02:51    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ کھیت سنہرے ہیں

1853 1 0 00




لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں

لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں

اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے

خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے

اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے

خواب آ، آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

میں نہ جگنو ہیں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں

روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں

٭٭٭






اس کی کتّھئی آنکھوں میں ہے جنتر مَنتر سب

اس کی کتّھئی آنکھوں میں ہے جنتر مَنتر سب

چاقو واقو چھُریا ں وُریاں خنجر وَنجر سب

جس دن سے تم روٹھیں مجھ سے روٹ ہے روٹ ہے ہیں

چادر وادر تکیہ وَکیہ بستر وِستر سب

مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلی جیسی ہیں

پھیکے پڑ گئے کپڑے وَپڑے زیور وِیور سب

عشق وِشق کے سارے نسخے مجھ سے سیکھتے ہیں

حیدر ویدر منظر وَنظر جوہر وَوہر سب

٭٭٭






گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے

گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے

اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے

جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو

اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے

موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار

میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے

نشہ ایسا تھا کہ میخانے کو دُنیا سمجھا

ہوش آیا، تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے

مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر

میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے

٭٭٭






رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے

آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ

ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے

بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے

جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے

لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے

جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے

٭٭٭






یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

ترے سلوک تری آگہی کی عمر دراز

مرے عزیز مرا زخم بھرنے والا تھا

بلندیوں کا نشہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا

مرا جہاز زمیں پر اترنے والا تھا

مرا نصیب مرے ہاتھ کٹ گئے ورنہ

میں تیری مانگ میں سندور بھرنے والا تھا

مرے چراغ، مری شب ، مری منڈیریں ہیں

میں کب شریر ہواؤں سے ڈرنے والا تھا

٭٭٭






دوستی جب کسی سے کی جائے

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

موت کا زہر ہے فضاؤں میں

اب کہاں جا کے سانس لی جائے

بس اسی سوچ میں ہوں ڈُوبا ہوا

یہ ندی کیسے پار کی جائے

میرے ماضی کے زخم بھرنے لگے

آج پھر کوئی بھول کی جائے

بوتلیں کھول کر تو پی برسوں

آج دل کھول کر بھی پی جائے

٭٭٭






جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا

جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا

میں، آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا

یہ سوچ کر کہ وہ تنہائی ساتھ لائے گا

میں چھت پہ بیٹھے پرندے اڑا کے لوٹ آیا

وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سسک رہی ہوگی

میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا

خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں

میں جس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

٭٭٭






مرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے

مرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے

یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے

وہ سب سے ملتے ہوئے ہم سے ملنے آتا ہے

ہم اس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے

پُرانے زخم ہیں کافی ، شمار کرنے کو

سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے

ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا

مرے قدم مری پرچھائی سے نہیں ملتے

محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دُنیا کو

جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے

٭٭٭






سمندر پار ہوتی جا رہی ہے

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے

دُعا ، پتوار ہوتی جا رہی ہے

دریچے اب کُھلے ملنے لگے ہیں

فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے

کئی دن سے مرے اندر کی مسجد

خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے

مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم

غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے

بہت کانٹوں بھری دنیا ہے لیکن

گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے

کٹی جاتی ہیں سانسوں کی پتنگیں

ہوا تلوار ہوتی جا رہی ہے

کوئی گنبد ہے دروازے کے پیچھے

صدا بیکار ہوتی جا رہی ہے

گلے کچھ دوست آ کر مل رہے ہیں

چُھری پر دھار ہوتی جا رہی ہے

٭٭٭






وہ اک اک بات پہ رونے لگا تھا

وہ اک اک بات پہ رونے لگا تھا

سمندر آبرو کھونے لگا تھا

لگے رہتے تھے سب دروازے پھر بھی

میں آنکھیں کھول کر سونے لگا تھا

چُراتا ہوں اب آنکھیں آئینوں سے

خدا کا سامنا ہونے لگا تھا

وہ اب آیئنے دھوتا پھر رہا ہے

اُسے چہروں پہ شک ہونے لگا تھا

مجھے اب دیکھ کر ہنستی ہے دُنیا

میں سب کے سامنے رونے لگا تھا

٭٭٭






چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں

چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں

ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں

وہ اور ہوں گے جو خنجر چُھپا کے لائے ہیں

ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں

ہماری بات کی گہرائی خاک سمجھیں گے

جو پربتوں کے لیئے خوردبین لائے ہیں

ہنسو نہ ہم پہ کہ ہم بد نصیب بنجارے

سروں پہ رکھ کے وطن کی زمین لائے ہیں

مرے قبیلے کے بچوں کے کھیل بھی ہیں عجب

کسی سپاہی کی تلوار چھین لائے ہیں

٭٭٭






یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا

یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا

سنبھل کر چلنا کہ رستہ خراب ہے بیٹا

ہمارا نام لکھا ہے پُرانے قلعوں پر

مگر ہمارا مقدر خراب ہے بیٹا

گناہ کرنا کسی بے گناہ کی خاطر

مری نگاہ میں کارِ ثواب ہے بیٹا

اب اور تاش کے پتوں کی سیڑھیوں پہ نہ چڑھ

کہ اس کے آگے خدا کا عذاب ہے بیٹا

ہمارے صحن کی مہندی پہ ہے نظر اس کی

زمیندار کی نیت خراب ہے بیٹا

٭٭٭






محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے

محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے

مرے اندر کا انساں مر رہا ہے

جمی ہے سوچ پر قدموں کی چاپیں

نہ جانے کون پیچھا کر رہا ہے

میں اکثر بادلوں کو دیکھتا ہوں

کوئی بوڑھا عبادت کر رہا ہے

اب اس کی ٹھوکروں میں تاج ہوگا

وہ ساری عمر ننگے سر رہا ہے

دل اپنے غم رسیدہ پیراہن میں

امیدوں کا کشیدہ بھر رہا ہے

مرے سینے سے گذری ریل گاڑی

جدائی کا عجب منظر رہا ہے

بڑا تاجر بنا پھرتا ہے سورج

مرے خوابوں کا سودا کر رہا ہے

ہو فرصت تو ہمارے دکھ بھی بانٹے

ذرا دیکھو خدا کیا کر رہا ہے

٭٭٭






جب میں دنیا کے لیئے بیچ کے گھر آیا تھا

جب میں دنیا کے لیئے بیچ کے گھر آیا تھا

اُن دنوں بھی مرے حصے میں صفر آیا تھا

کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو جھلس ہی جاتا

آگ اُگلتا ہوا سورج مرے گھر آیا تھا

آج سڑکوں پہ تصویر بناتے رہیے

انگلیاں ٹوٹ چکیں جب یہ ہنر آیا تھا

جو کبھی ہوتا ہے صدیوں میں منور اک بار

وہ دیا مجھ کو کئی بار نظر آیا تھا

لوگ پیپل کے درختوں کو خدا کہنے لگے

میں ذرا دھوپ سے بچنے کو اِدھر آیا تھا

٭٭٭






سب ہنر اپنی بُرائی میں دکھائی دیں گے

سب ہنر اپنی بُرائی میں دکھائی دیں گے

عیب تو بس مرے بھائی میں دکھائی دیں گے

اس کی آنکھوں میں نظر آئیں گے اتنے سورج

جیسے پیوند رضائی میں دکھائی دیں گے

ہم نے اپنی کئی صدیاں یہیں دفنائی ہیں

ہم زمینوں کی کھدائی میں دکھائی دیں گے

ذکر رشتوں کے تحفظ کا جو نکلے گا تو ہم

راجپوتوں کی کلائی میں دکھائی دیں گے

اور کچھ روز ہے جھیلوں پہ سلگتی ہوئی ریت

سبز منظر بھی جولائی میں دکھائی دیں گے

اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتہ دیتے تھے

خاک مٹھی میں اُٹھاتے تھے اُڑا دیتے تھے

بے ثمر جان کے ہم کاٹ چکے ہیں جو شجر

یاد آتے ہیں کہ بے چارے ہوا دیتے تھے

اس کی محفل میں وہی سچ تھا وہ جو کچھ بھی کہے

ہم بھی گونگوں کی طرح ہاتھ اُٹھا دیتے تھے

اب مرے حال پہ شرمندہ ہوئے ہیں وہ بزرگ

جو مجھے پھولنے پھلنے کی دُعا دیتے تھے

اب سے پہلے جو قاتل تھے بہت اچھے تھے

قتل سے پہلے پانی تو پلا دیتے تھے

وہ ہمیں کوستا رہتا تھا زمانے بھر میں

اور ہم اپنا کوئی شعر سنا دیتے تھے

گھر کی تعمیر میں ہم برسوں رہے ہیں پاگل

روز دیوار اُٹھاتے تھے گرا دیتے تھے

ہم بھی اب جھوٹ کی پیشانی کو بوسہ دیں گے

تم بھی سچ بولنے والوں کو سزا دیتے تھے

٭٭٭






اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں

اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں

ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اُڑا بھی نہ سکوں

پھونک ڈالوں کا کسی روز میں دل کی دنیا

یہ تیرا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ سکوں

مری غیرت بھی کوئی شے ہے کہ محفل میں مجھے

اس نے اس طرح بلایا ہے کہ جا بھی نہ سکوں

پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن

اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں

اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈ ہی لوں گا تجھ کو

ٹھوکریں زہر نہیں ہیں کہ میں کھا بھی نہ سکوں

٭٭٭






زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں

زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں

میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں

نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اُڑے

گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں

بُجھ گیا وحشی کبوتر کی ہوس کا گرم خون

نرم بستر پر تڑپتی فاختائیں رہ گئیں

ایک اک کر کے ہوئے رخصت مرے کنبے کے لوگ

گھر کے سناٹے سے ٹکراتی ہوائیں رہ گئیں

بادہ خانے، شاعری، نغمے، لطیفے، رت جگے

اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں

٭٭٭






کہاں وہ خواب محل تاج داریوں والے

کہاں وہ خواب محل تاج داریوں والے

کہاں یہ بیلچوں والے تگاریوں والے

کبھی مچان سے نیچے اُتر کے بات کرو

بہت پرانے ہیں قصے شکاریوں والے

مجھے خبر ہے کہ میں سلطنت کا مالک ہوں

مگر بدن پہ ہیں کپڑے بھکاریوں والے

غریب قصبوں میں اکثر دکھائی دیتے ہیں

نئے شوالے، پرانے پجاریوں والے

ادب کہاں کا کہ ہر رات دیکھتا ہوں میں

مشاعرے میں تماشے مداریوں والے

مری بہار مرے گھر کے پھولدان میں ہے

کھلے ہیں پھول ہری پیلی دھاریوں والے

٭٭٭






میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی

میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی

داد لوگوں کی گلا اپنا، غزل استاد کی

اپنی سانسیں بیچ کر میں نے جسے آباد کی

وہ گلی جنت تو اب بھی ہے مگر شدّاد کی

عمر بھر چلتے رہے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر

زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی

داستانوں کے سبھی کردار گُم ہونے لگے

آج کاغذ چنتی پھرتی ہے پری بغداد کی

اک سُلگتا، چیختا، ماحول ہے اور کچھ نہیں

بات کرتے ہو، یگانہ کس امین آباد کی

٭٭٭






کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں

کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں

اور ہم کچھ نہیں کرتے غضب کرتے ہیں

ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے

ہم قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں

آپ کی نظروں میں سورج کی ہے عظمت

ہم چراغوں کا بھی اُتنا ہی ادب کرتے ہیں

دیکھئے جس کو اُسے دھُن ہے مسیحائی کی

آج کل شہروں کے بیمار مطب کرتے ہیں

٭٭٭






دئے جلائے! تو انجام کیا ہوا میرا

دئے جلائے! تو انجام کیا ہوا میرا

لکھا ہے! تیز ہواؤں نے مرثیہ میرا

کہیں شریف نمازی! کہیں فریبی پیر

قبیلہ میرا! نسب میرا! سلسلہ میرا

میں چاہتا تھا! غزل آسمان ہو جائے

مگر زمین سے! چپکا ہے قافیہ میرا

اسے خبر ہے! کہ میں حرف حرف سورج ہوں

وہ شخص! پڑھتا رہا ہے لکھا ہوا میرا

کسی نے زہر کہا ہے! کسی نے شہد کہا

کوئی سمجھ نہیں پاتا ہے! ذائقہ میرا

میں پتھرو ں کی طرح ! گونگے سامعین میں تھا

مجھے سناتے رہے لوگ! واقعہ میرا

بلندیوں کی سفر میں! یہ دھیان آتا ہے

زمین دیکھ رہی ہوگی! راستہ میرا

میں جنگ جیت چکا ہوں! مگر یہ الجھن ہے

اب! اپنے آپ سے ہوگا مقابلہ میرا

کھنچا! کھنچا! میں رہا !خود سے جانے کیوں ورنہ

بہت زیادہ نہ تھا! مجھ سے فاصلہ میرا

٭٭٭






ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گذری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ

ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے

مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید

لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

اب کہ مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے

جا ہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہونگے

کم سے کم راہ کا پتھر تو ہٹاتے جاتے

٭٭٭






اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں

بتوں سے مجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے

تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں

میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر

یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی

کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں

اس آدمی کو بس اک دھن سوار رہتی ہے

بہت حسیں ہے یہ دنیا اسے خراب کروں

یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے

کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں

****

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔