02:55    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

جاوید قریشی کا تعارف

( 1936-2014 )

بقلم اثر چوہان، روزنامہ نوائے وقت (2014)

سینئربیورو کریٹ، مُنفرد شاعر، ادیب، دانشور ، مُصنّف اور ایک بہت ہی مُخلص انسان جاوید احمد قریشی بھی۔’’ اللہ کو پیارے ہو گئے‘‘۔قریشی صاحب جب تک اِس دارِ فانی میں رہے، اُس وقت بھی ۔’’ اللہ کو بہت پیارے تھے کیونکہ وہ اللہ کے بندوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ جناب جاوید احمد قریشی کی وفات اُن کے دوستوں خاص طور پر اُن کی بیوہ ، دونوں بیٹوں، جواد احمد قریشی اور حماد احمد قریشی اور دونوں بیٹیوں کے لئے بہت ہی دِلخراش ہے اور میرے لئے بھی۔ میری قریشی صاحب سے پہلی ملاقات 1965 ء میں پاک بھارت جنگ کے دَوران ہوئی۔ قریشی صاحب سرگودھا میںمجسٹریٹ تھے اور سِول ڈیفنس کے انچارج ۔ اُن کے فرائض میں فضائیہ اور برّی فوج سے تعاون تھا۔ جنگ ختم ہُوئی تو لاہور، سیالکوٹ اور سرگودہا کو۔ ’’ہلالِ استقلال‘‘ سے نوازا گیا اور جناب جاوید احمد قریشی کو۔’’تمغۂ قائد ِ اعظمؒ ‘‘سے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو انہوں نے تمام سرکاری ملازمین سے اعزازات واپس لے لئے تھے۔ جاوید قریشی صاحب سے بھی۔

 

تقریباً چار سال قبل جناب مجید نظامی صاحب کی اہلیہ محترمہ ریحانہ نظامی صاحبہ کے انتقال پر جنابِ نظامی کے گھر قریشی صاحب سے ملاقات ہُوئی۔ اُس کے بعد کئی بار ٹیلی فون پر بات ہُوئی۔جنوری 2014 ء کے اوائل میں’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘کے سیکرٹری شاہد رشید مُجھے ملاقات کے لئے قریشی صاحب کے گھر لے گئے۔ 21 فروری کو’’ نوائے وقت‘‘ میں خبر شائع ہُوئی کہ ’’ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے اثر چوہان کو مِلی نغمہ لکِھنے پر’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا ہے‘‘۔ اگلے روز جناب جاوید احمد قریشی نے ٹیلی فون پر مُجھے مُبارکباد دی۔ قریشی صاحب خود بہت بڑے شاعر تھے۔ اُن کی ایک غزل ملکۂ ترنم نورجہاں نے گائی تو وہ غزل بھی زندہ و جاویدؔ ہو گئی۔ غزل کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔

’’ آشیانے کی بات کرتے ہو!

دِل جلانے کی بات کرتے ہو ؟

ساری دُنیا کے رنج و غم دے کر

مسکرانے کی بات کرتے ہو ؟ ‘‘

جناب جاوید احمدقریشی نے محض آشیانے اور دِل جلانے کے حوالے سے ہی شاعری نہیں کی بلکہ قومی جذبوں کی شاعری بھی کی۔ وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے بعد جب وہ دوبارہ انتخابات کرانے پر راضی ہُوگئے تو جناب جاوید احمد قریشی نے کہا کہ۔۔۔

کِتنے لال لہو میں ڈُوبے کِتنے گھر بے نُور ہُوئے

تب کہیں جا کر تنے ہُوئے سر جُھکنے پر مجبور ہُوئے

اور جب جنرل ضیاء اُلحق کے مارشل لاء نے پاکستان کو اندھیروں میں گُم کرنے کا پروگرام طویل کر دِیا تو جناب جاوید احمد قریشی نے پاکستانی قوم کو روشن مستقبل کی اُمید دِلاتے ہوئے کہا۔۔۔

ہُوئے غروب جو ہم آج کل طُلوع ہونگے

ہمارے نام کے چرچے چہار سُو ہوں گے

قسم ہمیں تری محرومیوں کی خاکِ وطن !

بہم تجھے وہی سامانِ رنگ و بُو ہوں گے !

جناب جاوید احمد قریشی کا جب بھی کسی نئے شہر یا نئی پوسٹ پر تبادلہ ہوتا تو مَیں اُن سے ایک بار ضرور مِلتا۔ قریشی صاحب ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھے تو مَیں اُن سے دوبار مِلنے لاہور سے ساہیوال گیا۔ پہلی بار وہ مجھے گوگیرہ میں1857ء کی جنگِ آزادی کے ہِیرو ’’ رائے احمد خان کھرل شہید کے نام سے منسُوب’’ رائے احمد خان کھرل ہائی سکول‘‘ کی تقریب میں لے گئے۔ وہاں میری مادرِِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کے ایک جانباز سپاہی رائے میاں خان کھرل سے ملاقات ہُوئی جِن سے مَیں پہلے بھی سرگودھا میں تحریکِ پاکستان کے کارکن اور مسلم لیگ کے ایم ایل اے قاضی مُرید احمد(مرحوم) کے گھر ملاقات کر چُکا تھا۔ رائے میاں خان(مرحوم) کئی بار رُکن پنجاب اسمبلی بھی منتخب ہُوئے ۔مَیں دوسری بار 1971 ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران ساہیوال گیاتو جب قریشی صاحبٗ کنٹرولر سِول ڈیفنس کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔1971 ء کی جنگ کے دَوران نمایاں خدمات انجام دینے پر پنجاب میں 9 تمغہ ہائے شُجاعت دیئے گئے تھے۔ جِن میں سے 8 ساہیوال کو مِلے تھے۔

سیکرٹری وزارتِ اطلاعات پنجاب کی حیثیت سے جناب جاوید احمد قریشی بہت رش لینے لگے تھے۔وہ شاعروں ادیبوں اور صحافیوں سے بہت محبت کرتے تھے اور جب کمشنر فیصل آباد مقرر ہُوئے تو وہاںبھی اُن کا یہی سلوک رہا۔ قریشی صاحب سے ملاقات کے لئے جب مَیں کمشنر آفس پہنچا تو وہ جلدی میں تھے اور مجھ سے کہا کہ ’’اپنی گاڑی یہی چھوڑ دیں اور میرے ساتھ ٹوبہ ٹیک سنگھ چلیں ‘‘۔ فیصل آباد سے ٹوبہ ٹیک سنگھ تک راستے میں مَیں نے اُن سے تازہ کلام سُنانے کی فرمائش کی تو کہنے لگے کہ ایک شرط پر!۔مَیں نے پوچھا وہ کیا؟ تو بولے۔ ’’ اِس کے بعد آپ مجھے اپنا کلام نہیں بلکہ بابا بُلّھے شاہؒ کا کلام سُنائیں گے‘ بابا بُلّھے شاہ ’’ ملامتی صُوفی‘‘ تھے۔ لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہماری مہمان نوازی ’’ عِلامتی صُوفی‘‘(بارِیش) ڈپٹی کمشنر سیّد آل نے کی۔ پہلی بار مَیں23 مارچ1970 ء کو نیشنل عوامی پارٹی کے زیرِ اہتمام منعقدہ ’’کسان کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ گیا تھااور جب کانفرنس میں ’’ بھٹو بھاشانی بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تو مولانا عبدالحمید بھاشانی (مرحوم) نے کہا تھا’’ میرے بھائیو! اور عزیزو! بھٹو ایک جاگیر دار ہے اور بھاشانی ایک کسان یاد رکھو! جاگیردار اور کسان کبھی بھائی بھائی نہیں ہو سکتے اور نہ کارخانہ دار اور مزدور۔

جناب جاوید احمد قریشی شاعری کو’’ لت‘‘(بُری عادت) کہتے تھے ایک بار کہنے لگے کہ’’ مَیں اپنی شعر و شاعری کی لتؔ کو دوسروں سے چُھپا کر رکھتا تھا لیکن جب بڑے بھائی(کمانڈر نسیم احمد قریشی) نے حوصلہ افزائی کی تو مَیں سامنے آگیا‘‘جناب جاوید احمد قریشی کو کالم لکِھنے کی’’ لتؔ‘‘کب پڑی؟ ڈاکٹر مجید نظامی ہی بتا سکتے ہیں ۔ جناب جاوید احمد قریشی چیف سیکرٹری پنجاب تھے جب جولائی 1995 ء میں میرے کالموں کا پہلا انتخاب’’ سیاست نامہ ‘‘ اوّل شائع ہُوا۔ قریشی صاحب نے میری کتاب کے پیش لفظ میں میری کالم نویسی کی تعریف کرتے ہُوئے یہ بھی لکِھا کہ اِس کتاب کی اشاعت سے اثر چوہان صاحب کا حلقۂ اثر اور بڑھے گا اور اِن کی’’ شُہرت یا رُسوائی‘‘ میں بھی اضافہ ہو گا۔ جناب جاوید احمد قریشی کی عالمِ جاودانی کو روانگی سے مجھے کسی فارسی شاعر کا یہ مِصرع یاد آگیا ہے کہ جِس نے مجنوںؔ کی صحرا کو روانگی کے بعدٗ خُود کے کُوچوں میں رُسوا ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ۔۔۔

اُوبصحرا رفت و مَن در کُوچہ ہا رُسوا شُدیم! ‘‘

یعنی وہ(میرا دوست مجنوں) تو صحر(عالمِ جاودانی)کو چلا گیا اور مَیںکُوچوں(دارِفانی) میں رُسوا ہو رہا ہوں۔

جاوید قریشی کی شاعری

جاوید قریشی کا مجموعہ کلام

ہم معذرت خواہ ہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔