نئی نسل کے صاحبِ قلم نقاد
حقانی القاسمی اور ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
کے لیے
جن کی سچی چاندی کی مانند ادبی تنقید پسند کرنے والوں کا حلقہ انشاء اللہ تیزی سے بڑھتا ہی جائے گا! بڑی بات یہ ہے کہ دونوں کی پہچان بین الاقوامی سطح پر ہونے لگی ہے۔
اور
اپنے دو پیارے شاگردوں
پروفیسر نذیر احمد ملک اور پروفیسر عبد المجید مضمر
کے لیے
جنھوں نے میرے بعد شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی
کے وقار کو صرف قائم ہی نہ رکھا بلکہ اسے بلند بھی کیا!
---- بابا سائیں
اُس کے فروغِ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شامِ حرم ہو یا کہ دیا سومناتھ کا
---- میر تقی میرؔ
رابندرناتھ ٹیگور نے تحریر کیا ہے کہ شاہِ جہاں کے آنسوؤں کا ایک قطرہ تاج محل میں تبدیل ہو گیا!
جب ضعیف شاہِ جہاں نے اپنے چہیتے بیٹے دارا شکوہ کے کٹے ہوئے سر کو اپنے سامنے طشت میں دیکھا تو کون جانے اس کی آنکھوں سے لہو کا جو قطرہ ٹپکا وہی لہو کا سیلاب بن گیا اور اس سیلاب نے سلطنتِ مغلیہ کے خوبصورت نظام کا وجود ہی ختم کر دیا ہو!‘‘
یہ واقعہ اگست ۱۶۵۹ء کا ہے، محمد دار اشکوہ کی عمر اُس وقت صرف ۴۴ سال تھی۔
محمد دارا شکوہ کی پیدائش کی تاریخ ۲۰؍مارچ ۱۶۱۵ء ہے۔ ۳۰؍اگست ۱۶۵۹ء کو اُسے قتل کر دیا گیا۔ کٹا ہوا سر شاہِ جہاں کے سامنے رکھا گیا اور دھڑ کو مقبرۂ ہمایوں میں دفن کر دیا گیا، کہاں؟ کسی کو معلوم نہیں، کوئی نہیں جانتا دار اشکوہ کو مقبرۂ ہمایوں میں کہاں دفن کیا گیا ہے۔
شاہِ جہاں کی دو بیٹیاں تھیں حور الانسا بیگم اور جہاں آرا بیگم (دارا شکوہ نے تین بہنوں کا ذکر کیا ہے) ایک بیٹے کی آرزو لیے شہنشاہ درگاہِ عالیہ حضرت غریب نواز خواجہ معین الدین چشتیؒ پہنچا اور اللہ پاک کے رحم و کرم کی بھیک مانگی، دعا قبول ہوئی۔ ۳۰؍مارچ ۱۶۱۵ء (سوموار کی شب، ۲۹؍صفر ۱۰۲۴ھ) کی پیاری خوبصورت شب تھی۔ بیگم ممتاز محل نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ شہزادہ خرم (شاہِ جہاں) اور بیگم ممتاز محل کی مسرتوں میں اضافہ ہوا۔ شہنشاہ جہانگیر نے ننھے خوبصورت فرشتے کا نام رکھا دارا شکوہ! ابوطالب کلیم نے قصیدہ کہا ’’گل اوّلین شاہی‘‘ سے تاریخ نکالی یعنی باغِ شاہی کا پہلا پھول!
بگوش دل از بحرِ تاریخ آمد
گل اوّلین گلستانِ شاہی
شہزادہ دارا شکوہ نے اپنی کتاب ’سفینتہ الاولیا‘ میں اپنی پیدائش کے تعلق سے لکھا ہے کہ اس فقیر نے اجمیر شریف کے قریب ساگر تال جھیل کے قریب جنم لیا۔ صفر کے مہینے کا آخری وقت تھا۔ ۱۰۲۴ھ کا سال، سوموار کی درمیانی شب۔ میرے والد کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹے کی آرزو تھی۔ میرے والد کی عمر ۲۴ سال تھی، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے گہری عقیدت رکھتے تھے، لہٰذا درگاہِ عالیہ پر حاضر ہوئے، دعا کی۔ اللہ پاک کے کرم سے میری پیدائش ہوئی۔ اس غلام کی پیدائش ایک بڑی خواہش کی حقیقت میں تبدیلی تھی۔ میرے والد نے اللہ پاک سے دعا کی کہ خدا اس کو عزت بخشے، وہ عمر بھر نیک کام کرے۔ اُسے لوگوں کی محبتیں حاصل ہوں۔ کون جانے اجمیر شریف میں دارا شکوہ کی پیدائش کا کرشمہ ہی ہو کہ وہ عمر بھر ایک صوفیانہ ذہن اور طرزِ عمل کے ساتھ زندہ رہا۔
دارا شکوہ کی ابتدائی زندگی اور اس کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے خبر کم ہے۔ مغل تاریخ دانوں اور دستاویزات مرتب کرنے والوں نے سیاسی واقعات اور سیاسی معاملات میں دارا شکوہ کی شمولیت سے زیادہ دلچسپی لی ہے۔ شاہِ جہاں نے چونکہ اسے ہمیشہ بہت عزیز رکھا اس لیے توقع ہے کہ اس کی بہتر تعلیم و تربیت کا خوب خیال رکھا گیا ہو گا۔ ابتدا میں اُس دور کے دو بڑے علماء مُلّاعبد اللطیف اور شیخ میرک سے تعلیم حاصل کی۔ دارا شکوہ نے اپنی تصنیف ’سکینتہ الاولیا‘ میں اپنے استاد شیخ میرک کا ذکر کیا ہے۔ وہ اپنے استاد کی شخصیت اور اُن کے علم اور حقائق پر ان کی گہری نظر سے بہت متاثر تھا۔ حضرت شیخ نے اپنے شاگرد کو زندگی کی عمدہ اور اعلیٰ قدروں سے آشنا کیا۔ صرف یہی نہیں دارا شکوہ کی عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی حضرت شیخ میرک کی صحبت میں اس کا ’وِژن‘ بھی کشادہ ہوتا گیا۔ شیخ میرک عربی، فارسی زبانوں کے بڑے عالم تھے۔ تفسیر پر بھی اُن کی نظر گہری تھی، لہٰذا بہت کم عمر میں دارا شکوہ نے عربی اور فارسی زبانوں پر قدرت حاصل کر لی۔ عمر بڑھی تو فارسی زبان میں شاعری بھی کرنے لگا اور پھر دیوان مرتب ہو گیا۔ اس کی تصانیف فارسی زبان میں ہیں۔ مثلاً ’سفینۃ الاولیا‘، ’سکینۃ الاولیا‘، ’حسنات العارفین‘، ’مجمع البحرین‘ وغیرہ۔ ’
’سرِّاکبر‘ (۱۶۵۷ئ) میں باون اُپنشدوں کے ترجمے ہیں جو اُس دور کے بعض برہمن عالموں کی مدد سے کیے گئے ہیں۔ ’لگھو یوگ وسست (Laghu Yoga Vasistha) (۵۷-۱۶۵۶ء) یوگ اور صوفیانہ تجربوں کی ایک بہت قیمتی تحریر سمجھی جاتی ہے۔ دارا شکوہ کہ جس کی گہری دلچسپی تصوف اور صوفیانہ خیالات و افکار سے تھی ’یوگ وسست‘ کے خیالات سے باخبر ہوا تو نظامی پانی پتی کے فارسی ترجمے کو پڑھا۔ اس فارسی ترجمے کا مطالعہ کرتے ہوئے اس نے نوٹس تیار کیے، صوفیانہ خیالات اور ’یوگ وسست‘ کی یکسانیت کی جانب بھی اشارے کیے، تکنیکی اصطلاحوں پر غور کیا، ان کی وضاحت بھی کی۔ اُن کا خیال تھا کہ ’یوگ وسست‘ کے خیالات کی نزاکت اور لطافت کا خیال کم رکھا گیا ہے ساتھ ہی سنسکرت زبان کی بعض اہم اصطلاحوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ۱۶۵۶ء میں اس نے فارسی ترجمے کا حکم صادر کیا، ترجمہ کس نے کیا معلوم نہیں۔ کہا جاتا ہے کبھی کسی زمانے میں ایک رِشتی تھے وسست (Vasistha)، کسی راجکمار رام چندر کے گرو تھے، راجکمار ہی کے لیے یہ کتاب لکھی تھی تاکہ راجکمار کو ہندوستانی یوگ اور قدیم صوفیانہ تجربوں کی بہتر خبر مل سکے۔ شہزادہ دارا شکوہ نے ’یوگ وسست‘ کے فارسی ترجمے کے حکم سے قبل اپنے ایک خواب کا ذکر کیا ہے۔ کہتا ہے: ’’میرے خواب میں دو رشی آئے، ایک کا قد لمبا تھا، دوسرے کا چھوٹا، جس کا قد لمبا تھا وہ رشی وسست تھا کہ جس کے بال سفید تھے، دوسرا کہ جس کا قد چھوٹا تھا وہ راجکمار رام چندر تھا، میں نے دونوں کا استقبال کیا۔ رشی وسست نے آشیرواد دیا اور اپنے شاگرد سے کہا دارا شکوہ میرا بھائی ہے، ہم دونوں سچائی کی تلاش میں ہیں۔ راجکمار میرے سینے سے لگا۔ رشی وسست نے رام چندر کو شیرینی دی جسے میں نے چکھ لی۔ اس سحر انگیز خواب کے بعد ہی میری بے تابی بڑھی اور ’یوگ وسست‘ کے ایک عمدہ فارسی ترجمے کے لیے بے چین ہو گیا۔‘‘ اس کے حکم کے بعد چند برہمنوں کی مدد سے کتاب کا ترجمہ ہوا۔
اس کے بعد کئی کتابوں کے فارسی ترجمے ہوئے۔ ’گلزارِ حال‘ کے نام سے ولی رام نے کرشن مشرا کے فلسفیانہ رنگ کے ڈرامے کا ترجمہ کیا۔ ویدانت پر ایک کتاب لکھی گئی، یہ بھی ترجمہ تھا۔ کسی سیتا رام نے کیا تھا۔ چندربھان جو دارا شکوہ کا میر منشی تھا اس نے بھی ایک کتاب کا ترجمہ کیا۔ بھگوت گیتا پر ایک تبصرہ کیا گیا ’میراۃ الحقائق‘ کے نام سے۔ یہ تبصرہ عبدالرحمن چشتی کا تھا۔
دارا شکوہ کی شخصیت میں قلندری بھی تھی اور تصوف کی پرسکون روشنی بھی۔ مسلسل متصوفانہ تجربوں کی گہرائیوں میں اُترنے کی کوشش کرتا رہا، سچائی کو پانے کی پیاس اتنی بڑھی کہ وہ اسلام اور ہندو دھرم دونوں میں یکسانیت کی تلاش کرنے لگا۔ اس سلسلے میں ’مجمع البحرین‘ ایک عمدہ مثال ہے۔ ’سرِّ اکبر‘ اور ’مجمع البحرین‘ کی وجہ سے دارا شکوہ کو آج بھی بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ ان کتابوں کے ذریعے بھی ہندوستان کے علم و دانش کی خوشبو ساری دنیا میں پھیلی۔ ذہن صوفیانہ تھا، زندگی کی عمدہ اور اعلیٰ اقدار کی قدر و قیمت سے آشنا تھا اس لیے ’ہیومنزم‘ کو ہمیشہ عزیز تر رکھا۔ اس دور کے معروف عالموں اور سنسکرت زبان کے پنڈتوں سے اس کا رابطہ رہا، اس کے قریب کئی ہندو عالم موجود ہوتے کہ جن کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کرتا۔ تصوف ہی سے اس کی دلچسپی ہندو فلسفیانہ تصورات اور روحانی خیالات کی جانب لے آئی۔
دارا شکوہ کو شاہِ جہاں نے بہت عزیز رکھا تھا اس لیے دور دراز علاقوں کے فوجی کیمپوں یا خیموں میں رکھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ اسے دربار ہی سے زیادہ وابستہ رکھنا چاہتا تھا۔ دارا علم کا ایسا پیاسا تھا کہ دربار میں رہے یا خیموں میں کچھ نہ کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ فلسفے اور علم خطاطی سے اس کی دلچسپی حد درجہ بڑھی ہوئی تھی۔ دارا سے شاہِ جہاں کی محبت دیکھ کر اس کے بھائی حسد کرنے لگے تھے۔ جہانگیر کی زندگی میں سوتیلی دادی نورجہاں کے برتاؤ سے بھی پریشان رہا کرتا تھا۔ حاسد بھائی شجاع، اورنگ زیب اور مراد اس کے خلاف سازش کرتے رہتے۔ دارا کے کئی گہرے دوستوں نے علاحدگی اختیار کر لی۔ اُس کی بیوی نادرہ بیگم جو ہمیشہ اس کا ساتھ دیتی تھی نازک لمحوں میں نفسیاتی سہارا دیتی تھی، دُنیا سے اُٹھ گئی۔
شہزادہ دارا شکوہ نادرہ کے انتقال کے بعد ٹوٹ سا گیا۔اب اس کی ساری دلچسپی علم و ادب سے تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک صاحبِ قلم فنکار بن گیا۔شاعری بھی خوب کی اور فارسی نثرنگاری میں بھی اپنی ایک حیثیت بنا لی۔ تاریخ سے دلچسپی بعض بزرگوں کی زندگی اور شخصیت کے مطالعے کی جانب بھی لے گئی۔ اپنی کتابوں میں اُن کا ذکر کیا۔ اس کی کتابوں میں ایک اچھے محقق کی نظر بھی ملتی ہے۔
٭ ’سفینۃ الاولیا‘ میں تصوف اور صوفیوں پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ یہ دارا شکوہ کی پہلی تصنیف ہے۔ اس وقت اُس کی عمر پچیس برس تھی۔ ابتدا میں لکھتا ہے کہ وہ صوفیوں سے خاص عقیدت رکھتا ہے۔ اس کی شکایت ہے کہ صوفیوں کی زندگی کی تفصیل مختلف مسودوں اور دستاویزوں میں بکھری ہوئی ہے۔ انھیں یکجا کرنا آسان نہیں ہے۔ کئی صوفیوں کے متعلق خاص خاص باتیں لکھ دی ہیں۔ چار سو سے زیادہ صوفیوں کے حالات سے باخبر ہونے کا تھوڑا بہت ثبوت پیش کیا۔ اس کتاب میں حضرت محمد مصطفیؐ اور اُن کے افرادِ خانہ کا ذکر ہے۔ خلفائے راشدین اور اماموں کا تعارف ہے۔ قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ، سہروردیہ سلسلوں سے متعارف کرایا ہے۔ خواتین صوفیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔
شہزادہ دارا شکوہ اکثر صوفیوں کی درگاہوں مزاروں پر جاتا، گم سم بیٹھ کر ان کی یادوں میں کھو جاتا۔ ’سفینۃ الاولیا‘ میں لکھتا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ سے حضرت عبدالقادر جیلانیؒ تک وہ تمام صوفیوں، بزرگوں سے عقیدت رکھتا ہے۔ اُن کی عظمت کی ایک دنیا قائل ہے۔ دعا کرتا ہے کہ جن حضرات کا ذکر کیا ہے اُن کی دعائیں اسے ملتی رہیں، رُوحانی زندگی میں زیادہ سے زیادہ رفعت اور بلندی نصیب ہو۔ ’سفینتہ الاولیا‘ ۱۶۳۹ء (۲۷؍رمضان ۱۰۴۹ھ) میں مکمل ہوئی تھی۔ کتاب کم و بیش دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب اس لیے بھی بہت اہم تصور کی جاتی ہے کہ اس میں حضور کریمؐ، ازواجِ مطہرات، خلفائے راشدین، امام اور صوفیوں وغیرہ کا ذکر پہلی بار اس طرح سامنے آیا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۸۵۲ء میں آگرہ سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۸۷۲ء میں لکھنؤ سے اور ۱۸۸۴ء میں کانپور سے چھپی۔ پھر اس کے کئی ایڈیشن طبع ہوئے۔
نفسیات کے علماء کہتے ہیں کہ ذہن کے تخلیقی اسرار نئی دُنیا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس دُنیا میں عجیب پراسرار کیفیتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی پہچان ممکن نہیں ہے، اشاروں میں سب کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ صاف طور پر کچھ بتایا نہیں جا سکتا۔ بھاگوت گیتا میں ارجن کی اس بات سے اسے کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔ ارجن کرشن سے کہتے ہیں: ’’اے میرے آقا! میرا دماغ بے چین ہے، عجیب سی ہلچل ہے، موجیں اُٹھ رہی ہیں، یہ جو طوفان ہے اسے روک لینا آسان نہیں ہے۔‘‘ اُپنشدوں کے مطابق یہ باطن کی پراسرار لہریں ہیں، یہ ’سائیکی‘ کی عجیب و غریب اُٹھان ہے۔ تحت الشعور سے جو لہریں اُٹھتی ہیں وہ ذہن کے تخلیقی اسرار میں ایسی ہلچل اور بے چینی پیدا کر دیتی ہیں کہ نئی دُنیا جنم لے لیتی ہے اور فرد اسی دُنیا میں سانس لینے لگتا ہے۔ کشمیر شوازم کے مطابق ذات خالص اور آزاد بن جاتی ہے۔ ایک نئی روشنی (پرکاش) پھیل جاتی ہے، صوفیوں کا باطن یا یہ کہیے Cosmos روشن ہو جاتا ہے۔ نفسیات کے علماء کہتے ہیں کہ عجیب و غریب خواب آتے ہیں۔ حقیقت خوابوں میں تخلیقی ذہن کی مدد سے نئی حقیقت کی شکل اختیار کرتی رہتی ہے۔ دارا شکوہ تصوف میں جیسے جیسے غرق ہونے لگا اُس کی بے چینی بڑھتی گئی۔ تمام مذاہب میں ایک وحدت نظر آئی، انسان اور انسان کی محبت کو سب سے زیادہ قیمتی جاننے لگا۔ ’جوگ شست‘ پر گفتگو کرتے ہوئے پچھلے صفحات میں اس کے ایک خواب کا ذکر کیا گیا ہے، اندازہ ہوتا ہے حقیقی کردار خواب میں تخلیقی ذہن کی مدد سے کس طرح نئی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ ’سفینۃ الاولیا‘ میں بھی دو خوابوں کا ذکر ہے۔ ایک خواب یہ ہے: ’’دیکھا چار بزرگ سفید لباس میں ایک دوسرے کے پیچھے چل رہے ہیں۔ پوچھا یہ کون حضرات ہیں؟ جواب ملا حضور کریمؐ کے چار یار یعنی خلفائے راشدین۔ میں بھی اُن کے پیچھے چلنے لگا، چاروں بزرگ ایک دریا سے گزرے پھر ایک پہاڑی پر پہنچے اور ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ میں نے ہر بزرگ کو سلام کیا، گزارش کی فاتحہ پڑھیں۔ ہر فرد نے سلام کا جواب دیا اور فاتحہ پڑھی۔ سب کی جانب سے خصوصی عنایات حاصل کر کے واپس ہوا۔ واقعی یہ میرے نصیب کی بیداری کا اشارہ ہے۔‘‘
دوسرا خواب یہ کہ: ’’میں غزنی میں ہوں۔ غزنی کے مشائخ کے مزاروں کی زیارت کر رہا ہوں۔ ایک شخص نے کہا دیکھو یہ حضرت حکیم سنائیؒ کا مزار ہے۔ میرے سامنے سنگِ سفید کی بنی ہوئی ایک قبر تھی جس پر حکیم سنائیؒ کا نام لکھا تھا۔ جب صبح حکیم سنائیؒ کے مزار آیا تو دیکھا واقعی یہ سنگِ سفید کی چمک دمک لیے ہوئے ہے۔
’سفینتہ الاولیا‘ ایک قیمتی دستاویز ہے، اس کی تاریخی حیثیت ہے۔ دارا شکوہ نے ایک محقق کی طرح محنت کی ہے اور بزرگوں، صوفیوں کے احوال و فضائل کا ذکر کیا ہے۔ تاریخِ وفات بھی لکھے ہیں۔
شہزادے کی نفسیاتی کیفیتوں اور تصوف میں آہستہ آہستہ غرق ہوتے رہنے کے عمل کے پیشِ نظر اس کے ایک اور خواب کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جمعرات کی شب تھی، خواب میں دیکھا ایک فرشتہ آیا ہے، کہہ رہا ہے تمھیں اللہ کی عنایت سے وہ انعام ملنے والا ہے جو پہلے کسی بھی بادشاہ کو نہیں ملا۔ دارا شکوہ لکھتا ہے کہ ۲۹؍ذوالحجہ ۱۰۴۹ھ کو یہ انعام حاصل ہو گیا۔ میں حضرت مُلّا شاہ کے قادریہ سلسلے سے وابستہ ہو گیا۔ حضرت مُلّا شاہ اپنے دور کے بڑے نامور صوفی تھے۔
’سکینتہ الاولیا‘ دارا شکوہ کی دوسری اہم تصنیف ہے۔ اس وقت اس کی عمر ۲۸ سال کی تھی۔ اس میں حضرت میاں میرؒ (میاں جیو) کے تعلق سے باتیں زیادہ ہیں۔ دارا کے پیر و مرشد حضرت مُلّا شاہؒ عرف لسان اللہ اور ان کے شاگردوں کا بھی خوب ذکر ملتا ہے۔ حضرت مُلّاشاہؒ حضرت میاں میرؒ کے عزیز شاگرد تھے۔ دارا شکوہ اُن کے قریب بیٹھ کر مذہبی اور صوفیانہ خیالات اور مسائل پر گفتگو کرتا اور روشنی حاصل کرتا۔ حضرت مُلّاشاہؒ اسے جہاں ’سماع‘ کی اہمیت سمجھاتے وہاں رویت اور اللہ کے وجود کی بابت بھی بہت کچھ سمجھاتے۔ اس کے صوفیانہ ذہن کی تربیت اور اس کے پاکیزہ کردار کی تشکیل میں حضرت مُلّا شاہؒ نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ حضرت مُلّا شاہؒ کو اتنا پڑھا لکھا اور اتنی سوجھ بوجھ رکھنے والا شاگرد بھی نہیں ملا تھا۔ دارا شکوہ نے اپنے طور اور اپنی سطح پر مذہب اور تصوف اور روحانیات وغیرہ کے تعلق سے بہت سی کتابیں پڑھی تھیں اور ان کی روشنی میں اپنے پیر و مرشد سے باتیں کرتا تھا۔ ان میں کئی اور کتابوں کے علاوہ ’تفسیرِ حسینی‘، ’بحرالحقائق‘ اور ’تفسیر الآرائش‘ کا ذکر کیا ہے۔
دارا شکوہ اپنے والد شہزادہ خرم (شاہِ جہاں) کے ساتھ پہلی بار حضرت میاں میرؒ (میاں جیو) سے ۱۷؍شوال ۱۰۴۳ھ کو ملا تھا۔ اس کا ذکر ’بادشاہ نامہ‘ جلد اوّل میں ملتا ہے۔ ’سکینتہ الاولیا‘ کے صفحہ ۳۸-۳۹ پر بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ دارا شکوہ چار ماہ سے علیل تھا۔ شہزادہ خرم اپنے پیارے بیٹے کو لے کر دعاؤں کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ چار ماہ مسلسل علاج کے باوجود افاقہ نہ ہوا تو شہزادہ خرم حضرت میاں میرؒ کے حجرے تک بیٹے کو لے کر آئے۔ میاں میرؒ نے اپنے مٹّی کے پیالے میں پانی بھرا، دعا پڑھی اور دارا کو پلا دیا۔ ایک ہفتہ ہی گزرا کہ بیماری دُور ہو گئی۔
دوسری بار شاہِ جہاں نے دارا شکوہ کو ساتھ لے کر ۸؍رجب ۱۰۴۴ھ کو حضرت میاں میرؒ کا نیاز حاصل کیا۔ زندگی اور صوفیانہ تجربوں پر خوب باتیں ہوئیں۔ دارا شکوہ پر ان باتوں کا گہرا اثر ہوا۔ دارا شکوہ نے تحریر کیا ہے کہ میاں میرؒ جب باتیں کر رہے تھے تو لونگ چبائے جا رہے تھے اور چبا کر پھینکتے جا رہے تھے۔ دارا پر ان کی شخصیت کا جمال اتنا طاری ہو چکا تھا کہ وہ چبائے ہوئے ہر لونگ کو اُٹھا کر کھانے لگا۔ لکھا ہے کہ اسی لونگ کی برکت سے اس کی زبان کو قوتِ بیان حاصل ہوئی۔
حضرت میر محمد معین الاسلامؒ (۱۵۵۰ء-۳۶-۱۶۳۵ء) عرف سائیں میاں میرؒ ایک نامور صوفی بزرگ تھے۔ بیگم پورہ لاہور میں رہائش تھی۔ قادریہ سلسلے کے ایسے بزرگ صوفی تھے کہ جن کے سیکولر ذہن کی روشنی دور دور پھیلی ہوئی تھی۔ شری گرو ارجن دیو جی کے گہرے دوست تھے۔ ’سون مندر ہرمندر صاحب‘ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ (۱۳؍جنوری ۱۵۸۸ء) ۱۶۳۵ء میں انتقال ہوا۔ دارا شکوہ سائیں میاں میرؒ کا سب سے بڑا عقیدت مند تھا۔ حضرت کا مزار اُسی نے تعمیر کروایا تھا کہ جس میں سنگ سرخ کا استعمال ہوا تھا۔ ابھی مزار مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ اورنگ زیب تخت پر قابض ہو گیا اور اُس نے دارا شکوہ کے استعمال شدہ سنگِ سرخ نکلوا دیئے۔ (یہ سنگِ سرخ لاہور کے قلعے کے سامنے بادشاہی مسجد میں لگے ہوئے ہیں) حضرت سائیں میاں میرؒ کا مزار دارا شکوہ کے اپنے تیار کیے ہوئے نقشے کے مطابق تو تھا لیکن مکمل طور پر ویسا نہ بن سکا جیسا نقشے کا تقاضا تھا۔
سائیں حضرت میاں میرؒ ہی نے فرمایا تھا: کارنی پروان کیا ہندو کیا مسلمان۔‘‘ مفہوم ہے اللہ کی راہ پانے کی کوشش میں ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں کہا گیا ہے کہ اللہ پاک نے دنیا کے تمام لوگوں کے درمیان پیغمبر بھیجے۔ ہندوستان میں بھی یقیناً کئی پیغمبر آئے ہوں گے۔ سب نے بنیادی طور پر ایک ہی تعلیم دی ہے۔ پیغمبرِ اسلامؐ نے کسی بھی پچھلے گزرے پیغمبر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا ہے۔ سائیں حضرت میاں میرؒ گرو ارجن دیو کے قتل کی خبر سے بہت دُکھی تھے۔ ۱۷؍ربیع الاوّل ۱۰۴۵ھ انتقال کی تاریخ ہے۔ اُن کی خواہش کے مطابق سائیں حضرت میاں ناتھاؒ کے پاس سپردِ خاک کیا گیا۔ ہاشم پور گاؤں میں حضرت میاں ناتھاؒ سائیں کے گہرے دوستوں میں تھے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے سائیں میاں میرؒ پانچویں گرو شری ارجن دیو جی کے گہرے دوست تھے، اگرچہ سائیں عمر میں اُن سے تیرہ برس بڑے تھے۔ ۱۵۸۸ء میں گرو ارجن دیو نے کئی عمارتیں تعمیر کیں، کئی تالاب بنوائے۔ انھوں نے امرتسر تالاب میں ایک مندر کی تعمیر کا پلان بنایا۔ اس مندر کا سنگِ بنیاد حضرت سائیں میاں میرؒ کے ہاتھوں رکھوایا۔ اس مندر کا دروازہ ہر مذہب و ملت کے افراد کے لیے کھلا رکھا گیا۔ آج بھی ہرمندر صاحب (سون مندر) میں ہر شخص جاتا ہے۔ کسی کے لیے دروازہ بند نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے امرتسر میں ہرمندر صاحب کی بنیاد رکھنے کے لیے جب گرو ارجن سنگھ جی نے حضرت میاں میرؒ صاحب کو لاہور سے امرتسر لانے کے لیے چند لوگوں کو روانہ کیا تو ان میں ایک شخص احمد داس بھی تھا جو راجا چھانڈو مل کا مشیر خاص تھا۔ راجا چھانڈو مل ’رام رحیم‘ کو ایک مانتا تھا، لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ حضرت سائیں بھی اس کے اس خیال یا عقیدے کو قبول کر لیں۔ یہ بات احمد داس نے حضرت میاں میرؒ سے کہی، کہا وہ اس عقیدے کو مان لیں۔ حضرت میاں میرؒ صاحب نے فرمایا: میاں تمام انسان صرف اس عقیدے پر متفق ہو سکتے ہیں کہ محبتِ الٰہی سب سے عظیم جذبہ ہے۔ ایسے اللہ پر یقین کہ جس کی کوئی صورت نہیں ہے، گرو ارجن سنگھ کا عقیدہ بھی یہی ہے، وہ بھی ایک مالک، ایک اللہ پر یقین رکھتے ہیں، اسی لیے میں امرتسر کے مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے جا رہا ہوں۔ یہ بات احمد داس کو پسند نہ آئی تو امرتسر کے راستے پر حضرت سائیں میاں میرؒ کے قافلے پر حملہ کر دیا۔ قافلے میں حضرت کے عقیدتمند اور صوفی بزرگ تھے۔ حضرت سائیں محفوظ رہے، باقی قافلے کے کئی افراد بری طرح زخمی ہو گئے۔ جب حضرت امرتسر پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ہرمندر صاحب کا سنگِ بنیاد رکھا، جو پتھر رکھا وہ سیدھا نظر نہ آیا تو ایک معمار نے اسے سیدھا کر دیا۔ شری گرو ارجن سنگھ جی سخت ناراض ہوئے، کہا: ’’اس بڑے درویش نے جس طرح رکھا تھا اسے اسی طرح رہنا چاہیے تھا، اس لیے کہ وہ اللہ والے ہیں، مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مستقبل میں اس مندر کی بنیاد کو ہلانے کی کوشش ہوتی رہے گی۔‘‘ حضرت سائیں نے کہا: ’’لیکن کوئی اسے مٹا نہ سکے گا۔‘‘ واقعی اس پر کئی حملے ہوئے، کوئی اس کا نام و نشان نہ مٹا سکا۔
’سکینتہ الاولیا‘ میں محمد دارا شکوہ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مُلّا شاہؒ کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے دل میں اپنے پیر و مرشد کا کتنا احترام تھا۔ کتاب میں قادریہ سلسلہ ہی کا ذکر زیادہ ہے۔ حضرت میاں میرؒ (میاں جیو) اور اُن کے مرید حضرت مُلّا شاہؒ (لسان اللہ) دونوں کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار بڑی شدّت سے کیا ہے۔ دارا شکوہ حضرت مُلّا شاہؒ کا مرید بن گیا اور اُن سے انسان، زندگی، کائنات، روحانیت، سماع اور تصوف کے تعلق سے علم حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تحقیق یہ ہے کہ ’سکینتہ الاولیا‘ کی تحریر کا سلسلہ ۱۶۴۲ء (۱۰۵۲ھ) سے شروع ہوا اور کم و بیش آٹھ سال تک قائم رہا جب دارا شکوہ کی عمر ۳۶ برس ہو چکی تھی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زندگی کو وہ مادّی ہو یا رُوحانی، سمجھنے کے لیے ایک ایسے دانشور روحانی معلّم کی ضرورت ہے جو خود باطنی زندگی میں انگنت روحانی منزلیں طے کر چکا ہو۔ حضرت مُلّا شاہؒ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد اس کی شخصیت میں آہستہ آہستہ تبدیلی شروع ہوئی اور اس نے انسانیت اور انسان دوستی اور محبت کے رشتے کو سب سے زیادہ اہمیت دینا شروع کی۔ دارا شکوہ کے اندر علم حاصل کرنے کی جو تڑپ تھی اسے حضرت مُلّاشاہؒ اچھی طرح پہچان گئے تھے۔ حضرت شاہؒ کا نام ’شاہ محمد‘ تھا۔ انھیں حضرت اخوند بھی کہتے تھے۔ دونوں کی ملاقات پہلی بار کشمیر کے سفر میں ہوئی۔ وہیں شیخ مُلّا شاہؒ بدخشانی کے ہاتھ بیعت ہوئی۔ حضرت دارا شکوہ کی اُبھرتی ہوئی شخصیت اور اس کی پھیلتی فکر و نظر اور باطن میں روحانی کیفیت کی ہلچل سے بے حد متاثر تھے۔ انھوں نے دارا کے لیے ایک غزل بھی کہی تھی۔ اس غزل سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ دارا شکوہ کو روحانی منزلوں کو طے کرتے کس طرح دیکھ رہے تھے اور جس منزل پر وہ پہنچ چکا تھا اسے کس طرح پہچان رہے تھے۔ اس غزل کا ایک شعر ہے:
صاحبقران اوّل و ثانی قرین حشمت اند
دارا شکوہ ماشدہ صاحبقرانِ دل
کہتے ہیں پہلے اور دوسرے صاحبقران یعنی امیر تیمور اور شاہِ جہاں دونوں عظمت اور شان و شوکت رکھتے تھے جبکہ اپنا دارا شکوہ دل کا صاحبقران ہے۔ اسی غزل میں کہا ہے ’’اے دل کے پوشیدہ اسرار سے بے خبر! تجھے ایسا دن بھی نصیب ہو کہ تو دل کا ہم زبان ہو جائے۔ تجھے علم ہو جائے کہ صاحبقرانِ اوّل (تیمور اور صاحبقرانِ ثانی (شاہِ جہاں) کس کے قریب ہیں اور ہم سب کا دارا شکوہ کہاں ہے؟ وہ تو صاحبقرانِ دل ہے۔‘‘
بلاشبہ کشمیر میں محمد دارا شکوہ کی وجہ سے عوام کے ’وِژن‘ اور اس کی ’سائیکی‘ پر گہرا اثر پڑا۔ قادری سلسلے کے صوفیانہ خیالات و نظریات نے بھی وہاں کے باشندوں کو بہت متاثر کیا ساتھ ہی فنونِ لطیفہ سے دارا شکوہ کی گہری دلچسپی نے بھی گہرا اثر ڈالا۔
دارا شکوہ شہزادہ تو تھا لیکن دل فقیر درویش کا تھا۔ صوفی تھا، کچھ تاریخ داں کہتے ہیں اگر وہ تخت نشین ہوتا تو ملک کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ محبت کے رشتوں سے بندھے ہوئے لوگوں کا شمار نامکمل ہوتا۔ اتحاد، قوتِ برداشت اور ثقافتی تمدن و ہم آہنگی چمکتی ہوئی بہت ہی روشن علامتیں ہوتیں۔
دارا شکوہ نے لکھا ہے کہ حضرت مُلّا شاہؒ تیس سال سے کبھی سوئے نہیں، ہر دم بیدار رہے۔ آنکھوں میں تھکن کا احساس ہی نہ ہوا، چہرہ ہمیشہ تازہ اور شگفتہ رہتا۔ دارا شکوہ کہتا ہے کہ یہ تو اللہ کی صفت بتائی گئی ہے۔ جب صوفی اللہ میں گم ہو جاتا ہے تو اللہ کی صفت اس میں ظاہر ہونے لگتی ہے۔ حضرت مُلّا شاہؒ نے غالباً دارا سے کہا تھا کہ تیس سال سے زیادہ وقت گزرا میں لمحہ بھر نہیں سویا۔ ایک دو سال ہوئے ہیں کہ میں ٹانگیں بڑھاتا ہوں اور زمین پر لیٹ جاتا ہوں لیکن نیند نہیں آتی۔ حضرت مُلّا شاہؒ نے یہ طریقہ سکھایا تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد صبح تک دو سانسوں میں رات کیسے گزارنا چاہیے۔ حضرت مُلّا شاہؒ نے دارا شکوہ کو جہاں اور بہت سکھایا وہاں ورزش اور یوگ کی تعلیم بھی دی۔ حضرت جانتے تھے کہ اس ملک میں یوگ کا علم بہت قدیم ہے، اس میں بڑی خوبیاں ہیں لہٰذا اس علم کو جاننا چاہیے۔ شہزادے نے بہت سے البیلے، خوبصورت، دل کو چھو لینے والے خواب دیکھے۔ (چند خوابوں کا ذکر پچھلے صفحات میں کیا گیا ہے) لیکن جاگتے ہوئے ایسا ’خواب‘ نہیں دیکھا تھا کہ سارا کشمیر وحدت الوجود کے سمندر میں غرق ہو اور اس کی جو لہریں اوپر کی جانب اُٹھ رہی ہوں ان سے کشمیر ایک صوفی کی طرح خاموش اللہ کے جلال و جمال کی جانب تک رہا ہو۔ کشمیر کے حسن و جمال میں وہ بھی ڈوب گیا۔
محمد دارا شکوہ ایک منفرد صوفیانہ تخلیقی ذہن کا مالک تھا۔ فنونِ لطیفہ سے اس کی دلچسپی اس کے جمالیاتی وِژن کو بہت حد تک سمجھا دیتی ہے۔ فنِ خطاطی کی جمالیات سے اس کی گہری دلچسپی ابتدا سے تھی۔ تصوف کے حسن و جمال سے آہستہ آہستہ اس کی دلچسپی اتنی بڑھی کہ اس کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ایک صوفی کے روشن مزاج کی خوب پہچان ہونے لگی۔ تصوف کی گہرائیوں میں آہستہ آہستہ اُترا تو مختلف قسم کے فلسفوں کی چمک دمک کا تجربہ حاصل ہوا اور وہ فلسفیانہ افکار و خیالات اور نکات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ خاکہ نگاری اور تصویر کاری کے حسن و جمال سے بھی وابستہ ہوا۔ اس کے جمالیاتی رجحان اور مزاج کی وجہ سے جانے کتنی تصویریں وجود میں آئیں۔ اس کے معروف ’البم‘ کی خبر ہم سب کو ہے۔ محمد دارا شکوہ نے شاہِ جہاں کے دربار کے معروف استاد خطاط عبدالرشید سے تربیت حاصل کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس فن میں مہارت حاصل کر لی۔ نستعلیق کا ماہر تو بن ہی گیا، نسخ میں بھی اپنی صلاحیت کا اظہار خوب کیا۔ اُس کی خطاطی کے نمونے آج بھی کئی کتب خانوں میں موجود ہیں۔ سنہرے حروف میں خطِ نسخ کا حسن لیے ’پنج سورہ‘ کا ایک خوبصورت نسخہ امپیریل لائبریری کلکتہ میں موجود تھا کہ جسے وکٹوریہ میموریل ہال میں رکھ دیا گیا ہے۔ اسی طرح محمد دارا شکوہ فنِ مصوری کے حسن کو اپنے طور پر خوب سمجھتا تھا۔ مصوری کے عمدہ نمونے پسند کرتا تھا۔ مصوری کی تکنیک پر بھی اس کی نظر گہری تھی۔ اس کی نگرانی میں تصویروں کا جو البم تیار ہوا اسے ۱۶۴۱ء میں اس نے اپنی بیگم نادرہ کو پیش کیا تھا۔ کہا جاتا ہے یہ مغل آرٹ کا بہت ہی عمدہ نمونہ ہے۔ پرسی براؤن (Percy Brown) نے اس البم کی بہت تعریف کی ہے۔ وہ لکھتا ہے اس مرقع کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شہزادہ دارا شکوہ کی جمالیاتی حس کتنی بیدار تھی۔ سِسل ایل برنس (Cecil L Burns) نے ۱۹۲۵ء میں ٹائمز آف انڈیا میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ کوہِ نور کی جو حیثیت دوسرے مشرقی ہیروں میں ہے وہی حیثیت تصویروں کا زبردست حسن لیے اس البم کی ہے۔ ان تصویروں پر وسط ایشیائی، عجمی اور مغل مصوری اور خطاطی کے جلوے بکھرے پڑے ہیں۔
دارا شکوہ ۱۶۴۰ء (۱۰۵۰ھ) میں کشمیر گیا۔ وہاں کے تہہ دار رُوحانی ماحول سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کے صوفیانہ تجربوں میں نئی چمک دمک پیدا ہو گئی۔ کشمیر کے مذہبی خیالات کو سمجھنے کا وقت ملا۔ مطالعے کے بعد اسے شدت سے محسوس ہوا کہ جو مذاہب اور مذہبی عقیدے ہیں وہ سب بنیادی طور پر ایک ہی ڈوری سے بندھے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں وحدانیت کا تصور (Monotheism) اور تصوّف بڑی گہرائی میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے نظر آئے۔ مذہبی خیالات اور عقائد اپنی لطافت لیے موجود ہیں۔ ان کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ یہاں بہت سی قیمتی کتابیں ہیں جس کے مطالعے ہی سے بنیادی سچائیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ ان کتابوں اور دوسری بہت سی کتابوں کو جمع کر کے ایک کتب خانے کی تشکیل کا خیال آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سری نگر میں دارا شکوہ کا کتب خانہ وجود میں آ گیا کہ جہاں سنسکرت اور دوسری قدیم بولیوں میں لکھے گئے پرانے مسودے فارسی زبان کی کتابیں مسودے سب جمع ہو گئے۔ دارا شکوہ اور اس کی بیگم نے چند یادگار باغ بنوائے کہ جن میں مغل فنِ تعمیر کے کچھ بہت ہی عمدہ تاریخی آثار اب بھی موجود ہیں۔ سری نگر میں اخون حضرت مُلّا شاہؒ کی مسجد تعمیر ہوئی، بیج وہارا کا خوبصورت باغ اور سری نگر کے پری محل کے ساتھ دارا شکوہ کا نام وابستہ ہے۔
شہزادہ دارا شکوہ نے کئی چھوٹے رسالے لکھے۔ ان میں ’رسالہ حق نما‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کم و بیش تیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رسالے سے دارا شکوہ کی صوفیانہ فکر و نظر کی بہت حد تک خبر ملتی ہے۔ اس میں دو باتیں بہت اہم ہیں:
(۱) رُوحانی ارتقا کی مختلف منزلیں کیا ہیں؟
(۲) رُوحانی منزل کے نقطۂ عروج تک پہنچنے کے ذرائع کیا ہو سکتے ہیں؟ کن راہوں سے گزر کر رُوحانی استحکام کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔
دارا شکوہ نے تحریر کیا ہے کہ کسی سچیّ عابد اور رُوحانی طور پر بیدار اور تصوف کی گہرائیوں میں اُترے ہوئے صوفی سے رشتہ قائم ہو جائے تو یہ رسالہ پڑھا جائے۔ جب رہنمائی حاصل ہو جاتی ہے تو شدّت سے محسوس ہوتا ہے کہ ایک نئی دُنیا سامنے آ گئی ہے۔ الوہی علم حاصل ہونے لگتا ہے۔ دارا شکوہ نے اپنے تجربے کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے:
’’میری پہلی تصنیف ’سفینتہ الاولیا‘ سچائی کی تلاش کی پیاس لیے ہوئے ہے، دوسری تصنیف ’سکینتہ الاولیا‘ میں مجھے روحانیات کی منزلوں کی جانب لے جانے والا رہنما ملا ہے۔ ایسا رہنما کہ جس نے ’سلوک‘ اور ’مقامات‘ (صوفی کی منزلیں) کی قدر و قیمت سے آشنا کیا۔ پھر اب تو ’توحید‘ کی منزل آ گئی ہے۔ خالق سے جذب ہو چکے ہیں۔ توحید اور عرفان کے راستے مالک نے کھول دیئے ہیں۔ میں نے جو کچھ پایا ہے، حاصل کیا ہے وہ قرآن حکیم کی روشنی میں، قرآن پاک کی آیتوں اور اس کے لفظوں کے آہنگ ہی میں دراصل مجھے سب کچھ حاصل ہوا ہے۔ ’رسالہ حق نما‘ چھ فصلوں میں منقسم ہے۔ ’ناسوت‘ کے چار حصے (صفحہ ۹-۸) انسانوں کی دُنیا (Human world) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’ملکوت‘ (Invisible world) یعنی غیر مرئی دُنیا، وہ دُنیا جو نظر نہ آئے (صفحہ ۲۱-۹)، جبروت یعنی جنت کی سب سے اعلیٰ منزل (Highest Heaven) (صفحہ ۲۲-۲۱)، پانچویں اور چھٹے فصل کا تعلق ’ہویات‘ یعنی الٰہی جوہر (Divine Essence) سے ہے (صفحہ ۳۰-۱۰)۔‘‘
یہ رسالہ ۱۰۵۶ھ میں مکمل ہوا۔ دارا شکوہ نے کہا ہے:
ایں رسالۂ حق نما باشد تمام
در ہزار و پنجہ و شش شد تمام
ہست از قادر ، مدان از قادری
آنچہ ماگفتیم نافہم و السلام
یعنی یہ ’رسالۂ حق نما‘ جو ۱۰۵۶ھ میں مکمل ہوا قادرِ مطلق کی جانب سے ہے۔ اسے قادری (دارا شکوہ) کی طرف سے نہ سمجھو، ہم نے جو کچھ کہا ہے اسے سمجھ لو، والسلام۔
دارا شکوہ نے قادریہ سلسلے کو عزیز تر بنایا۔ اس رسالے کا ایک نام ’دارالنکات‘ بھی ہے۔
’حسنات العارفین‘ یا شطحیات محمد دارا شکوہ کی ایک نادر تصنیف ہے۔ اس میں صوفیوں کے مختصر مگر روشن معنی خیز اور دانشمندانہ ضرب المثل اور خیالات (Aphorisms) ہیں جو اسلام کے مروّجہ عقائد کے خلاف نظر آتے ہیں۔ انھیں مجذوبانہ خیالات کا مجموعہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اکثر مختصر ہیں مگر دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں۔ بعض ذہن کو گہرائیوں میں اُترنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اختلافات اپنی جگہ پر لیکن بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ ’حسنات العارفین‘ تحریر کرتے ہوئے دارا شکوہ رُوحانیت کی گہرائیوں میں اُترا ہوا تھا۔ ّکٹر عقیدوں سے ایک ایسا تصادم ہے جو پڑھنے والے کو کئی باتوں پر سوچنے کو اُکساتا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں دارا شکوہ نے تحریر کیا ہے کہ صوفیانہ بیانات یا مجذوبانہ خیالات گہری سچائیوں کی جانب لے جاتے ہیں۔ سطحی علم کے لوگ سمجھ نہیں سکتے۔ میں نے سوچا کہ ایسے معنی خیز دانشمندانہ خیالات اقوال اور مجذوبانہ اشاروں کو ایک جگہ جمع کر دوں۔ انسان جب بے خود ہو جاتا ہے تو ارفع سچائیوں کا انکشاف بھی کرنے لگتا ہے۔ جس پر اعتراضات اور کبھی کبھی بہت تیز اعتراضات ہوتے ہیں۔ میں ایسی باتیں کہتا ہوں تو وہ لوگ کہ جن میں علم کی کمی ہے، صرف طنز ہی نہیں کرتے الزام بھی لگاتے ہیں۔ دارا شکوہ کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ راسخ العقیدہ مسلمان اس کی ایسی تحریروں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کی تحریر کی ایسی بے باکی انھیں پسند نہیں تھی۔
دارا شکوہ کی عمر ۳۸ برس تھی جب اس کتاب کی ابتدا ہوئی۔ ۱۰۶۰ھ میں ربیع الاوّل کے آخری دن مکمل ہوئی۔ اس کا کہنا ہے کہ عبادت کا مفہوم عرفان ہے لہٰذا توحید اور معرفت سے بڑی کوئی شے نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ سب خدا ہے۔ دارا شکوہ کی ملاقات ایک صوفی سے ہوئی، وہ انھیں ’حضرتِ باری‘ کہتا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے معلّم تھے جو صبر و تحمل، تجرید اور توحید میں اپنی مثال آپ تھے۔ کئی سال خدمت کے بعد نام پوچھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنا نام نہیں بتایا۔ جواب دیا کہ تمام اسماء اسی کے ہیں اور فقیروں کے کوئی نام نہیں ہوتے۔ دارا شکوہ نے ایک رباعی کہی جس میں کہا: میں نے کوئی ایسا ذرّہ نہیں دیکھا جو آفتاب سے جدا ہو اور نہ پانی کا ایسا قطرہ جو سمندر نہ ہو۔ خورشید سے کوئی ذرّہ جدا نہیں۔ پانی کا ہر قطرہ سمندر ہے، حق کو کس نام سے پکارا جائے؟ ہر نام اللہ کے ناموں میں سے ہے۔ جناب ایم محفوظ الحق صاحب نے اپنی کتاب ’مجمع البحرین‘ (انگریزی) میں اس کتاب پر جو لکھا ہے وہ اس کتاب کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
l ’مکالماتِ دارا شکوہ و بابا لال ‘دارا شکوہ اور بابا لال کے مکالمات کا خلاصہ ہے۔ ہندو دھرم کے تعلق سے دارا شکوہ نے سوالات کیے ہیں اور بابا لال نے جواب دیا ہے۔ مختلف قسم کے سوالات ہیں جو اس واسطے کیے گئے ہیں کہ ہندو ازم کے مختلف پہلوؤں کی بہتر جانکاری حاصل ہو سکے۔
بابا لال کا تعلق پنجاب سے تھا، تحقیق یہ ہے کہ ان کا اصل نام لال دیال تھا۔ کھتری تھے، بٹالہ کے قریب ایک گاؤں میں ان کی کٹیا تھی۔ حضرت میاں میرؒ کے دوستوں میں تھے اس لیے بھی دارا شکوہ اُن سے ملنا چاہتا تھا۔ یوں بنیادی مقصد ہندو دھرم کے تعلق سے اپنے سوالات کا جواب پانا تھا۔ بابا لال ایک سنت تھے جو اپنا زیادہ وقت عبادت اور تپسیا کرنے میں گزارتے تھے، بابا لال خود لاہور آئے، دارا شکوہ اُن سے ملنے گیا، حیران ہوا کہ بابا لال کو زندگی اور دھرم کا زبردست علم حاصل ہے، دارا شکوہ نے اُن سے باتیں کیں، اپنے سوالات سامنے رکھے، سوامی نے ہر سوال کا جواب دیا کہ جس سے دارا شکوہ بہت متاثر ہوا۔ قیاس ہے کہ آخری نشست (ساتویں/آخری گفتگو)اُس وقت ہوئی جب دارا شکوہ ۱۹۶۲ء میں قندھار سے واپس آیا۔ دارا نے ان کا ذکر ’حسنات العارفین‘ (۱۰۶۴ھ) میں بھی کیا ہے۔ شہزادے کے دل میں اس عالم کا احترام اتنا تھا کہ اتنے مسلمان صوفیوں کے درمیان بابا لال کا ذکر بھی شامل کیا ہے۔ اُس نے تحریر کیا ہے کہ بابا لال بڑے عارفوں کے درمیان ایک بڑے عارف تھے، میں نے ہندوؤں میں اب تک کسی ایسے عالم اور عارف کو نہیں دیکھا۔ یقین پختہ تھا اور باتوں میں عظمت پوشیدہ تھی۔ بابا لال نے مجھ سے کہا اللہ کے فضل و کرم سے ہر قوم میں عارفوں نے جنم لیا ہے تاکہ وہ اپنی قوم اور اپنے فرقے کی رہنمائی کر سکیں۔ دارا شکوہ نے ’حسنات العارفین‘ میں ان کا نام بابا لال بیراگی تحریر کیا ہے۔ صوفیوں کے ذکر کے ساتھ ان کی شخصیت کو اہمیت دی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دارا شکوہ ان کی شخصیت اور ان کے علم سے کتنا متاثر تھا۔
دارا شکوہ اور بابا لال بیراگی کے مکالمے دونوں کے ساتھ بیٹھ کر شہزادے کے میر منشی چندربھان نے تحریر کیے تھے۔ چندربھان ایک اچھا شاعر بھی تھا۔ یہ اسی کا ایک شعر ہے:
مرا دل است چہ کفر آشنا کہ چندیں بار
بکعبہ بردم و بازش برہمن آوردم!
یعنی میرا دل کفر سے کیسا آشنا ہے کہ میں اسے کئی بار کعبہ لے کے گیا اور اسے برہمن ہی واپس لایا۔
بلاشبہ ’مکالماتِ دارا شکوہ و بابا لال‘ ایک قیمتی دستاویز ہے، اندازہ ہے ’مکالمے‘ کا اختتام ۱۶۴۹ء میں ہوا تھا۔
بابا لال بیراگی جہانگیر کے عہد میں بھی معروف تھے۔ جب دارا شکوہ سے ملاقات ہوئی تو بہت ضعیف ہو چکے تھے۔ پنجاب میں سرہند میں ایک کٹیا میں رہتے تھے جہاں انھوں نے ایک مندر بھی بنا رکھا تھا۔ ان کے عقیدت مندوں اور چاہنے والوں کی کمی نہ تھی۔ اس عہد کے چند مغل مصوری کے نمونوں میں بھی بابا لال بیراگی نظر آتے ہیں۔
بنیون (Binyon) نے مغل مصوری کے جو نمونے اکٹھا کیے وہ یکجا طور پر "The Court Painters of The Grand Mughals" کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کی ایک تصویر میں دارا شکوہ بابا لال بیراگی کے ساتھ ہے۔ بنیون (Binyon) نے بابا لال کے تعلق سے چند باتیں بھی تحریر کی ہیں۔ انھیں ایک عالم ہندو کہا ہے، بتایا ہے کہ وہ کہاں رہتے تھے، دونوں نے گفتگو کب کی (۱۶۴۹ئ)۔ ایک دوسری تصویر بھی ہے کہ جس میں بابا لال ہندوستان کے بارہ بزرگ سنتوں کے ساتھ ہیں۔ ان میں پیر مہاچندر، کبیر، اوگھڑ، کمل، نامدیو، گورکھ جسدرد، پیر پنتھ سوامی وغیرہ نظر آتے ہیں۔ پرسی براؤن (Percy Brown) کے مرتب کیے ہوئے مغل تصویروں کے البم "India Painting under the Mughals میں ایک پلیٹ ہے جس میں دارا شکوہ اور بابا لال تبادلۂ خیال کرتے نظر آرہے ہیں۔
’جوگ شست‘ اور ’مکالماتِ دارا شکوہ و بابا لال‘ دونوں کتابوں سے محمد دارا شکوہ کے بنیادی صوفیانہ رجحان کی بہت حد تک پہچان ہوتی ہے۔ بڑے صوفیوں کا بنیادی مزاج یہی رہا ہے کہ دوسرے مذاہب اور عقائد کی قدر و قیمت کو سمجھنا چاہیے کہ مذاہب کی روح کی روشنی سے انسان اور انسان کے باہمی رشتوں کی پہچان کس حد تک ہوتی ہے۔ دارا شکوہ نے اس بڑے ملک میں رہتے ہوئے اس ملک کے پھیلے ہوئے مذہب سے گہری دلچسپی لینا شروع کی۔ انھیں سمجھنے کے لیے ’جوگ شست‘ کا ترجمہ کرایا، پھر ’مکالمات‘ کو ضروری جانا۔ اس کے بعد اُپنشدوں کا ترجمہ کیا۔
سعدی شیرازیؒ کا ایک شعر ہے:
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ از آفرینش زیک جوہر اند
یعنی تمام انسان جسم کے اعضا کی طرح ہیں اس لیے کہ اپنے وجود کے لمحے سے ان کا جوہر ایک ہے، ابتدا سے ان کا جوہر ایک ہے۔
یہ خیال صوفیوں کے بنیادی امتیازی رجحان کی رُوح ہے۔ لگتا ہے جیسے اس شعر کا جوہر ’صوفی ازم‘ میں جذب ہو گیا ہو۔
شخصیت کے داخلی ارتقا میں ایسے خیالات کی روشنی کو شدّت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں صوفیوں کے عمل اور ردِّ عمل میں ایسے ہی جوہر کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ شخصیت کے داخلی ارتقا کا اثر جہاں سماجی زندگی پر ہوا ہے وہاں تخلیقی عوامل پر بھی ہوا ہے۔ برِّصغیر کے عہد وسطیٰ میں ذات سے اوپر مختلف عقائد، قبائلی اور قدیم خیالات اور مختلف مذاہب سے اختلافات سے اوپر اس بنیادی امتیازی رجحان نے کام کرنا شروع کر دیا۔
ہندوستان میں کئی نسلوں اور کئی مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ بولیاں اور زبانیں بھی مختلف ہیں، ہندوستانی سماج ہمیشہ مختلف حصوں میں منقسم رہا ہے۔ صوفیوں کا ایک بڑا یا کہیے کہ سب سے بڑا مقصد یہ رہا کہ اس میں وحدت کی تلاش کی جائے اور کثرت میں وحدت پید کی جائے۔ صوفی اللہ والے تھے، اللہ کے بندوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے لیے کثرت میں وحدت پیدا کرنے کی کوشش انسانیت کی سب سے بڑی خدمت تھی۔ ’ہیومنزم‘ کا تقاضا تھا کہ اختلافات کم سے کم ہوں۔ محبت، ایثار اور قومی وحدت کے لیے قربانی دینے کا جذبہ زیادہ بڑھے۔ صوفی چاہتے تھے کہ قوتِ برداشت (Tolerance) بڑھے، ہمدردی اور محبت کو فروغ حاصل ہو، انسان کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ مسرتیں حاصل ہوتی رہیں۔ تصادم اور کشاکش اور کشمکش کی فضا قائم نہ رہے، وہ ایک بہت ہی صحت مند سماج کا خواب دیکھ رہے تھے اور اسی سمت آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت کلیم الدین دہلویؒ نے ۱۷۲۹ء میں کہا تھا کہ صوفی کا دل ہر دم اللہ اور انسان کی جانب رہتا ہے۔ بظاہر یہ دونوں الگ ہیں لیکن بنیادی طور پر ایک ہیں۔ صوفیوں کی تعلیمات میں آزادانہ محبت، اللہ سے محبت، انسان سے محبت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ان کے خیالات و تصورات کا سرچشمہ قرآن حکیم ہے۔ اس مقدس کتاب کے بنیادی فلسفوں اور معنی خیز تعلیمی اور علمی روشن اشاروں اور کرنوں کو خوب سمجھتے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیمات ہی سے سرشار ہو کر صوفیوں نے ’ہیومنزم‘ اور انسان اور انسان کے باہمی رشتوں کو سمجھایا۔ ایک پھیلے ہوئے اور طبقوں میں بٹے ہوئے سماج میں ہر سطح پر عمدہ وحدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ برِّصغیر اور پورے جنوبی ایشیا میں صوفیوں نے قرآن حکیم کے احکامات کو سمجھتے ہوئے کثرت میں خوبصورت وحدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی اور قربان بھی ہوئے۔ برِّصغیر میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ عمدہ رشتہ پیدا کیا۔ کسی کا شعر ہے:
یگانہ بودن و یکتا شدن زچشم آموز
کہ ہردو چشم جدا و جدا نمی نگرند!
یعنی اپنی آنکھوں سے سیکھو اکائی اور وحدت کیا ہے۔ دیکھنے میں دونوں آنکھیں علاحدہ دِکھائی دیتی ہیں لیکن ان کی نظر ایک ہے۔ یہ برِّصغیر کی دو بڑی قوتوں کے لیے بڑا سچا پیغام ہے۔ صوفی چاہتے تھے کہ دونوں قومیں زندگی اور سماج کی بہتر قدروں مثلاً قوتِ برداشت، ہمدردی اور اعتماد اور محبت کو عزیز تر بنائیں۔ حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ اکثر حضرت شیخ ابوسعید ابو الخیرؒ (۱۰۴۹ھ) کی اس بات کا ذکر کرتے تھے کہ اللہ تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ سب سے چھوٹا اور مختصر راستہ انسان کے دلوں تک پہنچنے کا ہے۔ میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے وہ اسی راہ سے حاصل کیا ہے۔ میرا مشورہ ہے تم بھی اسی راہ پر چلو۔ غور کریں تو یہ بات شدت سے محسوس ہو گی کہ مسلمان صوفیوں نے ’وحدت الوجود‘ کو اہمیت دیتے ہوئے یعنی اللہ کی ذات میں جذب ہو جانے کا مطلب معراجِ انسانی ہے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ’ہیومنزم‘ اور انسان سے محبت معراجِ زندگی ہے۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کا یہ قول یاد آ رہا ہے کہ کسی کو کافر، کسی کو گنہگار، کسی کو کٹر مذہبی، کسی کو سیدھی راہ پر چلنے والا، کسی کو مسلمان، کسی کو پاکباز، کسی کو آتش پرست کیوں کہیں؟ یہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ ساری زمین اللہ کی زمین ہے۔ کسی زمین کو دار الحرب اور کسی کو دار السلام کیوں کہیں؟
سماجی نقطۂ نظر سے ’ہیومنزم‘ کا ایسا معیار دنیا کی تاریخ میں شاید ہی ملے۔ ’ہیومنزم‘ کے اس معیار سے شخصیت کے اندرونی ارتقا اور ذہن کی پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس معیار کی عظمت کی پہچان ہوتی ہے۔ سماجی اور تخلیقی عمل میں مسلمان صوفیوں کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ عہد وسطیٰ کے ہندوستان میں سماجی اور تہذیبی زندگی میں اسے ایک اندرونی انقلاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کتنی نسلوں، مذہبوں اور دھرموں کے لوگوں سے آباد ہے، مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں، سماجی زندگی منقسم تھی، صوفیوں نے اپنے پاکیزہ افکار و خیالات سے ان میں وحدت اور تنظیم پیدا کی کہ جس کی بڑی تاریخی اہمیت ہے۔
آج بھی مختلف قوموں اور نسلوں میں جو ہم آہنگی نظر آتی ہے اور متحدہ قومی وحدت کی تصویر دِکھائی دیتی ہے اس کے پیچھے صوفیوں کے کردار اور عمل کو یقیناً بڑی اہمیت حاصل ہے۔
تمدنی سطح پر ہندو مسلم مکالمے ہوتے رہے، بارہویں صدی سے چودھویں صدی تک مسلمان صوفیوں اور بھگتوں، سنتوں اور ناتھوں کے ساتھ گفتگو کا ایک سلسلہ ملتا ہے۔ ویدانت اور قرآن پاک کے ارشادات کی مماثلت کو بھی موضوع بناتے رہے۔ پندرہویں صدی تک کئی علاقوں میں مشترکہ تمدن کے جو نقش اُبھر رہے تھے انھیں ایسے مکالموں سے بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ کشمیر، پنجاب، سندھ، بنگال، گجرات اور دکن میں جو مشترکہ تمدن کے جو خوبصورت جلوے نظر آئے ان کے پس پشت صوفیوں اور سنت بھگتوں کا متحرک وجود اور ان کے آزادانہ خیالات کی بڑی اہمیت ہے۔ دہلی کے سلطان مغل، دکن کے محمد محمد قلی شاہ، کشمیر کے سلطان زین العابدین اور جونپور کے ابراہیم شرقی وغیرہ کو بھی بڑی مدد ملی۔ جذباتی رشتوں اور سماجی اور سیاسی وحدت کی بہت واضح تصویر اُبھر کر سامنے آئی۔ شہنشاہ اکبر کے دور میں تو قومی وحدت کا ایک بہت ہی عمدہ تصور اُبھر کر سامنے آ گیا۔ اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور محمد دارا شکوہ سب فکری اور سماجی، سیاسی سطح پر قومی وحدت اور جذباتی ہم آہنگی کو اہمیت دیتے رہے۔ تاریخی سچائیوں کو ایمانداری سے ٹٹولا جائے تو صوفیوں اور سنت بھگتوں کے بڑے کارناموں کی قدر و قیمت کا یقیناً بخوبی اندازہ ہو گا۔
صوفیوں نے بستی بستی گاؤں گاؤں جا کر محبت اور انسان اور انسان کے خوبصورت رشتے کا پیغام دیا۔ مقامی قصوں کہانیوں کو ذریعۂ اظہار بنایا، ان کے ذریعے عمدہ قدروں کا درس دیا۔ مقامی مقبول خیالات اور تصورات کو ذریعہ بنا کر لوگوں کے دلوں میں اُترنے کی کوشش کی۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ انھوں نے مقامی مذہبی تصورات اور مقامی بولیوں اور زبانوں کا سہارا لیا۔
ہندو مسلمانوں کی قربت کی تصویریں بزرگوں کے مزاروں اور درگاہوں میں نظر آنے لگیں۔ لاکھوں عقیدت مند وہاں پہنچنے لگے۔ (آج بھی وہی عالم ہے) صوفیوں نے طبقاتی زندگی کی مخالفت کی، سب ایک جیسے ہیں، سب اللہ کے بندے ہیں، یہی ان کا بنیادی پیغام تھا۔
ہمیں اس بات کا علم ہے کہ بھگتی کا ایک بڑا دبستان اُبھرا، کبیر، نانک، دادو، چیتنیہ اور جانے کتنے بھگت محبت کا پیغام لیے آئے، ایسے جانے کتنے بھگت تھے جو صوفیوں کے پیغام سے بے حد متاثر تھے اور ان کی خانقاہوں میں قیام اکثر پسند کرتے تھے۔ بھگتوں کی سب سے بڑی تعلیم یہ تھی کہ ذات پات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سب ایک ہیں، سب ایک جیسے ہیں۔ بھگتی تحریک سے ’صوفی ازم‘ کے بنیادی خیالات اور رجحانات کو بڑی تقویت ملی۔ بھگتی تحریک سے وابستہ سنتوں نے فارسی زبان و ادب اور تصورات و خیالات کے گہرے اثرات قبول کیے تھے۔ کبیر پر حضرت سعدیؔ (گلستاں اور بوستاں)، حضرت خواجہ فریدالدین عطار کے ’پند نامہ‘ اور مثنوی مولانائے روم کے گہرے اثرات ہوئے تھے۔ کبیر اور نانک کے کلام میں فارسی اور عربی الفاظ کی کمی نہیں ہے۔
بھگتوں کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں میں مشترکہ تمدن کے نقوش واضح ہونے لگے۔ کشمیر، پنجاب، سندھ، بنگال، گجرات، دکن ایسے علاقے تھے کہ جہاں برِّصغیر میں ایک صحت مند سماج کی اہمیت اور ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ ایک صحت مند سماج کی تشکیل میں محبت، اعتماد، قوتِ برداشت، ہمدردی، قوموں اور نسلوں میں مختلف سطحوں پر ہم آہنگی ہی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ تیرہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک بھگتی تحریک نے اس سچائی کو شدت سے محسوس کیا تب ہی تو رامانند، وِدّیاپتی، کبیر، تلسی داس، سور داس، رحیم، نامدیو، چیتنیہ، دادو، میرا بائی، گرو نانک، گرو ارجن سنگھ، بابا بلہے شاہ، شاہ عبداللطیف جیسی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ یہ اور ان جیسی کتنی ہستیاں مختلف علاقوں میں مقامی بولیوں اور زبانوں کے ساتھ عوام کی ’سائیکی‘ میں اُتر گئیں۔ آج بھی ان کے الفاظ، ان کی آوازیں، آوازوں کا آہنگ، بولوں اور گیتوں اور نغموں کے ارتعاشات زندہ ہیں۔ کھڑی بولی ہو یا اودھی، بھوجپوری ہو یا پنجابی، گجراتی ہو یا سندھی، مراٹھی ہو یا کشمیری، میتھلی ہو یا راجستھانی، اُڑیا ہو یا بنگلہ یا آسامی بھگتوں کی آوازیں اور اُن کے دل میں اُتر جانے والے نغمے کہاں نہیں ہیں۔ ان بھگتوں میں سب بہت سے ایسے ہیں کہ جنھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جذباتی نفسیاتی اور روحانی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور ملک کی اُس تاریخ کا مستقل عنوان بن گئے جسے تحریر کرنے کی پر خلوص کوشش اب تک نہیں ہوئی۔ یہ وہ بھگت اور سنت تھے کہ جنھوں نے غریبوں، اَن پڑھ لوگوں، کسانوں ، کاریگروں اور معماروں کی ’سائیکی‘ میں ہلچل سی پیدا کر دی، ان کے دلوں میں پیار اور محبت اور انسان دوستی کے چراغ روشن کیے۔ برداشت کرنے کی قوت عطا کی، آپس کے اعتمادکو پختہ کیا۔ صوفیوں اور بھگتوں کی وجہ سے قوموں اور نسلوں کے درمیان جو ہم آہنگی پیدا ہوئی اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ یہی وہ لوگ تھے کہ جنھوں نے متحدہ قومی وحدت کی بنیاد مضبوط کی۔ میں نے کہیں لکھا تھا کہ برِّصغیر میں ایک خوبصورت زندگی اور ایک خوبصورت مستقبل کا ایسا ’منتر‘ کبھی پھونکا نہ گیا تھا کہ جس کے ارتعاشات (Vibrations) آج تک قائم ہیں اور ان ارتعاشات سے ہر دم مست مست آہنگ پھوٹتا رہتا ہے۔ ان بزرگوں نے لوگوں کے دل و دماغ میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا جو برِّصغیر کے شاندار خوبصورت مستقبل کا ضامن آج بھی بن سکتا ہے۔
شہزادہ دارا شکوہ نے وہی کیا نا جو شہزادہ سدھارتھ نے کیا تھا۔ دل کی آنکھیں کھول دیں!
دارا شکوہ نے اپنی کتاب ’سفینۃ الاولیا‘ میں حضرت شیخ علی ہجویری داتاگنجؒ کا خوب ذکر کیا ہے۔ نکولسن (R.N. Nicholson) کے مطابق حضرت داتا گنجؒ کی پیدائش غزنا میں دسویں صدی کے آخر یا گیارہویں صدی کی ابتدا میں ہوئی تھی۔ دارا شکوہ کے مطابق اجلابی الہجویری اشارہ ہے غزنا کے دو شہروں کی جانب جلاب اور ہجویر!
حضرت شیخ علی ہجویری داتاگنجؒ نے ابتداء سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور ایک بہت اہم قلم کار بن گئے۔ تصوف پر بھی خوب اظہارِ خیال کیا۔ شاعر بھی تھے، تحریر کیا ہے کہ ان کی بیاض چوری ہو گئی، اس کی کوئی نقل اُن کے پاس نہیں تھی۔ الہجویری فارسی زبان کے وہ پہلے مصنف ہیں کہ جنھوں نے تصوف اور صوفیوں پر ایک مفصل کتاب تحریر کی۔ تصوف کی تاریخ لکھی، تصورات بیان کیے اور چوہتر نامور صوفیوں کی سوانح حیات تاریخی ترتیب سے پیش کی۔ اس کتاب کے اثرات بہت گہرے ہوئے۔ آئندہ صوفیوں کی سوانح حیات لکھنے والوں نے ان کی تصنیف کا اثر قبول کیا ہے۔ حضرت عطارؒ کی حیات لکھنے والوں نے ان کی تصنیف کا اثر قبول کیا ہے۔ حضرت عطارؒ کی تصنیف ’تذکرات الاولیا‘ پر بھی ان کے پیش کیے ہوئے واقعات کے اثرات ہوئے ہیں۔
حضرت شیخ علی ہجویریؒ نے علم کی تلاش میں جانے کہاں کہاں کا سفر کیا۔ بخارا، بغداد، طُس، دمشق، فرغانہ، ترکستان، لاہور۔ ان کی خودنوشت سوانح حیات میں جہاں ایک صوفی کے ذاتی تجربے ہیں وہاں کچھ حیرت انگیز فوق الفطری واقعات بھی ہیں۔ مثلاً ایک واقعہ کا بیان اس طرح ہے:
’’اپنی عادت کے مطابق حضرت شیخ ابو سعدؒ کے مزار کے پاس خاموش بیٹھا تھا کہ ایک سفید کبوتر پر نظر پڑی جو ایک کپڑے میں لپٹا ہوا تھا، چہرہ چھپا ہوا تھا،مجھے لگا کسی نے اسے پکڑ رکھا ہو گا، چھوٹ کر اِدھر آ گیا ہو گا۔ جب میں نے کپڑا اُٹھایا تو اس کے اندر کچھ بھی نظر نہ آیا۔ دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا اور تیسرے دن بھی۔ ایک شب خواب میں دیکھا حضرت شیخ ابو سعدؒ تشریف فرما ہیں۔ میں نے انھیں اپنا تجربہ بیان کیا تو انھوں نے جواب دیا: کبوتر میرا اپنا اچھا کردار ہے۔ روز آتا ہے اور میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔‘‘
حضرت الہجویریؒ نے اپنے کئی پراسرار خوابوں کا ذکر کیا ہے، ان میں ایک خواب کا تعلق امام ابو حنیفہؒ سے ہے۔ وہ ’کرامات‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ کراماتِ صوفیا کا بار بار ذکر آتا ہے، اکثر جن صوفیوں سے وہ ملے ہیں اُن کی کرامات بھی دیکھی ہیں۔ فرغانہ میں انھوں نے حضرت شیخ باب عمرؒ کا نیاز بھی حاصل کیا تھا۔ کہتے ہیں وہ بہت بڑے عالم صوفی ہیں۔ کہتے ہیں وہ دُنیا کے چار کہاروں میں سب سے بڑے کہار ہیں۔ حضرت الہجویریؒ کہتے ہیں، انھوں نے بعض بڑے صوفیائے کرام سے روحانی سطح پر گفتگو کی۔ ایک خواب میں وہ حضرت منصور الحلاج کی تحریر شدہ ’مناجات‘ کے طلبگار بھی نظر آتے ہیں۔
اُن کے خوابوں، اُن کے سفر اور آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے معجزات اور کرامات اور کئی پراسرار باتوں سے ان کی گہری تہہ دار شخصیت خود ایک کرامت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
یہ کوئی پراسرار خواب نہیں ہے، حضرت ہجویریؒ نے ایک پراسرار سچے واقعے کا ذکر کیا ہے۔ طوس پہنچنے پر ان کی دلی خواہش ہوئی کہ اُس دور کے بہت ہی بڑے صوفی حضرت امام القاسم الگورگانیؒ کا نیاز حاصل کریں،ملاقات ہو تو اپنے چند سوالات اُن کے سامنے رکھیں اور جواب پانے کی خواہش کا اظہار کریں۔ اس وقت حضرت ابوالقاسم گورگانیؒ مسجد میں تھے، وہاں پہنچتے ہی انھیں لگا جیسے اُن کے دل میں جو سوالات تھے وہ حضور کے سامنے پہلے سے رکھ دیئے گئے ہیں۔ مسجد کے اندر قدم رکھتے ہی ایک ایک سوال کا جواب ملتا رہا، حضور خاموش تھے، آواز گونج رہی تھی۔ حضرت ہجویریؒ بہت پریشان ہوئے۔ ابھی انھوں نے سوالات کیے بھی نہ تھے اور حضرت خاموش بیٹھے ہیں اور جواب مل رہا ہے، آواز مسجد میں گونج رہی ہے۔ جب یہ سلسلہ بند ہوا تو حضرت ہجویریؒ نے حضور سے سوال کیا: ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ابھی میں نے سوالات کیے نہیں، آپ کی زبان بھی خاموش رہی اور مجھے میرے ہر سوال کا جواب ملتا رہا۔‘‘ حضرت گورگانیؒ نے اُن کی جانب دیکھا، کہا: ’’میرے بیٹے! اللہ نے مسجد کے ایک ستون کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ جواب دے اور تمھیں ہر اُس سوال کا جواب مل رہا تھا جو تمھارے دل میں تھا۔‘‘ حضرت ہجویریؒ حیران اور پریشان تھے۔ وہ اسے ایک بڑی کرامت اور ایک معجزہ سمجھ رہے تھے۔
حضرت ہجویریؒ نے تحریر کیا ہے کہ یہ دنیا حیرت انگیز طور پر ایسے اَن دیکھے، اَن سنے واقعات سے بھری ہوئی ہے، انسان اور انسان کے رشتوں میں محسوس اور نا محسوس طور پر ان کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ اللہ کسی کو کیا دیتا اور کس طریقے سے دیتا ہے ہم کب جانتے ہیں۔ اُن کا یہ خیال ہے کہ کشف کی کیفیت میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، اُن کی تخلیق ’کشف المحجوب‘ صوفیائے کرام کے لیے بھی ایک بڑا تحفہ ہے اور ہم سب کے لیے بھی۔
شہزادہ دارا شکوہ اکثر آپ کے مزار پر جاتا، فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموش گفتگو کرتا۔ اس نے تحریر کیا ہے کہ مزار شریف کے پاس چالیس رات عبادت کی جائے تو آرزو پوری ہوتی ہے۔ درگاہ کے اندر مزار پر بھی فارسی زبان میں لکھا ہوا ہے: ’’جو تیری چوکھٹ پر آجاتا ہے اس کی مراد پوری ہوتی ہے، مجھے مایوس واپس جانے نہ دو!‘‘
محمد اقبال بھی ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھے، ’اسرارِ خودی‘ میں ان کا ذکر بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔
۱۱۹۷ء میں اجمیر شریف جانے اور وہاں مستقل قیام کرنے سے قبل حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ حضرت شیخ علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے دربار میں حاضری دیتے رہے اور اس دربارِ عالیہ میں عبادت میں مصروف رہے۔
شہزادہ دارا شکوہ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت داتا گنج بخشؒ ہندوستان کے سب سے بڑے صوفی تھے۔ روحانی سطح پر ان کی اجازت کے بغیر کوئی صوفی اس دھرتی پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ اس بات میں بڑی صداقت ہے اس لیے کہ بہت سے صوفیائے کرام جو وسط ایشیائی ملکوں اور افغانستان وغیرہ سے آئے انھوں نے داتا کے دربار میں حاضری دی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اولیاؤں کی کئی نسلیں تیار ہو گئیں۔ ان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت بابا فریدؒ اور حضرت میاں میرؒ جیسی بلند دلنواز شخصیتیں بھی شامل ہیں، حضرت سلطان باہوؒ (۹۱-۱۶۳۱ء) اور بابا بلہے شاہ (۱۷۵۲-۱۶۸۰ء) نے اپنی شاعری میں ان کا ذکر کیا ہے۔
حضرت داتا گنج بخشؒ نے کہیں تحریر کیا ہے کہ درویش صوفی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک ’مقیمان‘ دوسرے ’مسافران‘، جو ’مقیمان‘ ہوتے ہیں وہ تلاش و جستجو کے بعد بھرپور تجربے حاصل کرنے کے بعد کسی ایک مقام پر ٹھہر جاتے ہیں اور اسی مقام کے ہو جاتے ہیں، تنہائی میں عبادت کرتے رہتے ہیں، خلوت‘ میں نورِ الٰہی کی دلنواز شعاعیں حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اپنے تجربوں کی روشنی میں مریدوں سے باتیں کرتے ہیں اور اپنے علم کی روشنی عطا کرتے ہیں۔ جو ’مسافران‘ ہوتے ہیں وہ مسلسل سفر کرتے رہتے ہیں، دنیا سے بے خبر اللہ کی یاد میں مگن رہتے ہیں۔ مسلسل سفر کرتے ہوئے انھیں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت کے سائے میں روحانیت کی راہ پر مسلسل چلتے جا رہے ہیں۔ بزرگوں سے ملتے ہیں، اُن کے مزاروں کے پاس بیٹھتے رہتے ہیں، عبادت کرتے رہتے ہیں۔ برسوں برسوں خود حضرت داتا گنج بخشؒ ایک مسافر تھے، جانے کتنے برس بعد سفر ختم ہوا اور وہ لاہور میں مقیم ہوئے۔ حضرت غریب نواز خواجہ معین الدین چشتیؒ بھی عرصہ تک مسافر تھے، کئی برس سمرقند اور بخارا میں رہے جہاں انھوں نے گہرائی میں اُتر کر مذہبی موضوعات کا مطالعہ کیا۔ نیشاپور کے قریب ایک مقام تھا ہاروان، وہاں قیام کیا۔ یہی وہ مقام کہ جہاں وہ اُس دور کے معروف چشتی شیخ حضرت شیخ ہاروانی کے مرید ہوئے اور بیس برس تک حضرت شیخ کی خدمت کی، علم حاصل کیا، مادّی اور رُوحانی سچائیوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ رُوحانیت کے منازل نے ذہن کو روشن کیا۔ انھیں دو تحفے ملے ایک خرقہ دوسرا ایک عدد ٹاٹ کی جائے نماز۔ انھوں نے ان تحفوں کو آنکھوں سے لگایا سینے سے لگایا اور سفر کرنا شروع کر دیا۔ بغداد پہنچے، قیاس ہے کہ وہاں حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کا نیاز بھی حاصل کیا۔ حضرت ایران بھی تشریف لے گئے، افغانستان کا بھی سفر کیا وسط ایشیا کے ممالک میں تلاشِ حق میں سفر کرتے رہے۔ بہت سے علمائے کرام اور صوفیائے کرام کے مزاروں پر گئے،وسط ایشیا اور دوسرے کئی ملکوں کی خانقاہوں کو دیکھا۔ انھوں نے اپنا سفر لکھا نہیں اس لیے ہم ان کے بہت سے تجربوں سے محروم ہیں۔ جب غزنا پہنچے تو قیام کے دِنوں میں ایک شب رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا، خواب میں کیا دیکھا معلوم نہیں لیکن ہوا یہ کہ وہ ہندوستان کے لیے روانہ ہو گئے۔
اجمیر میں قیام کیا، بس گئے اجمیر میں، بس گئے پورے ملک کے لوگوں کے دل میں!حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتیؒ حضرت بایزید بسطامیؒ کی اس بات کو مانتے تھے کہ صوفی کا دل سمندر کی طرح وسیع اور گہرا ہونا چاہیے۔ اس میں دیتے رہنے اور عطا کرتے رہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے، آفتاب کی مانند روشن دماغ اور زمین کی طرح اپنائیت ہونی چاہیے۔
دیکھتے ہی دیکھتے اجمیر شریف نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے لوگوں کے دلوں کو خود سے جوڑنا شروع کر دیا--- اور آج اس کی مرکزی حیثیت غیر معمولی نوعیت کی ہے۔
ہندوستان میں بڑے بڑے صوفی پیدا ہوئے، ان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے علاوہ حضرت قطب الدین بختیارکاکیؒ، بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ، حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ، حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلیؒ، حضرت بہاء الدین زکریاؒ، سیّد محمد گیسو درازؒ، حضرت شاہ عنایتؒ، حضرت شیخ سرمد شہیدؒ، حضرت شیخ رشی نورالدین نورانیؒ، شیخ علی ہجویریؒ اور ان کے اور دوسرے بہت سے صوفیوں کے مریدوں کی ایک دُنیا آباد ہے۔ ان تمام اور سینکڑوں ہزاروں صوفیائے کرام نے سماجی سطح پر ملک میں دلوں کو جوڑنے کا جو کام کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح انھوں نے عوامی بولیوں اور زبانوں میں اظہارِ خیال کرنے کا جو سلسلہ قائم کیا وہ غیر معمولی کام تھا، بولیاں اور زبانیں اُنھیں عوام کے مختلف طبقوں کے دلوں کے اندر لے گئیں۔ سچائیوں کو سمجھانے کی یہ بہت ہی نفسیاتی کوشش تھی، یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ صوفیوں نے جذباتی رشتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ کیا اور عمدہ اور پاکیزہ خیالات کے لیے انھیں ہر علاقے میں ضروری جانا۔ قومی ہم آہنگی کے ساتھ اُن کی گہری نظر جذباتی اور نفسیاتی ہم آہنگی پر رہی جس کے بہت عمدہ نتائج سامنے ہے،صوفیانہ گیتوں اور نغموں کا بھی سہارا لیا گیا۔ وحدت الوجود کا تصور سیال صورت میں لوگوں کے ذہن و شعور میں اُترنے لگا۔ اُپنشدوں میں اس تصور کی ابتدائی صورت موجود تھی اس لیے لوگوں کو اس میں زیادہ کشش محسوس ہوئی، شہزادہ دارا شکوہ نے جب اُپنشدوں کا مطالعہ کیا تو اسے بھی اس سچائی کا احساس ہوا اور اُس نے اسلام اور ہندوازم کے مطالعے میں اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ کم و بیش ۵۰- ۵۲اُپنشدوں کے ترجمے میں دارا شکوہ کے ذہن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اس حقیقت پر غور کیجیے کہ جب تک صوفیائے کرام زندہ تھے مرکزِ نگاہ اور دل و جان بنے ہوئے تھے۔ انتقال کے بعد اُن کے مقبرے جو پورے برِّصغیر میں موجود ہیں مرکزِ نگاہ اور مرکزِ دل و جان بنے ہوئے ہیں! ہر قوم و ملت کے لوگ جب دیکھئے اُن کے آستانے پر موجود ہیں! سندھ ہو یا پنجاب، گجرات ہو یا دکن، بنگال ہو یا آسام، اڑیسہ ہو یا اتر پردیش اور بہار، آستانوں پر لوگوں کا ہجوم موجود رہتا ہے، برِّصغیر کے بعض علاقوں میں کہا جاتا ایک مقام پر کئی کئی ہزار صوفیاؤں کے آستانے ہیں۔ عقیدے کا یہ عالم دیکھئے کہ مزاروں کی مٹی تبرک بن گئی۔ کہا جاتا جب احمد شاہ ابدالی کا حملہ ہوا تو ایک ہندو حاکم نے سندھ کا سب سے بڑا تحفہ دیا۔ وہ تحفہ تھا اُس علاقے کے کئی صوفیوں کے مزاروں سے جمع کی ہوئی مٹی۔ تحفہ بوری بھر کے احمد شاہ ابدالی کو پیش کیا گیا اور اُس نے بخوشی اسے قبول کیا۔ کون فراموش کر سکتا ہے صوفیوں نے انصاف، محبت اور اعلیٰ اقدار کے تحفظ کے لیے کتنی بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔
حضرت شیخ سرمد شہیدؒ کو یاد کیجیے کہ دارا شکوہ کی حمایت میں کس طرح تن کر کھڑے ہو گئے، سر قلم کر کے اسے اُن کی ہتھیلی پر رکھ دیا گیا۔۱؎
------------------------------------------------
۱؎ مولانا ابوالکلام آزاد نے تحریر کیا ہے: ’’سرمد نے زندگی میں کلمہ لاالٰہ سے زیادہ نہیں پڑھا لیکن جب شہادت پائی تو لوگوں نے سنا کہ سر کشتہ سے تین بار الاّ اللہ کی صدا بلند ہوئی اور یہ بھی سنا گیا کہ سر مقتول نہ صرف کلمہ پڑھتا رہا بلکہ مصروف حمد بھی رہا۔
------------------------------------------------
شہزادہ دارا شکوہ تصوف اور اس کی جمالیات سے واقف تھا، اپنی کتابوں میں اس نے بعض صوفیوں سے اپنی واقفیت کا جس طرح اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود کتنی بلندیوں پر تھا۔ صوفیوں کے مزاروں آستانوں پر جاتا، فاتحہ پڑھتا، گھنٹوں گم سم بیٹھا رہتا، مزاروں آستانوں کی بہتر دیکھ بھال کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ حضرت غریب نواز معین الدین چشتیؒ سے اس کی خاص عقیدت تھی۔ اس کے والد نے اُن ہی کے دربار میں ایک بیٹے کے لیے دعا کی تھی اور وہ اجمیر شریف کے پاس ہی میں پیدا ہوا تھا۔ شاہِ جہاں نے ایک شاندار مسجد تعمیر کی، شاہ جہانی دروازہ بنوایا۔ دارا شکوہ درگاہِ عالیہ پر اکثر حاضری دیتا، تعمیری کام میں مدد کرتا۔ شہزادے کے سامنے تصوف کی ایک زندہ متحرک روایت تھی کہ جس کی بہت سے پہلوؤں اور جہتوں سے آشنا تھا۔ وہ خود بھی ایک صوفی تھا۔ آخر وقت تک ایک مسلمان صوفی رہا، اس پر جو الزامات عائد کیے گئے اس کے خلاف جو فتوے آئے وہ یقیناً غلط تھے، برِّصغیر کی تاریخ اور تہذیب اور پیشِ نظر حالات اور بڑے بڑے صوفیوں کے زاویۂ نگاہ، رجحانات اور عوامل کے پیشِ نظر اس نے اگر دوسرے مذاہب سے گہری دلچسپی لی، دوسرے مذاہب کی سچائی کو سمجھنا چاہیے، مختلف مذاہب کی روح کی روشنی سے انسان اور انسان کے باہمی رشتوں کو جاننے کی کوشش کی۔ ایک ہی مالک ہے، خالق ہے، کہ تصوف کی چھان بین دوسرے عقیدوں اور مذہبی تصورات میں تلاشی کرنے کی کوشش کی تو وہ کافر گردانا گیا، سیاسی مقصد کو مذہب اسلام سے وابستہ کر کے جو عمل کیا گیا وہ کتنا بڑا ظلم اور کتنی بڑی ناانصافی تھی۔ مذہب کے نام نہاد کٹرپن کا ایسا مظاہرہ کر کے برِّصغیر میں ٹریجڈی کا کیسا باب لکھا گیا کہ صدیوں بعد اب بھی جب اس باب کے تعلق سے سوچتے ہیں تو اس سے لہو ٹپکتا دِکھائی دیتا ہے۔
محمد دارا شکوہ کے سامنے تصوف کی ایک بڑی تابندہ روایت تھی، ہزاروں صوفی تھے کہ جن کی شخصیتیں سچی چاندی کی طرح آج بھی چمک رہی ہیں، شہنشاہ اکبر کے دربار کا وہ دلکش روشن پہلو تھا کہ جہاں مہابھارت، رامائن، لگھویوگ وسست، بھگوت پران، ارتھ وید اور جانے کتنی کتابوں کے فارسی ترجمے ہوئے تھے۔
اُس عہد کے سب سے بڑے ’ٹریجیڈی ہیرو‘ کا گناہ بس اتنا تھا کہ اس نے ’اُپنشدوں‘ کو فارسی ترجموں کی صورت میں پیش کیا۔ (’سرِّاکبر‘) اور ’مجمع البحرین‘ جیسی اہم کتاب تحریر کی، اسلام اور ہندوازم میں ایک ہی طرح کی سچائیوں کو تاش کرنے کی کوشش کی، سنسکرت کے عالم اُس کے قریب تھے، شہزادے سے ایسے لوگ وابستہ تھے جو علم کے قدر داں تھے۔ بس یہی قصور تھا! اس پر کفر کے کئی فتوے صادر کیے گئے، اسے ہاتھی پر بیٹھا کر گھمایا گیا، نقارہ بجا بجا کر اعلان کیا گیا کہ یہ کافر ہے۔علماء نے فتوے صادر کر دیے۱؎۔
------------------------------------------------
۱؎ محمد دارا شکوہ اپنے ایک شعر میں یہ کہتا ہے:
بہشت آں جا کہ ملائی نباشد
زمُلّا شور و غوغائی نباشد
یعنی بہشت وہ مقام ہے کہ جہاں کوئی مُلّا نہ ہو جہاں مُلّا کا شوروغا نہ ہو۔
اس کا ایک دوسرا شعر ہے:
جہاں خالی شود از شور مُلّا
زفتویٰ ہاش پروائی نباشد
یہ شعر بھی سنیے:
در آں شہرے کہ مُلّا خانۂ دارد
درآں جا ہیچ دانائی نباشد
یعنی جس شہر میں مُلا کا گھر ہو گا اس میں عقل کی کوئی بات نہیں ہوتی۔
------------------------------------------------
اور پھر اُسے قتل کر دیا گیا۔ سر تن سے جدا کر دیا گیا، سر طشت پر رکھ کر حد درجہ ضعیف باپ شاہِ جہاں کے سامنے رکھا گیا تاکہ باپ کا کلیجہ پھٹ جائے اور اس صوفی کے دھڑ کو مقبرۂ ہمایوں میں ایسی جگہ دفن کر دیا گیا کہ آج تک معلوم نہیں کہ کس مقام پر دفن کیا گیا۔ (میں جب بھی ہمایوں کے مقبرے پر گیا اپنے صوفی کے لیے فاتحہ ضرور پڑھی۔ اب بھی بعض بزرگوں کے نام پر فاتحہ پڑھتے ہوئے محمد دارا شکوہ کو فراموش نہیں کرتا)
محمد دارا شکوہ نے ۵۲ اُپنشدوں کا فارسی ترجمہ ۱۶۵۷ء میں مکمل کیا۔ قتل ہونے سے دو سال قبل!
اس کا بنیادی مقصد جہاں یہ تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی روحانی روایات میں یکسانیت اور قربت تلاش کرے وہاں یہ بھی تھا کہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ کشمیر میں اُس نے وحدت الوجود کا جو تیز آہنگ ہر جانب سنا تھا وہ دونوں قوموں کی رُوحانی روایات میں کیا اہمیت رکھتا ہے۔ اُپنشدوں کے دیباچے میں اس نے تحریر کیا ہے کہ جب یہ فقیر محمد دارا شکوہ ۱۶۴۰ء میں کشمیر گیا تو اس نے وحدت الوجود کا آہنگ ہر جانب سنا، خالق ایک ہے کی آواز وہاں کے لوگوں کے دل کی ہر دھڑکن میں سنائی دے رہی تھی جیسے عوام کی سوچ اور ان کے لہجے میں وحدانیت کا سُر سمایا ہوا تھا۔ اس فقیر کو بہت سی کتابیں پڑھنے کو مل گئیں کہ جن سے لوگوں کے اس پختہ خیال کو بھی سمجھنے میں آسانی ہوئی اور ساتھ ہی یہ بھی علم ہوا کہ ہم کئی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ کشمیر کے لوگوں کے مزاج اور رجحان کو اچھی طرح سمجھ لیا تو غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں اور دو مذہبوں کے عقیدوں میں قربت پیدا ہو سکتی ہے۔
دارا شکوہ نے کئی پنڈتوں اور ہندو عالموں کی مدد سے اُپنشدوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دیباچہ یا مقدمہ پڑھتے ہوئے دارا شکوہ کے خیالات سے اختلاف کرنے کی بڑی گنجائش ہے اور علماء نے اختلاف بھی کیا۔ اُسے ہندو کہا گیا، اس کی کئی باتوں کو کفر سے تعبیر کیا گیا، ایک نہیں کئی فتوے صادر ہوئے، آخری فتویٰ ایسا تھا جو اورنگ زیب کے دستخط کے بعد دارا شکوہ کے قتل کا دلخراش فرمان ثابت ہوا۔
ان ہی اُپنشدوں کے فارسی ترجمے (’سرِّ اکبر‘) نے محمد دارا شکوہ کو یوروپ کی ایک بڑی دانشورانہ سطح پر کھڑا کر دیا۔
فرانسیسی سیّاح برنیئر (Francis Bernier) اس فارسی ترجمے کو فرانس لے گیا۔ فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا لیکن یہ ترجمہ شائع نہ ہوا، پھر اس نے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔ اچانک اس کی شہرت ہوئی اور اس شدت سے بڑھی کہ دوسرے اور مفکرین بھی متوجہ ہوئے۔
ڈیپرین (Anquetil Duperron) کہ جس نے ’اوستا‘ (Avasta) کا ترجمہ کیا تھا۔ دارا شکوہ کے اُپنشدوں کے فارسی ترجمے لاطینی زبان میں کیے۔ یہ دو جلدوں میں ۱۸۰۲ء-۱۸۰۱ء میں شائع ہوئے۔ میکس مولر (Max Muller) نے اس بات کا ذکر Sacred Books of the East Series جلد اوّل میں کیا ہے۔
اس کے بعد فرانسیسی فلسفی وکٹر کوزن (Victor Cousin) (فرانسیسی فلسفی) نے ۱۶۷۱ء میں اس کا فرانسیسی ترجمہ پیش کیا۔ وکٹرکوزن نے ویدانت کی بہت تعریف کی، اُپنشدوں کے فلسفے کو بہت اہم اور معنی خیز بتایا۔ کہا یہ انسان کا ’عظیم فلسفہ‘ ہے۔ پھر تو اس کی مقبولیت خوب بڑھی۔
معروف جرمن فلسفی شیلنگ (Friedrich Von Schelling) (۱۸۵۴-۱۷۷۵ء) شوپنہار (Arther Schopenhauer) (۱۸۶۰ء-۱۷۸۸ء)، پال ڈیوسن (Paul Deussen) (۱۹۱۹ء-۱۸۵۴ئ) وغیرہ نے خوب ستائش کی۔ پھر تو یہ جرمنی سے نکل کر سارے یوروپ میں مقبول ہوئی۔
شوپنہار اُپنشدوں کا عاشق تھا۔ اُس کی معروف تصنیف The World As Will And Idea پڑھیے تو محسوس ہو گا کہ اس کے خیالات پر اُپنشد کا کتنا اثر ہوا ہے اور وہ اُپنشد کی کتنی گہرائیوں میں اُترا ہے۔ اُس نے کہا:
’’ہندوستان کے قدیم رشی منیوں کی سوچ کی گہرائیوں میں اُترتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہ میری زندگی کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے اور میری موت کے لیے بھی کتنی بڑی نعمت ثابت ہو گی۔‘‘
سرولیم جونس (Sir William Johns) (۹۴-۱۷۴۶ء) کہ جس نے کلکتے میں ۱۷۸۴ء میں ایشیاٹک سوسائٹی (Asiatic Society) قائم کی، کہا: ’’یہ بڑا کام بڑا شاہکار ہے!
ایک سرکاری محکمے کے تعلیمی پروگرام کے لیے مجھے ’رِگ وید‘ اور ’اُپنشد‘ پر کچھ لکھنے کو کہا گیا تو میں نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی جو ۱۱۹ صفحات پر مشتمل تھی ’رِگ وید اور اُپنشد کی روشنی‘!
یہ کتاب سری نگر کشمیر سے فروری ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی۔ اس میں اُپنشدوں کے حوالے سے جو باتیں کہی گئیں اُن سے اُن کی عظمت اور قدر و قیمت کا کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے۔ اُپنشدوں کے خیالات، مزاج اور رجحان کو سمجھنے میں اس کتاب سے چند باتیں پیش کر رہا ہوں تاکہ یہ بھی معلوم ہو سکے کہ شہزادہ دارا شکوہ نے انھیں کیوں اتنی اہمیت دی تھی۔ ’رِگ وید‘ سے اُپنشدوں کے دور تک فکر و نظر میں بڑی وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے اس لیے کہ سماجی تبدیلیاں ہوئی ہیں، زندگی میں پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں، ایک بڑے فلسفیانہ ذہن نے جنم لیا ہے۔
اُپنشدوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں قدیم ہندوستانی فکر کی تیز تر روشنی ہے، ان کے مطالعے سے قدیم فلسفۂ حیات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ قدیم فلسفۂ حیات کہ جس کی روشنی ہر زمانے میں ملتی رہی ہے۔
اُپنشدوں میں ایک جانب انسان کی فکر کی ایک بڑی دنیا آباد ہے، جیتا جاگتا ماضی ہے اور دوسری جانب ان میں وہ توانائی ہے کہ ہر عہد، ہر دَور میں ماضی کا رشتہ حال سے گہرا نظر آتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اُپنشدوں میں انسان کی آزادی کا ایک جامع تصوّر ملتا ہے۔ فکر کی آزادی ایک دلکش ماحول کی تشکیل کر سکتی ہے۔ استعاروں اور علامتوں کی مدد سے ذہنی اور فکری آزادی اور خالقِ کائنات اور انسان کے رشتے کو سمجھانے کی کوشش ملتی ہے۔
انسان کے باطنی اضطراب کے لیے آزادی اور رُوحانی آسودگی کی قدر و قیمت سمجھانے کی کوشش ملتی ہے۔ یہاں جو فلسفہ ہے وہ انسان کی نفسیات سے پیدا ہوا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اُپنشدوں کی تعداد ایک ایک سو آٹھ ہے، ان میں دس بہت اہم ہیں۔ خالقِ کائنات کے تعلق سے جتنے خیالات ملتے ہیں سب وحدانیت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ معبودِ حقیقی کے متعلق کہا گیا ہے:
’’وہ نیچے ہے، اوپر ہے، پیچھے ہے، سامنے ہے، دکھن میں ہے، اُتر میں ہے، سچ یہ ہے کہ وہ سب کچھ ہے۔‘‘
دوسری جگہ شاعرانہ انداز میں اس طرح سمجھایا گیا ہے:
’’آگ اس کے خوف سے جل اُٹھتی ہے اسی کے خوف سے سورج سے روشنی نکلنے لگتی ہے، اسی کا خوف ہے جس سے سورج آگ کا انگارہ بن جاتا ہے، اسی کے خوف سے اِندر، وایو، مایا سب کا عمل جاری رہتا ہے۔‘‘
یہ بھی ملاحظہ کیجیے:
’’اُسی کی ذات سے تمام سمندر دوڑ رہے ہیں، تمام پہاڑ اسی کی ذات سے نکلے ہیں، تمام چھوٹی بڑی ندیوں کا سرچشمہ وہی ہے، تمام پودوں، خوشبوؤں اور رسوں کا رشتہ اسی کی ذات سے ہے۔‘‘
معبودِ حقیقی کے احکام پر اس طرح غور کیا گیا ہے:
’’اُسی کے حکم سے سورج اور چاند ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہیں، اسی کے حکم سے جنت اور زمین ایک دوسرے سے علاحدہ ہیں، اسی کے حکم سے لمحے، گھنٹے، دن اور رات، مہینے، موسم، سال، سب الگ الگ کھڑے ہیں۔‘‘
’’وہ ہر شئے میں ہے، وہ ہر شئے کے دل کی دھڑکن ہے، ہر وہ شئے جو گھومتی ہے، سانس لیتی ہے، مسکراتی ہے، اُسے دل کے اندر چھپائے رہتی ہے۔‘‘
ایک خالق، ایک خدا کو اُپنشدوں میں مختلف انداز سے سمجھایا گیا ہے، خالقِ کائنات کو ’برہمن‘ کہا گیا ہے۔ ایک اُپنشد میں ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کسی بڑے مقصد میں دیوتاؤں کو شاندار کامیابی ہوئی تو انھوں نے سمجھا یہ کامیابی خود اُن کی توانائی اور محنت کا نتیجہ ہے۔ ’خالقِ کائنات‘ ان کے سامنے ظاہر ہوا تو دیوتا اسے پہچان نہ سکے، دیوتاؤں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے، تمام دیوتاؤں نے آگ اور ہوا کے دیوتاؤں سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور دریافت کریں کہ وہ کون ہے۔ ’برہمن‘ (خالقِ کائنات) نے دونوں دیوتاؤں کے سامنے گھاس پھوس رکھ دیئے اور کہا تم دونوں میں بڑی طاقت ہے نا، اپنی طاقت کا مظاہرہ تو کرو۔ پہلے اگنی دیوتا آگے بڑھا اور اس نے گھاس پھوس جلانے کی کوشش کی، کامیاب نہ ہوا۔ اس کے بعد ہوا کے دیوتا نے اپنی طاقت سے انھیں اُڑانا چاہا، اسے بھی کامیابی نہ ملی۔ دونوں بہت پریشان ہوئے، بھلا یہ کون ہستی ہے، سوچنے لگے۔ اسی وقت ’برہمن‘ غائب ہو گیا۔ سارے دیوتا حیرت زدہ رہ گئے۔ ’ہی ماوت‘ کی خوبصورت لڑکی اوما کی آواز سنائی دی۔ ’’وہ برہمن تھا، خالقِ کائنات تھا! دیوتاؤں کو کامیابی دینے والا وہی ہے، اسی کے حکم سے سب کچھ ہوتا ہے۔‘‘
اُپنشدوں کی ایسی تمثیلی کہانیوں سے ایک ’خالق‘ ایک ’برہم‘ اور معبودِ حقیقی کی پہچان ہوتی ہے۔ تمام دیوتا اس کی ذات میں جذب ہو جاتے ہیں۔ اُپنشدوں نے یہ سمجھایا ہے کہ معبودِ حقیقی نے یہ سب زمین، دُنیا، آسمان، پوری کائنات خلق نہیں کی بلکہ غور کرو تو وہ خود ہر شئے میں سمایا ہوا ہے۔ سب کے دل میں ہے!
ایک اور جگہ کہا گیا ہے:
’’وہ زمین کے اوپر چلتا ہے اور زمین کی رُوح میں ڈوب کر چلتا ہے۔ اُسے زمین نہیں جانتی۔ حالانکہ زمین اس کے جسم کا ایک حصہ ہے، وہی زمین کو اندر سے سنبھالتا ہے۔ اس کی گردش قائم رکھتا ہے۔ وہ تمھارا وجود ہے، وہ تمھاری خودی ہے، وہ تمھاری ذات ہے، وہی تمھارے داخلی توازن کا راز ہے۔ وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ وہ ابدی اور لافانی ہے۔‘‘
اُپنشدوں میں ایک خالقِ کائنات کو مختلف انداز سے سمجھایا گیا ہے، لافانی سچائی کہا گیا ہے۔ اسے توانائی کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔ محافظ اور عناصر کو تباہ کر دینے والا بتایا گیا ہے۔ ’عظیم تر روشنی‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اُپنشدوں میں ایک سوال اُبھرتا ہے ’’کس کی عبادت کی جائے؟‘‘
ایک جواب: جنت کی
دوسرا جواب: سورج کی
تیسرا جواب: ہوا کی
چوتھا جواب: فضاؤں کی
پانچواں جواب: پانی کی
سوال پھر اس طرح بن جاتا ہے: ’’اس طرح تو صرف نصف سچائی کی عبادت ہو گی۔ یہ سب تو ’برہمن‘ کے مختلف رُوپ ہیں، عبادت تو خالقِ کائنات کی ہو گی، معبودِ حقیقی کی ہو گی۔ لافانی سچائی، ابدی حقیقت کی عبادت!
اُپنشدوں میں ذہن کی گرہوں کو کھولتے رہنے کا ایک مسلسل عمل ملتا ہے۔ استعاروں اور تمثیلوں کے ذریعے باتوں کا ایک سلسلہ قائم ہے۔ کئی دعائیں ملتی ہیں، مثلاً ایک دعا یہ ہے:
’’ہمیں غیر حقیقی فضاؤں سے نکال کر
حقیقی فضاؤں میں لے آؤ۔
تاریکی سے روشنی تک رہنمائی کرو۔
موت سے ابدی اور لافانی زندگی تک راہ دِکھاؤ۔
سانس کبھی نہ ختم ہو جانے والی سانس بن جائے۔
اور اس کے بعد
جسم راکھ ہی کیوں نہ بن جائے۔‘‘
معبودِ حقیقی کا جلوہ ہر دل میں ہے، خدا ہر دل میں بیٹھا ہے، انسان کی روح میں اسی کی روشنی ہے اور اسی روشنی نے سبھوں کو ایک ہی رشتے میں باندھ رکھا ہے۔ ہندوستان کے یہ مقدس خیالات صدیوں صدیوں سے قیمتی دولت کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل تک آئے ہیں۔ انھیں ہم نے دل میں محفوظ رکھا ہے۔ ان خیالات کی سچائیاں زندہ ہیں۔ میکس مولر (Max Muller) نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ زندگی اور دُنیا کی سچائیاں پہلی بار کسی زبان میں پیش ہوئی ہیں۔ جرمنی کے معروف فلسفی شوپنہار نے اُپنشد کو صرف ہندوستان نہیں بلکہ پورے ایشیا کی زبردست روحانی قوت سمجھا تھا۔
اُپنشدوں میں ایک جگہ کہا گیا ہے:
’’وہ میری ذات ہے، میری خودی ہے، وہ میرے دل کے اندر ہے، چاول کے ایک ننھے دانے کی طرح، جوکے دانے کی مانند، سب سے چھوٹے بیج کی طرح۔
لیکن وہ میرے دل میں پھیلا ہوا بھی ہے۔
زمین سے زیادہ پھیلا ہوا۔
آسمان سے زیادہ پھیلا ہوا۔
جنت سے زیادہ پھیلا ہوا۔
اور تمام دُنیاؤں سے زیادہ پھیلا ہوا۔
اسی سے ہر عمل جاری ہے۔‘‘
غور فرمائیے اُپنشدوں کی مندرجہ ذیل دو مثالیں کتنی بلیغ اور معنی خیز ہیں:
’’درخت سے ایک پھل توڑ کر لاؤ۔‘‘ باپ نے کہا، بیٹا پھل لے آیا۔
’’اسے توڑ کر دیکھو اس میں کیا ہے؟‘‘ باپ نے بیٹے کو حکم دیا۔
’’اس میں بیج ہیں۔‘‘ بیٹے نے جواب دیا۔
’’ایک بیج توڑ کر دیکھو مجھے بتاؤ کیا دِکھائی دیتا ہے؟‘‘ باپ نے کہا۔
’’کچھ نہیں، کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔‘‘ بیٹے نے جواب دیا۔
پھر باپ نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا:
’’میرے بچے! وہ شے جو تم دیکھنے سے مجبور ہو وہی سچ ہے، سچائی ہے، اصل جوہر وہی ہے اس لیے کہ اسی سے اس درخت کا وجود قائم ہے۔‘‘
’’باپ نے کہا: ’’اس نمک کو پانی میں ملا دو۔‘‘
بچے نے نمک کو پانی میں گھول دیا۔ نمک پانی میں اچھی طرح گھل گیا۔ باپ نے کہا: ’’اب پانی پی کر بتاؤ کیا ہے؟ پہلے اوپر سے چکھو۔‘‘
بچے نے پانی پی کر کہا: ’’یہ نمکین ہے، نمک کی لذت ہے۔‘‘
’’درمیان سے چکھو۔‘‘ باپ نے کہا۔
پانی چکھ کر بچے نے کہا: ’’یہ بھی نمکین ہے۔‘‘
’’اب نیچے سے چکھو۔‘‘
بچے نے چکھ کر کہا: ’’یہ بھی نمکین ہے۔‘‘
باپ نے کہا: ’’پانی پھینک دو۔‘‘ بچے نے پانی پھینک دیا۔ لیکن نمک موجود تھا۔ باپ نے کہا: ’’میرے بچے! اس جسم میں بھی ’سچائی‘ اسی طرح رہتی ہے۔ اس سچائی کو تم دیکھ نہیں سکتے۔ وہ نمک کی طرح جسم میں گھل جاتی ہے۔ سچائی ہی جوہر ہے، یہی آتما ہے، یہی روح ہے، یہی برہمن ہے۔‘‘
اس مختصر سی گفتگو سے اندازہ ہو گا کہ اُپنشدوں کے اندر کتنی کہکشائیں، کتنے قوسِ قزح اور کتنے رنگ موجود ہیں۔
اُپنشد میں خالقِ کائنات کو لامحدود، ازلی، ناقابلِ ادراک، واجب الوجود خالق، قیوم، کائنات کی روشنی، تباہ کرنے والا، آقا، کہا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے، صرف وہی ہے قابلِ عبادت ہے۔ اُپنشد نے بتایا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ حقیقت کا اعلیٰ ترین عرفان حاصل کرے۔ اُپنشدوں کے مطابق وقت، آگ، غذا وغیرہ ’برہمن‘ کے مظاہر ہیں۔ خدا ہر شئے میں موجود ہے اور ہر قوت اسی سے نکلتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ جس طرح آفتاب سے کرنیں نکلتی ہیں اسی طرح دُنیا ’برہمن‘ سے نکلی ہے۔ تمام اشیاء و عناصر اسی کی دین ہیں، فنا ہونے کے بعد سب اسی میں چلے جاتے ہیں۔ اُپنشد نے خدا کو کائنات سے علاحدہ نہیں رکھا ہے، کہتا ہے وہ اسی کائنات میں جذب ہے۔
محمد دارا شکوہ کو ان باتوں نے یقیناً بے حد متاثر کیا ہو گا اس لیے کہ وہ وحدت الوجودی تصور پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے تحریر کیا ہے کہ اس نے توریت، انجیل، زبور اور فرقان کا مطالعہ کیا، ان میں توحید کا ذکر مختصر ہے،اُپنشد میں تصورِ وحدانیت بہت واضح ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن پاک میں ’کتابِ مکنون‘ کا جو ذکر ہے وہ اُپنشد کی جانب اشارہ ہے۔ (سورہ واقعہ 77-80:56) پوشیدہ کتاب اور تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اُتارا ہوا اسی کے تعلق سے کہا گیا ہے۔
پچھلے صفحات میں عرض کر چکا ہوں کہ ماہرین نے دارا شکوہ کے ترجمے ’سرِّ اکبر‘ کے اسلوب کی بہت تعریف کی ہے۔ فارسی ترجمہ بہت صاف اور واضح ہے۔ انتہائی سلیس اور بے داغ ہے۔ زبان کی سادگی کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلوب ایک صاف شفاف بہتی ہوئی ندی کی مانند ہے۔ دارا شکوہ کی اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اُس نے قرآن حکیم اور معبودِ حقیقی کا بہت ذکر کیا ہے۔ کہتا ہے جب فقیر ۱۰۵۰ھ میں کشمیر گیا، جو ایک جنتِ بے نظیر سے کم نہیں ہے، تو اسے ایسے بہت سے افراد ملے جو اللہ کی عبادت میں مصروف تھے، ایک خالق کی عبادت کرتے تھے، میں نے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں ایک معبود کے تصور کو پایا، بنارس کے پنڈتوں اور سنیاسیوں کی مدد لی، انھوں نے مشکل آسان کرنے کی کوشش کی۔
لکھتا ہے ’سرِّ اکبر‘ دراصل اس نے اپنے گھر والوں، اپنے بچوں اور دوستوں کے لیے تحریر کیا ہے۔ اب تک شہزادہ دارا شکوہ جو تصوف اور صوفیوں سے دلچسپی لے رہا تھا ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کو اپنے خیال اور تصور سے بہت قریب پانے لگا۔ حضرت مُلّا شاہؒ کی تعلیم و تربیت کا دائرہ کافی پھیلا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ دارا شکوہ نے ان کی نگرانی میں دوسرے مذاہب کی قدر و قیمت سے بھی آشنا ہوتا رہا تھا۔ اُپنشدوں کے ترجمے کے پس منظر میں اُن کی تعلیمات کو نظرانداز نہیں کر سکے۔ غور کرنے لگا کہ اسلام اور ہندوازم میں اکثر مقامات پر بڑی یکسانیت ہے۔ گہرائیوں میں اُتر جائیے تو دونوں ایک دوسرے سے بہت پاس پاس نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کی دوری کو دُور کرنا بھی تھا۔ عناصرِ زندگی، سیاروں کے چکر اور حواسِ خمسہ اور سب سے بڑھ کر ایک خدا کے تصور پر دونوں مذاہب میں کئی ملتے جلتے خیالات ہیں۔ اس بحث میں وہ بہت آگے نکل گیا، توازن قائم نہ رکھ سکا جس کی وجہ سے بہت سے علماء خفا ہو گئے۔ پھر جو نتیجہ سامنے آیا وہ معلوم ہے۔
تمام باتوں کے باوجود یہ کہنا درست ہے کہ اس نے ہندوازم قبول نہیں کیا تھا، وہ ہمیشہ مسلمان رہا اور قادری سلسلے سے وابستہ رہا، اسلام سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ سرمد شہیدؒ نے اس کی حمایت بھلا کیوں کی ہوتی جب وہ مسلمان نہ تھا۔ ان کی گردن ان کی ایک ہتھیلی پر رکھ دی گئی۔۱؎ وہ تو فقیر تھا، اسے زنجیروں سے باندھ کر گندے ہاتھی پر چڑھا دیا گیا اور پھر اسے بعض عالموں کے فتوے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا۔
بلاشبہ بنیادی طور پر یہ سیاسی قتل تھا۔
چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی سے خطرہ تھا۔
۳۰؍اگست ۱۶۵۹ء کا خون اس طرح ہوا کہ آج تک اس کے لہو کے قطرے ٹپکتے محسوس ہوتے ہیں۔
وہ تو ہندوستان میں ثقافتی تہذیبی ہم آہنگی کا امین تھا۔
ایک بڑا دانشور تھا!!
------------------------------------------------
۱؎ مولانا ابوالکلام آزاد نے تحریر کیا ہے: ’’یہ سرمد کے خون ہی کی نیرنگیاں تھیں کہ تمام مدت عالمگیر کو بھی راحت و اطمینان کے دن نصیب نہ ہوئے، یہاں تک کہ پیغامِ اجل بھی آیا تو عالم غربت و پریشانی میں۔ (حیاتِ سرمدؒ)
------------------------------------------------
محمد دارا شکوہ کی شخصیت ایک ایسے دانشور کی تھی کہ جسے اپنے ملک کی تاریخ اور تہذیب کے حسن کا عرفان حاصل ہوا تھا۔ دارا شکوہ ایک تیز اور عمدہ ذہن کا نام ہے کہ جو سچائی کے تجزیے پر یقین رکھتا تھا۔ یہ تجزیہ اپنی سطح پر تھا۔ اس سے اختلاف کی بڑی گنجائش موجود تھی۔ اس کی کوشش یہ رہی کہ فلسفیانہ اور مذہبی خیالات کو ایک بلند سطح پر لے جائے، اس کا مطالعہ وسیع اور گہرا تھا۔ موضوعات کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہوئے اُس نے خود کو ہمیشہ ایک طالب علم کی سطح پر رکھا۔ علماء سے سوالات کیے اور ان کے ہر جواب کی روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کی عمدہ مثال اُس دور کے معروف یوگی بھگت بابا لال اور دارا شکوہ کے ساتھ گفتگو سے مل سکتی ہے۔ دارا شکوہ کے سوالات میں کچھ جان لینے کی آرزو اور تڑپ ملتی ہے اور بابا لال کے ہر جواب میں سچائی کی کوئی نہ کوئی کرن موجود ہے۔ محمد دارا شکوہ کی شاعری اور اُس کے کارناموں کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کی پہچان ہو گی کہ وہ ایک صوفی کا ذہن رکھتا تھا، اُس کا اعتماد اس تصوف پر تھا کہ جس میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی مٹی کی خوشبو ملتی ہے، جس نے اس ملک کے لوگوں کو انسان اور زندگی سے عشق کا درس دیا، جس نے خالقِ کائنات اور اور مخلوقاتِ کائنات کے رشتوں کی قدر و قیمت سمجھائی۔ ایک جگہ کہتا ہے:
یک ذرّہ ندیدیم زخورشید جدا
ہر قطرۂ آب ہست عین دریا
ہم نے کسی ذرّے کو سورج سے علاحدہ نہیں دیکھا، سمندر کے پانی کا ہر قطرہ خود سمندر ہے، کوئی حق کو کس نام سے پکارے؟ ہر وہ نام کہ جو ہے یا جس کا وجود ہے اللہ کا نام ہے۔ (ہرنام کہ ہست، ہست از اسمائے خدا) اس کے دیوان میں ایسے جانے کتنے اشعار بھرے پڑے ہیں، دیوان میں صوفیانہ خیالات کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ وحدتِ جمال کے گہرے احساس و شعور ہی نے ’سرِّ اکبر‘ اور ’مجمع البحرین‘ کی تالیف پر اُکسایا۔ ’سرِّ اکبر‘ (اسرارِ عظیم) فارسی زبان میں اُپنشدوں کا ترجمہ ہے اور ’مجمع البحرین‘ (دو سمندروں کے ملنے کا مقام) ایک ہی سچائی کی جانب بڑھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے ملتے جلتے تجربوں کے پاس رہتے ہوئے دو بڑے مذاہب کے خیالات کی پہچان کی بہت حد تک کامیاب کوشش!
محمد دارا شکوہ نے ’مجمع البحرین‘ کے مقدمے میں اپنی تالیف کے بنیادی مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنیادی طور پر ہندو دھرم اور اسلام دونوں کا مقصد ایک ہی سچائی کو پانا ہے، ایک ہی سچائی کی جانب بڑھتا ہے، دونوں مذاہب یہ کہتے ہیں کہ خالق ایک ہے، اسے چاہے جس نام سے پکارو، وہی واحد حسن ہے، کائنات اس کے حسن کا آئینہ ہے۔ اس سلسلے میں ’سات مکالموں‘ میں اُس سوال پر نظر ڈالیے کہ جس میں محمد دارا شکوہ نے یہ پوچھا ہے ’’ہندوستان میں بت پرستی کی اہمیت کیا ہے؟‘‘ بابا لال نے جواب دیا ہے بت پرستی کے پورے عمل کا راز بس یہی ہے کہ دماغ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے، ذہن ایک مرکز پر مرکوز رہے، وہ لوگ جو خدا کی عبادت کی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں اُنھیں کسی ’صورت‘ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، اُن میں داخلی بیداری پیدا ہو جاتی ہے، خارجی صورت سے صرف اُن کا رشتہ رہتا ہے، جو باطنی طور پر بیدار نہیں ہوئے ہیں یا عبادت کرتے ہوئے بہت گہرائی تک جا نہیں سکتے۔ جس طرح بچیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں اور شادی کے بعد اُن سے دُور ہو جاتی ہیں، جو لوگ گیان پانے کی جدوجہد میں ہوتے ہیں اُنھیں کسی نہ کسی صورت پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’صورت‘ بس ایک ذریعہ یا ’میڈیم‘ ہے۔ ’مجمع البحرین‘ میں دارا شکوہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دراصل دارا شکوہ نے شدّت سے محسوس کیا تھا کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی محبتوں سے متاثر ہوتے رہے ہیں، ایک دوسرے کے تمدّن کا اثر قبول کرتے رہے ہیں، اس حد تک کہ دونوں کے کلچر کی آمیزشوں سے نئے نئے تجربے سامنے آتے رہے ہیں، زبان و علم، فلسفہ اور فنونِ لطیفہ کی تخلیق اور جینے کے طریقے سلیقے میں ساتھ رہے ہیں لیکن ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اپنے مذاہب سے، ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں حالانکہ دونوں کے مذاہب میں سچائی ایک ہی ہے، عمل کے طریقے مختلف ہیں۔ محمد دارا شکوہ نے ’مجمع البحرین‘ میں کئی موضوعات چھیڑے ہیں اور اپنی علمی سطح پر مماثلت اور یکسانیت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے خدا کے نام، خالقِ کائنات کی صفات، آواز (ناد، آوازِ مطلق) روح یا آتما، انسان اور حواسِ خمسہ، قیامت، سب کو موضوع بنایا ہے اور مماثلت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ صوفیوں نے اللہ کی دو صفات جمال اور جلال کا ذکر کیا ہے اور پوری کائنات میں ان صفات کو پایا ہے، خود انسان میں جلال و جمال کی صفات کی باتیں کی ہیں، ان دونوں صفات کے اندر جانے کتنی صفات ہیں، ان کی گنتی ممکن نہیں ہے۔ اللہ محافظ بھی ہے، یہ صفت ایسی ہے کہ جس سے انسان کو ہمیشہ نفسیاتی سہارا ملتا رہتا ہے۔ ہندوازم میں تین صفات کا ذکر ہے جسے ’تری گوتا‘ کہتے ہیں اور جس کی بنیادی ’شکتی‘ یا ’انرجی‘ ’تری دیوی‘ ہے۔ برہما، وشنو اور مہیشو۔ خالقِ کائنات کی تین صفات کے پیکر ہیں: خالق، محافظ اور جلال کا پیکر! جلال و جمال میں یہ تینوں صورتیں موجود ہیں۔ محمد دارا شکوہ نے کہا ہے کہ میں نے ’مجمع البحرین‘ میں دو بڑے سمندروں کے مقامِ وحدت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرا بنیادی مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہندو دھرم کے ماننے والے اور مسلمان دونوں سچائی کو جاننے اور پہچاننے والے ہیں، دونوں صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں، ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے رہے ہیں، اگر اپنے اپنے مذہب پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ سچائی کو پانے میں بھی دونوں بہت سے ظاہری اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے پاس ہیں۔ یہ بات بھی اُن کی فکر و نظر کے رشتوں کو مضبوط کرتی ہے اور مذہبی سطح پر بھی ایک دوسرے سے محبت کا سبق دیتی ہے۔ معاملہ عناصر اور حواس کا ہو یا نور اور آواز کا، زمین اور جہتوں کا ہو یا ’رویت اور قیامت کا، گہرائیوں میں اُتر جائیے تو دونوں مذاہب کی ایک دوسرے سے قربت کا زیادہ احساس ہو گا۔ دارا شکوہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سمندر کی طرح اللہ کا جوہر، حسن یا رس موجود ہے، یہ ساری روحیں، یہ سارے عناصر پانی کی مختلف صورتوں میں دِکھائی دیتے ہیں، یہ سمندر جب اندر گہرائیوں میں مضطرب ہوتا ہے تو خود کو کبھی موجوں میں تبدیل کر لیتا ہے کبھی بلبلوں میں اور کبھی قطروں میں:
دریاست وجود صرف ذاتِ وہاب
ارواح و نقوش ہمچو نقش اندر آب
بحریست کہ موج می زند اندر خود
گہ قطرہ گہ است موج گاہیست حباب
(دارا شکوہ)
وحدتِ جمال کا یہ تصور ہندوستان کے افکار و خیالات اور فنونِ لطیفہ کا انتہائی قدیم تصور ہے کہ جس کی تاریخ صدیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ صوفیوں نے ہندوستان کی سرزمین پر اس تصور کو لوگوں کے دلوں میں اُتارا ہے۔
’مجمع البحرین‘ ۱۰۶۵ھ کی تصنیف ہے۔ اس وقت شہزادہ دارا شکوہ کی عمر صرف بیالیس سال تھی۔ دیباچے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف اپنے گھر کے افراد کے لیے لکھی تھی تاکہ وہ اس کے اپنے نجی خیالات سے واقف ہو سکیں، لکھا ہے یہ کتاب عام لوگوں کے لیے نہیں ہے۔
اس کتاب میں بیس عنوانات قائم کیے ہیں، ان میں ’عناصر‘، ’حواس‘، ’مذہبی عمل‘، ’ہوا‘، ’چار دُنیا‘، ’آتش‘، ’روشنی‘، ’رویت‘، ’اللہ کے نام‘، ’آسمان‘، ’زمین‘، ’زمین کی تقسیم‘، ’برزخ‘، ’شب و روز‘ وغیرہ اہم ہیں۔
دارا شکوہ نے ’عناصر‘ کے تحت ’عنصرِ اعظم‘ (عرشِ اکبر) ہوا، آگ، پانی، گرد وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ ہندوستانی زبان میں انھیں ’پانچ بھوت‘ کہتے ہیں، یعنی آکاش، وایو، تیج، جل اور پرتھی۔ آکاش تین ہیں ’بھوت آکاش‘، ’مان آکاش‘ ، ’چھد آکاش‘۔ ’بھوت آکاش‘ کے دائرے میں تمام عناصر ہیں۔ ’مان آکاش‘ نے تمام وجود کو اپنے دائرے میں لے رکھا ہے اور ’چھد آکاش‘ کے بڑے دائرے میں سب ہیں۔ عشق اسی کی دین ہے، اسے مایا بھی کہتے ہیں۔ اسی عشق سے روحِ اعظم (جیوآتمن) نے جنم لیا۔ ہندوستانی زبان میں اسے ’ہرن گربھ‘ کہتے ہیں۔
دارا شکوہ نے ’حواس‘ کا ذکر کرتے ہوئے حواسِ خمسہ پر گفتگو کی ہے۔ سونگھنا، دیکھنا، سننا، چھونا، چکھنا کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانی لفظوں کی مدد سے اپنی سطح پر کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
’روح‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ’روح‘ تو عام ہوتی ہے، دوسری روحوں کی روح ہوتی ہے، ہندو انھیں آتما اور پرآتما کہتے ہیں۔
دارا شکوہ نے ’خالص ذات‘ اور ’جسدِ خاکی‘ پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ روحِ اعظم کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ایک جگہ لکھتا ہے کہ پانی اور موج کے رشتے سے جسم اور رُوح کے رشتے کو سمجھنا چاہیے۔ ’سریر‘ اور ’آتما‘ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ’ہوا‘ (باد) اور چار دُنیاؤں کا ذکر بھی موجود ہے۔ ناسوت (انسان کی مادّی زندگی) ملکوت (دِکھائی نہ دینے والی دُنیا)، جبروت (بلندیوں کی دُنیا) اور لاہوت (عالمِ الوہی) پر اظہارِ خیال کیا ہے اور ہندوؤں کے ملتے جلتے خیالات کی مثالیں دی ہیں۔ مثلاً جاگرت (ناسوت)، سوپن (ملکوت)، سکھوپن (جبروت)۔ کہا ہے کہ عالم ملکوت انسان کے ذہن سے بہت دُور ہے۔ دارا شکوہ نے اسی طرح آواز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ’کن‘ سے ابتدا کی ہے۔ ہندوؤں کی ’سرستی‘ (Sarasti) کو اس سے قریب محسوس کیا ہے۔ ’ناد‘ کی مختلف قسموں پر گفتگو کی ہے۔ ’روشنی‘ پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ جمال و جلال کا ذکر ملتا ہے۔
آخر میں شہزادہ دارا شکوہ کا یہ شعر پیش کرتا ہوں:
سلطنت سہل است خود را آشنائی فقر کن
قطرہ تادریا تواندشد چرا گوہر شود؟
سلطنت پا لینا آسان ہے، اپنے آپ کو فقر سے آشنا کر۔ قطرہ جب سمندر بن سکتا ہے تو وہ موتی کیوں بنے؟
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی اور اجازت عطا کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید