لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اِضافہ ہو گیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔ ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اُٹھائے خوش خوش گاتا جا رہا تھا۔ "جب تم ہی گئے پردیس لگا کے ٹھیس، او پیتم پیارا، دُنیا میں کون ہمارا۔" ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جا رہا تھا، ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی میں سے گر پڑی، لڑکا اسے اُٹھانے کے لیئے جھکا تو ایک آدمی نے جس نے سر پر سلائی مشین اُٹھائی ہوئی تھی، اُس سے کہا۔ رہنے دیے بیٹا!رہنے دے۔ اپنے آپ ہی بھن جائیں گے۔
بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھُرے سے اس کا پیٹ چاک کیا۔ آنتوں کے بجائے شکر، سفید دانوں والی شکر اُبل کر باہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہو گئے اور اپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا، اُس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا وار مُٹھّیاں بھر بھر کر اس میں ڈالنے لگا۔ "ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ" ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔
اُونچے مکان کی کھڑکی میں سے مل مل کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا، شعلے کی زبان نے ہولے ہولے اسے چاٹا۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔ "پوں پوں، پوں پوں" موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔
لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدی سے اس کو کھولنا شروع کیا۔
کاؤ اینڈ کیٹ، دودھ کے کئی ٹیں دونوں ہاتھوں پر اُٹھائے اپنی تھوڑی سے ان کو سہارا دیے ایک آدمی دُوکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔
بلند آواز آئی، "آؤ وؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو، گرمی کا موسم ہے " گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ ادا کیے بغیر چل دیا۔
ایک آواز آئی" کوئی آگ بجھانے والوں کو تو اطلاع کر دے ، سارا مال جل جائے گا۔" کسی نے اس مشورے کی طرف توجہ نہ دی، لُوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑ تڑ کی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔ پولیس کو بازار خالی نظر آیا، لیکن دُور دھوئیں میں ملفوف موڈ کے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندر گھس گیا تو پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔ دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھا کہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری اُٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے۔
سیٹیوں کے گلے خشک ہو گئے مگر وہ مزدور نہ رُکا۔ اُس کی پیٹھ پر وزن تھا۔ وزن معمولی نہیں ، ایک بھری ہوئی بوری تھی مگر وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کچھ ہے ہی نہیں۔
سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آ کر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اس کی پیٹھ سے گر پڑی، گھبرا کی اس نے اپنے پیچھے سپاہیوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا لیکن ایک ہی جھٹکے سے بوری اُٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔ سپاہیوں نے سوچا، "جانے دو، جہنم میں جائے " مگر پھر اُنہوں نے اُسے پکڑ لیا۔
راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا "حضرت ! آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے ، میں تو غریب آدمی ہوتی، چاول کی ایک بوری لیتی، گھر میں کھاتی۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔" لیکن اُس کی ایک نہ سنی گئی۔
تھانے میں کشمیری مزدور نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔ حضرت! دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اُٹھاتی، میں تو ایک چاول کی بوری لیتی۔ حضرت! میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔
جب وہ تھک گیا تو اُس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانے دار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ اچھا حضرت! تم بوری اپنے پاس رکھ۔ میں اپنی مزدوری مانگتی، چار آنے۔
بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل ، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے .
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول ، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں ، اور بالاخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرّر ہو گیا۔ اچّھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دئے گئے تھے۔ جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے۔ اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے۔ سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیے گئے
ادھر کا معلوم نہیں۔ لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ می گوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز با قاعدگی کے ساتھ " زمیندار " پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ " مولبی ساب ، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے "۔ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔" ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں "۔
یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا .
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔" سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی "۔
دوسرا مسکرایا۔ " مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں "
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے " پاکستان زندہ باد " کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور
بیہوش ہو گیا۔
بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے یہ بھی بے خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمّد علی جناح ہے جس کو قائدِ اعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے ، اس کا محلِّ وقوع کیا ہے۔ اس کے متعلّق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے۔ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان ، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکّر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا " میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہوں گا "۔
بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائینگے۔
ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سر گرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کر دی۔ اس کا نام محمّد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائدِ اعظم محمّد علی جنّاح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیٰحدہ بند کر دیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبّت میں نا کام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبّت ہو گئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دئے اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے۔ اس کو ہندوستان بھیج دیا جائیگا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی۔ یوروپین وارڈ رہیگا یا اڑا دیا جائیگا۔ بریک فاسٹ ملا کریگا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین"۔ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لئے بھی نہیں سویا۔ لیٹتا بھی نہیں تھا۔ البتّہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔
ہر وقت کھڑے رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں۔ مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان ، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلّق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔" اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ "۔
لیکن بعد میں " آف دی پاکستان گورنمنٹ " کی جگہ " آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ " نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے۔ اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غیب ہی ہو جائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کے بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جن کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلّق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچّھا کھاتا پیتا زمین دار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے۔ ایک مدّت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان ، ہندستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے ، مہینہ کون سا ہے ، یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آ رہی ہے۔ اس دن وہ اچّھی طرح نہاتا ، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا ، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی لالٹین " کہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچّی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی ، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں ، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہم دردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل ، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناً اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ، تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا۔" وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا "۔
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اسلئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا۔ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورو جی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح جو بولے سو نہال ، ست سری اکال"۔
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا۔ مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ " یہ تم سے ملنے آیا ہے تمہارا دوست فضل دین ہے "۔
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ " میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے مجھ سے جتنی مدد ہو سکی ، میں نے کی۔ تمہاری بیٹی روپ کور . . . . "
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔" بیٹی روپ کور "۔
فضل دین نے رک رک کر کہا۔ " ہاں . . . . وہ . . . . وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی "۔
بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ " انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔ بھائی بلبیسر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا-اور بہن امرت کور سے بھی . . . . بھائی بلبیسر سے کہنا۔ فضل دین راضی خوشی ہے۔ وہ بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی . . . . اور . . . . میری لائق جو خدمت ہو ، کہنا ، میں ہر وقت تیار ہوں . . . . اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں "۔
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا۔ "ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ؟ "۔
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ " کہاں ہے ؟ وہیں ہے جہاں تھا "۔
بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ " پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ "
" ہندوستان میں نہیں پاکستان میں "۔ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دور فٹے منہ ! ،،
تبادلے کے تیاریاں مکمّل ہو چکی تھیں۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرّر ہو چکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلّقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بورڈر پر طرفین کے سپرنٹندنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کاروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے۔ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے ، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے۔کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہا ہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں ، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اسلئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے " پاکستان زندہ باد " اور " پاکستان مردہ باد " کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا ، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آ گیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلّقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ " ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟
متعلّقہ افسر ہنسا۔ " پاکستان میں "۔
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے ، مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ "ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے " اور زور زور سے چلّانے لگا۔ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان "۔
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائیگا۔ مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپن سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی ، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام
ہوتا رہا۔
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا ، اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔
بابوگوپی ناتھ سے میری ملاقات سن چالیس میں ہوئی، ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار چرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا، دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹے آدمی کے ساتھ داخل ہوا میں اس وقت لیڈ لکھ رہا تھا، سینڈو نے اپنے مخصوص انداز میں با آواز بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا، منٹو صاحب بابو گوپی ناتھ سے ملئے۔
میں نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا، سینڈو نے حسب عادت میری تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دئیے ، بابو گوپی ناتھ، تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو، لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا، ایسی ایسی کنٹی نیو ٹلی ملاتا ہے کہ طبعیت صاف ہو جاتی ہے ، پچھلے دنوں کیا چٹکلہ لکھا تھا، آپ نے منٹو صاحب، مس خورشید نے کار خریدی، اللہ بڑا کار ساز ہے ، کیوں بابو گوپی ناتھ ہے نہ اینٹی پینٹی پو؟
عبدلرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا انداز بالکل نرالا تھا، کنٹی نیو ٹلی، دھڑن تختہ اور اینٹی پینٹی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے ، جن کو وہ گفتگو میں بے تلکف استعمال کرتا تھا، میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہوا، جو بہت مرعوب نظر آتا تھا، آپ ہیں بابو گوپی ناتھ، بڑے خانہ خراب لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئے تشریف لائے ہیں ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے ، بابو گوپی ناتھ مسکرایا۔
عبد الرحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کر کہا کہ نمبر ون بے وقوف ہو سکتا ہے تو وہ آپ ہیں، لوگ ان کے مسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں، میں صرف باتیں کر کے ان سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہوں، بس منٹو صاحب، یہ سمجھ لیجیے کہ بڑے انٹی فلو جیسٹس قسم کے آدمی ہیں، آپ آج شام کو انکے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔
بابو گوپی ناتھ خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا چونک کر کہا ہاں ہاں ضرور تشریف لائیے منٹو صاحب، پھر سینڈو سے پوچھا کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں۔
تو عبدالرحیم نے زور سے قہقہہ لگایا، اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں، تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا، میں نے بھی پینی شروع کر دی ہے ، اس لئے کہ مفت ملتی ہے۔
سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتہ لکھ کر دیا، جہاں میں حسب وعدہ شام کو چھ کے قریب پہنچ گیا، تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا، جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا، سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور عورتیں موجود تھیں، جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔
ایک تھا غفار سائیں، تہمد پوش، پنجاب کا ٹھیٹ سائیں، گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا، سینڈو نے اس کے بارے میں کہا کہ، آپ بابو گوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں، میرا مطلب سمجھ جائیے آپ، ہر آدمی جس کی ناک بہتی ہو جس کے منہ سے لعاب نکلتا ہو، پنجاب میں خدا کو پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے ، یہ بھی بس پہنچے ہوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں، لاہور سے بابو گوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں، کیونکہ انہیں وہاں کوئی اور وقوف ملنے کی امید نہیں تھی، یہاں آپ بابو گوپی ناتھ سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دعا کرتے رہتے ہیں،کہ انجام نیک ہو۔
دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی، لمبا تڑنگا جوان،کسرتی بدن،منہ پر چیچک کے داغ، اس کے متعلق سینڈو نے کہا یہ میرا شاگرد ہے ، اپنے استاد کے نقش قدم پر چل رہا ہے ، لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری بیٹی اس پر عاشق ہو گئی، بڑی کنٹی وٹیاں ملائی گئیں اس کو پھانسنے کیلئے مگر اس نے کہا، ڈو اور ڈائی، میں لنگوٹ کا پکا رہوں گا، ایک تکئیے میں بات چیت پیٹے ہوئے بابو گوپی ناتھ سے ملاقات ہو گئی، بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے ،ہر روز کریون اے کا ڈبہ اور کھانا پینا مقرر ہے۔
گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی، کمرے میں داخل ہوتے ہی میں سمجھ گیا تھا،کہ یہ وہی کشمیری کبوتری ہے ، جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا ، بہت صاف ستھری عورت تھی، بال چھوٹے تھے ،ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں،مگر ایسا نہیں تھا، آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں، چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور نا تجربہ کار ہے ، سینڈو نے اس سے تعارف کراتے ہوئے کہا زینت بیگم بابو گوپی ناتھ پیار سے زینو کہتے ہیں، ایک بڑی خرانٹ نائکہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا کہ اور ایک رات لے اڑے ، مقدمے بازی ہوئی تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی، آخر بابو گوپی ناتھ نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے۔۔۔۔۔دھڑن تختہ۔
اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی، آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی، بابو گوپی ناتھ نے اس کی طرف اشارہ کیا، اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔
سینڈو نے اس عورت کی ران پر ہاتھ دے مارا اور کہا جناب یہ ہے ، ٹین پٹونی فل فل فونی، مسز عبد الرحیم سینڈو عرف سردار بیگم۔۔۔۔۔آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں، سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا تھا، دو برسوں ہی میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا، میں لاہور چھوڑ کر بھاگا، بابو گوپی ناتھ نے اسے یہاں بلوا لیا ہے ، تاکہ میرا دل لگا رہے ، اس کو بھی ایک ڈبہ کریون اے کا راشن ملتا ہے ، ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مورفیا کا انجکشن لیتی ہے ، رنگ کالا ہے ، مگر ویسے بڑی ٹیٹ فور ٹیٹ قسم کی عورت ہے۔
سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا، بکواس نہ کر، اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔
سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسب عادت میری تعریف کے پل باندھنے شروع کر دئیے ، میں نے کہا چھوڑو یار، آؤ کچھ باتیں کریں۔
سینڈو چلایا بوائے وسکی اینڈ سوڈا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابو گوپی ناتھ لگاؤ ایک سبزے کو۔ نوٹ سینڈو کے حوالے کر دیا، سینڈو نوٹ لے کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑا کھڑا کر کہا اور گوڈ۔۔۔او میرے رب العالمین۔۔۔۔وہ دن کب آئے گا جب میں بھئ لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا۔۔۔۔جاؤ بھی غلام علی وہ دو بوتلیں جانی وا کر سٹل گوتنگ سٹرانگ کی لئے آؤ۔
بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کیں، یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا، اس دوران میں سے زیادہ باتیں حسب معمول عبدالرحیم نے کیں، پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کر کے وہ چلایا، دھڑن تختہ منٹو صاحب وسکی ہو تو ایسی حلق سے اتر کر پیٹ میں انقلاب زندہ باد لکھتی چلی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابو گوپی ناتھ جیو۔
بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا، کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں ملا دیتا تھا، میں نے سوچا اس شخص کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے ، دوسرا جو کہے مان لیتا ہے ، ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا، سینڈو کا اس سے دراصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی، یوں بھی مجھے دوران گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں گزرتا تھا، یہ چیزیں میں خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا، جیسے وہ کچھ سوچ رہا ہے ، میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہو آپ۔
وہ چونک پڑا۔جی میں۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں، یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی، ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔اور ہمیں کیا سوچ ہو گی۔
سینڈو نہ کہا بڑے خانہ خراب ہیں یہ منٹو صاحب ، بڑے خانہ خراب ہیں۔۔۔۔۔۔۔لاہور کی کوئی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو گوپی ناتھ کی کنٹی نیو ٹی نہ رہ چکی ہو، بابو گوپی ناتھ نے یہ سن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا اب کمرے میں وہ دم ہے نہیں منٹو صاحب۔
اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہوئی، لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے ، کون ڈیرہ دار تھی؟ کون نئی تھی، کون کس کی نوچی تھی؟ نتھنی اتارنے کا گوپی ناتھ جی نے کیا دیا تھا، وغیرہ وغیرہ، یہ گفتگو سردار،سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں ، مطلب تو میں سمجھتا رہا بعض اصطلاحیں سمجھ میں نہ آئے۔
زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی، کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی کے سگریٹ بھی پیتی تھی، تو معلوم ہوتا تھا، اس تمباکو اور اس کے دھوئیں سے کوئی رغبت نہیں لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پی، بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی، اس کا پتہ مجھے کسی بات سے پتہ نہ چلا، اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اسکا کافی خیال تھا، کیونکہ زینت کی آسائش کیلئے ہر سامان مہیا تھا، لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا، میرا مطلب ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے سے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔
آٹھ بجے کے قریب سردار، ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئ کیونکہ اسے مورفیا کا انجکشن لینا تھا، غفار سائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اٹھا کر قالین پر سوگیا، غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کیلئے بھیج دیا گیا تھا، سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لئے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہ ہی عاشقانہ نگاہ ڈالی اور کہا، منٹو صاحب میری زینت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔
میں نے سوچا کیو کہوں، زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی، میں نے اسے ہی کہہ دیا، بڑا نیک خیال ہے۔
بابو گوپی ناتھ خوش ہو گیا، منٹو صاحب ہے بھی بڑی نیک لوگ، خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی چیز کا، میں نے کئی بار کہا، جان من مکان بنوا دوں؟ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو۔۔۔۔۔۔؟ کیا کروں گی مکان لے کر، میرا کون ہے۔۔۔۔۔۔منٹو صاحب موٹر کتنے میں آ جائے گی۔
میں کہا مجھے معلوم نہیں۔
بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا کیا بات کرتے ہو منٹو صاحب۔۔۔۔۔۔۔آپ کو اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو، کل چلئیے گا میرے ساتھ، زینو کیلئے ایک موٹر لیں گے ، میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئے میں موٹر ہونی چاہئیے۔
زینت کا چہرہ رد عمل سے خالی تھا۔
بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیر کے بعد بہت تیز ہو گیا، ہمہ تن جذبات ہو کر اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب آپ بڑے لائق آدمی ہیں، میں تو بالکل گدھا ہوں، لیکن آپ مجھے بتائیے ، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں، کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکر کیا ، میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا مجھے لے چل منٹو صاحب کے پاس، مجھ سے کوئی گستاخی ہو تو معاف کر دیجئے گا۔۔۔۔۔بہت گناہ گار آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ وسکی منگواؤں کیا آپ کے لئے اور۔
میں نے کہا نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔بہت پی چکے ہیں۔
وہ اور زیادہ جذباتی ہو گیا، اور پیجئیے منٹو صاحب یہ کہہ کر جیب سے سوسو کے نوٹوں کا پلندہ نکالا اور ایک نوٹ جدا کرنے لگا لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لئے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دئیے ، سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا اس کا کیا ہوا؟
مجھے دراصل کچھ ہمدردی سی ہو گئی تھی،بابو گوپی ناتھ سے ، کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے ،میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے ، لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکرا کر کہنے لگا، منٹو صاحب اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا ہے وھ یا تو غلام علی کی جیب سے گر پڑے یا۔۔۔۔
بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ کسی حرامزادے نے اس کی جیب میں سے ساری روپے نکال لئیے ، بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا، پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکالا اور غلام علی کو دے کر کہا جلدی کھانا۔۔۔۔لے آؤ۔
انچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ پوری طرح خیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا، لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔
پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ خیال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے غلط ثابت ہوا، اس کو اس کا پوا حساس تھا کہ سینڈو، غلام علی اور سردار وغیرہ جو اس کے مصاحب بنے ہوئے تھے مطلبی انسان ہیں، وہ ان جھڑکیاں گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصے کا اظہار نہیں کیا،اس نے مجھ سے کہا، منٹو صاحب میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا، جب بھی مجھے کوئی رائے دیتا ہے ، میں کہتا ہوں، سبحان اللہ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں لیکن میں انہیں عقلمند سمجھتا ہوں، اس لئے کہ ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی کہ جو مجھ سے ایسی بے وقوفی کو شناخت کر لیا، جن سے ان کا الو سیدھا ہو سکتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں، مجھے ان سے کچھ محبت سی ہو گئی ہے ، میں ان کے بغیر نہیں رہا سکتا ، میں نے سوچ رکھا ہے جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی، تو کسی تکئیے میں جا بیٹھوں گا، رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار، بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کوسکون ملتا ہے ، رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا، اس لئے جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں، کسی ایک کے مزار پر چلا جاؤں گا۔
میں نے اس سے پوچھا، رنڈی کے کوٹھے اور تکئے آپ کو کیوں پسند ہیں، کچھ دیر بعد سوچ کر اس نے جواب دیا اس لئے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینے چاہے ، اس کے لئے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔
میں نے ایک اور سوال کیا آپ کو طوائفوں کا گانا سننے کا شوق ہے کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔
اس نے جواب دیا بالکل نہیں اور یہ اچھا ہے کیونکہ میں کن سری سے کن سری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سر ہلا سکتا ہوں۔۔۔۔۔منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن جیب میں سے دس یا سو کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے ، نوٹ نکالا اور اس کو دکھایا، وہ اسے لینے کیلئے ایک ادا سے اٹھی، پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا، اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہو گئے ، ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں ورنہ کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کرواتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔
بابو گوپی ناتھ کا شجرہ نسب تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا معلوم ہوا کہ کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنیے کا بیٹا ہے باپ کے مرنے کے بعد اسے دس لاکھ کی جائداد ملی جو اس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کر دی، بمبئے آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزار ساتھ لایا تھا، اس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں، لیکن پھر بھی ہر روز تقریباً سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے تھے۔
زینوں کیلئے اس نے فیسٹ موٹر خریدی، یاد نہیں رہا، لیکن شاید تین ہزار روپے میں آئی تھی،ایک ڈرائیور رکھا لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا، بابو گوپی ناتھ کو کچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔
ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا، بابو گوپی ناتھ سے مجھے صرف دلچسپی تھی لیکن اسے مجھ سے کچھ یوں عقیدت ہو گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔
ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا تو مجھے وہاں شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی، محمد شفیق طوسی کہوں تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی سے ہے ، یوں تو شفیق کافی مشہور آدمی تھے ، کچھ اپنی جدت طراز گائیکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبعیت کی بدولت، لیکن اس کی زندگی کا ایک حصہ اکثریت سے پوشیدہ ہے ، بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اسکا تعلق ان کی ماں سے بھی تھا، یہ بھی تھا، یہ بھی بہت کم مشہور ہے کہ اس کو اپنی پہلی بیوی اس لئے پسند نہ تھی کہ اس میں طوائفوں والے غمزے اور عشوے نہیں تھے ،لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہے جانتا ہے کہ چالیس برس یہ اس زمانے کی عمر ہے کی عمر میں سیکنٹروں طوائفوں نے اسے رکھا، اچھے سے اچھا کپڑا پہنا، عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا۔
نفیس سے نفیس موٹر رکھی مگر اس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔
عورتوں کیلئے خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہوں، اس کے بذلہ سبخ طبعیت میں جس میں میراثنوں کے مزاج کی جھلک تھی، بہت جاذب نظر تھی، وہ کوشش کئے بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔
میں نے جب اسے ہنس ہنس کر زینت سے باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اس لئے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے ، میں نے صرف اتنا سوچا کہ وہ دفعتہً یہاں پہنچا کیسے ، سینڈو اسے جانتا تھا، مگر ان کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اسے ساتھ لایا تھا، ان دونوں میں صلح صفائی ہو گئی تھی۔
بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقہ پی رہا تھا، میں نے شاید اس سے پہلے ذکر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا، محمد شفیق طوسی میراثنوں کے لطیفے سنا رہا تھا، جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی، شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا بسم اللہ بسم اللہ کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہوتا ہے۔
سینڈو نے کہا تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں دھڑن تختہ۔
میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔
تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی، میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کر کچھ اور بھی کہہ رہی ہیں زینت اس فن میں بالکل کوری تھی، لیکن شفیق کی مہارت زینت کی خامیوں کو چھپاتی رہی، سردار دونوں کی ناگاہ بازی کو کچھ اس انداز سے دیکھ رہی تھی جسیے خلیفے اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر اپنے پھٹوں کے داؤں پیچ کو دیکھتے ہیں۔
اس دوران میں میں بھی زینت سے کافی بے حد تکلف ہو گیا تھا، وہ مجھے بھائی کہتے تھی، جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا، اچھی ملنسار طبعیت کی عورت تھی، کم گو، سادھ لوح، صاف ستھری۔
شفیق سے مجھے اس کی ناگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی، اول تو اس میں بھونڈا پن تھا اس کے علاوہ۔۔۔۔کچھ یوں کہئیے کہ اس بات کا بھی اس میں دخل تھا کہ وہ میرے بھائی کہتی تھی، شفیق اور سینڈو اٹھ کر باہر چلے گئے تو میں نے شاید بڑی بے رحمی کے ساتھ اس سے نگاہ بازی کے متعلق استفار کیا کیونکہ فورا اس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آ گئے اور روتی روتی دوسرے کمرے میں چلی گئی، بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا، اٹھ کر تیزی سے اسکے پیچھے چلا گیا سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کہا لیکن مطلب نہ سمجھا، تھوڑی دیر کے بعد بابو گوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور آئیے منٹو صاحب کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔
زینت پلنگ پر بیٹھی تھی، میں اندر داخل ہوا تو دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی، میں اور بابو گوپی ناتھ دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے ، بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا منٹو صاحب مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے ، دو برس سے یہ میرے ساتھ ہے میں حضرت غوث اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا، اس کی دوسری بہنیں، میرا مطلب ہے اس پیشے کی دوسری عورتیں دونوں ہاتھوں سے مجھے لوٹ کھاتی رہی مگر اس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا میں اگر کسی دوسری عورت کے پاس ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کر گزارہ کیا، میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں بہت جلد اس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں، میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے ، میں نہیں چاہتا اس کی زندگی خراب ہو میں نے لاہور میں اس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھوں جو کچھ وہ کرتی ہیں سیکھو، میں آج دولت مند ہوں کل مجھے بھکاری ہونا ہے ، تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک امیر کافی نہیں ہے ، میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا، لیکن منٹو صاحب اس نے میری ایک نہ سنی، سارادن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی ہے ، میں نے غفار سائیں سے مشورہ کیا ، اس نے کہا بمبئی لے جاؤ اسے معلوم تھا اس نے ایسا کیوں کہا بمبئی میں اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکڑیس بنی ہوئی ہیں لیکن میں نے سوچا بمبئی ٹھیک ہے دو پمینے ہو گئے ہیں اسے یہاں لائے ہوئے ، سردار کو لاہور سے بلایا ہے کہ اس کو سب گر سکھائے ، غفار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا ، اس کو یہ خیال تھا کہ بابو گوپی ناتھ کی بے عزتی ہو گی، میں نے کہا تم چھوڑ اس کو بمبئی بہت بڑا شہر ہے لاکھوں رئیس ہیں۔
میں نے تمہیں موٹر لے دی ہے کوئی اچھا آدمی تلاش کر اور۔۔۔۔۔۔۔منٹو صاحب میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہو میری دلی خواہش ہے کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے ، اچھی طرح ہوشیار ہو جائے ، میں اس کے نام آج ہی بنک میں دس ہزار روپے جمع کرانے کو تیار ہو، مگر مجھے معلوم ہے دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہوئی سردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی۔۔۔۔۔آپ بھی اسے سمجھائیے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے جب سے موٹر خریدی ہے ، سردار اسے ہر روز شام کو اپو لو بندر لے جاتے ہیں ابھی بھی کامیابی نہیں ہوئی ہے ، سینڈو آج بڑی مشکل سے محد شفیق کو یہاں لایا ہے ، آپ کا کیا خیال ہے اس کے متعلق۔
میں نے اپنا خیال ظاہر نہیں کیا،لیکن بابو گوپی ناتھ نے خود ہی کہا اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔۔۔۔۔کیوں زینو جانی۔۔۔۔۔پسند ہے تمہیں؟
زینو خاموش رہی۔
بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو میرا دماغ چکرا گیا، مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دور کر دی، بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مالدار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ لے ، جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کر تے رہنے میں کامیاب ہو سکے۔
زینت سے صرف چھٹکارا ہی حاصل کرنا ہو تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی، بابو گوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کر سکتا تھا چونکہ اس کی نیت صاف تھی اس لئے اس نے زینت کے مستقبل کیلئے ہر ممکن کوشش کی، اس کو ایکٹریس بنانے کیلئے اس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں، گھر میں ٹیلیفون لگوا دیا اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔
محمد شفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ ماہ آتا رہا کئی راتیں بھی اس نے زینت کے ساتھ بستر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہ تھا جو کسی عورت کا سہارا بن سکے ، بابو گوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا شفیق صاحب تو خالی خولی جنٹل مین ہی نکلے۔
ھسہ دیکھئیے ،لیکن بے چاری زینت سے چار چادریں چھ تکئیے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتیا کر لے گئے ، سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں۔
یہ درست ہے الماس نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی، اس سے پہلے تین بہنیں شفیق کی داشتہ رہ چکی ہیں، دو سو روپے جو اس نے زینت سے لئے تھے مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے ، بہنوں کے ساتھ لڑ جھگڑ کر الماس نے زہر کھا لیا تھا۔
محمد شفیق نے جب آنا جانا بند کر دیا تو زینت نے مجھے کئی ٹیلی فون کئے اور کہا اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے ، میں نے اسے تلاش کیا لیکن کسی کو اس کا پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے ، ایک روز اتفاقیہ ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی، میں نے اس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا، مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے افسوس ہے آج کل مجھے بالکل فرصت نہیں ہے ، زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے۔۔۔۔۔ایسی عورتوں سے جو بیویوں جسی لگیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔
شفیق سے جب مایوسی ہوئی تو زینت نے سردار کے ساتھ پھر اپولو بندر جانا شروع کیا، پندرہ دنوں میں بڑی مشکلوں سے کئی گیلن پیٹرول پھونکنے کے بعد سردار نے دو آدمی پھانسے ، ان سے زینت کو چار سو روپے ملے ، بابو گوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں، کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا زینت سے کہا تھا میں تم سے شادی کروں گا، ایک مہینہ گزر گیا لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔
ایک روز میں جانے کس کام سے ہار بنی روڈ پر جا رہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر نظر آئی پچھلی نشست پر یاسین بیٹھا تھا، نگینہ ہوٹل کا مالک، میں نے اس سے پوچھا، یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟
یاسین مسکرایا تم جانتے ہو موٹر والی کو۔
میں نے کہا جانتا ہوں۔
تو بس سمجھ لو میری پاس کیسے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھی لڑکی ہے یار۔
یاسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرایا۔
اس کے عین چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا اس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یاسین کی ملاقات کیسے ہوئی، ایک شام اپولو بندر سے ایک آدمی لے کر سردار اور زینت نگینہ ہوٹل میں گئیں، وہ آدمی کسی بات پر جھگڑا کر کے چلا گیا، لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہو گی۔
بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران میں یاسین نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑیاں لے دی تھیں، بابو گوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کہ کچھ دن اور گزر جائیں زینت اور یاسین کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے۔۔۔۔۔مگر ایسا نہ ہوا۔
نگینہ ہوٹل میں ایک کرسچن عورت نے کمرہ کرائے پر لیا، اس کی جوان لڑکی میوریل سے یاسین کی آنکھ لڑ گئی، چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یاسین اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا رہتا، بابو گوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر بہت دکھ ہوا،اس نے مجھ سے کہا منٹو صاحب یہ کیسے لوگ ہیں، بھئی دل اچاٹ ہو گیا ہے تو صاف کہہ دو، لیکن زینت بھی عجیب ہے ، اچھی طرح معلوم ہے کیا ہو رہا ہے ، مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی میاں اگر تم اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کا بندوبست کرو، میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو۔۔۔۔میں کیا کروں منٹو صاحب شریف اور نیک بخت عورت ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے ، تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہئیے۔
یاسین سے تعلق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔
بہت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی، ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا بابو گوپی ناتھ غلام علی اور سائیں غفار کے ساتھ لاہور چلا گیا ہے ، روپے کا بندوبست کرنے کیونکہ پچاس ہزار ختم ہو چکے ہیں، جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اگر لاہور میں زیادہ دن لگیں گے کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔
سردار کو موفیا کے ٹیکو کی ضرورت تھی، سینڈو کو پولس مکھن کی، چنانچہ دونوں نے متحدہ کوشش کی اور روز دو تین آدمی پھانس کر لے آتے ، زینت سے کہا گیا، کہ بابو گوپی ناتھ واپس نہیں آتے اس لئے اپنی فکر کرنی چاہیے ، سو سوا سو روپے روز کے ہو جاتے ہیں جس میں سے آدھے زینت کو ملتے ہیں باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے ہیں۔
میں نے ایک دن زینت سے کہا یہ تم کیا کر رہی ہو۔
اس نے بڑے الہڑ پن سے کہا مجھے معلوم نہیں بھائی جان، یہ لوگ جو کچھ کرنے کیلئے کہتے ہیں مان لیتی ہوں۔
جی چاہتا تھا کہ دیر تک پاس بیٹھ کر سمجھاؤں کہ جو کچھ تم کر رہی ہو ٹھیک نہیں ہے۔
سینڈو اور سردار پنا الو سیدھا کرنے کیلئے تمہیں بیچ بھی ڈال لیں گے ، مگر میں نے کچھ نہ کہا، زینت اکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور جان عورت تھی، اس کم بخت کو اپنی زندگی کی کچھ قدر و قیمت معلوم نہیں تھی، جسم بیچتی مگر اس میں بیچنے والوں کا کوئی انداز تو ہوتا، واللہ مجھے بہت کوفت ہوئی اسے دیکھ کر، سگریٹ سے ، شراب سے کھانے سے ، گھر میں ٹیلیفون سے ، حتی کہ اس صوفے سے بھی جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی، اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
بابو گوپی ناتھ پورے ایک مہینے بعد لوٹا، تاہم گیا تو وہاں فلیٹ میں کوئی اور ہی تھا، سینڈو اور سردار کے مشورے سے زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصہ کرائے پر لے لیا تھا، بابو گوپی ناتھ میرے پاس آئے تو میں نے پورا پتہ بتا دیا، اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا، جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے کہہ دیا لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اس سے پیشہ کرا رہے ہیں۔
بابو گوپی ناتھ اب کی دس ہزار اپنے ساتھ لایا تھا،جو اس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا، غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور میں چھوڑ آیا تھا، ٹیکسی نیچے کھڑی ہے بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا کہ میں ابھی اس کے ساتھ چلو۔
قریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے ، پالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا، بابو گوپی ناتھ نے زور سے پکارا سینڈو۔
سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اس قدر نکلا دھڑن تختہ۔
بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو لیکن سینڈو نے کہا ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجئیے ، مجھے آپ سے کچھ پرائیوٹ باتیں کرنی ہیں۔
ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی، بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا، دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں، جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا، ڈرائیور سے اس نے کہا واپس چلو، بابو گوپی ناتھ خوش تھا، ہم داور کے پاس پہنچے تو اس نے کہا منٹو صاحب زینو کی شادی ہونے والی ہے ، میں نے حیرت سے کہا کس سے ؟
بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا حیدرآباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے ، خدا کرے دونوں خوش رہیں، یہ بھی اچھا ہے جو میں عین وقت پر آ ن پہنچا، جو روپے میرے پاس ہیں ان سے زینو کا جہز بن جائے گا۔۔۔۔۔۔کیوں کیا خیال ہے آپ کا۔
میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہیں تھا، میں سوچ رہا تھا، کہ یہ حیدرآباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے ؟ ہے سینڈو اور سردار کی کوئی جعل سازی تو نہیں لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حقیقتاً حیدرآباد کا متمول زمیندار تھا، جو حیدر آباد سندھی ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا، یہ میوزک ٹیچر زینت کا گانا سکھانے کی بے سود کوشش کیا کرتا تھا، ایک روز یہ اپنے مربی غلام حسین یہ حیدر آباد سندھ کے رئیس کا نام تھا، کو ساتھ لے کر آیا، زینت نے خوب خاطرمدارات کی غلام حسین کی پر زور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بننے
گا کر سنائی، غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا، اس کو ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا، سردار اور سینڈو نے مل کر معاملہ پکا کر دیا اور شادی طے ہو گئی۔
بابو گوپی ناتھ خوش تھا ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا، غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دوگنی ہو گئی، مجھ اس نے مجھ سے کہا منٹو صاحب خوبصورت جوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔۔۔۔میں نے یہاں آتے ہی۔۔۔۔۔۔۔داتا گنج بخش کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔۔۔۔۔۔بھگوان کرے دنوں خوش رہیں۔
بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا، دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے دئیے اور پانچ ہزار نقد دئیے۔
محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر اور بابو گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے ، دولہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھا۔
ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا دھڑن تختہ۔
غلام حسین سرج کا نیلا سوٹ پہنے تھا، سب نے اس کو مبارک باد دی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کی، کافی وجیہہ آدمی تھا، بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔
شادی کی دعوتوں پر خوردو نوش کا جو سامان بھی تھا، بابو گوپی ناتھ نے مہیا کیا تھا، دعوت سے جب لوگ فارغ ہوئے تو بابو گوپی ناتھ نے سب کے ہاتھ دھلوائے ، میں جب ہاتھ دھونے گیا تو اس نے مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچوں کے سے انداز میں کہا، منٹو صاحب ذرا اندر جائیے اور دیکھئے زینو دولہن کے لباس میں کیس لگتی ہے۔
میں پردھ ہٹا کر اندر داخل ہوا، زینت سرخ زر بفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔۔۔۔۔دوپٹہ بھی اس رنگ کا تھا، جس پر گوٹ لگی تھی، چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا، حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بری معلوم ہوتی تھی، مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے ، اس نے شرما کر مجھے آداب کیا تو بہت پیاری لگی، لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں ایک مسہری دیکھی جس پر پھول پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی، میں زینت سے کہا یہ کیا مسخرہ پن ہے۔
زینت نے میری طرف بالکل کبوتری کی طرح دیکھا ، آپ مذاق کرتے ہیں بھائی جان،اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔
مجھے اس غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا، بڑے پیار سے اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا منٹو صاحب میں سمجھتا تھا آپ بڑے سمجھ دار اور لائق آدمی ہیں۔۔۔۔۔ زینو کا مذاق اڑانے سے پہلے آپ نے کچھ سوچ لیا ہوتا۔
بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی لیکن پیشتر اس کہ کہ میں اس سے معافی مانگوں، اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہ، خدا تمہیں خوش رکھے۔
یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا ان میں ملامت تھی۔۔۔۔۔ بہت ہی دکھ بھری ملامت۔۔۔۔۔۔اور چلا گیا۔
ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔۔۔۔۔۔چار برسوں میں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کیلئے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا، حد نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں، ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ، اور جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں۔
ترلوچن کیلئے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی،۔۔۔رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا، اور قدرست تھی کہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم، قریب قریب تین بجے تھے ، ہوا بے حد ہلکی ہلکی تھی، ترلوچن پنکھے کی میکانی ہوا کا عادی ہو چکا تھا، جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کر دیتی تھی، صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا، کہ رات بھر اس اس کو مارا پیٹا گیا ہے ، پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، تر و تازگی چوس کر خوش ہو رہا تھا، جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا، لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کر رہا تھا، کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کور اور کا سارا خاندان۔۔۔۔۔محلے میں تھا، جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا، یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی، کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں، ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا، مگر مصیبت یہ تھی، کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔۔۔۔غالباً اڑتالیس گھنٹوں کا۔۔۔۔۔ اور ترلوچن لازما مغلوب تھا، آس پاس سب مسلمان تھے ، بڑے خوفناک مسلمان تھے ، اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں، کوئی بھی ہاتھ۔۔۔مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جا سکتا تھا۔
کرپال کی ماں اندھی تھی، باپ مفلوج، بھائی تھا، وہ کچھ عرصے سے دیولالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لئے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی، ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرجن پر بہت غصہ آتا تھا، اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کر دیا تھا، اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا، نرنجن یہ ٹھیکے ویکے رہنے دو ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں، تمہارا اگر چہ رہنا بہت ضروری ہے ، لیکن یہاں سے اٹھ جاؤ اور میرے یہاں چلے آؤ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے ، لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا کرتا ہے ، مگر وہ نہ مانا، اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صاف اپنی گھنی موچھوں میں مسکرادیا، یار تم خواہ مخواہ فکر مند ہوتے ہو۔۔۔۔میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں، یہ امرتسر یا لاہور نہیں ہے ، بمبے ہے۔۔۔۔۔بمبے تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں، اور میں بارہ برس سے یہاں ہوں۔۔۔۔۔بارہ برس سے۔
جانے نرجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا، اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے ، اگر فساد برپا بھی ہو تو ان کا اثر خود بخود زائل ہوتا ہے ، جیسے کہ اس کے پاس چھو منتر ہے۔۔۔۔۔۔یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے ، جس پر کوئی آفت نہیں آ سکتی ہے مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔محلہ بالکل محفوظ نہیں، وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کیلئے تیار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں بار قتل ہو چکے ہیں۔اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی، وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھا تھا، کہ ترلوچن کیلئے میدان صاف ہو جاتا، خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں، بہت بڑا گھنگھرا تھا چنانچہ جب کبھی کرپال کورسے اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔
صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔۔۔۔ ترلوچن کا کیسوں سے بے نیاز سر بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا مگر اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی، وہ یوں تو ہے کئے کھنگھر سنگھ کی بہن تھی، مگر بہت ہی نرم، نازک لچکیلی تھی، اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی، وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھیں تھیں، مگر اس میں وہ سختی، وہ گھٹاؤ، وہ مردانہ پن، نہیں تھا، جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے ، جنہیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔
اس کے نقش پتلے پتلے تھے ، جیسے ابھی نامکمل ہیں، چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی، عام سکھ لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح اور بدن چکنا تھا، جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے ، بے حد شرمیلی تھی۔
ترلوچن اسی کے گاؤں کا تھا، مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا، پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو گیا، اسکول سے فارغ ہو کر کالج کی تعلیم شروع ہو گئی، اس دوران میں کئی مرتبہ لاتعداد مرتبہ اپنے گاؤں گیا، مگر اس نے کرپال کور کے ناک کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا شاید اس لئے کہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔
کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا، اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پر تھا، برما، سنگا پور، ہانگ کانگ۔۔۔۔پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی، جو بری نہیں تھی۔۔۔۔خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہادئیے ، روشن تھے ، اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔
کر پال کور کا سوچتے سوچتے ، وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا، اس یہودی لڑکی کے بارے جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی، اس سے ترلوچن کو گوڈے گوڈے عشق ہو گیا تھا، ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔
جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا اسی دن اس کی مڈ بھیڑ موذیل سے ہوئی۔ گو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک دیوانی معلوم ہوئی، کٹے ہوئے بھورے بال، اس کے پریشان تھے ، بے حد پریشان، ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چیختی ہوئی تھی، ڈھیلا ڈھالا لمبا سفید چغہ پہنے تھی، جس کے کھلے گریباں سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں چوتھائی کے قریب نظر آ رہی تھی، بانہیں جو کہ ننگی تھیں، مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں، جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کر آئی ہے ، اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی، کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا بیچ میں ایک تنگ گلی تھی، بہت ہی تنگ، جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا تو موذیل باہر آ گئی، کھڑاؤں پہنے تھی، ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا، موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔۔۔۔۔۔ترلوچن بوکھلا گیا، جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا، موذیل کی ایک کھڑاؤں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آ رہی۔
جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اس کے اوپر تھی، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی، بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر تھیں، اور جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل۔۔۔۔۔ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔جب ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی، موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرادی یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے ، اور وہ اتری ہوئی کھڑاؤں میں اپنا انگوٹھا اور اس کے ساتھ والی انگلی پھنساتی کوریڈور سے باہر چلی گئی۔
تر لو چن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی، لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی، وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی، اس سے کھاتی تھی، اس سے پیتی تھی، اس کے ساتھ سینما جاتی تھی، سارا سارا دن اس کے ساتھ جو ہو پر نہاتی تھی، لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے آگے بڑھنا چاہتا تو اسے ڈانٹ دیتی، کچھ اس طور پر سے گھر کتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تھی، لاہور میں، برما، سنگاپور میں وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لئے خرید چکا تھا، اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الہڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس جائے گا، وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی، اس کے کہنے پر فورا سج بن کر سینماجانے پر تیار ہو جاتی تھی، مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کر دیتی، کوئی اس کا آشنا نکل آئے تو اس سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لئے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔
ہوٹل میں بیٹھے ہیں ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کیلئے پر تکلف کھانے منگوائے ہیں، مگر اس کو کوئی اپنا دوست نظر آ گیا اور وہ نوالہ چھوڑ کر پاس جا بیٹھتی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔
ترلوچن بعض اوقات بھنا جاتا تھا، کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ چلی جاتی تھی، اور کئ کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی، کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی، جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہو سکتا۔جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس سے کہتی ہے ، تم سکھ ہو۔۔۔۔۔یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔
ترلوچن بھن جاتا اور پوچھتا کون سی نازک باتیں۔۔۔تمہارے پرانے یاروں کی؟
موذیل دونوں ہاتھ جوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کر دیتی اور کہتی یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے رہتے ہو۔۔۔۔۔ہاں وہ میرے یار ہیں۔۔۔۔اور مجھے اچھے لگتے ہیں، تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔
ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا ہے اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی۔
موذیل زور کا قہقہہ لگاتی ہے ، تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ایڈیٹ تم سے کس نے کہا کہ میرے ساتھ نبھاؤ۔۔۔۔۔اگر نبھانے کی بات ہے تو جاؤ اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔۔۔۔میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔
ترلوچن نرم ہو جاتا، دراصل موذیل اس کی زبردست کمزور ی بن گئی تھی، وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی، معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبور ہو کر یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔
عام طور پر توہین اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے ، مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا، اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سے آنکھیں میچ لی تھی، اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی، اس کو موذیل پسند تھی۔۔۔۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا گوڈے گوڈے اس کے عشق میں دھنس گیا تھا، اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے وہ بھی اس عشق کے دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔
دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا، لیکن ثابت قدم رہا، آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی، اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر پوچھا موذیل کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔موذیل اس کے بازوؤں سے جدا ہو گئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں چھپکا کر کہا، میں سکھ سے محبت نہیں کر سکتی۔
ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔۔موذیل تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔۔۔۔یہ میرا مذاق نہیں، میری محبت کا مذاق ہے۔
موذیل اٹھی اور اس نے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دل فریب جھٹکا دیا، تم شیو کرا لو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔۔۔تو میں شرط لگا سکتی ہو ں کہ کئ لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔۔۔۔تم خوبصورت ہو۔
ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں، اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کر دئیے۔
موذیل نے ایک دم پھوں پھوں کی اوراس کی گرفت سے علیحدہ ہو گئی، میں صبح اپنے دانتوں کو برش کر چکی ہوں، تم تکلیف نہ کرو۔
ترلوچن چلایا، موذیل۔
موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آ گئی تھیں، خدا قسم۔۔۔تم اپنی داڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلو اسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کر سکتے ہیں،۔۔۔۔بس تھوڑا سا پیٹرول لگانے کی ضرورت ہو گی۔
ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا، جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا، آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا، موذیل بھی آ گئی اور اس نے ترلوچن کی داڑھی کھولنی شروع کر دی۔۔۔۔اس میں جو پنیں لگی تھیں وہ اس نے ایک ایک کر کے اپنے دانتوں تلے دبا لیں۔
ترلوچن خوبصورت تھا، جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کھلے گیسؤوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے ، کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لئے تھے ، اس کو اس کا احساس تھا، مگر وہ ایک اطاعت شعار بردار لڑکا تھا، اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا، وہ نہیں چاہتا تھا، کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کر دے ، جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔
جب داڑھی پوری کھل گئی اور اسکے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا ، یہ تم کیا کر رہی ہو؟
دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی،تمہارے بال بہت ملائم ہیں۔۔۔۔۔میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو اسکرٹ صاف ہو جائے گا تر لوچ تم یہ مجھے دے دو میں انہیں گوندھ کر اپنے لئے ایک فسٹ کلاس بٹوا بناؤں گئی۔
اب تو ترلوچن کی داڑھی میں چنگاریاں پھڑکنے لگیں، وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا، میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق اڑایا ہے تم کیوں اڑاتی ہو۔۔۔دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا مگر صرف اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔
موذیل نے ترلوچن کی داڑھی سے کھیلنا بند کر دیا، معلوم ہے۔
پھر ترلوچن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہہ کئے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں، تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔۔۔میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے معلوم ہے ، بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی، میں بھی قریب یہی فیصلہ کر چکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔
ترلوچن اچھل پڑا سچ؟
موذیل کے عنابی ہونٹ موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مخبوط دانت ایک لحظے کیلئے چمکے۔ہاں۔
ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔
تو تو کب؟
موذیل الگ ہٹ گئی ، جب۔۔۔۔۔تم اپنے بال کٹوا دو گے جب۔
ترلوچن اس وقت جو ہو سو ہو تھا، اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا میں کل ہی کٹوا دوں گا۔
موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی، تم بکواس کرتے ہو ترلوچ۔۔۔۔۔تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔
اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا، تم دیکھ لو گی۔
اور وہ تیزی سے آگے بڑھی ترلوچ کی مونچھوں کو چوما اور پھو پھوں کرتی باہر نکل گئی۔
ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔۔۔وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے اس لئے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوا دئیے اور داڑھی بھی منڈوا دی۔۔۔۔یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا، جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھول لیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا، جس میں بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کیلئے غور کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا، جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی، اس نے ٹیرس پر تیز تیز چلنا شروع کر دیا، جہاں ٹینکوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے مگر وہ بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کی بھیجی کہ اس کی طبعیت ناساز ہے تھوڑی دیر کیلئے آ جائے ، موذیل آئی ترلوچن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لحظے کیلئے ٹھٹکی پھر مائی ڈارلنگ ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی، اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔۔۔۔۔۔موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی اسکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کر دیا۔۔۔۔ ترلوچن شرما گیا، اس نے اسکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پراس سے کہا، نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔
موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا، باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ایسے ہی چلتا ہے۔
ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا جب وہ موذیل دونوں ٹکرا گئے اور آپس میں عجیب طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے ، مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا، شادی کل ہو گی؟
ضرور، موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔
طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو، چونکہ سول میرج تھی، اس لئے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا، عدالتی کارروائی تھی، اس لئے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے ، پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں، دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہو جاتا تھا۔
موذیل فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی، اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا، بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کیلئے کہا تھا،۔۔۔ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا، ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا، مگر وہ نہ آئی، دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے ، دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کیلئے وہیں رہے گی۔
ترلوچن پر کیا گزری؟۔۔۔ایک بڑی لمبی کہانی ہے ، قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بھول گیا۔۔۔۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہو گئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی، جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کی مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا، اس احساس سے اس کو گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد میں ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کد کڑے لگاتی غائب ہو جاتی تھی۔
وہ بے حیا تھی۔۔۔۔۔بے مروت تھی، اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا ترلوچن کو پسند تھی، اس لئے کبھی کبھی اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا، کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کر رہی ہے ،، اس آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی، یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے ، اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہو گی، حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔
وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، لیکن اپنی مرضی سے ، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی، اس کو بہت سسی قسم کی چیزیں پسند آتی تھی، ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کی ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مر مٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔
ترلوچن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے ، کس آب و گل سے بنی ہے ، وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی اور اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی، وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا، مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ نہ بڑھنے دیتی تھی، اس کو چرانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی کہ تم سکھ ہو۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے۔
ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا، کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں ہے ،اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی، برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر نہیں تھا، وہ کبھی کبھار دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی، دو ٹک فیصلہ کر دیتی، انڈروئیر اس کو ناپسند تھے اس لئے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی، ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا، اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا، مگر اس اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔
ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتی تھی، یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔۔۔اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کر لیا کرو۔۔۔۔تم مجھے یہ بتاؤ کہ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔۔۔مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔۔۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سلی انڈروئیر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتاجلتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمہارے مذہب میں شامل ہے۔۔۔۔۔شرم آنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔اتنے بڑے ہو گئے اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈروئیر میں چھپا بیٹھا ہے۔
ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نادرست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرا دیا تھا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب نہیں تھا۔
پانی کی ٹنکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا، موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کر دیا،۔۔۔کرپال کور، ایک پاکیزہ لڑکی جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی، جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین وارداتیں بھی ہو چکیں تھیں۔۔۔۔۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا، مگر اڑتالیس گھنٹے کے کرفیو کی کون پروا کرتا ہے ، اس چالی کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کا، اس کی ماں کا، اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کر سکتے تھے۔
ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا، اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے ، اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہو جائیں گے ، اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا، فورٹ میں ایک باربر تھا، وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا، کہ ترشی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔۔۔۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا۔۔۔ کہ اسے کھڑاؤں کی کرخت آواز سنائی دی، اس نے سوچا کون ہو سکتا ہے ؟۔۔بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں، جو کہ سب کھڑاؤں پہنتی تھیں۔۔۔۔۔۔آواز قریب آتی گئی، یک لخت اس نے دوسری ٹنکی کے پاس موذیل کو دیکھا۔جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔۔۔۔۔اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا کہ آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔
ترلوچن پانی کے نل پر سے اٹھا، اس نے سوچا یہ ایکا ایک کہاں سے نمودار ہو گئی۔۔۔۔اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے ؟
موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔۔۔۔۔۔۔اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔۔۔۔۔۔۔ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے ، وہ زور سے کھانسا ، موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا، اس کا رد عمل بالکل خفیف تھا، کھڑاؤں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی داڑھی دیکھنے لگی، تم پھر سکھ بن گئے تر لو چ؟
داڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔
موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا، اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بلو اسکرٹ صاف کر سکے۔۔۔مگر وہ تو وہیں دیولالی میں رہ گئی ہے۔
ترلوچ خاموش رہا۔
موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟
ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا، تاہم اس نے صبح کے ہلکے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔۔۔کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی، ایک طرح وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی، ترلوچن نے اس سے پوچھا، بیمار رہی ہو؟
نہیں موذیل نے اپنے تراشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔
پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟
میں ڈائیٹنگ کر رہی ہوں، موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑاؤں فرش کے ساتھ بجانے لگی، تم گویا کہ۔۔۔۔اب پھر۔۔۔نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔
ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا، ہاں۔
مبارک ہو موذیل نے ایک کھڑاؤں پیر سے اتار لی اور پانی کے نل پر بجانے لگی کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کر دی۔
ترلوچن نے آہستہ سے کہا، ہاں۔
مبارک ہو۔۔۔۔اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟
نہیں۔
یہ بہت بری بات ہے ، موذیل کھڑاؤں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی، ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
ترلوچن خاموش رہا، موذیل نے بڑھ کر اس کی داڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چیرا، کیا اس لڑکی نے تم کو بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔
نہیں۔
ترلوچن بڑی الجھن محسوس کر رہا تھا، کنگھا کرتے کرتے اس کی داڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں، جب اس نے نہیں کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔
موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی، وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گاؤں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کر دئیے۔
مسکرانے کے بعد وہ ہنسی، تم اب یہ داڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو، میں تم سے شادی کر لوں گی۔
ترلوچن کے جی میں آیا کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طینت کنواری لڑکی سے محبت کر رہا ہے ، اور اسی سے شادی کرے گا۔۔۔۔۔موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے ، بد صورت ہے ، بے وقوف ہے ، بے مروت ہے ، مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا، اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا، موذیل میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں، میرے گاؤں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔جو مذہب کی پابند ہے ، اسی لئے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی، لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑاؤں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا، وہ مذہب کی پابند ہے تو تمہیں کیسے قبول کرے گی کیا اسے معلوم نہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟
اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔۔۔۔۔داڑھی میں نے تمہارے دیولالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کر دی تھی۔۔۔۔۔محض انتقامی طور پر۔۔۔۔۔۔اس کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ھوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔
مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے ، ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کر دی۔
موذیل نے لمبا کرتا اٹھا کر اپنی گوری گوری دبیز ران کھجانی شرو ع کر دی، یہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔مگر یہ کمبخت مچھر یہاں بھی موجود ہیں۔۔۔۔دیکھا کس زور سے کاٹا ہے۔
ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا، موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گئی، کب ہو رہی ہے تمہاری شادی؟
ابھی کچھ نہیں یہ کہہ کر تر لو چن سخت متفکر ہو گیا۔
چند لمحات کی خاموشی رہی، اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکر کا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا،ترلوچن۔۔۔۔تم کیا سوچ رہے ہو؟
ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی، خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنادیا، موذیل ہنسی، تم اول نمبر کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔جاؤ اس کو لے آؤ، ایسی کیا مشکل ہے۔
مشکل۔۔۔۔موذیل تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔۔۔۔کسی بھی معاملے کی نزاکت۔۔۔۔۔۔تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ تمہارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے ،جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔
موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں پانی کے نل کے ساتھ ماری، افسوس ایڈیٹ۔۔۔تم سے سوچو کہ تمہاری اس۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔اس حملے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔۔۔تم بیٹھ گئے ہو تعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔تمہارے میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے۔۔۔۔۔تم ایک سلی قسم کے آدمی ہو۔۔۔۔اور بہت ڈرپوک، مجھے نڈر مرد چاہئیے۔۔۔۔۔لیکن چھوڑ ان باتوں کو۔۔۔۔۔چلو آؤ تمہاری اس کور کو لے آئیں۔
اس نے ترلوچن کا بازو پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا کہاں سے ؟
وہیں سے جہاں وہ ہے۔۔۔۔۔میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں، چلو آؤ میرے ساتھ۔
سنو تو۔۔۔کر فیو ہے۔
موذیل کیلئے نہیں۔۔۔۔چلو آؤ۔
وہ ترلوچن کو بازوسے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی ہے جو نیچے سیڑھیوں کی طرف کھلتا تھا،دروازہ کھول کر وہ اتر نے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی داڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔
ترلوچن نے پوچھا کیا بات ہے ؟
موذیل نے کہا یہ تمہاری داڑھی۔۔۔۔۔لیکن خیر ٹھیک ہے ، اتنی بڑی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ننگے سر چلو تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھ ہو۔
موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا،کیوں؟
ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی، تم سمجھتی نہیں ہو، میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں ہے۔
کیوں ٹھیک نہیں ہے۔
تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں، میں اس پر یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا۔
موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں دروازے کی دہلیز پر ماری، تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔۔گدھے کہیں کے۔۔۔۔۔اس کی جان کا سوال ہے۔۔۔۔۔کیا نام ہے۔۔۔۔ تمہاری اس کور کا، جس سے تم محبت کرتے ہو۔
ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، موذیل وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔
موذیل چڑھ گئی، اوہ تمہاری محبت۔۔۔۔میں پوچھتی ہوں کیا سارے سکھ تمہاری طرح کے بیوقوف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کی جان کا خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔۔۔۔اور شاید وہ اپنا انڈروئیر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔
ترلوچن نے کہا وہ تو میں ہر وقت پہنتا ہوں۔
بہت اچھا کرتے ہو۔۔۔مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی رہتے ہیں، اور وہ بھی بڑے بڑے داد اور بڑے بڑے موالی۔۔۔تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کر دئیے جاؤ گے۔
ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا، مجھے اس کی پرواہ نہیں۔۔۔۔اگر میں تمہارے ساتھ وہاں جاؤں گا تو پگڑی پہن کر جاؤں گا۔۔۔۔میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
موذیل جھنجلا گئی، اسی زور سے اس نے پیچ و تاب کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بھڑ بھڑ گئیں، گدھے۔۔۔۔۔تمہاری محبت ہی کہاں رہے گی، جب تم نہ رہو گے۔۔۔۔تمہاری وہ۔۔۔کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔۔۔۔جب وہ بھی نہ رہے گی، اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو۔
ترلوچن بھنا گیابکواس نہ کرو۔
موذیل زور سے ہنسی، مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانہیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جھول کر کہا، ڈارلنگ چلو، جیسے تمہاری مرضی۔۔۔۔جاؤ پگڑی پہن آؤ، میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔
یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی ترلوچن نے اسے روکا تم کپڑے نہیں پہنو گی، موذیل نے اپنے سر کو جھکا کر کہا، نہیں۔۔۔۔۔چلے گا اسی طرح۔
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اتر گئی، ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھی اس کی کھڑاؤں کی چوبی آواز سنتا رہا، پھر اس نے اپنے لمبے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا، جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کئے پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی، اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کر کے نیچے اتر گیا۔باہر فٹ پاتھ پر موذیل اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کئے سگریٹ پی رہی تھی، بالکل مردانہ انداز میں جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منہ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا، ترلوچن نے غصے میں کہا تم بہت ذلیل ہو۔
موذیل مسکرائی، یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کی۔۔۔۔۔اس سے پہلے اور کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں، پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔۔۔۔۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ تمہارے کیس ہیں۔
بازار بالکل سنسان تھا۔۔۔۔ایک طرف ہوا چل رہی ہو، اور وہ بھی دھیرے دھیرے جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے ، بتیاں روشن تھیں، مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی، عام طور پر اس وقت ٹریمیں چلنی شروع ہو جاتی تھیں، اور لوگوں کی آمد و رفت بھی جاری ہو جاتی تھی، اچھی خاصی گہما گہمی ہوتی تھی، پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گزرا ہے نہ گزرے گا۔
موذیل آگے آگے تھی، فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑاؤں کھٹ کھٹ کر رہی تھیں، یہ آواز، اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا، کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑاؤں چھوڑ کر کوئی اور دوسری چیز پہن سکتی تھی، اس نے سوچا کہ موذیل سے کہے ، کھڑاؤں اتار دو اور ننگے پاؤں چلو، مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی، اس لئے خاموش رہا۔
ترلوچن سخت خوفزدہ تھا، کوئی پتا کھڑکتا تو اس کا دل دھک سے رہ جاتا تھا، مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جا رہی تھی، سگریٹ کا دھواں اڑاتی جیسے وہ بے فکری سے چہل قدمی کر رہی ہے۔
چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔اے کدھر جار ہے ہو۔
ترلوچن سہم گیا، موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئی اور بالوں کو ایک خفیف جھٹکا دیا اور کہا کہ وہ تم۔۔۔۔ہم کو پہچانا نہیں۔
موذیل۔۔۔۔۔پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا، ادھر اس باجو۔۔۔۔۔ہمارا بہن رہتا ہے ، اس کی طبیعت خراب ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر لے کر جا رہا ہے۔
سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور ایک سگریٹ نکال کر اس کو دیا۔ لو پیو۔سپاہی نے سگریٹ لے لیا، موذیل نے اپنے منہ سے سلگا ہوا سگریٹ نکالا اور اس سے کہا، ہئیر از لائٹ۔
سپاہی نے سگریٹ کا کش لیا، موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔۔۔جس میں سے گزر کر انہیں۔۔۔۔محلے جانا تھا۔
ترلوچن خاموش تھا، مگر وہ محسوس کر رہا تھا، کہ موذیل کوکرفیو کی خلاف ورزی کر کے عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس ہو رہی تھی، خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا، وہ جب جو ہو پر اس کے ساتھ جاتی تھی، تو اس کے لئے مصیبت بن جاتی ہے ، سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دور تک نکل جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ کہیں وہ ڈوب نہ جائے ، جب واپس آتی تو اس کا جسم نیلوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروہ نہیں ہوتی تھی۔
موذیل آگے آگے تھی ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے ، ڈر ڈر کے ادھر ادھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل میں سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہو جائے ، موذیل رک گئی جب ترلوچن پاس آیا تو اس نے سمجھانے کے انداز میں اس سے کہا ترلوچ ڈئیر۔۔۔۔۔اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔۔۔۔تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔۔۔۔۔۔۔سچ کہتی ہو، یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔
ترلوچن خاموش رہا۔
جب وہ گلی طے کر کے دوسری گلی میں پہنچے جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی جس میں کرپال کور رہتی تھی۔۔۔۔۔تو موذیل چلتے چلتے ایک دم رک گئی، کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مارواڑی کی دکان لوٹی جا رہی تھی، ایک لحظے کیلئے اس نے اس معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا، کوئی بات نہیں۔۔۔۔چلو آؤ۔
دونوں چلنے لگے۔۔۔۔۔ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اٹھائے چلا آ رہا تھام ترلوچن سے ٹکرا گیا، اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا، صاف معلوم ہوتا تھا، کہ وہ سکھ ہے ، اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا، کہ موذیل آ گئی، لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چور ہے ، اس نے زورسے اس آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا، اے کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔۔۔۔۔۔ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔۔۔۔۔پھر وہ تر لو چن سے مخاطب ہوئی کریم۔۔اٹھاؤ، پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔
اس آدمی نے نے نیفے سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنکھوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا عیش کر سالی۔۔۔۔۔عیش کر پھر اس نے پرات اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔
تر لو چن بڑبڑایا کیسی ذلیل حرکت ہے ، حرامزادے کی۔
موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا کوئی ذلیل حرکت نہیں۔۔۔۔سب چلتا ہے۔۔۔۔آؤ۔
اور تیز تیز چلنے لگی۔۔۔۔ترلوچن نے بھی قدم تیز کر دئیے۔
یہ گلی طے کرنے کے بعد دونوں اس محلے میں پہنچ گئے ، جہاں کرپال کور رہتی تھی، موذیل نے پوچھا کس گلی میں جانا ہے ؟
تر لو چن نے آہستہ سے کہا، تیسری گلی میں۔۔۔۔نکڑ والی بلڈنگ۔
موذیل نے اس طرف چلنا شروع کر دیا، یہ راستہ بالکل خاموش تھا، آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے کی رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔۔۔۔ایک آدمی بڑی تیزی سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا، اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر بعد تین آدمی نکلے ، فٹ پاتھ پر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئے ، موذیل ٹھٹک گئی، اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہو جائے ، پھر اس نے ہولے سے کہا ترلوچن ڈئیر۔۔۔۔یہ پگڑی اتار دو۔
ترلوچن نے جواب دیا میں یہ کسی صورت بھی نہیں اتارسکتا۔
موذیل جھنجلا گئی، تمہاری مرضی۔۔۔لیکن تم دیکھتے نہیں سامنے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔ سامنے جو کچھ ہو رہا ہے تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔۔۔صاف گڑ بڑ ہو رہی تھی اور بڑی پراسرار قسم کی، دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے ہیں۔
بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی، ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی، موذیل اپنے ہونٹ کاٹنے لگی غالباً وہ سوچ رہی تھی، جب یہ دونوں آدمی گلی کے دوسرے سرے پر پہنچ کر غائب ہو گئے ، تو اس نے ترلوچن سے کہا۔
دیکھو ایسا کرو۔۔۔۔۔میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔۔۔۔تم میرے پیچھے آنا۔۔۔۔۔بڑی تیزی سے جیسے تم میرا پیچھا کر رہے ہو۔۔۔سمجھے۔۔۔مگر یہ اب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔
موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑاؤں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی،ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا، چند لمحوں میں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔۔۔۔۔ سیڑھیوں کے پاس۔۔۔ ترلوچن ہانپ رہا تھا، مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی، اس نے ترلوچن سے پوچھا کون سا مالا؟
ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، دوسرا۔
چلو۔
یہ کہہ کر کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگی، تو تر لو چن اس کے پیچھے ہولیا، زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے ، ان کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہو رہا تھا۔
دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی، موذیل دو سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔
ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی۔
مہنگا سنگھ جی۔۔۔۔۔۔مہنگا سنگھ جی؟
اندر سے مہین آواز آئی۔کون؟
ترلوچن
دروازہ دھیرے سے کھلا۔۔۔۔ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا، وہ لپک کر آئی دونوں اندر داخل ہوئے۔۔۔۔موذیل نے اپنی بغل میں ایک پتلی لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔جو بے حد سہمی ہوئی تھی، موذیل نے اس کو ایک لحظے کیلئے غور سے دیکھا، پتلے پتلے نقش تھے ، ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا، موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔
ترلوچن سرخ ہو گیا۔
موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا، ڈرو نہیں ترلوچن تمہیں لینے آیا ہے۔
کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہوئی۔
ترلوچن نے اس سے کہا سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہو جائیں۔۔۔۔اور ماتا جی سے بھی۔۔۔۔لیکن جلدی۔
اتنے میں اوپر کی منزل پر بلدن آوازیں آنے گلیں جیسے کوئی چیخ رہا ہو اور دھینگا مشتی ہو رہی ہو۔
کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی، اسے پکڑ لیا انہوں نے۔
ترلوچن نے پوچھا کسے ؟
کرپال کور نے جواب دینے والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی، پکڑ لیا تو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔تم یہ کپڑے اتارو۔
کرپال کور کو ابھی سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آنا فانا اس کی قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی، کرپال کور نے اپنی بانہوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور وحشت زدہ ہو گئی، ترلوچن نے منہ دوسری طرف موڑ لیا، موزیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتہ اتار اور اس کو پہنا دیا، خود وہ ننگ دھڑنگ تھی، جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا آزار بند ڈھیلا کی اور اس کی شلوار اتار کر، ترلوچن سے کہنے لگی، جاؤ اسے لے جاؤ،لیکن ٹھہرو۔
یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دئیے ، اس سے کہا جاؤ۔۔جلدی۔۔نکل جاؤ۔۔
ترلوچن نے اس سے کہا آؤ مگر فورا ہی رک گیا، پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی اس کی بانہوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔
تم جاتے کیوں نہیں ہو؟ موذیل کے لہجے میں چڑا چڑا پن تھا۔
ترلوچن نے آہستہ سے کہا، اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔
جہنم میں جائیں وہ۔۔۔۔۔تم اسے لے جاؤ۔
اور تم۔
میں آ جاؤں گی۔
ایک دم اوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے ، دروازے کے پاس آ کر انہوں نے کوٹنا شروع کر دیا، جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔
کرپال کور کی اندھی ماں اور مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراھ رہے ہیں۔
کرپال کور نے سوچااور بالوں کو خفیف جھٹکا دیا اور اس نے ترلوچن سے کہا سنو اب صرف ایک ہی ترکیب سمجھ میں آتی ہے۔۔۔میں دروازہ کھولتی ہوں۔۔۔۔
کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی دب گئی، دروازہ۔
موذیل ترلوچن سے مخاطب رہی میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔۔۔تم میرے پیچھے بھاگنا۔۔۔۔میں اوپر چڑھ جاؤں گی۔۔۔تم بھی اوپر چلے جانا۔۔۔۔یہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترلوچن نے پوچھا پھر؟
موذیل نے کہا یہ تمہاری۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔۔موقع پا کر نکل جائے۔۔۔اس لباس میں اسے کچھ نہ کہے گا۔
ترلوچن نے جلدی جلدی کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی، موذیل زور سے چلائی دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری، سب بوکھلا گئے اٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا، ترلوچن اس کے پیچھے بھاگا سب ایک طرف ہٹ گئے۔
موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔کھڑاؤں اس کے پیروں میں تھی۔۔۔۔۔۔وہ لوگ جو دروازے کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے ، سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے ، موذیل کا پاؤ ں پھسلا۔۔۔۔۔۔۔اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آ رہی۔۔۔۔۔۔
پتھریلے فرش پر۔
ترلوچن ایک دم نیچے اترا، جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا، منہ سے خون بہہ رہا تھا، کانوں کے رستے بھی خون نکل رہا تھا، وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے ، ارد گرد جمع ہو گئے۔۔۔۔۔کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے ، سب خاموش تھے اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے ، جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔
ترلوچن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی، موذیل۔۔۔۔موذیل۔
موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں، جو لال بہوٹی ہو رہی تھیں اور مسکرائی۔
ترلوچن نے اپنی پگڑی اتار اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا،موذیل پھر مسکرائی اور آنکھ مارکر اس نے ترلوچن سے منہ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا کہ جاؤ دیکھو، میرا انڈر وئیر وہاں ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔
ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھانا نہ چاہا، اس پر موذیل نے غصے میں کہا۔۔۔۔۔۔تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔۔۔جاؤ دیکھ کر آؤ۔
ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا، موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا یہ میاں بھائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔
ترلوچن واپس آگیا، اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتا دیا کہ کرپال کور جاچکی ہے۔۔۔۔۔۔موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔۔۔۔لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا۔۔۔۔اوہ ڈیم اٹ۔۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی کلائی سے اپنا منہ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی، آل رائٹ ڈارلنگ۔۔۔۔۔بائی بائی۔
ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا، مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔
موذیل نے اپنے بدن سے ترلوچن کی پگڑی ہٹا لی۔لے جاؤ اس کو۔۔۔۔۔۔اپنے اس مذہب کو، اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔
امتیاز صغیر کی شادی ہوئی تو شہر بھر میں دھوم مچ گئی، آتش بازیوں کا رواج باقی نہیں رہا تھا مگر دولہے کے باپ نے اس پرانی عیاشی پر بے دریغ روپیہ صرف کیا، جب صغیر زیوروں سے لدے پھندے سفید براق گھوڑے پر سوار تھا تو اس کے چاروں طرف انار چھوٹ رہے تھے ، مہتابیاں اپنے رنگ برنگ شعلے بکھیر رہی تھیں، پٹاخے چھوٹ رہے تھے ، صغیر خوش تھا۔
صغیر نے امتیاز کو ایک شادی کی تقریب میں دیکھا تھا، اس کی جھلک اسے دکھائی دی تھی، مگر وہ اس پر سو جان سے فریضہ ہو گیا، اور اس نے دل میں عہد کر لیا کہ وہ اس کے علاوہ کسی کو اپنی رفیقہ حیات نہیں بنائے گا، چاہے دنیا ادھر کی ادھر نہ ہو جائے ، دنیا ادھر کی ادھر نہ ہوئی، صغیر نے امتیاز کے راستے ڈھونڈ لئے شروع شروع میں اس خوبرو لڑکی کے حجاب آڑے آیا، لیکن بعد میں صغیر کو اس کا التفات حاصل ہو گیا۔
صغیر بہت مخلص دل کا نوجوان تھا، اس میں ریا کاری نام کو بھی نہیں تھی، اس کو امتیاز سے محبت ہو گئی تو اس نے یہ سمجھا کہ اسے اپنی زندگی کا اصل مقصد حاصل ہو گیا، اس کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ امتیاز اسے قبول کرے گی یا نہیں وہ اس قسم کا آدمی تھا کہا اپنی محبت کے جذبے کے سہارے ساری زندگی بسر کر دیتا، اس کو جب امتیاز سے پہلی بار بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے گفتگو کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی، دیکھو لالی، میں ایک نا محرم آدمی ہوں، میں نے مجبور کیا ہے تم مجھ سے ملو، اب اس ملاپ کا انجام بھی نیک ہونا چاہئے ، یہ میرے ضمیر اور دل کی اکھٹی آواز ہے ، تم بھی وعدہ کرو کہ جب تک میں زندہ ہو مجھے کوئی آزا رنہیں پہنچاؤ گی اور میری موت کے بعد بھی مجھے یاد کرتی رہو گی، اس لئے کہ قبر میں بھی میری سوکھی ہڈیاں تمہارے پیار کی بھوکی ہوں گی۔
امتیاز نے دھڑکتے ہوئے دل سے وعدہ کیا کہ وہ اس عہد پر قائم رہے گی، اس کے بعد ان دونوں میں چھپ چھپ کے ملاقاتیں رہیں، صغیر مطمئن تھا کہ امتیاز اس کی محبت کی دعوت قبول کر چکی ہے ، اس لئے اب اور زیادہ گفتگو کرنے کی ضرورت تھی، ویسے وہ بھی اپنی محبوبہ سے ملنا اس لئے ضروری سمجھتا تھا کہ وہ اس کے عادات و خصائل سے واقف ہو جائے اور وہ بھی اس کو اچھی جان پہچان لے تاکہ وہ اس خصلت کا اندازہ کر سکے اور اس کو شکایت کا کوئی موقع نہ ملے ، اس نے ایک دن امتیاز سے بڑے غیر عاشقانہ انداز میں کہا، نازی میں اب بھی تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم نے مجھ میں کوئی خامی دیکھی ہے اگر میں تمہارے معیار پر پورا نہیں اترا تو مجھے سے صاف صاف کہہ دو، تم کسی بندھن میں گرفتار نہیں ہو، تم مجھے دھتکارا تو مجھے کوئی شکایت نہیں ہو گی، میری محبت میرے لئے کافی ہے ، میں اس کے اور ان ملاقاتوں کے سہارے کافی دیر تک جی سکتا ہوں۔
امتیاز اس سے بہت متاثر ہوئی اس کا جی چاہا کہ صغیر کو اپنے گلے سے لگا کر رونا شروع کر دے مگر وہ اسے نا پسند کرتا تھا، اس لئے اس نے اپنے جذبات اندر ہی مسل ڈالے ، وہ چاہتی تھی کہ صغیر اس سے فلسفیانہ باتیں نہ کرے، لیکن کبھی کبھی اس طور پر بھی اس سے پیش آئے ، جس طرح فلموں میں ہیرو اپنی ہیروئن سے پیش آتا ہے ، مگر صغیر کو ایسی عامیانہ حرکت سے نفرت تھی۔
پہلی رات کو حجلہ عروسی میں جب صغیر داخل ہوا تو امتیاز چھینک مار رہی تھی، وہ بہت متفکر ہوا امتیاز کو بلا شبہ زکام ہو رہا تھا لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا خاوند اس معمولی سے عارضے کی طرف متوجہ ہو کر اس کی تمام امنگوں کو فراموش کر دے وہ سرتاپا سپردگی تھی مگر صغیر کو اس بات کی تشویش تھی کہ امتیاز اس کی جان سے زیادہ عزیز ہستی علیل ہے ، چنانچہ اس نے فورا ڈاکٹر بلوایا، جو دوائیاں اس نے تجویز کیں بازار سے خرید کر لایا، اور اپنی نئی دلہن کو جس کو ڈاکٹر کی آمد سے کوئی دلچسپی تھی نہ اپنے خاوند کی تیمار داری سے مجبور کیا کہ وہ انجکشن لگوائے اور چار چار گھنٹے کے بعد دار پئے ، زکام کچھ شدید قسم کا تھا اس لئے چار دن اور چار راتین صغیر اپنی دلہن کی تیمار داری میں مصروف رہا، امتیاز چڑ گئی، وہ جانے کیا سوچ کر عروسی جوڑا پہن کر صغیر کے گھر آئی تھی، مگر وہ بے کار، اس کے زکام کو درست کرنے کے پیچھے پڑا ہوا تھا، جیسے دلہا دلن کیلئے بس ایک یہی چیز اہم ہے باقی اور باتیں سب فضول ہیں۔
تنگ آ کر ایک دن اس نے اپنے ضرورت سے زیادہ شریف شوہر سے کہا، آپ چھوڑئیے میرے معالجے کو، میں اچھی بھلی ہوں، پھر اس نے دعوت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا میں دلہن ہوں آپ کے گھر آئی ہوں، اور آپ نے اسے اسپتال بنا دیا ہے ، صغیر نے بڑے پیار سے دلہن کا ہاتھ دبایا اور مسکرا کر کہا، نازی خدا نہ کرے کہ یہ کوئی اسپتال ہو، یہ میرا گھر نہیں تمہارا گھر ہے ، اس کے بعد امتیاز کو جو فوری شکایت تھی وہ دور ہو گئی، اور شیر و شکر ہو کر رہنے لگے صغیر اس سے محبت کرتا تھا لیکن اس کو ہمیشہ امتیاز کی صحت اس کے جسم کی خوبصورتیوں اور اس کو ترو تازہ دیکھنے کا خیال رہتا تھا، وہ اسے کانچ کے نازک پھولدان کی طرح سمجھتا تھا، جس کے متعلق ہر وقت یہ خدشہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی سے ٹوٹ جائے گا، امتیاز اور صغیر کا رشتہ دوہرا تھا دو بھائی اصغر حسین اور امجد حسین تھے ، کھاتے پیتے تاجر، صغیر بڑے بھائی اصغر حسین کا لڑکا تھا اور امتیاز امجد حسین کی بیٹی تھی، اب یہ دنوں میاں بیوی تھے ، شادی سے پہلے دونوں بھائیوں میں کچھ اختلافات تھے جو اب دور ہو گئے۔
امتیاز کی دو بہنیں اور تھیں اور جو اس پر جان چھڑکتی تھیں، امتیاز کا بیاہ تو ہوا ان دونوں کی باری قدرتی طور پر آ گئی، وہ اپنے گھروں میں آباد خوش تھیں، کبھی کبھی امتیاز سے ملنے آتیں، اور صغیر کے اخلاق سے متاثر ہوتیں ان کی نظر میں وہ آئیڈیل شوہر ہے۔
دو برس گزر گئے امتیاز کے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا، دراصل وہ چاہتا تھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ اولاد کے بکھیڑوں میں نہ پڑے ، ان دنوں کے دن کے ابھی کھیلنے کودنے کے تھے ، صغیر ہر روز اسے سینما لے جاتا باغوں کی سیر کراتا، نہر کے کنارے کنارے اسکے ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتا، اس کی ہر آسائش کا خیال تھا، بہترین کھانے ، اچھے سے اچھا باورچی اگر امتیاز کبھی باورچی خانے کا رخ کرتی تو وہ اسے کہتا تازی انگیٹھیوں میں پتھر کے کوئلے جلتے ہیں، ان کی بو بہت بری ہوتی ہے ، اور صحت کیلئے نا مفید، میری جان تم اندر نہ جایا کرو، دو نوکر ہیں، کھانے پکانے کا کام جب تم نے ان کے سپرد کر رکھا ہے تو اس زحمت کی کیا ضرورت ہے ، امتیاز مان جاتی۔
سردیوں میں صغیر کا بڑا بھائی اکبر جو نیروبی میں ایک عرصہ مقیم تھا اور ڈاکٹر تھا کسی کام کے سلسلے میں کراچی آیا ہوا تھا تو اس نے سوچا کہ چلو لاہور صغیر سے مل آئیں بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچا اور اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ٹھہرا، وہ صرف چار روز کیلئے آیا کہ ہوائی جہاز میں اس کی سیٹ پانچویں دن کی بک تھی، مگر جب اس کی بھابی نے جو اس کی آمد پر خوش ہوئی تھی، اصرار کیا تو چھوٹے بھائی صغیر نے اس سے کہا، بھائی جان آپ اتنی دیر کے بعد آئے ہیں کچھ دن اور ٹھہر جائیے ، میری شادی میں آپ شریک ہوئے تھے جتنے آپ فالتو ٹھہریں گے اتنا جرمانہ سمجھ لیجے گا، امتیاز مسکرائی اور اکبر سے مخاطب ہوئی، اس تو آپ کو ٹھہرنا ہی پڑے گا اور پھر مجھے آپ نے شادی پر کوئی تحفہ بھی تو نہیں دیا، میں جب تک وصول نہیں کر لوں گی آپ کیسے جا سکتے ہیں اور آپ کو میں جانے بھی کب دوں گی۔
دوسرے روز اکبر اس کو ساتھ لے گیا اور سچے موتیوں کا ایک ہار لے دیا، صغیر نے اپنے بڑے بھائی کا شکریہ ادا کیا، اس لئے کہ ہار بہت قیمتی تھا کم از کم پانچ ہزار کا ہو گا ہی، اسی دن اکبر نے واپسی نیروبی جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور صغیر سے کہا کہ وہ ہوائی جہاز میں اس کے ٹکٹ کا بندوبست کر دے اس لئے کے اس کی لاہور شہر میں کافی واقفیت تھی اکبر نے اس کو روپے دئیے مگر اس نے خود دارانہ انداز میں کہا، آپ ابھی اپنے پاس رکھئے میں لے لوں گا، اور ٹکٹ کا بندوبست کرنے چلا گیا، اسے کوئی دقت نہ ہوئی اس لئے کہ ہوائی جہاز سروس کا ایک جنرل مینیجر اس کا دوست تھا اس نے فورا ٹکٹ لے دیا، صغیر کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھا گپ لڑا تا رہا اس کے بعد گھر کا رخ کیا، موٹر گیراج میں بند کر کے وہ اندر داخل ہوا لیکن فورا باہر نکل آیا، گیراج سے موٹر نکالی اور اس میں بیٹھ کے جانے کہاں روانہ ہو گیا، اکبر اور امتیاز دیر تک اس کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ آیا انہوں نے موٹر کے آنے اور گیراج میں بند ہونے کی آواز سنی تھی، مگر انہوں نے سوچا کہ شاید ان کے کانوں کو دھوکا ہوا تھا، اس لئے کہ صغیر موجود تھا نہ اس کی موٹر وہ غائب ہو گیا تھا؟ اکبر کو واپس جانا تھا، مگر اس نے ایک ہفتہ انتظار کیا ادھر ادھر کئی جگہ پوچھ گچھ کی پولیس میں رپورٹ لکھوائی مگر صغیر کی کوئی سن گن نہ ملی، آخری دن جب کہ اکبر جا رہا تھا پولیس اسٹیشن سے اطلاع ملی کہ پی بی ایل 100591 نمبر کی موٹر کار جس کے ایک خانے میں صغیر اختر نام کے لائسنس نکلا ہے ، ہوائی اڈے کے باہر کئی دنوں سے پڑی ہے ، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اکبر امجد حسین نام کے ایک آدمی نے آٹھ روز پہلے ہوائی جہاز میں نیروبی کا سفر کیا ہے ، اکبر کی سیٹ نیروبی کیلئے بک تھی امتیاز سے رخصت لے کر جب وہ کینیا پہنچا تو اسے بڑی مشکلوں کے بعد صرف اتنا پتہ چلا ایک صاحب جن کا نام اکبر امجد تھا ہوائی جہاز کے ذریعے سے یہاں پہنچے تھے ایک ہوٹل میں دو روز ٹھہرے اس کے بعد چلے گئے۔
اکبر نے بہت تلاش کی مگر کوئی پتہ نہ چلا اس دوران میں اس کو امتیاز کے کئی خطوط آئے ، پہلے دو تین خطوں کی تو اس نے رسید بھیجی اس کے بعد جو بھی خط آیا پھاڑ دیتا تاکہ اس کی بیوی نہ پڑھ لے ، دس برس گزر گئے امجد حسین یعنی امتیاز کا باپ بہت پریشان تھا، بہت لوگوں کا خیال تھا کہ صغیر مر کھپ چکا ہے مگر امجد حسین کا دل نہیں مانتا تھا۔
کہیں اس کی لاش ہی مل جاتی، خود کشی کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ بڑا نیک ، شریف اور برخوردار لڑکا تھا، امجد کو اس سے بہت محبت تھی، ایک ہی بات اس کی سمجھ میں آئی تھی کہ اس کی بیٹی امتیاز نے کہیں اس جیسے ذکی الحس آدمی کو ایسی ٹھیس نہ پہنچائی ہو کہ وہ دل شکستہ ہو کر کہیں رو پوش ہو گیا ہے ، چنانچہ اس نے امتیاز سے کئی مرتبہ اس بارے میں پوچھا مگر وہ صاف منکر ہو گئی، خدا اور رسول کی قسمیں کھا کر اس نے اپنے باپ کی تشفی کر دی، کہ اس سے اسی کوئی حرکت سرز نہیں ہوئی اکثر اوقات وہ روتی تھی، اس کو صغیر یاد آتا تھا، اس کی نرم و نازک محبت یاد آتی تھی، اس کو وہ دھیما دھیما نسیم سحری کا سلوک یاد آتا تھا، جو اس کی فطرت تھی، نیا پیرا امجد کا ایک دوست حج کو گیا، واپس آیا تو اس نے اس کو یہ خوشخبری سنائی کہ صغیر زندہ ہے اور ایک عرصے سے مکے میں مقیم ہے امجد حسین کو ہوش ہوا، اس کو اس کے دوست نے صغیر ہندی کا پتا دیا تھا، اس نے اپنی بیٹی کو تیار کیا کہ وہ اس کے ساتھ حجاز چلے ، فورا ہوائی جہاز کا سفر کا انتظام کیا، امتیاز ساتھ جانے کو تیار نہ تھی، اس کو جھجھک سی محسوس ہو رہی تھی۔
بہر حال باپ بیٹی سرزمین حجاز میں پہنچے ، ہر مقدس مقام کی زیارت کی، امجد حسین نے ایک ایک کونہ چھان مارا مگر صغیر کا پتہ نہ چلا، چند آدمیوں سے جو اس کو جانتے تھے ، صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ آپ کی آمد سے دس روز پہلے ، کیونکہ اسے کسی نہ کسی طریق معلوم ہو چکا تھا، کہ آپ تشریف لا رہے ہیں، کھڑکی سے کود اور گر کر ہلاک ہو گیا، مرنے سے پہلے چند لمحات اس کے ہونٹوں پر ایک لفظ کانپ رہا تھا غالباً امتیاز تھا۔
اس کی قبر کہاں ہے وہ کب اور کیسے دفن ہوا اس کے متعلق صغیر کے جاننے والوں نے کچھ نہ بتایا، یہ ان کے علم میں نہیں تھا، امتیاز کو یقین ہو گیا کہ اس کے خاوند نے خودکشی کر لی ہے ، اس کو شاید اس کا سبب معلوم تھا، مگر اس کا باپ یہ ماننے سے یکسر منکر تھا، چنانچہ اس نے ایک بار اپنی بیٹی سے کہا میرا دل کہتا ہے وہ زندہ ہے ، وہ تمہاری محبت کی خاطر اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک خدا اس کو موت کے فرشتے کے حوالے نہ کر دے ، میں اس کو اچھی طرح سمجھتا تمہاری جگہ اگر وہ میرا بیٹا ہوتا تو میں خود کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھتا، یہ سن کر امتیاز خاموش رہی۔
دونوں سرزمین حجاز سے بے نیل و مرام واپس آ گئے ، ایک برس گزر گیا، اس دوران میں امجد حسین بڑی مہلک بیماری یعنی دل کے عارضے میں گرفتار ہوا اور وفات پا گیا، مرتے وقت اس نے اپنی بیٹی کو کچھ کہنا چاہا مگر وہ شاید بڑی اذیت دہ تھی کہ وہ خاموش رہا اور صرف سرزنش بھری نگاہوں سے امتیاز کو دیکھتے دیکھتے مر گیا، اس کے بعد امتیاز اپنی بہن ممتاز کے پاس راولپنڈی چلی گئی، ان کی کوٹھی کے سامنے ایک اور کوٹھی تھی، جس میں ایک ادھیڑ عمر کا مرد بہت تھکا تھکا سا دکھائی دیتا تھا، دھوپ تاپتا اور کتابیں پڑھتا رہتا تھا، ممتاز اس کو ہر روز دیکھتی، ایک دن اس نے امتیاز سے کہا، مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے یہ صغیر ہے ، کیا تم نہیں پہچان سکتی ہو، وہی ناک نقشہ متانت وہی سنجیدگی، امتیاز نے اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا ایک دم چلائی ہاں ہاں وہی ہے پھر فورا رک گئی، لیکن وہ کیسے ہو سکتے ہیں وہ تو وفات پا چکے ہیں۔
انہیں دنوں ان کی چھوٹی بہن شہناز بھی آ گئی ممتاز اور امتیاز نے ان کو قبل از وقت مرجھایا اور افسردہ مرد دکھایا جس کی داڑھی کھچڑی تھی، اور اس سے پوچھا تم بتاؤ اس کی شکل صغیر سے ملتی ہے یا نہیں؟ شہناز نے اس کو بڑی گہری نظروں سے دیکھا اور فیصلہ کن لہجے میں کہا، شکل ملتی کیا ہے یہ خود صغیر ہے سونی صدی صغیر اور یہ کہہ کہ وہ سامنے والی کوٹھی میں داخل ہو گئی وہ شخص کتاب پڑھنے میں مشغول تھا چونکا، شہناز جس نے شادی کے موقع پر اس کی جوتی چرائی تھی، اسی پرانے انداز میں کہا، جناب آپ کب تک چھپے رہیں گے ؟
اس شخص نے شہناز کی طرف دیکھا اور بڑی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پوچھا آپ کون ہیں؟
شہناز طرار تھی اس کے علاوہ اس کو یقین تھا کہ جس سے وہ ہم کلام ہے وہ اس کا بہنوئی ہے چنانچہ اس نے بڑے نوکیلے لہجے میں کہا جناب میں آپ کی سالی شہناز ہوں، اس شخص نے شہناز کو سخت نا امید کیا اس نے کہا، مجھے افسوس ہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، اس کے بعد شہناز نے اور بہت سی باتیں کیں مگر اس نے بڑے ملائم انداز میں اس سے جو کچھ کہا، اس کا یہ مطلب تھا کہ تم ناحق اپنا وقت ضائع کر رہی ہوں، میں تمہیں جانتا ہوں نہ تمہاری بہن کو جس کے متعلق تم کہتی ہو کہ میری بیوی ہے ، میری بیوی اپنی زندگی میں ہے اور میں ہی اس کا خاوند ہوں۔
شہناز اور ممتاز کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ امتیاز کے متعلق تمام معلومات حاصل کرتا ہے ، ان کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس پر اسرار مرد کے نوکر کے ذریعے سے کہ وہ راتوں کو اکثر روتا ہے نمازیں پڑھتا ہے اور دعائیں مانگتا ہے کہ زندہ رہے وہ چاہتا ہے کہ اس کو جو اذیت پہنچی ہے اس سے دیر تک لطف اندوز ہوتا رہے ، نوکر حیران تھا کہ انسان کی زندگی میں ایسی کون سی تکلیف ہو سکتی ہے ، جس سے وہ حظ اٹھا سکتا تھا، سب باتیں امتیاز سنتی تھی اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ مر جائے ، چنانچہ اس نے جب یہ سنا کہ وہ شخص جس کو امتیاز اچھی طرح پہچانتی تھی، اس کے نام سے قطعاً نا آشنا ہے تو اس نے ایک روز افیم کھا لی اور یہ ظاہر کیا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اکیلی آرام کرنا چاہتی ہے ، وہ آرام کرنے چلی گئی لیکن شہناز نے جب اس کو غنودگی کے عالم میں دیکھا تو اسے شبہ ہوا اس نے ممتاز سے بات کی، اس کا ماتھا بھی ٹھنکا کمرے میں جا کر دیکھا تو امتیاز بالکل بے ہوش پڑی تھی، اس کو جھنجھوڑا مگر نہ جاگی شہناز دوڑی دوڑی سامنے کوٹھی میں گئی اور اس شخص جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو نا معلوم تھا، سخت گھبراہٹ میں یہ اطلاع دی کہ اس کی بیوی نے زہر کھا لیا ہے ، اور مرنے کے قریب ہے ، یہ سن کر اس نے اتنا کہا آپ کو غلط فہمی ہے وہ میری بیوی نہیں ہے ، لیکن میرے ہاں اتفاق سے ایک ڈاکٹر آیا ہوا ہے ، آپ چلیئے میں اسے بھیج دیتا ہوں۔
شہناز گئی تو وہ اندر کوٹھی میں گیا اور اپنے بھائی اکبر سے کہا، یہ جو کوٹھی سامنے ہے اس میں کسی عورت نے زہر کھا لیا ہے ، بھائی جان آپ جلدی سے جائیے ، اور کوشش کیجئے کہ بچ جائے ، اس کا بھائی جو نیروبی میں بہت بڑا ڈاکٹر تھا امتیاز کو نہ بچا سکا دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو اس کا رد عمل بہت مختلف تھا، امتیاز فورا مر گئی اور اکبر اپنا بیگ لے کر واپس چلا گیا، صغیر نے اس سے پوچھا کیا حال ہے مریضہ کا؟
اکبر نے جواب دیا مر گئی، صغیر نے اپنے ہونٹ بھینچ کر بڑے مضبوط لہجے میں کہا میں زندہ رہوں گا، لیکن ایک دم سنگین فرش پر لڑکھڑانے کے بعد گرا اور جب اکبر نے اس کی نبض دیکھی تو وہ ساکت تھی۔
امر تسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی، راستے میں کئی آدمی مارے گئے ، متعدد زخمی اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے۔۔۔۔کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہو گئیں، وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا، یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا، لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے ، اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا، کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا تھا، کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے ، اسے کچھ سنائی نہیں دیتا ہے ، اس کے ہوش و حواس شل تھے ، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں، تیز روشنی اس کے وجود کے رگ و ریشے میں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولیاں۔۔۔۔رات اور سکینہ۔۔۔سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کیا۔ پورے تین گھنٹے وہ سکینہ سکینہ پکارتا کیمپ کی خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی ہوئی تھی، کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئی ماں، کوئی بیوی اور کوئی بیٹی، سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گیا، اور حافظے پر زور دینے لگا، کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی تھی لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جا کر جم جاتا ہے ، جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔
سکینہ کی ماں مر چکی تھی، اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، لیکن سکینہ کہاں تھی، جس کے متعلق اس کی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ۔
سکینہ اس کے ساتھی ہی تھی، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے ، سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کیلئے سراج الدین نے رکنا چاہا مگر سکینہ نے چلا کر کہا ابا جی۔۔۔۔۔چھوڑئیے ، لیکن اس نے دوپٹہ اٹھا لیا تھا۔۔۔یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی بھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکینہ کا وہی دوپٹا تھا۔۔۔۔لیکن سکینہ کہاں تھی؟
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا، کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن لے آیا تھا؟۔۔۔۔کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی؟۔۔۔ راستہ میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کر لئے گئے ؟
سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے ، جواب کوئی بھی نہیں تھا، اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی، لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے ، سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی، سراج الدین نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی، آنسو جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کیلئے تیار تھے ، آٹھ نوجوان تھے ، جن کے پاس لاری تھی، بندوقیں تھیں، سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا، گورا رنگ ہے ، بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔۔مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قریب اکلوتی لڑکی ہے ، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔
رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہو گی۔
آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کی، جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ امر تسر گئے ، کئی عورتوں کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا، دس روز گزر گئے مگر انہیں سکینہ نہ ملی۔
ایک روز وہ اسی خدمت کیلئے لاری پر امر تسر جا رہے تھے ، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہیں ایک لڑکی دکھائی دی، لاری کی آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کر دیا، رضاکاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے ، ایک کھیت میں انہوں نے لڑکی کو پکڑ لیا، دیکھا تو بہت ہی خوبصورت تھی، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ایک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہیں۔۔۔۔۔۔کیا تمہارا نام سکینہ ہے ؟
لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہو گیا، اس نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسہ دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی سکینہ ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکینہ کی دل جوئی کی، اسے کھانا کھلایا، دودھ پلایا، اور لاری میں بٹھادیا، ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا، کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی، اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔ کئی دن گزر گئے۔۔۔۔۔۔۔سراج الدین کو سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی، وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، لیکن کہیں سے بھی اس کی بیٹی سکینہ کا پتہ نہ چلا سکا، رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگتا رہا، جنہوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔
ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا، لاری میں بیٹھے تھے ، سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا، لاری چلنے والی تھی کہ اس نے پوچھا بیٹا میری سکینہ کا پتہ چلا؟
سب نے یک زبان ہو کر کہا چل جائے گا، چل جائے گا اور لاری چلا دی۔
سراج الدین نے ایک بار پھر ان نوجوانوں کی کامیابی کیلئے دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا، شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا، اس کے پاس ہی کچھ گر بڑ سی ہوئی چار آدمی کچھ اٹھا کر لا رہے تھے ، اس نے دریافت کیا تو معلوم ہو کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھی، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں، سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہولیا، لوگوں نے لڑکی کو اسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے۔
کچھ دیر بعد ایسے ہی اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا، کمرے میں کوئی نہیں تھا، ایک اسٹریچر تھا، جس پر ایک لاش پڑی تھی، سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا، کمرے میں دفعتاً روشنی ہوئی سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل دیکھا اور چلایا، سکینہ۔
ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی، سراج الدین سے پوچھا کیا ہے ؟
سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا،جی میں۔۔۔۔۔ جی میں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا کھڑکی کھول دو۔
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دیا، بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔میری بیٹی زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔
کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے، حتٰی کہ سوچتے ہوئے بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر وہ بیان کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔
بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے۔ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی رہتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضا میں پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے سے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے کہ مجھے کوٹنا شروع کر دیں۔
باورچی خانے میں گرم مصالحہ جات کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی۔ پیروں کے ذریعے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیے کی لو کی طرح کانپنا شروع کر دیتا۔
مومن کی عمر پندرہ برس تھی۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن تیزی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کر دی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔
اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی اب موٹی ہو گئی تھی۔ بانہوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہا تھا۔ سینے پر گوشت کی موٹی تہہ ہو گئی تھی اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں، جگہ ابھر آئی تھی جیسے کسی نے ایک بنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہو تا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دورا ن میں غیر ارادی طور پر جب ہاتھ ان گولیوں سے چھو جاتا تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھردرے کپڑے سے بھی اس کی تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔
غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اور موجود نہ ہوتا۔ مومن اپنے قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا۔ ہاتھوں سے مسلتا۔ درد ہوتا، ٹیسیں اٹھتیں جیسے جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح زور سے ہلا دیا گیا ہو۔ کانپ کانپ جاتا مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا۔ کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے ایک لیس دار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا۔ وہ یہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے نہ کر سکتا ہو، اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا تو وہ جھٹ سے اپنی قمیض کے بٹن بند کر لیتا اور دل میں عہد کرتا کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کر ے گا لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے یا تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اسی کھیل میں مشغول ہو جاتا۔
مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آ نکلا تھا جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا مگر بے حد پُرخطر تھا۔ اس راستے پر اس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھے ، کبھی ہولے ہولے۔ وہ در اصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہئے۔ انہیں جلدی طے کرنا چاہیے یا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ ادھر ادھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہیے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنے والے شباب کی گول گول چکنی بنٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لئے بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا اور اس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اس کے د ل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اسے کوئی اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔
مومن سے سب گھر والے خوش تھے۔ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ جب ہر کام وقت پر کر دیتا تو کسی کو شکایت کا موقع کیسے ملتا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبیعت سے متاثر کر لیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر نوکر ہوا تھا مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دئیے گئےتھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا اس لیے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔
اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجہ بجانے ، نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہ کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر ادھر کے کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اسے ڈانٹتی بھی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بے حد شوق تھا۔ شکیلہ اس سے آٹھ بلاؤز مانگ کر لائی تھی اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی چنانچہ اس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔
ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی جو زیادہ تر باورچی خانے کا کام کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور وہ انقلاب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا، اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھا اس لئے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکی اور پھر مومن نوکر تھا.... نوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کر جاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔
غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو.... کیا ہو؟ .... بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا شروع کریں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکا پانی ایک ہی ابال سے اوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نال پر دباؤ ڈالے تو وہ دوہری ہو جائے اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلے۔ اسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ جوڑ علیحدہ علیٰحدہ ہو جائیں اور اس میں ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔
کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔
مومن بہت بے قرار تھا۔ رضیہ نئی طرز سیکھنے میں مشغول تھی اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نئے نمونے اتار رہی تھی۔ جب اس نے یہ کام ختم کر لیا تو وہ نمونہ جو ان سب میں اچھا تھا، سامنے رکھ کر اپنے لیے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کر دیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجہ اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہونا پڑا۔
شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افرا تفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح تھی۔ اس لئے کہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی یوں وقت زیادہ صرف ہوتا ہے مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔
شکیلہ بھر ے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی، ہاتھ بہت گدگدے تھے۔ گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چلاتی تھی تو یہ ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب ہو جاتے تھے۔
شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی صفائی کے ساتھ مشین کی ہتھی گھماتی تھیں۔ کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جسے شاید اپنےلیے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔
جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلا کر اپنے ماپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاؤز موجود تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لئے ساری پیمائش دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔
قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا ’’جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے ‘‘۔
مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان سے ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا۔ ’’کیسا گز بی بی جی۔‘‘
شکیلہ نے جواب دیا’’ کپڑے کا گز.... ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے۔ یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے کپڑے کا۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے۔‘‘
چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے اس کے ہاتھ سے لے لیا اور کہا ’’یہاں ٹھہر جا۔ اسے ابھی واپس لے جانا۔‘‘ پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطب ہوئی۔ ان لوگوں کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کر کے پریشان کر دیتی ہے .... ادھر آؤ یہ گز لو اور یہاں سے میرا ماپ لو۔
رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ماپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئیں۔ مومن دروازے کی دہلیز پر کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔
’’رضیہ تم گز کو کھینچ کر ماپ کیوں نہیں لیتیں.... پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ جب تم نے ماپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیا ناس ہو گیا.... اوپر کے حصہ پر اگر کپڑا فٹ نہ آئے تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔‘‘
’’ کہاں کا لوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ماپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کا لو.... ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آ جائے گی۔‘‘
’’بھئی واہ.... چیز کے فٹ ہونے ہی میں ساری خوبصورتی ہوتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے ، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے .... لو اب تم ماپ لو....‘‘۔
یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھول گیا تو سانس روک کر اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا ’’ لو اب جلدی کرو۔‘‘
جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے اندر ربڑ کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا ’’گز لائیے بی بی جی.... دے آؤں۔‘‘
شکیلہ نے اسے جھڑ ک دیا۔ ’’ذرا ٹھہر جا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو اس کی سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اگ رہے تھے مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ یہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں وہ بُھٹوں کے کالے اور سنہری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو سرسراہٹ اسے محسوس ہوتی تھی۔ اسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کر دی۔
شکیلہ کا بازو اب نیچے جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی تھی مگر مومن بھی کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصور میں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا اور بغل میں اس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔
تھوڑی دیر بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا ’’جاؤ، واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیاہے ‘‘۔
مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا، جس میں اس نے عید کیلئے نئے کپڑے بنوا رکھے تھے۔
جب ٹرنک کا ڈھکنا کھولا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔ اس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی اور اس کی رومی ٹوپی....
رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی۔ ’’مومن‘‘
مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا اور اندر چلا گیا جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی۔ "میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ سو گئے تھے کیا؟‘‘
مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔ ’’نہیں بی بی جی‘‘۔
’’تو پھر کیا کر رہے تھے ؟‘‘
’’کچھ.... کچھ بھی نہیں‘‘۔
’’کچھ تو ضرور کرتے ہو گے۔‘‘ شکیلہ یہ سوال کیے جا رہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا جسے اب اسے کچا کرنا تھا۔
مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔
شکیلہ کھل کھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب تسکین محسوس ہوئی اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پر احمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کر کے اس نے کہا۔ ’’بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لوں گا۔‘‘
شکیلہ نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا۔ ’’کیا کرو گے اس رومال کو ؟‘‘
مومن نے جھینپ کر جوا ب دیا۔ ’’گلے میں باندھ لو ں گا بی بی جی.... بڑا اچھا معلوم ہو گا۔‘‘
یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔
’’گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا اسی سے پھانسی دے دوں گی‘‘ یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ سے کہا۔ ’’کم بخت نے مجھ سے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟‘‘
رضیہ نے جواب نہ دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کر دی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آگیا کہ اس نے مومن کو کیوں بلایا تھا۔
’’دیکھو مومن میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہاں جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کے وہ کیا لے گا.... کہنا ہم چھ لیں گے۔ اس لیے کچھ رعایت ضرور کرے .... سمجھ لیا نا؟‘‘
’’مومن نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں‘‘۔
’’اب تم پرے ہٹ جاؤ۔‘‘
مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آگرا اور اندر سے شکیلہ کی آواز آئی۔ ’’کہنا ہم اس قسم کی ہی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی اٹھا لیا ہو۔ بدن کی بو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔
وہ اس بنیان کو جو بلی کے بچے کی طرح ملائم تھا، اپنے ہاتھوں میں مسلتا ہوا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ دریافت کر کے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس اودی، اودی ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچک دار تھی۔
یہ بلاؤز شاید عید کیلئے تیار کیا جا رہا تھا کیونکہ عید اب بالکل قریب آ گئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلایا گیا۔ دھاگہ لانے کیلئے، استری نکالنے کیلئے، سوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی لانے کیلئے، شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھانے کیلئے بھی اسے بلایا گیا۔
مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کر دی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں مگر ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں.... بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کا کیا کر ے گا؟
دوسرے روز اس نے جیب سے کترنیں نکالیں اور الگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دئیے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا حتیٰ کہ دھاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا۔ اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا۔
اس دن بھی اسے شکیلہ نے کئی بار بلایا.... اودی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔۔
پہلے جب اسے کچا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری پھیری گئی جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں اور چمک بھی دوبالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچی حالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا۔ رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھار میز کے پاس آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا۔ جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھا وہاں نشان لگائے۔ اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا جب بالکل فٹ ہو گیا تو پکی سلائی شروع کی۔
اُدھر ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا، اِدھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کے ٹانکے ادھڑ رہے تھے .... جب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھو کر اسے دیکھے صرف چھو کر ہی نہیں.... بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔ اپنے کھردرے ہاتھ۔
اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمت کا اندازہ کر لیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اس نے ان کا گچھا بنایا تو دباتے وقت اسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑی کی سی لچک بھی ہے .... وہ جب بھی اندر آ کر بلاؤز کو دیکھتا تو کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال۔ مومن سوچتا تھا کہ وہ بھی ساٹن ہی کی طرح ملائم ہوں گے ؟
بلاؤز بالآخر تیار ہو گیا.... مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھا جس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھا.... اس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہک لگائے اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
مومن نے فرش صاف کرتے ہوئے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہے .... شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی۔ مومن سے رہا نہ گیا۔ چنانچہ اس نے کہا ’’بی بی جی، آپ نے درزیوں کو بھی مات کر دیا ہے۔‘‘
شکیلہ اپنی تعریف سن کر خوش ہو ئی مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کیلئے بے قرار تھی۔ اس لیے وہ صرف ’’اچھا ہے نا‘‘ کہہ کر باہر دوڑ گئی.... مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤز کا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔
رات کو جب وہ پھر اس کمرے میں صراحی رکھنے کیلئے آیا تو اس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اس نے غور سے دیکھا پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے یوں لگا کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روؤں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔
رات کو جب وہ سویا تو اس نے کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھے .... ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اسے کوٹنے کو کہا جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا.... یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے جن کا گولا بنا ہوا تھا.... پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنے شروع ہو گئے.... بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے .... پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا.... پھندنے کی تلاش میں نکلا.... دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا.... نئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہو گئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا.... ایک کالی ساٹن کی بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا .... کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتہً ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ سمجھ نہ سکا کیا ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹھیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی.... پہلے اسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم میں رینگنے لگی۔
گانے لکھنے والا عظیم گوبند پوری جب اے بی سی پروڈکشنز میں ملازم ہوا تو اس نے فوراّ اپنے دوست میوزک ڈائریکٹر بھٹساوے کے متعلق سوچا جو مرہٹہ تھا اور عظیم کے ساتھ کئی فلموں میں کام کر چکا تھا۔ عظیم اس کی اہلیتوں کو جانتا تھا۔ سٹنٹ فلموں میں آدمی اپنے جوہر کیا دکھا سکتا ہے ، بے چارہ گمنامی کے گوشے میں پڑا تھا۔
عظیم نے چنانچہ اپنے سیٹھ سے بات کی اور کچھ اس انداز میں کی کہ اس نے بھٹساوے کو بلایا اور اس کے ساتھ ایک فلم کا کنٹریکٹ تین ہزار روپوں میں کر لیا۔ کنٹریکٹ پر دستخط کرتے ہی اسے پانچ سو روپے ملے جو اس نے اپنے قرض خواہوں کو ادا کر دیئے۔ عظیم گوبندپوری کا وہ بڑا شکر گزار تھا۔ چاہتا تھا کہ اس کی کوئی خدمت کرے ، مگر اس نے سوچا آدمی بے حد شریف ہے اور بے غرض ------ کوئی بات نہیں، آئندہ مہینے سہی۔ کیونکہ ہر ماہ اسے پانچ سو روپے کنٹریکٹ کی رُو سے ملنے تھے۔ اس نے عظیم سے کچھ نہ کہا۔ دونوں اپنے اپنے کام میں مشغول تھے۔
عظیم نے دس گانے لکھے جن میں سے سیٹھ نے چار پسند کیے۔ بھٹساوے نے موسیقی کے لحاظ سے صرف دو۔ ان کی اس نے عظیم کے اشتراک سے دھُنیں تیار کیں جو بہت پسند کی گئیں۔
پندرہ بیس روز ریہرسلیں ہوتی رہیں۔ فلم کا پہلا گانا کورس تھا۔ اس کے لیے کم از کم دو گویا لڑکیاں درکار تھیں۔ پروڈکشن منیجر سے کہا گیا۔ مگر جب وہ انتظام نہ کر سکا تو بھٹساوے نے مس مالا کو بلایا جس کی اچھی آواز تھی۔ اس کے علاوہ وہ پانچ چھ اور لڑکیوں کو جانتی تھی جو سُر میں گا لیتی تھیں۔ مس مالا کھانڈیکر جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کولہاپور کی مرہٹہ تھی۔ دوسروں کے مقابلے میں اس کا اُردو تلفظ زیادہ صاف تھا۔ اس کو یہ زبان بولنے کا شوق تھا۔ عمر کی زیادہ بڑی نہیں تھی۔ لیکن اس کے چہرے کا ہر خدوخال اپنی جگہ پر پختہ، باتیں بھی اس انداز میں کرتی کہ معلوم ہوتا اچھی خاصی عمر کی ہے۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ سے باخبر ہے۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کو بھائی جان کہتی اور ہر آنے جانے والے سے بہت جلد گھل مل جاتی تھی۔
اس کو جب بھٹساوے نے بلایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اس کے ذمے یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ فوراّ کورس کے لیے دس گانے والی لڑکیاں مہیا کر دے۔ وہ دوسرے روز ہی بارہ لڑکیاں لے آئی۔ بھٹساوے نے ان کا ٹسٹ لیا۔ سات کام کی نکلیں۔ باقی رخصت کر دی گئیں۔ اس نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے ، سات ہی کافی ہیں۔ جگتاپ ساونڈ ریکارڈسٹ سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا میں سب ٹھیک کر لوں گا۔ ایسی ریکارڈنگ کروں گا کہ لوگوں کو ایسا معلوم ہو گا کہ بیس لڑکیاں گا رہی ہیں۔
جگتاپ اپنے فن کو سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے ریکارڈنگ کے لئے ساونڈ پروف کمرے کے بجائے سازندوں اور گانے والیوں کو ایک ایسے کمرے میں بٹھایا جس کی دیواریں سخت تھیں۔ جن پر ایسا کوئی غلاف نہیں چڑھا ہوا تھا کہ آواز دب جائے۔ فلم ‘‘ بے وفا ‘‘ کا مہورت اسی کورس سے ہوا۔ سینکڑوں آدمی آئے۔ ان میں بڑے بڑے فلمی سیٹھ اور ڈسٹری بیوٹر تھے۔ اے بی سی پروڈکشنز کے مالک نے بڑا اہتمام کیا ہوا تھا۔
پہلے گانے کی دو چار ریہرسلیں ہوئیں۔ مس مالا کھانڈیکر نے بھٹساوے کے ساتھ پورا تعاون کیا۔
سات لڑکیوں کو فرداّ فرداّ آگاہ کیا کہ خبردار رہیں اور کوئی نقص پیدا نہ ہونے دیں۔ بھٹساوے پہلی ہی ریہرسل سے مطمئن تھا لیکن اس نے مزید اطمینان کی خاطر چند اور ریہرسلیں کرائیں۔ اس کے بعد جگتاپ سے کہا کہ وہ اپنا اطمینان کر لے۔ اس نے جب ساؤنڈ ٹریک میں یہ کورس پہلی مرتبہ ہیڈفون لگا کر سنا تو اس نے خوش ہو کے بہت اونچا ‘‘ اوکے ‘‘ کہہ دیا۔ ہر ساز اور ہر آواز اپنے صحیح مقام پر تھی۔
مہمانوں کے لیے مائکروفون کا انتظام کر دیا تھا۔ ریکارڈنگ شروع ہوئی تو اسے اون کر دیا گیا۔ بھٹساوے کی آواز بھونپو سے نکلی ‘‘ سونگ نمبر ایک، ٹیک فرسٹ، ریڈی ون ٹو۔‘‘ اور کورس شروع ہو گیا۔
بہت اچھی کمپوزیشن تھی۔ سات لڑکیوں میں سے کسی ایک نے بھی کہیں غلط سُر نہ لگایا۔ مہمان بہت محظوظ ہوئے۔ سیٹھ، جو موسیقی کیا ہوتی ہے اس سے بھی قطعاًّ ناآشنا تھا، بہت خوش ہوا۔ اس لیے کہ سارے مہمان اس کورس کو تعریف کر رہے تھے۔ بھٹساوے نے سازندوں اور گانے والیوں کو شاباشیاں دیں۔ خاص طور پر اس نے مس مالا کا شکریہ ادا کیا جس نے اس کو اتنی جلدی گانے والیاں فراہم کر دیں۔ اس کے بعد وہ جگتاپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے گلے مل رہا تھا۔ کہ اے بی سی پروڈکشنز کے مالک سیٹھ رنچھوڑ داس کا آدمی آیا کہ وہ اسے بلا رہے ہیں۔ عظیم گوبندپوری کو بھی۔
دونوں بھاگے ، اسٹوڈیو کے اس سرے پر گئے جہاں محفل جمی تھی۔ سیٹھ صاحب نے سب مہمانوں کے سامنے ایک سو روپے کا سبز نوٹ انعام کے طور پر پہلے بھٹساوے کو دیا۔ پھر دوسرا عظیم گوبندپوری کو۔ وہ مختصر سا باغیچہ جس میں مہمان بیٹھے تھے ، تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔
جب مہورت کی یہ محفل برخواست ہوئی تو بھٹساوے نے عظیم سے کہا، ‘‘ مال پانی ہے ، چلو آؤٹ ڈور چلیں۔‘‘
عظیم اس کا مطلب نہ سمجھا، ‘‘ آؤٹ ڈور کہاں؟‘‘
بھٹساوے مسکرایا، ‘‘ مازے ملگے (میرے لڑکے ) موز شوک (موج شوق) کرنے جائیں گے۔ سو روپیہ تمہارے پاس ہے ، سو ہمارے پاس ------ چلو۔‘‘
عظیم سمجھ گیا۔ لیکن وہ اس کے موز شوک (موج شوق) سے ڈرتا تھا، اس کی بیوی تھی، دو چھوٹے بچے بھی۔ اس نے کبھی عیاشی نہیں کی تھی۔ مگر اس وقت وہ خوش تھا۔ اس نے اپنے دل سے کہا ‘‘ چلو رے ------ دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔‘‘
بھٹساوے نے فوراّ ٹیکسی منگوائی۔ دونوں اس میں بیٹھے اور گرانٹ روڈ پہنچے۔ عظیم نے پوچھا، ‘‘ ہم کہاں جا رہے ہیں، بھٹساوے ؟‘‘ وہ مسکرایا، ‘‘ اپنی موسی کے گھر۔‘‘
اور جب وہ اپنی موسی کے گھر پہنچے تو مس مالا کھانڈیکر کا گھر تھا۔ وہ ان دونوں سے بڑے تپاک کے ساتھ ملی۔ انہیں اندر اپنے کمرے میں لے گئی۔ ہوٹل سے چائے منگوا کر پلائی۔ بھٹساوے نے اس سے چائے پینے کے بعد کہا، ‘‘ ہم موز شوک کے لیے نکلے ہیں۔ تمہارے پاس ------ تم ہمارا کوئی بندوبست کرو۔‘‘
مالا سمجھ گئی۔ وہ بھٹساوے کی احسان مند تھی۔ اس لیے اس نے فوراّ مرہٹی زبان میں کہا جس کا یہ مطلب تھا کہ میں ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔ دراصل بھٹساوے ، عظیم کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کہ اس نے اس کو ملازمت دلوائی تھی۔ چنانچہ بھٹساوے نے مالا سے کہا کہ وہ ایک لڑکی مہیا کر دے۔
مس مالا نے اپنا میک اپ جلدی جلدی ٹھیک کیا اور تیار ہو گئی۔ سب ٹیکسی میں بیٹھے۔ پہلے مس مالا پلے بیک سنگر شانتا کرنا کرن کے گھر گئی۔ مگر وہ کسی اور کے ساتھ باہر جا چکی تھی۔ پھر وہ انسویا کے ہاں گئی مگر وہ اس قابل نہیں تھی کہ ان کے ساتھ مہم پر جا سکے۔
مس مالا کو بہت افسوس ہوا کہ اسے دو جگہ ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کو امید تھی کہ معاملہ ہو جائے گا۔ چنانچہ ٹیکسی گول پیٹھا کی طرف لپکی۔ وہاں کرشنا تھی۔ پندرہ سولہ برس کی گجراتی لڑکی۔ بڑی نرم و نازک، سُر میں گاتی تھی۔ مالا اس کے گھر داخل ہوئی اور چند لمحات کے بعد اس کو ساتھ لیے باہر نکل آئی۔ بھٹساوے کو اس نے ہاتھ جوڑ کے نمسکار کیا اور عظیم کو بھی۔ مالا نے ٹھیٹ دلالوں کے انداز میں عظیم کو آنکھ ماری اور گویا خاموش زبان میں اس سے کہا، ‘‘ یہ آپ کے لیے ہے۔‘‘
بھٹساوے نے اس پر نگاہوں ہی نگاہوں میں صاد کر دیا۔ کرشنا عظیم گوبندپوری کے پاس بیٹھ گئی۔ چونکہ اس کو مالا نے سب کچھ بتا دیا تھا، اس لیے وہ اس سے چہلیں کرنے لگی۔ عظیم لڑکیوں کا سا حجاب محسوس کر رہا تھا۔ بھٹساوے کو اس کی طبیعت کا علم تھا۔ اس لیے اس نے ٹیکسی ایک بار کے سامنے ٹھہرائی۔ صرف عظیم کو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔
نغمہ نگار نے صرف ایک دو مرتبہ پی تھی۔ وہ بھی کاروباری سلسلے میں۔ یہ بھی کاروباری سلسلہ تھا۔ چنانچہ اس نے بھٹساوے کے اصرار پر دو پیگ رم کے پیئے اور اس کو نشہ ہو گیا۔ بھٹساوے نے ایک بوتل خرید کر اپنے ساتھ رکھ لی۔ اب وہ پھر ٹیکسی میں تھے۔
عظیم کو اس بات کا قطعاّ علم نہیں تھا کہ اس کا دوست بھٹساوے دو گلاس اور سوڈے کی بوتلیں ساتھ لے آیا ہے۔
عظیم کو بعد میں معلوم ہوا کہ بھٹساوے پلے بیک سنگر کرشنا کی ماں سے یہ کہہ آیا تھا کہ جو کورس دن میں لیا گیا تھا، اس کے جتنے ٹیک تھے ، سب خراب نکلے ہیں اس لیے رات کو پھر ریکارڈنگ ہو گی۔ اس کی ماں ویسے کرشنا کو باہر جانے کی اجازت کبھی نہ دیتی مگر جب بھٹساوے نے کہا کہ اسے اور روپے ملیں گے تو اس نے اپنی بیٹی سے کہا کہ جلدی جاؤ اور فارغ ہو کر سیدھی یہاں آؤ، وہاں اسٹوڈیو میں نہ بیٹھی رہنا۔
ٹیکسی ورلی پہنچی یعنی ساحل سمندر کے پاس۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں عیش پرست کسی نہ کسی عورت کو بغل میں دبائے آیا کرتے۔ ایک پہاڑی سی تھی، معلوم نہیں مصنوعی یا قدرتی ------ اس پر چڑھتے ------ کافی وسیع مرتفع قسم کی جگہ تھی۔
اس میں لمبے فاصلوں پر بنچیں رکھی ہوئی تھیں جن پر صرف ایک ایک جوڑا بیٹھتا۔ سب کے درمیان ان لکھا سمجھوتہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے معاملے میں مخل نہ ہوں۔ بھٹساوے نے جو عظیم کی دعوت کرنا چاہتا تھا، ورلی کی پہاڑی پر کرشنا کو اس کے سپرد کر دیا اور خود مالا کے ساتھ ٹہلتا ٹہلتا ایک جانب چلا گیا۔
عظیم اور بھٹساوے میں ڈیڑھ سو گز کا فاصلہ ہو گا۔ عظیم، جس نے غیر عورت کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ محسوس کیا تھا، جب کرشنا کو اپنے ساتھ لگے دیکھا تو اس کا ایمان متزلزل ہو گیا۔ کرشنا ٹھیٹ مرہٹی لڑکی تھی، سانولی سلونی، بڑی مضبوط، شدید طور پر جوان اور اس میں وہ تمام دعوتیں تھیں جو پُر کشش کھُل کھیلنے والی میں ہو سکتی ہیں۔ عظیم چونکہ نشے میں تھا اس لیے وہ اپنی بیوی کو بھول گیا اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کرشنا کو تھوڑے عرصے کے لیے بیوی بنا لے۔
اس کے دماغ میں مختلف شرارتیں پیدا ہو رہی تھیں۔ کچھ رم کے باعث اور کچھ کرشنا کی قربت کی وجہ سے۔ عام طور پر وہ بہت سنجیدہ رہتا تھا۔ بڑا کم گو۔ لیکن اس وقت اس نے کرشنا کے گدگدی کی۔ اس کو کئی لطیفے اپنی ٹوٹی پھوٹی گجراتی میں سنائے۔ پھر جانے اسے کیا خیال آیا کہ زور سے بھٹساوے کو آواز دی اور کہا، ‘‘ پولیس آ رہی ہے۔ پولیس آ رہی ہے۔‘‘
بھٹساوے مالا کے ساتھ آیا۔ عظیم کو موٹی سی گالی دی اور ہنسنے لگا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ عظیم نے اس سے مذاق کیا ہے۔ لیکن اس نے سوچا بہتر یہی ہے کسی ہوٹل میں چلیں جہاں پولیس کا خطرہ نہ ہو۔ چاروں اٹھ رہے تھے کہ پیلی پگڑی والا نمودار ہوا۔ اس نے ٹھیٹ سپاہیانہ انداز میں پوچھا، ‘‘ تم لوگ رات کے گیارہ بجے یہاں کیا کر رہے ہو؟ مالوم نہیں دس بجے کے پیچھو یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے ؟ کانون ہے۔‘‘
عظیم نے سنتری سے کہا، ‘‘ جناب اپن فلم کا آدمی ہے۔‘‘
‘‘ یہ چھوکری؟‘‘ اس نے کرشنا کی طرف دیکھا۔
‘‘ یہ بھی فلم میں کام کرتی ہے۔ ہم لوگ کسی بُرے خیال سے یہاں نہیں آئے۔ یہاں پاس ہی اسٹوڈیو ہے ، اس میں کام کرتے ہیں۔ تھک جاتے ہیں تو یہاں چلے آتے ہیں کہ تھوڑی سی تفریح ہو گی۔ بارہ بجے ہماری شوٹنگ پھر شروع ہونے والی ہے۔‘‘
پیلی پگڑی والا مطمئن ہو گیا۔ پھر وہ بھٹساوے سے مخاطب ہوا، ‘‘ تم ادھر کیوں بیٹھا ہے ؟‘‘
بھٹساوے پہلے گھبرایا لیکن سنبھل کر اس نے مالا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور سنتری سے کہا، ‘‘ یہ ہمارا وائف ہے۔ ہمارے ٹیکسی نیچے کھڑی ہے۔‘‘
تھوڑی سی اور گفتگو ہوئی اور چاروں کی خلاصی ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ٹیکسی میں بیٹھ کر سوچا کہ کسی ہوٹل میں چلیں۔ عظیم کو ایسے ہوٹلوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا جہاں آدمی چند گھنٹوں کے لیے کسی غیر عورت کے ساتھ خلوت اختیار کر سکے۔ بھٹساوے نے بیکار اس سے مشورہ کیا۔ چنانچہ اس کو فوراّ ڈیوک یارڈ کا ‘‘سی ویو ہوٹل‘‘ یاد آیا اور اس نے ٹیکسی والے سے کہا کہ وہاں چلو۔ سی ویو ہوٹل میں بھٹساوے نے دو کمرے لیے۔ ایک میں عظیم اور کرشنا چلے گئے۔ دوسرے میں بھٹساوے اور مس کھانڈیکر۔ کرشنا بدستور مجسم دعوت تھی۔ لیکن عظیم جس نے دو پیگ اور پی لیے تھے ، فلسفی رنگ اختیار کر چکا تھا۔ اس نے کرشنا کو غور سے دیکھا اور سوچا کہ اتنی کم عمر لڑکی نے گناہ کا یہ بھیانک رستہ کیوں اختیار کیا۔ خون کی کمی کے باوجود اس میں جنس کی اتنی تپش کیوں ہے ؟ کب تک یہ نرم و نازک لڑکی جو گوشت نہیں کھاتی، کب تک اپنا گوشت پوست بیچتی رہے گی۔ عظیم کو اس پر بڑا ترس آیا۔ چنانچہ اس نے واعظ بن کر اس سے کہنا شروع کیا، ‘‘ کرشنا معصیت کی زندگی سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ خدا کے لیے اس راستے سے جس پر تم گامزن ہو، اپنے قدم ہٹا لو۔ یہ تمہیں ایسے مہیب غار میں لے جائے گا جہاں سے تم نکل نہ سکو گی۔ عصمت فروشی انسان کا بدترین فعل ہے۔ یہ رات اپنی زندگی کی روشن رات سمجھو۔ اس لیے کہ میں نے تمہیں نیک و بد سمجھا دیا ہے۔‘‘ کرشنا نے اس کا جو مطلب سمجھا وہ یہ تھا کہ عظیم اس سے محبت کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اور عظیم اپنا گناہ و ثواب کا مسئلہ بھول گیا۔
بعد میں وہ بڑا نادم ہوا۔ کمرے سے باہر نکلا تو بھٹساوے برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ کچھ اس انداز سے جیسے بھڑوں کے پورے چھتے کے ڈنک اس کے جسم میں کُھبے ہوئے ہیں۔ عظیم کو دیکھ کر وہ رک گیا۔ مطمئن کرشنا کی طرف نگاہ ڈالی اور پیچ و تاب کھا کر عظیم سے کہا، ‘‘ وہ سالی چلی گئی۔‘‘
عظیم جو اپنی ندامت میں ڈوبا ہوا تھا، چونکا، ‘‘ کون؟‘‘
‘‘ وہی - مالا۔‘‘
‘‘ کیوں؟‘‘
بھٹساوے کے لہجے میں عجیب و غریب احتجاج تھا، ‘‘ ہم اس کو اتنا وقت چومتے رہے۔ جب بولا آؤ تو سالی کہنے لگی تم ہمارا بھائی ہے۔ ہم نے کسی سے شادی کر لی ہے۔‘‘ اور باہر نکل گئی۔ کہ وہ سالا گھر میں آ گیا ہو گا۔
وہ جب اسکول روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس میں دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں اور ان کے گوشت میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اس کی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔
سوا نو بجے ہوں گے ، مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی، لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سماوار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دھواں نکل رہا تھا۔ ہر شئے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہے۔، موسم کچھ ویسی ہی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے ، آوازیں مدھم تھیں، جیسے سرگوشیاں ہو رہی ہیں، چپکے چپکے ، دھیرے دھیرے باتیں ہو رہی ہیں۔ ہولے ہولے لوگ قدم اٹھا رہے ہیں کہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔
مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جا رہا تھا۔ آج اس کی چال سُست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کئے ہوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دھواں اٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہوئی۔ اس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔
فضا میں اجلا پن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہر شے پر چڑھی ہوئی تھی جس سے فضا میں گدلا پن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلا پن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا، اس لئے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔
مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کر کے قطعی طور پر خوشی نہ ہوئی کہ اسکول سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے ، جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے۔ کچھ چھٹی کا پتہ معلوم کرتے ہی گھر چلے گئے تھے ، کچھ آ رہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے ، اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔
مسعود نے جب سنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اسے بالکل افسوس نہ ہوا۔ اس کا دل جذبات سے خالی تھا۔ البتہ اس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے دادا جان کا انتقال انہی دنوں میں ہوا تھا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دقت ہوئی تھی۔ اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے ، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبے پڑ جاتے تھے۔ ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر آ کر ہاتھ پاؤں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ ------ یہ سب کچھ اس کو اچھی طرح یاد تھا۔ چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سنی تو اسے یہ سب بیتی ہوئی باتیں یاد آ گئیں۔ اور اس نے سوچا جب سکتر صاحب کا جنازہ اٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بلبلا اٹھیں گے۔
مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنی کلاس کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے ڈیسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں، اس میں رکھیں اور باقی بستہ اٹھا کر گھر کی جانب چل پڑا۔
راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیئے ہوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعود دکان سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا، چھو کر دیکھے۔ چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر انگلی سے بکرے کے اس حصے کو چھو کر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا۔ گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بھلی معلوم ہوئی۔ قصائی دکان کے اندر چھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔
گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سنائی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ابا جی انہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہوئے ہیں۔ اب گھر میں صرف دو آدمی تھے۔ ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانے میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کر رہی تھی۔
چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا، اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابا جی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش طاق میں پڑا تھا مگر اس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوڈو اور اس قسم کے دوسرے کھیل جو اس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی، اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی ان کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاّ ایسے کھیلوں سے لگاؤ نہیں تھا۔
بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اس نے سبز سبز پتوں کا گیلا گیلا ڈھیر اٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اس میں سے سفید سفید دھواں اٹھنے لگا۔
اس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آ گیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا ‘‘ امی جان آج میں نے قصائی کی دکان پر دو بکرے دیکھے کھال اتری ہوئی تھی اور ان میں دھواں نکل رہا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتا ہے۔‘‘
‘‘ اچھا ------ ‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں چولہے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔
‘‘ ہاں، اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھُو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔‘‘
‘‘ اچھا ------ ‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانے سے باہر چلی گئی۔
‘‘ اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا تھا۔‘‘
‘‘ اچھا ------‘‘ مسعود کی بڑی بہن نے درباری سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی، ‘‘ کیسے پھڑکتا تھا؟‘‘
‘‘ یوں ------ یوں۔‘‘ مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کر کے اپنی بہن کو دکھائی۔
‘‘ پھر کیا ہوا؟‘‘
یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا۔ ‘‘ پھر کیا ہونا تھا۔ میں نے ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھُو کر بھی دیکھا تھا۔ گرم تھا۔‘‘
‘‘ گرم تھا۔۔۔۔ اچھا مسعود، یہ بتاؤ تم میرا ایک کام کرو گے ؟‘‘
‘‘ بتائیے۔‘‘
‘‘ آؤ، میرے ساتھ آؤ۔‘‘
‘‘ نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے ؟‘‘
‘‘ تم آؤ تو سہی، میرے ساتھ۔‘‘
‘‘ جی نہیں ------ آپ پہلے کام بتائیے۔‘‘
‘‘ دیکھو، میری کمر میں بڑا درد ہو رہا ہے ------ میں پلنگ پر لیٹتی ہوں۔ تم ذرا پاؤں سے دبا دینا ------ اچھے بھائی جو ہوئے۔ اللہ کی قسم بڑا درد ہو رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کر دیں۔
‘‘ یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے ؟ جب دیکھو درد ہو رہا ہے۔ اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں۔ کیوں نہیں اپنی سہلیوں سے کہتیں۔‘‘ مسعود اٹھ کھڑا ہوا اور راضی ہو گیا۔
‘‘ چلیئے ، لیکن آپ سے یہ کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دباؤں گا۔‘‘
‘‘ شاباش، شاباش۔‘‘ اس کی بہن اٹھ کھڑی ہوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔
صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جھکے ہوئے تھے ‘‘ مسعود آج ضرور بارش ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔
جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کر گھڑی میں وقت دیکھا۔ ‘‘ دیکھیئے باجی، گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دوں گا۔
‘‘ بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آ کر جلدی کمر دباؤ۔ ورنہ یاد رکھو، بڑے زور سے کان اینٹھوں گی۔‘‘ کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پاؤں سے اس کی کمر دبانا شروع کر دی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں، تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ، ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔
کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا۔ جب مسعود کا پاؤں اس حصے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کر دیئے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر۔ وہ ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل ہی نہ تھا۔
ایک دو بار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے۔ اس قسم کی حرکت جو اس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بد دلی سے کمر دبانا شروع کی تھی، مگر اس اسے اس کام میں لذت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی، اس گمنام سی لذت میں اضافہ کر رہی تھی۔
ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے ، مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا۔ جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی، ‘‘ شاباش مسعود، شاباش، لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو۔ بالکل اسی طرح ------ شاباش میرے بھائی۔‘‘
مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا۔ لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوار کا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے۔ چنانچہ اس نے کہا، ‘‘ یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کر دیا۔ سیدھی لیٹ جائیے ، میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔‘‘
کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں ادھر ادھر ہونے کے باعث جو گُدگُدی ہوئی تھی، اس کا اثر ابھی اس کے جسم میں باقی تھا۔ ‘‘ نا بھائی، میرے گُدگُدی ہوتی ہے۔ تم وحشیوں کی طرح دباتے ہو۔‘‘
مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ ‘‘ نہیں، اب کی دفعہ میں پورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں ------ آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دباؤں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔‘‘
دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے پیر چلانے شروع کیئے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازیگر کر چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔
اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں۔ مگر وہ لذت جو اسے اب محسوس ہو رہی تھی، پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا کلثوم کو اگر ذبح کیا جائے تو کھال اتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کر دیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔
‘‘ بس، بس ‘‘ کلثوم تھک گئی ‘‘ چلیں بس۔‘‘
مسعود کو شرارت سوجی۔ وہ پلنگ سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گُدگُدی شروع کر دی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے لیکن جب اس نےیہ ارادہ کر کے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔
جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہو رہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دلنواز حرارت محسوس کر رہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اس کے گالوں کے ساتھ مس ہوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کے ناک پر پڑیں تو ایک جھُرجھُری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے ، کوٹھے کی دیورا پر ایک کبوتر اور ایک کبوتری پاس پاس پر پھُلائے بیٹھے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گلِ داؤدی اور نازبُو کے ہرے ہرے پتے اوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں کھلی ہوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے ارد گرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اُونی کپڑے۔
مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا جن کا مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چھُو کر دیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا۔ پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اسے آ رہا تھا۔
بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کس لیں اور ان کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانے میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا۔ ابھی اس پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آ گیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اٹھ کر فوراّ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔
کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی۔ کیونکہ اب ہوا بھی چل رہی تھی۔ مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کو راحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹھوں میں ہلکی ہلکی دکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ اس کا سارا جسم کھینچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔
دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھا اور باورچی خانے سے ہوتا ہوا صحن میں آ نکلا۔ کوئی باورچی خانے میں تھا نہ صحن میں۔ ادھر ادھر جتنے کمرے تھے ، سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رکھ گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک بار جب اس نے زور کی ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پر لگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی ‘‘ کون؟‘‘
‘‘ جی میں ہوں، مسعود۔‘‘
اندر سے آواز آئی ‘‘کیا کر رہے ہو؟‘‘
‘‘ جی کھیل رہا ہوں۔‘‘
‘‘ کھیلو۔۔۔۔۔۔‘‘ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا، ‘‘ تمہاری ماں میرا سر دبا رہی ہے ------ زیادہ شور نہ مچانا۔‘‘
یہ سن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم باز ------ مسعود کو شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم باز دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیئے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو پاس پاس لیٹی تھیں خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔
بملا کے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔
مسعود کچھ سمجھ نہ سکا۔ اس کے دماغ پر دھواں سے چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاًّ اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کر دی۔
بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پر بھی ہاکی میں خم پیدا ہو جائے گا اور زیادہ زور لگانے پر تو ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زور لگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کشتی لڑتا رہا۔ جب تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔
چودھری غلام عباس کی تازہ ترین تقریر پر تبادلہ خیالات ہو رہا تھا۔ ٹی ہاؤس کی فضا وہاں کی چائے کی طرح گرم تھی۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ ہم کشمیر لے کر رہیں گے اور یہ کہ ڈوگرہ راج کا فی الفور خاتمہ ہو جانا چاہیے۔
سب کے سب مجاہد تھے۔ لڑائی کے فن سے نابلد تھے ، مگر میدان جنگ میں جانے کے لیے سر بکف تھے۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ایک دم ہلہ بول دیا جائے تو یوں چٹکیوں میں کشمیر سر ہو جائے گا۔ پھر ڈاکٹر گراہموں کی کوئی ضرورت نہ رہے گی، نہ یو این او میں ہر چھٹے مہینے گڑگڑانا پڑے گا۔
ان مجاہدوں میں میں بھی تھا۔ مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح میں بھی کشمیری ہوں۔ اس لیے کشمیر میری زبردست کمزوری ہے۔ چنانچہ میں نے باقی مجاہدوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اور آخر میں طے یہ ہوا کہ جب لڑائی شروع ہو تو ہم سب اس میں شامل ہوں اور صفِ اول میں نظر آئیں۔
حنیف نے یوں تو کافی گرم جوشی کا اظہار کیا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ افسردہ سا ہے۔ میں نے بہت سوچا مگر مجھے اس افسردگی کی کوئی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔
چائے پی کر باقی سب چلے گئے ، لیکن میں اور حنیف بیٹھے رہے۔ اب ٹی ہاؤس قریب قریب خالی تھا۔ ہم سے بہت دور ایک کونے میں دو لڑکے ناشتہ کر رہے تھے۔
حنیف کو میں ایک عرصے سے جانتا تھا۔ مجھ سے قریب قریب دس برس چھوٹا تھا۔ بی-اے پاس کرنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ اردو کا ایم-اے کروں یا انگریزی کا۔ کبھی کبھی اس کے دماغ پر یہ سنک بھی سوار ہو جاتی کہ ہٹاؤ پڑھائی کو، سیاحی کرنی چاہیے۔
میں نے حنیف کو غور سے دیکھا۔ وہ ایش ٹرے میں سے ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اٹھا اٹھا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، وہ افسردہ تھا۔ اس وقت بھی اس کے چہرے پر وہی افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا موقع اچھا ہے ، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ‘‘ تم خاموش کیوں ہو؟‘‘
حنیف نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ ماچس کی تیلی کے ٹکڑے کر کے ایک طرف پھینکے اور جواب دیا، ‘‘ ایسے ہی۔‘‘
میں نے سگریٹ سلگایا، ‘‘ ایسے ہی، تو ٹھیک جواب نہیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے ------ تم غالباً کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو۔‘‘
حنیف نے اثبات میں سر ہلایا، ‘‘ ہاں۔‘‘
‘‘ اور وہ واقعہ کشمیر کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
حنیف چونکا ‘‘ آپ نے کیسے جانا؟‘‘
میں نے مسکرا کر کہا، ‘‘ شرلک ہومز ہوں میں بھی ------ ارے بھئی کشمیر کی باتیں جو ہو رہی تھیں ------ جب تم نے مان لیا کہ سوچ رہے ہو ------ کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو تو میں فوراً اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اس بیٹے ہوئے واقعے کا تعلق کشمیر کے سوا اور کسی سرزمین سے نہیں ہو سکتا ------ کیا وہاں کوئی رومان لڑا تھا تمہارا؟‘‘
‘‘ رومان ------ معلوم نہیں ------ جانے کیا تھا۔ بہرحال، کچھ نہ کچھ ہوا ضرور تھا۔ جس کی یاد اب تک باقی ہے۔‘‘
میری خواہش تھی کہ میں حنیف سے اس کی داستان سنوں۔ ‘‘ اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ وہ کچھ نہ کچھ کیا تھا؟‘‘
حنیف نے مجھ سے سگریٹ مانگ کر سلگایا اور کہا، ‘‘ منٹو صاحب، کوئی خاص دلچسپ نہیں ------ لیکن اگر آپ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور مجھے ٹوکیں گے نہیں تو میں آج سے تین برس پہلے جو کچھ ہوا، آپ کو من و عن بتا دوں گا ------ میں افسانہ گو نہیں ------ پھر بھی میں کوشش کروں گا۔‘‘
میں نے وعدہ کیا کہ میں اس کے تسلسل کو نہیں توڑوں گا۔ اصل میں وہ اب دل و دماغ کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی داستان بیان کرنا چاہتا تھا۔
حنیف نے تھوڑے توقف کے بعد کہنا شروع کیا، ‘‘ منٹو صاحب، آج سے دو برس پہلے کی بات ہے جب کہ بٹوارہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ میری طبیعت اداس تھی۔ معلوم نہیں کیوں ------ میرا خیال ہے کہ ہر کنوارہ نوجوان اس قسم کے موسم میں ضرور اداسی محسوس کرتا ہے۔ خیر، میں نے ایک روز کشمیر جانے کا ارادہ کر لیا۔ مختصر سا سامان لیا اور لاریوں کے اڈے پر جا پہنچا۔ ٹکٹ لیا۔ لاری جب کد پہنچی تو میرا ارادہ بدل گیا۔ میں نے سوچا سری نگر میں کیا دھرا ہے ، بیسیوں مرتبہ دیکھ چکا ہوں ------ اگلے اسٹیشن بٹوت پر اتر جاؤں گا۔ سنا ہے بڑا صحت افزا مقام ہے۔ تپ دق کے مریض یہیں آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر جاتے ہیں۔ چنانچہ میں بٹوت اتر گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہر گیا۔ ہوٹل بس ایسے ہی واجبی سا تھا۔ بہرحال ٹھیک تھا۔ مجھے بٹوت پسند آ گیا۔ صبح چڑھائی کی طرف سیر کو نکل جاتا، واپس آ کر خالص مکھن اور ڈبل روٹی کا ناشتہ کرتا اور لیٹ کر کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔
دن اس صحت افزا فضا میں بڑی اچھی طرح گزر رہے تھے۔ آس پاس جتنے دوکاندار تھے سب میرے دوست بن گئے تھے ، خاص طور پر سردار لہنا سنگھ جو درزیوں کا کام کرتا تھا۔ میں اس کی دکان پر گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ عشق و محبت کے افسانے سننے اور سنانے کا اسے قریب قریب خبط تھا۔ مشین چلتی رہتی تھی اور وہ یا تو کوئی داستان عشق سنتا رہتا تھا یا سناتا رہتا تھا۔
اس کو بٹوت سے متعلق ہر چیز کا علم تھا۔ کون کس سے عشق لڑا رہا ہے ، کس کس کی آپس میںکھٹ پٹ ہوئی۔ کون کون سی لونڈیا پر پرزے نکال رہی ہے۔ ایسی تمام باتیں اس کی جیب میں ٹھنسی رہتی تھیں۔
شام کو میں اور وہ اترائی کی طرف سیر کو جاتے تھے اور بانہال کے درے تک پہنچ کر پھر آہستہ آہستہ واپس چلے آتے تھے۔ ہوٹل سے اترائی کی طرف پہلے موڑ پر سڑک کے داہنے ہاتھ مٹی کے بنے ہوئے کوارٹر تھے۔ میں نے ایک دن سردار جی سے پوچھا کہ یہ کوارٹر کیا رہائش کے لیے ہیں؟ یہ میں نے اس لیے دریافت کیا تھا کہ مجھے وہ پسند آ گئے تھے۔ سردار جی نے مجھے بتایا کہ ہاں، رہائش ہی کے لیے ہیں۔ آج کل اس میں سرگودھے کے ایک ریلوے بابو ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دھرم پتنی بیمار ہے۔ میں سمجھ گیا کہ دق ہو گی۔ خدا معلوم میں دق سے اتنا کیوں ڈرتا ہوں۔ اس دن کے بعد جب کبھی میں ادھر سے گزرا، ناک اور منہ پر رومال رکھ کے گزرا۔ میں داستان کو طویل نہیں کرنا چاہتا۔
قصہ مختصر یہ کہ ریلوے بابو، جن کا نام کندن لال تھا، سے میری دوستی ہو گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی بیمار بیوی کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اس فرض کو محض ایک فرض سمجھ کر ادا کر رہا ہے۔ وہ اس کے پاس بہت کم جاتا تھا اور دوسرے کوارٹر میں رہتا تھا جس میں وہ دن میں تین مرتبہ فنائل چھڑکتا تھا۔ مریضہ کی دیکھ بھال اس کی چھوٹی بہن سمتری کرتی تھی۔ دن رات یہ لڑکی جس کی عمر بمشکل چودہ برس کی ہو گی، اپنی بہن کی خدمت میں مصروف رہتی تھی۔
میں نے سمتری کو پہلی مرتبہ مگو نالے پر دیکھا۔ میلے کپڑوں کا بڑا انبار پاس رکھے وہ نالے کے پانی سے غالباً شلوار دھو رہی تھی کہ میں پاس سے گزرا۔ آہٹ سن کر وہ چونکی۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا۔ میں نے اس کا جواب دیا اور اس سے پوچھا، تم مجھے جانتی ہو؟ سمتری نے باریک آواز میں کہا، جی ہاں۔ آپ بابو جی کے دوست ہیں۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ مظلومیت ہے جو سکڑ کر سمتری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس سے باتیں کروں اور کچھ کپڑے دھو ڈالوں تاکہ اس کچھ بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مگر پہلی ملاقات میں ایسی بے تکلفی نامناسب تھی۔
دوسری ملاقات بھی اسی نالے پر ہوئی۔ وہ کپڑوں پر صابن لگا رہی تھی تو میں نے اس کو نمستے کہا اور چھوٹی چھوٹی بٹیوں کے بستر پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ کسی قدر گھبرائی لیکن جب باتیں شروع ہوئیں تو اس کی یہ گھبراہٹ دور ہو گئی اور وہ اتنی بے تکلف ہو گئی کہ اس نے مجھے اپنے گھر کے تمام معاملات بتانے شروع کر دیئے۔
بابو جی یعنی کندن لال سے اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئے پانچ برس ہو چلے تھے۔ پہلے برس تو بابو جی کا سلوک اپنی بیوی سے ٹھیک رہا، لیکن جب رشوت کے الزام میں وہ نوکری سے معطل ہوا تو اس نے اپنی بیوی کا زیور بیچنا چاہا۔ زیور بیچ کر وہ جوا کھیلنا چاہتا تھا کہ دُگنے روپے ہو جائیں گے۔ بیوی نہ مانی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس نے اس کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ سارا دن ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھتا اور کھانے کو کچھ نہ دیتا۔ اس نے مہینوں ایسا کیا۔ آخر ایک دن عاجز آ کر اس کی بیوی نے اپنے زیور اس کے حوالے کر دیئے۔ لیکن زیور لے کر وہ ایسا غائب ہو کہ چھ مہینے تک اس کی شکل نظر نہ آئی۔ اس دوران میں سمتری کی بہن فاقہ کشی کرتی رہی۔ وہ اگر چاہتی تو اپنے میکے جا سکتی تھی۔ اس کا باپ مالدار تھا اور اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ مگر اس نے مناسب نہ سمجھا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کو دق ہو گئی۔ کندن لال چھ مہینے کے بعد اچانک گھر آیا تو اس کی بیوی بستر پر پڑی تھی۔ کندن لال اب نوکری پر بحال ہو چکا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی دیر کہاں رہا تو وہ گول کر گیا۔
سمتری کی بہن نے اس سے زیوروں کے بارے میں نہیں پوچھا۔ اس کا پتی گھر واپس آ گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ بھگوان نے اس کی سن لی۔ اس کی صحت کسی قدر بہتر ہو گئی مگر ‘‘ ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق‘‘ والا معاملہ تھا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ اس اثناء میں سمتری کے ماں باپ کو پتہ چل گیا۔ وہ فوراً وہاں پہنچے اور کندن لال کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو فوراً کسی پہاڑ پر لے جائے۔ خرچ وغیرہ کا ذمہ انہوں نے کہا، ہمارا ہے۔ کندن لال نے کہا چلو سیر ہی سہی، سمتری کو دل بہلاوے کے لیے ساتھ لیا اور بٹوت پہنچ گیا۔
یہاں وہ اپنی بیوی کی قطعاً دیکھ بھال نہیں کرتا تھا۔ سارا دن باہر تاش کھیلتا رہتا۔ سمتری پرہیزی کھانا پکاتی تھی۔ اس لیے وہ صبح شام ہوٹل سے کھانا کھاتا۔ ہر مہینے سسرال لکھ دیتا کہ خرچ زیادہ ہو رہا ہے ، چنانچہ وہاں سے رقم میں اضافہ کر دیا جاتا۔
میں داستان لمبی نہیں کرنا چاہتا۔ سمتری سے میری ملاقات اب ہر روز ہونے لگی۔
نالے پر وہ جگہ جہاں وہ کپڑے دھوتی تھی، بڑی ٹھنڈی تھی۔ نالے کا پانی بھی ٹھنڈا تھا۔ سیب کی درخت کی چھاؤں بہت پیاری تھی اور گول گول بٹیاں، جی چاہتا تھا کہ سارا دن انہیں اٹھا اٹھا کر نالے کے شفاف پانی میں پھینکتا رہوں۔ یہ تھوڑی سی بھونڈی شاعری میں نے اس لیے کی ہے کہ مجھے سمتری سے محبت ہو گئی تھی اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اس اسے قبول کر لیا ہے۔ چنانچہ ایک دن جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور آنکھیں بند کر لیں۔ سیب کے درخت میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور مگو نالے کا پانی گنگناتا ہوا بہہ رہا تھا۔
وہ خوبصورت تھی۔ گو دُبلی تھی مگر اس طور پر کہ غور کرنے پر آدمی اس نتیجے پر پہنچتا تھا کہ اسے دُبلی ہی ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ ذرا موٹی ہوتی تو اتنے نازک طور پر خوبصورت نہ ہوتی۔ اس کی آنکھیں غزالی تھیں۔ جن میں قدرتی سرمہ لگا رہتا تھا۔ ٹھمکا سا قد، گھنے سیاہ بال جو اس کی کمر تک آتے تھے۔ چھوٹا سا کنوارا جوبن۔ منٹو صاحب میں اس کی محبت میں سرتاپا غرق ہو گیا۔
ایک دن جب وہ اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی، میں نے وہ بات جو بڑے دنوں سے میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی، اس سے کہی کہ دیکھو سمتری، میں مسلمان ہوں، تم ہندو، بتاؤ انجام کیا ہو گا۔ میں کوئی اوباش نہیں کہ تمہیں خراب کر کے چلتا بنوں۔ میں تمہیں اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔ سمتری نے میرے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا، حنیف میں مسلمان ہو جاؤں گی۔
میرے سینے کا بوجھ اتر گیا۔ طے ہوا کہ جونہی اس کی بہن اچھی ہو گی، وہ میرے ساتھ چل دے گی۔ اس کی بہن کو کہاں اچھا ہونا تھا۔ کندن لال نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس کی موت کا منتظر ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی تھی۔ گو اس طرح سوچنا اور اس کا علاج کرنا کچھ مناسب نہیں تھا، بہرحال حقیقت سامنے تھی۔ کم بخت مرض ہی ایسا تھا کہ بچنا محال تھا۔
سمتری کی بہن کی طبیعت دن بدن گرتی گئی۔ کندن لال کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ چونکہ اب سسرال سے روپے زیادہ آنے لگے تھے اور خرچ کم ہو گیا تھا یا خود کم کر دیا گیا تھا، اس نے ڈاک بنگلے جا کر شراب پینا شروع کر دی اور سمتری سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔
منٹو صاحب، جب میں نے یہ سنا تو میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اتنی جرات نہیں تھی ورنہ میں بیچ سڑک کے اس کی مرمت جوتوں سے کرتا۔ میں نے سمتری کو اپنے سینے سے لگایا، اس کے آنسو پونچھے اور دوسری باتیں شروع کر دیں جو پیار محبت کی تھیں۔
ایک دن میں صبح سویرے سیر کو نکلا۔ جب ان کوارٹروں کے پاس پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ سمتری کی بہن اللہ کو پیاری ہو چکی ہے۔ چنانچہ میں نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کندن لال کو آواز دی۔ میرا خیال درست تھا۔ بے چاری نے رات گیارہ بجے آخری سانس لیا تھا۔
کندن لال نے مجھے سے کہا کہ میں تھوڑی دیر وہاں کھڑا رہوں تاکہ وہ کریا کرم کے لیے بندوبست کر آئے۔ وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے سمتری کا خیال آیا۔ وہ کہاں تھی۔ جس کمرے میں اس کی بہن کی لاش تھی، بالکل خاموش تھا۔ میں ساتھ والے کوارٹر کی طرف بڑھا۔ اندر جھانک کر دیکھا، سمتری چارپائی پر گٹھری سی بنی لیٹی تھی۔ میں اندر چلا گیا۔ اس کا کندھا ہلا کر میں نے کہا، سمتری، سمتری۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی شلوار بڑے بڑے دھبوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے پھر اس کا کندھا ہلایا مگر وہ خاموش رہی۔ میں نے بڑے پیار سے پوچھا، کیا بات ہے سمتری؟ سمتری نے رونا شروع کر دیا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ کیا بات ہے سمتری۔ سمتری سسکیوں بھری آواز میں بولی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ میں نے کہا کیوں۔ افسوس ہے کہ تمہاری بہن کا انتقال ہو گیا، مگر تم تو اپنی جان ہلکان نہ کرو۔ اس نے اٹک اٹک کر کہا، اس کی آواز نہیں نکلتی تھی، وہ مر گئی ہے ، پر میں اس کا غم نہیں کر سکتی۔ میں خود مر چکی ہوں۔ میں اس کا مطلب نہ سمجھا۔ تم کیوں مرو۔ تمہیں تو میرا جیون ساتھی بننا ہے۔ یہ سن کر وہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ جاؤ حنیف جاؤ۔ میں اب کسی کام کی نہیں رہی۔ کل رات، کل رات باجو جی نے میرا خاتمہ کر دیا۔ میں چیخی، ادھر دوسرے کوارٹر سے جیجی چیخی اور مر گئی۔ وہ سمجھ گئی تھی۔ ہائے ، کاش میں نہ چیخی ہوتی۔ وہ مجھے کیا بچا سکتی تھی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی، دیوانہ وار میرا بازو پکڑا اور گھسیٹتی باہر لے گئی۔ پھر دوڑ کر کوارٹر میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حرامزادہ کندن لال آیا۔ اس کے ساتھ چار پانچ آدمی تھے۔ خدا کی قسم اکیلا ہوتا تو میں پتھر مار مار کر اسے جہنم واصل کر دیتا۔ بس یہ ہے میری کہانی۔ سمتری کی کہانی جس کے یہ الفاظ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ کس قدر دکھ ہے ان تین لفظوں میں۔
حنیف کے آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا، ‘‘ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا تھا۔ تم نے سمتری کو قبول کیوں نہ کیا؟‘‘
حنیف نے آنکھیں جھکا لیں ------ خود کو ایک موٹی گالی دے کر اس نے کہا، ‘‘ کمزوری ------ مرد عموماً ایسے معاملوں میں بڑا کمزور ہوتا ہے ------ لعنت ہے اس پر ------‘‘
جمیل کو اپنا شیفر لائف ٹائم قلم مرمت کے لیے دینا تھا۔ اس نے ٹیلی فون ڈائریکٹری میں شیفر کمپنی کا نمبر تلاش کیا۔ فون کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کے ایجنٹ میسرز ڈی جے سمتوئر ہیں۔ جن کا دفتر گرین ہوٹل کے پاس واقع ہے۔
جمیل نے ٹیکسی لے اور فورٹ کی طرف چل دیا۔ گرین ہوٹل پہنچ کر اسے میسرز ڈی جے سمتوئر کا دفتر تلاش کرنے میں دقت نہ ہوئی۔ بالکل پاس تھا مگر تیسری منزل پر۔
لفٹ کے ذریعے جمیل وہاں پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی چوبی دیوار کی چھوٹی سی کھڑکی کے پیچھے اسے ایک خوش شکل اینگلوانڈین لڑکی نظر آئی جس کی چھاتیاں غیر معمولی طور پر نمایاں تھیں۔ جمیل نے قلم اس کھڑکی کے اندر داخل کر دیا اور منہ سے کچھ نہ بولا۔ لڑکی نے قلم اس کے ہاتھ سے لے لیا۔کھول کر ایک نظر دیکھا اور ایک چٹ پر کچھ لکھ کر جمیل کے حوالے کر دی۔ منہ سے وہ بھی کچھ نہ بولی۔
جمیل نے چٹ دیکھی۔ قلم کی رسید تھی۔ چلنے ہی والا تھا کہ پلٹ کر اس نے لڑکی سے پوچھا۔ ‘‘ دس بارہ روز تک تیار ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے۔‘‘
لڑکی بڑے زور سے ہنسی۔ جمیل کچھ کھسیانا سا ہو گیا۔ ‘‘ میں آپ کی اس ہنسی کا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘
لڑکی نے کھڑکی کے ساتھ منہ لگا کر کہا، ‘‘ مسٹر ------ آج کل وار ہے وار ------ یہ قلم امریکہ جائے گا ------ تم نو مہینے کے بعد پتہ کرنا۔‘‘
جمیل بوکھلا گیا، ‘‘ نو مہینے۔‘‘
لڑکی نے اپنے بریدہ بالوں والا سر ہلایا ------ جمیل نے لفٹ کا رخ کیا۔
یہ نو مہینے کا سلسلہ خوب تھا ------ نو مہینے ------ اتنی مدت بعد تو عورت گل گوتھنا بچہ پیدا کر کے ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ ------ نو مہینے ------ نو مہینے تک اس چھوٹی سی چٹ کو سنبھالے رکھو۔ اور یہ بھی کون وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ نو مہینے تک آدمی یاد رکھ سکتا ہے کہ اس نے ایک قلم مرمت کے لیے دیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس دوران میں وہ کم بخت مر کھپ ہی جائے۔
جمیل نے سوچا، یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ قلم میں معمولی سی خرابی تھی۔ اس کا فیڈر ضرورت سے زیادہ روشنائی سپلائی کرتا تھا۔ اس کے لیے اسے امریکہ کے ہسپتال میں بھیجنا صریحاً چالبازی تھی۔ مگر پھر اس نے سوچا، لعنت بھیجو جی اس قلم پر۔ امریکہ جائے یا افریقہ۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے یہ بلیک مارکیٹ سے ایک سو پچھتر روپے میں خریدا تھا۔ مگر اس نے ایک برس اسے خوب استعمال بھی تو کیا تھا۔ ہزاروں صفحے کالے کر ڈالے تھے۔ چنانچہ وہ قنوطی سے ایک دم رجائی بن گیا۔ اور رجائی بنتے ہی اسے خیال آیا کہ وہ فورٹ میں ہے اور فورٹ میں شراب کی بے شمار دکانیں۔ وسکی تو ظاہر ہے نہیں ملے گی لیکن فرانس کی بہترین کونک برانڈی تو مل جائے گی، چنانچہ اس نے قریب والی دکان کا رخ کیا۔
برانڈی کی ایک بوتل خرید کر وہ لوٹ رہا تھا کہ گرین ہوٹل کے پاس آ کے رک گیا۔ ہوٹل کے نیچے قد آدم شیشوں کا بنا ہوا قالینوں کا شو روم تھا۔ یہ جمیل کے دوست پیر صاحب کا تھا۔
اس نے سوچا چلو اندر چلیں۔ چنانچہ چند لمحات کے بعد ہی وہ شو روم میں تھا اور اپنے دوست پیر سے ، جو عمر میں اس سے کافی بڑا تھا، ہنسی مذاق کی گفتگو کر رہا تھا۔
برانڈی کی بوتل باریک کاغذ میں لپٹی دبیر ایرانی قالین پر لیٹی ہوئی تھی۔ پیر صاحب نے اس کر طرف اشارہ کرتے ہوئے جمیل سے کہا، ‘‘ یار اس دلہن کا گھونگٹ تو کھولو۔ ذرا اس سے چھیڑ خانی تو کرو۔‘‘
جمیل مطلب سمجھ گیا، ‘‘ تو پیر صاحب، گلاس اور سوڈے منگوائیے۔ پھر دیکھئے کیا رنگ جمتا ہے۔‘‘
فوراً گلاس اور یخ بستہ سوڈے آ گئے۔ پہلا دور ہوا۔ دوسرا دور شروع ہونے ہی والا تھا کہ پیر صاحب کے ایک گجراتی دوست اندر چلے ائے اور بڑی بے تکلفی سے قالین پر بیٹھ گئے۔ اتفاق سے ہوٹل کا چھوکرا دو کے بجائے تین گلاس اٹھا لایا تھا۔ پیر صاحب کے گجراتی دوست نے بڑی صاف اردو میں چند ادھر ادھر کی باتیں کیں اور گلاس میں یہ بڑا پیگ ڈال کر اس کو سوڈے سے لبا لب بھر دیا۔ تین چار لمبے لمبے گھونٹ لے کر انہوں نے رومال سے اپنا منہ صاف کیا۔ ‘‘ سگریٹ نکالو یار۔‘‘
پیر صاحب میں ساتوں عیب شرعی تھے۔ مگر وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ جمیل نے جیب سے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور قالین پر رکھ دیا۔ ساتھ ہی لائٹر ------
اس پر پیر صاحب نے جمیل سے اس گجراتی کا تعارف کرایا۔ ‘‘ مسٹر نٹور لال ------ آپ موتیوں کی دلالی کرتے ہیں۔‘‘
جمیل نے ایک لحظے کے لیے سوچا، کوئلوں کی دلالی میں تو انسان کا منہ کالا ہوتا ہے۔ موتیوں کی دلالی میں ------ ‘‘
پیر صاحب نے جمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ‘‘ مسٹر جمیل، مشہور سونگ رائٹر۔‘‘
دونوں نے ہاتھ ملایا اور برانڈی کا نیا دور شروع ہوا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بوتل خالی ہو گئی۔
جمیل نے دل میں سوچا کہ کم بخت موتیوں کا دلال بلا کا پینے والا ہے۔ میری پیاس اور سرور کی ساری برانڈی چڑھا گیا۔ خدا کرے اسے موتیا بند ہو۔
مگر جونہی آخری دور کے پیگ نے جمیل کے پیٹ میں اپنے قدم جمائے ، اس نے نٹور لال کو معاف کر دیا۔ اور آخر میں اس سے کہا ‘‘ مسٹر نٹور، اٹھئے ایک بوتل اور ہو جائے۔‘‘
نٹور لال فوراً اٹھا۔ اپنے سفید دگلے کی شکنیں درست کیں۔ دھوتی کی لانگ ٹھیک کی اور کہا، چلئے۔‘‘
جمیل پیر صاحب سے مخاطب ہوا، ‘‘ ہم ابھی حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
جمیل اور نٹور نے باہر نکل کر ٹیکسی لی اور شراب کی دکان پر پہنچے۔ جمیل نے ٹیکسی روکی مگر نٹور نے کہا، ‘‘ مسٹر جمیل ------ یہ دکان ٹھیک نہیں۔ ساری چیزیں مہنگی بیچتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطب ہوا، ‘‘ دیکھو کولابہ چلو۔‘‘
کولابہ پہنچ کر نٹور، جمیل کو شراب کی ایک چھوٹی سی دکان میں لے گیا۔ جو برانڈ جمیل نے فورٹ سے لیا تھا، وہ تو نہ مل سکا، ایک دوسرا مل گیا جس کی نٹور نے بہت تعریف کی کہ نمبر ون ہے۔
یہ نمبر ون چیز خرید کر دونوں باہر نکلے ، ساتھ ہی بار تھی۔ نٹور رک گیا، ‘‘ مسٹر جمیل، کیا خیال ہے آپ کا، ایک دو پیگ یہیں پی کر چلتے ہیں۔‘‘
جمیل کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کا نشہ حالتِ نزاع میں تھا۔ چنانچہ دونوں بار کے اندر داخل ہوئے۔ معاً جمیل کو خیال آیا کہ بار والے تو کبھی باہر کی شراب پینے کی اجازت نہیں دیا کرتے۔ ‘‘ مسٹر نٹور آپ یہاں کیسے پی سکتے ہیں۔ یہ لوگ اجازت نہیں دیں گے۔
نٹور نے زور سے آنکھ ماری۔ ‘‘ سب چلتا ہے۔‘‘
اور یہ کہہ کر ایک کیبن کے اندر گھس گیا۔ جمیل بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ نٹور نے بوتل سنگین تپائی پر رکھی اور بیرے کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس کو بھی آنکھ ماری، ‘‘ دیکھو دو سوڈے روجرز ------ ٹھنڈے ------ اور دو گلاس، ایک دم صاف۔‘‘
بیرا یہ حکم سن کر چلا گیا اور فوراً سوڈے اور گلاس حاضر کر دیئے۔ اس پر نٹور نے اسے دوسرا حکم دیا، ‘‘ فسٹ کلاس چپس اور ٹومیٹو سوس ------ اور فسٹ کلاس کٹلس۔‘‘
بیرا چلا گیا۔ نٹور جمیل کی طرف دیکھ کر ایسے ہی مسکرایا۔ بوتل کا کارک نکالا اور جمیل کے گلاس میں اس سے پوچھے بغیر ایک ڈبل ڈال دیا۔ خود اس سے کچھ زیادہ۔ سوڈا حل ہو گیا تو دونوں نے اپنے گلاس ٹکرائے۔
جمیل پیاسا تھا۔ ایک ہی جرعے میں اس نے آدھا گلاس ختم کر دیا۔ سوڈا چونکہ بہت ٹھنڈا اور تیز تھا اس لیے پھوں پھوں کرنے لگا۔
دس پندرہ منٹ کے بعد چپس اور کٹلس آ گئے۔ جمیل صبح گھر سے ناشتہ کر کے نکلا تھا لیکن برانڈی نے اسے بھوک لگا دی۔ چپس گرم گرم تھے ، کٹلس بھی۔ وہ پل پڑا۔ نٹور نے اس کا ساتھ دیا۔ چنانچہ دو منٹ میں دونوں پلیٹیں صاف۔
دو پلیٹیں اور منگوائی گئیں۔ جمیل نے اپنے لیے چپس بھی منگوائے۔ دو گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ بوتل کی تین چوتھائی غائب ہو چکی تھی۔ جمیل نے سوچا کہ اب پیر صاحب کے پاس جانا بیکار ہے۔
نشے خوب جم رہے تھے ، سرور خوب گھٹ رہے تھے۔ نٹور اور جمیل دونوں ہوا کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ایسے سواروں کو عام طور پر ایسی وادیوں میں جانے کی بڑی خواہش ہوتی ہے جہاں انہیں عریاں بدن حسین عورتیں ملیں۔ وہ ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر گھوڑے پر بٹھا لیں اور یہ جا وہ جا۔
جمیل کا دل و دماغ اس وقت کسی ایسی ہی وادی کے متعلق سوچ رہا تھا جہاں اس کی کسی ایسی خوبصورت عورت سے مڈبھیڑ ہو جائے جس کو وہ اپنے تپتے ہوئے سینے کے ساتھ بھینچ لے اس زور سے کہ اس کی ہڈیاں تک چٹخ جائیں۔
جمیل کو اتنا تو معلوم تھا کہ وہ ایسی جگہ پر ہے ------ مطلب ہے ایسے علاقے میں ہے جو اپنے بروتھلز (قحبہ خانے ) کی وجہ سے ساری بمبئی میں مشہور ہے۔ جنہیں عیاشی کرنا ہوتی ہے وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ شہر سے بھی جس لڑکی کو لک چھپ کر پیشہ کرنا ہوتا ہے ، یہیں آتی ہے۔ ان معلومات کی بنا پر اس نے نٹور سے کہا، ‘‘ میں نے کہا ------ وہ ------ وہ ------ میرا مطلب ہے ، ادھر کوئی چھوکری ووکری نہیں ملتی؟‘‘
نٹور نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ انڈیلا اور ہنسا، ‘‘ مسٹر جمیل، ایک نہیں ہزاروں ------ ہزاروں ------ ہزاروں ------‘‘
یہ ہزاروں کی گردان جاری رہتی اگر جمیل نے اس کی بات کاٹی نہ ہوتی، ‘‘ ان ہزاروں میں سے آج ایک ہی مل جائے تو ہم سمجھیں گے کہ نٹور بھائی نے کمال کر دیا۔‘‘
نٹور بھائی مزے میں تھے۔ جھوم کر کہا، ‘‘ جمیل بھائی ------ ایک نہیں ہزاروں ------ چلو اس کو ختم کرو۔‘‘
دونوں نے بوتل میں جو کچھ بچا تھا آدھ گھنٹے کے اندر اندر ختم کر دیا۔ بل ادا کرنے اور بیرے کو تگڑی ٹپ دینے کے بعد دونوں باہر نکلے۔ اندر اندھیرا تھا۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی۔ جمیل کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ایک لحظے کے لیے اسے کچھ نظر نہ آیا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں تیز روشنی کی عادی ہوئیں تو اس نے نٹور سے کہا، ‘‘ چلو بھئی۔‘‘
نٹور نے تلاشی لینے والی نگاہوں سے جمیل کی طرف دیکھا، ‘‘ مال پانی ہے نا؟‘‘
جمیل کے ہونٹوں پر نشیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نٹور کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھوکا دے کر اس نے کہا، ‘‘ بہت۔ نٹور بھائی بہت۔‘‘ اور اس نے جیب سے پانچ نوٹ سو سو کے نکالے ، ‘‘ کیا اتنے کافی نہیں؟‘‘
نٹور کی باچھیں کھل گئیں۔ ‘‘ کافی ------؟ بہت زیادہ ہیں ------ چلو آؤ، پہلے ایک بوتل خرید لیں، وہاں ضرورت پڑے گی۔‘‘
جمیل نے سوچا بات بالکل ٹھیک ہے ، وہاں ضرورت نہیں پڑے گی تو کیا کسی مسجد میں پڑے گی۔ چنانچہ فوراً ایک بوتل خرید لی گئی۔ ٹیکسی کھڑی تھی۔ دونوں اس میں بیٹھ گئے اور اس وادی کی سیاحی کرنے لگے۔
سینکڑوں بروتھلز تھے۔ ان میں سے بیس پچیس کا جائزہ لیا گیا، مگر جمیل کو کوئی عورت پسند نہ آئی۔ سب میک اپ کی موٹی اور شوخ تہوں کے اندر چھپی ہوئی تھیں۔ جمیل چاہتا تھا کہ ایسی لڑکی ملے جو مرمت شدہ مکان معلوم نہ ہو۔ جس کو دیکھ کر یہ احساس نہ ہو کہ جگہ جگہ اکھڑے پلستر کے ٹکڑوں پر بڑے اناڑی پن سے سرخی اور چونا لگایا گیا ہے۔
نٹور تنگ آ گیا۔ اس کے سامنے جو بھی عورت آتی تھی، وہ جمیل کا کندھا پکڑ کر کہتا، ‘‘ جمیل بھائی یہ چلے گی۔‘‘
مگر جمیل اٹھ کھڑا ہوتا، ‘‘ ہاں چلے گی ------ اور ہم بھی چلیں گے۔‘‘
دو جگہیں اور دیکھی گئیں مگر جمیل کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ سوچتا تھا کہ ان عورتوں کے پاس کون آتا ہے جو سؤر کے سوکھے گوشت کے ٹکڑوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی ادائیں کتنی مکروہ ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے کا انداز کتنا فحش ہے ، اور کہنے کو یہ پرائیویٹ ہیں، یعنی ایسی عورتیں جو درپردہ پیشہ کراتی ہیں۔ جمیل کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ پردہ ہے کہاں جس کے پیچھے یہ دھندا کرتی ہیں۔
جمیل سوچ ہی رہا تھا کہ اب پروگرام کیا ہونا چاہیے ، کہ نٹور نے ٹیکسی رکوائی اور اتر کر چلا گیا کہ ایک دم اسے ایک ضروری کام یاد آ گیا تھا۔
اب جمیل اکیلا تھا۔ ٹیکسی تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ اس وقت ساڑھے چار بج چکے تھے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا، ‘‘ یہاں کوئی بھڑوا ملے گا؟‘‘
ڈرائیور نے جواب دیا، ‘‘ ملے گا جناب۔‘‘
‘‘ تو چلو اس کے پاس۔‘‘
ڈرائیور نے دو تین موڑ گھومے اور ایک پہاڑی نما بلڈنگ کے پاس گاڑی کھڑی کر دی۔ دو تین مرتبہ ہارن بجایا۔
جمیل کا سر نشے کے باعث سخت بوجھل ہو رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اسے معلوم نہیں کیسے اور کس طرح، مگر جب اس نے ذرا دماغ کو جھٹکا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلنگ پر بیٹھا ہے اور اس کے پاس ہی ایک جوان لڑکی، جس کی ناک پر پھننگ چھوٹی سی پھنسی تھی، اپنے بریدہ بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔
جمیل نے غور سے دیکھا۔ سوچنے ہی والا تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا مگر اس کے شعور نے اس کو مشورہ دیا کہ دیکھو یہ سب عبث ہے۔ جمیل نے سوچا یہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اندر ہی اندر نوٹ گن کر اور پاس پڑی ہوئی تپائی پر برانڈی کی سالم بوتل دیکھ کر اپنی تشفی کر لی کہ سب خیریت ہے۔ اس کا نشہ کسی قدر نیچے اتر گیا۔
اٹھ کر وہ اس گیسو بریدہ لڑکی کے پاس گیا اور، اور کچھ سمجھ میں نہ آیا، مسکرا کر اس سے کہا، ‘‘ کہیے مزاج کیسا ہے ؟‘
اس لڑکی نے کنگھی میز پر رکھی اور کہا، کہیے آپ کا کیسا ہے ؟‘‘
‘‘ ٹھیک ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالا ------ ‘‘ آپ کا نام؟‘‘
‘‘ بتا تو چکی ہوں ایک دفعہ ------ آپ کو میرا خیال ہے یہ بھی یاد نہ ہو گا کہ آپ ٹیکسی میں یہاں آئے ------ جانے کہاں کہاں گھومتے رہے ہوں گے کہ بل اڑتیس روپے بنا جو آپ نے ادا کیا اور ایک شخص جس کا نام شاید نٹور تھا، آپ نے اس کو بے شمار گالیاں دیں۔‘‘
جمیل اپنے اندر ڈوب کر سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے ہی والا تھا کہ اس نے سوچا کہ فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔ میں بھول جایا کرتا ہوں ------ یا یوں سمجھئے کہ مجھے بار بار پوچھنے میں مزہ آتا ہے۔ وہ صرف اتنا یاد کر سکا کہ اس نے ٹیکسی والے کا بل جو کہ اڑتیس روپے بنتا تھا ادا کیا تھا۔
لڑکی پلنگ پر بیٹھ گئی۔ ‘‘ میرا نام تارا ہے۔‘‘
جمیل نے اس کو لٹا دیا اور اس سے مصنوعی قسم کا پیار کرنے لگا۔
تھوڑی دیر کے بعد اس کو پیاس محسوس ہوئی تو اس نے تارہ سے کہا، ‘‘ دو یخ بستہ سوڈے اور گلاس۔
تارہ نے یہ دونوں چیزیں فوراً حاضر کر دیں۔ جمیل نے بوتل کھولی۔ اپنے لیے ایک پیگ ڈال کر اس نے دوسرا تارہ کے لیے ڈالا ------ پھر دونوں پینے لگے۔
تین پیگ پینے کے بعد جمیل نے محسوس کیا کہ اس کی حالت بہتر ہو گئی ہے۔تارہ کو چومنے چاٹنے کے بعد اس نے سوچا کہ اب قصہ مختصر ہو جانا چاہیے۔‘‘ کپڑے اتار دو۔‘‘
‘‘سارے ‘‘
‘‘ہاں سارے۔‘‘
تارہ نے کپڑے اتار دیئے اور لیٹ گئی۔ جمیل نے اس کے ننگے جسم کو ایکنظر دیکھا اور یہ رائے قائم کی کہ اچھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خیالات کا ایکتانتا بندھ گیا۔ جمیل کا نکاح ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو دو تینمرتبہ دیکھا تھا۔
اس کا بدن کیسا ہو گا ------ کیا وہ تارہ کی طرح اس کے ایک مرتبہ کہنے پر اپنے سارے کپڑے اتار کر اس کے ساتھ لیٹ جائے گی؟
کیا وہ اس کے ساتھ برانڈی پیئے گی؟‘‘
کیا اس کے بال کٹے ہوئے ہیں؟‘‘
پھر فوراً اس کا ضمیر جاگا جس نے اس کو لعنت ملامت شروع کر دی۔ نکاحکا یہ مطلب تھا کہ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ صرف ایک مرحلہ باقی تھا کہ وہاپنی سسرال جائے اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر لے ائے۔ کیا اسکے لیے یہ واجبتھا کہ ایک بازاری عورت کو اپنی آغوش کی زینت بنائے۔ خم کے خم لنڈھاتاپھرے۔
جمیل بہت خفیف ہوا اور اسی خفت میں اس کی آنکھیں مندنا شروع ہو گئیںاور وہ سو گیا۔ تارہ بھی تھوڑی دیر کے بعد خوابِ غفلت کے مزے لینے لگی۔
جمیل نے کئی بے ربط، اوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد جبکہ ایک بہت ہی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا، وہ ہڑبڑا کے اٹھا۔ جب اچھی طرحآنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک اجنبی کمرے میں ہے اور اس کے ساتھالف ننگی لڑکی لیٹی ہوئی ہے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد واقعات آہستہ آہستہاس کے دماغ کی دھند چیر کر نمودار ہونے لگے۔
وہ خود بھی الف ننگا تھا۔ بوکھلاہٹ میں اس نے الٹا پاجامہ پہن لیا،مگر اس کو احساس نہ ہوا۔ کُرتا پہن کر اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں۔ نوٹ سب کے سب موجود تھے۔ اس نے سوڈا کھولا اور ایک پیگ بنا کر پیا۔ پھر اس نے تارہکو ہولے سے جھنجوڑا۔ ‘‘ اٹھو۔‘‘
تارہ آنکھیں ملتی اٹھی۔ جمیل نے اس سے کہا ‘‘ کپڑے پہن لو۔‘‘
تارہ نے کپڑے پہن لیے۔ باہر گہری شام رات بننے کی تیاریاں کر رہی تھی۔جمیل نے سوچا، اب کوچ کرنا چاہیے۔ لیکن وہ تارہ سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا،کیونکہ بہت سی باتیں اس کے ذہن سے نکل گئی تھیں، ‘‘ کیوں تارہ جب ہم لیٹے ،میرا مطلب ہے جب میں نے تم سے کپڑے اتارنے کو کہا تو اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
تارہ نے جواب دیا، ‘‘ کچھ نہیں ------ آپ نے اپنے کپڑے اتارے اور میرے بازو پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے سو گئے۔‘‘
‘‘بس؟‘‘
‘‘ہاں ------ لیکن سونے سے پہلے آپ دو تین مرتبہ بڑبڑائے اور کہا ‘ میں گنہگار ہوں ------ میں گنہگار ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر تارہ اٹھی اور اپنے بالسنوارنے لگی۔
جمیل بھی اٹھا۔ گناہ کا احساس دبانے کے لیے اس نے ڈبل پیگ اپنے حلقمیں جلدی جلدی انڈیلا۔ بوتل کو کاغذ میں لپیٹا اور دروازے کی طرف بڑھا۔
تارہ نے پوچھا، ‘‘ چلے۔‘‘
‘‘ہاں، پھر کبھی آؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لوہے کی پیچ دار سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ بڑے بازار کی طرف اس کے قدم اٹھنے ہی والے تھے کہ ہارن بجا،اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ اس نے کہا چلو اچھا ہوا، یہیںمل گئی۔ پیدل چلنے کی زحمت سے بچ گئے۔
اس نے ڈرائیور سے پوچھا، ‘‘ کیوں بھائی خالی ہے ؟‘‘
ڈرائیور نے جواب دیا، ‘‘ خالی ہے کا کیا مطلب ------ لگی ہوئی ہے۔‘‘
‘‘تو پھر۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر جمیل مڑا، لیکن ڈرائیور نے اس کو پکارا، ‘‘ کدھر جاتا ہے سیٹھ؟‘‘
جمیل نے جواب دیا، ‘‘ کوئی اور ٹیکسی دیکھتا ہوں۔‘‘
ڈرائیور باہر نکل آیا، ‘‘ مستک تو نہیں پھرے لا ------ یہ ٹیکسی تمہیں نے تو لے رکھی ہے۔‘‘
جمیل بوکھلا گیا، ‘‘ میں نے ؟‘‘
ڈرائیور نے بڑے گنوار لہجے میں اس سے کہا، ‘‘ ہاں تو نے ------ سالا دارو پی کر سب کچھ بھول گیا۔‘‘
اس پر تُو تُو میں میں شروع ہو گئی۔ ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جمیل نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا، ‘‘ چلو‘‘
ڈرائیور نے ٹیکسی چلائی، ‘‘ کدھر؟‘‘
جمیل نے کہا، ‘‘ پولیس سٹیشن۔‘‘
ڈرائیور نے اس پر جانے کیا واہی تباہی بکی ------ جمیل سوچ میں پڑگیا۔ جو ٹیکسی اس نے لی تھی، اس کا بل جو اڑتیس روپے کا تھا، اس نے ادا کردیا تھا۔ اب یہ نئی ٹیکسی کہاں سے آن ٹپکی۔ گو وہ نشے کی حالت میں تھا مگروہ یقینی طور پر کہہ سکتا تھا کہ یہ وہ ٹیکسی نہیں تھی اور نہ وہ ڈرائیورجو اسے یہاں لایا تھا۔
پولیس سٹیشن پہنچے۔ جمیل کے قدم بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ سب انسپکٹر جواس وقت ڈیوٹی پر تھا، فوراً بھانپ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے جمیل کوکرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔
ڈرائیور نے اپنی داستان شروع کر دی جو سرتاپا غلط تھی۔ جمیل یقیناً اسکی تردید کرتا مگر اس میں زیادہ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ سب انسپکٹر سے مخاطب ہو کر اس نے کہا، ‘‘ جناب میرے سمجھ میں نہیں آتا یہ کیا قصہ ہے جوٹیکسی میں نے لی تھی، اس کا کرایہ میں نے اڑتیس روپے ادا کر دیا تھا۔ ابمعلوم نہیں یہ کون ہے اور مجھ سے کیسا کرایہ مانگتا ہے۔‘‘
ڈرائیور نے کہا، ‘‘ حضور انسپکٹر بہادر، یہ دارو پئے ہے۔‘‘ اور ثبوت کے طور پر اس نے جمیل کی برانڈی کی بوتل میز پر رکھ دی۔
جمیل جھنجھلا گیا، ‘‘ ارے بھئی کون سؤر کہتا ہے کہ اس نے نہیں پی ------ سوال تو یہ ہے کہ آپ کہاں سے تشریف لے آئے۔‘‘
سب انسپکٹر شریف آدمی تھا۔ کرایہ ڈرائیور کے حساب سے بیالیس روپے بنتاتھا۔ اس نے بارہ روپے میں فیصلہ کر دیا۔ ڈرائیور بہت چیخا چلایا مگر سبانسپکٹر نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر تھانے سے نکلوا دیا۔ پھر اس نے ایک سپاہی سے کہا کہ وہ دوسری ٹیکسی لائے۔ ٹیکسی آئی تو اس نے ایک سپاہی جمیل کے ساتھکر دیا کہ وہ اسے گھر چھوڑ آئے۔ جمیل نے لکنت بھرے لہجے میں اس کا بہت بہتشکریہ ادا کیا اور پوچھا، ‘‘ جناب کیا یہ گرانٹ روڈ پولیس سٹیشن ہے ؟‘‘
سب انسپکٹر نے زور سے قہقہہ لگایا اور پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ‘‘مسٹر اب ثابت ہو گیا کہ تم نے خوب پی رکھی ہے ------ یہ کولابہ پولیسسٹیشن ہے۔ جاؤ اب گھر جا کر سو جاؤ۔‘‘
جمیل گھر جا کے کھانا کھائے اور کپڑے اتارے بغیر سو گیا ------ برانڈی کی بوتل بھی اس کے ساتھ سوتی رہی۔
دوسرے روز وہ دس بجے کے قریب اٹھا۔ جوڑ جوڑ میں درد تھا۔سر میں جیسے بڑے بڑے وزنی پتھر تھے۔ منہ کا ذائقہ خراب۔ اس نے اٹھ کر دو تین گلاس فروٹسالٹ کے پیئے۔ چار پانچ پیالے چائے کے ، کہیں شام کو جا کر طبیعت کسی قدربحال ہوئی اور اس نے خود کو گزشتہ واقعات کے متعلق سوچنے کے قابل محسوسکیا۔
بہت لمبی زنجیر تھی۔ ان میں سے بعض کڑیاں تو سلامت تھیں، مگر بعضغائب۔ واقعات کا تسلسل شروع سے لیکر گرین ہوٹل اور وہاں سے لے کر کولابہتک بالکل صاف تھا۔ اس کے بعد جب نٹور کے ساتھ خاص وادی کی سیاحی شروع ہوتیتھی، معاملہ گڈمڈ ہو جاتا تھا۔ چند جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں۔ بڑی واضح،مگر فوراً مبہم پرچھائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔
وہ کیسے اس لڑکی کے گھر پہنچا ------ اس کا نام جمیل کے حافظے سے پھسلکر جانے کس کھڈ میں جا گرا تھا۔ اس کی شکل و صورت اسے البتہ بڑی اچھی طرحیاد تھی۔ وہ اس کے گھر کیسے پہنچا تھا۔ یہ جاننا بہت اہم تھا۔ اگر جمیل کاحافظہ اس کی مدد کرتا تو بہت سی چیزیں صاف ہو جاتیں۔ مگر بصد کوشش وہ کسینتیجے پر نہ پہنچ سکا۔
اور یہ ٹیکسیوں کا کیا سلسلہ تھا۔ اس نے پہلی کو تو چھوڑ دیا تھا، مگر دوسری کہاں سے ٹپک پڑی تھی؟
سوچ سوچ کے جمیل کا دماغ پاش پاش ہو گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جتنے وزنی پتھر تھے سب آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چُور چُور ہو گئے ہیں۔
رات کو اس نے برانڈی کے تین پیگ پئے ، تھوڑا سا ہلکا کھانا کھایا اور گزشتہ واقعات کے متعلق سوچتا شوچتا سو گیا۔
وہ ٹکڑے جو گم ہو گئے تھے ، ان کو تلاش کرنا اب جمیل کا شغل ہو گیاتھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ اس روز ہوا، من و عن اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے اور یہ روز روز کی مغز پاشی دور ہو۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی بڑاقلق تھا کہ اس کا گناہ نامکمل رہ گیا۔ وہ سوچتا تھا کہ یہ ادھورا گناہجائے گا کس کھاتے میں۔ وہ چاہتا تھا کہ بس ایک دفعہ اس کی بھی تکمیل ہوجائے۔ مگر تلاشِ بسیار کے باوجود وہ پہاڑی بنگلوں جیسا مکان جمیل کیآنکھوں سے اوجھل رہا۔ جب تھک ہار گیا تو اس نے ایک دن سوچا کیا یہ سب خوابہی تو نہیں تھا۔
مگر خواب کیسے ہو سکتا تھا۔ خواب میں آدمی اتنے روپے تو خرچ نہیں کرتا۔ اس دن اس کے کم از کم ڈھائی سو روپے خرچ ہوئے تھے۔
پیر صاحب سے اس نے نٹور کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اسروز کے دوسرے دن ہی سمندر پار کہیں چلا گیا ہے۔ غالباً موتیوں کے سلسلے میں۔ جمیل نے اس پر ہزار لعنتیں بھیجیں اور اپنی تلاش شروع کر دی۔
اس نے جب اپنے حافظے پر بہت زور دیا تو اسے بنگلے کی دیوار کے ساتھپیتل کی ایک پلیٹ نظر آئی۔ اس پر کچھ لکھا تھا۔ غالباً ------ ڈاکٹر ------ ڈاکٹر بیرام جی ------ آگے جانے کیا۔
ایک دن کولابہ کی گلیوں میں چلتے چلتے آخر وہ ایک ایسی گلی میں پہنچاجو اس کو جانی پہچانی محسوس ہوئی۔ دو رویہ اسی قسم کی بنگلہ نما عمارتیںتھیں۔ ہر عمارت کے باہر چھوٹے چھوٹے پیتل کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ کسی پرچار کسی پر پانچ ------ کسی پر تین۔
وہ ادھر ادھر غور سے دیکھتا چلا جا رہا تھا، مگر اس کے دماغ میں وہ خطگھوم رہا تھا جو صبح اس کی ساس کی طرف سے موصول ہوا تھا کہ اب انتظار کیحد ہو گئی ہے۔ میں نے تاریخ مقرر کر دی ہے۔ آؤ اور اپنی دلہن کو لے جاؤ۔
اور وہ ادھر ایک نامکمل گناہ کو مکمل بنانے کی کوشش میں مارا مارا پھررہا تھا۔ جمیل نے کہا، ہٹاؤ اس وقت ------ پھرنے دو مارا مارا ------ ایکدم اس نے اپنے داہنے ہاتھ پیتل کا ایک چھوٹا سا بورڈ دیکھا۔ اس پر لکھاتھا ------ ڈاکٹر ایم بیرام جی - ایم ڈی۔
جمیل کانپنے لگا۔ یہ وہی بلڈنگ، بالکل وہی، وہی رنگ، وہی بل کھاتی ہوئیسیڑھیاں، جمیل بے دھڑک اوپر چلا گیا۔ اس کے لیے اب ہر چیز جانی پہچانی تھی۔
کوریڈور سے نکل کر اس نے سامنے والے دروازے پر دستک دی۔
ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔ اسی لڑکے نے جو اس روز سوڈا اور برف لایاتھا۔ جمیل نے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے اس سے پوچھا، ‘‘بیٹا، بائی جی ہیں؟‘‘
لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا، ‘‘ جی ہاں‘‘
‘‘جاؤ، ان سے کہو، صاحب ملنے آئے ہیں۔‘‘ جمیل کے لہجے میں بے تکلفی تھی۔
لڑکا دروازہ بھیڑ کر اندر چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور تارہ نمودار ہوئی۔ اس کو دیکھتے ہیجمیل نے پہچان لیا کہ وہی لڑکی ہے مگر اب اس کے ناک پر پھنسی نہیں تھی۔‘‘ نمستے۔‘‘
‘‘نمستے ، کہیے مزاج کیسے ہیں؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔
جمیل نے جواب دیا۔ ‘‘ اچھے ہیں۔ میں پچھلے دنوں بہت مصروف رہا۔ اس لیے آ نہ سکا۔کہو پھر کیا ارادہ ہے ؟‘‘
تارہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا، ‘‘ معاف کیجیئے ، میری شادی ہو چکی ہے۔‘‘
جمیل بوکھلا گیا۔ ‘‘ شادی ------ کب؟‘‘
تارہ نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ‘‘ جی، آج صبح ------ آئیے ، میں آپ کو اپنے پتی سے ملاؤں۔‘‘
جمیل چکرا گیا اور کچھ کہے سنے بغیر کھٹا کھٹ نیچے اتر گیا۔ سامنے ٹیکسی کھڑی تھی۔ جمیل کا دل ایک لحظہ کے لیے ساکت سا ہو گیا۔ تیز قدماٹھاتا وہ بڑے بازار کی طرف نکل گیا۔
معاً جمیل کو جاتے دیکھ کر ڈرائیور نے زور سے کہا، ‘‘ سیٹھ صاحب ٹیکسی۔‘‘
جمیل نے جھنجھلا کر کہا ------ ‘‘ نہیں کم بخت شادی۔‘‘
جمیل کو اپنا شیفر لائف ٹائم قلم مرمت کے لیے دینا تھا۔ اس نے ٹیلی فونڈائریکٹری میں شیفر کمپنی کا نمبر تلاش کیا۔ فون کرنے سے معلوم ہوا کہ انکے ایجنٹ میسرز ڈی جے سمتوئر ہیں۔ جن کا دفتر گرین ہوٹل کے پاس واقع ہے۔
جمیل نے ٹیکسی لے اور فورٹ کی طرف چل دیا۔ گرین ہوٹل پہنچ کر اسے میسرز ڈی جے سمتوئر کا دفتر تلاش کرنے میں دقت نہ ہوئی۔ بالکل پاس تھا مگرتیسری منزل پر۔
لفٹ کے ذریعے جمیل وہاں پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی چوبی دیوار کیچھوٹی سی کھڑکی کے پیچھے اسے ایک خوش شکل اینگلوانڈین لڑکی نظر آئی جس کیچھاتیاں غیر معمولی طور پر نمایاں تھیں۔ جمیل نے قلم اس کھڑکی کے اندرداخل کر دیا اور منہ سے کچھ نہ بولا۔ لڑکی نے قلم اس کے ہاتھ سے لے لیا۔کھول کر ایک نظر دیکھا اور ایک چٹ پر کچھ لکھ کر جمیل کے حوالے کر دی۔منہ سے وہ بھی کچھ نہ بولی۔
جمیل نے چٹ دیکھی۔ قلم کی رسید تھی۔ چلنے ہی والا تھا کہ پلٹ کر اس نے لڑکی سے پوچھا۔ ‘‘ دس بارہ روز تک تیار ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے۔‘‘
لڑکی بڑے زور سے ہنسی۔ جمیل کچھ کھسیانا سا ہو گیا۔ ‘‘ میں آپ کی اس ہنسی کا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘
لڑکی نے کھڑکی کے ساتھ منہ لگا کر کہا، ‘‘ مسٹر ------ آج کل وار ہے وار ------ یہ قلم امریکہ جائے گا ------ تم نو مہینے کے بعد پتہ کرنا۔‘‘
جمیل بوکھلا گیا، ‘‘ نو مہینے۔‘‘
لڑکی نے اپنے بریدہ بالوں والا سر ہلایا ------ جمیل نے لفٹ کا رخ کیا۔
یہ نو مہینے کا سلسلہ خوب تھا ------ نو مہینے ------ اتنی مدت بعد توعورت گل گوتھنا بچہ پیدا کر کے ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ ------ نو مہینے ------ نو مہینے تک اس چھوٹی سی چٹ کو سنبھالے رکھو۔ اور یہ بھی کون وثوقسے کہہ سکتا ہے کہ نو مہینے تک آدمی یاد رکھ سکتا ہے کہ اس نے ایک قلممرمت کے لیے دیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس دوران میں وہ کم بخت مر کھپ ہی جائے۔
جمیل نے سوچا، یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ قلم میں معمولی سی خرابی تھی۔ اس کافیڈر ضرورت سے زیادہ روشنائی سپلائی کرتا تھا۔ اس کے لیے اسے امریکہ کے ہسپتال میں بھیجنا صریحاً چالبازی تھی۔ مگر پھر اس نے سوچا، لعنت بھیجو جیاس قلم پر۔ امریکہ جائے یا افریقہ۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے یہ بلیکمارکیٹ سے ایک سو پچھتر روپے میں خریدا تھا۔ مگر اس نے ایک برس اسے خوباستعمال بھی تو کیا تھا۔ ہزاروں صفحے کالے کر ڈالے تھے۔ چنانچہ وہ قنوطیسے ایک دم رجائی بن گیا۔ اور رجائی بنتے ہی اسے خیال آیا کہ وہ فورٹ میںہے اور فورٹ میں شراب کی بے شمار دکانیں۔ وسکی تو ظاہر ہے نہیں ملے گیلیکن فرانس کی بہترین کونک برانڈی تو مل جائے گی، چنانچہ اس نے قریب والیدکان کا رخ کیا۔
برانڈی کی ایک بوتل خرید کر وہ لوٹ رہا تھا کہ گرین ہوٹل کے پاس آ کے رک گیا۔ ہوٹل کے نیچے قد آدم شیشوں کا بنا ہوا قالینوں کا شو روم تھا۔ یہجمیل کے دوست پیر صاحب کا تھا۔
اس نے سوچا چلو اندر چلیں۔ چنانچہ چند لمحات کے بعد ہی وہ شو روم میںتھا اور اپنے دوست پیر سے ، جو عمر میں اس سے کافی بڑا تھا، ہنسی مذاق کیگفتگو کر رہا تھا۔
برانڈی کی بوتل باریک کاغذ میں لپٹی دبیر ایرانی قالین پر لیٹی ہوئیتھی۔ پیر صاحب نے اس کر طرف اشارہ کرتے ہوئے جمیل سے کہا، ‘‘ یار اس دلہنکا گھونگٹ تو کھولو۔ ذرا اس سے چھیڑ خانی تو کرو۔‘‘
جمیل مطلب سمجھ گیا، ‘‘ تو پیر صاحب، گلاس اور سوڈے منگوائیے۔ پھر دیکھئے کیا رنگ جمتا ہے۔‘‘
فوراً گلاس اور یخ بستہ سوڈے آ گئے۔ پہلا دور ہوا۔ دوسرا دور شروعہونے ہی والا تھا کہ پیر صاحب کے ایک گجراتی دوست اندر چلے ائے اور بڑی بے تکلفی سے قالین پر بیٹھ گئے۔ اتفاق سے ہوٹل کا چھوکرا دو کے بجائے تینگلاس اٹھا لایا تھا۔ پیر صاحب کے گجراتی دوست نے بڑی صاف اردو میں چندادھر ادھر کی باتیں کیں اور گلاس میں یہ بڑا پیگ ڈال کر اس کو سوڈے سے لبالب بھر دیا۔ تین چار لمبے لمبے گھونٹ لے کر انہوں نے رومال سے اپنا منہصاف کیا۔ ‘‘ سگریٹ نکالو یار۔‘‘
پیر صاحب میں ساتوں عیب شرعی تھے۔ مگر وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ جمیلنے جیب سے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور قالین پر رکھ دیا۔ ساتھ ہی لائٹر ------
اس پر پیر صاحب نے جمیل سے اس گجراتی کا تعارف کرایا۔ ‘‘ مسٹر نٹور لال ------ آپ موتیوں کی دلالی کرتے ہیں۔‘‘
جمیل نے ایک لحظے کے لیے سوچا، کوئلوں کی دلالی میں تو انسان کا منہ کالا ہوتا ہے۔ موتیوں کی دلالی میں ------ ‘‘
پیر صاحب نے جمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ‘‘ مسٹر جمیل، مشہور سونگ رائٹر۔‘‘
دونوں نے ہاتھ ملایا اور برانڈی کا نیا دور شروع ہوا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بوتل خالی ہو گئی۔
جمیل نے دل میں سوچا کہ کم بخت موتیوں کا دلال بلا کا پینے والا ہے۔میری پیاس اور سرور کی ساری برانڈی چڑھا گیا۔ خدا کرے اسے موتیا بند ہو۔
مگر جونہی آخری دور کے پیگ نے جمیل کے پیٹ میں اپنے قدم جمائے ، اس نے نٹور لال کو معاف کر دیا۔ اور آخر میں اس سے کہا ‘‘ مسٹر نٹور، اٹھئے ایکبوتل اور ہو جائے۔‘‘
نٹور لال فوراً اٹھا۔ اپنے سفید دگلے کی شکنیں درست کیں۔ دھوتی کی لانگ ٹھیک کی اور کہا، چلئے۔‘‘
جمیل پیر صاحب سے مخاطب ہوا، ‘‘ ہم ابھی حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
جمیل اور نٹور نے باہر نکل کر ٹیکسی لی اور شراب کی دکان پر پہنچے۔جمیل نے ٹیکسی روکی مگر نٹور نے کہا، ‘‘ مسٹر جمیل ------ یہ دکان ٹھیکنہیں۔ ساری چیزیں مہنگی بیچتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطبہوا، ‘‘ دیکھو کولابہ چلو۔‘‘
کولابہ پہنچ کر نٹور، جمیل کو شراب کی ایک چھوٹی سی دکان میں لے گیا۔جو برانڈ جمیل نے فورٹ سے لیا تھا، وہ تو نہ مل سکا، ایک دوسرا مل گیا جسکی نٹور نے بہت تعریف کی کہ نمبر ون ہے۔
یہ نمبر ون چیز خرید کر دونوں باہر نکلے ، ساتھ ہی بار تھی۔ نٹور رکگیا، ‘‘ مسٹر جمیل، کیا خیال ہے آپ کا، ایک دو پیگ یہیں پی کر چلتے ہیں۔‘‘
جمیل کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کا نشہ حالتِ نزاع میںتھا۔ چنانچہ دونوں بار کے اندر داخل ہوئے۔ معاً جمیل کو خیال آیا کہ باروالے تو کبھی باہر کی شراب پینے کی اجازت نہیں دیا کرتے۔ ‘‘ مسٹر نٹور آپیہاں کیسے پی سکتے ہیں۔ یہ لوگ اجازت نہیں دیں گے۔
نٹور نے زور سے آنکھ ماری۔ ‘‘ سب چلتا ہے۔‘‘
اور یہ کہہ کر ایک کیبن کے اندر گھس گیا۔ جمیل بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ نٹور نے بوتل سنگین تپائی پر رکھی اور بیرے کو آواز دی۔ جب وہ آیا تواس کو بھی آنکھ ماری، ‘‘ دیکھو دو سوڈے روجرز ------ ٹھنڈے ------ اور دوگلاس، ایک دم صاف۔‘‘
بیرا یہ حکم سن کر چلا گیا اور فوراً سوڈے اور گلاس حاضر کر دیئے۔ اسپر نٹور نے اسے دوسرا حکم دیا، ‘‘ فسٹ کلاس چپس اور ٹومیٹو سوس ------ اورفسٹ کلاس کٹلس۔‘‘
بیرا چلا گیا۔ نٹور جمیل کی طرف دیکھ کر ایسے ہی مسکرایا۔ بوتل کاکارک نکالا اور جمیل کے گلاس میں اس سے پوچھے بغیر ایک ڈبل ڈال دیا۔ خوداس سے کچھ زیادہ۔ سوڈا حل ہو گیا تو دونوں نے اپنے گلاس ٹکرائے۔
جمیل پیاسا تھا۔ ایک ہی جرعے میں اس نے آدھا گلاس ختم کر دیا۔ سوڈا چونکہ بہت ٹھنڈا اور تیز تھا اس لیے پھوں پھوں کرنے لگا۔
دس پندرہ منٹ کے بعد چپس اور کٹلس آ گئے۔ جمیل صبح گھر سے ناشتہ کر کے نکلا تھا لیکن برانڈی نے اسے بھوک لگا دی۔ چپس گرم گرم تھے ، کٹلس بھی۔ وہپل پڑا۔ نٹور نے اس کا ساتھ دیا۔ چنانچہ دو منٹ میں دونوں پلیٹیں صاف۔
دو پلیٹیں اور منگوائی گئیں۔ جمیل نے اپنے لیے چپس بھی منگوائے۔ دوگھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ بوتل کی تین چوتھائی غائب ہو چکی تھی۔ جمیل نے سوچا کہ اب پیر صاحب کے پاس جانا بیکار ہے۔
نشے خوب جم رہے تھے ، سرور خوب گھٹ رہے تھے۔ نٹور اور جمیل دونوں ہواکے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ایسے سواروں کو عام طور پر ایسی وادیوں میں جانے کی بڑی خواہش ہوتی ہے جہاں انہیں عریاں بدن حسین عورتیں ملیں۔ وہ ان کیکمر میں ہاتھ ڈال کر گھوڑے پر بٹھا لیں اور یہ جا وہ جا۔
جمیل کا دل و دماغ اس وقت کسی ایسی ہی وادی کے متعلق سوچ رہا تھا جہاںاس کی کسی ایسی خوبصورت عورت سے مڈبھیڑ ہو جائے جس کو وہ اپنے تپتے ہوئے سینے کے ساتھ بھینچ لے اس زور سے کہ اس کی ہڈیاں تک چٹخ جائیں۔
جمیل کو اتنا تو معلوم تھا کہ وہ ایسی جگہ پر ہے ------ مطلب ہے ایسے علاقے میں ہے جو اپنے بروتھلز (قحبہ خانے ) کی وجہ سے ساری بمبئی میں مشہورہے۔ جنہیں عیاشی کرنا ہوتی ہے وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ شہر سے بھی جس لڑکیکو لک چھپ کر پیشہ کرنا ہوتا ہے ، یہیں آتی ہے۔ ان معلومات کی بنا پر اسنے نٹور سے کہا، ‘‘ میں نے کہا ------ وہ ------ وہ ------ میرا مطلب ہے ،ادھر کوئی چھوکری ووکری نہیں ملتی؟‘‘
نٹور نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ انڈیلا اور ہنسا، ‘‘ مسٹر جمیل، ایک نہیں ہزاروں ------ ہزاروں ------ ہزاروں ------‘‘
یہ ہزاروں کی گردان جاری رہتی اگر جمیل نے اس کی بات کاٹی نہ ہوتی، ‘‘ان ہزاروں میں سے آج ایک ہی مل جائے تو ہم سمجھیں گے کہ نٹور بھائی نے کمال کر دیا۔‘‘
نٹور بھائی مزے میں تھے۔ جھوم کر کہا، ‘‘ جمیل بھائی ------ ایک نہیں ہزاروں ------ چلو اس کو ختم کرو۔‘‘
دونوں نے بوتل میں جو کچھ بچا تھا آدھ گھنٹے کے اندر اندر ختم کر دیا۔بل ادا کرنے اور بیرے کو تگڑی ٹپ دینے کے بعد دونوں باہر نکلے۔ اندراندھیرا تھا۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی۔ جمیل کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ایکلحظے کے لیے اسے کچھ نظر نہ آیا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں تیز روشنی کیعادی ہوئیں تو اس نے نٹور سے کہا، ‘‘ چلو بھئی۔‘‘
نٹور نے تلاشی لینے والی نگاہوں سے جمیل کی طرف دیکھا، ‘‘ مال پانی ہے نا؟‘‘
جمیل کے ہونٹوں پر نشیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نٹور کی پسلیوں میںکہنی سے ٹھوکا دے کر اس نے کہا، ‘‘ بہت۔ نٹور بھائی بہت۔‘‘ اور اس نے جیب سے پانچ نوٹ سو سو کے نکالے ، ‘‘ کیا اتنے کافی نہیں؟‘‘
نٹور کی باچھیں کھل گئیں۔ ‘‘ کافی ------؟ بہت زیادہ ہیں ------ چلو آؤ، پہلے ایک بوتل خرید لیں، وہاں ضرورت پڑے گی۔‘‘
جمیل نے سوچا بات بالکل ٹھیک ہے ، وہاں ضرورت نہیں پڑے گی تو کیا کسیمسجد میں پڑے گی۔ چنانچہ فوراً ایک بوتل خرید لی گئی۔ ٹیکسی کھڑی تھی۔دونوں اس میں بیٹھ گئے اور اس وادی کی سیاحی کرنے لگے۔
سینکڑوں بروتھلز تھے۔ ان میں سے بیس پچیس کا جائزہ لیا گیا، مگر جمیلکو کوئی عورت پسند نہ آئی۔ سب میک اپ کی موٹی اور شوخ تہوں کے اندر چھپیہوئی تھیں۔ جمیل چاہتا تھا کہ ایسی لڑکی ملے جو مرمت شدہ مکان معلوم نہہو۔ جس کو دیکھ کر یہ احساس نہ ہو کہ جگہ جگہ اکھڑے پلستر کے ٹکڑوں پر بڑے اناڑی پن سے سرخی اور چونا لگایا گیا ہے۔
نٹور تنگ آ گیا۔ اس کے سامنے جو بھی عورت آتی تھی، وہ جمیل کا کندھا پکڑ کر کہتا، ‘‘ جمیل بھائی یہ چلے گی۔‘‘
مگر جمیل اٹھ کھڑا ہوتا، ‘‘ ہاں چلے گی ------ اور ہم بھی چلیں گے۔‘‘
دو جگہیں اور دیکھی گئیں مگر جمیل کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہسوچتا تھا کہ ان عورتوں کے پاس کون آتا ہے جو سؤر کے سوکھے گوشت کے ٹکڑوںکی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی ادائیں کتنی مکروہ ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے کاانداز کتنا فحش ہے ، اور کہنے کو یہ پرائیویٹ ہیں، یعنی ایسی عورتیں جودرپردہ پیشہ کراتی ہیں۔ جمیل کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ پردہ ہے کہاںجس کے پیچھے یہ دھندا کرتی ہیں۔
جمیل سوچ ہی رہا تھا کہ اب پروگرام کیا ہونا چاہیے ، کہ نٹور نے ٹیکسیرکوائی اور اتر کر چلا گیا کہ ایک دم اسے ایک ضروری کام یاد آ گیا تھا۔
اب جمیل اکیلا تھا۔ ٹیکسی تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔اس وقت ساڑھے چار بج چکے تھے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا، ‘‘ یہاں کوئی بھڑواملے گا؟‘‘
ڈرائیور نے جواب دیا، ‘‘ ملے گا جناب۔‘‘
‘‘تو چلو اس کے پاس۔‘‘
ڈرائیور نے دو تین موڑ گھومے اور ایک پہاڑی نما بلڈنگ کے پاس گاڑی کھڑی کر دی۔ دو تین مرتبہ ہارن بجایا۔
جمیل کا سر نشے کے باعث سخت بوجھل ہو رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے دھندسی چھائی ہوئی تھی۔ اسے معلوم نہیں کیسے اور کس طرح، مگر جب اس نے ذرادماغ کو جھٹکا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلنگ پر بیٹھا ہے اور اس کے پاسہی ایک جوان لڑکی، جس کی ناک پر پھننگ چھوٹی سی پھنسی تھی، اپنے بریدہبالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔
جمیل نے غور سے دیکھا۔ سوچنے ہی والا تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا مگراس کے شعور نے اس کو مشورہ دیا کہ دیکھو یہ سب عبث ہے۔ جمیل نے سوچا یہٹھیک ہے لیکن پھر بھی اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اندر ہی اندر نوٹ گنکر اور پاس پڑی ہوئی تپائی پر برانڈی کی سالم بوتل دیکھ کر اپنی تشفی کرلی کہ سب خیریت ہے۔ اس کا نشہ کسی قدر نیچے اتر گیا۔
اٹھ کر وہ اس گیسو بریدہ لڑکی کے پاس گیا اور، اور کچھ سمجھ میں نہ آیا، مسکرا کر اس سے کہا، ‘‘ کہیے مزاج کیسا ہے ؟‘
اس لڑکی نے کنگھی میز پر رکھی اور کہا، کہیے آپ کا کیسا ہے ؟‘‘
‘‘ٹھیک ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالا ------ ‘‘ آپ کا نام؟‘‘
‘‘بتا تو چکی ہوں ایک دفعہ ------ آپ کو میرا خیال ہے یہ بھی یاد نہہو گا کہ آپ ٹیکسی میں یہاں آئے ------ جانے کہاں کہاں گھومتے رہے ہوں گے کہ بل اڑتیس روپے بنا جو آپ نے ادا کیا اور ایک شخص جس کا نام شاید نٹورتھا، آپ نے اس کو بے شمار گالیاں دیں۔‘‘
جمیل اپنے اندر ڈوب کر سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے ہیوالا تھا کہ اس نے سوچا کہ فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔ میں بھول جایا کرتاہوں ------ یا یوں سمجھئے کہ مجھے بار بار پوچھنے میں مزہ آتا ہے۔ وہ صرفاتنا یاد کر سکا کہ اس نے ٹیکسی والے کا بل جو کہ اڑتیس روپے بنتا تھا اداکیا تھا۔
ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے ، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔
کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے ، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔
ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی، اس کے ہاتھ جو کرپان کو تھامے ہوئے تھے ، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے ، مگر اس کے قد و قامت اور خد و خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔
چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی۔ لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی ‘‘ ایشر سیاں‘‘
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا، مگر اس کی نگاہوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلائی ‘‘ ایشر سیاں ‘‘ لیکن فوراّ ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی ‘‘ کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری ‘‘ مجھے معلوم نہیں۔‘‘
کلونت کور بھنا گئی ‘‘ یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔‘‘
ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا یہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا ‘‘ جانی، کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘
ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ ‘‘ کلونت ‘‘
آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ ‘‘ ہاں جانی۔‘‘ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا ‘‘ یہ کڑی یا دماغ خراب ہے۔‘‘
جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا ‘‘ ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘
‘‘ بُرے کی ماں کے گھر۔‘‘ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتہً دونوں ہاتھوں سے اس کے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ ‘‘ قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔‘‘
کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیئے اور پوچھا ‘‘ تمہیں میری قسم، بتاؤ کہاں رہے ------ شہر گئے تھے ؟‘‘
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘ نہیں ‘‘
کلونت کور چڑ گئی، ‘‘ نہیں تم ضرور شہر گئے تھے ------ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔‘‘
‘‘ وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔‘‘
کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی، لیکن فوراّ ہی بھڑک اٹھی۔
‘‘ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمہیں ہوا کیا ------ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے ، مجھے تم نے وہ سارے گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپیاں لے رہے تھے ، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔‘‘
ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا، ‘‘ دیکھا کیسے رنگ نیلا پڑ گیا ------ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔‘‘
‘‘ تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔‘‘
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا، ‘‘ ایشر سیاں، کیا بات ہے ، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے ؟‘‘
ایشر سنگھ ایک دم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ ‘‘ جانی میں وہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ گُھٹ گُھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی، ‘‘ تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟‘‘
‘‘ بُرے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔‘‘
‘‘ بتاؤ گے نہیں؟‘‘
‘‘کوئی بات ہو تو بتاؤں۔‘‘
‘‘ مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولو۔‘‘
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیئے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیئے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔
ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا، ‘‘ آ جاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے۔‘‘
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا، ‘‘ چل دفعان ہو۔‘‘
ایشر سنگھ نے اس کے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ ‘‘ نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔‘‘
ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا ‘‘ لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ ‘‘ کلونت، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔‘‘
کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، ‘‘ بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔‘‘
ایشر سنگھ اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرایا، ‘‘ ہونے دے آج ظلم۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔ بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کے طرح اُبلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیئے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، ‘‘ ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔‘‘
یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا، لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت ناامیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی۔ اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا، ‘‘ ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے ؟‘‘
ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصے سے اُبلنے لگی، ‘‘ میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ چڈو ------ کون ہے وہ الفتی ------ کون ہے وہ چور پتہ ؟‘‘
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا ‘‘ کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔‘‘
کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا ‘‘ ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی ------ واہگرو جی کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘
ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی، ‘‘ قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں ------ تکا بوٹی کر دوں گی اگر تو نے جھوٹ بولا ------ لے اب کھا واہگورو کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ؟‘‘
ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔
آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی ‘‘ جانے دے اب کلونت، جانے دے۔‘‘
آواز میں بلا کا درد تھا، کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔
‘‘ میری جان، تم نے بہت جلدی کی ------ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔‘‘
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، ‘‘ مگر وہ کون ہے ؟ تمہاری ماں۔‘‘
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
‘‘ اور میں۔۔۔۔۔۔ اس میں۔۔۔۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس کرپان سے۔۔۔۔۔۔‘‘
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔ ‘‘ میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟‘‘
ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا، ‘‘ گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔‘‘
کلونت چلائی، ‘‘ میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟‘‘
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، ‘‘ بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا، ‘‘ انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔‘‘
کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی، ‘‘ ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر۔‘‘
ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی ------ ‘‘ مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ گلا چِرا ہے ماں یا میرا۔۔۔۔۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔‘‘
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ ‘‘ کلونت، میری جان۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔
ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا ‘‘ کون سی بات؟‘‘
ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا ‘‘ جس مکان پر۔۔۔۔۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا۔۔۔۔۔۔ اس میں سات۔۔۔۔۔۔ اس میں سات آدمی تھے۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیئے۔۔۔۔۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔۔۔۔۔۔ چھوڑ اسے۔۔۔۔۔۔ سن۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔‘‘
کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ ‘‘ کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں کتنی سندر تھی۔۔۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، ‘‘ نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے ، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔‘‘
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا ‘‘ ہوں۔۔۔۔۔۔ ‘‘
اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔۔۔۔۔ راستے میں۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ ‘‘ پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے ، ‘‘ میں نے۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ لیکن ‘‘
اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا، ‘‘ پھر کیا ہوا؟‘‘
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی ‘‘ وہ مری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ لاش تھی۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔
کچھ عرصے سے اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار ہو رہی تھیں۔ ان کو خوابِ گراں سے جگانے والی اکثریتیں جو ایک مدت سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتی رہی تھیں۔ اس بیداری کی لہر نے کئی انجمنیں پیدا کر دیں تھیں۔ ہوٹل کے بیروں کی انجمن، حجاموں کی انجمن، کلرکوں کی انجمن، اخبار والوں میں کام کرنے والے صحافیوں کی انجمن، اقلیت اپنی انجمن یا تو بنا چکی تھی یا بنا رہی تھی تاکہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے۔
ایسی ہر انجمن کے قیام پر اخباروں میں تبصرے ہوتے تھے۔ اکثریت کے حمایتی ان کی مخالفت کرتے تھے اور اقلیت کے طرفدار موافقت۔ غرض کہ کچھ عرصے سے ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا تھا جس سے رونق لگی رہتی تھی۔ مگر ایک روز اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملک کے دس نمبریے غنڈوں نے اپنی انجمن قائم کی ہے تو اکثریتیں اور اقلیتیں دونوں سنسنی زدہ ہو گئیں۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے خیال کیا کہ بے پر کی اڑا دی ہے کسی نے ، پر جب اس انجمن نے اپنے اغراض و مقاصد شائع کیے اور ایک با قاعدہ منشور ترتیب دیا تو پتا چلا کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ غنڈے اور بدمعاش واقعی خود کو اس انجمن کے سائے تلے منظم کرنے کا پورا پورا تہیہ کر چکے ہیں۔
اس انجمن کی ایک دو میٹنگیں ہو چکی تھیں۔ ان کی روداد اخباروں میں شائع ہو چکی تھی۔ لوگ پڑھتے اور دم بخود رہ جاتے۔ بعض کہتے کہ بس اب قیامت آنے میں زیادہ دیر باقی نہیں۔
اغراض و مقاصد کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی۔ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کی یہ انجمن سب سے پہلے تو اس بات پر صدائے احتجاج بلند کرے گی کہ معاشرے میں ان کو نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بلکہ ان کے مقابلے میں کچھ زیادہ امن پسند شہری ہیں۔ ان کو غنڈے اور بدمعاش نہ کہا جائے ، اس لیے کہ اس سے ان کی تذلیل و توہین ہوتی ہے۔ وہ خود اپنے لیے کوئی مناسب اور معزز نام تجویز کر لیتے مگر اس خیال سے کہ اپنے منہ میاں مٹھو کی کہاوت ان پر چسپاں نہ ہو، وہ اس کا فیصلہ عوام و خواص پر چھوڑتے ہیں۔ چوری چکاری ڈکیتی اور رہزنی، جیب تراشی اور جعل سازی، پتے بازی اور بلیک مارکیٹنگ وغیرہ افعال قبیحہ کے بجائے فنون لطیفہ میں شمار ہونے چاہیں۔ ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو بُرا سلوک روا رکھا گیا ہے ، اس کی مکمل تلافی اس یونین کا نصب العین ہے۔
ایسے ہی کئی اور اغراض و مقاصد تھے جو سننے اور پڑھنے والوں کو بڑے عجیب و غریب معلوم ہوتے تھے۔ بظاہر ایسا تھا کہ چند بے فکرے ظریفوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے یہ سب باتیں گھڑی ہیں۔ یہ چٹکلہ ہی تو معلوم ہوتا تھا کہ یونین اپنے ممبروں کی قانونی حفاظت کا ذمہ لے گی اور ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرے گی۔ وہ حکام وقت پر زور دے گی کہ یونین کے ہر رکن پر اس کے مقام اور رتبے کے لحاظ سے مقدمہ چلایا جائے اور سزا دیتے وقت بھی اس کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ حکومت لوگوں کو اپنے گھروں میں چوری کا برقی الارم نہ لگانے دے۔ اس لیے کہ بعض اوقات یہ ہلاکت ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی قیدیوں کو جیل میں اے اور بی کلاس کی مراعات دی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس یونین کے ممبروں کو دی جائیں۔ یونین اس بات کا ذمہ لیتی تھی کہ وہ اپنے ممبروں کو ضعیف اور ناکارہ یا کسی حادثے کا شکار ہو جانے کی صورت میں ہر ماہ گزارے کے لیے معقول رقم دے گی۔ جو ممبر کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باہر کے ممالک میں جانا چاہے گا اسے وظیفہ دے وغیرہ وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ اخباروں میں اس یونین کے قیام پر خوب تبصرہ بازی ہوئی۔ قریب قریب سب اس کے خلاف تھے۔ بعض رجعت پسند کہتے تھے کہ یہ کمیونزم کی انتہائی شکل ہے ، اور اس کے بانیوں کے ڈانڈے کرملین سے ملاتے تھے۔ حکومت سے چنانچہ بار بار درخواست کی جاتی کہ وہ اس فتنے کو فوراّ کچل دے ، کیونکہ اگر اس کو ذرا بھی پنپنے کا موقع دیا گیا تو معاشرے میں ایسا زہر پھیلے گا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہو جائے گا۔
خیال تھا کہ ترقی پسند اس یونین کی طرف داری کریں گے کہ اس میں ایک جدت تھی اور پرانی قدروں سے ہٹ کر اس نے اپنے لیے ایک بالکل نیا راستہ تلاش کیا تھا۔ اور پھر یہ کہ رجعت پسند اسے کمیونسٹوں کی اختراع سمجھتے تھے۔ مگر حیرت ہے کہ اقلیتوں کے یہ سب سے بڑے طرفدار پہلے تو اس معاملے میں خاموش رہے اور بعد میں دوسروں کے ہم نوا ہو گئے اور اس یونین کی بیخ کنی پر زور دینے لگے۔
اخباروں میں ہنگامہ برپا ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں اس یونین کے قیام کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ قریب قریب ہر پارٹی کے نامی و گرامی لیڈروں نے پلیٹ فارم پر آ کر اس ننگ تہذیب و تمدن جماعت کو ملعون قرار دیا اور کہا یہی وقت ہے جب تمام لوگوں کو آپس کے جھگڑے چھوڑ کر اس فتنہ عظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد، نظم اور یقین محکم کو اپنا ماٹو بنا کر ڈٹ جانا چاہیے۔
اس سارے ہنگامے کا جواب یونین کی طرف سے ایک پوسٹر کے ذریعے دیا گیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ یہ کہا گیا کہ پریس اکثریت کے ہاتھ میں ہے ، قانون اس کی پشت ہے۔ مگر انجمن کے حوصلے اور ارادے پست نہیں ہوئے۔ وہ کوشش کر رہی ہے کہ بہت سی رقم دے کر کچھ اخبار خرید لے اور ان کو اپنے حق میں کر لے۔
یہ پوسٹر ملک کے در و دیوار پر نمودار ہوا تو فوراّ ہی بعد کئی شہروں سے بڑی بڑی چوریوں اور ڈکیتیوں کی اطلاعیں وصول ہوئیں۔ اور اس کے چند روز بعد جب ایکا ایکی دو اخباروں نے دبی زبان میں غنڈوں اور بدکاروں کی یونین کے اغراض و مقاصد میں اصلاحی پہلو کریدنا شروع کیا تو لوگ سمجھ گئے کہ پس پردہ کیا ہوا ہے۔
پہلے ان دو اخباروں کے اشاعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہایت ہی گھٹیا کاغذ پر چھپتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سب سے اچھا ایڈیٹوریل اسٹاف ان دو پرچوں کے پاس تھا۔ دفتر میں ایک کی بجائے دو دو ٹیلی پرنٹر تھے۔ تنخواہ مقررہ وقت سے پہلے مل جاتی تھی۔ بونس الگ ملتا تھا۔ گھر کا الاؤنس، تانگے کا الاؤنس، سگرٹوں کا الاؤنس، چائے کا الاؤنس، مہنگائی کا الاؤنس۔ یہ سب الاؤنس مل کر تنخواہ سے دُگنے ہو جاتے تھے۔ جو دخت رز کے رسیا تھے ، ان کو مفت پرمٹ ملتا تھا اور بہترین سکاچ وسکی کنٹرولڈ قیمت پر دستیاب ہوتی تھی۔ عملے کے ہر آدمی سے باقاعدہ کنٹریکٹ کیا گیا تھا جس میں مالک کی طرف سے یہ اقرار تھا کہ اگر اس کے گھر میں کبھی چوری ہوئی یا اس کی جیب کاٹ لی گئی تو اسے نقصان کے علاوہ ہرجانہ بھی ادا کیا جائے گا۔
ان دو اخباروں کی اشاعت دیکھتے دیکھتے ہزاروں تک پہنچ گئی۔ تعجب ہے کہ پہلے جب ان کی اشاعت کچھ بھی نہیں تھی تو یہ ہر روز کثیر الاشاعت ہونے کے بلند و بالا دعوے کرتے تھے ، مگر جب ان کی کایا کلپ ہوئی تو اس معاملے میں بالکل خاموش ہو گئے۔ بیک وقت البتہ ان دونوں اخباروں نے کچھ عرصے کے بعد یہ اعلان چھاپا کہ ہماری اشاعت اس حد تک جا پہنچی ہے کہ اگر ہم نے اس سے تجاوز کیا تو تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی نقصان ہے۔
ان کے علمی و ادبی ایڈیشنوں میں عجیب و غریب موضوعات پر مضمون شائع ہوتے تھے۔ یہ چار پانچ تو بڑے ہی سنسنی خیز تھے :
1) بلیک مارکیٹنگ کے فوائد ------ معاشیات کی روشنی میں
2) معاشرتی اور مجلسی دائرے میں قحبہ خانوں کی اہمیت
3) دروغ گو را حافظ باشد ------ جدید سائنٹفک تحقیق
4) بچوں میں قتل و غارت گری کے فطری رجحانات
5) سادیت پر سیر حاصل تبصرہ
6) دنیا کے خوفناک ڈاکو اور تقدیس مذہب
اشتہار بھی کچھ عجیب و غریب نہیں تھے۔ ان میں مشتہر کا نام اور پتا نہیں ہوتا تھا۔ سرخیاں دے کر مطلب کی بات مختصر لفظوں میں ادا کر دی جاتی تھی۔ چند سرخیاں ملاحظہ ہوں :
چوری کے زیورات خریدنے سے پہلے ہمارا نشان ضرور دیکھ لیا کریں۔ جو کھرے مال کی ضمانت ہے۔
بلیک مارکیٹ میں صرف اسی فلم کے ٹکٹ فروخت کئے جاتے ہیں جو تفریح کا سامان پیش کرتا ہے۔
دودھ میں کن طریقوں سے ملاوٹ کی جاتی ہے۔ رسالہ ‘‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ‘‘ مطالعہ فرمائیے۔
ٹونے ٹوٹکے ، گنڈے اور تعویذ، عمل ہمزاد اور تسخیر محبوب کے جنتر منتر سب جھوٹے ہیں۔ خود کو دھوکہ دینے کی بجائے معشوق کو دھوکہ دیجیئے۔
کھانے پینے کی صرف وہ چیزیں خریدیئے جن میں ضرر رساں چیزوں کی ملاوٹ نہ ہو۔
ایک الگ کالم میں ‘‘ بلیک مارکیٹ کے آج کے بھاؤ ‘‘ کے عنوان تلے ان تمام چیزوں کی کنٹرولڈ قیمت درج ہوتی تھی جو صرف بلیک مارکیٹ سے دستیاب ہوتی تھیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان قیمتوں میں ایک پائی کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ جو چوری چھپے چوری کا خاص نشان لگایا ہوا مال خریدتے تھے انہیں ارزاں قیمت پر سولہ آنے کھرا مال ملتا تھا۔
غنڈوں، چوروں اور بدکاروں کی انجمن جب آہستہ آہستہ نیک نامی حاصل کرنے لگی تو ارباب بست و کشاد کو تشویش دو چند ہو گئی۔ حکومت نے اپنی طرف سے خفیہ طور پر بہت کوشش کی کہ اس کے اڈے کا سراغ لگائے مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ یونین کی تمام سرگرمیاں زیرِ زمین یعنی انڈر گراؤنڈ تھیں۔ اونچی سوسائٹی کے چند اراکین کا خیال تھا کہ پولیس کے بعض بدقماش افسر اس یونین سے ملے ہوئے ہیں بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر ہیں اور ہر ماہ اپنی ناجائز ذرائع سے پیدا کی ہوئی آمدن کا بیشتر حصہ بطور جزیے کے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کا نشتر معاشرے کے اس نہایت ہی مہلک پھوڑے تک نہیں پہنچ سکا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر یہ بات قابلِ غور تھی کہ عوام میں جو اس یونین کے قیام سے بے چینی پھیلی تھی، اب بالکل مفقود تھی۔ متوسط طبقہ اس کی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا۔ صرف اونچی سوسائٹی تھی جو دن بدن خائف ہوتی جا رہی تھی۔
اس یونین کے خلاف یوں تو آئے دن تقریریں ہوتی تھیں اور جگہ جگہ جلسے منعقد ہوتے تھے ، مگر اب وہ پہلا سا جوش و خروش نہیں تھا۔ چنانچہ اس کو ازسرِ نو شدید بنانے کے لیے ٹاؤن ہال میں ایک بہت عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ قریب قریب ہر شہر کی ہستیوں کو نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا۔ مقصد اس جلسے کا یہ تھا یہ اتفاق رائے سے غنڈوں، شُہدوں اور بدکاروں کی اس یونین کے خلاف مذمت کا ووٹ پاس کیا جائے اور عوام الناس کو ان خوفناک جراثیم سے کماحقہ آگاہ کیا جائے جو اس کے وجود سے معاشرتی و مجلسی دائرے میں پھیل چکے ہیں اور بڑی سرعت سے پھیل رہے ہیں۔
جلسے کی تیاری پر ہزاروں روپے خرچ کیے گئے۔ مجلس انتظامیہ اور مجلس استقبالیہ نے مندوبین کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کی۔ کئی اجلاس ہوئے اور بڑے کامیاب رہے۔ ان کی رپورٹ یونین کے پرچوں میں من و عن شائع ہوتی رہی۔ مذمت کے جتنے ووٹ پاس ہوئے ، بلا تبصرہ چھپتے رہے۔ دونوں اخباروں میں ان کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی۔
آخری اجلاس بہت اہم تھا۔ ملک کی تمام مکرم و محترم ہستیاں جمع تھیں۔ امرا و وزراء سب موجود تھے۔ حکومت کے اعلیٰ افسر بھی مدعو تھے۔ بڑے زور دار الفاظ میں تقریریں ہوئیں اور مذہبی، مجلسی، معاشی، جمالیاتی اور نفسیاتی، غرض کہ ہر ممکن نقطہ نظر سے غنڈوں اور بدمعاشوں کی تنظیم کے خلاف دلائل و براہین پیش کیے گئے اور ثابت کر دیا گیا کہ اس طبقہ اسفل کا وجود حیاتِ انسانی کے حق میں زہرِ قاتل ہے۔ مذمت کا آخری ریزولیشن جو بڑے با اثر الفاظ پر مشتمل تھا اتفاقِ رائے سے پاس ہوا تو ہال تالیوں کے شور سے گونج گونج اٹھا۔ جب تھوڑا سکون ہوا تو پچھلے بنچوں سے ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے صدر سے مخاطب ہو کر کہا، ‘‘ صاحب صدر، اجازت ہو تو میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
سارے ہال کی نگاہیں اس آدمی پر جم گئیں۔ صدر نے بڑی تمکنت سے پوچھا، ‘‘ میں پوچھ سکتا ہوں آپ کون ہیں؟‘‘
اس شخص نے جو بڑے سادہ مگر خوش وضع کپڑوں میں ملبوس تھا، تعظیم کے ساتھ کہا ‘‘ ملک و ملت کا ایک ادنیٰ ترین خادم،‘‘ اور کورنش بجا لایا۔
صدر نے چشمہ لگا کر اسے غور سے دیکھا اور پوچھا، ‘‘ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘
اس معما نما مرد نے مسکرا کر کہا، ‘‘ کہ ------ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔‘‘
اس پر سارے ہال میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ڈائس پر، خصوصاًّ سب کے سب معززین اور قائدین سوالیہ نشان بن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
صدر نے اپنی تمکنت کو ذرا اور تمکین بنا کر پوچھا، ‘‘ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
‘‘ میں ابھی عرض کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک بے داغ سفید رومال نکالا۔ اپنا منہ صاف کیا اور اسے واپس جیب میں رکھ کر بڑے پارلیمانی انداز میں گویا ہوا، ‘‘ صاحب صدر اور معزز حضرات۔‘‘ ڈائس کے ایک طرف دیکھ کر وہ رک گیا، ‘‘ معافی کا طلبگار ہوں ------ محترمہ بیگم مرزبان خلاف معمول آج پچھلے صوفے پر تشریف فرما ہیں ------ صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات۔‘‘
بیگم مرزبان نے وینٹی بیگ میں سے آئینہ نکال کر اپنا میک اپ دیکھا اور غور سے سننے لگی۔ باقی بھی ہمہ تن گوش تھے۔
اس شخص نے بڑی شائستگی سے کہنا شروع کیا :
حریف مطلب مشکل نہیں فسوں نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز
کچھ دیر رکھ کر وہ ایک ادا سے مسکرایا، ‘‘ حضرت غالب ------ اس اجلاس میں اور اس سے پہلے مجلسی دائرے کے ایک مفروضہ طبقہ اسفل کے بارے میں جو زہر افشانی کی گئی ہے ، آپ کے اس خاکسار نے بڑے غور سے سنی ہے۔‘‘
سارے ہال میں کھسر پھسر ہونے لگی۔ صدر کی ناک کے بانسے پر چشمہ پھسل گیا۔ ‘‘ آپ ہیں کون؟‘‘
سر کے ایک ہلکے سے خم کے ساتھ اس شخص نے جواب دیا، ‘‘ ملک و ملت کا ایک ادنٰی خادم ------ مجلسی دائرے کے مفروضہ طبقہ اسفل کی جماعت کا ایک رکن جسے اس کی نمائندگی کا فخر حاصل ہے۔‘‘
ہال میں کسی نے زور سے ‘‘ واہ ‘‘ کہا اور تالی بجائی۔ چوروں، اچکوں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے نے سر کو پھر ہلکی سی جنبش دی اور کہنا شروع کیا، ‘‘ کیا عرض کروں، کچھ کہا نہیں جاتا :
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
اس اجلاس میں اس جماعت کے خلاف جس کا یہ خاکسار نمائندہ ہے ، اس قدر گالیاں دی گئی ہیں، اس قدر لعنت ملامت کی گئی ہے کہ صرف اتنا کہنے کو جی چاہتا ہے :
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہیں
صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔‘‘
بیگم مرزبان کی لپ اسٹک مسکرائی، بولنے والے نے آنکھیں اور سر جھکا کر تسلیم عرض کیا۔
‘‘ محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں میری جماعت کا کوئی ہمدرد موجود نہیں۔ آپ میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارا طرفدار ہو۔
دوست گر کوئی نہیں ہے جو کرے چارہ گری
نہ سہی ایک تمنائے دوا ہے تو سہی‘‘
ڈائس پر ایک اچکن پوش رئیس کلے میں پان دبا کر بولے ، ‘‘ مکرر ‘‘
صدر نے جب ان کی طرف سرزنش بھری نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہو گئے۔
چوروں اور بدکاروں کی یونین کے نمائندے کے پتلے پتلے ہونٹوں پر شفاف مسکراہٹ نمودار ہوئی، ‘‘ میں اپنی تقریر میں جو شعر بھی استعمال کروں گا ------ حضرت غالب کا ہو گا۔‘‘
بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے کہا، ‘‘ آپ تو بڑے لائق معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
بولنے والا کورنش بجا لایا اور مسکرا کر کہنے لگا،
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
سارا ہال قہقہوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ بیگم مرزبان نے اٹھ کر صدر کے کان میں کچھ کہا جس نے حاضرین کو چپ رہنے کا حکم دیا۔ خاموشی ہوئی تو چوروں اور لفنگوں کی یونین کے نمائندے نے پھر بولنا شروع کیا، ‘‘ صاحب صدر، محترم مرزبان اور معزز حضرات،
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سچ پوچھئے تو اس سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں تاسف کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طبقے کے ساتھ جس کی نمائندگی میری جماعت کرتی ہے ، نہایت بے انصافی ہوئی ہے۔ اس کو اب تک بالکل غلط رنگ میں دیکھا جاتا رہا ہے اور یہی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اسے ملعون و مطعون قرار دے کر خارج از سماج کر دیا جائے۔ میں ان مطہر ہستیوں کو کیا کہوں جنہوں نے اس شریف اور معزز طبقے کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے ہیں :
آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے
اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے
صدر نے دفعتہً گرج کر کہا، ‘‘ خاموش ------ بس اب آپ کو مزید بولنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
مقرر نے مسکرا کر کہا : ‘‘ حضرت غالب کی اسی غزل کا ایک شعر ہے :
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر
کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے
ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ صدر نے اجلاس برخاست کرنا چاہا مگر لوگوں نے کہا کہ نہیں چوروں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے کی تقریر ختم ہو جائے تو کاروائی بند کی جائے۔ صدر اور دوسرے اراکین اجلاس نے پہلے آمادگی ظاہر نہ کی لیکن بعد میں رائے عامہ کے سامنے انہیں جھکنا پڑا۔ مقرر کو بولنے کی اجازت مل گئی۔
اس نے صاحب صدر کا مناسب و موزوں الفاظ میں شکریہ ادا کیا اور کہنا شروع کیا، ‘‘ ہماری یونین کو صرف اس لیے نفرت و تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ چوروں، اٹھائی گیروں، راہزنوں اور ڈاکوؤں کی انجمن ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں آپ لوگوں کے جذبات بخوبی سمجھتا ہوں۔ آپ کا فوری ردِ عمل کس قسم کا تھا، میں اس کا بھی تصور کر سکتا ہوں، مگر چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے حقوق کیا نہیں ہوتے ؟ یا نہیں ہو سکتے ؟ میں سمجھتا ہوں کوئی سلیم الدماغ آدمی ایسا نہیں سوچ سکتا ------ جس طرح سب سے پہلے آپ انسان ہیں، بعد میں سیٹھ صاحب ہیں، رئیس اعظم ہیں، میونسپل کمشنر ہیں، وزیر داخلہ ہیں یا خارجہ، اسی طرح وہ بھی سب سے پہلے آپ ہی کی طرح انسان ہیں۔ چور، ڈاکو، اٹھائی گیرا، جیب کترا اور بلیک مارکیٹر بعد میں ہے۔ جو حقوق دوسرے انسانوں کو اس سقف نیلوفری کے نیچے مہیا ہیں، وہ اسے بھی مہیا ہیں اور ہونے چاہیں۔ جن نعمتوں کے دوسرے انسان متمتع ہوتے ہیں، ان سے وہ بھی مستفیذ ہونے کا حق رکھتا ہے۔ ------ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک چور یا ڈاکو کیوں شئے لطیف سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اسے ایک ایسا شخص متصور کیا جاتا ہے جو معمولی حسیات سے بھی عاری ہے ------ معاف فرمائیے وہ اچھا شعر سن کر اسی طرح پھڑک اٹھتا ہے جس طرح کوئی دوسرا سخن فہم۔ صبح بنارس اور شام اودھ سے صرف آپ ہی لطف اندوز نہیں ہوتے ، وہ بھی ہوتا ہے۔ سُر تال کی اس کو بھی خبر ہے۔ وہ پولیس کے ہاتھوں ہی گرفتار ہونا نہیں جانتا، کسی حسینہ کے دامِ اُلفت میں گرفتار ہونے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ شادی کرتا ہے ، بچے پیدا کرتا ہے۔ ان کو چوری سے منع کرتا ہے ، جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔۔۔۔۔۔ خدانخواستہ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے دل کو صدمہ بھی پہنچتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کسی قدر گلو گیر ہو گئی لیکن فوراّ ہی اس نے رخ بدلا اور مسکراتے ہوئے کہا، ‘‘ حضرت غالب کے اس شعر کا جو مزا وہ لے سکتا ہے ، معاف کیجیئے ، آپ میں سے کوئی بھی نہیں لے سکتا :
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
سارا ہال شگفتہ ہو کر ہنسنے لگا۔ بیگم مرزبان بھی جو تقریر کے آخری حصے پر کچھ افسردہ سی ہو گئی تھیں، مسکرائیں۔ مقرر نے اسی طرح پتلی پتلی شفاف مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا، ‘‘ مگر اب ایسے دعا دینے والے کہاں؟‘‘
بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن کے ساتھ آہ بھر کر کہا، ‘‘ اور وہ رہزن بھی کہاں؟‘‘
مقرر نے تسلیم کیا، ‘‘ آپ نے بجا ارشاد فرمایا بیگم مرزبان۔ ہمیں اس افسوس ناک حقیقت کا کامل احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مل کر اپنی انجمن کی بِنا ڈالی ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ رہزن، چور اور جیب کترے ، قریب قریب سب، اپنی پرانی روش اور وضعداری بھول گئے ہیں۔ لیکن مقام مسرت ہے کہ وہ اب بہت تیزی سے اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن میں ان حضرات سے جو ان غریبوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں یہ گستاخانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی اصلاح کے لیے اب تک انہوں نے کیا کیا ہے ؟ مجھے کہنا تو نہیں چاہیے مگر تقابل کے لیے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں نہایت ذلیل، چور اور سفاک ڈاکو کہا جاتا ہے ، مگر وہ لوگ کیا ہیں۔۔۔۔۔۔ کچھ اس عالی مرتبت ڈائس پر بھی بیٹھے ہیں، جو عوام کا مال و متاع دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔
ہال میں ‘‘ شیم شیم ‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔
مقرر نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا، ‘‘ ہم چوری کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، مگر اسے کوئی نام نہیں دیتے۔ یہ معزز ہستیاں بدترین قسم کی ڈاکہ زنی کرتی ہیں مگر یہ جائز سمجھی جاتی ہیں۔ اپنی آنکھ کے اس طویل و عریض شہتیر کو کوئی نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہے ------ کیوں ------ یہ بڑا گستاخانہ سوال ہے۔ میں اس کا جواب سننا چاہتا ہوں، چاہے وہ اس سے بھی زیادہ گستاخ ہو------ ‘‘ تھوڑے وقفے کے بعد وہ مسکرایا، ‘‘ وزیر صاحبان اپنی مسند وزارت کی سان پر استرا تیز کر کے ملک کی ہر روز حجامت کرتے رہیں۔ یہ کوئی جرم نہیں۔ لیکن کسی کی جیب سے بڑی صفائی کے ساتھ بٹوا چرانے والا قابلِ تعزیر ہے۔۔۔۔۔۔ تعزیر کر چھوڑیئے مجھے اس پر کوئی زیادہ اعتراض نہیں ------ وہ آپ کی نظروں میں گردن زدنی ہے۔‘‘
ڈائس پر بہت سے حضرات بے چینی اور اضطراب محسوس کرنے لگے ------ بیگم مرزبان مسرور تھیں۔
مقرر نے اپنا گلا صاف کیا، پھر کہنا شروع کیا، ‘‘ تمام محکموں میں، اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت ستانی کا سلسلہ قائم ہے۔ یہ کسے معلوم نہیں۔ کیا یہ بھی کوئی راز ہے جس کے انکشاف کی ضرورت ہے خویش پروری اور کنبہ نوازی کی بدولت سخت نااہل، خر دماغ اور بدقماش بڑے بڑے عہدے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ معاف فرمائیے گا، ادھر ہمارے طبقے میں ایسے افسوس ناک حالات موجود نہیں ہیں۔ کوئی چور اپنے کسی عزیز کو بڑی چوری کے لیے منتخب نہیں کرے گا۔ ہمارے ہاں لوگ اس قسم کی رعایتوں سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے کہ چوری کرنے ، جیب کاٹنے یا ڈاکہ ڈالنے کے لیے دل گردے اور مہارت و قابلیت کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ ہر شخص کا کام ہی خود اس کا امتحان ہوتا ہے۔ جو اس کو فوراّ نتیجے سے باخبر کر دیتا ہے۔‘‘
ہال میں سب خاموش تھے اور بڑے غور سے سن رہے تھے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد مقرر کی آواز پھر بلند ہوئی، ‘‘ میں بدکاری معاف کر سکتا ہوں لیکن خامکاری ہرگز ہر گز معاف نہیں کر سکتا ------ وہ لوگ یقیناً قابلِ مواخذہ ہیں جو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر ملک کی دولت لوٹتے ہیں۔ ایسے بھونڈے طریقے پر کہ ان کے کرتوتوں کے بھانڈے ہر دوسرے روز چوراہوں میں پھوٹتے ہیں۔ وہ پکڑے جاتے ہیں مگر بچ نکلتے ہیں کہ ان کے نام دس نمبر کے بستہ الف میں درج ہیں نہ بستہ ب میں۔۔۔۔۔۔ یہ کس قدر ناانصافی ہے۔۔۔۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں بیچارے انصاف کا۔۔۔۔۔۔ اندھے انصاف کا خون یہیں پر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں ایسے اور بھی کئی مقتل ہیں جہاں انصاف، انسانیت، شرافت و نجابت، تقدس و طہارت، دین و دنیا، سب کو ایک ہی پھندے میں ڈال کر ہر روز پھانسی دی جاتی ہے ------ میں پوچھتا ہوں انسانوں کی خام کھالوں کی تجارت کرنے والے ہم ہیں یا آپ۔۔۔۔۔۔ میں سوال کرتا ہوں ازمنہ عتیق کی بربریت کی طرف امن پسند انسانوں کو کشاں کشاں کھینچ کر لے جانے والے ہم ہیں یا آپ۔۔۔۔۔۔ اور استفسار کرتا ہوں کہ دوسرے اجناس کی طرح ملاوٹ کر کے اپنے ایمان کو آپ بیچتے ہیں یا ہم؟‘‘
ہال پر قبر کی سی خاموشی طاری تھی۔ مقرر نے جیب سے اپنا سفید رومال نکال کر منہ صاف کیا اور اسے ہوا میں لہرا کر کہا، ‘‘ صاحب صدر، خاتونِ مکرم اور معزز حضرات، مجھے معاف فرمایئے کہ میں ذرا جذبات کی رو میں بہہ گیا۔۔۔۔۔۔ عرض ہے کہ جدھر نظر اٹھائی جائے ، ایمان فروش ہوتا ہے یا ضمیر فروش، وطن فروش ہوتا ہے یا ملت فروش۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھی کوئی فروخت کرنے کی چیزیں ہیں۔ انسان تو انہیں نہایت مشکل وقت میں بھی ایک لمحے کے لیے گروی نہیں رکھ سکتا، مگر میں انسانوں کی بات کر رہا ہوں۔ معاف کیجیئے ، میرے لہجے میں پھر تلخی پیدا ہو گئ :
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
یہ کہتا ہوا وہ ڈائس کی طرف بڑھا، ‘‘ صاحب صدر، محترم خاتون مرزبان اور معزز حضرات، میں اپنی یونین کی طرف سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے لب کشائی کا موقع دیا۔‘‘
ڈائس کے پاس پہنچ کر اس نے صدر کی طرف ہاتھ بڑھایا، ‘‘ میں اب ایک دوست کی حیثیت سے رخصت چاہتا ہوں۔‘‘
صدر نے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد اس نے بیگم مرزبان کی طرف ہاتھ بڑھایا، ‘‘ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔۔۔۔‘‘
بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے اپنا ہاتھ پیش کر دیا۔ باقی معززین اور رؤسا سے ہاتھ ملا کر جب فارغ ہوا تو خدا حافظ کہہ کر چلنے لگا، لیکن فورا ہی رک گیا۔ اپنی دونوں جیبوں سے اس نے بہت سی چیزیں نکالیں اور صدر کی میز پر ایک ایک کر کے رکھ دیں۔ پھر وہ مسکرایا، ‘‘ ایک عرصے سے جیب تراشی چھوڑ چکا ہوں، آج کل سیف توڑنا میرا پیشہ ہے۔۔۔۔۔۔ آج صرف از راہ تفریح آپ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر دیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بیگم مرزبان سے مخاطب ہوا، ‘‘ خاتون مکرم معاف کیجیئے ، آپ کے وینیٹی بیگ سے بھی میں نے ایک چیز نکالی تھی، مگر وہ ایسی ہے کہ سب کے سامنے آپ کو واپس نہیں کر سکتا۔‘‘
اور وہ تیزی کے ساتھ ہال سے باہر نکل گیا۔
دو بھائی تھے۔ اللہ رکھا اور اللہ دتا۔ دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے۔ ان کے آبا و اجداد البتہ لاہور کے تھے۔ مگر جب ان دو بھائیوں کا دادا ملازمت کی تلاش میں پٹیالہ آیا تو وہیں کا ہو رہا۔
اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں سرکاری ملازم تھے۔ ایک چیف سیکرٹری صاحب بہادر کا اردلی تھا۔ دوسرا کنٹرولر آف اسٹورز کے دفتر کا چپراسی۔
دونوں بھائی ایک ساتھ رہتے تھے تاکہ خرچ کم ہو۔ بڑی اچھی گزر رہی تھی۔ ایک صرف اللہ رکھا کو جو بڑا تھا، اپنے چھوٹے بھائی کے چال چلن کے متعلق شکایت تھی۔ وہ شراب پیتا تھا۔ رشوت لیتا تھا اور کبھی کبھار کسی غریب اور نادار عورت کو پھانس بھی لیا کرتا تھا۔ مگر اللہ رکھا نے ہمیشہ چشم پوشی سے کام لیا تھا کہ گھر کا امن و سکون درہم برہم نہ ہو۔
دونوں شادی شدہ تھے۔ اللہ رکھا کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک بیاہی جا چکی تھی اور اپنے گھر میں خوش تھی۔ دوسری جس کا نام صغریٰ تھا، تیرہ برس کی تھی اور پرائمری سکول میںپڑھتی تھی۔
اللہ دتا کی ایک لڑکی تھی ------ زینب ------ اس کی شادی ہو چکی تھی مگر اپنے گھر میںکوئی اتنی خوش نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس کا خاوند اوباش تھا۔ پھر بھی وہ جوں توں نبھائے جا رہی تھی۔
زینب اپنے بھائی طفیل سے تین سال بڑی تھی۔ اس حساب سے طفیل کی عمر اٹھارہ انیس برس کے قریب ہوتی تھی۔ وہ لوہے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں کام سیکھ رہا تھا۔ لڑکا ذہین تھا، چنانچہ کام سیکھنے کے دوران میں بھی پندرہ روپے ماہوار اسے مل جاتے تھے۔
دونوں بھائیوں کی بیویاں بڑی اطاعت شعار، محنتی اور عبادت گزار عورتیں تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہروں کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔
زندگی بڑی ہموار گزر رہی تھی کہ ایکا ایکی ہندو مسلم فساد شروع ہو گئے۔ دونوں بھائیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے مال و جان اور عزت و آبرو پر حملہ ہو گا اور انہیں افراتفری اور کسمپرسی کے عالم میں ریاست پٹیالہ چھوڑنا پڑے گی ------ مگر ایسا ہوا۔
دونوں بھائیوں کو قطعاً معلوم نہیں کہ اس خونیں طوفان میں کون سا درخت گرا، کون سے درخت سے کون سی ٹہنی ٹوٹی ------ جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو چند حقیقتیں سامنے آئیں اور وہ لرز گئے۔
اللہ رکھا کی لڑکی کا شوہر شہید کر دیا گیا تھا اور اس کی بیوی کو بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے ہلاک کر دیا تھا۔
اللہ دتا کی بیوی کو بھی سکھوں نے کرپانوں سے کاٹ ڈالا تھا۔ اس کی لڑکی زینب ------ کا بد چلن شوہر بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
رونا دھونا بیکار تھا۔ صبر شکر کر کے بیٹھ رہے۔ پہلے تو کیمپوں گلتے سٹرتے رہے۔ پھر گلی کوچوں میں بھیک مانگا کیئے۔ آخر خدا نے سنی، اللہ دتا کو گوجرانوالہ میں ایک چھوٹا سا شکستہ مکان سر چھپانے کو مل گیا۔ طفیل نے دوڑ دھوپ کی تو اسے کام مل گیا۔
اللہ رکھا لاہور ہی میں دیر تک دربدر پھرتا رہا۔ جوان لڑکی ساتھ تھی۔ گویا ایک پہاڑ کا پہاڑ اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس غریب نے کس طرح ڈیرھ برس گزارا۔ بیوی اور بڑی لڑکی کا غم وہ بالکل بھول چکا تھا۔ قریب تھا کہ وہ کوئی خطرناک قدم اٹھائے کہ اسے ریاست پٹیالہ کے ایک بڑے افسر مل گئے جو اس کے بڑے مہربان تھے۔ اس نے ان کو اپنی حالتِ زار الف سے لے کر ے تک کہہ سنائی۔ آدمی رحم دل تھا۔ اس کو بڑی دقتوں کے بعد لاہور کے ایک عارضی دفتر میں اچھی ملازمت مل گئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے دوسرے روز ہی اس کو چالیس روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ اور ایک چھوٹا سا کوارٹر بھی رہائش کے لیے دلوا دیا۔
اللہ رکھا نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے اس کی مشکلات دور کیں۔ اب وہ آرام سے سانس لے سکتا تھا اور مستقبل کے متعلق اطمینان سے سوچ سکتا تھا۔ صغریٰ بڑے سلیقے والی سگھڑ لڑکی تھی۔ سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی۔ ادھر ادھر سے لکڑیاں چن کے لاتی۔ چولہا سلگاتی اور مٹی کی ہنڈیا میں ہر روز اتنا سالن پکاتی جو دو وقت کے لیے پورا ہو جائے۔ آٹا گوندھتی، پاس ہی تنور تھا، وہاں جا کر روٹیاں لگوا لیتی۔
تنہائی میں آدمی کیا کچھ نہیں سوچتا۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔ صغریٰ عام طور پر دن میں تنہا ہوتی تھی اور اپنی بہن اور ماں کو یاد کر کے آنسو بہاتی رہتی تھی، پر جب باپ آتا تو وہ اپنی آنکھوں کے سارے آنسو خشک کر لیتی تھی تاکہ اس کے زخم ہرے نہ ہوں۔ لیکن وہ اتنا جانتی تھی کہ اس کا باپ اندر ہی اندر گھلا جا رہا ہے۔ اس کا دل ہر وقت روتا رہتا ہے مگر وہ کسی سے کہتا نہیں۔ صغریٰ سے بھی اس نے کبھی اس کی ماں اور بہن کا ذکر نہیں کیا تھا۔
زندگی افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ ادھر گوجرانوالہ میں اللہ دتہ اپنے بھائی کے مقابلے میں کسی قدر خوش حال تھا، کیونکہ اسے بھی ملازمت مل گئی تھی اور زینب بھی تھوڑا بہت سلائی کا کام کر لیتی تھی۔ مل ملا کے کوئی سو روپے ماہوار ہو جاتے تھے جو تینوں کے لیے بہت کافی تھے۔
مکان چھوٹا تھا، مگر ٹھیک تھا۔ اوپر کی منزل میں طفیل رہتا تھا، نچلی منزل میں زینب اور اس کا باپ۔ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اللہ دتا اسے زیادہ کام نہیں کرنے دیتا تھا۔ چنانچہ منہ اندھیرے اٹھ کر وہ صحن میں جھاڑو دے کر چولہا سلگا دیتا تھا کہ زینب کا کام کچھ ہلکا ہو جائے۔ وقت ملتا تو وہ دو تین گھڑے بھر کر گھڑونچی پر رکھ دیتا تھا۔
زینب نے اپنے شہید خاوند کو کبھی یاد نہیں کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس کی زندگی میں کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ خوش تھی۔ اپنے باپ کے ساتھ بہت خوش تھی۔ بعض اوقات وہ اس سے لپٹ جاتی تھی ------ طفیل کے سامنے بھی، اور اس کو خوب چومتی تھی۔
صغریٰ اپنے باپ سے ایسے چہل نہیں کرتی تھی۔ اگر ممکن ہوتا تو وہ اس سے پردہ کرتی۔ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی نامحرم تھا۔ نہیں، صرف احترام کے لیے۔ اس کے دل سے کئی دفعہ یہ دعا اٹھتی تھی۔ ‘‘ یا پروردگار، میرا باپ میرا جنازہ اٹھائے۔‘‘
بعض اوقات کئی دعائیں الٹی ثابت ہوتی ہیں۔ جو خدا کو منظور تھا، وہی ہونا تھا۔ غریب صغریٰ کے سر پر غم و اندوہ کا ایک پہاڑ ٹوٹنا تھا۔
جون کے مہینے دوپہر کو دفتر کے کسی کام پر جاتے ہوئے تپتی ہوئی سڑک پر اللہ رکھا کو ایسی لُو لگی کہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ لوگوں نے اٹھایا۔ ہسپتال پہنچایا مگر دوا دارو نے کوئی کام نہ کیا۔
صغریٰ باپ کی موت کے صدمے سے نیم پاگل ہو گئی۔ اس نے قریب قریب اپنے آدھے بال نوچ ڈالے۔ ہمسایوں نے بہت دم دلاسا دیا۔ مگر یہ کارگر کیسے ہوتا۔ وہ تو ایسی کشتی کے مانند تھی، جس کا بادبان ہو نہ کوئی پتوار اور بیچ منجدھار کے آن پھنسی ہو۔
پٹیالہ کے وہ افسر جنہوں نے مرحوم اللہ رکھا کو ملازمت دلوائی تھی، فرشتہ رحمت ثابت ہوئے۔ ان کو جب اطلاع ملی تو دوڑے آئے۔ سب سے پہلے انہوں نے یہ کام کیا کہ صغریٰ کو موٹر میں بٹھا کر گھر چھوڑ آئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ پھر ہسپتال جا کر انہوں نے اللہ رکھا کے غسل وغیرہ کا وہیں انتظام کیا اور دفتر والوں سے کہا کہ وہ اس کو دفنا آئیں۔
اللہ دتا کو اپنے بھائی کے انتقال کے خبر بڑی دیر کے بعد ملی۔ بہر حال وہ لاہور آیا اور پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچ گیا جہاں صغریٰ تھی۔ اس نے اپنی بھتیجی کو بہت دم دلاسا دیا۔ بہلایا۔ سینے کے ساتھ لگایا، پیار کیا۔ دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا۔ بہادر بننے کو کہا، مگر صغریٰ کے پھٹے ہوئے دل پر ان تمام باتوں کا کیا اثر ہوتا۔ غریب خاموش اپنے آنسو دوپٹے میں خشک کرتی رہی۔
اللہ دتا نے افسر صاحب سے آخر میں کہا، ‘‘ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ میری گردن آپ کے احسانوں تلے ہمیشہ جھکی رہے گی۔ مرحوم کی تجہیز و تکفین کا آپ نے بندوبست کیا۔ پھر یہ بچی جو بالکل بے آسرا رہ گئی تھی، اس کو آپ نے اپنے گھر میں جگہ دی۔ خدا آپ کو اس کا اجر دے۔ اب میں اسے اپنے ساتھ لیے جاتا ہوں۔ میرے بھائی کی بڑی قیمتی نشانی ہے۔‘‘
افسر صاحب نے کہا، ‘‘ ٹھیک ہے ، لیکن تم اسے کچھ دیر اور یہاں رہنے دو۔ طبیعت سنبھل جائے تو لے جانا۔‘‘
اللہ دتا نے کہا، ‘‘ حضور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کی شادی اپنے لڑکے سے کروں گا اور بہت جلد۔‘‘
افسر صاحب بہت خوش ہوئے۔ ‘‘ بڑا نیک ارادہ ہے۔ لیکن اس صورت میں جب کہ تم اس کی شادی اپنے لڑکے سے کرنے والے ہو، اس کا اس گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ تم شادی کا بندوبست کرو، مجھے تاریخ سے مطلع کر دینا۔ خدا کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
بات درست تھی۔ اللہ دتا واپس گوجرانوالہ چلا گیا۔ زینب اس کی غیر موجودگی میں بہت اداس ہو گئی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ اتنی دیر کیوں لگائی۔
اللہ دتا نے پیار سے اسے ایک طرف ہٹایا، ‘‘ ارے بابا، آنا جانا کیا ہے ، قبر پر فاتحہ پڑھنی تھی۔ صغریٰ سے ملنا تھا، اسے یہاں لانا تھا۔
زینب نہ معلوم کیا سوچنے لگی۔ ‘‘ صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔‘‘ ایک دم چونک کر، ‘‘ ہاں ------ صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔ پر وہ کہاں ہے ؟‘‘
‘‘ وہیں ہے۔ پٹیالے کے ایک بڑے نیک دل افسر ہیں، ان کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا جب تم اس کی شادی کا بندوبست کر لو گے تو لے جانا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے بیڑی سلگائی۔
زینب نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ ‘‘ اس کی شادی کا بندوبست کر رہے ہو۔ کوئی لڑکا ہے تمہاری نظر میں؟‘‘
اللہ دتا نے زور کا کش لیا۔ ‘‘ ارے بھئی اپنا طفیل۔ میرے بڑے بھائی کی صرف ایک ہی نشانی تو ہے۔ میں اسے کیا غیروں کے حوالے کر دوں گا۔‘‘
زینب نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ‘‘ تو صغریٰ کی شادی تم طفیل سے کرو گے ؟‘‘
اللہ دتا نے جواب دیا۔ ‘‘ ہاں، کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے ؟‘‘
زینب نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا، ‘‘ ہاں ------ اور تم جانتے ہو، کیوں ہے ------ یہ شادی ہرگز نہیں ہو گی۔‘‘
اللہ دتا مسکرایا۔ زینب کی تھوڑی پکڑ کر اس نے اس کا منہ چوما۔ ‘‘ پگلی ------ ہر بات پر شک کرتی ہے۔ ------ اور باتوں کو چھوڑ، آخر میں تمہارا باپ ہوں۔‘‘
زینب نے بڑے زور سے ہونہہ کی ‘‘ باپ۔‘‘ اور اندر کمرے میں جا کر رونے لگی۔
اللہ دتا اس کے پیچھے گیا اور اس کو پچکارنے لگا۔
دن گزرتے گئے۔ طفیل فرمانبردار لڑکا تھا۔ جب اس کے باپ نے صغریٰ کی بات کی تو وہ فوراً مان گیا۔ آخر تین چار مہینے کے بعد تاریخ مقرر ہر گئی۔ افسر صاحب نے فوراً صغریٰ کے لیے ایک بہت اچھا جوڑا سلوایا جو اسے شادی کے دن پہننا تھا۔ ایک انگوٹھی بھی لے دی۔ پھر اس نے محلے والوں سے اپیل کی کہ وہ ایک یتیم لڑکی کی شادی کے لیے جو بالکل بے سہارا ہے ، حسبِ توفیق کچھ دیں۔
صغریٰ کو قریب قریب سبھی جانتے تھے اور اس کے حالات سے واقف تھے ، چنانچہ انہوں نے مل ملا کر اس کے لیے بڑا اچھا جہیز تیار کر دیا۔
صغریٰ دلہن بنی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ تمام دکھ جمع ہو گئے ہیں اور اس کو پیس رہے ہیں۔ بہرحال وہ اپنے سسرال پہنچی جہاں اس کا استقبال زینب نے کیا۔ کچھ اس طرح کہ صغریٰ کو اسی وقت معلوم ہو گیا کہ وہ اس کے ساتھ بہنوں کا سا سلوک نہیں کرے گی بلکہ ساس کی طرح پیش آئے گی۔
صغریٰ کا اندیشہ درست تھا۔ اس کے ہاتھوں کی مہندی ابھی اچھی طرح اترنے بھی نہیں پائی تھی کہ زینب نے اس سے نوکروں کے کام لینے شروع کر دیئے۔ جھاڑو دیتی، برتن وہ مانجھتی، چولہا وہ جھونکتی، پانی وہ بھرتی، یہ سب کام وہ بڑی پھرتی اور بڑے سلیقے سے کرتی لیکن پھر بھی زینب خوش نہ ہوتی۔ بات بات پر اس کو ڈانٹتی ڈپٹتی، جھڑکتی رہتی۔
صغریٰ نے دل میں تہیہ کر لیا تھا، وہ یہ سب کچھ برداشت کرے گی اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے گی۔ کیونکہ اگر اسے یہاں سے دھکا مل گیا تو اس کے لیے اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
اللہ دتا کا سلوک البتہ اس سے برا نہیں تھا۔ زینب کی نظر بچا کر کبھی کبھی وہ اس کو پیار کر لیتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ کچھ فکر نہ کرے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
صغریٰ کو اس سے بہت ڈھارس ہوتی۔ زینب جب کبھی اپنی کسی سہیلی کے ہاں جاتی اور اللہ دتا اتفاق سے گھر پر ہوتا تو وہ اس سے دل کھول کر پیار کرتا۔ اس سے بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا۔ کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے واسطے اس نے جو چیزیں چھپا کر رکھی ہوتی تھیں، دیتا اور سینے کے ساتھ لگا کر اس سے کہتا، ‘‘ صغریٰ تم بڑی پیاری ہو۔‘‘
صغریٰ جھینپ جاتی۔ در اصل وہ اتنے پر جوش پیار کی عادی نہیں تھی۔ اس کا مرحوم باپ اگر کبھی اسے پیار کرنا چاہتا تھا تو صرف اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیا کرتا تھا یا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا دیا کرتا تھا ‘‘ خدا میری بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔‘‘
صغریٰ طفیل سے بہت خوش تھی۔ وہ بڑا اچھا خاوند تھا۔ جو کماتا تھا اس کے حوالے کر دیتا تھا، مگر صغریٰ زینب کو دے دیتی تھی۔ اس لیے کہ وہ اس کے قہر و غضب سے ڈرتی تھی۔
طفیل سے صغریٰ نے زینب کی بدسلوکی اور اس کے ساس ایسے برتاؤ کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ صلح کل تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے باعث گھر میں کسی قسم کی بدمزگی پیدا ہو۔ اور بھی کئی باتیں تھیں جو وہ طفیل سے کہنا چاہتی تھی کہہ دیتی مگر اسے ڈر تھا کہ طوفان برپا ہو جائے گا۔ اور تو اس میں سے بچ کر نکل جائیں گے مگر وہ اکیلی اس میں پھنس جائے گی، اور اس کی تاب نہ لا سکے گی۔
یہ خاص باتیں اسے چند روز ہوئے معلوم ہوئی تھیں اور وہ کانپ کانپ گئی تھی۔ اب اللہ دتا اسے پیار کرنا چاہتا تو وہ الگ ہٹ جاتی، یا دوڑ کر اوپر چلی جاتی جہاں وہ اور طفیل رہتے تھے۔
طفیل کو جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ اللہ دتا کو اتوار کو۔ زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو وہ جلدی جلدی کام کاج ختم کر کے اوپر چلی جاتی۔ اگر اتفاق سے اتوار کو زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو صغریٰ کی جان پر بنی رہتی۔ ڈر کے مارے اس سے کام نہ ہوتا۔ لیکن زینب کا خیال آتا تو اسے مجبوراً کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل سے طوعاً و کرہاً سب کچھ کرنا پڑتا۔ اگر وہ کھانا وقت پر نہ پکائے تو اس کا خاوند بھوکا رہے کیونکہ وہ ٹھیک بارہ بجے اپنا شاگرد روٹی کے لیے بھیج دیتا تھا۔
ایک دن اتوار کو جب کہ زینب گھر پر نہیں تھی، اور وہ آٹا گوند رہی تھی، اللہ دتا پیچھے سے دبے پاؤں آیا اور کھلنڈرے انداز میں اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔ وہ تڑپ کر اٹھی، مگر اللہ دتا نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔
صغریٰ نے چیخنا شروع کر دیا مگر وہاں سننے والا کون تھا۔ اللہ دتا نے کہا، ‘‘ شور مت مچاؤ۔ یہ سب بے فائدہ ہے ------ چلو آؤ۔‘‘
وہ چاہتا تھا کہ صغریٰ کو اٹھا کر اندر لے جائے۔ کمزور تھی مگر خدا جانے اس میں کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ اللہ دتا کی گرفت سے نکل گئی اور ہانپتی کانپتی اوپر پہنچ گئی۔ کمرے میں داخل ہو کر اس نے اندر سے کنڈی چڑھا دی۔
تھوڑی دیر کے بعد زینب آ گئی۔ اللہ دتا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اندر کمرے میں لیٹ کر اس نے زینب کو پکارا۔ وہ آئی تو اس سے کہا، ‘‘ ادھر آؤ، میری ٹانگیں دباؤ۔ زینب اچک کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی ٹانگیں دبانے لگی ------ تھوڑی دیر کے بعد دونوں کے سانس تیز تیز چلنے لگے۔
زینب نے اللہ دتا سے پوچھا۔ ‘‘کیا بات ہے ؟ آج تم اپنے آپ میں نہیں ہو۔‘‘
اللہ دتا نے سوچا زینب سے چھپانا فضول ہے ، چنانچہ اس نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ زینب آگ بگولا ہو گئی۔ ‘‘ کیا ایک کافی نہیں تھی ------ تمہیں تو شرم نہ آئی، پر اب تو آنی چاہیے تھی ------ مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہو گا، اسی لیے میں شادی کے خلاف تھی ------ اب سن لو کہ صغریٰ اس گھر میں نہیں رہے گی۔‘‘
اللہ دتا نے بڑے مسکین لہجے میں پوچھا ‘‘کیوں؟‘‘
زینب نے کھلے طور پر کہا، ‘‘ میں اس گھر میں اپنی سوت دیکھنا نہیں چاہتی۔‘‘
اللہ دتا کا حلق خشک ہو گیا۔ اس کے منہ سے کوئی بات نکل نہ سکی۔
زینب باہر نکلی تو اس نے دیکھا کہ صغریٰ صحن میں جھاڑو دے رہی ہے۔ چاہتی تھی کہ اس سے کچھ کہے مگر خاموش رہی۔
اس واقعے کو دو مہینے گزر گئے ------ صغریٰ نے محسوس کیا کہ طفیل اس سے کھنچا کھنچا رہتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اس کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ آخر ایک دن آیا کہ اس نے طلاق نامہ اس کے ہاتھ میں دیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔
دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی۔ جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب وہ دہلی میں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک دن اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ ‘‘ دِس لیف ------ ویری بیڈ، یعنی یہ زندگی بہت بری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔‘‘
انبالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آ جاتے تھے اور تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کر کہہ دیا کرتی تھی ‘‘ صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔‘‘ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیتی تھی۔ وہ حیرت سے اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی ‘‘ صاحب تم ایک دم الو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے ------ سمجھا۔‘‘ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجے میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی ------ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی، ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں۔ جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو۔ اور ان چھ گاہکوں سے ، اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے ، ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے تھے۔ تین روپے سے زیادہ پر کوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا، مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا ‘‘ بھئی تین روپے سے زیادہ ایک کوڑی نہیں دیں گے۔‘‘ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہی ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے کہا ‘‘ دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو نہ ہو گا۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ۔‘‘ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازہ بند کر کے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا ‘‘ لائیے ایک روپیہ دودھ کا‘‘ ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا غنیمت ہے۔
ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں ------ بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جسے مالک مکان انگریزی میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانے میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ زنجیر کو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کئے گئے ، یہ زنجیر اس لیے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی اس نے زنجیر کو پکڑ کر اٹھنا چاہا اور کھٹ کھٹ کی آواز آئی اور پھر ایک دم سے پانی اس زور کے ساتھ باہر نکلا تو ڈر کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی، دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا ‘‘ کیا ہوا ------ یہ چیخ تمہاری تھی؟‘‘
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا ‘‘ یہ مؤا پیخانہ ہے یا کیا ہے ؟ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر لٹکا رکھی ہے ؟ میری کمر میں درد تھا میں نے کہا کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کر چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔‘‘
اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی زمین میں دھنس جاتی ہے۔
خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہو، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھی، چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگا کر وہ ساتھ لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کوئی کام نہ ملا اس لیے اس نے عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں آیا جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا، چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔
خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی، اس لیے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہو گئی ہے۔ چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔
خدا بخش محنتی آدمی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھنچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھنچنا سیکھا، پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیٰحدہ اپنا کام شروع کر دیا۔
کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا انبالہ چھاؤنی میں قائم کر دیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہو گئی۔ چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے۔
سلطانہ نے کانوں کے بندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوائیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کر لیں۔ گھر میں فرنیچر بھی آ گیا۔ قصہ مختصر کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کر لیا۔ بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں، اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں نظام الدین اولیا رح کی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی۔ چنانچہ گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدا بخش کے ساتھ دہلی آ گئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر یہ فلیٹ لیا۔ جس میں دونوں رہنے لگے۔
ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی لمبی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی ہے۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کر دیا تھا تا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دوکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ، چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں، اس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوئی تھی۔ پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگایا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی ‘‘ یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے ‘‘ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کر لیا کرتی تھی۔ اس طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کر لی تھیں۔ مثلاً بڑے حروف میں جہاں ‘‘ کوئلوں کی دکان ‘‘ لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں ‘‘ شرفا کے لیے کھانے کا اعلٰی انتظام ہے ‘‘ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔
دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں، چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی۔ پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا، ‘‘ کیا بات ہے خدا بخش، پورے دو مہینے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے ، کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا ------ مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے ، پر اتنا مندا تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔‘‘ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا۔ پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا ‘‘ میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے ، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا راستہ بھول گئے ہیں ------ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ وہ اس کے آگے کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے۔ یعنی مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔
بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرائے میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ کھانا پینا، کپڑے لتے دوا دارو۔ اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینے میں آئے تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ سے بنوائی تھیں، آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا، ‘‘ تم میری سنو، اور چلو واپس انبالے ------ یہاں کیا دھرا ہے ------ بھئی ہو گا، پر ہمیں یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمہارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا۔ چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آؤ۔ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔‘‘
خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا، ‘‘ نہیں، جانِ من، انبالے نہیں جائیں گے۔ یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔‘‘
سلطانہ چپ ہو رہی۔ چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر حیلے سے بھرنا تھا۔ جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ پنا وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کر دیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکنی میں آ کر جنگلے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔
سڑک کے دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال و اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر، کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک، پھک پھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکنی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو، اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آیا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے ، دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے ------ نہ جانے کہاں پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو گا۔ یوں تو وہ بے مطلب، گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہی، پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا۔ مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے ، ایک بہت بڑا چکلا ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر، کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔ سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے۔ چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکنی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا، ‘‘ دیکھو میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔‘‘ مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کر دی ‘‘ جانِ من، میں باہر کچھ کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں ہی بیڑا پار ہو جائے گا۔‘‘
پورے پانچ مہینے ہو گئے تھے مگر ابھی تک سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ محرم کا مہینہ سر پر آ رہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیص بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیوں کہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔
انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ گئی تو باہر بالکنی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔
سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے ، پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا ------ چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ میں سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا۔ جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا کدھر سے آؤں۔ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا، مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔
سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا، ‘‘ آپ اوپر آتے ڈر کیوں رہے تھے ؟‘‘ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا، ‘‘ تمہیں کیسے معلوم ہوا ------ ڈرنے کی بات ہی کیا تھی۔‘‘ اس پر سلطانہ نے کہا، ‘‘ یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے ، اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔‘‘ وہ یہ سن کر پھر مسکرایا، ‘‘ تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکنی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا، ‘‘ آپ جا رہے ہیں؟‘‘ اس آدمی نے جواب دیا، ‘‘ نہیں، میں تمہارے مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں ------ چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔‘‘
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دیئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اسی کمرے میں آ گئے جہاں پہلے بیٹھے ہوئے تھے تو اس آدمی نے کہا، ‘‘ میرا نام شنکر ہے۔‘‘
سلطانہ نے پہلے بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا سفید قمیص تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کر دیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا ‘‘ فرمائیے۔‘‘
شنکر بیٹھا تھا یہ سن کر لیٹ گیا۔ ‘‘ کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔‘‘ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اٹھ بیٹھا، ‘‘ میں سمجھا۔ لو، اب مجھ سے سنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا پڑتی ہے۔‘‘
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ‘‘ آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘
شنکر نے جواب دیا، ‘‘ یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔‘‘
‘‘ کیا؟‘‘
‘‘ میں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔‘‘
‘‘ میں بھی کچھ نہیں کرتا۔‘‘
سلطانہ نے بھنا کر کہا، ‘‘ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ------ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔‘‘
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، ‘‘ تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہو گی۔‘‘
‘‘ جھک مارتی ہوں۔‘‘
‘‘ میں بھی جھک مارتا ہوں۔‘‘
‘‘ تو آؤ دونوں جھک ماریں۔‘‘
‘‘ حاضر ہوں، مگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔‘‘
‘‘ ہوش کی دوا کرو ------ یہ لنگر خانہ نہیں۔‘‘
‘‘ اور میں بھی والنٹیر نہیں۔‘‘
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا، ‘‘ یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں؟‘‘
شنکر نے جواب دیا، ‘‘ اُلو کے پٹھے۔‘‘
‘‘ میں اُلو کی پٹھی نہیں۔‘‘
‘‘ مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ، ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔‘‘
‘‘ کیوں؟‘‘
‘‘ اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھُلوانے کی خاطر جا رہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔‘‘ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا، ‘‘ تم ہندو ہو۔ اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔‘‘
شنکر مسکرایا ‘‘ ایسی جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت اور مولوی بھی یہاں آئیں تو شریف آدمی بن جائیں۔‘‘
‘‘ جانے کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو ------ بولو، رہو گے ؟‘‘
‘‘ اس شرط پر جو پہلے بتا چکا ہوں۔‘‘
سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی، ‘‘ تو جاؤ رستہ پکڑو۔‘‘
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا، ‘‘ میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا ------ بہت کام کا آدمی ہوں۔‘‘
شنکر چلا گیا، اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کر دیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا، اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا۔ مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی، اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نہ اس سے پوچھا، ‘‘ تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟‘‘
خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا، کہنے لگا، ‘‘ پرانے قلعے کے پاس سے آ رہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھر جائیں ------‘‘
‘‘ کچھ انہوں نے تم سے کہا؟‘‘
‘‘ نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے ------ پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہا ہوں، وہ اکارت نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔‘‘
سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی، ‘‘ سارا دن باہر غائب رہتے ہو ------ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ کہیں جا سکتی ہوں نہ آ سکتی ہوں۔ محرم سر پر آ گیا ہے۔ کچھ تو نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہیں۔ گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں، وہ ایک ایک کر کے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کیا ہو گا ------ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو۔ کچھ تو سہارا ہو جائے گا۔‘‘
خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا، ‘‘ پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہیے۔ ------ خدا کے لیے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی۔ پر جو کرتا ہے ، اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم۔۔۔۔۔۔‘‘
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا، ‘‘ تم خدا کے لیے کچھ کرو، چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو، پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیص پڑی ہے اس کو میں رنگوا لوں گی۔ سفید نینون کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیص کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے۔ سو، وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کرو۔۔۔۔۔۔ دیکھو، تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو ------ میری بھتی کھاؤ، اگر نہ لاؤ۔‘‘
خدا بخش اٹھ بیٹھا، ‘‘ اب تم خوامخواہ زور دیئے چلی جا رہی ہو ------ میں کہاں سے لاؤں گا ------ افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس ایک پیسہ نہیں۔‘‘
‘‘ کچھ بھی کرو، مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لا دو۔‘‘
‘‘ دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔‘‘
‘‘ لیکن تم کچھ نہیں کرو گے ------ تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے ؟‘‘
‘‘ اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ ‘‘ لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔‘‘
ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔
ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیص نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس واپس آ کر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کے دیکھے ہوئے فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اٹھی تو چار بج چکے تھے ، کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکنی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک پر رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی ------ مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے تانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔
جب شنکر اوپر آ گیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دراصل اس نے بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نہ دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا، ‘‘ تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی ہو اور سو دفعہ کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ ------ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔‘‘
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی۔ کہنے لگی، ‘‘ نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔‘‘
شنکر اس پر مسکرا دیا، ‘‘ تو میری شرطیں منظور ہیں۔‘‘
‘‘ کیسی شرطیں؟‘‘ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔ ‘‘ کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے ؟‘‘
‘‘ نکاح اور شادی کیسی؟ ------ نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں ------ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔‘‘
‘‘ بولو کیا بات کروں؟‘‘
‘‘ تم عورت ہو ------ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔‘‘
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی۔ کہنے لگی، ‘‘ صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
‘‘ جو دوسرے چاہتے ہیں۔‘‘ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
‘‘ تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا؟‘‘
‘‘ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہییں، خود سمجھنا چاہییں۔‘‘
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر کہا، ‘‘ میں سمجھ گئی۔‘‘
‘‘ تو کہو کیا ارادہ ہے ؟‘‘
‘‘ تم جیتے میں ہاری، پر میں کہتی ہوں آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔‘‘
‘‘ تم غلط کہتی ہو ------ اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے ، جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو ------ تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟‘‘
‘‘ سلطانہ ہی ہے۔‘‘
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ ‘‘ میرا نام شنکر ہے ------ یہ نام بھی عجیب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ چلو آؤ اندر چلیں۔‘‘
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے۔ نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا، ‘‘ شنکر میری بات مانو گے ؟‘‘
شنکر نے جواباًکہا ‘‘ پہلے بات بتاؤ۔‘‘
سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی، ‘‘ تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں۔ مگر۔۔۔۔‘‘
‘‘ کہو کہو ------ رک کیوں گئی ہو۔‘‘
سلطانہ نے جرات سے کام لے کر کہا، ‘‘ بات یہ ہے کہ محرم آ رہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں ------ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیص اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دے دیا ہے۔‘‘
شنکر نے یہ سن کر کہا، ‘‘ تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔‘‘
سلطانہ نے فوراً ہی کہا‘‘ نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار لا دو۔‘‘
شنکر مسکرایا، ‘‘ میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس، اب خوش ہو گئیں۔‘‘
سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر پھر اس نے پوچھا، ‘‘ کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟‘‘
سلطانہ نے ہنس کر کہا، ‘‘ تم انہیں کیا کرو گے ؟‘‘ چاندی کے معمولی سے بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔‘‘
اس پر شنکر نے کہا، ‘‘ میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی۔، بولو دیتی ہو؟‘‘
‘‘ لے لو۔‘‘ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیئے۔ اس کے بعد اسے افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔
سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا، ‘‘ ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو ------ اب میں چلتا ہوں۔‘‘
شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بُندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کر دیا۔
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری سے اپنی رنگی ہوئی قمیص اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لیے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔
اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا، ‘‘ قمیص اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے ------ کب بنوائی؟‘‘
سلطانہ نے جواب دیا، ‘‘ آج ہی درزی لایا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں، ‘‘ یہ بُندے تم نے کہاں سے منگوائے ہیں؟‘‘
مختار نے جواب دیا، ‘‘ آج ہی منگوائے ہیں۔‘‘
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔
***
ٹائپنگ: محمد شمشاد خان
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
پروف ریڈنگ ، تصحیحِ متن :۔ سید اویس قرنی (چھوٹا غالب)