02:59    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

امیر مینائی کی شاعری

1264 0 0 00

یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے

جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے

ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے

ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے

کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار

اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے

واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں

منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے

آنکھوں کے نیچے پھِرتی ہے تصویر یار کی

پُتلی سی اک بندھی ہوئی تارِ نظر میں ہے

کرتے ہیں اس طریق سے طے ہم رہِ سلوک

سر اس کے آستاں پہ، قدم رہگزر میں ہے

پہلو میں میرے دل کو نہ، اے درد! کر تلاش

مدت ہوئی تباہی کا مارا سفر میں ہے

تُلسی کی کیا بہار ہے دندانِ یار پر

سوسن کا پھول چشمۂ آبِ گہر میں ہے

ہو دردِ عشق ایک جگہ تو دوا کروں

دل میں، جگر میں، سینے میں، پہلو میں، سر میں ہے

صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں

اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے

قاصد کو ہاتھ داغ کے بھیجا ہے یار نے

خاکی نئی رسید کفِ نامہ بر میں ہے

تیرِ قضا کو ناز ہے کیا اپنے توڑ پر

اتنا اثر تو یار کی سیدھی نظر میں ہے

تم جاؤ تیغ باندھ کے پھر سیر دیکھ لو

میرے گلے پہ ہے کہ تمھاری کمر میں ہے

ساقی مئے طہور میں کیفیّتیں سہی

پر وہ مزا کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔