09:42    , جمعہ   ,   17    مئی   ,   2024

محاورات

3989 1 0 10

( 1 ) اُبلا سُبلا،اُبالا سُبالا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اس لفظی ترکیب کا ایک ضروری جُز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور  بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے "الاَبُلَّا"، "اٹکل پچو"، "اَبے تبے"، "ٹال مٹول"، "کانچ کچُور" وغیرہ۔

"اُبلا سُبلا" ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں آتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا آرٹ گھی، تیل، بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور  لذیذ بنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی ) variety (ہو سکتی ہے، اُن سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ بھُنے چُنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے "اُبلا سُبلا" ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور  اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی آیا ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔ اس سے ہم اس گھریلو ماحول کا پتہ چلا سکتے ہیں جس میں ایک عورت کی کھانا پکانے کی صلاحیت کا گھر کے حالات کا ایک عکس موجود ہوتا ہے کہ اس کے ہاں تو۔ " اُبالا سُبالا"پکتا ہے۔

( 2 ) آبخورے بھرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

"آب خورہ" ایک طرح کی مٹی کے" فنجان نما" برتن کو کہتے ہیں جو کمہار کے چاک پر بنتا ہے اور  پھر اُسے مٹی کے دوسرے برتنوں کی طرح پکایا جاتا ہے۔ یہ گویا غریب آدمی کا پانی پینے کا پیالہ اور  ایسا برتن ہوتا ہے جسے پانی، دُودھ یا شربت پی کر پھینک بھی دیتے ہیں۔ عام طور سے ہندوؤں میں اس کا استعمال اس لیے بھی رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے استعمال کردہ برتن میں کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ آبخورے میں دُودھ پیا اور  پھر اُسے پھینک دیا اور  پھر یہی صورت شربت کے ساتھ ہوتی ہے مگر آبخورے بھرنا عورتوں کے نذر و نیاز کے سلسلہ کا ایک اہم رسمی آداب کا حصّہ ہے۔ عورتیں منّتیں مانتی ہیں اپنے بچّوں کے لیے، رشتہ داروں کے لیے، میاں کی کمائی کے لیے اور  ایسی ہی دوسری کچھ باتوں کے لیے، اور  کہتی ہیں کہ اے خدا، اگر میری یہ دعا قبول ہو گئی اور  میری منّت پوری ہوئی تو میں تیری اور  تیرے نیک بندوں کی نیاز کروں گی۔ دُودھ یا شربت سے آبخورے بھر کر،انہیں دعا درود کے ساتھ تین بّچوں، فقیروں، درویشوں یا مسافروں کو پلاؤں گی۔ نیاز کی چیزیں عام طور پر غریبوں ہی کے لیے ہوتی ہیں مگر اس میں اپنے بھی شریک ہو سکتے ہیں۔

( 3 ) آبرو ریزی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

۔ "آبرو" چہرے کی آب و تاب کو کہتے ہیں، اس لیے کہ آب کے معنی چمک دمک کے بھی ہیں،پانی کے بھی۔ لیکن محاورہ کی سطح پر آبرو کے معنی ہیں عزت، سماجی احترام اور  اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے دوسرے کو معاشرتی سطح پر بے عزت یا Dishonour کرتا ہے تو وہ گویا اس کی "آبرو ریزی "کرتا ہے، اِسے مٹی میں مِلاتا ہے۔ فارسی میں "ریختن،ریزیدن"کے معنی ہیں "گرانا، گرنا"۔ اسی لیے موسمِ خزاں میں جو پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے، اُسے برگ ریز یعنی پتّے گرانے والا موسم کہتے ہیں۔

اِس سے ہم"آبرو ریزی " کے لفظی مفہوم اور  معاشرتی معنی تک پہنچ سکتے ہیں جو ایک تہذیبی اندازِ نظر ہے۔ آبرو کے ساتھ کئی محاورے آتے ہیں اور  سب کے مفہوم میں چہرہ کی آب و تاب اور  عزت شامل ہے۔ مثلاً"آبرو بگاڑنا " آبرو ریزی ہی کے معنی میں آتا ہے۔ "آبرو رکھنا " عزت رکھنے ہی کا مفہوم بناتا ہے۔ "آبرودار" عزت دار آدمی کو کہتے ہیں۔ "رو دار" بھی آبرو دار ہی کے معنی میں آتا ہے۔ اس سے ہم آبرو کے معاشرتی تعلق کو سمجھ سکتے ہیں، اس لیے کہ بے عزتی بہت بڑی سماجی سزا ہے۔ 

( 4 ) اَبلا پری، اَبلاّ رانی ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت خوب صورت ہونا۔ اصل میں رانی اور  راجہ کا لفظ مرد اور  عورت کے شخصی امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھولوں میں بھی ایک پھول دن کا راجہ ہوتا ہے اور  ایک رات کی رانی۔ اس سے بھی پھولوں میں اُن کا ممتاز ہونا ظاہر ہے۔ "ابلا" لڑکی کو کہتے ہیں اور  جسے بہت خوب صورت لڑکی ظاہر کرنا ہوتا ہے یا پھر سمجھا جاتا ہے، اِسے "اَبلا پری" کہا جاتا ہے۔

قدیم ہندوستان میں پریوں کا تصوّر نہیں تھا۔ اسی لیے "ابلاّ رانی" کہا جاتا تھا۔ جب فارسی کے ذریعہ "پری" کا تصوّر آیا تو "ابلاّ پری" کہا جانے لگا۔ بہر حال، "ابلاّ پری" ہو یا "ابلاّ رانی"،حُسن کا ایک آئیڈیل تصوّر ہے اور  اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لفظی طور پر ہم نے فارسی سے جو الفاظ لیے ہیں، ان کا ہماری تہذیب سے بھی ایک رشتہ ہے۔ حسین عورت کو ہم "پری چہرہ" بھی کہتے ہیں، چاہے دیووں، جن، بھوتوں اور  پریوں کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔

حضرت امیر خسرو کا مشہور فارسی شعر ہے

پری پیکر، نگارِ سرو قدے، لالہ رُخسارے

سراپہ آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم

یعنی وہ جو پری پیکر ہے، حسین اور  خوب صورت ہے، سرو قد ہے، لالہ رُخسار ہے اور  سر تا پا آفتِ دل ہے اور  میں نے رات اسے اس کی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس شعر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں "ابلاّ رانی" یا "ابلاّ پری" کی وہ خو بیاں نظر آتی ہیں جو ایرانی تصوّرِ حسن کو پیش کرتی ہیں اور  ہندوستان کی ایک حسین عورت کی خوب صورتیاں اس میں جھلکتی ہیں۔ "اَبلا رانی" سے "اَبلاّ پرَی" تک محاورہ کا یہ شعر ہماری تہذیبی تاریخ کی روشن پرچھائیوں کی ایک متحرک صورت ہے۔

( 5 ) آبِ حیات ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آبِ حیات کا تصور قوموں میں بہت قدیم ہے۔ یعنی ایک ایسے چشمہ کا پانی جس کو پینے سے پھر آدمی زندہ رہتا ہے۔ اُردو اور  فارسی ادب میں حضرتِ خضر کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ چشمہّ آبِ حیات کے نگراں ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ حضرتِ خضر کا لباس۔ ۔ "سبز" ہے اور  وہ دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور  بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں جب باقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں، دریاؤں کے کنارے کنارے سفر کیا جاتا تھا۔ اور  اس طرح گویا دریا ہماری رہنمائی کرتے تھے۔ یہیں سے خضر کی رہنمائی کا تصور بھی پیدا ہوا ہے۔

علم کو پانی سے مُشابہت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم علم کا سمندر یعنی بحرالعلم کہتے ہیں جسے ہندی میں "ودیا ساگر"کہا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ علم پانی ہے، پانی زندگی ہے اور  پانی نہ ہو تو پھر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اِن باتوں کو آبِ حیات کی صُورت میں ایک علامت کے طور پر مانا گیا ہے۔ حضرتِ خضر کا علم بھی بہت بڑا ہے جس کے لیے اقبالؔ نے کہا ہے:

 علمِ موسیٰ بھی ہے جس کے سامنے حیرت فروش

قرآن میں بھی حضرتِخضر اور  حضرتِ موسیٰ سے متعلق روایت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ لیکن خضر کا نام نہیں ہے۔ اردو ادب میں اور  مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جو پانی پیتے تھے اُس کو بھی آبِ حیات کہا جاتا تھا۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر جب اردو میں بطورِ محاورہ آبِ حیات ہونا کہا جاتا ہے تو اس سے مُراد ہوتی ہے کہ یہ بے حد مفید ہے، زندگی بڑھاتا ہے اور  صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ محاوروں نے ہماری تہذیبی روایت کو محفوظ کیا ہے اور  عوام تک پہنچایا ہے۔ 

( 6 ) آبنوس کا کُندا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ ایک عجیب محاورہ ہے۔ لکڑیوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، مثلاً تُون کی لکڑی کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ صندل (چندن) کی لکڑی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور  آبنوس کا سیاہ۔ سیاہ ہمارے ہاں خوبصورت اور  پُر کشش رنگ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے دیووں اور  بھوتوں کو یہ رنگ دیا جاتا ہے اور  سیاہ کہہ کر بھی جِن بھوت مُراد لیا جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بالوں کا رنگ بھی سیاہ ہوتا ہے۔ بھَوں کا بھی اور  آنکھوں کی پُتلیوں کا اور  تِل کا بھی رنگ کالا ہوتا ہے۔ اور  یہ سب حسن و کشش کی علامت ہیں۔ کم از کم ہند ایرانی تہذیب میں ایسا ہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاہ رنگ سے نفرت کے اظہار کی وجہ کیا ہے۔ جب کہ شیعہ عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں سیاہ رنگ مقدّس رنگ ہوتا ہے اور  عبّاسیوں کی سلطنت (خلفائے بنو عبّاس) میں سیاہ رنگ اُن کی اپنی سلطنت کا رنگ تھا۔

اُن حقائق کی روشنی میں سیاہ رنگ سے نفرت دراصل آریائی تہذیب کی دین ہے کہ وہ دراوِڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کی تہذیب اور  علمی کار گزاریوں کو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو بھنگی، چمار اور  دوسرے پیشوں سے وابستہ کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ سے نفرت شروع کر دی۔ اور  اُس کا اثر یہ ہے کہ آبنوس کا کُندا کالا کلوٹا  کلموہا ہمارے ہاں بُرے الفاظ ہو گئے۔ آبنوس وہ لکڑی ہے جو صرف دراوِڑوں کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہیں  اُس میں ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی فکر اور  اُن فکری تعصبات کی جھلک بھی ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا رشتہ رہے ہیں۔

( 7 ) اَبجد خواں ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

حروف کو لکھنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم حروفِ تہجّی کی ترکیب کہتے ہیں یا اُردو والے "الف‘‘، ’’ب‘‘، ’’ت‘‘ کے سلسلے سے وابستہ کرتے ہیں۔ دوسرا وہ سلسلہ یا ترتیب ہے جن کو حروفِ ’’اَبجد‘‘ سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ابجد، ھوز،حُطّی، کلمن،سعُفص، قرشت، ثخذ ضظغ،۔ یہی وہ حروف کی ترتیب ہے جس میں اِن حروف کے اعداد مقرر کیے جاتے ہیں۔

ابجدی ترتیب مندرجہ ذیل ہے۔

۱(۱) ب(۲) ج (۳) د(۴) ہ(۵) و (۶) ز(۷) ح (۸)ط (۹) ی (۱۰) ک (۲۰) ل(۳۰) م (۴۰)ن (۵۰) س (۶۰) ع( ۷۰ف(۸۰) ص(۹۰) ق(۱۰۰) ر(۲۰۰) ش(۳۰۰) ت (۴۰۰) ث(۵۰۰) خ(۶۰۰) ذ(۷۰۰) ض(۸۰۰) ظ(۹۰۰) غ(۱۰۰۰)

نام یا تاریخ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اُس نام یا اُس تاریخ سے متعلق حروف کے اعداد لے لیتے ہیں۔ اور  اُن کو جمع کرتے ہیں۔ حاصل جمع جو بھی عدد ہوتا ہے اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں، ایک ہجری، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی ان کی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں۔

غرض کہ اُن حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے اَبجدی ترتیب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ا، ب، ت، ث، سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے ترتیبِ حروفِ ’’ہجا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں محاورہ میں ’’ابجد خواں ‘‘ کہا گیا ہے۔ اِس سے مراد صرف ا، ب، ت، ث لی گئی ہے۔ حروفِ ’’اَبجد‘‘ نہیں۔ یعنی میرا معاملہ تو صرف حروف شناسی کی ’’حد ‘‘سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے نزدیک علم کا معیار کافی اونچا تھا اور  از راہِ کسر نفسی ایک پڑھا لکھا آدمی بھی خود کو ’’ابجد خواں ‘‘ کہتا تھا اور  دوسروں کی کم علمی کا اظہار بھی اسی انداز سے کیا جاتا تھا۔

( 8 ) آب و دانہ اُٹھ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔ اور  پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں۔ چونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آدمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور  اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاں سے چاہے رزق دے۔ اور  یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور  تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کا آب و دانہ کب اٹھ جائے اور  جب تک آب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔ جب آب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی ختم ہو جائے گا۔

یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور  زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’آب و دانہ ‘، ’آب و خور‘ اور  ’آب و خورش‘ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خُورش، خُور اور  خُوراک فارسی الفاظ ہیں اور  اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

( 9 ) آب و رنگ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آب و رنگ کے معنی دوسرے ہیں، یعنی رونق، خوب صورتی، رنگینی اور  رعنائی۔ آب دار اسی لیے چمک دار کو کہتے ہیں۔ آب داری کے معنی روشن اور  چمک دار ہونے کی صِفت تھی اور  بے آب ہونے کے معنی اپنی خوب صورتی سے محروم ہونا ہوتا ہے اور  اس کے معنی عزت کھونے کے بھی آتے ہیں۔ لڑکی بے آب ہو گئی، یعنی بے عزت ہو گئی، اس کا کنوار پن ختم ہوا۔ ’’موتی کی سی آب‘‘ محاورہ ہے اور  چمک دار موتی کو ’’درِ خوش آب‘‘ کہتے ہیں۔ اس معنی میں ’’آب‘‘ بمعنی عزت، توقیر، آن بان وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ جو استعاراتی معنی ہیں۔ یہاں بھی آب و رنگ اسی معنوں میں آیا ہے۔ رنگ خوب صورتی پیدا کرتا ہے اور  ’’آب‘‘ تازگی، طراوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 10 ) آپ بیتی۔ اَپ بیتی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

انسان کی تاریخ عجیب ہے۔ یہ اس کی اپنی تاریخ بھی ہے، اس کے ماحول کی تاریخ بھی ہے، اُس کی اپنی نسلوں کی تاریخ اور  خود اس ملک یا اس نسل کی تاریخ بھی جس سے اِس کا تعلق ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان،اپنے حالات کے تحت، یہ بھی ممکن ہے اپنی تاریخ بھول جائے اور  کسی انسان کو اپنے ماحول، اپنی قوم اور  اپنے شہر یا اپنے علاقہ کی تاریخ یاد رہے۔ اپنی تاریخ کو آپ بیتی کہتے ہیں اور  دوسروں کی تاریخ کو جگ بیتی۔ جب انسان اپنے حالات لکھتا ہے یا بیان کرتا ہے تو اُسے وہ آپ بیتی کہتا ہے۔ ہم اسے خود نوشت سوانح عمری بھی کہتے ہیں۔ گفتگو میں جب آدمی اپنے حالات بیان کرتا ہے اور  اگر اس میں اس کا اپنا غم شامل ہوتا ہے تو وہ اُس کی رام کہانی کہلاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں جگ بیتی نہیں آپ بیتی کہہ رہا ہوں۔ ہم نے خود نوشت سوانح کو آپ بیتی کہا ہے اور  جب کسی کی خود نوشت سوانح کو اُردو یا ہندی میں ترجمہ کرتے ہیں تو اسے آپ بیتی کہتے ہیں، جیسے میرؔ کی آپ بیتی، غالبؔ کی آپ بیتی، خسروؔ کی آپ بیتی وغیرہ۔ کہانیاں، افسانہ، قصہّ، داستانیں بھی آپ بیتیاں ہوتی ہیں جن میں جگ بیتیوں کا زیادہ عنصر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم ان میں تاریخ، تہذیب و ثقافت کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ بھی شعوری، نیم شعوری یا لا شعوری طور پر ہمارے ماحول کی گزاری ہوئی زندگی یا گزارے جانے والے ذہنی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح ’’آپ بیتی‘‘ اور  جگ بیتی کا ہمارے تہذیبی ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔

( 11 ) اپنے تئیں شاخِ زعفران سمجھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رویّے develop ہو جاتے ہیں۔ اِن میں بدلاؤ بھی آتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکر و کردار کا بہت نمایاں حصّہ ہوتے ہیں اور  اگر ان میں نمود و نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شاخِ زعفران ہونا گویا بڑی قدر و  قیمت رکھنے والا شخص ہے۔

محاورے ہمارے معاشرتی رویوں پر جو روشنی ڈالتے ہیں اور  سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن میں یہ محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے آپ کو دُور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور  مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 12 ) اپنا اُلّو سیدھا کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عجیب و غریب محاورہ ہے جس میں اُلّو کے حوالہ سے بات کی گئی اور  معاشرے کے ایک تکلیف دہ رویّہ کو سامنے لایا گیا یا اس پر طنز کیا گیا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آدمی وہ کوئی بھی ہو، اپنا بیگانہ، امیر غریب، دوسرے سے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے اور  مطلب برآری کے لیے دوسرے سے چاپلوسی اور  خوشامد کی باتیں کرتا ہے اور  مقصد اپنا مطلب نکالنے سے ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک اور  محاورہ بھی ہے یعنی دوسرے کو’’ الّو بنانا‘‘ یعنی بیوقوف بنانا۔

( 13 ) اَپرادھ ہرنا (ہڑنا) ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’ہڑنا‘‘ دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آتا ہے یعنی سُوجھ بُوجھ کو سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔ اَپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور  خطا کو کہتے ہیں۔ آدمی خدا کا قصور بھی کرتا ہے، سماج کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ جُرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی یا دینی جرم کو مذہب کی اِصطلاح میں پاپ، اَپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔ انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رو یہ بھی اختیار کیا اور  گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کی باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔ مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک آ گئی کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ہندوؤں نے بھی تیرتھ یاترا اور  اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا اور  آخر کار اس پر مطمئن ہو گئے۔

( 14 ) آپ سُوار تھی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’سوار‘‘ ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آدمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ اُسے مطلب نکالنا بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور  پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا سوچتا ہے تو بُرا ہی سوچتا ہے۔ اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے آتی ہے تو اُس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خود غرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں اور  سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا ردِعمل بھی ہے اور  یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اِس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور  قدیمانہ روایت کے تحت اس کے خلاف کھُلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔ اور  کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رو یہ یہ ہے کہ صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کر لیں لیکن اپنے اوپر خود تنقید کرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور  بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔ ۔ 

( 15 ) آپ رُوپ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اپنے آپ ہی سب کچھ ہونا۔ رُوپ کے معنی ہندو فلاسفی اور  ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو فلسفہ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور  سنوارا نہیں۔ اِس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مزاح کے طور پر،جس آدمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔ 

( 16 ) آپ سے باہر ہونا یا آپے سے باہر ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور  سوچا گیا ہے۔ ’’آپے سے باہر ہونا‘‘ ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ اُسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو آپے سے باہر ہو گیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غصّہ سے ہے کہ وہ اپنے غصّہ پر قابو نہیں رکھ سکتا۔

آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غصہّ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے جس کو ہر موقع اور  تعلقات کے ہر مرحلہ میں پیشِ نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور  کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور  جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہارِ نا خوشی نہ کیا جائے، اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور  وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔

( 17 ) اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور  ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر مصدر ہندوی ہیں اور  اُن سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا ذہنی رو یہ کیا رہا ہے۔

’’اور‘‘ کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ آدمی کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اُس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا بُرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو روا روی کا رو یہ موجود رہتا ہے کہ آدمی خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی بُرائی اس کو نظر نہیں آتی، دوسروں کی کمزوری کی طرف خواہ مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروں کا رو یہ بہت غلط، نہ روا اور  تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور  سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و آبرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔

( 18 ) اپنی ایڑی دیکھو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایڑی پاؤں کا پچھلا اور  نچلا حصّہ ہوتا ہے۔ اُس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کو آدمی نہیں دیکھتا اور  جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ اُس کے اپنے عیب بھی ہو سکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا رُو نما ہوتی ہیں، اُن پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور  طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر آدمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔

( 19 ) اپنی رادھا کو یاد کرو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق ’’رادھا ‘‘ سری کرشن کی محبوبہ تھی۔ اُس کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ’’ سری کرشن‘‘ کی مزاج آشنا اور  ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے میں مزاج شناسی اور  خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔ ۔

عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور  جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیں یا پھر خون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور  اعتماد کی دین ہوتا ہے۔ ’’ کرشن اور  رادھا‘‘ کے رشتے میں یہی خلوصِ خاطر اور  دلی تعلق موجود تھا۔ جو سماجی رشتوں میں کہیں کم اور  کہیں زیادہ نا پید ہوتا ہے۔

اِس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہو جاؤ اور  اپنی لگی سگی ’’رادھا‘‘ کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت ایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے، اِس لیے اس کے ہاں preservation یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور  قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور  رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں۔ تمام محاورے عورتوں کے ہی نہیں ہیں، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور  اُن میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ رکھتے ہیں، مثلاً ’’اپنی صلیب آپ اُٹھانا‘‘۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ ’’پھانسی چڑھنا ‘‘بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ ’’اپنی قبر آپ کھودنا‘‘ بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان نہیں جاتیں اور  نہ ہی قبر کھودتی ہیں۔ ’’اپنے قول کا پکا ہونا ‘‘ بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔

( 20 ) اپنی کھال میں مست ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

معاشرے میں ہم ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں خود پسندی یا خود داری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے احسان مند بننا نہیں چاہتے۔ اب اگر اُن کے پاس کچھ نہیں ہے تو ایک عجیب سی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ’’اپنی کھال میں مست ہو جانا‘‘۔ یعنی ایک آدمی غریب بھی ہو، خود دار بھی ہو، یا پھر اپنے معاملات سے بے پروا اور  بے خبر بھی رہنا چاہتا ہو، ایسے موقع پر طنزاً یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اپنی پروا بھی نہیں۔ وہ تو بس اپنی کھال میں مست ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کا ایک نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اس سے اریب قریب ’’آپا بسرانا‘‘، ’’آپا تجنا‘‘، ’’آپا تج دینا‘‘ محاورے ہیں جن کے معنی ہیں خود فراموشی اختیار کرنا۔

( 21 ) اپنی گُڑیا آپ سنوارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’گڑیاں ‘‘ ہندوستانی تہذیب کی ایک علامت ہے۔ اب تو پلاسٹک کی گڑیاں بننے لگی ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کپڑے اور  روئی سے تیار ہوتی تھیں اور  گھر کی بڑی بوڑھیاں بچیوں کے لیے کھیل کی غرض سے بناتی تھیں۔ گھر میں جو گھریلو سامان ہوتا ہے، اسی کی نقل گڑیوں کے برتنوں میں تیار کی جاتی تھی۔ چھوٹا سا پلنگ، تکیہ، لحاف اور  پتیلی، چمچہ، کٹوری وغیرہ، وغیرہ۔

گڑیوں کی شادی رچائی جاتی تھی۔ مایوں کی رسم الگ ہوتی تھی۔ اِس کے علاوہ پیر مکوڑا الگ بنتا تھا۔ یہ کسی بزرگ کی چھوٹی سی قبر ہوتی تھی اور  اُس کے چاروں طرف احاطہ اور  جھنڈیاں نیز چھوٹی چھوٹی شمعیں جو اسی مقصد کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ اور  اس طرح گویا ایک عُرس کا سماں باندھا جاتا تھا۔

گڑیوں کے ذریعہ بچیوں کو گھر گرہستی کے بہت سے کام آ جاتے تھے اور  باتیں معلوم ہو جاتی تھیں۔ اپنی گڑیاں سنوارنا، اپنی گھر گرہستی کو بہتر بنانا، اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کرنا اُن کو سلیقہ سکھلانا۔ پڑھانے لکھانے کا پہلے رواج نہیں تھا۔ اِس سے ہم گھریلو معاشرت اور  وہاں کی تہذیبی فضا کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔

( 22 ) اپنی گوں کا یار۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

معاشرے میں جو بھی عیب ہوتے ہیں اُن کو ہم جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور  محاورے زیادہ تر انہیں پر بنے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات محاورے میں کہہ دی گئی، وہ بات واضح ہو گئی لیکن محاورے کی وجہ سے وہ پھر رواج عام کا حصّہ بن گئی اور  اُس کی معاشرتی حیثیت پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ اِس محاورے میں گوں کے معنی ہیں خود غرض، مطلبی۔ ہم اسے اس طرح بھی کہتے ہیں کہ وہ ہماری ’’گوں کا آدمی‘‘ نہیں ہے۔

یعنی ہماری مطلب اس سے نہیں نکل سکتا۔ ’’گوں گیرا‘‘ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی تلاش میں رہتا ہے۔ ’’اپنی گوں کا یار‘‘ بہت واضح صورت ہے کہ وہ خود غرض اور  مطلبی ہے۔ ’’آپ سوارتھی‘‘ کے معنی بھی یہی ہیں جس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔

( 23 ) اپنی چھا کو کون کھٹّی کہتا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رویّے پر ایک طنز ہے۔ ’’چھا‘‘ بلوئے ہوئے دُودھ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور  خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی ’’چھا‘‘ مزے دار نہیں ہوتی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیں ہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں ’’چھا‘‘ پینے کا رواج عام تھا۔ کچھ لوگ ’’چھا‘‘ بیچتے بھی تھے اور  کہتے تھے کہ ہماری ’’چھا‘‘ میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود میں آیا اور  اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو بُرا کہنا نہیں چاہتے اور  اپنی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔ اس میں شہر اور  دیہات سب شریک ہیں۔

( 24 ) اپنی بات کا پچ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اپنی بات پر جمنا اور  اُس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور  بگاڑ دیتی ہیں اور  وہ صورت ہوتی ہے۔ ’’عذرِ گنا ہ بد تر از گناہ‘‘۔ اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر ’’اڑنے‘‘ کے بجائے معذرت کر لو اور  غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔

( 25 ) اپنے نصیبوں کو رونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں۔ اب ہم جاپان اور  چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور  اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نکمّے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور  قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ وہاں بھی تقدیر کی بُرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور  دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں، جھُوٹ سچ اور  غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور  جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور  دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور  آپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور  وہ بہت بڑے نقصان اور  فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر سبب بہرحال اُن کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔

( 26 ) اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم جن معاشرتی کمزوریوں، برائیوں اور  عیبوں کا شکار ہیں، اور  نہ جانے کب سے رہے ہیں، اُن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، اُن پر تنقید کرتے ہیں، طعن و تعریض کرتے ہیں ؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے ہیں، نہ ان کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان،اپنے عزیز اور  اپنے گروہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب اُن میں بھی ہیں۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہیں سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، دوسروں کے رویّے میں اختلاف کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور  وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تو منہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی انسانی خو بیاں کیا ہیں اور  کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر بھرے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور  آپسی رویّوں پر ایک تبصرہ ہے۔

( 27 ) اپنی اپنی پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور  آپسی معاملات کے تلخ تجربے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ گرد آلود کر دیتے ہیں۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور  لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کر لیتے ہیں اور  بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا اِن کے کام آنا،اُن کے مسائل سے دل چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔ آدمی صرف اپنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی طرف دیکھتا  ہے؛ اس وقت سماج میں ایک آپا دھاپی شروع ہو جاتی ہے اور  یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔

( 28 ) اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی اپنے ہوش و حواس اور  سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اُٹھانے اور  آئندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں، اگر اُن کے قریب ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہو جاتا ہے اور  وہ نتیجہ سامنے نہیں آتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور  چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں ’’آٹا ماٹی ہونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔

( 29 ) اٹھکھیلیاں کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں۔ مثلاً، آٹھواساں، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور  کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مدتِ حمل پورا ہونے سے پہلے آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔ ’’آٹھوں گانٹھ کمینت‘‘ ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و توانا ہو۔ اسی طرح آٹھ پہر دن اور  رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہو جاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی ’’آٹھ کھیل‘‘ جو باتوں سے متعلق ہوں۔ اس کو ہم جنسی اور  جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔ اِس سے ملتا جلتا ایک محاورہ ’’بارہ سولہ سنگھار‘‘ یعنی بارہ لباس اور  سولہ سنگھار۔ اَبرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے ہیں اور  سنگھار آرائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں۔

( 30 ) اُجلی یا اُجلی سمجھ۔ اُجلی طبیعت۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اُس میں کچھ محاورے ایسے ہیں جو خاص دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور  دہلی کی عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً، ’’اُجلی‘‘ کی بات وہ دھوبن کے لیے کہتے ہیں۔ اُس کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت یا رات کو عورتیں دھوبن کہنا بُرا سمجھتی ہیں۔ اسی لیے دھوبن کو ’’اُجلی‘‘ کہہ کر یاد کرتی ہیں۔ یہ دہلی کے خاص الفاظ یا عورتوں کے استعارہ میں شامل ہے اور  اس اعتبار سے دہلی کی تہذیبی زندگی کا ایک خاص محاورہ ہے۔

’’اُجلی سمجھ‘‘ اور  ’’اُجلی طبیعت‘‘ دہلی کی عورتوں میں خاص طرح کی سُوجھ بُوجھ اور  عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرے یا آ جالے کا تعلق صرف صبح و شام یا دن رات کی قدرتی کیفیات سے نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور  نا سمجھی سے بھی ہے۔ اور  یہیں سے انسان کا فطرت اور  تہذیب سے ذہنی رشتہ سمجھ میں آتا ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ ’’اُجلی گزران‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خوش حال اور  خوش باش زندگی۔

’’اُجلا منھ ہونا‘‘ بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے اور  اس کے معنی ہوتے ہیں عزت و آبرو سے زندگی گزارنا۔ اس کے مقابلے میں ’’منھ کالا کرنا‘‘ بے عزتی کے کام کرنا ہوتا ہے۔

( 31 ) اچھا نِکا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مغربی یو۔ پی۔ میں اچھی زندگی کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’نِکا‘‘ در اصل ’’نِکو‘‘ ہے جو فارسی میں نیک کے معنی میں آتا ہے اور  مُراد وہی اچھائی یا بھلائی ہوتی ہے۔

محاورے میں الفاظ لغوی معنی میں نہیں آتے۔ اُن کے کچھ مُرادی معنی ہوتے ہیں جو اصل معنی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ استعارہ اور  تشبیہہ کے عمل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایسے معنی مراد ہوتے ہیں جو تصویر سے تصور کی طرف لے جاتے ہیں اور  ان کا تعلق انسان کے ذہن و فکر، فن اور  طریقۂ رسائی سے ہوتا ہے جو تہذیب کی دین بھی ہیں اور  اُس کی علامتیں بھی۔

( 32 ) اُچاپت اُٹھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ بھی دہلی کا خاص محاورہ ہے لیکن ہمارے تہذیبی اور  معاشرتی نظام کے ایک خاص عملی حصہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کسان، مزدُور، ملازمت پیشہ نوکر چاکر سبھی بنیے کی دکان سے سودا سلف لیتے ہیں اور  ضروری نہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ اُس کی قیمت بھی ادا کریں۔ یہ قیمت کبھی فصل آنے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، کبھی چھ ماہی کی صورت میں جو زیادہ تر فصل آنے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے اور  ہوتا رہا ہے کہ جب تنخواہ ملتی ہے یا مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ دیا جاتا ہے تو پھر وہ اس رقم میں سے بنیے کو جاکر دیتا ہے جس سے اُچاپت اٹھائی گئی ہے۔ تعلق اُس کا اُدھار لینے سے ہی ہے لیکن ایک خاص سسِٹم کے ساتھ یہی بات آگے بڑھ کر دیوانی اور  ساہوکاری میں بدلی ہے۔

( 33 ) آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب کردار میں یا کسی شے کی ظاہری شکل و صورت میں توازن و تناسب نہیں ہوتا اور  اُس کی غیر موزونیت پہلی نظر میں بھانپ لی جاتی ہے تو اُسے آدھا تیتر آدھا بٹیر کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شوقین طبع لوگ تیتر پالتے تھے۔ بٹیروں کے پالنے کا بھی رواج تھا اور  لکھنؤ میں بٹیروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی۔ اِس کا رواج دہلی میں بھی تھا۔ یہ رئیسوں کا شوق تھا اور  رفتہ رفتہ درمیانی طبقے میں بھی سرائیت کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹیر پالنا اور  تیتر پالنا معاشرے میں کچھ خاص رجحانات کا ترجمان بن گیا۔ اُن میں موزونیت اور  ہم آہنگی بطورِ خاص شامل ہے جس کی طرف یہ محاورہ بطورِ خاص اشارہ کرتا ہے۔

( 34 ) آدمیوں کا بَن یا جنگل۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جنگل آدمی کے لیے ایک اہم تہذیبی حوالہ ہے۔ دیہات والے اپنی بہت سی ضرورتیں جنگل سے پوری کرتے ہیں۔ لکڑیاں لانا ہو، پھل کھانا ہو، مکان کی کوئی ضرورت ہو، کڑیاں ہوں، ’’برگے‘‘ ہوں، شہتیر ہوں یا چھپّر ہو، اُسارہ ہو، جس کے سہارے چھپّر کھڑا کیا جاتا ہے یا پھونس جس سے چھپر بنایا جاتا ہے۔ سب کا تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سے انسانی تہذیب کا گہرا رشتہ ہے۔ رفتہ رفتہ شہر آباد ہو گئے۔ گاؤں اور  ضلعے بس گئے تو آدمی کا اور  جنگل کا ساتھ چھُوٹ گیا۔ آدمی نے جنگل کاٹ بھی دیے اور  اپنے شہری تصوّرات کے تحت غیر مہذب آبادی کو جنگلی کہنا شروع کر دیا۔ بن میں رہنے والے انسان ان کے نزدیک آدمی نہیں، بن مانس تھے۔ زیادہ شہریت آئی تو گاؤں والوں کو گنوار کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شہر میں اگر گھنی آبادی ہو گئی، بہت بڑھ گئی تو اسے آدمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور  اُس کے مقابلے میں جہاں آبادی نہ ہوئی یا بہت کم ہوئی اُسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔

اُن محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا آدمی کی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح کا بھُوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔ ۔

میر انیسؔ کا مصرعہ ہے:

صحرا کا آدمی ہے کہ جنگل کا جانور

جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی آتا رہا ہے اور  صحرا کو تصورِ عشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور  استعاروں میں شامل کیا گیا ہے۔ فراقؔ کا مصرعہ ہے:

صحرا صحرا دل بھٹکے گا آج تمہیں نے روکا ہوتا

( 35 ) آدمیت پکڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

انسان آدم زاد ہے اور  اُردو ادب میں اُسے آدم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں آدمی سے قصور اور  خطا وابستہ ہے، وہاں آدمیت، شرافت اور  انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں۔ انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور  جانور کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور  بھلے آدمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی بن، آدمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی اُس کے آدم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور  کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔

( 36 ) آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ پُر اسرار، پُر کشش، لایقِ توجہ اور  ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا ذکر خوابوں کے ساتھ خوفناکیوں کے طور پر بھی کیا جاتا ہے، جیسے ڈراؤنی رات، اندھیری رات، اندھیرا گھُپ۔ اندھیروں کا سفر زندگی کا تکلیف دہ اور  ڈراؤنا سفر ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کا سفر جب ہاتھ کو ہاتھ بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ رات تاروں بھری بھی ہوتی ہے، چاند رات بھی ہوتی ہے اور  چاندنی رات بھی۔ اسی کے ساتھ ’’چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے‘‘، یہ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض کہ رات سے ہمارے بہت سے تصورات وابستہ ہیں۔

’’آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر‘‘ نصف شب کو کہتے ہیں جب سونے کا وقت آ جاتا ہے۔ پچھلا پہر بھی رات ہی سے منسوب ہے۔ انسان دو برابر کے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کو بڑی بات خیال کرتا ہے۔ چاند کے حِساب سے راتیں دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں تو وہ چودھویں رات کہلاتی ہے اور  اس کے چاند کو چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں داستانوں اور  کہانیوں کا تصور بھی راتوں سے وابستہ ہے۔ ’’الف لیلیٰ‘‘ کا نام ہی ’’الف لیلیٰ و  لیلیٰ‘‘ ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ اردو کی مشہور معشوقہ لیلیٰ بھی رات ہی سے وابستہ ہے۔

( 37 ) آدھوں آدھ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدھا ایک کا نصف ہے اور  تہذیبی طور پر اپنے خاص معنی رکھتا ہے۔ مذکورہ محاورے میں بھی آدھے کا تصوّر واضح طور پر موجود ہے۔ اَدّھی، اَدَھنّا، اَدھ پکا، اَدھ رانا، اَدھ بانکا، اَدھ مرا، اَدھ موا، ادھ کچرا، ادھ بُنا، اُن سب میں ’’آدھ‘‘ شامل ہے اور  ایک خاص ذہنی پیمانے کو پیش کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے کی سوچ ہمارے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہے اور  ہمارا ذہن زبان پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو الفاظ کے محاوراتی معنی، استعاراتی معنی ہوتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے ’’آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے، آدھی رہے نہ ساری پاوے‘‘۔ یعنی آدمی جب زیادہ لالچ کرتا ہے تو نہ آدھی ملتی ہے، نہ ساری؛ محرومی ہی اِس کے حصے میں آتی ہے۔ یہ بھی سماج کے رو یہ پر تبصرہ ہے کہ صبر وضبط سے کام لو، زیادہ لالچ اور  خود غرضی اختیار نہ کرو۔

( 38 ) اُردوئے معلّیٰ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اُردو کا لفظ ہم زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور  جب اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں تو ہماری مُراد اعلیٰ درجہ کی ادبی زبان ہوتی ہے یا پھر درباری زبان اور  دہلی کی خاص زبان جس میں شرفاء کی زبان بطورِ خاص پیشِ نظر ہوتی ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے لال قلعہ کے سامنے اور  چاندنی چوک کے قریب جو میدان ہے، یہاں قلعہ کی حفاظت کرنے والی خاص فوج رہتی تھی جس کا افسر راجپوت ہوتا تھا۔ اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے تھے۔ اسی نسبت سے جینیوں کے لال مندر کو بھی پُرانے زمانے میں اُردو مندر کہا جاتا تھا۔ اب اِس کا مفہوم بدل گیا ہے اور  اُردو کو عرفِ عام میں لشکری زبان یا پھر عام زبان کہا جانے لگا ہے۔ جب کسی زبان کو بہت اچھا اور  اعلیٰ زبان کہنا مقصود ہوتا ہے تو اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں اور  یہ بولتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ تو مغل اُردو بولتے ہیں۔

( 39 ) اَردلی ّمیں رہنا۔ اَردلی کرنا۔ اَردلی میں چلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’اردلی‘‘ کا لفظ بتلا رہا ہے کہ یہٍ انگریزوں کے آنے کے بعد اُن کے دفتری طور طریقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد رائج ہوا ہے۔ وہ اپنے پیش خدمت کو ’’آرڈرلی‘‘ (Orderly) کہتے تھے، یعنی آرڈر کو لانے لے جانے والا۔ اِس طرح یہ لفظ انگریزوں کے دفتری نظام سے متعلق ہو گیا اور  انگریزی سے بنائے جانے والے الفاظ میں اِس کا استعمال عام ہونے لگا۔ لفظوں کے ساتھ محاورہ بنتا ہے تو ایک تاریخ اُس کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ زبان اور  الفاظ معاشرے میں لفظ محاورے کیا کردار ادا کرتے ہیں، اِس کا اندازہ محاورات پر سنجیدگی سے غور و فکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ لفظوں کا پھیر بدل اور  معنوی سطح پر تبدیلی زمانہ، زندگی اور  ذہن کے تغیرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’اردلی‘‘ کا لفظ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ ’’افسر‘‘ بھی ہے جس کے معنی فارسی میں ’’تاج‘‘ کے ہیں لیکن اُردو میں افسر کے معنی ہیں ’’آفیسر‘‘ (Officer)اور آفیسر ہی سے لفظ افسر بنا بھی ہے۔

( 40 ) ارَنڈ کی جڑ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’ارنڈ‘‘ ایک خاص طرح کا درخت ہوتا ہے جس میں شاخیں نہیں ہوتیں اور  جس درخت میں شاخیں ہوتی ہیں اُس کا تنا بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس درخت کا تنا بھی مضبوط نہیں ہوتا اور  جڑ اور  بھی کمزور ہوتی ہے۔ ’’جڑ‘‘ کا لفظ ہمارے ہاں بہت با معنی لفظ ہے۔ اس کے معنی بنیاد کے ہیں۔ بنیاد جتنی مضبوط ہو گی، اتنی ہی عمارت مضبوط ہو گی۔ ہمارے ہاں بنیاد کے ساتھ بہت لفظ آتے ہیں۔ اور  محاورے کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے، بے بنیاد بات ہے، اس کی بنیاد ہی غلط تھی۔ ’’ بنیاد‘‘ کے ساتھ’’ جڑ‘‘ کا لفظ بھی آتا ہے اور  ’’جڑ بنیاد‘‘ کہتے ہیں۔ اُن دونوں لفظوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا- جڑ کا پہلے اور  بنیاد کا بعد میں - ایسی لفظی ترکیب ہے جو روزمرّہ کے دائرے میں آتی ہے۔ ہم جڑ بنیاد ہی کہہ سکتے ہیں، بنیاد جڑ نہیں۔ جیسے، تین پانچ ہی کہتے ہیں، پانچ تین نہیں کہتے اور  اس سے تیا پانچہ کر دیا۔ جڑ کے ساتھ جڑ جمنا، جڑ جمانا، جڑ اکھڑنا، جڑوں کا کھوکھلا ہونا، جڑوں سے وابستہ رہنا- -غرض بہت سے محاورے ہیں جن کا تعلق درخت یا شجر سے اتنا نہیں ہے جتنا ہماری سماجی زندگی سے ہے۔ ’’اَرنڈ کی جڑ‘‘ کمزور ہوتی ہے؛ بالکل کھوکھلی۔ اسی لیے ارنڈ کی جڑ کے معنی ہیں ناپائدار ہونا۔ اپنی جڑ کی ناپائداری اس کے لیے کم قدری کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے ’’اَرنڈ باغاتی‘‘ دہلی میں محاورہ ہے جو میرؔ اور  سوداؔ کے زمانے تک بولا جاتا تھا اور  مطلب ہوتا تھا ’’بے تکی چیز‘‘۔ اس کو ’’ باغاتی‘‘ بھی کہا جاتا رہا ہے۔

( 41 ) اَرواح بھٹکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دہلی والے رُوح کو اَرواح کہتے ہیں، یعنی رُوح کی جمع بولتے ہیں اور  اس سے صرف رُوح مراد لیتے ہیں۔ روح بھٹکنے کے معنی یہ بھی ہیں کہ انسان چلا جاتا ہے اور  اس کی روح دنیا میں باقی رہ جاتی ہے اور  اِدھر اُدھر اس کو یا اپنی کسی پسندیدہ چیز کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔ قدیم زمانے سے یہ تصور موجود ہے۔ کہ رُوح اپنے بدن یا مادّی وجود کی طرف واپس آتی ہے۔ قدیم زمانے کی قبروں میں اس طرح کے نشانات رکھے جاتے تھے جن سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ فلاں شخص کی قبر ہے۔ اب تو یہ بات دنیاوی طور پر شناخت کے لیے ہوتی ہے اور  کتبے لگائے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ رُوح کی شناخت کے لیے ہوتا تھا کہ وہ پہچان جائے۔ اب یہ گویا محاورہ بن گیا ہے کہ رُوح بھٹکتی پھرے گی۔ خاص طور پر محبت کرنے والے کی روح کے لیے ایسا سوچا جاتا ہے۔ میرؔ نے اپنی مثنوی ’’دریائے عشق‘‘ اور  ’’شعلۂ عشق‘‘ میں اسی کا ذکر کیا ہے۔ بعد کے شعراء کے ہاں بھی اس کا بیان ملتا ہے اور  اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندگی ہی میں نہیں، مرنے کے بعد بھی میرا شوق، میرا تعلقِ خاطر قائم رہے گا اور  میری رُوح تیرے یا اپنے محبوب کی فراق میں بھٹکتی رہے گی۔

( 42 ) اَرے ترے کرنا (ابے تبے کرنا)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اَرے ترے کرنا یا ابے تبے کرنا کے معنی ہیں بد تہذیبی سے پیش آنا۔ یا بہت بے تکلًفی سے بات کرنا۔ تہذیب و شائستگی کے آداب میں گفتگو کا طریقہ سلیقہ بہت کام کرتا ہے اور  ہمیشہ اس کا ایک اہم رول ہوتا ہے کہ کس سے گفتگو کی جائے تو کس طرح کی جائے۔ لب و لہجے کا اُتار چڑھاؤ کیا ہو، موقع اور  محل کے لحاظ سے الفاظ و فقرے کس اسلوب اور  کس انداز میں پیش کیے جائیں۔ بات صرف لفظوں کے معنی کی نہیں ہوتی، کہنے کے انداز کی بھی ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والا کون ہے اور  سننے والا اس کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتا ہے؛ برابر کا ہے، چھوٹا ہے، بڑا ہے۔ اس وقت موقع و محل کے اعتبار سے اس کے ساتھ سوال و جواب کا یا تبصرے اور  تجزیے کا کیا انداز اختیار کیا جائے۔ یہ سب باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور  گفتگو کے وقت اپنا خاص کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ سمجھا جائے کہ بات کرنے والا نہ زبان جانتا ہے، نہ آداب اور  شائستگی سے واقف ہے۔ بے تکلفی اپنی جگہ پر، لیکن لفظوں کے استعمال میں احتیاط بہت ضروری ہے۔ ہم دوسروں سے برداشت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ توقع اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ گفتگو کرنے والا لب و لہجے اور  الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتے۔ ہمارے محاورات میں ایسے بہت سے محاورے ہیں جو گفتگو کے آداب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بیہودہ گفتگو کو اُول فول بکنا کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گڑ نہ دے، گڑ جیسی بات کہہ دے، یعنی میٹھا انداز اختیار کر لے۔ اسی لیے زبانِ شیریں کی بات کی جاتی ہے اور  یہ کہا جاتا ہے کہ تیرے منھ میں گھی شکّر۔

( 43 ) اُڑا لینا، یا اُڑا دینا، اُڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اُڑنا پرندوں کا عمل ہے۔ اِدھر سے اُدھر آنا جانا، ایک شاخ سے اُچھل کر دوسری شاخ پر بیٹھ جانا، دانا چُگنے کے لیے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنا، پروں ہی کی مدد سے ہی تو ہوتا ہے۔ یہ عملِ محال کرشمہ اور  کرامت کے طور پر پیروں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ ہوا میں اُڑتے ہیں اور  خوشبو کی طرح اِدھر سے اُدھر اور  اُدھر سے اِدھر پھیلتے رہتے ہیں، آتے جاتے ہیں۔ آج کل تو تقریریں، تحریریں اور  تصویریں بھی ہوا پر اُڑتی ہیں اور  ٹیلی ویژن میں ہم دنیا بھر کے شہروں، بیابانوں، جانوروں، انسانوں، سمندروں اور  ہواؤں کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ اُڑنے کے معنی میں یہ سب آتا ہے۔ اُڑان بھرنا بھی ایک محاورہ ہے اور  اُڑانے کے معنی میں خلیل خاں کا فاختہ اُڑانا اور  مریدوں کا پیروں کو اُڑانا بھی شامل ہے، کہ پِیر نہیں اُڑتے،مرید اُڑاتے ہیں۔ خبر اُڑانے کو بھی ہمارے ہاں بطورِ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

بات اڑا دینا بھی یا’ باتوں باتوں میں اڑا دینا‘،’ چٹکیوں میں اُڑا دینا‘ بھی ہمارے محاورات کا حصّہ ہے۔ ’بے پر کی اُڑانا‘،’ گُل چھرّے اُڑانا‘،’ طوطا مینا اُڑانا‘۔ اس سے اُڑنے اور  اُڑانے کے عمل سے ہماری زبان اور  ہمارے ذہن کی وابستگیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ’ اُڑا دینا‘، خاک دھُول کی طرح اُڑا دینا ہے۔ اور  کسی چیز کا اُڑا لینا بھی جیسے، ’اس نے یہ بات اڑا لی‘،’اس نے ساری کتاب ہی اڑا لی‘۔ اس معنی میں ’ اُڑنا‘ یا ’اُڑا دینا‘ یا’ اُڑا لینا‘ بہت سے محاورات کی بنیاد ہے۔ جن محاوروں کو ہم کسی ایک تصور، ایک تصویر، ایک خیال یا ایک عمل سے نسبت دے کر مختلف صورتوں یا سمتوں میں پھیلا سکتے ہیں، اُن میں ’اُڑنا‘ اور ’ اُڑا دینا‘ بھی ہے۔ ’ اُڑتی چڑیا کو پہچاننا‘، یا’ اُڑتی چڑیا کے پر گننا ‘بھی اور ’ اُڑن چھُو ہونا‘ (غائب ہو جانا، بھاگ جانا) یا ’اُڑن کھٹولا ہونا‘ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ۔ ’اُڑن کھٹولا‘ ہوئی جہاز کو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں ’اُڑان جھَلّا‘ یعنی اڑتے ہوئے کبوتروں کی ٹولی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کبوتر بازوں کا محاورہ ہے۔ ’ قسم ہے اُڑان جھلے کی‘۔ ’اڑن سانپ‘ یعنی ایسا سانپ جو اڑ سکتا ہو۔ ’اڑتی بیماری ‘ بھی ایک محاورہ ہے، ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھجلی بھی انہیں میں ہے، دق بھی اور  کھانسی بخار کی بعض صورتیں اس میں شامل ہیں۔ معاشرتی طور پر ایسی برائی جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور  سب ہی کم و بیش اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کو اڑتی بیماری کہتے ہیں۔

( 44 ) اَڑنا،رکاوٹ بننا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اپنی جگہ پر اس طرح ٹھہر جانا کہ پھر ٹس سے مس نہ ہو۔ اقبال کا شعر ہے۔

 آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ  کُہن پہ اُڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

’’طرز کہن پہ اڑنا‘‘ وہی پرانی روایت پر قائم رہنا ہے، بلکہ اس پر اصرار کرنا ہے۔ معاشرے میں یہ روش ایک خاص کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معقول سطح پر ایک بات کا جائزہ نہ لیا جائے اور  یہ تجزیہ نہ کیا جائے کہ اس میں کیا اچھا اور  کیا برا ہے۔ کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت اس میں ہے بھی یا نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی فکر و نظر اور  احساس و ادراک کی نا رسائیوں کا باعث بننے والی ایک معاشرتی کمزوری ہے۔ جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

( 45 ) اَڑنگ بَڑنگ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اصل میں جو چیزیں، جو خیالات سماج کو بے تکے پن کی طرف لاتی ہیں، وہی اڑنگ بڑنگ کہلاتی ہیں، یعنی بے تکی، بے ڈھنگی، بے ہنگم۔ یہ عوامی الفاظ ہیں۔ اُن کا استعمال اب زبان میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن عمومی سطح پر اب بھی ہم انہیں محاورات میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ’اڑنگا لگانا‘ ایسا ہی ایک محاورہ ہے جس سے دوسرے کے کام میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بننے کا رو یہ سامنے آتا ہے، جو ایک طرح کا بُرا اور  بُرے نتیجے پیدا کرنے والا سماجی رو یہ ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس نے خواہ مخواہ’ اڑنگا لگا دیا‘ رکاوٹ پیدا کر دی، الجھنیں کھڑی کر دیں۔ اس سے ہم اپنے سماجیاتی مطالعہ کے بعض پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں جو کام، جو شے یا جو تعمیر بے ڈھنگی ہوتی ہے، اُس کے بے ہنگم پن پر تبصرہ بھی اَڑنگ بڑنگ کہہ کر کیا جاتا ہے۔

( 46 ) اُڑی اُڑی طاق پر بیٹھی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ویسے تو ایک چڑیا کا اُڑنا اور  اِدھر سے اُدھر بیٹھنا اِس میں شامل ہے، لیکن محاورے کے سماجی استعمال اور  معاشرتی رویوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کون کون سے عملی اور  ذہنی رویّے اس میں شامل ہیں۔ اُڑنا انسان کو ہمیشہ ہی اچھا لگا اور  خود وہ طرح طرح سے اُڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی لیے اُڑنے کے عمل پر بہت سے محاورے موجود ہیں۔ محاوروں کا رشتہ ہمارے جذبات سے، خواہشات سے اور  تمنّاؤں سے طرح طرح سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس میں ہمارے خواب بھی آ جاتے ہیں، خیال بھی اور  تمنائیں بھی۔ کوئی محاورہ کسی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اس میں اُس کی ناکامیاں آتی ہیں، دوسری طرف کامیابیاں اور  تیسری طرف تمنائیں اور  ضرورتیں، مجبوریاں۔ ایک محاورہ ہے ’اَڑی بھِیڑی میں کام آنا‘، یعنی جب کوئی صورت نہ ہو اور  ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوں، اس وقت کوئی کام آ جائے تو کتنی بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک کہاوت ہے، ’بیوی بھلی پاس کی، یار دوست بھلا ٹوٹے کا‘۔ جب کوئی کام نہ آتا ہو تو آدمی کتنا مجبور ہوتا ہے۔ اسی لیے اَڑی بھیڑ میں کام آنا یا اَڑے وقت میں کام آنا ہماری سماجیات کا اہم پہلو ہے کہ جب آدمی خود کچھ نہ کر سکے تو کوئی دوسرا کام آئے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو مصیبت میں کام آ جائے وہی اپنا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جا تا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک محاورہ ’اڑے کام سنوارنا ‘ بھی ہے۔

( 47 ) آڑے ہاتھوں لینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عجیب بات ہے کہ محاورات ہماری تہذیب کے مختلف رُوپ پیش کرتے ہیں اور  اُن سے ہمارے ذہن و زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ ’آڑے ہاتھوں لینا‘ فضیحتا کرنے کو کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ سیدھے ہاتھ کے معنی ہوتے ہیں محبت کا اظہار کہ پیار سیدھے ہاتھوں ہی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ’آڑے ہاتھوں لینا‘ گفتگو کا عمل بھی ہے اور  تعلقات کے اچھے بُرے ہونے کی ایک نشانی بھی ہے۔ ترچھی نظروں سے دیکھنا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسانی عمل کی ادائیگی میں الفاظ بھی حصہ لیتے ہیں۔ اعضاء کا ایکشن اور  ری ایکشن(reaction) بھی اشارے ا ور کنایے بھی، خیال، عمل، خوشی اور  نا خوشی بھی۔ محاورے انہیں سب حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ محاورہ بھی تشبیہ ہوتا ہے، استعارہ بھی، تصوّر بھی اور  تصویر بھی۔

’آڑے آنا‘ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اِس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے لیے آفت میں کام آنے کی غرض سے آڑے آنا کام آتا ہے اور  ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور  ان کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ آڑے آ گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور  کتنی پریشانیاں برداشت کرنی ہوتیں۔ ’اڑم ڈھم ہونا‘ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ مگر اس کے معنی بھیڑ بھڑکّا کے ہیں۔ جب راستہ نہ ملے اور  نہ بیٹھنے کی جگہ ہو، نہ جانے کے کوئی راہ، ایسے وقت میں اَڑم ڈَھم کہتے ہیں۔ محاورہ عوامی طرزِ اظہار بھی ہوتا ہے اور  بعض محاوروں میں صوتی اعتبار سے ایک کرختگی بھی ہوتی ہے جو عوامی اظہار میں شامل رہنے والی ایک صورتِ اظہار ہے۔ خواص سخت الفاظ اور  کرخت آوازوں کا استعمال کم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زبان میں یہ رجحان پوربی بھاشاؤں سے آیا ہو۔ اُردو کے ابتدائی مراحل میں ان بھاشاؤں کا اثر ہماری زبان پر زیادہ تھا اور  بعد میں فارسی اثرات کی بدولت یہ رجحان شہری سطح پر کچھ اور  آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ مگر عوامی محاورے نے ان آوازوں کو جو نسبتاً ثقیل آوازیں تھیں، ہماری زبان میں باقی رکھا ہے۔

( 48 ) آزاد کا سونٹا (فقیر)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا، نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا ضرور ہے۔ اقبالؔ کا یہ مشہور شعر انہیں آزاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند

فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی آزادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، بلّی کتّے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میں ہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کو جو اپنے لب و لہجے پر قابو نہیں رکھتا، ’آزاد کا سونٹا‘ یا ’ فقیر کا سونٹا‘ کہتے ہیں۔

( 49 ) اِزار بند ی کا رشتہ یا اِزار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔ اِزار پائجامہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے ایسے رشتے جو جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کو اِزار سے نسبت دی جاتی ہے اور  سماجی طور پر انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ ’اِزار کا کچّا‘، ’اِزار کا ڈھِیلا‘ یا ’اِزار کی ڈھیلی‘، اسی نسبت سے مرد اور  عورت کے لیے کہتے ہیں۔ اب یہ محاورے عام نہیں ہیں۔ ان کا استعمال بہت کم ہو تا چلا گیا ہے۔ لیکن آج بھی اُن سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں نے تشبیہ و استعارے یا اشارے و کنایے میں ہمارے سماجی رویّوں یا معاشرتی سطح پر عمل اور  ردِ عمل کو محفوظ کر دیا ہے۔ ’ازار میں پہن لیا‘ یا ’ازار میں ڈال کر پہن لینا‘ اسی سلسلے کے کچھ محاورے ہیں اور  سماجی طور پر اپنے خالص معنی رکھتے ہیں۔ جب کسی بات کی یا کسی شخص کی دوسروں کی نگاہ میں قدر و قیمت نہ رہے، اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو پائجامے میں پہن لینا چاہتے ہیں۔ اِزار میں ڈال لینے کے معنی بھی یہی ہیں۔ اِس طرح سے سماج میں جو ایک ذہنی درجہ بندی رہتی ہے، یہ اسی کی طرف ایک اشارہ ہے۔

( 50 ) از غیبی گولا یا از غیبی دھکّا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مشرقی اقوام غیب کی زیادہ قائل رہیں اور  ظاہر کے مقابلے میں باطن کو انہوں نے ہمیشہ زیادہ بامعنی اور  پُر قوّت تصور کیا۔ اس سے جہان صوفیانہ اور  رُوحانی تحریکیں نیز مذہبی فلسفہ ان میں زیادہ رائج رہا۔ وہاں توہّم پرستی اُن میں افکار، خیالات اور  عقائد کے اعتبار سے زیادہ رائج رہی کہ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے، کہاں سے کونسی آفت نازل ہو اور  کس مصیبت کا سامنا کس وقت کرنا پڑے۔ ’از غیبی گولا‘ یا ’از غیبی دھکا‘ اسی صورتِ حال کو کہتے ہیں جب آدمی اچانک کسی آفت میں مبتلا ہو جائے، کسی مشکل میں پھنس جائے۔ زبان کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ محاورہ عجیب و غریب ہے کہ اس میں ’از‘ کا لفظ شروع میں آیا ہے، جو سر تا سر فارسی لفظ ہے۔ لیکن اُردو والے اِسے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ خطوں میں ’از دہلی‘، ’از لاہور‘ یا’ از حیدرآباد‘ بے تکلف طور پر لکھا جاتا تھا۔ ’از حد‘ کہہ کر حد سے زیادہ کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ ’از حد بد تمیز ہے ‘ یا ’از حد خوف ناک ہے‘ اب بھی کچھ لوگ بولتے ہیں۔ محاورے کی اس صورت نے ’از‘ کے استعمال کو عام زبان کا ایک حصّہ بنا دیا ہے اور  حیرت ہے کہ ’دھکّا‘ یا ’گولا‘ جیسا لفظ ’از غیبی‘ کے ساتھ ملا دیا۔ ہماری زبان کی مزاج شناسی کے لیے یہ محاورہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

( 51 ) آس۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آس اُمّید کو کہتے ہیں اور  اُمید کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس پر دنیا قائم ہے، یعنی اُمید نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ امید کے ساتھ بھی قیامت کا اُتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔

اُمّیدیں باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے

امیدیں ہمارے خواب ہیں، خیال ہیں، توقعات ہیں جو زندگی میں وقتاً فوقتاً، موقع بموقع ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت کے ہاں حمل کی حالت کو اُمید سے ہونا کہتے ہیں۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔

کہتے ہیں، جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ

ہم کو جینے کی بھی اُمّید نہیں

’’اُمید آس ‘‘ہے، جو آشا کی عوامی شکل ہے اور  بعض محاورات کا ضروری جزو ہے۔ ’آس رکھنا‘ تو خیر اُمّید رکھنے کے بارے میں ہے۔ ’آس اولاد‘ اس سے آگے کی بات ہے۔ ہم اولاد سے بھی آس رکھتے ہیں۔ اور  اولاد ہم سے آس رکھتی ہے۔ یہ سلسلہ باہمی طور پر ذہنی رشتوں کو قائم رکھتا ہے۔ دعاؤں میں آس پوری کرنا بھی کہتے ہیں،پوری ہونا بھی۔ اولاد کی آس تو بہت بڑی آس ہوتی ہے اور  جس کے اولاد نہ ہو اس کی تو گویا جڑ بنیاد ہی اکھڑ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے تو آس اولاد کچھ بھی نہیں ہے۔ بے اولادا ہونا ایک طرح کی نحوست ہے اور  عورت تو اولاد نہ ہونے کی صورت میں بہت ہی نا مرادانہ زندگی گزارتی ہے۔ ’آس لگانا‘ اور ’ آس رکھنا‘ بھی اسی میں شامل ہے اور  ’آس ٹوٹنا‘ یا ’آس بندھنا‘ بھی۔ ’آسرا‘ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ’آسرا ڈھونڈنا‘، ’آسرا جوہنا‘، ’آسرا لگانا‘، ’’آسرا باندھنا‘ بھی اور  ’’آسرا رکھنا‘ بھی۔ فراق کا شعر ہے۔

آسرا وہ بھی شامِ فُرقت کا

خواب تو دیکھیے محبت کا

( 52 ) آسامی بنانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’آسامی‘ جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک پٹواری، ایک ٹیچر یا ایک کلرک کی آسامی خالی ہے۔ ’آسامی بنانا‘ ایک محاورہ بھی ہے اور  انسان کے فریب، مکر اور  دغا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آدمی جھوٹ سچ بول کر، پُر فریب باتیں کر کے کسی سے ناجائز فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اسی کا آسامی بنانا کہتے ہیں کہ اُس نے وہاں آسامی بنا رکھی ہے، یا وہ تگڑم باز ہے، آسامی بنا لے گا۔ آسامی بمعنی جگہ اب بہت کم استعمال ہوتا ہے اور  درخواستوں میں بھی نہیں آتا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض الفاظ سماج میں ایک خاص طبقے یا حلقے میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور  جڑیں پھیلاتے ہیں اور  وقت کے ساتھ وہ سمٹ بھی جاتے ہیں اور  ان کا استعمال کم یا ختم ہو جاتا ہے۔

( 53 ) آستین کا سانپ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ بھی سماج میں موجود افراد کی برائیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سانپ خود بھی بطورِ محاورہ اور  علامت استعمال کیا جاتا ہے اور  یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی نہیں بلکہ سانپ ہے۔ اس معنی میں سانپ گویا بدترین دشمن ہوتا ہے اور  آستین کا سانپ وہ ہوتا ہے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہو، ہمارا ہم درد ہو اور  مخلص نظر آتا ہو لیکن در پردہ ہمارا دشمن ہو۔ سماج میں اس طرح کے کردار بہر حال موجود ہوتے ہیں۔

( 54 ) آستینوں میں بُت چھُپائے رکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے جب انسان عقیدہ و خیال کو چھُپائے رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت کچھ اور  ہوتی ہے اور  ظاہر کچھ اور  کہا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ جو دراصل بُت پرست تھے، جب نماز پڑھنے مسجد میں آتے تو اپنی آستینوں میں بت چھپائے رکھتے اور  اس طرح ایک منافقانہ کردار ادا کرتے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبالؔ نے یہ شعر کہا ہے۔

اگر چہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللّہ

( 55 ) اِس کان سننا، اُس کان اڑا دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

معاشرے کا لا پروائی والا رویّہ اُس کے پس منظر میں موجود ہے کہ وہ کسی کی اچھی سچی بات اور  فریاد بھی سننا نہیں چاہتا۔ ویسے داستانیں، قصّے، کہانیاں گھڑی بھی جاتی ہیں، سنی بھی جاتی ہیں اور  سنائی بھی جاتی ہیں۔ لیکن معاملے کی باتیں نہ کوئی سننا چاہتا ہے، نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ رویّہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور  روزمرہ کے تجربے کا حصہ ہے کہ آدمی دوسرے کی بات کو سُنی ان سنی کر دیتا ہے۔ اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کان سے سنتے ہیں اور  اس کان سے اڑا دیتے ہیں۔

( 56 ) آسمان پر اُڑنا۔ آکاس پھل۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ ایسا محاورہ ہے جو ہماری زبان اور  ہماری روایتی فکر کی سماجی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی بہت اونچی اونچی باتیں کرنا، بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا، جس کو زمین آسمان کے قُلابے مِلانا بھی کہتے ہیں۔ آسمان ہماری ایک اہم تہذیبی علامت ہے۔ ہم اپنے مذاہب کو بھی آسمانی مذہبوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ آسمانی کتابیں کہتے ہیں، آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں۔ سنسکرت میں اسے’ آکاش وانی‘ کہا جاتا ہے۔ مسلم اقوام میں آسمان کا ایک اور  کردار بھی ہے کہ وہ فریب کار ہے، دغا باز ہے، فتنے بر پا کرتا ہے، دِلوں میں فرق ڈالتا ہے اور  عاشقوں کا دشمن ہے، رقیبوں کا دوست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے فارسی اور  اردو شعراء کے ہاں آسمان کی شکایتیں ملتی ہیں اور  اس طرح کی تمنائیں بھی کی جاتی ہیں۔

شبِ وِصال بہت کم ہے، آسماں سے کہو

کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جُدائی کا

اسی لیے ایک نیا زاویۂ فکر پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ آدمی اگر زیادہ مکّاریاں کرتا ہے تو وہ گویا آسمان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بہت سے محاورے آئے ہیں جن سے ان ذہنی رویّوں کا پتہ چلتا ہے جو آسمان سے متعلق ہیں، جیسے آسمان کے تارے توڑنا، آسمان سے باتیں کرنا، آسمان میں پیوند لگانا، آسمان پر دماغ ہونا، آسمان پر چڑھنا، آسمان کو ہلا دینا، آسمان جھانکنا یا تاکنا۔ اِس سب میں زیادہ چالاکی دکھانے، جھوٹ بولنے اور  فریب دینے کا مفہوم شامل رہتا ہے۔ اِس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانی مشکلات سے تعلق رکھتے ہیں اور  انسانی زندگی پر جو آفتیں ٹوٹتی ہیں، اُن کی طرف اُن میں اشارہ مقصود ہوتا ہے، جیسے آسمان پھٹ پڑنا، آسمان ٹوٹ پڑنا، آسمان سے بلاؤں کا اُترنا۔ فارسی کا ایک شعر ہے۔

ہر بلائے کز‘ آسمان آید

خانۂ انوریؔ تلاش کُند

یعنی جو بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے، وہ انوریؔ کا گھر تلاش کر لیتی ہے۔ یہ ہر وہ آدمی کہہ سکتا ہے۔ جس کے گھر پر زیادہ آفتیں آتی ہیں۔

آسمان سے متعلق اور  بھی محاورات ہیں، جیسے آسمان سے گِرا، کھجور میں اٹکا، یعنی ایک جگہ سے کوئی مسئلہ حل بھی ہوا تو دوسری جگہ جا کر اٹک گیا۔ ایسا ہمارے انتظامی معاملات، گھریلو مسائل اور  دفتری سطح کی باتوں میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ محاورہ ہمارے معاشرے کی صورتِ حال کو سمجھنے اور  محاورے کے ذریعے معاشرتی امور پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر از غیبی گولے کا ذکر آیا ہے۔ ’آسمانی گولا‘، ’آسمانی تھپیڑا‘ بھی اسی کو کہتے ہیں۔ آسمان کے متعلق اور  بھی کچھ محاورے ہماری زبان کا حصہ ہیں۔ اُن میں ’ آسمان تلے آنا‘ بھی ہے۔

( 57 ) آسن۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بیٹھنے کے انداز کو کہتے ہیں۔ جوگی دھیان، گیان کے وقت ایک خاص انداز سے بیٹھتے ہیں۔ اس کو’ آسن لگانا‘ کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی جگہ پر نہ رہے تو اسے ’آسن ڈگنا‘ کہتے ہیں۔ ’آسن مارنا‘ یا ’آسن مارکر بیٹھنا‘ آسن لگانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔ جنسیات میں ایک خاص طریقے سے ایک دوسرے کے قریب آنے کو بھی آسن لگانا کہا جاتا ہے۔ ’آسن تلے آ جانا‘ بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

( 58 ) اَش اَش کرنا (عش عش کرنا)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ ’ع‘ سے عش عش کرنے کی صورت بھی آتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایسی زبان سے ماخوذ ہے جس میں ’ع‘ کا استعمال ہوتا ہو۔ اسی لیے لغت میں اس کے ساتھ چھوٹی ’ہ‘، ’ف‘ اور  ’ع‘ کی علامتیں لکھی ہوئی ہیں، یعنی یہ ہندی، فارسی اور  عربی تینوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ہم اپنی زبان کے لِسانی رشتوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ محاورہ زبان کی قدامت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور  لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔

( 59 ) اِشتعال دینا یا اِشتعالک پیدا کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غصّہ دلانے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن لفظِ اشتعال عربی ہے اور  اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ محاورہ ہم نے عربی سے اخذ کیا ہے۔ ہمارے سماجی عمل میں بھی یہ استعارہ شریک ہے۔ جان جان کر بھی ہم دوسروں کو Teaseکرتے ہیں اور  ان کو غصہ دلاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محاورہ صرف لغت کی شے ہی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سماجی لسانیات سے ہے اور  زبان کو ایک خاص سطح پر پیش کرنے اور  سامنے لانے میں محاورہ جگہ جگہ اور  معنی بہ معنی ایک خاص کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ ۔ اس سے کسی بھی معاشرے کے داخلی عمل، فکری رویّے اور  معاملاتی اندازِ نظر کو ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً ’اشنان دھیان‘ ہندو معاشرے کا ایک خاص اندازِ عبادت ہے کہ وہ اشنان کرتے ہیں تو گویا سورج کو جل چڑھاتے ہیں۔ آفتاب پرستی قوموں کا بہت قدیم مذہب ہے اور  اِس آفتاب پرستی کا پانی سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے اشنان کے وقت بھی سورج کا جل چڑھایا جاتا ہے۔

( 60 ) آفت توڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آفت کے معنی مصیبت، سانحہ اور  شدید پریشانی کے ہیں۔ آدمی کی زندگی میں اس طرح کے تکلیف دہ موقعے آتے رہتے ہیں کہ وہ اچانک کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے یا کسی دکھ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دکھ زیادہ تر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی دین ہوتے ہیں مگر اس میں انسان ہمارے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے شریک رہتے ہیں۔ انہیں کی وجہ سے یہ ہوتا بھی ہے۔ اب وہ اپنے ہوں یا غیر، وہی مصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ’آفت ڈھاتے ہیں ‘، کچھ لوگ ’آفت اُٹھاتے ہیں ‘، کچھ لوگ ’آفت توڑتے ہیں ‘۔ کچھ لوگ اس کی وجہ سے یا کسی اچانک حادثے کے باعث ’آفت رسیدہ‘ ہوتے ہیں، جنھیں ’آفت زدہ‘ یا ’آفت کا مارا‘ کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں شاعر اپنے آپ کو سب سے زیادہ آفت زدہ یا آفت رسیدہ خیال کرتا ہے۔ اس میں غم جانا بھی شامل رہتا ہے غم جان اور  بھی۔ جہان آفت خود ایسا لفظ ہے جو تہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ ’’آپتی‘‘ ہے جو سنسکرت لفظ ہے۔ وہاں سے ہندوی بھاشاؤں میں آیا ہے اور  فارسی میں ’’پ‘‘ کے بجائے ’’ف‘‘ آ گئی  اور  تشدید غائب ہو گیا اُردو نے بھی اسے فارسی انداز کے ساتھ قبول کیا جس کے ذریعے ہم زبانوں کے باہمی رشتوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ذہنوں اور  زمانوں کے آپسی لین دین کو بھی۔

( 61 ) آفت کا پرکالہ (لپکتا ہوا شعلہ)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غیر معمولی طور سے ذہین اور  شرارت پسند آدمی کو آفت کا’’ پرکالہ‘‘ کہتے ہیں۔ آفت کا ٹکڑا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ایک اور  محاورہ آفت کی چھٹی ہے۔ چھٹی خط کو کہتے ہیں۔ اب سے کچھ زمانہ پہلے تک ڈاکیہ کو چھٹی رساں کہتے تھے۔ یعنی خط پہنچانے والا۔ چھٹی رساں کا لفظ بھی ایک ایسی ترکیب پر مشتمل تھا جس میں ایک لفظ ہندی اور  دوسرا فارسی تھا۔ آفت کی چھٹی بھی اسی طرح کاترکیبی لفظ ہے جس سے ہماری زبان کی ساخت اور  پرداخت کا علم ہوتا ہے۔ خط آنے پر ہمارے قصبوں اور  خاص طور پر دیہات کے لوگوں میں ایک طرح کی کھلبلی سی مچ جاتی تھی۔ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے لکھا ہے؟ کیا لکھا ہے؟ اور  پھر یہ کہ اسے کون پڑھ کر سنائے ؟ چٹھی میں کوئی بہت خوشی یا غم کی بات ہوتی تھی تو اسے آفت کی چٹھی سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ رو یہ اگر محفوظ ہیں تو ہمارے اِن محاورات میں جو معاشرتی مطالعے کی کنجیاں کہہ جا سکتے ہیں۔

( 62 ) اَفراتفری۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ عربی لفظ ہے، اَفراط اور  تفریط، یعنی بہت زیادہ اور  بہت کم۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توازن بگڑتا ہے اور  چاہے وہ معاملات ہوں، مسائل ہوں، مشغولیتیں ہوں یا مصروفیات ہوں، تناسب اور  توازن کے بغیر اُن کا حُسن اور  اُن سے وابستہ بھلائی اور  عظمت قائم نہیں رہتی اور  ایک بے تکا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اُردو والوں نے اسی کو ایک نئے محاورے میں بدل دیا۔ اس کے تلفظ اور  املا کو بھی نئی صورت دی اور  اس کے معنی میں نئی جہت پیدا کی۔ اب افراتفری کے معنی ہیں گڑبڑ بھگدڑ چھینا جھپٹی اور  بے ہنگم پن۔ یہی بات سماج میں خرابی کا باعث ہوتی ہے اور  اُس کی قوت کو کمزوری اور  خوبی کو خرابی میں بدلتی ہے۔ اس معنی میں اس مفہوم کا رشتہ انفرادی عمل سے بھی قائم ہوتا ہے اور  اجتماعی اعمال سے بھی جو ہماری معاشرتی کارکردگی کی دائرے میں آتا ہے۔

( 63 ) اَفلاطون ہونا، افلاطون بننا۔ ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اَفلاطون قدیم یونان کا ایک بہت بڑا فلسفی، طبیب اور  دانشور تھا۔ ارسطو اسی کا شاگرد تھا۔ افلاطونی نظریات یونانی فلسفے پر بہت اثرانداز ہوئے ہیں اور ارسطو نے اپنی تنقیدوں سے اُن کو نئی قوت اور  وسعت بخشی ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہماری زبان کے محاورے میں اَفلاطون کی عظمت کا تصور بدل گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے یہ محاورہ استعمال ہونے لگا ہے جو خواہ مخواہ اپنے اوپر مغرور ہوں اور اپنی معاشرتی زندگی میں اس کا موقع بہ موقع اظہار کرتے رہتے ہوں۔ اسی لئے اَفلاطون کا سالہ اور افلاطون کا ناتی بھی محاورے میں شامل ہوئے۔ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح دوسرے ملکوں کے کرداروں کو اپنے یہاں جگہ دی اور اُن کی شخصیت کو اپنی طرف سے نئے معنی پہنائے۔

( 64 ) افواہ پھیلانا، افواہ اُڑانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

افواہ جھوٹی سچی باتوں کو کہتے ہیں۔ عام آدمی کو کسی بات میں اِس رشتے سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ بات سچی ہے یا جھوٹی غلط ہے یا صحیح مناسب ہے یا غیر مناسب وہ تو باتوں کو پھیلاتا اور ان سے اپنی دلچسپیوں کا اظہار کرتا ہے۔ غالبؔ نے تو دہلی کے لوگوں کی ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ دہلی کے خبر تراشوں کا جیسا کہ دستور ہے انہوں نے اپنی طرف سے خبر اُڑا دی۔ اسی خبر اڑانے کو افواہ اڑانا کہتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کے مزاج اور خواہ مخواہ کی باتوں سے دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ مصرعہ ہے۔ اسی انداز کی ایک بات ہے۔

 اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

( 65 ) آکھ کی بڑھیا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’آکھی ‘‘ایک خاص طرح کا پودا ہوتا ہے جسے آک بھی کہتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی شدید اداؤں میں پروان چڑھتا ہے اور اُس کے پتے اور پھُول بہت تر و تازہ ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بند رہتے ہیں۔ جب وہ خول کھُلتا ہے تو چھوٹے چھوٹے بیج بالوں جیسے بہت سارے ریشوں کے درمیان ہوتا ہے جو ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے پکڑتے ہیں اور پھر اپنی پھونک سے اڑا دیتے ہیں۔ ان بالوں کو اور بیج کو آک کی بڑھیا کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی بُڑھیا جو اڑتی پھرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مشین بھی ہے جس میں شکر سے سفید سفید بالوں جیسا ایک گچھا پیدا ہوتا ہے۔ اسے سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ بھی بڑھیا کے بال کہلاتے ہیں۔ یہ محاورہ جو مشینی دور تک آگیا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بوڑھی عورت اپنے سفید بالوں کے ساتھ بچوں اور  بڑوں کو کسی نہ کسی خاص معنی میں متاثر کرتی ہے۔ کہانیوں میں بھی اکثر بوڑھی عورتوں کا ذکر آتا ہے مگر شفقت و محبت کے ساتھ نہیں ایک طرح مکاری کے ساتھ۔

( 66 ) اُکھاڑ پچھاڑ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اکھاڑنا بھی بیشتر اچھے معنی میں نہیں آتا، جیسے اُس کو اکھاڑ دیا گیا، وہ اکھڑ گیا، اس کی جڑ اکھڑ گئی،  جڑ بنیاد اکھاڑ کر پھینک دی گئی۔ یہ سب ایک طرح کے سماجی عمل ہیں اور اُن میں فرد یا جماعت کا ایسا عمل شامل ہے جو ذاتی طور پر یا جماعتی  طور پر نقصان دینے والا ہو۔ یہی صورت پچھاڑ کی ہے۔ پچھڑ جانا،پچھاڑ کھانا، پچھاڑ دینا شکست دینے کے معنی میں آتا ہے یا پھر اس میں بے چینی اور ناکامی کا مفہوم شامل رہتا ہے۔

یہاں اکھاڑ پچھاڑ انہیں مطالب کا جامعہ ہے اور اس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ بہت اکھاڑ پچھاڑ کی یا اکھاڑ پچھاڑ کھائی۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا بھی اسی دائرہ میں شامل ہے۔ پہلے زمانہ میں جب جھڑپیں ہوتی تھیں، لوٹ مار ہوتی تھی۔ اسی کو اکھاڑ پچھاڑ بھی کہتے تھے۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا اسی طرح کا عمل ہے۔ فتنہ فساد برپا کرنے والوں کو بھی اکھاڑ پچھاڑ مچانے والا کہتے تھے۔ خاندانی جھگڑے جب بڑھ جاتے تھے تو وہ بھی ایک طرح کی اکھاڑ پچھاڑ تھی جس کے ذمہ دار خاندان ہی کے لوگ ہوتے تھے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ محاورہ بھی ایسے محاورات میں سے ہے جو سماج کی فطرت انسانی ذہنی روش اور سماجی، معاشرتی اور خاندانی تنظیم کو بگاڑ دینے کا عمل اس میں شامل ہے۔ ۔

( 67 ) اُکھڑی اُکھڑی باتیں کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جما،جما کر باتیں کرنا ایک طرح کا سماجی عمل بھی ہے اور شخصی عادت بھی۔ اس کے مقابلے میں اکھڑی اکھڑی باتیں کرنا آتا ہے، یعنی باتوں کو بے دلی سے کرنا۔ کٹے پھٹے جملے اور بے ربط فقرے استعمال کرنا یہ ذہنی رو یہ سماجی نفسیات کا حصّہ ہوتا ہے۔ آدمی جب بیزار ہوتا ہے، بات نہیں کرنا چاہتا تو خواہ مخواہ کی بے تکی باتیں کرتا ہے، بے ربط اور بے موقع سوال و جواب کرتا ہے۔ وہی تو اکھڑی اکھڑی باتیں ہیں۔ ہمارے یہاں اس طرح کا عمل طرح طرح سے سامنے آتا ہے۔ ہم کسی بات پر توجہ دینا نہیں چاہتے، سننا نہیں چاہتے، بات کو ڈھنگ سے کہنا نہیں پسند کرتے، ٹلا دینا چاہتے ہیں، تو یہ رو یہ اختیار کرتے ہیں۔

( 68 ) آگا تا گا لینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک نمائندہ محاورہ ہے۔ ہمارے یہاں درمیانی طبقہ اور اس میں بھی نچلا درمیانی طبقہ ذمہ داریوں سے گھبراتا ہے اور چاہتا یہ یہ کہ دوسرے ہمت کر کے آگے بڑھیں اور جو قریب تر لوگ ہیں اُن کے لئے کچھ کریں۔ مثلاً اگر ضرورت پڑے تو شرافت کے ساتھ اُن سے اچھا سلوک کریں خاطر تواضع مناسب سطح پر لین دین اور ضرورت وقت امداد و تعاون سے بھی گریز نہ کریں۔

حکومت کی طرف سے کوئی ایسا انتظام نہیں ہے یا سوسائٹی نے کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کیا جس میں دوسروں کی بھلائی یا وقتِ ضرورت ان کی مدد کا کوئی provisionہو اس میں زیادہ تر رشتہ دار عزیز دوست اور ہمدردی ہی کام آتے ہیں اور وہی آگا تاگا لیتے ہیں اور یہی سماجی عمل کی خوبصورتی ہے۔

( 69 ) آگا پیچھا دیکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نفع نقصان اور اچھائی برائی پر نظر رکھنا بہت سے آدمی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں کوئی فیصلہ کر کے یا اس پر عمل کرتے وقت انجام کو ذہن میں نہیں رکھتے جو چاہے کہہ دیتے ہیں جو چاہے کر دیتے ہیں وہ یہ کبھی غور نہیں کرتے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بناتے کہ بات کا آگا پیچھا سوچ لیں احتیاط برتیں اور کسی بھی فعل کے معاملہ میں اپنی ذمہ داری کے احساس کو فراموش نہ کریں۔

( 70 ) آگا روکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آگا روکنا بھی ایک طرح کا وہ عمل ہے جو ہماری سماجی نفسیات سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں کسی بھی معاملہ میں جو مشکلات ابتداءً پیش آتی ہیں ان کو روکنا یا روکنے میں معاون ہونا آگا ہونا روکنا کہا جاتا ہے دشمن کے حملہ کے وقت اس کے پہلے حملے کو روکنا آگا روکنا کہلاتا ہے۔

شادی میں دلہن کو لے جاتے وقت آگا روکنے کی ایک اور  صورت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ رعایا پر آیا ہے کے لوگ آ کر برات کا راستہ روکتے ہیں اس کو باڑ رکائی کہا جاتا ہے لیکن ہے وہ بھی آگا روکنا کہا جاتا ہے اور جیسا کہ اس سے پیشتر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ بہت سے محاورہ ہماری سماجی فکر و معاشرتی عمل اور  سماجی رویوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

( 71 ) آگ بگولہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایسے ملکوں کا محاورہ ہے یا ان کی زبان یا طرز بیان میں داخل ہو سکتا ہے جہاں شدت سے گرمی پڑتی ہے سخت گرم لونہیں چلتی ہوں وہیں تو بگولے آگ کا درجہ رکھتے ہوں وہیں تو بگولے آگ بگولہ کہلاتا ہے جہاں آدمی ذرا سی بات پر بھڑک رکھتا ہے اور اپنے شدید غم و غصہ پر بھڑک اٹھتا ہے اور اپنے شدید غم و غصّہ کا اظہار کرتا ہے ایک اپنے معاشرے میں جہاں تحمل اور  بُرد بازی کم ہوتی ہے وہیں اس طرح کی جذباتی روشیں زیادہ سامنے آتی ہیں خواہ وہ غصّہ کے عالم میں ہوں یا غم  وا لم کے جذبات سے متعلق ہوں یہاں شدتِ احساس کا غلبہ مشرقی قوموں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

آگ سے متعلق ایک ہم محاورہ آگ کھائے گا انگار ے اُگلے گا یہاں آگ کوئی نہیں کھاتا لیکن مداری شعلہ اگلتے اور آگ نگلتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نظر بندی کا عمل بھی ہے۔ اور یہاں کی جادوگری کا ایک حصّہ ہے مگر اسی کے ساتھ اس کا ایک اور  سماجی مفہوم ہے وہ یہ کہ آدمی جس طرح کے اعمال اختیار کرتا ہے وہی اس کے سنسکار میں جاتے ہیں جواس کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان میں ہوتا ہے آخر ہونٹوں تک کوئی بات دل سے گزر کریا دماغ سے اُتر کر ہی آتی ہے ایسی صورت میں جس طرح کے کردار کا کوئی انسان ہو گا وہی اس کی رفتار و گفتار میں بھی سامنے آئے گا۔

( 72 ) آگ لگانا، آگ بجھانا، یا لگانی بجھائی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سماجی عمل ہے لوگ جھوٹ بولتے ہیں فتنہ پردازیاں کرتے ہیں یہ سیاسی مقصد سے بھی ہوتا ہے سماجی مقاصد اس میں شریک رہتے ہیں۔ لوگوں کی اپنی کمینہ فطرت بھی ایسی صورت میں چاہیے افراد میں تعلقات بگاڑے جاتیں یا خاندانوں میں بہرحال وہ ایک سماجی سطح پر یہ کردار ہے۔

بعض جس کا اظہار آگ سے متعلق محاورات سے ہوتا ہے جیسے آگ بھڑکانا، یا آگ پانی کا بیر ہونا،  آگ پھونکنا،  آگ اگلنا،  آگ لگا کر تماشہ دیکھنا،  آگ دینا،  آگ ہوئی تو دھواں ہو گا،  وغیرہ۔

بعض محاورے عجیب و  غریب ہیں جیسے آگ جوڑنا آگ روشن کرنے کی کوشش کو کہتے ہیں۔ آگ دھونا اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب محاورہ ہے۔ چلم پر رکھنے کے لئے جب انگاروں کو جھاڑا جاتا ہے اور  راکھ الگ کی جاتی ہے تو اسے آگ دھونا کہتے ہیں۔

( 73 ) آگے آگے چلنا، یا ہونا، آگو آگو کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آگے آگے چلنا ہمارے یہاں ایک تہذیبی قدر ہے ہراول دستہ ہمیشہ آگے آگے چلتا تھا شاہی سواری کے ساتھ خیمہ بردار اور دوسرے خادم ہمیشہ آگے رہتے تھے ان کو پہلے سے خیمے چھولداریاں اور  ڈیر ے لگا نے ہوتے تھے احتراما ً بزرگوں کے آگے آگے چلتے تھے۔ اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ کسی بھی رکاوٹ دشواری اور خطرہ سے ان کو بچایا جائے۔

جہاں محاورے کے ساتھ آگوہ آگو بھی دیا گیا ہے اور آگاڑی  آگاڑی کے ساتھ آگا ڑ وآگاڑ وآگاڑ بھی لکھا گیا ہے۔ یہ تلفظ راجستھانی اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ لوگ ’’آگا‘ تلفظ ہویا ی کا دونوں کو و کے تلفظ میں بدل دیتے تھے اور گاڑھا کو گاڑہو کہتے ہیں اور ’’مارا‘‘ کو مارو کہتے ہیں۔ محاورے ہماری زبان کی قدیم شکل کو محفوظ رکھتے ہیں اس میں تلفظ املا بھی شریک ہے۔

( 74 ) آگے خدا کا نام ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہاں تک آ گئے آگے خُدا کا نام ہے ساقی

خدا ہمارے یہاں ایک فکری آئیڈیل ہے ہم جو عقیدتوں خیالوں ‘ اور خوابوں میں بھی شریک رہتا ہے۔ یہاں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہم جس انتہا تک آ گئے ہیں اِس کے بعد میں خدا کا نام ہے اور کچھ نہیں۔

معلوم ہوا کہ فکر و خیال اور سعی و عمل کی وہ حد جسے ہم  نقطہ آخر کہہ سکتے ہیں وہ مقام آ چُکا ہے اور اُس کے بعد خدا کا نام ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے کلمہ کے بات پھر وہیں آئی کہ صورت جو بھی ہو انتہا کو پہنچ کر ہم خدا کے نام کو سامنے رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہی اوّل ہے وہی آخر ہے نہ اس سے پہلے کچھ تھا اور نہ اس کے بعد کچھ ہے۔

( 75 ) آگے سے ہوتی آئی ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر روایت پرست ہے اور انسان نے اپنی راہ ارتقاء کے مختلف مرحلوں میں سوچا ہے ،سمجھا ہے، نئے فیصلے کئے ہیں، مگر معاشرہ بنیادی طور سے روایت پسند رہا ہے یہ کہنا کہ آگے سے ہوتی آئی ہے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم جو کچھ سوچ رہے ہیں کر رہے ہیں وہ پہلے سے چلی آتی ہوئی ایک روایت ہے۔

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

یعنی اپنی سوچ کا عمل یہاں بھی موجود نہیں ہے صدیوں کا سفر آنکھ بند کر کے روایت کی لکیر پر ہوتا رہا ہے آخر اچھوں کو کیوں برا کہا جاتا رہا ہے یہ کتنا بڑا سوالیہ نشان ہے مگر ہر آدمی نے روایت کا سہار لیا خود سوچا نہیں اور یہی انسانی معاشرے کی بہت بڑی کمزوری نارسائی اور ناکامی ہے کہ اُس نے ایک بار کسی بات کو مان کر پھر اُس پر کبھی نہیں سوچا۔ اور Tradition Boundروایت پرستی پر ہمیشہ فخر کیا۔

( 76 ) آگے کا اُٹھا کر کھانے والا،یا آگے کا اُٹھا کے کھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آگے کا اُٹھاکھا کرنا یہی محاورہ دوسرے الفاظ میں بھی ملتا ہے ’’اوپر کا پڑا کھانا‘‘ اور ہمارے معاشرے کی شدید کمزوریوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے یعنی بغیر محنت کے یا بغیر حق کے کھانا جو مل گیا جسے مل گیا جہاں سے مل گیا اُس سے پیٹ کی آگ بجھا لی یا اپنی کوئی بھی معاشرتی ضرورت پوری کرنا ہے معاشرے کی یا سوسائٹی کی اِس مجموعی عادت کو اِس محاورے میں پیش کیا گیا ہے جس میں ایک گہرا طنز موجود ہے۔

( 77 ) آگے ڈالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِس کے معنی سامنے رکھنا بھی ہے اور بیوہ کی مدد کرنا بھی ہے۔ ہندوؤں میں دستور ہے کہ کسی بیوہ عورت کے گزارے کے خیال سے اُس کے عزیز رشتہ دار اُٹھاونی یا تیرہویں کے دن حسبِ مقدور کچھ روپیہ دیتے ہیں۔

اِس کے یہ معنی ہیں کہ ہماری رسمیں زندگی اور دُنیاوی معاملات سے بھی رشتہ رکھتی ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کے معنی اور مقصد پر نظر رکھی جائے۔ 

( 78 ) آگے کو کان ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہاں کانوں کے آگے یا پیچھے ہونے سے مُراد نہیں ہے بلکہ آئندہ کے لئے ذہن کے ہوشیاری ہونے سے مراد ہے کہ اب جو کچھ ہم نے سنا ہے دیکھا ہے اس سے ہم نتیجہ اخذ کریں ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ آئندہ کے لئے احتیاط اور اخذ نتائج کے عمل سے اکثر محروم رہتے ہیں۔

( 79 ) آگے ہاتھ پیچھے پات۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پات پیڑ کے پتہ کو کہتے ہیں ایسا غریب آدمی جس کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے بھی کچھ نہ ہو یہ محاورہ اُس کے لئے ہوتا ہے ہندوستان میں سادھو سنت اور  خاص طور پر پر جین مت کو ماننے والے منی ننگے رہتے ہیں۔ جو غربت کے باعث نہیں ہوتا یونان میں بعض دیوتاؤں یا قدیم انسانوں کے پرائیوٹ حصّہ جسم کو انجیر کے پتے سے ڈھکتے تھے۔ وہ ایک فنکارانہ رو یہ تھا غربت وہاں بھی شریک نہیں تھی مگر ہمارے معاشرے میں غُربت و اِفلاس کو بھی اس پس منظر میں خصوصیت سے شامل کیا گیا ہے۔

غُربت پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں اُن میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ اُس کے گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہے یا ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے بھوکا ننگا فقیر جیسے محاورے ہمارے معاشرے کی غربت کو ظاہر کرتی ہے۔

( 80 ) اُلٹا توا ہونا، بے حد کالا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہندوستان میں سانولا رنگ تو ہوتا ہی تھا اُس کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ کالے رنگ کو ناپسند بھی کیا جاتا رہا ہے اسی لئے اُلٹا توا ہونا بہ حیثیت محاورے کے ہمارے ہاں رائج ہوا کہ وہ آدمی کیا ہے اُلٹا توا ہے۔ اس سے ہم یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اُن لوگوں نے بطور محاورہ رائج کیا جو  جو نسبتاً اچھے رنگ والے ہوتے تھے۔

اُلٹے لفظ اور مفہوم کے ساتھ بہت محاورے بنے ہیں اور  ہمارے معاشرے کی ذہنی سطح کے مختلف رنگ اُس کے ذریعہ سامنے آتے ہیں مثلاً اُلٹی گنگا بہانا، بات کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، یا دینا۔ اُلٹی سیفی پڑھنا یعنی بددعا دینا۔ اُلٹے پاؤں پھر آنا، فوری طور پر واپس لوٹ آنا،الٹے ملک کا ہونا، بے حد بیوقوف ہونا ملک کا لفظ ہماری عام زبان میں بہ طورِ علاقہ استعمال ہوتا تھا ملک اس معنی میں نہیں آتا تھا جس معنی میں اب آتا ہے۔

قوم کا لفظ بھی اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے ایک وقت میں وہ قبیلے خاندان اور گروہ کے معنی میں آتا تھا اب اُس کے معنی ایک خاص سیاسی اور قانونی اسٹیٹ میں رہنے والے کے ہیں۔ جسے آج ہم ہندوستانی قوم کہتے ہیں اور  Nationنیشن کے معنی مراد لیتے ہیں۔

( 81 ) اُلٹی سانسیں آنا یا اُلٹے سانس آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِس سے مراد ہے جان کنی کا عالم جب سانس اُکھڑ جاتی ہے دہلی میں اُسے’’ گھنگرو بجنا‘‘ کہتے ہیں کہ وہ خود ایک محاورہ ہے۔

( 82 ) الش کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بادشاہوں یا امیروں کے لئے الگ سے جو اُن کا پسندیدہ کھانا ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ اُس میں سب شریک نہیں ہوتے تھے امیر یا بادشاہ اُس میں سے جب بطورِ تحفہ کسی کو کچھ دیا جاتا تھا تو وہ’’ الش‘‘ کہلاتا تھا یہ ترکی لفظ ہے اور غالباً مغل بادشاہوں کے ساتھ آیا ہے۔

( 83 ) الف ( سید ضمیر حسن دہلوی )

حروفِ تہجی میں پہلا حرف ہے اور اِس اعتبار سے خاص معنی رکھتا ہے۔ ابتداء کو ظاہر کرتا ہے خدا کے نام یعنی ’’اللہ کا پہلا حرف ہے’’ الف اللہ‘‘ کا محاورہ ہے اور اس کے معنی سب سے الگ اور جدا۔ الِف کھینچنا گَداگری کرنے کو کہتے ہیں۔ ’’ الف‘‘ کے ساتھ عریاں ہونے کا تصور بھی آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ننگا الف تھا۔

’’پُرش‘‘ ہندو فلسفہ میں خدا کو بھی کہتے ہیں ’’الکھ پرش‘‘ خُدا کی ذات بھی ہے اور ایسے فقیر کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں سے آزاد اور الگ تھلگ رہتا ہو۔ہندو کلچر میں ’’ الکھ‘‘ کا لفظ بہت اہم اور مقدّس ہے۔ اسی لئے ایک مقدس ندی کا نام’’ الکھ نندا ہے‘‘’’ الکھ داس‘‘ نام رکھا جاتا ہے ’’الکھ جگانا‘‘ یعنی جوش عقیدت پیدا کرنا۔ ’’ آرتی اتارنا‘‘ بھجن پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے علاوہ کچھ مانگنے کو بھی درویشوں کی جگہ پر’’ الکھ جگانا‘‘ کہتے ہیں۔

( 84 ) الگ پڑنا، الگ تھلک ہو جانا یا الگ تھلگ کر دیا جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت سادہ سا محاورہ ہے جواب بھی استعمال ہوتا ہے کہ میں الگ پڑ گیا۔ یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا رہا ہے کہ کوئی گروپ یا گروہ کسی ایک آدمی کے چلنے نہ دے اور یہ بھی ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے کہ آدمی اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہے کہ میں اکیلا پڑ گیا تاکہ وہ الزام سے بچ جائے۔

( 85 ) اللہ اللہ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمانوں میں ایک معاشرتی رو یہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہر بات کو خُدا سے نسبت دیتے ہیں ایسا صوفیانہ طرزِ فکر کے تحت بھی ہوتا ہے تہذیبی رسوم و آداب کے تحت بھی اور اس میں معاشرے کی یہ ذہنی روش بھی شامل رہتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی بُرائی چھُپانے کے لئے معاملہ کو مذہب کی چھتر چھایا میں لے آنا چاہتے ہیں مثلاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں ہوتا یہ کہنے والا اِس بات کو بھول جاتا ہے کہ اُس کی ناکامی میں اُس کی غلطی کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور  دوسروں کی مکاریوں  کو بھی ہم ہر بات کو سمجھنے اور  سمجھانے کے لئے اسی طرح کی باتوں کا سہارا لیتے ہیں چونکہ مذہب ہماری نفسیات میں داخل ہو گیا ہے اسی وجہ سے اِس بات کا رُخ بات بات میں مذہب کی طرف پھر جاتا ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تہذیبی اظہار میں یہ رو یہ کہیں کہیں بہت خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اللہ نگہبان، اللہ حافظ، اللہ اللہ کرنا یا ہونا اس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے یعنی آخری وقت ہے اور خُدا یاد آ رہا ہے۔

دمِ واپس اب سرِ راہ ہے

عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے

اظہارِ تعجب کے لئے بھی اللہ اللہ کہا جاتا ہے جیسے اللہ اللہ یہ نوبت آ گئی۔ یا تم کوکسی بات سے کیا واسطہ تم تو اللہ اللہ کرو۔

( 86 ) اللہ آمین سے بچہ پالنا، یا اللہ آمین کا بچہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو بچے بہت لاڈلے ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ خاندان یا ماں باپ کی بہت تمنائیں وابستہ ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے۔

( 87 ) اللہ ماری یا اللہ مارا یا خُدا ماری۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ اُس موقع پر بولتے ہیں جہاں عورتیں نگوڑا اور موا وغیرہ بولتی ہیں یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کچھ محاورے ہمارے یہاں صرف عورتوں سے متعلق ہیں مرد اِس کو استعمال نہیں کرتے۔

( 88 ) اللہ والا،خُدا رسیدہ، بہت نیک۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ دہلی میں فقیر کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے اِسے عورت کے ساتھ وابستہ کیا جائے یا مرد کے لئے اللہ نور نام بھی ہوتا ہے لیکن جب اللہ کانور کہتے ہیں تو اس سے مراد نورانی صورت ہوتی ہے ڈاڑھی کو بھی اللہ کانور کہا جاتا ہے۔

( 89 ) اللہ کے گھر سے پھرنا، شدید بیماری سے واپس آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جس کا یہ مطلب بھی ہے کہ موت خدا سے قُربت کا ذریعہ ہے اِسی لئے یہ محاورہ بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔

( 90 ) الٰہی مہر ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جس طرح سے کوئی مُہری دستاویز مصدِقہ ہوتی ہے اسی لئے جب یہ کہا جائے وہ الٰہی مہر ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رقم وہ بات وہ وعدہ نامہ ہر طرح مصدِقہ ہے۔ تصدیق شدہ ہے اور  اُس سے انکار نہیں ہو سکتا۔

( 91 ) اللہ کا جی (جیو۔ جان) ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو آدمی بالکل سُوجھ بُوجھ سے بالکل محروم ہوتا ہے بس ایک معصوم جانور جیسا اُس کا ذہن اور  اُسی کے مطابق اس کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کو اللہ کی جی کہتے ہیں یہاں اللہ کا جیو کہنا ایک خاص تہذیبی معنی بھی رکھتا ہے وہ یہ کہ اللہ تو ہر انسان کو معصوم اور بھولا بھالا پیدا کرتا ہے یہ تو آدمی کو اُس کا ماحول اور اُس کی اپنائی ہوئی زندگی کی قدریں ہوتی ہیں جو اسے مکاری پر آماد ہ کرتی ہیں اِس لئے کہ جانداروں یا جانوروں میں تجربہ تو ان کے ذہن کو بدلتا ہے ورنہ بیشتر وہ معصوم ہوتے ہیں اور اپنی فطرت پر قائم ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ہر بات کو کسی نہ کسی پہلو سے خدائی ہی سے نسبت دی جاتی ہے۔

( 92 ) اِلَّلذی نہ اُلَّلذِی، نہ اِدھر کا نہ اُدھر، الی اللذین ولا الی اللذین ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دین کا نہ دنیا کا عربی زبان کے فقرہ کو اپنے محاورے میں ڈھال لینا اور  اُس میں اُردو پن پیدا کر دینا ہمارے زبان دانوں کا بڑا کارنامہ ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نے دوسری زبانوں اور ادبیات کے نمونوں سے کچھ حاصل کیا ہے تو اُسے اپنے طور پر اور اپنے ذہن کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔

یہ اعتراض کہ اُردو میں تو بہت کچھ عربی فارسی یا پھر تُرکی یا تاتاری زبانوں سے آیا ہے غلط ہے ہم نے ان کے ذریعہ اپنی زبان کو زیادہ Enrichکیا ہے مختلف اعتبارات سے ترقی دی ہے اِس کو دیا نتداری اور ایک ارتقاء پذیر زبان کے تاریخی سفر سے وابستہ کرنا چاہیے محض کسی سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں جو علمی دیانتداری کے خلاف ہے۔

( 93 ) آپ سے خُوب خُدا کا نام۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی اپنے سے اچھا تو صرف خدا کا نام ہوتا ہے۔ اس سے سماج کی اِس نفسیات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر آدمی خود مرکزیت کا شکار ہوتا ہے کہ صرف میں سب کچھ ہوں اور مجھ سے بہتر کوئی نہیں بس خدا کا نام ہے اگر اس اعتبار سے محاوروں پر غور کیا جائے تو سماج کہ ذہن و زندگی سے کتنے پردے اٹھتے ہیں جن کے اندر ہم جھانک نہیں پاتے۔

( 94 ) آیا دیکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

معنی اپنے اوپر نظر کرنا۔ یہ اِس اعتبار سے بڑی معنی خیز بات ہے کہ انسان دوسروں کے ایک ایک عیب کو ڈھونڈتا ہے اور اپنی طرف نظر نہیں کرتا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے اور خود اُس کی اپنی ذات کی اچھائیاں بُرائیاں کیا ہیں یہی محاورہ اس شکل میں بھی ہے آیا ہی آیا  نظر آنا یعنی اسے اپنا وجود ہی نظر آتا ہے اور اس سے باہر کچھ نظر نہیں آتا یہاں بھی مراد خود غرضی ہے خود شناسی نہیں۔ خود شناسی میں تو اپنے آپ کو اِمکانی طور پر صحیح پیمانوں سے دیکھنا اور پرکھنا شامل ہے۔ صرف خود غرضی یا آپ اپنی پرستش کرنے کے جذبہ سے خود کچھ دیکھنا نہیں آدمی جب دوسرے کی نظر سے خود کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر بھی پہنچتا ہے اور یہ بھی محاورہ ہے’’ آیا ہے برا ہے‘‘ یعنی ہم ہی بُرے ہیں اور تو سب اچھے ہیں۔

( 95 ) اپنا خون بہانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِس سے مراد ہے اپنے سے قریب تر رشتہ داری (Blood Relation Ship)ہونا۔ پہلے زمانہ میں اِس کی بڑی اہمیت تھی اور اپنائیت کے ساتھ بہت سارے رشتہ جڑے ہوئے ہیں اور محاورے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خون کا رشتہ صرف محبت کا رشتہ نہیں ہوتا مگر محاورہ میں اسے ہمیشہ کے لئے جوڑ دیا اور اس کے خلاف ہماری زندگی میں جو ہزار در ہزار واقعات اور ثبوت موجود ہیں۔ اور تلخ تجربات اس کی شہادت دے رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ بات زبان پر آئی ہے کہ خون کا رشتہ اپنائیت کا رشتہ اسی کے ساتھ یہ محاورات ذہن میں رکھے جا سکتے ہیں کہ’’ اپنا مارے گا تو چھاؤں میں ڈالے گا‘‘ معلوم ہوا کہ اپنوں سے نیکیوں کی توقع رکھی جاتی ہے اسی کے ساتھ یہ محاورہ بھی ہے کہ’’ شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے‘‘ یہ اپنے طور پر کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ جب ہم یہ محاورہ دیکھتے ہیں کہ اپنوں کا کیا شکر یہ سوال یہ ہے کہ اگر اپنوں کا شکر یہ ادا نہیں کیا جاتا تو اُن سے شکایت کیوں کی جاتی ہے یہ سماج کے غلط رویوں کی طرف اشارہ ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم نے محاوروں کو اپنے معاشرتی مطالعہ کے لئے اور اُن سے اخذ نتائج کی غرض سے کبھی اعتناء نہیں کیا۔ توجہ نہیں دی۔ اور ان سے نتیجہ اخذ نہیں کئے۔

( 96 ) آپادھاپی پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی وہ صورت پیدا ہو جانا کہ چھینا جھپٹی ایک عام رو یہ بن جائے آپا سنبھالنا بھی ایک محاورہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک ٹھاک رکھو۔ اس کے بغیر دوسرے تمہیں یا کسی کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔

( 97 ) آپے سے باہر ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ بے حد اہم محاورہ ہے۔ اِس کے معنی ہیں اپنی حدود اور موقع کی نزاکت کونہ سمجھنا اور غصہ و غم پر قابو نہ پانا اور بے محابا اظہار کر دینا اِس میں بُرا بھلا کہنا بھی شامل ہے اور  دوسرے بُرے سلوک بھی ہیں نقصان پہنچانا توڑ پھوڑ کرنا مار پیٹ کرنا عذابوں میں شامل کرنا سب ہی شامل ہے۔

اس اعتبار سے یہ نہایت اہم محاورہ ہے اور اخذ نتائج کی طرف ذہن کو مائل کرتا ہے۔ اُردو میں آپ سے متعلق بہت سے دلچسپ شعر بھی ہیں جیسے

؂ آپ ہیں آپ، آپ سب کچھ ہیں

اور ہیں اور ، اور کچھ بھی نہیں

( 98 ) اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ڈفلی چھوٹے سے ڈف کو کہتے ہیں اس کو بجایا جاتا ہے اور دوسرے سازوں کے ساتھ اس کی لے ملائی جاتی ہے۔ اِس میں کبھی کسی راگ کو بھی دخل ہو سکتا ہے بہرحال کسی بھی موسیقی سے نسبت رکھنے والی پیش کش کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو لوگ اُس میں شامل ہوں وہ ایک دوسرے سے آواز میں آواز ملائیں جب سماج میں افراتفری پھیل جاتی ہے اور  کوئی کسی کا ساتھ دینا نہیں چاہتا اپنی اپنی  کہتا ہے اور اپنی سوچ کے آگے کسی کو اہمیت نہیں دیتا تو سماج بکھر جاتا ہے اور اُس کی مجموعی کوشش جو اچھے نتیجے پیدا کر سکتی ہے ان سے محروم رہ جاتا ہے اسی وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔ کسی کو کسی دوسرے کی کوئی پرواہ نہیں ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے اور اپنی رائے کے آگے کسی کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ یہ سماج کا کتنا بڑا مسئلہ ہے جس سے ہم گزرتے رہے ہیں اور گزر رہے ہیں۔

( 99 ) اُلٹی پٹی پڑھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک قدیم محاورہ ہے جس کا اندازہ پٹی پڑھانے سے ہوتا ہے پٹی پیمانہ جیسی ایک لکڑی ہوتی ہے جس پر پہلے زمانہ میں تحریر لکھی جاتی تھی اِس طرح کی پٹیاں جنوبی ہندوستان کے مندروں میں محفوظ تھیں اور اب میوزیم اور  آرکائیوز میں رکھی ہوئی ہیں پہلے یہ کتابوں اور  رسالوں کی طرح پڑھانے کے کام آتی ہوں گی اسی سے یہ محاورہ بنا کہ اُس نے یہ پٹی پڑھا دی اُس کے ذریعہ سکھایا اور اُس کا اپنا مطلب سمجھایا اب ایک ناواقف آدمی کو غلط سلط بھی سمجھایا بجھایا جا سکتا ہے۔ اِسی کو الٹی پٹی پڑھانا کہتے ہیں جو غلط ارادے رکھنے والے لوگ کیا کرتے ہیں۔

’’الٹی سیدھی باتیں کرنا‘‘ ایک الگ محاورہ ہے جس میں یہ پہلو چھپا ہے کہ وہ بات بیشک کرتے ہیں مگر سیدھی سچی نہیں الٹی سلٹی جو بات اُن کی سمجھ میں آتی ہے وہ کرتے ہیں نہ اُن کی عقل و تجربہ سے اِن باتوں کا کوئی تعلق ہوتا ہے یہ گویا باتیں کرنے والوں کے رو یہ پر تبصرہ ہے۔

( 100 ) اُلٹی گنگا پہاڑ کو،یا اُلٹی گنگا بہانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بے تکی غلط اور اُلٹی بات کے لئے کہا جاتا ہے۔ ’’ گنگا ‘‘پہاڑ ہی سے اُتر کر آتی ہے اور میدانوں میں رہتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اسے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے ایسے موقعوں پر جب کچھ لوگ انہونی بات کرتے ہیں تو یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ یہ تو گنگا کے بہاؤ کو اُلٹ کر پھر پہاڑ کی طرف کر دینا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں یہ بھی سماج کا رو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھُوٹ ثابت کرنا چاہتا ہے اور اس میں جو بے تکاپن ہے کہے یا کرنے والوں کو اس کا خیال بھی نہیں رہتا یہ ہماری روزمرہ کی زندگی ذہنی حالت اور  زمانہ کی روش پر ایک گہرا طنز ہے۔

( 101 ) اللہ اکبر،اللہ اکبر کرنا یا اللہ اللہ کرو یعنی اللہ کا نام لو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمان سوسائٹی ہو یا ہندو سوسائٹی یا پھر سکھ سوسائٹی اُن پر مذہب کا روایتی اثر زیادہ ہے۔ یہ بات بات میں مذہب کو سامنے رکھتے ہیں اور جو بات کرتے ہیں وہ مذہب کے نام پر کرتے ہیں اِس کا ان کے عقیدے سے بھی رشتہ ہے اور تہذیبی روایت سے بھی وہ لوگ جو مذہب کو زیادہ مانتے بھی نہیں وہ بھی یہ الفاظ یہ کلمات اپنے اظہار ی سلیقے کے مطابق زیادہ مانتے ہیں مذہب کا روایتی اثر یہاں تک ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے مگر ایسی صورت میں بد اعمالیاں کیسے ہو رہی ہیں اور اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔

اِس سے بہرحال یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرہ پر مذہب کا جو روایتی اثر ہے۔ اُس کا اظہار اس کی گفتگو، جملوں کی ساخت اور خاص طرح کے مذہبی کلمات سے بھی ہوتا ہے۔ 

( 102 ) اللہ آمین کا بچہ یا اللہ توکلی،اللہ کانور، اللہ کی جان۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اللہ مارا، اللہ ہی اللہ ہے۔ اللہ کے گھر سے پھر ا ہے، خدا کے گھر سے پھرا ہے، اللہ کے لوگ، الہی مہر،الہی رات یہ تمام کلمات جو محاورے ہیں اِس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اس میں مذہب کا وہ روایتی Traditionalاثر ہے جو ہماری زندگی و ذہن پر مل سکتا ہے اور جس کا اظہار بات بات میں ہوتا رہتا ہے۔

اِس کے علاوہ اللہ آمین کا بچہ ہو جانا ظاہر کرتا ہے کہ بعض بچے بڑے لاڈ پیار اور دعا درود کے سایہ میں پلتے ہیں خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لڑکے جہاں بچے بہت کم ہوتے تھے۔ یہ صورت بڑی حد تک اب بھی ہے۔

اللہ توکلی کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کو بھروسہ کوئی نہیں ہے کہ اُس کے پاس وسیلہ بھی کوئی نہیں بس جو کچھ ہے وہ اللہ پر بھروسہ ہے کہ غیب سے جو کچھ ہو جائے تو ہو جائے گا۔ اللہ کسی کے دل میں ڈال دے گا تو کام بن جائے گا یہ بھی ہمارے معاشرے کی حالتِ مجبوری اور معذوری کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچنا ہے۔

اللہ اللہ کرو یعنی یہ بات ہونے والی نہیں خواہ مخواہ کی اُمید لگائے بیٹھے ہو۔ اللہ کا نور داڑھی کو بھی کہتے ہیں اور ایسے بچے کو بھی جو کم صورت ہوتا ہے کہ وہ تو اللہ کا نور ہے اُس کی قدرت کا اظہار ہے ویسے اللہ کا نور ہونا بڑی خوبیوں کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وہ تو اللہ کے نور میں سے ایک نور ہے۔ اللہ ہی اللہ ہے جب کسی مریض کے اچھا ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے تبھی یہ بات زبان پر آتی ہے کہ اُس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے۔

اللہ مارا یا خدا مارا ہمارے محاورات میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو،وہ خدا کی مار ہے مگر عام طور پر یہ کلمہ محبت میں کہا جاتا ہے۔ اِس کو اللہ سنوارے کے روپ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مریض بہت بری حالت سے واپس ہوتا ہے تو اُس کو اللہ کے گھر سے پھرنا کہتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ مر جانا اللہ کے گھر جانا ہے اللہ کو پیارا ہونا ہے۔

اللہ والے یا اللہ کے لوگ دہلی میں فقیروں کو کہتے ہیں۔ اس کے قریبی معنی رکھنے والا محاورہ اللہ کے لوگ ہیں یعنی وہ تو درویش خدا مست ہیں مل گیا تو بھی ٹھیک ہے نہ ملا تب بھی ٹھیک ہے اس معنی میں یہ تمام محاورے ہمارے معاشرے اور اس کے ایک خاص طرز فکر کے آئینہ دار ہیں۔ الہی مہر یا الہی رات بھی اسی طرز فکر کے نمائندہ محاورے ہیں۔ الٰہی رات کسی مقدس اور متبرک رات کو کہتے ہیں جیسے شبِ معراج اگرچہ الٰہی رات کا استعمال اردو میں بہت کم ہے الٰہی مہر تصدیق کرنے کے لئے مہر لگائی جاتی ہے جس کے بعد وہ تحریر یا رقم مصدقہ ہو جاتی ہے اور  جب اُس پر خدا کی مہر لگ جائے گی تو اسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔

( 103 ) آنچل میں بات باندھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آنچل پہ بہت محاورے ہیں ان میں گرہ باندھنے کا محاورہ اِس معنی میں اہم محاورہ ہے کہ وہ آپس کے پیار کو مضبوطی بخشنے کے معنی میں آتا ہے بات کو نبھا دینے کے معنی میں اُردو کا گیت ہے اُس کے مکھڑے کے بول اُسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

؂ آنچل سے کیوں باندھ لیا ایک پردیسی کا پیار

( 104 ) آنسوں نکل پڑنا، آنسوں پونچھنا، آنسوں پینا، آنسوں ڈالنا، آنسوؤں سے منہ دھونا، آنسوؤں کا تار باندھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آنکھوں میں آنسوں آنا، آنکھوں کا ڈبڈبانا، آنکھوں کا تر ہونا، آنسوؤں ہی سے متعلق ہے۔ اور آنسوؤں سے منہ دھونا بھی اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ رونے اور آنسوں بہانے کا تصور یا تاثر ہمارے ذہنوں پر کس حد تک رہا ہے اور  ہمارے معاشرے نے آنسو بہانے کے ذکر میں کن کن  وادروں اور نفسیاتی حالتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ۔

( 105 ) آنکھ اٹکنا، آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھا کر دیکھنا، ( سید ضمیر حسن دہلوی )

 آنکھ اٹکنا، آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھا کر دیکھنا، آنکھ اُٹھانا، آنکھ آنا، آنکھ اونچی نہ کرنا، آنکھ بچانا،آنکھ بدلنا، آنکھ بند ہونا، آنکھ بھرکر دیکھنا،آنکھ بھوں ٹیڑھی کرنا، آنکھ پڑنا،نظر ادھر گئی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا، آنکھیں پھیر لینا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھوں کا سرمہ۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھیں چُرانا، آنکھیں چھپانا، آنکھ سے آنکھ ملانا، آنکھیں لڑانا،( یا آنکھ لڑنا) آنکھیں مٹکانا وغیرہ آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھیں پتھرانا۔

اِن محاورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مختلف رویوں کو جو سماجی اخلاقیات سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں ہماری سوچ سے کیا تعلق رہا ہے۔ اور اُس پر ہمارا تبصرہ کرنا کیا کیا انداز اختیار کرتا ہے مثلاً آنکھیں پھیر لینا مطلب نکل جانے کے بعد بے مروتی اختیار کرنا۔ آنکھ بدلنا رو یہ میں تبدیلی کرنا۔ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی ایک عام رو یہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھے کہ اس میں احترام کا پہلو باقی نہ رہے آنکھیں چار ہونا ایک دوسرے کے دیکھنے کو کہتے ہیں مگر چار آنکھیں ہونا غیر ضروری خواہشات نہ مناسب تمناؤں اور  توقعات کو دل سے لگانے اور اپنی سماجی زندگی میں داخل کرنے والی عورتوں کے لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ اس کی چار آنکھیں ہو گئیں۔

آنکھ سے آنکھ ملانا برابری کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنا ہے اور آنکھ نہ ملا سکنا فرق و امتیاز یا نفسیاتی طور پر شرمندہ ہونا کہ اُس کے بعد سامنے جرأت کی ہمت نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ غیرت شخص ہو۔

آنکھیں چرانا بھی سماجی عمل ہے اور وہی کہ نفسیاتی طور پر آدمی کسی سے آنکھ ملا کر گفتگو نہ کر سکے اور بات کو اِدھر اُدھر ٹالنا چاہے

آنکھ لڑنا یا آنکھیں لڑانا عجیب و غریب انداز سے ہماری نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے، لڑنا یا لڑانا کوئی اچھی ذہنی کیفیت نہیں ہے۔ لیکن قوم کشتی سے لیکر ہاتھیوں کی لڑائی مرغیوں کی پالی اور تیتر بٹیر کی باہمی جنگ دیکھ کر جو لوگ لطف لیتے ہوں اُن کے ہاں آنکھیں لڑانا بھی محبت کا اشارہ ہو جائے گا۔

آنکھ پھڑکنا سماج کی توہم پرستانہ فکر فرمائی کی ایک نشانی ہے کہ آنکھ پھڑک رہی ہے تو کوئی آفت آنے والی ہے اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں بہت رائج رہی ہیں۔ مثلاً  بلی نے راستہ کاٹ دیا، تواب سفر منحوس ہو گیا۔ سفر میں خطرات تو تھے ہی اسی لئے سفر پر جانے والے کے بازو پر امام ضامن باندھا جاتا تھا آئینہ کے منہ پر پانی ڈالا جاتا تھا۔ اس سے اُس دور کی توہم پرستی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔

آنکھ پھوڑ ٹڈا ہونا دہلی کا خاص محاورہ ہے دوسری جگہوں پر استعمال نہیں ہوتا اور اچانک جو شخص تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنا بھی ہمارے سماجی رو یہ کا ایک پہلو ہے جو افسوس ناک حد تک سماجی ذہنیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آنکھیں ٹھنڈی کرنا بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز محاورہ ہے جب کسی بات کو دیکھ کر ہمارا جی خوش ہوتا ہے اور ہماری تسکین کا باعث بنتا ہے اسی کو آنکھیں ٹھنڈا ہونا کہتے ہیں۔ اس کے اریب قریب کا محاورہ کلیجہ ٹھنڈا ہونا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جو باتیں تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔

’’آنکھوں کی سوئیاں نکالنا‘‘ بھی کسی محنت طلب اور  دقت والے کام کا انجام پا جانا ہے اسی طرح آنکھوں میں سلائی پھیرنا یا سلائی پھرنا اندھا کئے جانے کے عمل کو کہتے ہیں کہ مغلوں میں اِس کا دستور تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو جنہیں اپاہج بنا دینا مقصود ہوتا تھا ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیتے تھے مغلوں کے دور میں ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں میرؔ کا یہ شعر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

؂ شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی

اُنہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

ہم میرؔ کے زمانہ سے پہلے اور میر ؔ کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات کو تاریخ کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں اسی کی طرف یہ محاورہ اور میرؔ کا شعر اشارہ کر رہا ہے یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض محاورے تاریخی واقعات سے بھی رشتہ رکھتے ہیں مثلاً ’’احسان لیجئے جہاں کا مگر احسان نہ لیجئے شاہجہاں کا۔ ‘‘

یہ کہاوت ہے اور کسی وجہ سے شاہ جہاں کے زمانہ میں رائج ہوئی ہے اسی طرح ’’نادر گردی مرہٹہ گردی‘‘ اور جاٹ گردی بھی محاورہ کے معنی میں آتی ہے بری صورت حال کو کہتے ہیں مگر ان کا تعلق تاریخ سے ہے جب انتظام باقی نہ رہے مگر بہرحال اس صورتِ کا تعلق تاریخ کے حقائق سے توہے۔

( 106 ) انگاروں پر لوٹنا، انگارے بچھانا، انگار بھرنا، انگار ے مارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

انگارہ آگ ہی کی ایک صورت ہے اور تکلیف دہ صورت ہے وہ ہاتھوں پہ انگارے رکھنا ہویا انگاروں پر چلنا شدید عذاب کی ایک صورت ہے موت کے بعد قبر کے انگاروں سے بھرنے کے معنی بھی یہی ہیں کوئی اپنی قبر کو بھرے یا دوسرے کی بات ایک ہی ہے مسلمانوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ جو عذاب آدمی کو دیا جاتا ہے وہ قبر میں دفن کرنے کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے اور چونکہ مسلمانوں میں عذاب کا تعلق آگ سے ہے دوزخ سے ہے اس لئے قبر میں بھی انگاروں کا ہونا شدید عذاب سے گزارنا ہے انگاروں پر لوٹنے کے معنی بھی سخت بے آرامی اور  ذہنی کوفت کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔

سماج کا رو یہ بھی کبھی کبھی ایک حساس یا مجبور آدمی کے حق میں اتنا بُرا ہوتا ہے کہ آدمی کچھ کر نہیں پاتا اور بے انتہا ذہنی کوفت اور جسمانی اذیتوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔

( 107 ) اُوپری پرائے، بھوت پریت۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ بھی اس معنی میں اہم ہے کہ سماجی تو اہم پرستی اور ان دیکھی باتوں سے خوف کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے ہیں ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ اوپری پرائے کے بہت قائل ہیں اوپری پرائے کا ڈر رہتا ہے۔

( 108 ) اوکھلی میں سر دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اوکھلی لکڑی کے اس حصّہ کو کہتے تھے جس میں کسی شئے کو ڈال کر مُسل سے کوٹا جاتا ہے اوکھلی ایک کونڈی کی طرح ہوتی ہے اب سے کچھ دنوں پہلے تک گاؤں اور  قصبوں کے گھروں میں اوکھلی بنی ہوتی تھی اور مُسل رکھے رہتے تھے اور دھان اس میں کوٹے جاتے تھے جس میں چاول الگ ہو جاتے تھے۔ بھُوسی الگ ہو جاتی تھی اب ایسی کسی جگہ کے لئے یہ محاورہ استعمال ہونے لگایا یہ کہاوت کام آنے لگی جہاں تکلیف کی باتیں ہوں اور  آدمی اپنے سماجی رشتوں اور ضرورتوں کے پیشِ نظر اُن کو برداشت کر لیتا ہے اور یہ کہتا نظر  آتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو مسلوں سے کیا ڈرنا۔

( 109 ) اونچی ناک کرنا یا ہونا، نیچی ناک کرنا یا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ سماجی امتیاز اور بے امتیاز ی کے تصوّر کے گرد گھومتا ہے ناک عزت و آبرو کی علامت ہے اسی لئے ناک کٹنا بے عزت ہونے کے معنی میں آتا ہے آدمی سر اونچا کر کے چلتا ہے تو اس کی ناک بھی اونچی ہوتی ہے اگر سر نیچا کر کے چلتا ہے تو ناک بھی نیچی ہوتی ہے اس سے مراد فخر و ناز کا اظہار کرنا ہے یا عاجزی اور انکسار کو پیش کرنا ہے سر اور ناک کے محاورے انسان کی یا ہماری زبان کی سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں اور اُس میں یہ اونچ نیچ ایک اعتبار ی یا اختیاری صورت ہے۔ ۔

( 110 ) اہلے گہلے پھرنا، خوش خوش ہونا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دہلی کا محاورہ ہے اور جب انسان کسی کامیابی یا خوشی کے موقع پر خوش خوش نظر آتا ہے تو اہلے گہلے پھرنا کہتے ہیں یہ اس کی شخصی خوشی کا اظہار ہے۔

( 111 ) ایرے غیرے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سماجی نفسیات کی طرف اشارہ کرنے والا ہے محاورہ غیر ناآشنا یا  دُور پرے کے آدمیوں کو کہتے ہیں انسانی نفسیات میں اپنے بیگانے یا قریب اور  دور کے لوگوں کی تقسیم بہت واضح رہی ہے اور آج بھی ہے اسی لئے وہ ناآشنا لوگوں کو اپنے قریب پسند نہیں کرتا۔ سیاست یا تجارت کے رشتوں کی بات دوسری ہے ورنہ’’ ایرے غیرے‘‘ کہہ کروہ ناآشنا اجنبیوں کا ہی تو ذکر کرتا ہے۔

( 112 ) ایسی تیسی میں جائے یا جاؤ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی اپنی ذہنی حالتوں اور نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار ان الفاظ یا آوازوں میں کرتا ہے۔ سیٹی بجاتا ہے یا دوسری طرح کی آوازوں سے اپنی مختلف ذہنی کیفیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسی تیسی ہونا اول فول بکنا اسی طرح کے حملوں یا آوازوں کا حصّہ ہے۔

( 113 ) ایک منہ،یا ایک زبان ہونا۔ ہزار منہ اور ہزار زبانیں ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک منہ اور ایک زبان ہونے ہی کا ایک دوسرا رخ ہے جتنے منہ اتنی زبانیں یہ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اصل میں ایک زبان کے ہونا کے یہ معنی بھی ہیں کہ سب ایک سی بات کہیں مگر سماجی معاملات میں ایسا ہوتا نہیں ہر آدمی اپنی بات الگ سوچتا اور  الگ کہتا ہے منہ سے مراد چہرہ نہیں ہے بلکہ لب و زبان ہے اب جتنے آدمی ہوں گے اتنے ہی ان کے منہ ہوں گے ان کی زبانیں ہوں گی اور ان کی الگ الگ باتیں ہونگی اسی سے سماج میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں کہ کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ کہتا ہے اور یہی ذہنی خلفشار اور گفتگو میں مقصدیت کے لحاظ سے انتشار کا باعث ہوتا ہے۔

( 114 ) اینڈا اینڈا پھرا نا، ڈولنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اہلا گیلا پھرنے ہی کو کہتے ہیں اور اس میں شخصی نفسیات کو زیادہ دخل ہوتا ہے اور جماعت کو کم لیکن اینڈی بینڈی باتیں کرنا دوسری بات ہے یہ وہی صورت ہے جس کو ہم اوٹ پٹانگ بات کرنا کہتے ہیں یا غلط سلط باتیں کرنے کا رو یہ جو سماجی طور پر بہت لوگوں میں ہوتا ہے۔ اینڈی بینڈی چال بھی اسی مفہوم میں آتا ہے اس لئے کہ آدمی کی چال بلکہ خود جانور کی چال اس کی ذہنی حالتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ تیز چلنا ایک الگ مفہوم رکھتا ہے آہستہ خرامی کا مطلب الگ ہے اور اینڈی بینڈی چال دوسرے ہی معنی رکھتی ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

ایان
زندگی کے بارے میں محاورے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔