اخلاق محمد خان "شہریار" (16 جون 1936ء – 13 فروری 2012ء) ایک بھارتی ماہرتعلیم اور اردو شاعری کی مشہور شخصیت کے طور پر مقبول ہوئے تھے۔ بالی وڈ کے ایک نغمہ نگار کے طور پر وہ گمان (1978ء) اور امراؤ جان (1981ء میں بنی فلم) کے نغموں کے لیے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان فلموں کی ہدایت مظفر علی نے کی تھی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر کے طور پر وظیفہ یاب ہوئے اور اس کے بعد مشاعروں کی ایک پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ وہ مغنی تبسم کی معیت میں شعروحکمت (ششماہی) کی ادارت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ علی گڑھ میگزین ،خیروخبر اور فکرونظر کے مدیر تھے۔ وہ ہماری زبان کے شریک مدیر بھی رہے تھے۔[4]
شہریار کو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے خواب اور در بند ہے (1987ء) کے لیے اردو میں ایوارڈ ملا تھا۔ 2008ء میں انہیں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا جو بھارت میں اعلٰی ترین ادبی انعام ہے شہریار اسے حاصل کرنے والے چوتھے اردو شاعر تھے۔
شہریار اونالا، اتر پردیش میں ایک مسلم راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابو محمد خان ایک پولیس افسر کے طور پر متعین تھے، حالانکہ یہ خاندان بلندشہر ضلع کے چودیرا گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔بچپن کے زمانے میں شہریار ایک ایتھلیٹ بننا چاہتے تھے، تاہم ان کے والد پولیس کی ملازمت میں شامل کروانا چاہتے تھے۔ تبھی وہ شاعر خلیل الرحمن اعظمی کی رہنمائی میں گھر سے بھاگ گئے۔ فکر معاش کی تکمیل کے لیے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو فکشن پڑھانے لگے جہاں انہوں نے بعد میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ اس طرح تعملیمی مناہج کے حساب سے انہوں ں ے ابتدائی تعلیم بلندشہر میں حاصل کی جبکہ آگے تعلیم علی گڑھ میں مکمل کی۔
وہ علیگڑھ میں قیصر ولا کمپاؤنڈ سے ملحق فیصل ولا کے ایک حصے میں شہریار اور دوسرے میں مرزا خلیل احمد بیگ رہتے تھے۔
معاصرین کی رائے میں شہریار بلند قد، بھراہؤا بدن گیہواں رنگ، گول چہرہ، چوڑی پیشانی اور کھڑی ناک کی حامل شخصیت تھے۔
شہریار کو کھیلوں میں ہاکی سے جنون کی حد تک دلچسپی تھی۔
شہریار نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انجمن ترقی اردو کے ادبی معاون کے حیثیت سے کی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار کے طور پر شامل ہوئے۔ 1986ء میں وہ پروفیسر بنے۔ 1996ء میں وہ شعبہ اردو کے صدرنشین کے طور پر مستعفی ہوئے۔
شہریار کا پہلا مجموعہ کلام اسم اعظم 1965ء میں چھپا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ساتواں در 1969ء میں منظرعام پر آیا۔ اس کے بعد تیسرا مجموعہ ہجر کے موسم 1978ء میں جاری ہوا۔ ان کا شاہ کار خواب کے در بند ہیں 1987ء میں شائع ہوا جسے ساہتیہ اکیڈمی کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے علاوہ انہوں پانچ اور مجموعات کلام شائع کیے۔2008ء میں وہ چوتھے اردو ادیب بنے جنہیں گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل ہوا۔ اس سے یہ اعزاز فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری اور قرۃالعین حیدر کو حاصل ہوا تھا۔
ایک انٹرویو میں شہریار نے کہا تھا کہ 1965ء میں جب وہ کافی کلام جمع کر چکے تھے، انہوں نے شمس الرحمٰن فاروقی کو لکھا کہ وہ یا تو اپنے پیسوں سے اس مجموعے کو چھاپ سکتے ہیں یا شادی کرسکتے ہیں۔ اس پر فاروقی کا جواب یہ تھا کہ وہ اسے مجموعے کو چھپوائیں گے، جبکہ شہریار شادی کر سکتے ہیں۔
شہریار کے کلام خواب کا در بند ہے کا انگریزی ترجمہ The Gateway to Dream is Closed کے عنوان سے 1992ء میں شائع ہوا۔ ساہتیہ اکیڈمی نے اسی طرح Selected Poetry of Shahryar شائع کیا۔ دیوناگری ان کا پورا کلام منتقل ہوا۔ علاقائی تراجم کے ساتھ ساتھ بیشتر نظموں کے ترجمے فرانسیسی، روسی اور جرمیں زبانوں میں کیے گئے ہیں۔
شہریار نے چند فلموں کے لیے علی گڑھ ہی میں رہ کرنغمے لکھے تھے۔ مظفر علی اور شہریار زمانہ طالب علمی سے دوست تھے۔ شہریار اپنی غزلوں کو انہیں سنایا کرتے۔ جب علی نے گمن فلم سے ہدایتی سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے ان کی دو غزلوں سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اور عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یاروں کو اس فلم میں نغموں کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی تمام غزلیں جو فلم امراؤجان ادا میں شامل ہیں بالی وڈ کے بہترین نغمے مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے یش چوپڑا کے فاصلے کے لیے 1985ء میں لکھا تھا۔ اس کے بعد یش نے تین اور فلموں میں نغموں کی گزارش کی مگر شہریار یہ کہتے ہوئے منع کر دیے کہ وہ "نغموں کی دکان" نہیں بننا چاہتے۔ حالانکہ اس کے بعد وہ مظفر علی کی انجمن (1986ء) کے لیے لکھے۔ ان کا آخری فلمی نغمہ میرا نایر کی فلم دی نیم سیک (2006ء) تھی۔ ان کے ادھورے کاموں میں علی کی فلم زونی اور دامن تھے۔
شہریار کو ساہتیہ اکیڈمی، بہادرشاہ ظفر ایوارڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوارڈ، اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ، میرا اکیڈمی ایوارڈ، ساہتیہ منچ ایوارڈ جالندھر، ادبی سنگھم ایوارڈ، شرف الدین یحیٰی منیری ایوارڈ، فراق سمّان اور اقبال سمّان سے نوازا گیا تھا۔
اس کے علاوہ انہیں گیان پیٹھ اعزاز بھی حاصل ہوا۔
شہریار پر چار تحقیقی مقالے لکھے گئے۔
حیدرآباد یونیورسٹی کی جانب سے شہریار کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی تھی۔
سنیل پور یونیورسٹی، اڑیسہ کی جانب سے گنگادھر یادگار اعزاز برائے شاعری (Gangadhar Memorial Poetry Award) عطا کیا گیا تھا۔