدہ تصویر پیش کر دی ہے۔ روپ سوچتی ہے ’’یہ حسن اس نے کہاں چھپا رکھا تھا!‘‘  پھر سوچ کا بہاؤ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے  ’’نہیں نظروں کو دھوکا ہو رہا ہے، یہ حسن نہیں محض دیدہ زیبی ہے۔ ریشم، مخمل اور  سونے کی بدولت نقشہ تھوڑا ہی بدل جائے گا  ‘‘  اپنی کشمکش سے دوچار ہونے کے باوجود اسے حقیقت کا احساس حاسد بنا رہا ہے۔ سچائی ایک بچھو کی طرح ڈنک مارتی ہے۔  ’’پھر بھی وہ آنکھوں میں سمائی جا رہی ہے۔ پچاسوں عورتیں جمع ہیں۔ مگر یہ سحر، یہ کشش اور  کسی میں نہیں۔ ‘‘  اور وہ تلملا کر آئینہ تلاش کرتی ہے۔

روپ کماری کے نرگسی رجحان کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو زیادہ حسین سمجھے۔ جب گھر سے چلی تھی تو اس نے آئینے میں خود کو دیکھا تھا اور  شاید اس خیال سے کہ رام دلاری میں دو سال کے اندر کوئی فرق پیدا نہ ہوا ہو گا۔ ذہن میں رام دلاری کی تصویر دو سال پرانی ہے۔ لمبی اور اتنی ہی دبلی۔ زرد رُو اور  بدتمیز، ذرا سی بات پر روٹھنے والی لیکن رام دلاری کو دیکھتی ہے تو نفسیاتی کشمکش کی شکار ہو جاتی ہے۔ روپ نے چلتے وقت آئینے کو صاف کر کے خود کو دیکھا تھا لیکن رام دلاری کو دیکھ کر ایسا ہیجان پیدا ہوتا ہے کہ اسے اپنی وہ صورت بھی یاد نہیں رہتی۔محض ایک دھندلی سی پرچھائیں ذہن میں ہے۔ اس صورت کو دیکھنے کے لیے اس کی بے چینی نفسی کیفیت کو بخوبی سمجھا دیتی ہے۔ ’آئینہ‘ موجود ہے لیکن لوگوں کے سامنے خود کو دیکھتے ہوئے جھجک محسوس کرتی ہے۔ ڈرائنگ روم کے قد آدم آئینے میں خود کو چھپ کر دیکھتی ہے۔ شیشے کی روپ کماری کو دیکھ کر اس کی نرگسیت یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے: ’’خدوخال بے عیب ہیں !‘‘  آئینے کے سامنے اپنی صورت کے متعلق یہ اس کا پہلا تاثر ہے۔

شعور اور غیر شعوری طور پر اس کا ذہن رام دلاری کے پیکر سے متاثر ہے۔ ابھی ابھی اس کے پاس اٹھ کر  ’’اپنی تلاش میں ‘‘  ڈرائنگ روم میں آئی ہے۔ شعوری طور پر چند لمحوں کے لیے اس زنجیر کو توڑ کر اپنے حسن کو دیکھنے آئی ہے لیکن پھر چند ہی لمحوں بعد محسوس ہوتا ہے جیسے یہ زنجیر ٹوٹی ہی نہیں، آئینے کی روپ کماری کے سامنے دلاری کا پیکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر محسوس ہوتا ہے آئینے کی روپ کماری میں وہ تازگی، وہ شگفتگی، وہ نظر فریبی نہیں لیکن اس احساس کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ اس کا نرگسی ذہن اس تار کو توڑ دینا چاہتا ہے۔ وہ مرد کی نظر کو غلط سمجھتی ہے  ’’کسی میں اصل حسن کی پرکھ نہیں !‘‘  یہ بھرپور جملہ شخصیت کی نرگسی اٹھان کو اچھی طرح سمجھا دیتا ہے۔ اپنے حسن کی قائل ہے، غیر شعوری طور پر خود کو رام دلاری سے خوبصورت سمجھنا چاہتی ہے اس لیے ایک نرگسی حملہ آور کی طرح پہلے مرد کی نظر پر حملہ کرتی ہے پھر ریشم، مخمل اور سونے کی دنیا کو اپنے تخیل میں چور چور کر دینا چاہتی ہے۔ اسے ظاہری تصویر تصور کرتی ہے۔ تسکین کے لیے یہ سہارا ملتا ہے۔ کہتی ہے:  ’’میرے کپڑوں میں رام دلاری کو کھڑا  کر دو پھر دیکھو، یہ سارا جادو کہاں اڑ گیا۔چڑیل سی نظر آئے!‘‘

روپ کماری کے کردار میں سیمابیت ہے۔ اس کے نرگسی رجحان اور  عمل کے گرد کہانی گھومتی ہے۔ شکست کے احساس کو لا شعور نے قبول نہیں کیا ہے لہٰذا خود پسندی رام دلاری کی ذات، اس کے شوہر کی آمدنی اور  اس کے گھر کی آرائش سب کوجھٹک کررکھ دیتی ہے۔ نفسیاتی سطح پر طنطنے اور غیر شعوری خواہش کا اندازہ مندرجہ ذیل گفتگو سے کیا جا سکتا ہے:

 ’’۔۔۔رام دلاری نے جیسے رحم کی آنکھوں سے دیکھ کر کہا:  ’’جیجا جی کی کوئی ترقی ورقی ہوئی کہ نہیں بہن یا ابھی تک وہی پچھتّر پر قلم گھس رہے ہیں۔ ‘‘  روپ کماری کے بدن میں آگ سی لگ گئی۔ افوہ رے دماغ، گویا اس کا شوہر لاٹ ہی تو ہے۔اکڑ کر بولی:

 ’’ترقی کیوں نہیں ہوئی۔ اب تو سوکے گریڈ میں ہیں۔ آج کل یہ بھی غنیمت ہے، نہیں تو اچھے اچھے ایم اے پاس کو دیکھتی ہوں کہ کوئی ٹکے کو نہیں پوچھتا۔ تیرا شوہر اب بی اے میں ہو گا۔‘‘

 ’’انھوں نے تو پڑھنا چھوڑ دیا بہن، پڑھ کر اوقات خراب کرنا تھا اور کیا، ایک کمپنی کے ایجنٹ ہو گئے ہیں۔ اب ڈھائی سو روپیہ ماہوار پاتے ہیں۔ کمیشن اوپر سے۔ پانچ روپے روز سفر خرچ کے بھی ملتے ہیں۔ یہ سمجھ لو پانچ سو کا اوسط پڑ جاتا ہے۔ ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تو ان کا ذاتی خرچ ہے بہن۔ اونچے عہدے پر ہیں تو اچھی حیثیت بھی بنائے رکھنی لازم ہے۔ ساڑھے تین سو روپیہ بے داغ گھر دے دیتے ہیں۔ ا س میں سو روپے مجھے ملتے ہیں۔ ڈھائی سو میں گھر کا خرچ خوش فعلی سے چل جاتا ہے۔ ایم اے پاس کر کے کیا کرتے!‘‘

روپ کماری اسے شیخ چلی کی داستان سے زیادہ وقعت دینا نہیں چاہتی تھی مگر رام دلاری کے لہجے میں اتنی صداقت ہے کہ تحت الشعور متاثر ہو رہا ہے۔ چہرے پر خفّت اور  شکست کی بدمزگی صاف جھلک رہی ہے۔ نرگسیت کا تقاضا ہے کہ ہوش و حواس قائم رکھے۔ اس اثر کو فوراً مٹا دینا چاہتی ہے۔ اپنے دل کو یقین دلانا چاہتی کہ اس میں ایک چوتھائی سے زیادہ سچائی نہیں ہے۔ احساسِ شکست کو چھپانے کے لیے ایک سنبھالا لیتی ہے:

 ’’جب ایجنٹی میں اتنی تنخواہ اور بھتے ملتے ہیں تو کالج بند کیوں نہیں ہو جاتے؟ ہزاروں لڑکے کیوں اپنی زندگی خراب کرتے۔‘‘

رام دلاری کے جواب کے بعد اس کی نرگسیت چوٹ کھا کر ایک دَم ڈھیر ہو جاتی ہے۔ لیکن سنبھلنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ تسکین قلب کے لیے راستہ ڈھونڈتی ہے۔ طنز کرتی ہے۔ تحقیر شروع کرتی ہے۔ پریم چند نے روپ کماری کی نرگسیت کو اس کے احساسات کی تمام تھرتھراہٹوں کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ روپ خاموش ہو جاتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کی نرگسیت شکست کھا گئی۔ اس کی گفتگو کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدگی سے کسی ایک بات پر غور نہیں کرتی۔ کسی ایک نقطے پر اپنے خیال کو روک نہیں سکتی۔ اپنی خواہشات کو مختلف باتوں کی مدد سے مربوط کرنے کی کوشش میں ہے۔ اپنی زندگی کا جائزہ لیتی ہے اور  اس کا مقابلہ رام دلاری کی زندگی سے کرتی ہے۔ ہر لمحہ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ایک قدم پر شکست کھا چکی ہے۔ رام دلاری کی زندگی کی باتیں اس لیے بڑی تلخ ہیں۔ جب پریشان ہو کر گھر پہنچتی ہے تو احساسِ شکست کی وجہ سے اپنا گھر قبرستان نظر آتا ہے۔ اپنے بچوں اور شوہر سے الجھتی ہے۔ ہفتے بھر اپنے ہیجانات سے الجھتی رہتی ہے ایک بار پھر اپنے گھر کو چمکانے کا خیال آتا ہے اور صفائی شروع کرتی ہے۔ اسی وقت رام دلاری کے شوہر کو آتے دیکھ کر ایک بار پھر اپنی شکست کا احساس ہوتا ہے لیکن اسے نشہ میں دیکھ کر کچھ اطمینان ہوتا ہے۔ جب رام دلاری کا شوہر یہ کہتا ہے کہ وہ ایک خفیہ فروش کا ایجنٹ ہے کوکین فروخت کرتا ہے تو روپ کماری کو زبردست نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ اس ناجائز دولت کا حال سن کر کسی حد تک مطمئن ہو جاتی ہے۔ جب رام دلاری کا شوہر لڑکھڑاتا ہوا چلا جاتا ہے تو اس کے نرگسی مزاج میں پھر ایک اٹھان پیدا ہوتی ہے۔ خود کو رام دلاری سے زیادہ خوش قسمت سمجھتی ہے۔ رام دلاری کے پاس جانا چاہتی ہے جس گھر سے شکست کھا کر آئی تھی وہاں اب ایک فاتح کی حیثیت سے جانا چاہتی ہے۔ خود پسندی میں پھر ایک چمک سی پیدا ہوتی ہے۔ یہ عمل بھی سیمابی ہے۔ شوہر سے کہتی ہے  ’’تم مجھے رام دلاری کے گھر پہنچا دو۔‘‘  غالباً اس کا لاشعور رام دلاری کو گہرے غار میں دیکھ رہا تھا۔ ہمدردی کا جذبہ نہیں ہے بلکہ ایک بار پھر رام دلاری کے ڈرائنگ روم کے آئینے میں خود کو دیکھنے کی تمنا ہے۔ پریم چند نے روپ کماری کی مراجعت سے اس کی برتری کے احساس کو ابھارا ہے۔ رام دلاری کے شوہر کے جانے کے بعد جس طرح روپ کی تمکنت میں کسمساہٹ پیدا ہوتی ہے اس کی تصویر ذہن سے کبھی مٹ نہیں سکتی۔

پریم چند کے افسانہ  ’’بازیافت‘‘  کی عورت بھی نرگسی ہے۔ اس کے شوہر کی شخصیت ایک پس منظر ہے۔ اس کے ابھرتے ہوئے نرگسی رجحان کا! ابتدا میں گھر کے ماحول اور خصوصاً ساس اور نندوں کی وجہ سے اس کے احساسات پوشیدہ ہیں۔ اس کی جبلتوں کے اظہار میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ سسر جی کھاتے وقت اگر صرف اتنا کہتے ہیں کہ  ’’نمک ذرا اندازہ سے ڈالا کرو‘‘  تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر ڈھیر ہو جاتی ہے۔ اپنی شخصیت کے سامنے ایک پردہ ڈال کر زندہ رہنا چاہتی ہے۔ رامائن پڑھتی ہے۔ بھرت، رام چندر جی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کی حسرت بھری باتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اس کے شوہر کو اس کا اس طرح رہنا قطعی پسند نہیں لہٰذا اس کی شخصیت اور ذہن کے آئینے کو چمکاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ شوہر ایک دیوتا ہے اور  اس کے ہر اشارے پر عمل کرنا فرض ہے۔ کہتی ہے:

 ’’یہ کیسے کہوں کہ مجھے بناؤ سنگھار سے نفرت تھی۔ اس کا مجھے بھی اتنا ہی شوق تھا جتنا ہر ایک عورت کو ہوتا ہے۔ جب مرد اور  بچے بھی نمائش پر جان دیتے ہیں تو میں تو عورت ہی ہوں۔ اب تک جو میں اس سے محترز رہتی تھی وہ اپنے اوپر بہت جبر کر کے۔ میری اماں اور  دادی نے ہمیشہ مجھ سے یہی کہا کہ بناؤ سنگھار کی عادت اچھی نہیں۔ وہ مجھے کبھی آئینے کے سامنے کھڑے دیکھ پاتیں تو لعن طعن کرنے لگتیں۔ ‘‘

میکے میں یہ رکاوٹ پیدا ہوئی تھی اور ہیجانات متاثر ہوئے تھے۔ سسرال میں بھی ایسا ہی ماحول ملتا ہے لہٰذا اپنی فطرت اور  ’ایگو‘ کے مطالبوں سے گریز کرتی ہے۔ ’رامائن‘ کو سہارا بناتی ہے اور جذبات کے رنگ کو بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔ شوہر علامت کی حیثیت سے ایک سہارا ہے اسی سہارے سے اس کا نرگسی رجحان ابھرتا ہے اور  پھر:

 ’’گھر کے دھندے میں اب مجھے مطلق دلچسپی نہ تھی۔ میرا وقت یا تو اپنے بناؤ سنگھار میں صرف ہوتا تھا یا پڑھنے لکھنے میں۔ کتابوں سے مجھے ایک عشق سا ہونے لگا تھا۔‘‘

انگریز اور فرانسیسی مصنفوں نے انسانی جذبات کو جس طرح پیش کیا ہے۔ اخلاق یا مذہب کی قیود سے وہ ادیب جس طرح آزاد ہیں اور  اس آزادی کی تصویر جس طرح اس کا شوہر پیش کرتا وہ ان سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ کتابیں اس عورت کے لیے آئینہ بن جاتی ہیں۔ ان کے تراشے ہوئے متحرک کرداروں کے جذبات میں خود اپنے جذبات کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتی ہے۔ ان کے ذہنی تصادم کو اپنے ذہن کی کشمکش تصور کرتی ہے۔ شوہر کا گھر اس کا آئینہ نہ بن سکا لیکن یہ کتابیں آئینہ بن گئی ہیں۔ اب اسے ساس سسر کا تحکمانہ انداز ناگوار لگنے لگتا ہے۔ اس عورت کو اپنی علامت سے عقیدت ہے اور اپنی ذات سے دلچسپی۔ سارا دن بناؤ سنگھار میں گزرتا ہے۔ برتاؤ اور عمل میں بڑا فرق آ جاتا ہے۔

 ’’مجھے اپنی شخصیت کا احساس ہونے لگا۔ اماں کوئی کام کرنے کا کہتیں تو میں اسے ادبدا کے ٹال جاتی ہوں۔ ‘‘

شخصیت کا یہ احساس آہستہ آہستہ بہت گہرا ہو جاتا ہے۔ ساس کی ایک ڈانٹ پر تلملا کر رونے لگتی ہے تو اس کی علامت سہارا دیتی ہے:

 ’’دیکھا تم نے آج اماں کا غصہ؟ یہی سختیاں اور زیادتیاں ہیں جن سے عورتوں کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ ایسی باتوں سے کتنی روحانی کوفت ہوتی ہے، اس کا اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ زندگی وبال ہو جاتی ہے۔ کلیجہ چھلنی ہو جاتا ہے اور  انسان کا ذہنی نشوونما اسی طرح رُک جاتا ہے جیسے ہوا اور  دھوپ کے نہ ملنے سے پودے افسردہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہماری معاشرت کا نہایت تاریک پہلو ہے اور  اس نے ہماری قومی نکبت میں خاص حصہ لیا ہے۔‘‘

شوہر کی ان باتوں سے اس کی شخصیت میں اٹھان پیدا ہوتی ہے۔ تیز بہاؤ کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان کا شوہر درمیان سے پتھر ہٹا دیتا ہے۔ پودا افسردہ ہو رہا تھا لیکن اب اسے دھوپ اور ہوا دونوں مل جاتی ہے۔ ’دیوتا‘ کہتا ہے:

 ’’ایسی حالت میں دوہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو ہمیشہ ان کی گھڑکیاں جھڑکیاں سہے جاؤ یا اپنے لیے کوئی دوسرا راستہ نکالو۔‘‘

نرگسی مزاج کے لیے یہ ایک معنی خیز اشارہ بن جاتا ہے۔ نرگسی ذہن کے لیے بیرونی مداخلت قید سے کم نہیں۔ یہ عورت اس تجویز کی مخالفت نہیں کرتی۔ گریز کرنے کے لیے ذہن کو تیار کر لیتی ہے:

 ’’میں نے اس تجویز کی زیادہ مخالفت نہیں کی۔ گو اکیلے رہنے کا خیال کر کے کچھ طبیعت سہتی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی آزادیوں کے خیال سے دل میں ایک ولولۂ  مسرت پیدا ہوتا تھا۔ چل کر کسی دوسرے شہر میں اپنا ڈیرا جماؤں۔ ‘‘

شوہر کی یہ بات پسند آتی ہے جس کا اظہار کھل کر نہیں کرتی۔  ’’دوسرا شہر‘‘  جنت کی صورت سامنے آیا۔ تنہائی اور آزادی کی علامت بن گیا۔ غیر شعوری طور پر اسے تنہائی کی اسی منزل کی تلاش ہے جہاں وہ اپنی شخصیت سے زیادہ دلچسپی لے سکے۔ خود کو نمایاں کر سکے۔ ذات کو آئینہ بنا کر چمکا سکے۔ الہ آباد آ کر آزاد ہو جاتی ہے:

 ’’اب میں گھر کے کام کاج سے بالکل آزاد ہو گئی۔ بیکاری سے جی گھبراتا تو کوئی نہ کوئی ناول پڑھنے لگتی۔‘‘

ایک عیسائی عورت انگریزی پڑھانے اور گانا سکھانے آتی ہے۔ نئی سوسائٹی میں اس کے طرزِ گفتگو، طرزِ معاشرت اور  طرزِ خیال میں تبدیلی آنے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی انفرادیت ابھر کر لہرانے لگتی ہے۔ ابتدا میں حیرت سے کہتی ہے:  ’’میں ان لیڈیوں کو کبھی اداس یا متفکر نہ دیکھتی مسٹر داس نہایت سخت بیمار تھے لیکن مسز داس کی پیشانی پر ذرا بھی میل نہ تھا۔ مسٹر باگڑا  نینی تال میں تپِ  دق کا علاج کراتے تھے لیکن مسز باگڑا روزانہ ٹینس کھیلنے جاتی تھیں۔ ‘‘  لیکن اسے یہ دیکھ کر غیر شعوری طور پر مسرت ہوتی ہے کہ وہ بھی مسز داس اور مسز باگڑا بن رہی ہے۔ اِن عورتوں کی شخصیتیں صاف شیشوں کی مانند سامنے ہیں۔ چاہتی ہے وہ بھی اسی منزل پر پہنچ جائے۔ آئینے کو دیکھ کر کہتی ہے:

 ’’ان لیڈیوں کی حرکات و سکنات میں ایک جادو تھا جو مجھے بے اختیار ان کی طرف کھینچتا تھا۔ میں انھیں ہمیشہ تفریح و مشاغل پر آمادہ دیکھتی اور میرا بھی جی چاہتا تھا کہ انھیں کی طرح بے باک ہوتی۔‘‘

یہی وہ منزل ہے جہاں اپنی محبوب علامت میں اس کے لیے کسی قسم کی کوئی کشش باقی نہیں رہتی۔ اب ذات بیدار ہو گئی ہے۔ جس آرام کدہ کی متلاشی تھی وہاں پہنچ چکی ہے۔ نرگسی ذہن علامتوں کو توڑتے رہنے کا قائل ہوتا ہے۔  ’’انفرادی انتخابیت‘‘  کا عمل جاری رہتا ہے۔ اب شیشے پر جو علامتیں ابھرتی ہیں ان کے اندر قیامتیں پوشیدہ ہیں۔ ایک ہلکی سی جھلک دیکھئے:

 ’’تعجب کی یہ بات ہے کہ اب مجھے بھی بابو جی (شوہر) پروہ کامل عقیدت نہ رہی تھی۔ اب ان کے ذرا سا سر دکھنے پرمیرا دل نہ دکھتا تھا۔ میری شخصیت کا نشوونما ہونے لگا تھا۔ اب میں اپنا بناؤ سنگھار اس لیے کرتی تھی کہ یہ میرا دنیاوی فرض ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں کسی فردِ واحد کی پابند ہوں۔ مجھ میں اپنے نشۂ  حسن سے مخمور ہونے کا مادّہ پیدا ہونے لگا تھا جو نمودِ حسن کی پہلی منزل ہے۔ منشائے زندگی کی جو تعلیم بچپن میں دی گئی تھی وہ اب دل سے محو ہونے لگی تھی۔ میں اب کسی کے لیے نہ جیتی تھی، اپنے لیے جیتی تھی۔ بے نفسی اور  قربانی کی اسپرٹ مجھ میں سے مفقود ہوتی چلی تھی۔‘‘

’نرگسیت‘ کی یہ پرواز دیکھئے! ’’اندھیرے کمرے‘‘  سے اپنے شوہر کی انگلی پکڑے ’روشنی‘ میں آئی تھی۔ اس روشنی میں اپنی شخصیت اور اپنے حسن پر فریفتہ ہو گئی کہ شوہر کی شخصیت کا کوئی احترام بھی باقی نہ رہا۔ ہیرو کا بت ٹوٹ چکا ہے۔ نرگسی عورت کا آئینہ اس کے سامنے ہے۔ وہ اپنی ذات ہی سے محبت کرنے لگتی ہے۔ ’’میں اب کسی دوسرے کے لیے نہ جیتی تھی اپنے لیے جیتی تھی‘‘  یہ جملہ سچائی کو سمجھانے کے لیے کافی ہے۔ ’میں ‘ کی ایسی آواز اردو فکشن میں پہلی بار سنائی دیتی ہے:

 ’’اب مجھے اندازہ ہوا کہ شوقِ نمود میں کتنی زبردست قوت ہے۔ میں اب نِت نئے سنگھار کرتی۔ نت نئے روپ بھرتی۔ محض اس لیے کہ کلب میں، میں ہی سب کی نگاہوں کا مرکز بن جاؤں۔ اب مجھے بابو جی(شوہر) کی آرام و آسائش اور  ضرورت کے مقابلے میں اپنے سجاؤ سنگھار کا زیادہ خیال رہتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ شوق ایک نشہ سا ہو گیا۔‘‘

نرگسی عورت کی ایسی تصویر اردو فکشن میں پہلے کب آئی تھی! بات اسی حد تک نہیں ہے بلکہ:

 ’’دادِ حسن کے ملنے سے مجھے ایک غرور آمیز مسرت حاصل ہونے لگی۔ میرے احساسِ غیرت میں بھی ایک دلچسپ وسعت اور لچک پیدا ہو گئی۔ وہ نگاہیں جو کبھی میرے جسم کا ایک ایک رواں کھڑا کر دیتیں، وہ کنایے اور  بذلہ سنجیاں جو مجھے زہر کھا لینے پر آمادہ کر دیتیں ان سے اب مجھے ایک شورش انگیز مسرت حاصل ہوتی تھی!‘‘

نرگسی مسرت کی ایک نمایاں مثال سامنے ہے۔ اس عورت کی شخصیت میں پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے اس کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار شعوری اور  غیر شعوری طور پر کرتی ہے۔ اچانک کبھی خیال آتا ہے کہ اسے کلب جانا نہیں چاہیے پھر وقت پر اضطراری طور پر تیار ہو جاتی ہے۔

شوہر بیمار ہوتا ہے۔ دن بھر بے ہوش رہتا ہے لیکن اس عورت کو اس کے پاس بیٹھتے ہوئے وحشت سی ہوتی ہے۔ اس کا جی ناول کے اس کردار کی جانب ہے کہ جو جذباتی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اپنے اس آئینے کو چھوڑ کر اس فرسودہ اور ٹوٹی ہوئی علامت کے پاس کس طرح رہ سکتی ہے:

 ’’اُن کے (شوہر) پاس جاتی اور ایک منٹ کے بعد لوٹ آتی۔ ٹینس کا وقت آیا تو میں پس و پیش میں پڑی کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ بہت دیر تک دل میں یہی کشمکش ہوتی رہی۔ آخر میں نے فیصلہ کیا میرے یہاں رہنے سے یہ اچھے تو ہوئے نہیں جاتے اس لیے یہاں بیٹھے رہنا فضول ہے۔ میں نے اچھے سے کپڑے پہنے اور ریکٹ لے کر کلب گھر جا پہنچی۔‘‘

کلب میں اس کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔ تلخ سچائی ڈنک مارتی ہے لیکن اس کا دل ذہن سے شکست کھا جاتا ہے اور وہ ایک سرد آہ بھر کے کورٹ میں کھیلنے لگتی ہے۔ متواتر تین دن تک اس کے شوہر کو بخار آتا ہے۔مسز داس مشورہ دیتی ہیں کہ وہ اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس بلا لے۔ راضی ہو جاتی ہے پھر اسے ذہنی سکون ملتا ہے اور صرف سکون ہی نہیں مسرت بھی ہوتی ہے۔ کہتی ہے:

 ’’اس دن تیمار داری کے بار سے سبک دوش ہو کر مجھے بے حد مسرت ہوئی۔ اگرچہ دو دن کلب نہ گئی تھی لیکن میرا دل وہیں رہتا تھا بلکہ اپنی اس بزدلانہ نفس کشی پر غصہ آتا تھا۔‘‘

 ’’نرگسی التباس‘‘،  ’’واہمہ‘‘،  ’’فریبِ  نظر‘‘  کی بہت سی تصویریں دیکھی ہوں گی۔ لیکن  ’’نرگسی التباس‘‘،  ’’وہم‘‘،  ’’چھل‘‘  واہمہ اور  فریبِ  نظر(Illusion And Hallucination)کی یہ تصویر اردو فکشن میں اپنی مثال آپ ہے۔ پریم چند نے عورت کی نفسیات کے کن نہاں خانوں کو دیکھا ہے۔اندازہ کیا جا سکتا ہے:

 ’’ایک دن سہ پہر کے وقت میں آرام کرسی پر لیٹی ہوئی ایک انگریزی کتاب پڑھ رہی تھی۔ مجھے خیال آیا کہیں بابو جی کا بخار مہلک ثابت ہوا تو؟ لیکن اس خیال سے مجھے ذرا بھی وحشت نہ ہوئی۔ میں اس ملال تخیل کا مزہ اٹھانے لگی۔ مسز داس، مسز نائیڈو، مسز سریواستو، مس کھرے، مسز شرغہ، مس گھوش ضرور تعزیت کرنے آئیں گی۔ انھیں دیکھتے ہی میں آنکھوں میں آنسو بھرے اُٹھوں گی اور کہوں گی ’’بہنو، میں لٹ گئی، ہاں میں لٹ گئی۔ اب میری زندگی اندھیری رات ہے یا ہولناک جنگل یا شمع مزار  لیکن میری حالت پر غم کا اظہار مت کرو۔ مجھ پر جو کچھ گزرے گی میں اس کامل انسان کی نجات کے خیال سے بخوشی سہ لوں گی۔‘‘

تخیل سے ایک ایسی فضا خلق ہوتی ہے جو اس ذات کے لیے حقیقی ہے! غیر شعور کی تمنا تخیل کے ذریعہ ایک ڈراما اسٹیج کر دیتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بڑے فنکار کا کارنامہ ہے۔ یہ عورت تخیل میں ایک طولانی ماتمی تقریر کا مسودہ تیار کرتی ہے اور  پھر اس ماتمی لباس کا بھی انتخاب کرتی ہے جسے پہن کر جنازے میں شریک ہو گی۔ سوچتی ہے کس طرح اس سانحے کا شہر میں چرچا ہو گا۔ لوگ تعزیت کے خط بھیجیں گے، کس طرح اخباروں میں ایک خط لکھ کر فرداً فرداً اپنے ہمدردوں کے تعزیت ناموں کا جواب دینے کے تعلق سے معذرت چاہے گی۔

نرگسی شخصیت بعض حقیقتوں کو اپنے تخیل کے طلسمی فضا میں کس طرح افسانوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ اس کی عمدہ مثال ہے! خواب اور  التباس کی یہ تصویر غیر معمولی ہے۔ غیر شعور میں پوشیدہ آرزو فسانے میں اس طرح ڈھلتی ہے کہ حقیقت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اپنے شوہر کے وجود سے انکار کرنا چاہتی ہے۔ غیر شعوری طور پر اس کے لیے تیار ہے۔ نفسیات کے علما ایسے تخئیلی تجربوں کو لہراتے، سانپ کی مانند پھنکارتے نرگسی مزاج کا تجربہ کہتے ہیں۔ ’خود بینی‘ کی یہ آخری منزل ہے۔

یہ عورت اپنی اِسی دنیا میں کھوئی ہے کہ نرس کہتی ہے  ’’آپ کو صاحب یاد کرتے ہیں !‘‘ اچانک اس طلسمی دنیا کے شیشوں کے ٹوٹنے کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شوہر کے کمرے کی جانب اس کے قدم کس طرح بڑھے ہوں گے اور اسے سانس لیتے ہوئے دیکھ کر اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ اچانک ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ شوہر کو دیکھ کر رحم کھانے لگتی ہے:

 ’’مجھے اُن پر رحم آ گیا۔ بیٹھ گئی اور  ہمدردانہ انداز سے بولی  ’’کیا کروں کوئی ڈاکٹر بلاؤں ؟‘‘

یہ نفسیاتی عمل اس کردار کی پختگی کا ثبوت ہے۔  ’’مجھے ان پر رحم آ گیا‘‘  اس جملے کا تجزیہ مشکل نہیں ہے۔ جب اس کا شوہر یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتا ہے تو اس عورت کی نرگسیت تلملا جاتی ہے۔ نرگسی لہروں سے اٹھ کر کچھ دیکھنا چاہتی۔ پہلے تو صرف یہ کہہ کر یہ محض خیال ہے۔ آپ وہاں جا کر اچھے نہیں ہو سکتے بات ٹالنا چاہتی ہے لیکن جب شوہر ضد کرتا ہے تو یہ سمجھتی ہے کہ یہ بخار کا ہذیان ہے! نرس سے کہتی ہے ’’ذرا ان کا ٹمپریچر تولو، میں ابھی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہوں ‘‘  لیکن اس کا دل ایک نامعلوم خوف سے کانپنے لگتا ہے۔ نرگسی ذہن اندیشوں کے تعلق سے ہمیشہ فکرمند رہتا ہے۔ شوہر کے ذہن اور  اس عورت کی نرگسیت کے درمیان ایک اچانک تصادم ہو جاتا ہے۔ شوہر چاہتا ہے اسی سادہ، پاک اور بے تکلف زندگی کی طرف لوٹ جائے جہاں سے وہ اس کی انگلی پکڑ کر لایا تھا اور  اس کی نرگسیت اِس ضرب سے بے چین ہوتی ہے۔ سوچتی ہے ’’اِس آزاد زندگی میں کتنا لطف تھا، یہ دلچسپیاں وہاں کہاں، کیا اتنے دنوں آزادی سے ہوا میں اڑنے کے بعد پھر اسی قفس میں جاؤں۔ ۔۔‘‘ ، ’’مجھے اس وقت بابو جی سے ہمدردی نہ ہوئی، ان پر طبیعت جھنجھلائی۔۔۔ اس دائرہ میں دوسری عورتیں جو کچھ کرتی ہیں وہی میں کرتی ہوں پھر شکایت کا کیا موقع؟‘‘ سنبھالا لینا چاہتی ہے،  ’’آخر آپ کو یہاں کیا تکلیف ہے؟‘‘  اس سوال کے بعد ہی شوہر کی باتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ جس علامت سے دور رہنا چاہتی تھی اور  جسے اپنے تخئیل کی دنیا میں موت سے ہمکنار کر چکی تھی وہ زندہ ہے۔ قریب ہے بہت پاس ہے۔ خود کو تنہا سمجھتی تھی لیکن تنہا نہیں ہے۔شوہر کے آخری وار کے ساتھ ہی یہ نرگسی عورت ڈھیر ہو جاتی ہے۔ اپنے شوہر کی انگلی پکڑے پھر اسی دروازے کی طرف بڑھتی ہے کہ جہاں سے نکلی تھی۔ جہاں اس کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ سسرال آ کر بھی بے چین ہے۔ مسٹر داس کے خط اسے تڑپا دیتے ہیں۔ جب اس کا شوہر امیلی زولا اور آسکروائیلڈ کی کتابیں جلاتا ہے تو وہ حسرت بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھتی ہے۔

 ’’آدرش وادی‘‘  پریم چند نے یہ کیا کہ اپنے  ’’اصلاحی نقطۂ  نظر‘‘  کا سہارا لے کر اس عورت کو واپس سسرال پہنچا دیا۔ اسے ’رامائن‘ اور  ’مہابھارت‘ ایک بار پھر تھما دی۔ یہ بتایا کہ وہ تباہی سے بچ گئی! لیکن اردو فکشن کی یہ خوش نصیبی ہے کہ یہ عورت خلق ہوتے ہی فنکار سے آگے آگے چلتی رہی ہے۔ آخر میں جب افسانہ نگار نے اسے دوڑ کر گرفت میں لینے کی کوشش کی تو ہاتھوں سے پھسل کر آگے بڑھ گئی ہے اور ایک ایسا دلکش مجسمہ بن گئی ہے کہ جس پر اصلاح پسندی کا کوئی آنچل یا آدرش واد کی کوئی چادر نہیں ہے!

 ’’حسرت‘‘  کی عورت بھی بہت حد تک نرگسی ہے۔ اس کی نرگسیت شوہر کی شخصیت کے بوجھ سے دبی ہوئی ہے۔ اس کی تلملاہٹ کا اندازہ کیجیے:

 ’’میں انھیں (شوہر کو) گھر میں آتے دیکھتی ہوں تو میرا دل بیٹھ جاتا ہے۔ چہرہ پر مردنی سی چھا جاتی ہے۔ دل میں ایک گرمی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ شاید دشمن کو دیکھ کر بھی کسی کے دل میں اتنی تپش نہ ہوتی ہو گی۔ وہ دو ایک دن کے لیے کہیں جاتے تو دل پر سے ایک بوجھ سا اٹھ جاتا ہے۔ ہنستی بھی ہوں بولتی بھی ہوں، زندگی میں کچھ مزہ آنے لگتا ہے لیکن ان کے آنے کی خبر پاتے ہی پھروہی مردنی، وہی حسرت، وہی تپش!‘‘

جگر کی یہ خلش اور پہلو میں چبھنے والی اس پھانس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی شخصیت اور  اس کے نرگسی رجحان کو ابھرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اپنی سہیلی سوشیلا کو اپنا ’آئینہ‘ تصور کرتی ہے۔ اسے خوش دیکھ کر اسی طرح جینا چاہتی ہے۔ ایک روز اس کی ذات کا سانپ لہراتا ہے۔ نرگسیت بیدار ہونے کے لیے تڑپنے لگتی ہے۔ اپنے شوہر سے کہتی ہے:

 ’’اب معلوم ہوا کہ میں اس گھر کی حفاظت کرنے کے لیے لائی گئی ہوں۔ مجھے اس گھر کی چوکیداری کرنی چاہیے اور  اپنی قسمت کو سراہنا چاہیے کہ یہ ساری جائداد میری ہے۔۔۔ میں تو محض خزانہ کا سانپ ہوں، ایسے گھر میں آج ہی آگ لگ جائے، سب کچھ جل کر سیاہ ہو جائے۔‘‘

سوچتی ہے جب سے آئی ہے شوہر اس کی طرف شک و شبہے کی نظر سے دیکھتا ہے۔  ’’ذرا بال سنوارے اور  ان کے تیوریوں پر بل پڑے‘‘،  ’’ذرا کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوئی اور  انھیں بخار چڑھا‘‘  جب وہ ٹھاکر جی کی جھانکی دیکھنے جانا چاہتی ہے تو اس کا بوڑھا شوہر کہتا ہے  ’’جو عورت اپنے شوہر کی خدمت نہیں کر سکتی اسے دیوتاؤں کے درشن سے ثواب کے بدلے عذاب ہوتا ہے‘‘  اور وہ تلملا کر رہ جاتی ہے۔ سوچتی ہے ’’مجھے ان پر رحم آتا ہے، یہ کیا جانیں کہ عورت کی زندگی میں کوئی ایسی بھی چیز ہے جسے کھو کر اس کی نظروں میں جنت بھی دوزخ ہو جاتی ہے۔‘‘  جذبات کی کشمکش اور ذہنی تصادم کے لیے یہ جملہ کافی ہے۔ اس تصادم کے ذریعہ پریم چند بے جوڑ شادی کے المیے کو پیش کر رہے ہیں اور  اسی پیش کش میں ایک عورت کی نفسیاتی کیفیتیں اور نرگسی عمل واضح ہوتا جاتا ہے۔ اب اس عورت کو اپنی تنہائی کا احساس زیادہ ہونے لگتا ہے اور تنہائی کے احساس سے وہ لذت حاصل کرنے لگتی ہے۔ سوچتی ہے اس کے دل کا درد کہاں ہے؟ تین دن بغل کے کمرے میں اسے(شوہر کو) کراہتے سنتی ہے لیکن ایک بار بھی دیکھنے نہیں جاتی، اس کردار کی سطح کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے:

 ’’مجھے تو یہ کہنے میں ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ ان کی بیماری سے مجھے حاسدانہ مسرت ہوتی ہے۔‘‘

جب اس کے شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی نرگسیت تیزی سے ابھرتی ہے۔ بوجھ ہٹ جاتا ہے۔ بیوہ ہونے کے باوجود چوڑیاں نہیں توڑتی۔ شوہر کی تکفین کے وقت وہ پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ گھرکے لوگوں کی سرگوشیوں سے اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مانگ، چوٹی، زیور، ہونٹوں کی سرخی اور خوبصورت ساڑیوں سے دلچسپی ہے:

 ’’اور بھی بنتی سنورتی ہوں، مجھے غم کیوں ہو، میں تو قید سے چھوٹ گئی!‘‘

بے جوڑ شادی کا المیہ اردو مختصر افسانے کو ایک اہم کردار بخش دیتا ہے جس کی پہچان اس مسئلے سے زیادہ کردار نگاری کے حسن سے ہوتی ہے۔ جذباتی زندگی کی اٹھان میں رکاوٹ تھی۔ اب وہ چاہتی ہے کہ اس کی ذات توجہ کا مرکز بنے۔ نفسیاتی سکون حاصل کرنے کے لمحے توجہ طلب بن جاتے ہیں۔ ایک رات جب ایک بوڑھی عورت کو دیوی سمجھ کر اس کے ساتھ جاتی ہے اور جنسی لذت حاصل کرتی ہے تو بظاہر یہ سمجھتی ہے کہ اس نے سماج سے انتقام لیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح اپنی نفسیاتی اور جذباتی زندگی کی تکمیل کرتے ہوئے نرگسی ذہن کو سکون اور انبساط سے آشنا کرتی ہے۔

 ’’نئی بیوی‘‘  میں عورت کی ازدواجی اور  جنسی زندگی کو عورت کی نفسیاتی کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل جھلکیوں سے کہانی کا جلوہ سامنے آ جاتا ہے:

  جگل(نوکر): ’’آپ بیٹھی رہتی ہیں تو میری عقل ٹھکانے رہتی ہے۔‘‘

مالکن:   ’’اور میں نہیں رہتی تب؟‘‘

جگل:     ’’تب تو آپ کے کمرے کے دروازے پر جا بیٹھتا ہوں !‘‘

 ’’جگل نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا:  ’’آپ چلی جائیں بہو جی، سرکار ناراض ہوں گے۔‘‘

آشا: بکو مت، جلد جلد روٹیاں سینکو نہیں تو نکال دیے جاؤ گے اور  آج مجھ سے روپے لے کر اپنے کپڑے بنوا لو، بھک منگوں کی سی صورت بنائے گھومتے ہو اور بال کیوں اتنے بڑھا رکھے ہیں۔ تمھیں نائی بھی نہیں جڑتا؟‘‘

جگل:      ’’کپڑے بنوا لوں تو دادا کو کیا حساب دوں گا۔‘‘

آشا:       ’’ارے بے وقوف میں حساب میں نہیں دینے کو کہتی، مجھ سے لے جانا۔‘‘

آشا:  ’’تم مجھے نظر لگا دو گے، اس طرح کیوں گھورتے ہو؟‘‘

جگل:      ’’جب میں یہاں سے چلا جاؤں گا تب آپ کی بہت یاد آئے گی۔‘‘

آشا:      ’’روٹی بنا کر تم کیا کیا کرتے ہو، دکھائی نہیں دیتے۔‘‘

جگل:     ’’سرکار رہتے ہیں اسی لیے نہیں آتا، پھر اب تو مجھے جواب مل رہا ہے دیکھئے بھگوان کہاں لے جاتے ہیں۔ ‘‘

            آشا کا چہرہ سرخ ہو گیا ’’کوئی تمھیں جواب دیتا ہے۔‘‘

جگل:     ’’سرکار ہی تو کہتے ہیں تمھیں نکال دوں گا۔‘‘

آشا:      ’’اپنا کام کیے جاؤ، کوئی تمھیں نہیں نکالے گا، اب تم روٹیاں اچھی بنانے لگے ہو۔‘‘

جگل:     ’’سرکار ہیں بڑے غصہ ور۔‘‘

آشا:      ’’دوچار دن میں اُن کا مزاج ٹھیک کیے دیتی ہوں۔ ‘‘

 آشا: ’’تمہاری شادی کسی بڑھیا سے کر دوں گی دیکھ لینا۔‘‘

جگل:     ’’تومیں بھی زہر کھالوں گا۔ دیکھ لیجیے گا۔‘‘

آشا:      ’’کیوں ؟ بڑھیا تمھیں جوان سے زیادہ پیار کرے گی، زیادہ خدمت کرے گی۔ تمھیں سیدھے راستے پر رکھے گی۔‘‘

جگل:     ’’یہ سب ماں کا کام ہے۔ بیوی جس کام کے لیے ہے اسی کے لیے ہے۔‘‘

آشا:      ’’آخر بیوی کس کام کے لیے ہے۔‘‘

جگل:     ’’آپ مالک ہیں نہیں تو بتلا دیتا بیوی کس کام کے لیے ہے۔‘‘

آشا:      ’’لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے، تم ذرا آنا۔‘‘

اختصار کے آرٹ کا حسن متاثر کرتا ہے۔ تفصیل سے کام لیے بغیر پریم چند نے اختصار ہی میں ساری باتیں کہہ دی ہیں۔ کہانی کی پراسرار فطری اور  نفسی کسمساہٹ افسانے کی روح بن جاتی ہے۔

 ’’مس پدما‘‘  (زادِ راہ) ایک دلچسپ کردار ہے جو عورت کی نفسیات کے کئی پہلوؤں کو جلوہ گاہ بناتی ہے۔ جنسی جبلت کا تحرک اور  اس تحرک کی حرارت توجہ طلب ہے۔ رتنا بڑی ہے اس کی شادی مسٹر جھلّا سے ہو چکی ہے۔ لیکن وہ شوہر سے خوش نہیں ہے۔ ایک ہی سال میں اس کا  ’’شگفتہ اور مخمور چہرہ‘‘  مرجھا جاتا ہے۔ زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ پدما اسے دیکھتی ہے تو اُسے محسوس ہوتا ہے جیسے تصویر مٹ گئی ہے۔ صرف اس تصویر کا خاکہ باقی ہے۔ پدما نے وکالت شروع کر دی ہے۔ اپنی ذہانت، فکاہت اور  حسن سے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ عدالت میں بھی اس کی رعنائیوں اور  شیریں بیانیوں کا تاثر قائم رہتا ہے۔ یہ عورت شکستوں سے نا آشنا ہے۔ نفسیاتی خواہشوں کی تکمیل ہی حیات کا مقصد ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ اس کا معبود ہے۔ فرائیڈ کے نظریے اس کی زندگی کے لیے مشعل راہ اور  مشعل ہدایت ہیں :

 ’’کسی عضو کو باندھ دو، تھوڑے ہی دِنوں میں دورانِ خون بند ہو جانے کے باعث بیکار ہو جائے گا۔ فاسد مادّہ پیدا کر کے زندگی کو معرضِ خطر میں ڈال دے گا۔ یہ جو جنون اور  مراق اور اختلال دماغ کی اتنی کثرت ہے محض اس لیے کہ خواہشات میں رکاؤ ڈالا گیا۔ نفسیات کی یہ نئی تنقیح پدما کی زندگی کا مسلّمہ اصول تھی۔(زادِ راہ، ص۵۱)

اس عورت کے سامنے رتنا اور  اس کے شوہر مسٹر جھلّا کا اختلاف ایک دلچسپ مسئلہ ہے۔ جنسی اور  ازدواجی زندگی میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ پدما کے لیے یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ پراسرار سچائیوں کو سمجھنا چاہتی ہے۔ راز سے واقف ہونا چاہتی ہے۔ لہٰذا رتنا سے ملتی ہے اور  پھر اس کی بھوک غائب ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ دوسری بھوک پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے تسکین اور اپنی لذت کے لیے پہلے رتنا کے دل کی باتیں جان لینا چاہتی ہے۔ اس کے سوالات پر غور کیجیے تو اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی سنجیدگی سے باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے اور  سوالوں کو پیش کرتے ہوئے کتنی لذت حاصل کر رہی ہے۔ رتنا کی باتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی اور نفسیاتی مزاج اور رجحان کے اختلاف کا معاملہ ہے۔ (پریم چند نے اسے نفسیاتی تعصب کہا ہے) رتنا اپنے شوہر سے بہت کچھ لینا چاہتی ہے اور  دینا کچھ بھی نہیں چاہتی۔ صرف اپنی نسائیت کے بوتے پر!  ’’اپنے انداز کے بل‘‘  پر سمجھتی ہے کہ اپنے شوہر کی دلچسپی کا مرکز بن جائے گی، پریم چند نے  ’’کوڑیاں دے کر جواہر پارے لینا چاہتی ہے‘‘  کہہ کر اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ نفسیات میں اپنی ’خود غرضی‘ کا مطالعہ کم دلچسپ نہیں ہے۔ پریم چند نے رتنا کی نفسیات اور خصوصاً اس کے منفی ردِ عمل کا عمدہ جائزہ لیا ہے۔ اس عورت کے ہیجانات اور  اس کی کیفیات کو خارجی علامتوں کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ رتنا کی جذباتی زندگی کی تکمیل رُک گئی ہے۔ ازدواجی مشکلات اور نفسیاتی مد و جزر کو اس طرح پیش کرتی ہے:

 ’’ہم نے گھڑے کو خوب ٹھونک بجا کر اپنا اطمینان کر لیا تھا۔ ظرف میں کہیں شگاف یا دراز تو نہیں ؟ آواز اس کی سچی تھی۔ ٹھوس، دھات کی آواز کی طرح مترنم لیکن ظرف میں پانی پڑتے ہی نہ جانے کدھر سے بال نکل آئے اور  سارا پانی بہہ گیا اور  اب گھڑا پھوٹی تقدیر کی طرح خشک پڑا ہوا ہے۔‘‘

اور:

 ’’اگر ان کی طبیعت مجھ سے سیر ہو گئی تو میری طبیعت بھی ان سے کچھ کم سیر نہیں ہوئی۔ کیوں دل کی یہ حالت ہے کہ کہہ نہیں سکتی لیکن اب میں ان کے ساتھ ایک دن بھی رہنا نہیں چاہتی۔ وہ ہنستے ہیں تو مجھے ان کی ہنسی میں چھچھورے پن کی بو آتی ہے۔ باتیں کرتے ہیں تو ان میں بناوٹ کا رنگ جھلکتا ہے۔ اچکن اور پائجامہ پہنتے ہیں تو میراثیوں جیسے لگتے ہیں۔ کوٹ پتلون پہنتے ہیں تو جیسے کرنٹ ہو، ان کے ساتھ جتنی دیر رہتی ہوں دل پر بہت جبر کر کے رہتی ہوں۔ ‘‘

رتنا نے اپنے شوہر کے جو ’کارٹون‘ پیش کیے ہیں ان سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ذہن میں کس نوعیت کی کشمکش ہے۔ ہیجانات کیا کچھ کہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ مسٹر جھلّا کو شادی سے قبل بھی جانتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان کر قریب آئے تھے لیکن اب جبکہ نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں تو رتنا کی شخصیت یا کردار کا ایک دوسرا رخ سامنے آ گیا ہے۔ شوہر کی شخصیت اس کے احساسات پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ شادی کو ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ علامت کے چہرے اور کردار کو بگاڑ رہی ہے۔ اس عورت کے نفسیاتی دباؤ اور  جنسی خوف کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

پدما اپنی بہن کی باتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ معاملے کے ہر پہلو پر غور کرتی ہے۔ یہ دونوں عورتیں بیسویں صدی کی روشنی میں پروان چڑھی ہیں۔ نئے خیالات سے متاثر ہیں لہٰذا اپنی بیوہ ماں کی شوہر پرستی کا بھی مذاق اڑاتی ہیں۔ ان کے والد امر ناتھ کول کے انتقال کو بیس سال ہو چکے ہیں لیکن دونوں کی اماں اب تک ان کی پرستش کرتی ہیں۔ امر ناتھ شوقین، آزاد مشرب اور رنگین مزاج شخص تھے اس لیے بدمزگیاں پیدا ہوتی تھیں۔ رتنا اور  پدما دونوں اپنی اماں کا مذاق اڑاتے ہوئے انھیں سادہ لوح، بے زبان اور  فرسودہ خیال سمجھ کر رحم کھاتی ہیں۔ ان میں سے کسی کو ایسا نفس پرور، بے وفا اور  سرد مہر شوہر ملتا تو اسے ٹھوکر مار دیتیں اور  اس کی پھر صورت نہ دیکھتیں۔  ’’اگر تم کج روی کر سکتے ہو توہم بھی تم سے کم نہیں ہیں۔ ‘‘  باپ کو وحشی، بے درد اور نا شناس تصور کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں خصوصاً پدما کے ذہنی اور جذباتی نشوونما کو دیکھنا چاہیے اس لیے کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ ’فرائیڈ ازم‘ کا مطالعہ کر چکی ہے اور نفسی خواہشات کی تکمیل کو ہی حیات کا مقصد سمجھتی ہے۔

پریم چند نے پدما کے کردار کو پیش کرتے ہوئے نفسیاتی بوالعجبیوں کو بھی نمایاں کیا ہے۔ ایک جانب اپنے والد کی حرکتوں کو دیکھ کر انھیں وحشی اور بے درد سمجھتی ہے اور  پھر اپنی بہن کی برباد زندگی سے متاثر ہو کر یہ سمجھتی ہے کہ شادی ایک خطرہ ہے لیکن دوسری جانب وہ خود مسٹر جھلّا کو قریب کر کے خود کو اس کی ذات میں جذب کر دیتی ہے۔ رتنا شوہر سے علاحدہ ہو جاتی ہے۔ پدما عدالت میں اپنی بہن کی وکالت کرتی ہے اور  اس کی ڈگری ہوتی ہے۔

پدما آزادانہ طور پر اپنی شخصیت کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔ جذباتی زندگی کی تکمیل مکمل آزادی کے بغیر ممکن نظر نہیں آتی۔ ماں اور بہن سے علاحدہ ہو کر اسے آزادی ملتی ہے وہ اسے عزیز ہے  ’’بڑی آزادی سے اپنی پرسنالٹی کی تکمیل کر رہی تھی۔‘‘

نفسیاتی نقطۂ  نگاہ سے یہ تنہائی اپنے وجود کی تلا ش ہے۔ ایسے وجود کی تلاش کہ جس میں درد، وفا اور گہرائی ہو  ’’جس پروہ تکیہ کر سکے‘‘  یہ تلاش فطری اور  نفسیاتی ہے۔ حیاتی تسلسل (Vital Continuity)کی واحد جبلت جو دو جبلتوں یعنی تحفظِ  ذات اور اشاعتِ  ذات پر مشتمل ہے، یہاں نمایاں ہے۔ اپنی تنہائی میں مسٹر جھلّا کو شریک کرنا چاہتی ہے۔ یہی اس افسانے کی روح ہے۔ اسے  ’’عقلی الجھاؤ‘‘  (Intelligence Complex)کا  ’’آتش مانیا‘‘  (Phromania) ضرور ہے۔ عقلی الجھاؤ کی صورت بھی ہے اور  معکوسی مالخولیا کا رنگ بھی نمایاں ہے یعنی ایک ناخوشگوار واقعے کو شعور سے الگ کرنے کی کوشش اور ماحول اور واقعات کی وجہ سے خارجی امتناع کے دباؤ سے گریز لیکن جس طرح  ’’آتش مانیا‘‘  (Pyromania)کا مریض آگ کو دیکھتے ہی اس کے قریب بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور غیر شعوری طور پر اس کے ہاتھ پاؤں آگ کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کم و بیش اسی طرح پدما بھی بے قرار نظر آتی ہے۔ مسٹر جھلّا کی ذات سے دلچسپی لیتی ہے اور اچانک اپنی آزادی کو قربان کر دینا چاہتی ہے۔ جانتی ہے مسٹر جھلّا مزاج کے بھی جھلّے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر برانگیختہ ہو جاتے ہیں پھر بھی انھیں قریب لے آتی ہے۔ جھلّا کے جبرا ور پدما کے صبر کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پدما کے لاشعور کا تقاضا پورا ہو رہا ہے۔ خارجیت کا جادو ٹوٹ چکا ہے۔ ناخوش گواریوں کو شعور سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ رتنا جب تنبیہ بھرا خط لکھتی ہے تو پدما شوخی سے کہتی ہے:  ’’میں تو لکھ دوں گی، میں ان سے شادی کر رہی ہوں اور کبھی طلاق نہ دوں گی!‘‘  دو برس گز ر جاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بپھری ہوئی پدما کی جذباتی اور جنسی خواہشات کی تکمیل ہو چکی ہو گی لیکن معاملہ برعکس ہے۔ وہ آگ کے قریب جاتے ہی جھلس جاتی ہے۔ پریم چند نے اس کی تصویر اس طرح پیش کی ہے:

 ’’چہرہ زرد، رخسار بے رنگ، آنکھوں میں تکان، جسم میں ڈھیلا پن، فکر مغموم، اس پر ایک ہیبت سی طاری رہتی، متوحش خواب دیکھتی، آئینہ میں اپنی صورت دیکھتی اور  آہ کھینچ کر رہ جاتی، ساری دنیا کے رنگ و روغن اور بہترین مقویات فطرت کے اس تغیر کے سامنے ہیچ تھے۔ آنکھوں کے گرد حلقے، غذا کی اشتہا غائب۔۔۔‘‘

پدماکی جذباتی اور  نفسی خواہشات کی تکمیل نہ ہوئی۔ پریم چند کہتے ہیں :

 ’’۔۔۔غذا کی اشتہا غائب مگر اسی تناسب سے پیار کی بھوک تیز، اب وہ ناز برداری چاہتی تھی۔ کون اسے پان کس طرح پھیرے۔ اسے سینے سے لگائے رکھے کبھی علاحدہ نہ کرے۔‘‘

اس طرح پدما کا کردار اردو فکشن میں ایک ناقابل فراموش کردار بن جاتا ہے۔ پریم چند اس زندہ لاش کی تمناؤں کو پیش کر کے جذباتی اور جنسی زندگی کی وسعت کو نمایاں کرتے ہیں۔ ابھی تک پیاسی ہو یا نہ ہو پیاس کا احساس رکھنا چاہتی ہے۔ چاہتی ہے کہ اس کے سوکھے ہوئے ہونٹ پر مسٹر جھلّا کی نظر رہے۔ مسٹر جھلّا کو اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس سے دور دور رہتے ہیں۔ پدما ان کی ہمدردی چاہتی ہے۔ زندگی میں کشیدگی اور بدمزگی نہیں چاہتی۔ عقلی الجھاؤ کی گرہیں کھل گئی ہیں۔ شعور میں ایک نئی کشمکش شروع ہو گئی ہے۔ آگ ٹھنڈی نہ ہو یہی اس کی آرزو ہے۔ رتنا کا بت سامنے ہے۔ اس کے سامنے رقص کرتے کرتے تھک کر گرنا نہیں چاہتی۔ رتنا کیا کہے گی؟ سمجھے گی اس کے گھنگھرو ٹوٹ گئے۔ اس کے پاؤں تھک گئے۔ موسیقی کا آہنگ ختم ہو گیا۔شعور اور لاشعور دونوں میں ایک ہلچل سی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور مسٹر جھلّا اس کی آنکھوں کے سامنے سے روپے لے کر غائب ہو جاتے ہیں تو قوتِ خواہش اور دباؤ کی کشمکش ظاہر ہوتی ہے۔ دبے ہوئے احساسات سامنے آتے ہیں اور پدما مالخولیا ہسٹریا کی مریضہ کی طرح حرکتیں کرتی ہے:

 ’’پدما اسی طیش سے جھلّا کر کمرے میں گئی اور  اس کی قد آدم تصویر جو ایک ہزار میں بنوائی تھی اٹھا کر اتنے زور سے پٹکا کہ شیشہ چور چور ہو گیا۔ پھر اس تصویر کو دونوں ہاتھوں سے پھاڑا اور اسے پیروں سے خوب کچلا اور دیا سلائی لگا دی اور  پھر جھلّا کر کپڑے، کتابیں، صندوق، جوتے، سگریٹ کیس اور  صدہا سامان جو وہاں رکھے ہوئے تھے سب کو ایک جگہ جمع کر کے اس پر مٹی کا تیل چھڑکا اور  آگ لگا دی اور  بلند آواز میں بولی  ’’شہدا، بدمعاش، خرام خور، خر دماغ، خر نفس۔۔۔‘‘  (زادِ راہ، ص۱۵۹)

لاشعوری مخالف ارادے (Counter-Will)کی ایک تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ اسے اپنے وجود سے نفرت کا اظہار بھی کہا جا سکتا ہے۔ جھلّا کی علامت کو توڑ کر جو ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتی ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوتا اس لیے کہ جھلّا اسی وقت آ جاتے ہیں اور  کہتے ہیں وہ اسے آزما رہے تھے۔ پدما نے جھلّا کے لیے روپے پیسے کی کبھی پروا نہیں کی لیکن اس وقت اس نے اپنے ابلتی ہوئی نفسیاتی، جنسی اور جذباتی کیفیتوں کے لیے ایسی خارجی شے کو ذریعہ اور  سہارا بنا لیا۔ دبا ہوا مواد جس شدت سے ابل پڑتا ہے اس کا احساس شعور کو ابھی اچھی طرح نہیں ہوتا۔ پریم چند نے آخر میں پدما کو ایک خاموش مجسمے کی صورت کھڑا کر دیا ہے۔ جھلّا کی تقریر سے پدما کا المیہ اور  متاثر ہوتا ہے۔ پدما یقیناً وہ نہیں ہے جو جھلّا بتاتے ہیں۔ جھلا کی واپسی کے متعلق بھی پدما کچھ نہیں سوچتی اس لیے کہ اگر مسٹر جھلا نے اس کی جانب دیکھا تو وہ مکمل پتھر بن جائیں گے اور  پدما کو جذباتی زندگی کی تکمیل کے لیے انسان چاہیے، پتھر نہیں !

 ’’سہاگ کا جنازہ‘‘  اور  ’’دیوی‘‘  کی عورتیں اُرمیلا اور  آشا دونوں نرگسی عورتیں ہیں۔  ’’جنت کی دیوی‘‘  کی لیلا بھی کئی مہینوں بعد آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اب تک غفلت برتی ہے۔ اپنی شخصیت سے پیار کرتی ہے اور پھر اس کردار میں اُٹھان پیدا ہوتی ہے۔

 ’’دو سکھیاں ‘‘  کی چندا کو جب اپنے حسن کا احساس ہوتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر مختلف انداز سے اپنی شخصیت کو ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ سسرال آ کر مجبوراً اپنے تمام رنگین آئینوں کو چھپا دیتی ہے لیکن اس کے باوجود اپنی ذات سے محبت کرتی ہے۔ اپنی سہیلی کو لکھتی ہے:

 ’’مگر حسن کیا کروں، کیا خبر تھی کہ ایک دن اس حسن کی بدولت میں قصوروار ٹھہرائی جاؤں گی۔ بہن، میں سچ کہتی ہوں کہ جب سے یہاں آئی ہوں ایک طرح پر سنگار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ میلی کچیلی ہی بیٹھی رہتی ہوں۔ صرف اس خوف سے کہ کہیں کوئی میرے پڑھنے لکھنے پر ناک بھوں نہ سکیڑے۔ کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتی۔‘‘

چندا کی بے قرار جبلت کو ابھی تسکین نہیں ہوئی۔ آگے چل کر پھر اپنی شخصیت اور  اپنے حسن سے دلچسپی لینے لگتی ہے:

 ’’نندیں اگر میرے حسن کو دیکھ کر جلتی ہیں تو یہ فطری ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہ سزا مجھے اس طرف سے بھی مل رہی ہے جس طرف سے اس کا قطعی امکان نہ ہونا چاہیے تھا۔ میرے آنند بابو بھی اس کو سزا دے رہے ہیں۔ ‘‘

اپنے شوہر کے احساسِ کمتری کو بھی اسی روشنی میں دیکھتی ہے:

 ’’جتنی دیر میرے پاس رہتے ہیں ان کے دل میں یہ شک ہوتا رہتا ہے کہ مجھے ان کا رہنا اچھا نہیں لگتا۔۔۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی حسین عورت کو بد صورت مرد سے محبت ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔ کیا کہوں، یہ حسن میری جان کا عذاب ہو گیا ہے۔‘‘

پریم چند ’’سماجی قدروں ‘‘ اور ’’تضادات‘‘  اور ’’مقاصد‘‘  کے پیش نظر کرداروں کی تخلیق کرتے ہیں لیکن اسے کیا کیجیے کہ خلق کیے ہوئے کردار اکثر آگے بڑھ کر اپنی ذات اور  شخصیت کا مظاہرہ کر کے نفسیات کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کر دیتے ہیں اور ان کی انفرادیت کی پہچان ایسے ہی پہلوؤں اور جہتوں سے زیادہ ہونے لگتی ہے۔ اس کہانی کی دوسری عورت پدما بھی اپنی نفسیاتی کیفیتوں سے پہچانی جاتی ہے۔ اپنی ذات کو شوہر کی دلچسپی کا مرکز بنانا چاہتی ہے۔شوہر کی ذات سے دلچسپی نہیں لیتی اور  اس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ چاہتی ہے اس کے ہر عمل پر شوہر کی نظر رہے۔ ’خود پسندی‘ کو نمایاں کرتی رہتی ہے۔ شوہر کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ایسی حرکتیں کرتی ہے کہ تعجب ہوتا ہے۔ مثلاً بھون سے محبت کا ڈراما اسٹیج کرتی ہے اور شوہر کو غلط فہمی میں مبتلا کر کے یہ چاہتی ہے کہ شوہر اسے برا بھلا کہے۔اس سے لڑے اور  وہ اتنا خاموش اور  سنجیدہ ہے کہ بظاہر کوئی دلچسپی نہیں لیتا، اپنی ذات کو توجہ کا مرکز بنانے کے لیے کبھی رسوئیے کو نکال دیتی ہے اور کبھی کمرے کا بلب توڑ دیتی ہے۔ اس کی بے چین ذات کا تقاضا یہ بھی ہے کہ شوہر سے دوچار چبھتی ہوئی باتیں بھی کہہ دے۔ اسی کشمکش، سیمابیت اور  نرگسیت میں اس کا کردار توجہ کا مرکز بنتا ہے۔

پریم چند نے عورتوں کی کردار نگاری میں ذہن کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ شعور اور  لاشعور کی کشمکش، مختلف خواہشات کا انوکھا اظہار اور  قوتِ نفسی، نرگسیت، جبری اعصابی خلل، ہیجانات کا اُبال اور  ان کے لیے خارجی علامتوں کی تلاش، ہیرو پسندی، دوسری عورتوں کی زندگی کو نمونہ بنانے کی تمنا، نفسیاتی دباؤ، محبت، نفرت اور  حسد کا اظہار، ذات کو توجہ کا مرکز بنانے کی خواہش، نرگسی چھیڑ، فکری اور  عقلی الجھاؤ، احساس کمتری، واہمے اور  خواب، جنسی جبلت کی دلفریبی، نفسیاتی تعصب، فریبِ  نظر(Hallucination)، تحفظِ ذات، اشاعتِ  ذات(Self-Propagation)، احساسِ شکست اور  شکست کے بعد پہلی حالت میں لوٹنے کی آرزو، مراجعت(Regression)محبوب علامتوں سے نفرت کے بعد اسے بگاڑ کر پیش کرنے کا عمل عورتوں کے کرداروں میں یہ سب ہیں۔ بعض افسانوں میں عورتیں  ’’خواب‘‘  بھی دیکھتی ہیں۔ ’بازیافت‘ کی عورت کے واہمے، فنتاسی اور فریبِ  تخیل کو دیکھ چکے ہیں۔ نا آسودہ خواہشوں کی تکمیل بیٹھے بیٹھے کس طرح کرتی ہے اور  کس طرح دبی ہوئی خواہشوں کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتی ہے۔  ’’خوابِ پریشاں ‘‘  (پریم بتیسی، حصہ دوم، ص۱۳۷) کی منورما کے خواب کو دور خیالی یا  ’’ٹیلی پیتھی‘‘  نہیں کہہ سکتے۔ امر ناتھ اس کے شوہر ہیں جو اسے تنہا چھوڑ کر  بندیل کھنڈ جاتے ہیں اور منورما انتظار کرتی ہے، خواب دیکھتی ہے، اس کے چاروں خوابوں کا رشتہ اس کہانی کے المیے سے ہے۔ خواب لاشعوری خوف کو پیش کرتے ہیں۔ بنیادی خوف مختلف علامتوں میں ظاہر ہوا ہے۔ پہلا خواب مختصر Condensed) ہے۔ امر ناتھ کو بار بار روتے دیکھنا ممکن ہے انتصال(Projection)کی کوئی صورت ہو۔ اپنے آنسوؤں کو ان کی آنکھوں میں دیکھتی ہے۔ دوسرے، تیسرے اور  چوتھے خوابوں میں بڑھتی ہوئی ذہنی اور جذباتی الجھنیں ملتی ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے اس کی الجھنوں میں کتنا اضافہ ہوتا گیا ہے۔ تین خوابوں میں دور سے ہولناک مناظر دیکھتی ہے۔ لیکن آخری خواب میں اپنے شوہر سے قریب ہے اور  گھوڑے سے اترنے کو کہتی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ذہنی طور پر قریب آتی ہے۔ منورما کی شخصیت اور  اس کی ذہنی کیفیات کو پریم چند نے ان خوابوں کے ذریعہ پیش کر دیا ہے۔

پریم چند نے پہلی بار نفسیاتی کرداروں کی تخلیق کرتے ہوئے شعور کے بہاؤ کو نمایاں کیا ہے۔ شعور کے بہاؤ یا چشمۂ  شعور کی تکنیک تواسی صدی میں مرتب ہوئی ہے۔ براہِ راست داخلی خود کلامی اور بالواسطہ خود کلامی کسی حد تک ماورائی تفصیل اور سولیلوک(Soliloquy)کو چار مختلف تکنیک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پریم چند کے فن میں اس تکنیک کی جھلکیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے انھیں اس تکنیک کی خبر نہیں تھی لیکن ذہن کے مطالعے اور شعور اور لاشعور کی کشمکش میں یہ تکنیک اجاگر ہو گئی ہے۔ موضوع تو خود اپنی تکنیک منتخب کر لیتا ہے۔ داخلی اقرار و اعتراف (Innermost Confessions)دبی ہوئی نفسی قوت، گزرتے ہوئے لمحات، داخلی کردار نگاری اور خود کلامی، نامکمل تجربے، داخلی جاگرتی یا آگاہی، نفسی تاثرات، وجدان کی تصویر کشی یا ہیجان کی ایکس رے(X-Ray)کسی حد تک آزاد تلازمہ، علامتیں، شعور کا بہاؤ اور  زمان و مکان کی قدریں، یہ تمام باتیں موجود ہیں۔ نرگسیت کا ذکر کرتے ہوئے  ’’بازیافت‘‘  کا ذکر کیا گیا ہے۔ عورت آرام کرسی پر لیٹی ہوئی ایک انگریزی کتاب پڑھ رہی ہے لیکن شعور کے بہاؤ سے اس کا ذہن اس انگریزی کتاب سے دور ہٹ جاتا ہے۔ ولیم جیمس نے کہا ہے کہ تجربہ کبھی محدود نہیں ہوتا اور  نہ کبھی اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ برگساں نے یقین دلایا ہے کہ شعور ایک جھرنے کی طرح بہتا ہے۔ تیز، بہت تیز اور  ذہنی زندگی کے زمان و مکاں کی قدریں قطعی مختلف ہیں۔ لہٰذا نفسی زندگی کے بہاؤ اور سیلان (Flux)پر غور کرنا چاہیے۔ ان باتوں کی روشنی میں ’بازیافت‘ کی اس عورت کے شعور کے بہاؤ کو دیکھئے:

  مجھے خیال آیا کہیں بابو جی (شوہر) کا بخار مہلک ثابت ہوا تو؟

            لیکن اس خیال سے مجھے ذرا بھی دہشت نہ ہوئی، میں اس ملالِ تخیل کا مزہ اٹھانے لگی۔‘‘

  ’’مسز داس، مسز نائیڈو، مسز سریواستو، مس کھرے، مسز شرغہ، مس گھوش ضرور تعزیت کرنے آئیں گی۔‘‘

  ’’انھیں دیکھتے ہی میں آنکھوں میں آنسو بھرے اٹھوں گی اور  کہوں گی  ’’بہنو میں لٹ گئی۔ اب میری زندگی اندھیری رات ہے یا ہولناک جنگل یا شمع مزار لیکن میری حالت پر غم کا اظہار مت کرو، مجھ پر جو کچھ گزرے گی میں اس انسانِ کامل کی نجات کے خیال سے بخوشی سہہ لوں گی۔‘‘

اسے ما بعدالطبیعاتی منصوبہ بندی کہیے یا کچھ اور  لیکن یہاں کم و بیش وہ تمام باتیں مل جائیں گی کہ جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ذہنی زندگی کے زمان و مکاں کی کیفیتیں کتنی مختلف ہیں۔ دبی ہوئی نفسی قوت کا اظہار کس طرح ہوا ہے۔ گزرتے ہوئے لمحات سے لاشعور نے کیسے خاکے مرتب کیے ہیں۔ یہ خود کلامی اردو فکشن میں اپنی مثال آپ ہے۔ آزاد تلازمہ نے جن علامتوں کا سہارا لیا ہے وہ بھی توجہ طلب ہیں۔ شعور کے بہاؤ سے خارجی قدروں کو کتنی شدید چوٹ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ داخلی اعتراف سے نامکمل تجربوں کا اظہار کس طرح ہوا ہے۔نفسی تاثرات ’ایکس رے‘ کے پلیٹ پر کیسے نقوش لے کر منجمد ہو رہے خیال کی بنیاد پہلے سے مضبوط ہے اس لیے وہ تخیل سے لذت لیتی ہے۔ نفسی قوت ڈرامائی طور پر ایک پردے کے بعد دوسرا پردہ اٹھاتی ہے۔  ’’اندھیری رات‘‘، ’’ہولناک جنگل‘‘ اور ’’شمع مزار‘‘  کی علامتیں بھی غور طلب ہیں۔ دراصل اپنے شوہر کی موت کے بعد ایک اندھیری رات اور  ایک ہولناک جنگل سے باہر نکل آئے گی۔ شمع مزار بن کر نہیں رہے گی۔  ’’لیکن میری حالت پر غم کا اظہار مت کرو‘‘  اس لیے کہ یہ غم بنیادی طور پر لا شعور کا انبساط ہے۔ شوہر کو ’انسانِ کامل‘ کہنے والی یہ عورت ممکن ہے اس کی زندگی کی تکمیل کی ممنون و مشکور ہو، شوہر اس طرح اپنی زندگی مکمل کر کے اسے آزاد چھوڑ جائے! نفسی تاثرات، آزاد تلازمہ، تخیل کی لذت اور  مابعد الطبیعاتی منصوبہ بندی کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ وہ ایک طولانی ماتمی تقریر کا مسودہ بھی دل میں تیار کرتی، اس کی ماتمی لباس کا فیصلہ کرتی ہے جسے پہن کر اسے شوہر کے جنازے میں شریک ہو گی۔ نفسی تصورات(Psychic Images)کا یہ سلسلہ کتنا حیرت انگیز ہے۔

 ’’طلوعِ محبت‘‘  کی بنٹی (آخری تحفہ)  ’’سکونِ قلب‘‘  کی گوپا(دودھ کی قیمت)  ’’اکسیر‘‘  کی بوٹی (دودھ کی قیمت) اور ’’بوڑھی کاکی‘‘  کی بوڑھی عورت (پریم بتیسی حصہ دوم) یہ سب بھی نفسیاتی جہتوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ ’بنٹی‘ کے کردار میں پریم چند نے عورت کے جذبات کے کئی روپ دکھائے ہیں۔ نفسیاتی عمل اور  ردِ عمل کا جائزہ ملتا ہے۔ بنٹی کا باغیانہ احتجاج بھی فطری ہے اور بھوندو کی گرفتاری کے بعد اس کی تبدیلی بھی۔خارجی نقش و نگار پر مرنے والی عورت اپنے جذبے کے گداز کوسب کچھ سمجھنے لگتی ہے اور  اس طرح شوہر کی تصویر کا خاکہ پھر ابھرتا ہے۔ پریم چند کی نظر اس کے فطری اور نفسیاتی خدوخال پر ہے۔  ’’سکونِ قلب‘‘  کی گوپا میں شدتِ درد کی ایک حیرت انگیز تصویر ابھرتی ہے۔ اس کی بیٹی کا انتقال ہوتا ہے اور  اس کے چہرے پرسکون کی ایک جھلک ہے۔ کہتی ہے:

 ’’جنازے کے ساتھ بہت سے آدمی ہوں گے۔ میرے جی میں بھی آیا کہ چل کر سنّی کا آخری دیدار کر لوں۔ لیکن میں نے سوچا کہ جب سنّی نہ رہی تو اس کی لاش میں کیا رکھا ہے، نہ گئی۔‘‘

پریم چند نے سنّی کی مصیبتوں اور  اس کی اذیت ناک زندگی کو گوپا کے ذہن میں ایک پس منظر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے بعد یہ حادثہ ہوتا ہے۔ اس نفسیاتی ردِ عمل پر غور کیجیے کہ اس عورت کے ذہن کو اس پس منظر میں کس قسم کا نفسیاتی سکون ہوا ہے۔ گوپا کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ اس کے جذبات کیسے ہیں۔ ان کا یہ نفسیاتی ردِ عمل بظاہر ایسا ہے اندر کتنی بے چینی اور  کتنا درد ہے! ’اکسیر‘ کی بوٹی بیوہ ہے، اس کے تین بچے ہیں۔ بڑا لڑکا موہن سولہ سال کا ہے۔ مینا اور  سوہن چھوٹے ہیں۔ بیوہ ہو جانے کے بعد مزاج میں تلخی آ گئی ہے۔ جب خانہ داری کی پریشانیوں سے جی بہت جلتا ہے تو اپنے مرے ہوئے شوہر کو صلواتیں سناتی ہے  ’’جب اتنی جلدی جانا تھا تو شادی نہ جانے کس لیے کی تھی، گھر میں پھوٹی بھنگ نہ تھی چلے تھے شادی کرنے!‘‘

بوٹی کردار بھی نفسیاتی ہے۔ جب موہن ایک روز یہ کہتا ہے کہ شوق سنگار کی بھی ایک عمر ہوتی ہے تو بوٹی کے جسم میں آگ سی لگ جاتی ہے۔ اسے بڑھیا کہہ دینا اس کے تقویٰ و طہارت کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ سوچتی ہے اس کی ناقدری، انہی لڑکوں کے پیچھے اس نے اپنی ساری جوانی خاک میں ملا دی۔ شوہر کو گزرے آج پانچ سال ہوئے تب اس کی چڑھتی جوانی تھی۔ یہ تین چینٹے پوت اس کے گلے منڈھ دیے ہیں۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ چاہے تو آج بھی ہونٹ سرخ کیے پاؤں میں مہندی رچائے، الوٹ بچھوے پہنے مٹکتی پھرتی‘‘  وہ نہیں چاہتی کہ موہن روپا سے شادی کرے، تلملاہٹ کا اندازہ کیجیے:

 ’’اگر روپا میرے گھر میں آئی تو جھاڑو مار کر نکال دوں گی۔ یہ سب اس کی ماں کی مایا ہے۔ وہی کٹنی میرے لڑکے کو مجھ سے چھینے لیتی ہے۔ رانڈ سے اتنا بھی نہیں دیکھا جاتا۔ چاہتی ہے کہ اسے سوت بنا کر میری چھاتی پر مونگ دلے۔‘‘

موہن اور  روپا دونوں بوٹی کے مزاج سے واقف ہیں۔ لہٰذا اس پر نفسیاتی شعاعیں ڈالتے ہیں۔ موہن اپنے بھائی اور بہن کو پیسے اور مٹھائی دیتا ہے۔ ماں کے لیے پاندان لاتا ہے۔ کہتا ہے:  ’’جس کے دو دو جوان بیٹے ہوں کیا وہ اتنا شوق بھی نہ کرے۔‘‘  روپا کہتی ہے  ’’تم بوڑھی کس طرح ہو گئیں اماں، مردوں کو اشارہ مل جائے تو بھوتروں کی طرح منڈلانے لگیں، میرے دادا تو تمہارے دروازے پر دھرنا دینے لگیں۔ ‘‘  اس گھر میں بوٹی کے لیے ایک انتہائی دلفریب فضا قائم ہوتی ہے۔اس کے سخت خزاں رسیدہ دل میں کہیں سے ہریالی نکل آتی ہے۔ جیسے اس کے چہرے کی جھریاں چکنی ہو گئیں۔ پان کے ایک بیڑے کے عرق سے اس کی بیوگی کی کرختگی ملائم ہو گئی۔ ایک پرانے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی ہے۔مزاج میں فرق آ جاتا ہے۔ گاؤں کی ایک عورت دھنیا کو پانی بھرنے کے لیے رسّی دیتی ہے۔ یہ وہی بوٹی ہے جواس سے کہتی تھی  ’’میری رسّی گاؤں بھر کے لیے نہیں ہے، رسّی ٹوٹ گئی ہے تو بنوا کیوں نہیں لیتی۔‘‘  اسے روپا اچھی لگنے لگتی ہے اور جب موہن بازار سے دودھ بیچ کر آتا ہے تو بوٹی اس سے کہتی ہے :  ’’کچھ روپے پیسے کی فکر کر بھائی، میں روپا کی ماں سے روپا کے لیے تیری بات چیت پکّی کر رہی ہوں !‘‘

 ’’فریب‘‘  کی جگنو،  ’’لعنت‘‘  کی مسز شاپور  ’’شکست کی فتح‘‘  کی لجیاوتی،  ’’سوت‘‘  کی گومتی اور  گوداوری،  ’’کسم‘‘  کی کسم،  ’’قاتل‘‘  کی ماں،  ’’دو سکھیاں ‘‘  کی چندا،  ’’ماں ‘‘  کی کرونا،  ’’الزام‘‘  کی دیوی، ’’موسی‘‘  کی سورج کماری بھی اپنی نفسیات کے نہاں خانوں سے باہر جھانکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عورت کی فطرت اور  نفسیات کے مختلف پہلو اِن کرداروں کے ذریعہ نمایاں ہوئے ہیں۔

پریم چند نے عورتوں کے جلال و جمال کو طرح طرح سے پیش کیا ہے۔ مختلف عورتوں کے چہروں اور  جسمانی اوصاف کے ذریعہ کرداروں کی ذہنی کیفیات و عوامل کو نمایاں کیا ہے۔ ایک نوجوان مرد کے فریبِ  نظر نے ایک عورت کو اس طرح دیکھا ہے:

 ’’پھول میں بھی حسن ہے۔ شعلہ میں بھی حسن ہے۔ پھول میں طراوت اور تازگی ہے۔ شعلہ میں سوز اور تپش، پھول پر بھونرا اڑ اُڑ کر اس کا رس پیتا ہے۔ شعلہ پر پروانہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ چہرے کے سامنے اس وقت زرنگار مسند پر جو نازنین شان سے بیٹھی ہوئی تھی وہ فی الواقع حسن کا شعلہ تھی۔ اس کی مخمور آنکھوں سے جاں سوز حرارت کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ پھول کی پنکھڑیاں بکھر سکتی ہیں ؟ شعلہ کو بکھیرنا ممکن نہیں۔ اس کے ایک ایک عضو کی تعریف کرنا شعلہ کو کاٹنا ہے۔اس کا حسن سرتاپا ایک شعلہ تھا۔ وہی دمک، وہی سرخی، کوئی مصور سطوت حسن کی اس سے بہتر تصویر خیال میں نہیں لا سکتا۔‘‘ (شعلۂ  حسن)

 ’’گھاس والی‘‘  میں ملیا کے حسن کی تعریف کرتے ہیں :

 ’’گیہواں رنگ تھا۔ غنچہ سا منہ، بیضاوی چہرہ، تھوڑی کھچی ہوئی۔ رخساروں پر دلآویز سرخی، بڑی بڑی نکیلی پلکیں، آنکھوں میں ایک عجیب التجا، ایک دلفریب معصومیت، ساتھ ہی ایک عجیب کشش!‘‘

 ’’فریب‘‘  کی مس خورشید کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’گلابی گورا رنگ، نازک اندام، نرگسی آنکھیں، نئے فیشن کے کٹے ہوئے بال، ایک ایک عضو سانچے میں ڈھلا ہوا!‘‘

 ’’وفا کی دیوی‘‘  کی تلیا کے حسن کا مختصر جائزہ لیتے ہیں :

 ’’تلیا کسی زمانے میں حسین تھی۔ کافر ادا تھی۔ قاتل تھی اور اپنے کشتگان ناز کی درد بھری داستانیں جب وہ چشم پرنم کھولتی تو شاید کشتوں کی روحیں عالم زیریں یا عالم بالا میں وجد کرتی ہوں گی۔‘‘

 ’’طلوعِ محبت‘‘  کی بنتی جب دلہن کی طرح سنور جاتی ہے تو پریم چند کہتے ہیں :

 ’’گلابی رنگ کی ساڑی پہن کر اور پھولوں کا ہار گلے میں ڈال کر اس نے آئینہ میں اپنی صورت دیکھی تو اس کے آبنوسی رنگ پر سرخی دوڑ گئی۔ اپنے آپ کو دیکھ کر شرما گئی۔ افلاس کی آگ میں نسائیت بھی جل کر خاک سیاہ ہو جاتی ہے۔ نسائیت کی حیا کا ذکر ہی کیا ہے۔ میلے کچیلے کپڑے پہن کر شرمانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی چنوں میں خوشبو لگا کر کھائے۔‘‘

 ’’علاحدگی‘‘  کی ملیا تیسرے دن میلے سے آتی ہے تو پریم چند بتاتے ہیں :

 ’’وہ اس خارزار میں گل صد برگ تھی۔ گیہواں رنگ تھا، غنچہ دہن، بیضاوی چہرہ، ٹھڈی کھنچی ہوئی، رخساروں پر دلآویز سرخی، بڑی بڑی نکیلی پلکیں، آنکھوں میں ایک عجیب التجا، ایک دلکش معصومیت۔۔۔صبح کے وقت ملیا کنویں پرسے پانی کا گھڑا لے کر چلتی تو اس کا گندمی رنگ طلوع کی سنہری کرنوں سے کندن ہو جاتا۔‘‘

 ’’گھاس والی‘‘  کی ملیا اور ’’علاحدگی‘‘  کی ملیا کی تعریف ایک جیسی ہے۔

کچھ عورتیں بدصورت ہیں اور بدصورتی میں بھی کردار کا حسن ہے۔ کچھ اپنی عمر کی ایک منزل پر اپنا حسن و جمال کھو دیتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جو حالات کے اثرات اور ماحول کی وجہ سے اپنا حسن و شباب سب کچھ کھو چکی ہیں۔ ایسی عورتوں میں  ’’دیوی‘‘  کی آشا بھی ہے۔ جس کی شادی بپن بابو سے ہوتی ہے۔ بپن اسے دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔ نفرت، غصہ اور  مایوسی ان کے دل کو کچل دیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ حسن و نزاکت کی دیوی نہ تھی جس کی برسوں سے پرستش کر رہے تھے، وہ:

 ’’ایک چوڑے منہ، چپٹی ناک اور پھولے ہوئے رخساروں والی مکروہ صورت عورت تھی۔ جس پر صنفِ نازک کا کسی طرح بھی اطلاق نہ ہو سکتا تھا۔‘‘

لیکن یہ عورت دیوی ہے۔ شوہر کی محبت حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے۔ اچھے اچھے کپڑے پہنتی ہے۔ طرح طرح سے بال سنوارتی ہے۔گھنٹوں آئینے کے سامنے سنگار کرتی ہے۔ لیکن بپن بابو کو یہ ستر غمزے معلوم ہوتے ہیں۔ جب بپن بیمار ہوتے ہیں تو وہ اپنی بیماری بھول کر تیمار داری کرتی ہے اور  بپن بابو پر فالج کے اثر کے بعد ان کے چہرے کو پسند کرتی ہے۔

 ’’حقیقت‘‘  کی پورنما شوہر کے انتقال کے بعد آتی ہے تو بالکل بدلی ہوئی نظر آتی ہے:

 ’’سفید ساڑی کے گھونگھٹ سے آدھا منہ چھپا ہوا تھا مگر کمر جھک گئی تھی۔ باہیں سوت سی پتلی، پشت پاکی رگیں ابھری ہوئی، آنکھوں سے آنسو جاری اور  رخسار زرد، جیسے کفن میں لپٹی ہوئی لاش کھڑی ہوئی ہو۔‘‘

 ’’مس پدما‘‘  اپنی جوانی کھو کر سب کچھ کھو چکی ہے:

 ’’چہرہ زرد، رخسار بے رنگ، آنکھوں میں تکان، جسم میں ڈھیلا پن، فکر، مغموم اس پر ایک ہیبت طاری رہتی۔۔۔ آنکھوں کے گرد حلقے۔‘‘

عمر کی رفتار کے ساتھ پریم چند عورتوں کے جذبات اور  احساسات کی تبدیلی کو بھی دیکھتے ہیں۔ بنیادی جبلتوں کے اظہار کے فرق پر ان کی گہری نظر رہتی ہے۔ بعض بوڑھی عورتوں کے کردار کی خباثت کو شکل و صورت سے بھی بتاتے ہیں، مثلاً  ’’فریب‘‘  کی جگنو:

 ’’وہ ناخواندہ غریب بوڑھی عورت تھی۔ مسکین صورت لیکن جیسے کسی ہوشیار پروف ریڈر کی نگاہ غلطیوں ہی پر جاتی ہے۔ اس کی آنکھیں بھی باطن کے داغوں پر جا پڑتی تھیں۔ اس کا پست قد، نحیف جسم، سفید بال اور  پر شکن چہرہ۔۔۔‘‘

ان کے علاوہ مختلف عورتوں کے اندازِ گفتگو کو ان کی شخصیت و کردار کے مطابق پیش کیا ہے۔ آوازوں کے آہنگ کے تئیں بھی پریم چند بیدار نظر آتے ہیں۔

٭٭٭

تیسرا آدمی

سماجی اور معاشرتی زندگی میں کوئی شخصیت غیر معمولی ہوتی ہے۔ اسے کسی لمحہ نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اقتصادی زندگی میں اس کا عمل اہم ہوتا ہے اور اکثر دلچسپ بھی۔ کاروباری ماحول میں قدم قدم پر اس کی شخصیت محسوس ہوتی ہے۔ اپنے مفاد کے لیے اسے برتنا پڑتا ہے۔ ’تیسرا آدمی‘ نہ ہو تو سماجی زندگی کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی حالات و مسائل کا انحصار اس کے عمل اور  رد عمل پر ہے۔ بازار کے بھاؤ، قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، غلوں کی پیداوار اور تقسیم میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ خرچ کیے بغیر فائدہ حاصل کرتا ہے۔ اس کی شخصیت کے کئی پہلو اہم ہیں۔ شہر اور  گاؤں کی روزانہ زندگی میں ’تیسرے آدمی‘ سے اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ یہ کارخانوں میں بھی ہے اور کھلیانوں میں بھی۔ سیاسی زندگی میں بھی ’تیسرا آدمی‘ اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔ گھریلو زندگی میں اس کی شخصیت ایک معمہ بھی بن جاتی ہے۔ کبھی اپنی بربادی پسند کرتا ہے تو ایک گھر آباد ہو جاتا ہے اور  کبھی شخصیتوں کے درمیان آتا ہے تو صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے۔ اپنے مشن میں ناکام ہو کر کبھی واپس چلا جاتا ہے اور کبھی کامیابی حاصل کرتا ہے تو گھریلو زندگی کی حالت بدل جاتی ہے۔ جب اپنے اغراض و مقاصد اور  صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے تو اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اس کے عمل سے زندگی کے کتنے آتش کدے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ عناصر اور  اقدار کو بدلتے دیکھ کر اسے ذہنی اور  نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ لذت ملتی ہے، انتقام کے جذبے سے بھی سرشار ہو کر اکثر کسی پرامن گھر میں ’تیسرا آدمی‘ داخل ہوتا ہے اور  اس کی بے چینی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کہ وہ گھر ویرانہ نہ بن جائے۔ کبھی بے غرض بھی ہوتا ہے اور  اس وقت بے قرار ہو جاتا ہے جب اس پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ اس کے خلوص و محبت اور  دوستی پر شبہ کیا جاتا ہے۔

’تیسرا آدمی‘، ’’خواجہ اہل فراق‘‘ بھی ہے اور ’’خضر راہ‘‘  بھی۔ رقیب بھی ہے اور  دوست بھی۔ اس کی دوستی اور  رقابت دونوں سے قصہ آدم رنگین بنتا ہے۔ کشمکش اور  تصادم کے بغیر زندگی اور  فن دونوں کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوتا اور  اسی کے لہو کی گرمی سے یہ کشمکش بڑھتی ہے۔ ہم اسے ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے اس لیے بھی کہ ہیرو کے روایتی تصور کو ابھی تک عزیز رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ فکشن کا اصل ہیرو عموماً یہی ہوتا ہے۔ ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وہ کچھ اور لمحوں کو کشمکش اور  تصادم کے قریب کرتا رہے۔ اس کی شکست سے اگر دوستی، خلوص اور محبت کی شکست ہو گئی تو ہمیں دکھ بھی ہوتا ہے اور  اگر رقابت، دشمنی اور  جارحانہ عمل کی شکست ہوئی تو ہمیں ذہنی اور  نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ محسوس ہو یا نہ ہو ہر شخص کسی نہ کسی لمحے تیسری شخصیت کا روپ اختیار کرتا ہے۔ دراصل ہم اس کی شخصیت میں اپنی بعض جبلّتوں، بنیادی ہیجانات اور  جذبات کو دیکھتے اور  محسوس کرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبوں اور ہیجانوں کے اظہار کو دیکھ کر شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کی ذات سے دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی جذباتی زندگی کی تکمیل کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

ایپک، ناول اور  افسانوی کلچر میں ’تیسری شخصیت‘ کے بغیر داخلی اور خارجی اقدار کی نقاب کشائی نہیں ہوتی۔ڈراموں کی کشمکش کی محرک بھی یہی شخصیت ہوتی ہے۔ ادبی تخلیقات میں عموماً کشمکش، انتشار، کرخت حقائق اور بے ترتیبی کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اور  اس کے لیے ’تیسری شخصیت‘ کو اپنی نگاہوں سے دور کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے زوال کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے، شیکسپیئر کے ’’رومیو اور  جیولیٹ‘‘  میں پیرس سے ہمیں ہمدردی نہیں ہوتی۔ یہ ’تیسرا شخص‘ جب جولیٹ سے یہ کہتا ہے:  ’’خوب ملے، میری محبوب، میری رفیقۂ  حیات‘‘  یا ’’مجھے یقین ہے تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔‘‘  تو الجھن سی ہوتی ہے۔ جولیٹ کے سامنے پھن مارے ہوئے سانپ اور  چیختے ہوئے جنگلی درندے ذہن کو پریشان کرتے ہیں۔ پیرس کی علامت المیہ کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کی موت سے لمحاتی سکون ملتا ہے لیکن جب رومیو زہر کھا لیتا ہے تو اس کی غلط فہمی ہمیں شدید ذہنی اذیت پہنچاتی ہے۔ ’جولیس سیزر‘ کا تیسرا آدمی مارکس اینٹونی ہے جو بروٹس کی تقریر کے بعد عوام سے مخاطب ہوتا ہے اور  اس کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایسی نفسیاتی شعاعیں ڈالتا ہے کہ حالات بدل جاتے ہیں۔ فضا تبدیل ہو جاتی ہے۔ خود بروٹس بھی ایک ’تیسرا آدمی‘ ہے۔ کرداروں کے عمل اور رد عمل میں اس کی پہچان بھی کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتی ہے کہ کون ’تیسرا آدمی‘ کہے جانے کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ ’تیسرا آدمی‘ دراصل ایک تحرک بن جاتا ہے۔ ایک ہی فکشن یا کہانی میں یہ تحرک کئی کرداروں کا مقدر ہو جاتا ہے۔ کچھ کردار کبھی اس حالت میں اپنے آپ کو پا کر الجھ جاتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پلاٹ کے پیش نظر اور  واقعات کے پھیلاؤ کے ساتھ تیسری شخصیت کی قدروقیمت کا اندازہ ہو گا۔ فارسی اور  اردوغ زل کا رقیب ’تیسرا آدمی‘ ہی تو ہے  ’’برادر کراموزوف‘‘، ’مادام بوئری‘‘،  ’’بن ہر‘‘،  ’’دی پوٹریٹ آف اے لیڈی‘‘  اور ’’گؤدان‘‘،  ’’شکست‘‘،  ’’تلاشِ بہاراں ‘‘،  ’’خدا کی بستی‘‘،  ’’ٹیڑھی لکیر‘‘  اور  دوسرے ناولوں میں تیسرے آدمی کا مطالعہ کم دلچسپ نہ ہو گا۔ افسانوں میں تیسری شخصیت کی تلاش عموماً مشکل نہیں ہوتی، آپ نے بھی کسی افسانوی تخلیق کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسوس کیا ہو گا کہ کبھی کبھی ہیرو اور  ہیروئن کی حیثیت تیسری ذات یا شخصیت کی ہو گئی ہے۔ افسانوی کلچر کے مطالعے میں مرکب اور  پیچیدہ واقعات کا مطالعہ تیسری شخصیت کے بغیر ممکن نہیں۔ احساسات، جذبات، رویہ، مختلف ہیجانات اور جبلتوں کے اظہار اور حسیاتی کیفیتوں کے تجزیے کے لیے تیسری شخصیت کا سہارا ضروری ہے اس لیے کہ وہی مختلف رجحانات پیدا کرتا ہے۔ جذبات کے اظہار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کرداروں کے عمل اور ردِ عمل کو متاثر کرتا ہے اور واقعات و پلاٹ میں تیزی، نوکیلاپن اور تیکھا پن پیدا کرتا ہے۔

پریم چند کے افسانوں میں بھی  ’’تیسرا آدمی‘‘  توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ’تیسرے آدمی‘ یا ’تیسری شخصیت‘ کے چند مختلف پہلوؤں کا مطالعہ فنکار کے آرٹ اور  اس کی تخلیقی فکر و نظر کی اہمیت کا احساس عطا کرتا ہے۔

نفسیاتی تصادم اور جذباتی تکمیل

پریم چند کی کہانی  ’’گھاس والی  ‘‘ میں چین سنگھ تیسرا آدمی ہے جو ملیا اور  اس کے شوہر مہابیر کے درمیان کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ زمیندار، جوانی کے نشے میں سرشار ملیا کو چھیڑتا ہے۔ تیسرے آدمی میں نفس پروری ہے، رعونت ہے، ہوس پرستی اور  خود غرضی ہے۔ ملیا چماروں کے گھر میں اپسرا سے کم نہیں ہے۔

 ’’صبح کا وقت تھا، ہوا آم کے بور کی خوشبو سے متوالی ہو رہی تھی۔ آسمان زمین پر سونے کی بارش کر رہا تھا۔ ملیا سرپر ٹوکری رکھے گھاس چھیلنے جا رہی تھی کہ دفعتاً نوجوان چین سنگھ سامنے آتا دکھائی دیا۔ ملیا نے چاہا کہ کترا کر نکل جائے مگر چین سنگھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا  ’’ملیا، کیا تجھے مجھ پر ذرا بھی رحم نہیں آتا؟‘‘

چین سنگھ کا یہ ہاتھ دراصل مہابیر کی زندگی کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ملیا مہابیر کی بیوی ہے اور  ایک سال سے دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تیسرے آدمی کا ہاتھ کہانی میں تحریک پیدا کرتا ہے۔ اس وقت چین سنگھ یہ نہیں سوچتا کہ اپنی مٹھی میں کسی کی زندگی مسلنا چاہتا ہے، اس کی ہوس پسندی اور خود غرضی اندھی ہے۔ اس لذت اور  مسرت کو معراج سمجھ رہا ہے۔دراصل اس کا عقیدہ ہے کہ نیچی ذاتوں میں حسن کا اس کے سوا اور  کوئی کام نہیں کہ وہ اونچی ذاتوں کا کھلونا بنے! اس نے ایسے کتنے ہی معرکے جیتے ہیں اس لیے اس کے ہاتھ میں زبردست طاقت پیدا ہو گئی ہے  لیکن جب ملیا کا پھول سا چہرہ شعلے کی طرح دہک اٹھتا ہے اور  کہتی ہے ’’مجھے چھوڑ دو نہیں تومیں چلاتی ہوں ‘‘  تو چین سنگھ کے ذہن پر ایک چوٹ سی پڑتی ہے۔ ملیا کا غصہ اور  اس کا غرور ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آ جاتا ہے۔وہ  ملیا کا ہاتھ چھوڑ دیتا ہے۔ مہابیر کی جھونپڑی آگ لگنے سے بچ جاتی ہے۔ دوسرے دن چین سنگھ ملیا کو دیکھتا ہے تو اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں پھر گرمی آ جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے کل جو گرفت ڈھیلی ہو گئی تھی آج پھر اس میں سختی آ جائے گی۔ چین سنگھ ملیا پر نفسیاتی شعاعیں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے:

 ’’ایشور جانتا ہے کل بھی تجھے ستانے کے لیے تیرا ہاتھ نہیں پکڑا تھا، تجھے دیکھ کر آپ ہی آپ ہاتھ بڑھ گئے۔ مجھے کچھ سدھ ہی نہ رہی تھی۔تو چلی گئی تو میں وہیں بیٹھ کر گھنٹوں روتا رہا۔ جی میں آتا تھا اس ہاتھ کو کاٹ دوں۔ ‘‘

 ’’روپیہ پیسہ، اناج، پانی، بھگوان کا دیا سب کچھ گھر میں ہے۔ بس تیری دیا چاہتا ہوں۔ میری جوانی کام نہ آوے، اگر میں کسی کھوٹ سے یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ بڑا بھاگوان تھا مہابیر کہ ایسی دیوی اسے ملی۔‘‘

تیسرا آدمی دیکھتے ہی دیکھتے ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ ملیا کے ایک جملے سے سچائی کا ایسا احساس ملتا ہے کہ رجحان متاثر ہو جاتا ہے۔ ملیا کی بات سے اسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ  ’’عورت جتنی آسانی سے دین اور  ایمان غارت کر سکتی ہے، اتنی ہی آسانی سے انھیں قوت بھی عطا کر سکتی ہے۔‘‘  پریم چند یہی سمجھانا چاہتے ہیں۔ ملیا کا ہر لفظ چین سنگھ کے طبقے کی زندگی کے سینے میں تیرکی مانند چبھتا ہوا لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا اپنا طبقہ ساتھ ہی اس طبقے کی تمام عورتیں اپنے گناہوں کے زخموں کو لیے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ تلملا جاتا ہے۔ ایک دوسری کشتی آ جاتی ہے اور  وہ اب دوسری سمت جانے لگتا ہے۔ ملیا کے تصور کو ذہن میں لیے اپنی ذات میں گم! تیسرا آدمی جس طنطنے کے ساتھ ابھرتا  ہے، اسی شدت سے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ اس میں حیرت انگیز تبدیلی آ جاتی ہے۔ بنیادی رجحان میں ! مزدوروں کو بات بات پر گالیاں دینے والا چین سنگھ خود کو ایک نئی دنیا میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسامیوں اور مزدوروں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اب کسی کو نہیں ڈانٹتا، کسی کو نہیں پیٹتا، اس کے لہجے میں نرمی ہے، ٹوٹی ہوئی نالی کو خود مٹی سے باندھتا ہے اور  کیاری بنانے والی عورت کو کچھ نہیں کہتا۔ اس کے باغ کے بیر مزدور چوری کر کے کھاتے ہیں تو کسی کی مزدوری نہیں کاٹتا، کہتا ہے ’’کیسے بیر ہیں ؟ ذرا مجھے بھی دکھاؤ، میرے ہی باغ کے ہیں نا۔۔۔ جلدی سے آؤ جی، کھڑے کیا ہو، مگر پکی پکی سب میں لے لوں گا، کہے دیتا ہوں اور  ذرا ایک آدمی لپک کر گھر سے تھوڑا سا نمک تو لے لو، چھوڑ دو پر، آؤ بیر اٹھاؤ، اس کے باغ کے بیر بہت میٹھے ہوتے ہیں، کام تو کرنا ہی ہے۔‘‘

ابتدا میں ہوس پرست تیسرے آدمی کا ہاتھ مہابیر کی زندگی میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے لیکن ایک ہی روز میں اسے لگتا ہے جیسے ملیا کے لیے اس کے دل میں واقعی جگہ ہے۔ ملیا کی وفاداری اور شوہر پرستی سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کے دل میں ملیا کی شخصیت کا احترام بڑھ جاتا ہے اور  اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔

دوسری منزل بہت ہی نازک ہے لیکن چین سنگھ خود کو سنبھال کر آگے بڑھ جاتا ہے، جو ہاتھ ملیا کی طرف بڑھا تھا وہ کٹ چکا ہے۔ اب دوسرا ہاتھ ہمدردی کے لفظوں کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ ملیا کی محبت مہابیر کی زندگی سے دلچسپی لینے پر مجبور کرتی ہے، غیر شعوری طور پر ہاتھ آگے بڑھاتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کی جذباتی زندگی کی یہ تیسری منزل ہے کہ جہاں اپنے آپ کو غیر شعوری طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مہابیر سے کہتا ہے:  ’’دو چار بیگھے کی کھیتی کیوں نہیں کر لیتے، کھیت مجھ سے لے لو۔‘‘

کچہری میں ملیا کو گھاس بیچتے ہوئے دیکھتا ہے۔ بنی ٹھنی بیٹھی ہے۔ کوئی اسے گھور رہا ہے۔ کوئی مذاق کر رہا ہے۔ ایک ادھیڑ کوچوان فٹن کے اوپر سے کہتا ہے:  ’’تیرا جمانا ہے بارہ آنے نہیں، ایک روپیہ مانگ بھائی۔ لینے والے جھک ماریں گے اور  لیں گے۔ نکلنے دو وکیلوں کو، اب دیر نہیں۔ ‘‘  پریم چند چین سنگھ کا جائزہ لیتے ہیں :

 ’’چین سنگھ کو ایسا غصہ آ رہا تھا کہ ان بدمعاشوں کی جوتوں سے خبر لے۔ سب کے سب اس کی طرف ٹکٹکی لگائے تاک رہے ہیں، گویا آنکھوں سے پی جائیں گے اور  ملیا بھی یہاں کتنی خوش ہے، نہ لجاتی ہے، نہ جھجکتی ہے، نہ بگڑتی ہے، کیسا مسکرا مسکرا کر رسیلی چتونوں سے دیکھ دیکھ کر سرکا آنچل کھسکا کھسکا کر، منہ موڑ موڑ کر باتیں کر رہی ہے۔ وہی ملیا جو شیرنی کی طرح تڑپ اٹھتی تھی۔‘‘

چین سنگھ ملیا کی زندگی کو اپنا المیہ سمجھنے لگتا ہے۔ غیر شعوری طور پر یہ نہیں چاہتا کہ چاند کی روشنی پر سیاہ بادل آئیں۔ بنیادی کمزوری پر اس کی نظر پہنچ چکی ہے۔ دیکھتا ہے کہ وکیل اور مختار نکلے۔ کوچوانوں نے بھی چٹ پٹ گھوڑے جوتے، ملیا پرچاروں طرف عینک بازوں کی مشتاق، مستانہ، قدر دانہ، ہوس ناک نظریں پڑنے لگیں۔ ایک انگریزی فیشن کا بھلا آدمی آ کر فٹن پر بیٹھ جاتا ہے اور  ملیا کو اشارے سے بلاتا ہے۔ کچھ باتیں ہوتی ہیں۔ ملیا گھاس پائدان کے پاس رکھتی ہے۔ ہاتھ پھیلا کر اور  منہ موڑ کر کچھ لیتی ہے اور  پھر مسکرا کر چلی جاتی ہے۔ جب مہابیر کا یکہ آتا ہے تو چین سنگھ اس پر بیٹھتے ہوئے پوچھتا ہے:  ’’آج کتنے پیسے کمائے مہابیر؟‘‘

مہابیر ہنس کر کہتا ہے:  ’’آج تو مالک دن بھر کھڑا ہی رہ گیا۔ کسی نے بیگار میں بھی نہ پکڑا اور  اوپر سے چار پیسے کی بیڑیاں پی گیا!‘‘

چین سنگھ بے چین ہے۔ جس جھونپڑی کی جانب اس نے ہاتھ بڑھا کر کھینچ لیا تھا اس پر کسی اور کا ہاتھ دیکھنا نہیں چاہتا۔ مہابیر سے ہمدردی دراصل ملیا کو اس زندگی سے نکال لینے کے لیے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تیسرا آدمی ذرا پس و پیش کے بعد کہتا ہے:

 ’’میری ایک صلاح مانو، عزت ہماری اور تمہاری ایک ہے۔ تم مجھ سے ایک روپیہ روز لے لیا کرو، بس جب بلاویں تو یکہ لے کر آ جاؤ۔ تب تو تمہاری گھر والی کو گھاس لیکر بازار نہ آنا پڑے گا۔ بولو منظور ہے۔‘‘

اس کے جملوں میں حسرت بھی ہے اور  آرزو بھی۔ اذیت کو لذت آمیز مسرت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اب دھندلی روشنی میں ملیا کی مٹتی ہوئی تصویر اطمینان سے دیکھ رہا ہے۔ اس تیسرے آدمی کی شخصیت کے چڑھاؤ اور اتار، کردار کی نفسیاتی الجھن اور  اس کی جذباتی زندگی کی تکمیل کی خواہش پریم چند کے فن کی عظمت کا ثبوت ہے۔ چین سنگھ میں جو تبدیلی آتی ہے وہ اچانک ضرور ہے لیکن میکانکی نہیں ہے۔ کسی تیز چوٹ کا ایسا ردِ عمل ہوتا ہے۔ نفسیات کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں تو جبلتوں کا اظہار اس طرح بھی ہوتا ہے۔ اچانک ’شاک‘(Shock)لگنے اور  حسن کی چاہت کے دل میں بیٹھ جانے کی وجہ سے یہ ردِ عمل فطری ہے۔ جنس بیدار تو ہوتا ہے لیکن ایک پیاری سی آرزو میں تبدیل ہو کر لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے۔ انسان کی نفسیات کا یہ پہلو جاذبِ نظر بن گیا ہے۔ اس تیسرے آدمی کے ردِ عمل کے پیشِ  نظر کئی سوالیہ نشان اُبھرتے ہیں اور یہی اس مختصر افسانے کا حسن ہے۔

الفاظ کی زنجیر

بھون داس گپتا بھی ایک تیسرا آدمی ہے جو معاشرے میں پائی جانے والی عام تیسری ذات یا شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ صرف اپنی موجودگی سے شدید قسم کا ذہنی اور  ڈرامائی تصادم پیدا کر دیتا ہے۔ پدما کی زندگی میں داخل ہو کر لمحوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ لیکن ہمدردی کے لفظوں کی زنجیر بھی کام نہیں آتی۔ ہاں اس کی ذات پدما کے شوہر ونود کو غلط فہمی میں مبتلا ضرور کر دیتی ہے کہ جس سے اس مختصر افسانے کا ڈراما پیدا ہوتا ہے۔ اس شخص کی وجہ سے ازدواجی زندگی بدگمانی کی بوجھل فضا میں دَم توڑتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ شادی کے بعد پدما سمجھتی ہے جیسے شوہر کے ذریعہ تمام مسرتوں اور خوشیوں کو حاصل کر رہی ہے۔ لکھتی ہے:

 ’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ ونود کے ساتھ میں کسی سنسان جنگل میں اتنے ہی سکھ سے رہتی، انھیں پا کر اب مجھے کسی شے کی خواہش نہیں۔ ‘‘

کچھ عرصہ بعد اس کا خیال یہ ہے:

 ’’مجھے ایسا شک ہو رہا ہے کہ ونود نے میرے ساتھ دغا کی۔ان کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں جتنا میرا خیال تھا۔ صرف مجھے ٹھگنے کے لیے یہ سوانگ بھرا تھا۔ یہ سوانگ اس لیے بنایا گیا تھا کہ کوئی شکار پھنس جائے۔ اب دیکھتی ہوں کہ ونود مجھ سے اپنی اصلی حالت چھپانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ ‘‘

ایک سال کے اندر ہی بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے۔ ونود کھویا کھویا سا رہتا ہے اور  پدما اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اپنے شوہر سے ہمدردی بھی نہیں کر سکتی۔ سمجھتی ہے اس کا شوہر اسے محض ریشمی گڑیا تصور کرتا ہے۔ ونود گھریلو زندگی میں دلچسپی نہیں لیتا۔ پدما ملازموں کو ہٹا دیتی ہے اور چند دوسری مشکلات پیدا کر کے شوہر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ا س کی خواہش ہے کہ اس کے انتظام پر ونود تنقیدی نظر ڈالے۔ عیب نکالے، مہینے کے خرچ کا بجٹ بتاتے ہوئے دونوں کے درمیان بحث ہو مگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی۔

بھون موہن داس گپتا ایک فلم شو میں ملتا ہے توپدما  ونود کو جلانے کے لیے اس سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتی ہے۔ گھنٹوں کیفے میں اس کے ساتھ بیٹھتی ہے۔ لیکن اسے سخت حیرت ہے کہ اس کا کوئی اثر ونود پر نہیں ہوتا۔ بھون یہ سمجھتا ہے کہ شکار ہاتھ آیا ہے اور  اب وہ تیسرے آدمی کی صورت پدما اور ونود کے درمیان آ جاتا ہے۔ پدما اسے گھر بلانے لگتی ہے۔ بظاہر ونود کوئی اثر نہیں لیتا۔ کھانے کی میز پر ونود اور  بھون میں شادی کے مسئلے پر گفتگو ہوتی ہے۔ ونود کہتا ہے کہ وہ عورت اور مرد دونوں کی مکمل آزادی کا قائل ہے۔ پدما کے ذہن پراس کا اچھا اثر نہیں ہوتا۔ وہ بھون کے سامنے رونے لگتی ہے۔ سمجھتی ہے ونود کا دل اس سے بھر چکا ہے۔ لکھتی ہے:

 ’’اگر میں تنہا ہوتی تو کبھی نہ روتی مگر بھون کے سامنے اپنے آپ پر قادر نہ رہ سکی۔‘‘

یہ تیسرا آدمی اسی لمحے کی تلاش میں ہوتا ہے:

 ’’بھون نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ ناحق اس قدر غم کرتی ہیں۔ مسٹر ونود خواہ آپ کی قدر نہ کریں مگر دنیا میں کم از کم ایک ایسی ہستی بھی ہے جو آپ کے اشارے پر جان تک نثار کر سکتی ہے۔ آپ جیسا گراں بہا رتن پا کر دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو اپنی قسمت پر نازاں نہ ہو گا، آپ قطعی فکر نہ کریں۔ ‘‘

پدما بھون کی باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔ اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا۔ وہ اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں کو اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔ بھون کی یہ بات اسے سخت ناگوار گزرتی ہے۔ غصے سے چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ تیسرا آدمی پدما کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور  پدما کو اپنی ذات سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔ سوچتی ہے:

 ’’ابھی شادی ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا اور میری یہ حالت ہو گئی کہ دوسروں کو مجھے بہکانے اور مجھ پر اپنا جادو چلانے کا حوصلہ ہو رہا ہے۔‘‘

وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہے:  ’’میں آپ سے معافی کی خواستگار ہوں۔ ذرا آرام کرنے دیجیے۔‘‘  یہ تیسرا آدمی اس نازک اور غنیمت لمحے کو جانے دینا نہیں چاہتا لہٰذا اپنے الفاظ کی زنجیر پھینکتا ہے:

 ’’ہاں ہاں، آپ آرام کریں۔ میں بیٹھا رہوں گا۔‘‘

زنجیر کی ایک کڑی اس طرح ٹوٹتی ہے۔  ’’جی نہیں، آپ مہربانی فرما کر تشریف لے جائیں، اس طرح مجھے آرام نہ ملے گا۔‘‘

وہ زنجیر اس طرح پھر آگے بڑھتی ہے:  ’’بہت اچھا، آپ آرام کریں، میں شام کو آ کر دیکھ جاؤں گا۔‘‘  دوسری کڑی بھی ٹوٹ جاتی ہے  ’’جی نہیں، آپ کو تکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘  اس طرح باقی دوسری کڑیاں بھی ٹوٹنے کو تیار ہیں۔ تیسرا آدمی ہمت کر کے کہتا ہے:  ’’اچھا تومیں کل آؤں گا، شاید راجہ صاحب بھی تشریف لائیں۔ ‘‘

 ’’نہیں !وہ اس چوٹ سے ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ تیسرے آدمی کے سامنے پدما ایک معمہ بن جاتی ہے، وہ چلا جاتا ہے لیکن دو تین بار آ کر پھر اسی ماحول کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ پدما ملنے سے صاف انکار کر دیتی ہے اور یہ تیسرا آدمی ہلچل پیدا کر کے گم ہو جاتا ہے۔

ونود عورتوں کی آزادی کا قائل ہے لیکن پدما کی حرکتیں اسے بدگمان کر دیتی ہیں۔ وہ پدما کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ پدما نے جو کچھ کیا وہ اسے قریب لانے کے لیے ہے۔ ونود گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ایک طویل خط رکھ جاتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کو پا کر خود کو پدما اور بھون کے راستے کی رکاوٹ تصور کرتا ہے، لکھتا ہے:

 ’’دو چار دن پیشتر ہی مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے اس لیے اب میں تمہارے سکھ کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں کہیں بھاگ کر نہیں جا  رہا ہوں۔ صرف تمہارے راستہ سے ہٹا جا رہا ہوں کہ تمھیں میری طرف سے پوری بے فکری ہو جائے۔ اگر میرے بغیر تمہاری زندگی زیادہ خوبصورت اور شاندار ہو سکتی ہے تومیں تمھیں جبراً رکھنا نہیں چاہتا۔‘‘

پریم چند نے پدما اور ونود دونوں کی غلط فہمیوں، بدگمانیوں اور نفسیاتی الجھنوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔اس تیسرے آدمی پر ونود کو شبہ ہے کہ پدما اس کے ساتھ ہنسی خوشی زندہ نہیں رہ سکتی۔۔۔لکھتا ہے:

 ’’دنیا میں محبت کا سوانگ بھرنے والے شبدوں کی کمی نہیں ہے۔ان سے بچ کر رہنا، ایشور سے یہی پرارتھنا کرتا ہوں۔ ‘‘

پدما جو جادو جگا رہی تھی اب اس میں کوئی اثر نہیں رہا۔ دونوں ایک دوسرے کو غلط سمجھتے رہے۔ پدما نے جان بوجھ کر اس تیسرے آدمی کو زندگی میں داخل کیا اور  اس نے نازک وقت سے فائدہ اٹھانا چاہا  لیکن اس کے لیے کوئی بنیاد نہیں تھی۔ جسے وہ بنیاد تصور کر رہا تھا وہ غلط فہمی کی ایک نازک کمزور اینٹ تھی۔ اس افسانے میں ونود کی غلط فہمی بھی ایک تیسری شخصیت کسم کی وجہ سے دور ہو جاتی ہے اور وہ پھر پدما کے قریب آ جاتا ہے۔ بھون چونکہ آنکھوں کا برا اور  دل کا اچھا ہے اس لیے اس غلط فہمی کو دور کرنے میں بڑی صاف گوئی سے کام لیتا ہے۔

شیش محل

’’حقیقت  ‘‘ میں امرت اور پورنما کی محبت کے درمیان ایک ادھیڑ، مغرور اور  بدمزاج شخص ملتا ہے جو پورنما سے شادی کر لیتا ہے۔ اس طرح اس تیسرے آدمی کی وجہ سے پورنما امرت سے دور ہو جاتی ہے۔ تین سال کے اندر امرت کی بھی شادی ہو جاتی ہے۔ پورنما جب میکے آتی ہے تو گود میں ایک دو سال کا پیارا سا بچہ بھی ہے۔ امرت کے دل میں پورنما کی محبت تھرمامیٹر کے پارے کی طرح محفوظ ہے لہٰذا پورنما کو دیکھتے ہی تین سال پیچھے چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تین سال کے اندر پورنما شوہر پرست بن چکی ہے۔ ہندوستانی لڑکی شادی کی پہلی رات ہی سے شوہر کو اپنا دیوتا سمجھتی ہے۔ تین سال قبل امرت اور پورنما کی زندگی میں وہ ادھیڑ، مغرور اور بدمزاج شخص تیسرا آدمی تھا اب تین سال بعد پورنما اور  اس کے شوہر کے درمیان امرت کی حیثیت تیسرے آدمی کی ہو جاتی ہے!

تینوں کہانیوں  ’’گھاس والی‘‘،  ’’دو سکھیاں ‘‘  اور ’’حقیقت‘‘  میں تیسرے آدمی کی شخصیت کے تین مختلف پہلو ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ امرت کو اپنے عمل کے تئیں ایک قسم کی بے خبری ہے۔ ماضی کے تجربوں میں خود کو وہی امرت اور پورنما کو وہی پورنما سمجھتا ہے اور  ماضی کو اپنے وجود پر طاری  کر لیتا ہے۔ ادھر پورنما ہے جو اپنے دیوتا کی پرستش میں گم ہے۔ امرت، اس کے بچے کو دن بھر اپنے کندھے پر بٹھائے ٹہلاتا پھرتا ہے اور  بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں لے آتا ہے۔ جب بچے سے یہ پوچھتا ہے:  ’’تم کس کے بیٹے ہو؟‘‘  اور بچہ جواب دیتا ہے ’’ٹمالے‘‘  تو متوالا ہو جاتا ہے۔ غیر شعوری  طور پر ماضی کے تجربوں کی روشنی میں اپنے جذبات یا اپنی جذباتی زندگی کی تکمیل کرتا ہوا امرت تیسرے آدمی کے روپ میں توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔

امرت کی عمر چالیس سال سے آگے نکل چکی ہے۔ اس کے لڑکے بڑے ہو گئے ہیں۔ پورنما بھی تین بچوں کی ماں بن گئی ہے اور  اس کا ایک لڑکا اسکول میں پڑھنے لگا ہے۔ ایسے وقت میں پورنما کے شوہر کا انتقال ہوتا ہے تو امرت کو افسوس نہیں ہوتا۔ غیر شعوری طور پر مطمئن ہو جاتا ہے۔

 ’’اس خبیث شوہر کے ساتھ پورنما کی زندگی قابلِ رشک نہیں ہو سکی۔ فرض کی مجبوری اور عصمت پروری کے لحاظ سے پورنما نے کبھی اپنے سوزِ جگر کا اظہار نہیں کیا۔ مگر یہ غیر ممکن ہے کہ آرام اور فارغ البالی کے باوجود اسے اس مکروہ صورت انسان سے کوئی خاص محبت رہی ہو۔‘‘

پریم چند نے انسان کی جبلت اور نفسیات کی گہرائیوں میں اتر کر جس طرح ٹٹولا ہے اس سے یہ تیسرا شخص ایک یادگار کردار بن گیا ہے۔ امرت جب تیسرا آدمی بنتا ہے تو پورنما کے جذبات، اس کی شوہر پرستی اور  اس کے خیالات پر غور نہیں کرتا۔ اپنے جذبوں کو پورنما کے جذبوں سے ہم آہنگ تصور کرنے لگتا ہے اور یہی اس اس کا المیہ ہے۔ پورنما کے شوہر کے انتقال کے بعد اتنا مطمئن ہو جاتا ہے کہ اپنے تخیل کے بت کدے میں خواہشوں کے چراغ روشن کرنے لگتا ہے:

 ’’پورنما بھی اب آزاد ہے۔ تقاضائے سن نے یقیناً اسے زیادہ مہر پرور بنا دیا ہو گا۔ وہ شوخی اور اکھڑ پن اور  بے نیازی تو کب کی رخصت ہو چکی ہو گی۔ اس دوشیزگی کی جگہ اب آزردہ کار نسائیت ہو گی جو محبت کی قدر کرتی ہے اور  اس کی طلب گار ہوتی ہے۔‘‘

ان جملوں سے اس تیسرے آدمی کے ذہن کی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ سوچتا ہے وہ پورنما کے گھر ماتم پرستی کرنے جائے گا اور اسے اپنے ساتھ لائے گا اور  اس کے مکان میں جو خدمت ہو گی کرے گا۔ اب اسے پورنما کے محض قرب سے تشفی ہو جائے گی۔ اس کے منہ سے یہ سن کر تشفی پائے گا کہ وہ اب بھی اسے یاد کرتی ہے۔ اب بھی اس سے وہی بچپن کی سی محبت ہے۔ پورنما کے نا آسودہ ذوقِ محبت کو اپنی ناز برداریوں اور گرم جوشیوں سے محظوظ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی پچھلی فروگذاشتوں کی تلافی ہو جائے۔ اس طرح پریم چند نے اس مرکزی کردار کی نقاب کشائی کی ہے۔

یہ تیسرا آدمی ہمدردی کا مستحق ہے۔ اس کا شیش محل اس وقت ٹوٹتا ہے جب پورنما آتی ہے۔ ’بچپن اور شباب کی شیریں اور پر مسرت اور پر شوق یادوں کو دل کے دامن میں سنبھالتا ہوا امرت دوڑتا ہے جیسے کوئی بچہ اپنے ہم جولی کو دیکھ کر اپنے ٹوٹے پھوٹے کھلونے لے کر دوڑے۔‘‘  لیکن سفید ساڑی، جھکی کمر، ابھری ہوئی رگیں اور  زرد رخسار دیکھ کر شیش محل کا ایک ایک شیشہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ پورنما کو دیکھنا چاہتا تھا، کفن میں لپٹی ہوئی لاش کو نہیں۔ اس نے اپنے دل میں مٹی کا ایک دیوتا بنایا تھا اور پورنما نے ایک انسان کو اپنا دیوتا بنا لیا تھا دونوں میں بڑا فرق تھا۔ اس تیسرے آدمی کا سر جھک جاتا ہے۔ اس کے ذہن کی کیفیتوں کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا۔

اس افسانے میں امرت کا المیہ تخیل اور  تخیلی عمل کا سنجیدہ اظہار ہے جو اپنے طور پر مکمل ہے۔ فنکار نے محسوسات کے ذریعہ المیہ کے جوہر کو نمایاں کر دیا ہے۔ تیسرے آدمی کے جذبات کی جو ’کتھارسس‘ ہوتی ہے وہی اس مختصر افسانے کا حسن اور جلوہ ہے۔

دہقانی

’’نئی بیوی‘‘  میں لالہ ڈنگا مل نئی شادی کرتے ہیں۔ ان کی عمر ۴۵ سے زیادہ ہے۔ نئی بیوی آشا کو ہر وقت سنگار کرتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ معمولی کپڑوں میں رہتی ہے۔ چاہتے ہیں کہ آشا انھیں ’آپ‘ نہیں ’تم‘ کہے لیکن آشا توجہ نہیں دیتی۔ لالہ جی کی باتوں میں اس کے لیے کسی قسم کی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ لالہ ہر روز سینما، تھیٹر، دریا کی سیر اور  تفریح کا تقاضا کرتے ہیں اور  آشا ٹال جاتی ہے۔ جب بوڑھا مہاراج بیمار ہو کر گھر چلا جاتا ہے تو اس کی جگہ ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا جگل آتا ہے۔ اس کا قدم ایک تیسرے آدمی کا قدم ہے۔ اُجڈ اور  دہقانی ہے۔ آشا جگل سے دلچسپی لیتی ہے۔ جگل کہتا ہے:  ’’آپ ڈانٹ دیتی ہیں بہو جی تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ سیٹھ جی کتنا ہی گھڑکیں مجھے ذرا بھی صدمہ نہیں ہوتا۔‘‘

جگل کے آتے ہی آشا میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس کی خواہش پر خوبصورت ساڑیاں پہنتی ہے اور موتیوں والا ہار بھی۔ خود کو زیورات سے آراستہ کرتی ہے۔ لالہ جی سمجھتے ہیں ان کی باتوں کا اب اثر ہو رہا ہے۔ جب جگل یہ کہتا ہے:  ’’آج آپ بہت سندر لگ رہی ہیں۔ ‘‘ تو آشا کے سارے جسم میں رعشہ سا آ جاتا ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ بوڑھے مہاراج کے آنے کے بعد جگل چلا جائے۔ آشا اور جگل دونوں دن بھر باورچی خانے میں بیٹھے اشاروں اور  کنایوں میں باتیں کرتے ہیں اور  جذباتی رشتہ قائم ہونے لگتا ہے۔ ایک روز بوڑھے شوہر کا مسئلہ سامنے ہے۔ دونوں اپنی باتیں اشاروں میں کر رہے ہیں کہ لالہ جی آ جاتے ہیں۔ آشا یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے  ’’لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے، تم ذرا آنا‘‘  ’جنس‘ یا ’سیکس‘ کے موضوع پر یہ پریم چند کی نمائندہ کہانی ہے۔ تیسری شخصیت سے انسانی نفسیات کی گرہیں کھلتی ہیں۔ آخری جملہ سرگوشیاں کرتا ہے۔ اس افسانے میں ’تیسرا آدمی‘ ایک دوسرے انداز سے پیش ہوا ہے۔ یہ تیسرا آدمی اس بات کو سمجھانے کا محرک بن جاتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں دلکش  ’’فینومینا‘‘  میں اپنے عمل سے نظر باندھ سکتے ہیں۔ تیسری شخصیت سے ایک نئی لذت آمیز زندگی کی تخلیق کا اشارہ ملتا ہے۔

پرچھائیں

شوہر کے انتقال کے بعد عورت تنہا نہیں رہتی اس لیے کہ شوہر کی یاد ساتھ رہتی ہے۔ اس یاد کو وہ سینے سے لگائے سانس لیتی ہے۔  ’’مالکن‘‘  کی رام پیاری بھی بیوہ ہے۔ سماجی زندگی کا تقاضا ہے کہ بیوہ کی طرح رہے۔ گھر سنبھالے۔ ایک ایک فرد کا خیال رکھے۔ سماجی زندگی اور  رام پیاری کے درمیان جوکھو آتا ہے۔ وہ اس کی ذات سے دلچسپی لیتی ہے۔ اس تیسری شخصیت کی ایک ایک بات اسے اچھی لگتی ہے۔ جوکھو شادی کے مسئلے پر بات کرتا ہے اور  رام پیاری گہری دلچسپی لیتی ہے۔ چاہتی ہے وہ اس مسئلے پر خوب باتیں کرے اور  یہ بتائے کہ وہ کیسی بیوی چاہتا ہے۔ تیسرا آدمی اپنی پسند کا اظہار اس طرح کرتا ہے  ’’اچھا تو سنو، میں چاہتا ہوں کہ وہ تمہاری طرح ہو، ایسی ہی لجانے والی ہو، ایسی ہی بات چیت میں ہوشیار ہو، ایسا ہی کھانا پکاتی ہو، ایسی ہی کفایت شعار ہو، ایسی ہی ہنس مکھ ہو، بس ایسی عورت ملے تو بیاہ کروں گا، نہیں تو اسی طرح پڑا رہوں گا‘‘ پیاری کا چہرہ شرم سے سرخ ہو جاتا ہے، پیچھے ہٹ کر کہتی ہے:

 ’’تم بڑے دل لگی باج ہو، ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ گئے۔‘‘

رام پیاری کی جذباتی زندگی، زندگی کے المیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور یہی اس افسانے کا حسن ہے۔ تیسرے آدمی کی پرچھائیں عورت کے بنیادی رجحان پر اثر انداز ہوتی ہے اور  نفسیاتی رویے کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

 ’’نئی بیوی‘‘  اور ’’مالکن‘‘ میں جذباتی زندگی کم و بیش ایک ہی انداز سے پیش ہوئی ہے۔ دونوں افسانوں میں تیسرے آدمی کے کردار کے عمل سے باتیں کہہ دی گئی ہیں۔

جال!

’’ستی ‘‘ میں تیسرے آدمی کا ایک اور  پہلو ابھرتا ہے۔ یہ شخص پر آشوب اور تباہ کن واقعے (Catastrophic Incident)کا ذمہ دار بن جاتا ہے۔ ملیا کلو کی بیوی ہے جو خوبصورت ہے۔ کلو ملیا کے لیے کوڑی ہے اور ملیا کلو کے لیے جواہر اس لیے کلو کو اندیشہ ہے۔ خصوصاً اپنے چچا زاد بھائی راجہ سے۔ راجہ اس افسانے کا تیسرا آدمی ہے۔ خوبصورت اور رنگین مزاج۔ باتیں کرنے میں چالاک اور  خصوصاً عورتوں کو رجھانے میں ماہر۔ کلو اس تیسرے آدمی کی پرچھائیں سے ملیا کو دور رکھتا ہے۔ وہ باہر  نہیں جاتی۔ کلو شب و روز محنت مزدوری کرتا ہے تاکہ ملیا کوکسی بات کی تکلیف نہ ہو اور  اس کی محبت حاصل رہے۔ ملیا بھی اپنے شوہر کو پسند کرتی ہے۔ جب تک شوہر گھر نہیں آ جاتا بے چینی سے انتظار کرتی رہتی ہے۔ اپنے ہی گھر میں راجہ سے ملاقات ہوتی ہے تو راجہ کہتا ہے: ’’بھابی، بھیا تمہارے قابل نہیں ہیں۔ ‘‘

اس تیسرے آدمی کے تیر کو پہچاننا مشکل نہیں ہے۔ ملیا کا جواب سن کر راجہ سمجھتا ہے کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ ملیا کا جواب یہ ہے  ’’قسمت میں تو وہی لکھے ہوئے تھے، تمھیں کیوں کر پاتی۔‘‘  راجہ اُس کے لیے چندری خریدتا ہے اور تاکید کرتا ہے اسے کلو نہ دکھائے۔ کلو راجہ کو دیکھ کر بدگمان ہو جاتا ہے۔ ملیا سوچتی ہے کہ ذرا سا ہنس دینے سے اگر کسی کا دل خوش ہو جائے تو کیا حرج ہے لیکن کلو کی بدگمانی محسوس کر کے اسے اچھا نہیں لگتا۔ وہ بھیانک خواب دیکھتی ہے اور  پریشان ہو کر اپنے شوہر کو جگا   بوٹمزا دیتی ہے۔ اسی رات وہ اس راز کو راز رہنے نہیں دیتی کہ راجہ نے اسے چندری خرید کر دی ہے۔ کلو جو اس تیسرے آدمی سے بدگمان تھا اب ملیا کی جانب سے بھی بدگمان ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈی سانس لے کر کہتا ہے  ’’روپ تو میرے بس کی بات نہیں ہے۔ بھگوان نے بدصورت بنا دیا تو سندر کہاں سے ہو جاؤں ‘‘  کلو کی زندگی اداس ہو جاتی ہے۔ تیسرے آدمی کے بڑھتے ہوئے ہاتھ دیکھ کر اپنی زندگی سے گریز کرتا ہے۔ گھر سے دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ملیا تاڑی پی کر غم کو بھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کلو دور ہی رہتا ہے۔راجہ جس انگریز کے یہاں ملازم ہے اس کا تبادلہ ہوتا ہے اور  راجہ اُس کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ اس طرح ہم سمجھتے ہیں کہ تیسرا آدمی درمیان سے ہٹ گیا۔کلو کی بیماری سے ملیا پریشان رہتی ہے۔ کلو، راجہ اور  اس کے تعلقات کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو ملیا اس کی غلط فہمی دور کرتی ہے۔ چند ماہ بعد راجہ پھر آتا ہے۔ جب اُسے کلو کی مہلک بیماری کی خبر ملتی ہے تو خوش ہو جاتا ہے اور ملیا سے مل کر کہتا ہے:  ’’بھابی کیا اب بھی مجھ پر مہربانی نہ ہو گی؟ کتنی بے رحم ہو تم، کئی دن سے تمھیں تلاش کر رہا ہوں مگر تم مجھ سے بھاگی، پھرتی ہو، بھیا اب اچھے نہ ہوں گے، انھیں گرمی ہو گئی ہے۔ ان کے ساتھ کیوں اپنی زندگی خراب کر رہی ہو۔تمہارا گلاب سا بدن سوکھ گیا ہے۔ میرے ساتھ چلو، زندگی کے مزے اڑائیں گے۔ یہ جوانی بہت دن نہیں رہے گی۔ یہ دیکھو تمہارے لیے کرن پھول لایا ہوں۔ ذرا پہن کر دکھاؤ‘‘  ملیا اس تیسرے آدمی کی باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔ اس کی ذہنی کشمکش کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہتی ہے:

 ’’لالہ، تمہارے پیروں پڑتی ہوں، مجھے مت چھیڑو، یہ ساری مصیبت تمہاری ہی لائی ہوئی ہے۔ تمھیں میرے دشمن ہو۔ پھر بھی تمھیں شرم نہیں ہوتی۔ کہتے ہو بھیا اب کس کام کے ہیں۔ مجھے تو اب وہ پہلے سے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

کلو کے مرنے کے بعد راجہ پھر سنبھالا لیتا ہے اور ملیا کو پھانسنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اب ملیا کو راجہ سے نفرت ہو چکی ہے۔ لہٰذا ملیا کا جواب سن کر راجہ واپس چلا جاتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کی واپسی اس وقت ہوتی ہے جب ملیا کی دنیا لٹ چکی ہوتی ہے۔

تعلیم یافتہ

روپ چند بھی ایک ’تیسرا آدمی‘ ہے جو  ’’نگاہِ ناز‘‘  (پریم بتیسی، حصہ اول، ص۴۱) میں گوپال کی بیوی کامنی سے محبت کرتا ہے۔ کامنی بھی اس پر فریفتہ ہے۔ دونوں ہر شام ملتے ہیں۔ محبت کا اندازہ ان جملوں سے کیا جا سکتا ہے:

 ’’ٹھیک بتلاؤ کب آؤ گے؟‘‘

 ’’گیارہ بجے، مگر احاطہ کا پچھلا دروازہ کھلا رکھنا‘‘

 ’’اسے میری آنکھیں سمجھو!‘‘

روپ چند تعلیم یافتہ ہے۔ نوجوان ہے اور  سنسکرت کا شاستری، انگریزی کا ایم اے اور  فارسی اردو سے اچھی طرح واقف۔ لکھنؤ کے ایک بڑے لوہے کے کارخانے میں منیجر ہے۔ گھر  میں خوبصورت بیوی اور  دو پیارے بچے ہیں۔ دوستوں میں عزت ہے، شباب کی مستی‘‘  ہے اور نہ  ’’مزاج کا چھچھورا پن‘‘  یوں تو عیال داری کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود کامنی سے عشق کرتا ہے۔ چھپ چھپ کر ملتا ہے۔کامنی نئی روشنی کی عورت ہے۔ آزاد ہے۔ دونوں کی پہلی ملاقات الفریڈ تھیٹر میں ہوتی ہے۔ کامنی کے حسن اور  اس کی چنچل طبیعت سے چند بہت متاثر ہوتا ہے۔ بات آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے۔ پہلے نگاہوں کی سرگوشیاں پھر اضطراب کا دور اور فتہ رفتہ وصال کے دن! کامنی روپ چند کو البیلے اور  پیارے پیارے خط لکھتی ہے۔ فراق میں تڑپتی ہے۔  ’’اِن گنے گنائے لمحوں میں جدائی کا دکھ مت دو، آؤ جس قدر جلد ممکن ہو اور گلے سے لگا کر میرے دل کی جلتی ہوئی آگ کو بجھاؤ‘‘  روپ چند کو اس طرح یاد کر کے اپنے شوہر گوپال کو خط لکھتی ہے ’’تمہارے دومحبت نامے آئے مگر افسوس ہے کہ میں ان کا جواب نہ دے سکی۔۔۔ میرے لیے ایک اپنی پسند کا گاؤن بنوا کر بھیج دو۔ ضرورتیں تو اور  بھی بہتیری ہیں مثلاً کانوں کے آویزے، جھوٹے اور بے آب ہو گئے ہیں۔ ‘‘  ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ روپ چند کی شخصیت اس کے دل و دماغ کو کس حد تک متاثر کر چکی ہے۔ اپنے شوہر کو پیار کا ایک جملہ بھی نہیں لکھتی۔ ایک روز روپ چند رات کو کامنی سے ملنے آتا ہے اور کامنی کے بھائی پنڈت کیلاش ناتھ اسے پکڑ لیتے ہیں۔ مقدمہ چلتا ہے تو بہت سی باتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ کامنی کا بیان بہت ہی مختصر ہے، جج سے کہتی ہے:

 ’’میں اپنے کمرہ میں رات کو سو رہی تھی۔ کوئی ایک بجے کے قریب چور چور کا غل سن کر چونک پڑی اور اپنی چارپائی کے قریب چار آدمیوں کو ہاتھا پائی کرتے ہوئے پایا۔ میرے بھائی صاحب دو چوکیداروں کے ساتھ ملزم کو پکڑے ہوئے تھے اور  وہ اپنے تئیں ان سے چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا۔ میں تیزی سے اٹھ کر برآمدے میں نکل آئی اس کے بعد میں نے چوکیداروں کو مجرم کے ساتھ پولیس اسٹیشن کی طرف جاتے دیکھا۔‘‘

اس بیا ن سے  ’’تیسرے آدمی‘‘  کو سخت چوٹ پہنچتی ہے۔ سوچتا ہے کہ یہ وہی کامنی ہے جس نے آنکھوں میں آنسو لیے کتنی بار کہا میں تمہاری ہو گئی، جب وکیل جرح کے سوالات کرتے ہوئے کامنی سے یہ پوچھتا ہے  ’’کیا تم حلفاً کہہ سکتی ہو کہ تم نے اسے محبت آمیز خطوط نہیں لکھے؟‘‘  تو کامنی کے ہوش اڑ جاتے ہیں، اس وقت روپ چند کو کچھ اطمینان ہوتا ہے۔ اس تیسرے آدمی کا چہرہ انتقام کی خوشی سے دمک اٹھتا ہے۔ سمجھتا ہے