11:36    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

مجموعہ حسابِ جاں

2457 0 0 00




To Let

میں تیرے لطفِ فراواں کا معترف ہوں مگر

حسین و خندہ جبیں میزبان تھی وہ بھی

مطابقت تو نہیں پر مماثلت ہے بہت

تو آسمان سہی، سائبان تھی وہ بھی

تو میرے شام و سحر کا خیال رکھتی ہے

تری طرح ہی بہت مہربان تھی وہ بھی

تجھے بھی لوگ بڑی چاہتوں سے دیکھتے ہیں

نگاہِ اہلِ تمنا کی جان تھی وہ بھی

تو ایک حرف و حکایت کے سلسلے کی طرح

طلسمِ ہوشربا داستان تھی وہ بھی

تو لے اڑی ہے مجھے جس طرح نشے کی طرح

جو سچ کہوں تو مزے کی اڑان تھی وہ بھی

میں اپنے گھر کی طرح اس میں بس گیا تو کھُلا

کرائے کے لئے خالی مکان تھی وہ بھی

٭٭٭






وہ شام کیا تھی

وہ شام کیا تھی جب اس نے بڑی محبت سے

کہا کہ تُو نے یہ سوچا بھی ہے کبھی احمد

خدا نے کتنی تجھے نعمتیں عطا کی ہیں

وہ بخششیں کہ ہیں بالا تر از شمار و عدد

یہ خال و خد، یہ وجاہت، یہ تندرست بدن

گرجتی گونجتی آواز استوار جسد

بسانِ لالۂ صحرا تپاں تپاں چہرہ

مثالِ نخلِ کہستاں دراز قامت و قد

اگرچہ نام و نسب کا نہیں ہے تُو قائل

پہ ہیں قبیلۂ سادات سے ترے اب و جد

بجائے خود ہنرِ شاعری ہے اک انعام

پھر اس پہ اور شرف ہے قبولیت کی سند

ترے کلام پہ یہ قول صادق آتا ہے

کہ شعر خوب ز دل خیزد و بہ دل ریزد

کبھی غزل سنو تیری تو ایسا لگتا ہے

درونِ نَے چوں دلِ نَے نواز می نالد

ترا نہالِ سخن بارور ہوا کیا کیا

اگرچہ سایہ کناں تجھ پہ تھے کئی برگد

قبولِ عام نے تجھ کو وہ آبرو بخشی

کہ خلق پیار کرے تجھ سے اور حریف حسد

محبتیں تجھے اتنی ملیں کہ دل میں ترے

نہ دشمنی نہ عداوت نہ ضد نہ بغض نہ کد

تو اپنے عصر میں ممتاز ہے، یہی ہے بہت

چراغ کس کا وگرنہ جل ہے تا بہ ابد

اگر ہو محفلِ خوباں تو جانِ محفل تُو

اگر ہو حلقۂ رنداں تو، تُو سرِ مسند

کبھی ہے رقص کناں نعرہ زن سرِ بازار

کبھی ہے راندۂ دربار صورتِ سرمد

امیرِ شہر کی نظروں میں مفسد و سرکش

خطیبِ شہر کے خطبوں میں کافر و مرتد

کبھی وطن بدری کے عذابِ جاں لیوا

کبھی اسیری و درماندگی کی ساعتِ بد

اگر کریں جو تقابل ترے مصائب کا

زمانہ سخت کم آزار تھا بجانِ اسد

سو یہ بھی ایک ہے اعزاز اہلِ دل کے لئے

سو یہ بھی دین ہے اس کی بہر کسے نہ دہد

نہ تیرے دوش پہ خلعت کوئی کفن کی طرح

نہ تیرے سر پہ ہے دستارِ کبر کا گنبد

سعادت ایست کہ ہرگز بزورِ بازو نیست

"کہ تانہ رحمتِ پروردگار می بخشد"

میں بت بنا رہا،سنتا رہا بیانِ صنم

چوں پیشِ آئنہ رُو نفس نہ کشد

وہ خود غزل تھی، سو جائز مبالغے اس کے

مگر نہ یوں بھی کہ چھو لیں غلو و کذب کی حد

وہ بولتی گئی جذبات کے بہاؤ میں تھی

وہ کہہ رہی تھی خرد کو جنوں، جنوں کو خرد

جب اس کی ہوش ربا گفتگو تمام ہوئی

تو اس سے میں نے کہا اے قرارِ جان و جسد

میں کب رہا ہوں مگر اس کی ذات سے غافل

کہ جس کی مجھ پہ رہیں مہربانیاں بے حد

یہ رنگ و نقش، یہ حرف و نوا، یہ صحتِ جاں

یہ شاعری، یہ شرف سب اسی کی داد و مدد

یہ فن بہانہ ہے اظہارِ دردِ دل کے لئے

نہ یہ کہ شہرہ و شہرت تھا گوہرِ مقصد

مگر مرے لئے سو بخششوں کی اک بخشش

مری طلب کے بیابان میں تری آمد

ترے ہی طلعت و گیسو کی دھوپ چھاؤں ہے

کہاں کی صبحِ بنارس، کہاں کی شامِ اودھ

تو خود بہار شمائل ہے داد خواہ تیرے

گلاب و لالہ و نسریں و نسترن کے سبد

ترا جمال، ترا التفات، تیری وفا

مرے دیارِ تمنا کی آخری سرحد

مرا وجود، مرے خواب، میری دولتِ فن

تری ہی نذر ہی اے جاں اگر قبول افتد

کجاست سنگِ درِ یارِ من کہ دل بہ نہم

بر آستانۂ شاہاں فرازؔ پا نہ نہد

٭٭٭






نذرِ جالب

کب تک درد کے تحفے بانٹو، خونِ جگر سوغات کرو

"جالب ھُن گل مُک گئی اے"، ھُن جان نوں ہی خیرات کرو

کیسے کیسے دشمنِ جاں اب پرسشِ حال کو آئے ہیں

ان کے بڑے احسان ہیں تم پر، اٹھو تسلیمات کرو

تم تو ازل کے دیوانے اور دیوانوں کا شیوہ ہے

اپنے گھر کو آگ لگا کر روشن شہر کی رات کرو

اے بے زور پیادے تم سے کس نے کہا کہ یہ جنگ لڑو

شاہوں کو شہہ دیتے دیتے اپنی بازی مات کرو

اپنے گریباں کے پرچم میں لوگ تمہیں کفنائیں گے

چاہے تم منصور بنو یا پیرویِ سادات کرو

فیضؔ گیا اب تم بھی چلے تو کون رہے گا مقتل میں

ایک فرازؔ ہے باقی ساتھی، اس کو بھی اپنے ساتھ کرو

٭٭٭






بھلی سی ایک شکل تھی

بھلے دنوں کی بات ہے

بھلی سی ایک شکل تھی

نہ یہ کہ حسنِ تام ہو

نہ دیکھنے میں عام سی

نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہگزر لگے

مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفرلگے

کوئی بھی رُت ہو اس کی چھب

فضا کا رنگ روپ تھی

وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی

وہ سردیوں کی دھوپ تھی

نہ مدتوں جدا رہے

نہ ساتھ صبح و شام ہو

نہ رشتۂ وفا پہ ضد

نہ یہ کہ اذنِ عام ہو

نہ ایسی خوش لباسیاں

کہ سادگی گلہ کرے

نہ اتنی بے تکلفی

کہ آئینہ حیا کرے

نہ اختلاط میں وہ رم

کہ بد مزہ ہوں خواہشیں

نہ اس قدر سپردگی

کہ زچ کریں نوازشیں

نہ عاشقی جنون کی

کہ زندگی عذاب ہو

نہ اسقدر کٹھور پن

کہ دوستی خراب ہو

کبھی تو بات بھی خفی

کبھی سکوت بھی سخن

کبھی تو کشتِ زعفراں

کبھی اداسیوں کا بن

سنا ہے ایک عمر ہے

معاملاتِ دل کی بھی

وصالِ جا نفزا تو کیا

فراقِ جانگسل کی بھی

سو ایک روز کیا ہوا

وفا پہ بحث چھڑ گئی

میں عشق کو امر کہوں

وہ میری ضد سے چڑ گئی

میں عشق کا اسیر تھا

وہ عشق کو قفس کہے

کہ عمر بھر کے ساتھ کو

وہ بدتر از ہوس کہے

"شجر حجر نہیں کہ ہم

ہمیش پا بہ گِل رہیں

نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں

گلوں میں مستقل رہیں

محبتوں کی وسعتیں

ہمارے دست و پا میں ہیں

بس ایک در سے نسبتیں

سگانِ با وفا میں ہیں

میں کوئی پینٹنگ نہیں

کہ اک فریم میں رہوں

وہی جو من کا میت ہو

اسی کے پریم میں رہوں

تمہاری سوچ جو بھی ہو

میں اس مزاج کی نہیں

مجھے وفا سے بیر ہے

یہ بات آج کی نہیں"

نہ اس کو مجھ پہ مان تھا

نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی

جو عہد ہی کوئی نہ ہو

تو کیا غمِ شکستگی

سو اپنا اپنا راستہ

ہنسی خوشی بدل دیا

وہ اپنی راہ چل پڑی

میں اپنی راہ چل دیا

بھلی سی ایک شکل تھی

بھلی سی اس کی دوستی

اب اس کی یاد رات دن

نہیں، مگر کبھی کبھی

٭٭٭






غنیم سے

مرے تن کے زخم نہ گِن ابھی

مری آنکھ میں ابھی نور ہے

مرے بازوؤں پہ نگاہ کر

جو غرور تھا، وہ غرور ہے

ابھی تازہ دم ہے مرا فرس

نئے معرکوں پہ تُلا ہوا

ابھی رزم گاہ کے درمیاں

ہے مرا نشان کھلا ہوا

تری چشمِ بد سے رہیں نہاں

وہ تہیں جو ہیں مری ذات کی

مجھے دیکھ قبضۂ تیغ پر

ہے گرفت ابھی مرے ہاتھ کی

وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے

یہ شرف تو میرے لہو کا ہے

مجھے زندگی سے عزیز تر

یہ جو کھیل تیغ و گلو کا ہے

تجھے مان جوشن و گُرز پر

مرا حرفِ حق مری ڈھال ہے

ترا جور و ظلم بلا سہی

مرا حوصلہ بھی کمال ہے

میں اسی قبیلے کا فرد ہوں

جسے ناز صدق و یقیں پہ ہے

یہی نامہ بر ہے بہار کا

جو گلاب میری جبیں پہ ہے

٭٭٭






اب وہ کہتے ہیں

اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو

جب کوئی عہد و پیماں سلامت نہیں

اب کسی کنج میں بے اماں شہر کی

کوئی دل، کوئی داماں سلامت نہیں

تم نے دیکھا ہے سر سبز پیڑوں پہ اب

سارے برگ و ثمر خار و خس ہو گئے

اب کہاں خوبصورت پرندوں کی رُت

جو نشیمن تھے اب وہ قفس ہو گئے

صحنِ گلزار خاشاک کا ڈھیر ہے

اب درختوں کے تن پر قبائیں کہاں

سرو و شمشاد سے قمریاں اُڑ گئیں

شاخِ زیتون پر فاختائیں کہاں

شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا

رند بدنام کوئے خرابات میں

فاصلہ ہو تو ہو، فرق کچھ بھی نہیں

فتوۂ دیں میں اور کفر کی بات میں

اب تو سب راز داں، ہمنوا، نامہ بر

کوئے جاناں کے سب آشنا جا چکے

کوئی زندہ گواہی بچی ہی نہیں

سب گنہگار، سب پارسا جا چکے

اب کوئی کس طرح قُم بہ اذنی کہے

اب کہ جب شہر کا شہر سنسان ہے

حرفِ عیسیٰ نہ صورِ اسرافیل ہے

حشر کا دن، قیامت کا میدان ہے

مرگِ انبوہ بھی جشنِ ساماں نہیں

اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا

کب سے توقیرِ لالہ قبائی گئی

کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا

٭٭٭






کالی دیوار

کل واشنگٹن شہر کی ہم نے سیر بہت کی یار

گونج رہی تھی سارے جگ میں جس کی جے جے کار

ملکوں ملکوں ہم گھومے تھے بنجاروں کی مثل

لیکن اس کی سج دھج سچ مچ دلداروں کی مثل

روشنیوں کے رنگ بہیں یوں رستہ نظر نہ آئے

من کی آنکھوں والا بھی یاں اندھا ہو ہو جائے

بالا بام چراغاں رستے، روپ بھرے بازار

جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے خوابوں کا سنسار

ایک سفید حویلی جس میں بہت بڑی سرکار

یہیں کریں سوداگر چھوٹی قوموں کا بیوپار

یہیں پہ جادو گر بیٹھا جب کہیں کی ڈور ہلائے

ہر بستی ناگاساکی، ہیروشیما بن جائے

اسی حویلی سے کچھ دور ہی اک کالی دیوار

لوگوں کی وہ بھیڑ لگی تھی، چلنا تھا دشوار

اس کالی دیوار پہ کندہ دیکھے ہزاروں نام

ان ناموں کے بیچ لکھا تھا "شہدائے وِتنام"

دُور دُور سے جمع ہوئے تھے طرح طرح کے لوگ

آنکھوں آنکھوں ویرانی تھی، چہروں چہروں سوگ

بیکل بہنیں، گھائل مائیں، کرلاتی بیوائیں

ساجن تم کس دیس سدھارے پوچھیں محبوبائیں

اپنے پیاروں دلداروں کا اوجھل مکھڑا ڈھونڈیں

اس کالی دیوار پہ ان کے نام کا ٹکڑا ڈھونڈیں

دلوں میں غم، پلکوں پر شبنم، ہاتھوں میں پھول اٹھائے

اس ناموں کے قبرستان کا بھید کوئی کیا پائے

نا تربت نہ کتبہ کوئی نا ہڈی نا ماس

پھر بھی پاگل نیناں کو تھی پیا ملن کی آس

کہیں کہیں دیوار پہ چسپاں ایک سفید گلاب

جیسے ماں کا کوئی آنسو، جیسے باپ کا خواب

سبھی کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکے ایک سوال

کس کارن مٹی میں ملائے ہیروں جیسے لال

پیلے پیلے دیس پہ ہم نے کیا کیا اندھیارے برسائے

اس کے جیالے تو کٹ مر کر روشنیاں لے آئے

لیکن اتنے چاند گنوا کر ہم نے بھلا کیا پایا

ہم بد قسمت ایسے جن کو دھوپ ملی نہ چھایا

مُکھ موتی دے کر حاصل کی یہ کالی دیوار

یہ کالی دیوار جو ہے بس اک خالی دیوار

یہ کالی دیوار جو ہے ناموں کا قبرستان

واشنگٹن کے شہر میں دفن ہیں کس کس کے ارمان

٭٭٭






بنگلہ دیش

(ڈھاکہ میوزیم دیکھ کر)

کبھی یہ شہر مرا تھا، زمین میری تھی

مرے ہی لوگ تھے، میرے ہی دست و بازو تھے

میں جس دیار میں بے یار و رفیق پھروں

یہاں کے سارے صنم میرے آشنا رُو تھے

کسے خبر تھی کہ عمروں کی عاشقی کا مآل

دل شکستہ و چشمِ پُر آب جیسا تھا

کسے خبر تھی کہ اس دجلۂ محبت میں

ہمارا ساتھ بھی موج و حباب جیسا تھا

خبر نہیں یہ رقابت تھی نا خداؤں کی

کہ یہ سیاستِ درباں کی چال تھی کوئی

دو نیم ٹوٹ کے ایسے ہوئی زمیں جیسے

مری اکائی بھی خواب و خیال تھی جیسے

یہ میوزیم تو ہے اس روزِ بد کا آئینہ

جو نفرتوں کی تہوں کا حساب رکھتا ہے

کہیں لگ ہوا انبارِ استخواں تو کہیں

لہو میں ڈوبا ہوا آفتاب رکھتا ہے

کہیں مرے سپہ سالار کی جھکی گردن

عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سماں

مرے خد مری بینائی چھین لے مجھ سے

میں کیسے دیکھ رہا ہوں ہزیمتِ یاراں

میں سر جھکائے ہوئے، درد کو چھپائے ہوئے

پلٹ کر آیا تو ہر رہگزر اندھیری تھی

میں سوچتا ہوں ابھی تو چراغ روشن تھے

کبھی یہ شہر مرا تھا، زمین میری تھی

٭٭٭






من و تُو

قصیدہ

معاف کر مری مستی خدائے عزّ و جل

کہ میرے ہاتھ میں ساغر ہے، میرے لَب پہ غزل

کریم ہے تو مری لغزشوں کو پیار سے دیکھ

رحیم ہے تو سزا و جزا کی حد سے نکل

ہے دوستی تو مجھے اذنِ میزبانی دے

تُو آسماں ہے اتر اور مری زمین پہ چل

میں پا بہ گِل ہوں مگر چھُو چکا منارۂ عرش

سو تُو بھی دیکھ یہ خاک و خشارہ و جنگل

بہت عزیز ہے مجھ کو یہ خاکداں میرا

یہ کوہسار، یہ قلزم، یہ دشت، یہ دلدل

مرے جہاں میں زمان و مکان و لیل و نہار

ترے جہاں میں ازل ہے ابد نہ آج نہ کل

مرے لہو میں برقِ تپاں کا جذب و گریز

ترے سبو میں مئے زندگی نہ زہرِ اجل

تری بہشت ہے دشتِ جمود و بحرِ سکوت

مری سرشت ہے آشوبِ ذات سے بیکل

تُو اپنے عرش پہ شاداں ہے سو خوشی تیری

میں اپنے فرش پہ نازاں ہوں اے نگارِ ازل

مجھے نہ جنتِ گم گشتہ کی بشارت دے

کہ مجھ کو یاد ابھی تک ہے ہجرتِ اوّل

ترے کرم سے یہاں بھی مجھے میسر ہے

جو زاہدوں کی عبادت میں ڈالتا ہے خلل

وہ سیر چشم ہوں، میرے لئے ہے بے وقعت

جمالِ حور و شرابِ طہور و شِیر و عَسل

گناہگار تو ہوں پر نہ اس قدر کہ مجھے

صلیب روزِ مکافات کی لگے بوجھل

کہیں کہیں کوئی لالہ، کہیں کہیں کوئی داغ

مری بیاض کی صورت ہے میری فردِ عمل

وہ تُو کہ عقدہ کشا و مسب الاسباب

یہ میں کہ آپ معمہ ہوں، آپ اپنا ہی حل

میں آپ اپنا ہی ہابیل، اپنا ہی قابیل

مری ہی ذات ہے مقتول و قاتل و مقتل

برس برس کی طرح تھا نفس نفس میرا

صدی صدی کی طرح کاٹتا رہا پل پل

ترا وجود ہے لاریب اشرف و اعلیٰ

جو سچ کہوں تو نہیں میں بھی ارزل و اسفل

یہ واقعہ ہے کہ شاعر وہ دیکھ سکتا ہے

رہے جو تیرے فرشتوں کی آنکھ سے اوجھل

وہ پر فشاں ہیں مگر غولِ شپّرک کی طرح

سو رائیگاں ہیں کہ جوں چشمِ کور میں کاجل

مرے لئے تو ہے سو بخششوں کی اِک بخشش

قلم جو افسر و طبل و علم سے ہے افضل

یہی قلم کہ جس کی ستارہ سازی سے

دلوں میں جوت جگاتی ہے عشق کی مشعل

یہی قلم جو دکھ کی رتوں میں بخشتا ہے

دلوں کو پیار کا مرہم، سکون کا صندل

یہی قلم کہ اعجازِ حرف سے جس کے

تمام عشوہ طرازانِ شہر ہیں پاگل

یہی قلم ہے کہ جس نے مجھے یہ درس دیا

کہ سنگ و خشت کی زد پر رہیں گے شیش محل

یہی قلم ہے کہ جس کے ہنر سے نکلے ہیں

رہِ حیات کے خم ہوں کہ زلفِ یار کے بل

یہی قلم ہے کہ جس کی عطا سے مجھ کو ملے

یہ چاہتوں کے شگوفے، محبتوں کے کنول

تمام سینہ فگاروں کو یاد میرے سخن

ہر ایک غیرتِ مریم کے لب پہ میری غزل

اسی نے سہل کئے مجھ پہ زندگی کے عذاب

وہ عہدِ سنگ زنی تھا کہ دورِ تیغِ اجل

اسی نے مجھ کو سجھائی ہے راہِ اہلِ صفا

اسی نے مجھ سے کہا ہے پلِ صراط پہ چل

اسی نے مجھ کو چٹانوں کے حوصلے بخشے

وہ کربلائے فنا تھی کہ کار گاہِ جدل

اسی نے مجھ سے کہا اسمِ اہلِ صدق امر

اسی نے مجھ سے کہا سچ کا فیصلہ ہے اٹل

اسی کے فیض سے آتشکدے ہوئے گلزار

اسی کے لطف سے ہر زشت بن گیا اجمل

اسی نے مجھ سے کہا جو ملا بہت کچھ ہے

اسی نے مجھ سے کہا جو نہیں ہے ہاتھ نہ مل

اسی نے مجھ کو قناعت کا بوریا بخشا

اسی کے ہاتھ سے دستِ دراز طمع ہے شل

اسی کی آگ سے میرا وجود روشن ہے

اسی کی آب سے میرا ضمیر ہے صیقل

اسی نے مجھ سے کہا بیعتِ یزید نہ کر

اسی نے مجھ سے کہا مسلکِ حسین پہ چل

اسی نے مجھ سے کہا زہر کا پیالہ اٹھا

اسی نے مجھ سے کہا، جو کہا ہے اس سے نہ ٹل

اسی نے مجھ سے کہا عاجزی سے مات نہ کھا

اسی نے مجھ سے کہا مصلحت کی چال نہ چل

اسی نے مجھ سے کہا غیرتِ سخن کو نہ بیچ

کہ خونِ دل کے شرف کو نہ اشرفی سے بدل

اسی نے مجھ کو عنایت کیا یدِ بیضا

اسی نے مجھ سے کہا سحرِ سامری سے نکل

اسی نے مجھ سے کہا عقل تہہ نشینی ہے

اسی نے مجھ سے کہا ورطۂ خرد سے نکل

اسی نے مجھ سے کہا وضعِ عاشقی کو نہ چھوڑ

وہ خواہ عجز کا لمحہ ہو یا غرور کا پل

اذیتوں میں بھی بخشی مجھے وہ نعمتِ صبر

کہ میرے دل میں گرہ ہے نہ میرے ماتھے پہ بل

ہیں ثبت سینۂ مہتاب پر قدم میرے

ہیں منتظر مرے مریخ و مشتری و زحل

تری عطا کے سبب یا مری انا کے سبب

کسی دعا کا موقع نہ التجا کا محل

سو تجھ سا کوئی خالق نہ مجھ سی ہے مخلوق

نہ کوئی تیرا ہے ثانی، نہ کوئی میرا بدل

فرازؔ تو بھی جنوں میں کدھر گیا ہے نکل

ترا دیار محبت، تری نگار غزل

ق

ٹپک چکا ہے بہت تیری آنکھ سے خونناب

برس چکا ہے بہت تیرے درد کا بادل

کچھ اور دیر ابھی حسرتِ وصال میں رہ

کچھ اور دیر ابھی آتشِ فراق میں جل

کسی بہار شمائل کی بات کر کہ بنے

ہر ایک شگوفہ، ہر ایک لفظ کنول

٭٭٭






خوابوں کے بیوپاری

ہم خوابوں کے بیوپاری تھے

پر اس میں ہوا نقصان بہت

کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی

کچھ اب کے غضب کا کال پڑا

ہم راکھ لئے ہیں جھولی میں

اور سر پہ ہے ساہو کار کھڑا

یاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں

وہ باج بیاج کی بات کرے

ہم بانجھ زمیں کو تکتے ہیں

وہ ڈھور اناج کی بات کرے

ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں

وہ آج ہی آج کی بات کرے

جب دھرتی صحرا صحرا تھی

ہم دریا دریا روئے تھے

جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں

اور سُر سنگیت میں سوئے تھے

تم ہم نے جیون کھیتی میں

کچھ خواب انوکھے بوئے تھے

کچھ خواب سجل مسکانوں کے

کچھ بول کبت دیوانوں کے

کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملے

کچھ گیت شکستہ جانوں کے

کچھ نیر وفا کی شمعوں کے

کچھ پر پاگل پروانوں کے

پھر اپنی گھائل آنکھوں سے

خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا

ماٹی میں ماس کی کھاد بھری

اور نس نس کو زخمایا تھا

اور بھول گئے پچھلی رُت میں

کیا کھویا تھا، کیا پایا تھا

ہر بار گگن نے وہم دیا

اب کے برکھا جب آئے گی

ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی

اور ہر کونپل پھل لائے گی

سر پر چھایا چھتری ہو گی

اور دھوپ گھٹا بن جائے گی

جب فصل کٹی تو کیا دیکھا

کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے

کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر

کچھ خاکستر سے کجرے تھے

اور دور افق کے ساگر میں

کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے

اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری

اور جسم پہ جوگ کا چولا ہے

سب سنگی ساتھی بھید بھرے

کوئی ماسہ ہے، کوئی تولا ہے

اس تاک میں یہ، اس گھات میں وہ

ہر اور ٹھگوں کا ٹولہ ہے

اب گھاٹ نہ گھر، دہلیز نہ در

اب پاس رہا ہے کیا بابا

بس تن کی گھٹری باقی ہے

جا یہ بھی تُو لے جا بابا

ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں

تو اپنا قرض چکا بابا

٭٭٭






وہ تری طرح کوئی تھی

یونہی دوش پر سنبھالے

گھنی زلف کے دو شالے

وہی سانولی سی رنگت

وہی نین نیند والے

وہی من پسند قامت

وہی خوشنما سراپا

جو بدن میں نیم خوابی

تو لہو میں رتجگا سا

کبھی پیاس کا سمندر

کبھی آس کا جزیرہ

وہی مہربان لہجہ

وہی میزباں وطیرہ

تجھے شاعری سے رغبت

اُسے شعر یاد میرے

وہی اس کے بھی قرینے

جو ہیں خاص وصف تیرے

کسی اور ہی سفر میں

سرِ راہ مل گئی تھی

تجھے اور کیا بتاؤں

وہ تری طرح کوئی تھی

کسی شہرِ بے اماں میں

میں وطن بدر اکیلا

کبھی موت کا سفر تھا

کبھی زندگی سے کھیلا

مرا جسم جل رہا تھا

وہ گھٹا کا سائباں تھی

میں رفاقتوں کا مارا

وہ مری مزاج داں تھی

مجھے دل سے اُس نے پوجا

اسے جاں سے میں نے چاہا

اِسی ہمرہی میں آخر

کہیں آ گیا دو راہا

یہاں گمرہی کے امکاں

اسے رنگ و بو کا لپکا

یہاں لغزشوں کے ساماں

اسے خواہشوں نے تھپکا

یہاں دام تھے ہزاروں

یہاں ہر طرف قفس تھے

کہیں زر زمیں کا دلدل

کہیں جال تھے ہوس کے

وہ فضا کی فاختہ تھی

وہ ہَوا کی راج پُتری

کسی گھاٹ کو نہ دیکھا

کسی جھیل پر نہ اتری

پھر اک ایسی شام آئی

کہ وہ شام آخری تھی

کوئی زلزلہ سا آیا

کوئی برق سی گری تھی

عجب آندھیاں چلیں پھر

کہ بکھر گئے دل و جاں

نہ کہیں گلِ وفا تھا

نہ چراغِ عہد و پیماں

وہ جہاز اتر گیا تھا

یہ جہاز اتر رہا ہے

تری آنکھ میں ہیں آنسو

مرا دل بکھر رہا ہے

تُو جہاں مجھے ملی ہے

وہ یہیں جدا ہوئی تھی

تجھے اور کیا بتاؤں

وہ تری طرح کوئی تھی

٭٭٭






یہ دکھ آساں نہ تھے جاناں

برس یا دو برس کی قیدِ تنہائی بھی گر ہوتی

تو پھر بھی زندگی لاچار ہو جاتی

محبت بے وفا اور دوستی بیزار ہو جاتی

مگر تم نے تو سارے ہجر کے بیمار موسم

بیکلی، بیچارگی اور کرب کے

بوسیدہ بستر پر گزارے ہیں

سرِ بالیں

کسی کے ہاتھ میں چارہ گری کی شمعِ لرزاں

اور نہ آوازوں کے روشن داں

نشاطِ خواب کیا

جب وار ہے دروازۂ مژگاں

یہ دکھ آساں نہ تھے جاناں

پرانی داستانوں میں تو ہوتا ہے

کہ کوئی شاہزادی یا کوئی نیلم پری

دیووں یا آسیبوں کی قیدی

اپنے آدم زاد دیوانے کی رہ تکتے

شبیہہِ سنگ ہو جاتی

مگر وہ داستانیں تھیں

پھر ان میں بھی تو آخر کار

اس کا با وفا ساونت شہزادہ

سمندر پار کرتا

وار کرتا

کوہساروں کے جسد مسمار کرتا

ان طلسماتی حصاروں سے اسے آزاد کر کے

ساتھ لے جاتا

مگر تُو داستانوں کا کوئی کردار

یا پارینہ قصوں کا کوئی حصہ نہ تھی

تُو نے تو خود آزارگی اپنے تئیں ہی منتخب کی تھی

کئی دن پھر کئی دن پھر نئے دن

بدن کا دوزخی سیّال ایندھن

اور لہو کا آتشیں لاوا

رگوں میں دوڑنے پھرنے کا قائل نہیں رہتا

تعلق کی چٹانیں ریت بن جاتی ہیں

دلداری کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں

ارماں آنسوؤں کا رزق بن جاتے ہیں

اور دل ایک ہی صورت پہ پھر مائل نہیں رہتا

وفاداری بشرطِ استواری کا چلن

پھر عاشقی کی راہ میں حائل نہیں رہتا

بدل جاتے ہیں خال و خد

پگھل جاتے ہیں جسم و جاں

یہ دکھ آساں نہیں جاناں

٭٭٭






بہ اندازِ مثنویِ قدیم

تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو

ہم سناتے ہیں تمہیں اپنی کہانی لوگو

کون تھا دشمنِ جاں وہ کوئی اپنا تھا کہ غیر

ہاں وہی دشمنِ جاں دلبرِ جانی لوگو

زلف زنجیر تھی ظالم کی تو شمشیر بدن

روپ سا روپ جوانی سی جوانی لوگو

سامنے اس کے دِکھے نرگسِ شہلا بیمار

رو برو اس کے بھرے سرو بھی پانی لوگو

اس کی گفتار میں خندہ تھا شگفتِ گل کا

اس کی رفتار میں چشمے کی روانی لوگو

اس کے ملبوس سے شرمندہ قبائے لالہ

اس کی خوشبو سے جلے رات کی رانی لوگو

ہم جو پاگل تھے تو بے وجہ نہیں تھے پاگل

ایک دنیا تھی مگر اس کی دوانی لوگو

عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے یوں بھی

کب رہا راز کوئی رازِ نہانی لوگو

ایک تو عشق کیا عشق بھی پھر میرؔ سا عشق

اس پہ غالبؔ کی سی آشفتہ بیانی لوگو

حیلہ جُو ویسے بھی ہوتے ہیں زمانے والے

اس پہ آئی نہ ہمیں بات چھپانی لوگو

داستاں کوئی بھی ہو ذکر کسی شخص کا ہو

ہم نے اس نام سے تمہید اٹھانی لوگو

ہاں وہی نام کہ جس نام سے وابستہ ہے

ہر محبت وہ نئی ہو کہ پرانی لوگو

ہم ہی سادہ تھے، کیا اس پہ بھروسا کیا کیا

ہم ہی ناداں تھے کہ لوگوں کی نہ مانی لوگو

ہم تو اس کے لئے گھر بار بھی تج بیٹھے تھے

اس ستمگر نے مگر قدر نہ جانی لوگو

کس طرح بھول گیا قول و قسم وہ اپنے

کتنی بے صرفہ گئی یاد دہانی لوگو

جس طرح تتلیاں باغوں سے سفر کر جائیں

جیسے الفاظ میں مر جائیں معانی لوگو

اب غزل کوئی اترتی ہے تو نوحے کی طرح

شاعری ہو گئی اب مرثیہ خوانی لوگو

شمع رویوں کی محبت میں یہی ہوتا ہے

رہ گیا داغ فقط دل کی نشانی لوگو

٭٭٭






تجھے کیا خبر کہ جاناں

تُو نہ تھی کوئی سرائے

کہ میں رات بھر ٹھہر کے

سفر اختیار کرتا

میں نہ تھا کوئی مسافر

کہ جو گھر نگر کو تج کر

کہیں اور پیار کرتا

انہی بستیوں میں ورنہ

کئی دل، کئی نگاہیں

کوئی نیند کا ہو رسیا

تو ہزار خوابگاہیں

کہیں کاکلوں کے بادل

کہیں قامتوں کی چھاؤں

کہیں شہر آرزو کے

کہیں حسرتوں کے گاؤں

کہیں خلوتیں دکانیں

کہیں جسم بیوپاری

نہ کسی صنم کو شکوہ

نہ دکھی کوئی پجاری

یہ عجب قمار خانے

یہاں ہار بھی کمائی

نہ کسی کا مان ٹوٹا

نہ کسی نے چوٹ کھائی

کوئی بے مآل قصہ

کوئی داستاں ادھوری

یہ سپردگی جدائی

تو وہ اختلاط دوری

یہاں شوق بھی تماشا

یہاں عشق بھی ملامت

نہ تو وصل خوبصورت

نہ فراق ہی قیامت

یہ ضرورتوں کے میلے

یہ قیام کے بہانے

یہ تھکن اتارنے کے

سبھی عارضی ٹھکانے

یہ ہمارے عہد و پیماں

تجھے کیا خبر کہ جاناں

یہ دنوں کی بات کب تھی

یہ رفاقتوں کی صدیاں

یہ جو درد ہے امر ہے

کہ وفا ہے حرفِ آخر

تو نہ تھی کوئی سرائے

نہ میں ہوں کوئی مسافر

٭٭٭

ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔