12:19    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

مجموعہ جنگل میں مور

1544 0 0 00




نیل گگن میں تیر رہا ہے اجلا اجلا پورا چاند

نیل گگن میں تیر رہا ہے اجلا اجلا پورا چاند

کن آنکھوں سے دیکھا جاۓ چنچل چہرے جیسا چاند

مُنّی کی بھولی باتوں سی چھِٹکیں تاروں کی کلیاں

پپّو کی معصوم شرارت سا چھپ چھپ کر ابھرا چاند

مجھ سے پوچھو کیسے کاٹی میں نے پربت جیسی رات

تم نے تو گودی میں لے کر گھنٹوں چوما ہوگا چاند

پردیسی سونی آنکھوں میں شعلے سے لہراتے ہیں

بھابھی کی چھیڑوں سے بادل، آپا کی چُٹکی سا چاند

تم بھی لکھنا تم نے اس شب کتنی بار پیا پانی

تم نے بھی تو چھجّے اوپر دیکھا ہوگا پورا چاند






اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا

ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا

اس کو رخصت تو کیا تھا، مجھے معلوم نہ تھا

سارا گھر لے گیا، گھر چھوڑ کے جانے والا

اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا

کوئی جلدی میں، کوئی دیر سے جانے والا

ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ

جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا






اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے

اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے

گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے

جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں

ان چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے

باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں

کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے

خودکشی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی سب میں

اور کچھ دن یونہی اوروں کو ستایا جائے

گھر سے مسجد ہے بہت دور، چلو یوں کر لیں

کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے، ادھر کے ہم ہیں






پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے

کس کو معلوم، کہاں کے ہیں، کدھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب

سوچتے رہتے ہیں کس راہگزر کے ہم ہیں

گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم

ہر قلمکار کی بےنام خبر کے ہم ہیں






بدلا نہ اپنے آپ کو، جو تھے وہی رہے

بدلا نہ اپنے آپ کو، جو تھے وہی رہے

ملتے رہے سبھی سے مگر اجنبی رہے

دنیا نہ جیت پاؤ تو ہارو نہ خود کو تم

تھوڑی بہت تو ذہن میں ناراضگی رہے

اپنی طرح سبھی کو کسی کی تلاش تھی

ہم جس کے بھی قریب گئے، دور ہی رہے

گزرو جو باغ سے تو دعا مانگتے چلو

جس میں کھلے ہیں پھول وہ ڈالی ہری رہے






تنہا تنہا ہم رو لیں گے، محفل محفل گائیں گے

تنہا تنہا ہم رو لیں گے، محفل محفل گائیں گے

جب تک آنسو ساتھ رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے

تم جو سوچو، وہ تم جانو، ہم تو اپنی کہتے ہیں

دیر نہ کرنا گھر جانے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے

بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو

چار کتابیں پڑھ کر وہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے

کن راہوں سے دور ہے منزل، کون سا رستہ آساں ہے

ہم جب تھک کر رک جائیں گے، اوروں کو سمجھائیں گے

اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں، ممکن ہے

ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکہ کھائیں گے






اُس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے

اُس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے

جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا،یہ غم باقی ہے

اب نہ طہ چھت ہے نہ وہ زینہ ،نہ انگور کی بَیل

صرف ایک اس کو بھُلانے کی قسم باقی ہے

میں نے پُوچھا تھا سبب پیڑ گر جانے کا

اُٹھ کے مالی نے کہا اُس کی قلم باقی ہے

جنگ کے فیصلے میداں میں کہاں ہو تے ہیں

جب تلک حافِظے باقی ہے علم باقی ہے

تھک کے گرتا ہے ہرن صرف شکاری کے لیے

جسم گھائل ہے مگر آنکھوں میں رم باقی ہے






تیرا ہجر میرا نصیب ہے، تیرا غم ہی میری حیات ہے

تیرا ہجر میرا نصیب ہے، تیرا غم ہی میری حیات ہے

مجھے تیری دوری کا غم ہو کیوں، تو کہیں بھی ہو، میرے ساتھ ہے

میرے واسطے تیرے نام پر کوئی حرف آئے، نہیں نہیں

مجھے خوف ِ دنیا نہیں مگر میرے رو برو تیری ذات ہے

تیرا وصل، اے میری دلربا، نہیں میری قسمت تو کیا ہوا

میری مہ جبیں، یہی کم ہے کیا، تیری حسرتوں کا تو ساتھ ہے

تیرا عشق مجھ پہ ہے مہرباں، میرے دل کو ہیں حاصل دوجہاں

میری جان ِ جاں اسی بات پر میری جان جائے تو بات ہے






جب کسی سے کوئی گلہ رکھنا

جب کسی سے کوئی گلہ رکھنا

سامنے اپنے آئینہ رکھنا

یوں اجالوں سے واسطہ رکھنا

شمع کے پاس ہی ہوا رکھنا

گھر کی تعمیر چاہے جیسی ہو

اس میں رونے کی بھی جگہ رکھنا

مسجدیں ہیں نمازیوں کے لیے

اپنے گھر میں کہیں خدا رکھنا

ملنا جلنا جہاں ضروری ہو

ملنے جلنے کا حوصلہ رکھنا






جیون کیا ہے، چلتا پھرتا ایک کھلونا ہے

جیون کیا ہے، چلتا پھرتا ایک کھلونا ہے

دو آنکھوں میں ایک سے ہنسنا، ایک سے رونا ہے

جو جی چاہے، وہ مل جائے، کب ایسا ہوتا ہے

ہر جیون، جیون جینے کا سمجھوتا ہوتا ہے

اب تک جو ہوتا آیا ہے، وہ ہی ہونا ہے

رات اندھیری، بھور سنہری، یہی زمانہ ہے

ہر چادر میں دکھ کا تانا، سکھ کا بانا ہے

آتی سانس کو پانا، جاتی سانس کو کھونا ہے






دن سلیقے سے اگا، رات ٹھکانے سے رہی

دن سلیقے سے اگا، رات ٹھکانے سے رہی

دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی

چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصور آنکھیں

زندگی روز تو تصویر بنانے سے رہی

اس اندھیرے میں تو ٹھوکر ہی اجالا دے گی

رات جنگل میں کوئی شمع جلانے سے رہی

فاصلہ چاند بنا دیتا ہے ہر پتھر کو

دور کی روشنی نزدیک تو آنے سے رہی

شہر میں سب کو کہاں ملتی ہے رونے کی فرصت

اپنی عزت بھی یہاں ہنسنے ہنسانے سے رہی






دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے

دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

اچھا سا کوئی موسم، تنہا سا کوئی عالم

ہر وقت کا رونا تو بیکار کا رونا ہے

برسات کا بادل تو دیوانہ ہے، کیا جانے

کس راہ سے بچنا ہے، کس چھت کو بھگونا ہے

غم ہو کہ خوشی، دونوں کچھ دیر کے ساتھی ہیں

پھر رستہ ہی رستہ ہے، ہنسنا ہے نہ رونا ہے






دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ

دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ

ہر وقت میرے ساتھ ہے الجھا ہوا سا کچھ

ہوتا ہے یوں بھی راستہ، کھلتا نہیں کہیں

جنگل سا پھیل جاتا ہے کھویا ہوا سا کچھ

ساحل کی گیلی ریت پہ بچوں کے کھیل سا

ہر لمحہ مجھ میں بنتا بکھرتا ہوا سا کچھ

فرصت نے آج گھر کو سجایا کچھ اس طرح

ہر شے سے مسکراتا ہے روتا ہوا سا کچھ

دھندلی سی ایک یاد، کسی قبر کا دیا

اور میرے آس پاس چمکتا ہوا سا کچھ






ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا

ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا

جسے نگاہ ملی، اس کو انتظار ملا

وہ کوئی راہ کا پتھر ہو یا حسیں منظر

جہاں سے راستہ ٹھہرا وہیں مزار ملا

کوئی پکار رہا تھا کھلی فضاؤں سے

نظر اٹھائی تو چاروں طرف حصار ملا

ہر ایک سانس نہ جانے تھی جستجو کس کی

ہر اک دیار مسافر کو بے دیار ملا

یہ شہر ہے کہ نمائش لگی ہوئی ہے کوئی

جو آدمی بھی ملا، بن کے اشتہار ملا






سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں

تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

یہی ہے زندگی کچھ خاک چند امیدیں

انہی کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو






محبت میں وفاداری سے بچیے

محبت میں وفاداری سے بچیے

جہاں تک ہو اداکاری سے بچیے

ہر اک صورت بھلی لگتی ہے کچھ دن

لہو کی شعبدہ کاری سے بچیے

شرافت، آدمیت، دردمندی

بڑے شہروں میں بیماری سے بچیے

ضروری کیا ہر اک محفل میں آنا

تکلف کی رواداری سے بچیے

بنا پیروں کے سر چلتے نہیں ہیں

بزرگوں کی سمجھداری سے بچیے






مسجد مندر

سجدوں مندروں کی دنیا میں

مجھ کو پہچانتے کہاں ہیں لوگ

روز میں چاند بن کے آتا ہوں

دن میں سورج سا جگمگاتا ہوں

کھنکھناتا ہوں ماں کے گہنوں میں

ہنستا رہتا ہوں چھپ کے بہنوں میں

میں ہی مزدور کے پسینے میں

میں ہی برسات کے مہینے میں

میری تصویر آنکھ کا آنسو

میری تحریر جسم کا جادو

مسجدوں مندروں کی دنیا میں

مجھ کو پہچانتے نہیں جب لوگ

میں زمینوں کو بے ضیا کر کے

آسمانوں میں لوٹ جاتا ہوں

میں خدا بن کے قہر ڈھاتا ہوں






میں رویا پردیس میں، بھیگا ماں کا پیار

چھوٹا کر کے دیکھیے جیون کا وستار

آنکھوں بھر آکاش ہے، بانہوں بھر سنسار

لے کے تن کے ناپ کو گھومے بستی گاؤں

ہر چادر کے گھیر سے باہر نکلے پاؤں

سب کی پوجا ایک سی الگ الگ ہر ریت

مسجد جائے مولوی، کوئل گائے گیت

پوجا گھر میں مورتی، میرا کے سنگ شیام

جس کی جتنی چاکری، اتنے اس کے دام

ساتوں دن بھگوان کے، کیا منگل کیا پیر

جس دن سوئے دیر تک، بھوکا رہے فقیر

اچھی سنگت بیٹھ کر سنگی بدلے روپ

جیسے مل کر آم سے میٹھی ہو گئی دھوپ

سپنا جھرنا نیند کا، جاگی آنکھیں پیاس

پانا، کھونا، کھوجنا، جیون کا اتہاس

چاہے گیتا وانچیے، یا پڑھیے قرآن

میرا تیرا پیار ہی ہر پستک کا گیان






چاند سے، پھول سے یا میری زباں سے سنیے

چاند سے، پھول سے یا میری زباں سے سنیے

ہر طرف آپ کا قصہ ہے جہاں سے سنیے

سب کو آتا نہیں دنیا کو سجا کر جینا

زندگی کیا ہے، محبت کی زباں سے سنیے

میری آواز ہی پردہ ہے میرے چہرے کا

میں ہوں خاموش جہاں مجھ کو وہاں سے سنیے

کیا ضروری ہے کہ ہر پردہ اٹھایا جائے

میرے حالات کو اپنے ہی مکاں سے سنیے






کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے ہی کو بہلایا ہے

کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے ہی کو بہلایا ہے

باتوں کو خود ہی نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے

ہم سے پوچھو عزت والوں کی عزت کا حال کبھی

ہم نے بھی اس شہر میں رہ کر تھوڑا نام کمایا ہے

اس سے بچھڑے برسوں بیتے لیکن آج نہ جانے کیوں

آنگن میں ہنستے بچوں کو بے کارن دھمکایا ہے

کوئی ملا تو ہاتھ ملایا کہیں گئے تو باتیں کیں

گھر سے باہر جب بھی نکلے دن بھر بوجھ اٹھایا ہے






گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا

گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا

چڑیوں کو دانے، بچوں کو گڑ دھانی دے مولا

دو اور دو کا جوڑ ہمیشہ چار کہاں ہوتا ہے

سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی نادانی دے مولا

پھر روشن کر زہر کا پیالہ، چمکا نئی صلیبیں

جھوٹوں کی دنیا میں سچ کو تابانی دے مولا

پھر مورت سے باہر آ کر چاروں اور بکھر جا

پھر مندر کو کوئی میرا دیوانی دے مولا

تیرے ہوتے کوئی کسی کی جان کا دشمن کیوں ہو

جینے والوں کو مرنے کی آسانی دے مولا

ہر طرف، ہر جگہ بے شمار آدمی

پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی






صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا

صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا

اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی

ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے

ہر طرف آدمی کا شکار آدمی

روز جیتا ہوا، روز مرتا ہوا

ہر نئے دن نیا انتظار آدمی

زندگی کا مقدر سفر در سفر

آخری سانس تک بیقرار آدمی






ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا

ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا

میں ہی کشتی ہوں مجھی میں ہے سمندر میرا

کس سے پوچھوں کہ کہاں گم ہوں برسوں سے

ہر جگہ ڈھونڈتا پھرتا ہے مجھے گھر میرا

ایک سے ہو گئے موسموں کے چہرے سارے

میری آنکھوں سے کہیں کھو گیا منظر میرا

مدتیں بیت گئیں خواب سہانا دیکھے

جاگتا رہتا ہے ہر نیند میں بستر میرا

آئینہ دیکھ کے نکلا تھا میں گھر سے باہر

آج تک ہاتھ میں محفوظ ہے پتھر میرا

ہوش والوں کو خبر کیا، بےخودی کیا چیز ہے

عشق کیجے، پھر سمجھیے، زندگی کیا چیز ہے

ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں

آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے

کھلتی زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری

جھکتی آنکھوں نے بتایا، مےکشی کیا چیز ہے

ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے






اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رُخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ، اُدھر کے ہم ہیں

پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے

کس کو معلوم کہاں کے ہیں، کدھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب

سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں






آج ذرا فرصت پائی تھی ، آج اُسے پھر یاد کیا

آج ذرا فرصت پائی تھی ، آج اُسے پھر یاد کیا

بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا

کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے

رنگ اُڑائے ، پھول کھلائے ، چڑیوں کو آزاد کیا

بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے ، رستہ روکے راہوں میں

چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا

بات بہت معمولی سی تھی ، اُلجھ گئی تکراروں میں

ایک ذرا سی ضد نے آخر دونوں کو برباد کیا

داناؤں کی بات نہ مانی ، کام آئی نادانی ہی

سُنا ہوا کو ، پڑھا ندی کو ، موسم کو اُستاد کیا






پیا نہیں جب گاؤں میں

پیا نہیں جب گاؤں میں

آگ لگے سب گاؤں میں

کتنی میٹھی تھی املی

ساجن تھے جب گاؤں میں

سچ کہہ گُیّاں اور کہاں

ان جیسی چھب گاؤں میں

ان کے جانے کی تاریخ

دنگل تھا جب گاؤں میں

دیکھ سہیلی دھیمے بھول

بیری ہیں سب گاؤں میں

کتنی لمبی لگتی ہے

پگڈنڈی اب گاؤں میں

من کا سودا، من کا مول

کیسا مذہب گاؤں میں






ساجن جنگل پار گۓ ہیں، چپ چپ راہ تکوں

ساجن جنگل پار گۓ ہیں، چپ چپ راہ تکوں

بچھیا بیٹھی تھان میں اونگھے، کس سے بات کروں

بن ساجن کچھ بھی نہ سہاۓ بیٹھے رہنا کام

آنگن کے جامن کو باچوں یا دیوار پڑھوں

آڑی ترچھی ریکھاؤں سے ساری پٹیا لال

کب تک بیٹھے بیٹھے بیسے تیسے اور گِنوں






ایک ملاقات

نیم تلے دو جسم اجانے

چم چم ندیا جل

اڑی اڑی چہرے کی رنگت

کھلے کھلے زلفوں کے بل

دبی دبی کچھ گیلی سانسیں

جھکے جھکے سے نیل کنول

نام اس کا۔۔۔؟

دو نیلی آنکھیں

زات اس کی ۔۔۔؟

رستے کی رات

مذہب اس کا۔۔۔؟

بھیگا موسم

پتہ۔۔؟

بہاروں کی برسات

شیشے سے دھلا چوکا، موتی سے چنے برتن

ہنستا ہوا اک چہرہ، ہنستے ہوۓ سو درپن

بچوّں سی ہُمکتی شب، گیندوں سے اچھلتے دن

چہروں سے دھلی خوشیاں، زلفوں سے کھلی الجھن

ہر پیڑ کوئ قصّہ، ہر گھر کوئ افسانہ

ہر راستہ پہچانا، ہر چہرے پہ اپنا پن

سمٹی ہوئ چوکھٹ پر اک دھوپ کی بِلّی سی

نیبو کی کیاری میں چاندی کے کئ کنگن

لہریں پڑیں تو سویا ہوا جل مچل گیا

پربت کو چیرتا ہوا دریا نکل گیا

رنگوں کے امتزاج میں پوشیدہ آگ تھی

دیکھا تھا میں نے چھو کے مرا ہاتھ جل گیا

اکثر پہاڑ سر پہ گرے اور چپ رہے

یوں بھی ہوا کہ پتّہ ہلا، دل دہل گیا

پہچانتے تو ہو گے نِدا فاضلی کو تم

سورج کو کھیل سمجھا تھا، چھوتے ہی جل گیا






قطعہ

گھاس پر کھیلتا ہے اک بچّہ

پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے

مجھ کو حیرت ہے جانے کیوں دنیا

کعبہ و سومنات جاتی ہے






پہلا پانی

چھن چھن کرتی ٹین کی چادر

سن سن بجتے پات

پنجرے کا طوطا

دہراتا

رٹی رٹائ بات

مٹھی میں دو جامن

منہ میں

ایک چمکتی سیٹی

آنگن میں چکّر کھاتی ہے

چھوٹی سی برسات






ایک دن

سورج!

اک نٹ کھٹ بالک سا

دن بھر شور مچاۓ

ادھر ادھر چڑیوں کو بکھیرے

کرنوں کو چھتراۓ

قلم۔۔ درانتی۔۔ برش۔۔ ہتھوڑا

ادھر ادھر پھیلاۓ

شام

تھکی ہاری ماں جیسی

ایک دیا سلگاۓ

دھیمے دھیمے

ساری بکھری چیزیں چنتی جاۓ






مشورہ

بلّی کے بچّے کا کب تک دھیان رکھو گی

سگرٹ کی ڈبیوں سے کتنے بیگ بنو گی

ہر دم گودی میں بچّی گھبراتا ہوگا

طوطا دن بھر رٹ رٹ کر تھک جاتا ہوگا

چوڑی کے ٹکروں کی کڑیاں بہت بنا لیں

کاغذ کے پھولوں کی لڑیاں بہت بنا لیں

میری مانو تو ان کو چٹھّی لکھ ڈالو

آخر کب تو خود کو دھوکا دے پاؤ گی

آج نہیں تو کل اس ضد پر پچھتاؤ گی






موٗڈس

آج کچھ ٹوٹا ہوا ہوں

یوں نہ سمجھو زندگی سے تھک گیا ہوں

چند لمحوں کو اندھیرا بڑھ گیا ہے

ہر کمر کی ڈال کمھلائ ہوئ ہے

ہر نظر کا پھول مرجھایا ہوا ہے

آئینے چہروں کے دھندلے ہو گۓ ہیں

چوڑیوں کے گیت تھک کر سو گۓ ہیں

راستے خاموش

بے رونق دوکانیں

شہر گم صم سا دکھائ دے رہا ہے

پھر کسی ناول کا اک رنگین جملہ

بے تکلّف دوست کی اک آدھ گالی

ٹیڑھی میڑھی بد نما سی کوئ دالی

بیچ رستے میں پھدکتی شوخ مینا

یا بھری بانہوں میں اک چونچال بچہ

میرے غم کی گتھّیوں کو کھول دے گا

خشک ہونٹوں میں تبسّم گھول دے گا

اور اس جادو کرن کا نور لے کر

میں جدھر دیکھوں گا چہرے کھِل اٹھیں گے

ہر کمر کی ڈال لہرانے لگے گی

ہر نظر کا پھول مسکانے لگے گا

سوۓ سوۓ راستے سجنے لگیں گے

چوڑیوں کے گیت پھر بجنے لگیں گے

آج کچھ ٹوٹا ہوا ہوں۔۔!






پھر یوں ہوا

ممکن ہے چند روز پریشاں رہی ہو تم

یہ بھی ہوا ہو، وقت پہ سورج اُگا نہ ہو

املی میں کوئ اچھا کتارا پکا نہ ہو

چھت کی کھلی ہواؤں میں آنچل اُڑا نہ ہو

دو تین دن رضائ میں سردی رکی نہ ہو

کمرے کی رات پنکھ پسارے اُڑی نہ ہو

ہنسنے کی بات پر بھی بمشکل ہنسی ہو تم

ممکن ہے چند روز پریشاں رہی ہو تم

کچھ دن خطوں میں آنسو بہے

شور و غل ہوا

تم زہر پی کے سائیں

میں انجن سے کٹ گیا

پھر یوں ہوا

کہ دھوپ کھلی

ابر چھَٹ گیا

میں نے وطن سے کوسوں پرے گھر بسا لیا

تم نے پڑوس میں نیا بھائ بنا لیا






شام

سوکھے کپروں کو چھت سے چنتی ہوئ

پیلی کرنوں کا ہار بنتی ہوئ

گیلے بالوں میں تولیہ لپٹاۓ

ہاتھ میں اک کٹی پتنگ اٹھاۓ

دائیں بازو پہ تھوڑی دھوپ سجاۓ

سیڑھیوں سے

اتر کے

آئ ہے

کس قدر بن سنور کے

آئ ہے

بجتے ہاتھوں سے چمنیاں دھو کر

گھر کے ہر کام سے سبک ہو کر

پالنے کو جھلا رہی ہے شام

پیالیوں میں کھِلا رہی ہے شام

چندا ماموں اُگا رہی ہے شام






بجلی کا کھمبا

کئ سال گزرے

کسی پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں تلے

میں

اندھیروں میں گم صم سا بیٹھا ہوا تھا

کئ اجنبی راہگیروں نے مجھ کو

مرا نام لے لے کے آواز دی تھی

فضاؤں میں ہل چل سی ہونے لگی تھی

مگر دوست!!

یہ بات ہے ان دنوں کی

یہاں۔۔

کوئ بجلی کا کھمبا نہیں تھا

مگر چاند کا نور پیلا نہیں تھا






قاتِل

وہ

جو ہوٹل میں چاۓ کے ٹوٹے کپ پر

نئ نئ پھلجھڑیاں سی چھوڑا کرتا ہے

بیٹھے بیٹھے ماچس کو توڑا کرتا ہے

وہ

جو ٹیڑھے سے منہہ کے اک بیل کے اوپر

رستے بھر تیکھے جملے بولا کرتا ہے

رنگ برنگی اُپمائیں سوچا کرتا ہے

وہ

جو چلتے رستے انجانے بچّوں کے

بنے بناۓ بالوں کو بکھرا دیتا ہے

رو دیتا ہے کوئ تو بہلا دیتا ہے

جانے کیوں جب سے میں نےا س کو دیکھا ہے

میرے دل میں ایک عجب سا شک بیٹھا ہے

اپنے کمرے کے سنّاٹوں میں چھپ چھپ کر وہ

روز کسی کا قتل کیا کرتا ہوگا وہ

رات گۓ تک خون پیا کرتا ہوگا وہ






بس کا سفر

میں چاہتا ہوں

یہ چوکور دھوپ کا ٹکڑا

الجھ رہا ہے جو بالوں میں

اس کو سلجھا دوں

یہ دائیں بازو پہ

ننھی سی اک کلی کا نشاں

جو اب کی بار دوپٹّہ اُڑے

تو سہلا دوں

کھُلی کتاب کو ہاتھوں سے چھین کر رکھ دوں

یہ فاختاؤں سے دو پاؤں

گود میں بھر لوں

کبھی کبھی تو سفر ایسے راس آتے ہیں

ذرا سی دیر میں دو گھنٹے بیت جاتے ہیں






گھلتا سورج

آٹے کے کنستر میں پگھلتا ہوا سورج

چرپائ کی ادوان میں

جکڑا ہوا مہتاب

تاروں کی صلیبوں پہ

سسکتا ہوا ہر خواب

لہراتی ہوئ [پنڈلیاں

بجتی ہوئ رانیں

پھٹتی ہوئ ساڑی میں

گِٹھانوں پہ گِٹھانیں






اسے نہیں معلوم!

گھڑی گھڑی دروازے کو تکنے لگتا ہے

گھر کا آنگن

میلا میلا کیوں رہتا ہے؟

جگہ جگہ پر پانی پھیلا کیوں رہتا ہے

اسے نہیں معلوم

کہ گُڑیا کب آئ تھی

مٹّی کی ہنڈیا کس نے دلوائ تھی

لیکن جب کوئ پھیری والا آتا ہے

یا کوئ گھر والا اس کو دھمکاتا ہے

جانے وہ کیا ادھر ادھر دیکھا کرتا ہے

جیسے کوئ کھوئ شے ڈھونڈھا کرتا ہے

اور اچانک چِلّا کر رونے لگتا ہے

اسے نہیں معلوم۔۔۔!






نئی کھڑکیاں

آمنے سامنے دو نئی کھڑکیاں

جلتی سگرٹ کی لہراتی آواز میں

سوئ ڈورے کے رنگین الفاظ میں

مشورہ کر رہی ہیں کئ روز سے

شاید اب بوڑھے دروازے سر جوڑ کر

وقت کی بات کو وقت پر مان لیں

بیچ کی ٹوٹی پھوٹی گلی چھوڑ کر

کھڑکیوں کے اشاروں کو پہچان لیں






بینچ اور گوک

چوراہے پر شریر سی ہوٹل کی ایک بینچ

ہر وقت کھوئ کھوئ سی رہتی ہے ان دنوں

خاموش داستان سی کہتی ہے ان دنوں

گانے پہ فلم کے نہ بجاتی ہیں سیٹیاں

تختے پہ میز کے نہ چلاتی ہیں انگلیاں

ہوٹل کے سامنے کی شفق رنگ "گوک" کو

کچھ دیر بیٹھنے کی بھی فرصت نہیں ہے اب

چوراہا دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اب

شاید اکیلا کمرہ پھر آباد ہو گیا

بانہوں میں بانہیں ڈال کے رومان سو گیا

چوراہے پر شریر سی ہوٹل کی ایک بینچ

ہر وقت کھوئی کھوئی سی رہتی ہے ان دنوں






کبھی کبھی۔۔۔۔

کبھی کبھی مرا جی چاہتا ہے تم گھر میں

کسی بہن کی طرح بھاگو، چھیڑ چھاڑ کرو

بنا کہے میری میلی قمیص کو دھو دو

میں کوئ بات کہوں تو خفا نہ ہو، رو دو

کبھی کبھی مرا جی چاہتا ہے تم مجھ سے

ملو تو روز مگر روز اجنبی سی لگو

کبھی گھٹاؤں سی چھاؤ، کبھی ندی سی بہو

کبھی بدن سے نکل آؤ روشنی سے ملو

سنا تو میں نے یہی ہے، بہت حسیں ہو تم

نہ جانے کون ہو تم ہو بھی یا نہیں ہو تم






بوجھ

میرے بکھرے بالوں پر اور بھی تو ہنستے ہیں

میری خستہ حالی پر قہقہے لگاتے ہیں

میری ہر تباہی پر حاشئے چڑھاتے ہیں

اب تو جو بھی ملتے ہیں اجنبی سے ملتے ہیں

آنکھیں کھوئ رہتی ہیں، صرف ہونٹ ہلتے ہیں

صرف ایک تم اتنے کیوں خموش رہتے ہو

میری تلخ باتوں کو ہنس کے ٹال دیتے ہو

میں جہاں نظر آؤں، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہو

جان بوجھ کر میں نے کپ کو نیچے پھینکا ہے

بے سب ہی شبنم کو مار کر رلایا ہے

پین کے نئے نِب کو میز پر چلایا ہے

کیوں خفا نہیں ہوتے، کیوں بگڑ نہیں جاتے

کس لۓ بھلا مجھ سے اب جھگڑ نہیں پاتے

ٹیڑھی میڑھی نظروں سے گھور کر جدا ہو جاؤ

دوست چند لمحوں کو آج پھر خفا ہو جاؤ

اور بھی تو ہنستے ہیں۔۔۔۔۔






پنجرے کا پنچھی

اب کسی بات پہ غصّہ نہیں آتا اس کو

ہر کسی بات پہ سر ہنس کے جھکا دیتی ہے

بیچ ناول میں بھی بجلی کو بجھا دیتی ہے

اب بڑے شوق سے کتی ہے صفائ گھر کی

چھوٹی بہنوں سے خفا یو کے جھگڑتی بھی نہیں

پیٹھ پر چڑھتا ہے پپّو تو بگڑتی بھی نہیں

اب نہیں ہوتا کبھی تیز نمک سالن میں

روٹیاں چان کی ماند اتر آتی ہیں

چمنیاں وقت سے پہلے ہی سنور جاتی ہیں

تنگ پنجرے کی سلاخوں سے الجھتا پنچھی

صرف پھولوں کی مہک سے بھی بہل جاتا ہے

یہ بھی کیا کم ہے کسی اجنبی سگرٹ کا دھواں

بند دروازوں کی جھریوں سے نکل آتا ہے






رباعی

مہندی لگے ہاتھوں میں توے کی کالونچ

آنکھوں کے ہرن قید سے گھبراتے ہیں

روتے ہوۓ بچّے کی صدا آتے ہی

چولی کے کی ٹانکے ادھڑ جاتے ہیں






سنا ہے میں نے۔۔۔

سنا ہے میں نے کئ دن سے تم پریشاں ہو

کسی خیال میں ہر وقت کھوئ رہتی ہو

گلی کے موڑ تلک جا کے لوٹ آتی ہو

کہیں کی چیزش کہیں رکھ کے بھول جاتی ہو

مسالہ پیس کے سل یوں ہی چھوڑ دیتی ہو

نصیحتوں سے خفا، مشوروں سے الجھن سی

کمر میں درد کی لہریں، رگوں میں اینٹھن سی

یقین جانو بہت دور بھی نہیں وہ گھڑی

ہر اک فسانے کا عنواں بدل چکا ہوگا

مرے پلنگ کی چوڑائی گھٹ چکی ہوگی

تمھارے جسم کا سورج پگھل چکا ہوگا

سنا ہے میں نے کئ دن سے تم پریشاں ہو






نظم

مرے ورانڈے کے آگے یہ پھوس کا چھپّر

گلی کے موڑ پہ اکھڑا ہوا سا اک پتھّر

یہ ایک جھکتی ہوئ بدنما سی نیم کی شاخ

اور اس پہ جنگلی کبوتر کے گھونسلے کا نشاں

یہ ساری چیزیں کہ جیسے مجھی میں شامل ہیں

مرے الم میں، مری ہر خوشی میں شامل ہیں






پگھلتا دھواں

دور شاداب پہاڑی پہ بنا اک بنگلہ

لال کھپریلوں پہ پھیلی ہوئ انگور کی بیل

صحن میں بکھرے ہوۓ مٹّی کے راجہ رانی

منہ چڑاتی ہوئ بچّوں کو کوئ دیوانی

سیب کے اجلے درختوں کی گھنی چھاؤں میں

پاؤں ڈالے ہوۓ تالاب میں کوئ لڑکی

گورے ہاتھوں میں سجاۓ ہوۓ تکیے کا غلاف

ان کہی باتوں کو دھاگے سے سۓ جاتی ہے

دل کے جذبات کا اظہار کۓ جاتی ہے

اک سلگتی ہوئ سگریٹ کا بل کھاتا دھواں

پھیلتا جاتا ہے ہر سمت مرے کمرے میں

گرم چولھے کے قریں بیٹھی ہوئ اک عورت

ایک پیوند لگی ساڑی میں تن کو ڈھانپے

دھندلی آنکھوں سے مری اور تکے جاتی ہے

مجھ کو آواز پہ آواز دۓ جاتی ہے

اور میں سوچ رہا ہوں کہ یہ نل کھاتا دھواں

جو بڑی تیزی سے موکھے سے بیا جاتا ہے

'کیوں مری ماں کی صداؤں سے پگھل جاتا ہے

کیوں؟؟

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رُخ ہواؤں کا جدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں

ہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں کا

کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مُسافر کا نصیب

سوچتے رہتے ہیں کہ کس راہگُزر کے ہم ہیں

گِنتیوں میں ہی گِنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم

ہر قلمکار کی بے نام خبر کے ہم ہیں

جہاں نہ تیری مہک ہو ادھر نہ جاؤں میں

میری سرشت سفر ہے گزر نہ جاؤں میں

میرے بدن میں کھلے جنگلوں کی مٹی ہے

مجھے سنبھال کے رکھیے بکھر نہ جاؤں میں

میرے مزاج میں بے معنی الجھنیں ہیں بہت

مجھے ادھر سے بلانا جدھر نہ جاؤں میں

کہیں پکار نہ لے گہری وادیوں کا سکوت

کسی مقام پہ آ کر ٹھہر نہ جاؤں میں

نہ جانے کون سے لمحے کی بد دعا ہے یہ

قریب گھر کے رہوں اور گھر نہ جاؤں میں

سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

ادھر ادھر کئی منزلیں ہیں جو چل سکو تو چلو

بنے بنائے ہیں سانچے جو ڈھل سکو تو چلو

کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں

تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں

انہی کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

ہر ایک سفر کو ہے محفوظ راستوں کی تلاش

حفاظتوں کی روایت بدل سکو تو چلو

کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا

خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو

دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی

خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی

کچھ لوگ شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں

ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی

دیکھا تھا جسے میں نے کوئی اور تھا شاید

وہ کون ہے جس سے تیری صورت نہیں ملتی

ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت

رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی

نکلا کرو یہ شمع لئے گھر سے بھی باہر

تنہائی سجانے کو مصیبت نہیں ملتی






تم سے

تم انہیں روک تو نہیں سکتے

جو

اجالوں کو کالا کرتے ہیں

چھین کر چاند کو ستاروں سے

سرد غاروں میں ڈالا کرتے ہیں

اپنے پودوں کو

پیاسے پودوں کو

تھوڑا پانی پلا تو سکتے ہو!

کسی بچے کی ڈور میں

الجھی

کوئی تتلی چھڑا تو سکتے ہو

اپنے آنگن میں

اپنے ہونے سے

ایک دو پل

سجا تو سکتے ہو!






ایک خبر

وہ ایک معمولی

چھوٹا موٹا

ذرا سا پرزہ

گرے کبھی ہاتھ سے

تو پہروں نظر نہ آۓ

وہ کب

کسی کے شمار میں تھا

وہ کب

کسی کی قطار میں تھا

مگر

یہ کل

اشتہار میں تھا

اس ایک معمولی

چھوٹے موٹے

ذرا سے پرزے نے

سر اٹھا کے

وِشال ہاتھی سی

گڑگڑاتی

مشین کو بند کر دیا ہے

منہ کی بات سنے ہر کوئی، دل کے درد کو جانے کون

آوازوں کے بازاروں میں خاموشی پہچانے کون

صدیوں صدیوں وہی تماشہ، رستہ رستہ لمبی کھوج

لیکن جب ہم مل جاتے ہیں، کھو جاتا ہے جانے کون

وہ میرا آئینہ ہے یا میں اس کی پرچھائیں ہوں

میرے ہی گھر میں رہتا ہے مجھ جیسا ہی جانے کون

کرن کرن ہلکا سا سورج، پلک پلک کھلتی نیندیں

دھیرے دھیرے پگھل رہا ہے ذرہ ذرہ جانے کون

٭٭٭

ٹائپنگ: اعجاز عبید، فرحت کیانی، حجاب اور دوسری اردو فورموں کے ارکان۔


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔