03:00    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ کاسۂ شام

2680 2 0 05




وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن

راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے

ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ

اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب

جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے

کاسہ شام میں سورج کا سر اور آواز ِ اذان

اور آواز اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے

سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامہ دہر

دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے

ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر

سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے

٭٭٭






آخری آدمی کا رجز

مصاحبین شاہ مطمئن ہوئے کہ سرفراز سربریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں

اور ہر طرف سکون ہے

سکون ہی سکون ہے

فغان ِ خلق اہل طائفہ کی نذر ہو گئی

متاع صبر وحشت دعا کی نذر ہو گئی

امید اجر بے یقینی جزا کی نذر ہو گئی

نہ اعتبار ِ حرف ہے نہ آبروئے خون ہے

سکون ہی سکون ہے

مصاحبین شاہ مطمئن ہوئے کے سرفراز سر بریدہ بازوؤں

سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں اور ہر طرف سکون ہے

سکون ہی سکون ہے

خلیج اقتدار سرکشوں سے پاٹ دی گئی

جو ہاتھ آئی دولت ِ غنیم بانٹ دے گئی

طناب ِ خیمہ لسان و لفظ کاٹ دی گئی

فضا وہ ہے کہ آرزوئے خیر تک جنوں ہے

سکون ہی سکون ہے

مصاحبین شاہ مطمئن ہوئے کے سرفراز سربریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں

اور ہر طرف سکون ہے

سکون ہی سکون ہے

٭٭٭






ایک رخ

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر

سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں

گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی

دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی

جلے ہوئے خیموں میں سہمی ہوئی روشنی

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں

ایسے منظر کے بعد ایک سناٹا چھا جاتا ہے

یہ سناٹا طبل و علم کی دہشت کو کھا جاتا ہے

سناٹا فریاد کی لے ہے احتجاج کا لہجہ ہے

یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بہت پرانا قصہ ہے

ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں

وہ فرات کے ساحل پر ہوں ہا کسی اور کنارے پر

سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

٭٭٭






خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

وہ طائر جو کبھی اپنے بال و پر آزمانا چاہتے تھے

ہواؤں کے خد و خال آزمانا چاہتے تھے

آشیانوں کی طرف جاتے ہوئے ڈرنے لگے

کون جانے کون سا صیاد کسی وضع کے جال آزمانا چاہتا ہو

کون سی شاخوں ہی کیسے گل کھلانا چاہتا ہو

شکاری اپنے باطن کی طرح اندھے شکاری

حرمتوں کے موسموں سے نابلد ہیں

اور نشانے مستند ہیں

جگمگاتی شاخوں کو بے آواز رکھنا چاہتے ہیں

ستم گاری کے سب در باز رکھنا چاہتے ہیں

خداوند تجھے سہمے ہوئے باغوں کی سوگند

صداؤں کے ثمر کی منتظر شاخوں کی قسم

اُڑانوں کے لئے پر تولنے والوں پر ایک سایہ تحفظ کی ضمانت دینے والے

کوئی موسم بشارت دینے والا

٭٭٭






بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

آنکھیں بھی مری خواب ِ پریشاں بھی مرا ہے

جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری

جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی مرا ہے

جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے

جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی مرا ہے

جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل

وہ قافلہ بے سر و ساماں بھی مرا ہے

ویرانہ مقتل پہ حجاب آیا تو اس بار

خود چیخ پڑا میں کہ عنواں بھی مرا ہے

وارفتگی صبح بشارت کو خبر کیا

اندیشہ صد شام ِ غریباں بھی مرا ہے

میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر اے جان

خمیازہ توہین ِ بہاراں بھی مرا ہے

مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی

یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے

٭٭٭






پتہ نہیں کیوں

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں کہ جب کبھی کوئی خواب دیکھوں

تو رات میری امانتیں مہرباں سورج کو سونپ جائے

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں کہ جب دعاؤں کو ہاتھ اٹھیں تو

کوئی میرے بلند ہاتھوں میں پھول رکھ دے

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں کہ اب مرے عہد کے مقدر میں جتنے آنسو ہیں

میری آنکھوں میں جذب ہو جائیں اور تکش کے جتنے تیر ہیں

میرے سینے میں ٹوٹ جائیں

پتہ نہیں کیوں میں چاہتا ہوں

٭٭٭

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے

شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے

شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا

کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے

بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں

شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے

کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے

کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے

کھیل تماشہ بربادی پر ختم ہوا

ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے

کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں

بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے

ابھی گیا ہے کوئی مگر لگتا ہے

جیسے صدیاں بیتیں گھر خاموش ہوئے

٭٭٭






سرگوشی

تمہیں کیا ہو گیا ہے

بتاؤ تو سہی اے جان جاں ! جانانِ جاں! آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے

اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے ہو اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو

اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو

بتاؤ تو سہی ۔۔

آ کر تمہیں کیا ہو گیا ہے

چلو ہم نے یہ مانا یہ زمانہ اب تمہارے بس سے

باہر ہو گیا ہے

ان دنوں میں بے حسی کے موسموں میں دل کا خوں ہونا

مقدر ہو گیا ہے

مگر اس قہرمان بستی میں دو آنکھیں تو ایسی ہیں کہ جن میں

کوئی اندیشہ نہیں ہے اور جن کے خواب یکساں ہیں

بہت ہی مبہم سی تعبیر کا امکان تو ہے

یہ شب گزرے نہ گزرے صبح پر ایمان تو ہے

تو پھر اے جان ِ جاں ویراں کیوں ہو

اس قدر شاداب آنکھیں جب دعا گو ہیں تو اتنے بے سر و ساماں

کیوں ہو

بتاؤ تو سہی اے جان ِ جاں آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے

اپنی ہی آواز سے ڈرنے لگے ہو

اپنے ہی چہرے سے شرمانے لگے ہو

اپنے ہی سائے سے گھبرانے لگے ہو

٭٭٭

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

ابھی سے برف بالوں میں الجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرض مہ و سال بھی اتارا نہیں

بس ایک شام اُسے آواز دی تھی ہجر کی شام

پھر اس کے بعد تو ہم نے اسے پکارا نہیں

ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ تیرے وحشی کو

مزاج پرسی باد صبا گوارا نہیں

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کے ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

وہ ہم نہیں تھے پھر کون تھا سر بازار

جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارہ نہیں

ہم اہل دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امین

ہمارے پاس زمینوں کا کوئی گوشوارہ نہیں

٭٭٭

رنگ تھا روشنی تھا قامت تھا

جس پہ ہم مر مٹے قیامت تھا

خوش جمالوں میں دھوم تھی اپنی

نام اس کا بھی وجہ شہرت تھا

پاس آوارگی ہمیں بھی بہت

اس کو بھی اعتراف وحشت تھا

ہم بھی تکرار کے نہ تھے خوگر

وہ بھی ناآشنائے حجت تھا

خواب تعبیر بن کے آتے تھے

کیا عجب موسم رفاقت تھا

اپنے لہجے کا بانکپن سارا

اس کے پندار کی امانت تھا

اس کے کندن بدن کا روپ سروپ

حسن احساس کی بدولت تھا

ایک اک سانس قربتوں کا گواہ

ہر نفس لمحہ غنیمت تھا

اور پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ گیا

وہ جو اک رشتۂ محبت تھا

٭٭٭






ہوائیں ان پڑھ ہیں

اب کے بار پھر

موج ِ بہار نے

فرش سبز پر

ساعتِ مہر میں

ہار سنگھار سے

ہم دونوں کے نام لکھے ہیں

اور دعا مانگی ہے کہ ’’ اے راتوں کو جگنو دینے والے

سوکھی ہوئی مٹی کی خوشبو دینے والے

شکر گزار آنکھوں کو آنسو دینے والے

ان دونوں کا ساتھ نہ چھوٹے‘‘

اور سنا یہ ہے کہ ہوائیں اب کے بار بھی تیز بہت ہیں

شہر وصال سے آنے والے موسم ہجر انگیز بہت ہیں

٭٭٭






دعا

مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا مجھ کو ڈر لگتا ہے

کچے رنگ تو بارش کی ہلکی سی پھوار میں بہہ جاتے ہیں

اک ذرا سی دھوپ پڑے تو اڑ جاتے ہیں

مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا مجھ کو ڈر لگتا ہے

٭٭٭






کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے

کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے

مسافر لوٹ کر اب اپنے گھر شاید نہ آئے

قفس میں آب و دانے کی فراوانی بہت ہے

اسیروں کو خیال ِ بال و پر شاید نہ آئے

کسے معلوم اہل ہجر پر ایسے بھی دن آئیں

قیامت سر سے گزرے اور خبر شاید نہ آئے

جہاں راتوں کو پڑ رہتے ہیں آنکھیں موند کر لوگ

وہاں مہتاب میں چہرہ نظر شاید نہ آئے

کبھی ایسا بھی دن نکلے کہ جب سورج کے ہمراہ

کوئی صاحب نظر آئے مگر شاید نہ آئے

سبھی کو سہل نگاری ہنر لگنے لگی ہے

سروں پر اب غبار ِ راہگزر شاید نہ آئے

٭٭٭






پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے

پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے

تو جو آئے تو مرے گھر میں خدا بھی آئے

اس قدر زخم لگائے ہیں زمانے نے کہ بس

اب کے شائد ترے کوچے کی ہوا بھی آئے

یہ بھی ہے کوچہ جاناں کی روایت کہ یہاں

لب پہ شکوہ اگر آئے تو دعا بھی آئے

میں نے سو طرح جسے دل میں چھپائے رکھا

لوگ وہ زخم زمانے کو دکھا بھی آئے

کیا قیامت ہے جو سورج اتر آیا ہے

میری آنکھوں میں در آئے تو مزہ بھی آئے

پچھلے موسم تو بڑا قحط رہا خوابوں کا

اب کے شائد کوئی احساس نیا بھی آئے

٭٭٭






ابو الہول کے بیٹے

چھوٹے چھوٹے فرعونوں کا ایک لشکر اور ایک اکیلا میں

مرے ہاتھ عصا سے خالی

ہاتھ عصا سے خالی ہوں تو ہستی دوبھر ہو جاتی ہے

ہوا مخالف ہو جائے تو لہر سمندر ہو جاتی ہے

موت مقدر ہو جاتی ہے

چھوٹے چھوٹے فرعونوں کا اک لشکر اور اکیلا میں

مرے ہاتھ عصا سے خالی

٭٭٭






جھوٹ

ہمارے اس جہان میں

سنا ہے ایسے لوگ ہیں کہ جن کی زندگی کے دن

کھلے ہوئے گلاب ہیں

سجے ہوئے چراغ ہیں

گلاب جن کی نکہتوں کے قافلے رواں دواں

چراغ ! چار سو بکھیرتے ہوئے تجلیاں

سنا ہے ایسے لوگ ہیں ہمارے اس جہان میں

خدا کرے کہ ہوں مگر

نہ جانے کیوں مجھے یہ لگ رہا ہے جیسے جھوٹ ہے

٭٭٭






استغاثہ

تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا

ہمارے سب خواب وقت کی بے لحاظ آندھی میں جل بجھیں گے

دو نیم دریا و چاہِ تاریک و آتش َ سرد و جاں نوازی کے سلسے ختم ہو گئے کیا

تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا؟

خدائے زندہ! یہ تیری سجدہ گزار بستی کے سب مکینوں کی التجا ہے

کوئی ایسی سبیل نکلے کے تجھ سے منسوب گل زمینوں کی عظمتیں پھر سے لوٹ آئیں

وہ عفو کی، درگزر کی، مہر و وفا کی روایتیں پھر سے لوٹ آئیں

وہ چاہتیں وہ رفاقتیں وہ محبتیں پھر سے لوٹ آئیں

٭٭٭






ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود

کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

جنھیں متاع ِ دل و جان سمجھ رہے تھے ہم

وہ آئیے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے

وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں

مرے غزال تری وحشتوں کی خیر کہ ہے

بہت دنوں سے بہت اضطراب آنکھوں میں

نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے

یہ الجھنیں تری بے انتساب آنکھوں میں

جواز کیا ہے مرے کم سخن بتا تو سہی

بنام خوش نگہی ہر جواب آنکھوں میں

٭٭٭






ان وعدہ اللہ حق

سچے لوگ ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں

سب تعریفیں اس کے لیے ہیں جو فساخ عزائم ہے

اور جو کشاف ارادہ ہے

مرے حضور سے مرے خدا کا وعدہ ہے

خیر کے گھر میں جتنے دروازے کھلتے ہیں

ان میں ایک توبہ کا دروازہ ہے

اشک ندامت اپنی جگہ پر آپ بڑا

خمیازہ ہے

مرے حضور سے میرے خدا کا وعدہ ہے

٭٭٭






صحرا میں ایک شام

دشت ِ بے نخیل میں

باد بے لحاظ نے

ایسی خاک اڑائی ہے

کچھ بھی سوجھتا نہیں

حوصلوں کا سائبان

راستوں کے درمیان

کس طرح اجڑ گیا

کون کب بچھڑ گیا

کوئی پوچھتا نہیں

فصل اعتبار میں

آتش غبار سے

خیمہ دعا جلا

دامن وفا جلا

کس بری طرح جلا

پھر بھی زندگی کا ساتھ ہے کہ چھوٹتا نہیں

کچھ بھی سوجھتا نہیں

کوئی پوچھتا نہیں

اور زندگی کا ساتھ ہے کہ چھوٹتا نہیں

٭٭٭






ھل من ناصراً ینصرنا

یہ زمینوں آسمانوں کے عذاب اور میں اکیلا آدمی

میں اکیلا آدمی کب تک لڑوں

سارے دشمن در پئے آزار، لشکر صف بہ صف

لشکروں کے سب کمانداروں کے رخ میری طرف

اور میں نہتا آدمی

میں نہتا آدمی کب تک لڑوں

میں اکیلا آدمی کیسے لڑوں

٭٭٭






خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں ت ک نہ بتائے

ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ جائے

ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت

اُسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

٭٭٭






اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر

ڈوب چلا ہے آفتاب، شام بخیر، شب بخیر

ایسا نہ ہو کہ دن ڈھلے روح کا زخم کھل اٹھے

کیسے کہوں مرے گلاب، شام بخیر شب بخیر

تیرہ شبی کی وحشتیں اب کوئی دن کی بات ہے

خلوت جاں کے ماہتاب شام بخیر شب بخیر

میں بھی وفا سرشت ہوں پاس وفا تجھے بھی ہے

دونوں کھلی ہوئی کتاب ، شام بخیر شب بخیر

موسم ابر و باد سے اب جو ڈریں تو کس لیے

کھل کے برس چکا سحاب، شام بخیر شب بخیر

میری نظر ، میرا شعور، میری غزل میرا جنوں

سب کا تجھی سے انتساب، شام بخیر، شب بخیر

٭٭٭






جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

آنکھ جھپکی تھی کہ وہ عیش نشیں خاک میں تھے

جس پہ اب تہمت ِ شب رنگ کے آوازے ہیں

کتنے سورج تھے کہ دامنِ صد چاک میں تھے

جانے کس وادی بے ابر کی قمست ٹھہرے

ہائے وہ لوگ جو اس موسم سفاک میں تھے

جن سے دلداری جاناں کے قرینے یاد آئیں

ایسے تیور بھی مرے لہجہ بے باک میں تھے

زرد پتوں کی طرح خواب اڑتے پھرتے تھے

پھر بھی کچھ رنگ میرے دیدہ نمناک میں تھے

شہر ِ بے رنگ ترے لوگ گواہی دے گے

ہم سے خوش رنگ بھی تیرے خس و خاشاک میں تھے

٭٭٭






ایک پل کا فاصلہ

ایک پل کا فاصلہ ہے

عشق اور آوارگی کے درمیاں بس ایک پل کا فاصلہ ہے

ایک پل کا فاصلہ ہے

شاخ گل پر شبنم وارفتہ کا پیہم نزول

حرف پیماں درمیان ِ جسم و جاں

منزل ِ دست ِ دعا بابِ قبول

ایک پل کا فاصلہ ہے

عشق اور آوارگی کے درمیاں بس ایک پل کا فاصلہ ہے

٭٭٭






التجا

مرے شکاریو! امان چاہتا ہوں

بس اب سلامتی جاں کی حد تلک اڑان چاہتا ہوں

مرے شکاریو ! امان چاہتا ہوں

میں ایک بار پہلے بھی ہرے بھرے دنوں کی آرزو میں زیر دام آ چکا ہوں

مجھ کو بخش دو

میں اس سے پہلے بھی تو سایہ شجر کی جستجو میں اتنے زخم کھا چکا ہوں

مجھ کو بخش دو

مرے شکاریو۔۔۔۔ امان چاہتا ہوں میں

بس اب سلامتی جاں کی حد تلک اڑان چاہتا ہوں میں

بس ایک گھر زمین و آسمان کے درمیان چاہتا ہوں میں

مرے شکاریو امان چاہتا ہوں میں

٭٭٭






دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

اور دامن قاتل کی ہوا اور طرح کی

دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر ہے کچھ اور

دیتی ہے خبر خلق ِ خدا اور طرح کی

کس دام اٹھائیں گے خریدار کہ اس بار

بازار میں ہے جنس ِ وفا اور طرح کی

بس اور کوئی دن کہ ذرا وقت ٹھہر جائے

صحراؤں سے آئے گی صدا اور طرح کی

ہم کوئے ملامت سے نکل آئے تو ہم کو

راس آئی نہ پھر آب و ہوا اور طرح کی

تعظیم کر اے جان معانی کے ترے پاس

ہم لائے ہیں سوغات ذرا اور طرح کی

٭٭٭






یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

میں جس میں رہ رہا تھا وہی گھر مرا نہ تھا

میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا

مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا

موج ہوائے شہر ِ مقدر جواب دے

دریا مرے نہ تھے کہ سمندر مرا نہ تھا

پھر بھی تو سنگسار کیا جا رہا ہوں میں

کہتے ہیں نام تک سر محضر مرا نہ تھا

سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے

اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا

٭٭٭






یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی

وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے

دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ

یہ سلسلہ بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے

نئی گرہ نئے ناخن نئے مزاج کے قرض

مگر پیچ بہت ابتدا کا لگتا ہے

کہاں میں اور کہاں فیض نغمہ و آہنگ

کرشمہ سب در و بست ِ نوا کا لگتا ہے

٭٭٭






امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا

اب اپنے حجرہ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں

تمام خانہ بدوشوں مین مشترک ہے یہ بات

سب اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر دست

بساط َ عافیت ِ جاں الٹ کے دیکھتے ہیں

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا

اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

سنا ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت حرف

سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہیں

٭٭٭






جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

تم نے پوچھا ہوتا تو بتلا سکتا تھا میں

آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ

آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں

چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر

ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل

اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں

جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں، نظمیں گیت

ویسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں

٭٭٭






میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

اسی شکستہ و بستہ زباں میں ظاہر ہو

زمانہ دیکھے مرے حرف ِ باریاب کے رنگ

گل ِ مراد ِ ہنر دشت ِ جاں میں ظاہر ہو

میں سرخرو نظر آؤں ، کلام ہو کہ سکوت

تری عطا مرے نام و نشاں میں ظاہر ہو

مزہ تو جب ہے کہ اہل یقیں کا سر کمال

ملامت ِ سخنِ گمرہاں میں ظاہر ہو

گزشتگانِ محبت کا خواب گم گشتہ

عجب نہیں شب آئیندگاں میں ظاہر ہو

پس ِ حجاب ہے اک شہسوار ِ وادی نور

کسے خبر اسی عہد زیاں میں ظاہر ہو

٭٭٭






انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھروں میں رہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے

پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے

بس اک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں

وگرنہ صورت خاشاک دربدر رہتے

مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار

برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

٭٭٭






قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

کہاں تک دل کی چنگاری ترے شعلے گئے تھے

فصیل شہر لب بستہ، گواہی دے کچھ لوگ

دہان ِ حلقہ زنجیر سے بولے گئے تھے

تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں گے

فضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے

فساد ِ خوں سے سارا بدن تھا زخم زخم

سو نشتر سے نہیں شمشیر سے کھولے گئے تھے

وہ خاک پاک ہم اہل محبت کو ہے اکسیر

سر مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے

٭٭٭






فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

وہ اہل ہجر کے آسیب اعتبار میں ہیں

زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج

نہ جانے کون سے محور پہ کس مدار میں ہیں

پرانے درد ، پرانی محبتوں کے گلاب

جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں

اڑائی تھی جو گروہ ِ ہوس نہاد نے دھول

تمام منزلیں اب تک اُسی غبار میں ہیں

نہ جانے کون سی آنکھیں وہ‌خواب دیکھیں گی

وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں

چراغ کون سے بجھنے ہیں کن کو رہنا ہے

یہ فیصلے ابھی اوروں کے اختیار میں ہیں

٭٭٭






جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا

جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا

زمین فردا پہ سنگ ِ بنیاد ِ حال رکھنا

حضور ِ اہل کمال ِ فن سجدہ ریز رہنا

نگاہ میں طرہ کلاہ ِ کمال رکھنا

وہ جس نے بخشی ہے بے نواؤں کو نعمت حرف

وہی سکھا دے گا حرف کو بے مثال رکھنا

اندھیری راتوں میں گریہ بے سبب کی توفیق

میسر آئے تو غم کی دولت سنبھال رکھنا

٭٭٭






سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نظر آئے

سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نظر آئے

ہم آیسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے

دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی

ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے

سرمایہ جاں لوگ۔ متاع دو جہاں لوگ

دیکھا تو سبھی ایل تماشہ میں نظر آئے

خود دامن یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک

اب کے وہ ہنر دست زلیخا میں نظر آئے

٭٭٭






اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

دھوپ ہم پر ہی نہیں بے سائباں وہ بھی تو ہے

شکوہ بیداد موسم اس سے کیجے بھی تو کیوں

کیا کرے وہ بھی کہ زیر آسماں وہ بھی تو ہے

اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ دیکھیں تو سہی

دربدر ہم ہی نہیں بے خانماں وہ بھی تو ہے

ایک ہی دستک جہاں چونکائے رکھے ساری عمر

ایک انداز ِ شکست ِ جسم و جاں وہ بھی تو ہے

اس طرف بھی اک نظر اے راہرو منزل نصیب

وہ جو منزل پر لٹا ہے کارواں وہ بھی تو ہے

٭٭٭






کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں

سمائے ہیں مری آنکھوں میں خواب جیسے دن

وہ ماہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن

وہ کنج شہر وفا میں سحاب جیسے دن

وہ دن کے جن کا تصور متاع قریہ دل

وہ دن کہ جن کی تجلی فروغ ہر محفل

گئے وہ دن تو اندھیروں میں کھو گئی منزل

فضا کا جبر شکستہ پروں پہ آ پہنچا

عذاب دربدری بے گھروں پہ آ پہنچا

ذرا سی دیر میں سورج سروں پہ آ پہنچا

کسے دکھائے یہ بے مائیگی خزینوں کی

کٹی جو فصل تو غربت بڑھی زمینوں کی

یہی سزا ہے زمانے میں بے یقینوں کی

٭٭٭






اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

جز دربدری اس درِ دولت سے ملا کیا

آشوب فراغت! ترے مجرم ترے مجبور

کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے ملا کیا

اک نغمہ کہ‌ خود کو اپنے ہی آہنگ سے محجوب

اک عمر کے پندار ِ سماعت سے ملا کیا

اک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں سے ہراساں

آخر کو شب و روز کی وحشت سے ملا کیا

جاں دے کر بھی بالا نہ ہوئے نرخ ہمارے

بازار معانی میں مشقت سے ملا کیا

جیتا ہوا میدان کہ ہاری ہوئی بازی

اس خانہ خرابی کی اذیت سے ملا کیا

اک خلعت دشنام و کلاہ سخن ِ بد

شہرت تو بہت پائی پہ شہرت سے ملا کیا

٭٭٭






کوچ

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہو گی

شیریں سخنوں کے حرف ِ دشنام

بے مہر زبانیں بند ہو ں گی

پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا

یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا

ہمواری ہر نفس سلامت

دل پر کوئی داغ تک نہ ہوگا

پامالی خواب کی کہانی

کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا

معبود! اس آخری سفر میں

تنہائی کو سرخرو ہی رکھنا

جز تیرے نہیں کوئی نگہدار

اُس دن بھی خیال تو ہی رکھنا

جس آنکھ نے عمر بھر رلایا

اس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی

٭٭٭






ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

تھکے ہارے ہوئے سورجوں کی بھیگی روشنی میں

ہواؤں سے الجھتا بادباں کیسا لگے گا

جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت

بکھر جائے گی جب عمر رواں کیسا لگے گا

اسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی

گرے گی جس گھڑی دیوار ِ جاں کیسا لگے گا

بہت اترا رہے ہو دل کی بازی جیتنے پر

زیاں بعد از زیاں بعد از زیاں کیسا لگے گا

وہ جس کے بعد ہوگی ایک مسلسل بے نیازی

گھڑی بھر کا وہ سب شور فغاں کیسا لگے گا

ابھی سے کیا بتائیں مرگ مجنوں کی خبر پر

سلوک ِ کوچۂ نا مہرباں کیسا لگے گا

بتاؤ تو سہی اے جان جاں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

٭٭٭






ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

یہ دل کا ساتھ بہت دیر تک رہے گا نہیں

ہمیں خبر تھی کوئی آنکھ نم نہیں ہو گی

ہمارے غم میں کہیں کوئی دل دکھے گا نہیں

ہمیں خبر تھی کہ اک روز یہ بھی ہونا ہے

کہ ہم کلام کریں گے کوئی سنے گا نہیں

ہماری دربدری جانتی تھی برسوں سے

گھر جائیں بھی تو کوئی پناہ دے گا نہیں

ہماری طرح نہ آئے گا کوئی نرغے میں

ہماری طرح کوئی قافلہ لٹے گا نہیں

نمود خواب کی باتیں شکست خواب کا ذکر

ہمارے بعد یہ قصے کوئی کہے گا نہیں

غریب شہر ہو یا شہر یار ہفت اقلیم

یہ وقت ہے یہ کسی کے لیے رکے گا نہیں

مگر چراغ ہنر کا معاملہ ہے کچھ اور

یہ ایک بار جلا ہے تو اب بجھے گا نہیں

٭٭٭






یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں

کوئی فغاں، کوئی نالہ، کوئی بکا، کوئی بین

کھلے گا باب مقتل دعا کیے جائیں

یہ اضطراب یہ لمبا سفر، یہ تنہائی

یہ رات اور یہ جنگل دعا کیے جائیں

بحال ہو کے رہے گی فضائے خطۂ خیر

یہ حبس ہوگا معطل دعا کئے جائیں

گزشتگان ِ محبت کے خواب کی سوگند

وہ خواب ہوگا مکمل دعا کیے جائیں

ہوائے سرکش و سفاک کے مقابل بھی

یہ دل بجھیں گے نہ مشعل دعا کیے جائیں

غبار اڑاتی جھلستی ہوئی زمینوں پر

امنڈ کے آئیں گے بادل دعا کیے جائیں

قبول ہونا مقدر ہے حرف خالص کا

ہر ایک آن ہر اک پل دعا کیے جائیں

٭٭٭






دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

خاک ہو جائیں جو رسوائی کو شہرت کریں ہم

اک قیامت کہ تلی بیٹھی ہے پامالی پر

یہ گزر لے تو بیان ِ قد و قامت کریں ہم

حرف تردید سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ

ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عمر کے دن

شام آئی ہے تو کیا ترک ِ محبت کریں ہم

اک ہماری بھی امانت ہے تہ خاک یہاں

کیسے ممکن ہے اس شہر سے ہجرت کریں ہم

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دنیا

صبح سے پہلے ہر اک خواب کو رخصت کریں

شوق ِ آرائش گل کا یہ صلہ ہے کہ صبا

کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

عمر بھی دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ

کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم

٭٭٭






مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

کہیں طے پا رہا ہے شہر کا مسمار رہنا

نمود خواب کے اور انہدام خواب کے بیچ

قیامت مرحلہ ہے دل کا ناہموار رہنا

دلوں کے درمیاں دوری کے دن ہیں اور ہم کو

اسی موسم میں تنہا برسرپیکار رہنا

اندھیری رات اور شور سگاں کوئے دشنام

اور ایسے میں کسی آنکھ کا بیدار رہنا

تماشا کرنے والے آ رہے ہیں جوک در جوک

گروہ پابجولاں! رقص کو تیار رہنا

ہوائے کوئے قاتل بے ادب ہونے لگی ہے

چراغ جادہ صدق و صفا ہشیار رہنا

یہ دشواری تو آسانی کا خمیازہ ہے ورنہ

بہت ہی سہل تھا ہم کو بہت دشوار رہنا

ادھر کچھ دن سے اس بستی کو راس آنے لگا ہے

ہم آشفتہ سروں کے در پے آزار رہنا

٭٭٭






ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ایسی نیند اڑے گی پھر کوئی خواب نہیں دیکھے گا

نرمی اور مٹھاس میں ڈوبا یہی مہذب لہجہ

تلخ ہوا تو محفل کے آداب نہیں دیکھے گا

پیش لفظ سے اختتام تک پڑھنے والا قاری

جس میں ہم تحریر ہیں بس وہی باب نہیں دیکھے گا

لہو رلاتے خاک اڑاتے موسم کی سفاکی

دیکھتے ہیں کب تک یہ شہر گلاب نہیں دیکھے گا

بپھرے ہوئے دریا کو ہوا کا ایک اشارہ کافی

کوئی گھر کوئی بھی گھر سیلاب نہیں دیکھے گا

بے معنی بے مصرف عمر کی آخری شام کا آنسو

ایک سبب دیکھے گا سب اسباب نہیں دیکھے گا

اک ہجرت اور ایک مسلسل دربدری کا قصہ

سب تعبیریں دیکھیں گے کوئی خواب نہیں دیکھے گا

٭٭٭






روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے

روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے

زمیں کہیں کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے

جو حرف حق کی حمایت میں ہو وہ گمنامی

ہزار وضع کے نام و نشاں سے اچھی ہے

عجب نہیں کل اسی کی زبان کھنچ جائے

جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے

بس ایک خوف کہیں دل یہ بات مان نہ جائے

یہ خاک غیر ہمیں آشیاں سے اچھی ہے

ہم ایسے گل زدگاں کو بہار یک ساعت

نگار خانۂ عہد خزاں سے اچھی ہے

٭٭٭






شہر بے مہر سے پیمان وفا کیا باندھیں

شہر بے مہر سے پیمان وفا کیا باندھیں

خاک اڑتی ہے گل تر کی ہوا کیا باندھیں

جانتے ہیں سفر شوق کی حد کیا ہوگی

زور باندھیں بھی تو ہم آبلہ پا کیا باندھیں

کوئی بولے گا تو آواز سنائی دے گی

ہو کا عالم ہو تو مضمون صدا کیا باندھیں

ساری بستی ہوئی اک موجۂِ سفاک کی نذر

اب کوئی بند سر سیل بلا کیا باندھیں

آخرش ہر نفس گرم کا انجام ہے ایک

سو گھڑی بھر کو طلسم من و ما کیا باندھیں

٭٭٭






محبت کی ایک نظم

مری زندگی میں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم ہو

یہ کتاب و خواب کے درمیان جو منزلیں ہیں، میں چاہتا تھا

تمہارے ساتھ بسر کروں

یہی کل اثاثہ ِ زندگی ہے اسی کو زاد ِ سفر کروں

کسی اور سمت نظر کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو

مرے دل کے جادۂِ خوش خبر پہ بجز تمہارے کبھی کسی کا گزر نہ ہو

مگر اس طرح کہ تمہیں بھی اس کی خبر نہ ہو

اسی احتیاط میں ساری عمر گزر گئی

وہ جو آرزو تھی کتاب و خواب کے ساتھ تم بھی شریک ہو وہی مر گئی

اسی کشمکش نے کئی سوال اٹھائے ہیں

وہ سوال جن کا جواب میری کتاب میں ہے نہ خواب میں

مرے دل کے جادۂ خوش خبر کے رفیق

تم ہی بتاؤ پھر کہ یہ کاروبار ِ حیات کس کے حساب میں

مری زندگی میں بس اک کتاب اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم

٭٭٭






جو فیض سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہیں

جو فیض سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہیں

کچھ اہل ِ درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہیں

رموز ِ مملکت ِ حرف جاننے والے

دلوں کو صورت ِ معنی کشادہ رکھتے ہیں

شب ِ ملال بھی ہم رہ روان ِ منزل ِ عشق

وصال ِ صبح سفر کا ارادہ رکھتے ہیں

جمال ِ چہرہ ِ فردا سے سرخرو ہے جو خواب

اس ایک خواب کو جادہ بہ جادہ رکھتے ہیں

مقام ِ شکر کہ اس شہر ِ کج ادا میں بھی لوگ

لحاظ ِ حرف دل آویز و سادہ رکھتے ہیں

بنام ِ فیض، بجان ِ اسد فقیر کے پاس

جو آئے آ گئے ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

٭٭٭






تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے

یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

یہ بہ ہر لمحہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوے لوگ

کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے

اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

در بدر ہوکے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے

وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

اب گلہ کیا کہ ہوا ہو گئے سب حلقہ بگوش

میں نہ کہتا تھا کہ یہ اہل طلب تیرے نہیں

ہو نہ ہو دل پہ کوئ بوجھ ہے بھائی ورنہ

بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

٭٭٭






سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں

سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مد د کے لیے پکارا نہیں

جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار

جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں

ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

٭٭٭






ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

دل کسی اور طرف دستِ دعا اور طرف

اک رجز خوان ہنر کاسہ و کشکول میں طاق

جب صفِ آرا ہوئے لشکر تو ملا اور طرف

اے بہ کہ ہر لمحہ نئے وہم میں الجھے ہوئے شخص

میری محفل میں الجھتا ہے تو جا اور طرف

اہلِ تشہیر و تماشا کے طلسمات کی خیر

چل پڑے شہر کے سب شعلہ نوا اور طرف

کیا مسافر تھا سفر کرتا رہا اس بستی میں

اور لو دیتے تھے نقشِ کفِ پا اور طرف

شاخِ مژگاں سے جو ٹوٹا تھا ستارہ سرِ شام

رات آئ تو وہی پھول کھلا اور طرف

نرغۂ ظلم میں دکھ سہتی رہی خلقتِ شہر

اہلِ دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف

٭٭٭






شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے

شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے

نئی مٹی کو ابھی چا ک سے خوف آتا ہے

وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس

محورِ گردشِ سفّا ک سے خوف آتا ہے

یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا

اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے

آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے

خاک کو خاک کی پو شاک سے خوف آتا ہے

قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق

اب اسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے

کبھی افلاک سے نا لوں کے جواب آتے تھے

ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے

رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان

امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے

٭٭٭

ماخذ: مختلف ویب سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


5.0 "4"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔