12:29    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ آؤ کہ کوئی خواب بنیں

3596 0 0 00




وجہِ بے رنگی گزپار کہوں تو کیا ہو

وجہِ بے رنگی گزپار کہوں تو کیا ہو

کون ہے کتنا گنہگار کہوں تو کیا ہو

تم نے جو بات سرِ بزم نہ سننا چاہی

میں وہی بات سرِ دار کہوں تو کیا ہو

٭٭٭






نہ منہ چھپا کے جئے ہم، نہ سر جھکا کے جئے

نہ منہ چھپا کے جئے ہم، نہ سر جھکا کے جئے

ستمگروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے

اب ایک رات اگر کم جئے، تو کم ہی سہی

یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے

٭٭٭






آؤ کہ کوئی خواب بُنیں

آؤ کہ کوئی خواب بنیں، کل کے واسطے

ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے، کہ جان و دل

تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بُن سکیں

گو ہم سے بھاگتی رہی یہ تیز گام عمر

خوابوں کے آسرے پہ کٹی ہے تمام عمر

زلفوں کے خواب، ہونٹوں کے خواب اور بدن کے خواب

معراجِ فن کے خواب، کمالِ سخن کے خواب

تہذیبِ زندگی کے، فروغِ وطن کے خواب

زنداں کے خواب، کوچۂ دار و رسن کے خواب

یہ خواب ہی تو اپنی جوانی کے پاس تھے

یہ خواب ہی تو اپنے عمل کی اساس تھے

یہ خواب، مر گئے ہیں تو بے رنگ ہے حیات

یوں ہے کہ جیسے دستِ تہِ سنگ ہے حیات

آؤ کہ کوئی خواب بنیں، کل کے واسطے

ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے، کہ جان و دل

تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بُن سکیں

٭٭٭






بہت گھٹن ہے

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے

اگر صدا نہ اٹھے، کم سے کم فغاں نکلے

فقیرِ شہر کے تن پر لباس باقی ہے

امیرِ شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے

حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے

اداس کیوں ہو جو کچھ خواب رایگاں نکلے

وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے

عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے

ادھر بھی خاک اڑی ہے، ادھر بھی زخم پڑے

جدھر سے ہو کے بہاروں کے کارواں نکلے

ستم کے دور میں ہم اہلِ دل ہی کام آئے

زباں پہ ناز تھا جن کو، وہ بے زباں نکلے ٭٭٭






قطعات

جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی تھی

وہاں وہاں سے ابھی تک غبار اٹھتا ہے

جہاں جہاں ترے جلووں کے پھول بکھرے تھے

وہاں وہاں دلِ وحشی پکار اٹھتا ہے

٭٭٭

تپتے دل پر یوں گرتی ہے

تیری نظر سے پیار کی شبنم

جلتے ہوئے جنگل پر جیسے

برکھا برسے، رک رک، تھم تھم

٭٭٭

کس کو خبر تھی، کس کو یقیں تھا ایسے بھی دن آئیں گے

جینا بھی مشکل ہو گا، اور ہم مرنے بھی نہ پائیں گے

ہم جیسے برباد دلوں کا جینا کیا اور مرنا کیا

آج تری محفل سے اٹھے، کل دنیا سے اٹھ جائیں گے

٭٭٭

ہوش میں تھوڑی بے ہوشی ہے

بے ہوشی میں ہوش ہے کم

تجھ کو پانے کی کوشش میں

دونوں جہاں سے کھو گئے ہم

٭٭٭

اب آئیں یا نہ آئیں ادھر، پوچھتے چلو

کیا چاہتی ہے ان کی نظر پوچھتے چلو

ہم سے اگر ہے ترکِ تعلق، تو کیا ہوا

یارو! کوئی تو ان کی خبر پوچھتے چلو

جو خود کو کہہ رہے ہیں کہ منزل شناس ہیں

ان کو بھی کیا خبر ہے، مگر پوچھتے چلو

کس منزلِ مراد کی جانب رواں ہیں ہم

اے رہروانِ خاک بسر پوچھتے چلو

٭٭٭






ایک ملاقات

تری تڑپ سے نہ تڑپا تھا میرا دل، لیکن

ترے سکون سے بے چین ہو گیا ہوں

یہ جان کر تجھے کیا جانے، کتنا غم پہنچے

کہ آج تیرے خیالوں میں کھو گیا ہوں

کسی کی ہو کے تو اس طرح میرے گھر آئی

کہ جیسے پھر کبھی آئے تو گھر ملے نہ ملے

نظر اٹھائی، مگر ایسی بے یقینی سے

کہ جس طرح کوئی پیشِ نظر ملے نہ ملے

تو مسکرائی، مگر مسکرا کے رک سی گئی

کہ مسکرانے سے غم کی خبر ملے نہ ملے

رکی تو ایسے کہ جیسے تری ریاضت کو

اب اس ثمر سے زیادہ ثمر ملے نہ ملے

گئی تو سوگ میں ڈوبے قدم یہ کہ کے گئے

سفر ہے شرط، شریکِ سفر ملے نہ ملے

تری تڑپ سے نہ تڑپا تھا میرا دل، لیکن

ترے سکون سے بے چین ہو گیا ہوں

یہ جان کر تجھے کیا جانے، کتنا غم پہنچے

کہ آج تیرے خیالوں میں کھو گیا ہوں

٭٭٭






خون پھر خون ہے

ایک مقتول لوممبا، ایک زندہ لوممبا سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے

فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے

تیغِ بیداد پہ، بالا شہِ بسمل پہ جمے

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں

خون خود دیتا ہے جلّادوں کے مسکن کا سراغ

سازشیں لاکھ اڑھاتی رہیں ظلمت کی نقاب

لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسوا سے کہو

جبر کی حکمتِ پُرکار کے ایما سے کہو

خون دیوانہ ہے، دامن پہ لپک سکتا ہے

شعلۂ تند ہے، خرمن پہ لپک سکتا ہے

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا

آج وہ کوچۂ و بازار میں آ نکلا ہے

کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر

خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے

سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا

ظلم بس ظلم ہے، آغاز سے انجام تلک

خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے

ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے

ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے

ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

٭٭٭






ہم عصر

تو بھی کچھ پریشاں ہے

تو بھی سوچتی ہو گی

تیرے نام کی شہرت، تیرے کام کیا آئی

میں بھی کچھ پشیماں ہوں

میں بھی غور کرتا ہوں

میرے کام کی عظمت، میرے کام کیا آئی

تیرے خواب بھی سونے

میرے خواب بھی سونے

تیری میری شہرت سے

تیرے میرے غم دونے

تو بھی اک سلگتا بن

میں بھی اک سلگتا بن

تیری قبر تیرا فن

میری قبر میرا فن

اب تجھے میں کیا دوں گا

اب مجھے تو کیا دے گی

تیری میری غفلت کو

زندگی سزا دے گی

تو بھی کچھ پریشاں ہے

تو بھی سوچتی ہو گی

تیرے نام کی شہرت، تیرے کام کیا آئی

میں بھی کچھ پشیماں ہوں

میں بھی غور کرتا ہوں

میرے کام کی عظمت، میرے کام کیا آئی

٭٭٭






لب پہ پابندی تو ہے، احساس پہ پہرا تو ہے

لب پہ پابندی تو ہے، احساس پہ پہرا تو ہے

پھر بھی اہلِ دل کو احوالِ بشر کہنا تو ہے

خونِ اعدا سے نہ ہو، خونِ شہیداں ہی سے ہو

کچھ نہ کچھ اس دور میں رنگِ چمن نکھرا تو ہے

اپنی غیرت بیچ ڈالیں، اپنا مسلک چھوڑ دیں

رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے

ہے جنہیں سب سے زیادہ دعویِٰ حب الوطن

آج ان کی وجہ سے حبِ وطن رسوا تو ہے

بجھ رہے ہیں ایک اک کر کے عقیدوں کے دئیے

اس اندھیرے کا بھی لیکن سامنا کرنا تو ہے

جھوٹ کیوں بولیں فروغِ مصلحت کے نام پر

زندگی پیاری سہی، لیکن ہمیں مرنا تو ہے ٭٭٭






جواہر لال نہرو

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے

دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مر جاتے

سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے

ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مر جاتے

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

وہ جو ہر دین سے منکر تھا، ہر اک دھرم سے دور

پھر بھی ہر دین، ہر اک دھرم کا غمخوار رہا

ساری قوموں کے گناہوں کا کڑا بوجھ لئے

عمر بھر صورتِ عیسیٰ جو سرِ دار رہا

جس نے انسانوں کی تقسیم کے صدمے جھیلے

پھر بھی انساں کی اخوت کا پرستار رہا

جس کی نظروں میں تھا اک عالمی تہذیب کا خواب

جس کا ہر سانس نئے عہد کا معمار رہا

جس نے زر دار معیشت کو گوارا نہ کیا

جس کو آئینِ مساوات پہ اصرار رہا

اس کے فرمانوں کی، اعلانوں کی تعظیم کرو

راکھ تقسیم کی، ارمان بھی تقسیم کرو

موت اور زیست کے سنگم پہ پریشاں کیوں ہو

اس کا بخشا ہوا سہ رنگ علم لے کے چلو

جو تمہیں جادۂ منزل کا پتہ دیتا ہے

اپنی پیشانی پہ وہ نقشِ قدم لے کے چلو

دامنِ وقت پہ اب خون کے چھینٹے نہ پڑیں

ایک مرکز کی طرف دیر و حرم لے کے چلو

ہم مٹا ڈالیں گے سرمایہ و محنت کا تضاد

یہ عقیدہ، یہ ارادہ، یہ قسم لے کے چلو

وہ جو ہمراز رہا، حاضر و مستقبل کا

اس کے خوابوں کی خوشی، روح کا غم لے کے چلو

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے

دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مر جاتے

سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے

ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مر جاتے

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

٭٭٭






اے شریف انسانو

(ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے پسِ منظر میں لکھی گئی اور معاہدۂ تاشقند کی سالگرہ پر نشر کی گئی)

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں، کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو!

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے






(2)

برتری کے ثبوت کی خاطر

خون بہانا ہی کیا ضروری ہے

گھر کی تاریکیاں مٹانے کو

گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں

صرف میدانِ کشت و خوں ہی نہیں

حاصلِ زندگی خرد بھی ہے

حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں

فکر کی روشنی کو عام کریں

امن کو جن سے تقویت پہنچے

ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

جنگ، وحشت سے، بر بریّت سے

امن، تہذیب و ارتقاء کے لئے

جنگ، مرگ آفریں سیاست سے

امن، انسان کی قبا کے لئے

جنگ، افلاس اور غلامی سے

امن، بہتر نظام کی خاطر

جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے

امن، بے بس عوام کی خاطر

جنگ، سرمائے کے تسلط سے

امن، جمہور کی خوشی کے لئے

جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف

امن، پُر امن زندگی کے لئے

٭٭٭






کیوں ہو؟

کل کے پھولوں سے تھا جس کا رشتہ

آج کے غنچہ چینوں میں کیوں ہو

سال خوردہ ایاغوں کی تلچھٹ

نوجواں آبگینوں میں کیوں ہو

ساعتِ فصلِ گل ہے جوانی

کیوں نہ جشنِ مے و مہوشاں ہو

عاقبت کے عذابوں کا رونا

ان مبارک مہینوں میں کیوں ہو

بغض کی آگ، نفرت کے شعلے

میکشوں تک پہنچنے نہ پائیں

فصل یہ مندروں، مسجدوں کی

میکدوں کی زمینوں میں کیوں ہو ٭٭٭






اہلِ دل اور بھی ہیں، اہلِ وفا اور بھی ہیں

اہلِ دل اور بھی ہیں، اہلِ وفا اور بھی ہیں

ایک ہم ہی نہیں، دنیا سے خفا اور بھی ہیں

کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں

میرے شاہد، مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں

ہم پہ ہی ختم نہیں مسلکِ شوریدہ سری

چاک دل اور بھی ہیں، چاک قبا اور بھی ہیں

سر سلامت ہے تو کیا سنگِ ملامت کی کمی

جان باقی ہے تو پیکانِ قضا اور بھی ہیں

منصفِ شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے

لوگ کہتے ہیں کہ اربابِ جفا اور بھی ہیں

٭٭٭






26 جنوری

آؤ کہ آج غور کریں اس سوال پر

دیکھے تھے ہم نے جو، وہ حسیں خواب کیا ہوئے

دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

خوشحالیِ عوام کے اسباب کیا ہوئے

جو اپنے ساتھ ستاھ چلے کوئے دار تک

وہ دوست، وہ رفیق، وہ احباب کیا ہوئے

کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا

مرتے تھے جن پہ ہم وہ سزا یاب کیا ہوئے

بے کس برہنگی کو کفن تک نہیں نصیب

وہ وعدہ ہائے اطلس و کمخواب کیا ہوئے

جمہوریت نواز، بشر دوست، امن خواہ

خود کو جو دیے تھے وہ القاب کیا ہوئے

مذہب کا روگ آج بھی کیوں لا علاج ہے

وہ نسخہ ہائے نادر و نایاب کیا ہوئے

ہر کوچہ شعلہ زار ہے، ہر شہر قتل گاہ

یکجہتیِ حیات کے آداب کیا ہوئے

صحرائے تیرگی میں بھٹکتی ہے زندگی

ابھرے تھے جو افق پہ وہ مہتاب کیا ہوئے

مجرم ہوں میں اگر، تو گنہگار تم بھی ہو

اے رہبرانِ قوم خطا کار تم بھی ہو

٭٭٭






میں زندہ ہوں، یہ مشتہر کیجیے

میں زندہ ہوں، یہ مشتہر کیجیے

مرے قاتلوں کو خبر کیجیے

زمیں سخت ہے، آسماں دور ہے

بسر ہو سکے تو بسر کیجیے

ستم کے بہت سے ہیں ردِّ عمل

ضروری نہیں چشمِ تر کیجیے

وہی ظلم بارِ دگر ہے تو پھر

وہی جرم بارِ دگر کیجیے

قفس توڑنا بعد کی بات ہے

ابھی خواہشِ بال و پر کیجیے

٭٭٭






جشنِ غالب

اکیس برس گزرے آزادیِ کامل کو

تب جا کے کہیں ہم کو غالب کا خیال آیا

تربت ہے کہاں اس کی، مسکن تھا کہاں اس کا

اب اپنے سخن پرور ذہنوں میں سوال آیا

سو سال سے جو تربت چادر کو ترستی تھی

اب اس پہ عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے

اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا

یہ جشن، یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے

جن شہروں میں گونجتی تھی غالب کی نوا برسوں

ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشاں ٹھہری

آزادیِ کامل کا اعلان ہوا جس دن

معتوب زباں ٹھہری، غدار زباں ٹھہری

جس عہدِ سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی

اس عہدِ سیاست کو مرحوموں کا غم کیوں ہے

غالب جسے کہتے ہیں، اردو ہی کا شاعر تھا

اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ کرم کیوں ہے

یہ جشن، یہ ہنگامے، دلچسپ کھلونے ہیں

کچھ لوگوں کی کوش ہے، کچھ لوگ بہل جائیں

جو وعدۂ فردا پہ اب ٹل نہیں سکتے ہیں

ممکن ہے کہ کچھ عرصہ اس جشن پہ ٹل جائیں

یہ جشن مبارک ہو، پر یہ بھی صداقت ہے

ہم لوگ حقیقت کے احساس سے عاری ہیں

گاندھی ہو کہ غالب ہو، احساس کی نظروں میں

ہم دونوں کے قاتل ہیں، دونوں کے پجاری ہیں

٭٭٭






گاندھی ہو یا غالب ہو

گاندھی شتابدی اور غالب صدی کے اختتام پر لکھی گئی

گاندھی ہو یا غالب ہو

ختم ہوا دونوں کا جشن

آؤ، انہیں اب کر دیں دفن

ختم کرو تہذیب کی بات

بند کرو کلچر کا شور

ستیہ، اہنسا سب بکواس

ہم بھی قاتل، تم بھی چور

ختم ہوا دونوں کا جشن

آؤ، انہیں اب کر دیں دفن

وہ بستی، وہ گاؤں ہی کیا؟

جس میں ہریجن ہو آزاد

وہ قصبہ، وہ شہر ہی کیا؟

جو نہ بنے احمد آباد

ختم ہوا دونوں کا جشن

آؤ، انہیں اب کر دیں دفن

گاندھی ہو یا غالب ہو

دونوں کا کیا کام یہاں

اب کے برس بھی قتل ہوئی

ایک کی شکشا، اک کی زباں

ختم ہوا دونوں کا جشن

آؤ، انہیں اب کر دیں دفن

٭٭٭






دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

اے روحِ عصر جاگ، کہاں سو رہی ہے تو

آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے

اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار

بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

ہر گام پر ہے مجمعِ عشّاق منتظر

مقتل کی راہ ملتی ہے کوئے حبیب سے

اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ

جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے

٭٭٭






لینن (1917ء)

طبقوں میں بٹی دنیا صدیوں سے پریشاں تھی

غمناکیاں رستی تھیں آباد خرابوں سے

عیش ایک کا لاکھوں کی غربت سے پنپتا تھا

منسوب تھی یہ حالت، قدرت کے حسابوں سے

اخلاق پریشاں تھا، تہذیب ہراساں تھی

بدکار "حضوروں" سے، بد نسل "جنابوں" سے

عیار سیاست نے ڈھانپا تھا جرائم کو

ارباب کلیسا کی حکمت کے نقابوں سے

انساں کے مقدر کو آزاد کیا تو نے

مذہب کے فریبوں سے، شاہی کے عذابوں سے

٭٭٭






لینن (1970ء)

کیا جانیں تری امت کس حال کو پہنچے گی

بڑھتی چلی جاتی ہے تعداد اماموں کی

ہر گوشۂ مغرب میں، ہر خطۂ مشرق میں

تشریح دگرگوں ہے اب تیرے پیاموں کی

وہ لوگ جنہیں کل تک دعوی تھا رفاقت کا

تذلیل پہ اترے ہیں، اپنوں ہی کے ناموں کی

بگڑے ہوئے تیور ہیں نو عمر سیاست کے

بپھری ہوئی سانسیں ہیں نو مشق نظاموں کی

طبقوں سے نکل کر ہم فرقوں میں نہ بٹ جائیں

بن کر نہ بگڑ جائے تقدیر غلاموں کی

٭٭٭






صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے

صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے

دکھ کی دھوپ کے آگے، سکھ کا سایا ہے

ہم کو ان سستی خوشیوں کا لوبھ نہ دو

ہم نے سوچ سمجھ کر غم اپنایا ہے

جھوٹ تو قاتل ٹھہرا، اس کا کیا رونا

سچ نے بھی انساں کا خون بہایا ہے

پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں

اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے

اول اول جس دل نے برباد کیا

آخر آخر وہ دل ہی کام آیا ہے

اتنے دن احسان کیا دیوانوں پر

جتنے دن لوگوں نے ساتھ نبھایا ہے ٭٭٭






اے نئی نسل!

22 نومبر 1970ء کو گورنمنٹ کالج لدھیانہ کی گولڈن جوبلی منائی گئی، اس موقع پر کالج کے ایک سابق طالب علم کی حیثیت سے ساحر ساحب کو خاص طور پر مدعو کیا گیا اور ان کی نمایاں ادبی اور تہذیبی خدمات کے پیش نظر مرکزی وزیرِ تعلیم شری آر۔کے وی راؤ نے انہیں کالج کی طرف سے گولڈ میڈل پیش کیا۔ ساحر صاحب نے یہ نظم اس تقریب کے لئے لکھی اور اساتذہ اور نئے طالب علموں کے اجتماع میں پڑھی۔

میرے اجداد کا وطن یہ شہر

میری تعلیم کا جہاں یہ مقام

میرے بچپن کی دوست، یہ گلیاں

جن میں رسوا ہوا شباب کا نام

یاد آتے ہیں ان فضاؤں میں

کتنے نزدیک اور دور کے نام

کتنے خوابوں کے ملگجے چہرے

کتنی یادوں کے مرمریں اجسام

کتنے ہنگامے، کتنی تحریکیں

کتنے نعرے جو تھے زباں زدِ عام

میں یہاں جب شعور کو پہنچا

اجنبی قوم کی تھی قوم غلام

یونین جیک درسگاہ پہ تھا

اور وطن میں تھا سامراجی نظام

اسی مٹی کو ہاتھ میں لے کر

ہم بنے تھے بغاوتوں کے امام

یہیں جانچے تھے دھرم کے وشواس

یہیں پرکھے تھے دین کے اوہام

یہیں منکر بنے روایت کے

یہیں توڑے رواج کے اصنام

یہیں نکھرا تھا ذوقِ نغمہ گری

یہیں اترا تھا شعر کا الہام

میں جہاں بھی رہا، یہیں کا رہا

مجھ کو بھولے نہیں ہیں یہ در و بام

نام میرا جہاں جہاں پہنچا

ساتھ پہنچا ہے اس دیار کا نام

میں یہاں میزباں بھی، مہماں بھی

آپ جو چاہیں، دیجیے مجھے نام

نذر کرتا ہوں ان فضاؤں کی

اپنا دل، اپنی روح، اپنا کلام

اور فیضانِ علم جاری ہو

اور اونچا ہو اس دیار کا نام

اور شاداب ہو یہ ارضِ حسیں

اور مہکے یہ وادیِ گلفام

اور ابھریں صنم گری کے نقوش

اور چھلکیں مئے سخن کے جام

اور نکلیں وہ بے نوا، جن کو

اپنا سب کچھ کہیں وطن کے عوام

قافلے آتے جاتے رہتے ہیں

کب ہوا ہے یہاں کسی کا قیام

نسل در نسل کام جاری ہے

کارِ دنیا کبھی ہوا نہ تمام

کل جہاں میں تھا آج تو ہے وہاں

اے نئی نسل! تجھ کو میرا سلام

٭٭٭






نغمہ جو ہے تو روح میں ہے، نَے میں کچھ نہیں

نغمہ جو ہے تو روح میں ہے، نَے میں کچھ نہیں

گر تجھ میں کچھ نہیں، تو کسی شَے میں کچھ نہیں

تیرے لہو کی آنچ سے گرمی ہے جسم کی

مے کے ہزار وصف سہی، مَے میں کچھ نہیں

جس میں خلوصِ فکر نہ ہو، وہ سخن فضول

جس میں نہ دل شریک ہو، اس لَے میں کچھ نہیں

کشکولِ فن اٹھا کے سوئے خسرواں نہ جا

اب دستِ اختیارِ جم و کے میں کچھ نہیں

٭٭٭






دل ابھی۔۔۔!

زندگی سے انس ہے

حسن سے لگاؤ ہے

دھڑکنوں میں آج بھی

دل ابھی بجھا نہیں

رنگ بھر رہا ہوں میں

خاکۂ حیات میں

آج بھی ہوں منہمک

فکرِ کائنات میں

غم ابھی لٹا نہیں

حرفِ حق عزیز ہے

ظلم ناگوار ہے

عہدِ نو سے آج بھی

عہد، استوار ہے

میں ابھی مرا نہیں

٭٭٭






یہ زمیں کس قدر سجائی گئی زندگی کی تڑپ بڑھائی گئی

یہ زمیں کس قدر سجائی گئی

زندگی کی تڑپ بڑھائی گئی

آئینے سے بگڑ کے بیٹھ گئے

جن کی صورت جنہیں دکھائی گئی

دشمنوں سے ہی بیر نبھ جائے

دوستوں سے تو آشنائی گئی

نسل در نسل انتظار رہا

قصر ٹوٹے، نہ بے نوائی گئی

زندگی کا نصیب کیا کہیے

ایک، سیتا تھی جو ستائی گئی

ہم نہ اوتار تھے، نہ پیغمبر

کیوں یہ عظمت ہمیں دلائی گئی

موت پائی صلیب پر ہم نے

عمر بن باس میں بتائی گئی

٭٭٭






بڑی طاقتیں

تم ہی تجویزِ صلح لاتے ہو

تم ہی سامانِ جنگ بانٹتے ہو

تم ہی کرتے ہو، قتل کا ماتم

تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو

٭٭٭






لشکر کشی

فوج حق کو کچل نہیں سکتی

فوج چاہے کسی یزید کی ہو

لاش اٹھتی ہے پھر عَلَم بن کر

لاش چاہے کسی شہید کی ہو

٭٭٭






۔۔۔مگر ظلم کے خلاف

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

ظالم کو جو نہ روکے، وہ شامل ہے ظلم میں

قاتل کو جو نہ ٹوکے، وہ قاتل کے ساتھ ہے

ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو

کہہ دو اسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے

اس ڈھنگ پر ہے زور، تو یہ ڈھنگ ہی سہی

ظالم کی کوئی ذات، نہ مذہب نہ کوئی قوم

ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے

پھلتی نہیں ہے شاخِ ستم اس زمین پر

تاریخ جانتی ہے، زمانہ گواہ ہے

کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی

یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے

یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے

جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو

وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے

پھوٹے کی صبحِ امن، لہو رنگ ہی سہی

٭٭٭






توڑ دیں گے ہر اک شے سے رشتہ، توڑ دینے کی نوبت تو آئے

توڑ دیں گے ہر اک شے سے رشتہ، توڑ دینے کی نوبت تو آئے

ہم قیامت کے خود منتظر ہیں، پر کسی دن قیامت تو آئے

ہم بھی سقراط ہیں عہدِ نو کے، تشنہ لب ہی نہ مر جائیں یارو

زہر ہو یا مے آتشیں ہو، کوئی جامِ شہادت تو آئے

ایک تہذیب ہے دوستی کی، ایک معیار ہے دشمنی کا

دوستوں نے مروت نہ سیکھی، دشمنوں کو عداوت تو آئے

رند رستے میں آنکھیں بچھائیں، جو کہے بن سنے مان جائیں

ناصحِ نیک طینت کسی شب سوئے کوئے ملامت تو آئے

علم و تہذیب، تاریخ و منطق، لوگ سوچیں گے ان مسئلوں پر

زندگی کے مشقت کدے میں کوئی عہدِ فراغت تو آئے

کانپ اٹھیں قصرِ شاہی کے گنبد، تھرتھرائے زمیں معبدوں کی

کوچہ گردوں کی وحشت تو جاگے، غمزدوں کو بغاوت تو آئے

٭٭٭






سزا کا حال سنائیں، جزا کی بات کریں

سزا کا حال سنائیں، جزا کی بات کریں

خدا ملا ہو جنہیں، وہ خدا کی بات کریں

انہیں پتہ بھی چلے اور وہ خفا بھی نہ ہوں

اس احتیاط سے کیا مدعا کی بات کریں

ہمارے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں

اگر قبا ہو تو ہم بھی بندِ قبا کی بات کریں

ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا

کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں

وفا شعار کئی ہیں، کوئی حسیں بھی تو ہو

چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں

٭٭٭






پیار کا تحفہ

(اپنے جگری دوست یش چوپڑہ کی شادی کے موقع پر)

کارگر ہو گئی احباب کی تدبیر اب کے

مانگ لی آپ ہی دیوانے نے زنجیر اب کے

جس نے ہر دام میں آنے میں تکلف برتا

لے اڑی اسے اک زلفِ گرہ گیر اب کے

جو سدا حسن کی اقلیم میں ممتاز رہے

دل کے آئینے میں اتری ہے وہ تصویر اب کے

خواب ہی خواب جوانی کا مقدر تھے کبھی

خواب سے بڑھ کے گلے مل گئی تعبیر اب کے

اجنبی خوش ہوئے اپنوں نے دعائیں مانگیں

اس سلیقے سے سنواری گئی تقدیر اب کے

یار کا جسن ہے اور پیار کا تحفہ ہیں یہ شعر

خود بخود ایک دعا بن گئی تحریر اب کے

٭٭٭






میں پل دو پل کا شاعر ہوں

میں پل دو پل کا شاعر ہوں، پل دو پل مری کہانی ہے

پل دو پل مری ہستی ہے، پل دو پل مری جوانی ہے

مجھ سے پہلے کتنے شاعر، آئے اور آ کر چلے گئے

کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے، کچھ نغمے گا کر چلے گئے

وہ بھی اک پل کا قصہ تھے، میں بھی اک پل کا قصہ ہوں

کل تم سے جدا ہو جاؤں گا، گو آج تمہارا حصہ ہوں

پل دو پل میں کہہ پایا، اتنی ہی سعادت کافی ہے

پل دو پل تم نے مجھ کو سنا، اتنی ہی عنایت کافی ہے

کل اور آئیں گے، نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے

مجھ سے بہتر کہنے والے، تم سے بہتر سننے والے

ہر نسل اک فصل ہے دھرتی کی، آج اگتی ہے کل کٹتی ہے

جیون وہ مہنگی مدرا ہے، جو قطرہ قطرہ بٹتی ہے

ساگر سے ابھری لہر ہوں میں، ساگر میں پھر کھو جاؤں گا

مٹی کی روح کا سپنا ہوں، مٹی میں پھر سو جاؤں گا

کل کوئی مجھ کو یاد کرے، کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے

مصروف زمانہ میرے لئے کیوں وقت اپنا برباد کرے

٭٭٭






گو مسلکِ تسلیم و رضا بھی ہے کوئی چیز

گو مسلکِ تسلیم و رضا بھی ہے کوئی چیز

پر غیرتِ اربابِ وفا بھی ہے کوئی چیز

کھلتا ہے ہر اک غنچۂ نو جوشِ نمو سے

یہ سچ ہے مگر لمسِ ہوا بھی ہے کوئی چیز

یہ بے رخیِ فطرتِ محبوب کے شاکی

اتنا بھی نہ سمجھے کہ ادا بھی ہے کوئی چیز

عبرت کدۂ دہر میں اے تارکِ دنیا

لذت کدۂ جرم و خطا بھی ہے کوئی چیز

لپکے کا گریباں پہ تو محسوس کرو گے

اے اہلِ دُوَل دستِ گدا بھی ہے کوئی چیز

٭٭٭






جو لطفِ میکشی ہے نگاروں میں آئے گا

جو لطفِ میکشی ہے نگاروں میں آئے گا

یا با شعور بادہ گساروں میں آئے گا

وہ جس کو خلوتوں میں بھی آنے سے عار ہے

آنے پہ آئے گا تو ہزاروں میں آئے گا

ہم نے خزاں کی فصل چمن سے نکال دی

ہم کو پیامِ مرگ بہاروں میں آئے گا

اس دورِ احتیاج میں جو لوگ جی لئے

ان کا بھی نام شعبدہ کاروں میں آئے گا

جو شخص مر گیا ہے وہ ملنے کبھی کبھی

پچھلے پہر کے سرد ستاروں میں آئے گا

٭٭٭






ورثہ

یہ وطن، تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

کتنے ذہنوں کا لہو، کتنی نگاہوں کا عرق

کتنے چہروں کی حیا، کتنی جبینوں کی شفق

خاک کی نذر ہوئی، تب یہ نظارے بکھرے

پتھروں سے تراشے ہوئے اصنامِ جواں

یہ صداؤں کے خم و پیچ، یہ رنگوں کی زباں

چمنیوں سے نکلتا ہوا پُر پیچ دھواں

تیری تخلیق نہیں ہے، مری تخلیق نہیں

ہم اگر ضد بھی کریں اس پہ تو تصدیق نہیں

علم سولی پہ چڑھا، تب کہیں تخمینہ بنا

زہر صدیوں نے پیا، تب کہیں نوشینہ بنا

سینکڑوں پاؤں کٹے، تب کہیں اک زینہ بنا

تیرے قدموں کے تلے، یا مرے قدموں کے تلے

نوعِ انساں کے شب و روز کی تقدیر نہیں

یہ وطن، تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

تیرا غم کچھ بھی سہی، میرا الم کچھ بھی سہی

اہلِ ثروت کی سیاست کا ستم کچھ بھی سہی

کل کی نسلیں بھی کوئی چیز ہیں، ہم کچھ بھی سہی

ان کا ورثہ ہوں کھنڈر، یہ ستم ایجاد نہ کر

تیری تخلیق نہیں تو اسے برباد نہ کر

جس سے دہقان کو روزی نہیں ملنے پاتی

میں نہ دوں گا تجھے وہ کھیت جلانے کا سبق

فصل باقی ہے تو تقسیم بدل سکتی ہے

فصل کی خاک سے کیا مانگے گا جمہور کا حق

پل سلامت ہے تو، تو پار اتر سکتا ہے

چاہے تبلیغِ بغاوت کے لئے ہی اترے

ورنہ غالبؔ کی زباں میں مرے ہمدم مرے دوست

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ

سوچ لے، پھر کوئی تعمیر گرانے جانا

تیری تعمیر سے جنگ ہے کہ تخریب سے جنگ

اہلِ منصب ہیں غلط کار تو ان کے منصب

تیری تائید سے ڈھالے گئے، تو مجرم ہے

میری تائید سے ڈھالے گئے، میں مجرم ہوں

پٹڑیاں ریل کی، سڑکوں کی بسیں، فون کے تار

تیری اور میری خطاؤں کی سزا کیوں بھگتیں

ان پہ کیوں ظلم ہو، جن کی کوئی تقصیر نہیں

یہ وطن، تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

تیرا شکوہ بھی بجا، میری شکایت بھی درست

رنگِ ماحول بدلنے کی ضرورت بھی درست

کون کہتا ہے کہ حالات پہ تنقید نہ کر

حکمرانوں کے غلط دعووں کی تردید نہ کر

تجھ کو اظہارِ خیالات کا حق حاصل ہے

اور یہ حق کوئی تاریخ کی خیرات نہیں

تیرے اور میرے رفیقوں نے لہو دے دیکر

ظلم کی خاک میں اس حق کا شجر بویا تھا

سالہا سال میں جو برگ و ثمر لایا ہے

اپنا حق مانگ مگر ان کے تعاون سے نہ مانگ

جو ترے حق کا تصور ہی فنا کر ڈالیں

ہاتھ اٹھا اپنے، مگر ان کے جِلو میں نہ اٹھا

جو ترے ہاتھ ترے تن سے جدا کر ڈالیں

خوابِ آزادیِ انساں کی یہ تعبیر نہیں

یہ وطن، تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

٭٭٭






گلشن گلشن پھول

گلشن گلشن پھول

دامن دامن دھول

مرنے پر تعزیر

جینے پر محصول

ہر جذبہ مصلوب

ہر خواہش مقتول

عشق پریشاں حال

نازِ حسن ملول

نعرۂ حق معتوب

مکر و ریا مقبول

سنورا نہیں جہان

آئے کئی رسول

٭٭٭






فن جو نادار تک نہیں پہنچا

فن جو نادار تک نہیں پہنچا

ابھی معیار تک نہیں پہنچا

اس نے بروقت بے رخی برتی

شوق، آزار تک نہیں پہنچا

عکسِ مے ہو، کہ جلوۂ گل ہو

رنگ رخسار تک نہیں پہنچا

حرفِ انکار سر بلند رہا

ضعف اقرار تک نہیں پہنچا

حکمِ سرکار کی پہنچ مت پوچھ

اہلِ سرکار تک نہیں پہنچا

عدل گاہیں تو دور کی شے ہیں

قتل اخبار تک نہیں پہنچا

انقلاباتِ دہر کی بنیاد

حق، جو حقدار تک نہیں پہنچا

وہ مسیحا نفس نہیں، جس کا

سلسلہ دار تک نہیں پہنچا

٭٭٭






آج کا پیار تھوڑا بچا کر رکھو

(ایوارڈ ملنے پر ساحر لدھیانوی کی طرف سے دنیا بھر کے انسانوں کے خراجِ تحسین کا جواب)

آپ کیا جانیں مجھ کو سمجھتے ہیں کیا

میں تو کچھ بھی نہیں

اس قدر پیار، اتنی بڑی بھیڑ کا، میں رکھوں گا کہاں؟

اس قدر پیار رکھنے کے قابل نہیں میرا دل میری جان

مجھ کو اتنی محبت نہ دو دوستو

سوچ لو دوستو!

پیار اک شخص کا بھی اگر مل سکے

تو بڑی چیز ہے زندگی کے لئے

آدمی کو مگر یہ بھی ملتا نہیں، یہ بھی ملتا نہیں

مجھ کو اتنی محبت ملی آپ سے

یہ مرا حق نہیں، مرلی تقدیر ہے

میں زمانے کی نظروں میں کچھ بھی نہ تھا

میری آنکھوں میں اب تک وہ تصویر ہے

اس محبت کے بدلے میں کیا نذر دوں

میں تو کچھ بھی نہیں

عزتیں، شہرتیں، چاہتیں، الفتیں

کوئی بھی چیز دنیا میں رہتی نہیں

آج میں ہوں جہاں، کل کوئی اور تھا

آج اتنی محبت نہ دو دوستو

کہ مرے کل کی خاطر نہ کچھ بھی رہے

آج کا پیار تھوڑا بچا کر رکھو

میرے کل کے لئے

کل جو گمنام ہے، کل جو سنسان ہے

کل جو انجان ہے، کل جو ویران ہے

میں تو کچھ بھی نہیں، میں تو کچھ بھی نہیں

٭٭٭

ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔