06:33    , پیر   ,   06    مئی   ,   2024

داستان

5822 6 0 15

طوطا کہانی - محمد قادری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

احسان اُس خدا کا کہ جس نے دریائے سخن کو اپنے ابر کرم سے گوہر معنی بخشا اور زبان کو واسطے اپنی حمد کے گویا کیا اور پیغمبر آخر الزمان کو ہم گنہگاروں کی شفاعت کے واسطے رحمۃ اللعالمین پیدا کیا کہ جسکے سبب سے ارض و سما نے قیام پایا۔ حسن وہ الحق کہ ایسا ہی معبود ہے۔ قلم جو لکھے اس سے افزود ہے۔ پیمبر کو بھیجا ہمارے لئے۔ وصی اور امام اُس نے پیدا کئے۔ سبھوں کا وہی دین و ایمان ہے۔ یہ ہیں دل تمام اور وہی جان ہے "تر و تازہ ہے اُس سے گلزار خلق – وہ ابر کرم ہے ہوا دار خلق" اگرچہ وہ بے فکر و غیور ہے۔ ولے پرورش سب کی منظور ہے۔ کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جان۔ جو وہ مہربان ہو تو کل مہربان۔ اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں۔ پر اُس بن تو کوئی کسی کا نہیں۔ یہ سید حیدر بخش متخلص حیدری شاہجہان آبادی تعلیم یافتہ مجلس خاص نواب علی ابراہیم خان بہادر مرحوم شاگرد غلام حسین خان غازی پوری دست گرفتہ صاحب عالیجناب سخندان آبرو بخش سخنواران معدن مروت چشمہ فتوت دریائے جود و کرم منبع علم و حلم صاحب والا شان جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام اقبالہٗ کا ہے۔ اگرچہ تھوڑا بہت ربط موافق اپنے حوصلے کے عبارت فارسی میں بھی رکھتا ہے لیکن بموجب فرمائش صاحب موصوف کے ۱۲۱۵ھ مطابق ۱۸۰۱ عیسوی کے حکومت میں سرگردہ امیران جہان حامی غریبان و بیکسان زبدہ نوئینان عظیم الشان مشیر خاص شاہ کے وان بارگاہِ انگلستان مارکویس ولزلی گورنر جنرل بہادر و دام اقبالٰہ کی محمد قادری کے طوطی نامے کا جس کا ماخذ طوطی نامہ ضیاء الدین بخشی ہے۔ زبان ہندی میں موافق محاورہ اردوئے معلیٰ کے نثر میں موافق عبارت سلیک و خوب و الفاظ رنگین ، مرغوب سے ترجمہ کیا۔اور نام اس کا طوطا کہانی رکھا۔ تا صاحب نوآموزوں کی فہم میں جلد آوے۔ اور ہیچمدان ہر ایک اہلِ سخن سے امید رکھتا ہے۔ کہ جو کوئی چشم غور سے اس ترجمہ کو ملاحظہ کرے اور غلطی معنی یا نا مربوطی الفاظ اس کے نظر پڑے۔ تو وہ شمشیر قلم سے مانند سرِ دشمن کے اس کو صفحہ ہستی سے اڑا دے۔ ابیات جو بہر صلاح اس پہ رکھے قلم۔ آگہی نہ دینا کبھی اُس کو غم، الٰہی بحق امام انام۔ یہ جلدی ہو مجھ سے کہانی تمام۔ آمدم برسرِ مطلب، سُننا چاہیے کہ کیا کیا خون جگر کھایا ہے اور کیسا کیسا مضمون بان دھا ہے ۔

پہلی داستان میمون کے پیدا ہونے اور خجستہ کے ساتھ بیاہے جانے کی

اگلے دولتمندوں میں سے احمد سلطان نام ایک شخص بڑا مالدار اور صاحب فوج تھا۔ لاکھ گھوڑے اور پندرہ سو زنجیر فیل اور نو سو قطار بار برداری اونٹوں کی اُس کے در دولت پر حاضر رہتے تھے، پر اُس کا لڑکا بالا کوئی نہ تھا کہ گھر اپنے باپ کا روشن کرتا۔ حسن اسی بات کا اُس کے دل پر تھا، داغ نہ رکھتا وہ اپنے گھر کا چراغ۔ اسی واسطے صبح و شام خدمت میں خدا پرستوں کی جاتا اور اُن سے درخواست دعا کی کرتا غرض تھوڑے دنوں میں خالق زمین و آسمان نے ایک بیٹا مہ جبین خوبصورت مہر چہر اُسے بخشا۔ احمد سلطان اسی خوشی سے گل کی مانند کھلا اور نام اُس کا میموں رکھا۔ کئی ہزار روپے فقیروں کو بخش کر سجدہ شکر بجا لایا اور یہ بیت پڑھنے لگا۔ حسن تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار۔ نہ ہو تجھ سے مایوس امیدوار۔ دوگانہ غرض شکر کا کیا۔ تہیہ کیا شادی جشن کا۔ اور تین مہینے تک شہر کے امیروں وزیروں دانایوں فاضلوں اُستادوں کی ضیافتیں کیں۔ کشتیاں بعضوں کے آگے رکھیں اور اکثروں کو خلعت بھاری بھاری دئے۔ جس وقت وہ لڑکا سات برس کا ہوا واسطے تربیت کے ایک اُستاد دانا کامل کو سونپا۔ حسن معلم اتالیق و منشی ادیبہ ہر فن کے اُستاد بیٹھے قریب، کیا قاعدے سے شروع کلام، پڑھانے لگے علم اُس کو تمام، اور کتنے دنوں میں الف بے تے سے لیکر گلستان اور انشائے ہر کرن و جامع القوانین و ابو الفضل یوسفی و رقعات جامی تک پڑھا بلکہ علم عربی کو بھی تحصیل کیا۔ حسن دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا، کئی سال میں علم سب پڑھ چکا، معانی و منطق بیان و ادب، پڑھے اُس نے منقول و معقول سب، کبردار حکمت کے مضمون سے، غرض جو پڑھا اُس نے قانون سے، اور قاعدہ نشست و برخاست مجلس بادشاہی کا اور طریقہ عرض و معروض کا اُس نے سیکھا۔ سچ یہ ہے کہ بعض فنون میں باپ پر بھی سبقت لے گیا۔ جب باپ نے دیکھا کہ جوان ہوا تب ایک عورت صاحب جمال گل اندام خجستہ نام کے ساتھ بیاہ کر دیا۔ دونوں آپس میں عیش و عشرت کرنے لگے۔ اور کسی وقت جدا نہ ہوتے۔ غرض یہاں تک شیفتہ و فریفتہ ہوئے کہ عاشقی و معشوقی کے درجے سے گذر گئے۔ اتفاقاً ایک دن شہزادہ گھوڑے پر سوار ہو کر بازار میں گیا اور دیکھا ایک شخص اس بازار میں ایک پنجرہ طوطے کا ہاتھ میں لئے کھڑا ہے۔ اُس نے طوطا بیچنے والے سے پوچھا کہ اے شخص اس طوطے کا کیا مول ہے۔

شاہزادے کا گھوڑے پر سوار ہو کر بازار میں جانا اور طوطے کا خرید کرنا

اُس نے جواب دیا کہ خداوندا اس کو ہزار روپے سے کم نہ بیچوں گا۔ میموں نے کہا خیر معلوم ہوا جو اس ایکشت پر ہزار روپے دے کر لے اُس کے برابر دوسرا بیوقوف نہ ہو گا۔ کیونکہ ایک نوالہ بلی کا ہے۔ جب طوطے والا جواب اُس کا نہ دے سکا تو طوطے نے جانا کہ اگر یہ دولتمند عمدہ مجھے خرید نہ کرے گا تو موجب قباحت اور بدنامی میری کاہے کیونکہ صحبت بزرگوں کی سبب زیادتی عقل اور عزت کا ہے اُس سے میں محروم رہوں گا تب طوطے نے جواب دیا کہ اے جوانِ خوشرو اگرچہ میں تیری آنکھوں میں حقیر اور ضعیف ہوں لیکن بسبب دانائی اور عقل کے عرش پر پر مارتا ہوں اور ہر ایک اہل سخن میری خوشگوئی اور شیریں زبانی پر حیران ہے بہتر یہی ہے کہ مجھے مول لے۔ اس واسطے کہ سوائے خوشگوئی کے کئی ہنر مجھ میں عجیب ہیں۔ شمہ اس کا یہ ہے کہ میں حقیقت  ماضی اور مستقبل اور حال کی کہتا ہوں اگر حکم ہو تو ایک بات فائدہ کی عرض کروں ۔ تب اُس نے کہا۔ کہ کیا کہتا ہے۔ کہہ ۔ طوطے نے کہا کہ بعد کئی دن کے ایک قافلہ سوداگروں کا اس شہر میں سنبل خریدنے آوے گا۔ تم ابھی سے تمام شہر کے دوکانداروں سے سنبل خرید کر اپنے پاس رکھو جس گھڑی وہ کاروان آوے گا اور سوائے آپ کے اس شہر میں کسی کے پاس سنبل نہ پاوے گا۔ ناچار ہو کر حضوری میں آ کر درخواست کرے گا۔ پھر اپنی خاطرخواہ بیچئے گا۔ اور اُس میں بہت فائدہ ہو گا۔ یہ بات طوطے کی اُس کو نہایت خوش آئی اور ہزار روپے اُس شخص کو دیکر اُس طوطے کو لے اپنے گھر آیا اور سب سنبل فروشوں کو بلا کر سنبل کی قیمت پوچھی۔ اُنہوں نے عرض کیا کہ جتنا سنبل ہماری دوکان میں ہے دس ہزار روپے اُس کی قیمت ہوتی ہے۔ میموں نے اُسی دم دس ہزار روپے خزانہ سے دلوا کر خرید کیا اور ایک مکان میں رکھوا دیا بعد دو تین دن کے سوداگر اُس شہر میں داخل ہوئے اور تلاش سنبل کی کرنے لگے جب کہیں نہ پایا تب اُس کے پاس آ کر سنبل کو چوگنی قیمت دیکر مول لیا اور اپنے شہر کو گئے تب میموں اُس طوطے سے بہت خوش ہوا اور جان سے زیادہ عزیز رکھنے لگا۔ اور ایک مینا بھی خرید کر کے اُس کے پاس رکھی اس واسطے کہ عالم تنہائی میں اُسے وحشت نہ ہو کہ عقلمندوں نے کہا ہے۔ بیت کند ہم جنس با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز، غرض اس مینا کو بھی اُس طوطے کے پاس رکھا کہ یہ دونوں آپس میں ہ مجنس ہیں خوش رہیں گے۔ اور بعد کئی دن کے میموں نے خجستہ سے کہا کہ میں سفر خشکی اور تری کا کیا چاہتا ہوں کہ شہروں کی سیر سے دل بہلے بعد میرے جو تجھے کام کرنا ہے سو بے مصلحت ان دونوں کے ہرگز نہ کرنا بلکہ جو کہیں اُس کو سچ جاننا اور اُنکی فرمانبرداری سے باہر نہ ہونا۔ یہ دوچار باتیں سمجھا کر آپ کسی شہر کو سفر کیا اور خجستہ کئی مہینے تک اُس کی جدائی میں رویا کی۔ کھانا سونا دن رات کا چھوڑ دیا۔ غرض طوطا کچھ قصہ کہانی کہہ کر اُسی کے دل غمگین کو ہر ایک وقت بھلایا کرتا اسی طرح سے چھ مہینے تک پُھسلا  پُھسلا کر رکھا۔

دوسری داستان خجستہ کی پادشاہزادے پر عاشق ہونے کی اور دانائی طوطے کی

ایک دن خجستہ نہا دہو کر بناؤ کر کے کوٹھے چڑھی اور سیر ہر ایک کوچہ و بازار کی جھروکے سے کرنے لگی۔ اتنے میں ایک شہزادہ گھوڑے پر سوار آنکھیں اوپر کئے ہوئے گھوڑا قدم بقدم لئے ہوئے چلا جاتا تھا۔ خجستہ کو دیکھتے ہی عاشق ہوا اور اُس کا دل اُس پر آ گیا بے اختیار ہو کر شہزادے نے اُس گھڑی ایک عورت مکار کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا کہ اگر تم ایک رات چار گھڑی کے واسطے میرے گھر آؤ تو اس کے عوض میں ایک انگوٹھی لاکھ روپے کی تمہیں دوں اُس پر اس کٹنی نے وہیں جا کر کہا کہ اے خجستہ اس شاہزادے نے تجھے بلوایا ہے اور ایک گھڑی کے واسطے لاکھ روپے کی انگشتری دیتا ہے اگر تو چلے اور دوستی اس سے پیدا کرے تو کچھ اسی چیز پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ ہمیشہ سلوک نمایاں کیا کرے گا اور حظ مفت میں اُٹھاؤ گی۔ خجستہ نے پہلے تو اس بات سے بہت بُرا مانا اور خفا ہو گئی۔ لیکن پھر پیرزال کے دام میں آ گئی اور کہنے لگی کہ اچھا میری طرف سے اُس کی خدمت میں سلام شوق کے بعد یہ کہنا کہ شب کو جس طرح سے جانوں گی اُس طرح سے تمہارے پاس اپنے تئیں پہنچاؤں گی یہ پیغام وہ مکارہ لیکر ادھر گئی اور ادھر رات آئی تب خجستہ نے اپنے تئیں نہایت لباس اور گہنے سے آراستہ کیا اور کرسی پر بیٹھ کر جی میں کہنے لگی کہ مینا سے چل کر یہ بات کہیئے اور رخصت لے کر چلئے کیونکہ میں بھی عورت ہوں اور وہ بھی اسی خلقت میں ہے اغلب ہے کہ وہ میری بات سنے اور رخصت دے یہ سخن دل میں ٹھہرایا اور مینا سے جا کر کہا کہ اے مینا عجب ماجرا ہے اگر تو سُنے تو کہوں اُس نے کہا۔ کہ بی بی کیا کہتی ہو میں بھی عقل کے موافق عرض کروں گی تب کہ بانو کہنے لگی کہ آج میں اپنے کوٹھے پر چڑھ کر جھروکے کی راہ سے جھانکتی تھی۔ کہ اتنے میں ایک شہزادہ اُس راستے سے گزرا اور مجھ پر عاشق ہوا۔ اس گھڑی مجھے اپنے پاس بلاتا ہے اگر تو کہے تو میں جاؤں اور اُس سے ملاقات کروں پھر دو چار گھڑی کے بعد اپنے گھر چلی آؤں گی یہ بات سنتے ہی مینا نہایت غضبناک ہوئی اور غوغا کر کے کہنے لگی کہ واہ وا بی بی اچھے ڈھنگ نکالتی ہو اور خاصی باتیں سناتی ہو کیا خوب غیر مرد کے گھر جاؤ گی اور اُس سے دوستی کر کے اپنے شوہر کی حرمت گنواؤ گی یہ بڑا عیب ہے تمہاری قوم کے لوگ کیا کہیں گے اس حرکت سے باز آؤ یہ سنتے ہی خجستہ نے اُسے پنجرے سے نکال ایک ٹانگ پکڑ گردن مروڑ زور سے زمین پر دے پٹکا کہ روح اُس کی آسمان پر پرواز کر گئی اور اسی طرح غصے میں بھری ہوئی طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے کچھ حقیقت مینا کی دیکھی کہ وہ ابھی کیا تھی اور کیا رہ گئی اُس نے کہا کہ جی دیکھی جو خداوند کے بے ادبی کرے گا اُس کا یہی حال ہو گا خجستہ خوش ہو کر کہنے لگی کہ اے طوطے بہت دن ہوئے کہ میں نے مرد کی صورت نہیں دیکھی اور آج ایک بادشاہ زادے نے مجھ کو بمنت بلوایا ہے اگر تو کہے تو اُس کے پاس رات کے وقت جاؤں اور صبح ہوتے ہوتے اپنی جگہ پر آؤں طوطا اپنے جی میں ڈر کر کہنے لگا کہ اگر میں بھی منع کرتا ہوں یا اور کچھ کہتا ہوں تو ابھی مینا کی طرح سے مارا جاتا ہوں یہ سمجھ کر کہنے لگا کہ اے کد بانو مینا ناقص عقل تھی۔ اور اکثر یہ خلقت عورتوں کی بیوقوف ہوتی ہے اسی واسطے شعور مند کو لازم ہے کہ اپنا احوال اُن سے نہ کہیں بلکہ اس ذات سے پرہیز کریں تو خاطر جمع رکھ جلدی مت کر جب تک میری جان اس قالب میں ہے تب تک تیرے کام میں پیروی کروں گا اتنا مت گھبرا کریم کارساز جلد آسان کرے گا خدانخواستہ اگر یہ بات ظاہر ہوئی اور اڑتے اڑتے تیرے شوہر تک پہنچی اور اُس نے آن کر تجھ سے خفگی کی تو میں ایک بات بنا کر تم دونوں کو آپس میں ملا دوں گا جس طرح سے کہ اُس طوطے نے فرخ بیگ سوداگر کو جورو سے ملا دیا تھا خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے مفصل بیان کر کہ میں تیری احسان مند رہوں گی۔

تیسری داستان فرخ بیگ سوداگر اور اُس کے طوطے کی

طوطے نے کہا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر فرخ بیگ نام نہایت مالدار تھا اور ایک طوطا عقلمند اپنے پاس رکھتا تھا اتفاقاً اُس سوداگر کو سفر درپیش ہوا۔ تب ہر ایک اسباب اپنے گھر کا بی بی سمیت طوطے کے حوالے کیا اور آپ واسطے سوداگری کے کسی شہر میں گیا اور کئی مہینے وہاں کار تجارت میں رہا اُس کے جانے کے بعد کئی دن پیچھے اُس کی جورو نے ایک جوان مغل بچے سے آشنائی کی اور ہمیشہ رات کو اُسے اپنے گھر بلاتی صبح تک اُس کے ساتھ عیش و عشرت کرتی یہ احوال اُن دونوں کا طوطا دیکھتا اور باتیں اُنکے اختلاط کی سُنتا لیکن دیکھا سُنا اپنے دل میں چھپا رکھتا بعد ڈیڑھ برس کے وہ تاجر اپنے گھر آیا اور حقیقت گذری ہوئی اپنے گھر کی اُس طوطے سے پوچھی کہ میرے پیچھے کسطرح سے گذری اور کس کس نے کیا کیا کیا اُس نے ہر ایک کا حال جو ٹھیک ٹھیک تھا سو سب بخوبی کہہ دیا اور بی بی کی بات سے آگاہ نہ کیا کیونکہ اگر وہ بھی کہتا تو دونوں میں جدائی ہوتی یا کسی نہ کسی کی جان جاتی بعد دو ہفتہ کے وہ تاجر یہ ماجرا اور کسی شخص کی زبانی سن کر اپنی بی بی سے دق ہوا اور خفگی کرنے لگا کیونکہ ہوشمندوں نے کہا ہے۔ کہ عشق اور مشک نہیں چھپتا ہے اور آگ بارود میں پوشیدہ نہیں رہتی وہ سوداگر طوطے کی طرف سے بد ظن ہوا اپنے جی میں کہنے لگا کہ افسوس اس طوطے نے کچھ بھی اس کے نیک اور بد کی بات مجھ سے نہ کہی اور اپنی جورو پر غصہ ہو کر بہت سی سرزنش کی اور وہ احمق عورت یہ سمجھی کہ شاید طوطے نے کچھ اس سے میری بات کہی جو اس قدر مجھ پر آفت اُٹھائی ہے پھر طوطے کو اپنا مخالف سمجھ  کر ایک روز آدھی رات کو قابو پا کر اُس طوطے کے بال و پر نوچ ناچ کر گھر کے باہر پھینک کر غل مچانے لگی کہ ہے ہے میرے طوطے کو بلی لے گئی اور جی میں سمجھی کہ وہ کمبخت مر گیا ہو گا لیکن تھوڑی سی جان اُس میں باقی تھی۔  اوپر سے جو گرا تو صدمہ زیادہ پہنچا بارے بعد ایک ساعت کے اُس کے بدن میں قدرے قوت و توانائی آئی تب سنبھل کر اُٹھا وہاں ایک گورستان تھا اُس میں گیا اور ایک گور کے سوراخ میں رہنے لگا لیکن تمام دن بھوکا مرتا رات کو اُس سوراخ سے نکلتا جو کوئی مسافر اس گورستان میں وارد ہو کر رات کو کھانا کھاتا اور اُس کا گرا پڑا ٹکڑا دانہ دنکا جو پاتا سو چنتا اور کھاتا اور پانی پی کر صبح کو اُسی سوراخ میں جا بیٹھتا بعد چند روز کے سارے پر اُس کے نکل آئے اور تھوڑا تھوڑا اڑنے لگا اس گور سے اُس قبر پر جاتا پھرتا۔ اُدھر تو یہ گذری اب ادھر کی سنو، جس شب وہ طوطا گیا اُس کی صبح کو وہ سوداگر اپنے بچھونے پر اُٹھ کر اُس کے پنجرے کے پاس گیا اور اُسے دیکھا کہ وہ اُس کے اندر نہیں ہے۔ یہ حال دیکھتے ہی اُس نے اپنی پگڑی زمین پر دے پٹکی اور غل مچانے لگا بلکہ نہایت متردد ہوا اور اپنی بی بی پر اس قدر غصہ ہوا کہ کچھ کہا نہیں جاتا۔ آخر اُس نے اس کے غم میں خواب و خور بھی چھوڑ دیا۔ اپنی عورت کی باتوں کا ہرگز اعتبار نہ کیا بلکہ اُس کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ تب اُس عورت نے دھیان کیا کہ شوہر نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے اب رہنے والے اس شہر کے دیکھیں گے۔ مناسب یہ ہے کہ میرے گھر کے قریب جو گورستان ہے وہاں چلی جاؤں اور کھانا پینا سب چھوڑ دوں۔ یہاں تک کہ مر جاؤں۔ آخرکار اس قبر گاہ میں گئی اور ایک فاقہ کیا۔ جس وقت کہ رات ہوئی اُس طوطے نے قبر کے سوراخ سے کہا کہ اے عورت اپنے سر کے بال نوچ اور ایک اُسترے سے منڈوا اور چالیس دن تک بے آب و طعام اس گورستان میں کہ میں تیرے شوہر میں دوستی کرا دوں، وہ عورت اُس آواز کو سُن کر متعجب ہوئی اور اپنے جی میں سمجھی کہ اس قبرستان میں کوئی ولی خدا پرست کی قبر ہے، البتہ وہ میرے گناہ بخشے گا اور مجھ سے میرے خاوند کو ملائے گا۔ اس بھروسے پر اپنے سر کو منڈوا کر چندے اُس قبرستان میں رہی۔ ایک روز طوطا اُس قبر سے نکل کر کہنے لگا کہ اے عورت تو نے بے تقصیر میرے پر اکھیڑے اور مجھے آزار سخت دیا۔ خیر جو ہوا سو ہوا میری قسمت میں یہی تھا جو تو نے کیا لیکن میں نے تیرا نمک کھایا ہے اور تیرے خاوند کا خرید ہوں۔ تو میری بی بی ہے، تیری خدمت بخوبی کروں گا اور وہ باتیں گور کے سوراخ سے میں نے کہی تھی۔ تو یقین کر میں راست  گو ہوں چغلخور نہیں کہ تیرا عیب تیرے خاوند سے کہتا۔ اب دیکھ تو سہی میں تیرے شوہر کے گھر جاتا ہوں اور تجھ سے اُس کو ملا دیتا ہوں۔ غرض طوطے نے یہ کہا اور اپنے خاوند کے گھر جا موافق قاعدے کے اُس کو سلام کیا۔ اور آداب بجا لایا۔ دعائیں دیکر کہنے لگا کہ عمر تیری بڑی ہے اور دولت دو چند ہووے۔ اُس نے کہا کہ تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے جو اس طرح با ادب کھڑا دعائیں دیتا ہے۔ پھر آپ ہی پہچان کر کہنے لگا کہ اب تک کہاں تھا اور کس شخص کے بھر مہمان گیا تھا، سب احوال مفصل اپنا کہہ۔ اُس نے عرض کی کہ میں وہی قدیمی طوطا ہوں۔ مجھے بلی پنجرے سے لے گئی تھی اور اُس کے پیٹ میں تھا۔ آس کے آقا نے کہا تو پھر کیونکر جی اُٹھا۔ اُس نے کہا کہ نے تم بیگناہ اپنی بی بی کو گھر سے ہاتھ پکڑ کر نکال دیا، اس سبب سے وہ ایک قبرستان میں گئی اور چالیس دن فاقے سے رہی۔ بے اختیار آہ و زاری کی کہ حق تعالیٰ اُس کی فریاد سُن کر مہربان ہوا۔ اور مجھکو مردہ سے زندہ کر کے کہا کہ اے طوطے تو اُس کے خاوند کے پاس جا اور اُن دونوں کو آپس میں ملا دے بلکہ اُس کی عصمت پر گواہی دے۔ جب آقا نے یہ احوال دریافت کیا تب خوش ہو کر اپنے جگہ سے اُٹھا اور گھوڑے پر سوار ہو اپنی بی بی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے جانی میں نے بے تقصیر ستایا اور دکھ دیا لیکن اب تو اُس بات سے درگذر آ میری خطا معاف کر۔ وہ راضی ہوئی، تب اُس کو گھر لے آیا۔پھر جو خاوند ملے جلے رہنے لگے اور عیش و عشرت کرنے لگے۔ القصہ طوطے نے اس سوداگر کا قصہ تمام کیا اور خجستہ سے کہا کہ اے خجستہ اُٹھ اور جلد شاہزادے کے پاس جا۔ یا کہ وعدہ تیرا جھوٹ نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ یہ خبر تیرے شوہر تک پہنچے اور وہ تجھ پر خفگی کرے تو میں اُسی سوداگر کے طوطے کی طرح صفائی کرا دوں گا۔ خجستہ اس سخن سے خوش ہوئی اور قصد کیا کہ شہزادے کے پاس جاوے۔ اتنے میں صبح صادق ہو گئی۔ جانا اُس کا موقوف رہا اور یہ شعر آسمان کی طرف دیکھ کر پڑھا اور گریبان مثل گل چاک کیا۔ حسن یہ دو دل کو اک جا جھاتا نہیں، کسی کا اسے وصل بھاتا نہیں، یہ ہے دشمن وصل و دل سوز ہجر، کرے ہے شب وصل کو روز ہجر، از بسکہ خجستہ تمام رات قصہ سننے کے واسطے جاگی تھی۔ سونے کے لیے گئی۔ اور جاتے ہی بچھونے پر سو گئی۔

چوتھی داستان ایک پاسبان نے طبرستان سے وفاداری کی اور اُس نے اُسے اپنا ولیعہد کیا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ اپنے بچھونے پر سے اٹھی، ہاتھ منہ دہو کر بیٹھی۔ خوان کھانے اور میوے کے منگائے، کچھ تناول کیا اور پھر پوشاکِ مکلف اور جواہر قیمتی سے اپنے تئیں آراستہ کر سچ مچ کی پری بن کے دو پری پیکر خواصوں کو ساتھ لیکر خوش اور بشاش طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے "جذبہ عشق نئے لطف دکھاتا ہے مجھے، شوق دل کوئے صنم میں لئے جاتا ہے مجھے، اگر تو مہربانی سے رخصت کرے تو میں اُس کے پاس جاؤں اور آرزو اپنے دل کی نکالوں۔ طوطا کہنے لگا اے کد بانو تو خوش ہو، اندیشہ مت کر کہ میں تیرے کام کی سعی جستجو میں لگ رہا ہوں۔ قریب ہے کہ تجھے تیرے یار کے پاس پہنچاؤں لیکن تجھے لازم ہے کہ تو بھی دوستی اور محبت اُس کی اپنے جی میں رکھے جس طرح سے کہ ایک پاسبان نے بادشاہ طبرستان کی عقیدت اپنے دل میں رکھی اور اُس کے عوض دولت بیشمار پائی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے۔ مفصل بیان کر۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ عقلمندوں نے اور اگلے زمانے کے بزرگوں نے کہا ہے کہ ایک دن ایک بادشاہ طبرستان نے مجلس عیش برابر بہشت کے آراستہ کی۔ کھانے اچھے لذیذ اور شرابیں پُر کیف ، کباب قسم قسم کے اُس محفل میں مہیا کئے۔ شہزادے وزیر امیر حکیم اُستاد بلکہ جتنے صاحب کمال اُس شہر کے تھے، حاضر ہوئے اور کھانے اُنہوں نے کھائے اور شرابیں پیں کہ اتنے میں ایک شخص اجنبی اُس محفل بادشاہی میں بیدھڑک چلا آیا۔ تب ہر ایک اہل بزم نے پوچھا کہ اے مرد تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اُس نے کہا کہ میں شمشیر زن اور شیر گیر ہوں اور تیر اندازی بھی ایسی جانتا ہوں کہ تیر میرا سنگ خارا کو پھوڑتا ہے بلکہ پہاڑ کے پار ہوتا ہے سوائے سپہ گری اور بھی ہر ایک فن سے واقف ہوں اور بہت سی حکمتیں جانتا ہوں۔ پہلے امیر خجستہ کے پاس نوکر تھا۔ جب اُس نے میری قدر کچھ نہ کی اور کاریگری نہ سمجھی تو اُس کی چاکری چھوڑ کر بادشاہ طبرستان کے پاس آیا ہوں۔ اگر وہ مجھے نوکر رکھے گا تو رہوں گا اور جانفشانی قرار واقعی کروں گا۔ طبرستان کے بادشاہ نے یہ بات سُن کر اپنے نوکروں اور اہلکاروں کو حکم کیا کہ بیشک اس کو خدمت پاسبانی کی دوپہر بعد دریافت ہونے کے جو اس کے حق میں مناسب ہو گا کیا جائے گا۔ بموجب حکم بادشاہ کے ارکانِ دولت نے اُسی وقت خدمت پاسبانی کی اُسے دی اور سرفراز کیا۔ چنانچہ وہ شام سے تا صبح ہر ایک شب دولتخانہ کی خبرداری کے واسطے جاگتا اور کھڑے ہو کر بادشاہ کے قصر کو دیکھا کرتا۔ اتفاقاً ایک شب آدھی رات کو بادشاہ بالا خانے پر کھڑا ادھر اُدھر پھرتا تھا۔ نگاہ اُس کی پاسبان پر پڑی، دیکھا کہ ایک شخص مستعد کھڑا ہے، تب اُس نے پوچھا اے شخص تو کون ہے جو بے وقت اس محلسرا کے نیچے کھڑا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ خداوند! میں پاسبان اس دولت خانے کا ہوں۔ خبرداری کے واسطے اس محلسرا کے پاس کتنے دنوں سے شام سے صبح تک حاضر رہتا ہوں اور امیدوار تھا کہ جمال مبارک حضرت کا دیکھوں اور اپنی آنکھیں روشن کروں بارے آج کی شب قسمت نے یاوری کی کہ دیدار خداوند عالیان کا دیکھا ، دل کو شاد کیا۔ اتنے میں ایک آواز جنگل کی طرف سے بادشاہ کے کان میں آئی۔ کہ میں جاتی ہوں کوئی ایسا مرد ہے کہ مجھ کو پھیر لاوے۔ یہ بات سنتے ہی بادشاہ متعجب ہو کر اُس سے کہنے لگا۔ کہ اے پاسبان تو بھی کچھ اُس آواز کو سُنتا ہے۔ کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے۔ اُس نے عرض کی کہ اے خداوند میں تو کئی شب سے سُنتا ہوں کہ بعد آدھی رات کے یہ آواز یوں آتی ہے۔ لیکن میں خدمت پاسبانی کی رکھتا ہوں۔ محلسرا کو چھوڑ کر جا نہیں سکتا۔ اس واسطے دریافت نہ کر سکا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ اور کہاں سے آتی ہے۔ اگر شاہجہاں ارشاد کریں تو ابھی جاؤں اور شتاب اُس کو دریافت کر کے حضور پُر نور میں عرض کروں۔ بادشاہ نے فرمایا کہ بہتر جا۔ جا اور سچ خبر حضور میں آ کر گذارش کر۔ وہ پاسبان وہیں خبر لینے چلا، تھوڑی دور گیا تھا۔ کہ بادشاہ بھی ایک کمبل سیاہ لیکر سارا بدن اور منہ اُس سے چھپا کر اُس کے پیچھے ہو گیا۔ پاسبان تھوڑی دور جا کر کیا دیکھتا ہے کہ وہ ایک عورت حسین خوبصورت ایک درخت کے نیچے راہ میں کھڑی ہے۔ اور کہتی ہے کہ میں جاتی ہوں، دیکھوں تو کون ایسا مرد ہے جو مجھے پھیر لاوے اور نہ جانے دے۔ تب اُس نے پوچھا کہ اے بی بی صاحب جمال پری پیکر تو کون ہے۔ اور یہ بات کس لئے سب سے کہتی ہے۔ اُس نے کہا کہ میں تصویر عمر بادشاہ طبرستان کی ہوں۔ وعدہ اس کا برابر ہوا ہے۔ اب اس واسطے میں جاتی ہوں۔ یہ سخن سنتے ہی اُس پاسبان نے کہا کہ اے تصویرِ عمر بادشاہ اب کس طرح سے پھر بھی مراجعت کرے گی اور پھر آوے گی۔ اُس نے کہا کہ اے پاسبان ایک صورت سے اگر تو اپنے بیٹے کو اُس کے عوض ذبح کرے تو البتہ مراجعت کروں تا کہ بادشاہ پھر چند روز اس جہان میں زندگی کرے اور جلدی نہ مرے۔ یہ بات بادشاہ نے بھی سُنی اور اُس پاسبان نے بھی نہایت خوش ہو کر جواب دیا کہ اے عورت عمر بادشاہ پر اپنی عمر اور بیٹے کی عمر نثار کرتا ہوں۔ جلدی مت کر، یہیں کھڑی رہ۔ میں ابھی اپنے گھر جاتا ہوں اور بیٹے کو لا کر تیرے سامنے ذبح کرتا ہوں۔ میں اس سے ہاتھ اُٹھاؤں گا۔ بادشاہ کی سلامتی کے واسطے ماروں گا۔ حاصل کلام یہ کہہ کر اپنے گھر گیا۔ بیٹے سے کہنے لگا کہ بیٹا آج بادشاہ کی عمر تمام ہوئی ہے، کوئی دم میں وہ مرتا ہے۔ اگر تو اپنی عمر اُس کو دے تو وہ تیرے مرنے سے جیئے اور چند روز اس دنیا میں رہے۔ وہ لڑکا نیک بخت وفادار اس بات کو سُنتے ہی کہنے لگا کہ اے قبلہ و کعبہ وہ بادشاہ منصف و عادل ہے۔ ایسے والی صاحب سخا اہل ہمت غریب پرور کریم بخش کے لئے ایک میں کیا ہوں، اگر تمام گھر تمہارا کام آوے تو قصور نہ کرنا کیونکہ ایک مجھ سا ناچیز اگر اُس کے صدقے ہوا تو کیا ہُوا۔ وہ جیتا رہے گا۔ تو ایک عالم کو پرورش کرے گا۔ بہتر یہی ہے کہ مجھے جلد لے چلو اور اُس کے اوپر صدقے کرو تو میں سعادتِ دارین حاصل کروں کیونکہ ایک تو آپ کا کہنا اور دوسرے ایسے بادشاہ پر نثار ہونا اس سے بہتر بات میرے واسطے اس جہان میں اور کوئی نہیں۔ میں نے یہ کلام حضرت اُستاد رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ ہر ایک چھوٹے بڑے مکتب کے لڑکوں سے کہتے تھے کہ اگر بادشاہ کی سلامتی کے واسطے  کوئی اہلکار بادشاہی ایک آدمی کو رعیت میں سے مارے تو گناہ نہیں کیونکہ وہ بندہ پرور ہے، سینکڑوں کو پالتا ہے۔ وہ جیئے گا تو ہر ایک شہر اس سے آباد رہے گا، اگر وہ مرے گا تو ایک ظالم پیدا ہو گا کہ ہزاروں کو ہلاک کرے گا۔ اور لاکھوں اُس کے ظلم و ستم سے مریں گے۔ پس لازم ہے کہ جلد مجھے لے چلو اور اُس کے واسطے ذبح کرو۔ اُس کے واسطے ایک مجھ سا قربان ہو تو کیا۔ آخر وہ پاسبان اپنے بیٹے کو اُس عورت کے پاس لے گیا اور اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر چاہتا تھا کہ خنجر تیز سے اُس کا گلا کاٹے، اتنے میں اُس عورت نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ اے پاسبان اپنے بیٹے کو ذبح مت کر اور گلا اُس کا مت کاٹ۔ حق تعالیٰ کو تیری ہمت پر رحم آیا اور مہربان ہو کر مجھے پھر ساٹھ برس کا حکم کیا کہ بادشاہ کے قالب میں رہوں۔ جس وقت اُس پاسبان نے اسی خوشی کی خبر کو سُنا، بہت خوش ہوا اور اُسی وقت بادشاہ کو خبر دینے چلا۔ یہ حالت بھی بادشاہ طبرستان نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور بات چیت پاسبان کی اور اُس کے بیٹے کی کما حقہ دریافت کی، پھر اُس کے پیچھے سے دوڑ کر اپنے تئیں بدستور اُسی بالا خانے پر پہنچا اور اُسی طرح اُس پر پھرنے لگا اور بعد ایک گھڑی کے وہ پاسبان بھی حضور پُر نور میں آیا اور تسلیمات بجا لا کر دعا دینے لگا کہ عمر و دولت جاہ و حشمت شاہنشاہ کی تا قیامت بڑھتی رہے۔ بادشاہ نے اُس سے پوچھا کہ اے پاسبان وہ کیسی آواز تھی، کچھ تو نے دریافت کیا ہے تو مفصل بیان کر۔ اُس نے دست بستہ ہو کر عرض کی اے خداوند ایک عورت حسین صاحب جمال اپنے خاوند سے لڑ کر اس جنگل میں نکل آئی تھی اور ایک درخت کے نیچے اُس راہ میں بیٹھی رو رہی تھی اور یہی کہتی تھی کہ میں نہ رہوں گی۔ تب میں اُس کے پاس گیا۔ اور اُس کو میٹھی میٹھی باتوں سے بہلایا اور اچھے اچھے سخن سمجھا بجھا کر اُس کے شوہر سے ملا دیا۔ دوستی اُن دونوں میں کرا دی۔ اب اُس نے مجھ سے اقرار کیا ہے کہ میں ساٹھ برس تک اپنے شوہر کے گھر سے نہ نکلوں گی۔ بادشاہ نے یہ دانائی اور جانفشانی اُس کی اور جرات اُس کے بیٹے کی دیکھی تھی۔ فرمایا کہ اے پاسبان جس وقت تو اُس کی خبر لینے چلا تھا، میں بھی تیرے پیچھے موجود تھا۔سب سوال و جواب تیرے اور تیرے بیٹھے کے اور اطوار اس عورت کے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سُنے۔ خیر اگرچہ اگلے وقت میں تو محتاج و غریب و ذلیل و پریشان تھا، اور اب میرے پاس پاسبانی میں نوکر ہوا تھا۔ انشاء اللہ تعالیٰ روز بروز بہبودی اور ترقی تیری ہو گی اور گھڑی گھڑی سلوک پر سلوک کروں گا۔ خدا کے فضل سے تو نہایت اوج دولت کو پہنچے گا۔ یہ کہہ کر بادشاہ آرام کرنے گیا۔ بساط عیش پر سو رہا۔ بعد دو چار گھڑی کے صبح ہوئی، بادشاہ تخت پر نکل کر بیٹھا اور پاسبان کو بلایا، پھر امیر وزیروں کو اور اہلکاروں کو جمع کر کے یہ فرمایا کہ اے حاضرانِ پایہ تخت میں نے اسے بخوشی اپنا ولیعہد کیا اور مال و اسباب و خزانہ سب اپنی رضامندی سے اسے دیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کی۔ اتنے میں صبح ہوئی اور آفتاب نکلا۔ جانا خجستہ کا موقوف رہا کیونکہ تمام رات بادشاہ طبرستان اور اُس پاسبان کی کہانی سننے سے آنکھ خمار آلودہ رہی تھی۔ جاتے ہی پلنگ پر سو رہی۔

ہند کڑی مار آخر کو لیٹ

چھپر کھٹ کے کونے میں منہ لپیٹ

پانچویں داستان زرگر اور نجار کی

جب  سورج چھپا اور چاند نکلا تب خجستہ ارغوانی جوڑا پہن بسنتی دوشالہ اوڑھ جواہر کے دریا میں سراپا غرق ہو طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے مجھے آج کی شب جلد رخصت دے کہ میں اپنے یار سے ملوں اور کچھ باتیں پیار کی کہوں۔ طوطے نے کہا کہ اے کد بانو میں نے تجھے پہلی ہی شب رخصت دی تھی۔ اب تو نے کیوں توقف کیا، خیر اب جا اور یہ زیور اپنے بدن کا اتار کیونکہ بی بی دنیا بہت بُری جگہ ہے۔

آنا کدبانو شہزادی کا سنگار کر کے طوطے کے پاس بطلبِ رخصت

ایسے اسباب کو پہن کر غیر مرد کے پاس جانا اچھا نہیں۔ شاید اُس کی آنکھ گہنے پر پڑے اور جی میں لالچ کرے تو نہ تو رہے گی اور نہ گہنا۔ دوستی کی دوستی جائے گی، زیور کا زیور جس طرح سے کہ اُس زرگر اور نجار کی دوستی میں خلل پڑا۔ ۔۔۔۔ رہی کے واسطے برسوں کا ساتھ چھوٹا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی نقل مفصل بیان کر۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک بڑھئی اور سُنار میں دوستی تھی کہ جو کوئی انہیں دیکھتا وہ یہی کہتا تھا کہ یہ عاشق اور معشوق ہیں۔ اگر یہ نہیں ہے تو ماں جائے بھائی ہیں۔ اتفاقاً وہ دونوں سفر کو گئے۔ کسی شہر میں جا کر مفلسی ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ اس شہر میں فلاں بتخانہ ہے۔ کہ اُس میں کئی بُت سونے کے ہیں۔ یہاں سے برہمنوں کی صورت بن کر چلیئے اور عبادت میں مشغول ہو جیئے۔ کسی وقت فرصت پا کر چُرائیے اور مزے سے اُن کو چُرا کر گذران کیجیے۔ یہ بات ٹھہرا کر وہ دونوں اُس بتخانے میں گئے۔ برہمنوں نے جو اُنکی عبادت دیکھی تو سب شرمندہ ہوئے۔ ہر روز اُس بتخانے سے وہ برہمن جاتے اور پھر نہ آتے۔ اگر کوئی پوچھتا کہ تم نے کیوں بتخانے کو چھوڑا تو وہ یہ کہتے کہ کئی دن سے دو برہمن ایسے دہرم صورت صاحب جمال پوجا کرنے والے آئے ہیں کہ ایک دم بھگوان کے دھیان سے سر نہیں اُٹھاتے اور کسی سے آنکھ نہیں ملاتے۔ اس واسطے ہم چلے آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے برابر ہم سیوا اور تپسیا نہیں کر سکتے۔ جب اُن دونوں کے سِوا اُس بتخانے میں اور کوئی نہ رہا، تب اُنہوں نے شب کو فرصت پا کر کئی بت سونے کے چُرا کر اپنے گھر کا راستہ پکڑا اور وہ نزدیک شہر کے پہنچ کر کسی درخت کے نیچے ان بتوں کو گاڑ کر اپنے اپنے گھر گئے۔ بعد آدھی رات کے سُنار اکیلا جا کر اُن بتوں کو کھود لایا اور صبح کے وقت نجار کے گھر جا کر اُس نجار سے کہنے لگا کے اے نجار بے ایمان جھوٹے دغا باز میری آشنائی کا پاس نہ کیا اور ایسی قدیم دوستی میں خلل ڈالا کہ اُن بتوں کو تو چُرا لایا۔ اس بے ایمانی سے کے برس جیئے گا اور کے دن گذران کرے گا۔ خوب اس زمانے میں دوستی کا اعتبار نہ رہا۔ وہ اس کی باتیں سُن کر حیران ہوا کہ یہ کیا بکتا ہے۔ آخر ناچار ہو کر یہ کہنے لگا کہ اے زرگر جو کیا سو کیا اور جو ہوا سو ہوا، جانے دے ۔ میں جانتا ہوں۔ خدا کے واسطے مجھ پر بہتان مت باندھ، از بسکہ وہ عقلمند تھا۔ اور اس سے لڑنا اور قصہ کرنا مناسب نہ جانا، چپکا ہو رہا۔ بعد کئی دن کے ایک پُتلا چوبی اُس بڑھئی نے سُنار کی صورت بنایا اور کپڑے اُسے پہنائے اور دو بچے خرس کے کہیں سے لایا اور اُس پتلے کی آستین اور دامن میں کچھ کچھ اُن بچوں کے کھانے کی چیزیں رکھ دیں۔ جب اُن کو بھوک لگتی تو اُس پتلے کے پاس جاتے اور اُس کی آستین یا دامن سے جو پاتے سو کھاتے اور اپنے جی میں جانتے کہ ہمارا ماں باپ جو کچھ ہے سو یہی ہے اور وہ دونوں اُس پتلے سے آشنائی رکھتے تھے کہ ہر روز الفت سے اُس کے دامن پر آ کر بیٹھتے۔ جب خرس کے بچوں کو اُس صورت سے مہر و محبت ہوئی، تب بڑھئی نے اُس سنار کی اور اُس کی جورو لڑکوں کی ضیافت کی، بلکہ ہمسایہ کی عورتوں کو بھی بُلایا۔ چنانچہ سُنار کی جورو اپنے دونوں لڑکوں کو ساتھ لیکر اُس کے گھر گئی۔ نجار اپنی گھات میں لگ رہا تھا۔ بعد دو گھڑی کے اُس سُنارنی کو غافل پا کر اُن دونوں لڑکوں کو چھپا رکھا اور خرس کے بچوں کو چھوڑ کر غل مچانے لگا کہ ہے ہے یہ سُنار کے لڑکے خرس کے بچے کیونکر ہو گئے۔ یہ بات سن کر سنار باہر سے بے اختیار روتا ہوا آیا اور اُس کی کمر پکڑ کر کہنے لگا کہ ارے جھوٹ کیوں بکتا ہے۔ آدمی بھی جانور ہوئے ہیں۔ آخر یہ قضیہ قاضی کے روبرو گیا اور قاضی نے پوچھا کہ اے بڑھئی اُس کے بچے خرس کے بچے کیونکر ہوئے۔ اُس نے کہا کہ حضرت دونوں لڑکے میرے سامنے کھیلتے تھے، یکایک زمین پر گرتے ہی گرتے خرس کے بچے ہو گئے۔ قاضی نے کہا کہ یہ بات میں کس طرح سچ جانوں۔ تب نجار کہنے لگا کہ خداوندا میں نے کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ کسی وقت میں ایک گروہ انسان کا خدا کے غضب سے حیوان ہو گیا تھا۔ لیکن عقل اُس گروہ کی جوں کی توں رہی تھی اور الفت اور محبت میں بھی ویسا ہی تھا۔ لازم یہ ہے کہ اس وقت دربار عام میں اُن بچوں کو سب ہالی موالی کے سامنے منگوا کر اُس کے روبرو کیجئے۔ اگر وہ اُس کے لڑکے ہوں گے تو اُس سے الفت کریں گے اور نہیں تو جو چاہیے گا سو مجھے کیجئے گا۔ یہ بات سُن کر قاضی نے پسند کی اور اُن بچوں کو منگوا کر اُس زرگر کے آگے چھڑوا دیا۔ وہ اُس صورت کے سبب سے آشنا ہو رہے تھے۔ باوجود اُس بھیڑ کے بے اختیار دوڑ کر اُس سے جا لپٹے اور اُس کے پاؤں پر منہ ملنے لگے اور اُس کی بغلوں میں سر ڈالنے لگے۔ تب قاضی نے کہا کہ اے سُنار دغا باز یہ دونوں لڑکے تیرے ہیں۔ مجھے یقین ہوا، پس اب ان دونوں کو اُٹھا کر لیجا، ناحق کیوں شرارت اور بہتان کرتا ہے۔ تب وہ زرگر اُس نجار کے پاؤں پر گر پڑا اور منت کرنے لگا کے اے یار اگر یہ حکمت تو نے اپنا حصہ لینے کے واسطے کی ہے تو اپنا حصہ لے اور میرے لڑکے مجھے دے۔ اُس نے کہا کہ اے سُنار تو نے بُرا کیا ہے اور امانت میں خیانت کی ہے۔ اگر اب جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور دغا بازی سے توبہ کرے تو شاید پھر تیرے بیٹے اپنی اسلی صورت پر آویں۔ غرض اُس زرگر نے اُس کا حصہ دیا اور اپنے بیٹھے اُس سے لئے۔

طوطے نے یہ نقلی تمام کر کے کہا کہ اے خجستہ تو بھی اپنا زیور اُتار کر جا۔ شاید وہ بھی اُسی طرح کا بے ایمان ہو اور اُس کا لالچ کرے تو پھر نہ گہنا ہی رہے اور نہ دوستی ہی رہے گی۔ کد بانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ گہنا اُتارے اور اپنے معشوق کے پاس سدھارے کہ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھ کر چُپکی رہ گئی۔

روتے روتے تمام رات کٹی

ہجر کی پر نہ میری بات کٹی

چٹھی داستان لشکری کی جورو سے امیر زادہ شرمندہ ہوا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ نے ایک جوڑا دھانی گلے میں ڈالا اور ہر ایک جواہر سے اپنے تئیں سنوارا اور مسی کی دھڑی کا لکھوٹا ہونٹوں پر جمایا، بالوں میں تیل ڈال کنگھی چوٹی گندھا ایک بانکپن سے اُٹھی اور طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے تو مجھے ہر ایک وقت باتوں میں لگا لیتا ہے اور یوں ہی جھوٹ موٹ بہلا دیتا ہے۔ تجھے میری خبر نہیں ہے کہ میں دردِ عشق سے مرتی ہوں اور حسب حال میرے یہ بند ہے۔

مخمس

حیران ہوں کیا کرے گا تیرا وعدہ اور پیام

اس منجھلے کے بیچ میرا کام ہے تمام

اگر زندگی عزیز ہے میری تو صبح و شام

موقوف کر یہی ہے میرا حاصلِ کلام

طاقت نہیں رہی مجھے اب انتظار کی

 

کد بانو نے کہا کہ قسم ہے مجھے آج کی شب رخصت دے کہ میں جاؤں اور اُسے گلے لگاؤں۔ طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ میں بھی اسی بات سے شرمندہ ہوں، سینہ چاک ہے اور دل جلتا ہے کہ تو ہر ایک شب میری باتیں سُنا کرتی ہے ، اپنے یار کے پاس نہیں جاتی۔ خدانخواستہ اگر اس عرصے میں تیرا خاوند آ جائے گا، تو خواہ مخواہ اپنے معشوق سے خجالت کھینچے گی۔ جس طرح سے کہ اُس لشکری کی جورو سے امیر زادہ شرمندہ ہوا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی کہانی کیونکر ہے۔ بیان کر۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک مرد لشکری جورو نہایت خوبصورت رکھتا تھا۔ اور اُس کی حرمت کی نگہبانی کیا کرتا تھا۔ ایکدم اُس کے پاس سے جدا نہ ہوتا۔ اتفاقاً گردشِ فلکی سے لشکری محتاج ہوا۔ تب اُس کی جورو نے پوچھا کہ اے صاحب تم نے کیوں اپنا کاروبار دنیا کا موقوف کیا جو احوال یہاں تک پہنچا۔ اُس نے کہا کہ اے بی بی مجھے تیرا اعتبار نہیں اس لیے کہ سب کاروبار تباہ کر کے یہاں تک خراب ہوا ۔ نہ کہیں جا سکتا ہوں نہ کسی کی نوکری کر سکتا ہوں۔ تب اُس نے کہا اجی ایسے خیال فاسد کو اپنے جی سے دور کر کہ اس عورت نیک بخت کو کوئی مرد فریفتہ نہیں کر سکتا اور بدبخت بی بی کو کوئی شوہر سنبھال نہیں سکتا۔ تم نے حکایت اُس جوگی کی نہیں سُنی جو ہاتھی کی صورت بن کر اپنی جورو کو پیٹھ پر چڑھائے جنگل جنگل پڑا پھرتا تھا۔ اور اُس بے حیا نے اُس کی پیٹھ پر ایک سو ایک مرد سے بدکاری کی تھی۔ تب اُس لشکری نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے۔ تو بی بی کہنے لگی۔ نقل ہے کہ ایک راہگیر نے کسی بیابان میں ایک فیل مست بمع عماری دیکھا کہ چلا آتا ہے۔ تب وہ اُس کی دہشت سے ایک بلند درخت پر چڑھ گیا۔ قضا کار وہ فیل اُسی درخت کے نیچے آیا۔اور اُس عماری کو اپنی پیٹھ سے اُسی جگہ اتار کر رکھا اور آپ چرائی کو گیا۔ اس مرد نے دیکھا کہ اس عماری میں ایک عورت خوبصورت حسین ہے۔ اس واسطے اس درخت پر سے اُترا۔ اُس کے پاس آ کر باتیں اور مزاخیں کرنے لگا۔ وہ بھی اُس سے خوش ہو کر اپنے مطلب کی باتیں ناز و انداز سے کر کے ایسی مختلط ہوئی کہ گویا ہمیشہ کی آشنائی تھی۔ غرض شہوت کے غلبہ سے بدکاری میں مشغول ہوئی۔ بعد فراغت کے اُس عورت نے ایک تاگا اپنی جیب سے گرہ دار نکالا اور ایک گرہ اُس ڈورے میں اور دی۔ تب اُس مرد نے پوچھا کہ تم کو اپنے خدا کی قسم سچ کہو کہ یہ ڈورا کیسا ہے اور یہ گرہیں اس میں کیسی ہیں۔ مجھ کو بھی اس احوال سے خبردار کرو۔ تب وہ بد ذات کہنے لگی کہ میرا شوہر جادوگر ہے۔ میری حفاظت کے واسطے ہاتھی بنا رہتا ہے اور مجھے اپنی پیٹھ پر چڑھائے جنگل جنگل پھرتا ہے۔ اُس کی اس خر داری پر میں سو مردوں سے بدکاری کی اور یادگاری کے واسطے ایک ایک گرہ دی۔ آج تجھ سمیت ایک سو ایک گرہ ہوئی۔ جب وہ یہ داستان تمام کر چکی تب اُس کے شوہر نے کہا کہ اب میرے حق میں کیا فرماتی ہو جو کہو سو کروں۔ تب اُس عورت نے کہا کہ بہتر مصلحت یہی ہے کہ تم سفر کرو اور کسی کے نوکر ہو۔ میں ایک گلدستہ تر و تازہ پھولوں کا دیتی ہوں۔ جب تک وہ گلدستہ پژمردہ نہ ہو تب تک جاننا کہ میری بیوی حرمت و عصمت سے بیٹھی ہے اور اگر خدانخواستہ وہ مرجھا جاوے تو معلوم کرنا کہ اس سے کچھ فعل صادر ہوا۔ یہ بات اُس لشکری کو خوش آئی۔ تب ناچار اُس سے جدا ہو کر کسی ملک کو واسطے روزگار کے چلا اور اُس عورت نے موافق کہنے کے ایک گلدستہ اُسے دیکر رخصت کیا۔ آخر وہ کسی شہر میں پہنچا اور کسی امیر زادے کا نوکر ہوا۔ غرضیکہ اُس گلدستہ کو بخوبی آٹھوں پہر اپنے پاس رکھتا اور دیکھتا کہ اتنے میں موسم خزاں کا گلستان جہان میں پہنچا اوور ہر ایک گل و غنچہ نے چمن دھر سے سفر کیا اور زمانے میں گل و غنچہ کا نام و نشان نہ رہا سوائے اُس گلدستہ کے جو اُس لشکری کے پاس تھا۔ تب امیر زادے نے اپنے مصاحبوں سے کہ اگر لاکھ روپے خرچ کیجیے تو ایک پھول میسر نہیں ہوتا اور کسی بادشاہ وزیر کے ہاتھ بھی نہیں لگتا ہے۔ تعجب ہے کہ یہ بیچارہ غریب سپاہی ہمیشہ ایک گلدستہ تازہ بتازہ کہاں سے لاتا ہے۔ تب اُنہوں نے عرض کی کہ حضرت سلامت ہم کو بھی یہی تعجب ہے۔ تب اُس امیر نے پوچھا کہ اے لشکری یہ گلدستہ کیسا ہے اور کہاں سے تیرے ہاتھ لگا ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ مجھ کر میری بی بی نے اپنی حرمت کی نشانی دی ہے اور کہا ہے کہ جب تک یہ گلدستہ تر و تازہ رہے گا، یقین جانیو کہ میری عصمت کا دامن گناہ سے نہیں بھرا۔ اس بات پر وہ امیرزادہ ہنسا اور کہنے لگا کہ اے لشکری جورو تیری جادوگر اور مکارہ ہے۔ اُس نے تجھے فریب دیا ہے اور اپنے دو باورچیوں میں ایک کو کہا کہ تو اس لشکری کے شہر میں جا اور اُس کی بی بی سے جس طرح مکر و فریب سے بنے مل کر جلد پھر آ۔ اور اُس کی کیفیت سے آگاہ کر۔ دیکھیں تو یہ گلدستہ کھلا رہتا ہے یا نہیں۔ بھلا یہ بھی معلوم ہو۔ وہ باورچی اپنے آقا کے حکم کے بموجب اُس کے شہر میں گیا اور ایک عورت دلالہ کو کچھ سمجھا بجھا کر اُس کے پاس بھیجا۔ وہ پیرزال اُس عورت کے گھر گئی اور جو کچھ کہ اُس نے کہا تھا سو سب کہا بلکہ اپنی طرف سے بھی بہت کچھ کہا لیکن اُس نے کچھ جواب اُس کٹنی کو نہ دیا۔ بس اتنا کہا کہ اُس مرد کو میرے پاس لے آ۔ میں دیکھوں وہ میرے لایق ہے یا نہیں۔ آخر اُس بڑھیا نے اُس شخص کو اُس عورت کے سامنے کر دیا۔ تب اُس نیک بخت نے اس مرد کے کان میں جھک کر کہا کہ اچھا میں حاضر ہوں لیکن اس وقت تو جا اور اُس رنڈی سے کہہ کہ میں اس عورت سے دوستی نہ کروں گا کہ میرے لایق نہیں اور بعد پہر رات کے اکیلا بیدھڑک میرے پاس چلا آ۔ پھر جو کچھ تو کہے گا میں قبول کروں گی پر اُس کو خبر مت کر کیونکہ یہ راز اس قوم سے کہنا اچھا نہیں ہے۔ غرض اُس مرد نے اس بات کو پسند کیا اور اُس کے کہنے کے بموجب اُس دلالہ سے کہا کہ میں اس سے آشنائی نہ کروں گا کیونکہ یہ میرے قابل نہیں اور بعد آدھی رات کے اس عورت کے دروازے پر آیا اور دستک دی۔ اُس عورت نے اپنے گھر کے اندر ہی کنوئیں پر ایک چارپائی کچے سوت کی بنی ہوئی بچھوائی۔ اور ایک چادر اُس پر کسوا کر اُس مرد کو بلا کر کہا کہ اس پر بیٹھ۔ وہ مارے خوشی کے جونہی بیٹھا وہیں اُس کے اندر گر پڑا اور غل کرنے لگا۔ تب اُس بی بی نے کہا کہ اے شخص سچ کہہ کہ تو کون ہے اور کس کا بھیجا ہوا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اگر سچ کہتا ہے تو جیتا چھوڑوں گی اور نہیں تو اسی کنویں میں تیری جان ماروں گی۔ تب اُس نے بنا چاری تمام احوال اپنا اور اُس امیر زادے کا اور اُس کے خاوند کا مفصل بیا ن کیا۔ پر اُس حادثے سے نکل نہ سکا۔ اُسی چاہ میں ایک مدت بند رہا۔ اُس  امیر زادے نے اُس کے نہ پھر آنے کے باعث سے دوسرے باورچی سے کہا کہ تو بھی یہاں سے بہت سا مال تجارت کا اُس شہر میں لے جا اور اُس عورت سے دوستی کر کے جلد پھر آ۔ لیکن ایسا نہ کرنا کہ تو بھی اُسی کی طرح وہیں کا ہو رہے۔ آخر وہ بھی اُس ملک میں گیا، اور دلالہ کو اپنے ساتھ لیکر اُس کے گھر آیا اور اُسی طرح سے وہ بھی اُسی چاہ میں قید ہوا۔ تب امیر زادے نے جانا کہ شاید اُس پر کچھ آفت پڑی جو اب تک ادھر نہ آیا۔ تب آپ ہی ناچار ہو کر ایک روز شکار کا بہانہ کر کے اُس ملک کو چلا اور مع لشکر وہ لشکری بھی اُس کے ساتھ گیا اور گلدستہ تر و تازہ اپنی بی بی کے آگے رکھ دیا۔ تب اُس عورت نے واردات اپنی گزری ہوئی ہوبہو اپنے شوہر سے کہی۔ بعد دو دن کے وہ  لشکری اپنے آقا کو گھر لے گیا اور ضیافت کی اور اُن دونوں کو اُس کنوئیں میں سے نکالا، لونڈی کے کپڑے پہنا کر کہا کہ ہمارے گھر مہمان آیا ہے۔ اگر تم آج کھانا اچھا پکا کے اُن کے آگے لے جاؤ گے اور خدمت اُن کی بجا لاؤ گے تو کل ہم تم کو آزاد کریں گے۔ غرض وہ دونوں ویسے ہی کپڑے پہن کر کھانا امیر زادے کے روبرو لے گئے۔ چونکہ کنوئیں کے دُکھ سے اور تھوڑا کھانا کھانے سے سر کے بال اور مونچھ داڑھی کے جھڑ پڑے تھے اور منہ کا رنگ متغیر ہو گیا تھا۔ امیر زادے نے فی الفور انہیں نہ پہچانا اور لشکری سے پوچھا کہ ان باندیوں نے ایسی کیا تقصیر کی ہے جو تم نے اُن کا سر منڈوایا ہے اور اس احوال کو پہنچایا ہے۔ تب اُس لشکری نے کہا کہ اُنہوں نے بڑا گناہ کیا ہے۔ میں کیا عرض کروں، آپ ہی ان سے پوچھیئے۔ یہ اپ ہی گناہ بیان کریں گی۔ آخر اُس امیر زادے نے غور کر کے دیکھا تو اپنے باورچیوں کو پہچانا۔ اور اُنہوں نے بھی اپنے آقا کو پہچانا۔ تب وہ دونوں دوڑ کر اُس کے پاؤں پر گر پڑے اور بے اختیار رونے لگے اور اُس لشکری کی جورو کی عصمت پر گواہی دی۔ جب اُس لشکری کی عورت نے پردے کے اندر سے کہا کہ اے امیر زادے میں وہی عورت ہوں۔ کہ جس کو تو نے جادوگر مقرر کیا تھا اور میرے خاوند کو احمق بنا کر ہنسا تھا۔ اور میرے امتحان کے واسطے آدمی بھیجے تھے۔ اب دیکھا تو نے کہ میں کیسی ہوں اور خدا کے فضل سے میری عصمت کیسی ہے، تب وہ امیر زادہ شرمندہ ہوا۔ اور عذر خواہی کرنے لگا۔ جس وقت طوطے نے یہ داستان تمام کی۔ اُس وقت کہا کہ اے خجستہ اب جلد جا اور اپنے معشوق سے مل۔ مبادا اس عرصہ میں کہیں تیرا شوہر آ جاوے تو تو ناحق وعدہ شکن اور  جھوٹی اپنے دوست کے آگے ہووے گی۔

شہزادہ اور لشکری کی اور دونوں باورچیوں کا بصورت باندیاں کھانا پکا ہوا لے کر آنا

کد بانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مُرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ شعر پڑھنے لگی۔

گردش سے آسمان کے نزدیک ہے سبھی کچھ

تجھ سے ہمیں مِلانا اک دُور ہے تو یہ ہے

ساتویں داستان نجار اور زرگر اور خیاط اور زاہد کی

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا تب خجستہ رخصت لینے کے واسطے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے پیدا کرنے والے کی قسم مجھے آج کی شب جلد رخصت دے کہ میں اپنے جانی کے پاس جاؤں اور دل کھول کر اپنی جوانی کا مزہ اٹھاؤں۔ طوطا کہنے لگا کہ اے کد بانو میں ہر ایک شب تجھے رخصت کرتا ہوں، تو آپ ہی دیر کرتی ہے اور نہیں جاتی بلکہ میں اس بات سے آٹھوں پہر ڈرتا رہتا ہوں کہ ایسا کہیں نہ ہو کہ تیرا شوہر آ جاوے تو پھر تیرا احوال اُنہیں چاروں شخصوں کی طرح سے ہو۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُن چاروں کا  قصہ کیونکر ہے بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک بڑھئی اور سُنار اور درزی اور زاہد چاروں آپس میں مل کر کسی شہر کو کچھ روزگار کو چلے۔ اتفاقاً ایک دن سوائے منزل کے کسی جنگل میں شام کے ہونے سے راہ بھول گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ آج کی شب اس جنگل میں رہیے اور پاسبانی کیجیئے۔ اس بیابان میں ہر ایک چیز کا خطرہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم چاروں ایک ایک پہر جاگیں اور چوکی دیں۔ خدا کے فضل سے صبح کے وقت اپنی منزل مقصود کو بخیریت پہنچیں۔ یہ بات ہر ایک نے پسند کی اور پہلے پہر کی چوکی بڑھئی کے ذمہ ہوئی اور وہ سب سو رہے۔

 

نوبت نجار۔ بعد ایک گھڑی کے اس نجار نے بسولہ لیکر کسی درخت کی ٹہنی موٹی سی کاٹی اور اُس کی پُتلی حسین اپنی کاریگری سے بنا کر تیار کی۔ بعد پہر کے آپ درزی کو جگا کر سو رہا۔

 

نوبت درزی۔ اور درزی اپنی بیداری کی خاطر کچھ سوچنے لگا کہ کس سبب سے پہر بھر جاگے۔ اتنے میں نجار کی کاریگری سے وہ پتلی نظر آئی۔ تب اپنے دل میں کہنے لگا کہ نجار نے اپنا ہنر دکھانے کو یہ صورت چوبی بنائی ہے پس میں بھی ایسے کپڑے سی سا کر ٹھیک ٹھاک پہناؤں کہ اُس کا حُسن دونا نکلے۔ آخر اُس نے بھی اپنی کاریگری سے اُسی وقت ایک جوڑا نہایت عمدہ دولہنوں کا سا بنایا اور پتلی کو پہنا کر اور سُنار کو جگا کر آپ سو رہا۔

 

نوبت زرگر۔ تب وہ زرگر اپنے جاگنے کا کچھ سبب ڈھونڈنے لگا۔ اتنے میں وہ پتلی کپڑے پہنے ہوئے دکھلائی دی۔ تب اپنے دل میں کہنے لگا کہ اُن دونوں نے اپنا اپنا کسب دکھلایا ہے پس مجھ کو بھی لازم ہے کہ میں بھی اپنا ہنر ظاہر کروں اور اُس پُتلی کو ایک نئی طرح کی گڑھت کے کہنے سے آراستہ کروں تا کہ وہ بھی معلوم کریں کہ یہ ایسا ہے۔ سُنار نے یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا کر ایسا گہنا گڑھ کے اُسے پہنایا کہ وہ پتلی اور بھی خوبصورت ہو گئی۔ اغلب ہے کہ اس ساخت کا زیور آج تک کسی نے نہ دیکھا ہو گا نہ پہنا ہو گا۔ پھر اُس پتلی کا یہ عالم ہوا کہ بیان نہیں ہو سکتا کہ ایک جی ہی ڈالنا باقی رہ گیا کہ اُس زرگر نے زاہد کو اُٹھا دیا اور آپ سو رہا۔

 

نوبت زاہد۔زاہد اُٹھتے ہی وضو کر کے عبادت الٰہی میں مشغول ہوا۔ بعد ایک گھڑی کے کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت حسین سامنے کھڑی ہے پر وہ ہلتی ہے نہ جلتی ہے، تب اُس نے معلوم کیا کہ ان تینوں کی کارستانیاں ہیں۔ اب مجھے بھی اپنا کمال دکھلانا لازم ہے۔ پس میں خدا کے فضل سے ایسا کمال ظاہر کروں کہ اس بے جان کو دعا سے جاندار کروں تاکہ یہ بھی یاد کریں کہ عبادت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ آخر کار وہ زاہد بعد نماز کے جناب کریم میں بے اختیار ہو کر دعا مانگنے لگا کہ اے خالق زمین و آسمان! واسطے اپنی خداوندی کے اس تصویر چوبی میں جان دے اور گویا کہ میں بھی آبرو اپنی یاروں میں پاؤں۔ بارے یہ التجا اُس کی جناب باری میں قبول ہوئی۔ اُسی گھڑی اُس پتلی میں جان پڑی اور آدمیوں کی طرح سے باتیں کرنے لگی۔

 

 جب رات تمام ہوئی اور آفتاب نکلا، اُس پتلی کو دیکھ کر وہ چاروں عاشق ہوئے اور ایک سے ایک قضیہ کرنے لگا۔ نجار بولا کہ میں اس کا مالک ہوں کیونکہ اس کاٹھ کو میں نے آدمی کی صورت تراش کر بنایا ہے، میں لوں گا۔ خیاط بولا کہ میں اس کا وارث ہوں، کس واسطے کہ میں نے اس پتلی کو حرمت دی ہے اور کپڑے پہنائے۔ سنار بولا کہ یہ دلہن میرا حق ہے کیونکہ میں نے ایسا گہنا پہنایا ہے کہ بنی سے بن گئی۔ زاہد بولا کہ یہ دلہن میرا حق ہے کہ وہ کاٹھ کی پتلی تھی۔ میری  دعا سے حق تعالیٰ نے اُسے جان دی، سوا میرے اور کس کا منہ ہے کہ اُس پر آنکھ ڈال سکے۔ میں لوں گا۔ غرض یہ قصہ بڑھا اور ایک شخص غیر اُس  جگہ آ گیا۔ اُن چاروں نے اُس سے انصاف چاہا۔ وہ اُس صورت کو دیکھتے ہی عاشق ہوا اور کہنے لگا کہ یہ میری بیاہتا بی بی ہے۔ تم سب اسے فریب دیکر نکال لائے ہو اور مجھ سے جُدا کیا ہے۔ آخر اُن چاروں کو غیر شخص کوتوال کے پاس لے گیا۔ کوتوال بھی اُس کو دیکھ کر مبتلا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ میرے بھائی کی بی بی ہے۔ وہ اُس کو اپنے ساتھ سفر کو لے گیا تھا۔ شاید تم نے اُس کو مار ڈالا اور لے بھاگے ہو۔ آخر وہ کوتوال اُن سب کو قاضی کے پاس لے گیا اور قاضی بھی اُس پر شیفتہ ہو کر کہنے لگا کہ تم کون ہو۔ یہ میری باندی ہے۔ میں اس کی مدت سے تلاش کرتا تھا اور بہت سا اسباب اور نقد و زیور لے کر بھاگی تھی۔ بارے آج تمہارے باعث سے ملی۔ وہ اسباب کہاں ہے، اُس کو بھی بتلاؤ۔ غرض اُس قضیئے نے یہاں تک طول کھینچا کہ سب زن و مرد اُس شہر کے جمع ہوئے اور تماشا دیکھنے لگے۔ تب اُن تماش بینوں میں سے ایک پیر مرد نے کہا کہ یہ قصہ تمہارا یہاں قیامت تک کسی سے فیصل نہ ہو گا۔ تم سب اُس شہر کو جاؤ کہ وہ کئی دن کی راہ ہے اور وہاں ایک درخت بہت پُرانا ہے۔ نام اُس درخت کا شجرۃ الحکم کہتے ہیں۔ جس کا مقدمہ فیصل نہیں ہوتا وہ اُس درخت کے پاس جاتا ہے۔ اُس درخت سے ایک آواز نکلتی ہے کہ مدعی جھوٹا اور سچا معلوم ہو جاتا ہے۔ وہ ساتوں شخص اس بات کو سنتے ہی اُس درخت کے پاس اُس عورت سمیت گئے اور سب نے احوال اپنا اپنا بخوبی اُس سے اظہار کر کے کہا کہ اے درخت سچ کہہ یہ عورت ہم میں سے کس کا حق ہے۔ اتنے میں پیٹ اُس درخت کا پھٹ گیا اور وہ عورت دوڑ کر اُس میں سما گئی۔ تب اُس درخت سے آواز نکلی کہ تم نے بھی سُنا ہو گا کہ ہر ایک چیز اپنی اصل پر جاتی ہے۔ چلو ہوا کھاؤ اور ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے گھر کی راہ لو۔ آخر کو وہ ساتوں شرمندہ ہو کر اپنے اپنے گھر گئے۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے کہا کہ اے کد بانو اگر تیرا شوہر آوے اور تجھے قید کر رکھے تو تو بھی اپنے معشوق سے شرمندہ ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب شتابی جا اور اپنے جانی کو گلے سے لگا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی جو جانے کا قصد کیا، صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی یوں ہی رہا تو یہ شعر پڑھا اور زار زار رونے لگی۔

بیت

 

صبح سے پہلے جی نکل نہ گیا

حیف ہے دل سے یہ خلل نہ گیا

آٹھویں داستان راجہ رائے رایان اور راجہ قنوج کی لڑکی پر عاشق ہونا ایک فقیر کا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، تب خجستہ کپڑے بدل بہنا پہن نہایت بن ٹھن کر طوطے کے پاس رخصت لینے کو گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے میں تجھ سے بہت شرمندہ ہوتی ہوں کیونکہ ہر ایک شب رخصت لینے کو آتی ہوں اور تجھے تکلیف دیتی ہوں اور تو میری خاطر سے اپنا خواب و آرام کھوتا ہے۔ اس تیرے احسان سے گردن اپنی اُٹھا نہیں سکتی اور اُس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتی۔

 

اگر ہر بن مو ہو میری زبان

نہ ہو مہربانی کا تیری بیان

 

طوطے نے کہا اے خجستہ یہ کیا کہتی ہو، میں تیرے شوہر کے زر خرید بندوں میں ہوں۔ کام تیرا موافق اپنی غلامی کے کب کر سکتا ہوں جو اس قدر لطف کرتی ہے، بلکہ میں آپ ہی خجالت کھینچتا ہوں لیکن جوکھوں اُٹھاؤں گا اور قریب ہے کہ تیرے یار سے تجھے ملاؤں گا۔

 

جی تلک اپنا میں گنواؤں گا

پر تجھے یار سے ملاؤں گا

 

اور رائے رایان کی مانند کہ احوال اُس کا تو نے سُنا ہو گا، تیرے کام کرنے میں بھی سعی کروں گا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کا احوال کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ قنوج کے راجہ کی ایک بیٹی صاحب جمال تھی۔ اتفاقاً ایک فقیر اُس پر عاشق ہوا ۔ اور اُس کے عشق میں دیوانہ ہو گیا۔ جب ہوش میں آیا تب اپنے دل سے کہتا کہ یہ کیا دیوانہ پن ہے۔ ادنیٰ کو اعلیٰ سے کیا نسبت۔ تو بیچارہ درویش فقیر اور وہ راجہ، اُس کی بیٹی کب تیرے ہاتھ لگے گی، لیکن بیقراری کے سبب سے بعد کئی دن کے یہ پیغام راجہ کے پاس بھیجا کہ اپنی بیٹی کا بیاہ میرے ساتھ کر دے کہ میں اس کو چاہتا ہوں۔ میری گدائی اور اپنی بادشاہی پر نظر نہ کر۔ راجہ یہ پیغام فقیر کا سُن کر غضب میں ہوا اور بولا ارے کوئی ہے جلد ادھر کو آوے۔ اس فقیر کو جا کر سزا دیوے۔ دیوان نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ حاکم کو یہ لازم نہیں ہے کہ غریب فقیر کو گالی دے یا ایذا پہنچاوے۔ اُس کو اس حکمت سے اس شہر سے نکالو کہ مارا جاوے اور آپ پر بدنامی نہ آوے۔ بعد اس کے دیوان نے فقیر کو بلوا کر کہا کہ اے فقیر اگر تو ایک ہاتھی زر سے لدا ہوا لاوے تو یقین ہے کہ اپنی معشوقہ کو پاوے۔ درویش اس بات کے سنتے ہی خوش ہو کر زر کی فکر کرنے لگا۔ تب کسی شخص نے فقیر سے کہا کہ اے گدا تو اپنے تئیں اگر رائے رایان کے پاس پہنچاوے گا تو موافق اپنی مراد کے جو چاہے گا سو پاوے گا۔ اُس وقت وہ فقیر رائے رایان کے پاس گیا اور اُس سے سوال کیا کہ رائے بابا کی خیر ایک ہاتھی اشرفیوں سے لدا ہوا یہ فقیر پاوے۔ یہ صدا  درویش کی جو رائے رایان نے سُنی، وہیں ایک ہاتھی زر سے لدا ہوا اُس کو دیا۔ فقیر اُس ہاتھی کو لئے ہوئے راجہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے مہاراج یہ فیل زر سے لدا ہوا مجھ سے لے لیجیے اور اپنی بیٹی کا مجھ سے بیاہ کر دیجیے۔ تب راجہ نے اپنے دیوان سے کہا کہ حکمت تیری کچھ کام نہ آئی۔ وہ فقیر زر کا لدا ہوا ہاتھی لے ہی آیا۔ اب کیا کیجیے۔ تب اُس نے عرض کی کہ یہ فقیر رائے رایان کے پاس جا کے یہ ہاتھی معہ زر مانگ لایا ہے، کیونکہ اب زمانے میں ایسا سخی سوائے اُس کے اور کوئی نہیں۔ وہ پھر اپنے جی میں سوچ کر اُس درویش سے کہنے گا کہ اے فقیر راجہ کی بیٹی ایسی نہیں ہے جو ایے ہاتھی کے بدلے ہاتھ آوے۔ اگر اُسے لینا منظور ہے تو ابھی جا اور رائے رایان کا سر کاٹ لا اور یہ لڑکی راجہ کی اپنے ساتھ جہاں جی چاہے وہاں لے جا۔ غرض وہ فقیر پھر رائے رایان کے پاس جا کر کہنے لگا کہ اے حاتم بابا تیرے سر کے بدلے دل کی آرزو ملتی ہے۔ اگر تو اپنا سر دے گا تو یہ فقیر مدعا اپنا دل خواہ پاوے گا۔ رائے رایان نے کہا کہ اے فقیر تو اپنی خاطر جمع رکھ۔ یہ سر میرا خدا نے اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ کسی کے کام آوے۔ میں ایک مدت سے اس سر کو ہتھیلی پر دہرے ہوں کہ جو کوئی مانگے اُسے دوں۔ اب جو تو نے طلب کیا ہے یہ حاضر ہے اور میں بھی موجود ہوں۔ میرے گلے میں رسی باندھ کر اُس راجہ کے پاس لے چل اور اُس سے کہہ کہ رہ سر جو تم نے مانگا تھا، اُس سر کو میں مع تن لایا ہوں۔ اگر اُس نے قبول کیا تو سر میرے تن سے کاٹ لینا اور اگر اُس نے کچھ اور مانگا تو وہ بھی حاضر کروں گا۔ آخر وہ درویش رائے رایان کی گردن میں رسی باندھ کر راجہ کے پاس لے گیا۔ اُس راجہ نے جب جوانمردی اس مرد کی دیکھی تو اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے پاؤں پر گرا اور کہنے لگا کہ سچ ہے سوائے تیرے اب اس دنیا میں کوئی ایسا سخی جوانمرد نہیں اور نہ ہو گا جو ایک ادنیٰ فقیر کے واسطے اپنا سر دیوے۔ یہ کہہ کر اپنی بیٹی کو بلایا اور رائے رایان کے حوالے کر کے کہا کہ اے مہاراج یہ تمہاری لونڈی ہے جسکو جی چاہے اُس کو دے دیجیے۔ طوطے نے یہ کہانی کہہ کر خجستہ سے کہا کہ اے کد بانو میں بھی اپنا سر تیرے کام میں گنواؤں گا اور مطلب دلی تیرے بر لاؤں گا، اس میں ہرگز دریغ نہ کروں گا۔ بہتر یہ ہے کہ جلدی اپنے معشوق کے پاس جا اور حظ زندگانی کا اُٹھا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

 

اے سحر میری دشمنی کب تک

وصل کی شب کبھی دکھائے گی

نویں داستان طوطے کی بیوفائی عالم شاہ بادشاہ سے

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ درد عشق کے مارے روتی ہوئی طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور اُسے متفکر دیکھ کر کہنے لگی کہ اے عقلمند آج کیوں غمگین ہے۔ طوطا بولا کہ اے کد بانو مجھ کو تیری فکر نے نہایت حیران کیا اور اسی اندیشہ میں میرا دانہ پانی چھوٹ گیا ہے۔ میں اسی سوچ میں آٹھوں پہر رہتا ہوں کہ کیونکر دریافت کروں کہ وہ معشوق تیرا تجھ سے وفاداری کرے گا یا عالم شاہ بادشاہ کے طوطے کی طرح بیوفائی کر کے دغا دے گا۔ خجستہ نے پوچھا کہ وہ نقل کیونکر ہے، بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک صیاد نے طوطی کے آشیانے کے نزدیک جال بچھایا اور اُس کو بچوں سمیت گرفتار کیا۔ اُس وقت طوطی نے اپنے بچوں سے کہا کہ بابا اس وقت یہی مصلحت بہتر ہے کہ تم اس جگہ مردے کی صورت ہو کر پڑ رہو۔ اگر یہ چڑیمار تم کو مردہ جانے گا تو چھوڑ دے گا۔ میں تنہا جو پکڑی گئی کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر میں جیتی رہوں گی تو کسی نہ کسی حکمت سے اپنے تئیں تمہارے پاس پہنچاؤں گی۔ اُن بچوں نے اُس کے کہنے کے بموجب کیا۔ ہر ایک اپنا اپنا دم چُرا کر گر رہا۔ اُس صیاد نے معلوم کیا کہ شاید مرے ہیں۔ ان کو اس دام سے رہا کیجیے۔ یہ کہہ کر جونہی اُن کو دام سے نکالا، وہیں ہر ایک اڑ گیا اور ہر ایک درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ تب وہ چڑیمار اس طوطی پر غصہ ہوا اور چاہا کہ اُس کو زمین پر پٹکے کہ اتنے میں اُس طوطی نے کہا کہ اے صیاد خبردار مجھ کو مت مار۔ اگر میں جیتی رہوں گی تو یہاں تک تجھے زر نقد دلواؤں گی کہ پھر تابہ عمر اپنی تو کسی چیز کا محتاج نہ ہو گا اور جب تک جیتا رہے گا تب تک کسی کام کا اندیشہ نہ کرے گا، کیونکہ میں نہایت عقلمند اور طبیب ہوں۔ ایسا طبابت کا کام جانتی ہوں کہ جیسا چاہیے۔ اس سخن سے صیاد خوش ہوا اور اُس کے مارنے سے باز رہا اور کہنے لگا اے طوطی ہمارے ملک کا بادشاہ عالم شاہ ایک مدت سے بیمار ہے اور مرض سخت رکھتا ہے۔ تو اُس کو اچھا کر سکے گی۔ طوطی بولی کہ اے صیاد کون سا بڑا کام ہے۔ میں وہ طبیب ہوں کہ دس ہزار مریض کہ جنکو ارسطو اور لقمان جواب دیں اُن کو اچھا کروں۔ تو مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے چل اور میری طبابت کی اُس سے تعریف کر۔ پھر جتنے کو چاہنا اُتنے کو اُس کے ہاتھ بیچ ڈالنا۔ غرض وہ صیاد اُس طوطی کو پنجرے میں بند کر کے اپنے بادشاہ کے پاس لے گیا اور کہنے لگا کہ خداوندا یہ طوطی نہایت عقلمند ہے اور طبابت میں بہت ملکہ رکھتی ہے۔ اگر حکم ہو تو حضور پُر نور میں حاضر رہے۔ عالم شاہ نے کہا کہ بھائی میں بھی اس فکر میں تھا۔ مجھے بھی ایک طبیب دانا درکار ہے اور یہی آرزو ہے کہ ایسا کوئی آوے کہ میرے مرض کو دور کرے۔ بہتر ہے کہ میرے پاس رہے۔ تو اُس کی قیمت کہہ۔ اُس نے دس ہزار اشرفی اُس کی قیمت کہی اور بادشاہ نے وہی دلوا دیں۔ صیاد اُسے لیکر اپنے گھر گیا۔ وہ طوطی بادشاہ کی دوا کرنے لگی۔ بارے دو چار دن میں آدھا مرض اُس  کا دوا سے دور ہوا۔ تب طوطی نے کہا اے بادشاہ خدا کے فضل سے اور میری تدبیر دوا سے اب تم کو آدھی صحت ہوئی ہے۔ اگر مجھ پر رحم کرو، اس پنجرے سے مخلصی بخشو تو میں ابھی ڈھونڈھ کر ایک ایسی چیز صحرا سے لا کر کھلاؤں کہ بعد دو چار ہی دن کے تو اچھا ہو اور غسل صحت کرے۔ عالم شاہ نے جانا کہ شاید یہ طوطی سچ کہتی ہے۔ اس اعتبار سے اُسے قفس سے آزاد کیا۔ طوطی نے جنگل کا راستہ لیا۔ پھر اُدھر منہ نہ کیا۔ طوطے نے یہ نقل تمام کر کے کہا اے خجستہ میں بھی اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معشوق تیرا اُسی طوطی کی طرح  تجھ سے دغا بازی کرے۔ خدا کے واسطے جلد جا اور اپنے یار سے ملاقات کر اور جب تک تو اُس کی آزمائش نہ کرے اعتبار نہ کرنا۔ کد بانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ بولا۔ جانا اُس کا اس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

 

فرد

 

آج مہرو سے اپنے میں ملتی

گر نہ کرتا فلک یہ بے مہری

دسویں داستان سوداگر اور اُس کی زوجہ کی

جب شمس پنہاں ہوا اور قمر عیاں تب خجستہ روتی اور سرد آہیں بھرتی ہوئی رخصت لینے طوطے کے پاس گئی۔ اور طوطے نے اُسے متفکر دیکھ کر پوچھا کہ اے کد بانو آج کیوں اس قدر حیران ہے، خیر تو ہے۔ وہ بولی میں تیرے پاس آتی ہوں اور حال اپنی بیقراری کا سناتی ہوں۔ وہ کون وقت ہو گا کہ جس وقت تو مجھے رخصت کرے گا اور وہ کون وقت ہو گا کہ میں اپنے معشوق سے ملاقات کروں گی۔ اگر آج کی شب رخصت کرے تو یہی جاؤں اور نہیں تو صبر کر کے اپنے گھر بیٹھ رہوں۔ طوطا کہنے لگا کہ اے کد بانو تو ہر رات میرے پاس آتی ہے اور باتیں میری سنتی ہے۔ جانے کے وقت صبح ہو جاتی ہے اور رات کو آخر کر دیتی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ آج کی رات جلد جاوے تو ایک قصہ چھوٹا سا سُناؤں کہ جس کے باعث تیری بات رہے اور تو کسی آفت میں نہ پڑے۔ یہ یاد رکھنا کہ اگر تو کہیں جاوے اور خاوند تیرا وہاں تجھے نظر پڑے تو تو بھی اُس سوداگر کی جورو کی طرح شور و غل کرنا۔ وہ پشیمان ہو جاوے اور تیری بات رہے۔ خجستہ نے پوچھا اُس کی داستان کیونکر ہے بیان کر۔

حکایت

طوطا بولا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت مالدار تھا اور اُس کی جورو بہت خوبصورت تھی۔ وہ تاجر کسی ملک میں واسطے تجارت کے گیا اور پیچھے اُس کے اُس کی جورو نے بدکاری یہاں تک اختیار کی کہ ہر ایک شخص کی مجلس میں شب کو جاتی، تمام رات عیش و عشرت اور گانے بجانے میں گنواتی، بعد کئی مہینے کے اُس کا شوہر مال و اسباب بہت سا لیکر اپنے شہر میں آیا اور کسی حویلی میں اُترا۔ بعد پہر رات کے ایک دلالہ کو بلوا کر کہنے لگا کہ میں آج ابھی گھر نہیں جا سکتا۔ اگر تو کہیں سے ایک عورت خوبصورت لے آوے گی تو میں تجھے خوش کروں گا اور دس ۱۰ اشرفی تجھے دوں گا۔ اور بیس ۲۰ اُسے دوں گا۔ یہ سُنتے ہی وہ بڑھیا لوٹ گئی کہ یہ کوئی بڑا سوداگر ہے کہ ایک عورت کی خاطر تیس ۳۰ اشرفی کھو دیتا ہے۔آخر وہ بڑھیا لالچ میں آ گئی اور ہر کسی کو تلاش کیا۔ غرض بہت سا اِدھر اُدھر ڈھونڈھ ڈھانڈھ کر حیران ہوئی جب کوئی رنڈی ہاتھ نہ لگی۔ تب اتفاقاً وہ کٹنی اُسی تاجر کے گھر گئی اور اُس کی بی بی سے کہنے لگی کہ آج کسی ملک سے ایک بڑا سوداگر مالدار آیا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ اُس نے ایک رنڈی بلوائی ہے۔ اگر تیرا جی چاہے تو چل۔ صبح کو بیس ۲۰ اشرفی لیکر اپنے گھر آ۔ غرض وہ اُس دلالہ کے ساتھ ہوئی اور اُس سوداگر کے پاس گئی۔ جونہی اپنے خاوند کی صورت دیکھی وہیں پہچان گئی اور جی میں کہنے لگی کہ واہ جی واہ یہ تو میرا ہی خاوند ہے۔ اب میں کیا کروں۔ القصہ غل کر اُٹھی اور کہنے لگی کہ اے ہمسائے کے لوگو دوڑو اور میرا انصاف کرو۔ چھ برس سے میرا خاوند سوداگری کو گیا تھا۔ میں دن رات اُس کی راہ تکتی تھی، اب جو یہاں آیا تو اس حویلی میں اترا اور میرے پاس نہ گیا۔ آج میں اُس کے آنے کی خبر سُن کر آپ ہی آئی۔ اگر تم میری داد کو پہنچو تو بہتر ہے، نہیں تو قاضی کے پاس نالش کروں گی اور اُسے چھوڑ دوں گی۔ آخر ہمسایہ کے لوگ جمع ہوئے۔ تب اُس نے اُن سے کہا کہ میں اُس کی جورو ہوں اور یہ میرا خاوند ہے۔ مجھے یہ اکیلا اس شہر میں چھوڑ کر سفر کو گیا تھا۔ میں اسی غم میں آٹھوں پہر روتی تھی۔ بارے آج خدا کے فضل سے میاں صاحب جیتے جاگتے جو آئے ہیں تو گھر نہیں گئے اور مجھ سی بی بی صاحب جمال کو بھلا کر غیر بدبختوں کے ساتھ عیش کیا چاہتے ہیں۔ آج میں یہ خبر سُن کر خود آئی ہوں۔ تم سب خدا ترس ہو۔ انصاف کرو۔ آخر اس سوداگر کو ہر شخص نے سمجھا بُجھا کر اُس کی بی بی سے ملا دیا اور یہ کوئی نہ سمجھا کہ آپ ہی خرچی کو آئی تھی کیوں۔ دیکھا اُس عورت کی زبان آوری کے سبب سے ۔۔۔۔۔۔۔ نہ گئی۔ خاوند کو اپنے گھر میں لائی۔ جب طوطے نے یہ داستان تمام کی، خجستہ سے کہا کہ اُٹھ دوڑ اپنے معشوق کے پاس جا۔ دیر نہ کرو۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھنے لگی اور مُنہ ڈھانپ کر رونے لگی۔

 

بیت

 

کس طرح میسر ہو شب وصل دل آرام

ہر صبح ہے درپے یہ میری گردش ایام

گیارہویں داستان زمیندار کی جورو کی کہ اپنی سخن آرائی سے ندامت نہ اُٹھائی

جب سورج چھپا اور تارے نکلے، خجستہ بے اختیار زار و زار روتی ہوئی طوطے کے پاس رخصت لینے گئ اور کہنے لگی کہ اے محرم راز آج پھر کچھ اُس کی مفارقت سے حالِ دل تباہ ہے۔ اگر صلاح جانے تو مجھے جلد رخصت دے، نہیں تو صبر کر کے بیٹھ رہوں۔ اگرچہ جانتی ہوں جو کوئی عاشق ہے اُسے صبر سے کیا کام۔ بے اختیار جی چاہتے ہے کہ ہر طرح سے اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاؤں اور خوب سا اُسے گلے لگ کر حظ جوانی اُٹھاؤں۔

 

رباعی

 

دیکھوں گی میں تجھ کو کب گسائیں سائیں

آنکھیں تو سفید ہونے آئیں سائیں

دل یاد میں دیدہ منتظر بر سرِ راہ

ہونٹوں پہ ہے ہر دم زبان پہ سائیں سائیں

 

طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ میں نہ جانتا تھا۔ کہ عشق اُس کا یہاں تک تجھے تباہ کرے گا اور غم اُس کی جدائی کا اس حالت کو پہنچا دے گا۔

 

حسن

 

میں اس عشق کا یہ نہ سمجھا تھا ڈول

ترے غم سے آنے لگا مجھ کو ہول

 

لیکن خدا کا فضل چاہیے کہ انشا اللہ تعالیٰ اب آپ اپنے یار سے ملیں گی، اگرچہ ہر شب میرے پاس رخصت لینے آتی ہے اور میری باتیں سُن کر شب امید کو گنواتی ہے پر عقلمندوں نے کہا ہے جو کوئی سوچ کر کام کرتا ہے وہ ہرگز پشیمانی نہیں اُٹھاتا ہے، بلکہ ہمیشہ سرخرو رہتا ہے، جس طرح سے کہ اُس دہقان کی جورو نے سوچ کر جو حرکت کی تو کچھ ندامت نہ کھینچی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی دن ایک گنوار کی مہریا اپنے کوٹھے پر بیٹھی تھی اور ایک شخص نوجوان اُس کو دیکھ کر عاشق ہوا اور عورت نے بھی معلوم کیا کہ یہ مجھ پر شیدا ہوا ہے، سوچی بلوائیے اور مزے اڑائیے۔ آخر اس مرد کو اشارے سے طلب کیا اور کہہ دیا کہ بعد آدھی رات کے تو اُس درخت کے نیچے آ کر بیٹھ رہنا۔ میں بھی اپنے خاوند کو سُلا کر تیرے پاس آوں گی۔ یہ کہہ کر ادھر اُسے رخصت کیا اور آپ ادھر اپنے گھر کے کاروبار میں مشغول ہوئی۔ جب آدھی رات گزری جوان اُس کے گھر میں اُسی درخت کے نیچے بیٹھ رہا۔ یہ عورت خصم کو سوتا چھوڑ کر وہیں گئی اور اُس کے ساتھ سو رہی۔ اتفاقاً اُس کا سُسر اُسی وقت کسی کام کے واسطے اُٹھا اور باہر جانے لگا، کیا دیکھتا ہے کہ بیٹے کی جورو ایک غیر مرد کے ساتھ سوتی ہے۔ اس بات سے نہایت رنجیدہ ہوا۔ اُس کے پاؤں سے پازیب اُتار کر اپنے پاس رکھی اور جی میں کہنے لگا کہ اُس بد ذات کو خوب سی سزا دوں گا۔ بعد ایک گھڑی کے اُس عورت کی جو آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہے کہ پاؤں میں پازیب نہیں۔ اُس نے اپنی عقل سے معلوم کیا کہ شاید سسرے نے آنکھ سے یہ ماجرا دیکھا ہے اور پازیب اُتار کر لے گیا۔ اب صبح کیا جانیے کیا ہو۔ یہ سمجھ کر اپنے یار سے کہا تم اپنے گھر جاؤ۔ پھر کسی روز اگر جی چاہے تو تُو آئیو۔ یہ کہہ کر اُس کو رخصت کیا اور ادھر اپنے خاوند کے پاس آ کر لیٹ رہی۔ بعد ایک دم کے کہنے لگی کہ یہاں اس وقت گرمی لگتی ہے، اُس درخت کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہے، چلیئے اور سو رہیے۔ آخر اُس بہانے سے اپنے شوہر کو اُسی درخت کے نیچے لائی اور دونوں مل کر سو رہے۔ جب اُس کی آنکھ لگ گئی تب جگا کر کہنے لگی اجی سوتے کیا ہو اُٹھو اور ایک تماشا دیکھو۔ وہ بے اختیار اُٹھ بیٹھا اور کہا کیا کہتی ہو۔ تب اُس نے کہا جیسا میرا ویسا تمہارا باپ، یہ کیا کہ میرے پاؤں کی پازیب اُتار کر لے گیا اور مجھے ننگا کھلا دیکھا۔ اُس نے کہا کہ خیر صبح کو میں اُنہیں سمجھا دوں گا کہ پھر ایسی حرکت نہ کرنا۔ جب صبح ہوئی اپنے باپ سے جھنجھلا کر کہنے لگا بابا جان تم کو مناسب نہیں جہاں بہو بیٹا ساتھ سوتے ہوں وہاں جاؤ اور اُن کو ایک حال میں دیکھو۔ تب اُس کے باپ نے کہا کہ بیٹا کچھ شعور پکڑ، تیری عورت کم بخت ایک مرد کے ساتھ سوتی تھی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ پازیب پاؤں کی اُتاری۔ یہ بات سنتے ہی وہ اور بھی خفا ہوا اور کہنے لگا کہ تم خواہ مخواہ میری جورو کے دشمن ہوئے ہو۔ میں جانتا ہوں، اُس وقت گرمی کے باعث سے میں اُس درخت کے نیچے اُس کے ساتھ سوتا تھا کہ تم نے یہ حرکت کی۔ چنانچہ یہ سُن کر باپ اُس کا شرمندہ ہوا۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے کہا کیوں دیکھا تو نے اُ س رنڈی نے کیا کارستانی کی۔ غیر کی دوستی رہی اور سسرے کو ذلیل کیا۔ آپ اچھی کی اچھی رہی۔ اے خجستہ اب جلد جا اور اپنے دلدار کو گلے لگا۔ کد بانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی۔

 

فرد

 

وصل کی شب گئی گذر افسوس

آئی پھر ہجر کی سحر افسوس

بارہویں داستان سوداگر بچی اور شغال کی، سوداگر بچی شغال کی حکمت سے رسوائی سے بچی

جب سورج چھپا اور رات ہوئی تب خجستہ آنکھوں میں آنسو بھرے گریبان چاک کئے سینہ پر سوز سے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی اے عقلمند میں تیری دانائی پر نہایت اعتبار رکھتی ہوں، اسی واسطے ہر رات تیرے پاس آتی ہوں، تیری تدبیر کے واری اور دانائی کے صدقے اور وفاداری کے قربان، آج دل اُمنڈ آتا ہے اور سینہ پھٹا جاتا ہے، کیونکر اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاؤں اور کر طرح اُسے اپنے گلے سے لگاؤں۔

 

فرد

 

آتش عشق جی جلاتی ہے

یہ بلا جان ہی پر آتی ہے

 

اب اگر مجھے رخصت نہ کرے گا، تو کب کرے گا۔ اور اب اجازت نہ دے گا تو کب دے گا۔ تیری منت کرتی ہوں اور اس تدبیر میں پھرتی ہوں۔

 

فرد

 

نہ اپنے چھوٹنے کی کس طرح تدبیر میں رہیے

بہار آئی ہے کیونکر خانہ زنجیر میں رہیے

 

خدا کے واسطے کچھ ایسا ڈھب بتلا کہ جس کے باعث جلد ملنا ہو۔ طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ یہ غم تیرا میرے دل میں ہے اور میں جب تک جیتا رہوں گا، بے فکر نہ رہوں گا۔ اور میں کسی شب تجھے رخصت نہیں کرتا ہوں۔ کہ تو محبوب کے پاس نہ جا۔ بلکہ تو آپ ہی نہیں جاتی اور میری باتوں میں رات گنواتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بھید تیرا  کُھلے اور چرچا اُس کا لوگوں میں پڑے۔ تجھے ایسی حکمت سکھا دیتا ہوں کہ جیسے ایک گیدڑ نے کسی سوداگر بچی کو سکھائی تھی۔ کہ اُس کے سبب وہ رسوائی سے بچ رہی۔ تب خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی کہانی کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت عالیشان اور دولتمند تھا۔ اور بیٹا اُس کا کریہہ منظر اور بدشکل اور احمق تھا۔ جب وہ لڑکا بالغ ہوا، تب اُس کے باپ نے کسی سوداگر کی بیٹی سے بیاہ کر دیا۔ وہ لڑکی نہایت خوبصورت اور ہوشیار اور عقلمند گانے بجانے میں بھی نہایت شعور دار تھی۔ اتفاقاً وہ عورت کسی رات اپنے کوٹھے پر بیٹھی تھی، اور ایک شخص دیوار کے تلے خیال گا رہا تھا۔ عورت کا دل سنتے ہی آواز پر اُس کی آ گیا۔ اپنے کوٹھے سے اُتر اُس کے پاس جا کر کہنے لگی۔ کہ اے شخص میرا خاوند نہایت بدصورت اور احمق ہے، تجھ سے ہو سکتا ہے کہ اپنے ساتھ مجھے کسی ملک کو لے نکلے۔ جب تک میں جیتی رہوں گی، تیری فرمانبرداری کروں گی۔ آخرکار اُس نے بھی اُس کی یہ بات قبول کی۔ اُسی گھڑی اُس کو اپنے ساتھ لے کر جنگل کی راہ لی۔ تھوڑی دور جا کر تالاب کے کنارے پر کسی درخت کے نیچے دونوں آپس میں لپٹ کر سو رہے۔ بعد ایک گھڑی کے وہ مرد جوان چونکا اور اُس عورت کے بدن کا تمام زیور اُتار لیا اور آپ چلتا پھرتا نظر آیا۔ اس عرصے میں کہیں اُس کمبخت کی جو آنکھ کھلی تو نہ بدن میں گہنا دیکھا اور بستر پر یار پایا۔ تب اُس کو یقین ہوا کہ اُس دغا باز نے مجھ سے دغا کی۔ پھر پشیمان ہو کر کہنے لگی کہ یا الٰہی معاف کر میری تقصیر۔ میں نے جو کیا سو پایا۔ اتنے میں صبح ہو گئی۔ تب اُسی تالاب کے کنارے متفکر ہو کر جا کھڑی ہوئی کہ ایک گیدڑ، منہ میں ایک ہڈی لئے تالاب کے کنارے ایک مچھلی جو دیکھی تو ہڈی منہ سے پھینک دی اور اُس پر دوڑا۔ مچھلی اُسے دیکھ کر وہیں ڈوب گئی۔ تب وہ گیدڑ اُس ہڈی کو لینے آیا تو اُس کو بھی نہ پایا کیونکہ اُسے کُتا لے گیا تھا۔ اس ماجرے کو دیکھ کر وہ عورت خوب ہنسی اور کہنے لگی کہ کیا خوب مثل مشہور ہے جو آدھی کو چھوڑ کر ساری کو جائے تو پھر ساری ملے نہ آدھی پائے۔ یہ سن کر اُس گیدڑ نے پوچھا بی بی تو کون ہے جو اُس وقت جنگل میں اکیلی اس تالاب پر کھڑی ہے۔ اُس نے اپنا مناسب احوال اُس شغال سے کہا۔ اُس کو اُس کے حال پر رحم آیا اور کہنے لگا کہ بی بی کچھ اندیشہ مت کر۔ صلاح یہ ہے کہ اب تو یہاں سے دیوانوں کی طرح ہنستی اور روتی اپنے گھر چلی جا۔ جو تجھے اس حال سے دیکھے گا، رحم کرے گا اور کچھ نہ کہے گا۔ آخر اس رنڈی نے موافق اُس کی تدبیر کے اپنا احوال بنایا اور وہیں سے دیوانوں کی طرح شور و غل کرتی ہوئی اپنے گھر گئی۔ اُس حیلے کے باعث کسی نے اُس کو بُرا نہ جانا بلکہ ہر ایک اُس کو دیکھ کر کڑھنے لگا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے خجستہ سے کہا کہ یہ وقت اچھا ہے۔ جلد جا اور اپنے معشوق سے مل۔ کچھ اندیشہ نہ کر۔ خدا نہ کرے اگر کوئی مشکل تیرے آگے آوے گی، تو ایک ایسا جملہ سکھا دوں گا کہ وہ مشکل آسان ہو جاوے گی اور تیری حرمت رہے گی۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

 

فرد

 

رات کا سچ ہوا نہ خواب مرا

نہ ملا صبح آفتاب مرا

تیرہویں داستان شیر اور برہمن کی کہ برہمن طمع کر کے جان سے مارا گیا

جب سورج چھپا اور شام ہوئی، خجستہ بیقراروں کی سی صورت بنائے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی۔ اور کہنے لگی کہ اے طوطے معلوم ہوا تجھے میری درد کی خبر نہیں، جبھی میری باتیں اڑا دیتا ہے اور ادھر اُدھر کی جھوٹ سچ قصہ کہانی سنایا کرتا ہے۔ نہیں جانتی کہ تجھے اس سے کیا حاصل ہے۔ طوطے نے کہا کہ اے کد بانو خدا سے چاہتا ہوں کہ تو جلد کہیں اُس کے پاس جاوے اور اُسے گلے سے لگاوے۔ تو آپ ہی نہیں جاتی اور دیر کرتی ہے۔ اس میں میرے کچھ تقصیر نہیں۔

 

فرد

 

یوں آپ کی خوشی ہے مجھے قتل کیجیے

پر حق تو ہے یہی کہ میری کچھ خطا نہیں

 

خیر اب شتاب جا اور اُس سے ملاقات کر کے جلد پھر آ، پر یہ یاد رکھنا کہ وہاں کسی چیز کی طمع نہ کرنا کیونکہ لالچ بہت بُری بلا ہے۔ اگر طمع کرے گی تو تیرا بھی ویسا ہی حال ہو گا جیسا کہ اُس برہمن کا ہوا تھا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک برہمن نہایت مالدار تھا۔ اتفاقاً وہ مفلسی ہو کر اور کسی ملک میں مال پیدا کرنے گیا۔ ناگاہ کسی روز ایک جنگل میں جا پہنچا اور تالاب کے کنارے پر دیکھا کہ ایک شیر بیٹھا ہے اور ایک لومڑی اور ہرنی اُس کے آگے کھڑی ہے۔ یہ برہمن متفکر ہو کر ڈر کے مارے وہیں کھڑا ہو رہا کہ یکایک لومڑی اور ہرنی کی نظر اُس پر جا پڑی۔ تب آپس میں سوچ کر وہ یہ بولیاں بولنے لگیں کی اگر اُس کو شیر دیکھے گا تو مار ہی ڈالے گا۔ ایک ایسی مصلحت کیجیے کہ جسکے باعث سے اس کو وہ نہ مارے بلکہ انعام دے۔ یہ بات ٹھہرا کر شیر کو دعائیں دیکر کہنے لگیں کہ سخاوت آپ کی یہاں تک مشہور ہوئی ہے کہ آج ایک برہمن کچھ مانگنے آیا ہے اور ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہے۔ شیر نے سر اُٹھا کر دیکھا اور خوش ہو کر اُس برہمن کو آگے بلایا اور نہایت رحم کھایا۔ غرض زر و زیور اُن لوگوں کا کہ جنہیں مارا تھا سب اُس برہمن کو بخشا اور مہربانی سے رخصت کیا۔ تب وہ برہمن بہت سا مال لیکر گھر گیا اور مزے سے گزران کرنے لگا۔ بعد ایک مدت کے پھر جو لالچ ہوا تو وہ برہمن اجل گرفتہ پھر اُسی شیر کے پاس گیا۔ اس وقت اُس کے سامنے بھیڑیئے اور کتے کھڑے تھے۔ اُس برہمن کو دیکھتے ہی خوش ہوئے اور شیر سے کہنے لگے کہ یہ آدمی کتنا شوخ اور ڈھیٹ ہے کہ آپ کے بے طلب کئے ہوئے روبرو آتا جاتا ہے اور خطرہ اپنی جان کا نہیں کرتا۔اس بات کے سنتے ہی شیر آگ ہو گیا اور اپنی جگہ سے اُچھل کر ایک ہی طمانچہ سے اُس کا کام تمام کیا۔ طوطے نے یہ نقل تمام کی اور کہا کہ اے خجستہ اگر وہ برہمن لالچ نہ کرتا تو جان سے کیوں مارا جاتا۔ یقین ہے جو لال کرے گا سو بلا میں پڑے گا۔ خیر اب پہر رات باقی ہے۔ جلد جا اور اپنے معشوق سے مل اور اتنی رات عیش و عشرت میں بسر کر۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُسے گلے لگاوے۔ اتنے میں پَو پھٹی اور صبح ہوئی۔ مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھے اور رونے لگی۔

 

بیت

 

وصل کی شب کو کیوں گنواتی ہے

اے سحر کس لئے تو آتی ہے

چودہویں داستان کہ بلی چوہوں کو مار کر منفعل ہوئی

جب  سورج چھپا اور چاند نکلا، تب خجستہ گلنار جوڑا پہن اور گہنے پاتے سے اپنے تئیں آراستہ کر طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور اُسے متفکر دیکھ کر کہنے لی کہ اے جی کے خوش کرنے والے آج کیوں غمگین ہے اور اس قدر کیوں اندیشہ کرتا ہے۔ طوطا کہنے لگا کہ اے کد بانو مجھ کو تیرا غم مارے ڈالتا ہے اور یہی اندیشہ کھائے جاتا ہے کہ تو ہر ایک شب میرے پاس رخصت لینے آتی ہے اور میری باتوں میں صبح ہو جاتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یکایک تیرا خاوند آ جاوے اور تو نہ نہ جا سکے اور نہ جانے کے باعث پشیمان ہو مانند اُس بلی کے کہ جس نے چوہوں کو مار کر انفعال کھینچا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی کہا کہ اے طوطے چوہے بلی کی خورات تھی۔ تعجب ہے کہ بلی چوہوں کے مارنے سے پشیمان کیوں ہوئی۔ کچھ اس کا بھید میں نہ سمجھی، بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی بیابان میں ایک شیر ایسا بوڑھا رہا کرتا تھا کہ بڑھاپے کے باعث اُس کے دانتوں نے جڑیں چھوڑ دی تھیں۔ اگر وہ کبھی کچھ گوشت کھاتا تو ریشہ اُس کا دانتوں میں اٹک رہتا۔ اور اُس جنگل میں چوہے بھی رہتے تھے۔ جب وہ شیر رات کو سوتا، تب ہر ایک چوہا آن کر اُس کے مسوڑھوں سے ریشہ گوشت کا کھینچتا اور وہ گوشت نکال کر کھا جاتا۔ اسی سبب سے اُس کو اذیت ہوتی اور وہ چونک چونک پڑتا۔ آخر اُس نے اور جانوروں سے کہا کہ تم کچھ ایسی تدبیر کرو کہ یہ چوہے مجھے تکلیف نہ دیں اور میں چین سے سویا کروں۔ تب لومڑی نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضرت سلامت بلی آپ کی خاص رعیت ہے۔ اُس کو پاسبانی کی خدمت دیجیے اور اپ مزے سے تمام رات آرام کیجیے۔ یہ بات لومڑی کی شیر کو خوش آئی اور بلی کو بلوا کر خدمت کوتوالی کی دی۔ وہ اپنی خدمت پر مستعد ہوئی۔ چوہوں نے بلی کو دیکھا تو جنگل کا راستہ پکڑا۔ تب شیر نے اپنی خاطر خواہ رات کو آرام کیا اور بلی کو سرفراز فرمایا۔ پر وہ بلی اپنی دانائی سے اُن چوہوں کو دور ہی سے دھمکایا کرتی اور کبھی کسی کو پکڑ کر نہ کھاتی کیونکہ یہ جانتی تھی کہ انہی کی بدولت مجھ کو یہ خدمت ملی ہے۔ اگر ان کو کھا جاؤں گی تو شیر کو مجھ سے کچھ سروکار نہ رہے گا اور خدمت چھین لے گا۔ اس بات کو سمجھ کر وہ اپنے اوپر فاقہ قبول کرتی اور اُن میں سے کسی کو نہ کھاتی۔ اہل دن خدا نے اُس کی عقل گنوائی کہ وہ اپنا بچہ بھی شیر کے پاس لائی اور ہاتھ باندھ کر عرض کرنے لگی کہ آن میں کسی کام کو کہیں جاتی ہوں۔ اگر حکم ہو تو اپنے بچے کو چھوڑ جاؤں۔ کل صبح کو پھر حضور میں حاضر ہوں گی۔ یہ بات اُس کی شیر نے پسند کی اور اپنی خوشی سے رضا دی۔ بلی اپنے کام کو گئی اور یہاں اُس بچے نے جس چوہے کو دیکھا، اُسے مار ہی لیا۔ غرض ایک رات دن میں کا کام تمام کیا۔ دوسرے دن صبح کو بلی نے جو آ کے دیکھا تو ہر ایک چوہے کو موا پایا۔ تب اپنا سر پیٹ کر کہنے لگی کہ اے بدبخت یہ کیا کیا جو تمام چوہے مار ڈالے۔ انہیں کے سبب سے میری حرمت تھی۔ تب بچے نے کہا تم نے کس واسطے چلتے وقت مجھ کو منع نہ کیا۔ حاصلِ کلام یہ کہ وہ پچھتائی اور پشیمان ہوئی۔ یہ خبر شیر کو پہنچی کہ اس جنگل میں چوہے کا نام نہیں، تب بلی کو اُس نے جواب دیا اور کوتوالی سے معزول کیا۔ طوطے نے یہ داستان تمام کر کے کہا کہ اے کدبانو تونہایت کاہلی کرتی ہے کہ اتنی دور نہیں جاتی اور ہر ایک رات مفت ہی گنواتی ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تیرا شوہر نہ آ جاوے اور اُسی بلی کی طرح تو بھی خفیف ہو۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

 

بیت

 

وصل کی رات مفت کھوئی ہے

اے سحر کس لئے تو ہوئی ہے

پندرہویں داستان شاہ پور مینڈک کی کہ اپنی قوم پر ایذا پہنچانے سے پشیمان ہوا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ کپڑے بدل اور بہت سا گہنا پہن طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے میں تجھے بہت غافل جانتی ہوں اور تیری مصلحت نہایت نیک سمجھتی ہوں، لیکن مجھے کچھ تجھ سے حاصل نہیں ہوتا۔ کوئی تدبیر نہیں بتاتا کہ جس کے باعث اُس سے ملوں اور اپنے مقصد کو پہنچوں، اگرچہ اس کام میں دیر ہوتی ہے۔ طوطا بولا اے خجستہ میں اسی تدبیر میں ہوں۔ تو خاطر جمع رکھ کہ میں تجھے تیرے یار کے پاس پہنچائے دیتا ہوں۔ اے بی بی غافل اُسے کہتے ہیں جو اپنا آغاز و انجام نہ سمجھتا ہو اور جو اپنے نیک و بد پر نظر نہیں رکھتا ہے، وہ آخر پشیمان ہوتا ہے، جس طرح سے کہ شاہ پور نے اپنی قوم کا کہنا نہ مانا اور شرمندہ ہوا۔ خجستہ نے پوچھا کہ شاہ پور کون تھا۔ اُس کا قصہ کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ عرب کے ملک میں ایک گہرا کنواں تھا اور اُس میں بہت سے مینڈک رہتے تھے۔ شاہ پور نام ایک مینڈک اُن کا سردار تھا۔ جب وہ مینڈکوں پر بہت ستم کرنے لگا، تب وہ سب گھبرا گئے اور آپس میں مشورت کر کے کہنے لگے کہ ہم اس کے ہاتھ سے عاجز آئے ہیں۔ اس کو موقوف کر کے ایک اور مینڈک کو اپنی قوم سے سردار کیجیے۔ یہ بات مقرر کر کے اُن مینڈکوں نے اُس کو تبدیل کیا اور دوسرے کو سردار کیا۔ وہ وہاں سے ناچار ہو کر ایک سانپ کے بل کے پاس گیا اور آہستہ آہستہ بولنے لگا۔ سانپ نے بل سے سر نکالا اور مینڈک کو دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا کہ اے احمق تو میرا کھاجا ہے۔ کیوں اپنی جان دینے میرے پاس آیا ہے۔ مینڈک نے کہا کہ میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور فلانے کنوئیں میں رہتا ہوں۔ تمہارے پاس اپنی قوم کی فریاد لایا ہوں کہ داد پاؤں اور بہبودی کو پہنچوں۔ سانپ بہت خوش ہوا اور اُس کو دلاسا دے کر کہنے لگا کہ وہ کنواں مجھے دکھا دے کہ میں وہاں جاؤں اور تیرا بدلہ اُن سے لوں۔ آخر سانپ اور مینڈک باہم اُس کنویں پر جا پہنچے اور اُس کے اندر اُتر گئے۔ سانپ نے جب کتنے دنوں میں اُن مینڈکوں کو کھا چکا تب اُس سے کہنے لگا کہ آج میں نہایت بھوکا ہوں، کچھ ایسی تدبیر کر کہ جس سے میرا پیٹ بھرے۔ تب شاہ پور ڈرا اور نہایت پشیمان ہوا کہ میں یہ کیا کیا کہ اس سانپ سے مدد چاہی اور برادری کو برباد کیا، خیر اب جو ہوا سو ہوا، یہ کہہ کر سانپ سے کہا کہ اب آپ اپنے گھر کو سدہاریئے۔ سانپ نے کہا کہ میں تجھے تنہا چھوڑ کر نہ جاؤں گا۔ تب شاہ پور نے کہا کہ ایک اور کنواں یہاں سے بہت نزدیک ہے اور اُس میں بہت سے مینڈک رہتے ہیں۔ اگر کہو تو اُن کو بھی کسی مکر و فریب سے یہاں لے آؤں۔ یہ بات سانپ نے بہت پسند کی اور اُسے رخصت کیا۔ غرض وہ مینڈک اس بہانے سے اُس کنویں میں سے نکلا اور کسی تالاب میں جا کر چُھپ رہا۔ آخر سانپ کئی دن اُس کی راہ دیکھ کر کنویں میں سے نکلا اور اپنے گھر چلا گیا۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے کہا اے خجستہ اب دیر مت کر۔ شتاب جا اور اُس سے مل۔ جونہی اُس نے چاہا کہ جاوے اتنے میں صبح ہوئی اور فجر کے جانور بولنے لگے۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب اس شعر کو پڑھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔

 

شعر

 

ہمدم ہم تو ہو گئے آخر وہیں مثل شمع سحر

جونہی اُس کے منہ سے نکلا صبح ہوئی اب رات نہیں

سولہویں داستان کہ سیاہ گوش نے مکر سے بندر کو ہلاک کروا دیا اور اپنی تیز فہمی سے شیر کا مکان لے لیا

جب  آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ کپڑے بدل گہنا پہن منہ بنا کے اور تیوری چڑھا کے رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے میں ہر ایک شب تیرے پاس رخصت لینے آتی ہوں اور حالت اپنی بیقراری کی دکھاتی ہوں، کچھ کہانی سننے نہیں آتی ہوں جو تو ناحق میرا مغز پھراتا ہےہ اور جھوٹ موٹ کے قصے سُناتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ سخی سے شوم بھلا جو ترت دے جواب۔ طوطا بولا کہ اے کدبانو میری بات سے کچھ تیرا نقصان نہ ہو گا۔ بلکہ ہو ایک سخن فائدہ بخشے گا۔ بہتر یہ ہے کہ آج جلدی جا اور اپنے معشوق سے ملاقات کر۔ اگر کوئی دشمن وہاں پہنچے اور تجھے شرمندہ کرے تو تو بھی سیاہ گوش کی طرح مکر سے ایک حیلہ کرنا اور اپنی بات بنانا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس سیاہ گوش کی کہانی کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا اور ایک بندر اُس کا مصاحب تھا۔ اتفاقاً شیر کسی اور مکان کو چلا اور بندر کو اپنی جگہ پر بٹھا کر کہنے لگا جب تک میں یہاں نہ آؤں تب تک تو اس مکان سے خبردار رہنا اور کسی کو اس میں نہ آنے دینا۔ بعد کئی دن کے ایک سیاہ گوش نے اُس مکان کو لے لیا اور وہیں رہنے لگا، اس واسطے کہ وہ مکان نہایت اچھا تھا۔ تب بندر نے کہا کے اے سیاہ گوش یہ مکان شیر کا ہے۔ تیری کیا قدرت کہ تو بے حکم اُس کے یہاں رہے۔ یہ بات اچھی نہیٰں۔ تب سیاہ گوش نے جواب دیا کہ یہ مکان میرے باپ کا ہے۔ میں نے اپنے باپ کی میراث میں پایا ہے۔ تجھے خبر نہیں اور اگر یوں بھی ہے تو تجھے کیاآگ جانے لوہار جانے اور دھونکنے والے کی بلا جانے۔ یہ بات سن کر بندر چُپ رہا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ مجھے کیا جو کوئی جیسا کرے گا ویسا پاوے گا۔ پھر سیاہ گوش کی مادہ نے کہا کہ بہتر ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیں کیونکہ سیر کی برابری وہ کرے جو اپنی جان دیوے۔ تب سیاہ  گوش نے کہا کہہ اے مادہ جس وقت وہ یہاں آوے گا میں ایک حیلہ کر کے اُس کو اس جگہ سے ٹال دوں گا۔ تو خاطر جمع رکھ۔ کچھ پرواہ نہیں۔ القصہ بعد کئی دن کے شیر کے آنے کی خبر معلوم ہوئی۔ بندر پیشوائی کے لئے گیا۔ اور سیاہ گوش کے احوال سے آگاہ کیا اور کہا۔ میں نے اُس کو منع کیا تھا۔ کہ اس مکان میں مت رہ کیونکہ یہ شیر کے رہنے کا مکان ہے۔ اگر تو یہاں رہے گا تو تیرے حق میں یہاں کا رہنا بہت بُرا ہے۔ تب اُس نے یہ جواب دیا۔ کہ یہ مکان میں نے اپنے باپ کے ورثے میں پایا ہے۔ کچھ شیر کے دادے کا نہیہں ہے جو چھوڑ دوں۔ اور آپ جگہ کی خاطر حیران پھروں۔ یہ سُن کے اُس نے کہا کہ اے موذی اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاہ گوش نہیں بلکہ مجھ سے بھی زیادہ قوت رکھتا ہے جو ایسی بیدھڑک بات کہتا ہے نہیں تو سیاہ گوش کی قدرت کیای جو میری جگہ چھینے۔ تب اُس نے کہا کہ نہ صاحب مجھے اپنے خدا کی قسم وہ اجل گرفتہ سیاہ گوش ہے کوئی جانور تمسے طاقتور نہیں۔ اگر اُس پر آپ کی ایک ذرا بھی آنکھ پڑے گی تو اُس کی جان ہی نکل جائے گی۔ آپ چل کر اُسے دیکھیے۔ میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں جو آپ سے کچھ کا کچھ کہوں۔ تب اُس شیر نے کہا کہ اے بندر خدا برحق ہے۔ یہ کیا کہتا ہے۔ اکثر جانور ایسے ہیں کہ وہ دیکھنے میں چھوٹے اور شجاعت اور قوت میں مجھ سے بڑے ہیں۔ شاید اُنہیں میں سے وہ بھی ہو۔ یہ کہہ کر ڈرتے ڈرتے اپنی جگہ کی طرف چلا اور سیاہ گوش بھی اپنی مادہ سے اُس کے پہونچنے سےپہلے ہی کہہ چکا تھا۔ کہ جس وقت شیر پہنچے تو اپنے بچوں کو رُلا دینا اور اگر میں پوچھوں کہ کیوں روتے ہیں تو کہنا کہ آج یہ تازہ گوشت شیر کا مانگتے ہیں۔ باسی نہیں کھاتے۔ القصہ جب شیر اُس مکان کے قریب پہنچا تو بچوں نے رونا شروع کیا۔ سیاہ گوش نے پوچھا کہ یہ کیوں شور مچاتے ہیں۔ مادہ نے کہا کہ یہ بھوکے ہیں۔ سیاہ گوش بولا کہ میں کل ہی اتنا گوشت شیر کا لا دیا تھا۔ کیا اُس میں سے کچھ باقی نہیں۔ تب اُس کی مادہ نے کہا جتنا بچا تھا سو وہ رکھا ہے پر یہ تازہ مانگتے ہیں۔ تب اُس نے بچوں سے کہا کہ تم قدرے دم لو اور خاطر جمع رکھو۔ میں نے سُنا ہے کہ آج اس جنگل میں بہت بڑا شیر آیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو انشاء اللہ تعالٰے ابھی میں اُسے مار لاتا ہوں اور تمہیں مزے شے پیٹ بھر بھر کھلاتا ہوں۔ شیر اس بات کے سنتے ہی بے اختیار جی چھوڑ کر بھاگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سچ مچ مجھے پکڑ لے اور اپنے بچوں کے تئیں کھلا دے۔ اتنا نہ سمجھا کہ سیاہ گوش ہے اور  بندر سے کہا کیوں میں نہ کہتا تھا کہ وہ سیاہ گوش نہیں بلکہ کوئی جانور اور ہے جس نے میرا گھر چھین لیا ہے۔ بندر نے کہا اے شیر وہ تجھے فریب دیتا ہے۔ مت ڈر کہ نہایت کمزور اور چھوٹا جانور ہے۔ شیر یہ سُن کر اپنے گھر کے پاس آیا اور سیاہ گوش کی مادہ نے پھر اپنے بچوں کو رُلایا۔ تب اُس کے نر نے پوچھا کہ اب کیوں غل مچاتے ہیں۔ اُن کو چپ کراؤ۔ البتہ آج شیر کا گوشت میرے ہاتھ لگے گا کیونکہ ایک بندر میرے دوستوں میں ہے۔ وہ مجھ سےاقرار کر گیا ہے اور قسم کھائی ہے۔ کہ میں آج کسی نہ کسی طرح سے شیر کو تیرے پاس لے آتا ہوں۔ یقین ہے کہ وہ اُس کو کسی فریب سے لاوے گا۔ اکدم توقف کر اُن کو سمجھا دے کہ پکار کر مت بولو کہ وہ آواز سُن کر ادھر نہ آوے گا۔ شیر نے جونہی یہ بات سُنی وہیں اُس بندر کو چیر ڈالا اور بھاگ گیا۔ پھر اُدھر منہ نہ کیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا کہ اے خجستہ آج ساعت نیک اور اچھی ہے اور وقت نیک۔ تو جلدی جا اور اپنے معشوق سے مل۔ خجستہ یہ سنتے ہی اُٹھی اور چاہا کہ جاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس  روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور آبدیدہ ہوئی ۔

 

بیت

 

اپنے جانے کا واں دن کو نہ ہے رات کو ڈھب

دیکھئے کیسی بنے آن پڑی بات بے ڈھب

سترہویں داستان زریر ریشمی باف کی کہ اس کی قسمت نے موافقت نہ کی ناچار ہو کر گھر میں بیٹھ رہا

جب آفتاب چھپا اور مہتاب نکلا، خجستہ بعد پہر رات کے خاصی پوشاک پہن اور اچھے جواہر سے بن ٹھن طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی اے طوطے ایک مدت سے میں تیری نصیحتیں مانتی ہوں اور باتیں سنتی ہوں لیکن مجھے کچھ دوستی سے حصول نہ ہوا۔ طوطا بولا اے کدبانو تو مجھ پر کیوں غضب ہوتی ہے۔ میں تو ہر شب ترغیب دیتا ہوں۔ کچھ میری خطا نہیں۔ تیری قسمت بُری ہے جو تجھ سے بُرائی کرتی ہے جسطرح سے زریر کے طالع نے زریر سے موافقت نہ کی۔ خجستہ نے پوچھا اُس کی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں زریر نامی ایک شخص ریشمی کپڑے بُنا کرتا تھا اور ایک دم اس کام سے ہاتھ نہ اٹھاتا تھا لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوتا تھا اور موٹا کپڑا بُننے والا اُس کا ایک دوست تھا۔ ایک دن وہ اُس کے گھر گیا اور اُسے دیکھا گھر اُس کا زر اور زیور اور مال و اسباب سے دولتمندوں کیطرح بھرا ہے۔ حیران  ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ میں کپڑا لایق دولتمندوں کے اور قابل بادشاہوں کے بنتا ہوں۔ کیا سبب ہے کہ مجھے روٹی بھی میسر نہیں اور اس گندہ باف نے اتنی دولت کہاں سے پیدا کی۔ اس فکر میں اپنے گھر آیا اور اپنی جورو سے کہنے لگا۔ کہ میں اب اس شہر نا پرساں میں نہ رہوں گا کیونکہ یہاں کے لوگ میری قدر نہیں جانتے اور میری کاریگری کو کوئی نہیں سمجھتا۔ لازم ہے کہ کسی اور شہر میں جاؤں کہ وہاں میرا کسب چمکے۔

 

بیت

 

میں اب شہر بے گانہ میں جاؤں گا

زر نقد اُن سے کما لاؤں گا

 

یہ سُن کر اُس کی عورت مسکرائی اور یہ بیت پڑھنے لگی۔

 

بیت

 

یہی بخت گر یاں سے لے جاؤ گے

تو کیا خاک واں سے کما لاؤ گے

 

پھر سمجھانے لگی کہ اپنے شہر کو چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ کہیں مت جا، جو تیری قسمت میں ہے سو یہیں ملے گا۔اور اس سے زیادہ کہیں نہ ملے گا۔ القصہ اُس نے کہنا نہ مانا، کسی طرف چلا گیا اور ایک شہر میں جا پہنچا۔ مدت تک وہاں اپنا کسب کرتا رہا۔ جب بہت سا روپیہ پیدا کیا تب گھر کی راہ لی۔ ایک رات کہیں جا کے اُترا اور آدھی رات تک جاگا۔ آخر مارے نیند کے سو گیا کہ ایک چور آیا اور تھیلی روپوں کے لے گیا۔ زریر بھی چونکا اور اُس کے پیچھے دوڑا۔ جب اُس کو نہ پکڑ سکا تب ناچار پھر اُسی شہر میں گیا۔  جب بہت سا روپیہ پھر جمع  کیا تب گھر کو روانہ ہوا۔ پھر رات آ گئی۔  کسی جگہ اُترا اور مال کی ہر چند احتیاط کی لیکن اُس کو بھی چور لے گیا۔ تب اُس غریب نے اپنے جی میں کہا کہ زر میری قسمت میں نہیں ہے۔  اس سبب سے چور لے جاتا ہے۔ آخر خالی ہاتھ اپنے گھر گیا اور احوال اپنا جورو سے کہا۔ اُس نے جواب دیا کہ میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا کہ نصیب کے سوا کسی جا کچھ نہ پاوے گا۔  کہنا میرا تو نے نہ سُنا اور سفر کیا۔ بھلا کیا فائدہ پایا۔ زریر شرمندہ ہوا۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے خجستہ سے کہا اب دیر مت کر۔ جا اپنے معشوق کو گلے لگا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُسے اپنے سینے سے لگاوے۔ اتنے میں فجر ہوئی اور مُرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھ کر رونے لگی۔

 

بیت

 

شب امید ہو گئی آخر

روزِ فرقت نے پھر دکھایا منہ

اٹھارویں داستان چار یاروں کی کہ ایک اپنی نادانی سے پشیمان ہو کے گھر بیٹھا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ با سینہ پر سوز چشم گریاں آہیں بھرتی ہوئی طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے سبز پوش طوطے میں عشق کے غم سےے موئی جاتی ہوں اور تو ہر ایک شب میری نصیحت اور گفتگو میں کھو دیتا ہے۔

 

فرد

 

نصیحت کی باتیں  نہ مجھ کو سُنا

میں عاشق ہوں مجھ کو نصیحت سے کیا

 

طوطا کہنے لگا اے خجستہ یہ کیا کہتی ہے۔ دوستوں کی بات  ماننا  چاہیے کیونکہ جو کہنا دوستوں کا نہیں مانتا وہ خراب ہوتا ہے اور پشیمانی کھینچتا ہے جس طرح سے ایک شخص نے دوست کا کہنا نہ مانا اور پشیمان ہوا۔ خجستہ نے کہا میرے اچھے طوطے میں  تیرے صدقے وہ کونسی نقل ہے، بیان کر :

حکایت

طوطا بولا کہ کسی شہر میں چار یار مالدار تھے۔ اتفاقاً وہ چاروں مفلس ہو کر ایک حکیم کے پاس گئے اور ہر ایک نے اپنا اپنا احوال اُس کے آگے ظاہر کیا۔ تب حکیم کو اُن کے اوپر رحم آیا اور ایک ایک مہرا حکمت کا  اُن چاروں کو دے کر کہا کہا یہ مُہرا ہر ایک اپنے اپنے سر پر رکھ لو اور چلے جاؤ۔ جس کے سر کا مُہرا جس جگہ گرے وہ اُس جگہ کو کھودے۔ جو اُس میں نکلے وہ اُس کا حق ہے۔ آخر وہ چاروں ہر ایک مُہرا اپنے سر پر رکھ کر ایک طرف کو چلے۔ جب کئی کوس گئے، ایک کے  سر کا مہرا گرا۔ اُس نے جو اس جگہ کو کھودا تو تانبا نکلا۔ اُس نے اُن  تینوں سے کہا کہ میں اس تانبے کو سونے سے بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے ساتھ یہاں رہو۔ اُنہوں  نے کہنا  اُس کا نہ مانا اور آگے بڑھے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ پھر دوسرے کے سر کا مُہرا گرا۔ اُس نے جو زمین کھودی تو روپیہ نکلا۔ تب اُس نے اِن دونوں سے کہا کہ تم ہمارے پاس رہو  یہ روپیہ  بہت ہے۔ زندگی گزر جائے گی۔ اس کو اپنا ہی سمجھو۔  انہوں نے اُس کا کہنا نہ مانا اور آگے بڑھے کہ تیسرے کے سر کا مہرا گرا اور اُس نے بھی وہ زمین کھودی تو سونا نکلا۔ تب خوش رو کر چوتھے سے کہنے لگا کہ اس سے اب کوئی چیز بہتر نہیں جانتے ہیں۔ اب ہم تم یہیں رہیں۔ اُس نے کہا میں اگر جاؤں گا  تو جواہر کی کھان پاؤں گا۔ یہاں کیوں رہوں۔ یہ کہہ کر آگے  چلا۔  قریب ایک کوس کے پہنچا، تب اُس کا بھی مہرا گرا۔ اسی طرح جو اُس نے جگہ کھودی تو لوہا نکلا۔ یہ حالت دیکھ کر نہایت شرمندہ ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ میں نے کیوں سونے کو چھوڑا اور اپنے یا ر کہنا نہ مانا۔ سچ ہے۔

 

فرد

 

سخن دوست کا جو نہیں مانتے

وہ خاکِ پشیمان ہیں چھانتے

 

اُس لوہے کو چھوڑ کر اُس شخص کے پاس گیا جس نے سونے کی کان نکالی تھی۔ وہاں اُس کو نہ پایا نہ وہ سونا ہاتھ آیا، تب تیسرے روپے والے کے پاس گیا۔ اُسے بھی نہ پایا، وہاں سے تانبے والے کے پاس گیا۔ اُسے بھی نہ پایا، تب اپنی قسمت کو ہویا اور رکھنے لگا کہ زیادہ قسمت سے کوئی نہیں پاتا۔ وہ پھر حکیم کے گھر گیا۔ اُسے بھی وہاں نہ پایا۔ تب وہ بیچارہ نہایت پشیمان ہو کر یہ شعر پڑھنے لگا۔

 

شعر      

 

کس سے کیا کہیے کہ کیا کیا ہم نے

جو کیا سو بُرا کیا ہم نے

 

جب یہ کہانی طوطے نے تمام کی تب خجستہ سے کہا جو دوستوں کی بات نہیں مانتا وہ ایسا ہی پچھتاتا ہے۔ دیکھا۔ خیر اب جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا اور مزا جوانی کا اُٹھا۔ یہ سخن سنتے ہی خجستہ نے چاہا کہ چلوں۔ وہیں صبح ہو گئی اور مُرغ نے بانگ دی۔ یہ فرد اپنے حسب حال پڑھی اور رو دی۔

 

فرد

 

اے شب وصل جلد آ اب تو

روزِ فرقت مجھے ستاتا ہے

اُنیسویں داستان کہ ایک گیدڑ رات کو رنگریز کے گھر نیل کی مٹھور میں گر کر سیاہ ہو گیا تھا

جب دن گزرا اور رات آئی، تب خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی۔ اور اُسے متفکر دیکھ کر کہنے لگی کہ اے عقلمند طوطے تو کس واسطے غم کھاتا ہے اور کیوں چپکا بیٹھا ہے۔ طوطے نے کہا اے خجستہ تو بڑے گھر کی بہو بیٹی کہلاتی ہے اور نہیں معلوم کہ معشوق تیرا تجھ سا ہے یا اور کسی قوم سے ہے۔ اگر تجھ سا ہے تو اُس سے ملنا مضائقہ نہیں اور نہیں تو اُس سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔

           

دوھرا    

 

اُتم سے اُتم ملے، ملے نیچ سے نیچ

پانی سے پانی ملے، ملے کیچ سے کیچ

 

فرد

 

کبوتر با کبوتر باز با باز

کند ہم جنس با ہم جنس پرواز

 

خجستہ نے کہا اے محرم راز یہ تو سچ ہے پر میں احوال اُس کا کیونکر بیان کروں۔ طوطا بولا کہ عیب و ہُنر آدمی کا زبان سے معلوم ہوتا ہے۔ تو نے شاید گیدڑ کا قصہ نہیں سُنا۔ خجستہ نے کہا کہ اے شیریں سخن وہ کیونکر ہے۔ کہہ میری جان خدا کے لیے۔

حکایت

طوطے نے کہا کہ ایک گیدڑ تھا وہ ہمیشہ شہر میں جاتا اوور ہر ایک آدمی کے باسنوں میں منہ ڈالتا۔ چنانچہ اسی اپنی عادت سے ایک رات کسی نیل کے گھر گیا اور اُس کے نیل کے باٹھ میں منہ ڈالتے ہی اُس میں گر پڑا اور تمام بدن اُس کا نیلا ہو گیا۔ غرض بہزار خرابی اُس میں سے نکلا اور جنگل کا راستہ پکڑا  اور وہاں کے حیوانوں نے اُس رنگ کو کچھ بہتر جان کر سب نے اُس کو بادشاہ کیا اور اُس کے حکم میں بخوبی در آئے اور وہ سردار گیدڑ اس واسطے کہ کوئی آواز اُس کی سُن کر نہ پہچانے، چھوٹے چھوٹے جانوروں کو دربار کے وقت اپنے پاس کھڑا کرتا۔ چنانچہ دربار کے  وقت اُس قوم کو صف اول میں جگہ دیتا اور لومڑیوں کو دوسری میں، ہرنوں اور بندروں کو تیسری میں، بھیڑیوں کو چوتھی میں، شیروں کو پانچویں میں، ہاتھیوں  کو چھٹی میں اور کہتا کہ تم سب اپنے اپنے قرینے سے حاضر رہو اور شام کو جس وقت گیدڑ بولتے، وہ آپ بھی ان کے ساتھ بولتا۔ اسی سبب سے اُس کو کوئی نہ پہچانتا۔ بعد کتنے دنوں کے وہ سردار ان سب گیدڑوں پر خفا ہوا  اور رات کو اپنے پاس سے سرکا دیا اور اُن کی جگہ پر اور جانور درندے بلائے۔ جو اُس کے پاس کھڑے تھے۔ وہ اُس کی آواز پہچان گئے کہ یہ گیدڑ ہے اور آپ شرمندہ ہوئے اور اُسی گھڑی اُسے تکا بوٹی کیا۔ یہ کہہ کر طوطے نے خجستہ سے کہا کہ اے کد بانو ہر ایک شخص کا عیب و ہُنر گفتگو سے معلوم ہوتا ہے۔

 

اشعار

 

کہاں نقط فصیح اور طبع ناہنجار ہو پیدا

فغانِ زاغ سے طوطی کی کیا گفتار ہو پیدا

 

اگر ملکِ عراق اک مادہ خر سو بار ہو آوے

عراقی کی پر اُس میں کاہے کو رفتار ہو پیدا

 

اب اپنے معشوق کے پاس جا اور اس سے بات چیت کر، تا عیب و ہنر اُس کا تجھے معلوم ہو۔ یہ سنتے ہی خجستہ نے چاہا کہ جاوے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھنے لگی اور رونے لگی۔

 

بیت      

 

اے سحر کیا کیا تو نے

وصل کی شب کو کھو دیا تو نے

بیسویں داستان ایک اعرابی نے بشیر نامی ایک شخص سے دوستی خرچ کر کے مار پیٹ کھائی۔ اور زندگانی کا حظ اُٹھایا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا تب خجستہ رخصت لینے کے واسطے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے طوطے میں تیرے پاس ہر ایک شب رخصت لینے آتی ہوں یا نصیحت سننے جو تو جھوٹ موٹ اِدھر اُدھر کی باتیں بناتا ہے اور اپنی دانائی دکھاتا ہے۔ کیا خوب اُس کو کیا کروں۔

 

فرد

 

اشک اُمنڈا ہوا پھر ضبط سے کم رُکتا ہے

ناصحا اُٹھ مری بالیں سے کہ دم رکتا ہے

 

طوطا کہنے لگا اے خجستہ خاطر جمع رکھ۔ اب جلد اپنے یار سے ملے گی جیسے کہ ایک اعرابی نے پہلے مصیبت اُٹھائی پھر پیچھے راحت پائی۔

 

بیت

 

اُٹھاتا نہیں جب ملک کوئی رنج

تو ملتا نہیں تب تلک اُس کو گنج

 

یہ سخن سنتے ہی خجستہ نے کہا کہ اے طوطے تیرے منہ میں شکر، میں واری، وہ کیونکر مجھ سے ملے گا۔ سچ کہ مثل مشہور ہے۔ آسا جیئے نراسا مرے۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کشی شہر میں بشیر نامی ایک جوان خوبصورت رہتا تھا۔ چندو نام ایک عورت صاحب جمال سے اُس نے دوستی کی۔ بعد ایک مدت احوال اُن دونوں کی دوستی کا ظاہر ہوا۔ جب اُس کے خصم نے اپنی جورو کو اُس کے میکے میں لے جا کر رکھا، تب بشیر اُس کی جدائی میں دن رات روتا تھا اور اُسی طرح سے آہ و زاری میں اوقات بسر کرتا تھا۔ کسی ایک اعرابی سے کہ وہ قدیم اُس کے دوستوں میں تھا۔ جا کر کہا کہ اے دوست جانی میں چندو کے گھر جاتا ہوں۔ اگر تو بھی میرے ساتھ چلے تو بہتر ہے کہ لوگ کہتے ہیں ایک اور ایک گیارہ۔ اعرابی نے اُس کا کہنا قبول کیا، اور اُس کے ساتھ ہو لیا۔ بعد دو چار دن کے اُس شہر کے نزدیک پہنچ کر بشیر ایک درخت کے نیچے بیٹھا اور اُس اعرابی کو اپنی خبر پہنچانے کے لئے چندو کے گھر بھیجا۔ آخر وہ شخص اُس کے گھر جا کر چندو معشوق بشیر سے کہنے لگا کہ اے چندو بشیر نے تجھے سلام کہا ہے۔ یہ سنتے ہی چندو بے اختیار خوش ہو کر کہنے لگی اے شخص تو ابھی جا اور میری طرف سے بھی اُسے سلام پہنچا اور یہ پیغام دے کہ رات کو تیرے پاس اُس درخت کے نیچے آؤں گی اور جو کچھ کہنا ہے سو ملاقات پر موقوف ہے جب ملوں گی تب کہوں گی۔ آخر وہ اعرابی اُس کا پیغام لیکر بشیر کے پاس گیا اور جو جو اُس نے کہا تھا سو سو بخوبی اُسے سُنا دیا۔ جب رات ہوئی تب چندو ایک نہایت آراستگی سے آئی اور اُس کو گلے لگا کر رونے لگی اور وہ بھی اُسے چھاتی سے لگا کر بے اختیار ہو اُٹھا۔

 

حسن

 

کہوں کیا میں اُس وقت کا ماجرا

کہ جس طرح روتے تھے وہ غل مچا

 

وہ رو رو کے دونوں بہم یوں ملے

کہ جس طرح ساون سے بھادوں ملے

 

بعد رونے کے بشیر نے کہا اے چندو آج کی رات تو یہاں رہے گی۔ چندو کہنے لگی کہ ایک صورت سے اگر یہ اعرابی ایک کام کرے تو البتہ رہوں۔ اعرابی نے پوچھا کہ وہ کیا کام ہے۔ چندو نے کہا کہ تو میرے کپڑے پہن کر میرے گھر جا اور گھوں گھٹ سے منہ چُھپا کر انگنائی میں بیٹھ رہ۔ میرا خاوند آوے گا اور دودھ کا پیالہ دے گا، اوور تجھے دے کر پینے کو کہے تو تو اُسے نہ لینا نہ اپنا گھوں گھٹ کھولنا۔ آخر کار وہ پیالہ دودھ سے بھرا ہوا تیرے پاس رکھ دے گا اور باہر چلا جاوے گا۔ پھر تو اُسے اُس وقت مزے سے پینا اور اپنا پیٹ بھرنا۔ اعرابی نے یہ سخن قبول کیا اور اُس کے گھر جا کر اسی طرح سے گھوں گھٹ سے منہ چھپا کر چپکا ہو کر بیٹھ رہا۔ اتنے میں اُس کا خاوند ایک پیالہ دودھ کا لئے ہوئے آیا اوور اس سے کہنے لگا۔ جانی یہ پیالہ میں تمہارے واسطے لایا ہوں۔ گھوں گھٹ کھولو۔ اور دودھ پیؤ۔ غرض اُس نے گھوں گھٹ نہ کھولا نہ وہ پیالہ لیا۔ وہ غصہ ہو کر کوڑے بازی کرنے لگا اور کہنے لگا۔ کہ میں جس قدر منت کرتا ہوں اور تعشق جتاتا ہوں تو نہ تو منہ کھولتی ہے نہ بولتی ہے۔ حاصل کلام یہاں تک کوڑے مارے کہ پیٹھ اُس کی نیلی ہو کر اُدھڑ گئی اور آپ چلا گیا۔ جب وہ باہر نکلا تب اعرابی کبھی اپنے حال کو روتا تھا اور کبھی ہنستا تھا۔ اتنے میں چندو کی ماں نے آ کر سمجھایا کہ بی بی میں تجھے ہمیشہ نصیحت کرتی ہوں کہ ہر گھڑی کا نکٹورا چھا نہیں جانی۔ تو اُس کی اطاعت کیوں نہیں کرتی۔ اگر بشیر کا غم کرتی ہے تو پھر خاوند کا منہ نہ دیکھے گی۔ یہ کہہ کر اُس کی  بہن کے پاس گئی اور کہنے لگی۔  ماں واری تو جا کر اُس کو سمجھا کہ کیوں اپنے خاوند سے سلوک نہیں کرتی۔ یہ بات سنتے ہی چندو کی بہن کہ سچ مچ کی چندرمان سے خوبصورت تھی، آئی اور اعرابی  کو گلے لگا کر کہنے لگی۔ بوا تو اپنے خاوند سے مت روٹھ۔ اعرابی نے اُس کا مکھڑا دیکھا تو اپنا دکھ کھوا اور چادر منہ سے اُٹھا کر کہنے لگا کہ تیری بہن بشیر کے پاس گئی ہے اور مجھے یہاں بھیجا ہے۔ دیکھ تو میں نے اُس کے واسطے کیا آفت سہی ہے۔ اب تجھے لازم ہے کہ تو میرے پاس سو رہے کہ یہ راز فاش نہ کرے۔ نہیں تو میں اور تیری بہن دونوں رسوا ہوں گے۔ یہ بات سُن کر وہ ہنسی اور اُس کے ساتھ سو رہی۔ قریب صبح کے وہ اعرابی چندو کے پاس گیا اور چندو نے پوچھا شب کیونکر گزری۔  اُس نے سب احوال اُس کے شوہر اور بہن کا کہا اور اپنی پیٹھ دکھا کر رو دیا۔ چندو نہایت شرمندہ ہوئی۔ پھر یہ بات سمجھی کہ رات میری بہن کے ساتھ اُس نے رنگ رلیاں مچائیں اور گلچھڑیاں اپنے دل کی کھولی ہیں۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا۔ اے خجستہ اب سدھارو اور اپنے معشوق سے لطف اُٹھاؤ۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے معشوق کے پاس اپنے آپ کو پہنچا دے۔ اتنے میں فجر ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھ کر زار زار رونے لگی۔

 

فرد

 

مجھے جس سحر نے جدا یار سے

کیا تھا وہی پھر  وہ آئی سحر

اکیسویں داستان کہ ایک سوداگر اپنے گھر میں کھانا کھاتا تھا اور ایک سوار آ کر شریک ہوا اور گھوڑا اُس کا مرا تو قاضی کے پاس جا کے خود مقدمہ ہارا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ اچھے کپڑے پہن کر رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی، آج فرقت کے  باعث کچھ دل کو نہایت بیقراری معلوم ہوتی ہے۔

 

فرد

 

پہنچا دے یہ پیام مرا کوئی یار تک

بے اختیاری تھام چکی اختیار تک

 

اگرچہ میں اپنے محبوب کے پاس جا سکتی ہوں مگر بغیر رخصت کے تیرے مصلحت نہیں دیکھتی کیونکہ میں تیری عقل پر اعتماد تمام رکھتی ہوں۔ اگر آج کی شب رخصت دے تو تمام عمر تیری احسان مند رہوں گی اور دعائیں دیا کروں گی۔ طوطے نے کہا کہ اے کد بانو جو عقلمند ہوتے ہیں سو بے مصلحت کام نہیں کرتے۔ تو خود دانشمند ہے کہہ بے مشورت کے کبھی کچھ کام نہیں کرتی۔ یہ سچ ہے کہ اگر کوئی خدانخواستہ تجھ سے دشمنی کرے گا تو ہرگز اپنے شعور کے سبب اور تدبیر کی راہ سے کسی بلا میں نہ پڑے گی جس طرح ایک سوداگر نے اپنے علم اور دانائی کی راہ سے ایسا حیلہ  کیا کہ پشیمان نہ ہوا۔

 

فرد

 

دانا کو کسی طرح سے ذلت نہیں حاصل

حرمت نہیں رکھتا ہے کسی طرح سے جاہل

 

خجستہ نے پوچھا اُس کی حکایت کیونکر ہے :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ اگلے زمانے میں ایک سوداگر نہایت عقلمند ایک گھوڑا بد خو رکھتا تھا۔ایک دن وہ اپنی ڈیوڑھی میں بیٹھا ہوا کھانا کھاتا تھا۔  اسی عرصہ میں ایک شخص گھوڑے پر سوار وہاں آیا۔ اُتر کر اُس کو سوداگر کے گھوڑے کے پاس باندھنے گا اور مستعد کھانا کھانے کو ہوا۔ سوداگر نے اُس سے کہا کہ میرے گھوڑے کے پاس نہ باندھ خطا پاؤ گے اور میرے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، شرمندگی اُٹھاؤ گے۔ اُس نے  یہ بات نہ سُنی، گھوڑے کو وہیں باندھا اور آپ سوداگر کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ اُس نے کہا تو کون ہے کہ بے میرے کہے میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ اُس نے اپنے تئیں بہرا بنایا اور کچھ جواب نہ دیا۔ جب سوداگر نے جانا کہ یہ بہرا ہے یا گونگا، یہ سمجھ کر چپکا ہو  رہا۔  اتنے میں سوداگر کے گھوڑے نے ایسی لات دی کہ اُس کے گھوڑے کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔ تب اُس سوداگر  سے قضیہ شروع کیا اور کہا کہ قیمت اُس کی میں تجھ سے لا کلام لوں گا۔ تیرے گھوڑے نے میرے گھوڑے کو مار ڈالا ہے۔ پھر اُس شخص نے  قاضی کے پاس جا کر فریاد کی۔ قاضی نے اُس سوداگر کو بلوایا۔  اُس نے دربار میں حاضر ہو  کر اپنے تئیں گوں گا بنایا ۔ جو بات قاضی نے اُس سے پوچھی کچھ جواب نہ دیا۔ قاضی نے کہا یہ گوں گا ہے۔ اس کی کچھ خطا نہیں۔ مدعی نے عرض کی کہ حضرت سلامت، آپ نے کیونکر معلوم کیا یہ گوں گا ہے۔ اُس نے پہلے ہی مجھ سے کہا تھا کہ یہ گھوڑا شوخ ہے، اس کے پاس اپنے گھوڑے کو نہ باندھ، اب اُس نے اپنے تئیں گوں گا کیا ہے۔ قاضی نے کہا ابے تو بڑا احمق ہے۔ آپ ہی اس کے منع کرنے کی گواہی دیتا ہے اور آپ ہی گھوڑے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ اس میں اس کی کیا  تقصیر ہے۔ چل دور ہو سامنے سے۔ غرض قاضی نے اُس کو نکلوا دیا اور سوداگر کو رخصت کیا۔ یہ کہہ کر طوطے نے خجستہ سے کہا اچھا اب دیر  نہ کرو۔ جاؤ اور اپنے معشوق کو گلے لگاؤ۔ کد بانو نے یہ سُنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُس محبوب کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

 

فرد

 

اے سحر ہاتھ سے ترے اب میں

شب امید اپنی کھو بیٹھی

بائیسویں داستان کہ ایک عورت نے شیر سے حیلہ کر کے اپنی جان بچائی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے محرم راز میرے اوپر رحم کر اور آج کی  رات تو رخصت دے اور جوج مجھ سے کہنا ہے جلد کہہ دے۔ طوطے نے کہا اے  کد بانو میں نے تجھے بارہا آزمایا،  عاقل ہی پایا ہے۔  نصیحت میری کچھ درکار نہیں۔ خدانخواستہ اگر تجھ پر کوئی حادثہ پڑے  تو تو بھی ایسا ہی حیلہ کرنا جیسا کہ ایک عورت نے شیر کے ساتھ جنگل میں کیا تھا۔ کہ جس کے سبب کوئی آفت نہ پہنچی۔ خجستہ نے پوچھا وہ حکایت کون سی ہے۔ کہہ :

 

حکایت

 

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک شخص تھا۔ اُس کی جورو نہایت بد خو اور زبان دراز تھی۔ ایک دن اُس کے شوہر نے کسی تقصیر پر کئی کوڑے اُس کو مارے۔ وہ عورت اپنے دونوں لڑکوں کو لیکر جنگل میں چلی گئی۔ اتفاقاً اُس کو شیر نظر آیا۔ اُس کو دیکھ کر ڈری اور ہراساں ہو کر کہنے لگی کہ میں نے بُرا کیا جو شوہر کی بے مرضی باہر آئی۔

عورت بد زبان کی مع اُس کے دونوں لڑکوں کی شوہر سے ناراض ہو کر جنگل میں جانا اور شیر کا نظر آنا

اگر اب کچھ آفت اس شیر کے ہاتھ سے مجھ پر نہ پڑی تو پھر گھر سے نہ نکلوں گی اور اُس کی فرمانبرداری میں رہا کروں گی۔ آخر اُس عورت نے بہانہ کر کے شیر سے کہا۔ اے شیر میرے پاس آ اور ایک بات میری سُن۔ شیر نے متعجب ہو کر کہا۔ اے عورت کہہ۔ وہ بولی کہ اس جنگل میں ایک ایسا بڑا شیر ہے کہ جس سے آدم حیوان سب ڈرتے ہیں اور بادشاہ بھی اُس کے کھانے کے واسطے دوچار آدمی روز بھیجا کرتا ہے۔ جس طرح سے کہ آج میرے دونوں لڑکوں کی باری ہے۔ اگر تیرا جی چاہے تو ان لڑکوں کو مجھ سے لے اور کھا کر اس جنگل سے بھاگ جا، تا کہ میں بھی اکیلی ہو کر اپنی راہ پکڑوں۔ یہ بات سُن کر شیر نے کہا اچھا جب تو نے تمام احوال اپنا مجھ سے کہا تو مجھے لازم نہیں کہ تجھے یا تیرے لڑکوں کو کھاؤں، کس واسطے کہ مجھے بھی  بھاگنے کی فرصت نہیں۔ یہ کہہ کر شیر نے ایک طرف کی راہ لی اور یہ بچوں سمیت گھر آئی۔ پھر تمام عمر اپنے خاوند کی فرمانبرداری میں رہنے لگی۔ یہ کہہ کر خجستہ سے کہا کہ اب دیر مت کر۔ اپنے معشوق کے پاس جا۔

 

دوھرا

 

جا کر اپنے یار کے سینے سے لگ کر سو

ماریں ونا کے ہر کو دونوں کرے وہو

 

یہ سنتے ہی خجستہ نے چاہا کہ اُس کے پاس جائے اور زندگانی کا مزا اُٹھائے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے باگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف ہوا۔ تب یہ دوہرا پڑھا اور رونے لگی۔

 

دوہرا

 

پیتم یہ مت جانیو کہ تم بچھڑے موہے چین

جیسے بن کی لاکڑی سُلگت ہوں دن رین

تیئیسویں داستان کہ خالص اور مخلص نے شاہزادے سے دوستی کی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے طوطے وہ کونسا وقت ہو گا کہ اُس کے پاس پہنچوں گی اور چاہتی ہوں کہ جاؤں پر جا نہیں سکتی۔

 

شعر

 

اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

آخر اس بیماری دل نے اپنا کام تمام کیا

 

اور نہیں جانتی کہ میرے نصیب کیسے ہیں، جو اُس سے جُدا رکھتے ہیں۔ طوطے نے کہا اے خجستہ اب دل میرا گواہی دیتا ہے کہ تو جلد اپنے معشوق سے جا ملے گی۔ لیکن اُس سے مل کے شرطیں تمام دوستی کی بجا لانا اور کوئی بات باقی نہ رکھنا۔ جس طرح سے کہ خدمت شہزادے کی خالص اور مخلص نے کی بھی۔ کد بانو نے کہا حکایت اُن کی کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطے نے کہا کہ کسی وقت میں ایک بڑا بادشاہ تھا۔ اُس کے دو بیٹے تھے۔ جب بادشاہ نے اس دنیا سے کوچ کیا۔ تب تاج اور تخت کا مالک بڑا بیٹا ہوا اور اُس نے چاہا کہ چھوٹے بھائی کو مار ڈالے۔ تب وہ بیچارہ ڈرا اور اُس شہر سے بھاگا۔ بعد کئی روز کے ایک تالاب پر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک مینڈک کو سانپ پکڑے ہے اور مینڈک غل مچاتا ہے۔ اور یہ دوہا پڑھتا ہے۔

 

دوھا

 

یا رب ایسے وقت میں ایسا کوئی آئے

منہ سے جو اس سانپ کے میری جان بچائے

 

یہ دوہا اُس مینڈک سے سنتے ہی شاہزادے نے ایسا ڈانٹا کہ مارے ڈر کے سانپ  نے مینڈک کو چھوڑ دیا۔ مینڈک پانی میں چلا گیا اور سانپ وہیں کھڑا رہا۔ تب شہزادے نے سانپ سے شرمندگی کھینچی اور یہ بات اپنے جی میں کہی کہ کس واسطے میں نے نوالہ اُس کا اُس کے منہ سے چھڑایا۔ یہ کہہ کر تھوڑا گوشت اپنے بدن کا کاٹ کر شہزادے نے سانپ کے آگے ڈال دیا۔ وہ گوشت کی بوٹی منہ میں ڈال کر اپنی مادہ کے پاس گیا اور اُس کی مادہ نے جس وقت اُس گوشت کو کھایا۔ وہ اُس سے کہنے لگی کہ تو یہ گوشت مزیدار کہاں سے لایا۔ سانپ نے سب احوال اُس سے کہا۔ ساپن نے کہا کہ جو شخص تیرے ساتھ احسان کرے، پس تجھ کو بھی لازم ہے کہ تو بھی شکر اُس کا بجا لاوے اور اُس کی خدمت میں حاضر رہے۔ غرض سانپ آدمی کی صورت ہو کر شاہزادے کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ نام میرا خالص ہے۔ یہ چاہتا ہوں کہ خدمت میں آپ کی حاضر رہوں۔ شہزادے نے قبول کیا اور وہ مینڈک جو سانپ کے منہ سے چھوٹا تھا، لہو لہان اپنی مادہ کے پاس گیا اور یہ سب احوال اپنی مادہ سے کہا۔ تب اُس کی مادہ نے سنتے ہی اس احوال کے کہا کہ تو اب اُس شخص کی خدمت میں جا کر حاضر رہ۔ آخر مینڈک بھی سانپ کی طرح آدمی کی صورت ہو کر شاہزادے کی خدمت میں گیا اور کہا کہ نام میرا مخلص ہے۔ آرزو رکھتا ہوں کہ میں آپ کی خدمت میں نوکروں کی طرح حاضر رہوں۔ شاہزادے نے اُس کو بھی اپنی خدمت میں رکھا۔ پھر وہ تینوں وہاں سے چلے اور کسی شہر میں پہنچے۔ شاہزادے نے وہاں کے بادشاہ سے جا کر عرض کی کہ میں ایسی شجاعت رکھتا ہوں کہ اکیلا سو آدمی سے لڑ سکتا ہوں۔ ہزار روپے روز پاؤں تو خدمت عالی میں حاضر رہوں اور جس وقت جو کام فرمائیے گا وہیں اُسے سر انجام کو پہنچاؤں گا۔ بادشاہ نے اُس کو نوکر رکھا اور ہزار روپے کا روزانہ مقرر کیا۔ شہزادہ ہزار روپے لیکر سو آپ خرچ کرتا اور ۔۔۔۔۔ ان دونوں کو دیتا، باقی خدا کی راہ میں صرف کرتا اور خیرات کرتا۔ ایک دن بادشاہ مچھلی کے شکار کو گیا۔ اتفاقاً اُس کی انگوٹھی دریا میں گر پڑی۔ ہر چند جستجو کی ہاتھ نہ آئی۔ تب شہزادے سے کہا کہ میری انگوٹھی دریا سے نکال لا۔ شہزادے نے اپنے ہمراہیوں کو کہا کہ بادشاہ نے ارشاد کیا ہے۔ اُنہوں نے عرض کی کہ یہ کون سا بڑا کام ہے جو بادشاہ نے فرمایا ہے۔ پھر مخلص نے کہا خاطر جمع رکھیے یہ کام میرا ہے۔ میں بجا لاؤں گا۔ وہیں مینڈک کی صورت بنکر دریا میں گیا اور غوطہ مار کر انگوٹھی لے آیا۔ شہزادہ اُس انگوٹھی کو لیکر بادشاہ کے پاس گیا اور انگوٹھی پیش کی۔ بادشاہ نے لیکر اُس پر بہت مہربانی فرمائی۔ بعد کئی دن کے بادشاہ کی بیٹی کو سانپ نے کاٹا۔ حکیموں نے بہت سی دوا کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تب بادشاہ نے شہزادے کو کہا کہ میری لڑکی کو اچھا کر۔ شاہزادہ اس بات سے حیران ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ یہ کام میرا نہیں۔ خالص نے اپنی عقل سے دریافت کیا اور کہا کہ مجھے اُس لڑکی کے پاس لے چلو اور ایک خلوت خانہ میں ہم دونوں کو بٹھلا دو۔ خدا کے فصل سے میں اُسے اچھا کروں گا۔ شاہزادہ اُسے لیکر اور ایک حجرے میں دونوں کو بٹھلا کر نکل آیا۔ خالص نے اپنے منہ کو اُس سانپ کے زخم پر رکھا اور زہر سب چوس لیا۔ لڑکی اُسی وقت اچھی ہو گئی۔ تب بادشاہ شہزادے سے یہاں تک خوش ہوا کہ اُس لڑکی کا بیاہ اُس کے ساتھ کر دیا اور اپنا ولی عہد کیا۔۔ کتنے دنوں کے بعد خالص اور و مخلص نے عرض کی اب ہم رخصت چاہتے ہیں۔ شاہزادے نے کہا کہ یہ کون سا وقت ہے کہ رخصت مانگتے ہو۔ خالص نے کہا کہ میں وہی سانپ ہوں کہہ مجھے گوشت آپ نے اپنے بدن کا کھلایا تھا۔ اور مخلص نے کہا کہ میں وہی مینڈک ہوں کہ مجھے سانپ کے منہ سے چھڑایا۔ اب ہم امیدوار ہیں کہ اپنے اپنے گھر جائیں۔ شاہزادے نے دونوں کو رخصت کیا۔ یہ کہانی خجستہ سے طوطے نے کہہ کر کہا اچھا اب جا اور دیر نہ لگا۔ کد بانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اپنے یار کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ بولا۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ دوہا پڑھ کر رونے لگی۔

 

دوھا

 

نین بھئے ہیں دھونھنے نیر رہو بھر پور

انجن کارن بھیجیو تنک چرن کی دھور

چوبیسویں داستان گم ہونا سوداگر کی لڑکی کا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور متفکر ہو کر بیٹھی۔ طوطے نے اُس کو حیران دیکھ کر کہا کہ اے کد بانو آج کی شب تو کیوں اِس قدر متفکر ہے۔

 

تجھے دیکھنا یوں گوارا نہیں

اس اندوہ کامجھ کو چارا نہیں

 

بی بی خدا کے لیے کسی چیز کا غم نہ کھا اور کچھ اندیشہ اپنے جی میں نہ  لا۔

 

حسن

 

یہ حُسن و جوانی اور اُس پر یہ غم

ستم ہے ستم ہے ستم ہے ستم

 

جب خجستہ نے یہ مضمون طوطے کی زبان سے سُنا، تب اُس نے اُسی ڈھب کے شعر پڑھے۔

 

اشعار

 

کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا

ہائے چب بھی رہا نہیں جاتا

 

بے ملے اُس کے گل نہیں پڑتی

اور ملوں تو ملا نہیں جاتا

 

پھر کہنے لگی کہ اے طوطے میں رات سے اسی فکر میں ہوں کہ معشوق میرا دانا ہے یا نادان عالم ہے یا جاہل۔ اگر چتر ہے تو اُس سے دوستی کرنا بہتر ہے اور اگر مورکھ ہے تو اُس سے دور ہی رہنا چاہیے۔ کیونکہ بیوقوف سے دوستی کرنا ایسا ہے جیسا کوئی اپنے  جی سے دشمنی کرے۔ طوطے نے کہا اے خجستہ تو جا اور یہ نقل سوداگر کی بیٹی کے گُم ہونے کی اُس سے کہہ۔ اگر وہ عقلمند ہے اور ہوشیار، تو اس کا تجربہ کر۔ اگر تیرے سوال کا جواب دے دے تو دانا جانیو نہیں تو نادان سمجھیو۔ خجستہ نے پوچھا کہ وہ حکایت کیونکر ہے۔ کہہ :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کابل میں ایک سوداگر مالدار تھا اور اُس کی زہرا نام بیٹی بہت خوبصورت تھی۔ تمام شہر کے عمدہ لوگ اُس کی آرزو کہتے تھے پر وہ کسی کو قبول نہ کرتی تھی اور اپنے باپ سے یہی کہتی تھی کہ میں اُس شخص سے شادی کروں گی جو دانشمند کامل ہو گا۔ اور ہنرمند بے بدل۔اس بات کا شہرہ ہر ایک شہر میں پہنچا۔ غرض کسی ملک میں تین جوان تھے۔ وہ تینوں کابل میں جا کر اُس سوداگر سے کہنے لگے اے شخص اگر تیری لڑکی شوہر ہُنر مند چاہتی ہے تو ہم تینوں آدمی حاضر ہیں کہ بالفعل اس جہان میں ہمارے برابر ہنرمند کوئی نہیں ہے۔ اُس نے پوچھا کیا ہنر رکھتے ہو۔ اُن ہی میں سے پہلے ایک نے کہا میں یہ ہنر رکھتا ہوں کہ جو چیز گم ہو بتا دیتا ہوں اور جس جگہ ہو نکال دیتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں کل کا گھوڑا ایسا بناؤں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت سے بھی آگے اُڑاؤں۔ تیسرے نے کہا کہ میں وہ تیر انداز ہوں۔ جو میرے تیر کا پھل کھاوے سو کھیت چھوڑ باہر نہ جاوے۔ یہ سخن سن کر وہ تاجر اپنی بیٹی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بیٹی آج تین شخص ایسے ہنر مند آئے ہیں۔ اب کیا کہتی ہے۔ اُس نے تعریف سن کر کہا۔ بابا جان میں اپنے جی میں سوچ کر کل اس بات کا جواب دوں گی۔ اور اُن میں سے ایک کو پسند کر لوں گی۔ یہ بات کہہ کر آپ رات کے وقت گُم ہو گئی۔ صبح کو  اُس کے باپ نے ہر چند ڈھونڈا، کہیں نہ پایا۔ خدا جانے کہاں گئی۔ صبح کو سوداگر پہلے شخص کے پاس گیا اور پوچھا۔ سچ کہہ کہ میری لڑکی یہاں سے کہاں گئی اور کہاں ہے؟ اُس نے یہ بات سنتے ہی تامل کیا اور بعد ایک گھڑی کے کہا کہ اُس کو ایک پری فلاں پہاڑ پر لے گئی ہے کہ وہاں نہ تو کوئی جا سکتا ہے نہ کوئی اُس کی خبر لا سکتا ہے۔ تب اُس سوداگر نے دوسرے سے کہا کہ تو کاٹھ کا گھوڑا بنا کر اُس تیسرے جوان تیر انداز کو دے کہ وہ اُس گھوڑے پر سوار ہو کر جاوے اور اُس پری کو تیر سے مار کر میری لڑکی کو اپنے پیچھے چڑھا کر لے آوے۔ آخر کار اُس نے کاٹھ کا گھوڑا اُس تیر انداز کو دیا۔ وہ اُس گھوڑے پر سوار ہو کر اُس پہاڑ پر گیا اور ایک تیر اُس پری کو مار کر اُسے لے آیا۔ پھر وہ تینوں جوان اُس لڑکی پر عاشق ہو کر آپس میں قصہ کرنے لگے۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ میں ہی اپنی شادی اس کے ساتھ کروں۔ طوطے نے جس گھڑی یہ سخن یہاں تک پہنچایا۔ خجستہ سے کہا یہ حکایت اپنے معشوق سے پوچھ کہ وہ لڑکی اُن تینوں سے کس کو دینی پہنچتی ہے۔ اگر جواب باصواب دے تو جانیو کہ ہشیار ہے اور نہیں تو نالائق و نابکار۔ خجستہ نے کہا اے طوطے پہلے تو مجھ سے تو کہہ دے کہ وہ کسے پہنچتی ہے۔ بھلا میں دریافت کر رکھوں۔ طوطے نے نے کہا۔ اُسے پہنچتی ہے جو پری کو مار کر اُسے لے آیا ہے۔ کیونکہ اُن دونوں نے اپنا ہنر دکھلایا اور وہ اپنے جی پر کھیلا جو ایسے خوف کے مکان پر گیا اور اُس کو لے آیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا۔ اے خجستہ اب جا اور اُس سے مل۔

 

فرد

 

کہاں پھر یہ موسم جوانی کہاں

غنیمت سمجھ صحبتِ دوستاں

 

خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُس گلرو کو گلے لگاوے، اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ دوہا پڑھا اور رونے لگی۔

 

دوھا

 

آؤ پیارے نین میں پلک ڈھانپ تو ہے لُوں

نا میں دیکھوں اور کو نہ تو ہے دیکھن دُوں

پچیسویں داستاں کہ برہمن نے بابل کے بادشاہ کی بیٹی پر عاشق رو کر اپنی دانائی سے مع مال اور اسباب اُس کو پایا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، تب خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے عقلمند بھلی بات کی نصیحت کرنے والے اور اے وفادار حرمت کے رکھنے والے بہتر یہی ہے کہ آج مجھے جلد رخصت کر۔

 

فرد

 

ساقی خبر شتاب لے میرے خمار کی

طاقت نہیں رہی مجھے اب انتظار کی

 

اور نہیں  تو صاف جواب دے کہ صبر کر کے  بیٹھ رہوں، اور یہ فرد پڑھا کروں۔

 

فرد

 

بلبلو جاؤ تمہیں گل کے گلے سے لگ لو

دستِ صیاد سے گلشن کو میں ہو بیٹھی ہوں

 

طوطا کہنے لگا اے خجستہ میں تجھے ہر ایک شب رخصت کرتا ہوں، پر کہا نہیں جاتا کہ نصیب تیرے کیسے ہیں کہ تجھ سے یاری نہیں کرتے۔ بہتر ہے کہ آج شتاب جا اور اپنے معشوق سے جا کر ملاقات کر۔ لیکن یہ نصیحت میری یاد رکھیو کہ جو کام کرنا سو ایسا کرنا جس کے سبب سے کسی آفت میں نہ پڑو۔ بلکہ کچھ فائدہ اُٹھاؤ۔ جیسا ایک برہمن رائے بابل کی بیٹی پر  عاشق ہوا اور ایک تدبیر سے معشوق اور مال  و اسباب اُس کے ہاتھ آیا اور کسی آفت میں نہ پھنسا۔

 

شعر

 

شرط سلیقہ ہے ہر ایک امر میں

عیب بھی کرنے کو ہُنر چاہیے

 

خجستہ نے پوچھا وہ حکایت کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک برہمن خوبصورت عقلمند گردش فلکی سے اپنے شہر کو چھوڑ کر رائے بابل کے ملک میں گیا اور ایک دن کسی باغ میں جا کر سیر گل و غنچہ کی کرنے لگا۔ قضا رائے بابل کی بیٹی بھی اُس چمنستان میں بہار لالہ و گل کی دیکھتی پھرتی تھی۔ اتفاقاً نظر اُس برہمن کی اُس مہ جبین پر پڑی اور اُس لڑکی کی آنکھ بھی اُس برہمن مہر طلعت کی آنکھ سے لڑی۔ جوانی کی اُمنگ نے اپنی قوت دکھائی اور شعلہ عشق نے آتش محبت دونوں طوف سے بھڑکائی۔ حاصل کلام یہ ہے۔

 

حسن

 

ہوئے دونوں وے عشق کے دستگیر

مقید یہ اُس کا وہ اُس کی اسیر

 

بعد دو چار گھڑی کے دونوں اپنے اپنے گھر آئے۔ وہ  دیوانی ہوئی اور یہ بیمار پڑا۔ آخر یہ برہمن ایک جادوگر کے پاس جا کر اُس کے قدم پر گرا ور یہ قطعہ پڑھنے لگا۔

 

قطعہ

 

رنج کھینچے ہیں داغ کھائے ہیں

دل نے صدمے بڑے اٹھائے ہیں

اب  قدم آپ کے نہ چھوڑوں گا

بڑی محنت سے میں نے پائے ہیں

 

اور اُس جادوگر کی یہاں تک خدمت کی کہ وہ اُس کی جانفشانی دیکھ کر شرمندہ ہوا۔ اور ایک دن مہربان ہو کر پوچھنے لگا۔ اے غریب آشفتہ طلعت تو آزمائش چاہتا ہے یا کچھ کام دنیوی رکھتا ہے۔ جو کچھ درکار ہو اُس کا انجام یہ فقیر کر دے۔ برہمن نے یہ سخن سُن کر اُس جادوگر کے سامنے ہاتھ باندھ کر اپنا احوال بخوبی تمام ظاہر کیا۔ تب اُس نے کہا خیر میں جانتا تھا کہ مجھ سے کان زر چاہے گا یا کچھ ایسا کام کہے گا کہ وہ مجھ سے نہ ہ سکے گا اور آدمی کو آدمی سےے ملانا کیا بڑی بات ہے۔ یہ کہہ کر اُس گھڑی ایک مُہرہ حکمت کا بنا کر اُس برہمن کو دیا اور کہنے لگا کہ یہ مہرہ اگر اپنے منہ میں رکھے تو عورت معلوم ہووے اور اگر عورت رکھے تو مرد معلوم ہووے۔ یہ کہہ کر ایک دن وہ جادوگر اُس برہمن کی شکل ہو اور اُس برہمن کو برہمنی کی صورت بنا کر رائے بابل کے پاس جا کر کہنے لگا۔ کہ مہاراج کی جے ہو۔ میں برہمن ہوں۔ میرا لڑکا دیوانہ ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔ یہ اُس کی جورو ہے۔ اگر اس کو اپنے پاس گھر میں دو چار دن کے واسطے جگہ دو گے تو اس عرصہ میں میں اپنے لڑکے کو ڈھونڈھ نکالوں گا۔ رائے بابل نے یہ بات اُس کی قبول کی اور اُس برہمنی کو اپنے گھر میں جگہ رہنے کو دی۔ اور برہمن جادوگر کو کچھ خرچ راہ دلوا کر رخصت کیا۔ پھر اُس برہمنی کو اپنی بیٹی کے پاس رکھا۔ دونوں بخوبی آپس میں عاشق اور معشوق ملے۔ خجستہ تو نے دیکھا کہ کس حکمت سے اُس جادوگر نے برہمن کو اُس کی آشنا کے پاس پہنچا دیا اور آپ بھی کچھ روپیہ لیکر اپنے گھر گیا۔ غرض وہ لڑکی برہمنی کو بہت سا پیار کرنے لگی۔ تب ایک دن برہمنی نے پوچھا کہ رنگ تیرا دن بدن زرد ہوتا جاتا ہے اور آنکھوں سے رات دن آنسو جاری ہیں۔ بیماروں کا سا حال بنایا ہے۔ سچ کہہ کیا کسی سے دل لگایا ہے۔ اُس لڑکی نے چاہا کہ اپنا احوال اُس سے چھپاوے۔ پر برہمنی نے اُس سے چالاکی کر کے کہا میں جانتی ہوں کہ تو کسی پر عاشق ہے۔  اگر راز اپنا مجھ سے کہے گی تو کارسازی تیری کروں گی۔ تب اُس لڑکی نے تمام حقیقت مو بمو اس طور سے کہہ سُنائی کہ میں ایک برہمن بچے پر مرتی ہوں اور اُس کے غم میں اپنی جوانی کے دن بھرتی ہوں۔ وہ برہمن جو برہمنی کے بھیس میں تھا کہنے لگا کہ سچ کہہ۔ اگر تو اُس برہمن کو دیکھے تو پہچانے۔ اُس نے کہا البتہ اگر اُس کو دیکھوں گی تو پہچان لوں گی۔ اُس نے مُہرہ اپنے منہ سے اُگل دیا، وہیں اپنی صورت پر آ گیا اوور اُس نے اُسے پہچان کر خوب گلے سے لگایا اور ایک عجیب طرح پر چین اُٹھایا۔ بعد کتنے دنوں کے آپس میں مشورت کر کے کہنے لگا۔ کہ اب یہاں کا رہنا اچھا نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس ملک سے نکلیے اور کسی شہر میں چل کر بے کھٹکے رہیے۔ یہ ٹھہرا کر رائے بابل کی بیٹی بہت سا زر و جواہر اپنے باپ کے خزانے سے لیکر برہمن کے ساتھ آدھی رات کو اپنے گھر سے باہر نکلی اور کسی اور ملک کی راہ لی۔ کتنے دن میں کسی اور بادشاہ کے شہر میں جا کر داخل ہوئی، اور ایک مکان سر بازار اچھا سا بنا کر رہنے لگی۔ اور اپنے دل کی تمنا بیدھڑک ہو کر نکالنے لگی۔ اور اگر کبھی اختلاط کے وقت شعر خوانی پر جی چلتا تو یہ قطعہ پڑتی۔

 

قطعہ

 

صبح تو جام سے گزرتی ہے

شب دلآرام سے گذرتی ہے

 

عاقبت کی خبر خدا جانے

اب تو آرام سے گذرتی ہے

 

جب اُس لڑکی کے باپ نے وہاں اُن دونوں کو نہ دیکھا، نہایت فکر مند ہوا اور ہر چند ڈھونڈا، کچھ سراغ نہ پایا۔ کیونکہ اُس کے ملک سے نکل کر کسی اور سرحد میں گئے تھے۔ جب طوطے نے یہ کہانی کہہ کر کہا۔ اے بی بی جلدی سدھارو اور حسرتیں دل کی اُس سے مل کر نکالو۔ تو کد بانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور لذت زندگانی کی اُس سے مل کر اٹھاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مُرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھا اور رونے لگی۔

 

چھوٹ جائیں غم کے ہاتھوں سے جو نکلے دم کہیں

خاک ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں

چھبیسویں داستان جانا رائے بابل کے بیٹے کا بتخانے میں پوجا کو اور عاشق ہونا ایک عورت پر، پھر اُسے پانا پھر مارنا اپنے تئیں پھر زندہ ہونا اور جھگڑا سر اور تن کا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنے معشوق کے پاس جاؤں اوور پہلے اُس کی عقلمندی دریافت کروں۔ اگر عقلمند پاؤں گی تو دوستی کروں گی اور نہیں  تو باز رہوں گی۔ اور صبر کروں گی۔ کس واسطے کہ شعور مندوں نے کہا ہے کہ تا بمقدور تین شخصوں سے آشنائی نہ کیا چاہیے اور اُن کی آشنائی کا اعتماد نہ کریئے۔ اول 1 عورتوں کی دوستی کا،  دوسرے 2 لڑکوں کے اخلاص کا، تیسرے 3 احمقوں کے ساتھ کا۔ نقل مشہور ہے۔ دانا کی دشمنی نادان کی دوستی سے بہتر ہے۔ طوطے نے کہا کہ اے بی بی تو جو کہتی ہے سچ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس رات ایک حکایت اپنے دوست کے سامنے بیان کرے اور اُس سے پوچھے۔ اگر جواب ایسا دے کہ جو پسندیدہ ہو تو اُسے عاقل اور ہوشیار سمجھو اور اگر جواب اچھا نہ دے تو نادان جانیو۔ خجستہ نے پوچھا وہ نقل کون سی ہے جو اُس سے پوچھوں۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت رائے بابل کا بیٹا ایک بتخانے میں پوجا کرنے گیا۔ اور وہاں ایک لڑکی کو دیکھا کہ وہ اتنی خوبصورت تھی۔ کہ بیان نہیں کیا جاتا۔ عجب حُسن اُسے خدا نے دیا تھا۔ سبحان اللہ چودہویں رات کا چاند اُس کے مکھڑے سے شرمائے۔ اور سیاہی اُس کی زلف کی رات کو آٹھ آٹھ آنسو رولائے۔ قد اُس کا اگر سرو دیکھے تو مارے خجالت کے زمین میں گڑ جائے۔ اور کبک اُس کی رفتار کو نہ پائے۔

 

شعر

 

غضب جوڑے کی بندش ہے قیامت قد بالا ہے

ستم چتون پری مکھڑا بدن سانچے میں ڈھالا ہے

 

وہیں اُس کا عاشق ہوا اور دل نے بیقراری جو کی تو گھبرا کر اُس بُت کے پاؤں میں سر جھکا کر گِر پڑا اور دعا عاجزی سے مانگی کہ اگر یہ لڑکی میرے ساتھ بیاہی جاوے تو سر اپنے تن سے جدا کروں  اور تمہارے قدم پر چڑھاؤں۔ آخر کار یہ کہہ کر اپنے گھر گیا اور اُس کے باپ کو اُس نے یہ پیغام دیا کہ مجھے اپنی غلامی میں لیجیے اور اپنی لڑکی کو بیاہ دیجیے۔ جس گھڑی یہ پیغام اُس کے باپ نے  سُنا، اُسی گھڑی اپنی لڑکی کا بیاہ اور گونا اُس کے ساتھ کر دیا۔ پھر وہ دونوں بطور عاشق و معشوق کے آپس میں رہنے لگے۔ یہ اپنے گھر اُس کے ساتھ چین کرتی اور کبھی وہ اپنے مکان  میں اُس کے ساتھ آرام کرتا۔ اسی طرح ایک مہینہ گزرا۔ اتفاقاً وہ لڑکی اپنی سسرال میں تھی کہ اُس کے ماں باپ نے اُسے اور اُس کے دولہا کو اپنے گھر بلوایا۔ وہ لڑکا اپنی دولہن کو  ساتھ لئے ہوئے چلا اور ایک برہمن بھی قدیم اُس کے  مصاحبوں میں تھا۔ وہ بھی اُس کے ساتھ پیچھے پیچھے ہو لیا۔ جس وقت وہ لڑکا اُس بُت خانے کے پاس پہنچا جہاں اُس لڑکی کو دیکھا تھا اور وہ اقرار جو کیا تھا سو یاد آیا اور وعدہ وفا کرنے کو بتخانے میں اکیلا گیا اور سر کاٹ کر اُس بُت کے پاؤں پر دھر دیا۔

 

فرد

 

نام پر اپنے مرد جاتے ہیں

عیش کھوتے ہیں جی گنواتے ہیں

 

بعد ایک دم کے جو برہمن اُس بتخانے میں گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رائے بابل کا لڑکا مردہ پڑا ہے۔ اور اُس کے تن سے سر بھی جُدا ہو رہا ہے۔ یہ ماجرا دیکھ کر برہمن ڈرا اور جی میں کہنے لگا کہ میں اگر یہاں سے جیتا جاؤں گا تو لوگ یہی معلوم کریں گے کہ یہ لڑکا اس جگہ اس نے مارا ہے۔ کیونکہ اب تک اس مکان پر سوائے اُس کے اور کوئی بھی نہیں آیا۔ غرض اُس نے بہت سا اندیشہ اپنے دل میں کر کے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ میں بھی اپنا سر تن سے اُتاروں اور اُس بُت کے قدم پر چڑھاؤں۔ یہ کہہ کر اُس نے بھی اپنا سر اتارا اور اُس بُت کے قدم پر گر پڑا۔ بعد ایک گھڑی کے وہ لڑکی بھی اُس بتخانے میں گئی اور اُن دونوں کو مردہ دیکھ کر متعجب ہوئی اور کہنے لگی کہ ہے ہے دونوں سر کٹے لہو لہان پڑے ہیں۔ یہ کیا غضب ہوا۔ یہ کہہ کر چاہتی تھی کہ اپنا سر کاٹے یا شوہر کی لاش کو گلے لگا کر ستی ہو جاوے۔ اتنے میں اُس ڈیوڑھی سے آواز آئی۔ کہ اے لڑکی یہ سر کٹے ہوئے تو اُن کے تنوں سے لگا دے۔ رام کی کرپا سے یہ دونوں ابھی جی اُٹھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ خوش ہوئی اور جلدی سے اپنے شوہر کا سر برہمن کے تن پر اور برہمن کا سر اپنے خاوند کے تن پر رکھ دیا۔ دونوں جی اُٹھے اور اُس عورت کے آگے کھڑے ہو گئے۔ رائے بابل کے بیٹے کے سر سے اور برہمن کے تن سے قصہ ہونے لگا۔ کہ  یہ میری جورو  ہے اور تن نے کہا کہ یہ میری قبیلہ ہے۔ طوطے نے یہ حکایت تمام کی اور خجستہ سے کہا اگر اُس کی عقل آزمانا چاہتی ہے تو یہی بات ہے۔ اُس سے پوچھ کہ وہ عورت سر کو پہنچتی ہے یا دھڑ کو۔ خجستہ نے کہا کہ اے طوطے پہلے تو یہی کہہ کہ مستحق اس کا کون ہے۔ طوطا بولا کہ ذی حق اُس کا سر ہے۔ کس واسطے کہ سر عقل کی جگہ ہے اور بدن کا سردار۔ خجستہ نے جو یہ قصہ سنا۔ قصد اپنے یار کے پاس جانے کا کیا۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ اور ریہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

وصل کی شب پر اے صباح فراق

روز نو روز بھی تصدق ہے

ستائیسویں داستان کہ عیاری اور سخن سازی سے ایک عورت اپنے خاوند سے سرخرو رہی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا۔ خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے طوطے میں اس بات سے ڈرتی ہوں اور شرمندہ ہوئی جاتی ہوں کہ جب اُس سے ملوں اور وہ دیر ہونے پر غصہ کرے تو میں نہیں جانتی کہ تب میں کون سا بہانہ کروں۔ طوطے نے کہا اے کد بانو تو کچھ اندیشہ نہ کر۔ اس واسطے کہ عورتیں بہت سی باتیں کر جانتی ہیں۔ کیسے کیسے فریب بناتی ہیں اور کیا کیا مکر یاد رکھتی ہیں اور حاضر جواب ہوتی ہیں۔ میں نے آپ کی زبان سے بہت عذر سُنے ہیں اور پسند کیے ہیں۔ تو ایسی بھولی بھالی نہیں کہ کچھ نہیں جانتی۔ کیا خوب مثل مشہور ہے۔

 

اشعار

 

چرتر پہ عورت اگر اپنے آئے

تو ہاتھی کو پیڑ ہی کے نیچے چھپائے

 

کف دست پر کب نکلتے ہیں بال

وہ چاہے تو اُس پر بھی سرسوں جمائے

 

ایسے ایسے سخن کی فکر کرتی ہے۔ کچھ خیر ہے۔ دم بھر ٹھہر۔ جی سنبھال جی کو ڈھارس دے۔ قدرے توقف کر کہ ایک عورت نے حوصلہ اور عیاری اپنے شوہر کے ساتھ کی وہ بھی تجھے سُناؤں۔ خجستہ نے پوچھا اُس کی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک شخص نے اپنے قبیلہ کو کئی ایک پیسے کر لانے کو دیئے اور وہ شکر لانے بازار میں بنیئے کی دوکان پر گئی۔ بنیا اُسے دیکھتے ہی عاشق ہوا۔ پھر اُس عورت نے سیر بھر شکر مول لے کر اپنی چادر کے کونے میں باندی۔ اتنے میں وہ بنیا اُس سے لگاوٹ کرنے لگا۔ اور باتیں خوش طبعی کی کیں۔ وہ بھی راضی ہو گئی۔ بعد اس راز و نیاز کے وہ اُس عورت کو اپنے گھر لے گیا اور وہ چادر گرہ باندھی ہوئی بنیئے کی دوکان پر رکھ کر اُس کے ساتھ چلی گئی۔ تب اُس بنیئے کے گماشتہ نے اپنی چالاکی سے اتنے عرصہ میں جھٹ پٹ شکر اُس کی چادر کے کونے سے کھول لی اور اتنی ریت اُس کی جگہ باندھ دی۔ اتنے میں وہ رنڈی اُس کے مکان سے نکلی اور جھٹ پٹ چادر اُٹھا اپنے گھر کی طرف راہی ہوئی اور اپنے خاوند کے آگے بیدھڑک چلی گئی اور وہ پوٹلی اُس کے آگے دھر دی۔ اُس نے گرہ کھول کر جو دیکھا تو شکر کے بدلے ریت نظر آئی۔ حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کیا مسخرہ پن ہے جو تو مجھ سے کرتی ہے۔ میں نے شکر کو بھیجا تھا تو ریت لائی۔ اُس نے یہ سنتے ہی بے تامل کہا۔

 

فرد

 

اگر یوہیں شکر میں لاتی رہوں گی

تو اک دن میں جی ہی سے جاتی رہوں گی

 

تب اُس مرد نے گھبرا کے پوچھا بی بی یہ کیا سبب ہے جو کچھ آج تو بدحواس معلوم ہوتی ہے۔

 

فرد

 

شکر کی جگہ ریت لائی ہے کیوں

یہ رونی سی صورت بنائی ہے کیوں

 

تب اُس نے مسکرا کر کہا، اجی کیا کہوں جس وقت میں گھر سے باہر نکلی، اُس وقت میرے پیچھے ایک بیل ڈکارتا ہوا دوڑا۔ اُس کے ڈر سے میں بھاگی۔ اُسی صدمے سے میں گری۔ پیسے بھی زمین پر گر پڑے۔ لوگوں کی شرم سے ڈھونڈھ نہ سکی۔ یہ ریت اُٹھا کر لے آئی ہوں۔ پیسے اس میں ہوں گے۔ تم نکال لو۔ میں نہایت تھکی ماندی ہوں۔ کہو تو قدرے سو رہوں۔ یہ بات سنتے ہی اُس کے خاوند نے اُس کو گلے لگایا اور مچھیاں لیکر کہا اگر پیسے گر پڑے تھے تو تم ریت کیوں اُٹھا لائیں۔ حاصل کلام عورت نے ایسا بے تامل اپنے خاوند کو جواب دیا کہ مطلق وہ اُس پر خفا نہ ہوا۔ بلکہ اور مہربانی کرنے لگا۔ طوطے نے جب تک یہ کہانی تمام کی، خجستہ سے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے۔ تو اُس سے بھی زیادہ کر سکتی ہے۔ کچھ خطرہ نہیں بی بی اب شتاب جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا۔ اگر وہ تجھ پر غصہ کرے گا تو البتہ اس وقت تجھے جواب معقول سوجھے گا۔ طوطے کی اس شیریں سخنی سے خجستہ کی تسلی ہوئی۔ مغرق کفش جھمنھماتی ہوئی پاؤں میں پہن کر چاہتی تھی کہ اُٹھے۔ اتنے میں مرغ بولا اور صبح ہوئی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

 

فرد

 

کون سی شب کو ہو گا وصل نگار

ہر سحر ہے ہماری دشمن کار

اٹھائیسویں داستان کہ بادشاہ سوداگر کی لڑکی پر عاشق ہوا اور اہلکاروں کی تدبیر سے وہ لڑکی بادشاہ تک نہ پہنچی۔ اور بادشاہ اُس کے فراق میں مر گیا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا۔ خجستہ شرمندوں کی سی صورت بنائے ہوئے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ اے محرم راز تیرے مین واری۔ عقلمندوں نے کہا ہے کہ جسے شرم نہیں ہوتی وہ کسی قوم میں حرمت نہیں رکھتی اور وہ عورت مستوراتوں میں بد ہے۔ اب بھی چاہتی ہوں کہ صبر کروں اور اپنے گھر میں بیٹھ رہوں۔ کسی غیر مرد سے آشنائی نہ کروں اور نہ کسی کے گھر جاؤں۔

 

فرد

 

گھر سے نکلوں غیر کی میں جستجو کے کے واسطے

لوگ جی دیتے ہیں اپنی آبرو کے واسطے

 

طوطا کہنے لگا۔ اے خجستہ حق تو یہی ہے کہ تجھ سی عورت عقلمند اور ہوشیار آج تک نہیں دیکھی ہے۔ سچ کہتے ہیں۔

 

دوھا

 

نیناں وہی سراہیے کہ جن نینن میں لاج

بڑے بھئے اور بکھ بھرے سو آویں کونےکاج

 

لیکن ڈر یہ ہے کہ اگر صبر کرے گی تو جان تیری بھی اُس بادشاہ کی طرح سے نکل جاوے گی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت مالدار اور صاحب وقار تھا اور بہت سے گھوڑے اور ہاتھی اپنے پاس رکھتا تھا اور اُس کی بیٹی بہت خوبصورت اور حسین تھی۔

 

فرد

 

وہ نقشہ جسے دیکھ مہ داغ کھائے

وہ صورت کہ تصویر کو حیرت آئے

 

اور شہرہ اُس کی خوبصورتی کا ہر ایک شہر میں پہنچا تھا۔ اور ہر شخص دیدہ و نادیدہ اُس کے دیکھنے کا مشتاق تھا۔ اور ہر ایک یہی چاہتا تھا۔ کہ اپنی شادی اُس کے ساتھ کرے لیکن باپ اُس کا مارے غرور کے کسی کو قبول نہ کرتا تھا۔ اس عرصہ میں اُس کا عہد شباب قریب پہنچا اور نخل جوانی ثمر کامرانی سے پھلنے لگا۔ اور کچھ کچھ جوبن اُبھرا تب اُس کے باپ نے اس ملک کے بادشاہ کی خدمت میں جا کر اس مضمون کی عرضی گذاری کہ یہ غلام ایسی حسین لڑکی رکھتا ہے کہ گفتگو اس کی رشک بلبل ہزار اور چال اُس کی غیرت کبک کوہسار ہے۔ جانور اُس کی باتیں سننے کے واسطے ہوا پر سے اُترتے ہیں اور مست و بیہوش ہوتے ہیں۔ جس نے اُس کے سخن کو سُنا ہے، اُس نے غش کھایا ہے۔ اگر وہ لڑکی حضور میں مقبول ہو اور خدمت میں کنیز کی طرح مشغول رہے کہ لایق حضور کے ہے۔ تو یہ فدوی ہم قوم میں اور بھی بزرگی پیدا کرے اور اس قدر اُس کی زیادہ ہو۔ بادشاہ نے جو عرضی ملاحظہ کی تو خوش و خرم ہوا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ جو کوئی نصیب اچھے رکھتا ہے تو ایک چیز خود بخود آ رہتی ہے۔ یہ کہہ کر اپنے چاروں وزیروں کو اشارہ کیا کہ تم اس تاجر کے گھر جاؤ اور اس کی بیٹی کو دیکھو اور احوال کماحقہ دریافت کرو۔ اگر وہ قابل حضور عالی ہو، جلدی آ کر خبر کرو۔ غرض وہ چاروں وزیر بادشاہ کے فرمانے کے بموجب اُس سوداگر کے گھر گئے۔ اُس لڑکی کی صورت دیکھتے ہی عاشق ہوئے۔

چاروں وزیر مرسلہ بادشاہ کے و بیٹی سوداگر کی کہ نہایت حسین اور صاحب جمال تھی

اور آپس میں مشورت کرنے لگے کہ اگر اس صاحبِ حسن کو بادشاہ دیکھے گا، تو دیوانہ ہو جائے گا۔ رات دن اُسی کے پاس رہے گا، ملک کی طرف متوجہ نہ ہو گا۔ پس ہر ایک کام تباہ ہو گا اور ملک کے بندوبست میں خلل پڑے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اُس کی تعریف اُس کے سامنے نہ کی جائے اور اس لڑکی کے لینے کی صلاح بادشاہ کو نہ دی جائے۔ یہ بات اُنہوں نے اپنے جی میں ٹھہرا کر بادشاہ سے جا کر عرض کی کہ خداوندا، اُس کی خوبصورتی کی خبر جو حضور میں پہنچی سو غلط ہے۔ اُس سے بہتر بہتر لونڈیاں محل مبارک میں بہت ہیں۔ بادشاہ نے یہ سُن کر کہا خیر اگر وہ ایسی ہے جو تم کہتے ہو تو میری بھی مرضی نہیں۔ کہ اُس کے ساتھ شادی کروں اور اپنے اوپر خواہ مخواہ کا عذاب لوں۔ آخر بادشاہ نے اُس سوداگر بچی کو قبول نہ کیا اور وہ سوداگر جب وہاں سے مایوس ہو کر پھرا، تب اُس نے شہر کے کوتوال سے اُس کی شادی کر دی۔ ایک دن اُس لڑکی نے اپنے دل میں کہا کہ میں اس قدر خوبصورت و حسین ہوں۔ تعجب ہے کہہ مجھے بادشاہ نے قبول نہ کیا۔انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن اپنے تئیں اُس کو دکھلاؤں گی۔ القصہ ایک دن وہ بادشاہ اُس کوتوال کی حویلی کی طرف سے کسی باغ کی سیر کو جاتا تھا کہ جلدی سے وہ لڑکی کوٹھے پر چڑھ گئی اور بادشاہ کو اپنے حُسن کا جلوہ دکھایا اور دیکھتے ہی وہ عاشق ہو گیا۔ اور وزیروں کی طرف غضب سے نگاہ کر کے یہ فرد پڑھی :

 

فرد

 

دشمنی میں بھی یہ نہیں کرتے

دوستی میں جو تم نے دکھلایا

 

اور کہنے لگا یہ کیا سبب تھا جو تم نے مجھے سے جھوٹ کہا۔ تب اُنہوں نے عرض کی کہ خداوندا اُس وقت ہم گنہگاروں نے یہ مشورت کی تھی کہ اگر بادشاہ ایسی عورت صاحب جمال کر دیکھے گا تو اُس کے عشق میں بالکل ملک کے کاروبار سے غافل ہو جائے گا۔ سلطنت خاک میں ملے گی اور رعیت تباہ ہو جائے گی۔ بادشاہ کو یہ بات اُن کی پسند آئی اور خطا اُن کی معاف کی۔ مثل مشہور ہے۔ بات ہاتھی پائیے بات ہاتھی پاؤں، آخر اُس کے عشق میں بیمار پڑا اور یہ قطعہ پڑھنے لگا۔

 

قطعہ

 

یہی پیغام درد کا کہنا اگر صبا کوئے یار میں گزرے

کونسی رات آن ملیے گا، دن بہت انتظار میں گزرے

 

تب وزیروں نے معلوم کیا کہ یہ کوئی دن میں جان سے جاتا ہے۔ عرض کی کہ کوتوال سے اُس عورت کو لے لیں اور حضور شربت وصال نوش جان فرمائیں۔ اگر وہ اُس کے بھیجنے پر راضی ہو تو بہتر، نہیں تو بزور چھین لیں ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں ملک کا بادشاہ ہوں، ہرگز ایسا کام نہ کروں گا۔ یہ بات بادشاہوں کو لازم نہیں جو اس قدر ظلم و ستم نوکروں اور رعیت پر کریں اور اپنی قوت انہیں دکھلاویں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ سوائے اُس کے جو ظلم کرتا ہے۔ سو آپ ہی آپ خراب ہوتا ہے۔

 

فرد

 

جو کہ ظالم ہے وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں

سبز ہوتا کھیت ہے دیکھا کہیں شمشیر کا

 

بالفعل اس بیت پر عمل کرتا ہوں۔

 

فرد

 

جی گنوانا سہل ہے آگے مرے

پر نہ دوں گا اپنے ہاتھ سے

 

آخر کار بادشاہ کی اُس کے غم میں یہ حالت پہنچی کہ تمام ہو گیا۔ طوطے نے جب یہ کہانی تمام کی تب خجستہ سے کہا۔ صبر کرنا تیرے حق میں اچھا نہیں۔ اگر تو بھی صبر کرے گی تو اُس بادشاہ کی طرح سے مر جائے گی۔ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ اب جا اور اُس سے ملاقات کر۔

 

حسن

 

خوشی سے مے وصل کو نوش کر

غم دین و دنیا فراموش کر

 

خجستہ نے یہ سُن کر چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچا دے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

 

فرد

 

دن یہ کیسا فلک دکھاتا ہے

شبِ امید سے چُھڑاتا ہے

اُنتیسویں داستان ایک کمہار کی کہ بادشاہ نے اپنے لشکر کا اُسے سردار کیا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ آہ و زاری کرتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے دل پُر درد سے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں نے سُنا ہے کہ ایک غریب اعرابی نے کسی دولتمند سے جا کر کہا میں کعبہ کو جاتا ہوں۔ اُس نے کہا بہت بہتر۔ دیر نہ کیجیے، بلکہ جلد سدھاریئے۔ اُس نے کہا میں کچھ خرچ نہیں رکھتا ہوں۔ دولتمند نے کہا اگر تیرے پاس خرچ نہیں ہے تو مت جا۔ میں کتاب کی رو سے کہتا ہوں کہ جو مفلس ہو، اُس پر کعبہ کا جانا فرض نہیں کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر عذاب اُٹھاوے اور مکہ جاوے۔ خدا نے محتاج کو نہیں کہا کہ تو مکے کو جا۔ اعرابی نے کہا کہ میں تیرے پاس کچھ زر مانگنے آیا ہوں، مسئلہ پوچھنے نہیں آیا۔ جو تو کتاب کی رو سے باتیں بتاتا ہے۔ اے طوطے میں تجھ سے ہر شب صرف رخصت لینے آتی ہوں اور تو بے فائدہ اِدھر اُدھر کی باتیں بکا کتا ہے۔ نصیحت تو سننے میں نہیں آتی۔ انہیں باتوں سے تجھ پر خفا ہوں گی۔ یہ سن کر طوطا ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے بھی کسی طرح مار ڈالے۔ یہ سمجھ کر خوشامدیوں کی طرح باتیں کرنے لگا اور یہ شعر پڑھا۔

 

فرد

 

عجب نصیب اور ہماری قسمت خفا جو ہم سے تو بے سبب ہے

یہ کیا غضب ہے، جو تو غضب ہے بڑا غضب ہے، بڑا غضب ہے

 

اور کہنے لگا اے خجستہ میری نصیحت سے دل تنک نہ ہو اور بُرا مت مان۔ کس واسطے جو کوئی کسی کی اچھی بات قبول کرتا ہے تو وہ بات کچھ دنوں میں کام آتی ہے۔ کد بانو کہنے لگی اے طوطے جو تو کہتا ہے سو میں سنتی ہوں لیکن آج کی رات نہایت تاریک ہے اور میں اکیلی جاتی ڈرتی ہوں۔ اگر تو کہے تو اپنے غلام کو ساتھ لے کر جاؤں اور اُس اُمیدوار سے ملوں۔ یہ سُنتے ہی طوطا اپنے پروں سے چھاتی پیٹ کر کہنے لگا کہ ہے ہے خدا کے واسطے کہیں ایسا نہ  کرنا۔ خبردار غلام کو لیکر ہرگز نہ جانا۔ عقلمندوں نے کہا ہے کہ کمینہ ہرگز وفادار نہیں اور یہ قوم کم ظرف ہوتی ہے۔ شاید اُس کمہار کی کہانی نہیں سُنی جو ایسی باتیں نادانی کی کرتی ہے۔ خجستہ نے اُس سے پوچھا کہ اُس کی حکایت کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ ایک کمہار نے کسی دن بہت شراب پی اور بدمست ہوا۔ کوزے اور قرابے شیشے کے جو باسن شراب کے تھے، اُن پر گرا اور تمام بدن زخمی ہوا۔ مدت میں وہ زخم اچھے ہوئے۔ مگر نشان ان زخموں کے اس طرح سے معلوم ہوتے تھے کہ شاید زخم تیر و تلوار کے ہیں۔ اتفاقاً اُس کے شہر میں کال پڑا اور وہاں سے نکل کر اور شہر میں گیا تو نوکری کی تلاش کرنے لگا۔ اس شہر کے بادشاہ نے جو اُس کے تن پر اس طرح کے زخم دیکھے تو معلوم کیا کہ شاید یہ بڑا سپاہی ہے جو اس قدر زخم بدن پر اُٹھائے ہیں۔ یہ سمجھ کر بادشاہ نے اُسے نوکر رکھا اور مرتبہ اُس کا زیادہ کیا اور اپنے دل میں کہا یہ بڑا سورما ہے، جو ایسا اُس کا بدن زخموں سے چور ہے۔ اور کئی دن کے ایک غنیم بادشاہ پر چڑھا اور گاؤں اطراف کے لوٹنے لگا۔ تب بادشاہ نے اُسے اپنی فوج کا سردار کیا اور چاہا کہ دشمن سے لڑنے کو بھیجے۔ جب یہ احوال اُس کمہار کو معلوم ہوا تو وہ ڈرا اور بیمار پڑا۔ حضور میں آ کر عرض کیا کہ خداوندا میں ذات کا کمہار ہوں۔ مجھ سے سر انجام لڑائی کا نہ ہو سکے گا۔ مثل مشہور ہے تیلی کیا جانے مشک کا بھاؤ۔ یہ سنتے ہی بادشاہ ہنسا اور اپنے دل میں شرمندہ ہوا۔اور کسی سردار کو اُس غنیم پر بھیجا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا کہ غلام کو ساتھ مت لیجا۔ اُس سے کام بھلائی کا نہ ہو گا بلکہ اور رسوائی کرے گا۔ تو اکیلی جا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اکیلی اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے اور حظ زندگانی کا اُٹھاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

 

بیت

 

روز و شب ہجر کے یکساں ہی چلے جاتے ہیں

نہ ہمیں صبح سے مطلب نہ ہمیں شام سے کام

تیسویں داستان ایک شیر اور شیرنی اور بچوں کی گیدڑ کے بچے کے ساتھ

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ مردانہ لباس پہن ہتھیار لگا لٹ پٹی پگڑی باندھ طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور اُس نے جو اُسے بانکپن سے دیکھا تو بے اختیار ہنسا اور کہنے لگا اے خجستہ مرحبا خوب کیا۔ کہ ایسی اندھیاری رات میں مردانہ لباس پہن کر تنہا آئی اور غلام کو ساتھ نہ لائی۔ کیا ہی اچھا کیا۔ سبحان اللہ۔ بی بی ماں تجھی کو جنی، حق تو یہ ہے کہ اس تیری ہوشیاری کے صدقے کس واسطے کہ ایک طوطا آج میرے قدیم دوستوں میں اڑا جاتا تھا۔ مجھے اس قید خانہ میں دیکھ کر اوپر سے نیچے اُترا اور میرے پاس آ کر بیٹھا۔ یہ نقل میں نے اُس سے سُنی تھی اور یہ حکایت بھی اُسی طرح کی ہے جو شب کو میں نے تجھ سے کہی تھی۔ سو طوطے نے بھی اس کے بموجب کہا۔ یقین ہے کہ اب کہیں خطا نہ پاؤ گی۔ خجستہ نے پوچھا کہ یہ نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک شیر مع شیرنی دو بچوں سمیت کسی جنگل میں رہا کرتا تھا۔ اتفاقاً ایک دن مارے بھوک کے بوکھلایا اور اُس صحرا میں شکار ڈھونڈنے لگا۔ حق تو یہ ہے کہ مشقت بہت سی اُٹھائی اور محنت بہت سی کی مگر شکار نہ پایا۔ تب بنا چاری گھر کی طرف پھرا۔ ناگاہ رستے میں اُس نے دیکھا کہ ایک بچہ ننھا سا گیدڑ کا آنکھیں بند کئے دو چار دن کا پڑا ہے اور بلبلاتا ہے۔ تب یہ اپنے جی میں خوش ہوا اور اُس کو اُٹھا کر اپنی مادہ کے پاس لے آیا اور کہنے لگا کہ میں نر ہوں۔ اگر دو چار دن اور بھی نہ کھاؤں گا تو رہ سکتا ہوں اور کچھ نہ ہو گا اور تو مادہ ہے۔ اگر تو آج فاقہ کرے گی تو شام ہی تک مر جائے گی۔ اس واسطے اس بچے کو لے آیا ہوں۔ تو اسے کھا اور اپنے بچوں کو دودھ پلا۔ اُس نے کہا کہ مجھکو ایسا نہ چاہیے۔ کیونکہ میں بچے ننھے اپنے آگے رکھتی ہوں۔ بھلا کس طرح سے اسے کھاؤں اور انہیں دودھ پلاؤں۔

 

کوکھ کو مت کسی کی آتش ۔۔۔۔۔ اپنی چھاتی پہ ہاتھ دھر دیکھو

 

اور سوائے اس کے تم نر ہو اور دل سخت رکھتے ہو۔ تم تو کھا نہیں سکتے، میں مادہ نرم دل ہوں کیونکر کھاؤں۔ اگر کہو تو اس یتیم کو بھی ان بچوں کی طرح سے پال لوں۔ شیر نے کہا بہتر۔ آخر شیرنی نے اُس بچے کو بھی اپنے بچوں کے ساتھ پالا۔ بعد کتنے دنوں کے وہ تینوں بڑے ہوئے۔ اور بچے شیر کے اُس کو بڑا بھائی جانتے تھے اور و بھائیوں کی طرح آپس میں کھیلا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کسی طرف کو گئے اور شکار کی تلاش کرنے لگے۔ ناگاہ ایک ہاتھی کسی سمت سے اُنہیں نظر آیا۔ وہ دونوں بچے شیر کے بے اختیار ہاتھی پر جھپٹے اور و وہ مارے ڈر کے پچھلے ہیی پاؤں ہٹا اور بھاگا۔ پھر کسی درخت کے تلے جا کر چھپ رہا۔ شیر کے بچوں نے اپنے بڑے بھائی کو بھاگتے دیکھا۔ آپ بھی بھاگے۔ بعد ایکدم کے آپس میں مل کر گھر میں آئے اور ماں سے وہاں کا ماجرا کہنے لگے۔ تب ماں اُن کی نے کہا کہ یہ بیٹا گیدڑ کا بچہ ہے۔ بہادری کب کر سکتا ہے۔

 

فرد

 

زاغ کب پہنچے ہے بیٹا کبک کی رفتار کو

بے تمہارے کون مارے پیل بدخونخوار کو

 

طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے خجستہ سے کہا، اب اُٹھ اپنے معشوق کے پاس جا اور اُس سے مل کر حظ زندگانی اُٹھا۔ کد بانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اپنے جانی کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح صادق ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی یونہیں رہا۔ تب یہ بیت پڑھا اور رونے لگی۔

 

بیت

 

صبح دم کرتا ہے یہ دل اشکباری بیشتر

ہو سحر کو خانہ ماتم میں زاری بیشتر

اکتیسویں داستان ایک امیر زادے اور سانپ کی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا۔ خجستہ چاک گریبان و حال پریشان آنکھوں میں آنسو بھرے سر کھلے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی۔ اے یار وفادار وائے محرم راز دل افگار

 

فرد

 

آتشِ عشق سے جلے ہے دل

آہ یہ آگ کس نے بھڑکائی

 

اے طوطے اب تو میرا دل اُس کی جدائی سے جلا جاتا ہے اور کلیجہ منہ کو چلا آتا ہے۔ جگر کباب ہو  گیا۔۔ سچ جان آج کسی صورت سے اس گھر میں نہ رہوں گی اور اپنے جانی کے پاس خواہ مخواہ جاؤں گی۔۔ تو بھی جلد رخصت کر۔ طوطا اپنے جی میں ڈرا اور کہنے لگا۔ خدا حافظ۔ یقین ہے کہ یہ اب اس گھڑی کسی طرح سے نہ رہے گی۔ کیونکہ نہایت بیقراری رکھتی ہے۔ اور میری بات نہ سنے گی۔ از بسکہ مضطر ہے۔ یہ سوچ کر بنا چاری کہنے لگا کہ اے کد بانو تجھے ہر شب رخصت کرتا ہوں اور خدا سے چاہتا ہوں کہ تو اپنے یار غمگسار سے ملے۔ تو آپ ہی توقف کرتی ہے جو نہیں جاتی اور  نہیں معلوم کہ نصیب تیرے کیسے ہیں۔ جو برگشتہ رہتے ہیں۔ لے بسم اللہ دیر نہ کر جا اور اپنے یار کو گلے لگا۔ پر یہ بات یاد رکھنا کہ کسی دشمن کا اعتبار نہ کرنا۔ نہیں تو وہ صدمہ گزرے گا جو اُس امیر زادے پر اُس سانپ کے سبب سے گذرا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی حکایت کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی دن ایک امیر کسی جنگل میں شکار کھیلنے گیا تھا اور کالا سانپ کہیں سے بھاگا ہوا نہایت بدحواسی سے اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ اے امیر زادے خدا کے واسطے مجھے جگہ دے کہ میں چُھپ رہوں اور تجھے دعا دوں۔ امیر نے پوچھا اس قدر کیوں گھبراتا ہے۔  خیر تو ہے؟ سانپ نے کہا کہ دشمن میرا مجھے مارنے کو ہاتھ میں لاٹھی لئے وہ چلا آتا ہے۔ تو مجھے چُھپا رکھ۔ یہ بات سُنتے ہی امیر کو اُس پر رحم آیا۔ اور اُس نے اپنی آستین میں چھپایا۔ بعد ایک دم کے وہ شخص بھی ایک موٹا سا بانس لئے ہوئے آیا اور کہنے لگا۔ ایک کالا سانپ ابھی میرے آگے ادھر کو آیا ہے۔ کسی نے اُسے دیکھا ہو تو مجھے بتا دے۔ میں اُس کا اس بانس سے سر پھوڑوں اور اپنے گھر کی راہ لوں۔ اتنے میں امیر نے کہا اے بھائی میں یہاں بڑی دیر سے کھڑا ہوں۔ لیکن میں نے تو نہیں دیکھا۔ خدا جانے کہاں گیا ۔ اور اُس نے بھی اُسے خوب سا ڈھونڈا۔ جب کہیں نہ پایا، تب اپنے گھر کا راستہ پکڑا۔ بعد ایک گھڑی کے امیر نے کہا اے سانپ دشمن تیرا گیا۔ اب تو بھی جا۔ تب سانپ ہنسا اور کہنے لگا، اے امیر اب میں تجھے بے ڈسے تو نہیں جاتا۔ اور تیری بات کب سنوں گا۔ اب بے مارے کب یہاں سے ٹلتا ہوں۔ تو نہیں جانتا احوال میرا کہ میں دشمن ہوں تیرا۔ جب کہ تجھ کو ماروں گا، تب جاؤں گا۔ تو نہایت احمق معلوم ہوا جو تو نے مجھ پر رحم کھایا اور میرے کہنے پر اعتبار کیا اور اپنی آستین میں رہنے کو مکان دیا۔ امیر نے کہا اے سانپ میں نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے اور تو میرے ساتھ بُرائی کیا چاہتا ہے۔ یہ بات نامناسب ہے۔ سانپ نے کہا میں نے عقلمندوں سے سُنا ہے کہ بدوں کے ساتھ نیکی کرنا ایسا ہے جیسا نیکوں کے ساتھ بدی۔ یہ سُن کر وہ ڈرا اور اپنے جی میں کہنے لگا، اے مار سیاہ ایک اور سانپ آتا ہے۔ تو میری آستین سے نکل۔ ہم اور تو دونوں چل کر اُس سے پوچھیں۔ اگر وہ تیری بات پسند کرے تو پھر جو چاہنا سو کرنا۔ بارے یہ سخن اُس نے اُس کا سُنا اور اُس کی آستین سے نکل کر اُس سانپ کی طرف چلا۔ تب اُس نے فرصت پا کر ایک ایسا پتھر اُس کے سر پر مارا کہ وہ مر گیا اور امیر جیتا اپنے گھر گیا۔ خجستہ نے یہ نقل سُن کر کہا اے طوطے میں نے تیرا کہنا قبول کیا اور نصیحت مانی۔ پر تو بھی اس وقت یہ سخن میرا سُن اور مجھے جلد رخصت دے۔ طوطے نے کہا۔ بہتر اب دیر مت کر اوور جا اپنے دوست سے مل اور خوشیاں کر۔ کد بانو یہ سُن کر چاہتی تھی کہ جاوے اور اُس کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ خجستہ مرغ کو گالیاں دے کر کہنے لگی کہ اب صبح ہوئی۔ میں کیونکر جاؤں۔ آخر کار جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھا اور رونے لگی۔

 

بیت

 

اے مرغ سحر آج اگر تجھ کو میں پاؤں

تو کچا ہی دانتوں سے ترا گوشت چباؤں

بتیسویں داستان سپاہی اور سُنار کی

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا خجستہ نہا دھو اور تھوڑا سا میوہ کھا۔ اطلس کا پائجامہ نقیش کا ازار بند جالی کا کلیوں دار کرتہ، سنجاف لگا کر جالی کی کرتی، بنت کی انگیا بنارسی دوپٹہ، مسی کی دھڑی، پاؤں کا لکھوٹا، آنکھوں میں سرمہ، بالوں میں کنگھی، اس طرح بناؤ ٹھناؤ کر جواہر کے گہنے پاتے سے آراستہ ہو، ایسی بنی ٹھنی کہ احوال اُس کی سگھڑائی کا بیان نہیں کیا جاتا۔ موافق اس کے تھا۔

 

حسن

 

وہ کنگھی کھچی اس صفائی کے ساتھ

کہ ہو رشک سے جس کے دو ٹکڑے رات

 

صفائی یہ پوشاک کی دیکھیو

نظر سوچ میں ہے کہ سیلی نہ ہو

 

اس بانکپن سے اُٹھی اور طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی، اے  محرم راز، وائے میرے دمساز اگر آج میرے احوال پر رحم کرے اور رخصت دے۔ میں جب تک جیتی رہوں گی تب تک تیرے بار احسان سے سر نہ اُٹھاؤں گی۔ کیونکہ ایک دور ایسا بیقراری کا پہلو سے اُٹھتا ہے کہ حال میرا بیحال ہوا جاتا ہے۔

 

اشعار

 

آنکھیں نہیں منڈتی ہیں میر بدل کو تعب ہے

یا رب دلِ حیران کو مرے کس کی

 

طلب ہے، بیتابی پیہم سے نہیں دین جو دم بھر

کیا جانیے کیا دل کو مرے درد کڈھب ہے

 

طوطے نے کہا۔ مبارک ہو تشریف لے جا پر یہ بات یاد رکھنا کہ جس سے چاہنا اُس سے آشنائی کرنا مگر اپنے دل کا راز کسی سے مت کہنا، نہیں تو یہ بات تیری کُھل جاوے گی اور ہلاکت کو پہنچے گی۔ جس صورت سے اُس زرگر نے اپنی جورو سے احوال کہا اور مارا گیا۔ خجستہ نے پوچھا اُس کی حقیقت کیونکر ہے۔ آگاہ کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کبھی کسی شہر میں ایک سُنار نہایت مالدار تھا اور ایک سپاہی اُس سے بدل دوستی رکھتا تھا۔ اُس کی آشنائی کو سچ جانتا تھا۔ اتفاقاً اُس سپاہی نے ایک تھیلی اشرفیوں سے بھری ہوئی کہیں سے پائی اور نہایت خوشی حاصل ہوئی اور اُس کو کھول کر گنا تو وہ سو اشرفیاں تھیں۔ وہ سپاہی تھیلی لئے ہوئے خوشی سے سُنار کے پاس گیا اور کہنے لگا۔ میرے بخت اچھے تھے جو بے رنج و محنت اس قدر زر راہ سے میں نے پایا۔ حاصل کلام وہ تھیلی اُس سُنار کو سونپی اور یہ بات کہی کہ بھائی یہ میری امانت ہے۔ اپنے پاس رہنے دے۔ جب چاہوں گا لے لوں گا۔ بعد کئ دن کے اُس تھیلی کو سُنار سے سپاہی نے طلب کیا۔ تب وہ  کہنے لگا، اے سپاہی تو نے مجھ سے اس واسطے آشنائی کی تھی کہ تہمت لگا ددے اور مجھےچور بنا دے۔ بھلا تھیلی تو نے مجھے کب دی تھی۔ تو جھوٹ کہتا ہے۔ کیا خوب اب تو یہاں سے جا اور کسی بڑی مالدار پر تہمت لگا۔ جس کے سبب سے کچھ مزہ اُٹھاوے اور غریب کے ستانے سے کیا پاوے گا۔ میں تجھے اپنا دوست جانتا تھا اور یہ کب معلوم تھا کہ تودشمن ہو گا۔ اب جھوٹ سچ لگا کر مجھ سے مال چاہتا ہے۔ مثل مشہور ہے۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ جھوٹے کے آگے سچا ہو مرے آخر کار اُس سپاہی نے بنا چاری قاضی کے پاس جا کر فریاد کی اور یہ حقیقت اُس سے موبمو کہی۔ جب قاضی نے اُس سے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ۔ اُس نے کہا حضرت سلامت ساکھی کوئی نہیں۔ قاضی نے عقل سے معلوم کیا کہ یہ قوم سُنار کی دغاباز ہوتی ہے۔کچھ تعجب نہیں کہ اس سُنار نے خواہ مخواہ دغابازی کی ہو گی۔ اس احتمال پر قاضی نے سُنار اور اُس کی جورو کو بلا بھیجا اور ہر چند دلاسا دے کر پوچھا۔ اُنہوں نے سوائے انکار کے ہرگز اقرار نہ کیا۔ تب قاضی نے کہا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ مقرر تو نے اُس کی تھیلی اُڑائی ہے۔ جب تک اُس کی تھیلی نہ دے گا، تب تک میں تجھ کو نہ چھوڑوں گا۔ یہ کہہ کر قاضی گھر گیا اور دو شخصوں کو ایک صندوق میں بند کیا اور اُس صندوق کو کوٹھڑی میں دھر دیا۔ پھر باہر نکل کر سُنار سے کہا کہ اگر زر دینا قبول نہ کرے گا تو میں صبح کو تجھے مار ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر اُن دونوں کو اُس کوٹھڑی میں بند کیا اور فرمایا کہ صبح کو بعد نماز کے تمہیں قتل کروں گا۔ یہ کہہ کر قاضی اندر گئے اور وہ دونوں اُسی جگہ قید رہے۔ جب آدھی رات گزری، تب اُس کی جورو نے کہا، اگر تو نے اُس کی تھیلی لی ہے، تو مجھے بتا دے کہاں رکھی ہے اور نہیں تو اُس تھیلی کے ساتھ ہماری جان جاوے گی۔ یہ قاضی بغیر تھیلی لئے تم کو ہرگز جیتا نہ چھوڑے گا۔ تب اُس سنار نے کہا کہ فلانی جگہ جہاں میری چارپائی بچھی ہے، وہیں وہ تھیلی گڑی ہے۔ یہ بات اُن دونوں شخصوں نے کی کہ جو قاضی جی نے واسطے دریافت کرنے کے اس سنار سنارن کی کوٹھڑی میں سپاہی اور سپاہی کی جورو کو بند کیا تھا۔ سو اُنہوں نے سُنار اور سُنارن کی باتیں اپنے کانوں سے سُنی تھیں۔ اتنے میں صبح ہوئی۔ جب قاضی نے اُن چاروں کو کچہری میں بلوایا اور اُن دونوں شخصوں سے پوچھا کہ سچ کہو رات کو اُن دونوں نے کیا باتیں کیں۔ تب قسم کھا کر سپاہی نے جو سُنا تھا کہہ سُنایا۔ قاضی نے اُس جگہ سے وہ تھیلی اپنے لوگوں کے ہاتھ منگوا کر سپاہی کے حوالے کی۔ اور سُنار کو سوئی دی۔ طوطے نے تب یہ خجستہ سے کہا۔ اگر زرگر اپنا حال جورو سے نہ کہتا تو مارا نہ جاتا۔ خیر اب سدہاریئے اور اپنے معشوق سے مل کر مزا جوانی کا اُٹھائیے۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے۔ اور اُس کو گلے لگاوے۔ اتنے میں نور کا تڑکا ہوا اور مرغ بولا۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رمنہ ڈھانپ کر رونے  لگی۔

فرد

 

وصل کی جس سحر سے چھوٹی شب

اُس سحر کو خدا نہ دکھلائے

تینتیسویں داستان سوداگر مالدار کی اور بسبب خیرات کے حاصل ہونا اُس کے مقصد کا

جب  سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ پوشاک بدل جواہر پہن طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی، اے طوطے تیرے قربان جاؤں، مجھ پر رحم کرر اور رخصت دے۔ کیونکہ آج کچھ پھر جی گھبراتا ہے اور دل ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔

 

فرد

 

یاد میں تڑپے ہے دل کس ابروئے خمدار کے

آج کچھ ناحق بدل ہے آہ اُس بیمار کے

 

چاہتی ہوں کہ آدھی رات کو اُس کے پاس جاؤں، تو بھی اس وقت ایک حکایت چھوٹی سے بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا اے خجستہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت مالدار تھا لیکن بے اولاد تھا۔ ایک دن یہ اُس کے دل میں خیال گزرا اور اپنے جی میں کہنے لگا۔ اگرچہ میں نے اس جہان میں دولت بے شمار پیدا کی۔ پر بے حاصل کے واسطے کہ ایک بھی لڑکا نہ ہوا جو میرے اس گھر کو روشن کرتا اور اس دولت کو اپنے قبضے میں لاتا۔ جد و آبا کا نام روشن کرتا۔ افسوس صد افسوس۔

 

حسن

 

کسی کی طرف سے نہیں مجھ کو غم

مگر ایک اولاد کا ہے الم

 

خیر اب بہتر یہی ہے کہ اپنے جیتے جی اُس زر بے بنیاد کو بنام مولا لٹائیے۔ اور فقیر و فقراء ، غریب و غرباء، یتیموں کو کھلائیے، اور آپ فقیر ہو کر یاد الٰہی میں مشغول رہیے۔

 

فرد

 

اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے

لوح مزار بھی مری چھاتی پہ سنگ ہے

 

یہ بات جی میں ٹھہرا کر گریبان مثل گل چاک کر ڈالا، اور یہاں تک زر نقد صبح سے شام تک لٹایا کہ ہر ایک غریب غنی ہو گیا۔ آپ ایک ٹوٹے سے بوریے پر لنگوٹا کھینچ اُسی طرح بھوکا پیاسا پڑا رہا۔ اُسی شب کو بعد آدھی رات کے کیا خواب دیکھتا ہے کہ ایک شخص اجنبی سا اُس کے سامنے کھڑا ہے۔ اُس نے پوچھا اے عزیز تو کون ہے۔ وہ بولا میں اصل صورت تیرے بخت کی ہوں۔ تو نے جو آج مال و اسباب خدا کی راہ میں خیرات کیا اور کچھ اپنے واسطے نہ رکھا۔ اس واسطے میں کہنے کو آیا ہوں کہ میں صبح کو برہمن کی صورت بن کر تیرے پاس آؤں گا۔ تو مجھے مارے لاٹھیوں کے مار ڈالیو۔ جس گھڑی میرا دم بدن سے نکلے گا، تمام سونے کا ہو جاؤں گا۔ جس عضو کو تو چاہے گا،کاٹ لینا۔ وہ عضو پھر اُسی وقت درست ہو جاوے گا اور تیرے ہاتھ بہت سا سونا لگے گال۔ یہ بات اُس کا نصیب کہہ کر اُدھر گیا اور اِدھر صبح کا تارا نمودار ہوا۔ جب اُس کی آنکھ کھلی، سوائے اُس بوریے کے کچھ نہ دیکھا۔ اپنے جی میں متعجب ہو کر کہنے لگا۔ الٰہی میں نے یہ کیا سفنہ دیکھا۔ تعبیر اُس کی کیا ہے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تو کریم ساز ہے جو چاہے سو کرے۔ اسی حیرانی میں تھا کہ ایک حجام کِسوت بغل میں دبائے ہوئے اُس کی طرف سے ہو نکلا۔ اُس نے پکار لیا اور اپنا سر منڈوانے لگا۔ بعد ایک دم کے ایک برہمن اُس کے سامنے سے آیا۔ تب اُسے وہ اپنا رات کا خواب یاد پڑا۔ اُسی گھڑی سر منڈوانا موقوف کیا اور اُس برہمن کو لاٹھیاں مارنے لگا اور یہاں تک مارا کہ وہ اپنے جی سے گزرا،  زمین پر گر کے ایک پُتلا زر سرخ کا ہو گیا۔ سوداگر نے اُس پُتلے کو اپنے گھر میں رکھا اور تھوڑا سا سونا حجام کو دے کر کہا کہ یہ بات تو کسی سے نہ کہنا۔ اور وہ اُستاد اپنے جی میں بہت سا خوش ہوا کہ یہ نسخہ کیمیا کا ہے۔ حق تعالیٰ نے اچھا دیا۔ غرض اُس سونے کو بغل میں دبا کر جلدی جلدی اپنے گھر  آیا اور ایک لاٹھی موٹی سی اپنے ہاتھ میں لے کر دروازے پر اُس کی تاک میں بیٹھ رہا کہ کوئی برہمن اس طرف سے آوے تو اُس کو مارے اور سونا بنائے۔ اتنے میں گروہ برہمنوں کا اُدھر سے آ نکلا۔ اُس نے اُن کو اپنے گھر میں بلایا اور اُن کی ضیافت میں دل لگایا۔ بعد ایک گھڑی کے ایک لاٹھی موٹی سے اُٹھا کر اُن کو بے اختیار پیٹنے لگا۔ اور یہاں تک مارا کہ سر اُن کے   پُھوٹ گئے اور لہو لہان ہو گئے۔ تب وہ سب کے سب غل مچانے لگے کہ کوئی واسطے گسیان کے آؤے، نہیں تو ہم اس حجام کے ہاتھ سے مفت مارے جاتے ہیں۔ یہ سن کر محلے والے دوڑے اور نائی کو باندھ کر حاکم کے پاس لے گئے اور کہنے لگے خداوندا دیکھیے ہم تو اس زمانے میں مرتے ہیں کہ آپ کے عمل میں نائی برہمنوں کا خون کرتے ہیں۔ حاکم نے حجام سے پوچھا کہ تو نے کس تقصیر پر اُن غریبوں کو مارا اور کس خطا پر ان بیچاروں کا سر پھوڑا۔ اُس نے کہا حضرت سلامت،  میں آج فجر کو فلانے سوداگر کی اصلاح بنانے گیا تھا۔ میرے سامنے ایک برہمن اُس کے پاس آیا۔ اُس نے دوچار لاٹھیاں ماریں، وہ مرتے ہی سونا ہو گیا۔ میں نے معلوم کیا کہ اگر کوئی برہمن کو لکڑیاں مارے تو سونا ہو جاوے۔ میں نے بھی اپنی اُس طمع پر ان برہمنوں کو مارا کہ یہ شاید زر ہو جاویں گے۔ افسوس یہی ہے کہ کوئی برہمن زر نہ ہوا۔ بلکہ اور فتنہ برپا ہوا۔  یہ  خطا مجھ سے ہوئی۔ جو چاہے سو کیجیے۔ تب حاکم نے سوداگر کو بلوا کر کہا کہ یہ حجام کیاکہتا ہے سنو اور جو احوال ہو سچ بیان کرو۔ ہم نے یوں سُنا ہے کہ تم نے آج ایک برہمن کو مار کر سونا بنایا ہے اور یہ نائی بھی کئی برہمنوں کو ادھ مرا کر کے کشتہ کیا چاہتا ہے۔ سوداگر نے کہا بندہ نواز یہ میرا نوکر ہے۔ آج کئی دن سے دیوانوں کی طرح پڑا پھرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے اُسے مارتا ہے اور تمام شہر میں غل مچاتا ہے۔ مجھ کو کیا، مثل مشہور ہے "جس کا خون اُس کی گردن پر" آپ حاکم ہیں، جو مناسب جانیے کیجیے۔ میں کس واسطے کسی کو ماروں گا۔ حاکم نے اُس کا کہنا باور کیا اور اُن سب کو دم دلاسا دیکر رخصت کیا۔ پھر اُس حجام کو سزا دی۔ طوطے نے یہہ بات کہہ کر خجستہ سے کہا۔ اگر جانا ہے تو جا۔ کیونکہ اب وقت اخیر ہے اور نہیں تو کل سرِ شام ہی چلی جانا۔ کدبانو نے یہ بات سُنتے ہیں چاہا کہ جاوے اور اپنے دلبر سے ملے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

 

ہجران کے شب و روز کا طرفہ الم ہے

شب گذری ہے اندوہ میں اور دن کو بھی غم ہے

چونتیسویں داستان مینڈک زنبور اور مرغ کی جنہوں نے متفق ہو کر ہاتھی کو مار ڈالا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا۔ خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے تو کچھمیرے بھی حال سے واقف ہے کہ اب دن بدن ناتوان ہوتی جاتی ہوں اور رنگ نقاہت سے زرد ہوا جاتا ہے۔ اور جہان کی کسی چیز پر دل نہیں لگتا اور کسی سے بولنے کو جی نہیں چاہتا ہے۔

 

فرد

 

تجھ بن اب تو غم سے فرصت ایک ذرا ہیہات نہیں

دامن سے منہ ڈھانپ کے رہنا رونا بھی کچھ بات نہیں

 

حسن

 

سبب کیا کہ دل سے تعلق ہے سب

نہو دل تو پھر بات بھی ہے غضب

 

طوطا کہنے لگا۔ اے کدبانو تو کچھ اندیشہ نہ کر اور دل میں راہ ناامیدی کو نہ دے۔ خدا پر نظر رکھ کہ وہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔ دعا تیری قبول کرے گا۔ اور تمنائے دل بر لاوے گا۔

 

فرد

 

نہ کرنا کبھی یاس کی گفتگو

کہ آیا ہے قرآن میں لاتقنطو

 

اب تیرے کام میں سعی کرتا ہوں۔ کس واسطے تو اپنی جوانی کو جلاتی ہے۔ اور کیوں نہ کہوں میں کہ آنسو دم بدم بھرے لاتی ہے۔ مقرر تیرے دوست کے پاس تجھے پہنچاؤں گا۔ خجستہ کہنے لگی اے پیارے کیا تعجب ہے کہ ہم دونوں ایکدل ہو کر کوشش کرتے ہیں۔ تِس پر بھی یہ کام سرانجام نہیں ہوتا۔ یہ کیا حکمت الٰہی ہے اور کیسے برگشتہ نصیب ہیں کہ آٹھوں پہر پہرے ہی رہتے ہیں۔ ہیہات ہیہات۔ طوطا کہنے لگا اے خجستہ یہ کیا کٹھن ہے۔ تو نے نہیں سُنی کہ مینڈک، زنبور اور مرغ ہر ایک آپس میں متفق ہوئے اور ہاتھی کو مار ڈالا، باوجود اس کے کہ وہ برا جانور ہیبت ناک تھا۔ اور و یہ کون سا بڑا کام ہے۔ کہ وہ ہم سے اور تم سے نہ ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ قریب ہے کہ تو اپنے یار سے ملے اور چین کرے۔ خجستہ نے یہ سن کر کہا کہ تیرے منہ میں گھی شکر، خدا تجھے خوش رکھے۔ جوتو ایسی باتیں کر کے میرا جی بہلاتا ہے۔ پر اُنکی نقل کیونکر ہے۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک درخت تھا اور اُس کی ڈالیاں گنجان تھیں۔ اُس پر ایک شکر خورے نے اپنا گھونسلا بنا کر انڈے دیئے تھے۔ اتفاقاً ایک فیل مست اُس جگہ پہنچا۔ اُس درخت سے پیٹ رگڑنے لگا۔ اُس کے صدمے سے درخت ہلا۔ بیضے گر پڑے۔ تب وہ شکر خورہ ڈر کے مارے اپنی مادہ کو چھوڑ کر ایک درخت پر جا بیٹھا اور آہ و زاری کرنے لگا۔ مثل مشہور ہے کہ بلی آگے چوہے کا کیا بس ہے۔ لیکن اپنے جی میں کہتا تھا۔ کہ اس دشمن زبردست سے بدلہ کس طرح لینا چاہیے۔ یہ خیال کر کے اپنے دوست کے پاس گیا۔ کہ جسے مرغ دراز نوک کہتے ہیں۔ احوال گذرا ہوا سب اُس کے آگے کہا کہ ناحق ایک فیل نے میرے اوپر ظلم کیا۔ کچھ ایسی تدبیر کر کہ وہ مارا جاوے اور میں اپنی داد کو پہنچوں۔ میرا بدلہ اُس ےس لے، کیونکہ تو میرا دوست ہے۔ اور دوست ہی وقت پر کام آتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ بھائی ہاتھی کا مارنا بہت دشوار ہے۔ مجھ اکیلے سے نہ ہو سکے گا۔ مگر ایک زنبور ہے۔ میں اُس کو نہایت دوست سمجھتا ہوں اور وہ مجھ سے نہایت دانا ہے۔ اُس سے مشورت کیا چاہیے جو وہ کہے سو کیجیے۔ غرض اُن دونوں نے اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچایا۔ اور یہ احوال ظاہر کیا۔ یہ ماجرا اُس نے سن کر ترس کھایا اور کہا کہ میں ایک مدت سے دوستوں کے کام پر کمر باندھے رہتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک غوک بخوبی آشنائی رکھتا ہے اور اپنی قوم کے لشکر کا سردار ہے۔ اُس سے اس بات کو جا کر کہہ سُنائیے۔ وہ جو کہے، اُس پر عمل کیجیے۔ کیونکہ تدبیر اُس کی خطا نہیں کرتی۔ بہر صورت اُن تینوں نے اپنے تئیں اُس  مینڈک کے پاس پہنچایا اور اُس سے مدد چاہی۔ تب غوک نے شکر خورے کےاحوال پر اور انڈوں کے پھوٹنے پر رحم کھایا اور کہا اے شکر خورے تو خاطر جمع رکھ۔ مجھ کو بھی اُس کے مارنے کی ایسی حکمت سوجھی ہے کہ جس سے پہاڑ کو پست کرتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے۔ چلیے اور وہ تدبیر یہ ہے۔ کہ پہلے زنبور اُس کے پاس جائے اور اپنی آواز دلچسپ سُنا دے۔ اور اُس کو مست کرے۔ جب وہ مستی پر آوے، تب یہ مرغ دراز نوک اپنی چونچ سے اُس کی آنکھیں نکالے کہ جہان روشن اُس کی آنکھوں میں تاریک ہو جاوے۔ پھر بعد کئی دن کے جب یہ مارے پیاس کے نہایت تنگ ہو گا، تب اُس کے سامنے میں بولنا شروع کروں گا۔ اور وہ معلوم کرے گا کہ جس جگہ مینڈک بولتا ہے، وہاں مقرر پانی ہوتا ہے۔ اس شبہ پر وہ اٹکل سے آئے گا اور آگے قدم بڑھائے گا اور میں پچھلے قدم ہٹوں گا۔ اسی طرح سے آہستہ آہستہ بہلاتے بہلاتے لے جاؤں گا اور ایک ایسے غار میں گرا دوں گا۔ پھر اُس کی آواز کوئی نہ سنے گا۔  وہاں سے قیامت تک نہ نکل سکے گا۔ آپ ہی آپ یک بیک مارے بھوک کے مر جاوے گا۔ آخر کار اُسی بات پر وہ ہر ایک آپس میں متفق ہوئے اور اُسی حکمت سے ہاتھی کو ہلاک کیا۔ طوطے نے یہ سخن یہاں تک پہنچا کرکہا کہ اے خجستہ۔ ان دو تین ضعیف جانوروں نے ہمت باندھی اور ایسے ہاتھی کو ہلاک کیا اور اپنا بدلہ لیا۔ تو کیوں ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتی ہے۔ ہم بھی دونوں شخص ہمت باندھیں تو کیا دخل جو کام نہ ہو۔ تو نے نہیں سُنا، ہمت کا رہا دارو جو ڈھونڈہے گا سو پاوے گا۔ بی بی خوش ہو۔ اب جا اور اُس سے مل۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُسے گلے لگاوے کہ اتنے میں پَو پھٹی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ یہ فرد زبان پر لائی اور بے اختیار رو کر چلائی۔

فرد

اس سحر کی دلا عداوت سے

شام ہوتے نظر نہیں آتی

پینتیسویں داستان بادشاہ چین کا روم کی شہزادی پر عاشق ہونا اور اُسے اپنے نکاح میں لا کر شادی کرنا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، تب خجستہ آنکھیں سرخ رنگ زرد،  ہونٹ نیلے، پریشان چاک گریبان، آہ سرد، کپڑے میلے، سوگواروں کی صورت بنائے ہوئے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں نے اکثر بزرگوں کی زبانی سُنا ہے کہ ایک شخص نے کسی دانا سے جا کر پوچھا کہ عشق کیا چیز ہے۔ تب اُس نے کہا کہ عشق کو ملک الموت کہتے ہیں۔ اور جاننے والے اُس کو آفتِ ناگہانی سمجھتے ہیں۔

 

عشق جس کے تئیں ستاتا ہے

وہ بیچارہ جہان سے جاتا ہے

 

اور میرا بھی احوال اس کم بخت نے یہاں تک پہنچایا ہے کہ جی ہی جانتا ہے۔ اب یہ دل میں آتا ہے کہ اس کو موقوف کروں اور صبر کر کے بیٹھ رہوں۔ مثل مشہور ہے کہ بھٹ پڑے وہ سونا کہ جس سے ٹوٹے کان۔ طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ کہنے سے اور کرنے سے بڑا فرق ہے۔ یہ کیا کہتی ہے۔ عاشق کو صبر سے کیا نسبت اور  بیمار کو آہ و زاری سے کب فرصت۔

فرد

 

جسے عشق کا تیر کاری لگے

اُسے زندگی جگ میں بھاری لگے

 

اگر عاشق و معشوق رہتا تو کوئی کسی پر نہ مرتا اور وہ بھی بادشاہزادی اپنا بیاہ نہ کرتی، کس واسطے کہ وہ ایک مدت تک مرد کے نام سے بیزار تھی۔ آخر بے شوہر نہ رہ سکی اور خصم کر بیٹھی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی داستان کیوں کر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں چین کا بادشاہ نہایت عمدہ تھا۔ اور ایک وزیر بھی عقلمند رکھتا تھا۔ اتفاقاً   وہ  ایک دن اپنے محل میں بے خبر سوتا تھا۔ اتنے میں اُس کے وزیر کو کچھ ایسی کارِ مملکت میں مصلحت کرنی ضرور تھی۔ کہ آن کر اُس نے بادشاہ کو بیدار کیا اور وہ چونکتے ہی نمچہ کھینچ کر اُس کے پیچھے پڑا اور وہ اُس کے آگے سے بھاگ کر کسی گھر میں جا کر چھپ رہا۔ تب بادشاہ طیش میں بھرا ہوا اپنے تخت پر جا بیٹھا اور مونچھوں پر تاؤ دینے لگا اور ہاتھ زانو پر مارتا تھا اور جامہ گلے کا پھاڑتا تھا۔ بے اختیار ہو ہو کر غل مچاتا تھا۔ ارکانِ دولت نے عرض کی۔ جہاں پناہ آپ کو کیا ہوا ہے۔ ان خانہ زادوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا اور وزیر نے ایسی کیا تقصیر کی ہے کہ جس کے واسطے قبلہ عالم نے اتنی تکلیف کھینچی۔ کچھ ارشاد ہو تاکہ ہم بھی اُس بے ادبی سے باز رہیں اور نمک حلالی پر کمر باندہیں۔ تب بادشاہ نے ان پر رحم کھایا اور یہ فرمایا کہ بھائی میں ابھی سوتے سوتے کیا خواب دیکھتا ہوں کہ میں کسی بادشاہت میں گیا ہوں اور وہاں کی شہزادی سے اختلاط کرتا ہوں۔ وہ کبھی میرے ہاتھ کی بلائیں لیتی ہے اور کبھی میں اپنے پاؤں پر سر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ حظِ دنیاوی اُٹھاؤں، اتنے میں اُس وزیر کمبخت نے مجھے آ کر خواہ مخواہ جگا دیا اور زندگی سے بے مزہ کیا۔ اس بات کو سن کر اُنہوں نے عرض کی کہ خداوندا، شہزادی کسی مائل ہے۔ تب بادشاہ نے ایک آہ کھینچی اور یہ قطعہ پڑھا۔

 

قطعہ

تعلق سے چُھڑا دے شاد کر دے

الٰہی اب مجھے آزاد کر دے

میرے شیریں دہن کو کچھ نہ پوچھو

جسے چاہے اُسے فرہاد کر دے

 

اتفاقاً اُن وزیروں میں ایک وزیر جو کہ کار مصوری خوب جانتا تھا۔ اُس نے بموجب فرمائش بادشاہ کے اُس شہزادی کے شکل کے موافق تصویر کھینچی اور آپ ایک گذر گاہ میں جا بیٹھا اور جو کوئی اِدھر اُدھر سے مسافر دور دراز کے راستے سے آتا تھا، تو یہ اس سے یہی پوچھتا تھا کہ تو نے اس صورت کی عورت کہیں دیکھی ہے تو مجھے خبر دے، یا سُنی ہو تو کہہ دے۔ پر کوئی شخص اُس کا جواب نہ دیتا تھا۔ اتفاقاً بعد ایک مدت کے کسی طرف سے ایک سیاح وہاں آ نکلا اور اُس کے پاس بیٹھ کر کچھ ناشتا کرنے لگا۔ جب اُس وزیر نے اُسے وہ تصویر دیکھلائی اور یہ بات کہی کہ اے سیاح سچ کہہ کہ تو نے کہیں اس شکل کی رنڈی دیکھی ہے۔ تب اُس درویش نے کہا بابا اس سے میں خوب واقف ہوں۔ یہ روم کی شہزادی ہے، باوجود اس حسن کے آج تک اُس نے کسی شوہر کو نہیں کیا، بلکہ مرد کے نام سے خفا ہوتی ہے۔ تب اُس وزیر نے پوچھا کہ وہ کس واسطے خانہ داری نہیں کرتی۔ تب اُس نے کہا میں اس بات کو خوب جانتا ہوں۔ وہ یہ سبب ہے کہ کسی وقت وہ شاہزادی بارہ دری میں بیٹھی ہوئی ایک باغ کی سیر کرتی تھی۔ اور اُس باغ میں ایک طاؤس کے جوڑنے کسی درخت پر انڈے دیئے تھے اور آپس میں ملے ہوئے اُن انڈوں کو سے رہے تھے۔ اتنے میں اُس گلستان میں آگ لگی۔ یہاں تک کہ تمام درخت و گل جل گئے۔ اُس طاؤس کو آگ کی برداشت نہ رہی۔ تب ناچار مادہ کو چھوڑ کر آپ اُس آشیانے سے پرواز کر گیا اور اُس کی مورنی نے ہر چند کہا اے مور اس وقت مجھے اس آفت میں نہ چھوڑ۔ اگر تو میری الفت سے نہیں رہتا تو ان انڈوں پر بھی رحم نہیں کرتا۔ اُس نے ہرگز اُس کا کہنا نہ مانا اور و وہاں سے اڑ ہی گیا۔ مورنی مارے محبت کے اُن انڈوں پر سے نہ اُٹھی اور وہیں جل کر راکھ ہو گئی۔

شاہزادی روم اور باغ پر فضا اور جوڑا طاؤس کا ایک درخت پر انڈے سینا

شاہزادی نے جس روز سے یہ بیوفائی نر کی دیکھی ہے۔ اُس دن سے تا حال مرد سے نفرت کرتی ہے اور مرد کا نام بھی نہیں لیتی۔ وزیر اس بات کے سنتے ہی نہایت خوش ہوا اور جا کر اپنے بادشاہ سے عرض کرنے لگا کہ جہاں پناہ نے جس شہزادی کو خواب میں دیکھا تھا اور میں اُس کی تصویر کاغذ پر کھینچ کر برسرِ راہ بیٹھ رہا تھا۔ جو کوئی اُدھر سے گزرتا تھا، میں اُسے یہ تصویر دکھاتا تھا۔ اور اُس کا نشان پوچھتا تھا۔ بارے آج ایک فقیر سیاح کہیں سے آیا۔ میں نے یہ تصویر اُسے دکھائی۔ اُس نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ تصویر شاہزادی روم کی ہے۔ بادشاہ اس مژدہ سے بہت خوش ہوا۔ اور کہنے لگا، اے وزیر آج ہی کسی آدمی کو شہر روم میں بھجوا کہ وہ اس ملکہ کی جواب نگاری کرے۔ وزیر نے جناب بادشاہ میں عرض کی۔  اگر حکم ہو تو میں جاؤں اور تصویر خاوند کی اُسے دکھلاؤں۔ جس صورت سے آپ اُس کی صورت خواب میں دیکھ کر عاشق ہوئے ہیں وہ بھی اسی طرح ظاہراً  آپ کی تصویر دیکھ کر آشفتہ ہو۔ آخر کار وزیر حضور سے رخصت ہوا۔ اور اُس ملک میں  پہنچا اور اپنے تئیں مصوروں میں مشہور کیا۔ یہ خبر اُس ملکہ کو پہنچی کہ ایک مصور تمہارے شہر میں لاثانی آیا ہے کہ نہ ایسا دیکھا ہے نہ سُنا۔ تب شہزادی نے کہا کہ اُس کو ہمارے پاس لے آؤ کہ وہ ہمارے محل میں کچھ نقش و نگار کرے اور جیسی تصویریں اُس کا جی چاہے ویسی کھینچے۔ حاصل کلام وزیر اُس کے محل میں گیا اور اپنے بادشاہ کی تصویر مع شکار گاہ اُس کے محل میں کھینچی۔ شہزادی نے جو نقش و نگار اور تصویرات کو دیکھا تو متعجب ہو کر کہنے لگی، یہ تصویر کس کی ہے اور یہ کس کی جگہ ہے۔ اُس نے عرض کی کہ اے بادشاہزادی یہ تصویر چین کے بادشاہ کی ہے۔ اور یہ شکار گاہ اُس کے رہنے کے مشابہ ہے۔ اور یہ جانور اور یہ ہرن اور بچے ہرن کے انہیں چاروں کی ہیئت رکھتے ہیں۔ ایک دن بادشاہ اپنے بالاخانہ پر بیٹھا ہوا صحرا کی سیر کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک طرف سے ایسا سیلاب آیا کہ بس اتفاقاً ایک جوڑا ہرن کا اپنے بچوں کو لئے کسی درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ سیل کو دیکھتے ہی ہرنی اپنی جان کی دہشت سے بچوں سمیت ہرن کو چھوڑ بے دردوں کی طرح بھاگی۔ ہرن نے اُسے ہر چند پکارا۔ اے ہرنی یہ بے وفائی کا وقت نہیں۔ ایک دم ٹھہر، مجھے مت چھوڑ اور ان بچوں پر رحم کر۔ ان سے منہ نہ موڑ۔ اُس نے یہ بات ہرن کی نہ سُنی اور کیا جانیے آپ کہاں گئی۔ اور وہ ہرن مارے الفت کے اپنے بچوں سے جُدا نہ ہوا۔ آخر اسی سیل میں بچوں سمیت ڈوب گیا۔ اے ملکہ جس روز سے بادشاہ نے  یہ بے مروتی مادہ کی دیکھی ہے۔ اُسی دن سے اپنی شادی نہیں کرتا۔ بلکہ عورت کے نام سے سو سو کوس بھاگتا ہے۔ ملکہ نے جو یہ بات سُنی تو قصہ فغفور کا اپنے ہی مطابق جانا اور رکہا کہ اے مصور احوال میرا اور اُس کا یکساں ہے۔ کیونکہ میں نے مور کو بیرحم دیکھا۔ اس واسطے مرد سے ہاتھ اُٹھایا۔ اُس نے ہرنی کو بیدرد سمجھ عورت سے کنارہ کیا۔ اگر ہماری شادی اُس کے ساتھ ہو تو کیا عجب ہو۔ آخر کار دوسرے دن شاہزادی نے اپنا وکیل اُس کے پاس بھیجا اور  اپنا نکاح کرنے پر راضی ہووئی۔ طوطے نے جب یہ کہانی تمام کی۔ خجستہ سے کہا اے بی بی تو کہتی ہے کہ میں اُس سے دوستی ترک کروں گی۔ یہ بات کسی سے ہو سکتی  تو وہ ملکہ اپنی شادی چین کے بادشاہ سے نہ کرتی۔ خیر اس سخن سے ہاتھ اُٹھائیے اور اپنے معشوق سے صحبتِ عیش گرم کیجیے۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے اور اُسے گلے لگاوے۔ اتنے میں گجر بجا اور مرغ بولا۔ جانا اُس کا اُس روز  بھی  موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور بے تحاشا رونے لگی۔

 

کاش کے رات جی نکل جاتا

اور اس سحر کو خدا نہ دکھلاتا

چھتیسویں داستان دوستی گدھے اور بارہ سنگے کی اور گرفتار ہونا دونوں کا باغبان کے ہاتھ سے

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ نے پتلی کمر، بازو اُبھر ۔۔۔۔۔ نرم لب قد و قامت سرو کا سا، گول سُرین چمکتی رانیں، سنہری ساقیں بلوریں اشتیاق میں آئی ہوئی۔

 

حسن

 

قد و قامت آفت کا  ٹکڑا تمام

قیامت کرے جس کو جھک کر سلام

 

طوطے کے پاس رخصت لینے کو آئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں نے بارہا صاحب عربوں کی زبان سے سُنا ہے کہ عبد العزیز نام ایک بادشاہ نہ شب کو سوتا تھا نہ دن کو آرام کرتا تھا۔  کسی شخص نے پوچھا کہ جہاں پناہ کیا سبب ہے کہ نہ شب کو سوتے ہو نہ دن کو آرام کرتے ہو۔ اُس نے کہا اے عزیز اگر شب کو سوؤں تو عبادت خدا نہ ہو سکے اور اگر دن کو آرام کروں تو رعیت تباہ ہو جاوے۔ اس واسطے میں نے سونا شب و روز کا اپنے اوپر حرام کیا ہے۔ وہی حال میرا ہوا ہے اور اسی اندیشہ میں پڑی رہتی ہوں ۔ اگر یار کے پاس جاؤں تو خاوند سے ہاتھ اُٹھاؤں اور اگر خاوند کے گھر رہوں تو یار کی دوستی سے باز آؤں۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ ان دونوں سے کنارہ کروں اور آبروں اور عصمت سے ایک گوشے میں بیٹھ رہوں۔

 

دو رنگی چھوڑے یک رنگ ہو جا

سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا

 

یہ سنتے ہی طوطا ایک قہقہہ مار کر ہنسا اور کہنے لگا، اے خجستہ حرمت ڈھونڈھتی ہے۔ کیا خوب ہر ایک چیز کا ایک وقت ہے۔ سُن بی بی مثل مشہور ہے۔ جب لاگ لگی تب لاج کہاں۔

 

سودا ہوئے عاشق کیا پاس آبرو کا۔

سنتا ہے اے دیوانے جب دل دیا تو پھر کیا۔

 

اے بی بی اب کیا سوچتی ہے، خیر تیرا کلام بھی اُس دراز گوش کی طرح ہوا کہ بے محل گا اٹھا اور آپ پکڑا گیا۔ خجستہ نے پوچھا، اُس کی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کہنے والوں نے یوں کہا ہے کہ کسی وقت میں ایک گدھا کسی بارہ سنگے سے دوستی رکھتا تھا۔ اور وہ دونوں ایک ہی جنگل میں چرا کرتے تھے۔ اتفاقاً کسی رات دونوں مل کر بہار کے موسم میں کسی باغ میں چرنے گئے۔ جب پیٹ بھر چکا، تب گدھا بارہ سنگے سے کہنے لگا۔ اے بھائی اب جی چاہتا ہے کہ دل کھول کر گایئے اور خوشی کیجیے۔ کیونکہ باد بہار سے مغز معطر ہو رہا ہے  اور ہوئے سرد نے دل کو سرور بخشا ہے۔ یہ سُن کر گوزن کہنے لگا کیا خوب یہ وہی بات ہے کہ گدھے کو خشکہ۔ بھائی اپنی فکر کر اور اگر کچھ کہتا ہے تو اپنے پالان اور دھوبی کے باندھنے کا کہہ یہ کیا بکتا ہے۔ یقین جان کہ کوئی آواز تیری آواز سے بدتر نہیں۔ گدھے کو گانے سے کیا کام۔ اس باغ میں ہم تم چوری سے آئے ہیں۔ اگر تو اس وقت ملہار گائے گا تو باغبان چونک اُٹھے گا اور کتنے لوگوں کو بھی پکارے گا۔ تو پھر تو آپ بھی باندھا جاوے گا اور مجھے بھی نتھوا دے گا۔ یہ بھی ویسا ہی قصہ ہے کہ جیسا اُن چوروں نے نادانی سے صدمہ اُٹھایا اور پکڑے گئے۔

 

نقل

 

سُنا ہے کہ کسی شب کو کئی چور باہم ہو کر ایک دولتمند کے گھر چوری کرنے گئے۔ اُس کے مکان دلچسپ میں ایک قرابہ شراب سے بھرا ہوا پا کر آپس میں کہنے لگے۔ اب جو ہو گی سو ہو، بالفعل اس جگہ شراب پیجیے۔ تاکہ چوری کا وقت بھی قریب پہنچے۔ بعد اُس کے اسباب موافق اپنی بار برداری کے چرائیے اور گھر جا کر اُس اسباب دزدی کو غنیمت سمجھیے۔ یہ بات ٹھہرا کر آدھی رات تک میخواری کیا کئے اور خوش خوش جوہیں نشہ میں آ کر غوغا کرنے لگے اور اسباب چرانے لگے۔ غرض عالم نشہ میں چوری کچھ کرتے تھے اور کچھ باندھتے تھے۔ اتنے میں صاحب خانہ چونکا اور اپنے لوگوں کو جمع کر کے اُن سبھوں کو باندھ لیا۔ یہ سن کر دراز گوش نے کہا استغفراللہ، تو کیا جانتا ہے، میں شہر کا رہنے والا ہوں گا، گانے پر مرتا ہوں اور تو بیچارہ جنگلی،  اس مزے سے کیا واقف ۔ جو کچھ ہو میں گیت گاؤں گا۔ تجھے سننے سے کیا فائدہ ہو گا، باوجود اس حکایت سننے کے گدھے نے اُس کا کہنا نہ مانا اور منہ آسمان کی طرف پسار کر ملار بے تال گانے لگا۔ اتنے میں باغبان چونکا اور کئی شخصوں کو بلوا کر اُن دونوں کو چومیخا کیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کی اور کہا، اے کد بانو جو کوئی وقت کے موافق کام نہیں کرتا سو یہی دیکھتا ہے۔

گدھے اور دراز گوش کی اور گدھے کا آسمان کی طرف منہ اٹھا کر الاپنا اور باغبان کا چونکنا اور اُن دونوں کو چومیخا کرنا

بی بی لازم ہے کہ ہر کوئی ہر ایک وقت کو دریافت کرتا رہے۔ بہتر یہی ہے کہ اب جا اور اپنے ان ناامید کی اُمید بر لا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچا دے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب اُس نے یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

 

فرد

 

اس مہ جبین سے میرے مجھے کیوں جدا کیا

اے صبح کینہ جو یہ ستم تو نے کیا کیا

سینتیسویں داستان عاشق ہونا ایک بادشاہ کا شاہ روم کی لڑکی پر اور حکم قتل دینا اُس کی لڑکی کو

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا۔ خجستہ یاس سے بھری ہوئی رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں ہر ایک شب تیرے پاس آتی ہوں اور احوال اپنی بیقراری کا سُناتی ہوں۔ پر کچھ نمک کا حق ادا نہیں کرتا۔ اور مجھے ٹھنڈے جی سے رخصت نہیں کرتا۔ اے وائے نصیب۔

 

رباعی

 

کہتی ہوں جناب حق میں ڈرتے ڈرتے

مدت گذری دعائیں کرتے کرتے

قدرت ہے اُسی کو یہ کہ مجھ سا محروم

منہ یار کا دیکھ لیوے مرتے مرتے

 

اور اس قدر نمک میرے دل ریش پر مت چھڑک اور اتنا مجھ ستائی ہوئی کو نہ ستا۔ لازم ہے کہ اب رخصت دے۔ طوطا کہنے لگا کہ خجستہ آج کی شب جس طرح  سے بنے، اُس طرح سے جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا۔

 

ابیات

 

جہاں کے یوہیں ہیں سبھی کاروبار

ولے حاصل عمر ہے وصل یار

 

شب و روز پی مل کے باہم شراب

مہ و مہر کو رشک کر کر کباب

 

اگر سوائے میرے اس احوال سے اور کوئی آگاہ ہو تو تو بھی ویسی ہی تدبیر کرنا۔ جیسے روم کی شہزادی نے ساتھ اُس پاکدامنی کے کی تھی۔ کدبانو نے پوچھا کہ اس کی حکایت کیوں کر ہے :

حکایت

طوطا کہنے لگا۔ ایک بادشاہ روم کی بادشاہت کے قریب رہتا تھا۔ اتفاقاً ایک دن اُس کے وزیر نے کہا اے جہاں پناہ روم کا بادشاہ ایسی ایک لڑکی خوبصورت رکھتا ہے۔

 

فرد

 

عجب طرح کا نور ہے جانفزا

کہ مہ ہوبرو جس کے ہو تھک رہا

 

اگر وہ اپنی بیٹی جناب عالم پناہ کو بیاہ دے تو کیا خوب ہو۔ بادشاہ نے وزیر کے اس سخن کو سُن کر نہایت پسند کیا اور ایک ایلچی کے ہاتھ مع سوغات اُس لڑکی کی طلب کا پیغام روم کے بادشاہ کو بھیجا۔ جس وقت اُس نامہ بر نے یہ پیغام پہنچایا اور اُس بادشاہ سے جا کر کہا، اُسی وقت وہ ایلچی پر خفا ہوا اور کہنے لگا کہ اے نامہ بر تیرے بادشاہ نے مجھ کو کیا سمجھا جو اس ڈھب کا پیغام بھیجا۔ اگر میں اپنی بات پر آتا ہوں تو اُس کی سلطنت خاک میں ملاتا ہوں۔ تجھے کیا کہوں۔ دور ہو سامنے سے۔ بہتر یہی کہ پھر اِدھر منہ نہ کرنا۔ خبردار خیر اسی میں ہے۔ وہ بیچارہ اُس کی خفگی سے تھرا گیا اور وہاں سے نا اُمید پھرا۔

 

حسن

 

اُسے دیکھ غصہ میں یہ ڈر گیا

کہے تو جیتے جی مر گیا

 

اُسی طرح پچھلے پاؤں بھاگ کر اپنے بادشاہ کے پاس آیا اور وہاں کی واردات بیان کرنے لگا۔ یہ بات بادشاہ کو نہایت ناگوار معلوم ہوئی۔ اُسی گھڑی ایک فوج قہار اپنے ہمراہ لے کر چڑھ گیا اور اُس کے ملک کو ایک آن میں تاخت و تاراج کیا۔ 

بادشاہ روم نے اپنی لڑکی اُس سے بیاہ دی اور رسم آرسی مصحف ہو رہا ہے

جب وہ تنگ آیا، ناچار اپنی لڑکی بیاہ دی اور اُس لڑکی کو خاوند کے ساتھ رخصت کیا۔ غرض وہ بادشاہ اُس شاہزادی کو لیکر اپنے شہر گیا اور اُس سے عیش و عشرت کرنے لگا۔ بعد کتنے دنوں کے شہزادی اپنے بیٹے کی جدائی سے کہ پہلے خاوند سے ایک لڑکا رکھتی تھی اور اُس کو نانا پاس چھوڑ آئی تھی۔ بن دیکھے اُس کے بیقرار ہوئی اور رونے لگی اور بہت غم کرنے لگی۔ آخر یہ بات اپنے جی میں ٹھہرائی کہ کسی بہانہ سے اس کو اپنے پاس بلوائیے۔ اسی خیال میں رہتی تھی کہ اتنے میں بادشاہ نے اُسے ایک ڈبہ جواہر کا نہایت بیش قیمت بھرا ہوا دیا۔ تب اُس نے تجویز کی کہ اب اس بہانے سے بادشاہ کے روبرو ذکر کر کے لڑکے کو بلوائیے۔ تب بادشاہ سے کہنے لگی کہ آپ نے سُنا ہو گا کہ میرے باپ کے پاس ایک ایسا غلام عقلمند ہے۔ دانا جواہر شناس کہ تعریف سے باہر ہے۔ وہ عیب و ہنر جواہر کا خوب جانتا ہے۔ اگر وہ اس وقت یہاں ہوتا تو اس جواہر کو دریافت کرتا اور اچھا پہچان دیتا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر اُس غلام کو تیرے باپ سے مانگوں تو وہ مجھے دے یا نہ دے۔ کہا بابا جان نے اُس کو بچپن سے فرزند کی طرح پرورش کیا ہے۔ اگر تم کو اس کی تمنا ہے اور اُسے بلوانا منظور ہے تو ایک سوداگر میں اپنی طرف سے بھیجوں اور کچھ اپنی نشانی دوں اور بہتری کا امیدوار اُس لڑکے کو کروں تو اس سبب سے شاید جہاں پناہ اُسے بھیج دیں۔ اور وہ خوشی سے آوے۔ چنانچہ بادشاہ نے اُس کے کہنے کے بموجب ایک سوداگر نہایت مالدار کو واسطے تجارت کے روم کی طرف بھیجا۔ جس وقت وہ تاجر بادشاہ سے بموجب فرمانے کے مال و اسباب واسطے سوداگری کے لیکر چلا، اُس وقت شہزادی نے بادشاہ سے چھپ کر کہا اے سوداگر وہ لڑکا غلام نہیں ہے۔ میرا بیٹا ہے۔ ایک خط میرا اُسے دیجیو اور بادشاہ روم سے میرا پیغام کہیو کہ میں لڑکے کی جدائی سے نہایت غم میں ہوں۔ بہانے سے غلام کے اُ س کو بھیج دو۔ جب تیرے ساتھ آوے، بخوبی لے آئیو۔ مگر یہ پردہ نہ کھولیو۔ آخر کار وہ سوداگر گیا اور کتنے دن کے بعد اُس لڑکے کو لے آیا۔ اور اُس بادشاہ کے حوالے کیا۔ بادشاہ نے جو اُس لڑکے کو خوبصورت اور ہنرمند پایا تو نہایت خوش ہوا۔ اور اُس تاجر کو ایک خلعتِ فاخرہ بخشا اور اُس غلام کو اپنے پاس رکھا اور ماں اُس کی اُسے دور سے دیکھ لیتی۔ اور اُس کے سلام پیام سے اپنا جی خوش کرتی۔

سوداگر کا شاہزادی کے لڑکے کو روم سے لا کر بادشاہ کے حوالے کرنا

اتفاقاً ایک دن بادشاہ شکار کھیلنے گیا اور شہزادی نے فرصت پا کر اُس لڑکے کو محل میں بلوا کر اپنے گلے لگایا اور اُس کا سر اور منہ چُوما اور گذشتہ جُدائی  کا غم اپنا اُس سے کہا۔ یہ خبر خبرداروں نے اُسی گھڑی بادشاہ کو پہنچائی۔ کہ آج شہزادی نے جہاں پناہ  کے پیچھے اُس غلام کو محل میں طلب کیا اور اپنے برابر بٹھلایا۔ یہ خبر وحشت اثر سنتے ہی بادشاہ نہایت اپنے جی میں آزردہ ہوا اور کہنے لگا ایسی عورت سے ڈرئیے کہ دیدے پر دیوار بناتی ہے۔ مکر کر کے اپنے یار کو روم سے بلایا۔ اللہ ہے کلیجہ۔ پھر آپ جلد شکار گاہ سے محل میں داخل ہوا۔ اور ایک کرسی جواہر نگار پر متفکر ہو کر بیٹھ رہا۔ اس حالت میں شہزادی نے جو بادشاہ کو دیکھا تو اپنے فہم سے دریافت کیا اور کہا کہ آج مزاج مُبارک پر ملال معلوم ہوتا ہے۔ یہ کیا سبب ہے۔ تب بادشاہ نے کہا کیا خوب تم اپنے معشوق کو روم سے بلوا کر ہم بستر ہو اور مجھ سے بیوفائی کرو۔ یہ کیا شوخی اور بے شرمی ہے۔ چاہتا تھا کہ اُسے ہلاک کرے پر عاشق معشوق کو کب مار سکے۔ پھر اپنے جی  میں کہنے لگا کہ بی بی کے بدلے غلام کو مارے۔ یہ ٹھہرا کر ایک جلاد کو اشارہ کیا اور کہا کہ اسی گھڑی اس کے سر کو جُدا کر۔ یہ سنتے ہی اُس لڑکے کو جلاد نے پکڑا اور قتل گاہ میں بٹھلا کر پوچھا۔ کہ اے اجل گرفتہ تو جانتا تھا کہ بادشاہ کی بیگم ہے۔ اس سے دوستی کروں گا تو کیونکر بچوں گا۔ اور تیرا قدم کیونکر بڑھا جو تو محل بادشاہی میں گیا۔ اُس نے کہا تو ایسی بات نہ کہہ۔ وہ میری سگی ماں ہے۔ جب میرا باپ فوت ہوا، تب اُس نے اسے شوہر کیا اور مارے شرم کے میرا احوال اُس سے نہ کہا۔ میں جھوٹ نہ کہوں گا، مار یا چھوڑ۔

 

بیت

 

قابو میں ہوں میں تیرے گو اب جیا تو پھر کیا

خنجر تلے کسی نے ٹُک دم لیا تو پھر کیا

 

اس بات کے سنتے ہی جلاد کو رحم آیا اور اُس کے قتل سے باز رہا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ بات بادشاہ پر کُھلی کہ وہ اُس کا بیٹا ہے، تو نے کیوں مارا اور شاہزادی کی خاطر اُس لڑکے کو مجھ سے وہ طلب کرے اور میں اُس کو اُس کے پاس جیتا نہ پہنچاؤں گا تو میں اسی طرح دوسرے کے ہاتھ سے مارا جاؤں گا۔ اسی اندیشہ کو دل میں جگہ دے کر بادشاہ سے عرض کی جہاں پناہ سلامت۔ اُس کشتنی کو وہاں جا کے ماروں گا جہاں پانی کا نام بھی نہ ہو گا۔ غرض اس بہاہنے سے وہ اُس کو بادشاہ سے لے کر اپنے گھر گیا اور چُھپا رکھا۔ بعد دو دن کے بادشاہ کی جناب میں عرض کی۔ عالم پناہ سلامت۔ اُس کا سر قدم مبارک پر نثار ہوا۔ بارے اس بات کے سُنتے ہی تھوڑی سی آتش غضب بادشاہ کی ٹھنڈی ہوئی، پر شہزادی کا اعتبار اُٹھ گیا۔ اور اُس کی کوکھ میں اور بھی محبت کی آگ بھڑکی۔

 

حسن

 

کلیجہ پکڑ ماں تو بس رہ گئی

کلی کی طرح سے بیکس رہ گئی

 

بے اختیار ہو کر جی سے کہنے لگی، یہ کیا ہوا۔ ادھر بیٹا موا، اُدھر خاوند چھوٹا۔ قضائے کار ایک دن ایک بڑھیا جو اُس کے محل میں رہتی تھی، اُس نے پوچھا اے بی بی اس جوانی پر یہ کس کا غم کھاتی ہے۔ جو اس طرح سے آٹھویں پہر مسند پر منہ ڈہانپ کے پڑی رہتی ہے۔ تب اُس نے سارا احوال اُس سے کہا کہ یہ کیا ماجرا مجھ پر گزرا۔ اُس نے عرض کی اے شہزادی خاطر جمع رکھ۔ میں ایک بہانے سے تیرے بادشاہ کو تجھ پر مہربان کر دوں گی اور محل میں لے آؤں گی۔ شہزادی نے کہا اے مادر مہربان اگر اس درد کی دوا کرے گی تو میں تیرے دامن و جیب کو جواہر سے بھر دوں گی۔ آخر کار ایک دن اُسی پیرزال نے بادشاہ کو تنہا دیکھ کر پوچھا اے شہنشاہ میں تجھے کچھ اور دنوں سے آج دبلا دیکھتی ہوں۔ کیوں، واری جاؤں، خیر تو ہے۔

 

بیت

 

تجھے نت رکھے خوش میرا کردگار

تری اس جوانی پہ بڑھیا نثار

 

بادشاہ نے کہا، اے ماما نیک بخت، میں وہ درد بے درمان رکھتا ہوں کہ جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ درد یہ ہے کہ شہزادی نے روم سے اُس کو بلایا کہ جس پر عاشق ہوئی تھی اور میں نے اُسے قتل کیا۔ پر شہزادی نہیں مار سکتا۔ خدا جانے یہ بات جھوٹ ہے یا سچ۔ اور وہ میری معشوقہ ہے۔ اگر بے تصفیہ مار ڈالوں اور پھر جھوٹ نکلے، تو بدنامی اور جی کی بے قراری علاوہ ہو۔ یہ عقدہ باعث دلبستگی میری کا ہے۔ یہ بات سنتے ہی وہ پیرزال کہنے لگی کہ بادشاہ سلامت تم اس کی فکر نہ کرو۔ میرے پاس ایک ایسا تعویذ ہے کہ اُس کو سوتے کی چھاتی پر رکھ دو۔ وہ اپنا سب جی کا احوال خود بخود کہہ دے۔۔ سو وہ نقش میں تمہیں لکھ دیتی ہوں۔ تم شہزادی کے سینے پر دھر دیکھو۔ اُس کے جی میں جو ہو گا، سو سب آپ سے آپ کہہ دے گی۔ بادشاہ نے کہا کہ تعویذ جلد لا۔ بڑھیا نے وہ تعویذ اُسی گھڑی بادشاہ کو لا دیا۔ اور آپ شہزادی کے پاس جا کر کہا کہ آج تو سرِ شام جھوٹ موٹ سو رہیو۔ اے ملکہ جس وقت بادشاہ تیری چھاتی پر تعویذ کو رکھے، تو اُس وقت سوتوں کی طرح سے جو تیرا احوال ٹھیک ہو سو بخوبی کہہ دینا۔ حاصل کلام جب پہر رات گئی۔ بادشاہ نے اُس نقش کو بادشاہزادی کے سینے پر جونہی رکھا، وہیں اُس نے اپنے خاوند سے پہلے خاوند کا اور اُس لڑکے کا احوال ایک ایک کہہ دیا۔ بادشاہ نے جو یہ بات سُنی، اُسے جگا کر نہایت مہربانی کی اور سینے سے لگا کر شہزادی سے کہا جانی کس واسطے یہ راز پہلے ہی مجھ سے نہ کہا۔ وہ گھبرا کر بولی، میں نے کون سی بات چُھپائی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ تیرا سگا بیٹا تھا۔ تو نے غلام کیوں بتلایا۔ تب اُس نے آنکھیں نیچی کر کے عرض کی کہ مجھے شرم معلوم ہوتی ہے۔کہتی کیوں کر۔ یہ سنتے ہی بادشاہ نے اُسی گھڑی اُس جلاد کو بلا کر کہا کہ جلدی اُس لڑکے کو میرے پاس لے آ۔ اگر مار ڈالا ہے تو اس کی گور کہاں ہے بتلا۔ اُس نے کہا جہاں پناہ میں نے اُسے تاحال نہیں مارا۔ وہ خدا کے فضل سے جیتا جاگتا موجود ہے۔ یہ بات سنتے ہی بادشاہ نہایت خوش ہوا اور اُسی وقت لڑکے کو بلوا کر اُس کی ماں کے حوالے کیا۔ اُس ناامید نے لڑکے کو گود میں لے کر درگاہ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا۔ اے کدبانو اگر تجھ کو بھی کوئی کام مشکل پڑے تو تو بھی اسی طرح سے بیان کرنا۔ خیر اب جا اور اپنے معشوق سے مل۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے۔ اتنے میں پَو پھٹی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس رور بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

 

اے سحر یہ یقین ہُوا مجھ کو

وصل کی شب میں اب نہ دیکھوں گی

اڑتیسویں داستان آنا میمون کا گھر میں اور مارا جانا خجستہ کا

اتنے میں میمون شوہر اُس کا سفر سے آیا اور مینا کے پنجرے کو خالی دیکھ کر کہنے لگا کہ میری مینا کہاں اُڑ گئی۔ خجستہ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ طوطے نے عرض کی۔ پیر و مرشد ہماری بندگی لیجیے۔ اور آپ اِدھر تشریف لائیے اور ہم جو کچھ کہیں، آپ اُس پر دھیان لگائیے۔ احوال مینا اور بی بی خجستہ کا مجھ سے پوچھیے۔ میمون نے کہا کیا کہتا ہے۔ طوطا بولا۔ مینا کو آپ کی بیگم صاحبہ نے گردن مروڑ کے یار کے واسطے مار ڈالا اور مجھے بھی وہی راہ دکھایا چاہتی تھیں۔ خدا کے فضل سے میں نے ایک تدبیر سے اپنی جان اور آپ کی بی بی کی عصمت بچائی۔ وہ بیچاری خیر خواہی سے نثار ہو گئی۔ کس واسطے کہ آپ کی بی بی صاحبہ نے ایک جوان یار کیا تھا۔ اور اُس کے پاس جانا چاہتی تھیں۔ اُس نے بے تامل نصیحت کر کے منع کیا۔ اس واسطے وہ ماری گئی۔ میں نے حکایت اور داستان میں آج تک لگا رکھا۔ اپنی جان بھی بچائی اور اُس کو بھی جانے نہ دیا۔ اب آپ مالک ہیں۔ میموں نے کہا سچ ہے ۔ طوطا کہنے لگا۔ مجھے اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ہے۔ بی بی جی نے ایک نوجوان یار  کیا تھا۔ اُس کے واسطے وہ مرتی  تھی۔ اس بات کے سنتے ہی وہ تاب نہ لا سکا۔ ایک ہی تلوار میں خجستہ کا کام تمام کیا۔ قصہ میمون اور خجستہ کا تمام ہوا۔  واللہ اعلم بالصواب۔ جھوٹ سچ کہنے والا جانے۔ اللہ تعالیٰ نے جیسی میری حرمت رکھی ویسی ہی سب کی رکھے۔ آمین۔

٭٭٭

ٹائپنگ: شمشاد خان، اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

علی احمد بیگ
آپ کی کوشش قابلِ تحسین ہے ۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔