12:47    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1174 0 0 00

دوست ہو تو ایسا ہو

ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی۔ اس ٹولی میں دو بچّے بھی تھے، جو اتنے شرارتی تھے کہ ان کے ماں باپ بھی ان سے بہت زیادہ تنگ آ گئے تھے۔

          اسی جنگل میں ایک ننھا ژراف بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اور بھولا بھالا تھا۔ ایک مرتبہ چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آ گیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے  پتّے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژراف کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی۔ کیوں کہ ان بندروں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔

          بندر کے ایک بچّے نے کہا:’’ ارے! دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے، آؤ اسے چھیڑتے اور ستاتے ہیں۔‘‘

          دونوں بندر کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہو کر ژراف گھاس کھا رہا تھا۔ اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژراف سے کہا:’’ اے لمبو! تیرا کیا نام ہے؟‘‘

          ژراف نے بڑی نرمی سے کہا:’’ مَیں ژراف ہوں، کیا مجھ سے دوستی کرو گے ؟ تم لوگوں کے نام کیا ہیں؟‘‘

          دونوں بندر شرارت سے کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ :’’ تجھ سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے؟ کتنا بد صورت ہے تُو، مینا رکے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ ہمیں نہیں کرنا ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی! ‘‘ اتنا کہہ کر دونوں بندر ژراف کو چڑانے لگے۔ اتنا ہی نہیں ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژراف پر پھینک مارا۔ پھل ژراف کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ژراف کے چہرے پر پھیل گیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کود تے پھلانگتے جنگل میں دور بھاگ گئے۔

          ژراف بے چارہ روہانسا ہو کر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔

          ایک دن دونوں شرارتی بندروں نے یہ طَے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے اور سیر سپاٹا کرنے کے لیے چلیں گے۔ کیوں کہ وہ لوگ اپنی ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار سے بے حد تنگ آ چکے تھے اور ان سے آزادی چاہتے تھے۔

          صبح صبح جب باقی بندر سورہے تھے، یہ دونوں شرارتی بندر چپکے سے نکل پڑے۔ کچھ ہی وقت میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے۔ جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھا کر اپنی پیٹ کی آگ بجھائی۔ انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آ رہا تھا۔

          دوپہر ہو چلی تھی وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لیے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جا کر بیٹھ گئے، اُس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کر رہا تھا۔اور پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھرا میدان تھا اور میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔ بندراُس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔ لیکن جب شیر نے اُس کے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو اڑانے کے لیے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔ شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے۔لیکن کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں۔ چوں کہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لیے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی اور ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارا کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرا دیا۔ پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا، شیر کو بہت درد ہوا۔اس نے غصے سے دہاڑتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی۔

          بندر کھی کھی کر کے ہنس رہے تھے، لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے، کیوں کہ شیر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔ اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا :’’کیا تمہیں معلوم نہیں مَیں اس جنگل کا راجا ہوں اسی وقت فوراً اس درخت سے نیچے اترو مَیں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔‘‘

          بندروں کو پھر ہنسی آ گئی۔ انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں۔ شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر مزید غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آ گیا ہے۔ دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بُری طرح لپٹ گئے۔

          شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی۔ بندروں کی حالت بڑی پتلی ہو گئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے۔ اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے، اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جا کر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نافرمان بندر آج بُری طرح پھنس گئے تھے۔

          شیر کی تیز دہاڑ اور غراہٹ سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے۔ ان کا کلیجا بھی کانپ رہا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔

          وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ :’’ گھبراؤ مت ! مَیں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاؤں گا۔ چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اتر آؤ۔‘‘

          وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپر درخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژراف کا سر نکلا ہوا تھا جس کی ان لوگوں نے ابھی کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑائی تھی۔ بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژراف ہماری جان بچانے کے لیے تیار ہے۔اس ژراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیرہ کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ دونوں بندروں نے اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔

          ژراف نے کہا:’’ میرے دوستو! جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھا جائے گا۔‘‘

          بندروں نے اب بلا جھجک اس کی گردن پر پھسلتے ہوئے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہو گئے اور ژراف انھیں لیے ہوئے تیز رفتاری سے وہاں سے کھسک گیا۔

          شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے۔لیکن جب اس نے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہو کر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔

          بندروں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔ شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگا رہا تھا اور غراتے جا رہا تھا۔ ژراف نے بندروں کو سمجھایا کہ :’’ ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو۔ شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔‘‘

          اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژراف نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژراف رک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔

          تب ژراف نے ان دونوں سے کہا :’’ اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کی بہت مذاق اڑائی تھی نا، آج دیکھ لیا نا کہ انھیں کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے۔ لمبی گردن کی وجہ سے ہی مَیں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکا اور درخت سے تم کو اتار سکا۔ اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔ ‘‘

          بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے، دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکا لیں اور خاموش رہے۔

          ان کی یہ حالت، خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ژراف نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ :’’چلو! چھوڑو ان باتوں کو، بھول جاؤ پچھلے قصے کو، اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔‘‘

          ژراف کی یہ بھلائی دیکھ کر دونوں شرارتی بندروں کی تو بولتی ہی بند ہو گئی۔ انھیں خود کی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ژراف کو کیوں ستایا تھا اور اس کی مذاق کیوں اڑائی تھی؟ ان دونوں نے اسی وقت ژراف سے معافی مانگی۔ ژراف نے کہا:’’ دوستو! معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

          اتنے بڑے دل والے ژراف کی یہ باتیں سن کر ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد سے وہ شرارت نہیں کریں گے۔ اور بڑی نرمی اور پیار سے ان دونوں نے ژراف سے کہا کہ : ’’ ہم نے تمہیں جان بوجھ کر بہت ستایا تھا، آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے، نہ کسی کو بُرا بھلا کہیں گے اور رہی تمہاری بات تو آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو۔ کیوں کہ دوست وہی سچاہے جو سکھ سے زیادہ دکھ میں کام آئے اور آج تم نے دکھ میں ہمارا ساتھ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ تم ہمارے سچے دوست ہو۔

          دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژراف کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ خوشی سے ناچنے لگا۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔