اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی جیب سے روپیہ گر پڑے۔ ابھی تھا اور ابھی غائب۔ ڈھنڈیا پڑی مگر بس اس حد تک کہ لٹے پٹے قافلے کے آخری سرے پر ایک ہنگامہ صابن کی جھاگ کی طرح اٹھا اور بیٹھ گیا۔ ’’کہیں آ ہی رہا ہو گا۔‘‘ کسی نے کہہ دیا ’’ہزاروں کا تو قافلہ ہے‘‘ اور اختر کی ماں اس تسلی کی لاٹھی تھامے پاکستان کی طرف رینگتی چلی آئی تھی۔ ’’آہی رہا ہو گا‘‘ وہ سوچتی ’’کوئی تتلی پکڑنے نکل گیا ہو گا اور پھر ماں کو نہ پا کر رویا ہو گا اور پھر۔ پھر اب کہیں آ ہی رہا ہو گا۔ سمجھ دار ہے پانچ سال سے تو کچھ اوپر ہو چلا ہے۔ آ جائے گا وہاں پاکستان میں ذرا ٹھکانے سے بیٹھوں گی تو ڈھونڈ لوں گی۔‘‘
لیکن اختر تو سرحد سے کوئی پندرہ میل دور اُدھر یونہی بس کسی وجہ کے بغیر اتنے بڑے قافلے سے کٹ گیا تھا۔ اپنی ماں کے خیال کے مطابق اس نے تتلی کا تعاقب کیا یا کسی کھیت میں سے گنّے توڑنے گیا اور توڑتا رہ گیا۔ بہر حال وہ جب روتا چلاتا ایک طرف بھاگا جا رہا تھا تو سکھوں نے اسے گھیر لیا تھا اور اختر نے طیش میں آ کر کہا تھا ’’میں نعرۂ تکبیر ماروں گا‘‘ اور یہ کہہ کر سہم گیا تھا۔
سب سکھ بے اختیار ہنس پڑے تھے،سوائے ایک سکھ کے، جس کا نام پرمیشر سنگھ تھا۔ ڈھیلی ڈھالی پگڑی میں سے اس کے الجھے ہوئے کیس جھانک رہے تھے اور جوڑا تو بالکل ننگا تھا۔ وہ بولا ’’ہنسو نہیں یارو، اس بچے کو بھی تو اس واہ گورو نے پیدا کیا ہے جس نے تمھیں اور تمھارے بچوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘
ایک نوجوان سکھ جس نے اب تک اپنی کرپان نکال لی تھی، بولا ’’ذرا ٹھہر پرمیشر‘‘ کرپان اپنا دھرم پورا کر لے، پھر ہم اپنی دھرم کی بات کریں گے۔‘‘
’’مارو نہیں یارو‘‘ پرمیشر سنگھ کی آواز میں پکار تھی۔ اسے مارو نہیں اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔
اختر کے پاس آ کر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور بولا۔
’’نام کیا ہے تمھارا؟‘‘
’’اختر‘‘۔ ۔ ۔ اب کی اختر کی آواز بھرائی ہوئی نہیں تھی۔
’’اختر بیٹے‘‘ پرمیشر سنگھ نے بڑے پیار سے کہا۔
’’ذرا میری انگلیوں میں جھانکو تو‘‘
اختر ذرا سا جھک گیا۔ پرمیشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں میں ذرا سی جھری پیدا کی اور فوراً بند کر لی ’’آہا‘‘ اختر نے تالی بجا کر اپنے ہاتھوں کو پرمیشر سنگھ کے ہاتھوں کی طرح بند کر لیا اور آنسوؤں میں مسکرا کر بولا۔ ’’تتلی‘‘
’’لو گے؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔
’’ہاں ‘‘ اختر نے اپنے ہاتھوں کو ملا۔
’’لو‘‘ پرمیشر سنگھ نے اپنے ہاتھوں کو کھولا۔ اختر نے تتلی کو پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ راستہ پاتے ہی اڑ گئی اور اختر کی انگلیوں کی پوروں پر اپنے پروں کے رنگوں کے ذرّے چھوڑ گئی۔ اختر اداس ہو گیا اور پرمیشر سنگھ دوسرے سکھوں کی طرف دیکھ کر بولا ’’سب بچے ایک سے کیوں ہوتے ہیں یارو! کرتارے کی تتلی بھی اڑ جاتی تھی یوں ہی منھ لٹکا لیتا تھا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’پرمیشر سنگھ تو آدھا پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ نوجوان سکھ نے ناگواری سے کہا اور پھر سارا گروہ واپس جانے لگا۔
پرمیشر سنگھ نے اختر کو کنارے پر بٹھا لیا اور جب اسی طرف چلنے لگا جدھر دوسرے سکھ گئے تھے تو اختر پھڑک پھڑک کر رونے لگا ’’ہم اماں پاس جائیں گے۔ اماں پاس جائیں گے‘‘ پرمیشر سنگھ نے ہاتھ اٹھا کر اسے تھپکنے کی کوشش کی مگر اختر نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا پھر جب پرمیشر سنگھ نے اس سے یہ کہا کہ ’’ہاں ہاں بیٹے‘‘ تمھیں تمھاری اماں پاس لیے چلتا ہوں ۔ تو اختر چپ ہو گیا۔ صرف کبھی کبھی سسک لیتا تھا اور پرمیشر سنگھ کی تھپکیوں کو بڑی ناگواری سے برداشت کرتا جا رہا تھا۔
پرمیشر سنگھ اسے اپنے گھر میں لے آیا۔ پہلے یہ کسی مسلمان کا گھر تھا۔ لٹا پٹا پرمیشر سنگھ جب ضلع لاہور سے ضلع امرت سر میں آیا تھا تو گاؤں والوں نے اسے یہ مکان الاٹ کر دیا تھا وہ اپنی بیوی اور بیٹی سمیت جب اس چار دیواری میں داخل ہوا تھا، ٹھٹھک کر رہ گیا تھا۔ اس کی اتنا ذرا سا تو ہے اور اسے بھی تو اسی واہگوروجی نے پیدا کیا ہے جس نے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’پوچھ لیتے ہیں اسی سے‘‘۔ ۔ ۔ ایک اور سکھ بولا پھر اس نے سہمے ہوئے اختر کے پاس جا کر کہا۔ ۔ ۔ ’’بولو تمھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ خدا نے کہ واہگوروجی نے؟‘‘
اختر نے ساری خشکی کو نگلنے کی کوشش کی جو اس کی زبان کی نوک سے لے کر اس کی ناف تک پھیل چکی تھی،آنکھیں جھپک کر اس نے ان آنسوؤں کو گرا دینا چاہا جو ریت کی طرح اس کے پپوٹوں میں کھٹک رہے تھے۔ اس نے پرمیشر سنگھ کی طرف یوں دیکھا جیسے ماں کو دیکھ رہا ہے۔ منھ میں گئے ہوئے ایک آنسو کو تھوک ڈالا اور بولا۔ ’’پتہ نہیں ۔‘‘
’’لو اور سنو‘‘ کسی نے کہا اور اختر کو گالی دے کر ہنسنے لگا۔
اختر نے ابھی اپنی بات پوری نہیں کی تھی ، بولا۔ ۔ ۔ ’’اماں تو کہتی ہے میں بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔‘‘
سب سکھ ہنسنے لگے مگر پرمیشر سنگھ بچوں کی طرح بلبلا کر کچھ یوں رویا کہ دوسرے سکھ بھونچکا سے رہ گئے اور پرمیشر سنگھ رونی آواز میں جیسے بین کرنے لگا۔ ۔ ۔ ’’سب بچے ایک سے ہوتے ہیں یارو۔ میرا کرتار ابھی تو یہی کہتا تھا وہ بھی تو اس کی ماں کو بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔‘‘
کرپان میان میں چلی گئی۔ سکھوں نے پرمیشر سنگھ سے الگ تھوڑی دیر کھُسر پھُسر کی۔ پھر ایک سکھ آگے بڑھا۔ بلکتے ہوئے اختر کو بازو سے پکڑے وہ چپ چاپ روتے ہوئے پرمیشر سنگھ کے پاس آیا اور بولا۔ ۔ ۔ ’’لے پرمیشرے‘‘ سنبھال اسے، کیس بڑھوا کر اسے اپنا کرتارا بنا لے۔ ۔ ۔ لے پکڑ‘‘۔
پرمیشر نے اختر کو یوں جھپٹ کر اٹھا لیا کہ اس کی پگڑی کھل گئی اور کیسوں کی لٹیں لٹکنے لگیں ۔ اس نے اختر کو پاگلوں کی طرح چوما۔ اسے اپنے سینے سے بھینچا اور پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور مسکرا مسکرا کر کچھ ایسی باتیں سوچنے لگا جنھوں نے اس کے چہرے کو چمکا دیا پھر اس نے پلٹ کر دوسرے سکھوں کی طرف دیکھا۔ اچانک وہ اختر کو نیچے اتار کر سکھوں کی طرف لپکا، مگر ان کے پاس سے گزر کر دور تک بھاگا چلا گیا۔ جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں بندروں کی طرح کودتا اور چھپتا رہا اور اس کے کیس اس کی لپک جھپٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ دوسرے سکھ حیران کھڑے دیکھتے رہے، پھر وہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں رکھے بھاگتا ہوا واپس آیا۔ اس کی بھیگی ہوئی داڑھی میں پھنسے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور سرخ آنکھوں میں چمک تھی۔ آنکھیں پتھرا سی گئی تھیں اور وہ بڑی پر اسرار سرگوشی میں بولا تھا۔ ’’یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
گرنتھی جی اور گاؤں کے دوسرے لوگ ہنس پڑے تھے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی نے انھیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ کرتار سنگھ کے بچھڑتے ہی انھیں کچھ ہو گیا ہے۔ ’’جانے کیا ہو گیا ہے اسے‘‘ اس نے کہا تھا۔ واہگوروجی جھوٹ نہ بلوائیں تو وہاں دن میں کوئی دس بار تو یہ کرتار سنگھ کو گدھوں کی طرح پیٹ ڈالتا تھا۔ اور جب سے کرتار سنگھ بچھڑا ہے تو میں تو خیر رو دھو لی پر اس کا رونے سے بھی جی ہلکا نہیں ہوا۔ وہاں مجال ہے جو بیٹی امر کور کو میں ذرا بھی غصے سے دیکھ لیتی، بپھر جاتا تھا، کہتا تھا، بیٹی کو برا مت کہو۔ بیٹی بڑی مسکین ہوتی ہے۔ یہ تو ایک مسافر ہے بے چاری۔ ہمارے گھروندے میں سستانے بیٹھ گئی ہے۔ وقت آئے گا تو چلی جائے گی اور اب امر کور سے ذرا سا بھی کوئی قصور ہو جائے تو آپے ہی میں نہیں رہتا۔ یہاں تک بک دیتا ہے کہ بیٹیاں بیویاں اغوا ہوتے سنی تھیں یارو۔ یہ نہیں سنا تھا کہ پانچ برس کے بیٹے بھی اٹھ جاتے ہیں ۔‘‘
وہ ایک مہینے سے اس گھر میں مقیم تھا مگر ہر رات اس کا معمول تھا کہ پہلے سوتے میں بے تحاشا کروٹیں بدلتا پھر بڑبڑانے لگتا اور پھر اٹھ بیٹھتا۔ بڑی ڈری ہوئی سرگوشی میں بیوی سے کہتا۔ ’’سنتی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘۔ ۔ ۔ بیوی اسے محض ’’اونہہ‘‘ سے ٹال کر سو جاتی تھی مگر امر کور کو اس سرگوشی کے بعد رات بھر نیند نہ آئی۔ اسے اندھیرے میں بہت سی پرچھائیاں ہر طرف بیٹھی قرآن پڑھتی نظر آئیں اور پھر جب ذرا سی پو پھٹتی تو وہ کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔ وہاں ضلع لاہور میں ان کا گھر مسجد کے پڑوس ہی میں تھا اور جب صبح اذان ہوتی تھی تو کیسا مزا آتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے پورب سے پھوٹتا ہوا اجالا گانے لگا ہے۔ پھر جب اس کی پڑوسن پریتم کور کو چند نوجوانوں نے خراب کر کے چیتھڑے کی طرح گھورے پر پھینک دیا تھا تو جانے کیا ہوا کہ مؤذن کی اذان میں بھی اسے پریتم کور کی چیخ سنائی دے رہی تھی، اذان کا تصور تک اسے خوف زدہ کر دیتا تھا اور وہ یہ بھی بھول جاتی تھی کہ اب ان کے پڑوس میں مسجد نہیں ہے۔ یوں ہی کانوں میں انگلیاں دیتے ہوئے وہ سو جاتی اور رات بھر جاگتے رہنے کی وجہ سے دن چڑھے تک سوئی رہتی تھی اور پرمیشر سنگھ اس بات پر بگڑ جاتا۔ ۔ ۔ ’’ٹھیک ہے سوئے نہیں تو اور کیا کرے۔ نکمی تو ہوتی ہیں یہ چھوکریاں ۔ لڑکا ہو تو اب تک جانے کتنے کام کر چکا ہوتا یارو۔‘‘
پرمیشر سنگھ آنگن میں داخل ہوا تو آج خلاف معمول اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس کے کھلے کیس کنگھے سمیت اس کی پیٹھ اور ایک کندھے پر بکھرے ہوئے تھے اور اس کا ایک ہاتھ اختر کی کمر تھپکے جا رہا تھا۔ اس کی بیوی ایک طرف بیٹھی چھاج میں گندم پھٹک رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے اور وہ ٹکر ٹکر پرمیشر سنگھ کو دیکھنے لگی۔ پھر وہ چھاج پر سے کودتی ہوئی آئی اور بولی۔
’’یہ کون ہے؟‘‘
پرمیشر سنگھ بدستور مسکراتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ ’’ڈرو نہیں بیوقوف اس کی عادتیں بالکل کرتارے کی سی ہیں یہ بھی اپنی ماں کو بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔ یہ بھی تتلیوں کا عاشق ہے اس کا نام اختر ہے۔‘‘
’’اختر‘‘ بیوی کے تیور بدل گئے۔
’’تم اسے اختر سنگھ کہہ لینا‘‘ پرمیشر سنگھ نے وضاحت کی۔ ۔ ۔ ’’اور پھر کیسوں کا کیا ہے، دنوں میں بڑھ جاتے ہیں ۔ کڑا اور کچھیرا پہنا دو، کنگھا کیسوں کے بڑھتی لگ جائے گا۔‘‘
’’پر یہ ہے کس کا؟‘‘ بیوی نے مزید وضاحت چاہی۔
’’کس کا ہے!‘‘ پرمیشر سنگھ نے اختر کو کندھے پر سے اتار کر اسے زمین پر کھڑا کر دیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ واہگورو جی کا ہے ہمارا اپنا ہے اور پھر یارو یہ عورت اتنا بھی دیکھ نہیں سکتی کہ اختر کے ماتھے پر جو یہ ذرا سا تل ہے یہ کرتارے ہی کا تل ہے۔ کرتارے کے بھی تو ایک تل تھا اور یہیں تھا۔ ذرا بڑا تھا پر ہم اسے یہیں تل پر تو چومتے تھے۔ اور یہ اختر کے کانوں کی لویں گلاب کے پھول کی طرح گلابی ہیں تو یارو۔ یہ عورت یہ تک نہیں سوچتی کہ کرتارے کے کانوں کی لویں بھی تو ایسی ہی تھیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ذرا موٹی تھیں یہ ذرا پتلی ہیں اور۔ ۔ ۔ ‘‘
اختر اب تک مارے حیرت کے ضبط کیے بیٹھا تھا۔ بلبلا اٹھا۔ ۔ ۔ ’’ہم نہیں رہیں گے، ہم اماں پاس جائیں گے،اماں پاس۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے اختر کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیوی کی طرف بڑھایا۔ ۔ ۔ ’’اری لو۔ یہ اماں کے پاس جانا چاہتا ہے۔‘‘
’’تو جائے۔‘‘ بیوی کی آنکھوں میں اور چہرے پر وہی آسیب آگیا تھا جسے پرمیشر سنگھ اپنی آنکھوں اور چہرے میں سے نوچ کر باہر کھیتوں میں جھٹک آیا تھا۔ ۔ ۔ ’’ڈاکہ مارنے گیا تھا سورما۔ اور اٹھا لایا یہ ہاتھ بھر کا لونڈا۔ ارے کوئی لڑکی ہی اٹھا لاتا۔ تو ہزار میں نہ سہی، ایک دو سو میں بک جاتی۔ اس اجڑے گھر کا کھاٹ کھٹولہ بن جاتا اور پھر۔ ۔ ۔ پگلے تجھے تو کچھ ہو گیا ہے، دیکھتے نہیں یہ لڑکا مُسلّا ہے؟ جہاں سے اٹھا لائے ہو وہیں واپس ڈال آؤ۔ خبردار جو اس نے میرے چوکے میں پاؤں رکھا۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے التجا کی۔ ۔ ۔ ’’کرتارے اور اختر کو ایک ہی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے، سمجھیں ۔‘‘
’’نہیں ‘‘ اب کے بیوی چیخ اٹھی۔ ۔ ۔ ’’میں نہیں سمجھی اور نہ کچھ سمجھنا چاہتی ہوں ، میں رات ہی رات میں جھٹکا کر ڈالوں گی اس کا، کاٹ کے پھینک دوں گی۔ اٹھا لایا ہے وہاں سے، لے جا اسے پھینک دے باہر۔‘‘
’’تمھیں نہ پھینک دوں باہر؟‘‘۔ ۔ ۔ اب کے پرمیشر سنگھ بگڑ گیا۔
’’تمھارا نہ کر ڈالوں جھٹکا؟ وہ بیوی کی طرف بڑھا اور بیوی اپنے سینے کو دو ہتڑوں سے پیٹتی، چیختی، چلاتی بھاگی۔ پڑوس سے امر کور دوڑی آئی۔ اس کے پیچھے گلی کی دوسری عورتیں بھی آ گئیں ۔ مرد بھی جمع ہو گئے اور پرمیشر سنگھ کی بیوی پٹنے سے بچ گئی۔ پھر سب نے اسے سمجھایا کہ نیک کام ہے، ایک مسلمان کا سکھ بنانا کوئی معمولی کام تو نہیں ۔ پرانا زمانہ ہوتا تو اب تک پرمیشر سنگھ گرو مشہور ہو چکا ہوتا۔ بیوی کی ڈھارس بندھی مگر امر کور ایک کونے میں بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے روتی رہی۔ اچانک پرمیشر سنگھ کی گرج نے سارے ہجوم کو ہلا دیا۔ ۔ ۔ ’’اختر کدھر گیا ہے۔‘‘ وہ چڑھ گیا یارو۔ ۔ ۔ ؟اختر۔ ۔ ۔ اختر۔ ۔ ۔ !‘‘ وہ چیختا ہوا مکان کے کونوں کھدّوں میں جھانکتا ہوا باہر بھاگ گیا۔ بچے مارے دلچسپی کے اس کے تعاقب میں تھے۔ عورتیں چھتوں پر چڑھ گئی تھیں اور پرمیشر سنگھ گلیوں میں سے باہر کھیتوں میں نکل گیا تھا۔ ۔ ۔ ’’ارے میں تو اسے اماں پاس لے چلتا یارو۔ ارے وہ گیا کہاں ؟ اختر۔ ۔ ۔ ! اے اختر۔ ۔ ۔ !‘‘
’’میں تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔‘‘ پگڈنڈی کے ایک موڑ پر گیان سنگھ کے گنے کے کھیت کی آڑ میں روتے ہوئے اختر نے پرمیشر سنگھ کو ڈانٹ دیا۔ ’’تم تو سکھ ہو۔‘‘
’’ہاں بھیا میں تو سکھ ہوں ۔‘‘ پرمیشر سنگھ نے جیسے مجبور ہو کر اعتراف جرم کر لیا۔
’’تو پھر ہم نہیں آئیں گے۔‘‘ اختر نے پرانے آنسوؤں کو پونچھ کر نئے آنسوؤں کے لیے راستہ صاف کیا۔
’’نہیں آؤ گے؟‘‘ پرمیشر سنگھ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔
’’نہیں ۔‘‘
’’نہیں آؤ گے؟‘‘
’’نہیں ۔ نہیں نہیں ۔‘‘
’’کیسے نہیں آؤ گے؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے اختر کو کان سے پکڑا اور پھر نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر اس کے منہ میں چٹاخ سے ایک تھپڑ مار دیا۔ ’’چلو‘‘ وہ کڑکا۔
اختر یوں سہم گیا جیسے ایک دم اس کا سارا خون نچڑ کر رہ گیا ہے۔ پھر ایکاایکی وہ زمین پر گر کر پاؤں پٹخنے، خاک اڑانے اور بلک بلک کر رونے لگا۔ ’’نہیں چلتا، بس نہیں چلتا تم سکھ ہو، میں سکھوں کے پاس نہیں جاؤں گا۔ میں اپنی اماں پاس جاؤں گا، میں تمھیں مار دوں گا۔‘‘
اور اب جیسے پرمیشر سنگھ کے سہنے کی باری تھی۔ اس کا بھی سارا خون جیسے نچڑ کر رہ گیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ کو دانتوں میں جکڑ لیا۔ اس کے نتھنے پھڑکنے لگے اور پھر اس زور سے رویا کہ کھیت کی پرلی مینڈ پر آتے ہوئے چند پڑوسی اور ان کے بچے بھی سہم کر رہ گئے اور ٹھٹک گئے۔ پرمیشر سنگھ گھٹنوں کے بل اختر کے سامنے بیٹھ گیا۔ بچوں کی طرح یوں سسک سسک کر رونے لگا کہ اس کا نچلا ہونٹ بھی بچوں کی طرح لٹک آیا اور پھر بچوں کی سی روتی آواز میں بولا۔
’’مجھے معاف کر دے اختر، مجھے تمھارے خدا کی قسم میں تمھارا دوست ہوں ، تم اکیلے یہاں سے جاؤ گے تو تمھیں کوئی مار دے گا۔ پھر تمھاری ماں پاکستان سے آ کر مجھے مارے گی۔ میں خود جا کر تمھیں پاکستان چھوڑ آؤں گا۔ سنا؟ پھر وہاں اگر تمھیں ایک لڑکا مل جائے نا۔ کرتارا نام کا تو تم اسے ادھر گاؤں میں چھوڑ جانا۔ اچھا؟‘‘
’’اچھا!‘‘ اختر نے الٹے ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے پرمیشر سنگھ سے سودا کر لیا۔
پرمیشر سنگھ نے اختر کو کندھے پر بٹھا لیا اور چلا مگر ایک ہی قدم اٹھا کر رک گیا۔ سامنے بہت سے بچے اور پڑوسی کھڑے اس کی تمام حرکات دیکھ رہے تھے۔ ادھیڑ عمر کا ایک پڑوسی بولا۔ ۔ ۔ ’’روتے کیوں ہو پرمیشرے، کل ایک مہینے کی تو بات ہے، ایک مہینے میں اس کے کیس بڑھ آئیں گے تو بالکل کرتار ا لگے گا۔‘‘
کچھ کہے بغیر وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ پھر ایک جگہ رک کر اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آنے والے پڑوسیوں کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ’’تم کتنے ظالم لوگ ہو یارو۔ اختر کو کرتارا بناتے ہو اور ادھر اگر کوئی کرتارے کو اختر بنا لے تو؟ اسے ظالم ہی کہو گے نا۔‘‘ پھر اس کی آواز میں گرج آ گئی۔ ۔ ۔ ’’یہ لڑکا مسلمان ہی رہے گا۔ دربار صاحب کی سوں ۔ میں کل ہی امرت سر جا کر اس کے انگریزی بال بنوا لاؤں گا۔ تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے، خالصہ ہوں ، سینے میں شیر کا دل ہے، مرغی کا نہیں ۔‘‘
پرمیشر سنگھ اپنے گھر میں داخل ہو کر ابھی اپنی بیوی اور بیٹی ہی کو اختر کی مدارات کے سلسلے میں احکام ہی دے رہا تھا کہ گاؤں کا گرنتھی سردار سنتو سنگھ اندر آیا اور بولا۔
’’پرمیشر سنگھ۔‘‘
’’جی‘‘ پرمیشر سنگھ نے پلٹ کر دیکھا۔ گرنتھی جی کے پیچھے اس کے سب پڑوسی بھی تھے۔
’’دیکھو‘‘ گرنتھی جی نے بڑے دبدبے سے کہا۔ ۔ ۔ ’’کل سے یہ لڑکا خالصے کی سی پگڑی باندھے گا، کڑا پہنے گا، دھرم شالہ آئے گا اور اسے پرشاد کھلایا جائے گا۔ اس کے کیسوں کو قینچی نہیں چھوئے گی۔ چھو گئی تو کل ہی سے یہ گھر خالی کر دو سمجھے؟‘‘
’’جی‘‘ پرمیشر سنگھ نے آہستہ سے کہا۔
’’ہاں ۔‘‘ گرنتھی جی نے آخری ضرب لگائی۔
’’ایسا ہی ہو گا گر نتھی جی۔‘‘ پرمیشر سنگھ کی بیوی بولی۔ ۔ ۔ ’’پہلے ہی اسے راتوں کو گھر کے کونے کونے سے کوئی چیز قرآن پڑھتی سنائی دیتی ہے۔ لگتا ہے پہلے جنم میں مُسلّا رہ چکا ہے۔ امر کور بیٹی نے تو جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے گھر میں مُسلّا چھوکرا آیا ہے تو بیٹھی رو رہی ہے، کہتی ہے گھر پر کوئی اور آفت آئے گی۔ پرمیشرے نے آپ کا کہا نہ مانا تو میں بھی دھرم شالہ میں چلی آؤں گی اور امر کور بھی۔ پھر یہ اس چھوکرے کو چاٹے مُوا نکما، واہگورو جی کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔‘‘
’’واہگوروجی کا لحاظ کون نہیں کرتا گدھی‘‘ پرمیشر سنگھ نے گرنتھی جی کی بات کا غصہ بیوی پر نکالا۔ پھر وہ زیر لب گالیاں دیتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اٹھ کر گرنتھی جی کے پاس آگیا۔ ’’اچھا جی اچھا۔‘‘ اس نے کہا ۔ گرنتھی جی پڑوسیوں کے ساتھ فوراً رخصت ہو گئے۔
چند ہی دنوں میں اختر کو دوسرے سکھ لڑکوں سے پہچاننا دشوار ہو گیا۔ وہی کانوں کی لوؤں تک کس کر بندھی ہوئی پگڑی، وہی ہاتھ کا کڑا اور وہی کچھیرا۔ صرف جب وہ گھر میں آ کر پگڑی اتارتا تھا تو اس کے غیر سکھ ہونے کا راز کھلتا تھا۔ لیکن اس کے بال دھڑا دھڑ بڑھ رہے تھے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی ان بالوں کو چھوکر بہت خوش ہوتی۔ ۔ ۔ ’’ذرا ادھر تو آ امر کورے، یہ دیکھ کیس بن رہے ہیں ۔ پھر ایک دن جوڑا بنے گا۔ کنگھا لگے گا اور اس کا نام رکھا جائے گا کرتار سنگھ۔‘‘
’’نہیں ماں ۔‘‘ امر کور وہیں سے جواب دیتی۔ ۔ ۔ ’’جیسے واہگورو جی ایک ہیں ، اور گرنتھ صاحب ایک ہیں اور چاند ایک ہے۔ اسی طرح کرتارا بھی ایک ہے۔ میرا ننھا منا بھائی!‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی اور مچل کر کہتی۔ ۔ ۔ ’’میں اس کھلونے سے نہیں بہلوں گی ماں ، میں جانتی ہوں ماں یہ مسلا ہے اور جو کرتارا ہوتا ہے وہ مسلا نہیں ہوتا۔‘‘
’’میں کب کہتی ہوں یہ سچ مچ کا کرتارا ہے۔ میرا چاند سا لاڈلا بچہ!‘‘۔ ۔ ۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی بھی رو دیتی۔ دونوں اختر کو اکیلا چھوڑ کر کسی گوشے میں بیٹھ جاتیں ۔ خوب خوب روتیں ، ایک دوسرے کو تسلیاں دیتیں اور پھر زارزار رونے لگتیں وہ اپنے کرتارے کے لیے روتیں ، اختر چند روز اپنی ماں کے لیے رویا، اب کسی اور بات پر روتا، جب پرمیشر سنگھ شرنارتھیوں کی امدادی پنچایت سے کچھ غلّہ یا کپڑا لے کر آتا تو اختر بھاگ کر جاتا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا اور رو رو کر کہتا۔ ۔ ۔ ’’میرے سر پر پگڑی باندھ دو پرموں ۔ ۔ ۔ میرے کیس بڑھا دو۔ مجھے کنگھا خرید دو۔‘‘
پرمیشر سنگھ اسے سینے سے لگا لیتا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتا۔ ۔ ۔ ’’یہ سب ہو جائے گا بچے۔ سب کچھ ہو جائے گا پر ایک بات کبھی نہ ہو گی۔ وہ بات کبھی نہ ہو گی۔ وہ نہیں ہو گا مجھ سے سمجھے؟ یہ کیس ویس سب بڑھ آئیں گے۔‘‘
اختر اپنی ماں کو بہت کم یاد کرتا تھا۔ جب تک پرمیشر سنگھ گھر میں رہتا وہ اس سے چمٹا رہتا اور جب وہ کہیں باہر جاتا تو اختر اس کی بیوی اور امر کور کی طرف یوں دیکھتا رہتا جیسے ان سے ایک ایک پیار کی بھیک مانگ رہا ہے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی اسے نہلاتی، اس کے کپڑے دھوتی، اور پھر اس کے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے رونے لگتی اور روتی رہ جاتی۔ البتہ امر کور نے جب بھی دیکھا، ناک اچھال دی۔ شروع شروع میں تو اس نے اختر کو دھموکا بھی جڑ دیا تھا مگر جب اختر نے پرمیشر سنگھ سے اس کی شکایت کی تو پرمیشر سنگھ بپھر گیا اور امر کور کو بڑی ننگی ننگی گالیاں دیتا اس کی طرف بڑھا کہ اگر اس کی بیوی راستے میں اس کے پاؤں نہ پڑ جاتی تو وہ بیٹی کو اٹھا کر دیوار پر سے گلی میں پٹخ دیتا۔ ۔ ۔ ’’الو کی پٹھی۔‘‘ اس روز اس نے کڑک کر کہا تھا۔
’’سنا تو یہی تھا کہ لڑکیاں اٹھ رہی ہیں پر یہاں یہ مشٹنڈی ہمارے ساتھ لگی چلی آئی اور اٹھ گیا تو پانچ سال کا لڑکا جسے ابھی اچھی طرح ناک پونچھنا نہیں آتا۔ عجیب اندھیر ہے یارو۔‘‘ اس واقعے کے بعد امر کور نے اختر پر ہاتھ تو خیر کبھی نہ اٹھایا مگر اس کی نفرت دو چند ہو گئی۔
ایک روز اختر کو تیز بخار آگیا۔ پرمیشر سنگھ وید کے پاس چلا گیا اور اس کے جانے کے کچھ دیر بعد اس کی بیوی پڑوسن سے پسی ہوئی سونف مانگنے چلی گئی۔ اختر کو پیاس لگی۔
’’پانی‘‘ اس نے کہا، کچھ دیر بعد لال لال سوجی سوجی آنکھیں کھولیں ۔ ادھر ادھر دیکھا اور پانی کا لفظ ایک کراہ بن کر اس کے حلق سے نکلا۔ کچھ دیر کے بعد وہ لحاف کو ایک طرف جھٹک کر اٹھ بیٹھا۔ امر کور سامنے دہلیز پر بیٹھی کھجور کے پتوں سے چنگیر بنا رہی تھی۔ ۔ ۔ ’’پانی دے!‘‘ اختر نے اسے ڈانٹا۔ امر کور نے بھنویں سکیڑ کر اسے گھور کر دیکھا اور اپنے کام میں جٹ گئی۔ اب کے اختر چلایا۔ ۔ ۔ ’’پانی دیتی ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ پانی دے ورنہ ماروں گا‘‘۔ ۔ ۔ امر کور نے اب کے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ بولی۔ ۔ ۔ ’’مار تو سہی۔تو کرتارا نہیں کہ میں تیری مار سہہ لوں گی۔ میں تو تیری بوٹی بوٹی کر ڈالوں گی۔‘‘ اختر بلک بلک کر رو دیا۔ اور آج اس نے مدّت کے بعد اپنی اماں کو یاد کیا۔ پھر جب پرمیشر سنگھ دوا لے آیا اور اس کی بیوی بھی پسی ہوئی سونف لے کر آ گئی تو اختر نے روتے روتے بری حالت بنا لی تھی اور وہ سسک سسک کر کہہ رہا تھا۔ ’’ہم تو اب اماں پاس چلیں گے۔ یہ امر کور سور کی بچی تو پانی بھی نہیں پلاتی۔ ہم تو اماں پاس جائیں گے۔‘‘ پرمیشر سنگھ نے امر کور کی طرف غصے سے دیکھا۔ وہ رو رہی تھی اور اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ ’’کیوں پانی پلاؤں ؟ کرتارا بھی تو کہیں اسی طرح پانی مانگ رہا ہو گا کسی سے۔ کسی کو اس پر ترس نہ آئے تو ہمیں کیوں ترس آئے اس پر۔ ۔ ۔ ہاں ‘‘۔
پرمیشر سنگھ اختر کی طرف بڑھا اور اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’یہ بھی تو تمھاری ماں ہے بیٹے۔‘‘
’’نہیں ‘‘ اختر بڑے غصے سے بولا۔’’یہ تو سکھ ہے۔ میری اماں تو پانچ وقت نماز پڑھتی ہے اور بسم اللہ کہہ کر پانی پلاتی ہے۔‘‘
پرمیشر سنگھ کی بیوی جلدی سے ایک پیالہ بھر کر لائی تو اختر نے پیالے کو دیوار پر دے مارا اور چلایا۔ ’’تمھارے ہاتھ سے نہیں پئیں گے۔‘‘
’’یہ بھی تو مجھی سور کی بچی کا باپ ہے۔‘‘ امر کور نے جل کر کہا۔
’’تو ہوا کرے‘‘ اختر بولا۔ ۔ ۔ ’’تمھیں اس سے کیا۔‘‘
پرمیشر سنگھ کے چہرے پر عجیب کیفیتیں دھوپ چھاؤں سی پیدا کر گئیں ۔ وہ اختر کے مطالبے پر مسکرایا بھی اور رو بھی دیا۔ پھر اس نے اختر کو پانی پلایا۔ اس کے ماتھے کو چوما۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، اسے بستر پر لٹا کر اس کے سر کو ہولے ہولے کھجاتا رہا اور کہیں شام کو جا کر اس نے پہلو بدلا۔ اس وقت اختر کا بخار اتر چکا تھا اور وہ بڑے مزے سے سو رہا تھا۔
آج بہت عرصے کے بعد رات کو پرمیشر سنگھ بھڑک اٹھا اور نہایت آہستہ سے بولا۔
’’اری سنتی ہو؟۔ ۔ ۔ سن رہی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
بیوی نے پہلے تو اسے پرمیشر سنگھ کی پرانی عادت کہہ کر ٹالنا چاہا مگر پھر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی اور امر کور کی کھاٹ کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے ہولے ہولے ہلا کر آہستہ سے بولی۔ ۔ ۔ ’’بیٹی!‘‘
’’کیا ہے ماں ؟‘‘ امر کور چونک اٹھی۔
اور اس نے سرگوشی کی۔ ’’سنو تو۔ سچ مچ کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
یہ ایک ثانیے کا سناٹا بڑا خوف ناک تھا۔ امر کور کی چیخ اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی اور پھر اختر کی چیخ خوف ناک تر تھی۔
’’کیا ہوا بیٹا‘‘ پرمیشر سنگھ تڑپ کر اٹھا اور اختر ی کھاٹ پر جا کر اسے چھاتی سے بھینچ لیا۔ ’’ڈر گئے بیٹا۔‘‘
’’ہاں ‘‘ اختر لحاف میں سے سر نکال کر بولا۔ ’’کوئی چیز چیخی تھی۔‘‘
’’امر کور چیخی تھی‘‘ پرمیشر سنگھ نے کہا۔ ۔ ۔ ’’ہم سب یوں سمجھے جیسے کوئی چیز یہاں قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘
’’میں پڑھ رہا تھا‘‘ اختر بولا۔
اب کے بھی امر کور کے منہ سے ہلکی چیخ نکل گئی۔
بیوی نے جلدی سے چراغ جلا دیا اور امر کور کی کھاٹ پر بیٹھ کر وہ دونوں اختر کو یوں دیکھنے لگیں جیسے وہ ابھی دھواں بن کر دروازے کی جھریوں میں سے باہر اڑ جائے گا اور باہر سے ایک ڈراؤنی آواز آئے گی۔ ’’میں جن ہوں میں کل رات پھر آ کر قرآن پڑھوں گا۔‘‘
’’کیا پڑھ رہے تھے بھلا؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔
’’پڑھوں ؟‘‘ اختر نے پوچھا۔
’’ہاں ہاں ‘‘ پرمیشر سنگھ نے بڑے شوق سے کہا۔
اور اختر قُل ہو اللہ اَحَد پڑھنے لگا۔ کُفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے گریبان میں چھوکی اور پھر پرمیشر سنگھ کی طرف مسکراتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ ’’تمھارے سینے میں بھی چھو کر دوں ؟‘‘
’’ہاں ہاں ‘‘ پرمیشر سنگھ نے گریبان کا بٹن کھول دیا اور اختر نے چھو کر دی۔ اب کے امر کور نے بڑی مشکل سے چیخ پر قابو پایا۔
پرمیشر سنگھ بولا۔ ۔ ۔ ’’کیا نیند نہیں آتی تھی؟‘‘
’’ہاں ‘‘ اختر بولا۔ ۔ ۔ ’’امّاں یاد آ گئی۔ اماں کہتی ہے، نیند نہ آئے تو تین بار قُل ہو اللّٰہ پڑھو نیند آ جائے گی، اب آ رہی تھی، پر امر کور نے ڈرا دیا۔‘‘
’’پھر سے پڑھ کر سو جاؤ‘‘ پرمیشر سنگھ نے کہا۔ ۔ ۔ ’’روز پڑھا کرو۔ اونچے اونچے پڑھا کرو اسے بھولنا نہیں ورنہ تمھاری اماں تمھیں مارے گی۔ لو اب سو جاؤ۔‘‘ اس نے اختر کو لٹا کر اسے لحاف اوڑھا دیا۔ پھر چراغ بجھانے کے لیے بڑھا تو امر کور پکاری۔ ۔ ۔ ’’نہیں ، نہیں بابا۔ بجھاؤ نہیں ۔ ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’جلتا رہے، کیا ہے؟‘‘ بیوی بولی۔
اور پرمیشر سنگھ دیا بجھا کر ہنس دیا۔ ۔ ۔ ’’پگلیاں ‘‘ وہ بولا۔ ۔ ۔ ’’گدھیاں ۔‘‘
رات کے اندھیرے میں اختر آہستہ آہستہ قل ھو اللّٰہ پڑھتا رہا۔ پھر کچھ دیر بعد ذرا ذرا سے خراٹے لینے لگا۔ پرمیشر سنگھ بھی سو گیا اور اس کی بیوی بھی۔ مگر امر کور رات بھر کچی نیند میں ’’پڑوس‘‘ کی مسجد کی اذان سنتی رہی اور ڈرتی رہی۔
اب اختر کے اچھے خاصے کیس بڑھ آئے تھے۔ ننھے سے جوڑے میں کنگھا بھی اٹک جاتا تھا۔ گاؤں والوں کی طرح پرمیشر سنگھ کی بیوی بھی اسے کرتارا کہنے لگی تھی اور اس سے خاصی شفقت سے پیش آتی تھی مگر امر کور اختر کو یوں دیکھتی تھی جیسے وہ کوئی بہروپیا ہے اور ابھی وہ پگڑی اور کیس اتار کر پھینک دے گا اور قُل ہو اللّٰہ پڑھتا ہوا غائب ہو جائے گا۔
ایک دن پرمیشر سنگھ بڑی تیزی سے گھر آیا اور ہانپتے ہوئے اپنی بیوی سے پوچھا۔
’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’کون؟ امر کور؟‘‘
’’نہیں ۔‘‘
’’کرتارا؟‘‘
’’نہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘ پھر کچھ سوچ کر بولا۔ ۔ ۔ ’’ہاں ہاں وہی کرتارا۔‘‘
’’باہر کھیلنے گیا ہے۔ گلی میں ہو گا۔‘‘
پرمیشر سنگھ واپس لپکا۔ گلی میں جا کر بھاگنے لگا۔ باہر کھیتوں میں جا کر اس کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ پھر اسے دور گیان سنگھ کے گنوں کی فصل کے پاس چند بچے کبڈی کھیلتے نظر آئے۔ کھیت کی اوٹ سے اس نے دیکھا کہ اختر نے ایک لڑکے کو گھٹنوں تلے دبا رکھا ہے۔ لڑکے کے ہونٹوں سے خون پھٹ رہا ہے مگر کبڈی کبڈی کی رٹ جاری ہے۔ پھر اس لڑکے نے جیسے ہار مان لی۔ اور جب اختر کی گرفت سے چھوٹا تو بولا۔ ۔ ۔ ’’کیوں بے کرتارو! تو نے میرے منھ پر گھٹنا کیوں مارا ہے؟‘‘
’’اچھا کیا جو مارا‘‘ اختر اکڑ کر بولا اور بکھرے ہوئے جوڑے کی لٹیں سنبھال کر ان میں کنگھا پھنسانے لگا۔
’’تمھارے رسول نے تمھیں یہی سمجھایا ہے؟‘‘ لڑکے نے طنز سے پوچھا۔
اختر ایک لمحے کے لیے چکرا گیا۔ پھر سوچ کر بولا۔ ۔ ۔ ’’اور کیا تمھارے گُرو نے تمھیں یہی سمجھایا ہے؟‘‘
’’مُسلّا‘‘ لڑکے نے اسے گالی دی۔
’’سکھڑا‘‘ اختر نے اسے گالی دی۔
سب لڑکے اختر پر ٹوٹ پڑے مگر پرمیشر سنگھ کی ایک ہی کڑک سے میدان صاف تھا۔ اس نے اختر کی پگڑی باندھی اور اسے ایک طرف لے جا کر بولا۔ ۔ ۔ ’’سنو بیٹے! میرے پاس رہو گے کہ اماں کے پاس جاؤ گے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اختر کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ کچھ دیر تک پرمیشر سنگھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا پھر مسکرانے لگا اور بولا۔ ۔ ۔ ’’اماں پاس جاؤں گا۔‘‘
’’اور میرے پاس نہیں رہو گے؟‘‘
پرمیشر سنگھ کا رنگ یوں سُرخ ہو گیا جیسے وہ رو دے گا۔
’’تمھارے پاس بھی رہوں گا؟‘‘ اختر نے معمے کا حل پیش کر دیا۔ پرمیشر سنگھ نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور وہ آنسو جو مایوسی نے آنکھوں میں جمع کیے تھے، خوشی کے آنسو بن کر ٹپک پڑے۔ وہ بولا۔ ۔ ۔ ’’دیکھو بیٹے!۔ ۔ ۔ اختر بیٹے آج یہاں فوج آ رہی ہے یہ فوجی تمھیں مجھ سے چھیننے آ رہے ہیں ، سمجھے؟ تم کہیں چھپ جاؤ۔ پھر جب وہ چلے جائیں گے نا، تو میں تمھیں لے آؤں گا۔‘‘
پرمیشر سنگھ کو اس وقت دور غبار کا ایک پھیلتا ہوا بگولہ دکھائی دیا۔ مینڈ پر چڑھ کر اس نے لمبے ہوتے ہوئے بگولے کو غور سے دیکھا اور اچانک تڑپ کر بولا۔ ۔ ۔ ’’فوجیوں کی لاری آ گئی۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ مینڈ پر سے کود پڑا اور گنے کے کھیت کا پورا چکر کاٹ گیا۔
’’گیا نے، او گیان سنگھ!‘‘ وہ چلایا۔ گیان سنگھ فصل کے اندر سے نکل آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے ہاتھ میں تھوڑی سی گھاس تھی۔ ۔ ۔ پرمیشر سنگھ اسے الگ لے گیا، اسے کوئی بات سمجھائی پھر دونوں اختر کے پاس آئے۔ گیان سنگھ نے فصل میں سے ایک گنا توڑ کر درانتی سے اس کے پتے کاٹے اور اسے اختر کے حوالے کر کے بولا۔ ۔ ۔ ’’آؤ بھائی کرتارے تم میرے پاس بیٹھ کر گنا چوسو جب تک یہ فوجی چلے جائیں ۔ اچھا خاصا بنا بنایا خالصہ ہتھیانے آئے ہیں ۔ ہونہہ!‘‘۔ ۔ ۔ پرمیشر سنگھ نے اختر سے جانے کی اجازت مانگی۔ ۔ ۔ ’’جاؤں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اور اختر نے دانتوں میں گنے کا لمبا سا چھلکا جکڑے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ اجازت پا کر پرمیشر سنگھ گاؤں کی طرف بھاگ گیا۔ بگولا گاؤں کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔
گھر جا کر اس نے بیوی اور بیٹی کو سمجھایا۔ پھر بھاگم بھاگ گرنتھی جی کے پاس گیا۔ ان سے بات کر کے ادھر ادھر دوسرے لوگوں کو سمجھاتا پھیرا۔ اور جب فوجیوں کی لاری دھرم شالہ سے ادھر کھیت میں رک گئی تو سب فوجی اور پولیس والے گرنتھی جی کے پاس آئے۔ ان کے ساتھ علاقے کا نمبردار بھی تھا۔ مسلمان لڑکیوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوتی رہی۔ گرنتھی جی نے گرنتھ صاحب کی قسم کھا کر کہہ دیا کہ اس گاؤں میں کوئی مسلمان لڑکی نہیں ’’لڑکے کی بات دوسری ہے۔‘‘ کسی نے پرمیشر سنگھ کے کان میں سرگوشی کی اور آس پاس کے سکھ پرمیشر سنگھ سمیت زیر لب مسکرانے لگے۔ پھر ایک فوجی افسر نے گاؤں والوں کے سامنے ایک تقریر کی۔ اس نے مامتا پر بڑا زور دیا جو ان ماؤں کے دلوں میں ان دنوں ٹیس بن کر رہ گئی تھی جن کی بیٹیاں چھن گئی تھیں اور ان بھائیوں اور شوہروں کی پیار کی بڑی دردناک تصویر کھینچی جن کی بہنیں اور بیویاں ان سے ہتھیا لی گئی تھیں ۔ ۔ ۔ ’’اور مذہب کیا ہے دوستو۔‘‘ اس نے کہا تھا۔ ۔ ۔ ’’دنیا کا ہر مذہب انسان کو انسان بننا سکھاتا ہے اور تم مذہب کے نام لے کر انسان کو انسان سے لڑا دیتے ہو۔ ان کی آبرو پر ناچتے ہو اور کہتے ہو ہم سکھ ہیں ، ہم مسلمان ہیں ۔ ۔ ۔ ہم واہگورو جی کے چیلے ہیں ، ہم رسول کے غلام ہیں ۔‘‘
تقریر کے بعد مجمع چھٹنے لگا۔ فوجیوں کے افسر نے گرنتھی جی کا شکریہ ادا کیا۔ ان سے ہاتھ ملایا اور لاری چلی گئی۔
سب سے پہلے گرنتھی جی نے پرمیشر سنگھ کو مبارک باد دی۔ پھر دوسرے لوگوں نے پرمیشر سنگھ کو گھیر لیا اور اسے مبارک باد دینے لگے لیکن پرمیشر سنگھ لاری آنے سے پہلے حواس باختہ ہو رہا تھا تو اب لاری جانے کے بعد لُٹا لُٹا سا لگ رہا تھا۔ پھر وہ گاؤں سے نکل کر گیان سنگھ کے کھیت میں آیا۔ اختر کو کندھے پر بٹھا کر گھر میں لے آیا۔ کھانا کھلانے کے بعد اسے کھاٹ پر لٹا کر کچھ یوں تھپکا کہ اسے نیند آ گئی۔ پرمیشر سنگھ دیر تک کھاٹ پر بیٹھا رہا۔ کبھی داڑھی کھجاتا اور ادھر ادھر دیکھ کر پھر سوچ میں بیٹھ جاتا۔ پڑوس کی چھت پر کھیلتا ہوا ایک بچہ اچانک اپنی ایڑی پکڑ کر بیٹھ گیا اور زار زار رونے لگا۔ ’’ہائے اتنا بڑا کانٹا اتر گیا پورے کا پورا۔‘‘ وہ چلایا اور پھر اس کی ماں ننگے سر اوپر بھاگی۔ اسے گود میں بٹھا لیا پھر نیچے بیٹی کو پکار کر سوئی منگوائی۔ کانٹا نکالنے کے بعد اسے بے تحاشا چوما اور پھر نیچے جھک کر پکاری۔ ۔ ۔ ’’ارے میرا دوپٹہ تو اوپر پھینک دینا۔ کیسی بے حیائی سے اوپر بھاگی چلی آئی۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے کچھ دیر بعد چونک کر بیوی سے پوچھا۔
’’سنو کیا تمھیں کرتارا اب بھی یاد آتا ہے۔‘‘
’’لو اور سنو‘‘ بیوی بولی اور پھر ایک دم چھاجوں رو دی۔ ۔ ۔ ’’کرتارا تو میرے کلیجے کا ناسور بن گیا ہے پرمیشرے!‘‘
کرتارے کا نام سن کر ادھر سے امر کور اٹھ کر آئی اور روتی ہوئی ماں کے گھٹنے کے پاس بیٹھ کر رونے لگی۔
پرمیشر سنگھ یوں بدک کر جلدی سے اٹھ بیٹھا جیسے اس نے شیشے کے برتنوں سے بھرا ہوا طشت اچانک زمین پر دے مارا ہو۔
شام کے کھانے کے بعد وہ اختر کو انگلی سے پکڑے باہر دالان میں آیا اور بولا۔ ’’آج تو دن بھر خوب سوئے ہو بیٹا۔ چلو آج ذرا گھومنے چلتے ہیں ۔ چاندنی رات ہے۔‘‘
اختر فوراً مان گیا۔ پرمیشر سنگھ نے اسے کمبل میں لپیٹا اور کندھے پر بٹھا لیا۔ کھیتوں میں آ کر وہ بولا۔ ’’یہ چاند جو پورب سے نکل رہا ہے نا بیٹے، جب یہ ہمارے سر پر پہنچے گا تو صبح ہو جائے گی۔‘‘
اختر چاند کی طرف دیکھنے لگا۔
’’یہ چاند جو یہاں چمک رہا ہے نا۔ یہ وہاں بھی چمک رہا ہو گا۔ تمھاری اماں کے دیس میں ۔‘‘
اب کے اختر نے جھک کر پرمیشر سنگھ کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔
’’یہ چاند ہمارے سر پر آئے گا تو وہاں تمھاری اماں کے سر پر بھی ہو گا۔‘‘
اب کے اختر بولا ’’ہم چاند دیکھ رہے ہیں تو کیا اماں بھی چاند کو دیکھ رہی ہو گی؟‘‘
’’ہاں پرمیشر سنگھ کی آواز میں گونج تھی۔ ۔ ۔ ’’چلو گے اماں کے پاس؟‘‘
’’ہاں ‘‘ اختر بولا۔ ۔ ۔ ’’پر تم جاتے نہیں ، تم بہت برے ہو، تم سکھ ہو۔‘‘
پرمیشر سنگھ بولا۔ ۔ ۔ ’’نہیں بیٹے، آج تو تمھیں ضرور ہی لے جاؤں گا۔ تمھاری اماں کی چٹھی آئی ہے۔ وہ کہتی ہے میں اختر بیٹے کے لیے اداس ہوں ۔‘‘
’’میں بھی تو اداس ہوں ۔‘‘ اختر کو جیسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی۔
’’میں تمھیں تمھاری اماں ہی کے پاس لیے جا رہا ہوں ۔‘‘
’’سچ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اختر پرمیشر سنگھ کے کندھے پر کودنے لگا اور زور زور سے بولنے لگا۔ ۔ ۔ ’’ہم اماں پاس جا رہے ہیں ۔ پر موں ہمیں اماں پاس لے جائے گا۔ ہم وہاں سے پرموں کو چٹھی لکھیں گے۔‘‘
پرمیشر سنگھ چپ چاپ روئے جا رہا تھا۔ آنسو پونچھ کر اور گلا صاف کر کے اس نے اختر سے پوچھا۔
’’گانا سنو گے؟‘‘
’’ہاں ‘‘
’’پہلے تم قرآن سناؤ۔‘‘
’’اچھا‘‘ اور اختر قُل ہو اللّٰہ پڑھنے لگا، کفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے سینے پر چھو،کی اور بولا۔ ۔ ۔ ’’لاؤ تمھارے سینے پر بھی چھو، کر دوں ۔‘‘
رک کر پرمیشر سنگھ نے گریبان کا ایک بٹن کھولا اور اوپر دیکھا۔ اختر نے لٹک کر اس کے سینے پر چھوٗ کر دی اور بولا۔ ۔ ۔ ’’اب تم سناؤ۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے اختر کو دوسرے کندھے پر بٹھا لیا۔ اسے بچوں کا کوئی گیت یاد نہیں تھا۔ اس لیے اس نے قسم قسم کے گیت گانا شروع کیے اور گاتے ہوئے تیز تیز چلنے لگا۔ اختر چپ چاپ سنتا رہا۔
بنتو داس سر بن ورگا جے
بنتو دا منہ ورگا جے
بنتو دالک چترا جے
لوکو
بنتو دا لک چترا
’’بنتو کون ہے؟‘‘ اختر نے پرمیشر سنگھ کو ٹوکا۔
پرمیشر سنگھ ہنسا پھر ذرا وقفے کے بعد بولا۔ ۔ ۔ ’’میری بیوی ہے نا۔ امر کور کی ماں ۔ اس کا نام بنتو ہے۔ امر کور کا نام بھی بنتو ہے۔ تمھاری اماں کا نام بھی بنتو ہی ہو گا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘ اختر خفا ہو گیا۔ ۔ ۔ ’’وہ کوئی سکھ ہے؟‘‘
پرمیشر سنگھ خاموش ہو گیا۔
چاند بہت بلند ہو گیا تھا۔ رات خاموش تھی، کبھی کبھی گنے کے کھیتوں کے آس پاس گیدڑ روتے اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ اختر پہلے تو گیدڑوں کی آواز سے بہت ڈرا، مگر پرمیشر سنگھ کے سمجھانے سے بہل گیا اور ایک بار خاموشی کے طویل وقفے کے بعد اس نے پرمیشر سنگھ سے پوچھا۔ ۔ ۔ ’’اب کیوں نہیں روتے گیدڑ؟‘‘ پرمیشر سنگھ ہنس دیا۔ پھر اسے ایک کہانی یاد آ گئی ۔ یہ گُرو گوبند سنگھ کی کہانی تھی۔ لیکن اس نے بڑے سلیقے سے سکھوں کے ناموں کو مسلمانوں کے ناموں میں بدل دیا اور اختر ’’پھر؟پھر؟‘‘ کی رٹ لگاتا رہا اور کہانی ابھی جاری تھی، جب اختر ایک دم بولا۔ ’’ارے چاند تو سر پر آگیا!‘‘
پرمیشر سنگھ نے بھی رک کر اوپر دیکھا۔ پھر وہ قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر دور دیکھنے لگا اور بولا۔ ۔ ۔ ’’تمھاری اماں کا دیس جانے کدھر چلا گیا۔‘‘
وہ کچھ دیر ٹیلے پر کھڑا رہا۔ جب اچانک کہیں دور سے اذان کی آواز آنے لگی اور اختر مارے خوشی کے یوں کودا کہ پرمیشر سنگھ اسے بڑی مشکل سے سنبھال سکا۔ اسے کندھے پر سے اتار کر وہ زمین پر بیٹھ گیا اور کھڑے ہوئے اختر کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ۔ ۔ جاؤ بیٹے، تمھیں تمھاری اماں نے پکارا ہے۔ بس تم اس آواز کی سیدھ میں ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’شش!‘‘ اختر نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور سرگوشی میں بولا۔
’’اذان کے وقت نہیں بولتے۔‘‘
’’پر میں تو سکھ ہوں بیٹے!‘‘ پرمیشر سنگھ بولا۔
’’شش‘‘ اب کے اختر نے بگڑ کر اسے گھورا۔
اور پرمیشر سنگھ نے اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس کے ماتھے پر ایک بہت طویل پیار دیا اور اذان ختم ہونے کے بعد آستینوں سے آنکھیں رگڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’میں یہاں سے آگے نہیں آؤں گا۔ بس تم۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کیوں ۔ ۔ ۔ ؟ کیوں نہیں آؤ گے۔ ۔ ۔ ؟ اختر نے پوچھا۔
’’تمھاری اماں نے چٹھی میں یہی لکھا ہے کہ اختر اکیلا آئے۔‘‘
پرمیشر سنگھ نے اختر کو پھسلایا۔ ۔ ۔ ’’بس تم سیدھے چلے جاؤ۔ سامنے ایک گاؤں آئے گا۔ وہاں جا کر اپنا نام بتانا کرتارا نہیں اختر، پھر اپنی ماں کا نام بتانا۔ اپنے گاؤں کا نام بتانا اور دیکھو، مجھے ایک چٹھی ضرور لکھنا۔‘‘
’’لکھوں گا‘‘ اختر نے وعدہ کیا۔
’’اور ہاں تمھیں کرتارا نام کا کوئی لڑکا ملے نا، تو اسے ادھر بھیج دینا۔‘‘
’’اچھا‘‘ پرمیشر سنگھ نے ایک بار پھر اختر کا ماتھا چوما اور جیسے کچھ نگل کر بولا۔
’’جاؤ!‘‘
اختر چند قدم چلا مگر پلٹ آیا۔ ۔ ۔ ’’تم بھی آ جاؤ نا۔‘‘
’’نہیں بھئی!‘‘ پرمیشر سنگھ نے اسے سمجھایا۔ ۔ ۔ ’’تمھاری اماں نے چٹھی میں یہ نہیں لکھا۔‘‘
’’مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ اختر بولا۔
’’قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے مشورہ دیا۔
’’اچھا‘‘ بات سمجھ میں آ گئی اور وہ قُل ہو اللّٰہ کا ورد کرتا ہوا جانے لگا۔
نرم نرم پو افق کے دائرے پر اندھیرے سے لڑ رہی تھی اور ننھا سا اختر دور دھندلی پگڈنڈی پر ایک لمبے تڑنگے سکھ جوان کی طرح تیز تیز جا رہا تھا۔ پرمیشر سنگھ اس پر نظریں گاڑے ٹیلے پر بیٹھا رہا اور جب اختر کا نقطہ فضا کا ایک حصہ بن گیا تو وہاں سے اتر آیا۔
اختر ابھی گاؤں کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ دو سپاہی لپک کر آئے اور اسے روک کر بولے۔ ’’کون ہو تم؟‘‘
’’اختر۔‘‘
وہ یوں بولا جیسے ساری دنیا اس کا نام جانتی ہے۔
’’اختر!‘‘ دونوں سپاہی کبھی اختر کے چہرے کو دیکھتے اور کبھی اس کی سکھوں کی سی پگڑی کو۔ پھر ایک نے آگے بڑھ کر اس کی پگڑی جھٹکے سے اتار لی تو اختر کے کیس کھل کر ادھر ادھر بکھر گئے۔
اختر نے بھنا کر پگڑی چھین لی اور پھر ایک ہاتھ سے سر کو ٹٹولتے ہوئے وہ زمین پر لیٹ گیا اور زور زور سے روتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ ’’میرا کنگھا لاؤ۔ تم نے میرا کنگھا لے لیا ہے۔ دے دو ورنہ میں تمھیں ماروں گا۔‘‘
ایک دم دونوں سپاہی دھپ سے زمین پر گرے اور رائفل کو کندھوں سے لگا کر جیسے نشانہ باندھنے لگے۔
’’ہالٹ۔‘‘
ایک پکارا جیسے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ پھر بڑھتے ہوئے اجالے میں انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ایک نے فائر کر دیا۔ اختر فائر کی آواز سے دہل کر رہ گیا اور سپاہیوں کو ایک طرف بھاگتا دیکھ کر وہ بھی روتا چلاتا ہوا ان کے پیچھے بھاگا۔
سپاہی جب ایک جگہ جا کر رُکے تو پرمیشر سنگھ اپنی ران پر کس کر پٹی باندھ چکا تھا مگر خون اس کی پگڑی کی سیکڑوں پرتوں میں سے بھی پھوٹ آیا۔ اور وہ کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ’’مجھے کیوں مارا تم نے، میں تو اختر کے کیس کاٹنا بھول گیا تھا؟ میں اختر کو اس کا دھرم واپس دینے آیا تھا یارو۔‘‘
اور اختر بھاگا آ رہا تھا اور اس کے کیس ہوا میں اڑ رہے تھے۔