جمال کو بچپن ہی سے سر سبز درختوں، اونچے پہاڑوں، اچھلتے ابلتے چشموں اور بل کھاتی ندیوں سے محبت تھی۔ وہ اسی فضا میں رہتا تھا، اسے جنگلوں میں گھومتے پھرتے رہنا اچھا لگتا تھا، ابھی وہ دس سال ہی کا تھا کہ اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ شہروں سے دور اپنی زندگی جنگلوں ہی میں گزارے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا یہ ارادہ پکا ہوتا گیا اور اس نے سوچ لیا کہ وہ جنگلات کے محکمے میں کام کرے گا اور اس کے لیے جنگلات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گا۔
جب جمال نے انٹر کا امتحان پاس کیا تو اس کی عمر سترہ سال تھی اور اب اس کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ملک میں جنگلات کی تعلیم کا ایک ہی کالج تھا جہاں چار سال کا کورس کر کے وہ ایم ایف یعنی ماسٹر آف فاریسٹری کی ڈگری حاصل کر سکتا تھا لیکن یہ کالج مہنگا تھا اور جمال ایک غریب گھرانے کا لڑکا تھا۔
جمال نے جب انٹر پاس کیا تو اس کے پاس اپنے جیب خرچ میں سے بچائے ہوئے صرف سو روپے تھے لیکن وہ ایک حوصلہ مند لڑکا تھا۔ اس نے سوچا کہ کالج کھلنے تک گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ کوئی ملازمت کر کے روپیہ جمع کر لے گا اس نے اخباروں میں "ضرورت ہے" کے اشتہار پڑھنے شروع کر دیے۔ ایک دن ایک اشتہار پر اس کی نظر پڑی۔ یہ شمالی فاریسٹ سرکل کے چیف فاریسٹ آفیسر کی طرف سے تھا جس میں کہا گیا تھا کہ خانس پور کی چوکی کے لیے ایک آدمی کی ضرورت ہے جو جنگل کی نگرانی کرے اور جنگل میں آگ لگنے کی اطلاع دے سکے۔ تنخواہ ایک ہزار روپیہ مہینہ اور مفت رہائش۔ جمال یہ اشتہار دیکھ کر خوش ہو گیا اور مقررہ تاریخ پر اپنی درخواست لے کر چیف فاریسٹ آفیسر کے دفتر میں پہنچ گیا۔
چیف فاریسٹ آفیسر نے اس سے پوچھا۔ "تم کس کام سے آئے ہو؟"
"جی۔ میں ملازمت کے لیے آیا ہوں، وہ آپ نے خانس پور کے لیے اشتہار دیا ہے۔" جمال نے نہایت ادب سے جواب دیا۔
چیف فاریسٹ آفیسر نے جمال کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بولا:
"تمھیں معلوم ہے یہ کس قسم کا کام ہے؟"
"جی نہیں۔ لیکن میں جنگل میں آگ کی بہت اچھی نگرانی کر سکتا ہوں۔"
"تم ابھی لڑکے ہو اور یہ کام تمھارے بس کا نہیں ہے۔ محنت تو زیادہ نہیں ہے لیکن واچ ٹاور میں اکیلا رہنا پڑتا ہے اس لیے جسے جنگل کا ماحول پسند نہ ہو وہ پورے وقت ٹکتا نہیں ، پہلے ہی بھاگ جاتا ہے۔ سات میل اندر جنگل میں یہ واچ ٹاور ہے اور قریب میں کوئی آبادی بھی نہیں ہے، دن رات چوبیس گھنٹے وہاں رہنا ہوتا ہے۔ ٹیلے فون ہے لیکن اس پر اس دفتر کے سوا کہیں اور بات نہیں ہو سکتی۔ مہینے میں دو مرتبہ ایک آدمی کھانے پینے اور دوسری ضرورت کا سامان لے کر وہاں جاتا ہے۔ کبھی کبھار میں بھی چکر لگا لیتا ہوں۔ گرمیوں بھر تمھیں وہاں اکیلے ہی رہنا ہو گا، کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آئے گا۔ کیا تم وہاں اس طرح رہ لو گے؟"
جمال خاموشی سے سنتا رہا پھر بولا، "جی ہاں۔ میں رہ لوں گا مجھے جنگل پسند ہیں۔ میں اکیلا پن محسوس نہیں کروں گا۔"
چیف فاریسٹ آفیسر نے جمال کو ایک بار پھر غور سے دیکھا اور کہنے لگا،"ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اپنے کسی دوست کو لے آؤ۔ دونوں ساتھ رہو، آدھے وقت تم کام کرو، آدھے وقت وہ اور تنخواہ ملے وہ آدھی آدھی بانٹ لو۔ ایک طرح سے تم دونوں کی تفریح بھی ہو جائے گی۔"
جمال نے انکار میں گردن ہلاتے ہوئے کہا،"جی نہیں مجھے روپے کی ضرورت ہے۔ میں اپنی تنخواہ میں کسی کو شریک نہیں کر سکتا۔"
چیف فاریسٹ آفیسر سوچ میں پڑ گیا۔ ایک وقت وہ بھی ایسا ہی ایک نوجوان لڑکا تھا اور اسی کی طرح ضرورت مند۔ پھر نرمی سے بولا۔ "تمھیں روپے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟"
جمال نے اسے بتایا کہ وہ فاریسٹ کالج میں داخلہ لینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے رقم چاہیے۔"
چیف فاریسٹ آفسر مسکرایا۔
"اچھا تو تم فاریسٹ سروس میں آنا چاہتے ہو۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اب میں تمھاری درخواست کیسے رد کر سکتا ہوں۔"
ایک ہفتے کے اندر اندر جمال کو یہ نوکری مل گئی اور وہ دو ہفتوں کے راشن کے ساتھ خانس پور کی مشاہداتی چوکی پر پہنچ گیا۔ محکمہ جنگلات نے اس کو اس کے کام کے متعلق جو سامان اور آلات وغیرہ دیے تھے ان کے علاوہ اپنے ساتھ اپنی کچھ کتابیں، الارم والی ایک چھوٹی گھڑی اور ایک کیمرہ جو اس کے دوست نے اس کو دیا تھا، اپنے ساتھ لے آیا تھا۔
خانس پور کی چوکی اصل میں ایک اونچی پہاڑی پر بنا ہوا پتھروں کا بیس فٹ اونچا گول ٹاور تھا۔ نیچے ایک چھوٹا سا باورچی خانہ تھا، اس کے اوپر سونے کا کمرا اور تیسری منزل پر نگرانی کا کمرا تھا جس میں چاروں طرف کھڑکیاں تھیں۔ جن سے دور کا منظر صاف نظر آتا تھا، میلوں تک پھیلے گھنے جنگل، سر سبز پہاڑیاں، وادیاں اور ندی نالے۔ آسمان صاف ہوتا تو دن میں مغرب کی سمت دور جھیل کا پانی سورج کی کرنوں سے جھلمل جھلمل کرتا دکھائی دیتا اور راتوں کو میلوں دور شہر کی روشنیاں بھی ستاروں کی طرح ٹمٹماتی نظر آتیں۔
اس خوب صورت علاقے میں جمال کی ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ چاروں طرف نظر رکھے اور اگر کہیں دھواں اٹھتا نظر آئے تو نقشے میں اس جگہ کا صحیح تعین کر کے فوراً ٹیلی فون پر چیف فاریسٹ آفیسر کے دفتر کو اس کی اطلاع دے۔ کئی سال سے خوش قسمتی سے بارشیں خوب ہو رہی تھیں اس لیے کہیں کوئی بڑی آگ نہیں لگی تھی صرف دو ہی معمولی واقعات آگ لگنے کے ہوئے تھے۔
چیف فاریسٹ آفیسر اکثر جمال کو فون کیا کرتے تھے، ایک تو یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ اپنی ڈیوٹی پر موجود ہے یا نہیں اور دوسرے انھیں اس لڑکے سے کچھ انسیت سی ہو گئی تھی۔ جمال اپنی ڈیوٹی کے معاملے میں بہت سنجیدہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا کیا فرض ہے اور وہ اس فرض کو پوری ذمہ داری اور دیانت داری سے انجام دے رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ واچ ٹاور سے نکل کر اب ہرے بھرے جنگلوں میں گھومے پھرے، پہاڑوں پر چڑھے۔ لیکن وہ کبھی ٹاور سے اتنی دور نہیں گیا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز اس کو نہ سنائی دے۔ اس لیے وقت بے وقت جب بھی چیف نے فون کیا وہ وہاں موجود ہوا۔ دفتر کا آدمی پندرہ دن بعد کھانے پینے کا سامان لے کر آتا تھا اور چیف فاریسٹ آفیسر نے بھی ان دو ڈھائی مہینوں میں دو تین چکر خانس پور کی چوکی کے لگائے لیکن زیادہ تر جمال اکیلا ہی رہا۔ ایک دوربین ہی اس کی ساتھی تھی جس سے وہ دور کسی آدمی کو آتے جاتے دیکھ لیتا تھا۔
اگست کے مہینے میں ایک دن تیسرے پہر چیف کا فون آیا، انھوں نے جمال کو بتایا کہ وہ چند دن کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ ان کے پیچھے اصغر صاحب انچارج ہوں گے۔ اگر کوئی بات ہو تو وہ انھی کو بتائے۔
جمال نے پوچھا۔ "اور تو سب ٹھیک ہے۔ کوئی خاص خبر تو نہیں؟"
چیف نے جواب دیا: "ہاں کوئی خاص بات نہیں سوائے اس کے کہ کل رات کمرشل بینک میں ڈاکہ پڑ گیا اور ڈاکو ایک لاکھ رپے لوٹ کر لے گئے۔ پولیس کا خیال ہے کہ ڈاکو پشاور کی طرف گئے ہیں۔ اچھا اللہ حافظ۔"
جمال کو ڈاکے کی خبر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن نہ جانے کیوں یہ خبر اس کے ذہن پر اس قدر سوار رہی کہ جب رات کو آہٹ سے اس کی آنکھ کھلی اور اس نے دیکھا کہ تین آدمی اس کے بستر کے پاس کھڑے ہیں جن میں سے ایک ہاتھ میں پستول ہے تو وہ سمجھا کہ وہ کمرشل بینک میں ڈاکے کے بارے میں خواب دیکھ رہا ہے۔
"اٹھو:" اس آدمی نے جو پستول لیے ہوئے تھا جمال کو ڈانٹ کر کہا اور ہمارے لیے کھانے کا انتظام کرو۔"
جمال اٹھ کر بیٹھ گیا۔ "تم کون ہو؟" اس نے پوچھا۔
"اس کی فکر نہ کرو۔" اس نے جواب دیا۔
جمال نے کمرے میں نظریں گھما کر دیکھا۔ اس آدمی نے پھر ڈانٹا۔
"گڑ بڑ کرنے کی ضرورت نہیں۔ چپ چاپ اٹھ کر کھانے کا انتظام کرو، ورنہ تمھاری خیر نہیں ہے۔ "
جمال جلدی سے بستر سے اٹھ گیا اور نیچے جانے لگا، دو آدمی اس کے ساتھ نیچے آئے، پھر تیسرا بھی آ گیا۔ جمال نے کھانے کی چیزیں میز پر رکھ دیں اور وہ تینوں بھوکوں کی طرح ان پر پل پڑے، جمال کی نظر فرش پر پڑیں تو اس نے دیکھا کہ کینوس کے تین تھیلے پڑے ہیں جن کو وہ آدمی تھوڑی تھوری دیر بعد دیکھ لیتے تھے۔ اب پو پھٹ رہی تھی جمال کو ان تینوں کے چہرے زیادہ صاف نظر آئے ان سے سفاکی ٹپک رہی تھی۔
کھانے سے فارغ ہو کر اس آدمی نے جس کے ہاتھ میں پستول تھا اور جو ان کا سرغنہ معلوم ہوتا تھا سخت لہجے میں جمال سے بولا:
"چلو اوپر، اور دیکھو اگر نیچے اترنے کی کوشش کی تو گولی مار دوں گا، سمجھے!"
جمال کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے وہ کر گزرے گا۔ وہ چپ چاپ زینے پر چڑھ گیا اور آخری منزل پر نگرانی کے کمرے میں آ کر بیٹھ گیا۔ وہ اکیلا ان تین مسلح آدمیوں کے مقابلے میں اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
"یہ اوپر جا کر کوئی گڑبڑ نہ کر دے۔" ایک آدمی نے کہا۔
"یہ کچھ نہیں کر سکتا۔" پستول والے نے کہا۔ "میں نے ٹیلی فون پہلے ہی کاٹ دیا ہے۔"
جمال نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ ٹیلی فون کا تار کٹا ہوا تھا اور اس کا دوسرا سرا کوئی سو فٹ دور ایک چٹان کے کھمبے سے لٹک رہا تھا۔ وہ زینے پر آیا جہاں سے اس کو پہلی منزل پر باورچی خانے میں رکھی ہوئی کھانے کی میز نظر آ رہی تھی۔ وہ تین آدمی کینوس کے تھیلے میز پر خالی کر رہے تھے۔ ان سب میں نوٹ بھرے ہوئے تھے۔ کچھ پرائز بانڈ وغیرہ بھی تھے، اچانک ان کے سرغنے کی نظر اوپر اٹھی، اس نے جمال کو دیکھا کہ وہ ان کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے نہایت تیزی سے اپنا پستول نکالا اور جمال پر گولی چلا دی۔ یہ جمال کی خوش قسمتی تھی کہ گولی اس سے چند انچ فاصلے سے گزر کر چھت میں جا لگی ورنہ اس کی موت یقینی تھی۔
اب جمال کو پتا چل گیا تھا کہ یہ وہ ڈاکو ہیں جنھوں نے کمرشل بنک لوٹا ہے اور پشاور کی طرف جانے کی بجائے ادھر جنگل میں آ گئے ہیں۔ وہاں تو پولیس شاہراہوں پر کاروں کو روک کر تلاشی لے رہی ہو گی اور ریلوے اسٹیشنوں کی نگرانی کر رہی ہو گی اور یہاں جنگل میں ڈاکو اطمینان سے بیٹھے نوٹ گن رہے ہیں۔ ان ڈاکوؤں کے علاوہ ایک اور شخص ایسا ہے جو اس راز سے واقف ہے لیکن وہ بے بس، اس کمرے میں قید ہے۔
واچ ٹاور سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ کھڑکی سے بیس فٹ نیچے پہاڑی چٹانوں پر کودنے کا مطلب تھا ہاتھ پاؤں تڑوانا۔ جمال نے سوچا، وہ انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ چناں چہ وہ کھڑکی کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس طرح دوپہر ہو گئی۔ اچانک اس نے دیکھا کہ جنگل سے ہو کر آنے والے راستے پر محکمہ جنگلات کا وہ آدمی چلا آ رہا ہے جو اس کے کھانے کا سامان لے کر آیا کرتا تھا۔ اسے آپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ نتائج کی پرواہ کیے بغیر وہ کھڑکی میں سے سر نکال کر چیخا۔
"تین ڈاکو نیچے بیٹھے ہیں۔ وہ تمھیں مار ڈالیں گے۔ واپس بھاگ جاؤ۔"
جمال کی آواز سن کر وہ آدمی ایک لمحے کے لیے رکا لیکن پھر چل پڑا۔ اتنے میں ڈاکوؤں کا سرغنہ بڑے اطمینان سے باہر نکلا اور اس آدمی کے ساتھ ہاتھ ملا کر باتیں کرنے لگا۔
"اچھا تو یہ آدمی بھی ڈاکو سے ملا ہوا ہے۔" جمال کا دل ڈوب گیا ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ آدمی واپس بھاگ کر خبر کر دے گا وہ بھی ختم ہو گئی۔ اب یہاں کون آئے گا؟ ڈاکو نہ جانے کب تک یہاں رہیں گے، وہ نہ جانے اس کا کیا حشر کریں گے۔ وہ اسے جانے نہیں دیں گے۔ وہ ان کا راز جان گیا ہے۔ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ صورت سے ظالم لگتے ہیں۔
جمال کو نیچے سے ان لوگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔ وہ زینے کے پاس فرش پر لیٹ گیا اور نیچے کی طرف کان لگا کر سننے لگا۔ محکمہ جنگلات کا آدمی انھیں بتا رہا تھا کہ پولیس سختی سے تلاشی لے رہی ہے۔ انھیں اس سے بہت خوشی ہوئی کہ پولیس کے خیال میں وہ مغرب یا شمال کی طرف گئے ہیں اور انھوں نے مطمئن ہو کر اونچی آواز میں اپنے آئندہ پروگرام کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیں۔ انھوں نے طے کیا کہ جب اندھیرا ہو جائے گا تو وہ الگ الگ راستوں سے نکل کر سب سے قریب کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جائیں گے اور ریل میں بیٹھ کر فرار ہو جائیں گے۔ جنگلات کے محکمے کا راشن لانے والا آدمی معمول کے مطابق واپس چلا جائے گا لیکن اسے جاتے ہی ایک تار ملے گا کہ اس کے بھائی کا کراچی میں انتقال ہو گیا ہے۔ اس تار کو دیکھتے ہی وہ کراچی جانے کے بہانے نکل بھاگے گا۔
"اور اس لڑکے کا کیا ہو گا؟" کسی نے سوال کیا۔
سرغنے نے کہا۔ "اسے یہاں باندھ کر چھوڑ جائیں گے۔ اب اگر وہ بھوک پیاس سے مر گیا تو مر جائے۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔"
جمال یہ سن کر کانپ اٹھا۔
تھوڑی دیر بعد جنگلات کے محکمے کا ملازم اوپر آیا اور جمال سے بولا: "تمھیں اگلی مرتبہ جو چیزیں منگانا ہوں ان کی فہرست بنا لو۔ میں تین بجے واپس چلا جاؤں گا۔"
اس نے ڈاکوؤں سے اپنی دوستی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔
جمال نے سوچا کیا وہ اسے بےوقوف سمجھتا ہے کہ اس نے جو کچھ دیکھا ہے اس کے بعد بھی وہ کسی غلط فہمی میں رہے گا۔ بہرحال اس نے سوچا کہ وہ بھی خاموش رہے گا اور اس کے کہنے کے مطابق سامان کی فہرست بنا کر دے دے گا۔
تھوڑی دیر میں جمال کو باہر کا دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ راشن والا آدمی اور تینوں ڈاکو درختوں کے سایہ میں چٹانوں پر کمبل بچھا رہے تھے۔ وہ ساری رات جاگنے اور پہاڑی جنگل میں چلنے کے بعد تھک گئے تھے اور آرام کرنا چاہ رہے تھے۔ ٹاور کے دروازے کو بند کر کے انھوں نے باہر سے تالا ڈال دیا تھا اور جمال کی طرف سے بے فکر ہو گئے تھے۔ جلد ہی وہ تینوں گہری نیند سو گئے۔
جمال سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ اس کی جان سخت خطرے میں تھی۔ یہ ڈاکو صورت ہی سے خونخوار نظر آ رہے تھے۔ وہ یقیناً اسے ٹاور میں باندھ کر چھوڑ جائیں گے تاکہ وہ بھوکا پیاسا مر جائے۔ اس نے سوچا ایسا وقت آنے سے پہلے وہ کھڑکی میں سے کود جائے گا چاہے جیے یا مرے۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی نگاہ گھڑی پر پڑی جو سامنے میز پر رکھی ٹک ٹک کر رہی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا الارم کلاک تھا بیٹری سے چلنے والا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اتنا چھوٹا سا ہونے کے باوجود اس کا الارم بہت تیز تھا۔ گہری سی گہری نیند سونے والے کو بھی جگا دیتا تھا۔ اس کی آواز دور تک جاتی تھی۔ گھڑی پر نظر پڑتے ہی جمال کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ دو منٹ تک وہ سوچتا رہا۔ پھر خاموشی سے اٹھا اور چپکے چپکے نیچے باورچی خانے میں آیا۔ نوٹوں سے بھرے ہوئے تینوں تھیلے میز کے نیچے پڑے ہوئے تھے۔ اس کا جی چاہا کہ کھول کر دیکھے مگر ایک ایک لمحہ قیمتی تھا اور وہ اسے ضائع نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے جو ترکیب سوچی تھی اس پر عمل کرنا تھا۔
جمال نے مکئی کے دلیے سے بھرا ایک ڈبا اٹھایا۔ اس میں سے دو تہائی دلیہ نکال کر ایک پلیٹ میں رکھ لیا پھر جو دلیہ ڈبے میں باقی رہ گیا اسے ایک سا کر دیا اور اس کے اوپر کوئی ایک خالی ڈبا رکھ دیا۔ پھر اس نے ایک کاغذ پنسل لے کر لکھنا شروع کر دیا۔
کمرشل بنک میں ڈاکہ ڈالنے والے تینوں ڈاکو خانس پور کے واچ ٹاور میں ہیں۔ لوٹی ہوئی رقم بھی ان کے پاس ہے۔ وہ اندھیرا ہوتے ہی یہاں سے الگ الگ راستوں سے ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔۔ جنگلات کا جو ملازم میرے لیے راشن لے کر آتا ہے ان سے ملا ہوا ہے اور اگر اسے گرفتار نہ کیا گیا تو وہ بھی آج رات کو فرار ہو جائے گا۔ ڈاکوؤں نے ٹیلی فون کے تار کاٹ دیے ہیں اور میں ٹاور میں قید ہوں۔
یہ پرچہ لکھ کر جمال نے کافی کے اس خالی ڈبے میں رکھ دیا جو اس نے بڑے ڈبے میں دلیے اوپر رکھ دیا تھا۔۔ پھر اس گھڑی اٹھائی اور چابی بھر کر ساڑھے پانچ بجے کا الارم لگا دیا۔ گھڑی کو بھی اس نے کوفی کے ڈبے میں رکھ دیا اور ڈبا بند کر دیا۔۔ پھر جو دلیہ پلیٹ میں نکالا تھا وہ اس پر ڈال دیا تاکہ کوفی کا ڈبا اس میں بالکل چھپ جائے۔ اب اس نے ڈبے کو ہاتھ میں کے کر وزن کا اندازہ کیا پھر کان سے لگا کر سنا کہ گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز تو نہیں آ رہی۔ جب ہر طرح اطمینان ہو گیا تو ڈبے کو دوبارہ شیلف پر رکھ دیا۔۔ کسی کو شبہ بھی نہ ہو سکتا تھا کہ اس میں دلیے کے علاوہ کوئی چیز ہے۔۔ تین منٹ بعد وہ پھر خاموشی سے اوپر نگرانی کے کمرے میں پہنچ گیا۔
کوئی گھنٹہ بھر بعد ٹاور کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور نیچے سے راشن لانے والے آدمی نے پکار کر جمال سے پوچھا کہ کیا اس نے سامان کی فہرست تیار کر دی ہے۔ جمال نے فہرست نیچے پھینک دی۔ ڈاکوؤں کے سرغنے نے یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی خفیہ پیغام تو نہیں لکھا فہرست پر ایک نظر ڈالی پھر راشن والے آدمی کے حوالے کر دی۔
پھر جمال نے اوپر سے پکار کر کہا۔ "دلیے کا جو ڈبا تم پچھلی دفعہ لائے تھے، خراب ہے۔ اس کو واپس کر کے دوسرا ڈبا لیتے آنا۔"
"چھوڑو اسے، پڑا رہنے دو جیسا بھی ہے۔" اس نے جھلا کر کہا۔
"نہیں، اس ڈبے کو لے جاؤ۔ ڈاکوؤں کے سرغنے نے حکم دیا۔ "اس سے ظاہر ہو گا کہ سب ٹھیک ہے۔"
"لاؤ کہاں ہے، وہ دلیے کا ڈبا۔" راشن والے آدمی نے پوچھا۔
جمال نے اوپر سے چلا کر کہا کہ سامنے شیلف پر رکھا ہے۔ راشن لانے والے آدمی نے وہ ڈبا شیلف پر سے اٹھایا اور ایک لمحے کے لیے جمال کے دل کی دھڑکن رک گئی۔ مگر اس نے ڈبے کو بیگ میں رکھ لیا اور روانہ ہو گیا۔
سورج آہستہ آہستہ پہاڑیوں کے پیچھے غروب ہو رہا تھا اور وادی میں اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔۔ ڈاکوؤں کے سرغنے نے جمال کو آواز دی کہ وہ نیچے آئے۔ جیسے ہی وہ نیچے آیا، دو ڈاکوؤں نے لپک کر اسے پکڑ لیا اور دو منٹ کے اندر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر فرش پر ڈال دیا۔ پھر ڈاکوؤں کا سرغنہ اس سے بولا:
"تم حوصلہ مند لڑکے ہو اور مجھے تمھیں اس طرح باندھ کر یہاں چھوڑ جانے کا افسوس ہے۔ لیکن تم نے سب کچھ دیکھ لیا ہے اور ہم تمہیں آزاد نہیں چھوڑ سکتے کہ ہمیں پکڑوا دو۔ اگر سب ٹھیک رہا تو دو تین دن بعد میں کسی کو بھیج دوں گا کہ تمھیں آ کر کھول دے۔ یہ اپنی اور کھانے کا سامان تمھارے پاس فرش پر رکھا ہے۔ ایک دو دن تو گزر ہی جائیں گے۔"
جمال سوچنے لگا کہ اس سے بہتر تھا کہ اوپر کھڑکی میں سے کود جاتا۔ اس طرح بندھے ہوئے اور اتنے تھوڑے سے پانی اور بسکٹوں سے وہ کتنے دن زندہ رہ سکے گا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا مگر اس نے ہمت سے کام لیا اور ڈاکوؤں پر اپنی پریشانی اور ڈر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس نے سوچا، اللہ مددگار ہے، مشکل وقت میں وہی اپنے بندوں کا سہارا ہے اور اسی سے مدد مانگنی چاہیے۔ اس نے ایک ترکیب سے اپنا پیغام پہچانے کی کوشش تو کی ہے شاید وہ کامیاب ہو جائے۔ اس خیال سے اس کی کچھ ڈھارس بندھی۔
"چلو، اب اندھیرا ہو گیا ہے، نکل چلنا چاہیے۔" ڈاکوؤں کے سرغنے نے کہا اور وہ میز پر سے نوٹوں کے تھیلے اٹھا کر اندھیرے میں باہر نکل گئے عین اسی وقت لوگوں کے دوڑنے اور مارنے کی آوازیں آئیں اور ایک دو گولیاں بھی چلیں۔ پھر کسی کی بھاری آواز آئی:
"انھیں اچھی طرح باندھ دو، کوئی زخمی تو نہیں ہوا، چلو اچھا ہے ہاں! وہ لڑکا کہاں ہے؟"
"میں یہاں ہوں، ٹاور میں۔" جمال نے چیخ کر کہا۔
اسی وقت دروازے میں سے دو ٹارچوں کی روشنی اس پر پڑی، اور ایک آدمی جو پولیس انسپکٹر کی وردی میں تھا لپک کر اندر آیا اور اس نے آگے بڑھ کر جمال کی رسیاں کاٹ دیں۔ پھر اس نے باہر ٹارچ کی روشنی پھینکی جہاں وہ تینوں ڈاکو ہتھکڑیاں لگے پڑے تھے، اور کئی سپاہی ان کی نگرانی کر رہے تھے۔
"دیکھو وہ رہے تمھارے دوست۔" انسپکٹر نے جمال سے کہا۔ "راشن لانے والے کو بھی ہم نے پکڑ لیا ہے۔ ہمیں تمھارا پرچہ مل گیا تھا۔ تم نے واقعی کمال کر دیا۔ تمھیں گھڑی میں الارم لگانے کی خوب سوجھی۔ جس وقت یہ آدمی ڈبا واپس کرنے آیا تو میں بھی اتفاق سے وہیں دکان میں تھا۔ دکان دار نے اس سے ڈبا لے کر شیلف میں رکھ دیا۔ اور چند منٹ بعد ڈبے کے اندر سے الارم بجنے لگا۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ پھر جب دکان دار نے ادھر ادھر دیکھا اور دلیے کا ڈبہ کھولا تو اندر سے الارم کی زوردار آواز سنائی دی کوفی کا ڈبا نکال کر دیکھا تو گھڑی کے ساتھ تمھارا پرچہ ملا۔ میں نے اسی وقت کاروائی شروع کر دی، تمھاری ذہانت سے ڈاکو بھی پکڑے گئے اور رقم بھی مل گئی۔ تمھیں یقیناً انعام ملنا چاہیے۔"
اور واقعی جمال کو انعام ملا۔ اس کو فاریسٹ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفہ مل گیا۔ وہ جنگل کا دوست تھا اور یہی خواہش تھی کہ فاریسٹ آفیسر بن کر جنگل میں رہے۔
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید