12:37    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

سفرنامے

2633 0 0 00

سفر میں ہے - فرید مرزا۔ بی۔ اے۔ (عثمانیہ)

منگل ۱۷/اگسٹ ۱۹۷۶ء

ریٹائرنگ روم۔ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن

۱۹۷۳ء میں بیوی اور میں نے مل کر ۸!مئی سے ۲۱/ جولائی تک کئی ممالک کا سفر کیا تھا۔ وہ ممالک افغانستان۔ ایران۔ ترکی۔ لبنان۔ شام اور عراق تھے۔ گو ہم اسکندریہ (مصر) سے گزرے تھے لیکن قاہرہ نہیں جا سکے تھے۔ بیوی کی خواہش مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ بھی جانے کی تھی۔ ہم نے بیروت سے ہوائی جہاز کا واپسی کا ٹک لے کر وہاں جانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔ لیکن اس وقت سعودی عرب کافی گرم تھا اس لئے ارادہ ملتوی کر دیا گیا۔

تقریباً ایک سال قبل ہی سے ہم لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ سعودی عرب ، یورپ اور امریکہ کا سفر کیا جائے۔ ہمارا ایک پولٹری فارم ہے ہر شش ماہ میں ہم ایک دن کے مرغی کے بچوں کی بڑی تعداد خرید کر انڈوں کی متواتر اور مقررہ سپلائی برقرار رکھتے تھے۔ سابق دو شش ماہ سے ہم نے مرغیوں کے بچے نہیں خریدے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ پرانی مرغیوں کو جب چاہا بیچ کر سفر پر چلے جائیں۔ نئی مرغیوں کو بیچنے سے کافی نقصان ہوتا ہے۔

جب تیسری بچی نے جس کی ابھی شادی ہونی ہے یہ تصفیہ کیا کہ وہ Dietician کا نو ماہ کا کورس بمبئی میں مکمل کرے گی تو ہم نے بھی اپنا ارادہ باہر نکلنے کا پکا کر لیا۔ اس دوران پاکستان اور ہندوستان کے سفارتی تعلقات بحال ہو گئے اور ۱۹۶۵ء سے جو ٹرینوں کی آمد و رفت رک گئی تھی وہ بھی چالو ہو گئی۔ ہم نے خیال کیا اب پاکستان کا ویزا آسانی سے مل جائے گا اس لئے ہم نے یہ پروگرام بنایا کہ پہلے پاکستان جائیں گے اور وہاں سے دوہا (قطر) بحرین و دہران (عربی میں ظہران لکھتے ہیں لیکن تلفظ دہران ہی ہے ) ہوتے ہوئے جدہ جائیں اور عمرہ کر کے قاہرہ چلے جائیں اور پھر یورپ کا سفر کرتے ہوئے کینیڈا اور یو ایس اے چلے جائیں۔ لیکن حیدرآباد ہی میں پتہ چل گیا کہ پاکستانی سفارت خانہ راست ویزا نہیں دے رہا ہے۔ بلکہ درخواستیں لیکر اسلام آباد بھیج رہا ہے اور وہاں سے منظوری آنے پر ویزا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طول عمل ہے اس طرح ویزا حاصل کرنے میں کئی ماہ کی مدت درکار ہے۔ کینیڈا کے ہائی کمشنر آفس کو گئے تو وہاں یہ معلوم ہوا کہ چونکہ ہندوستان کا کامن ویلتھ دولت مشترکہ میں شریک ہے لہذا اس کے شہریوں کو کینیڈا جانے کیلئے ویزا کی ضرورت نہیں البتہ ان کے پاس صحت کے کاغذات مکمل ہونے چاہئیں اور کینیڈا میں امیگریشن آفیسر کو یہ بتانا پڑے گا کہ وہاں رہنے کیلئے اور وہاں سے نکلنے کے لئے کافی پیے پیسے ہیں۔ اگر وہاں ہمارا کوئی بچہ وغیرہ ہو تو اس کو اسپانسر شپ کے کاغذات مکمل کرنے چاہئیں۔ سعودی عرب کی سفارت میں یہ کہا گیا کہ ہمارے پاس سعودی عرب سے نکلنے کا ٹکٹ ہونا چاہئے۔ اس طرح ابتدائی مشکلات ہر طرف دکھائی دیتی ہیں کل ہوائی جہازوں کے دفاتر کے چکر لگانے کا خیال ہے۔

۱۵/اگسٹ کی شام کو ہم حیدرآباد سے نکلے چونکہ برت محفوظ کر لئے گئے تھے سفر آرام دہ رہا۔ ۱۶/اگسٹ کو بیوی ٹرین میں پائخانہ میں گئیں۔ اس خیال سے دستی گھڑی پر پانی کے چھینے نہ پڑیں اس کو اتار کر اپنی سامنے والی کھڑکی میں رکھ دیا۔ جب دو گھنٹے کے بعد خیال آیا تو وہاں نہیں تھی۔ کچھ مسافرین سے پوچھا بھی لیکن پتہ نہیں چلا۔

پہلے حیدرآباد سے جو ٹرین نکلتی تھی وہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن تک آتی تھی۔ لیکن اب اس کا سفر حضرت نظام الدین ہی پر ختم کر دیا جا رہا ہے۔ وہاں سے دوسری ٹرین سے نئی دہلی اسٹیشن آنا پڑتا ہے۔ اس میں کافی دقت ہوتی ہے۔ ہم کو ایک گھنٹہ تک انتظار کرنے کے بعد دادر سے امرتسر جانے والی ٹرین ملی۔ وہ ٹرین پہلے ہی سے بھری ہوئی تھی۔ اس میں حیدرآباد سے آئی ہوئی اکسپرس کے پورے مسافرین کو بیٹھنا تھا۔ دقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بدقت تمام ٹرین میں گھسنا پڑا اور کھڑے ہو کر ہی یہ سفر کاٹنا پڑا۔ پاسنجروں کو تکلیف سے بچانے کیلئے حیدرآباد کی اکسپرس کا نئی دہلی تک لانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

چہارشنبہ ۱۸/ اگست

ریٹائرنگ روم نمبر ۶۱

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن

گذشتہ شب اور صبح میں بھی بارش ہوتی رہی۔ کبھی بڑھ جاتی اور کبھی دھیمی ہو جاتی۔ آج یہاں جنم اشٹمی کی چھٹی تھی۔ بنک اور کئی سرکاری ادارے بند پڑے تھے۔ پھر بھی ہم پہلے ایر انڈیا کے آفس کو گئے اور وہاں بتایا کہ کن مقامات کو ہم جانا چاہتے ہیں۔ اس پر کاونٹر والے نوجوان سکھ نے کہا کہ اس طرح کے ٹکٹ پر کافی پیسے لگیں گے۔ میں نے پوچھا کہ کویت ایر اور ایجپٹ ایر کچھ رعایت کرتے ہیں تو انھوں نے از راہ کرم مجھے ان دونوں ایرلائنس کا پتہ اور اس کے ساتھ سیرین عربین ایر لائنس کا پتہ بھی بتا دیا۔ آج کل ہم ایسے بیرونی ممالک کے مسافرین سے مل رہے ہیں جو پیٹھ پر اپنا سامان لاد کر کئی ممالک کا سفر انتہائی کفایت شعاری سے کرتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نے مجھ سے کہا:

Students Travel Information Centre Hotel Imperial Janpath Road (Phone 344965-345938-3447897) N. Delhi, Director Subash Goyal

کے پاس چلا جاؤں وہ ضرور میری مدد کریں گے۔ ان کے پاس جا کر بہت دیر تک بیٹھا رہا۔ انھوں نے مختلف ایرلائنس سے ربط پیدا کر کے ہمارے زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ مگر پتہ چلا کہ جس راستہ پر ہم سفر کرنا چاہتے ہیں اس کیلئے ہم کو ایر انڈیا ہی سے ٹکٹ خریدنے میں سہولت ہو گی۔ پھر بھی انہوں نے کہا کہ ہم کل دس ساڑے دس بجے تک آ جائیں مختلف ایرلائنس سے مزید گفتگو کر کے ہم کو ہر ایک کا نچوڑ دیں گے۔ جاتے وقت بھی  ہم ان کی آفس کو پیدل گئے تھے واپس بھی ہم چلتے ہوئے ہی آئے کافی تھک گئے تھے۔ پھر بھی کچھ کپڑے دھو لئے۔

 

Bright Guest House

Paharganj - N-Delhi

Tel No 270031

جمعرات۔ ۱۹/اگسٹ ۱۹۷۶ء

عام طور پر ریلوے ریٹائرنگ روم میں صرف ۲۴ گھنٹے ہی ٹھیرنے دیتے ہیں۔ ہم کو چاہئے تھا کہ ۱۸/کی صبح ہی کو کمرہ خالی کر دیتے۔ لیکن ہم پر کام پر نکل گئے تھے اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس ایر کنڈیشن روم کیلئے کوئی منتظر بھی نہیں تھا اس لئے ہم کو ایک دن کی توسیع مل گئی۔ جب ہم آج مزید توسیع کے لئے کمرہ دینے والے کلرک کے پاس گئے تو اس نے بغیر دیکھے ہی کہ کوئی منتظر ہے یا نہیں یہ کہ دیا کہ کوئی مزید توسیع نہیں کی جا سکتی۔ چونکہ ہم خود ایک دن زیادہ رہ چکے تھے ہم نے ڈپٹی اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ سے اس خصوص میں مزید دریافت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ گیسٹ ہاوس بھی ریلوے اسٹیشن سے قریب ہے۔ اور کرایہ بھی زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم یہاں چلے آئے۔ آج صبح بھی کافی بارش ہوتی رہی گیارہ بجے ریلوے ریفریشمنٹ روم میں دوپہر کا کھانا کھا کر ہم دونوں پہلے کویت ایر ویز جن پتھ ہوٹل گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ ہماری روٹ یعنی ہم جس راستہ سے لندن جانا چاہتے ہیں اس کیلئے کویت ایرویز سے ٹکٹ لینے میں ہمارے لئے کوئی سہولت نہیں اس لئے ہم پھر امپرئیل ہوٹل چلے آئے۔ گوئیل صاحب نے پھر دو تین جگہ ٹیلی فون گھمایا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایر انڈیا ہی سے ٹکٹ لینا مناسب ہے چنانچہ ہم نے فرسٹ ٹراویل اسکیم کے فارم پر کر کے دستخط کر دی اور گوئیل صاحب کو پاسپورٹ بھی حوالہ کر دیا۔ امید ہے کہ کل F.T.S منظور ہو جائے گا اور شاید کل ہی ہمیں ٹکٹ بھی مل جائے۔ پرسوں جا کر سعودی عرب کا ویزا لینے کی کوشش کریں گے۔ جاتے وقت آٹو (ا سکوٹر) میں بیٹھ کر گئے تھے۔ واپسی میں پیدل ہی چلے آئے۔ چونکہ دوپہر کا کھانا اول وقت کھایا تھا مغرب سے پہلے ہی بھوک لگنے لگی۔ ریلوے کے ویجٹیرین ریفریشمنٹ روم میں کھانا کھا کر اپنی ہوٹل کو آ گئے۔ کھانا ٹھیک تھا۔ ایک تھالی کی قیمت جس میں پوری ، چاول اور دو ترکاری کے سالن اور بوندی کا میٹھا لڈو تھا تین روپیہ بارہ پیسے تھی۔ کھانے کے بعد ہم کو انتظامیہ کی طرف سے ایک پرچہ دیا گیا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کھانا کیسا تھا ، خدمت ملنسار تھی یا نہیں۔ عام صفائی اور برتنوں کی صفائی کیسی تھی۔ کھانے کے تعلق سے ہم نے لکھا کہ ٹھیک تھا سر روس عام صفائی کے تعلق سے لکھا کہ اچھی تھی۔

شام میں جب ریڈیو سنا تو آل انڈیا ریڈیو بھوپال نے افسوس کے ساتھ اعلان کیا کہ اردو کے مشہور شاعر جان نثار اختر کا حرکت قلب بند ہو جانے سے اچانک انتقال ہو گیا۔ سن کر بہت افسوس ہوا۔ حال ہی میں ان کو دو تین مرتبہ میں نے حیدرآباد میں سنا تھا۔ کلام بڑھیا اور سنانے کا انداز اچھا تھا۔

رات میں بیٹھے تھے کہ سڑک پر کچھ شور و غوغا کی آواز آنے لگی۔ پھر آواز بڑھتی گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جھگڑا ہو رہا ہے۔ ہمارے گیسٹ ہاوس کے کچھ نوجوان لوگ پھاند کر سامنے کی چھت پر گئے۔ اور باہر کیا ہنگامہ ہو رہا ہے دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر میں پتھر پھینکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ دوکانوں کے شٹرس گرنے لگے۔ معلوم ہوا کہ پولیس پہونچ گئی اور مجمع ہماری ہوٹل کی طرف آنے لگا۔ تماشہ بیں ہوٹل میں آ گئے اور کمروں کے دروازے بند کرنے لگے۔ ہم نے بھی اپنے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند کر لیں اور کچھ سامان کو پلنگوں کے نیچے ڈھکیل دیا کہ اگر لوٹ مار ہو تو کم از کم وہ سامان نظر سے اوجھل رہے دوسروں کی طرح کمرے کی لائٹ بند کر دی اور خاموش بیٹھ گئے۔ مجمع کے کچھ لوگ ہماری ہوٹل میں بھی گھسے۔ غالباً پناہ لینے کے خیال سے ہوٹل میں کسی قسم کی کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ آدھ گھنٹے تک کچھ آوازیں اور ہلچل سنائی دی اس کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ سب رفع دفع ہو گیا ہے کھڑکیاں کھول کر سوگئے۔

جمعہ۔ ۲۰/ اگسٹ۔ نئی دہلی۔ آج صبح پتہ چلا کہ رات میں جو جھگڑا ہوا تھا وہ ہماری ہوٹل کے مالک اور کچھ لوگوں کے درمیان تھا۔ ہم نے دیکھا کہ مالک ہوٹل کاآفس جو ہمارے رہائشی حصہ سے پرے تھا اس پر کافی پتھراؤ کیا گیا تھا۔ سارے شیشے ٹوٹے پڑے تھے۔ اور فرنیچر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ مالک کی جگہ اب آفس کی نگرانی ایک نوکر کر رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ مالک اور شاید مخالف پارٹی کے چند اور لوگوں کو پولیس نے پکڑ لیا ہے۔

آج بہت دیر تک کمرے میں رہے۔ سامنے حلوائی کی دکان پر گرم گرم پوریاں تلی جا رہی تھیں ساگ پوری اور شیرہ (جو روئے کا میٹھا ہوتا ہے ) سے ناشتہ کر لیا۔ چائے ہوٹل ہی میں مل گئی تھی۔ دوپہر میں ایک ایک روٹی کے ساتھ چاول کھانا چاہتے تھے لیکن آرڈر دینے پر پتہ چلا کہ چاول ختم ہو گیا ہے ، مزید روٹی لے کر کھانا ختم کیا۔ دہی بازار سے لے گئے تھے۔ چینی بھی ساتھ رکھ لی تھی۔ لیکن چاول نہ ملنے سے تشفی نہیں ہوئی۔

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے ۱۱ نمبری بس سے نئی دہلی جی۔ پی۔ او گئے۔ لیکن بس کے لئے کافی انتظار کرنا پڑا۔ یہاں بسیں کافی دیر سے ملتی ہیں۔ اور ان میں کافی ازدحام ہوتا ہے۔ بڑی بسوں کے ساتھ منی بس بھی چلتی ہیں۔ یہ کم وقفہ سے ملتی ہیں ان کا کرایہ قدرے زیادہ ہے۔ لیکن بیٹھنے کی جگہ مل جاتی ہے۔ مگر یہ صرف ان ہی راستوں پر چلتی ہیں جن پر ٹرافک زیادہ ہے۔ جی۔ پی۔ او کے لئے ہم کو منی بس نہیں ملی۔ C/o پوسٹ ماسٹر کے موسومہ خطوط جو حال ہی میں وصول ہوئے تھے وہ ہم نے دیکھ ڈالے لیکن ہمارے نام کا کوئی خط نہیں ملا۔ وہاں سے ہم بس میں بیٹھ کر Students Travel Information Centre گئے۔ سبھاش گوئیل نے کہا کہ ہمارا F.T.C ریزرو بنک سے منظور ہو چکا ہے۔ ہم نے کہا کہ ایر انڈیا چل کر ٹکٹ خرید لیں۔ اس وقت ساڑھے چار بج رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وقت ہے ٹکٹ لینا مشکل ہے۔ پھر بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد کسی اور صاحب سے مصروف گفتگو ہو گئے ان کی چائے وغیرہ سے تواضع کی اور جب اٹھے تو تقریباً ۵ بج رہے تھے۔

ان کے پاس کافی گاہک آتے ہیں۔ ان کی بیوی کے علاوہ ایک لڑکی اور چار لڑکے آفس میں کام کرتے ہیں۔ تین ٹیلی فون ہیں۔ اور ایک سے ان کے روم میں توسیع ہے۔ میں نے دیکھا کہ تینوں ٹیلی فون بس گھومتے ہی رہتے ہیں۔ گاہکوں کیلئے چائے کے دور الگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا گاہک آ گیا تو اس کو کافی ہاوس لے جایا جاتا ہے۔ بہرحال مصروفیت ہی مصروفیت رہتی ہے۔ لیکن وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ اور بات کرنے کا طریقہ دلکش ہے ایر انڈیا وغیرہ سے یہ راست کاروبار نہیں کرتے ہیں۔ اور ابھی تک IATA کے تسلیم شدہ ہوئے ہیں ، ہمارا ٹکٹ یہ Continental Travel Service کے توسط سے ایر انڈیا سے خرید رہے ہیں۔ ایر انڈیا آفس میں کانٹی نینٹل ٹراویل سروس کے ایک سکھ صاحب آئے تھے۔ ان کے سامنے مقامات کی مکمل صراحت اور ٹکٹ کی قیمت کا تعین ہو گیا سکھ صاحب نے کہا کہ ٹراویل چک (جو ہم نے اسٹیٹ بنک آف انڈیا حیدرآباد ہی میں لئے تھے ) پر تجویز کر کے سبھاش گوئیل صاحب کے حوالہ کر دیں۔ اب ہمارا ٹکٹ دہی۔ بمبئی۔ دوہا۔ بحرین و دہران۔ جدہ۔ قاہرہ۔ روم۔ زیورک۔ پیرس۔ لندن۔ امسٹرڈم۔ بمبئی۔ دہلی کے لئے بن رہا ہے۔ اس طرح کے واپسی کے ٹکٹ کی قیمت فی فرد ۸۸۶۹ یعنی دو آدمیوں کے لئے ۱۷۷۳۸ روپئے ہوئی ہے۔ ہم نے ۱۸ ہزار کے ٹراویل چک پر دستخط کر کے ان کے حوالہ کر دیا

Bright House

شنبہ۔ ۲۱ اگسٹ ۷۶ء آج صبح میں نے سکھ صاحب (جو غالباً کانٹی نینٹل ٹراویل سروس کے یا تو نمائندہ ہیں یا پھر اس کے خیر خواہ) نے دس بجے صبح ایر انڈیا آفس میں ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ ہمارے پہونچنے میں دس منٹ کی دیر ہو گئی۔ اس وقت تو نہ سکھ صاحب تھے اور نہ ہی سوبھاش گوئیل۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد میں نے Student Travel Information Centre کو ٹیلی فون کیا۔ تھوڑی دیر میں شرما صاحب آئے۔ اندر جا کر واپس آئے اور کہا کہ ’’ہماری ٹکٹ بن رہی ہے ‘‘۔ میں نے پوچھا کس طرح بن رہی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے جس طرح چاہا ہے۔ میں نے کہا وہ چٹھی لے آئیں جو میں نے گوئیل صاحب کو لکھایا تھا۔ وہ اندر گئے اور آ کر کہا کہ وہ چٹھی کئی ٹکٹوں کے نیچے رکھی ہے اس لئے ملنی مشکل ہے۔ میں نے کہا ان سکھ صاحب سے ملتے ہیں جو آج ہم سے دس بجے ملنے والے تھے۔ ان کے متعلق کہا کہ وہ ٹیلکس پر بیٹھے ہیں اور پیامات آتے رہے ہیں اس لئے وہ وہاں سے اٹھ نہیں سکتے۔ ہم ان جوابات سے مطمئن نہیں ہوئے لیکن خاموش ہو گئے۔ ہم جب دوپہر کا کھانا وغیرہ کھا کر گوئیل صاحب کے پاس گئے اور ان سے ٹکٹ کے لئے اصرار کیا تو معلوم ہوا کہ ایر انڈیا کے پاس مقامات اور تواریخ وغیرہ کی کوئی فہرست نہیں ہے۔ پھر مقامات اور تواریخ کی فہرست بنائی گئی اور گوئیل صاحب کے آفس سے ایک صاحب ایر انڈیا کی آفس کو دوڑائے گئے۔ اس کے بعد کئی مرتبہ ٹیلی فون کرنے پر ۵ بجے کے قریب ہمارا ٹکٹ گوئیل صاحب کا آدمی جا کر لے آیا۔ فہرست مقامات اتنی طویل ہے کہ ہم دونوں کے ٹکٹ کے لئے چھ ٹکٹ کی کتابیں استعمال ہوئی ہیں۔ ابھی امسٹرڈم سے بمبئی نئی دہلی کا ٹکٹ جاری ہوا ہے۔ Mirza/Fareeds کے لئے 098/400111716سے لیکر 718 اور بیوی کے لئے جس کا نام ٹکٹ میں Begam/Fatima لکھا ہے۔ 098/400111719 سے لیکر 721 یکس استعمال ہوئی ہیں۔ ابھی کہیں کا کوئی ریزرویشن نہیں ملا ہے۔ ٹکٹ صرف اس لئے دئے گئے ہیں کہ ہم سعودی عرب اور مصر کا ویزا حاصل کر لیں۔ کل اتوار ہے۔ پرسوں اول وقت ٹکٹ لے کر سعودی عرب کی سفارت کو چلے جائیں گے دوسرے دن یعنی منگل کو سفارت مصر پہنچ کر ویزا لینے کا خیال ہے۔ معلوم ہوا کہ زو کے قریب سندر محل میں ان کی سفارت واقع ہے۔

آج صبح ہی سے بیوی کی طبیعت سست تھی۔ ناشتہ میں صرف چائے پی۔ چلتے ہوئے تھوڑا دودھ پی لیا۔ ان ہی کی وجہ سے ایرانڈیا آفس پہونچتے پہونچتے ذرا دیر ہو گئی۔ دوپہر میں ان کو کھانے کی اشتہا نہیں تھی پھر بھی انہوں نے میرے ساتھ کچھ کھا لیا۔ گوئیل صاحب کی آفس میں جب ٹکٹ کا انتظار کر رہے تھے اس وقت ان کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ گوئیل صاحب کی بیوی نے دیکھ کر ان کو اندر لے جا کر لٹا دیا۔ ادھ پون گھنٹے کے سوجانے سے ان کی طبیعت قدرے سنبھل گئی۔

جب ٹکٹ ہاتھ میں آئے تو ہم  Europe On (Dollars) 10 A Day کتاب خریدنے کے لئے Variety Book Depot گئے یہ موہن سنگھ پیالیس میں ہے۔ اور جس کے مالک کے نام گوئیل صاحب نے چھٹی دی تھی۔ مگر ان کے پاس وہ کتاب نہیں ملی۔ وہاں سے ہم بس میں بیٹھ کر صدر بازار پرانی دہلی گئے کہ حافظ فضل الرحمن سے مل لیں۔ برناگلی میں ان کی مسجد کو گئے۔ ان کے ماموں نے بچوں کو دوڑایا لیکن وہ نہیں ملے۔ ان کے چچا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ چائے سے انہوں نے ہماری تواضع کی۔ واپسی میں ہم نے ایک صاحب سے پوچھا کہ اسٹیشن کے لئے ٹانگے کہاں ملیں گے۔ انھوں نے چوک کی طرف جانے کو کہا۔ وہاں گئے تو ایک ٹانگہ تیار ہی تھا۔ ہم نے کہا اسٹیشن جا رہے ہو۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ کچھ سواریاں اس میں پہلے ہی سے بیٹھی تھیں۔ ہم نے کافی سواری تیس پیسے لو گے۔ اس نے ذرا تعجب کرتے ہوئے کہا نہیں پچاس پیسے بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے تصدیق کر کے ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ راستہ کافی طویل ہے۔ بسوں اور ٹرکس کی ٹرافک بہت ہے۔ بازار بھی کچھ نئے نئے دکھ رہے ہیں۔ جب اسٹیشن قریب آنے لگا تو کئی ہوٹلوں پر نظر پڑی۔ کسی پر ریگل اور کسی پر تاج محل لکھا تھا۔ ہم نے سونچا نئی دہلی اسٹیشن جاتے اور آتے ہوئے یہ ہوٹلیں کبھی دکھائی نہیں دیں جب اسٹیشن سے اور قریب ہونے لگے تو ہم نے پوچھا کہ اسٹیشن نئی دہی کا ہے یا پرانی دہلی کا۔ ٹانگے والے نے کہا کہ پرانی دہلی کا۔ ہم نے کہا کہ ہم کو تو نئی دہلی جانا ہے۔ اس نے کہا بابوجی جو آپ نے تیس پیسے کہے تھے وہ نئی دہلی کے لئے ٹھیک تھے۔ ہم پرانی دہلی اسٹیشن پر اتر گئے۔ ایک روپیہ ٹانگے والے کو دے دیا۔ نو بجنے والے تھے۔ ہم نے چاہا کہ ریلوے ریفریشمنٹ روم میں کھانا کھائیں۔ لیکن پرانی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر ریفریشمنٹ روم پلیٹ فارم سے لگا ہوا ہے وہاں جانے کے لئے پلیٹ فارم ٹکٹ لینا پڑتا تھا۔ اسٹیشن سے ذرا پرے منی بس مل گئی اور نئی دہلی  اسٹیشن آ گئے۔ اور کھانا وغیرہ کھا کر اپنی ہوٹل واپس ہو گئے۔

Bright Guest House

پیر۔ ۲۳/اگسٹ ۱۹۷۶ء کل اتوار تھا۔ دس بجے تک کمرے ہی میں رہے۔ نیچے اتر کر ایک حیدرآبادی دوست کو ٹیلی فون کیا۔ اتنے میں مولوی فضل الرحمن صاحب آ گئے۔ ہم نے ناشتہ کیا اور مولوی صاحب نے صرف چائے پی۔ اس کے بعد ہم حیدرآبادی دوست کے پاس گئے۔ بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایمرجنسی کی افادیت رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ بعض بدامنی کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔ اور ایسا سننے میں آ رہا ہے کہ رشوت کے واقعات بھی کچھ سرزد ہو رہے ہیں۔ پہلے پہل اشرار بالکل سہم گئے تھے لیکن اب پھر سر اٹھانے لگے ہیں۔

ہمارا خیال تھا کہ سعودی عرب کا ویزا حاصل کرنے کے لئے ہم ان کی سفارت کو دس بجے صبح پہنچیں۔ لیکن ایک لڑکے سے معلوم ہوا کہ ان کی سفارت ساڑھے آٹھ بجے سے ہی کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اگر دیر سے جائیں تو درخواست تو لے لی جاتی ہے۔ لیکن ویزا دوسرے دن دیا جاتا ہے۔ ہم آج صبح آٹھ بجے ہی پہونچ گئے۔ اور بیگ صاحب کی مہربانی سے آج ہی ہم کو ویزا مل گیا۔ وہاں سے ہم سیدھے مصری سفارت گھر پہنچے وہاں جو لڑکا تھا اس نے ہماری درخواست اور پاسپورٹ لے لیا۔ اور کل ایک بجے آنے کو کہہ دیا کل یہاں سے ہمارا اڑنے کا خیال ہے۔ ویزا اگر جلد مل جائے تو بہتر ہو گا۔

Ex-Service Men کی ایک ٹرانسپورٹ کمپنی ہے جو کناٹ پیالیس سے دہلی ایرپورٹ تک بس چلاتی ہے۔ اس کا کرایہ فی کس پانچ روپیہ ہے۔ ہماری فلائٹ چھ بجے ہے۔ لیکن بس ٹھیک ساڑھے چار بجے نکل جاتی ہے۔ ابھی تک ہم کو امسٹرڈم سے بمبئی ودہلی کا ٹکٹ نہیں ملا ہے۔ اس طرح F.T.C بھی ایر انڈیا سے واپس ملنا ہے۔

آج دوپہر میں جب ہم گوئیل صاحب کے پاس پہنچے تو انھوں نے شرما صاحب کو ایر انڈیا بھیجا کہ ہمارے مقامات کا ریزرویشن کرا کر آئیں۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد آئے اور انہوں نے بتایا کہ ہمارا ریزرویشن دوہا سے بحرین۔ دہران۔ جدہ۔ قاہرہ۔ زیورک۔ پیرس اور لندن تک ہو گیا ہے۔ اب صرف بمبئی سے دوہا جانے تک ہونا ہے جو ۲۶/ اگسٹ کو مقرر ہے۔ اگر بمبئی سے دوہا تک ریزرویشن مل جاتا تو گوئیل صاحب کا خیال تھا کہ ہم کو وہ انڈین ایرلائنس کی آج کی فلائٹ ہی سے بمبئی بھیج دیتے۔ ابھی ہم کو مصر کا ویزا لینا ہے۔

دو روز سے دہلی میں بارش رکی ہوئی ہے اس لئے کافی گرمی ہو رہی ہے۔ لیکن چلنے پھرنے میں کافی سہولت ہو گئی ہے۔ بارش کی وجہ سے پیدل چلنا مشکل ہو گیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے فاصلوں کیلئے مختلف اوقات میں سواریوں کے لینے سے مجموعی حیثیت سے کافی پیسے خرچ ہو جاتے ہیں۔

آجU.K  کے ایک مسافر سے ہم نے اس کو راستے میں روک کر گفتگو کی۔ وہ بھی اٹلی اور سوئیزرلینڈ کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ زیورک غیر معمولی مہنگا ہے اس سے قدرے کم روم اور دینس ہیں ان کا بیان ہے کہ ان شہروں سے کچھ پرے سستے مقامات پر ٹھہریں۔ شہر آ کر دیکھ کر لیں پھر واپس چلے جائیں۔ ان شہرو ں میں قیام ہمارے بجٹ کے لئے بہت مہنگا پڑے گا۔

Ceral Court Hotel

Cannaught Place-N-Delhi

منگل۔ ۲۴/اگسٹ ۱۹۷۶ء ہم نے سب سامان رات ہی میں باندھ لیا تھا کہ آج ہوٹل چھوڑ کر ایر لنک سرویس کی آفس میں سامان رکھ دیں اور شام میں بمبئی کے لئے  اڑ جائیں۔ ۱۰ بجے کے قریب گوئیل صاحب کی آفس پہونچے تو معلوم ہوا کہ تقریباً سب ہی جگہ کا O.K ہو گیا ہے صرف بمبئی سے دوہا ہونا ہے۔ ایرانڈیا والے ہمارا پاسپورٹ مانگ رہے تھے۔ ہم بارہ بجے کے قریب مصر کی سفارت پہونچے۔ باہر والے لڑکے نے ویزا سکشن سے ربط پیدا کیا۔ بلکہ مجھ ہی سے ٹیلی فون پر متعلقہ شخص سے بات کرنے کے لئے کہا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ڈیڑھ بجے کے قریب ویزا ملے گا۔ میں نے جلدی کی گزارش کی۔ لیکن ہم کو اور ہمارے ساتھ کئی اور کو ڈیڑھ بجے ہی ویزا ملا۔ ہم اسکوٹر پر سیدھے گوئیل صاحب کی آفس کو آئے۔ اور پاسپورٹ دے دیا۔ باوجود انتہائی کوشش کے ہم آج بمبئی کے لئے نہیں نکل سکے ایک تو اب تک بمبئی سے دوہا کے لئے ہم لوگوں کی نشستیں محفوظ نہیں ہوئی ہیں اور دوسری بڑی بات یہ ہے کہ جس قیمت میں امسٹرڈم سے بمبئی۔ دہلی کا ٹکٹ ہم چاہ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے وہ امسٹرڈم ہی سے جاری ہو سکتا ہے یہاں سے ٹیلکس دیا جائیگا۔ جس کی کاپی ہم کو دی جائے گی۔ ہم امسٹرڈم جا کر ٹکٹ لے لیں۔ اگر ہم یہاں واپسی کا ٹکٹ جاری کرائیں گے تو تقریباً پانچ سو روپئے فی ٹکٹ زیادہ دینے پڑیں گے۔ یہ کام کہ یہاں سے ٹیلکس دیا جائے اور اس کی مصدقہ کاپی ہم کو دی جائے کل ہی ہو سکتا ہے۔ گوئیل صاحب نے بہت ہی معذرت کی اور خود اپنی موٹر میں ایرلنک سروس کی آفس سے ہمارا سامان لیا اور ایک اچھی ہوٹل میں جو کناٹ پیالیس میں واقع ہے لا کر چھوڑ گئے۔ وہ ہمارے دو وزنی بیاگ لے کر اوپر کی منزل تک بڑی تیزی سے چڑھ گئے اور بہت دیر تک ہانپتے رہے۔ میں پیچھے تھا ان کو روک نہیں سکا۔ بعد میں ، میں نے کہا کہ گو وہ جوان آدمی ہیں لیکن اتنا وزن اور اس تیزی سے لے کر نہ چڑھیں دل پر اس کا برا اثر پڑے گا۔

رات میں قریب ہی کے رسٹورنٹ میں ہم نے کھانا کھایا۔ پلاؤں کی ایک ایک پلیٹ منگوائی تھی۔ ان میں گوشت کے بڑی مشکل سے چھوٹے چھوٹے تین تکڑے تھے اور ایک میں ہڈی لگی ہوئی اور مقدار اتنی کم کہ ہم جیسے کم خوروں کے لئے بھی کافی نہیں۔ بورڈ پر لکھا تھا کہ اس کی قیمت ۴ روپئے پچاس پیسے تھی اب اس کو کم کر کے ۴ روپئے ۵ پیسے کر دیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ویسے ۴۵ پیسے کی کمی قیمت میں کر دی گئی ہے اور غالباً مقدار ڈش ۷۰ پیسے کے مساوی کم کر دی گئی ہے۔ ہم نے ایک روپیہ پچپن پیسے کی ایک پلیٹ سادھے چاول کی منگوائی اور پلاؤ کے کھارے چاول میں ملا کر کسی طرح تشفی کر لی۔

سنٹرل کورٹ ہوٹل اچھی ہے۔ صاف ستھری بھی ہے۔ ہمارا کمرہ بھی کشادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ باتھ روم اور پائخانہ لگا نہیں ہے۔ اور یہ ایرکنڈیشنڈ بھی نہیں ہے۔ اس پر بھی صرف رہائش کے لئے فی دن ۶۴ روپئے کرایہ ہے۔ گوئیل صاحب نے کہا ہے کہ وہ خود اس کی بل کچھ کم کرا کر ادا کر دیں گے۔ مجھ سے باصرار کہا ہے کہ بل ادا نہ کروں ورنہ ہوٹل والے مجھ سے مکمل پیسے لے لیں گے۔ ان سے ہوٹل والوں کا کاروباری معاملہ چلتا رہتا ہے وہ کم کرا کر ادا کر دیں گے۔

دہران ایرپورٹ

سعودی عربیہ

شنبہ۔ ۲۸ /اگسٹ ۱۹۷۶ء جب ہم ۲۵/اگسٹ کی صبح کو ایروے ٹراویل ایجنسی کو پہونچے تو بلبیر سنگھ اپنی آفس میں موجود نہیں تھے۔ لیکن ہمارے لئے ایک پیام چھوڑ گئے تھے کہ ایرانڈیا کے جو آفیسر امسٹرڈم ٹیلکس بھیجنے والے تھے۔ آفس نہیں آئے ہیں اس لئے اس دن ٹیلکس نہیں جا سکے گا۔ ہم اپنا پتہ اس مقام کا دے دیں جہاں بیرون ہند جانے کے بعد دو ایک دن کے لئے ٹھیر رہ ہیں وہیں ہمارے لئے پیام کی مصدقہ کاپی آ جائے گی گو ہم اس بات سے بالکل مطمئن نہیں ہوئے تاہم اپنا سعودی عرب اور لندن کا پتہ دے دیا۔ بہت دیر کے بعد بلبیر آئے تو پتہ چلا کہ ایرانڈیا نہ تو ریزر ویشن کے اسٹیکرس ہمارے ٹکٹ پر لگا رہے ہیں۔ اور نہ F.T.C کا منظور شدہ فارم دے رہے ہیں کیونکہ ابھی تک امسٹرڈم سے دہلی کا واپسی کا ٹکٹ نہیں خریدا گیا ہے۔ بہرحال کافی پوچھ پاچھ کے بعد ہم نے دہلی ہی میں واپسی کا ٹکٹ بھی خرید لیا تا کہ کسی طرح سفر کا آغاز کیا جائے۔ واپسی کا ٹکٹ لینے کے بعد ریزرویشن کے اسٹیکرس لگے تو معلوم ہوا کہ ہمارے آگے کے سفر پر سب جگہ کی نشستیں محفوظ ہونے کی اطلاعیں آ چکی ہیں لیکن دہلی سے بمبئی اور بمبئی سے دوہا کی نشستیں محفوظ نہیں ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوا کہ کسی عمارت کا اوپر کا سارا حصہ تیار ہے لیکن بنیاد کا وجود نہیں ہے۔ بلبیر نے کوشش کر کے دہلی سے بمبئی کے لئے تو جگہیں دلا دیں اور کہا کہ بمبئی کو مزید ایک ٹیلکس بھیج دیتے ہیں۔ ہم چلیں جائیں ہم کو نشستیں بمبئی سے دوہا جانے کے لئے مل جائیں گی۔ ہم نے بھی سونچا کہ کب تک دہلی میں پڑے رہیں گے اگر دوہا کے لئے نشستیں محفوظ نہ بھی ہوں تو ایرپورٹ پر کوشش کر لیں گے۔

گو ہم نے نو بجے صبح سنٹرل کورٹ کو چھوڑا تھا ہم نے اپنا کمرہ خالی نہیں کیا تھا۔ ہم نے یہ خیال کیا تھا کہ ۷ بجے شام کے قریب ہوٹل میں آئے تھے اس لئے ۲۴ گھنٹے دوسرے دن شام کے ۷ بجے ہوتے ہیں۔ گو ہم کو معلوم تھا کہ بعض ہوٹلوں میں  چیک آوٹ ٹائم ۱۲ یا ایک بجے دن ہوتا ہے۔ یعنی اگر ہم شام میں ۷،  ۸ بجے بھی ہوٹل میں کمرہ لیں تو ہمارا پہلا دن دوسرے دن کے ۱۲ یا ایک بجے دن میں ختم ہو جائے گا۔ اور اس کے بعد دوسرا دن شروع ہو جائے گا۔ ہم نے ۲۵ اگسٹ کو ساڑھے چھ بجے شام کمرہ خالی کیا۔ اس طرح ہمارا قیام ۲۴ گھنٹے بھی نہیں۔ لیکن چیک اوٹ طریقہ کے تحت ہم کو دو دن کا کرایہ دینا تھا۔ لیکن بلبیر کے مالک ہوٹل سے کہنے کی بناء پر مسٹر گوئیل نے صرف ڈیڑھ دن کا کرایہ دے کر پیچھا چھڑایا۔

ایرانڈیا کی فلائٹ جو رات کے گیارہ بجے دہلی سے نکلنے والی تھی اس میں ہماری نشستیں محفوظ تھیں لیکن کاؤنٹر والی لڑکی نے کہا کہ بیرون ہند جانے والے مسافرین کی بڑی تعداد اس پرواز سے جا رہی ہے اس لئے ہم ایر انڈیا کی دوسری فلائٹ جو رات کے ۲ بجے نکلنے والی ہے اس سے پہلے جائیں۔ چنانچہ ہم رک گئے اور ایرانڈیا کی اس فلائٹ سے جو صبح ۳ بجے یعنی ۲۶/اگسٹ کو نکلی۔ بمبئی کے لئے روانہ ہوئے۔ بمبئی پہونچتے پہونچے ۵ بج گئے۔

ہم نے اپنا سامان ایرپورٹ کلاک روم میں رکھوا دیا۔ اور سیدھے ٹیکسی  میں ہماری تیسری لڑکی کے پاس اس کے ہاسٹل چلے گئے۔ اس کو ہم سے اور ہم کو اس سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ ہم نے اس کے پاس ایسے دو بیاگ رکھوا دئے جس کو ہم نے دہلی میں طے کیا تھا کہ ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ اس کے بجائے ہم نے دہلی میں دو چھوٹے بیاگ اور ایک شانے سے لٹکانے والا بیگ خرید لیا تھا۔ وہاں سے ہم نریمان پائنٹ پر ایر انڈیا کی بکنگ آفس گئے اور ان کی شام کی فلائٹ میں دوہا کے لئے نشستیں محفوظ کرانے کی کوشش کی۔ ڈیوٹی آفیسر سے ملنے اور اس کی اپنی کوشش کرنے کے باوجود ہمیں نشستیں نہیں ملیں۔ ہم سے کہا گیا کہ ہم ایرپورٹ پر کوشش کریں لیکن وہاں بھی ہماری کوشش بار آور نہیں ہوئی۔ ہمارا حال برا تھا دو تین دن سے ہم دہلی میں اپنے ٹکٹوں کے سلسلہ میں دن ، دن بھر پھرتے رہے تھے۔ ۲۵ اور۲۶/اگسٹ کی درمیانی رات ایک منٹ بھی نہیں سوئے تھے۔ ۲۶/اگسٹ کو دن بھر بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ تھکن سے برا حال تھا۔ ایرانڈیا کے ڈیوٹی آفیسر جو ایرپورٹ پر متعین تھے ان سے میں نے ملاقات کی اور ہماری اگلی پروازوں پرنشستوں کے محفوظ ہونے کو بتلایا۔ اور کہا کہ ۲۷/اگسٹ کی صبح والی گلف ایر کی پرواز میں ہم کو دوہا جانے کے لئے نشستیں دلوا دیں۔ انھوں نے ہمدردی کی اور لاگ بک میں لکھا کہ صبح کے متعلقہ آفیسر ہم کو گلف ایر میں جگ دلانے کی کوشش کریں۔ اور اس رات ہم کو ایرانڈیا کا مہمان بنا کر Centaur Hotel میں ٹھیرا دیا۔ وہاں کے آرام وآسائش کا کیا کہنا۔ پوری ہوٹل ایرکنڈیشنڈ ہے۔ کھانا بہت اچھا۔ سروس بروقت اور اسٹاف ملنسار اور کمرہ کی ہر چیز آرام دہ۔ تھکن غیر معمولی تھی۔ اس وقت آرام دہ کمرے اور ہوٹل کا ملنا بہت مناسب ہوا۔ رات کے کھانے سے پہلے اور بعد ہم خوب سوئے۔ رات کے کھانے میں مرغی اور مچھلی کھائی۔ کھانا اتنا دیا تھا کہ ہم دونوں کو کچھ بچا دینا پڑا۔

جب ہمارے لئے ایرانڈیا کی طرف سے Layover کی چٹھی بن رہی تھی تو انفارمیشن کے انچارج  نے ہمارا پاسپورٹ ہم دونوں کا نام صحیح طور پر لکھنے کے لئے لیا تھا۔ چٹھی تیار ہونے کے بعد ڈیوٹی آفیسر کی دستخط کے لئے اس نے چٹھی دی۔ اور پاسپورٹ اس کے پاس ہی رہ گیا ہمارا بھی اس طرف دھیان نہ رہا۔ ۹ بجے کے قریب اس کا ٹیلی فون آیا کہ ہم نہ پاسپورٹ اس کے پاس چھوڑ دیا ہے۔ اور یہ کہ وہ اس کو Centaur Hotel بھیج رہا ہے۔ ہم وہاں سے حاصل کر لیں۔ ہم کو اپنی غائب دماغی پر بڑی ندامت ہوئی اور اپنا پاسپورٹ پا کر خوشی۔

ہم نے ہوٹل کے آپریٹر سے کہہ دیا تھا کہ ۲۶!اور ۲۷!کی درمیانی رات میں ساڑھے تین بجے صبح جگا دے۔ چنانچہ اس ٹھیک ساڑھے تین بجے پہلا ٹیلی فون کیا۔ میں اس سے پہلے ہی اٹھ کر سامان جمانے لگا تھا۔ ٹیلی فون کا فوری جواب دے کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے ۴ منٹ بعد اس نے دوسرا یاد دہانی کا کال کیا اور میں نے پھر اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور کہہ دیا کہ ہم پوری طرح جاگ گئے ہیں۔ سنٹرہوٹل بمبئی ایرپورٹ سے ایک آدھ فرلانگ پر ہی ہے۔ اس کی دو تین گاڑیاں ایر پورٹ سے ہوٹل اور ہوٹل سے ایرپورٹ مسافرین کو لاتی اور لے جاتی ہیں۔ ہم کو بھی ہوٹل والوں نے ایرپورٹ چھوڑ دیا۔ ایرانڈیا کے مہمان ہونے کے ناطے ہمیں کچھ دینا نہیں پڑا۔ گلف ایر کی پرواز صبح چھ بجے تھی۔ ہم صبح چار بجے سے پہلے ہی پہونچ گئے تھے۔ ہماری انتہائی کوشش کے باوجود ہم کو گلف ایر کے جہاز میں جگہ نہیں مل سکی۔ ۲۷/اگسٹ کو بہت ہی مایوسی کے عالم میں اپنا سامان پھر کلاک روم میں رکھا ہم اپنی بچی کے ہاسٹل دادر گئے۔ وہاں سے ہمارے مرزا سیف علی بیگ کو ٹیلی کیا تو معلوم ہوا کہ وہ رات ہی میں اورنگ آباد سے واپس آ گئے ہیں۔ اس خبر سے بہت خوشی ہوئی۔ وہ بہت ہی پر خلوص دوست ہیں۔ ان کی صحبت بھی دل خوش کن ہے۔ لڑکی کو گنیش چوتھ کی چھٹی تھی۔ اس لئے اس کو لے کر ہم نریمان پائنٹ کی ایرانڈیا بلڈنگ گئے۔ سیف علی بیگ صاحب بھی وہاں آنے والے تھے۔ گلف ایر کی دوسری پرواز دوہا کے لئے اتوار کو تھی۔ اس میں ہمارے لئے نشستیں بھی مل سکتی تھیں۔ لیکن ہمارا قیام دوہا اور بحرین میں صرف ایک ایک دن تھا۔ اور یہ قیام ہم صرف اس وقت کر سکتے تھے جب کہ اترنے کے وقت سے اندرون ۲۴ گھنٹے ہماری آگے کی پرواز میں نشستیں محفوظ ہوں۔ گلف ایر کی بمبئی آف نشستیں صرف بمبئی سے دوہا اور دوہا سے بحرین تک اپنے اختیار سے محفوظ کر سکتی ہے۔ بحرین سے دہران وہ بحرین آفس سے پوچھے بغیر نہیں کر سکتی۔ ۲۷/اگسٹ کو جمعہ تھا اور بحرین کی آفس بند پڑی تھی۔ پھر بھی گلف ایر کی لڑکی نے ایک ضروری پیام بحرین بھجوا دیا۔ لیکن ہم کو ڈر ہوا کہ وہاں بھی ہمارے لئے دقت ہے۔ سعودی عرب کی پرواز ۲۸/اگسٹ کی شام کو دہران کے لئے تھی۔ چونکہ ہمارے پاس سعودی عرب کا ویزا تھا اس لئے ہم نے طے کیا کہ دوہا اور بحرین کے سفر کا خیال ترک کر کے سیدھے دہران چلے جائیں۔

سعودی عرب ایرلائنس والوں نے بھی اپنی پرواز میں ہم کو بہت ہی دقت سے جگہ دی۔ ہم کو ایسا معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک صاحب ہم سے کسی چیز کے متوقع تھے۔ ویسے دہران سے جدہ تک ہماری پرواز السعودیہ میں ۳۰! اگسٹ کی صبح کے لئے محفوظ ہے۔

چونکہ ہمارا ٹکٹ ایرانڈیا کا تھا اور ہندوستان سے باہر ہماری پہلی پرواز ایرانڈیا سے ہی تھی ہم کو دو سو ڈالر کا زر مبادلہ (اکسچینج) فی کس سو ڈالر کے حساب سے ملا تھا۔ اس کے لئے کل ایک ہزار آٹھ سو بیس روپئے اور اس کے علاوہ ۵ روپئے سروس چارس دینے پڑے تھے۔ ایر انڈیا کا ٹکٹ سعودی عرب ایرلائنس کے لئے اس وقت تک لکھا نہیں جا سکتا تھا جب تک کے ہمارے لئے ہوئے دو سو ڈالر واپس نہ ہوتے۔ چونکہ کسی طرح سفر پر نکلنے کے لئے ہم بے چین تھے۔ ہم دو سو ڈالر بھی بمبئی ایرپورٹ کی ایک بنک میں واپس کر دئے۔ اس لین دین میں ہمارا نود روپئے کا نقصان ہوا لیکن ایر انڈیا کا ٹکٹ سعودی عرب ایرلائنس کے لئے تجویز کر دیا گیا۔

سعودیہ کی پرواز ۱۵۹ بمبئی سے ساڑھے چار بجنے کے بعد نکلی حالانکہ اس کا وقت ۴ بجے کا تھا۔ پہلے پہل شمال میں اس کی پرواز سمندر کے کنارے کنارے تھی۔ سمندر کا پانی زمین میں ایسا گھسا ہوا تھا کہ معلوم ہو رہا تھا کہ بڑے بڑے دریا سمندر میں گر رہے ہوں۔ ساحل کا بہت سا حصہ ناکارہ اور بے کار دکھائی دے رہا تھا۔

ہم کو ۱۹۷۳ء میں افغان ایرلائنس (آریانہ) کی مہمان نوازی حاصل کرنے کا موقعہ ملا تھا اس مرتبہ السعودیہ کا۔ ہم بلا پس و پیش کہہ سکتے ہیں کہ سعودیہ کی مہمان نوازی اس وقت کے افغان ایرلائنس کی مہمان نوازی سے بدرجہا بہتر تھی۔ پورا سفر کچھ نہ کچھ کھلاتے پلاتے ہی رہے۔ کراچی اور دوبائی کے درمیان رات کا کھانا دیا گیا جو کافی معیاری اور مقدار میں زیادہ تھا۔

دہران ہم مقامی وقت کے لحاظ سے ساڑھے آٹھ بجے پہونچے۔ اس وقت ہندوستان میں رات کے گیارہ بجے تھے۔ یہاں ہمارے چھوٹے داماد راشد لطیف کے بڑے بھائی جناب شاہد لطیف کا پتہ دیا گیا تھا۔ اور ان کے آفس کا ٹیلی فون نمبر بھی۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ان کے آفس کے فرد سے رات میں بات ہو جائے اور وہ ان کو ہمارے آنے کی اطلاع دیدے۔ لیکن یہاں کے ٹیلی فونی نظام کا عجیب حال ہے۔ چار پانچ ٹیلی فونوں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کہیں سے بھی بات نہیں ہوئی۔ لیکن اس سلسلہ میں ایرپورٹ پر ہی ایک حیدرآبادی صاحب سے ملاقات ہو گئی جو ہمارے عزیز شاہد لطیف کو پہچانتے تھے۔ وہ رات کے ساڑھے بارہ بجے اپنی آفس سے نکلنے والے تھے۔ وہ ہم کو اپنے عزیز کے مکان پر پہونچانے کا انتظام کرنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن ہم کو اتنی رات گئے اپنے عزیز کے مکان پر جانے میں تامل تھا۔ ہم نے ان سے یہی کہا کہ وہ اپنے کسی بچے کے ذریعہ ان کو کہلا بھیجیں کہ ہم ایرپورٹ پر ہیں وہ ہمیں کل صبح لے لیں۔ ایرپورٹ کے ایک حصہ پر چادریں بچھا کر سونے کی کوشش کرنے لگے۔ کبھی سوتے اور کبھی اٹھتے رہے۔ بہرحال پاؤں لمبے کرنے کا موقعہ مل گیا۔

جدہ سعودی عرب

بہ مکان عزیز۔ قریب پٹرولم۔

پیر۔ ۳۰/ اگسٹ ۱۹۷۶ء  دہران ایرپورٹ پر ۲۹/اگسٹ کی صبح کو جب کہ ہم رات کا بچایا ہوا بن کھا رہے تھے ہمارے عزیز اور ان کی بیوی ہم کو لینے آئے۔ ہم نے جلدی سے دو تین نوالے کھا کر بن وغیرہ ختم کر دیا۔ میں ایک بیاگ گلے میں ڈال کر اور دو بیاگ ہاتھ میں لے کر چلنے کے لئے تیار ہو گیا۔ طریقہ یہ تھا کہ تین بیاگ جو ذرا زیادہ وزنی ہیں ان کو میں اس طرح اٹھا لیتا ہوں۔ بیوی میری بریف کیس اور ایک تھیلی جو دونوں ہلکے ہیں اٹھا لیتی ہیں۔ میں نے یہی خیال کیا کہ بیوی بریف کیس اور تھیلے لیں گی۔ اور باقی تین چیزیں ، میں نے حسب معمول اٹھا لیں۔ لیکن ہمارے عزیز صاحب نے میرے ہاتھ سے ایک بیاگ لے لیا۔ اس طرح میرا ایک ہاتھ خالی ہو گیا۔ غالباً بیوی نے یہ خیال کیا کہ جب ایک ہاتھ خالی ہو گیا ہے تو میں ہی بریف کیس بھی اٹھا لوں گا۔ لیکن میں تیزی سے عزیز کے ساتھ ان کی موٹر کی طرف چلا گیا۔ اور بیوی پیچھے عزیز صاحب کی اہلیہ کے ساتھ قدرے آہستہ آئیں۔ موٹر میں ہم سب لوگ بیٹھ کر دمام جو ایر پورٹ دہران سے ۲۲ کیلو میٹر دور ہے چلے گئے۔ جب سامان اتارا جانے لگا تو میں نے بیوی سے پوچھا کہ بریف کیس کہاں ہے۔ ان کو اچنبھا ہوا اور جب جانچ ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ساتھ نہیں لایا گیا ہے۔ بلکہ وہیں ایرپورٹ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کچھ پیسوں کے علاوہ ہم دونوں کا مشترکہ پاسپورٹ و ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور ہیلت کے کاغذات وغیرہ تھے۔ میرے تو بس ہوش اڑ گئے پیسہ زیادہ نہیں تھا۔ اور ہوتا بھی تو اپنے عزیز سے حاصل کر لیا جاتا۔ پاسپورٹ اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا مسئلہ بڑا تشویشناک تھا۔ ہم کو ہمارا پورا سفر خطرہ میں دکھائی دینے لگا۔ ہماری پریشانی کو دیکھ کر ہمارے عزیز نے ہم کو دلاسا دیا کہ ہمارے بیگ یہاں کوئی نہیں اٹھائے گا۔ اور کہا کہ ہم تھوڑا سا ناشتہ کر لیں پھر واپس ایرپورٹ چلتے ہیں۔ گو ہم ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس خیال سے کہ بدحواسی دکھانا مناسب ہیں اور پھر سعودی عرب کے قطع ید کے قانون اور لوگوں کے ڈر کا خیال کر کے امید کرنے لگے کہ ہمارا بریف کیس مل جائے گا۔ بڑی مشکل سے ایک پیالی چائے پی۔ اور ایک آدھ بسکٹ کھایا اور پھر ۲۲  کیلومیٹر کے سفر پر میں اور ہمارے عزیز روانہ ہو گئے۔ ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہی جب کہ ہم نے دیکھا کہ ہمارا وہ اہم بریف کیس اسی سیٹ پر رکھا ہوا ہے جہاں ہم نے اپنے عزیز کے آنے پر رکھ دیا تھا۔

ایرپورٹ پر بمبئی سے آئی ہوئی دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کو کسی بڑے شیخ نے بلایا ہے تا کہ کسی ہسپتال میں نوکر رکھا جائے۔ ہم جس ہوائی جہاز سے آئے تھے وہ بھی اسی سے آئی تھیں۔ باوجود اس کے کہ ان لوگوں نے شیخ کے پاس ٹیلی گرام کر دیا تھا ایرپورٹ پر ان کو لینے کے لئے کوئی موجود نہیں تھا۔ رات میں وہ ہم لوگوں کے قریب ہی سوگئی تھیں۔ ان کے پاس اس شیخ کا پتہ تھا۔ ہم نے اپنے عزیز سے کہا تھا کہ وہ ان کو ان کے بتائے ہوئے پتہ پر اتار دیں۔ لیکن وہ اس میں تامل کر رہے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ سعودی عرب کے قوانین سخت ہیں۔ ان عورتوں کے ایرپورٹ سے جانے پر ان پر ہی الزام آ سکتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ انھوں نے ان دو عورتوں کو اپنی موٹر میں لے لیا۔ اور ان کے شیخ کی پیپسی کولا فیاکٹری میں چھوڑ دیا۔

جناب شاہد لطیف دمام کی ایک ریفری جریشن فیاکٹری کے پروڈکشن منیجر ہیں۔ ان کا پورا گھر ایرکنڈیشنڈ ہے۔ باہر شدید گرمی ہے لیکن اندر خنکی لی ہوئی فضاء۔ دوپہر میں جب ہم کھانا کھا کر سونے لگے تو بیوی نے عزیز کی اہلیہ انیس سے کہا کہ۔ ایرکنڈیشن کو ٹھیک کر دیں کیونکہ ذرا سردی محسوس ہو رہی ہے۔ انھوں نے ذرا رد و بدل کر دی۔ اس پر بھی ہم کو پتلی سے چادر اوڑھنی پڑی اس وقت مکان کے باہر شدید گرمی تھی۔ گھر میں ٹیلی ویژن۔ ریفریجریٹر۔ کپڑے دھونے کی مشین۔ پٹرولیم گیس کے بڑھیا قسم کے دو چولہے موجود ہیں۔ یہ مکان آراستہ کر کے ان کو کمپنی نے دیا ہے۔ اور کمپنی امریکن ہے۔ اور اس کا صدر دفتر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہے۔ رات میں و ہم کو ادھر ادھر گھمانے لے گئے۔ الکوبر کا بازار بھی دکھایا۔ دوکانیں سارے باہر کے سامان سے بھری پڑی ہیں۔ بالخصوص کیمرے ، ٹیلی ویژن سٹس۔ ٹیپ ریکارڈر ، ٹرانسٹرس اور کیالکولیٹرس سے۔ کپڑے وغیرہ کی دوکانیں بھی خوب ہیں۔ خریدی بھی خوب ہو رہی ہے۔ ۳۰  اگسٹ کے لئے سعودیہ سے جدہ تک ہماری نشست محفوظ ہے۔ ہم نے دوبارہ توثیق کرائی تو معلوم ہوا کہ فہرست مسافرین میں ہمارا نام نہیں ہے۔

بہرحال ہمارا نام دہران سے جدہ کیلئے ۳۰  اگسٹ کی صبح کی پرواز میں لکھ دیا گیا۔ جب ہم ایرپورٹ پہونچے تو بہت سے مسافر سکیوریٹی جھڑتی کرا چکے تھے۔ ہوائی جہاز ٹھیک وقت پر چھ بجے اڑا۔ ۴۵ منٹ میں ریاض جو سعودی عرب کا دارالخلافہ ہے پہونچ گیا۔ یہاں ڈھائی تین گھنٹے رکا رہا۔ ہم کو ٹرانزٹ کا پرچہ دے کر کہا گیا کہ ایرپورٹ کے پاسنجر لاؤنج میں بیٹھے رہیں۔ ایرپورٹ میں بہت سے عرب اور دوسرے لوگ چائے وغیرہ پی رہے تھے۔ ماہ رمضان کی وجہ سے ہم کو ڈر تھا کہ شاید اس کی اجازت نہ ملے۔ لیکن ایرپورٹ پر اتنی سختی نہیں ہے۔ ریاض سے جدہ کی پرواز کے دوران سب مسافرین کو ناشتہ دیا گیا جو روزہ دار تھے۔ انھوں نے انکار کر دیا اور باقی سب نے ناشتہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہر ایک کو ان کی مرضی کے لحاظ سے چائے یا کافی دی گئی۔ جدہ کی ایرپورٹ پر ہم گیارہ ساڑھے گیارہ بجے اترے۔ یہاں سامان وغیرہ کی جانچ نہیں ہوئی۔ دہران ایرپورٹ پر ہی ہمارے سامان اورپاسپورٹ وغیرہ کی جانچ ۲۸  اگسٹ کو ہو چکی تھی۔ اب ہم اندرون ملک کی پرواز سے جدہ پہونچے تھے۔

ایرپورٹ سے ہم نے ایک دوسرے عزیز سید محمد باشاہ ہمارے منجھلے لڑکے رشید مرزا کے ہم زلف کو ٹیلی فون کیا۔ وہ حسین الاعونی کی آفس میں کام کرتے ہیں۔ وہاں معلوم ہوا کہ وہ ایک بجے کے بعد آنے والے ہیں۔ چونکہ ہم نے یہ بات ایک عرب سے کرائی تھی۔ وہ یہ پوچھنا بھول گئے کہ وہ آفس کس مقام پر ہے۔ بڑی مشکل سے ہم نے اس آفس کا پتہ چلایا۔ ٹیکسی والے ہمیں نیا دیکھ کر دس پندرہ ریال صرف شہر کو لے جانے کے مانگ رہے تھے۔ بس کو ہم نے روکنا چاہا تو پہلے وہ رکی نہیں اور ایک رکی تو وہ شارع عبدالعزیز کی طرف نہیں جا رہی تھی۔ اس دوران ایک عرب سے میں نے کچھ پوچھا اور انھوں نے کچھ بتایا بعد میں انھوں نے اشارہ سے بلا کر اپنی موٹر میں بٹھا لیا اور شہر کے مرکزی حصہ میں لا کر چھوڑ دیا کہ میں حسین الاعونی کی آفس کا پتہ چلا لوں۔ ان سے یہ بڑی مدد ملی۔ اتنا فاصلہ دھوپ میں پیدل چلنے سے بڑی تکلیف ہوتی۔ بیوی کو سامان کے ساتھ میں نے ایرپورٹ پر ہی بیٹھا دیا تھا۔ تلاش سے آفس کا پتہ چل گیا۔ لیکن چونکہ ایک نہیں بجا تھا۔ ابھی وہ بند پڑی تھی۔ اتنے میں اذان ہوئی اور بہت سے لوگ مسجد کو جانے لگے اور کچھ اپنے اپنے مقام پر ظہر نماز کی پڑھنے لگے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے سنا تھا کہ اذان کے ساتھ ہی کاروبار بند کر کے سب ہی مسجد کو چلے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ دوران نماز میں بہت سے دوکاندار دوکانوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس طرح بہت سے راہرو بھی ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کئی اشخاص نے اپنی دوکانیں بند کیں اور مسجد چلے گئے۔ لاؤڈ اسپیکر سے اذان بھی ہوتی ہے۔ اور نماز بھی پڑھائی جاتی ہے۔

ڈیڑھ بجے کے قریب پھر ہم جا کر آفس کے قریب کھڑے ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ ہمارے عزیز جن کی ہم کو تلاش تھی چلے آ رہے ہیں۔ وہ آفس آنے والوں میں پہلے شخص تھے۔ ان کو آفس کھلوانے میں ہی ذرا دقت ہوئی۔ آدمی اندر سے بند کر کے کہیں پیچھے چلا گیا تھا۔ آٹھ دس منٹ میں آدمی کو کہہ کر وہ ہمارے ساتھ ہو گئے۔ وہ ہم کو اپنی موٹر سیکل پر لے کر پہلے اپنے گھر گئے۔ وہاں ہم کو ٹھنڈا ، میٹھا اور لذیذ شربت پلایا۔ ایرپورٹ اور شہر میں سارے رسٹورنٹ بوجہ رمضان بند پڑے تھے۔ کہیں بھی ہم کچھ پی نہ سکے تھے۔ البتہ آفس میں ٹھنڈا پانی پیا تھا اور یہاں شربت۔

عزیز کے گھر کے قریب سے ایک ٹیکسی لی اور ایرپورٹ جا کر بیوی اور سامان لے آئے۔ ہوٹلوں کا قیام بہت مہنگا ہے۔ اگر یہاں کسی کے ہاں رہنے کی سہولت مل جائے تو بڑا غنیمت ہے۔ دہران (دمام) میں ہمارا قیام چھوٹے داماد کے بڑے بھائی کے پاس تھا۔ جدہ میں ہم اپنے منجھلے لڑکے کے ہم زلف کے ہاں مقیم ہیں۔ یہ بہت ہی خوشدلی خوشی سے ہماری مہمان نوازی کر رہے ہیں ان کے ذرائع اتنے زیادہ نہیں ہے۔ اور یہاں آ کر دو سال قبل انہوں نے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ لیکن انھوں نے کافی ترقی کی ہے اور ہم کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رات میں بلد جو شہر جدہ کا مرکزی حصہ ہے گئے یہاں بڑی چہل پہل رات میں ساڑھے نو بجے کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے قبل لوگ تراویح کی نماز سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ ایک مسجد میں تراویح کی نماز لاؤڈ اسپیکر سے پڑھائی جا رہی تھی وہ ہم پانچ چھ رکعتوں تک کھڑے سنتے رہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہر دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد قل ھو اللہ احد اور انا اعطیناک الکوثر کے سوروں کو بار بار دہرایا جا رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں کسی مسجد میں بھی ماہ رمضان میں ختم قرآن نہیں ہوتا ہے۔ سنتیں بھی عام طور پر نہیں پڑھی جاتی ہیں۔ صرف فرض ہی پڑھ کر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

یہاں گرمی زیادہ ہے۔ ۲۴ گھنٹے پنکھا چلتا رہتا ہے۔ بیت الخلاء میں جاتے ہیں تو پسینے سے شرابور ہو جاتے ہیں۔ وہاں پنکھا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اب گرمی قدرے کم ہے۔ جون ، جولائی میں غضب کی تھی۔

پٹرولیم لوکیالٹی۔ جدہ۔ سعودی عرب

چہار شنبہ یکم ستمبر ۱۹۷۶ء ہم جہاں ٹھیرے ہوئے ہیں معلوم ہوا کہ اس کے نیچے سب پٹرول ہی پٹرول ہے۔ یہاں سے دو تین فرلانگ پر آئیل ریفائنری ہے جہاں نہ صرف پٹرول نکالا جا کر صاف کیا جاتا ہے بلکہ دوسرے مقامات سے بھی لا کر صاف کیا جاتا ہے۔ بیسیوں ٹینک بنے ہوئے ہیں جن میں آئیل اور پٹرول بھرا ہوا ہے۔ رات میں اکثر لاریوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ ایک اونچے پائپ سے ہمیں آگ کا شعلہ نکلتا رہتا ہے ایسا ہی شعلہ میں نے دہران کے قریب بھی دیکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ زمین کے اندر جو گیس بھری ہوئی ہے اس کے دباؤ کو کم کرنے کیلئے ایک پائپ کو اونچا لے کر جلانا ضروری ہے ورنہ گیس کے دباؤ سے دھماکہ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس طرح ۲۴ گھنٹے گیاس کو جلانے کے بجائے کسی اور ترکیب سے اس کو نکال کر دباؤ کو کیوں کم نہیں کیا جاتا۔

جدہ سعودی عرب کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی ایرپورٹ بلکہ بحیرہ احمر میں جہازوں کی بندرگاہ بھی ہے۔ یہ بندرگاہ بلد سے قریب ہے۔ یہیں مرکزی پوسٹ آفس بھی ہے۔ سڑکیں چوڑی۔ عمارتیں اونچی اور پختہ ہیں۔ کمزور اور پرانی عمارتوں کو حکومت کی جانب سے جا بجا گرایا جا رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ بعض اچھی خاصی عمارتوں کو گرا دیا گیا ہے۔ بمبئی وغیرہ میں ایسی بہت سی عمارتوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جائے گا۔ یہاں موٹروں کی بھرمار ہے۔ نئی اور اچھی موٹریں ہر طرف تیزی سے دوڑتی رہتی ہیں۔ یہاں سیدھی طرف کی ٹرافک ہے۔ یہاں کئی پرانی موٹریں ہر طرف پڑی ہوئی ہیں۔ سنا گیا کہ نئی موٹر کار خریدنا آسان ہے۔ لیکن پرانی اور حادثہ سے متاثر موٹر کا درست کرنا مشکل ہے۔ اس لئے ایسی موٹروں کو ہمیشہ کے لئے پھینک دیا جاتا ہے۔ تعجب ہے کہ حکومت بھی ان کو اسی طرح پڑے رہنے دیتی ہے۔ بعض موٹریں تو بیچ سڑک کے اس حصہ میں پڑی ہوئی ہیں جن کے دونوں طرف آمد و رفت ہوتی رہتی ہے۔ آٹومیٹک (خودکار) لائٹ جا بجا لگی ہیں۔ لیکن ٹرافک پولیس کم دکھائی دی۔ معلوم ہوا کہ موٹر کی ٹکر سے اگر کوئی زخمی ہو جائے تو جتنے دن وہ ہاسپٹل میں رہے گا اتنے ہی دن موٹر چلانے والا جیل میں رہے گا۔  اور پھر اخراجات علاج وغیرہ بھی  اس سے قابل وصول ہوں گے۔ اگر کوئی موٹر کی ٹکر سے مر جائے تو موٹر چلانے والا جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اور پھر ورثاء متوفی اور موٹر چلانے والے میں گفتگو ہو گی۔ وہ جو خون بہا طلب کریں گے اگر ٹکر دینے والا دے دے تو اس کی رہائی ہو جائے گی۔ ورنہ جان کے بدلے جان لی جائے گی۔ اگر ورثا رقم کا مطالبہ نہ کریں۔ بلکہ خون کا بدلہ خون چاہیں تو ایسی صورت میں ٹکر دینے والا مار دیا جائے گا۔ قاضی کے فیصلہ میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ مرنے والے کی غلطی تھی یا چلانے والے کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمانے کے لحاظ سے انصاف رسانی کے طریقہ میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہی طریقہ جو قرون وسطی میں تھا۔ اب بھی جاری ہے۔

چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر لب سڑک بید لگائی جاتی ہے۔ جیسے کوئی لڑکیوں کو چھیڑے یا ان پر بھپتی کسے وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ آج کل بید زور سے نہیں ماری جاتی ہے بلکہ آہستہ سے لیکن ایسے مقام پر جہاں لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ یہ سزا اکثر شربت علی بلڈنگ کے سامنے ہوا کرتی ہے۔ عام طور پر پہلے یہ سزا دوپہر میں دی جاتی تھی۔ اب بوجہ رمضان المبارک بعد نماز عشاء اس پر عمل ہوتا ہے۔ اگر چوری کی گئی ہو تو ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ایمبولینس ساتھ ہوتی ہے۔ خون کو روکنے کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ زنا کی اسلامی اصول کے تحت سزا سنگ سار کر کے مار ڈالنا ہے لیکن یہاں معلوم ہوا کہ ایسے مرتکب جرم کی گردن کاٹ دی جاتی ہے۔ یہ سب برسر عام کیا جاتا ہے تا کہ لوگوں کو عبرت ہو۔ لیکن کہا  جاتا ہے کہ اتنی کڑی سزا دی جانے کے باوجود یہ گناہ گھر کی چاردیواری میں بہت کیا جاتا ہے۔ اور جہاں پکڑے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ معلوم ہوا کہ دولت مند عرب عام طور پر یورپ وغیرہ کا سفر کر کے عیش و عشرت کرتے ہیں۔ جب وہ وہاں اس قسم کے افعال کے عادی ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتے ہیں۔ شراب خانے یہاں بالکل نہیں ہیں اور نہ یہاں کوئی حالت نشہ میں دکھائی دیتا ہے مگر سنا ہے کہ چوری چھپے خاص لوگوں کے لئے اس کا بھی انتظام ہو جاتا ہے۔

آج کل بوجہ رمضان المبارک ۷۵ فیصد خرید و فروخت بعد نماز عشاء ہی ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ دوکانیں رات کے تقریباً دو بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ دو مرتبہ ہم رات کے بارہ بجنے کے بعد تک شربت علی بلڈنگ کے سامنے گھومتے رہے اور سب دوکانیں کھلی پائیں۔ سنا گیا کہ رات ڈھائی تین بجے سحری کر کے اور اس کے بعد نماز فجر پڑھ کر یہ لوگ دن کے بارہ ایک بجے تک سوجاتے ہیں۔ پھر ڈیڑھ دو بجے سے چہل پہل شروع ہوتی ہے۔ اور دفاتر وغیرہ کام کرتے ہیں۔ پانچ بجے شام میں پھر دفتر بند ہو جاتے ہیں۔ اور رات میں ۹ یا ساڑھے نو بجے کھل کر رات میں بارہ ساڑھے بارہ تک کام کرتے ہیں۔

عورتیں ، مردوں کے مقابلہ میں بازار میں بہت کم نکلتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی اچھی خاصی تعداد بازار میں دکھائی دیتی ہے۔ مغربی ممالک کی عورتیں ان کے اپنے لباس میں ہوتی ہیں یعنی ان کا چہرہ ، ہاتھ ، پاؤں ، گردن اور اس سے نچلا حصہ سینے اور پیٹھ کا کھلا رہتا ہے۔ سوڈان۔ یمن وغیرہ کی عورتیں جسم کا پورا حصہ ڈھکا رکھتی ہیں۔ لیکن چہرہ بالکل کھلا رہتا ہے۔ البتہ سعودی عرب کی عورتیں نہ صرف اپنا پورا جسم ڈھانکتی ہیں بلکہ ان کے چہرے پر بھی نقاب پڑا رہتا ہے لیکن نقاب کا کپڑا بالکل مہین اور آر پار دکھائی دینے والا ہوتا ہے اس نقاب سے نہ صرف چہرا بلکہ اس کا رنگ بھی عیاں ہوتا ہے۔ میں نے صرف ایک دو عورتوں کو اس طرح دیکھا کہ انھوں نے نقاب کے نیچے گہرے کالے رنگ کے کپڑے سے ناک کے نچلے حصے کو ڈھانک لیا تھا۔ اس کی وجہ سے چہرے کا ڈھب معلوم کرنا مشکل تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں پردے سے نکلنا چاہتی ہیں لیکن اس کو ایک دم خیر باد کہنے کی ہمت نہیں۔ ورنہ چہرے پر ایسے مہین کپڑا  ڈالنے کے کوئی معنی نہیں جس سے سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔

یہاں مردوں کا قومی لباس لمبی لمبی قمیصیں ہیں۔ یہ پورے جسم کو ٹخنوں تک ڈھانکتی ہیں سرپر ایک چھوٹی چادر ہوتی ہے جو گردن سے ڈھلک کر پیٹھ تک پہونچتی ہے۔ اس چادر کو سر پر ایک گول لٹھے سے روکا جاتا ہے۔ اتنی لمبی لمبی قمیصوں کے تعلق سے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس سے چلنے اور بھاگنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سر کا لباس یہاں کے تیز اور گرم سورج کے لئے مناسب ہے۔ اس سے گردن اور سر ڈھکا رہتا ہے۔ جو عربستان میں ضروری ہے۔

میں نے سب ہی عربوں کو خوش پوش پایا۔ ان کا لباس بھی کافی صاف ستھرا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ روزانہ اپنی قمیص اور سر کی چادر بدلتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں ہر متوسط عرب کے مکان میں ٹیلی ویژن، ریفریجریٹر۔ کپڑے دھونے کی مشین۔ گیاس کے چولھے وغیرہ موجود ہیں۔

آج ہم بیوی کو بلد کا ہنگامہ دکھانے لے گئے تھے۔ گھڑیوں اور زیورات کی دوکانوں پر وہ زیادہ رک رہی تھیں۔ یہاں کا صرافہ بھی خوب ہے۔ بیسیوں صرافہ کی دوکانیں ہیں جو پیسوں کا رد و بدل کرتی ہیں۔ آج کل ہندوستان کے سو روپیہ پر سعودی عرب کے ۳۵ یا ۳۶ ریال ملتے ہیں۔ اگر آپ سعودی ریال سے یو ایس ڈالرس بنانا چاہیں تو آپ کو ہر سو ڈالر کے لئے ۳۵۵ یا ۳۵۶ ریال دینے پڑیں گے۔ اور اگر یو ایس ڈالر کے سفری چیک لینا چاہیں تو مزید ایک یا نصف فیصد کمیشن دینا پڑتا ہے۔ یہاں صرافہ کی سب سے بڑی دوکان سلیمان عبدالعزیز کی ہے۔ بارہ پندرہ لوگ اس میں کام کرتے ہیں۔ اور گاہکوں کا اژدحام رہتا ہے اس کا نرخ بھی اور صرافے کی دوکانوں کے مقابلے میں ٹھیک رہتا ہے مگر یہ ہندوستانی روپیہ قبول نہیں کرتا ہے بعض صرافے کے دکاندار قبول کرتے ہیں۔

جدہ۔ سعودی عرب

شنبہ۔ ۴/ ستمبر ۱۹۷۶ء ہم ۲/ ستمبر جمعرات کی شام کو مکہ مکرمہ گئے۔ ہمارے ساتھ میزبان صاحب کی اہلیہ بھی چلنے والی تھیں۔ وہ چار پانچ مرتبہ مکہ معظمہ جا چکی ہیں۔ سب کچھ تیاری کے بعد جب ہم لوگ گھر سے نکلنے لگے تو ان کے چاروں بچے رونے لگے کہ وہ بھی ساتھ چلیں گے۔ چونکہ یہ ہندوستانی ہیں اور بچے چھوٹے ہیں۔ جب بھی ماں باپ باہر جاتے ہیں تو سب بچوں کو اندر کر کے قفل ڈال دیتے ہیں تا کہ بچے ادھر ادھر منتشر ہو کر غائب نہ ہو جائیں۔ باہر کے قفل کی دو کنجیاں ہیں ایک ماں کے پاس اور دوسری باپ کے پاس۔ اگر چہ کہ مکان بڑا ہے اور صحن کافی کشادہ ، لیکن بچے یہ کبھی پسند نہیں کرتے کہ ماں باپ کے آنے تک گھر میں بند پڑے رہیں۔ ایک تو ماں باپ سے الگ ہونا، دوسرے گھر میں پڑے رہیں۔ ایک تو ماں باپ سے الگ ہونا، دوسرے گھر میں بند پڑا رہنا ان پر کافی گراں گزرتا ہے۔ جب ہم ما رہے تھے اس وقت بچوں کے والد صاحب کسی ختم قرآن کی مجلس میں گئے ہوئے تھے۔ شاید وہ موجود ہوتے تو بچے اتنی ضد نہیں کرتے۔ بچوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ان کی ماں ان کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ مکہ معظمہ جا رہی ہیں۔ اس لئے بڑی بچی نے چھوٹی بچی کے ذریعہ کنجیاں چھپوا دیں۔ اس کے ڈھونڈنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا جب وہ ملیں تو نماز مغرب کا وقت ہو گیا ماں نے مصلی پر کنجیاں رکھ کر نماز پڑھی اور چھوٹی بچی نے پھر اسے غائب کر دیا۔ لیکن دوسری مرتبہ کنجیاں جلد مل گئیں۔ لیکن جب جانے کا وقت آیا تو سب ہی بچے رونے لگے۔ بڑی بچی جو تقریباً نو دس سال کی ہے اور کافی سمجھدار اور ہوشیار ہے وہ بھی رونے لگی۔ ان بچوں کا رونا دیکھ کر ماں نے کہا کہ ان کے جائے ان کی بڑی بچی کو ہم ساتھ لے لیں۔ ہم نے جواب دیا کہ ہم خود چلے جاتے ہیں مغرب کے بعد ہی گھر سے نکل گئے۔ ہم کو کافی دور پیدل چلنا پڑا کوئی ٹیکسی دکھائی نہیں دی میں سمجھتا ہوں کہ اکثر لوگ روزہ کھول کر نماز پڑھ کر گھروں میں کھانا کھانے میں مصروف ہوں گے۔ ایک ٹیکسی ملی۔ ڈرائیور نے مقررہ کرایہ ۵ ریال مانگا۔ اور ہم راضی ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ حکومت نے ٹیکسی کا کرایہ اندرون شہر فاصلہ خواہ کم ہو یا زیادہ فی ٹرپ ۵ ریال مقرر کیا ہے بشمول ڈرائیور ٹیکسی میں پانچ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ جہاں سے بسیں اور ٹیکسیاں مدینہ اور مکہ کو نکلتی ہیں اس کو ’’موگف‘‘ کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ موقف ہے وقوف سے یعنی (بسیں وغیرہ کی) ٹھیرنے کی جگہ۔ عام طور پر عرب ’ق‘ کو ’گ‘ بولتے ہیں۔ اس طرح موقف بولنے میں موگف ہو گیا جب موقف پہونچے تو ایک بس اور کئی ٹیکسیاں مکہ معظمہ جانے کو تیار تھیں ٹیکسی کا کرایہ ۸ ریال فی کس اور بس کا کرایہ ۵ ریال تھا۔ بس والے نے کہا کہ بس ایرکنڈیشنڈ ہے۔ ہم نے بس میں جانا طے کیا۔ بس کی بکنگ آفس سے ٹکٹ لینے کو کہا گیا۔ کلرک نے کرائے کے علاوہ ہمارا پاسپورٹ بھی مانگا۔ اس نے سعودی عرب کا عمرے کے لئے لیا ہوا ویزا دیکھ کر ہم کو دس ریال میں دو ٹکٹ دے دئے۔ بس ایرکنڈیشنڈ تو نہیں تھی اس میں چھوٹے چھوٹے پنکھے لگے ہوئے تھے جن سے ہوا آ رہی تھی۔

جدہ سے مکہ معظمہ ۷۰ کیلومیٹر ہے۔ یہ فاصلہ تقریباً گھنٹہ یا سوا گھنٹہ میں طے ہوا۔ سعودی عرب میں سیدھے طرف ٹرافک چلتی ہے۔ جدہ اور مکہ مکرمہ میں کے درمیان کافی چوڑی سڑک ہے۔ اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ بیچ کا تقریباً ۵ فیٹ کا حصہ غیر مختتم حالت میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ایک حد فاصل ہے سیدھی اور بائیں طرف کی سڑکوں کے درمیان اس طرح سے ایک حد بنا دینے سے ٹرافک کی رو آسان اور تیز ہو گئی ہے۔ یکطرفہ سڑک بھی اتنی چوڑی ہے کہ اس پر لکیر ڈال کر اس کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سیدھی طرف کا حصہ راست جانے والے سواریوں کیلئے اور بائیں طرف کا حصہ صرف او ور ٹیک (سبقت) کرنے والوں کیلئے اور ٹیک (سبقت) کرنے کے بعد ہی ڈرائیور کا کام ہے کہ وہ لکیر کی سیدھی طرف آ جائے اور بائیں طرف کا حصہ او ور ٹیک کرنے والی گاڑیوں کے لئے چھوڑ دے۔ اس طریق عمل سے بالمقابل ٹکرانے کے امکانات کم ہیں۔ اس کے باوجود کچھ نہ کچھ ٹکریں ہو جاتی ہیں۔ واپسی کے وقت ہم نے کئی مقاموں پر ٹکر کھائی ہوئی موٹریں سڑک کے بازو پڑی ہوئی پائیں معلوم ہوا کہ یہاں موٹروں کی مرمت بہت مہنگی ہے۔ اس لئے لوگ نئی موٹروں کے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب ہم رات میں مکہ مکرمہ جا رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ مکہ سے جدہ کی طرف جانے والی سواریوں کا سلسلہ لامتناہی تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہر چھوٹے بڑے کے پاس موٹر ہے۔ ہماری بائیں طرف موٹریں ہی موٹریں چلی آ رہی تھیں۔ موٹروں کی لائٹ بھی کافی تیز تھی۔ چونکہ سڑک چوڑی اور دو حصوں میں منقسم ہے لائٹ کو دھیما کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہر دو طرف کی موٹریں اپنی اپنی لائٹ کو تیز رکھے ہوئے تیزی سے جا سکتی ہیں۔

جب ہم مکہ معظمہ پہونچے تو عشاء کی نماز کا وقت تھا۔ بیوی نے کہا کہ وہ پہلے عمرہ کر کے آئیں گی اور اس وقت تک ہم سامان کی حفاظت کریں۔ بیوی سے میزبان صاحب کی بیوی نے کہا تھا کہ وہ باب اسلام سے حرم میں داخل ہوں۔ ہم نے ایک عرب سے پوچھا کہ باب اسلام کدھر ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ کسی طرف سے بھی داخل ہو جائیں ’’ کل حرم‘‘ ہر طرف حرم ہے۔ بیوی بھی اس کی بات سمجھ گئیں۔ جس دروازہ پر ہم پہونچے وہ باب ملک عبد العزیز تھا۔ ہم نے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا سیکڑوں لوگ اندر طواف کعبہ کر رہے ہیں۔ ہم نے بیوی سے کہا کہ وہ دروازہ کو اچھی طرح دیکھ لیں کہ کہیں واپسی کے وقت بھٹک نہ جائیں۔ وہ اندر جانے کے بعد پندرہ بیس منٹ میں واپس آئیں کہ عورتوں کو طواف کعبہ کے لئے نہیں جانا دیا جا رہا ہے۔ عشاء کے لئے ہزا رہا لوگ حرم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم کو ذرا دقت سے کعبہ تک جانے کا موقعہ ملا۔ ہم نے دیکھا کہ سوائے چند عورتوں کے باقی سب مرد ہی طواف کعبہ کر رہے ہیں۔ رکن یمانی پر لوگ ہاتھ لگا کر اپنے سینے پر پھیر رہے تھے۔ حجر اسود کو بوسہ دینے کیلئے زبردست ہجوم تھا۔ وہاں ایک سپاہی کھڑا تھا جب کوئی زائر بوسہ لینے کے لئے اس کونے پر منہ رکھتا تو وہ اس کے سر کو دباتا کہ اس کا منہ اندر جائے اور وہ حجر اسود کا بوسہ لے لے۔ متعدد لوگ غلاف کعبہ کو پکڑے اور اس میں اپنا منہ چھپائے کھڑے تھے۔ ممکن ہے وہ رو رہے ہوں یا وفور عقیدت سے کچھ دعائیں پڑھ رہے ہوں۔ اکثر زائرین کے ہاتھ میں عربی میں لکھی ہوئی دعاؤں کی کتابیں تھیں۔ وہ طواف کرتے ہوئے ان کو پڑھ رہے تھے بعض لوگ اپنی ٹولیاں بنائے ہوئے تھے۔ ان میں ایک دعا کتاب سے بآواز بلند پڑھتا اور دوسرے اس کو دہراتے۔

بہت سے طواف کرنے والوں نے پیشہ ور طواف کروانے والوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ایسے خادمان مکہ ان کی از بر دعاؤں کو بہ آواز بلند پڑھتے۔ اور ان کے پیچھے طواف کرنے والے ان کو دہراتے۔ سات مرتبہ خانہ کعبہ کے چکر لگانے کے بعد طواف ختم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو پیسے مقرر ہوتے ہیں وہ خادم کعبہ کو دینا پڑتا ہے۔ ہم نے دیکھا ایک پیشہ ور خادم کسی ہندوستانی زائر پر بگڑ رہا تھا۔ اور کچھ عربی الفاظ کے ساتھ ہندی بھی کہہ رہا تھا۔ وہ ہندوستانی جس پر ڈانٹ پڑ رہی تھی دبی زبان میں اردو میں کچھ کہہ رہا تھا کہ ’’ میں نے ۵ ریال دینے کا وعدہ کیا تھا وہ دینے کو تیار ہوں ‘‘ ہم کو بھی بعض پیشہ ور خادمان  نے طواف کرانا چاہا لیکن ہم نے معذرت چاہ لی۔ ایک مرتبہ ہم نے دیکھا کہ دس بارہ سال کا لڑکا کئی زائرین کو طواف کرا رہا ہے۔ ہر طواف کی دعائیں وہ بہ آواز بلند پڑھتا اور اس کے پیچھے آنے والے زائر اس کو دہراتے۔ کعبہ سے قریب ہی چاہ زم زم ہے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف مرد جا سکتے ہیں اور دوسری طرف عورتیں۔ مردوں کے حصہ میں ایک جگہ پتھر کے سوراخ سے پانی گر رہا ہے۔ وہاں زائرین ہاتھوں میں یا کسی اور برتن میں پانی لے کر پی رہے ہیں۔ ساتھ لے جا رہے ہیں۔ اور اس پانی کو اپنے سر اور جسم پر ڈال رہے ہیں۔ اس پتھر کے سوراخ سے کچھ نیچے متعدد نل لگے ہیں۔ ان کے ذریعہ بھی آب زم زم آ رہا ہے۔ وہاں زائرین کا کافی ہجوم رہتا ہے۔ کچھ لوگ وضو کرتے ہیں کچھ نہاتے ہیں۔ اور کچھ اس پانی کو ڈبوں میں بھر بھر کر لے جاتے ہیں۔ ہم یہ لکھنا بھول گئے کہ اکثر زائر باب کعبہ کی چوکھٹ پکڑ کر اس پر سر رکھے کھڑے ہیں۔ وہ کچھ پڑھ رہے تھے رو رہے تھے یا یوں ہی کھڑے تھے معلوم نہ ہو سکا۔

صفا و مروہ کے درمیانی حصہ پر چھت ڈال دی گئی ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی دو پہاڑیوں کے درمیان ہر زائر سات مرتبہ جاتا اور آتا ہے۔ ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک جانا اور آنا ایک بار شمار کیا جاتا ہے۔ جن حصوں کے درمیان ذرا تیز چلنا یا دوڑنا چاہئے وہاں سبز روشنی لگی ہوئی ہے۔ بہت کمزور اور ضعیف لوگوں کو کرسی پر بٹھا کر سات چکر لگوائے جاتے ہیں۔ اسی طرح تختہ پرجس کے اطراف کٹگر لگی ہوئی ہوتی ہے کمزور اور ضعیف لوگوں کو بٹھا کر طواف کعبہ کرایا جاتا ہے۔ صفا و مروہ کے درمیان کرسیاں جن کو پہیے لگے ہیں فرش پر دوڑائی جاتی ہیں۔ راستہ جو دو رخی ہے یہ پیدل چلنے کے راستے سے الگ اور بالکل بیچوں بیچ بنا دیا گیا ہے۔ اس دو رخی راستے کے درمیان اور دونوں طرف کٹگر بنا دی گئی ہے۔ تاکہ پیدل سعی کرنے والا اس کرسی کے راستہ میں نہ آ سکے اسی طرح کرسی کہیں دوڑتی ہوئی دوسرے رخ پر یا پھر پیدل چلنے کے راستہ میں نہ گھس جائے۔ کعبہ کے اطراف سواری سے طواف کروانے کیلئے کوئی حصہ الگ نہیں بنایا گیا ہے اس وجہ سے کمزور معذور زائرین کو پیشہ ور لوگ ڈولے جیسے تختوں پر بٹھا کر طواف کراتے ہیں۔

عام طور پر معلوم ہوا کہ جمعرات و جمعہ کو غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے۔ ۲ اور ۳/ ستمبر کی درمیانی رات میں حرم کا پورا حصہ بھرا پرا تھا۔ بلکہ باہر بھی لوگ اپنا اپنا سامان لئے سیکڑوں کی تعداد میں بیٹھے اور لیٹے ہوئے تھے۔ بعد نماز عشاء عورتوں کو بھی طواف کرنے کی اجازت دی گئی۔ ہم جب خانہ کعبہ سے واپس آنے لگے تو راستہ بھٹک گئے۔ چونکہ باب ملک عبد العزیز کا نام یاد رکھا تھا۔ وہ پوچھ پاچھ کر آ گئے لیکن کافی چکر کے بعد۔ اسی دوران ہماری بیوی کی کچھ ہندوستانی عورتوں سے ملاقات ہو گئی وہ بھی باب ملک عبد العزیز پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کی نگرانی میں اپنا سامان رکھ کر میں بیوی کو طواف کرانے اندر لے گیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ دعاؤں کی کتاب رکھ لی تھی۔ اس وقت طواف کرنے والوں کا ہجوم بہت ہو گیا تھا۔ میں نے ان کے سات طواف خانہ کعبہ سے ذرا پرے رہ کر کروائے۔ جتنا خانہ کعبہ سے قریب جائے اتنا ہی دھکم دھکا ہوتا ہے بیوی حجر اسود کا بوسہ بھی لینا چاہتی تھی۔ اس لئے میں ان کو ساتویں طواف میں خانہ کعبہ سے ذرا قریب کرنے لگا۔ لیکن جب حجر اسود کا کونہ آیا تو باوجود کوشش کے ہم اس کے قریب نہیں پہونچ رہے تھے۔ میں نے اس سپاہی کو جو حجر اسود کے قریب انتظام زائرین کے لئے کھڑا تھا ہاتھ سے بلا کر بیوی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ حجر اسود کا بوسہ لینا چاہتی ہیں اس نے از راہ کرم مرد زائرین کو ایک طرف روک کر بیوی کو حجر اسود کے خانے میں منہ ڈالنے کا موقع دیا اگر وہ اتنی مدد نہیں کرتا تو بیوی کا وہاں تک پہونچنا مشکل تھا۔ آدھی رات میں یا پھر تہجد کے وقت مجمع کم ہو جاتا ہے۔ شاید وہ اس وقت وہاں تک پہونچ سکیں۔ اس کے بعد بیوی کو صفا و مروہ کی طرف لے گیا اور دو چکر تک ان کا ساتھ دیا اور بتا دیا کہ بال کہاں کاٹے جاتے ہیں۔ چونکہ ہندوستان عورتوں نے ہم کو جلد آنے کے لئے کہا تھا میں بیوی کو چھوڑ کر اپنے سامان کی طرف چلا گیا۔ پھر بھی عورتوں نے شکایت کی کہ میں بہت دیر سے آیا ہوں۔ لیکن انھوں نے اپنے توشے سے دہی بڑے دئے میرے کھانا کھا لینے پر گرم گرم چائے جو تھرماس میں تھی بعد کو اپنا سامان اور ایک بچے کو جو سو گیا تھا ہماری نگرانی میں رکھ کر کھانا کھا لینے پر گرم گرم چائے جو تھرماس میں تھی دی بعد کو اپنا سامان اور ایک بچے جو سو گیا تھا ہماری نگرانی میں رکھ کر کچھ خرید و فروخت کے لئے بازار کو چلی گئیں۔ بیوی بہت سے دیر سے آئیں صفا و مروہ کی سعی کر کے وہ پھر کعبۃ اللہ کی طرف گئیں اور پھر اطمینان قلب سے طواف کے ساتھ دعائیں پڑھیں۔ لیکن ان کو آب زم زم کا پتہ نہیں چل سکا وہ میں نے ان کو دوسرے دن بتا دیا۔

کعبہ کے اطراف حرم میں جو عمارت بنائی گئی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہزار ہا زائرین کو بیٹھنے۔ نماز پڑھنے اور خالی اوقات میں لینے اور سونے کی جگہ ہے۔ بالخصوص گرما کے زمانے میں حرم کا سایہ زائرین کیلئے نعمت ہے۔ اس کی چھت کافی اونچی اور فرش صاف و شفاف ہے۔ سنگ مر مر کا بہت استعمال ہوا ہے۔ خانہ کعبہ سے قریب کے حصہ میں چھت سے بجلی کے پنکھے بھی لگے ہیں۔ دروازوں سے قریب والے حصہ میں پنکھے نہیں ہیں۔ حرم اور اطراف حرم کے حصہ کی صفائی بھی بہت ہوتی ہے۔ روزانہ فرش حرم صاف کیا جاتا ہے اور دھویا جاتا ہے۔ اس کی صفائی کے لئے مشین بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ حرم اور اس کے اطراف کے حصہ کو نہ صرف خوب صاف کیا جاتا ہے بلکہ جراثیم کش دواؤں کا چھڑکاؤ بھی ہوتا ہے ایک چیز جو قابل اصلاح ہے وہ پاخانے اور ان کی صفائی ہے ان کی تعداد انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کی صفائی کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں کی جاتی ہے باب ملک عبدالعزیز کی طرف جو پاخانے ہیں وہ حرم سے کافی فاصلہ پر ہیں۔ یعنی احاطہ حرم سے ہٹ کر ایک چوڑی سڑک سے گزر کر وہاں جانا پڑتا ہے۔ جیسا کہ ہر جگہ ہوتا ہے یہ عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ ہیں۔ مردوں کے لئے اس حصہ میں کل دس پاخانے ہیں یعنی وقت واحد میں کل دس مرد ضرورت سے فارغ ہو سکتے ہیں اس طرح کل چار بڑے دروازوں کے پاخانوں کی کل تعداد  مردوں کے لئے چالیس پچاس اور شاید اتنی ہی تعداد عورتوں کے لئے بھی ہو۔ یہ تعداد زائرین کے ہجوم کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی تعداد موجودہ تعداد سے پچاس گنا زیادہ ہونی چاہئے۔ اگر جگہ کی تنگی ہو تو پاخانہ کی عمارت کئی منزلہ بنائی جا سکتی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ ایک ایک پاخانہ پر پانچ پانچ ، چھ ، چھ آدمیوں کی کیو لگی ہوتی ہے۔ عمارت کے اندر ضرورت مندوں کا اژدہام الگ ہے۔ کسی کو چین سے ضرورت سے فارغ ہونے کا موقعہ نہیں۔ باہر کھڑے ہوئے لوگ دروازہ پر دستک دیتے ہیں بلکہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھے ہوئے آدمی کو جلدی نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاخانوں کے باہر کا حصہ پانی اور جوتوں کی مٹی وغیرہ سے غلاظت کا مخزن بن گیا ہے۔ وضو کرنے کیلئے جہاں نل لگے ہیں وہ بھی تعداد میں انتہائی کم ہیں۔ لوگ وہیں بیٹھ کر پیشاب بھی کر رہے تھے۔ اور وضو بھی۔ ہم دو مرتبہ پیشاب کرنے کے لئے اس بیت الخلاء کی طرف گئے۔ کیونکہ کسی اور طرف ضرورت سے فارغ ہونے کی جگہ نہیں تھی۔ بیوی بھی دو مرتبہ زنانہ حصہ کی طرف گئیں۔ رات میں تو بیوی نے کہا زنانہ بیت الخلاء ٹھیک تھا لیکن جب صبح گئیں تو کہتی تھیں کہ غلاظت کی انتہا تھی۔ راستے میں بول و براز تھا۔ بچوں کو وہیں بٹھایا اور ضرورت سے فارغ کرایا جا رہا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرف سعودی حکومت کو متوجہ کیا جانا چاہئے۔ پیسے کی وہاں کمی نہیں ہے۔ وہ اس طرف توجہ کر کے بہت آسانی سے اس بڑی ضرورت کو پورا کر سکتی ہے۔

سعودی عرب کے وقت اور مکہ مکرمہ کے مقامی وقت میں بہت فرق ہے۔ جب ہم نے ایک پولیس کے سپاہی سے پوچھا کہ جمعہ کی نماز کب ہو گی تو اس نے کہا کہ چھ بجے۔ یہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مکہ و مدینہ کے اوقات ، سعودی عرب کے اوقات سے مختلف ہیں۔ یہاں طلوع آفتاب کے وقت صبح کا ایک بجتا ہے۔

ہمارا خیال تھا نماز جمعہ کے بعد جدہ کے لئے روانہ ہو جائیں۔ لیکن دھوپ کی اتنی شدت تھی کہ دو تین گھنٹے حرم ہی میں ٹھیرے رہے۔ اس دوران میں بیوی کئی مرتبہ کعبہ کی طرف گئیں اور ایک وقت آب زم زم بھی لائیں۔ معلوم ہوا کہ اس وقت آب زم زم کو بند کر دیا گیا تھا۔ اور نلوں میں پانی نہیں آ رہا تھا۔ لیکن وہاں کئی عورتیں جمع ہو گئی تھیں۔ ان کے ساتھ کئی چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ پانی کی انھیں شدید ضرورت تھی۔ انھوں نے پانی کھولنے کیلئے اصرار بلکہ چیخ و پکار بھی کی۔ یہ صوت حال دیکھ کر منتظمین کعبہ نے زم زم کا پانی چھوڑ دیا۔ اس طرح عورتوں اور مردوں نے پانی لیا۔ اکثر زائرین پانی لے کر وہیں نل کے نیچے نہاتے ہیں۔ اس سے کافی پانی ضائع ہوتا ہے۔

واپسی میں ہم کو جدہ کے لئے بس یا ٹیکسی لینے میں دقت ہوئی۔ اس میں عدم واقفیت پر زبان بھی وجہ تاخیر ہوئی۔ نہ ہم عربوں کی بات سمجھے اور نہ عرب ہماری لیکن ایک صاحب جو بظاہر مکمل عرب معلوم ہو رہے تھے (سوائے لباس کے ) شستہ اردو میں صحیح رہنمائی کی۔ اور وہاں جاتے ہی ہم کو ٹیکسی تیار مل گئی۔ اس نے فی کس پانچ پانچ ریال لئے۔ اس ٹیکسی میں کل آٹھ مسافر بیٹھے اس طرح اس کو غالباً کل چالیس ریال ملے۔

سعودی عرب میں کوئی بیرونی شخص کسی قسم کی تجارت نہیں کر سکتا۔ اگر اس کو تجارت کرنا ہو تو سعودی عرب ہی کے نام سے کر سکتا ہے۔ اس طرح ہمیشہ سعودی عرب کا درجہ بھاری رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عرب بہت مالدار ہو گئے ہیں۔ اگر باہر کے لوگ کچھ کام یا گتہ بھی لیتے ہیں تو سعودی عرب یا عربوں کے نام سے لیتے ہیں۔ باہر کے بہت سے لوگ بالخصوص پاکستانی اور ہندوستانی یہاں کام کر رہے ہیں۔ لیکن وہ سب کسی نہ کسی عرب کی ملازمت میں ہیں۔ جب کوئی عرب کسی غیر ملکی کو اپنے ہاں کام کے لئے منتخب کر لیتا ہے تو وہ اس کا نام و پتہ بتا کر حکومت میں رجوع ہوتا ہے کہ اس کو اقامہ (یعنی قیام کی اجازت ) ملے ایسے منتخبہ شخص کا قیام کسی دوسرے ملک میں بتانا پڑتا ہے۔ گو اکثر اس کا قیام اس وقت سعودی عرب ہی میں ہوتا ہے۔ اگر اس کی موجودگی سعودی عرب میں بتائی جائے تو اقامہ حاصل کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ایسے منتخب شخص کی اقامت ( پہلے بیروت بتائی جاتی تھی) بحرین۔ دوہا۔ اور دوبئی وغیرہ بتائی جاتی ہے۔ اور حکومت سعودیہ کی طرف سے اس ملک کی اپنی سفارت کے نام اس شخص کو اقامہ کی اجازت دینے کے لئے احکام جاری کر دئے جاتے ہیں۔ اور عرب آجر پھر اس شخص کو آنے جانے کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ دلا کر اس مقام پر بھیجتا ہے کہ وہ سعودی عرب سفارت میں پہونچ کر باضابطہ اجازت لیکر سعودی عرب میں داخل ہو۔ اس طرح وہ ایک مرتبہ سعودی عرب میں جب داخل ہو جاتا ہے تو نوکر رکھنے والا عرب جس کو کفیل کہا جاتا ہے۔ ہر سال اس کے اقامہ میں توسیع کراتا رہتا ہے غیر ملکی ملازم کو ایک نوکری چھوڑ کر دوسری بہتر نوکری حاصل کرنا آسان نہیں۔ کیونکہ نوکری اگر مل بھی جائے تو اپنے پہلے کفیل سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہے۔ جب تک پہلا مالک پروانہ نجات نہ دے دوسرا عرب اسے غیر ملکی ملازم کو نوکر نہیں رکھ سکتا۔ اگر وہ نوکر رکھ بھی لے اور اس کے اقامہ کی کسی ترکیب سے اجازت حاصل بھی کر لے تو خطرہ ایسے ملازم کے سر سے ٹل نہیں جاتا اگر پہلے کفیل کو معلوم ہو جائے کہ اس کا ملازم کسی اور کے پاس کام کر رہا ہے تو وہ حکومت میں رجوع ہو کر اور شکایت کر کے اس کو ملک سے خارج کرنے کا حکم بہت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ اس لئے ایک مرتبہ کسی عرب کی کفالت میں کوئی غیر ملکی آ جائے تو وہ ہمیشہ اس کی گرفت میں اور اس کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔ اس طرح کم تنخواہ پر غیر ملکیوں سے آجر زیادہ سے زیادہ کام لیتے ہیں۔

یہاں شادی بیاہ کا معاملہ ہندوستان وپاکستان کے مقابلہ میں بالکل الٹا ہے۔ یہاں لڑکی عرب ماں باپ کے لئے باعث سرمایہ ہوتی ہے۔ شادی کرنے والے مرد کے لئے جو بھی مہر مقرر ہو نقد اور بوقت نکاح لڑکی کے باپ یا اس کے ولی کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ لڑکی کی صورت و شکل و عمر پر مہر کا تعین ہوتا ہے۔ اگر لڑکی خوبصورت اور کم عمر ہو تو مہر کا مطالبہ زیادہ ہوتا ہے۔ لڑکے کو شادی کے اخراجات خود ہی محنت کر کے جمع کرنے پڑتے ہیں۔ اس میں اس کے ماں باپ کا دخل کم ہوتا ہے۔ اکثر صورتوں میں لڑکے کو شادی سے پہلے اپنا مکان حاصل وآراستہ کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح لڑکوں کو شادی کرنے میں دیر بھی ہو جاتی ہے۔ بعض عرب لڑکے مصر یا ایسے علاقہ کی لڑکیاں بیاہ کے لاتے ہیں جہاں ان کو مہر زیادہ نہیں دینا پڑتا۔ جیسے ہندوستان میں جہیز اور گھوڑے جوڑے کی رقم کے لالچ میں لڑکے بکتے ہیں اس طرح یہاں لڑکیاں بعنوان مہر بکتی ہیں۔ چونکہ بظاہر یہاں لڑکوں اور لڑکیوں میں میل ملاپ بہت کم ہے۔ ۹۹ فیصد شادیاں لڑکی کے سرپرست اور لڑکے سے طے شدہ معاہدہ کے تحت ہوتی ہیں۔

یہاں عورتیں موٹر نہیں چلا سکتی ہیں۔ اور نہ موٹر سیکل کے پیچھے بیٹھ سکتی ہیں اس طرح شہر میں چلنے والی بسوں میں وہ سفر نہیں کر سکتیں اور ان کو کہیں جانے کے لئے ٹیکسی موٹر ہی لینی پڑتی ہے۔ البتہ دور دراز مقامات جانے والی بسوں میں عورتیں سفر کر سکتی ہیں۔

یہاں کی ٹیکسیاں اکثر پیلے رنگ کی ہیں لیکن بعض دوسرے رنگ کی بھی ہیں۔ ان پر صرف ٹیکسی لکھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں پرائیویٹ (خانگی) اور تجارتی اور دوسری گاڑیوں کا رجسٹریشن اور تجدید ہوتی ہے۔ لیکن کسی قسم کا کوئی ٹیکس موٹروں اور موٹر سیکلوں وغیرہ پر نہیں لیا جاتا ہے۔ یہاں ٹیکسی میں صرف ٹورسٹ موٹریں ہیں کوئی آٹو رکشا نہیں ہے۔ بازار میں کسی قسم کی جانور وغیرہ سے کھینچی جانے والی سواریاں دکھائی نہیں دیں۔ ٹرکس اور ہر قسم کی موٹریں جدھر آپ چاہیں دکھائی دیں گی۔ یہاں کی ہوٹلیں گرانی میں امریکہ کی ہوٹلوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ لیکن صفائی اور خدمت میں بہت پیچھے ہیں چھوٹے چھوٹے ایرکنڈیشنڈ کمروں کا کرایہ ساٹھ ستر ریال فی یوم ہے ہمارے حساب سے ایک سو پچیس اور ایک سو پچاس روپئے فی یوم۔

جدہ کی صفائی بھی کچھ ٹھیک نہیں۔ جا بجا کچرا پڑا ہے۔ ہر علاقے میں کچھ حصہ ایسے ہیں۔ جہاں آپ جس جگہ بھی چاہیں کوڑا کرکٹ ڈال سکتے ہیں۔ سڑک اور گھر کے ارد گرد بھی کچرا ڈال دیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مدینہ روڈ اور مکہ روڈ پر اچھی اچھی سڑکیں اور مکانات بن رہے ہیں وہاں بھی دیکھنے میں آیا کہ کچرا جا بجا پڑا ہے۔ ہم نے ایک دن دوپہر کے وقت کچھ لوگوں کو صفائی کرتے ہوئے اور ایک جگہ ٹرک میں کچرا اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں کی صفائی کا کوئی منظم انتظام نہیں ہے۔ مدینہ روڈ کی طرف ایک بہت بڑی ڈرینج پائپ ڈالی جا رہی ہے۔

 

مدینہ منورہ۔ سعودی عرب

پیر۔ ۶/ ستمبر ۱۹۷۶ء

بوقت ۱۰ ساعت دن (سعودی وقت) کل ہم اپنے میزبان کے مکان سے نو سوا نو بجے صبح نکلے۔ تھوڑی ہی دیر میں مقامی ٹیکسی مل گئی۔ ڈرائیور نے موقف کے لئے ۵ ریال مانگے اور ہم ٹیکسی میں بیٹھ گئے جب ہم موقف پر اترے تو مکہ و مدینہ جانے والے ٹیکسی راں ہمارے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہم کو مدینہ جانا ہے۔ ایک نے ایک ٹیکسی کی طرف اشارہ کیا۔ اور ہم نے پوچھا کہ کیا لو گے۔ اس نے جواب دیا فی کس پچاس ریال۔ ہم راضی نہیں ہوئے اس کے بعد  اس نے ۴۵ ریال اور بعد میں ۴۰ ریال کہے۔ لیکن ہم رکے رہے۔ ایک پاسنجر لاری والا آیا اور کرایہ پوچھا تو ۲۰ ریال کہا۔ ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے۔ ایک عرب بھی اس میں بیٹھ گیا۔ لیکن گھنٹہ بھر بیٹھنے کے باوجود اس کے نکلنے کے کوئی آثار نہ تھے۔ گرمی بھی بہت ہو رہی تھی۔ ہم تینوں لاری سے اتر کر سائے میں کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں ایک ویان مدینہ جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔ اس کو دو تین پاسنجر مل گئے۔ ہم سے بھی اس کے ڈرائیور نے خواہش کی کہ ویان میں بیٹھ جائیں۔ وہ ۳۵ ریال مانگ رہا تھا ہم صرف ۳۰ ریال فی کس دینے تیار تھے۔ بہرحال وہ تیار ہو گیا۔ چھ سات مسافرین کے پاسپورٹ لے کر وہ وہاں کے متعینہ پولیس آفیسر کے پاس گیا۔ اور وہاں سے نام وغیرہ درج کرا کر کے اور اجازت کا پرچہ لے کر ویان کے پاس آیا۔ اس کے بعد اس کو ایک اور پاسنجر ملا پھر ویان جدہ سے مدینہ کی طرف نکل پڑی۔ بیس بچیس کلومیٹر جانے کے بعد ایک چوکی پر اس کو اپنے ویان کی تنقیح کرانی پڑی۔ معلوم ہوتا ہے کہ جدہ سے لئے ہوئے پرچے میں درج شدہ ناموں میں اور موجودہ پاسنجروں میں کچھ فرق تھا۔ عسکری (پولیس کا جوان ) اور ڈرائیور میں کچھ گفتگو ہونے لگی۔ عسکری غصہ میں آ رہا تھا اور ڈرائیور التجا کر رہا تھا۔ دو تین عرب پاسنجروں نے بھی رمضان ، رمضان کہا۔ مطلب یہ تھا کہ پولیس کا جوان بوجہ رمضان المبارک سختی نہ کرے بلکہ درگزر سے کام لے۔ لیکن پولیس کا جوان سوئچ کی کنجی لے کر چوکی کی عمارت میں چلا گیا۔ پیچھے ڈرائیور بھی گیا۔ کچھ دیر بعد وہ کنجی لے کر واپس آیا اور ہماری ویان پھر مدینہ کی طرف چلنے لگی۔ جدہ سے پچاس ، ساٹھ کیلو میٹر تک سڑک دو رویہ ہے۔ یعنی آنے جانے والی گاڑیوں کے لئے سڑکیں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اور ان کے درمیان سات ، آٹھ فیٹ کا حصہ ویسے کچا ہی چھوڑ دیا گیا لیکن اس کے بعد سڑک ایک ہی ہے۔ البتہ بیچ میں صرف سفید پٹیاں سڑک کے بیچوں بیچ پینٹ کر دی گئی ہے۔ جدہ سے مدینہ تک سڑک بہت ہی عمدہ ہے۔ کہیں کسی قسم کی اونچ نیچ نہیں دکھائی دی۔ یہاں کی موٹروں کی حالت بھی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ موٹریں کافی تیز چلائی جاتی ہیں ہر دس بارہ کیلو میٹر کے فاصلے پر ایک نہ ایک موٹر ٹوٹی پڑی ہوئی دکھائی دی۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بڑے حادثوں سے دوچار ہوئی ہیں۔ جب موٹروں کا یہ حال ہے تو اس میں بیٹھنے والوں کا کیا حشر ہوا ہو گا۔ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ راستہ کا بڑا حصہ ریگستان ہے لیکن اکثر جگہ ببول کے پودے دکھائی دئے۔ یہاں کے پودے کچھ بڑے اور ہرے بھی ہیں۔ جب ہم دمشق سے بغداد گئے تھے اس وقت دیکھا تھا کہ وہاں کے پودے سوکھے اور چھوٹے تھے۔ بعض جگہ ببول کے درخت اونچے بھی دکھائی دئے۔ جہاں جہاں پانی ہے وہیں قریب قریب میں دو تین آبادیاں دکھائی دیں۔ راستے میں چار پانچ بڑے مقامات بھی دکھائی دئے۔ کئی جگہ رسٹورنٹ تھے لیکن بوجہ رمضان بند پڑے تھے۔ تقریباً نصف راستے میں ایک رسٹورنٹ میں ڈرائیور نے اپنی گاڑی کچھ دیر آرام کرنے اور نماز ظہر کے لئے روکی۔ یہاں تقریباً ۴۵ ، ۵۰ منٹ گاڑی رکی رہی۔ لیکن یہاں کھانے پینے کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ راستے کے رسٹورنٹ ایک طرح کے شیڈ ہیں جو دو تین طرف سے کھلتے ہیں۔ بیچ میں بینچ اور کچھ میزیں اور اکثر جگہ اونچی اونچی بان اور کھجور کی پتیوں سے بنی ہوئی رسیوں کی چارپائیاں ہیں ان کے لمبے حصہ پر ایک طرف ٹیکا دینے کے لئے لکڑی کی کچھ پٹیاں لگی ہیں۔ یہ اونچی چار پائیاں ایسی ہیں کہ آپ چاہیں تو اس پر دراز ہو جائیں یا پاؤں لٹکا کر اور پیٹھ کو سہارا دے کر بیٹھے رہیں۔

جب مدینہ ۲۰۰ کیلو میٹر رہ گیا تو ڈرائیور نے ایک پٹرول پمپ سے پٹرول لیا اور کئی مسافرین نے سامنے کی دوکان پر جا کر ٹھنڈا وغیرہ پیا۔ اکثر نے انناس کے ڈبے (جو ریفریجریٹر میں رکھے ہوئے تھے ) کھلوا کھلوا کر کھائے اور ان کا شربت پیا۔ ویان کے آٹھ مسافروں میں صرف ایک مسافر روزہ دار تھا۔ غالباً ڈرائیور بھی روزہ دار تھا۔ اس لئے کہ اس نے بھی کچھ کھایا پیا نہیں۔ کئی جگہ دیکھنے میں آیا کہ پہلے کچھ آبادیاں تھیں لیکن اب اجڑ گئی ہیں جب مدینہ سو سوا سو کیلو میٹر رہ جاتا ہے تو سڑک متواتر پہاڑیوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ ایسی وادیوں میں ببول کے درخت ذرا بڑے اور ہرے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن پہاڑ پر پہلے تو کہیں پودے نہیں ہیں۔ اور اگر کچھ ہیں تو سب سوکھے ہوئے۔ کہیں کہیں کھجور کے درختوں کے جھنڈ بھی دکھائی دئے۔ لیکن کچھ بڑی تعداد میں نہیں۔ جب ہم بغداد سے کربلا معلیٰ وغیرہ گئے تھے تو ہم کو کھجور کے درخت زیادہ دکھائی دئے تھے۔

راستہ میں گرمی شدت کی محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن جب مدینہ قریب آنے لگا اس وقت گرمی میں قدرے کمی معلوم ہوئی۔ جب ہم ٹیکسی سے حرم کے قریب اترے تو عصر کی اذان ہوئی اور ہمارے وہاں پہونچتے پہونچتے عصر کی نماز ختم ہو گئی۔ وضو وغیرہ کر کے اور نماز عصر پڑھ کر ہم نے مسجد نبوی میں آنحضرتﷺ کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ اکثر زائرین درگاہ کی جالی کا بوسہ لینا چاہتے تھے۔ وہاں کے متعینہ جوان اس سے ان کو روکھے تھے۔ فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے لیکن جالی کا بوسہ لینے اور وہاں سجدہ کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ یہاں کئی لوگ روزہ داروں کو افطار کراتے ہیں۔ افطار میں کھجور ، نان اور ایک قسم کی بکنی ہوتی ہے جس کو روٹی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی چھوٹی چھوٹی صراحیوں میں دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ انگور کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ میں نے آنحضرت کے روضہ کے قریب جو دروازہ ہے اس کے باہر دیکھا کہ افطار کا اہتمام بہت اچھا کیا گیا ہے۔ کھجور ، روٹی کچھ کھارے کے علاوہ سادہ انگور اور کالے انگور کا شربت جس میں برف ڈالا گیا تھا۔ رکھا ہوا تھا۔ انتظام کرنے والا کوئی  افغانی معلوم ہو رہا تھا۔ کپڑے اسکے معمولی اور میلے تھے۔ افطار کے قریب میں نے دیکھا متعدد افغانی روزہ دار اس افطاری کے قریب بیٹھ گئے تھے۔ اس نے بیس پچیس آدمیوں کا اچھا انتظام کیا تھا۔ اسی طرح مقامی عرب اندرون مسجد نبوی ہزاروں روزہ داروں کے افطار کا انتظام کرتے ہیں۔

 یہاں ہر نماز میں مسجد بھر جاتی ہے اذان کے ساتھ ہی لوگ جوق در جوق مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ چھوٹی بڑی دوکانوں پر پردہ لگا دیا جاتا ہے۔ یا شٹرس نیچا کر کے قفل ڈال دیا جاتا ہے۔ جدہ کے مقابلے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لوگ نماز کے زیادہ پابند دکھائی دئے۔ مدینہ میں نماز کے وقت سوائے ایک دو کے سب ہی نماز میں مشغول دکھائی دئے۔

مسجد نبویﷺ کے جانب مغرب زائرین کے ٹھیرنے کے لئے اچھے سائبان بنائے گئے ہیں۔ ہر سائبان۔  ۱۲x ۳۰ فیٹ ہو گا۔ اس کے اوپر ہلکے مٹل کا چھت ہے اس کو سفیدے سے رنگ دیا گیا ہے تا کہ گرمی کی شدت نیچے محسوس نہ ہو۔ چھت سپاٹ نہیں بلکہ گنبد نما ہے۔ ہر سائبان میں x۳۰ ۵ فیٹ کی ۱۴، ۱۴ گنبد نما چھتیں اور بعض میں ایسی ۲۰ ، ۲۰ چھتیں بنی ہوئی ہیں۔ آسانی سے ان سائبانوں میں کل ۲۰ ، ۲۵ ہزار آدمی سما سکتے ہیں۔ ان سائبانوں کے چاروں طرف کھلا ہے اور ان میں اکثر کو ۱۴ ، ۱۴ کھمبوں پر تھما دیا گیا ہے۔ ایک سائبان سے دوسرے سائبان کے درمیان تقریباً ۸ فیٹ کا حصہ کھلا چھوڑدیا گیا ہے۔ اس طرح اس میدان کے بیچوں بیچ کافی بڑا حصہ کھلا رکھا گیا ہے۔ اس طرح یہ سائبان کافی روشن اور ہوادار ہیں۔ زائرین دن رات یہاں رہتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔ پولیس کا انتظام بھی کافی ہے۔ آج ہم نے دیکھا کہ پولیس والے آٹھ نو بجے صبح یہاں ٹھیرے ہوئے لوگوں کو ہٹا رہے تھے۔ لیکن بہت کم لوگ یہاں سے ہٹے۔ ہٹ کر جائیں گے کہاں۔ ہوٹلوں کا قیام متوسط طبقہ کے زائر کے حیطہ اختیار سے باہر ہے۔ یہاں کے چھوٹے سے چھوٹے ہوٹل میں فی بستر کم از کم ۲۰ ریال فی یوم کرایہ دینا پڑتا ہے۔ بڑے ہوٹلوں کے کرائے اور زیادہ ہیں۔ ۲۰ ریال کے ہندوستان کے تقریباً پچاس روپئے ہو جاتے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بناء پر زائرین کو یہیں رہنا پڑتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ سائبان حال ہی میں بنائے گئے ہیں۔

احاطہ حرم سے باہر کچھ نل لگے ہیں ان سے خاص اوقات میں پانی آتا ہے۔ لیکن یہ نل ضرورت سے بہت کم ہیں۔ افطار کے قریب ٹرکس میں پانی لا کر ضرورت مندوں کو دیا جاتا ہے۔

یہاں کے پاخانوں کا حال مکہ مکرمہ سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ان سے قریب جو نل ہیں وہ سب بند پڑے ہیں۔ پاخانے جو پندرہ ، بیس ہزار زائرین کے لئے صرف پندرہ بیس ہیں بالکل اٹے پڑے ہیں۔ ان میں کوئی چاہے بھی تو نہیں جا سکتا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ پرانی عمارتوں کے درمیان (جو گرائی جا رہی ہیں ) ادھر ادھر ضرورت سے فارغ ہو رہے تھے یا پریشان پھر رہے تھے۔ مجھے تعجب ہے کہ جہاں صفائی کا سب سے زیادہ انتظام ہونا چاہئے وہیں زبردست غفلت برتی جا رہی ہے۔

یہاں بھی دن میں کھانے پینے کی سب دوکانیں بند پڑی ہیں۔ اگر اتفاق سے بچے یا کسی بیمار کے لئے کوئی کھانے پینے کی چیز خریدنا چاہیں تو نہیں مل سکے گی۔ البتہ مغرب سے دو یا تین گھنٹے قبل دوکانیں کھل جاتی ہیں۔ لوگ روٹی یا اور چیزیں خریدتے ہیں۔ لیکن کوئی افطار سے قبل کھاتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔

مدینہ منورہ۔ سعودی عرب

منگل۔ ۷/ ستمبر ۱۹۷۶ء مکہ مکرمہ میں عمرہ کے لئے اور مدینہ میں زیارت کے لئے کئی ممالک سے آئے ہوئے مسلمان دکھائی دئے پاکستان کے زیادہ اور ہندوستان کے کم نظر آئے۔ یہاں کالے لوگ بھی کافی آتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ یمن، سومالی لینڈ ، سوڈان ، اور حبش وغیرہ کے ہیں۔ ان میں بعض خوش پوش، اکثر معمولی لباس میں ملبوس ہیں۔ کالی عورتیں بھی کافی آئی ہوئی ہیں۔ ان کالوں میں اکثر ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔

فجر ، مغرب اور عشاء میں مسجد نبوی اتنی بھر جاتی ہے کہ نمازی باہر بھی صفیں قائم کرتے ہیں۔ سائبانوں میں بھی متعدد صفیں بنتی ہیں۔

یہاں حرم سے قریب دو پاکستانی رسٹورنٹ ہیں۔ ایک ’’پاکستانی‘‘ اور دوسری ’’نیو پاکستانی‘‘ پاکستانی ہوٹل میں جگہ کم ہے لیکن وہ ذرا صاف ستھری ہے۔ اس میں اژدہام رہتا ہے بیٹھنے کو جگہ بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ اس ہوٹل سے اکثر لوگ سالن وغیرہ خرید کر اپنے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ اس طرح لے جانے والوں میں اکثر مقامی عرب بھی دکھائی دئے۔ یہاں گاہکوں کا اتنا ہجوم رہتا ہے کہ کس نے کتنا کھایا وہ ہوٹل کے سپلائی کرنے والے ملازمین کو یاد رکھنا مشکل ہے۔ باہر نکل کر کھانے والا جو بولے اتنے ہی پیسے مالک لے لیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لوگ زیارت کی مقدس نیت سے آتے ہیں اس لئے غالباً کھانے کے پیسے دینے میں جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔

گو یہاں چوری کی سزا سخت ہے لیکن معلوم ہوا کہ چھوٹی چھوٹی چوریاں ہوتی رہتی ہیں۔ حرم سے قریب ہی ایک پاکستانی لائبریری ہے۔ وہاں ہم گئے کہ شاید برصغیر کے کچھ اخبارات ملیں۔ لیکن معلوم ہوا کہ وہاں کوئی اخبار نہیں آتا۔ وہاں ایک پاکستانی نوجوان جو غالباً لائبریری کے انچارج کا لڑکا ہے۔ دوسرے پاکستانی سے شکایت کر رہا تھا کہ اس کی لائبریری سے لوگ دو دو پیسے کی چیز اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ مسجد نبوی کے جانب مغرب جو سائبان زائرین کے لئے بنائے گئے ہیں ان میں اکثر لوگ اپنے سامان پر چادر وغیرہ اڑھا کر گھنٹوں باہر چلے جاتے ہیں۔ لیکن نقدی اور پاسپورٹ وغیرہ وہ اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ اس طرح کے سامان کے چوری جانے کی شکایت نہیں سنی۔

کل ہم جنت البقیع گئے یہ ایک قبرستان ہے جو وسیع احاطہ پر مشتمل ہے۔ یہ مسجد نبوی کے بالکل قریب جانب مشرق واقع ہے۔ اس کو چاروں طرف سے دیوار سے گھیرا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جانب جنوب کچھ حصوں کو بالکل صاف کر کے مسطح کیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کچھ بنایا جانے والا ہے۔ اس قبرستان کے باب الداخلہ پر پیشہ ور خادم رہتے ہیں۔ وہ ہر زائرسے پوچھتے ہیں کیا وہ زیارت کیلئے ان کی خدمات چاہتا ہے۔ اکثر وہ فی کس دس ریال مانگتے ہیں۔ لیکن ۵ ریال پر بھی راضی ہو جاتے ہیں۔ خادم زائر یا زائرین کو لے کر کچھ سلام اور دعائیں پڑھتا چلتا ہے۔ زائر کا کام ہے کہ وہ اس کو دھراتا رہے۔ بعض مخصوص قبروں پر جا کر وہ بتاتا ہے کہ وہ کس کی ہیں۔ اور بعض مخصوص دعائیں بھی پڑھواتا ہے۔ جنت البقیع میں اسلامی احکام کے لحاظ سے کچی قبریں ہیں۔ کئی قبریں ٹوٹ گئی ہیں۔ اب ان کے سرہانے ایک ایک کالا پتھر رکھا ہے۔

 مسجد نبوی کافی وسیع اور خوبصورت ہے۔ روشنی بھی خوب لگائی گئی ہے۔ توسیع شدہ حصہ پختہ اور خوبصورت ہے اس کے بیچ میں کافی بڑا حصہ کھلا رکھا گیا ہے۔ اس سے پرانے حصہ کو روشنی اور ہوا پہونچتی ہے۔ اس نے نئے حصہ میں کوشش کی گئی ہے کہ کبوتر وغیرہ نہ بیٹھ سکیں۔ پھر بھی وہ کہیں نہ کہیں جگہ نکالتے ہیں۔ پرانے حصہ میں کبوتر نہ بیٹھنے کے لئے خار دار تار لگا دئے گئے ہیں۔ مسجد کے چاروں طرف قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے سامنے بھی کئی آیات ہیں۔ وہاں ایک تحریر کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی اور دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ اور البتہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے رسول اور خاتم النبیین ہیں میں نے دیکھا کہ مزار کی طرف اکثر زائرین کھڑے ہوئے کچھ دعائیں پڑھ رہے ہیں۔ بعض لوگ مزار کی جال کو ہاتھ لگا کر اپنے منہ پر پھیر لیتے ہیں۔ اس پر بھی نگراں کار کچھ نہ کچھ اعتراض کرتا ہے۔ مسجد میں مصلیوں کے لئے جا بجا پنکھے لگے ہیں۔ پرانے حصہ میں اور پیش امام کے عین پیچھے اسٹانڈ کے پنکھے بھی لگے ہیں۔ مسجد میں مصلیوں کی سہولت کے لئے کافی اہتمام کیا گیا ہے۔ پیش امام کے محراب کے قریب ایک بڑا ایر کولر لگا ہے۔ اس کے علاوہ پیش امام کے محراب کے عین اوپر ٹیبل فیان لگا دیا گیا ہے۔ ان کے لئے یہ انتظام ضروری ہے کیونکہ دن میں کئی مرتبہ اس محراب میں بہت دیر تک ان کو بیٹھا رہنا پڑتا ہے۔ عصر پڑھا کر وہ مغرب تک غالباً روز ہی یہاں بیٹھے رہتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ اس وقفہ میں تلاوت قرآن کر رہے تھے۔ یہ پانچوں نمازوں کے علاوہ تراویح کی ۲۰ رکعت بھی خود ہی پڑھاتے ہیں میں نے دیکھا کہ اکثر عرب فرائض میں بہت سختی سے نماز کے پابند ہیں۔ سنت وغیرہ کا زیادہ خیال نہیں کرتے۔ تراویح کی نماز جب شروع ہوتی ہے تو اکثر عرب مسجد سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اس دوران مدینہ کے بازار بھی کھلے رہتے ہیں سب بڑی دوکانیں معلوم ہوتا ہے کہ حرم سے قریب ہی ہیں۔ ان پر ہجوم اکثر زائرین ہی کا رہتا ہے۔

یہاں کی صفائی کا انتظام حرم کے اطراف ٹھیک دکھائی دیا۔ سائبانوں کے لئے صفائی کا عملہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ دواؤں کا چھڑکاؤ بھی ہوتا رہتا ہے۔ کل جیپ میں بیرل رکھ کر کوئی جراثیم کش دھواں اڑایا جا رہا تھا۔ لیکن چونکہ یہاں پاخانہ وغیرہ نہیں ہیں۔ زائرین جا بجا بول و براز کرتے ہیں۔ اس سے پوری فضاء متعفن ہو گئی ہے اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ایسے مقامات پر پیشاب بھی کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے تعجب ہوتا ہے کہ ایسی اہم ضرورت پر اتنی کم توجہ کیسے دی جاتی ہے۔

سائبانوں میں رات بھر تیز بلب جلتے ہیں۔ دو دن سے دیکھا جا رہا ہے کہ سورج نکلنے کے گھنٹوں بعد بھی ان کو بند نہیں کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ برقی قوت بہت سستی ہے یعنی صرف دس پیسے فی یونٹ۔

گو ہم اس وقت مسجد نبوی سے متصل سائبان میں مقیم ہیں۔ لیکن پاکستانی ہوٹل کے سامنے جو ریسٹ ہاؤز ہے اس کے انچارج سے پیشاب ، پاخانے و نہانے وغیرہ کے لئے کچھ پیسے دے کر بات کر لی ہے اس سے بڑی سہولت ہو گئی ہے۔

کل ایک پٹھان صاحب جو کافی اچھی اردو بول رہے تھے ہم کو کسی مکان کا کمرہ دکھانے لے گئے۔ ۱۰  x۱۲  فیٹ کا ایک کمرہ تھا جو تقریباً ہر طرف سے بند تھا۔ البتہ اس میں پنکھا و لائٹ تھی۔ س میں پلنگ تھا نہ بستر۔ پاخانہ عام لیکن دور نہ تھا۔ ہم نے کہا کہ ہم چہار شنبہ کی صبح کو جدہ چلے جائیں گے۔ انھوں نے منگل اور چہار شنبہ کہہ کر نوے ریال کرایہ بتایا۔ ہم نے ان سے کہا کہ قریب ہی میں فندق (ہوٹل) الوفا ہے۔ وہاں ۲۴ گھنٹوں کے لئے دو افراد کا ۴۰ ریال کرایہ ہے اس میں پلنگ وبستر موجود ہے۔ اور ایرکنڈیشنر بھی لگا ہے۔ اس میں ہمارے دو دن کے قیام کے صرف ۸۰ ریال ہوتے ہیں۔ مالک یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ یہاں کرائے متعین کرنے سے پہلے کافی معلومات حاصل کر لینی چاہئے۔ بیوی کہہ رہی تھیں کہ مسجد میں ان کی ایک خاتون سے جو لندن سے اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ آئی ہوئی ہیں ملاقات ہوئی۔ معلوم ہوا کہ انھوں نے ختم ماہ تک مدینہ میں ایک کشادہ۔ صاف ستھرا اور ایرکنڈیشنڈ کمرہ کل ۴۰۰ ریال میں کرایہ سے لے رکھا ہے۔ ایسے گرم مقامات میں ایرکنڈیشنر کا لگا رہنا بہت آرام کا باعث ہے۔ پنکھے کا ہونا از بس ضروری ہے۔

پٹرومین (رام کوٹ) جدہ

جمعرات۔ ۹/ ستمبر ۱۹۷۶ء پرسوں دوپہر میں مدینہ کے سائبان میں اتنی گرمی ہو رہی تھی کہ بیوی اور میں نے یہ طے کیا کہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد نبوی ہی میں ٹھیرے رہیں۔ ہم پہلے دیکھ چکے تھے کہ سیکڑوں کی تعداد میں کیا مرد اور کیا عورتیں ( جن کا حصہ علیحدہ جانب مشرق ہے ) دوپہر میں مسجد نبوی میں ہی سوجاتے ہیں۔ اس لئے ہم لوگ ظہر سے عصر تک مسجد ہی میں رہے۔

مسجد کے سامنے کے حصہ میں جس کو معلوم ہوا کہ ترکوں نے اپنے دورِ حکومت میں بنایا تھا برقی پنکھے لگے ہیں۔ توسیع شدہ حصہ بھی کافی ہوادار اور اچھا ہے۔ سامنے کے حصہ میں زیادہ اور پچھلے حصہ میں ذرا کم لوگ دوپہر میں سوجاتے ہیں۔ ہم نے باہر کی لو اور گرمی کے مقابلے میں مسجد نبوی کے اندر کے حصہ کو بہت ٹھنڈا پایا۔ گو عصر کی نماز مدینہ منورہ کے وقت کے لحاظ سے ۹ بجے ہوتی ہے۔ لیکن آدھ گھنٹہ پہلے ہی مسجد کے جوان سوئے ہوئے افراد کو اٹھانے لگتے ہیں۔ یہاں افطار کی توپ سورج کے غروب ہوتے ہی دغتی ہے۔ اس وقت کچھ مدینہ منورہ کا وقت ٹھیک بارہ بجے ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت سعودی عرب کا وقت کچھ اور ہوتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کا وقت ایسا رکھا جاتا ہے کہ مغرب ٹھیک بارہ بجے ہوتی ہے۔

ہم مدینہ منورہ سے کل ۱۰ بجے صبح کے قریب نکلے۔ جدہ اور مکہ جانے کیلئے بس اسٹانڈ حرم سے ذرا دور ہے لیکن ان مقامات کے لئے بسیں وہیں سے نکلتی ہیں۔ اگر ہم کو بس اسٹانڈ برائے جدہ پوچھنا ہو تو ہم کو چاہئے کہ موگف (موقف) للجدہ پوچھیں۔ واپسی میں ہم کو فی کس ۲۵ ریال میں چھوٹی ویان میں جگہ مل گئی۔ جدہ سے مدینہ آتے وقت بھی ہم کو اسی قسم کی ویان میں جگہ ملی تھی۔ لیکن ڈرائیور نے ہم سے فی کس تیس ریال لئے تھے ہمارے ڈرائیور کو مدینہ کے موقف کی عسکری کی چوکی پر کافی دیر رکنا پڑا۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ نوٹس بورڈ پر ہر قسم کی موٹر اور مقام کے کرائے لکھے ہوئے ہیں۔ ہماری ویان چھوٹی موٹر کی تعریف میں آتی ہے۔ اس قسم کی موٹر میں عام لوگوں کے لئے جدہ تک کرایہ ۲۰ ریال فی کس ، زائر کے لئے ۲۵ ریال اور موسم حج میں ۳۰ ریال لکھا تھا۔ حج کے زمانے کو یہاں موسم حج کہتے ہیں۔ جب موٹر کی سواریاں مکمل ہو جاتی ہیں تو ڈرائیور پاسنجروں کے پاسپورٹ جس کو یہ لوگ جواز کہتے ہیں اور سپاسنامے متعینہ پولیس کے لے جاتا ہے اور وہاں سے پروانگی کے دو پرچے لے کر نکلتا ہے۔ ایک پرچہ مدینہ کی سرحد پر دیا جاتا ہے۔ مدینہ کی سرحد سے قریب چار پانچ اسپیڈ بریکرس بنائے گئے ہیں۔ وہاں موٹروں کی رفتار کم ہی کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے ڈرائیور نے ایک ایسے مسافر کو لے لیا تھا جس کے سپاسنامہ وغیرہ میں کچھ گڑبڑ تھی۔ پولیس نے اس پر اعتراض کیا۔ اور اس مسئلہ کو سلجھانے میں کافی تاخیر ہونے لگی۔ نتیجتاً ڈرائیور کو اس مسافر کو چھوڑنا پڑا۔ راستہ میں ڈرائیور نے موٹر کو تین چار جگہ روکا۔ ایک جگہ رسٹورنٹ میں کافی دیر تک ٹھیرنا پڑا جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے۔ یہاں ہر ایسے رسٹورنٹ میں بان کے اونچے اونچے پلنگ پڑے ہیں۔ ان کے پائے تقریباً تین ساڑھے تین فیٹ اونچے ہیں۔ ایک طرف لکڑی کی پٹیاں لگی ہوئی ہیں کہ ٹیکے سے بیٹھ سکیں۔ پلنگوں کی بنوائی کھجور کے پتوں سے ہی ہوئی ہے۔ مضبوطی کے لئے رسی سے بھی کام لیا گیا ہے۔ ایسے ہی پلنگوں پر دوسرے مسافرین کی طرح ہم لوگ بھی تھوڑی دیر کے لئے سوگئے دھوپ کی شدت میں اس طرح کا آرام مسافرین کے لئے بہت مفید ہے۔

ڈرائیور کو پیاس لگی تو اس نے اپنے ہمراہ رکھے ہوئے برف میں جو ایک تھرماس میں رکھا ہوا تھا پانی ڈال کر دو گلاس پانی پیا۔ اس طرح اس کے بازو بیٹھے ہوئے عرب نوجوان مسافر نے بھی کیا۔ بعد میں دونوں نے ایک ایک سگریٹ جلا کر پینا شروع کیا۔ ہم کو بوجہ رمضان یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔ ڈرائیور نے تو بعد میں بھی دو تین سگریٹ پئے۔ لیکن جب جدہ میں موٹر داخل ہونے لگی تو اس نے اپنا سگریٹ جو ابھی ختم نہیں ہوتا تھا پھینک دیا۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس ویان میں اندر کی طرف کچھ ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ غالباً مصری ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں ہوں۔ لیکن تصویریں عریاں نہیں تھیں۔

ہم کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جدہ میں بعض لوگ چوری چھپی پکچرس دکھاتے ہیں۔ اور کئی عرب ان کو دیکھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن تو اب عام ہونے لگا ہے۔ مدینہ سے آتے وقت ہم نے دیکھا کہ بعض جھونپڑی نما مکانات میں بھی ٹیلی ویژن کے اینٹا لگے ہوئے تھے۔ جب جدہ میں کوئی پکچر دکھائی جاتی ہے تو پان سگریٹ کی دوکان پر مختصر سے پوسٹر بھی لگ جاتے ہیں۔ اور حکومت کو معلوم بھی ہے کہ اس طرح پکچرس دکھائی جا رہی ہیں۔ لیکن حکومتی عملہ دھاوا نہیں کرتا۔ عمداً اس سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ سفارتی علاقہ میں سینما وغیرہ کی عام اجازت ہے۔

حال ہی میں سنا گیا ایک ٹرک جو شراب کے شیشوں سے لدی ہوئی تھی پکڑی گئی۔ اور اس میں کی ساری بوتلیں برسرعام پھوڑ دی گئی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ ایسا ایک آدھ مرتبہ ہی ہوتا ہے۔ ایسی کئی ٹرکس شراب یہاں آتی ہے۔ اور ان میں رکھی ہوئی بوتلیں تقسیم ہو جاتی ہیں۔ اور گرفت میں نہیں آتیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مغربی اثر ذرا دھیرے سہی لیکن برابر سرایت کرتا جا رہا ہے۔

جدہ۔ جمعہ۔ ۱۰/ ستمبر ۱۹۷۶ء

کل جب شام میں ہم خبریں سن رہے تھے تو پتہ چلا کہ کمیونسٹ چین کے چیرمین ماوزے تنگ کا انتقال ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ ان کی موت کی خبر کو سب سے پہلے آل انڈیا ریڈیو نے نشر کیا ماوزے تنگ موجودہ چین کے زبردست معمار تھے۔ ایک ایسی قوم کو جس میں ہزاروں قسم کی برائیاں تھیں مستحکم و مضبوط کر کے دنیا کی گنی چنی طاقتور قوموں میں شریک کروانے والوں میں ماؤزے تنگ کا بڑا حصہ ہے۔ چو ین لائی کا اسی سال جنوری میں انتقال ہو گیا۔ اب ماؤزے تنگ کے درجہ کا کوئی چینی لیڈر نظر نہیں آتا۔ ریڈیو کے بہت سے تبصرہ کرنے والوں کا بیان ہے کہ اب چین میں حصول اقتدار کے لئے کشمکش شروع ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ اس عہدہ کو چند دنوں تک ویسے ہی خالی رکھا جائے۔

آج کی خبروں سے یہ بھی پتہ چلا کہ انڈین ایرلائنز کا ۷۰۷ جیٹ ہوائی جہاز کا اغواء کیا جا کر لاہور ایرپورٹ پر اتارا گیا ہے۔ اغواء کرنے والے صاحب ہندوستانی بول رہے ہیں پہلے یہ خبر سنی کہ لاہور ایرپورٹ پر پٹرول لے کر وہ ہوائی جہاز مغرب کی جانب پرواز کر رہا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ابھی لاہور ایرپورٹ پر ہی رکا ہوا ہے ایک خبر یہ ہے کہ صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو لاہور پہونچ گئے ہیں تا کہ اغواء کرنے والوں سے گفت و شنید کر کے مسافرین اور ہوائی جہاز کے عملہ کو اتار کر اغواء کرنے والوں نے ہوائی جہاز کو جلا دیا تھا۔ بعد میں ان جلانے والوں کا لاہور میں جلوس بھی نکالا گیا تھا۔ اس پر ہندوستان نے پاکستان کی ہوائی پرواز کو اپنے ملک پر سے روک دیا تھا۔ اور ان دونوں ممالک میں تعلقات اتنے خراب ہوئے کہ پاکستان کو مشرقی بنگال سے ہاتھ دھونا پڑا اور اس کی نود ہزار سے زیادہ فوج ایک عرصہ تک ہندوستان میں مقید رہی۔ امید ہے کہ اس مرتبہ ایسی کوئی بات نہیں ہو گی۔ بلکہ پاکستان ، ہندوستان سے مشورہ کر کے اور اس کی رائے کے مطابق اغواء کرنے والوں سے برتاؤ کرے گا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان میں ہندوستانی سفیر جو کسی مشورے کے لئے دہلی گئے ہوئے تھے لاہور پہونچ رہے ہیں۔ پانچ سال کے بعد حال ہی میں ہندوستان وپاکستان میں ہوائی سروس بحال ہوئی ہے۔ اب امرتسر اور لاہور کے درمیان ریل بھی چل رہی ہے۔ اس لئے ہر بہی خواہ ملک کی یہی تمنا ہونی چاہئے کہ ان ہمسایہ ممالک میں تعلقات استوار ہی ہوتی جائیں۔ اس میں ان دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔

کل ہم جدہ کے بلد والے حصہ کو گئے تھے کہ کچھ خریدیں۔ جس ٹیکس میں ہم اپنے مقام سے گئے تھے اس کا ڈرائیور یہاں کے محکمہ دفاع میں دو ہزار ریال ماہانہ کماتا ہے۔ دو ہزار ریال کے ہندوستان کے کچھ کم ۵ ہزار روپئے ہوتے ہیں۔ اس نے اپنی موٹر کو پیلا رنگ کر دیا ہے۔ اور چھت پر ٹیکسی کی تختی بھی لگا دی ہے۔ صبح سے ایک دو بجے تک وہ اپنا سرکاری کام کرتا ہے اور شام میں فرصت کے وقت ٹیکسی چلا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ انگریزی بھی اچھی خاصی بول لیتا ہے۔ اس کا بیان تھا کہ اس نے ۲۵ ہزار ریال قرض لے کر اپنا مکان تیار کیا ہے۔ ادائی قرض میں ہر ماہ اس کو کچھ قسط دینی پڑتی ہے وہ جب تک اس طرح کا کام نہ کرے وہ اپنے گھر کے معیار کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ ہمارے میزبان سے معلوم ہوا کہ اس نوجوان کی طرح کئی ایسے سعودی عرب ہیں جو اپنے مقررہ سرکاری کام کے بعد کوئی دوسرا بھی کام کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں اور اس طرح زائد کام کرنے پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ اور نہ ہی لوگ اس پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔

بلد جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے جدہ شہر کا مرکزی علاقہ ہے۔ یہاں ہر قسم کی تجارت ہوتی ہے۔ ہم شام ساڑھے آٹھ بجے کے قریب وہاں پہونچے تو ہم نے دیکھا کہ بہت سی دوکانیں بند ہیں۔ اور کچھ کھل رہی ہیں۔ اکثر چھوٹی چھوٹی دوکانیں گو کھلی ہیں۔ لیکن مالک دوکان افطار اور کھانے وغیرہ کے لئے ان پر صرف جالی لگا کر چلے گئے ہیں۔ سوانو اور ساڑھے نو بجے تک سب دوکانیں کھل گئیں اور کاروبار زور وشور سے شروع ہو گئے۔ یہاں کیمرے ، ریڈیو ، ٹرانسٹرز، ٹیپ ریکارڈ کیالکولیٹرس اور گھڑیاں خوب بکتی ہیں۔ ویسے ہر قسم کا مال بھی موجود ہے۔

ہمارے میزبان نے کل رات میں ہمارے لئے بالکلیہ حیدرآبادی کھانا۔ بریانی ، بگھارے بیگن، دہی کی چٹنی اور میٹھا وغیرہ بنایا تھا۔ ذرا زیادہ ہی کھا گئے۔ رات میں معدہ پر بار محسوس ہوا۔

جب ہم یہاں پہلے پہل آئے تو پانی اتنا ہی پیا جتنا کہ ہندوستان میں پیتے تھے میں نے دیکھا کہ ہمارا پیشاب بہت پیلا ہو گیا ہے۔ خیال ہوا کہ شاید بخار آ گیا ہو۔ بیوی نے بھی یہی شکایت کی۔ اس کے بعد ہم کافی مقدار میں پانی پینے لگے۔ اس سے پیشاب بھی ٹھیک آنے لگا۔ اور اس کا رنگ بھی معمول کے مطابق ہو گیا۔ چونکہ یہاں گرمی شدت کی ہے اس لئے پانی کا استعمال زیادہ ہونا چاہئے۔

آج ہمارے میزبان نے اصرار کر کے ہماری اور ہماری بیوی کی آواز کو ریکارڈ کیا۔ میں نے زیادہ اور بیوی نے کم کہا۔ میں نے پہلے اس مضمون کو لکھ لیا۔ اور بعد میں اس کو ریکارڈ کرایا بیوی کے لئے بھی ان کی خواہش کے مطابق مختصر سا مضمون میں نے لکھ دیا۔ دو ایک مرتبہ پڑھ کرانھوں نے بھی اس کو ریکارڈ کرا دیا۔

کل یعنی ۱۱/ ستمبر کو ہماری پرواز قاہرہ کے لئے ہے۔ آج جمعہ تھا جب کہ یہاں چھٹی ہوتی ہے۔ ویسے ہم بھی آرام لینا چاہتے تھے۔ اس لئے گھر ہی میں رہے البتہ اپنے میلے کپڑوں کو میزبان صاحب کی واشنگ میشن میں ڈال کر دھو لیا۔

جدہ میں ہمارا قیام بہت ہی آرام دہ رہا۔ میزبان صاحب سے ہم کو کئی قسم کی سہولیں بھی ملیں یہاں گھر میں نوکر رکھنے کا کوئی سوال نہیں۔ میزبان صاحب اور ان کی بیوی کو سب کام کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹا موٹا باہر کا سودا بچے لے آتے ہیں۔ لیکن ہماری بیوی میزبانوں کا برابر ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ اکثر بیوی برتن دھو دیتی ہیں اور میزبان صاحب کی اہلیہ کھانا وغیرہ پکاتی ہیں۔ میزبان صاحب چائے وغیرہ بنا کر لاتے ہیں۔

جس کمرہ میں ہم ٹھیرے ہوئے ہیں اس کے قالین کو روزانہ دو ایک مرتبہ برش لگاتا ہوں۔ میں گھر کی صفائی بھی کر دیتا لیکن چونکہ میزبان صاحب کی بیوی ہم سے پردہ کرتی ہیں۔ اس لئے میں دیر تک گھر کے اندرونی حصہ میں نہیں رہ سکتا۔ بیت الخلاء کو آتے جاتے ان کو ہٹوا دیا جاتا ہے۔

Fontano Hotel Ramsis Square

Ciaro Egypt Tel- 922145

مصر۔ اتوار۔ ۱۲/ ستمبر ۱۹۷۶ء ۸ بجے صبح۔ کل صبح میں پونے سات بجے کے قریب ہم اپنے میزبان سید محمد پاشاہ کے مکان سے نکلے۔ بہت دور تک ہم کو ٹیکسی نہیں ملی۔ جدہ میں لوگ عام طور پر سحری کھا کے سوجاتے ہیں۔ زندگی میں ہلچل کے آثار ذرا دیر سے شروع ہوتے ہیں۔ ایک آدھ فرلانگ چلنے کے بعد بالاخر ٹیکسی مل گئی۔ ڈرائیور نے آٹھ ریال مانگے۔ اور پاشاہ صاحب نے پانچ ریال کہے۔ یہاں ایرپورٹ کو مطار کہا جاتا ہے۔ ہم سات بچنے کے کچھ ہی دیر میں ایرپورٹ پہونچ گئے۔ فوری سامان تلوا کر بورڈنگ پاس لے کر اور امیگریشن آفیسر سے خروج کی مہر لگا کر ہم اس حصہ میں آ گئے جہاں ایک رسٹورنٹ اور عورتوں و مردوں کے لئے پیشاب خانے و پائخانے وغیرہ ہیں۔

ہماری پرواز ۹ بجے صبح تھی لیکن اس میں دو گھنٹے کی تاخیر ہو گئی۔ گھر سے ہم صرف چائے پی کر نکلے تھے۔ ساتھ رکھے ہوئے بسکٹ وغیرہ سے ناشتہ کیا اور بعد میں رسٹورنٹ سے چائے پی۔ دو پیالی چائے کے ہم کو تین ریال دینے پڑے۔ یعنی ہندوستانی پیسوں کے حساب سے تقریباً ساڑھے سات روپیہ۔ جدہ ایرپورٹ پر Embarkation Tax ہم سے نہیں لیا گیا۔ نہیں معلوم یہ سہولت صرف قاہرہ جانے والے مسافرین کے لئے ہے یا دوسری جگہ جانے والوں کے لئے بھی۔ جدہ پر کسٹم تو ہوا ہی نہیں۔ البتہ سکیوریٹی والوں نے کچھ یوں ہی دیکھ لیا۔ گیارہ بجے اڑے تو ایرہوسٹس نے پہلے پیپرمنٹ اس کے بعد پھلوں کا رس اور اس کے ساتھ ہی کھانا دیا۔ ہم نے نیچے نظر ڈالی تو کچھ عجیب ہی منظر دکھائی دیا۔ دور نیلا آسمان اور نیچے کچھ ملگجی رنگ لی ہوئی مٹی۔ ہم نے سونچا کہ یہاں زمین تو ہو ہی نہیں سکتی ہم کو پہلے بحرالاحمر عبور کرنا ہے۔ ایرہوسٹس کو بلا کر پوچھا کہ نیچے بحرالاحمر ہے تو وہ کچھ سمجھ نہیں سکی۔ جب ہم نے Red Sea کہا تو اس کی اس کی توثیق کی۔ جب ہم زمین کی طرف آ گئے تو ہم نے دیکھا کہ جنوبی مصر بھی ریگستان ہی ہے۔ جیسے جیسے ہم قاہرہ کے قریب آ رہے تھے تو کچھ ہرا بھرا دکھائی دے رہا تھا۔ اوپر سے قاہرہ شہر اور دریائے نیل کا منظر بھی خوب تھا۔ قاہرہ کافی پھیلا ہوا شہر دکھائی دیا۔

ہوائی جہاز ہی میں مصری احکام کے لحاظ سے ہم کو دو ورق کا کتابچہ دیا گیا۔ اس کے پڑھنے سے پتہ چلا کہ مصر میں مصری کرنسی کو باہرسے لانا وہاں سے باہر لے جانا سخت منع ہے۔ اگر ہمراہ دوسرے ممالک کی کوئی کرنسی کو ہو تو اس کو ڈکلیر(اعلان) کر کے جب بھی بھنوانا ہو تو کسی مسلمہ صراف سے بھنوانا چاہئے سفری چک باہر سے لا اور لے جا سکتے ہیں۔ بہرحال ہم نے اس کتابچہ کی خانہ پری کر دی۔ اور یہ سمجھے کہ امیگریشن آفیسر یا کسٹم والے اس کو پڑھ کر ہم سے کچھ پوچھیں گے۔ لیکن وہاں اس کی کسی کو فرصت نہیں۔ امیگریشن میں اس کتابچہ کا پچھلا کارڈ پھاڑ لیا گیا اور باقی حصہ ہم کو دے دیا گیا۔ یہاں ایرپورٹ پر کئی ہاتھ گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔ ان میں سامان رکھ کر لے جانے میں بڑی سہولت ہوتی ہے۔ جب ہم اپنا سامان کسٹم کی تنقیح کرنے والوں میں سے ایک صاحب کے پاس لے جانے لگے تو ایک نوجوان شخص جو ذرا علیحدہ کھڑا تھا۔ جو غالباً آفیسر کا درجہ رکھتا ہو۔ ہم کو کچھ کہہ کر متوجہ کیا۔ اور اشارہ کیا کہ ہم اپنا سامان ویسے ہی باہر لے جائیں۔ غالباً صورت وشکل اور ہماری عمروں کا لحاظ کرتے ہوئے اس نے تنقیح ضروری نہیں سمجھی کچھ بچے ہوئے سعودی ریال اور کچھ ڈالر کرنسی کا ہم نے اکسچینج (مصری کرنسی) حاصل کیا گرین ہوٹل والوں کا ایرپورٹ پر ایک چھوٹا کاؤنٹر ہے۔ انھوں نے ہم کو بلایا اور ان کا نرخ بتایا۔ وہ ہمیں ذرا زیادہ لگا۔ ہم ایرپورٹ کی بلڈنگ سے باہر نکلے تو ٹیکسی والوں نے ہم کو قاہرہ لے جانے کی خواہش کی۔ اجرت پوچھنے پر ایک مصری پونڈ بتایا۔ بس کے تعلق سے ہم نے مقامی آدمیوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ شہر لے جانے کے لئے صرف دو قرش فی کس لے گی۔ سو قرش کا ایک مصری پونڈ ہوتا ہے۔ ہم بس کی طرف گئے۔ لیکن دو ایک بسیں ویسے ہی چلی گئیں۔ اس دوران میں ہماری ایک نوجوان مصری سے بات چیت ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ ہم کہاں کے رہنے والے ہیں ہم نے کہا کہ ہندوستان کے۔ ساتھ ہی اس نے ہم سے دلچسپی لینی شروع کی۔ اس نے کہا وہ احمدی ہے اور ان کے پیغمبر ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ اور انھوں نے وہیں تبلیغ مذہب کی اتنے میں جب ایک دوسری بس آئی تو وہ دوڑتا ہوا جا کر ہمارے لئے جگہ محفوظ کر لی۔ اس نے دو نشستیں محفوظ کیں۔ ایک پر تو میں نے بیوی کو بٹھا دیا اور دوسری پر میں نے اس نوجوان سے کہا کہ وہ بیٹھا رہے۔ لیکن وہ اس پر تیار نہیں ہوا۔ بصورت مجبوری مجھے دوسری سیٹ پر بیٹھنا پڑا۔ لیکن ہم نے تھوڑی سی جگہ نکال کر اس کو بھی بٹھالیا۔ وہ ہم سے مصروف گفتگو ہو گیا۔ کچھ مقامات بتاتا جاتا اور کچھ مذہب سے متعلق کہتا اور اس نے یہ بھی کہا کہ وہ ہمارے لئے واجبی داموں میں صاف ستھری ہوٹل دلائے گا۔ رام سیس اسکوائیر پر ہم لوگ بس سے اترے۔ اس نے ایک بیاگ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کئی ایسی ہوٹلوں کو گئے جہاں ہم کو لینے سے انکار کیا گیا۔ سنا گیا کہ ہر مقامی ہوٹل میں بیرونی ممالک کے افراد نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ صرف ایسی ہی ہوٹلوں میں جن کا معیارِ صفائی اور انتظام اچھا ہو۔ اور جن کو دیکھ کر حکومت نے اس کی تحریری اجازت دے دی ہو ، بیرونی ممالک کے افراد کو ٹھیرا سکتی ہیں۔ آخر کار ہم ایک پولیس آفیسر کے پاس پہنچے اور شکایت کی کہ تقریباً گھنٹے بھر سے پھر رہے ہیں۔ لیکن ہوٹل والے ہم کو کمرہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔ اس نے ہمارے ساتھی مصری عرب کو عربی میں کچھ سمجھایا۔ غالباً اس نے اس ہوٹل کا نام لیا جس میں ہم ٹھیرے ہوئے ہیں۔ اس طرح ہم اس ہوٹل میں پہونچ گئے۔ یہاں کی صفائی اور دوسرے انتظامات اچھے دکھائی دئے۔ اس میں لفٹ لگی ہے۔ لیکن صرف چوتھی اور اس سے اوپر کی منزل والوں کیلئے۔ ہم تیسری منزل پر ہیں۔ اس لئے ہم کو ویسے ہی اترنا اور چڑھنا پڑتا ہے۔ اس کا کرایہ فی یوم ڈبل بیڈ کے روم کے لئے تین مصری پونڈ اور پندرہ قرش ہے۔ ریسپشنسٹ کے لحاظ سے اس میں صبح کا ناشتہ بھی شریک ہے۔ جب ہم نے کمرہ لے لیا اور اس میں سامان وغیرہ رکھ لیا۔ تو ہم نے احمدی نوجوان سے خواہش کی کہ وہ ہمارے ساتھ چلے اور کچھ کھائے پے ئے۔ پہلے وہ راضی نہیں ہوا۔ ہمارے اصرار پر وہ باہر چلا اور اچھے کولڈرنگ اور سویٹ میٹ ہاؤس سے اپنے پیسے دے کر ہم کو آم کا رس پلایا۔ ہم نے بہترا کوشش کی وہ پیسے ہم سے لے لے۔ لیکن وہ راضی نہیں ہوا۔ ہم نے کہا کہ وہ اس طرح کے عمل سے ہم کو شرمندہ کر رہا ہے۔ بہرحال ہم نے اس کو شکریہ کے ساتھ خدا حافظ کہا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ہم اس کے لئے ہندوستان میں کچھ کر سکتے ہیں۔ اس نے خواہش کی کہ کبھی کوئی احمدی ہم سے ملے اور ہم اس کی کوئی مدد کرنے کے موقف میں ہوں تو اس کی مدد کریں۔ اس کو اپنی مذہبی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ اس کا بہت سا لٹریچر اردو میں ہے۔ اس نے کہا کہ وہ پاکستان جا کر اپنے مذہب کی کسی ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے جس کو اردو اچھی آتی ہو۔ وہ پہلے اپنے خلیفہ کو اس کی اطلاع کرے گا۔ اور آٹھ دس دن میں نکاح کر کے واپس ہو جائے گا۔ اس کی خواہش ہے کہ اپنی ہونے والی بیوی سے اردو سیکھ کر اپنی مذہبی کتب کا مطالعہ کرے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے پاس چند اردو کتابیں احمدی مذہب کے تعلق سے ہیں وہ ہمیں لا کر دے گا بعد میں وہ ایک مرتبہ ہوٹل آ کر ہمارے لئے انگریزی اخبار چھوڑگیا۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس نوجوان سے بعد میں ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔ ہمارے پاس اس کا پتہ بھی نہیں ہے۔

دوپہر میں آرام کر کے شام کے وقت ہم ٹہلنے کے لئے نکلے۔ ایک مصری معمر صاحب جن کے ایک پاؤں میں ذرا لنگ ہے ہم سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔ اس طرح باتیں ہونے لگیں۔ انگریزی وہ ٹھیک ہی بول لیتے ہیں۔ وہ کسی انشورنس کمپنی میں کام کرتے تھے۔ حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں انھوں نے اپنا نام ہماری ڈائری میں اس طرح لکھا۔

NAGUIB BISHARA۔ انہوں نے Gizza Pyramids میوزیم اور جامعہ الازہر کے تعلق سے معلومات بہم پہونچائیں۔ جب ہم نے ایک ٹرین کے تعلق سے پوچھا کہ وہ کہاں جاتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ہیلی پولسکو جو قاہرہ شہر کا ترقی یافتہ ڈسٹرکٹ ہے۔ وہ ہم کو ریلوے اسٹیشن لے گئے۔ ہم کو ٹرین میں بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گئے۔ کنڈکٹر آیا تو ہمارے ٹکٹ انھوں نے خود ہی خریدے اور ہم کو ٹکٹ دے کر اگلے اسٹیشن پر اتر گئے ہم نے پیسے دینا چاہے تو انھوں نے نہیں لیا۔ رام سیس اسکوائیر سے ہیلی پولس جانے کے لئے تقریباً چالیس منٹ لگے۔ بعض جگہ اس لوکل ٹرین کے جانے کا راستہ بالکل الگ ہے یعنی اس کے دونوں طرف دیواریں بنا دی گئی ہیں اور بعض جگہ یہ شہر کے راستوں کو پار کرتی ہوئی جاتی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی ٹرین ہے جو چار پانچ ڈبوں پر مشتمل ہے۔ اس میں فرسٹ کلاس اور سکنڈکلاس کے درجے ہیں۔ یہ متعدد اسٹشینوں پر رکتی ہے۔ بسوں کے مقابلے میں اس میں ہجوم کم دکھائی دیا۔ جب یہ ٹرین سڑک کراس کرتی ہے تو ڈرائیور کو چوکنا رہنا پڑتا ہے کہ ادھر ادھر سے سواریاں یا پیدل راہرو تو نہیں آ رہے ہیں۔ ہیلی پولس میں پانچ منزلہ اور چھ منزلہ عمارتیں ہیں یہ اچھے نمونے پرماضی قریب میں بنائی گئی ہیں۔ یہ سب رہائشی فلیٹ معلوم ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قاہرہ کا نواحی علاقہ اچھے پلان پر بنایا گیا ہے۔

ہم جس ٹرین سے گئے تھے اسی سیواپس ہوئے۔ ہم نے متعدد گوشت کی دوکانیں دیکھیں۔ ان پر کئی ذبح وصاف کئے ہوئے بکرے لٹکائے گئے تھے۔ ان کے گوشت پر کچھ لال لال پٹے بھی خوشنمائی کے لئے رنگے گئے تھے۔ لیکن وہ کھلے لٹکے ہوئے تھے۔ یعنی ان پر مکھیاں وغیرہ آسانی سے بیٹھ سکتی ہیں۔ یہاں سڑکوں اور عمارتوں میں بجلی کی روشنی ہے۔ لیکن جس طرح سعودی عرب میں جدہ۔ مکہ اور مدینہ شہروں میں برقی کی فراوانی ہے۔ یہاں نہیں دکھائی دی۔

یہاں لوکل ٹرین کے علاوہ بسیں اور ٹرامیں بھی چلتی ہیں۔ میں نے کسی شہر میں اتنی لدی ہوئی بسیں نہیں دیکھیں۔ جب مسافر اندر ٹھاٹس بھرجاتے ہیں تو لوگ بس کی کھڑیوں میں البتہ صرف سیدھی طرف (یہاں سیدھے طرف کی ٹرافک ہے ) پاؤں لٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ فٹ بورڈ کا تو بہت برا حال ہے۔ کئی نوجوان بچوں کو شاید ایک پاؤں کی چند انگلیاں اور دو ہاتھ کا سہارا ملتا ہے۔ اگر انگلیاں کسی وجہ سے سرک جائیں تو پاسنجر ہوا میں لٹکتا رہے گا۔ یا پھر اس کے پاؤں زمین پر رگڑتے ہوئے جائیں گے۔

جب ہماری ٹرین واپس ہو رہی تھی تو معلوم ہوا کہ پٹریوں پر ایک نعش پڑی ہوئی ہے کسی نے کہا کہ ہماری ٹرین ہی سے ٹکرا کر ایک آدمی مرگیا ہے۔ ٹرین بہت دیر رکی رہی اور بعد میں کہا گیا کہ ہم اس ٹرین کو خالی کر کے آگے جائیں اور دوسری ٹرین میں بیٹھ کر سفر جاری رکھیں کافی لمبا اور خراب راستہ بعض وقت دو پٹریوں کے درمیان سے یا پھر آزو بازو کی کئی چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں میں چل کر دوسری کھڑی ہوئی ٹرین تک جانا پڑا۔ دوسری ٹرین بھی کافی دیر سے نکلی۔ تھکے ماندے رام سیس اسکوائیر پہونچے۔ ایک معمولی ہوٹل میں کچھ کھا کر اور دوپہر والی مٹھائی و شربت والی دوکان سے کچھ میٹھا وغیرہ کھا کر اپنی ہوٹل آئے اور سوگئے۔

قاہرہ۔ فون ٹانو ہوٹل۔ رام سیس اسکوائیر

دوشنبہ۔ ۱۳/ ستمبر ۱۹۷۶ء میں کل ہم ذرا دیر سے اٹھے۔ ناشتہ پر دل فوری مائل نہ تھا۔ اس لئے پہلے چائے منگوا کر کمرہ میں پی۔ اس کے لئے ہم کو ۲۳ قرش دینے پڑے۔ ناشتہ ہوٹل کے ذمہ ہے۔ ساڑے دس کے قریب ریسپشنسٹ کے پاس گئے کہ  اس سے ناشتہ کا کارڈ لے کر رسٹورنٹ جائیں۔ ریسپشنسٹ نے کہا کہ ہم صرف کمرہ نمبر کہ دیں کسی پاس کی ضرورت نہیں۔ رسٹورنٹ نویں منزل پر ہے۔ رسٹورنٹ کے آدمی کو ہم نے بتا دیا کہ ہم کمرہ نمبر ۲۵ میں مقیم ہیں اور ناشتہ کرنے آئے ہیں۔ اس نے کہا کہ انڈے کس طرح لیں گے۔ فرائی یا آملیٹ۔ بیوی نے آملیٹ اور میں نے فرائی کہا۔ پھل کا جوس پوچھا تو ہم نے کہا کہ ہم چائے پئیں گے۔ اس نے جو عربی جواب میں کہا۔ اس سے ہم یہ سمجھے کہ چائے تو ہو گی پھلوں کے رس میں کیا پسند کریں گے۔ ہم نے خیال کیا کہ یہ بھی ناشتہ میں شریک ہے۔ لیمن جوس کہہ دیا۔ بہرحال جب آرڈر ناشتہ آ گیا۔ ساتھ میں چائے بھی۔ رس پی کر ناشتہ کھاتے کھاتے چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ وہ ٹھنڈی چائے ہی ہم نے پی لی۔ ناشتہ ختم کر کے تھوڑی دیر تک ہم نے نویں منزل سے قاہرہ شہر کا نظارہ کیا۔ جب ہم واپس جانے لگے تو ہوٹل کی ایک لڑکی نے ہم سے کچھ پیسوں کا مطالبہ کیا۔ ہم نے کہا جو ہوٹل میں مقیم ہیں ان کا ناشتہ ہوٹل کے ذمہ ہے اس نے کہا کہ انڈے اور لیمن جوس مقررہ ناشتہ سے زائد تھے۔ اور وہ زاید ہی کے دام طلب کر رہی ہے۔ ہم نے کہا کہ جس نے آرڈر لیا اس نے اس کی کوئی صراحت نہیں کی۔ ہم نے انڈے اور لیمن جوس اس لئے کہا کہ وہ بھی ہمارے ناشتہ میں شریک ہوں گے۔ اس نے آرڈر لینے والے لڑکے سے پوچھا اور اس نے ہمیں ویسے ہی جانے دینے کے لئے کہا۔ ہمیں اچھا نہیں لگا۔ ہم نے زائد اشیاء کی قیمت پوچھی تو اس نے ۸۰ قرش یعنی تقریباً آٹھ روپئے بتائے وہ ہم نے اس کو دے دئے۔ لیکن ہم کو یہ طریق عمل پسند نہیں آیا۔

اپنے مقام سے ٹہلتے ہوئے تحریر اسکوائیر گئے یہ بڑا مصروف چوراہا ہے۔ یہاں تقریباً سب بڑی ایرلائنز کے دفاتر ہیں  یہاں سے متعدد بسیں نکلتی اور ختم ہوتی ہیں۔ اس چورا ہے پر ایجپشن میوزیم ہے یہ Elnile Hilton ہوٹل کے پشت کا حصہ بھی ہے۔ یہاں ایک پتھر کا مینار بیچ میں ہے اطراف اونچی اونچی عمارتیں ہیں۔ ٹرافک تو غضب کی ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لئے ایک گول سا پل بنا دیا گیا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دور پر نیچے سے آنے اور جانے کے لئے سیڑھیاں بنادی گئی ہیں۔ آپ پل سے جس طرف چاہیں اترسکتے ہیں۔ جب پل پر چلیں یا سیڑھیوں پر چڑھیں یا اتریں تو آپ کو سیدھی طرف سے چلنا چاہئے۔ جب ہم تحریر اسکوائیر کے قریب پہونچ رہے تھے تو اپنی ڈائری دیکھنے لگے۔ ایک مصری نوجوان نے پوچھا کہ ’’ کیا دیکھ رہے ہو ‘‘ ہم نے کہا کہ ہم کو تحریر اسکوائیر سے (۹۰۰) نمبر کی بس پکڑ کر اہرام مصر  جانا ہے اس نے کہا وہ ہم کو بتائے گا۔ چنانچہ ہم اس کے پیچھے پیچھے ہو گئے۔ کافی دور چلنے کے بعد (۹۰۰) نمبر کے پاس اسٹاپ پر پہونچ گئے۔ لڑکے نے وہاں کہا کہ اس دھوپ میں اہرام مصر جانا مناسب نہیں۔ اس مقام پر شام میں جانا مناسب ہے۔ ہم نے اس کا مشورہ قبول کر لیا۔ میوزیم پوچھا تو وہ سمجھ نہیں سکا۔ بعد میں پولیس والے سے پوچھ کر ہم میوزیم چلے گئے۔ میوزیم میں فیس داخلہ فی کس (۷۵) قرش ہے ممی کے روم کے لئے فی فرد ۲۵ قرش علیحدہ ہیں۔ اس میوزیم میں آج سے پانچ ہزار چار، چار ہزار اور تین ہزار سال پہلے کے بادشاہان مصر کے تعلق سے جو چیزیں کھدائی کے بعد برآمد ہوئی ہیں ان کو یکجا کیا گیا۔ اکثر اس میں پتھر کے مجسمے ہیں۔ مگر ہر طرف ان بادشا ہوں اور ان کی بیگمات کے مدفن رکھے ہوئے ہیں۔ جب یہ مرتے تو ان پر ایک طرح کی مٹی یا مسالہ لگا کر نعش کو محفوظ کر دیا جاتا۔ یہ ان کا کفن ہوتا۔ پھر اس نعش کو ایک ڈبہ میں محفوظ کر دیا جاتا اور ڈبہ پر جس طرح نعش کو لٹایا گیا ہے۔ ویسے ہی اس کی ہو بہو تصویر بنائی جاتی۔ اس کے بعد پھر اس ڈبہ کو بڑے ڈبے میں رکھا جاتا اوراس بڑے ڈبے پر بی اسی طرح کی تصویر بنائی جاتی۔ اور اس بڑے ڈبے کو بعض صورتوں میں بڑے صندوق میں محفوظ کر دیا جاتا۔ بیسویں صدی میں جو کھدائی ہوئی تھی اور اس میں جو چیزیں برآمد ہوئی ہیں ان کو یکجا کیا گیا ہے۔

ہم (ممی) کے روم میں بھی ۲۵ ، ۲۵ قرش دے کر گئے۔ لیکن یہاں جو نعشیں رکھی گئی ہیں وہ مسخ ہو گئی ہیں۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ نعشیں شاید اپنی اصلی شکل میں ہوں گی۔ لیکن ایک بھی نعش ایسی نہیں ہے۔ البتہ یہ بات تعجب خیز ہے کہ تین ہزار سال کے بعد بھی نعشیں اس شکل میں بھی باقی ہیں۔ اگر ہم کو یہ معلوم ہوتا کہ نعشیں اتنی مسخ شدہ ہیں تو ہم اس کمرہ میں نہیں جاتے۔ ہم مشکل سے اس میں دس منٹ رہے ہوں گے بیوی تو دوچار منٹ ہی میں نکل جانا چاہتی تھیں۔ مگر یہاں نعشوں کو دیکھنے سے عبرت ہوتی ہے کہ ہر ایک کا حشر یہی ہونے والا ہے۔ اس پر بھی لوگ کتنے مغرور ہو جاتے ہیں۔ زندگی سے لطف ضرور اٹھانا چاہئے لیکن اس میں کبریائی پیدا نہیں ہونی چاہئے۔

یہاں دھوپ ہے لیکن یہاں کی گرمی اور سعودی عرب کی گرمی میں بہت فرق ہے۔ قاہرہ اتنا گرم نہیں ہے۔ دھوپ میں متواتر چلیں تو پسینہ نکلتا ہے۔ لیکن زیادہ نہیں۔ ہم ہوٹل کے جس کمرے میں ٹھیرے ہوئے ہیں اس میں نہ پنکھا ہے اور نہ ایرکنڈیشنر لیکن ہم کو کوئی تکلیف نہیں بلکہ رات میں ایک آدھ چادر اوڑھنی پڑتی ہے۔

ہم شاید سعودی عرب کی ڈائری میں یہ لکھنا بھول گئے کہ وہاں کے چائے خانوں میں حقوں کا رواج ہے۔ اس طرح یہاں کے چائے خانوں میں حقے پینے کے لئے دئے جاتے ہیں ان چائے خانوں میں دو کھیل ہوتے ہیں ایک تو پانسہ اور دوسرے پتوں کا۔ متعدد نوجوان اور ادھیڑ عمر کے مصری ان کھیلوں میں دل بہلاتے ہیں۔ پیسوں کا لین دین کہیں دکھائی نہیں دیا۔ غالباً محض تفریحاً کھیلا جاتا ہے۔ یہاں سادی چائے اور دودھ کی چائے کی قیمت اس قسم کے چائے خانوں میں ایک ہی ہے۔ یعنی فی گلاس (یہاں چائے چھوٹی گلاس میں دی جاتی ہے ) تین قرش ان چائے خانوں میں کھیلنے والوں کے علاوہ بعض ایسے لوگ بھی بیٹھے رہتے ہیں جو صرف چائے نوشی اور حقہ پینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ رات میں ان چائے خانوں میں کافی ہجوم ہوتا ہے۔ لوگ ہوٹل کے سامنے پورا فٹ پاتھ گھیر لیتے ہیں۔ بعض سڑک پر بھی کرسیاں رکھ کر بیٹھتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب رات بڑھنے لگتی ہیں۔ اور ٹرافک کم ہو جاتی ہے۔ ویسے چائے خانہ کا آدمی کرسیوں کو سڑک سے ہٹا کر فٹ پاتھ ہر لا کر رکھتا رہتا ہے۔

۱۲/ ستمبر کو ساڑھے چار بجے شام کے قریب جبکہ گرمی میں اتنی شدت نہیں رہی تھی۔ دریائے نیل کے کنارے کنارے ال نیل ہلٹن ہوٹل کے سامنے ٹہلتے ہوئے دریائے نیل کا نظارہ کرتے رہے کئی کشتی راں ہم کو آ آ کر پوچھتے رہے ’’کشتی بولتا ‘‘ ’’کشتی بولتا‘‘ ان کا مطلب تھا کہ کیا ہم کشتی میں بیٹھ کر دریائے نیل کی تفریح کرنا چاہتے ہیں ؟ بیوی تیار  نہیں تھیں اس لئے ہم بھی نہیں گئے۔ معلوم ہوا کہ دریائے نیل پر شہر قاہرہ میں پانچ پل ہیں۔ ان پر سے لوگ اور ٹرافک گزرتی ہے۔

یہاں بھی موٹروں کی بھر مار ہے۔ لیکن موٹر میں زیادہ تر ٹیکسی ہیں۔ اور جو خانگی موٹریں ہیں وہ سعودی عرب کی طرح اچھی حالت میں نہیں ہیں۔ ہندوستان کی طرح یہاں بھی پرانی موٹریں بہت چلائی جاتی ہیں۔ یہاں کی ٹیکسی کا رنگ کالا اور سفید ہے۔ میٹر اندر کی طرف بیچوں بیچ لگا ہے۔ ٹیکسیز بھی پرانی گاڑیاں ہیں۔ سعودی عرب میں ٹکسیز کافی اچھی حالت میں دکھائی دیں۔ یہاں کے عام لوگوں کی مالی حالت سعودی عرب کے باشندوں کے مقابلہ میں کم ہے۔ کپڑے ٹھیک ہیں لیکن اتنے صاف نہیں جتنے جدہ۔ مکہ اور مدینہ میں عرب پہنتے ہیں۔ ۸۰ لاکھ کی آبادی والے شہر میں ایک آدھ آدمی ہی بھیک مانگتا ہوا دکھائی دیا۔ ہمارے یہاں کی طرح معذورین راستوں میں بیٹھے کہیں نہیں دکھائی دئے۔ اسی طرح جذامی ہم کو ایک بھی دکھائی نہیں دیا۔

یہاں روٹی سستی ہے ایک قرش میں دو یعنی ہندوستانی تقریباً گیارہ پیسے میں دو تنوری روٹیاں۔ یہاں اور قسم کی روٹیاں بھی ملتی ہیں۔ ہمارے پاس جو ڈبل روٹی کہلاتی ہے اس طرح کی یہاں لمبی لمبی روٹیاں بناتے ہیں۔ بعض بن کی طرح چھوٹی چھوٹی روٹیاں بنائی جاتی ہیں۔

یہاں بہت سے اسناک بارس ہیں۔ ان میں آپ سینڈوچس جو ترکاری۔ گوشت اور کباب کے ہوتے ہیں بنوا کر کھا سکتے ہیں۔ یہاں کئی قسم کے میٹھے کیک اور فروٹ سلاد بھی ہوتے ہیں۔ اگر کھڑے کھڑے ان کے سلف ہلپ والے حصہ میں کھائیں تو تقریباً دس فیصد قیمت بچ جاتی ہے۔ تحریر اسکوائیر پر اس قسم کے اسناک بارس ذرا صاف ستھرے دکھائی دئے۔

پانچ بجنے کے بعد ہم پھر تحریر اسکوائر گئے۔ (۹۰۰) نمبر کا بس اسٹاپ ابھی دور تھا۔ دوسرے اسٹاپ پر رکی ہوئی بس کے تعلق سے پوچھا کہ وہ Gizza جائے گی تو لوگوں نے کہا اور کنڈیکٹر نے بھی تصدیق کی۔ ہم نے خیال کیا کہ جب یہ بس خود گزا جا رہی ہے تو (۹۰۰) نمبر کی بس کے لئے دور کے اسٹاپ تک کیوں جائیں اس بس میں بیٹھ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بس اہرام مصر نہیں جائے گی۔ البتہ گزا اسکوائر جائے گی۔ اور وہاں سے ہم کو اہرام کے لئے دوسری بس لینی پڑے گی۔ جب گزا اسکوائر قریب آنے لگا تو بس ایک مصری نوجوان انگریزی میں مخاطب ہو گا اور پوچھا کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہمیں اہرام دیکھنا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ جہاں اتر رہا ہے ہم بھی وہیں اتر جائیں اہرام کیلئے دوسری بس لینی پڑے گی۔ ہم نے کہا کہ (۹۰۰) نمبر کی بس تحریر اسکوائیر سے راست اہرام جاتی ہے۔ اس نے کہا کہ یہ درست ہے لیکن ہم جس بس سے آئے ہیں وہ صرف گزا اسکوائیر تک ہی آتی ہے۔ وہ لڑکا اور ہم اترگئے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد اس نے کہا کہ اگر (۹۰۰) نمبر کی بس کے انتظار میں ٹھیریں تو ایک تو وقت بہت لگے لگا اور دوسرے اس میں ہجوم بہت رہے گا۔ ویان قسم کی یہاں ٹیکسی موٹریں ہیں۔ ان میں فی کس ۸ قرش لیتے ہیں۔ جگہ بھی اچھی ملے گی۔ اور سیدھے اور جلد منزل پر پہونچ جائیں گے۔ ہم کو اس کی بات معقول معلوم ہوئی۔ چنانچہ ہم تینوں اور دو ایک مسافر اس طرح کی ٹیکسی ویان میں اہرام کی طرف چلے گئے۔

اہرام سے تین چار فرلانگ نیچے کی طرف ایک چھوٹی سی آبادی ہے اس سے کچھ ہٹ کر کچھ ہوٹلیں اور کلب وغیرہ ہیں۔ باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ لڑکا میٹرک تک تعلیم پا کر کسی ہوٹل میں اسسٹنٹ منیجر کی خدمت پر مامور ہو گیا ہے اس کو ۷۰ مصری پونڈ ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ اس کی فیملی (خالہ وغیرہ) گیزا کے قریب رہتی ہے۔ لیکن وہ خود کسی دوست کے پاس اپنی ہوٹل سے قریب رہتا ہے۔ وہ افطار ہمیشہ اپنی خالہ کے ساتھ کرتا ہے۔ اس سے خالہ کو خوشی ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ مصری لوگ ہندوستانیوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ہندوستانی فلمیں بھی یہاں بہت مقبول ہیں۔ صبح میں جو نوجوان لڑکا ملا تھا وہ بھی ہندوستانی گانوں اور فلمی کہانیوں کی بہت تعریف کر رہا تھا۔ دریائے نیل کے قریب ہی کچھ مصری نوجوان لڑکے و لڑکیاں ملی تھیں۔ وہ بھی ہندوستانی فلموں کی تعریف کر رہے تھے وہ سب کپور فیملی کے دلدادہ تھے۔ یہ ہمارا موجودہ ساتھی مصری نوجوان بھی کہہ رہا تھا کہ ’’سنگم‘‘ اس نے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔

ہم نے ٹیکسی کے کرائے کے لئے ایک مصری پونڈ دیا اور خواہش کی کہ مصری نوجوان کا کرایہ بھی اسی میں سے ٹیکسی ڈرائیور کو دے دیا جائے۔ اس لڑکے نے کہا کہ اصولی طور پر ہم اس کے مہمان ہیں اگر وہ کسی وجہ سے ہمارا کرایہ نہیں دے سکتا تو وہ ہم سے اپنا کرایہ کسی صورت میں نہیں لے گا۔ ہم نے کہا کہ یہ ہماری عین خوشی ہے لیکن وہ تیار نہیں ہوا۔ ڈرائیور کو ہمارا پونڈ دے۔ اور خود حساب کر کے ہم کو بتا بتا کر کہ یہ دس ، دس قرش ہیں۔ یہ پانچ پانچ ہیں اور یہ ایک ایک ہے پورے ۸۴ قرش واپس کئے۔ اور کچھ دور ہمارے ساتھ پیدل چل کر اہرام مصر کا راستہ دکھایا۔ اور کہا کہ واپسی کے وقت دوسری طرف سے اتر جائیں ادھر ہی سے ۹۰۰ نمبر کی بس ہمیں سیدھے تحریر اسکوائیر کی طرف لے جائے گی۔

  مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ مصری لوگ بیرونی ممالک کے لوگوں کو بالخصوص ہندوستانیوں کو جن کو یہ ہندی کہتے ہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ کل صبح ہم نے فٹ پاتھ پر لگائی ہوئی ایک اسٹیشنری کی دوکان سے کچھ ایرمیل لفافے خریدے تھے۔ جب ہم قیمت ادا کر چکے تو اس نے پوچھا ’’ہندی‘‘ ہم نے ہاں کہا۔ اس پر اس نے کہا۔

"Indra Gandhi very good, very good"

Gizza Pyramids میں دو اہرام بڑے ہیں ایک کا نام Pyramids of Cheps ہے اس کی چوتھی سلطنت ۲۶۹۰۔ ق۔ م کے زمانہ کی ہے۔ یہ اہرام ۱۳۔ ایکر زمین پر واقع ہے۔ اس کی اصل اونچائی ۱۴۶ میٹر تھی لیکن اب اس کی اونچائی صرف ۱۳۷ میٹر رہ گئی ہے۔ کیونکہ اس کے اوپر کا حصہ گر گیا ہے۔ اس میں کل پتھروں کی مقدار پچیس لاکھ کیوبک میٹر ہے۔ دوسرا بڑا اہرام چپران کا ہے۔ بادشاہ چپران چیپس کا بیٹا تھا۔ یہ اہرام ۱۳۶ میٹر اونچا ہے۔ تیسرا Pyramid of Mycerenus ہے اس کی اونچائی ۶۲ میٹر ہے۔ پیرامیڈس کے نیچے دیو ہیکل مورت ابوالہول موجود ہے۔ اس کا چہرہ انسان کا باقی جسم شیر کا ہے۔ اس مورت سے بہت سے شاعر اور لیکھک متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس سے جولیس سیزر۔ اسکندر اور نپولین نے بھی اثر لیا ہے۔

ہم ابوالہول کی طرف سے اوپر چڑھے۔ اس طرف نیچے ایک رسٹورنٹ میں روزانہ اہرام مصر کے تعلق سے ایک فلمی شو ہوتا ہے۔ میدان میں کرسیاں وغیرہ پڑی ہوئی تھیں۔ جب ہم اہرام کی طرف اوپر چڑھ رہے تھے تو متعدد اونٹ والے اور گھوڑے والے ہم سے کہہ رہے تھے کہ ان کی سواری پر بیٹھ کر چلیں۔ وقت ٹھنڈا تھا ہم ایک طرف سے چڑھ کر دوسری طرف سے اتر گئے۔ ٹیلے پر ایک کینٹن بھی بنی ہے۔ جب ہم دوسری طرف سے اتر رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ ہماری دائیں جانب گھوڑوں کا اصطبل ہے۔ وہیں دو تین یکہ نما سواریاں بھی کھڑی ہیں۔ بہت سے یورپین لوگ گھوڑوں اور اونٹوں پر بیٹھ کر ان اہرام کا چکر لگا رہے تھے۔ نیچے اترے تو ایک بورڈ پر نظر پڑی اس پر گھوڑوں اور اونٹوں کے کرائے وقت اور چکر کے لحاظ سے لکھے گئے ہیں تا کہ سیاحوں کو اجرت ادا کرتے وقت اس کا پتہ رہے۔

۱۳/ ستمبر کو بھی ہم تقریباً دن بھر گھومتے رہے۔ یہاں ٹرافک بے پناہ ہے۔ جب لال روشنی آ جاتی ہے تو موٹروں کی تین تین چار چار قطاریں آدھ آدھ فرلانگ تک رک جاتی ہیں۔ لوگوں کی پیدل آمد و رفت بھی بہت ہوتی ہے۔ راستہ عبور کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔

یہاں آم بہت بکتا ہے اس کا رس نکال کر شکر وغیرہ ملا کر شیشوں میں بھر کر برف میں رکھ دیتے ہیں۔ کافی لوگ اس طرح کے رکھے ہوئے شیشوں سے آم کا رس پیتے ہیں۔

۱۳/ کی شام میں نجیب بشاری ہم سے ملنے آئے۔ وہ ہم کو ساتھ لے کر قاہرہ کے بازار وغیرہ دکھانا چاہتے تھے ہم تھکے ماندے واپس ہوئے تھے۔ اس لئے ان کو دوسرے دن تکلیف کرنے کے لئے کہہ دیا۔

جمعرات۔ ۱۶/ ستمبر ۱۹۷۶ء

فون ٹانو ہوٹل۔ رام سیس اسکوائیر۔

قاہرہ۔ ۱۴! کی صبح کو نجیب بشاری وقت مقررہ پر ہماری ہوٹل کو آئے۔ ان سے ہم نے کہ دیا تھا کہ ہم کو فرانس کا ویزا حاصل کرنا ہے۔ لیکن وہ ہم کو قاہرہ کے بازار وغیرہ دکھانے میں اتنی دلچسپی لے  رہے تھے کہ سفارت خانہ کا کام نظر انداز ہوتا جا رہا تھا۔ ہم نے ان کو کافی پڑھا لکھا اور حالات سے واقف پایا۔ وہ صدر سادات کی بہت تعریف کر رہے تھے کہ رفتہ رفتہ انھوں نے حالات پر خوب پالیا ہے۔ ان کے دور حکومت میں مصر کے حالات درست ہو رہے ہیں۔ وہ ہم کو قاہرہ کے ایسے بازار میں گلے جو ابھی تک ہمارے دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ یہ بازار بھی خوب ہیں۔ اونچی اونچی عمارتیں۔ چار منزلہ پانچ منزلہ نیچے مختلف سمان کی دوکانیں ، یہاں کی دوکانوں کی زیبائش ، تہران (ایران) کی دوکانوں سے کم نہیں البتہ ایتھنز (یونان) کی دوکانوں کے مقابلہ میں کم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں بھی قوت خرید زیادہ ہے۔ جوتوں کی دوکانوں پر تو نوجوان طبقہ ٹوٹ پڑا تھا۔ نہیں معلوم کوئی نیا اسٹاک آیا تھا یا روز مرہ کا یہی حال رہتا ہے۔ نیجب بشاری ہم کو ایک اچھی اور سستی بیکری کو لے گئے۔ ہم  نے وہاں سے ان کے مشورہ سے کچھ چیزیں خریدیں۔ کیونکہ دوسرے دِن ہم کو اسکندریہ جانا تھا۔ ہم نے بشاری صاحب کو ٹھنڈا وغیرہ پلانا چاہا۔ لیکن وہ راضی نہیں ہوئے۔ بڑی شکل سے ایک چائے خانہ میں بیٹھ کر صرف سادی چائے پینے سے انھوں نے اتفاق کیا۔ انھوں نے وہاں ہم کو حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بموجب انجیل اور قرآن سنایا۔ ہم کو پتہ چل گیا کہ وہ عیسائی ہیں جس کی انھوں نے بعد میں توثیق بھی کی۔ یہاں عیسائی لوگ کافی کاروبار کرتے ہوئے دکھائی دئے۔ ہماری ہوٹل سے قریب ایک کول ڈرنک اور مٹھائی گھر ہے۔ وہ بھی کسی عیسائی صاحب کا ہے وہ اس کو خوب چلا رہے ہیں۔ فوٹ ناٹو ہوٹل جس میں ہم ٹھیرے ہوئے ہیں کسی عیسائی صاحب کی ہے وہاں صفائی اور سروس کا بہت معقول انتظام ہے۔

جب کافی دیر ہونے لگی تو ہم نے بشاری صاحب کو فرانس کے ویزا کی طرف متوجہ کیا۔ چونکہ وہ یہاں کے مقامات سے واقف ہیں۔ سفارت خانہ فرانس کو آسانی سے ہمیں لے کر پہنچے۔ مگر نیچے ہی آفس کے جوان نے یہ کہہ کر روک دیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے جب ہم نے کہا کہ ہم ہندوستانی ہیں۔ اور ہم کو فرانس کا ویزا لینا ہے تو اس نے کہا کہ ہم کو سفارت ہند سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ لانا پڑے گا۔ ہم نے کہا کہ ہمارے پاس ہندوستانی پاسپورٹ ہے اور اس میں فرانس بھی درج ہے لیکن اس نے سرٹیفکیٹ ہونا ضروری بتلایا ہم نے کہا کہ اوپر آفس میں مل کر مزید تصدیق کر لیتے ہیں۔ بادل ناخواستہ وہ راضی ہوا اور ہم اوپر گئے۔ وہاں کئی لوگ موجود تھے ایک فرانسیسی نوجوان کاؤنٹر پر درخواستیں اور پاسپورٹ وغیرہ لے رہا تھا۔ ہم نے اپنا پاسپورٹ بتا کر ویزاءِ فرانس کی خواہش کی۔ اس نے بھی کہا کہ سفارت ہند کا نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمارے ہندوستانی پاسپورٹ میں فرانس کا نام لکھا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ہند کو ہمارے فرانس جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر اعتراض ہوتا تو وہ فرانس کا نام پاسپورٹ میں سے کاٹ دیتی۔ اس نے کہا ہمارا جواب صحیح سہی لیکن وہ مجبور ہے اس لئے کہ اس کو اوپر سے ایسے ہی احکام ملے ہیں۔ پھر ہم نے پوچھا کہ سفارت ہند اس طرح کے سرٹیفکیٹ دینے میں کوئی پس و پیش تو نہیں کریگی۔ تو اس نے کہا کہ ان کے پاس سائیکلو اسٹائلیڈ فارم ہیں وہ مکمل کر کے دے دیں گے۔ ہم نے اس سے ویزا کی درخواست کا فارم لے لیا اور ہم تینوں مل کر ہندوستانی سفارت خانہ پہونچ گئے۔ اس وقت ایک بج رہا تھا۔ متعلقہ خاتون کے پاس گئے۔ اپنی ضرورت بتائی اور اس کے کہنے پر فرسٹ سکریٹری سفارت ہند کے نام نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لئے درخواست دے دی۔ اس نے ہمارا پاسپورٹ اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے لیا۔ اور اس میں دیکھا کہ ہم قاہرہ سے روم ، روم سے زیورک اور زیورک سے پیرس جا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ جب ہم قاہرہ سے راست پیرس نہیں جا رہے ہیں تو پھر روم سے فرانس کا ویزا کیوں نہیں لے لیتے۔ وہاں بھی ہندوستانی مشن ہے ہم نے کہا کہ قاہرہ میں زیادہ ٹھیر گئے ہیں اور ہم کو یہاں سہولت بھی ہے ویسے ایک آدھ مقام پہلے ہی ویزا لے لینا مناسب ہے۔ اس نے کہا کہ وہ نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ مرتب کر دیتی ہے لیکن شاید فرسٹ سکریٹری صاحب اعتراض کریں۔ سرٹیفکیٹ ہماری درخواست۔ پاسپورٹ اور ہمارا ٹکٹ فرسٹ سکریٹری صاحب کے پاس بھیج دیا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا اٹنڈنٹ آیا اور کہا کہ فرسٹ سکریٹری صاحب نے مجھے بلایا ہے۔ میں جب ان کے کمرے میں گیا تو فرسٹ سکریٹری صاحب (مسٹر ام۔ ال سرین) نے انتہائی خوش اخلاقی سے کھڑے ہو کر میرا خیر مقدم کیا۔ اور بہت ہی شستہ اردو میں مخاطب ہوئے۔ کہا کہ ’’تشریف رکھیں ‘‘ اتنی اچھی اردو وہ بھی قاہرہ جیسے مقام پر طبیعت بحال ہو گئی۔ ان سے اسی زبان میں باتیں ہونے لگیں۔ جسے ہم حیدرآباد میں بولتے ہیں۔ سرین صاحب نے نہ صرف ہمارا کام فوری کر دیا بلکہ ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتے رہے اور جب یہ معلوم ہوا کہ ہماری بیوی نیچے بیٹھی ہوئی ہیں تو اپنے آدمی سے کہہ کر ان کو بھی اپنے کمرے میں بلا لیا۔ اور کھڑے ہو کر ان کا بھی خیر مقدم کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اطمینان سے سفر کریں اگر یورپ میں بھی ہم کو کوئی تکلیف ہو تو وہ ہماری مدد کرنے کو تیار ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم کو لندن جا کر وہاں سے ہمارے بچوں کے پاس کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ جانا ہے۔ نہیں معلوم لندن میں ہم کو کیا دقت پیش آئے۔ انہوں نے کہا کہ یو۔ کے کی یہاں کی ایجنسی پرمٹ دیتی ہے۔ اس کے لئے ہم کو ایک درخواست مکمل کرنی پڑے گی۔ انہوں نے از راہ کرم اپنے آفس ہی سے دو فارم درخواست کے منگوا کر دئے۔ ان کے اٹنڈنٹ معبود کو بلایا اور پوچھا کہ ہم کو سفارت برطانیہ سے کتنے وقت میں ’’ویزا انٹری پرمٹ دلا سکو گے ‘‘اس نے کہا کہ ایک دن میں۔ گھڑی دیکھ کر بولا کہ اب تو وقت ختم ہو گیا ہے۔ وہ دوسرے دن دلا دے گا۔ ہم نے کہ دیا تھا کہ ۱۵/ کو اسکندریہ جا رہے ہیں اس لئے بات ۱۶! پر رہی۔ بعد میں فرسٹ سکریٹری صاحب نے کہا کہ معبود اکثر انگلش ایجنسی جاتے رہتے ہیں۔ اس لئے وہاں کئی لوگوں سے ملاقات ہو گئی ہے۔ اور کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ ۱۶! کو جب ہم آئیں گے تو وہ معبود کو ہمارے ساتھ کر دیں گے۔ لیکن ہمارا کام ہو جانے کے بعد ان کو انڈین ایمبسی لا کر چھوڑ جائیں۔

۱۵ ، ۲۰ منٹ فرسٹ سکریٹری سے گفتگو کر کے وہاں سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ حاصل کر کے خوشی خوشی اپنے مقام کو واپس ہوئے۔ ہماری ہوٹل سے قریب ہی ایک ملک بار میں بیوی ، نجیب صاحب اور میں نے مل کر بیکری سے لئے ہوئے بن اور اسٹاکس اور دہی کھایا۔ نجیب صاحب کی اس وقت بھی خواہش تھی کہ وہ ہم کو قاہرہ کے تعلق سے کچھ اور معلومات بہم پہونچائیں۔ لیکن تین بج رہے تھے ہم ان سے رخصت ہو کر اپنے کمرے پر آئے اور آرام کرنے لگے۔ انہوں نے راستہ میں کہا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو الاہرام اخبار کے بعض نمائندوں سے بات کر سکتے ہیں۔ ہم نے جواب دیا کہ ہم ٹورسٹ ویزا پر ہیں۔ جرنلسٹ کچھ پوچھ بیٹھیں اور ہم ان کو کچھ جواب دیں تو یہ بات ہمارے ویزا کے خلاف پڑے گی۔

 

۱۵/ ستمبر کی صبح کو ہم قاہرہ سے اسکندریہ ایرکنڈیشنڈ ٹرین سے گئے۔ ہم سکنڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ یہاں کی نشستیں اور کمپارٹمنٹ وغیرہ ہم کو بہت اچھے دکھائی دئے۔ سیٹ کے اوپر کے حصہ پر جہاں سرٹیکا جاتا ہے۔ سفید غلاف لگائے گئے تھے ان کو آسانی سے دھو کر بدلا جا سکتا ہے۔ سیٹ کے سر کے حصہ کی طرف دائیں بائیں سر کو سہارا دینے کے لئے ہر دو طرف کچھ گدے پڑے ہوئے ہیں۔ اس سیسر کو سہارا دے کر آپ سو بھی سکتے ہیں۔ اس سے آپ کا سر حالت خواب میں بازو والے کے کاندھے یا گود میں نہیں جائے گا۔ ہر کمپارٹمنٹ کے ختم پر بیت الخلاء ہے اور اس میں واش بیسن بھی۔ پائخانہ میں فلش کرنے کے لئے اور واش بیسن میں پانی لینے کے لئے آپ کو پاؤں سے ایک سلاخ دبانا پڑتا ہے۔ واش بیسن میں پانی فوارہ کی طرح آتا ہے۔ بیت الخلاء سے باہر ایک واٹر کولر کا خانہ ہے۔ اس میں ٹوٹی اور اس کے نیچے گلاس رکھی ہے۔ پانی ٹھنڈا ہے آپ جتنا چاہیں پی سکتے ہیں۔ ایک دروازے کے قریب ایرکنڈیشنر کے تیر لگے ہیں اور ایک میں سبز روشنی نمایاں ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایرکنڈیشنر کام کر رہا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ قاہرہ شہر ختم ہوتے ہی ریلوے لائن کے ہر دو طرف ہرا بھرا شرع ہو گیا۔ اسکندریہ قاہرہ سے شمال میں ۲۲۵ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے تقریباً یہ پورا حصہ ہرا بھرا ہے۔ جو فصلیں کھڑی تھیں بیوی کے بیان کے مطابق۔ باجرہ۔ راگی لچھنا کی ہیں۔ فصلیں تیار تھیں۔ اور کہیں کہیں ان کی کٹائی بھی ہو رہی تھی۔ گیہوں بھی کئی جگہ بویا گیا تھا۔ لیکن وہ ابھی ہرا تھا۔ کپاس کی چنوائی بھی کئی جگہ ہو رہی تھی۔ تقریباً ایک ہی جگہ ایک دوسرے سے قریب بیٹھ کر پندرہ ، بیس آدمی کپاس چنتے ہیں۔ وہاں کی کپاس ختم ہو جائے تو آگے بڑھتے ہیں۔ باولیاں اور ان میں سے پانی لینے کا طریقہ دونوں عجیب سے دکھائی دئے۔ غالباً پانی بالکل اوپری سطح پر موجود ہے پہئیے جن میں پانی لینے کے لئے ڈبے بھی بنادئے گئے ہیں۔ چھوٹے اور گول گول ہیں۔ یہ پہئیے عام طور پر خچر سے گھمائے جا رہے تھے۔ پانی کہاں گر رہا تھا دکھ نہیں رہا تھا۔ باولیاں بھی معلوم ہوتا ہے چھوٹی چھوٹی ہیں۔ موٹر پمپ ہم کو صرف ایک جگہ دکھائی دیا۔ وہاں نہر میں پائیپ دال کر پانی لیا جا رہا تھا۔ ایک حصہ میں ہم کو نہر بھی دکھائی دی۔ یہ نہر ۲۰ ، ۲۵ کیلو میٹر تک ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بہہ رہی تھی۔ ان میں کئی کشتیاں تھیں۔ جن پر بادباں بندے ہوئے تھے ان میں بڑے بڑے کھمبے لگے تھے۔ ان کشتیوں میں پتھر اور ریت بھر کر ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل کیا جا رہا تھا۔ کئی جگہ ہم نے دیکھا کہ ریت اور پتھر جمع کئے گئے ہیں تا کہ ان کو کشتیوں میں بھرا جائے۔

ا سکندریہ سے قبل سدی جابر پر بہت سے مسافرین اتر گئے۔ سدی جابر بھی اسکندریہ شہر ہی میں ایک ریلوے اسٹیشن معلوم ہوتا ہے۔ ہم قاہرہ سے ۸ بجے صبح نکلے تھے اسکندریہ ۱۲ بجے دوپہر میں پہنچے۔ سب سے پہلے ہم نے واپسی کا ریزرویشن کرا لیا۔ واپسی کا ٹکٹ ہم نے قاہرہ ہی میں لے لیا تھا۔ ہم کو رات کی =۹۱۰ کی ٹرین میں جگہ ملی۔ ایک ٹیکسی والے صاحب ہمارے پاس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ایکوریم لے جانے اور بیچ پر گھمانے کے لئے کیا لو گے۔ اس نے ۲۰ پونڈ کہے۔ یہ غیر معمولی مطالبہ تھا۔ ہم پونڈ ڈیڑھ پونڈ دے کر دیکھنے کے لئے شاید تیار ہو جاتے۔ ان کے اتنے بڑے مطالبہ پر ہم بالکل خاموش ہو گئے۔ ریلوے اسٹیشن کے سامنے ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ ایک چائے خانہ میں چاء پی۔ یہاں مطعم (جہاں کھانا ملتا ہے ) اور چائے خانے علیحدہ ہوتے ہیں۔ چائے خانے میں ایکویریم کو کونسی ٹرام جاتی ہے اس کا پتہ چلا کر ہم ٹرام کے اسٹاپ پر گئے۔ از راہ کرم اس چائے خانے سے ایک مصری عرب بھی ٹرام کے اسٹاپ تک آئے۔ اور ہم کو صحیح ٹرام میں بٹھا کر کنڈکٹر سے کہہ دیا کہ فلاں اسٹاپ پر ہم کو اتار دیں۔ جہاں سے ہم کو ایکویریم جانا ہے۔ ٹرام کے کرائے میں ہمارے صرف Piestres چار قرش گئے۔ ٹرام سے اتر کر ہم کو کچھ دور ایکویریم دیکھنے کے پیدل جانا پڑا۔ ایکویریم دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ میں زندہ مچھلیاں رکھی ہیں۔ دوسرے حصہ میں جس کو ایک سڑک عبور کر کے پہونچنا پڑتا ہے۔ مچھلیوں کے ڈھانچے۔ تصویریں اور مجسمے رکھے گئے ہیں دوسرا حصہ ایک پرانے قلعہ کی نچلی منزل میں واقع ہے۔ ایکویریم کچھ خاص نہیں ہے۔ اس سے بہتر ہمارے پاس بمبئی اور مدراس میں موجود ہیں۔ ایکویریم سے ہم سائے سائے میں بیچ ساحل کی سڑک کے عمارتوں والے حصے سے ۴، ۵ کیلو میٹر سمندر کا منظر دیکھتے ہوئے پیدل ہی چلتے رہے۔ ساحل پر متعدد ہوٹل اور چاء خانے ہیں۔ ایک چاء خانے میں جن کی ۹۰ فیصد کرسیاں اور میز فٹ پاتھ پر رکھے ہوئے تھے بیٹھ کر چائے پی اور بہت دیر تک ساحل اور ساحل کی سڑک پر زبردست ٹرافک کا لطف اٹھاتے رہے۔ بعد میں بس میں بیٹھ کر پورٹ کے قریب گئے اور وہ حصہ دیکھا جو ہم نے ۱۷!جون ۱۹۷۳ء کو ایتھنز سے بیروت جاتے ہوئے پورٹ سے باہر نکل کر دیکھا تھا۔ بعد میں چلتے ہوئے بڑی مارکٹ کی طرف گئے۔ یہاں ہر قسم کی چیزیں ملتی ہیں۔ راستہ میں کئی جگہ لوگوں  نے ہم کو ہندی کہہ کر مخاطب کیا۔ اور کچھ بات کرنی چاہی ہم  نے بھی کچھ عربی الفاظ میں گفتگو کرنے کی کوشش کی۔ یہاں بھی یہ معلوم ہوا کہ وہ ہندوستانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہاں ہم نے محمد علی پاشاہ کے مجسمے کی فوٹو لی۔ ساحل کے قریب ہم نے سید زغلول پاشاہ کے مجمسے کی فوٹو لی تھی۔ مارکٹ ہی میں ایک مطعم خانہ میں بیٹھ کر ہم نے کھانا کھایا۔ اس وقت تقریباً شام کے ۵ بج رہے ہمارا ایسا خیال ہے کہ اس طعام خانے والے نے ہم سے کچھ زیادہ ہی دام لئے۔

ا سکندریہ شہر میں بمقابلہ قاہرہ بہت کم ٹرافک ہے لیکن ساحل سمندر پر جوسڑک گئی ہے اس پر آمد و رفت غیر معمولی ہے۔

مارکٹ سے ٹہلتے ہوئے ٹہلتے ہم ریلوے اسٹیشن آئے اور رات نو بج کر ۱۵ منٹ کی ٹرین سے نکل کر قاہرہ رات میں ایک بجے یعنی ۱۶/ کی صبح کو پہنچے۔ راستے میں بعض بڑے مقامات ملے ان میں اتنی دیر گئے بھی چہل پہل دکھائی دی۔ قاہرہ میں رام سیس چورا ہے پر اس وقت بھی ٹرافک جاری تھی۔ اور بعض دوکانوں میں خرید و فروخت بھی ہو رہی تھی۔ رام سیس اسکوائیر ہی پر قاہرہ کا بڑا ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔ ہم پانچ سات منٹ میں چل کر اپنی ہوٹل پہونچ گئے۔

۱۶/کو ہم نے پہلے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ دے کر فرانس کا ویزا حاصل کیا۔ اس کے بعد ہندوستانی سفارت خانہ گئے کہ معبود کو لیکر برطانیہ کی سفارت کو جائیں۔ لیکن اس وقت معبود نہیں تھے۔ فرسٹ سکریٹری جناب سرین صاحب نے کہا کہ ہم خود وہاں چلے جائیں اگر کچھ دقت ہو تو ہم ان کو وہیں سے ٹیلی فون کر دیں وہ متعلقہ انگلش آفیسر سے بات کر کے ہماری مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔ سفارت برطانیہ میں متعلقہ آفیسر نے ہم سے کافی سوال جواب کئے ہم نے حتی الامکان ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے بتایا کہ ہم سیاح کی حیثیت سے انگلینڈ جا رہے ہیں وہاں سے ہم کو کینیڈا وغیرہ جانا ہے۔ ہم انگلینڈ میں ٹھیرنا نہیں چاہتے۔ بہرحال بڑی مشکل سے ہم کو انٹری پرمٹ مل گیا۔ ہم نے انگلش آفیسر کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ وہیں سے ہم نے سرین صاحب کو ٹیلی فون پر بتا دیا کہ کئی سوال و جواب کے بعد ہم کو بالاخر برطانیہ کا انٹری پرمٹ مل گیا ہے۔ ان کے تعاون عمل سے بھی شکریہ ادا کر کے ہم نے ان کو خدا حافظ کہا۔

کل ہماری پرواز T.W.A سے روم کے لئے ہے۔ نہیں معلوم گوشت کس قسم کا دیا جائے ہم ان کی ایرلائنز آفس کو گئے اور کہا کہ اگر ممکن ہو تو ہم کو کل انڈا اور مچھلی دئے جائیں۔ ورنہ ہم صرف ترکاری سے بنی ہوئی چیزیں کھائیں گے۔ کاؤنٹر والے شخص نے ٹیلی فون کر کے متعلقہ شخص کو ہماری خواہش بتا دی۔

شام میں نجیب صاحب آئے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ دیر کیلئے میں باہر گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کر کے واپس آ گیا۔

جمعہ۔ ۱۷/ ستمبر ۱۹۷۶ء

آج صبح میں ، میں ساڑھے چار بجے سے پہلے ہی اٹھ گیا۔ ہماری منزل (فلور) کے نگرانکار کو میں ساڑھے چار کو  اٹھانے کے لئے کہا تھا۔ اس نے ٹھیک وقت پر ہمارے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھول کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ تھوڑی دیر میں ناشتہ منگوایا۔ تو حسب معمول اس وقت بھی ناشتہ آ گیا روٹی ، مسکہ ، اور جام۔ کھانے کو طبیعت مائل نہ تھی۔ میں نے صرف کیک کھا لیا۔ اور ہم دونوں نے چائے پی۔ سامان لے کر باہر نکلے تو اٹنڈنٹ نے جلدی میں دروازہ بند کر دیا۔ کمرے کی کنجی اندر ہی رہ گئی۔ غنیمت کہ ہمارا پورا سامان باہر نکل گیا تھا۔ ہم سامان لے کر بس اسٹاپ پر آئے۔ ہر آدھ گھنٹے سے ۴۰۰ نمبر کی بس تحریر اسکوائیر سے مطار (ایرپورٹ) جاتی ہے۔ رام سیس اسکوائیر پر بھی اس کا اسٹاپ ہے۔ وہاں ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا کہ ایرپورٹ (مطار) چھوڑنے کا کیا لو گے تو اس نے کہا کہ میٹر کے حساب سے۔ ہم نے پوچھا کہ اندازاً میٹر کیا ہو گا۔ تو اس نے ۸۰ قرش بتائے۔ بعض وقت یہ ٹیکسی والے فی پاسنجر ۲۰ قرش لے کر ایر پورٹ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم اس ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ اتنے میں ایک مصری صاحب نے آ کر کہا کہ ان کا مقام بھی ایرپورٹ کے راستے پر ہے کیا ہم ان کو ٹیکسی میں بیٹھنے کی اجازت دیں گے۔ ہم نے کہا کہ وہ خوشی سے بیٹھ سکتے ہیں۔ وہ انگریزی کافی صاف بول رہے تھے اس لئے ہم ان سے راستہ میں مصروف تکلم ہو گئے۔ وہ کوئی دواؤں کی دوکان چلاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بچپن میں انھوں نے انگریزی خوب پڑھی تھی۔ اس کے بعد بھی انگریزی سے ربط رکھنے کیلئے اکثر انگریزی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ ان کا تعلق زیادہ تر یورپینوں سے رہتا ہے۔ اس لئے انگریزی بولنے کی مشق ہو جاتی ہے۔ میں نے جب پوچھا کہ مصریوں کی عام حالت کیسی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ آپ جانتے ہیں کہ ہم پر کئی دفعہ برے وقت گزرے ہیں ‘‘۔ میں نے پوچھا کہ نہر سوئیز کے کھل جانے کی وجہ سے معاشی حالت میں کوئی فرق ہوا ہے۔ تو انھوں نے جواب دیا ’’ میں نے تو کچھ محسوس نہیں کیا‘‘۔ مسجد جمال عبدالناصر سے گزرے تو انہوں نے اس کو بتایا اور کہا کہ وہ یہاں مدفون ہیں۔ میں نے کہا کہ جمال عبدالناصر بہت مقبول تھے۔ تو انھوں نے اس کا جواب دئے بغیر کہا کہ انور سادات کافی مقبول ہیں۔

صبح صبح جب ایرپورٹ آ رہے تھے تو ہم کو قاہرہ شہر کی عظمت کا پتہ چل رہا تھا۔ سیدھی، سیدھی۔ صاف ! صاف سڑکیں۔ دو رویہ اونچے اونچے اور پختہ مکانات ، سڑک کے بیچ میں اور دونوں طرف فٹ پاتھ پر سایہ دار درخت کافی اچھا منظر پیش کر رہے تھے۔ دن میں ٹرافک کی گڑبڑ میں یہ چیزیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ جب ایرپورٹ پر ٹیکسی رکی تو ہم نے دیکھا کہ میٹر میں ۶۴ یا ۶۵ قرش تھے۔ غالباً ڈرائیور نے یہ سمجھا کہ ہم عربی اعداد سے واقف نہیں۔ اس  نے فوراً میٹر الٹ دیا۔ اور جیسا کہ اس نے ہمیں اندازہ بتایا تھا کہ ہم سے ۸۰ قرش کا مطالبہ کیا۔ ہم نے یہ پیسے اس کو چپکے دے دئے۔

ایرپورٹ پر T.W.A کے کاؤنٹر پر ہمارا سامان تل گیا۔ کاؤنٹر والے نے ہمارا Embarkation سوار ہونے کا کارڈ خود ہی لکھ دیا۔ ہم سے پوچھا کہ کس حصہ میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔ اسموکنگ یا نان اسموکنگ ہم نے پوچھا کہ نان اسموکنگ حصہ کس طرف ہے اس نے کہا کہ سامنے کی طرف۔ ہم نے نان اسموکنگ حصہ میں اپنی نشستیں لے لیں۔ امیگریشن بھی آسانی سے ہو گیا۔ ہمارا ہوائی جہاز لیٹ ہو گیا ہے۔ قاہرہ ایرپورٹ پر بیٹھ کر ہم یہ روزنامچہ لکھ رہے ہیں۔ اس وسیع Stiling Lounge پر سیکڑوں کرسیاں پڑی ہیں۔ یہاں دو اسناک بارس ہیں جہاں چائے کافی ، بیر ، موسمبی ، اور لیمو اور گاجر کا شربت بھی سپلائی کیا جا رہا ہے۔ ہم نے موسمبی کا شربت پیا مزے میں اچھا تھا۔ لیکن گلاس چھوٹا اور قیمت ۱۵ قرش فی گلاس۔ ایک قرش ہمارے تقریباً ۱۱ پیسے کے مساوی ہوتا ہے۔

ہم نے ایرپورٹ پر اپنے بچے ہوئے مصری پونڈ کو امریکی ڈالرس میں تبدیل کرا لیا اس کے لئے ہم کو تھامس کوک کی وہ رسید بتانی پڑی جس کے ذریعہ ہم نے اپنے امریکی ڈالرس کے ٹراویلر چک بھنائے تھے۔ ہم کو مصری پونڈ خریدتے وقت فی ڈالر ۶۷ پیسٹر (قرش) ملے تھے۔ اور اب چوبیس ڈالر خریدتے وقت ۶۹ پیسٹرا میں ہم کو ایک ڈالر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ہر دو وقت ۴۰، ۴۰ پیسٹرے کے رسیدی اسٹامپ کا خرچ ہم کو برداشت کرنا پڑا۔

اس وقت ایرپورٹ لانج کی صفائی دو افراد کر رہے ہیں۔ ایک لڑکی جھاڑو سے کچرا وغیرہ اٹھا رہی ہے اور ایک مرد مشین کے ذریعہ گرد وغیرہ کی صفائی کر رہا ہے۔

Hotel Pensione Azquarium   Piazza Manfredo Fanti, 10-10 P-C.Ac Quario Stazione

Termini roma (Rome) Italy   Tel No - 737927

شنبہ۔ ۱۸/ ستمبر ۱۹۷۶ء۔ ہم اتنا لکھنے پائے تھے کہ قاہرہ ایرپورٹ پر ایک آدمی نے آ کر پوچھا کہ TWA کے کوئی مسافر ہیں۔ میں سنتے ہی کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اب ہوائی جہاز اڑنے والا ہے۔ ہم کیوں سوار نہیں ہوئے۔ ہم نے کہا کہ ہم دو مرتبہ جا کر اناؤنسر سے پوچھ چکے ہیں۔ اس نے ’’ ابھی نہیں ‘‘ کہا۔ اور اس کے بعد سے کوئی اعلان ہم نے TWA کام روم کے لئے نہیں سنا۔ بھاگتے ہوئے گئے۔ سکیوریٹی باکس میں صرف دو سلپ دے دی گئیں۔ ایرپورٹ بس کسی اور ہوائی جہاز کے پاسنجروں کو لینے کیلئے کھڑی تھی۔ لیکن T.W.A کے آدمی نے کہہ کر اس کو T.W.A ہوائی جہاز کی طرف دوڑایا۔ جب ہم پہنچے تو سیڑھی ہٹا دی گئی تھی اور ہوائی جہاز کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن ہمارے آدمی نے پائلٹ کو پہلے سے اشارہ کر دیا تھا۔ بہرحال سیڑھی لگی۔ دروازہ کھلا اور ہم آخری دو پاسنجر تھے جو ہوائی جہاز میں داخل ہوئے اگر دو منٹ کی اور دیر ہوتی یا ہم اس آدمی کی آواز کو نہ سنتے تو ہمارا سامان روم پہنچ جاتا اور ہم قاہرہ ہی میں رکے رہتے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہم سے غفلت ہوئی دو مرتبہ پوچھنے کے بعد ہم بہت دیر تک اناؤنسر کے پاس نہیں گئے جیسا کہ T.W.A کے آدمی نے کہا اناؤنسمنٹ ضرور ہوا ہو گا۔ اور غالباً وہ ایتھنز کے نام سے ہوا ہو گا۔ ہم ذہن میں روم بٹھائے ہوئے تھے۔ لیکن یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ اعلان دو تین مرتبہ کیوں نہیں ہوا۔ ہم نے بمبئی میں دیکھا ہے کہ ایک ہی فلائٹ کا کئی مرتبہ اعلان ہوتا ہے۔ اگر کوئی پاسنجر سیٹ نمبر لے کر سوار نہ ہو تو پھر اس کا نام لے کر پکارا جاتا ہے۔ اس تجربہ نے یہ بتایا کہ ہم کو بہت چوکنا رہنا چاہئے۔

ایرلائنز والے سوار ہوتے وقت سامان کی رسیدیں دیتے ہیں۔ جتنے عدد سامان ہو گا اتنے ہی سلپ دئے جائیں گے۔ لیکن منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد سامان لیتے وقت یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ سامان لینے والے کے پاس ان سامانوں کی رسیدیں بھی ہیں یا نہیں۔ یعنی یہ کہ مالک موجود نہ ہو اور کوئی دوسرا سامان لے کر چلا جائے تو ایر لائنز والے اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں سمجھیں گے۔ ایرپورٹ پر اترنے کے بعد اپنے سامان کی خود دیکھ بھال کر کے چن لینا پڑتا ہے۔

T.W.Aکا جہاز بہت بڑا تو نہیں تھا لیکن نشستوں کی قطاروں کے درمیان جگہ کافی کشادہ تھی۔ مجھ جیسے طویل القامت لوگ بھی اپنے پاؤں پورے طور پر دراز کر سکتے تھے۔ پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ جہاز ایتھنز جائے گا۔ اس کی پرواز کی انتہائی بلندی ۳۵ ہزار فیٹ تک جائے گی۔ آکسیجن کی کمی ہو تو اس کی تھیلی سامنے نمودار ہو گی۔ اس کا اور ایر بیاگ کا استعمال کس طرح کرنا چاہئے ایرہوسٹس نے عملی مظاہرہ کر کے بھی مسافروں کو بتلایا۔

پہلے پھلوں کا رس۔ اس کے بعد ناشتہ پھر حسب خواہش چائے یا کافی دی گئی۔ جب ہم بحر روم سے گزر رہے تھے تو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ابر کے چھوٹے چھوٹے پہاڑ ہیں جو سمندر کے پانی پر ٹکے ہوئے ہیں۔ ہم بادلوں سے بہت اوپر اڑ رہے تھے۔ جب ہمارا جہاز ایتھنز ایرپورٹ پر اترا تو ہم کو خیال آیا کہ ۱۲/ اور ۱۴ جون ۱۹۷۳ء کے درمیان کسی دن یہاں آ کر بہت دیر تک ہوائی جہاز کا اترنا اور اڑنا دیکھتے رہے تھے۔ آدھ گھنٹہ یہاں ٹھیرنے کے بعد ہمارا ہوائی جہاز روم کے ایرپورٹ پر اتر پڑا۔ اس وقت روم کا وقت ۱۲ بجے دن تھا۔ پاسپورٹ وغیرہ دیکھنے کے چار بوتھ ہیں اور ہر بوتھ پر دو کاؤنٹر ہیں۔ ایک بوتھ بند تھا اور تین بوتھ پر بھی صرف ایک ایک آدمی ہی پاسپورٹ اور ویزا وغیرہ کی تنقیح کر رہا تھا۔ مسافرو ں کی تینوں قطاریں کافی لمبی لگی تھیں اور کام جلد نہیں سرک رہا تھا۔

امیگریشن کے بعد ہم اپنا سامان لے جب کسٹم کے پاس گئے تو وہاں اشارے سے کہا گیا کہ ویسے ہی چلے جائیں۔ باہر آ کر ہم نے اپنی ضرورت کے لحاظ سے امریکی ڈالر کے چند سفری چک تڑائے۔ ۱۷! مارچ کو نرخ فی ڈالر ۸۳۶ اٹلی لیرا تھا۔

Banco di Santo Spireto نے بھنانے کا کمیشن دو سولیرا لیا۔

ایرپورٹ اور روم شہر کے بڑے ریلوے اسٹیشن ( جس کے ایک حصہ میں مختلف ایرلائنس کے دفاتر ہیں اور جہاں ایر ٹرمنل کے بورڈ لگے ہیں ) کے درمیان بسیں دوڑتی ہیں۔ اس کا فی پاسنجر کرایہ ایک ہزار لیرا ہے اس کے ہمارے تقریباً ۱۲ روپئے ہوتے ہیں۔ ایرپورٹ شہر سے کافی دور ہے۔

جب ہم شہر میں داخل ہو گئے تو دیکھا کہ بڑے بڑے بازار ہیں جو بند پڑے ہیں سڑک پر دو رویہ اکثر موٹریں پارک کی ہوئی ہیں۔ یہاں دوپہر میں دوکانیں بند کر دی جاتی ہیں۔

جب ہم ایر ٹرمنل یعنی شہر کے ریلوے ٹرمینس اسٹیشن پہنچ گئے تو ہوٹل کے کمرے کے لئے ہوٹل ریزرویشن کے کاؤنٹر پر گئے۔ کاؤنٹر والی عورت کافی مصروف دکھائی دی۔ ریلوے اسٹیشن کے دوسرے سرے پر بھی اسی طرح کا ایک ریزرویشن کاؤنٹر ہے۔ وہاں کے متعلقہ شخص نے ہمارے لئے ہوٹل اور Pensionsکے کافی پرچے دیکھے اور دو بستر والے کمرہ کے انھوں نے فی یوم کم از کم ۵۰۰،  ۱۱ لیرا اور اس پر ۹ فیصد ڈیوٹی چارجس بتائے وہ ہمیں بہت لگے۔ اس کے بعد ہم پھر اسی عورت کے پاس آئے۔ اسی نے بھی ۱۲ ہزار وغیرہ بتائے ہم نے کہا کہ سستے کمرے مشترکہ باتھ روم کے ساتھ بتائے جائیں اس نے ایک جگہ ٹیلی فون کر کے کہا کہ ۵۰۰،  ۱۰ لیرا فی یوم بغیر خاص باتھ روم کے۔ بصورت مجبوری ہم نے قبول کر لیا۔ اس نے ہم سے پانچ ہزار لیرا مانگے اور اس کی رسید دی اور رسید پر Pensione Acquarium کا نام لکھ دیا اور اشارہ سے بتایا کہ وہ بازو میں ہی ہے۔ اور یہ کہہ دیا کہ جب پنسین والے کو ۵۰۰،  ۱۰ فی یوم کے حساب سے بل دیں تو اس میں سے یہ پانچ ہزار لیرا وضع کر لیں۔ اس رسید پر یہ بھی لکھ دیا کہ ہم کم از کم چار راتیں اس Pensione میں ٹھیرنے والے ہیں۔ یہ اس نے ہم سے پہلے ہی پوچھ لیا تھا۔ یہ پنسین ایرٹرمینل سے بڑی مشکل سے سو قدم پر لب سڑک ہے ہم کو کمرہ تیسری منزل پر ملا ہے۔ لیکن لب سڑک ہونے کی وجہ سے ٹرافک کی آواز کافی آتی رہتی ہے۔ کمرہ اور بستر بہت صاف ستھرے ہیں۔ باتھ روم گو مشترک ہے۔ لیکن بہت ہی صاف ستھرا W.C اور نہانے کا ٹب ایک ہی میں ہے۔ ہمارے ونگ میں ایسے دو باتھ روم ہیں۔ اگر ایک مصروف ہو تو دوسرے میں جا سکتے ہیں۔ گرم پانی چوبیس گھنٹے موجود ہے۔ بعض وقت پانی اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ اگر ٹھنڈے پانی کا نل نہ کھولا جائے تو ہاتھ جل جائے گا۔ اگر گرم پانی کا نل کھول کر بند کر دیا جائے اور اس کے بعد ٹھنڈے  پانی کا نل کھولا جائے تو پہلے گرم ہی پانی آئے گا اور اس سے بھی ہاتھ جلنے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے ٹھنڈے پانی کا نل کھول کر تھوڑی دیر انتظار کریں اور جب نل کا رکا ہوا گرم یا ٹھنڈا پانی گر جائے تو ویسے ہی یا پھر گرم پانی کا نل بھی کھول کر پانی کا استعمال کریں۔

۱۷! کی شام میں ہم اسٹیشن کے سامنے والے حصہ میں گھومتے رہے۔ ریلوے اسٹیشن کافی بڑا ہے۔ ٹرینوں کے پلیٹ فارم سے نکلتے ہی ایک بہت بڑا ہال ہے جو ہمارے بمبئی کے ہالوں سے بھی بڑا دکھ رہا تھا۔ اس ہال کے ایک طرف کئی دوکانیں لگی ہیں اور اچھی طرح سجائی گئی ہیں۔ ایک طرف دو رسٹورنٹ ہیں جن کی کرسیاں اور میزیں اس وسیع ہال کے ایک حصہ میں جمائی گئی ہیں۔ اس ہال سے مسافرین تین طرف جا سکتے ہیں۔ سیدھے اور بائیں سے نکلیں تو وہ الگ الگ سڑک پر آتے ہیں۔ اور سامنے نکلیں تو ایک بڑا ہال ہے جس میں بیس بائیس ٹکٹ کاؤنٹر ہیں۔ بعض کاؤنٹر پر اس دن کے ٹکٹ (ریل کے ) بکتے ہیں اور بعض پر آئندہ دنوں کیلئے۔ قاہرہ کی طرح ہم نے یہاں بھی دیکھا کہ ایک بڑا مشین ہر کاؤنٹر پر تھا۔ جب آپ کسی مقام کا ٹکٹ چاہتے ہیں تو کاؤنٹر والا ٹکٹ کلرک اس مشین کا کانٹا گھماتا ہوا اس مقام کے نام پر لے آتا ہے۔ اور پھر وہ ایک کھٹکا دباتا ہے اس کے ساتھ ہی اس مقام کا ٹکٹ سامنا آ جاتا ہے۔ اس کا نمبر وغیرہ ایک پرچہ پر لکھ کر اور جس تاریخ کے لئے ٹکٹ ہے وہ مشین سے پنچ کر کے بعد حصول رقم مسافر کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہاں ریزرویشن کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی جب میں نے انگلش معلوماتی کاؤنٹر والے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اسکی ضرورت نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مسافرین کو جگہ مل جاتی ہے۔

جب کوئی ٹرین جانے والی ہوتی ہے تو گھنٹہ پون گھنٹہ پہلے ہی نوٹس بورڈ پر کسی مشین کے ذریعہ اس کی اطلاع آ جاتی ہے۔ اس ٹرین کی منزل مقصود۔ اس کا نمبر۔ وقت کی روانگی اور کس پلیٹ فارم  سے نکلے گی درج رہتا ہے۔ جب ٹرین چھوٹ جاتی ہے تو یہ اطلاع غائب ہو جاتی ہے۔ اس نوٹس بورڈ پر آٹھ دس ٹرینوں کی اطلاع وقت واحد میں دینے کی گنجائش ہے۔

یہاں ہم کو ویٹنگ رومس دکھائی نہیں دئے۔ معلوم ہوا کہ پیشاب خانے اور پائخانے نیچے کی طرف ہیں۔ یہاں بیٹھنے کے لئے بنچ اور کرسیاں دکھائی نہیں دیں غالباً ویٹنگ روم کسی اور طرف ہوں گے ہمارا اس طرف جانا نہیں ہوا۔

۱۸! کو ہم بس میں بیٹھ کر روم میں گھومتے رہے۔ سڑکیں لانبی اور سیدھی ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر  چورا ہے ہیں۔ عمارتیں پختہ لیکن چار پانچ منزلہ سے زیادہ نہیں کئی رسٹورنٹ کے سامنے چھت پوش فٹ پاتھ پر کرسیاں اور میز رکھے ہوئے تھے۔ کئی لوگ شراب پتے ہوئے دکھائی دئے۔ ان کے علاوہ اسناک بارس ہیں جہاں لوگ کھڑے ہو کر شراب پیتے ہیں یا سیانڈویچس بنوا کر کھاتے ہیں یا پھر ساتھ لے کر سڑک پر چلتے ہوئے کھاتے ہیں۔ یہاں تربوز اور خربوزے کی ایک ایک قاش سو سو لیرا میں ملتی ہے۔ ایک سو لیرا کے ہمارے تقریباً ۱۱۰ پیسے ہوتے ہیں۔ ایک کافی کی پیالی کی قیمت بعض جگہ ۱۵۰ لیرا اور بعض جگہ ۱۸۰ لیرا ہے۔ یہ کھڑے ہو کر پینے کی ہے۔ اگر آپ کرسی پر بیٹھ کر بوائے کے ذریعہ منگوا کر پئیں تو شاید اس میں سروس چارجس شریک کئے جائیں اور آپ کو ٹپ علیحدہ دینی پڑے۔

روم میں چیزیں مہنگی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں مغزوالا اخروٹ جیسا ایک پھل ملتا ہے اس کا مزا ہمارے ہاں کے کاجو سے ملتا جلتا ہے۔ اس کو گرم توے پر بھن بھن کر دیتے ہیں۔ گرمی کی تپش سے پہلے سے کٹا ہوا منہ اور کھل جاتا ہے۔ اس سے خول کے نکا لینے میں سہولت ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے پاس بھنی ہوئی مونگ پھلی کھائی جاتی ہے۔ یہاں کے لوگ یہ کھاتے ہیں۔ اس خشک پھل کی کم از کم مقدار دوسو لیرا کی دی جاتی ہے۔ یہاں خول والی مونگ پھلی بھی ملتی ہے لیکن بغیر بھنی ہوئی اور پلاسٹک کے پوڑے میں بند۔ ایک اسٹور سے ہم نے ڈبل روٹی خریدی وہ ہم کو ۲۶۰ لیرا میں ملی۔ روٹی بہت اچھی اور اس کی پیکنگ بھی بہت خوب۔

یہاں موٹریں کافی تعداد میں ہیں۔ لیکن ایتھنز کے مقابلہ میں کم دکھائی دیں۔ لوگ بس اور ٹرامس میں بھی کافی تعداد میں سفر کرتے ہیں۔ لیکن ان میں اتنا ہجوم نہیں جتنا ہمارے پاس بسوں میں ہوتا ہے۔ ٹراموں اور بسوں میں نشستیں کم اور کھڑے ہونے کی جگہ زیادہ ہے۔ ان سواریوں کی عام حالت بہت اچھی ہے۔ بس اور ٹرام میں تین دروازے ہوتے ہیں۔ پچھلا دروازہ چڑھنے کے لئے بیچ کا اور سامنے کا دروازہ اترنے کیلئے۔ کنڈکٹر چڑھنے والے دروازے کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی ایک مخصوص نشست ہے۔ ہر چڑھنے والا اس کو پیسے دے کر ٹکٹ لے لیتا ہے۔ ہمارے ہاں کی طرح کنڈکٹر ایک سرے سے دوسرے تک چکر نہیں لگا رہتا ہے۔ ہم نے ایک ایسی بھی بس دیکھی جس میں کنڈکٹر ہی نہیں تھا۔ ایک مشین لگی ہوئی تھی جس میں دو سوراخ بنے ہیں ایک سو لیرے کے سکے کا اور ایک پچاس لیرے کا۔ اگر پچاس لیرے کا سکہ ڈالیں تو ٹکٹ باہر آ جائے گا۔ اور سو لیرے کا سکہ ڈالیں تو ایک حصہ میں ٹکٹ آئے گا۔ اور دوسرے حصہ میں پچاس لیرا کا سکہ۔ ہر بس اور ٹرام کا کرایہ ابتدائی اسٹیج سے آخری اسٹیج تک صرف پچاس لیرا ہے۔ آپ کسی اسٹیج پر اتر جائیں یا آخری اسٹیج تک چلے جائیں صرف پچاس لیرا ہی دینے پڑیں گے۔ ٹرام کے ابتدائی اسٹیج سے آخری اسٹیج تک کا فاصلہ کافی زیادہ معلوم ہوا۔ روم کو کئی ابتدائی اور انتہائی اسٹیجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک بس کا جو آخری اسٹیج ہو گا وہ کسی اور بس کا قدرے ہٹ کر ابتدائی اسٹیج ہو گا۔ اگر سفر لانبا ہو تو شاید دو تین اسٹیجوں پر بسیں بدل کر اسے پورا کرنا پڑے۔

St.Peter's Square اور اندر سے اس کا ڈوم دیکھا۔ یہ مقامات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسکوائیر اور ڈوم (گنبد) روم کی ایک لمبی اور سیدھی سڑک کے ختم پر ہیں۔ اسکوائیر کافی وسیع میدان پر مشتمل ہے۔ اس کے سامنے کی طرف ایک بہت بڑا چرچ (یا ڈوم) ہے۔ اس کے آزو بازو کچھ عمارت ہے۔ پچھلی طرف ایک سڑک ہے۔ جو دور تک چلی گئی ہے۔ کرسمس کے موقعہ پر نہ صرف اندر کا ڈوم اور باہر کا میدان بلکہ سامنے کی لانبی سڑک بھی عقیدت مندوں سے پوپ کے دیدار اور ان کے پیام کو سننے کیلئے بھر جاتی ہے۔ میدان (ا سکوائیر) کے بیچوں بیچ ایک اونچا مینار پتھر کا بنایا گیا ہے اس پر صلیب لگا ہے۔ اس مینار کے دونوں بازوؤں پر دو فوارے لگے ہیں جن سے پانی گرتا رہتا ہے۔ بعض لوگ اس میدان میں کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں۔ اس لئے سیکڑوں کبوتر یہاں جمع رہتے ہیں۔ سینٹ پیٹرس کا چھت پوش حصہ قابل دید ہے  جا بجا مجسمے ہیں۔ ان میں سے اکثر ان پوپوں کے ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ ان مجسموں کے دونوں جانب خوبصورت عورتوں جو (غالبا Nuns رہی ہونگی) کے مجسمے ہیں۔ بعض جگہ معلوم ہوتا ہے کہ پوپ یہیں مدفون ہیں۔ اوپری حصہ میں جو شیشے کے خول سے ڈھکا ہوا ہے۔ ان کے مجسمے کو ان کے اپنے مخصوص لباس میں لیٹایا گیا ہے۔ غالباً ان کی نعش نیچے کے حصہ میں ہو گی۔ اس کے علاوہ ساری عمارت نقش و نگار اور چھوٹے چھوٹے مجسموں سے مزین ہے۔ ان میں چھوٹے چھوٹے بچے اور کبوتروں وغیرہ کے بھی مجسمے ہیں۔

ہم ۱۹/ ستمبر کو بھی سینٹ پیٹرس گئے تا کہ ہولی فادر (مقدس باپ) کی Audience عبادت یا دعا میں شریک رہیں۔ ٹھیک دن کے بارہ بجے جب کہ ہزاروں لوگ سینٹ پیٹرس کے میدان میں جمع تھے۔ مقدس باپ کے Sermon (دعا) کی آواز وہاں لگے ہوئے لاؤڈ اسپیکروں (آلات مکبر الصوت) سے آنے لگی، وہ اٹالین زبان میں بول رہے تھے۔ اس لئے ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ بڑی مشکل سے یہ عبادت دس منٹ کی ہوئی ہو گی۔ اس کے بعد ایک دو مرتبہ گھنٹہ بجا اور پھر کئی مرتبہ گھنٹے بجتے رہے۔

روم میں ہمارے لئے کھانا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہر رسٹورنٹ اور اسٹاک بار میں مختلف جانوروں کی رانوں وغیرہ کا گوشت پکا ہوا رہتا ہے۔ کونسا سور کا، کونسا بکرے کا اور کونسا گائے کا ہے معلوم نہیں ہوتا۔ زبان کا مسئلہ بھی ٹیڑھا ہے۔ بڑی مشکل سے کوئی انگریزی بولنے والا ملتا ہے۔ ہم نے دیکھ بھال کر کے ترکاری کا سینڈوچ بنوایا اور اپنی Pension کو لائے کہ وہاں کھائیں۔ لیکن اس کا مزا پسند نہیں آیا۔ جس روٹی سے وہ سینڈوچ بنایا گیا تھا وہ کسی تیل میں تر تھی۔ سوائے دوچار نوالوں کے ہم اس کو کھا نہیں سکے۔ ایک جگہ مسکہ لینے گئے تو اسٹور کیپر ہماری انگریزی نہیں سمجھ سکا۔ ہم نے ہاتھ سے بتایا کہ روٹی کے سلیس پر لگانے کا مسکہ دے۔ اس نے کوئی چھوٹا ٹین نکالا اور ایک مشین سے پرچہ پر قیمت درج کی اور کہا کہ کیشیر کو پیسے دے کر آئیں ہم پیسے دے کر وہ ڈبہ ساتھ لے آئے پنسین کی عورت سے جب اس ڈبہ کو کٹوایا اور سونگھا تو اس میں گوشت کی بو آنے لگی ، اوپر کے ڈھکن کو جب غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ مسکہ میں ۴۰ فیصد پورک (سور کا گوشت) ملا ہوا ہے وہ پورا ڈبہ Pension والی عورت کو دے دیا۔ اس نے خیال کیا کہ اس ڈبہ کے اندر کی چیز سڑگئی ہے اس لئے ہم اس کو پھکوا دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس کو اور دو ایک اٹالین کو جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے سمجھایا کہ ایسی بات نہیں ہے اس میں پورک کا جزو ہے جس کو ہم نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن یہ ان لوگوں کے لئے قابل استعمال ہے۔ وہ چاہیں تو کسی اور کو بھی دے سکتے ہیں۔

ایک رات ہم نے ایک اسناک بار پر دیکھا کہ جیسے ہمارے پاس ترکاری کی بریانی ہوتی ہے وہاں رکھی ہوئی ہے۔ اس پر Riso لکھا ہوا تھا۔ ہمارے حساب سے تقریباً سات روپئے کا وہ چاول لے لیا۔ اس نے جو مقدار دی تو ہم نے دونوں نے خیال کیا وہ کم دے رہا ہے۔ کمرہ پر لا کر جب آدھا آدھا کر کے ہم نے کھانا شروع کیا تو دو تین نوالوں سے زیادہ نہیں کھا سکے۔ ایک تو تیل کا مزا پسند نہیں آیا۔ دوسرے اس میں پھل۔ پیاز اور جو بھی ترکاری ملی ہوئی تھی وہ سر کے کی کھٹاس سے اتنی بھر پور تھی کہ ہم جیسے کھٹاس کھانے والے لوگ بھی نہیں کھا سکے۔ بچا کر کچرے کی ٹوکری میں ڈال دینا پڑا۔ دوسرے دن بڑی مشکل سے پیاز اور ٹماٹر ملا۔ اس کی چٹنی بنا کر دوپہر اور شام میں روٹی کے ساتھ کھا رہے ہیں۔ البتہ یہاں سیب اور انگور بہت ہیں۔ سیب اچھا آٹھ روپئے کیلو۔ انگور کھٹا میٹھا پانچ اور چھ روپئے کیلو کیلا بھی یہاں تل کر بکتا ہے۔ نو روپئے کیلو۔ چھ سوگرام میں تین کیلے چڑھے یعنی کافی بڑے اور مغز دار ہیں۔ تیسرے دن کچھ سرخ مرچ ملی۔ چوتھے دن مسکہ اور بھنی ہوئی مرغی۔

یہاں کی ٹیکسیاں بالکل پیلی رنگ کی ہیں اور اچھی حالت میں ہیں۔ یہاں ایک بہت ہی چھوٹی موٹر جس کے پیچھے Fiat 126 لکھا ہے چلتی ہے۔ اتنی چھوٹی گاڑی ہم نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ ویسپا اسکوٹر اور بڑی بڑی موٹر سیکلیں ہیں۔ لیکن بہت کم چلتی ہیں۔ دو تین سیکلیں بھی دیکھیں۔ شاید لاکھوں میں تین چار آدمی سیکل چلاتے ہیں۔

صفائی کا انتظام اچھا ہے۔ لیکن صفائی ایتھنز شہر جیسی نہیں ہے۔ جا بجا کھمبوں میں چھوٹے چھوٹے ڈبے لگے ہیں۔ لوگ اس میں کچرہ ڈالتے ہیں لیکن سڑک پر بھی سگریٹ کے پیندے اور جلی ہوئی دیا سلائیاں پھینک دیتے ہیں۔ یہاں کالے کالے پلاسٹک کے تھیلوں میں گھر وغیرہ کا کچرا اسٹور کیا جاتا ہے۔

یہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں اکثر گلے اور کمر میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں چلتے ہوئے اور کہیں بیٹھ کر ایک دوسرے کا پیار لینا یا چمٹ جانا کوئی عیب نہیں معلوم ہوتا۔ بوس و کنار ہم نے ایتھنز میں بھی دیکھا تھا۔ یہاں اس سے کئی گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ بس اسٹاپ کے سامنے کی منڈیر پر بیٹھ کر ٹرین ، ٹرام یا بس میں سفر کرتے ہوئے اس قسم کا مشغلہ چلتا رہتا ہے۔ یہاں لڑکے لڑکیاں عام طور پر سگریٹ پیتے ہیں ، Nipoli، Naples میں ہم کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ تین بچے جن کی عمریں بڑی مشکل سے ۹،  ۱۱ اور ۱۲ سال کی ہوں گی سگریٹ پی رہے تھے۔

شراب کثرت سے پی جاتی ہے لیکن کوئی ڈھلکتا ہوا یا بہکا ہوا نہیں دکھائی دیا۔ البتہ جب ہم نیپلز سے روم واپس آ رہے تھے تو ٹرین میں ایک نوجوان آدمی سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور خوب پیا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ اٹھانے پر بھی نہیں اٹھ رہا تھا۔ ٹکٹ انسپکٹر نے بڑی مشکل سے اٹھایا۔ اس کے ہاتھ میں ٹکٹ تھا جس کی اس نے تنقیح کی اور اس کو پھر اٹھا کر اس کے حوالے کیا۔ اس ایک شخص کے علاوہ ہم نے کسی کو بھی مدہوش نہیں دیکھا۔

راستہ چلتے ہوئے عام مقامات پر بوس و کنار صرف ۱۷ سے ۲۲ سال کی لڑکیوں اور ۱۸ سے ۲۸ سال کی عمر کے لڑکوں میں دکھائی دیا۔ باقی ۹۰ فیصد آبادی سنجیدہ دکھائی دی۔ البتہ جتنے جوڑے ہیں وہ اکثر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔

ہم نے روم سے Napoli (Naples) کا ٹرین سے ۲۰/ ستمبر کو سفر کیا ہم سکنڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ یہاں کے سکنڈ کلاس کے کمپارٹمنٹ بہت ہی آرام دہ ہوتے ہیں۔ ایک بو گی میں جس طرح ہمارے یہاں فرسٹ کلاس کے کمپارٹمنٹ ہوتے ہیں وہاں سکنڈ کلاس کے کمپارٹمنٹ ہوتے ہیں۔ ان کے دروازے سلائیڈنگ ہوتے ہیں۔ ہم جس بو گی میں سفر کر رہے تھے اس کے سکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں چھ چھ مسافرین کی جگہ تھی۔ نشستیں آرام دہ۔ ہر دو طرف ہاتھ ٹیکنے اور سر کو سہارا دینے کے لئے کوشن تھا۔ سر کے اوپر دو سامان رکھنے کے اسٹانڈ تھے۔ اوپر والے میں وزنی سامان اور اس سے نیچے میں چھوٹا اور ہلکا سامان رکھا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں اسٹانڈ بو گی کے تختوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں تا کہ سامان کسی دھکے سے نیچے یا پاسنجروں پر نہ گر جائے۔ کمپارٹمنٹس کے سامنے جو چلنے کا راستہ کاری ڈر ہے وہاں بھی کھڑکیوں کی دیوار میں چپکی ہوئی کوشن کی چھوٹی چھوٹی نشستیں بنتی ہوئی ہیں۔ ان کو کھینچ کر ان پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ جوں ہی مسافر اٹھ جائے وہ نشست پھر کھڑکی کی دیوار میں اندر چلی جائے گی اور اس کا کوئی حصہ ابھرا ہوا نہیں معلوم ہو گا۔ ہم چونکہ دیر سے اسٹیشن پہنچے تھے ہم کو اندر کمپارٹمنٹ میں جگہ نہیں ملی۔ ہم سمجھے کہ ہم کو پورا سفر کھڑے ہو کر کرنا پڑے گا۔ جب ہم نے دو تین مسافروں کو وہ سیٹ نکال کر بیٹھتے ہوئے دیکھا تو ہم بھی ایسی دو نشستوں کو نکال کر بیٹھ گئے۔ واپسی میں ہم کو کمپارٹمنٹ کے اندر جگہ ملی۔ اس کمپارٹمنٹ میں ہر دو پاسنجروں کے لئے ایک کشادہ نشست تھی۔ یعنی بازوں سے ہر ایک کے لئے ہاتھ ٹیکنے کی ایک ایک کشن کم ہو گئی ہے۔ اس سے اس کمپارٹمنٹ میں بجائے چھ کے آٹھ آدمی کی جگہ نکل گئی تھی۔ ہر دو ٹرین میں ہم نے دیکھا کہ پانی پینے کے لئے ایک اور W.E اور واش بیسن کے لئے دوسرا کمپارٹمنٹ موجود ہے۔ پینے کا پانی فرج سے ٹھنڈا کیا ہوا۔ پینے کے پانی کا نل اور W.e میں فلش کرنے کے لئے اور واش بیسن میں نل کھولنے کے لئے جو کھٹکے لگے ہیں وہ پاؤں سے دبائے جاتے ہیں۔ غالباً یہ بھی حفظان صحت کے نقطہ نظر سے کیا گیا ہو۔ ہم نے روم (اطالوی لوگ اس کو روما بولتے اور لکھتے ہیں) اور نیپلز میں دیکھا کہ اسٹیشنوں پر جب ٹرین کے بیت الخلاء وغیرہ کی ٹاکیوں میں پانی بھرا جاتا ہے تو وہ نیچے پائپ لگا کر دباؤ سے بھرا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نل اوپر لگے رہتے ہیں ان کو کھول کر باتھ روم وغیرہ کی ٹانکیوں کو بھرا جاتا ہے۔ اور بعض وقت بھر کر پانی نیچے گرنے لگتا ہے۔ یہاں کمپارٹمنٹ میں سب واش بیسن W.e ہی کے کمرے میں لگے ہیں۔ باہر کوئی دکھائی نہیں دیا۔ ہمارے ہاں جس طرح ٹھس ٹھسا کر لوگ ریل گاڑیوں میں بھر جاتے ہیں۔ وہ منظر یہاں دکھائی نہیں دیتے۔

یہاں ٹرین کی دوڑ بہت ہی ہلکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریل کی پٹری مسلسل ہے۔ ہمارے ہاں جیسے ہر ۱۰، ۱۵ فیٹ کی پٹری کے بعد دراڑ  ہوتی ہے اور پھر دوسری پٹری شروع ہوتی ہے وہ یہاں نہیں ہے پٹری بالکل مسلسل ہے۔ جس کی وجہ سے ہر پٹری کے ختم پر ہمارے ہاں جو کھٹ کھٹ کی آواز آتی ہے اور جو دھچکا لگتا ہے۔ وہ یہاں بالکل نہیں معلوم ہوتا۔ ٹکٹ کی تنقیح ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی ٹکٹ نہیں لے سکا ہے تو اس سے پیسے لے کر رسید دی جاتی ہے۔ جرمانے وغیرہ کا سوال نہیں یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسافر جلدی میں ٹکٹ نہیں لے سکا ہے۔

روم سے نیپلز کا سفر ڈھائی پونے تین گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔ نیپلز جس کو اٹلی میں نیپولی کہتے ہیں خوبصورت شہر ہے۔ یہاں ہم کو موٹروں کا ہجوم روم سے زیادہ دکھائی دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آبادی اور شہر کے تناسب سے یہاں موٹریں زیادہ ہیں۔ جب ہم ۲۰ ستمبر کو ساڑھے گیارہ بجے کے قریب پہنچے اور اسٹیشن سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ہر طرف موٹریں ہی موٹریں دوڑ رہی ہیں۔ ہم سیدھی طرف بری سڑک پر چلنے لگے اس دوران میں ہم نے دیکھا کہ دو مرتبہ ٹرافک جام ہو گئی۔ اور موٹر والوں نے ہارن بجانا شروع کیا۔ ٹرافک پولیس کے سپاہیوں نے موٹروں کو ادھر ادھر ہٹا کر ٹرافک کو چالو کر دیا۔ بازار کا چکر لگا کر اور کافی پی کر ہم پھر اسٹیشن آئے۔ یہاں کافی ہم کو ۱۸۰ لیرا میں ایک پیالی ملی۔ یعنی ہمارے ایک روپیہ نود پیسے میں ایک پیالی۔

ریلوے اسٹیشن سے باہر ہم نے بس کے ایک آدمی سے پوچھا کہ پورٹ کو کونسی بس جاتی ہے۔ اس نے کہا کہ نمبر (۱) اور (۲) اور کوئی اطالوی لفظ۔ ہم نمبر ایک اور دو بس تلاش کرنے لگے۔ وہاں کوئی بس ایک اور دو نمبر کی نہیں تھی۔ ہم نے خیال کیا شاید ٹرام نمبر ۱ اور ۲ ہو گی۔ لیکن ٹرام کا اسٹاپ کافی دور تھا۔ پھر میں نے پوچھا تو ایک صاحب نے ایک بس کی طرف اشارہ کیا۔ اور ہم اس میں بیٹھ گئے بعد میں ہم کو پتہ چلا کہ اسٹیشن کے سامنے جو اسٹیج ہیں اس کے اسٹیج نمبر ۱ اور ۲ سے جتنی بسیں نکلتی ہیں۔ وہ سب پورٹ جاتی ہیں۔ زبان نہ سمجھنے سے بڑی دقت ہوتی ہے۔

نیپلس کی بندرگاہ کا وہ حصہ بہت خوبصورت ہے جہاں Rex Nithorio Emanuele II کا مجسمہ لگا ہے۔ وہاں دو فوٹو گرافر تھے۔ وہ خواہشمند لوگوں کا فوٹو لے کر اور فوری دھو دھلا کر ان کے حوالے کر رہے تھے۔ اس مجسمہ کے سامنے سمندر ہے۔ وہاں کئی جہاز اور موٹر بوٹ کھڑے تھے۔ مجسمہ کے سامنے سیدھی طرف ایک پرانا قلعہ ہے۔ جس میں کوئی آفس کام کر رہا ہے۔ اس کے اطراف کئی سڑکیں اور اونچی اونچی عمارتیں ہیں۔ ایمبیسڈر ہوٹل کی عمارت بھی کافی اونچی ہے۔ قلعہ کی ایک منزل پر چڑھ کر ہم نے بندرگاہ کا منظر دیکھا۔ اور وہیں سے ٹھنڈا پانی واٹر باٹل میں لے آئے۔ مجسمہ کے سامنے باہر سبزہ زار پر بیٹھ کر ہم نے روٹی وغیرہ جو اپنے ساتھ لائے تھے کھائی۔ اسی دوران میں ہمارے بازو تین لڑکیاں جن کی عمریں بڑی مشکل سے ۲۰ اور ۲۲ کے درمیان ہوں گی اور دو مرد جن کی عمریں ۳۰ کے لگ بھگ ہوں گی آئے اور لان پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں سبھوں نے سگریٹ سلگایا۔ اس کے بعد ایک لڑکی ایک مرد سے چمٹنے لگی۔ کبھی بوسہ بھی ایک دوسرے کا لیا جاتا۔ دوسری دو لڑکیاں اور ایک مرد بیٹھے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ بعد میں مرد لیٹا ہوا اور لڑکی اس کے سینے پر پڑی ہوئی۔ اس حالت میں ان کی ساتھی اور لڑکی نے ان دونوں کا فوٹو لیا۔ بازو ہی چار لڑکے بیٹھے ہوئے۔ جب یہ لڑکیاں آ کر بیٹھیں تو وہ سب کے سب ادھر متوجہ ہو گئے۔ لیکن ان  میں اور دوسری دو لڑکیوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

۲۰/ کی شام کو ہم روما یعنی روم واپس ہو گئے۔ ہمارے کمپارٹمنٹ میں بالکل ہمارے بازو نیپلز سے ایک نن ہمارے ساتھ تھیں۔ ان کا لباس کالا تھا لیکن بہت ہی صاف ستھرا اور استری کیا ہوا۔ ان کے ساتھ دو بیگ تھے۔ ایک وزنی اور ایک ہلکا۔ وزنی بیاگ کو مسافرین میں سے ایک نے اوپر کے اسٹانڈ پر رکھا دیا۔ جب روم آ گیا تو ہم نے ان کی اجازت سے وہ بیگ نیچے اتار دے۔ ہم کو ٹرین کے آخری ڈبے میں جگہ ملی تھی۔ وہ نن جب ڈبے سے نیچے اتری تو اپنے سامنے کا لانبا پلیٹ فارم جو اسے طے کرنا تھا دیکھ کر اس نے کچھ منہ بنایا۔ بعد میں وہ وزنی بیاگ سیدھے ہاتھ میں اور ہلکا بیاگ بائیں ہاتھوں میں لے کر چلنے لگی۔ ہم نے پیچھے سے دیکھا کہ اس کو دقت ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاتھ میں صرف ایک تھیلی تھی۔ ہم اپنا پورا سامان روم ہی میں رکھ کر صبح کو نیپلز گئے تھے۔ ہم نے اس نن سے پوچھا کہ کیا وہ بیاگ ہم اٹھا لیں۔ وہ فوری تیار ہو گئی۔ پورا پلیٹ فارم اور پھر سامنے کا پورا ہال ہم اس کا بیاگ اٹھا کر لے گئے۔ جب ہال سے باہر ہوئے تو اس نے اپنی زبان میں شکریہ ادا کیا۔ ہم سے اور ہماری بیوی سے بہت خوشی سے ہاتھ ملایا۔ وہ بار بار اپنی زبان میں ہمارا شکریہ ادا کر رہی تھی۔ روم سے نیپلز جاتے اور وہاں سے آتے وقت ہماری ٹرین اکثر کھیتوں اور باغوں والے علاقے سے گزری۔ روم کے قریب انگور کے باغ بہت ہیں۔ کھیتوں میں پانی نلوں سے دیا جا رہا تھا۔ ہم نے یونان میں بھی ۷۳ء میں ایسا ہی دیکھا تھا۔ نلوں کے عارضی پائپ کھیتوں میں پھیلا دیتے ہیں اور ان میں سے پانی گزار کر فوارہ کی شکل میں یا ایک ہی طرف دھار رکھ کر پانی دیتے ہیں۔ اس طرح سے خزانۂ آب سے سیرابی کے مقام تک بیچ میں کہیں پانی ضائع نہیں ہوتا۔ ہم لوگ ہندوستان میں مٹی ہی کی نالیاں بنا کر باؤلی وغیرہ سے کھیت تک پانی لے جاتے ہیں۔ مقام سیرابی تک پانی پہنچتے پہنچتے درمیان میں کافی ضائع ہو جاتا ہے۔

ہم نے راستہ میں دیکھا کہ کسی خاص قسم کی فصل کے خوشوں کو سکھانے کے لئے معمولی قسم کی لکڑیوں کی قینچیاں بنا کر لانبا ہال جیسا بناتے ہیں۔ اور ان لکڑیوں پر اس فصل کے خوشوں کو سکھانے کیلئے باندھ کر لٹکا دیا جاتا ہے۔ او اوپر سے پتلا پلاسٹک ان قینچیوں پر منڈھ دیا جاتا ہے۔ اس سے دھوپ کی تمازت تو خوشیوں تک پہونچتی ہے لیکن اوپر سے برسات یا شبنم کا پانی اس پر گرنے نہیں پاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر کسی نقصان کے فصل خشک ہو جاتی ہے۔ جب فصل خشک ہو جاتی ہے تو پلاسٹک بھی پھٹ پھٹا جاتا ہے۔ نئی فصل کے وقت نیا پلاسٹک استعمال کرنا پڑتا ہے۔

۲۱/ ستمبر کو ہم زمین دوز ٹرین سے Eur گئے روم کے ریلوے اسٹیشن سے ہی ایک زمین دوز ٹرین یور جاتی ہے۔ یہاں نیا روم بنایا گیا ہے۔ اس کو مسولینی نے شروع کیا تھا بعد کو اٹلی کی جمہوریہ نے اسے مکمل کیا۔ یور کے ریلوے اسٹیشن سے باہر آ کر ہم نے اس علاقہ کا جائزہ لیا یہاں کئی نئی اور اونچی عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ پرانا روم بھی بہت سلیقہ کا شہر ہے۔ لیکن وہاں اتنی اونچی عمارتیں نہیں ہیں۔ اور وہ زیادہ تر سب پتھر سے بنی ہیں۔ اور ان پر کوئی آہک پاشی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ایور کا منظر اور ہی ہے۔

ہم ۹۳ نمبر کی بس میں بیٹھ کر نکلے کہ شاید نئے روم (ایور) ہی کی بس ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے یہ نئے علاقہ سے ہوتے ہوئے پرانے روم میں داخل ہو کر Staz Terminal یعنی روم کے بڑے ریلوے اسٹیشن کو آ جاتی ہے۔ ہم بس ہی میں بیٹھ کر نئے روم کی عمارتیں اور اس کی سڑکوں کو دیکھتے رہے۔ شام میں پھر ہم ۹۳ نمبر کی بس میں بیٹھ کر ایور کے علاقہ کو گئے۔ ایور کی سڑکیں بہت چوڑی ہیں۔ چوڑی سڑک کے بیچوں بیچ ایک قسم کی پتلی پٹری جو غالباً Aslestas کی ہو۔ ۸ والے چوڑے چوڑے کیلوں پر جوڑ کر دوڑائی گئی ہے۔ یہ سڑک کو دو حصوں میں منقسم کرتی ہے۔ یہ منقسم دو حصے بھی مزید دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سیدھی طرف دو سڑکیں اور بائیں طرف دو سڑکیں ہو جاتی ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دور پر ایک رخ سے دوسرے رخ پر یا ایک ہی رخ کی ایک سڑک سے دوسری سڑک پر آنے کے لئے گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ اس نئے شہر میں ۱۷ ، ۱۸ منزلہ عمارتیں بن گئی ہیں۔ سڑک اور عمارتوں کے سامنے سبزہ زار اور خوبصورت اونچے اونچے درخت ہیں۔ صفائی بھی بہت اچھی ہے۔ ویسے یہاں شاپنگ سنٹر دکھائی نہیں دئے۔ لیکن جو دوکانیں بھی ہیں وہ بہت سلیقے کی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مالدار اور دوسرے بڑی حیثیت کے لوگ رہتے ہیں۔ سڑکوں پر موٹریں بہت پارک کی ہوئی دیکھیں یہی حال پرانے روم کا بھی ہے۔ وہاں بھی ہر چھوٹی بڑی سڑک پر موٹریں پارک کی ہوئی دکھائی دیں۔ روم میں ایک گیرج بھی دکھائی نہیں دیا۔ یہاں موٹریں ہمارے بمبئی کی طرح سڑکوں پر ہی کھڑی کی جاتی ہیں۔

پرانے روم میں گھوڑے کی بگیاں بھی چلتی ہیں۔ لیکن جس طرف St Peters's Square اور دوسرے تاریخی چرچ وغیرہ واقع ہیں اسی طرف ان کا استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر ان میں بیرونی سیاح بیٹھ کر گھومتے ہیں۔ روم میں چرچ اور مجسمے جا بجا ہیں۔

یہاں پر پھل وغیرہ اکثر ایک قسم کے لکڑی کے اسٹانڈ پر بکتا ہے۔ اس کے اوپر سے کپڑا چڑھا دیا جاتا ہے۔ ترکاری وغیرہ کی بھی ایسی ہی معمولی دوکانیں دکھیں۔ البتہ گوشت یہاں بالکل بند حفظان صحت کے طریقوں پر بکتا ہے۔ قاہرہ میں کھلا ہوا باہر لٹکا کر جس طرح گوشت بیچا جاتا ہے۔ وہ یہاں کہیں دکھائی نہیں دیا۔

ہم ۲۲/ ستمبر کو Alitalix کی پرواز نمبر ۴۰۰ سے ایک بج کر ۵۵ منٹ پر زیورک جا رہے ہیں۔

چہارشنبہ۔ ۲۲/ ستمبر ۷۶ء

Hotel Central Near Rly/ Stations & Air Terminal

ZurichSwitzerland

ہم کافی جلد ہی روم کی ایر پورٹ پہنچ گئے اور اپنا سامان وغیرہ تلوا کر سکیوریٹی چک سے نکل گئے۔ سکیوریٹی چک کے وقت ہمارا ہاتھ میں لیا ہوا سامان اور خود ہم کو میٹل ڈیٹکٹر لائن سے گزرنا پڑا۔

واپسی کے وقت ہم کو روم کی ایرپورٹ کی وسعت اور وہاں کے انتظامات کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہاں کل ۴۸ گیٹ ہیں۔ جن سے مسافر گزر کر بس میں بیٹھ کر اپنے اپنے متعلقہ ہوائی جہاز پر چڑھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور میکانیکل نوٹس بورڈ کی تحریری اطلاع کے باوجود اعلان کرنے والا بار بار اطالوی۔ فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں بذریعہ لاؤڈ اسپیکر اعلان کرتا ہے کہ فلاں مقام ، فلاں فلاں پرواز سے جانے والے مسافر فلاں گیٹ سے گزریں گے۔ ہر گیٹ کے لئے ایک علیحدہ حصہ ہے۔ وہاں آنے پر وہاں کا متعینہ شخص تنقیح شدہ ٹکٹ لے کر اس میں بیٹھنے کی اجازت دے گا۔ جب ہوائی جہاز کے اڑنے میں دس پندرہ منٹ رہ جائیں گے اس گیٹ پر نیچے کی طرف بس آئے گی۔ اور ایرپورٹ میں جانے کا دروازہ کھلے گا۔ اور سیڑھیوں سے اتر کر بس میں بیٹھ کر اپنے اپنے ہوائی جہاز تک جانا پڑے گا۔ ہم Aliata Tiah سے زیورک جا رہے تھے۔ ہم  نے نوٹس دیکھی تو اس پر منزل مقصود۔ پرواز نمبر۔ وقت روانگی۔ اور کس گیٹ سے گزرنا ہے۔ لکھا تھا۔ ہمارا گیٹ ۴۲ تھا۔ یہ ایک کونے میں تھا۔ ہم اس گیٹ پر پہنچ گئے۔ اور گیٹ پر جو آدمی تھا اس سے پوچھا تو اس نے ٹھیرنے کے لئے کہا۔ ۴۲ سے ۴۸ نمبر کے گیٹ تک کے مسافرین کے لئے ایک ہال ہے۔ یہاں دو رسٹورنٹ تھے۔ جو مسافرین کو کافی وغیرہ سپلائی کر رہے تھے۔ اس حصہ کے Toilets (بیت الخلاء) میں ہم کو اور ہماری بیوی کو جانا پڑا۔ کیا زنانہ اور کیا مردانہ دونوں بیت الخلاء آئینہ کی طرف صاف و شفاف اور ستھرے تھے۔ روانگی سے پندرہ ، بیس منٹ پہلے نمبر ۴۲ گیٹ والے آدمی نے مسافرین کو اندر لینا شروع کیا۔ ہم سے ہمارا کاؤنٹر پر تنقیح کیا ہوا ٹکٹ لے لیا گیا۔ صرف ایک ایک پرچہ دے دیا گیا۔ جب اس طرح ہم ۴۲ نمبر والے گیٹ سے ہو کر اپنے ہوائی جہاز پر چڑھے تو کسی نے ہم سے Boarding Slip نہیں مانگی۔ ہم کو یہ انتظام پسند آیا۔ اس طریقہ سے بس کی ایک ٹرپ (چکر) میں پورے مسافرین کو ہوائی جہاز تک لے جایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز دس ، پندرہ منٹ لیٹ تھا۔ لیکن سب مسافرین سوار ہوتے ہی وہ اپنے رن وے کی طرف جانے لگا۔

ہوائی جہاز اڑتے ہی کھانا دیا گیا۔ اس میں پھل کا رس۔ ایک چھوٹا سا بن مسکہ کریم۔ ایک سوکھی لیکن سر کے میں جذب کی ہوئی ترکاری ، مرغی کے گوشت کا کافی بڑا تکڑا اور گائے کے گوشت کے پتلے پتلے تکڑے موجود تھے۔ زیورک سے جب ہم قریب آ رہے تھے تو ہمارا ہوائی جہاز غالباً آپس کے پہاڑوں سے گزر رہا تھا۔ ہم کو بیسیوں پہاڑایسے دکھائی دئے جن پر برف جمی ہوئی تھی۔ ہم نے اپنے کیمرہ سے اس منظر کا فوٹو بھی لیا۔ نہیں معلوم وہ کیسی آئی۔ (بعد میں دیکھا تو وہ ٹھیک نہیں آئی صرف سفید ہی سفید دکھائی دے رہا تھا)۔

زیورک ایرپورٹ پر اترے تو بہت خاموشی تھی۔ جس بلٹ پر ہمارا سامان آنے والا تھا وہاں ایک تختی پر A-400 اور روم لکھا ہوا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ روم سے جو مسافر A-400 پرواز سے آئے ہیں ان کا سامان یہاں آئے گا۔ سامان لے جانے کے لئے چھوٹی چھوٹی ہاتھ سے ڈھکیل کر لے جانے والی گاڑیاں بھی کافی تعداد میں تھیں۔ یہاں سامان لینے سے پہلے پاسپورٹ پر آمد کی مہر بھی جلد ہی لگ گئی۔ جب ہم اپنا سامان لے کر کسٹم کے حصہ سے گزر رہے تھے۔ تو  وہاں ہم سے پوچھا گیا کہ کوئی سامان ڈکلیر کرنے کا تو نہیں ہے۔ ہمارے بازو والے صاحب نے ’’نہیں ‘‘ کہا۔ اور ہم کو ویسے ہی گزر جانے دیا گیا۔ ایرپورٹ کے متعدد شیشے کے دروازے مسافرین کی آمد و رفت کے وقت خود بخود کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔ ہاتھوں میں سامنے لے جاتے وقت ایسے دروازوں سے گزرنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے۔ سامان نیچے رکھ کر ایک ہاتھ سے دروازہ کھولنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اب ہندوستان کے بڑے شہروں میں بعض بڑے دفاتر اور بنکوں میں خود کار دروازے لگائے جا رہے ہیں۔ ۲۲/ ستمبر کو ایک ڈالر کے تبدیل کرنے پر Swiss Farnc ، 24414 ملتے تھے۔

ایرپورٹ سے ریلوے اسٹیشن زیورک (جس کے پچھلے حصہ میں ایر ٹرینس ہے) تک بسیں دوڑتی ہیں۔ اس کا فی مسافر (۵) سوئس فرانکس کرایہ لیا جاتا ہے۔  دو ڈالر سے قدرے بڑھ کر یعنی ہمارے اٹھارہ روپئے۔ زیورک شہر کا زیورک ایرپورٹ سے فاصلہ اتنا دور نہیں معلوم ہوا جتنا کہ روم شہر سے روم ایرپورٹ کا ہے۔ جب ہم شہر سے گزر رہے تھے تو ہم کو محسوس ہوا کہ یہاں ٹرافک اور آدمیوں کی آمد و رفت بہت ہی کم ہے۔ البتہ سڑکوں پر موٹریں بہت پارک کی ہوئی تھیں۔ اسٹیشن سے قریب کے علاقہ میں کافی چہل پہل دکھائی دی۔ یہاں ٹرامیں اور بسیں دونوں چلتی ہیں۔ بعض بسیں ٹرام کی طرح برقی قوت سے چلتی ہیں۔

دوپہر میں بیوی کو انفرمیشن سنٹر میں بٹھا کر پہلے ہم Hotel Schafli تلاش کرنے گئے۔ ہوٹل مل گئی۔ لیکن ریلوے اسٹیشن سے ذرا دور اور گلی میں۔ اس کے نیچے رسٹورنٹ ہے جہاں بینڈ بھی بجتا ہے۔ وہاں کرایہ فی یوم (یہاں فی شب کہتے ہیں ) ۳۶ فرانک بتایا۔ اس میں ناشتہ اور گرم پانی سے نہانا شریک نہیں تھے۔ ہم نے کمرہ دیکھنا چاہا تو اس نے ۲۱ نمبر کی کنجی دی۔  یہ کمرہ تیسری منزل پر تھا۔ سیڑھیاں چھوٹی ہیں۔ لیکن کمرہ بہت صاف ستھرا بستر سفید جھک چادروں سے ڈھکے ہوئے W.C (بیت الخلاء ) بھی صاف ستھرا۔ ہم نے خیال کیا کہ وہاں منتقل ہو جائیں۔ واپس ہوتے وقت راستہ میں Central Hotel تھا۔ اس کے بڑھیا رنگ ڈھنگ کو دیکھتے ہی ہم پس وپیش کرنے لگے کہ وہاں دریافت بھی کریں یا نہیں۔ لیکن پھر بھی ہمت کر کے  ریسپشنسٹ جو ایک عورت تھی کے پاس پہنچے بستر کا کمرہ پوچھا تو اس نے کہا موجود ہے۔ کرایہ پوچھا تو ۹۵ فرانک بتایا۔ ہم نے سستا پوچھا تو ۹۱ فرانک کہا۔ ہم نے پوچھا کہ اس سے بھی کوئی سستے کمرے اس ہوٹل میں ہیں تو اس نے جواب دیا کہ اسٹوڈنٹ روم میں جن کا کرایہ فی یوم ۴۰ فرانک ہے البتہ w.c اور شاور فلور پر ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ کمرہ کس فلور پر ہے تو اس نے چھٹی منزل بنائی۔ لفٹ سامنے ہی دکھ رہا تھا۔ ہم نے پوچھا لفٹ سے آمد و رفت ہو سکتی ہے تو اس نے ’’وہاں ‘‘ کہا۔ اس نے باتھ روم w.c فلور پر کہا تھا ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا ہم کو اس کے لئے گراونڈ فلور پر آنا پڑے گا ’’نہیں وہ اسی فلور پر ہی موجود ہیں ‘‘۔ پھر ہم نے پوچھا کہ ۴۰ فرانکس میں سروس چارجس وغیرہ سب شامل ہیں یا اس کے علاوہ کچھ دینا پڑے گا۔ اس نے کہا اس کے علاوہ کچھ دینا نہیں پڑے گا۔ البتہ ادائیگی پیشگی کرنی پڑے گی۔ اس کے بعد ہم نے پوچھا شاور استعمال کرنے کے لئے پیسے الگ دینے تو نہیں پڑیں گے۔ (شہر روم میں ہم کو شور کے استعمال کے پیسے کمرے کے کرائے کے علاوہ دینے پڑتے تھے ) اس نے کہا  شاور کا استعمال ۴۰ فرانک میں شریک ہے۔ ہم نے پھر پوچھا کہ شاور میں گرم پانی ہے تو اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ گرم اور ٹھنڈا دونوں پانی موجود ہیں۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ہمارے سوالات سے ذرا بیزار ہو گئی ہے۔ ہم نے اس سے کہا کہ ہم یہ سب سے پلے ہی اس لئے پوچھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ وہ خوش خلق معلوم ہو رہی تھی انگریزی اچھی بول رہی تھی۔ ہم نے کمرہ دیکھنا چاہا تو اس نے کہا کہ وہ پانچ بجے خالی ہو گا۔ اگر ہم آئیں تو دکھا دیا جائیگا۔ ہم نے پوچھا کہ اسٹوڈنٹ کے کمرہ میں ہم جیسے لوگ بھی ٹھیرسکتے ہیں تو اس نے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ٹوین بیڈ کا کمرہ آپ کو دے دیا جائے گا۔

سنٹرل ہوٹل ہم کو ہوٹل شیفلی  سے کئی لحاظ سے بہتر دکھی۔ ایک تو یہ ریلوے اسٹیشن سے قریب ہے۔ دوسرے اس میں لفٹ ہے۔ تیسرے نہانے کی سہولت ہے۔ اور فرق صرف ۴ فرانک کا ہم یہاں آ کر اتر گئے۔ یہاں بھی صفائی کا وہی حال ہے۔ یعنی ہر چیز انتہائی صاف ستھری۔ یہاں w.c عورتوں کے لئے الگ ہے اور مردوں کے لئے الگ۔

رات میں ہم ۱۴ نمبر کی ٹرام میں بیٹھ کر سی بیچ کی منزل مقصود کی طرف گئے۔ اس وقت شام کے ساڑھے سات بجے تھے۔ سوائے رسٹورنٹ کے سبب دوکانیں بند تھیں۔ البتہ نوے فیصد دوکانوں کے شوروم روشن تھے۔ روشنی کی وجہ سے شیشوں میں سے اندر کی ہر چیز دکھ ری تھی۔ اس سے پتہ چل رہا تھا کہ دوکانیں کتنی بڑھیا قسم کی ہیں۔ اور ان کو کسی اعلی پیمانے پر مزین کیا گیا ہے۔ موٹروں کی ٹرافک کم تھی۔ کئی موٹریں پارک کی ہوئی دکھائی دیں موٹریں اعلی درجہ کی لوگ بہت اچھے لباس میں ملبوس۔ ٹرام اور بس میں بھی اس وقت بہت کم لوگ دکھائے دے رہے تھے۔ موٹروں کی ٹرافک بھی روم کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ شام کے وقت لوگ پیدل بھی بہت کم چلتے ہوئے دکھائی دئے۔ کچھ ، ہلچل تھی تو صرف ریلوے اسٹیشن کے اطراف جہاں رسٹورنٹ زیادہ ہیں ان میں شراب اور بڑھیا قسم کا کھانا چل رہا تھا۔ اسٹیشن کے اطراف بہترین دوکانیں ہیں۔ وہ بھی سب بند ہو گئی تھیں۔ لیکن شو ونڈو سے جو سب روشن تھے ان کے بڑھیا ہونے کا پتہ چل رہا تھا۔ ریلوے اسٹیشن سے لگے ہوئے زمین دراز راستے بنے ہوئے ہیں تا کہ آسانی سے سڑکیں پار کی جا سکیں۔ اس نچلے حصہ سے اوپر آنے کے لئے ہر رخ پر خود کار Escalator اور تعمیر کی ہوئی سیڑھیاں ہیں۔ ہر طرف بورڈ پر لکھا ہے کہ ان سیڑھیوں سے اوپر جانے پر کن نمبر کی بسیں اور ٹرامیں مل سکتی ہیں۔ زمین دوز حصہ  بہترین طریقہ سے فرش کیا گیا ہے۔ اس میں ہر قسم کی بڑھیا دوکانیں ہیں۔ یہاں دو تین کیانٹین بھی موجود ہیں۔ ایک میں کافی پینے اور اسناک کھانے کے لئے گاہکوں کے کیو لگے تھے۔ ہم نے کافی پی اور ایک ٹکیہ جو گول پنی میں رکھی ہوئی تھی کھائی۔ ٹکیہ کے متعلق پوچھا تو کنٹین کی ایک لڑکی نے جو اچھی انگلش بول رہی تھی کہا کہ وہ صرف پنیر کی بنی ہے۔ کافی اور پنیر کی ٹکیہ دونوں اچھی تھیں۔ کافی جو پلاسٹک کے گلاس میں دی جا رہی تھی ایک فرانکس میں اور پنیر کی ٹکیہ (۷۰Centines )میں۔ سوسن ٹائنس کا ایک فرانک ہوتا ہے۔ اور ۲ فرانک ۴۴ سن ٹائنس کا ایک یو۔ ایس ڈالر۔ اس زمین دوز حصہ میں دستی گھڑیوں اور انگوٹھیوں کی بہت بڑھیا دوکانیں ہیں۔ جب ہم دیکھ رہے تھے وہ سب بند تھیں۔ لیکن ان کی ساری چیزیں روشن تھیں۔

شنبہ۔ ۲۵/ ستمبر ۱۹۷۶ء

ہوٹل سنٹرل۔ قریب ریلوے اسٹیشن

زیورک۔ سوئزر لینڈ۔ تقریباً تین دن سے ہم زیورک میں گھوم رہے ہیں پرسوں پیدل ہی پیدل River Limmat کے کنارے کنارے زیورک جھیل کی طرف گئے۔ سوے ئس زبان میں اس جھیل کو Zurich See لکھتے ہیں یہ ریلوے اسٹیشن سے قریب جانب جنوب واقع ہے۔ ندی لاٹ سے لگا فٹ پاتھ اس کے بعد سڑک پر فٹ پاتھ اور اس سے لگی دوکانوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ زیورک کے بڑے راستوں میں یا اس کے گلی کوچوں میں آپ جدھر بھی چلے جائیں۔ راستے اور فٹ پاتھ پکے اور اس سے لگی ہوئی دوکانیں اعلی قسم کی ہیں۔ چھوٹی موٹی اور گھٹیا قسم کی کوئی دوکان دکھائی نہیں دیتی۔ کپڑے سب بنے بنائے ملتے ہیں۔ ہر قسم کے کپڑوں کو مجسموں کو پہنا کر بتایا جاتا ہے۔ کوٹ۔ پتلون۔ فراک Fur کے کوٹ اور کیا نہیں ہے۔ جو مجسموں کو پہنا کر ان کا مظاہرہ کیا گیا ہو۔ جوتوں کی بھی بڑھیا دکانیں ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے سامنے والی سڑک پر ایک بہت بڑا اسٹور "Globus"نام کا ہے۔ تہ خانہ میں کھانے پینے کا سامان اور پھل وغیرہ اوپر کی منزلوں میں کپڑے ، سوئٹر ، فراک ، ٹائی ، موزے ، کرا کری اور قالین وغیرہ وغیرہ تہ خانے میں جانے کے لئے خود بخود چلنے والی سیڑھیاں اور اوپر کی منزل کے لفٹ ہے۔ گھڑیوں اور انگوٹھیوں کی دکانیں جا بجا ہیں۔ قیمت ہر گھڑی۔ ہر انگوٹھی اور دوسری ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔ یہاں کم قیمت کی گھڑیاں بھی ہندوستانی سکے کے لحاظ سے ۴،  ۵ سو روپئے کی ہیں۔ بڑھیا تو پوچھئے نہیں گیارہ، بارہ ہزار روپئے کی یعنی ۳ تا ۴ ہزار فرانک کی۔

بعض وقت ہم کو چھوٹے چھوٹے راستوں سے گزرنا پڑا۔ وہ بھی بالکیہ ویسے ہی پکے تھے جیسے بڑے راستے۔ ان سے لگی ہوئی دکانیں اور ان کے شو ونڈو بھی اعلی درجے کے۔ اسی طرح کھانے پینے کے اسٹور بھی ہیں۔ جن میں پھل۔ ترکاری۔ شراب۔ جام۔ مسکہ۔ روٹی۔ مرغی بھنی ہوئی اور صاف کی ہوئی کچی۔ مچھلی کچی اور پکی ہوئی کیک پیسٹری۔ سلاد کی کئی ڈشیں۔ فرج میں رکھی ہوئی ہیں۔ گاہک پلاسٹک کی کافی گنجائش والی بٹی (جن کی بڑی تعداد اسٹور میں رکھی ہوئی ہوتی ہے ) ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اس میں اپنی پسند اور ضرورت کی چیزیں رکھ لیتا ہے۔ اور پھر کیاشیر کے پاس جا کر رکھ دیتا ہے۔ کیاشیر جو اکثر لڑکیاں ہوتی ہیں ایک چیز لیتی ہے اور اس کی قیمت مشین پر ٹائپ کرتی ہے۔ جس چیز کی قیمت اس نے ٹائپ کی اس کی قیمت اوپر آ جاتی ہے۔ گاہک دیکھ سکتا ہے کہ اس نے ٹھیک ٹائپ کیا ہے یا غلط۔ دوسری چیز لیتی ہے پھر اس کی قیمت ٹائپ کرتی ہے۔ پہلے چیز کی قیمت غائب ہو جاتی ہے۔ لیکن دوسری چیز کی قیمت گاہک کے لئے ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس طرح ہر نئی ٹائپ شدہ قیمت آتی ہے اور سابق کی غائب ہو جاتی ہے۔ جب چیزیں ختم ہو جاتی ہیں تو لڑکی میزان کا بٹن دباتی ہے جس پر جملہ قیمت جو گاہک کو دینی ہے وہ اوپر آ جاتی ہے۔ جیسے ۱۴ فرانک اور ۴۰ سینٹس کل قیمت ہوئی اور گاہک نے کل ۲۰ فرانک کا نوٹ دیا پھر لڑکی نے کچھ بٹن دبایا۔ چلر کے خانے میں ۶۰ سنٹس آ گئے اور کیاشیر نے پانچ فرانک کا نوٹ دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی مشین سے پھاڑ کر بل کا پرچہ دیا۔ جس پر سب ٹائپ کیا ہوا موجود ہے یعنی اشیاء کی فرداً فرداً قیمتیں۔ میزان۔ گاہک نے کتنے پیسے دئے۔ اگر کچھ واپس کیا گیا ہے۔ تو کتنا۔ یہ سب کام آنا فاناً میں ہو جائے گا۔ بعد میں آپ اطمینان سے تنقیح کر سکتے ہیں کہ ہر چیز کی قیمت برابر ٹائپ کی گئی یا نہیں۔ اور مشین نے برابر میزان کیا یا نہیں ہر چیز پر اس کی قیمت کی سلپ لگی ہوتی ہے۔ یا پھر قیمت کا چھاپ لگا ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو جیسے ترکاری وغیرہ پر جس کاونٹر سے بھنی ہوئی آدھی مرغی لی۔ وہاں فی مرغی کی پیک کرے گی۔ چکناہٹ کا کوئی حصہ ہاتھ کو نہیں لگ سکے گا۔ اور اس پوڑے پر کاؤنٹر والی عورت آدھی مرغی کی قیمت ۲ فرانک ۸۰ سینٹس لکھ دے گی۔ اسی طرح بن وغیرہ لئے جائیں تو ان کو بھی پوڑے میں رکھ کر اس کی قیمت اس پر لکھ دی جائے گی۔ ایسے اسٹورس میں یا زیورک کی کسی دوکان میں کسی چیز کی قیمت پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھلوں پر فی کیلو کے حساب سے قیمت درج ہو گی۔ سلاد وغیرہ ہو تو فی سو گرام درج ہو گی۔ بہرحال معاملہ اتنا صاف ہوتا ہے کہ جب بھی آپ کوئی چیز لیں تو آپ کو بالکلیہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا ہے اور اس کی قیمت کتنی ہے۔

ہم نے ایک دن کے لئے یعنی ۲۴ گھنٹے کے ایک ٹکٹ جس کی قیمت ۳ فرانک ہوتی ہے خریدا۔ یہ ٹکٹ آپ کئی دن پہلے بھی خرید سکتے ہیں۔ البتہ جب آپ پہلی مرتبہ اس ٹکٹ پر سفر شروع کریں گے تو جس بس اسٹاپ یا ٹرام اسٹاپ سے سفر کا آغاز ہوا رہا ہے وہاں لگی ہوئی مشین پر ٹکٹ کو پنچ کر لیں ٹکٹ پر تاریخ اور وقت درج ہو جائیگا۔ اس وقت سے ۲۴ گھنٹے تک آپ کسی بس یا ٹرام میں بیٹھ کر اندرون شہر گھوم سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ ٹکٹ کو پنچ کرنے کے بعد پھر اس کو پنچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ۲۴ گھنٹوں کے بعد وہ ٹکٹ خود بخود بیکار تصور کیا جائے گا۔

ہم نے دیکھا کہ زیورک میں ٹرامیں زیادہ چلتی ہیں اور بسیں کم۔ لیکن ہر دو میں جگہ کافی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی طرح یہاں ہجوم نہیں ہوتا۔ روم کے مقابلے میں یہاں بس اور ٹرام میں لوگ کم دکھائی دئے۔ ضعیف لوگ اکثر ٹرام سے سفر کرتے ہیں کیونکہ اس کی رفتار کم ہوتی ہے۔ جب کبھی کوئی بچہ یا ضعیف آدمی ٹرام سے اتر رہا ہو یا چڑھ رہا ہو تو وہ بٹن پر ہاتھ رکھا رہے گا۔ اس کی وجہ سے ڈرائیور دروازہ بند نہیں کر سکتا۔ اور جب تک دروازہ بند نہ ہو جائے ڈرائیور ٹرام کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ اس طرح کے بٹن کئی جگہ لگے ہوئے ہیں۔ دروازے کے قریب اندر اور باہر بھی بٹن کافی نیچے لگے ہیں تا کہ بچوں کا ہاتھ بھی وہاں پہنچ سکے۔

یہاں کی بسوں اور ٹراموں میں کوئی کنڈکٹر نہیں ہوتا۔  پاسنجروں کے پاس ماہواری، سہ ماہی یا اور قسم کے ٹکٹ ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی ٹرام یا بس میں بیٹھنے جاتے ہیں تو اس کے اسٹاپ پر لگی ہوئی مشین پر اپنا ٹکٹ پنچ کرا لیتے ہیں۔ اور جس کو ٹکٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ سکہ یا سکے ڈال کر اپنا ٹکٹ مشین ہی سے لے لیتا ہے۔ بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ پیسے ڈالنے کے باوجود ٹکٹ باہر نہیں آتا۔ ایسی صورت میں مشین میں ایک بٹن ہوتا ہے جس کے دبانے سے پیسہ واپس آ جاتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب پیسے ڈالے گئے ہوں لیکن ٹکٹ نہ نکلا ہو۔ اگر ٹکٹ نکل گیا ہو اور اس کے بعد اس طرح کا بٹن دبایا جائے تو پھر پیسے واپس نہیں ہوں گے۔ اس طرح کی خود کار مشینیں کئی دیکھنے میں آئیں۔ اکثر ٹرام اور بس اسٹاپ پر مختلف اخبارات رکھے جاتے ہیں۔ ہر قسم کے اخبار کی قیمت لکھی ہوئی رہتی ہے۔ جو اخبار آپ چاہیں اس کی قیمت اس مشین میں ڈال دیں۔ اور اس کا بٹن دبا دیں تو وہ اخبار باہر آ جائے گا۔ بعض جگہ تو اخبار ویسے ہی رکھے ہوئے ہیں۔ آپ سوراخ میں پیسے ڈالیں اور اخبار اٹھا لیں۔ ایسی جگہ پیسے ڈالے بغیر بھی اخبار لیا جا سکتا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کا اخلاقی معیار اتنا بلند ہے اور لوگوں کی مالی حالت اتنی اچھی ہے کہ اس قسم کی چھوٹی موٹی بے ایمانی وہ نہیں کرنا چاہتے۔

روم میں ہماری بیوی کہہ رہی تھیں کہ کوئی مسجد نہیں دکھائی دیتی۔ یہی انہوں نے زیورک میں بھی کہا۔ لیکن جب ہم ۲۴/نومبر کو ٹرام میں جا رہے تھے تو اختتام سے کچھ  پہلے بیوی نے کہا کہ دیکھئے یہاں ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہے۔ میں نے بھی پلٹ کر دیکھا وہاں مسجد کا مینار بھی تھا۔ ہم دوسرے اسٹاپ پر اتر گئے۔ اور کچھ قدم چل کر مسجد کے دروازے پر پہنچ گئے۔ مسجد کا دروازہ مکانوں کے دروازے کے جیسا لیکن ذرا چوڑا تھا اور وہ بند پڑا تھا۔ میں نے گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک صاحب طویل قامت لیکن چھریرے جسم کے پتلون۔ شرٹ اور ٹائی میں ملبوس نکلے۔ وہ باریش تھے میں نے انگریزی میں کہا کہ ہم ہندوستان کے مسلمان ہیں۔ یہ کلمہ اور مسجد کا مینار دیکھ کر ٹرام سے اتر پڑے ہیں۔ انہوں نے بھی انگریزی میں بات کی اندر آنے کو کہا۔ اور اوپر لے جا کر مسجد دکھانے لگے۔ بیوی کے ایک ادھ جملے پر انھوں نے اردو میں جواب دیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ اردو جانتے ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے باشندے ہیں۔ وہیں انھوں نے بی اے ایل ایل بی کیا۔ عرصہ تک وکالت کرتے رہے۔ بعد میں انہوں نے اپنی زندگی اس تبلیغی کام کیلئے وقف کر دی۔ انھوں نے ساتھ ہی اس کی وضاحت کر دی کہ وہ مسجد اور ادارہ احمدی مسلمانوں سے متعلق ہے۔ ایک صاحب کو انہوں نے پکارا۔ وہ بھی پاکستانی قومیت کے تھے۔ ۱۸ سال تک انگلستان میں رہے۔ انھوں نے ایک سوئیس لڑکی سے شادی کی ہے۔ اب سوئزرلینڈ میں ایک بڑی بینک (جس کا غالباً انہوں نے یونین بینک نام بتایا) میں قانونی مشیر ہیں۔ اس دن جمعہ ہونے کی وجہ سے دو گھنٹے کی اجازت لیکر مسجد میں آئے تھے۔ وہ بھی کوٹ پتلون میں تھے۔ البتہ اندر انھوں نے سوئٹر پہن رکھا تھا۔ ان سے دیر تک مسجد سے لگے ہوئے کمرے میں جو ایک طرح کی لائبریری کا کام دیتا ہے بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ان کا بیان تھا کہ لوگ دوسری قومیت کی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں۔ ان کے بچے بھی ہو جاتے ہیں۔ جب بچے یہاں کے ماحول میں پرورش پا کر بڑے ہوتے تو وہ بھی سب کچھ وہی کرتے ہیں جو یہاں لڑکے ، لڑکیاں کرتے ہیں۔ ان بچوں نے نہ تو ہندوستان وپاکستان کے مسلمانوں کی معاشرت کو دیکھا ہے اور نہ وہ اس کو سمجھنے کے قابل ہیں۔ دو، تین مسلمان خاندانوں کے بچوں کی مثال بھی انہوں نے دی۔ اس گفتگو کے دوران وہ فوقتاً فوقتاً عام مسلمانوں کے مقابلہ میں احمدی مسلمانوں کو ممتاز کرتے جا رہے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ عام مسلمانوں کے مقابلہ میں احمدی مسلمان زیادہ متقی وپرہیزگار ملے گا۔ جمعہ کی وجہ تین چار مسلمان اور جمع ہو گئے۔ جنہوں نے مسجد کا دروازہ کھولا تھا۔ کوٹ ٹوپی پہن کر آ گئے تا کہ نماز وغیرہ پڑھائیں۔ ساتھ ہی اپنے ادارہ کے چار پانچ اخبار لے کر آئے اور میرے حوالے کیا کہ وہ ابھی ابھی ان کے پاس آئے ہیں۔ میں نے ان پر سرسری نظر ڈالی۔ بعد میں احمدی تبلیغ کے تعلق سے کتاب مانگی اور کہا کہ اگر اردو میں ہو تو بہتر ہے تا کہ بیوی بھی پڑھ سکیں۔ لیکن اردو میں کوئی کتاب نہیں مل سکی البتہ انہوں نے مجھے ایک انگریزی کتاب

The Teachings of Islam by Hazrat Mirza Ghulam Ahmed

(Founder of The Ahmadiya Movement in Islam) دی۔

مسجد کو اتنا صاف ستھرا رکھا اور بہترین قالینوں سے مزین کیا گیا تھا کہ میں اس کی تعریف نہیں کر سکتا۔ اسی طرح داخل ہونے کے بعد اوپر جانے کا راستہ۔ نیچے کی کرسیاں۔ مسجد سے لگے ہوئے کمرے کا فرش و فرنیچر۔ خود مسجد کی عمارت ہر چیز اعلیٰ درجہ کی اور خوبصورت سوئزرلینڈ کے ماحول کے عین مطابق بلکہ کچھ بڑھیا ہی مسجد چھوٹی سی ہے۔ بڑی مشکل سے ۲۵، ۳۰ آدمی سما سکتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک مائیک رکھا ہوا تھا۔ نماز کا وقت قریب ہونے لگا تو ہم نے ان سے اجازت چاہی۔ مسجد کے انچارج صاحب نیچے تک تشریف لائے۔ اور ہم کو خدا حافظ کہا۔

زیورک گو چھوٹا لیکن بہت ہی صاف ستھرا اور خوبصورت شہر ہے۔ اس کا بہت کچھ حصہ پہاڑیوں پر ہے۔ لیکن آپ اوپر جائیں تو وہاں پہاڑیوں کی کوئی نشانی سوائے اونچائی کے نہیں ملے گی۔ سڑکیں پکی۔ مکانات پختہ۔ بچی ہوئی زمین میں خوبصورت ہرے بھرے سبزہ زار یا خوبصورت درخت پھل دار، اور بغیر پھل کے ، پھولوں کا باغیچہ ، کھڑکیوں میں پھولوں کے کونڈے ، کئی جگہ بیل بھی خوبصورتی کے لئے چڑھائی جاتی ہے۔ صفائی کا خیال بھی بہت کیا جاتا ہے۔ آج جب ہم صبح صبح بس میں سفر کر رہے تھے تو ہم نے کئی عورتوں کو دیکھا کہ وہ مکانوں کے سامنے جھاڑو وغیرہ دے رہی ہیں۔ بعض کھڑکیوں کے شیشوں کو صاف کر رہی ہیں اور بعض دروازے پونچھ رہی ہیں۔

عام طور پر رہائشی مکانات دو تین منزلہ ہیں۔ ان کی اوپر کی چھت پر پلاستر کی لال کویلو بچھائی گئی ہے۔ اس کا سلوپ کافی دیا گیا ہے۔ ایسی چھتوں میں اکثر چمنی بھی لگی ہیں۔ بعض مکانوں میں سب سے اوپر کی ڈھلوان چھتوں پر روشنی کے لئے دبیز شیشے بھی پیوست کئے گئے ہیں۔ ایک حصہ شہر میں عمارتیں جو ایک ہی طرح کی ہیں ۲۲، ۲۲ منزلہ بنی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دفاتر وغیرہ کی ہیں۔

یہاں کے لوگ صحت مند اور خوش پوش دکھائی دئے۔ روم میں ہم کو دو ، تین آدمی بھیک مانگے والے ملے تھے۔ لیکن یہاں ہم کو ایسا ایک آدمی بھی دکھائی نہیں دیا۔ یہاں ہم نے کافی ضعیف عورتوں کو ٹرام سے سفر کرتے ہوئے دیکھا۔ یہاں عمروں کا اوسط زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ روم میں ہم کو ایک مکھی دکھائی دی تھی۔ لیکن یہاں نہ تو مکھی نہ مچھر۔ نہ چیونٹی اور نہ کوئی دوسرا کیڑا پتنگا دکھائی دیا۔ روم کی طرح یہاں بھی گھر وغیرہ کا کچرا پلاسٹک کے تھیلوں میں بھر کر اور ان کا منہ مضبوطی سے باندھ کر مقررہ مقام پر رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح کوئی غلاظت کی چیز کھلی رہتی ہی نہیں جس پر بیٹھ کر مکھیاں وغیرہ پرورش پائیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا ہے کہ اسٹیشن سے قریب ایک زمین دوز حصہ ہے اور اس میں اعلی قسم کی دوکانیں لگی ہیں ، ہم اس قسم کی دوکانیں ایتھنز میں اور امونیا سرکل کے نچلے حصہ میں دیکھی ہیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ زیورک کی زمین دوز دوکانیں ایتھنز کی زمین دوز دوکانوں سے کچھ بڑھ چڑھ کر ہی ہیں۔ یہاں ایک جگہ آئیس کریم خود کار مشین سے لی جاتی ہے۔ آج ہم نے ایک اور مشین دیکھی جس میں بیسیوں قسم کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ اس کے کئی ابدان اور ہر تابدان میں کئی خانے اور ہر خانہ میں ایک قسم کی چیزیں کئی تعداد میں رکھی ہوئی۔ ہر خانہ میں اس چیز کی قیمت اور اس کا نمبر درج ہے۔ آپ جو چیز لینا چاہیں  تو اس کی قیمت کے سکے بنے ہوئے ایک سوراخ میں ڈالیں۔ اور پھر وہ نمبر ڈائیل کریں جو اس چیز پر جو آپ لینا چاہیں درج ہے۔ اس مشین میں ایک ڈبہ دو سیخوں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ ہٹ کر اس شلف اور خانے پر چلا جائے گا۔ جس کے آپ نے پیسے ڈالیں ہیں اور اس کا نمبر آپ نے گھمایا ہے۔ ہر خانے کے سامنے دو بٹن ہیں جن کو یہ ڈبہ جا کر دبائے گا اور خانے میں لگی ہوئی اسپرنگ پیچھے سے ایک دھکا دے گی جس سے صرف ایک چیز ہی اس خانے سے سرک کر ڈبے میں آ رہیگی۔ چونکہ خانے اور ڈبے کا لیول بالکل ایک ہی ہوتا ہے کسی چیز کے گر کر پھٹنے کا اندیشہ نہیں رہتا۔ وہ چیز لینے کے بعد وہ ڈبہ اپنی جگہ پر واپس آ جائیگا۔ اور پھر اس کا دروازہ کھل جائے گا۔ اس پر گاہک اپنی چیز اٹھا لے گا اور تھوڑی دیر کے بعد اس کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اگر آپ کو ایک خانے سے مثلا پانچ روٹیاں لینی ہیں تو آپ کو پانچ مرتبہ یہ عمل دہرانا پڑے گا۔

۲۶/ ستمبر اتوار کو ہم لوگ M.T.Pilete جس کو سوئیس میں Pilatusکہتے ہیں جو سطح سمندر سے ۲۱۳۲ میٹر یا سات ہزار فیٹ اونچا ہے دیکھنے گئے۔ زیورک ریلوے اسٹیشن پر اس پورے سفر کے آنے جانے کا ٹکٹ ملتا ہے۔ سکنڈ کلاس کا ٹکٹ فی کس ۳۸ فرانک اور ۸۰ قرش ہے۔ پہلے ٹرین سے زیورک سے Lucerne جاتی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو وہاں سے بھی ٹرین میں Alpnachatro تک جا سکتے ہیں۔ لیکن عام طور پر سیاح اس فاصلہ کو موٹر بوٹ سے طے کرتے ہیں۔ یہ سفر جس جھیل میں ہوتا ہے اس کے تقریباً چاروں طرف خوبصورت ہرے بھرے پہاڑ ہیں۔ یہ موٹر بوٹ Alpna Chatad پہنچنے سے پہلے تین چار مقامات پر رکتی ہے۔ وہاں وہ عام طور پر مسافروں کو چھوڑتی ہے اور بعض جگہ کچھ مسافروں کو لیتی بھی ہے۔ Alpnachatad سے Pilatuskulm تک۔ Electric Pilatus Rly سیاحوں کو اوپر لے جاتی ہے۔ یہ دنیا کی Steepest Cog Wheel ریلوے ہے۔ اس کا ڈھلان بعض وقت ۴۸ درجہ کے زاویہ تک پہنچ جاتا ہے۔ دوپٹریوں کے درمیان بیچ میں ایک Cog Wheel دندانے دار پٹری بھی ہے۔ چوٹی پر چڑھنے کے بعد جو منظر سیاح کو نظر آتا ہے۔ وہ ناقابل فراموش ہے۔ ہری ہری پہاڑیاں۔ نیچے ہرے بھرے جنگل بیچ میں خوبصورت کھیت اور کچھ بستیاں نظر کو بہت فرحت بخشتے ہیں۔ واپسی میں عام طور پر مسافرAerial Cable Way سے Frak Muntgg تک آتے ہیں۔ اس کار میں پندرہ بیس افراد وقت واحد میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ وہاں سے Kriens تک چار نشستوں والی ایک Cable Car تاروں پر لڑھکتی ہوئی نیچے پہنچتی ہے۔ یہ پورا تاروں پر کا سفر بھی بہت اچھے مناظر سے گزرتا ہے جب تاروں پر پندرہ بیس مسافر والی کار یا پھر چار نشستوں والی کیبل کار گزرتی ہے تو رفتار کو نیچے اترتے اور اوپر چڑھتے وقت بہت ہی قابو میں رکھا جاتا ہے۔ Kriens میں بس کچھ دور چل کر پکڑنی پڑتی ہے۔ وہاں سے بس پندرہ بیس منٹ میں مسافرین کو Lucerine ریلوے اسٹیشن پہنچا دے گی۔ وہاں سے آپ روز مرہ کی ٹرین سے ایک گھنٹہ میں زیورک  پہنچ سکتے ہیں۔

چونکہ ہم کو ۴ بجے کی ٹرین سے میونک (مغربی جرمنی) جانا تھا۔ ہم نے جلدی ہی M.T.Pilate کا سفر ختم کیا۔ صبح آٹھ بجے زیورک سے ٹرین سے نکلے تھی اور دوپہر میں ۲ بجے زیورک واپس ہو گئے۔

Pension Casino

Tel No. 552772 Paula Gerstl

& Munchens 2, Marsstrabe - 13

(Munch) West germany میونک آنے کا ہم نے پہلے کوئی ارادہ نہیں کیا تھا۔ زیورک میں دو تین ہندوستانی مسافروں سے معلوم ہوا کہ مغربی جرمنی جانے کے لئے ہندوستانیوں کو کسی ویزا حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ۱۹۳۸ء میں ہٹلر چیبرلین کے درمیان اسی مقام پر بہت اہم معاہدہ ہوا تھا۔ اس وقت بھی جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اور اس معاہدے سے ایسا معلوم ہوا تھا کہ جنگ ٹل گئی بقول نیویلی چیمبرلین کے ان کے اپنے زمانے میں امن حاصل ہو گیا۔ لیکن وہ خیال کتنا غلط ثابت ہوا۔ اور ایک ہی سال میں دنیا کو کیسی بھیانک جنگ سے دوچار ہونا پڑا سب کو معلوم ہے۔ یہ سب ہمارے ذہن میں تھا۔ اس لئے ہم نے طے کیا کہ میونک کا ایک مختصر سا سفر کر لیا جائے۔

ہمارا ہوائی جہاز کا ٹکٹ زیورک سے پیرس کا ہے۔ اس لئے ہم نے سکنڈ کلاس کا ٹرین کا ٹکٹ زیورک۔ میونک اور واپس زیورک کے لئے لے لیا۔ اس کا کرایہ فی کس ۹۸ سوئس فرانکس اور کچھ سنٹ (قرش) ہوا۔ ٹرین ۲۶/ ستمبر کو ۴ بج کر ۸ منٹ پر نکلی اور رات میں ۹ بج کر ۱۵ منٹ پر میونک پہونچ گئی۔ سب سے پہلے ہم نے اپنے یو۔ ایس ڈالر کے کچھ سفری چک بھنوا کر یہاں کے مارک حاصل کئے۔ اس دن نرخ ایک ڈالر کا ۲ مارک ۴۴ فنگس تھا۔ اس کے بعد بیوی کو اسٹیشن پر بٹھا کر۔ پیسے۔ سفری چک۔ پاسپورٹ ہوائی جہاز کے ٹکٹ وغیرہ کا بیاگ ان کے گلے میں ڈال کر میونک میں کمرہ تلاش کرنے کے لئے نکلے۔ ہم نے اپنی ساتھ لی ہوئی کتاب سے دو Pension کے پتے نکال لئے۔ Pension am Bahnhof Platey۔ یہ ریلوے اسٹیشن سے قریب اور پانچویں منزل پر ہے۔ نیچے سے چوتھی منزل تک لفٹ جاتا ہے۔ اوپر چڑھنے پر ہم نے وہاں ایک کاغذ پر جرمن اور انگلش میں لکھا ہوا دیکھا کہ پنسین بھرا ہوا ہے اور وہاں کسی اور کے لئے ٹھیرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہاں سے دوسری پنسین کو گئے۔ راستے میں ایک ہوٹل میں دو بستر کے کمرے کا کرایہ پوچھا تو ریسپشنسٹ نے پچاس مارک فی یوم بتایا۔ یعنی ہندوستانی فی یوم تقریباً ایک سو ساٹھ روپئے اس کو ہم نے بہت سمجھا۔ اس کے بعد ہم Pension Hungria گئے۔ تلاش میں دقت ہوئی۔ جب وہاں پہنچے تو اس کا دروازہ بھی بند پایا۔ ہم نے بٹن دبایا۔ تو اوپر سے کسی نے نیچے بنی ہوئی دراڑوں میں سے کچھ پوچھا۔ ہم نے انگریزی میں کہا کہ ہم کو دوبستر والا کمرہ چاہئے۔ اس کے جواب میس کسی عورت نے بہت صاف انگلش میں کہا کہ سب کمرے پر ہیں۔ اس لئے مزید جگہ نہیں ہے ہم نے پوچھا کہ کمرہ کب تک مل سکے گا۔ تو اس نے جواب دیا کہ دوسرے دن دس گیارہ بجے تک۔ اس کے بعد ہم متعدد پنسین اور ہوٹل گئے وہاں یا تو کوئی جگہ نہیں تھی یا پھر کرائے بڑھے ہوئے تھے۔ گیارہ بجنے کے بعد ہم اسٹیشن واپس آ گئے اور بیوی کو کہا کہ کوئی جگہ نہیں مل سکی۔ واپس آتے وقت ہماری نظر ویٹنگ روم پر پڑ گئی۔ ہم دونوں اس میں سامان لے کر آ گئے ایک بنچ جس کے اوپر کا حصہ صاف اور چکنا تھا بیٹھ گئے۔ ایک آدھ گھنٹے کے بعد پولیس والے آئے۔ اور وہ وہاں ٹھیرے ہوئے لوگوں کے ٹکٹ کی تنقیح کرنے لگے۔ جن کے پاس ٹکٹ نہیں تھا ان کو باہر بڑھا دیا۔ ان میں بعض بوڑھے لوگ بھی تھے۔ ایک نوجوان جو نیچے مدہوش سو گیا تھا اٹھانے پر بھی نہیں اٹھ رہا تھا۔ اس کو پولیس والوں نے دقت سے اٹھایا۔ اس طرح اٹھنے کے بعد اس لڑکے نے جو بہت پیا ہوا تھا۔ کوئی لفظ جرمن میں کہا۔ اس پر پولیس والوں کو طیش آ گیا۔ کسی نے اس کا ہاتھ دبایا کسی نے گردن میں ہاتھ دیا۔ اس طرح دھکے دے کر باہر تک لے جا کر چھوڑ آئے۔ پھر مسافرین کی مکمل تنقیح کی۔ ہمارے پاس واپسی کا ٹکٹ تھا اس لے کچھ پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ ان پولیس والوں میں سے ایک کے پاس واکی ٹاکی (چلتے ہوئے بات کرنے کا آلہ) تھا اس کے ذریعہ وہ کسی سے بات کر رہا تھا۔ غالباً وہ اپنے مرکز سے ربط قائم کئے ہوئے تھا۔ آدھ پون گھنٹے کے بعد نہیں معلوم وہ نوجوان جو ویٹنگ روم میں مدہوش سورہا تھا پولیس والوں کو کہاں سے مل گیا۔ پکڑ کر دھکے دے کر اس کا ہاتھ مروڑ کر ہمارے ویٹنگ روم کے سامنے ادھر سے ادھر لے جا رہے تھے۔ جب اسکی اچھی خاصی مرمت ہو گئی تو ہم نے دیکھا وہ خود ایک طرف سے اسٹیشن سے باہر جا رہا تھا۔ ہم نے رات میں تین بجے پھر اس کو دیکھا کہ ویٹنگ روم میں آ کر لیٹ گیا ہے۔

صبح میں پنسین کی تلاش سے پہلے ہی ہم حوائج سے فارغ ہونے کے لئے سب وے (زمین دوز ریلوے کے حصہ) کی طرف گئے اسی طرح w.c لکھا ہوا تھا۔ جیسے ہر جگہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی عورتیں اور مردوں کے پائخانے الگ الگ ہیں۔ اندر جانے کے لئے دو راستے بنے ہیں جن میں اڑڈنڈے لگے ہیں جب تک اس کے سوراخ میں ۱۰، ۱۰ فنگس کے تین سکے نہ ڈالے جائیں وہ اڑڈنڈا کسی کے اندر جانے کے لئے ڈھیلا نہ ہو گا۔ ہم نے ایک مارک دے کر ایک شخص سے (چلر) خوردہ لے لیا۔ اس نے ۵۰ فنکس کا ایک سکہ اور ۱۰ ، ۱۰ فنگس کے پانچ سکے دئے۔ تین سکے ہم نے بیت الخلاء کے حصہ میں جانے کے لئے استعمال کئے۔ واپسی میں ہم نے دیکھا کہ حمام کی طرف بھی جانے کے لئے اسی قسم کے اڑڈنڈے لگے ہیں۔ جہاں مقررہ پیسے ڈال کر ہی اندر جا سکتے ہیں۔ اسی طرح الکٹرک شیونگ مشین کا استعمال بھی سکے ڈال کر ہی ہو سکتا ہے۔

ویٹنگ روم واپس آ کر ہم نے بیوی کو ۵۰ فنگس کا سکہ دیا کہ کسی عورت سے اس کے دس دس کے ۵ سکے لے لیں اور تین سکے سوراخ میں ڈال کر اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر آئیں بعد میں جب وہ واپس آئیں تو ہم نے کو ۵۰ فنگس کا سکہ واپس کر دیا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ہوا تو انہوں نے کہا کہ خواتین کے حصہ میں صرف ایک عورت ضرورت سے فارغ ہونے کے لئے آئی تھی۔ اس کے پاس صرف اپنی ضرورت کے لئے ۱۰ ، ۱۰ کے تین سکے تھے اس لئے وہ اپنا ۵۰ فنگس والا سکہ نہیں تڑا سکیں۔ لیکن اسی خاتون کے مشورہ سے وہ اڑڈنڈا کے نیچے سے اندر چلی گئیں۔ یہ کام ان کے اپنے قد و قامت کی وجہ سے آسان تھا۔

ہم نے زیورک اور یہاں کے مجمع میں کافی فرق پایا۔ وہاں کے لوگ خاموش اور سنجیدہ دکھائی دئے۔ یہاں ذرا ہنگامہ  تھا۔ کچھ نوجوان لڑکے گاتے بھی پھر رہے تھے۔ اور ایک دوسرے کو زور سے زور سے پکار بھی رہے۔ ہم نے روم اور زیورک میں اس طرح کی چیخ و پکار نہیں سنی۔ یہاں بھی یہ صرف اسٹیشن ہی پر دیکھا۔ شہر کی دن بھر کی گشت میں ہم نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔

آج ہم سب وے یعنی زمین دوز ریلوے سے (Dachau  اس کو جرمن میں ڈاکو و تلفظ کرتے ہیں ) کا Concentration Camp دیکھنے گئے۔ میونک کے زمین دوز ریلوے اسٹیشن کو Haput Bahn Hofکہتے ہیں۔ وہاں سے ۵۲ نمبر کی ٹرین پکڑ کر ڈاکوؤ تک جانا چاہئے۔ اس کا ایک طرفہ کرایہ 2 Dm 50 Fennings اگر واپسی کا ٹکٹ بھی لیا جائے تو یہ ہم Dm 3-75 میں مل جاتا ہے۔ ڈاکوؤ سے L-3 کی بس میں بیٹھ کر جائیں تو اس کا کرایہ فی کس ۷۰ فنگس ہو گا۔ یہ بس آپ کو کن سن ٹریشن کیمپ سے بالکل قریب اتار دے گی۔ اس کیمپ میں ایک میوزیم بھی ہے اس میں ہٹلر کے برسراقتدار آنے سے لے کر ۱۹۴۵ء تک Concentration Camp کے تعلق سے واقعات کو بڑے بڑے پوسٹرس اور تصویروں کے ذریعہ بتایا گیا ہے۔ یہ ایک درد بھری کہانی ہے۔ میوزیم کے سامنے ایک بڑا میدان ہے۔ اس کے بائیں طرف وہ کمرے ہیں جن میں قیدیوں کو لٹکا کر مارا جاتا تھا۔ اور بعد میں بھٹیوں میں جلا دیا جاتا تھا۔ وہ بھٹیاں اسی حالت میں اب بھی موجود ہیں۔ (gas chambers) بھی موجود ہیں۔ یہ چیمبرس ایسے ہیں جیسے نہانے کے کمرے ہوتے ہیں۔ شورس سے بجائے پانی کے زہریلی گیس آتی تھی۔ اور اس میں ڈھکیلے ہوئے آدمی گھٹ گھٹ کر جاتے تھے۔ اس گیس چیمبر پر لکھا ہوا تھا اور بعد میں فلم میں بھی دیکھا کہ ڈاکوؤ کا گیس چیمبر کبھی استعمال میں نہیں آیا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نازی ۳۰! جنوری ۱۹۳۳ء کو اقتدار میں آئے اور ۲۲/مارچ ۱۹۳۳ء کو اس کن سن ٹریشن کیمپ کی بنیاد پڑی۔ یہ کیمپ اور اسی قسم کے دوسرے کیمپ SS آرگنائزیشن کے تحت تھے۔ اس کیمپ کی فائیلوں سے پتہ چلتا ہے کہ کل 206000 سے زیادہ قیدی اس میں رجسٹرڈ ہوئے۔ اس کے علاوہ بعض ایسے بھی قیدی تھے جو درج نہیں ہوئے تھے۔ Dr.Rascher کا بلاک ۵ نمبر میں تھایہ قیدیوں پر ہائی پریشر اور Exjosure کے تجربات کرتے تھے۔ Prof.Schilling کئی قسم کے Bio-Chemical تجربات قیدیوں پر کرتے تھے۔

ریکارڈ کے لحاظ سے اس کیمپ میں کل 31,951 قیدی مرے۔ بعض ایسے بھی ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا لیکن ان کو گولی ماردی گئی۔ جب ہم یہ بھیانک میوزیم دیکھ رہے تھے تو ایک آدمی نے اعلان کیا کہ انگلش میں فلم دکھائی جانے والی ہے۔ اسی میوزیم میں ایک ہال ہے اس میں یہ فلم دکھائی گئی۔ اس کے دیکھنے سے اور بھی دکھ ہوا۔ کس طرح لوگ پکڑے جاتے تھے ان کو کیمپوں میں کس طرح داخل کیا جاتا تھا۔ ان سے کس طرح کام لیا جاتا تھا ان کی کیا حالت ہو گئی تھی۔ جنگ کے اختتامی دور میں جب کہ جرمنی میں ہر چیز کی قلت ہو گئی تھی ان قیدیوں پر کیا مصیبت گزر رہی تھی۔ جب یہ کیمپ آزاد ہوئے تو مردوں کے کتنے ڈھیر پڑے تھے اور جو زندہ تھے ان کا کیا حال تھا۔ سب کچھ دکھایا گیا تھا۔ سب سے زیادہ مصیبت جرمنی اور اس کے مقبوضہ ممالک کے یہودی تھے۔ نازی چاہتے تھے کہ اس قوم کا صفایا کرے کے یہودیت کو ان کے ملک سے نیست و نابود کر دیا جائے صرف چند یہودی جو ان کے ہتھیار بنانے والے کارخانوں میں کام کر رہے تھے اس مصیبت سے بچے رہے۔ بعد میں جب جرمن قوم میں میان پاور کم ہونے لگا تو ان قیدیوں سے دوسرا کام بھی لیا جانے لگا۔

۲۸/ ستمبر ۱۹۷۶ء یہاں کئی قسم کے تفریحی سفر ہیں۔ ایک گھنٹہ جو سفر ہے اس کا کرایہ فی کس DM 8-50 بعض ڈھائی گھنٹے کے ہیں جن کا کرایہ DM - 17-00 فی کس ہے۔ آج ہم اسی قسم کے ایک گھنٹے کے سفر میں میونک گھومتے رہے۔ ایک جوان لڑکی انگریزی اور فرنچ میں راستوں۔ اسکوائیر اور مجسموں کے تعلق سے بتاتی جا رہی تھی۔ یہاں متعدد میوزیم ہیں۔ یہ کئی قسم کے فنون لطیفہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں کئی مجسمے بھی ہیں۔ ایک کالی لاٹ ہے۔ جو ۳۲ ہزار۔ سپاہیوں کی یاد میں بنائی گئی ہے۔ کئی ہزار سپاہی (جس کا پائے تخت میونک ہے ) سے نپولین کے ساتھ روس کو فتح کرنے کی مہم پر گئے تھے۔ لیکن اس علاقے کے ۳۲ ہزار سپاہی مر گئے یا پکڑے گئے اور واپس نہیں آئے غالباً یہ بات ۱۸۱۷ء کی ہے۔ یہ لاٹ ۱۸۲۰ء یا ۱۸۳۰ء میں بنائی گئی۔ یونیورسٹی آف ٹکنالوجی سے گزرے تو گائیڈ نے کہا کہ اس وقت اس میں ۱۲ ہزار طالب علم پڑھ رہے ہیں۔ جب ہماری بس میونک یونیورسٹی کے علاقہ سے گزر رہی تھی تو لڑکی گائیڈ نے بتایا کہ وہ یورپ کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور اس وقت اس میں ۳۲ ہزار طالب علم پڑھ رہے ہیں۔

شہر میں گھمانے والی ٹورسٹ بسیں ریلوے اسٹیشن کے سامنے Her-Tie Department اسٹور کے سامنے سے نکلتی اور وہیں ختم ہوتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اسٹور ہے۔ کافی بڑے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں ضروریات زندگی کی تقریباً ہر شئی بکتی ہے۔

ہم لوگ ٹورسٹ بس سے اتر کر پیدل ہی سینٹ میری اسکوائیر گئے۔ اس بازآر میں ہر قسم کی سواریوں کی آمد و رفت کو روک دیا گیا ہے۔ لوگ پیدل ہی چل سکتے ہیں۔ اس بازار کی دونوں طرف بڑھیا قسم کی دوکانیں ہیں۔ بیچ میں بھی لیکن ذرا ہٹ کر بڑی بڑی چھتریوں کے نیچے میوے اور دوسری چھوٹی موٹی عارضی دوکانیں لگی ہیں۔ میوے کی دوکانوں پر انگور۔ کیلا۔ ناشپاتی۔ ٹماٹر خوب بکتا ہے۔ اسناک کی دوکانیں بھی جا بجا لگی ہیں۔ سوئیزر لینڈ کی طرح یہاں بھی بنے بنائے کپڑوں کی دوکانیں بہت ہیں۔ ہر چیز پر قیمت درج ہے۔ مختلف کپڑوں کو مجسموں کو پہنا کر دکھایا گیا ہے۔ جوتوں اور لانبے جوتوں کی دوکانیں بھی کافی ہیں۔ بیکری کی دوکانیں بھی بہت ہیں۔ زیورک کے پارک کرنے کے لئے مختلف جگہ پر میٹر لگے ہیں۔ جو لوگ میٹر میں سکے نہیں ڈالتے ، یا پھر زیادہ دیر تک پارک کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نمبرات پویس والے لکھ کر ان کی موٹروں کی ونڈ اسکرین پر ایک ایک پرچہ لگا دیتے ہیں۔

میونک میں ٹیکسی کار کا کوئی خاص رنگ نہیں ہے۔ صرف ٹیکسی کی تختی اوپر لگی ہوئی ہے۔ ہم نے زیورک میں بعض عورتوں کو ٹیکسی چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن یہاں ہم کو کوئی عورت ٹیکسی چلاتے ہوئی نہیں دکھی۔

یہاں ہم کو جبکہ ہم آتے ہی پنسین تلاش کر رہے تھے۔ ایک دوکان پر بہت ہی خوش خط میں ’’فروش گاہ کریم‘‘ پڑھ کر خوش ہوئی تھی۔ اس کے بعد تین ، چار دوکانیں اور بھی دکھیں جن پر جرمن کے علاوہ فارسی میں بھی نام لکھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کئی ایرانی لوگ کاروبار کرتے ہیں۔ بعد میں فروش گاہ کریم میں جا کر اپنے آپ کو ہندوستانی بتا کر اپنی ٹوٹی پھوٹی فارسی  میں کچھ بات کہی تھی۔ راستے میں کچھ اور ایرانی ملے تو ان سے بھی ہم نے بات کی۔

کل ہم کو ٹرین سے زیورک واپس جانا ہے اور وہاں سے ہوائی جہاز سے پیرس کے لئے پرواز کرنی ہے۔

جمعرات۔ ۳۰/ ستمبر ۱۹۷۶ء

Hotel Imperial 45, Rue Dela Victoir

75009- Quartexopera  Tel, 874, 1047 874,1847

پیرس۔ فرانس میونک سے ہم ۲۹! کی صبح کو نکلے۔ رات ہی میں ہم نے پنسین کسینو کی بل ادا کر کے رسید حاصل کر لی تھی۔ بعض وقت عین موقعہ پر بحث پیدا ہو جاتی ہے۔ یا پھر وہ آدمی نہیں رہتا جس نے کمرہ دیا ہو چنانچہ روم میں پنسین والے صاحب نے ہم سے ۵۰۰،  ۱۰ لیرا فی یوم کرائے کے سوا کچھ ٹیکس بھی ہمارے وہاں سے نکلتے وقت وصول کرنا چاہا تھا۔ ہم نے جواب دیا تھا کہ ریلوے اسٹیشن پر جس لڑکی نے ہم کو کمرہ دیا تھا اس نے کل رقم بشمول ٹیکس ۵۰۰،  ۱۰ لیرا بتائی تھی۔ اور اس کی صراحت اس رسید پر بھی ہے جس کو پنسین والے صاحب نے ہم سے لے لیا تھا۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے تھے۔

میونک میں ہم نے پنسین چلانے والی خاتون سے کہہ دیا تھا کہ ہمیں صبح جلد جانا ہے۔ اس لئے ناشتہ (جو کرایہ میں شریک تھا) ساڑھے چھ بجے ملنا چاہئے۔ اس نے کہا کہ وہ صبح ۷ بجے دے گی۔ ہم تیار ہو گئے کہ پنسین سے اسٹیشن کا راستہ صرف ۱۰ منٹ کا ہے اور ٹرین صبح ۸ بجے چھوٹتی ہے۔ لیکن ۲۹! کی صبح کو سوا سات بجے تک وہاں کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ہم کمرے کی کنجی اسٹانڈ پر لگا کر ریلوے اسٹیشن آ گئے۔ جس طرح زیورک میں ٹرینوں کی روانگی کو بورڈ پر بتایا جاتا ہے۔ میونک میں اس طرح نہیں بتایا جاتا۔ مستقل پروگرام کے لحاظ سے زیورک ، برن اور جنیوا جانے والی ٹرین ۲۴ نمبر پلیٹ فارم سے نکلنے والی تھی۔ پلیٹ فارم کے ختم پر بجانب اسٹیشن ایک بورڈ پر چاک سے لکھا ہوا تھا کہ وہ ٹرین اب ۲۲ نمبر پلیٹ فارم سے نکلے گی۔ جب ۲۲ نمبر کے پلیٹ فارم پر پہنچے تو اس کی صراحت موجود تھی۔ پھر بھی جب اس پلیٹ فارم پر ٹرین آئی تو یہ تصدیق کر کے کہ وہ زیورک بھی جا رہی ہے۔ نمبر ۲ کے ڈبے میں بیٹھ گئے۔ مصر۔ اٹلی۔ سوئیزرلینڈ۔ جرمنی اور فرانس وغیرہ میں فرسٹ اور سکنڈ کلاس کو رومن عدد میں ظاہر نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ نمبر (۱) اور (۲) لکھا جاتا ہے۔

میونک سے ٹرین ٹھیک ۸ بجے نکلی۔ آتے وقت جرمنی کا یہ حصہ ہم نے رات کے وقت گزارا تھا۔ اب صبح کا وقت تھا Lin Dauhbp تک مغربی جرمنی کا حصہ تھا۔ اس کے بعد تھورا سا حصہ آسٹریا کا Brecenz سے شروع ہوتا ہے اس کے بعد سوئزرلینڈ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ تین ملکوں کے اس حصہ میں زمین تقریباً یکساں ہے ، مکانات دیہات کے ہوں کہ شہر کے ان کی آخری منزل پر کویلو ہے۔ اکثر ہندوستان کی منگلور ٹائیلس جیسی۔ لیکن قدرے پتلی اور چھوٹی ہے۔ (سسٹم) ڈھانچہ سب لکڑی کا ہے۔ ہم نے بعض مکانات ایسے بھی دیکھے جو بنائے جا رہے تھے ان میں بھی ٹائین اور قینچیاں لکڑی ہی کی لگائی جا رہی تھیں۔ یہاں چھتیں بھی لکڑی ہی کی بنائی جاتی  ہیں۔ البتہ بعض عمارتیں جو غالباً سرکاری یا بڑی بڑی فرم کی ہوں گی کئی منزلہ اور آر سی سی کی بنائی گئی ہیں۔ رہائشی مکانات یک منزلہ۔ دو منزلہ۔ تین منزلہ یا زیادہ سے زیادہ چار منزلہ ہیں۔ سب سے اوپر کی منزل کویلو کی ہے۔ لیکن اس کا ڈھلاؤ کافی دیا گیا ہے۔ اوپر کی منزل پر روشنی کے لئے ایک یا دو کھڑکیاں شیشے کے پٹوں کی لگائی جاتی ہیں اور ان کے اندر کی طرف پردے بھی لگے رہتے ہیں۔ بعض جگہ روشنی کے لئے  اوپر کی چھت میں دبیز شیشے بھی لگے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی دھواں جانے کے لئے چمنیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ راستے میں جنگل بھی بہت ملے۔ درخت لانبے اور سیدھے ہیں۔ کہیں کہیں درخت کاٹے گئے تھے اور ان کے تنوں کو یکجا جمع کے گیا تھا۔ بہرحال اس طرف لکڑی کی بھر مار معلوم ہوتی ہے۔ جنگل کو اگانے اور کاٹنے کا طریقہ بھی بہتر معلوم ہوتا ہے۔ جو میدان کھلے پڑے ہیں وہ سب ہرے ہیں۔ ان میں اکثر جگہ گائیں چر رہی تھیں۔ لیکن یہ گائیں اپنے اپنے حدود میں جن کے اطراف تاروں کی باڑ لگا دی گئی تھی موجود تھیں۔ پینے کے لئے پانی پہئے والی گاڑی میں جس میں موٹے جست کے بیرل لگائے گئے تھے جا بجا موجود تھا۔ یعنی جانوروں کا پانی بھی غلاظت وغیرہ سے محفوظ تھا۔ ان چراگاہوں میں کہیں کنٹے یا گڑھوں میں پانی جمع ہوا دکھائی نہیں دیا۔ باڑ میں گایوں کی تعداد کے لحاظ سے ایک یا دو بیرل پانی کے رکھے ہوئے تھے۔ ان کے بازو میں نالی لگی ہوئی ہے۔ جہاں گائیں جا کر پانی پیتی ہیں جب ٹرین قریب سے گزری ہے تو ہم نے دیکھا کہ ان گایوں کے تھن کافی بڑے تھے۔ نہیں معلوم ایک گائے کتنا دودھ دیتی ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ۲۰ ، ۲۵ لیٹر تو شاید آسانی سے وقت واحد میں دے دیتی ہو گی۔

پھل اور ترکاری کے باغ بھی ملے۔ ترکاری کے باغ چھوٹے چھوٹے حصوں میں ہیں۔ ترکاریوں کی بہت حفاظت کی جاتی ہے۔ ہم نے کئی جگہ دیکھا کہ جھاڑوں کو پلاسٹک سے ڈھانکا گیا ہے۔ اس سے غالباً تیار فصل کو سورج کی تمازت اور رات کی اوس سے بچانا مقصود ہو۔

ہماری ٹرین ٹھیک ۱۲ بج کر ۵۸ منٹ پر زیورک پہنچی۔ ہم سیدھے سوئس ایر کی آفس جو ریلوے اسٹیشن سے لگی ہوئی ہے گئے۔ ہم نے پہلے ۲۷! کی دوپہر کی پرواز سے اپنی جگہیں محفوظ کرائی تھیں۔ ۲۹! کو پوچھا تو کاؤنٹر والی لڑکی نے متعلقہ آفس سے کمپیوٹر مشین (جو ٹائپ رائٹر کی طرح ہوتی ہے ) کے ذریعہ دریافت کیا تو اسی مشین پر یہ جواب ملا کہ ۴۵۔ ۲ والی پرواز بالکل وقت پر ہو چکی ہے۔ ہم نے پوچھا کہ ایرپورٹ چلے جائیں تو کیا موقعہ ہے اس پر اس لڑکی نے متعلقہ آفس سے اسی مشین سے ربط پیدا کیا جواب ملا کہ مواقع بہت روشن ہیں۔ ہم نے اپنے ٹکٹ دئے کہ ہمارے نام منتظرین کی فہرست میں لکھ دئے جائیں۔ اس پر پھر اس لڑکی نے متعلقہ سکشن سے ربط پیدا کیا ار ہم دونوں کا نام ٹائپ کر دیا اور ہمارے ٹکٹ پر بھی منتظرین کی چٹھی لگادی ۵۰،  ۵ سوئس فرانک دے کر ہم لوگ سوئس ایر کی بس سے ایرپورٹ چلے گئے۔ جب ہم بس میں سامان رکھ رہے تھے تو سامان رکھنے والے نے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ہم نے کہا پیرس۔ اس نے ہمارا سامان b سکشن میں رکھ دیا اور ہم کو بتا دیا کہ وہ اس طرف رکھ دیا گیا ہے۔ جب بس ایرپورٹ پہنچی تو بہت سے لوگ اترنے لگے۔ ہم بھی اتر گئے اور جو شخص سامان اتار رہا تھا۔ اس سے ہم نے کہا کہ ہمارا سامان اتار دے اور اشارہ سے بتا دیا کہ وہ اس طرف رکھا ہے اس نے بھی پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں جب اسے معلوم ہوا کہ ہم پیرس جا رہے تو اس نے آگے کی طرف بتایا جدھر B لکھا تھا۔ اگر ہم ایر پورٹ کے حصہ A کی طرف اتر جاتے تو ہم کو پیرس جانے والے ہوائی جہاز کے لئے حصہ B کی طرف خود اپنا سامان لے کر لمبا فاصلہ طے کرنا پڑتا۔

ایرپورٹ کے سوئس ایر کے کاؤنٹر پر گئے تو وہاں کے آدمی نے ہمارا سامان تو تو لیا لیکن اس کی چٹھیاں نہیں دیں اور کہا کہ ہم ۲۴ نمبر کے گیٹ کے سامنے چلے جائیں۔ ہم منتظرین کی فہرست میں ہیں اگر جگہ بچ جائے تو دے دی جائے گی۔ ہم متعلقہ گیٹ پر پہنچ گئے۔ ہوائی جہاز اڑنے سے دس منٹ قبل تک ہم کو یقین نہیں تھا کہ ہمیں جگہ ملے گی یا نہیں اور نہیں ملے گی تو پھر ہمارا سامان کس طرح نکالا جائے گا۔ ہمارے ساتھ ایک اور صاحب بھی منتظرین کی فہرست میں تھے۔ سب کو جگہ مل گئی۔ جب ہوائی جہاز اڑنے لگا اور ہم نے نظر ڈالی تو ہوائی جہاز مسافرین سے بھرا بھرا دکھائی دیا۔ اور ہم کو صرف ایک سیٹ خالی نظر آئی۔ اس ایک گھنٹے کی پرواز میں بسکٹ ، پھلوں کا رس اور آئس کریم دی گئی۔ جب ہوائی جہاز ایک بڑے دریا پر سے گزر رہا تھا تو اعلان کیا گیا کہ وہ دریائے ’’رائن‘‘ ہے۔

ہمارا ہوائی جہاز پیرس کے Orlyust ایرپورٹ پر اترا پہلے ہم نے اپنے کچھ سفری چک تڑائے۔ اس دن ہم کو U.S سفری چک کے فی ڈالر ۴۸ء۴ فرانسیسی فرانک کے حساب سے رقم ملی۔ بعد میں ہم نے Cook's کی آفس کے بورڈ پر دیکھا کہ یو۔ ایس ڈالر کے سفری چک کا نرخ ۸۷ء۴ فرانسیسی فرانک تھا۔ یہ بینک والے کافی کمیشن لیتے ہیں۔ Orlyust ایرپورٹ سے ایرٹرمینل تک بس کا کرایہ فی شخص ۲۲ فرنچ فرانک ہے۔ ایر ٹرمینل Invalides میٹرو ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے برٹش ایرویز کے آفس کو ٹیلی فون کر کے ۳!اکٹوبر کو لندن کے لئے جو جگہیں پہلے سے محفوظ کر دی گئی تھیں ان کی دوبارہ توثیق کرالی۔ اس وقت ۵،  ۵ ۲!۱ بج رہے تھے۔ Invalides کا علاقہ ہم کو زیادہ مرکزی دکھائی نہیں دیا۔ اس لئے ہم مجبوراً ہوٹل ریزرویشن کاؤنٹر پر گئے اور کسی ہوٹل میں کمرے کی خواہش کی، اس نے ایک پرچہ دیا کہ ہم اس کی خانہ پری کریں۔ ہم نے لکھ دیا کہ دو بستر والا کمرہ بغیر ملحقہ باتھ روم اندازاً ۵۰ فرانک فی یوم کے حساب سے چاہئے۔ کاؤنٹر والی لڑکی نے ہمارا پرچہ دیکھا اور کہیں ٹیلی فون کر کے فرنچ میں بات کی اور کہا ۸۸ فرانک فی یوم کا کمرہ موجود ہے۔ ہم نے کہا کہ اتنا مہنگا کمرہ نہیں لے سکتے۔ زیادہ سے زیادہ ۶۰ فرانک کا لے سکتے ہیں۔ پھر اس نے بات کی اور کہا کہ کم از کم ۶۸ فرانک فی یوم کا موجود ہے۔ ہم بصورت مجبوری راضی ہو گئے۔ اس لڑکی نے اپنی ساڑھے سات فرانک اجرت لی اور اس کی رسید دی۔ اس پر ہوٹل کا نام اور فی یوم کرایہ ۶۸ فرانک ( جس میں ناشتہ اور ٹیکس وغیرہ سب شریک تھے ) لکھ دیا۔ ہم نے شہر پیرس کا نقشہ لے لیا۔ اس میں اس لڑکی نے جس مقام پر ہم اس وقت تھے اور جہاں ہم کو ہوٹل کے لئے جانا تھا پنسل سے دائرے بنا دئے۔ ہم نے اس لڑکی سے پوچھا کہ اگر ہم ٹیکسی لیں تو کیا کرایہ لگے لگا۔ اس نے ہم سے ہمارے سامان کی تعداد پوچھی ہم نے تین بتائی اس نے کہا کہ ۲۶ فرانک۔ ہم راضی نہیں ہوئے تو اس نے کہا کہ ۲۰ میں ٹیکسی مل جائے گی۔ لیکن اس کو بھی ہم نے زیادہ سمجھا اور بلڈنگ سے باہر آ گئے۔ سڑک پار کی تو Metro Station Invalides پاس ہی تھا۔ ایک صاحب وہاں کھڑے تھے ان کو نقشہ بتایا اور رسید میں لکھا ہوا ہوٹل کا نام تو اس نے ہم سے انگریزی میں پوچھا کہ ہم ٹیکسی سے جائیں گے یا مٹرو سے۔ میٹرو کا مطلب زمین دوز ٹرین سے ہے۔ ہم نے کہا کونسا سستا پڑے گا۔ اس نے بتایا میٹرو بہت سستا پڑے گا۔ ہم میٹرو سے جانے کے لئے نیچے چلے گئے اور ٹکٹ لیکر St.Lazzare جانے والی گاڑی پوچھتے پوچھتے پلیٹ فارم پر پہنچ گئے۔ ہم نے روم اور میونخ میں دیکھا کہ سب وے ٹرینوں میں ہجوم نہیں تھا۔ لیکن یہاں پیرس میں کافی ہجوم تھا۔ اس ٹرین میں سامان لے کر چڑھنا ذرا مشکل ہی کام تھا۔ ہم ٹرین میں چڑھتے ہی St.Lazzare سالاذارے پوچھتے رہے۔ وہ ٹرین ادھر نہیں جا رہی تھی۔ ہماری پریشان دیکھ کر ایک نوجوان ایک دو اسٹیشن کے بعد ہم کو لے کر اتر گیا۔ اور اس کے بعد Interdil راستے کے ذریعہ کسی دوسرے پلیٹ فارم پر لایا اور کسی ٹرین کے آنے پر ہم کو بیٹھ جانے کے لئے کہا اور خود اپنے مقام پر جانے کے لئے کسی اور طرف روانہ ہو گیا۔ ایک دو اسٹیشن کے بعد سینٹ لازارے پر اتر گئے اور 45, ruedela victoire کی تلاش میں چلنے لگے۔ سامان کے ساتھ ہجوم والی دو ٹرینوں میں چڑھنا اترنا پھر Sortee دیکھ کر سیڑھیوں پر سے باہر جانا اس سے طبیعت الجھنے لگی۔ تھوڑی دور چل کر میں نے بیوی کو ایک جگہ ٹھیرا دیا سامان چھوڑ کر ٹکٹ اور پیسوں اور چکوں وغیرہ کا بستہ ان کے گلے میں ڈال کر ہوٹل کی تلاش میں نکل گیا۔ راستے میں دو ایک ہوٹلیں ملیں تو ان میں ٹھیرنے کے خیال سے وہاں گیا۔ لیکن وہاں جگہ نہیں ملی۔ لیکن تھوڑی دور چلنے پر ہوٹل امپریل دکھ گئی۔ واپس آ کر پھر ہم سامان وغیرہ لے کر وہاں پہنچ گئے اور اس ہوٹل میں ٹھیر گئے اور ہوٹل والے سے تصدیق کرالی کہ ۶۸ فرانک میں ٹیکس۔ سروس اور ناشتہ وغیرہ شریک ہے۔ تیار ہو کر جب باہر نکلے تو مالک ہوٹل سے پوچھا کہ ہم کو کسی رسٹورنٹ میں سادا چاول اور ترکاری کا سالن وغیرہ مل سکتا ہے۔ ؟ اس نے ایک پرچہ پر لکیریں ڈال کر ایک چورا ہے پر Trevise لکھ دیا۔ اور اس سے آگے کی طرف Etocle Del لکھ کر کہہ دیا کہ یہ ہندوستانی رسٹورنٹ ہے۔ ہم کو اپنے مذاق کی غذا مل جائے گی۔ ہم کو اس رسٹورنٹ کی تلاش میں کئی گلیوں کی گشت کرنی پڑی۔ راستے میں ایک اسٹور سے روٹی اور کسی دوسرے مقام سے کیلے ، انگور اور کسی اور جگہ سے ٹماٹے اور ہری مرچ لے لی۔ کسی طرح تلاش کر کے ہم نے وہ ہندوستانی رسٹورنٹ نکال لی۔ ہم نے سوچا تھا کہ یہ کوئی کشادہ مصروف رسٹورنٹ ہو گی اور وہاں کئی ہندوستانی لوگ بیٹھے ہوں گے لیکن دیکھا تو ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ بڑی مشکل سے چھ ، سات چھوٹے چھوٹے میز لگے تھے۔ دیواروں کی لائٹ دھیمی اور میزوں پر موم بتیاں لگا دی گئی تھیں۔ ہم اندر داخل ہوتے ہی ایک جوان صاحب (جو ہندوستانی نسل کے دکھ رہے تھے ) آئے اور کہا کہ ادھر کی دو تین میز محفوظ ہیں اور صرف دروازے کے قریب کا میز خالی ہے۔ ہم وہاں بیٹھ گئے۔ دو تین میزوں پر نظر ڈالی تو ان پر صرف یوروپین لوگوں کو پایا۔ ہر طرف شراب رکھی تھی۔ ایک میز پر ایک صاحب بیٹھے غالباً اپنے آرڈر دئے ہوئے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ صورت شکل سے ہندوستانی معلوم ہو رہے تھے۔ لیکن بہت ہی ٹپ ٹاپ تھے۔ ہم نے رسٹورنٹ والے صاحب سے کہا کہ ہم ذرا مینو پڑھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے حال چال سے ہی غالباً ہوٹل والے صاحب سمجھ گئے کہ ہم پیسے والے فیشن ایبل لوگ نہیں ہیں۔ بیوی کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی جس میں ڈبل روٹی۔ پھل اور ترکاری وغیرہ تھی۔ ویسے ہم کو موم بتی کی روشنی میں مینو پڑھنے میں زحمت ہونے لگی۔ اس پر انھوں نے کہا کہ باہر بھی بورڈ پر بڑے حروف میں کھانوں کے نام اور ان کی قیمت لکھی ہے۔ باہر جا کر دیکھا تو ان میں شامی ، کباب وغیرہ بھی تھے۔ بیوی نے کہا نہیں معلوم گوشت کیسا ہو۔ صرف ترکاری کھائیں گے۔ فہرست میں چاول نہیں تھا۔ لیکن بیوی نے کہا کہ انھوں نے اندر کسی کو چاول کھاتا ہوا دیکھا ہے۔ بہرحال ہم دوبارہ اندر گئے دو پلیٹ چاول اور ایک پلیٹ سالن کا آرڈر دینا چاہا۔ رسٹورنٹ والے صاحب نے کہا کہ کم از کم دو پلیٹ سالن کا آرڈر دینا ضروری ہے۔ مجبوراً دوہی کا آرڈر دینا پڑا۔ ہر چیز بنائی گئی اس لئے آدھ گھنٹہ ٹھیرنا پڑا۔ سالن دو کٹوروں میں کم مقدار میں آیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ایک پلیٹ میں چاول۔ اس کی مقدار اتنی کم تھی کہ ہم تعجب کرنے لگے کہ اتنے سے چاول میں ہمارا پیٹ کیسے بھرے گا۔ پھر بھی ہم دلاسا دے رہے تھے کہ شاید وہ ایک پلیٹ ہے۔ دوسری پلیٹ بعد میں آئے گی۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد اس لڑکی کو بلایا جس نے کھانا میز پر رکھا تھا۔ اور کہا کہ ہم نے دو پلیٹ چاول کا آرڈر دیا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ دو پلیٹ ہی ہے۔ بھوک خوب لگی تھی چاول دیکھو تو اتنا تھوڑا کہ ایک آدمی کی پاؤ ضرورت کے لئے بھی کافی نہیں بیوی نے کہا کہ تھیلی میں روٹی رکھی ہے وہ نکالیں گے۔ چھوٹی سی جگہ چار پانچ میز پر جو لوگ کھا پی رہے تھے کافی فیشن ایبل۔ ان کے سامنے تھیلی سے روٹی نکال کر کھانے کو بھی طبیعت مائل نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن بھوکا اٹھنا اور چار نوالوں میں سالن کو ختم کرنا کوئی عقلمندی نہیں تھی۔ اس لئے ہم نے روٹی نکالی اور خوب سیر ہو کر کھایا۔ ہم کو یہ لکھنے میں تامل نہیں ہے کہ گو سالن کی مقدار کم تھی۔ ہرے بیگن اور بھینڈی جس کا ہم نے آرڈر دیا تھا لذیذ بنائے گئے تھے۔ بل آنے پر معلوم ہوا کہ چاول کے ۱۵ فرانک لگائے گئے ہیں۔ سروس چارس وغیرہ لگا کر اس نے کل بل ۵۰ء۳۹ کا بنایا۔ ٹپ دینے کے بعد ہمارے کل ۴۲ فرانکس خرچ ہوئے۔ باہر نکلنے کے بعد جب ہم نے فرنچ فرانک کو اپنے پیسوں میں تبدیل کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہم دونوں نے تقریباً اسی روپیوں کا کھانا کھایا ہے توبہ کی اور فیصلہ کیا کہ آئندہ سے ایسی ہندوستانی رسٹورنٹ کو دور ہی سے سلام کریں گے۔

شنبہ۔ ۲/اکتوبر ۱۹۷۶ء

ہوٹل امپریل۔ پیرس۔ فرانس۔ ۳۰ / ستمبر کو ہم Versailles جس کو فرانسیسی تلفظ میں ورسائی کہتے ہیں گئے میٹرو (زمین دوز ٹرین) سے پہلے ہم Invalides ریلوے اسٹیشن گئے جس کے ہم کو فی کس ۷۰ء۱ فرانک دینے پڑے۔ انوالیڈس ہی میں ذرا ہٹ کر سطح زمین پر چلنے والی ٹرین کا بھی اسٹیشن ہے۔ وہاں سے ورسائی کو ٹرین جاتی ہے۔ جس کا فی کس ڈھائی فرانک کرایہ ہے۔ اس طرح ایک آدمی کا پیرس سے ورسائی جانے آنے کا کرایہ۔ ۱ فرانک کے اندر ہی ہو جاتا ہے۔ ویسے اگر کوئی ٹورسٹ بس سے صرف آدھے دن کے لئے پیرس سے ورسائی جائے تو اس کا کرایہ ۴۴ فرانک ہے۔ اگر آپ ٹرین سے اول وقت جائیں تو دن بھر ورسائی کا محل دیکھ کر شام میں پیرس واپس ہو سکتے ہیں۔ ورسائی کے ریلوے اسٹیشن سے محل جسے فرنچ میں چاٹو کہتے ہیں۔ پیدل دس منٹ کا راستہ ہے۔ جب ہم محل کے کمپونڈ میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں ہم کو ایک بڑا مجسمہ Louis xiv کا کھڑا ملتا ہے۔ محل کے تین طرف زبردست چمن لگے ہیں۔ جن کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس محل کے بالکل پشت کے چمن سے پرے غالباً دریا گوئچے بہتی ہے۔ محل کے اندر جانے کے لئے فی کس پانچ فرانک ٹکٹ ہے۔ اندر کے ہال بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس محل کی دیواروں اور چھت پر بہت اچھی پیٹنگس ہیں۔ ایک ہال میں پانچویں صدی سے لے کر ۱۹ ویں صدی تک فرانس کے جو بڑے بڑے جنرل گزرے ہیں۔ اور انھوں نے کون کونسی بڑی بڑی جنگیں جیتی ہیں ان کی پیٹنگ موجود ہیں۔ ایک کمرے میں چودھویں لوئی کا پلنگ اس کا بستر اور اس کے اطراف کا پردہ محفوظ رکھا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو بھی پیرس جائے وہ ورسائی کا محل ضرور دیکھے۔

پہلی اکتوبر کو ہم نے Hotel Des Innalides دیکھا یہ میٹرو ان والیڈس سے بہت قریب ہے۔ اس بلڈنگ کو چودھویں لوئی نے ۷۴۔ ۱۶۷۰ء میں وظیفہ یاب سپاہیوں کی رہائش کے بنایا تھا۔ اسی لئے اس کا نام اب تک ہوٹل چلا آ رہا ہے۔ حالانکہ اس میں اس وقت Musede Armee یعنی ہتھیاروں کی میوزیم ہے۔ ایک طرف فوجی چرچ ہے جہاں وہ پرچم لگائے گئے ہیں۔ جن کو فرانس نے گزرے ہوئے زمانے میں کئی ملکوں کو شکست دے کر حاصل کیا تھا۔ اس میں جرمنی کا وہ جھنڈا بھی ہے جو ہٹلر کی حکومت کا پرچم تھا۔ چرچ کے پیچھے ہی نپولن کا مقبرہ ہے۔ St.Helena سے اس کی باقیات کو اس کے انتقال کے ۱۹ سال بعد لا کر یہاں دفن کیا گیا ہے۔ یہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح فوجی ہتھیاروں کی میوزیم بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ مختلف ہتھیاروں کے علاوہ یہاں فرانس کے بڑے بڑے جنرلوں کو ان کے اپنے انداز سے ان کی اپنی وردی میں گھوڑوں پر بٹھا کر ایسے مجمسے بنائے گئے ہیں کہ ان کے چہرے۔ رنگ ڈھنگ جسم ولباس میں و وضع قطع میں اصلیت کا رنگ جھلکتا ہے۔ ان دونوں میوزیموں اور نپولین کے مقبرے کی فیس داخلہ ۵ فرانک ہے۔ اس میوزیم سے ٹہلتے ہوئے ہی ہم ایفل ٹاور (آہنی مینار) دیکھنے گئے ، یہ دریائے Seine کے کنارے بنایا گیا ہے۔ اس کے چاروں طرف چمن لگے ہیں۔ یہاں بھی کافی لوگ آتے ہیں۔ ٹاور (مینار) پر جانے کے لئے دو کوچ ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ یہ موٹے موٹے تاروں کے ذریعہ نیچے اور اوپر لائے جاتے ہیں۔ لوگ اس میں بیٹھ کر اوپر جاتے ہیں۔ اور شہر پیرس کا نظارہ کرتے ہیں۔ ٹکٹ خریدنے کے لئے ایک لانبی کیو لگی تھی۔ وہاں سے ہم بس کے چورا ہے پر اترے بس کا کرایہ فی کس تین فرانک دس سنٹ دینا پڑا۔ ویسے ہم نے پیرس کے ڈرائیور کم کنڈکٹروں کو بہت ہی صاف ستھرے اور قیمتی کپڑوں میں پایا۔ بالخصوص اس میں کے ڈرائیور صاحب جن کپڑوں میں ملبوس تھے وہ بہت ہی بڑھیا۔ صاف ستھرے اور بہت اچھی استری کئے ہوئے تھے۔ ان کے کپڑے ایسے تھے کہ وہ کسی تامل کے بغیر کسی بھی بڑھیا سے بڑھیا ڈنر میں جا سکتے تھے۔ نہیں معلوم وہ اس ٹرانسپورٹ کمپنی کے کوئی عہدیدار تھے اور اتفاقاً اس دن بس چلانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یا پھر وہ مستقل ڈرائیور ہیں اور ہمیشہ اسی قسم کے لباس میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے جوتے بھی بڑھیا اور بہت ہی چمکدار پالش کئے ہوئے تھے۔

آج ۲/اکتوبر کو ہم شہر میں گھومتے رہے۔ دوپہر میں The ArcAde Trimphe دیکھنے گئے ، جاتے اور آتے ہم کو Ayenue des champs elysees سے گزرنا پڑا ۵ فرانک فی کس دے کر آرک دی ٹرامے کی چھت پر بذریعہ لفٹ گئے یہاں سے پیرس شہر کا منظر قابل دید ہے۔ یہ شہر کتنا بڑا اور کتنا پھیلا ہوا ہے۔ اس کا پتہ یہاں آنے پر چلتا ہے۔ ہوائی جہاز سے بھی شہر کا یہ منظر شاید ہی دکھائی دے۔ اس کمان کو بارہ سڑکیں چھوتی ہیں۔ سب سے بڑی سڑک Avenue De champs Elysees ہے جو Concorde Square تک جاتی ہے۔ آج ہفتہ تھا شام کے وقت Champs Elyseesکا بازار کھچا کھچ بھرا تھا۔ کیا دوکانیں اور کیا ان کی سجاوٹ ہے۔ قیمتیں بھی ویسی ہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اتنی بڑھیا قسم کی چیزیں کیسے خریدتے ہیں۔ جا بجا اسناک بار۔ کافی ہاؤس اور رسٹورنٹ ہیں فٹ پاتھ کے بڑے حصہ پر میز کرسیاں اور دھوپ سے بچاؤ کے لئے چھتریاں لگی ہیں۔ لوگ بیر کافی اور کولڈ ڈرنک وغیرہ پی رہے تھے۔ اور بہت سے پی پلا کر صرف تماشہ دیکھ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف ایک پیالی کافی یا چائے پی کر دو تین گھنٹے ویسے ہی بیٹھا تماشہ دیکھتا رہے تو بیرا گاہک کو جگہ خالی کرنے کے لئے نہیں کہے گا۔ سیکڑوں لوگ مختلف رسٹورنٹ وغیرہ میں بیٹھ کر لوگوں کی آمد و رفت اور ان کے حرکات وسکنات دیکھ رہے تھے۔ کیسے کیسے اور کہاں کہاں کے لوگ اس بازار میں دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ویسے پیرس کے سارے بازار چمک دمک اور سجاوٹ میں کافی بڑھیا قسم کے ہیں۔ یہاں بھی مجسموں کا خوب استعمال کیا گیا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے مجسموں کو کپڑے پہنا کر مختلف ڈیزائنوں کے کپڑوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ جس میں الائس کا بازار بہت بڑھیا قسم کا ہے۔ تاجروں نے دل کھول کر اپنی دوکانوں کو سجانے کے لئے پیسہ خرچ کیا ہے۔ بہت اعلی درجہ کی چیزیں بھی فراہم کی ہیں۔ ہم نے ایک فیر کوٹ دیکھا جس پر بیس ہزار فرانک کی چٹھی لگی تھی یعنی ہمارے تقریباً ۴۰ ہزار روپئے ایک متوسط مکان کی قیمت مقامی لوگ کافی بڑھیا اور صاف ستھرے کپڑوں میں دکھائی دئے۔ یہاں موٹریں بھی خوب چلتی ہیں۔ بعض سڑکوں پر چار پانچ قطار موٹریں چلتی ہیں یہاں کی چہل پہل زیورک اور میونک کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ گو ہم The Paris opera کے سامنے سے کئی مرتبہ گزرے لیکن اندر جا کر اسے نہیں دیکھا۔ البتہ The Madeleine جو رومن عبادت گاہ کی وضع پر بنایا گیا ہے۔ اسے اندر سے جا کر دیکھا۔

اتوار۔ ۳/اکتوبر ۱۹۷۶ء

33, Livings Ton Road Thon Ton Heath Surrey (London) U.k.

آج ہم Heath Row ایرپورٹ پر BE-13 Flight سے پیرس سے لندن پہنچے۔ پیرس میں ہم اپنی ہوٹل سے اوپیرا میٹرو ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ بلارڈ کی طرف جانے والی ٹرین میں بیٹھ کر میٹرو اسٹیشن اور وہاں سے ایرپورٹ بس ٹرمینل چلے گئے۔ لندن کے لئے برٹش ایروز کا ہوائی جہاز Roissy Charles De Gaulle ایرپورٹ سے اڑنے والا تھا۔ بس ٹرمینل سے ایرپورٹ تک بس کا فی کس کرایہ ۱۲ فرنچ فرانک دینا پڑا۔ اتوار کی وجہ سے پیرس کے بازار بند پڑے تھے۔ اور ٹرافک بہت کم تھی۔ اس کے باوجود موٹریں کافی چل رہی تھیں۔ عام دنوں میں پیرس میں موٹروں کی بہتات بیان سے باہر ہے۔

ایرپورٹ پہنچ کر ہم نے اپنے سامان چک کرا لیا اور ہم کو اپنے تین عدد سامان کی سلپ ملیں۔ کاؤنٹر والے صاحب نے کہا کہ ہم کو Satellite No-6 سے اپنی ہوائی جہاز پر چڑھنا ہو گا۔ جب ہم زیورک سے پیرس آئے تھے تو ہم Orlysud ایر پورٹ پر اترے تھے۔ وہاں اور اب چارلس ڈیگال ایرپورٹ پر بھی ہم نے دیکھا ایرپورٹ کے اطراف ہوائی جہاز پر چڑھنے یا اس سے اترنے کے لئے چھت والے بہت ہی نفیس مختلف اسٹیج بنے ہیں۔ ہوائی جہاز ان اسٹیجوں کے قریب آ جاتے ہیں۔ ان ہی اسٹیجوں کو سٹیلائیٹ کہا جاتا ہے۔ ہر اسٹیج کے سامنے ایک ٹیوب باہر کی طرف گئی ہے۔ ٹیوب کے سامنے دو منہ قدرے لانبے بنے ہیں۔ یہ سامنے کے حصہ جدھر چاہیں موڑے جا سکتے ہیں۔ ہوائی جہاز اسٹیج کے قریب آتا ہے اور ٹیوب کے سامنے والے دو منہ ہوائی جہاز کے دروازوں سے لگا دئے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مسافروں کو ہوائی جہاز میں چڑھنے اور اس سے اترنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے مسافروں کو ایرپورٹ کی عمارت سے ہوائی جہاز تک جانے یا پھر ہوائی جہاز سے ایر پورٹ کی عمارت تک آنے کے لئے کسی بس یا سواری کا انتظام نہیں کرنا پڑتا ہے۔ وہ رات عمارت سے ہوائی جہاز میں چڑھ یا پھر ہوائی جہاز سے عمارت میں اترسکتا ہے۔ ہم کو یہی صورت لندن کے Heathrow ایرپورٹ پر دکھائی دی۔

یہاں ہم ہمارے برادر نسبتی مسٹر سردار علی خاں کے ہم زلف جناب صدیق احمد صاحب کے دو لڑکوں فاروق اور عتیق کے مکان میں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ ہم نے ان کو اپنی آمد کی تاریخ اور فلائٹ نمبر سے مطلع کر دیا تھا۔ لیکن ایرپورٹ پر کوئی نہیں تھا۔ ہم یہ سمجھے کہ شاید ہمارا خط ان کو نہیں ملا۔ لیکن ہمارے انتظار کرنے اور کچھ معلومات حاصل کرنے اور چک تڑانے میں کافی وقت لگ گیا۔ اتنی دیر میں ہمارے عزیز کے چھوٹے صاحبزادے عتیق احمد آ گئے۔ اور ان کی وجہ سے ہمیں کافی سہولت ہوئی۔ ان کو یہ اطلاع ملی تھی کہ ہمارا ہوائی جہاز ٹرمینل نمبر ۲ پر رکے گا لیکن بعد میں اس میں تبدیلی ہو گئی اور ہمارا جہاز ٹرمینل نمبر (۱) پر پارک ہوا۔ وہ وہاں آئے اور اس کے دو تین چکر لگائے لیکن ان کی ہم پر نظر نہیں پڑی۔ یہ سمجھ کر کہ دیر ہو گئی ہے اور ہم شاید نکل گئے ہوں گے وہ آخری چکر لگا کر واپس جانے والے تھے کہ ہماری بیوی ان کو دکھ گئیں اور بیوی نے بھی ان کو سامنے سے آتا ہوا دیکھ لیا۔ ہم اس وقت چک تڑا رہے تھے۔ ٹیکسی والے سے پہلے ہی انھوں نے بات کر لی تھی۔ ان کو ٹیلی فون کیا تو وہ آدھ گھنٹے میں ایرپورٹ ٹرمینل نمبر (۱) پر پہنچ گئے۔ تھان ٹن ہیت انھوں نے پون گھنٹے میں پہنچایا۔ ڈرائیور صاحب ہندوستانی نسل اور پنجاب کی طرف کے رہنے والے ہیں۔ اب انھوں نے U.K کی قومیت لے لی ہے۔ ہندوستانی اور انگریزی دونوں روانی سے بولتے ہیں۔ ایمرجنسی کی بہت برائی کر رہے تھے۔ برائی میں اور اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ایمرجنسی کی وجہ سے ان کا دھندا ہندوستانی روپیہ سے پونڈ اسٹرلنگ اور پونڈ اسٹرلنگ سے ہندوستانی روپیہ کا تبادلہ بہت متاثر ہو گیا ہے۔

لندن بہت بڑا شہر ہے اور ہمارے میزبان اس کے نواح میں رہتے ہیں۔ آج اتوار کی وجہ سے ٹرافک کم تھی اور یوں بھی معلوم ہوا کہ ڈرائیور صاحب نے ٹرافک والے علاقوں سے بچتے بچاتے تھان ین ہیت ہم کو لے آئے تھے۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ ٹیکسی کا کرایہ ۶ پونڈ اسٹرلنگ ہوا یعنی ہمارے تقریباً ۹۶ روپیہ۔ اگر ہم تھان ٹن ہیت تک بڑا حصہ ٹرین سے طے کرتے اور وہاں سے لیونگٹس ٹیکسی لے لیتے تو اتنا گراں نہیں پڑتا۔ لیکن ہمارے میزبان نے ہماری سہولت کے خیال سے اتنا پیسہ خرچ کیا۔

آتے ہی گرم گرم چائے اور اس کے بعد رات کے کھانے  میں گرم گرم خشکہ ، کھٹی دال ، مرغی کا سالن، اچار اور آخر میں پڈنگ۔ دال اور خشکہ دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا۔ یورپ میں پہلی مرتبہ اپنے مذاق کا کھانا ملا بالخصوص کھٹی دال۔ سیر ہو کر کھایا اور اپنے میزبانوں سے کہا کہ جب سے جدہ سے نکلے ہیں ہم کو ایسا کھانا کہیں میسر نہیں آیا۔

یہاں ہمارے لڑکے فاروق مرزا کا ایک خط ٹورنٹو(کنیڈا) اور لڑکی فرحت انور الدین کا ٹیلکس (امریکہ) سے آیا ہوا رکھا تھا۔ لڑکے نے ہمارے لئے پیسے بھیجے ہیں۔ لڑکی نے اسٹیٹس کا کس طرح سے سفر کرنا چاہئے۔ اس کی تفصیل بتائی ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ہم کو اپنے گھر حیدرآباد سے کوئی خط نہیں ملا۔ اس کی ہم کو فکر ہے۔

میزبانوں نے ہمارے لئے خاص طور پر ایک نیا پلنگ اور نیا گدا منگوایا ہے۔ اور ہم ان کے ڈرائنگ روم میں ٹھیرائے گئے ہیں۔ (باتھ روم) پاخانہ وحمام وغیرہ کی سب سہولت یہاں موجود ہے۔

پیر۔ ۴/اکتوبر ۱۹۷۶ء لندن۔ یو۔ کے آج اپنے عزیز کے چھوٹے صاحبزادے عتیق جن کی عرفیت بابر ہے کے ساتھ لندن کی سیر کے لئے نکلے۔ انھوں نے ہمارے خیال سے دو روز کی چھٹی لے رکھی ہے پہلے ہم نے آج کیلئے ایک ایک Redbus Rover۔ ٹکٹ لے لیا۔ اس سے ہم جس Ltreo Bus جس میں چاہیں بیٹھ کر لندن کی سیر ایک دن کے لئے کر سکتے ہیں۔ البتہ اس ٹکٹ سے بعض اسپیشل بسیں مستثنی ہیں۔ ایک دن کے لئے یہ ٹکٹ نود پنس میں ملتا ہے۔ سوپنس کا ایک پونڈ ہوتا ہے۔ آج کل پونڈ کی قیمت گری ہوئی ہے یہ اس وقت ہندوستانی ساڑھے پندرہ روپئے کے مساوی ہے۔ پہلے ہم ۱۳۳ نمبر والی بس میں بیٹھ کر بینک اسٹریٹ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہاں سب بڑی بینکیں موجود ہیں۔ ہم کو اپنے لڑکے کے بھیجے ہوئے ڈرافٹوں کے پیسے دس پندرہ منٹ میں مل گئے۔ البتہ کاؤنٹر والی لڑکی نے شناخت کے لئے ہمارا پاسپورٹ مانگا اور جس طرح ہماری پاسپورٹ میں دستخط ہے اسی طرح ڈرافٹ پر بھی کرنے کے لئے کہا۔ اس کے بعد پاسپورٹ اور وہ دو ٹرافٹ کسی آفیسر کے پاس بھیجے۔ وہاں سے غالباً اجازت آنے کے بعد اس نے ہم کو پیسے دئے۔ ہم نے بڑی قیمت کے نوٹ مانگے تو معلوم ہوا کہ سب سے بڑے نوٹ یہاں بیس پونڈ کے ہوتے ہیں۔ ۱۵۹ نمبر کی بس سے ہم Trafal Gar Square گئے۔  اور برٹش ایرویز سے دو ٹکٹ لندن۔ ٹورنٹو۔ لندن کے لئے زیادہ سے زیادہ سے ۴۵ دن کی مدت کے لئے اک کریشن یعنی رعایتی نرخ پر لے لئے۔ اس کے ہم کو فی ٹکٹ ۵۰ء۱۶۹ اسٹرلنگ پونڈ دینے پڑے۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ۹/اکتوبر کی شنبہ کی پرواز میں دو جگہیں محفوظ کرائیں۔ متعلقہ لڑکی نے کہا کہ ہفتہ اور اتوار کو چونکہ کافی ہجوم ہوتا ہے اس لئے ان دنوں کے لئے ہم کو فی ٹکٹ ۵ پونڈ اور کچھ پنس سرچارج دینا پڑے گا۔ اس سے بچنے کے لئے ہم نے جمعہ ۸/ اکتوبر ہی کے لئے ان کی پرواز نمبر ۶۰۱ میں دو نشستیں محفوظ کرا لیں۔ بعد میں ٹرافالگرا سکوائر گھوم پھر کر دیکھا وہاں سے Piecadilly circus Oxfad street اور Mahble Arch اور Hyde Purk وغیرہ دیکھا۔ آکسفورڈ اسٹریٹ بہت بڑا شاپنگ سنٹر ہے۔ یہاں صرف ٹیکسی اور بسیں چل سکتی ہیں۔ خانگی موٹروں کی آمد و رفت کو بند کر دیا گیا ہے۔ پیکاڈلی کے علاقہ میں بھی کافی بڑی بڑی دوکانیں ہیں۔ خرید و فروخت خوب ہوتی ہے۔ ہاں دوکانوں کو اچھا سجایا جاتا ہے۔ لیکن زیورک اور پیرس کی طرح نہیں۔ یہاں موٹریں بھی خوب چلتی ہیں۔ لیکن پیرس کی طرح بھر مار نہیں ہے۔ موٹریں بھی یہاں اتنی بڑھیا نہیں جتنی کے پیرس اور سوئیزرلینڈ میں دکھیں۔ شام کے وقت پارلیمنٹ اسکوائیر گئے۔ چرچل کا مجسمہ دیکھا۔ پارلیمنٹ پر بھی نظر ڈالی۔ ۱۵۹ نمبر کی بس میں بیٹھ کر تھان ٹن ہیت واپس ہو گئے۔ یہ علاقہ قلب لندن سے کافی دور ہے ٹرافالگرا اسکوائیر سے تھان ٹن ہیت کلاک ٹاور بس سے آتے آتے تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔

منگل ۵/اکتوبر ۱۹۷۶ء

آج بھی ہمارے عزیز کے چھوٹے صاحبزادے بابر ہمارے ساتھ تھے۔ پہلے ہم Madame Tussaud کی Wax Museum گئے۔ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں کے مجسمے زندہ انسانوں سے بہت زیادہ مشابہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں دنیا بھر کے بڑے بڑے انسانوں کے مجسمے بشمول مہاتما گاندھی ، جواہرلال نہرو، اور مسز اندراگاندھی موجود ہیں۔ اسی طرح اس کے چیمبرس آف ہار رس میں ان لوگوں کے مجسمے موجود ہیں جنہوں نے انتہائی انسانیت سوز حرکات سے انسانی جانوں کو تلف کیا ہے۔ وہاں ایک عورت کا مجسمہ بھی موجود ہے۔ جو معصوم بچوں کی جان ان کو زہر سے بھرا ہوا چاکلیٹ دے کر لیتی تھی۔ اس کے قریب ہی اس لڑکی کا مجسمہ ہے جو اس کا آخری شکار تھی۔ اس بچی کے منہ میں بچا ہوا اصلی زہریلا چاکلیٹ بھی دکھایا گیا ہے۔ ہٹلر کا مجسمہ گو بھیانک چیمبر میں نہیں لیکن اس کے باب الداخلہ پر موجود ہے۔

آج ہم آکسفورڈ اسٹریٹ اور پی کاڈلی سرکس کے بڑے بڑے اسٹور دیکھے اور وہاں کے خرید و فروخت کے طریقوں کا مشاہدہ کیا۔ ہمارے پائتابے پھٹ گئے تھے اس کی دو جوڑ خرید لی۔ بیوی چپل سے سفر کر رہی تھیں ایک جوڑ جوتا انھوں نے خرید لیا۔ یہاں سردی کافی ہے اس لئے انھوں نے لانبے پائتابے جو پلاسٹک کے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں خرید لئے۔ یہ بہت ہی ہلکے لیکن گرم ہیں۔ ان سے ہوا نہیں گزرسکتی ہے۔ یہ پورے پاؤں کو ڈھانک دیتے ہیں۔ ایک سوئٹر بھی خرید لیا گیا کہ اس سے سینہ گرم رکھا جا سکے۔ یہاں تھوڑی تھوڑی بارش بھی ہو رہی ہے۔ اس سے موسم اور سرد ہو گیا ہے۔ اس لئے ہمارے میزبان (بڑے لڑکے فاروق احمد) کی بیوی نے ہماری بیوی کو ان کا ایک زاید او ور کوٹ یہاں پہننے کے لئے دے دیا۔ اس سے بیوی کو بڑی سہولت ہو گئی۔ اس قسم کے اووراس قسم کے او کوٹ کی ہندوستان میں شاید  ہی ضرورت پڑے۔ سہ پہر میں ایر انڈیا کے آفس جا کر لندن سے امسٹرڈم کے لئے ۲۲/ نومبر ۷۶ء کو BE 216 (برٹش ایرویز) کی پرواز میں دو جگہیں محفوظ کرا لیں۔ اسی طرح امسٹرڈم سے ۲۳/ نومبر کو جس دن منگل ہے دو نشستیں ایرانڈیا کی چارٹرڈ پرواز ۱۰۲ میں محفوظ کرا لیں۔ یہ ہوائی جہاز ۱۰۰۴۰ کو اڑتا ہے۔ اور ۲۴/ نومبر کی صبح ۸ بجے بمبئی پہونچتا ہے۔ ویسے ہم برٹش ایرویز کے ۴۵ دن کے ٹکٹ پر ٹورنٹو سے لندن ۲۲/ نومبر کی صبح کو واپس پہونچ رہے ہیں۔ واپس ہوتے وقت ہم امسٹرڈم میں صرف ایک رات گزارنا چاہتے ہیں۔ چونکہ وہاں ہمارا قیام تقریباً ۲۴ گھنٹے رہے گا امید ہے کہ ہم کو ٹرانزٹ ویزا کے ملنے میں دقت نہیں ہو گی۔ پیکاڈلی سرکس سے ٹرافالگر سکوائیر جاتے ہوئے ایک اسناک بار Macdonald ملتا ہے۔ گوشت کے بنے ہوئے برگر اور آلو کے فرنچ فرائی بہت لذیذ تھے۔ یہاں ملک شیک کے نام پر کاغذ کی گلاس میں آئسکریم جیسا جما ہوا دودھ ملتا ہے۔ ہم اس رسٹورنٹ میں کل بھی گئے تھے آج شام میں دیر سے گئے اس لئے رات کے کھانے میں اشتہا نہیں رہی حالانکہ میزبان نے اچھا کھانا پکایا تھا۔

چہارشنبہ ۶/اکتوبر ۱۹۷۶ء

آج ہم دونوں ہی لندن کی سیر کے لئے نکلے ہمارا خیال تھا کہ پارلیمنٹ اسٹریٹ میں The Horse Guards, changing of The Guards دیکھیں۔ لیکن تھاٹ ٹن ہیت میں بس میں بیٹھتے بیٹھتے گیارہ بج گئے۔ اور اسی وقت تبدیلی گارڈ کی رسم ہوتی ہے۔ ۱۵۹ نمبر کی بس پارلیمنٹ اسٹریٹ پہنچنے کے لئے ایک گھنٹہ لیتی ہے۔ اس سے پہلے ہم Westminidtear Hall گئے۔ یہ بہت بڑا ہال ہے۔ سب سے پہلے ہماری نظر اس مقام پر پڑی جہاں چرچل کی نعش کو پبلک کے دیدار کے لئے رکھا گیا تھا اس کے بعد ہم نے وہ مقام دیکھا جہاں Warsen Hastings اپنے دوران مقدمہ میں کھڑے ہوتے تھے۔ یہی وہ ہال ہے جہاں Chrles The Bist پر ایک ہفتہ تک مقدمہ چلا کر اس کو قتل کی سزا دی گئی تھی۔ اسی طرح بہت سی یادگار باتوں کو اس ہال میں بچھائے ہوئے پتھروں پر کندہ کر کے دکھایا گیا ہے۔ اس ہال سے لگے ہوئے House of Commonsکو دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے لئے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت تھی جو ہمارے پاس نہیں تھا اس لئے ہم کو باہر نکل کر West Minister Abbey چلے گئے۔

برطانوی تاریخ کے نامور لوگوں کی قبروں سے ہم گزرے۔ یہ قبرستان بالکل چھت پوش اور خاص ترکیب سے بنایا گیا ہے۔ جیسے عام عیسائی قبرستانوں کی نوعیت ہوتی ہے۔ یہ اس سے مختلف ہے۔ کئی جگہ Plaques پر یہ لکھا گیا ہے کہ دونوں ایوانوں کی قرارداد اور بادشاہ سلامت کی منظوری سے یہ یادگار نصب کیا گیا ہے۔ نامعلوم سپاہی کے کتبے کے قریب سرونٹس چرچل کا کتبہ نصب ہے۔

ٹاور آف لندن میں داخلہ کا ٹکٹ ۸۰ پنس ہے اور اس میں نیچے کراؤن جیولس دیکھنے کے لئے ۳۰ پنس کا ٹکٹ ہے۔ اس کے علاوہ ہتھیاروں کی نمائش کے لئے جس میں فائر آرمس کو دکھایا ہے ۵ پنس ٹکٹ ہے۔ اس قلعہ میں داخل ہوتے ہی (بلڈی ٹاور) خونی مینار پر نظر پڑتی ہے۔ اس قلعہ کی داستان بہت خونیں ہے۔ اس کے ایک برج پر بادشاہ کے حکم سے کئی افراد مارے جاتے تھے۔ اس وقت لوگ یہ تماشہ دیکھتے ، ان کے دار پر چڑھتے وقت ہنستے اور ان کا منہ چڑھاتے تھے۔ قلعہ کے اندر داخل ہونے کے بعد میدان میں خانگی قتل گاہ کے نام سے ایک مقام ہے اس کو زنجیر سے گھیرا گیا ہے۔ وہاں اس مقام پر مارے جانے والوں کی فہرست ایک بورڈ پر لکھی ہوئی موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں قتل کئے جانے والوں میں ہنری ہشتم کی دو بیویاں بھی ہیں۔ ان دونوں پر الزام بے وفائی کا تھا۔ ان ہی کے ساتھ ایک رانی کی نگرانکار لیڈی ان ویزلنگ بھی ماری گئی اس پر یہ الزام تھا کہ اس کی رانی کے دوسرے سے تعلقات کی اس نے بادشاہ کو کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ آٹھویں ہنری نے ایک ۷۲ سالہ بڑھیا کو بھی اس مقام پر قتل کیا تھا اس پر یہ الزام تھا کہ اس کا بیٹا بادشاہ کے خلاف کہ وہ عیسائی مذہب کی خلاف ورزی کر رہا ہے پروپگنڈہ کرتا تھا۔ اور بادشاہ کے چنگل سے بچنے کے لئے وہ فرانس بھاگ گیا تھا۔ بیٹے کی مبینہ غلطی کا بدلہ اس کی ماں سے لیا گیا۔

جنگ میں کیا کیا زرہ پہنے جاتے تھے ان کا مظاہرہ کیا گیا۔ زرہ ایسے ہیں کہ ان کے پہننے کے بعد جسم پر تلوار۔ برچھے اور بھالے کا اثر نہ ہوتا تھا۔ یہاں آٹھویں ہنری کی زرہ اس کا خود اور پھر اس کے گھوڑے کو جو فولادی لباس پہنایا جاتا تھا موجود ہے۔

بلڈی ٹاور میں کچھ شہزادوں اور شہزادیوں کو ان کی معصوم عمروں میں قتل کیا گیا ہے۔ ان کی تفصیل اس قلعہ کے متعینہ جوانوں میں سے ایک جوان نے بہت ہی اچھے انداز میں سنائی۔ اس کے اچھے تبصرے کی بناء پر سیاحوں نے بطیب خاطر اس کو کچھ پیسے دئے ہم نے بھی اپنی طرف سے ۶۰ پنس دئے۔

۱۷/ اکتوبر جمعرات

لندن آج بھی ہم لیونگسٹن سے دیر سے نکلنے کی بنا پر چینج آف گارڈس نہیں دیکھ سکے۔ ہم نے آج وکٹوریا اور البرٹ میوزیم ، Science Museum اور بکنگھم پیالیس کو دیکھا۔ آخر الذکر پر صرف باہر ہی سے نظر ڈالی۔ ان دونوں میوزیموں میں کافی وقت لگا۔ شام کو گھر واپس ہوئے۔ کل ہم لندن سے پرواز کر کے اپنے بڑے لڑکے فاروق مرزا کے پاس ٹورنٹو کینیڈا جانا ہے۔

جمعہ۔ ۸/اکتوبر ۱۹۷۶ء

702-530, Lolita Gardens - Mississauga

Ontario- Canadal 5 A- 3T2

Tel 416-279-4129

آج ہم دس بجے صبح لیونگسٹن روڈ سے تھارٹن ہیت ریلوے اسٹیشن گئے۔ وہاں سے وکٹوریا کوریل کے ذریعہ گئے۔ فی کس سکنڈ کلاس کا کرایہ ۴۰ پنس لگا۔ وکٹوریا اسٹیشن سے قریب ہی برٹش ایرویز کا ایک بڑا آفس ہے۔ وہاں ہم نے اپنی پرواز ۶۰۱ کے لئے جو ٹورنٹو جا رہی تھی اپنا سامان وغیرہ تلوا کر ان کے حوالہ کر دیا۔ کاؤنٹر والے نے J-24 اور K-24کی نشستیں ہم کو دیں۔ وہاں سے انکی بس کے ذریعہ Heathrow ایرپورٹ کے ٹرمینل نمبر ۳ پر آئے۔ بس کا کرایہ فی کس ۹۰ پنس لیا گیا۔ اس وقت ایرپورٹ کے ڈیپارچر ٹرمینل پر ایک ہنگامہ تھا T.W.A کے کئی کاؤنٹر پر مسافرین اپنی تنقیح کروا رہے تھے۔ اسی طرح ایران ایر پر بھی کام ہو رہا تھا۔ اور متعدد دوسری ایرلائنس کے کاؤنٹر پر بھی مسافروں کے کیو لگے تھے۔ برٹش ایرویز کے بھی کئی کاؤنٹر کھلے تھے اور ان پر بھی کیو لگے تھے۔ چونکہ ہم وکٹوریا آفس ہی پر تنقیح کرا چکے تھے ہم کو ایرپورٹ ٹرمینل پر فرصت تھی۔ ہم کو قاہرہ ایرپورٹ پر تلخ تجربہ ہو چکا تھا اس لئے ہم نے فوری ’’دریافت کاؤنٹر‘‘ سے یہ معلوم کرنا چاہا کہ BA کی پرواز نمبر ۶۰۱ کے مسافر کس گیٹ سے گزر کر ہوائی جہاز میں بیٹھیں گے۔ کاؤنٹر کی لڑکی نے کہا کہ ٹیلی ویژن سرکٹ پر اس کی اطلاع آئے گی۔ جب تک ہم امیگریشن کرا کے اندر کے لانج میں بیٹھ جائیں۔ ہم نے دیکھا کہ جا بجا ٹیلی ویژن سرکٹ لگے ہیں۔ اور ان پر اطلاعیں آ رہی ہیں۔ اور لاؤڈ اسپیکر سے بھی اعلان کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ابھی وقت تھا اور ہمارے پاس کچھ اسٹرلنگ پونڈ بچ رہے تھے ہم نے اپنے لڑکے کے بچوں اور اپنی لڑکی کی بچی کے لئے کچھ مٹھائی اور بسکٹ خرید لئے۔ امیگریشن جہاں ہو رہا تھا وہاں بورڈ پر لکھا ہوا تھا کہ اندر بہت بڑا ہال ہے۔ اور کئی قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ لیکن وہاں بینک آفس نہیں ہیں۔ اس لئے ہم امیگریشن میں پاسپورٹ وغیرہ کی تنقیح کرانے سے قبل بچے ہوئے پونڈ کے کنیڈین ڈالر خرید لئے اور بعد میں امیگریشن کرا کے اندر کے ہال میں چلے گئے۔ واں ہم نے دیکھا کہ ایک بڑا بورڈ لگاہے۔ گھنٹہ دیڑگھنٹہ میں جتنی پروازیں وہاں سے جانے والی ہیں ان کے نمبر ان ایرلائنس کے مونو گرام۔ اڑنے کا مقررہ وقت۔ اگر بورڈنگ (ہوائی جہاز میں مسافروں کا چڑھنا) شروع ہو گئی ہے تو کس گیٹ سے۔ لیکن اگر کسی پرواز کے لئے ابھی گیٹ کا تعین نہیں ہوا ہے تو گیٹ کے خانہ میں لکھا ہوا آئے گا کہ ’’ یہاں اس کے لئے انتظار کیجئے ‘‘ اس طرح کی کم وبیش اطلاع ٹیلی ویژن سرکٹ پر آتی ہے۔ یہ اتنا معقول انتظام ہے کہ ہال  میں یا ایرپورٹ کے کسی حصہ میں بھی ہوں مسافر کو آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی پرواز کب نکلنے والی ہے۔ لیٹ ہے تو کتنی لیٹ ہے۔ کس گیٹ سے گزر کر ہوائی جہاز میں بیٹھنا ہے۔ ہماری پرواز BA 601 کے سامنے لکھا ہوا تھا کہ ’’ پلیز ویٹ ہیر‘‘ لیکن تھوڑی دیر میں اطلاع آئی (یعنی لکھا ہوا آیا) کہ بورڈنگ گیٹ نمبر ۶۔ جب اس گیٹ پر پہنچے تو پہلے ہمارا سکیورٹی چک ہوا۔ ہاتھ میں لئے ہوئے سامان کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو ہاتھ سے لے کر ایک چھوٹے سے بلٹ سے گزارتے ہیں یہ مسافر کے بالکل سامنے ہی ہوتا ہے۔ اس طریقے سے غالباً مہلک ہتھیار اور دھماکو اشیاء کا پتہ چل جاتا ہے۔ بازو ہی ڈیٹکشن کا مشین لگا ہے۔ اس کے بعد ایک چھوٹے سے راستے سے ایک ایک مسافر کو گزرنا پڑتا ہے۔ اس سے اگر جسم پر کوئی خطرناک چیز چھپی ہوئی ہو تو شاید اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک آفیسر ایک دستے والا شیشہ لے کر جسم کے اطراف گھماتا ہے جس سے غالباً جسم پر چھپی ہوئی چیزیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ یہ سب سکیورٹی کاؤنٹر پر ہی ہوتا ہے۔ چونکہ حال ہی میں ہوائی جہازوں کے اغواء کے کئی واقعات ہو چکے ہیں حفاظتی تنقیح ذرا سخت کر دی گئی ہے۔ یہ سب گیٹ نمبر ۶ پر ہو رہا تھا۔ اس کے بعد ایرلائنس کی لڑکیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ اور وہ بورڈنگ پاس سے ایک ایک جزء پھاڑ لے رہی تھیں۔ اور ٹکٹ کا وہ پرچہ بھی لے رہی تھیں۔ جو ہمارے ٹکٹ سے علیحدہ کر کے ایک الگ لفافہ میں رکھ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک حصہ میں جس میں تعداد مسافرین کے مقابلہ میں کم تعداد میں صوفہ نما کرسیاں پڑی تھیں لوگ جمع ہونے لگے۔ کافی وقت کے بعد اعلان کیا گیا کہ وہ عورتیں جن کے ہمراہ چھوٹے بچے ہیں ہوائی جہاز پر چڑھیں۔ یہ ٹیوب کا راستہ بھی راست ہوائی جہاز تک جاتا تھا۔ سیڑھیوں سے اترنا اور پھر بس میں بیٹھ کر ہوائی جہاز تک جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ٹیوب کے راستے سے گزرے اور ہوائی جہاز پر پہنچ گئے۔ یہ برٹش ایرویز کا بہت بڑا ہوائی جہاز تھا۔ اس میں بشمول عملہ کے کل چار سو اٹھاون مسافر تھے۔ یہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہم تین نشستوں والی قطار میں بیٹھے تھے۔ بیوی کھڑکی کے قریب ہم بیچ میں اور ہمارے بائیں بازو ایک انگریز بڑھیا۔ جب اس سے باتیں ہوئے تو معلوم ہوا کہ دو ماہ کے بعد اس کی عمر ۸۵ سال ہو گی۔ وہ اپنی بیٹی کے پاس ٹورنٹو جا رہی تھی۔ وہ ایرکینیڈا میں کام کرتی ہے اور اس کا شوہر اٹامک انرجی میں۔ ایک سال اس کی بیٹی اس سے ملنے لندن آتی ہے اور ایک سال یہ اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے کینیڈا جاتی ہے۔ آٹھ سال ہوا کہ وہ بیوہ ہو گئی۔ وہ اب اپنے شوہر کی کمی کو بہت محسوس کرتی ہے۔ وہ اب بوڑھے لوگوں کے لئے جو ہاسٹل ہوتے ہیں ان میں سے ایک میں رہتی ہے۔ اس کو سوشیل ویلفیر کونسل سے فی ہفتہ ۱۴ پونڈ وظیفہ پیرانہ سالی ملتا ہے۔ ہاسٹل کو ۶ پونڈ فی ہفتہ دینا پڑتا ہے۔ اس میں کھانا اور رہنا دونوں شریک ہیں۔ حالانکہ اس کے ۸ پونڈ فی ہفتہ دوسرے اخراجات کے لئے بچ جاتے ہیں۔ وہ کمی الاؤنس کی شکایت کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ چند دنوں بعد اس کا الاؤنس ۱۶ پونڈ ہونے والا ہے۔ ہم نے ٹائیمس میں ایک مضمون پڑھا تھا اس میں گیارہ سال کی بچیوں کے حاملہ ہونے اور ایسے کم عمر حاملہ بچیوں کے مسائل سے متعلق لکھا گیا تھا۔ میں نے اس تعلق سے ہمارے بازو بیٹھی ہوئی انگریز خاتون سے بات کی اور تعجب سے پوچھا کہ کیا اتنی کم عمر لڑکیاں بھی اس قسم کے حرکات میں ملوث ہو جاتی ہیں اس نے جواب دیا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ کم عمر لڑکیوں کا بغیر شادی کئے کسی لڑکے ساتھ سوجانا معیوب نہیں بلکہ آج کل کا فیشن ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس آٹھ گھنٹے کی متواتر اڑان میں اس انگریز خاتون کا رویہ بہت ہی ہمدردانہ رہا۔ وہ شکر نہیں کھاتی ہے اور ہم میٹھے کے شوقین ہیں۔ جب ہم نے ایرہوسٹس سے زاد شکر مانگی تو اس نے اپنے شوگر کیوبس ہمارے حوالہ کر دئے۔ شام کی چائے میں اس نے اپنا کیک اور میٹھے بسکٹ بھی حوالہ کر دئے۔ ہم نے بھی اترتے وقت ’’ایاک‘‘ سے اس کا کوٹ وغیرہ نکالنے میں مدد دی۔ جاتے وقت اس نے بہت ہی محبت سے خدا حافظ کہا۔

لندن سے ٹورنٹو تک کی پرواز کافی طویل تھی یہ ہماری بھی اپنی زندگی کی طویل ترین پرواز تھی۔ وقت پرواز ڈھائی بجے دوپہر تھا۔ لیکن اڑتے اڑتے سواتین ہو گئے۔ جب ٹورنٹو کے ہوائی اڈہ کو ہوائی جہاز نے چھوا تو انگلینڈ کی گھڑیوں کے لحاظ سے رات کے گیارہ بج کر ۵ منٹ ہوئے تھے۔ یعنی پرواز ۷ گھنٹے پچاس منٹ کی تھی۔

پہلے ٹھنڈا شربت ، آرینج ، کوکا کولا اور قیمت پر شراب دی جانے لگی۔ کئی لوگ شراب خرید کر پینے لگے۔ ہم نے صرف آرینج کا شربت پیا۔ کھانا تقریباً ساڑھے چار بجے ملا اس کے ساتھ ہی چائے یا کافی حسب خواہش ملی۔ مختلف گانوں کے ٹیپ ریکارڈ بھی لگائے گئے تھے اس کے سات چیانل تھے۔ ایک پونڈ کچھ پنس پر ان کے سننے کے لئے ہیڈ فون دئے جا رہے تھے کھانے کے بعد ایک پکچر بھی دکھایا گیا۔ جو واٹر گیٹ کے تعلق سے تھا۔ جنہوں نے ہیڈ فون لیا تھا وہ مکالمہ سن رہے تھے۔ ہم صرف حرکات دیکھ رہے تھے یا جو کچھ پردہ پر لکھا ہوا بتایا جا رہا تھا دیکھ رہے تھے۔ ٹورنٹو پر اترنے سے تقریباً دو گھنٹے پہلے ہم کو چائے دی گئی۔ اس کے ساتھ بن۔ مسکہ۔ جام۔ کیک کا ٹکڑا وغیرہ بھی تھا۔ ہمارے پورے سفر میں زمین اور بحراٹلانک اور ہمارے ہوائی جہاز کے درمیان ابر تھا۔ ہم ابر سے کافی اوپر اڑ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوا رہا تھا کہ انگلینڈ کی زمین اور بحراٹلانک کا پانی سب ابر سے ڈھکا ہوا ہے۔ جب کینیڈا میں داخل ہوئے اور ہوائی جہاز نیچے اترنے لگا تو وہ ابر میں سے تقریباً پندرہ ، بیس منٹ تک گزرتا رہا۔ اس وقت آس پاس کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہم یہ ڈر رہے تھے کہ شاید اسی حال میں کسی شعاع کی مدد سے یہ ایر اسٹرپ پر اترے گا لیکن ایسا نہیں تھا۔ جب ہوائی جہاز بالکل نیچے آ گیا تو مطلع بالکل صاف تھا شہر وغیرہ دکھائی دے رہا تھا اور اسی طرح ایر پورٹ بھی۔

ہم کو ٹورنٹو ایرپورٹ پر امیگریشن یا کسٹم میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ چونکہ ہم دولت مشترکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم کو ویزا نہیں دیا گیا تھا۔ ہم سے امیگریشن آفیسر نے پوچھا کہ ہمیں کینیڈا میں کتنے دن رہنا ہے۔ ہم نے کہا کہ ۲۱/ نومبر کو یہاں سے ہماری پرواز لندن کے لئے محفوظ ہو گئی ہے۔ اس پر اس نے ہمارا ٹکٹ دیکھا اور پوچھا کہ کینیڈا میں ہمارا کوئی ہے۔ ہم نے بتایا کہ ٹورنٹو میں ہمارا لڑکا ہے اس نے پوچھا کہ کس حیثیت سے ہم نے جواب دیا کہ وہ Landed Emigrant ہے۔ اس پر اس نے ہم کو اجازت دے دی اور خواہش کا اظہار کیا کہ ہمارا یہاں قیام خوش آئند رہے۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ کسٹم سے گزرے تو ہمارا سامان نہیں دیکھا گیا باہر نکلے تو ہم نے دیکھا کہ ہم کو کوئی لینے نہیں آیا ہے۔ ہم سمجھ گئے ہمارا خط جو ہم نے لندن سے بھیجا تھا اور جس میں لکھا تھا کہ ہم بجائے ۹/ کے ۸/ ہی کو آ رہے ہیں۔ وہ ان لوگوں کو نہیں ملا ہے۔ ادھر ادھر دیکھ کر ہم نے ٹیلی فون کیا۔ ہر نئے مقام پر پبلک بوتھ سے ٹیلی فون کرنے کے خاص طریقے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے لڑکے کا ٹیلی فون نمبر نکال کر ایک باز والے صاحب سے مدد چاہی کہ وہ ہماری طرف سے ٹیلی فون ملا دیں۔ لڑکے کا ٹیلی فون نمبر جو ہم نے حیدرآباد سے لے رکھا تھا اس میں اس کوڈ نمبر بھی تھا۔ لندن میں جو اس کا خط ملا تھا اس میں اس نے جو اپنا نمبر لکھا تھا اس میں ۴۱۶ ابتداء میں نہیں تھا۔ ہم سمجھ گئے تھے کہ اگر ہم کو ٹورنٹو سے ٹیلی کرنا پڑے تو ہم کو یہ نمبر نہیں پھرانا چاہئے۔ پھر ہم بھی نے ایک مقامی آدمی سے یہ ٹیلی ملوایا اور کوڈ اور بغیر کوڈ والے دونوں نمبر اس کے سامنے رکھ دئے۔ اس نے دس دس سنٹ کے دو سکے سوراخ میں پہلے ڈال دئے اور پھر پش بٹن والے ٹیلی فون پر نمبر دبا دئے اور ہم کو فون دے دیا کہ گھنٹی بج رہی ہے۔ چھوٹی بچی نے جواب دیا ہم نے پوچھا کہ بابا ہیں تو اس نے جواب دیا کہ جاب (کام) پر گئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ منی کو جلد بلائیں وہ یعنی ہماری بہو شہناز نماز پڑھ رہی تھیں لیکن جلد ہی آ گئیں۔ ہم نے ان کو بتا دیا کہ ہم ایرپورٹ پرآ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم کہاں ہیں۔ ہم نے کہا کہ کسٹم سے باہر آ کر ہال میں کھڑے ہیں۔ ہم یہ بتانا بھول گئے کہ ہم ٹرمینل نمبر ۱ پر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ بہو نے بھی خاص طور پر اس کی صراحت نہیں چاہی ورنہ کسی سے پوچھ کر بتا دیتے۔ پھر بھی ان لوگوں نے صحیح اندازہ لگایا اور بہو اپنے تین بچوں کے ساتھ کسی ہمسائے کی موٹر میں پہلے پہونچیں۔ لیکن تیار ہو کر کسی موٹر کا انتظام کر کے آنے آنے میں تقریباً پون گھنٹہ لگ گیا۔ تھوڑی دیر ہی میں فاروق ہمارا لڑکا بھی جس کو بہو نے ان کے مقام کار پر اطلاع دے دی تھی آ گیا۔

ایرپورٹ پر موٹروں کے پارک کرنے کے لئے سات منزلہ عمارت ہے۔ جب ایک منزل پر ہو جاتی ہے تو دوسری منزل پر جانا پڑتا ہے۔ اس طرح ساتویں منزل تک پارکنگ ہوتی ہے۔ جب یہ ساتوں منزلیں پر ہو جاتی ہیں تو آدمی نیچے سے ہی موٹر روک دیتا ہے تا آنکہ کسی منزل پر پارکنگ کی جگہ خالی نہ ہو۔ یہ سب انتظام کمپیوٹر کے ذریعہ ہوتا ہے جو بہت آسان ہے۔ کسی پارکنگ فلور سے ٹرمینل ہال میں آنے اور جانے کے لئے لفٹ موجود ہے۔

ٹورنٹو ایرپورٹ سے مسی ساگا ( جو ٹورنٹو سے لگا ہوا شہر ہے ) جہاں ہمارا لڑکا رہتا ہے دس میل ہے۔ لڑکا ہائی وے سے گھماتا ہوا ہوا اپنے گھر لایا۔ باتیں ہوئیں۔ کھانا ہوا۔ جب کینیڈا کے رات کے گیارہ بج گئے تو مجھ پر نیند غالب ہونے لگی۔ لیکن باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہم نے کہا کہ یہاں اب رات کے گیارہ بج چکے ہیں اور اس وقت لندن میں ۹/اکتوبر کی صبح کے چار بج چکے ہیں۔ ہم وہاں ۸! کی صبح کے چھ بجے اٹھتے تھے یعنی ۲۲ گھنٹے سے برابر جاگ رہے ہیں۔ بچوں نے پھر ہمارے سونے کا انتظام کر دیا۔

۹/ اکتوبر کی صبح کو نئے مقام کی وجہ سے ہم دونوں ہی جلد اٹھ گئے۔ لڑکے کا فلیٹ ساتویں منزل پر ہے۔ سامنے ہی ٹرینیں گزرتی ہیں۔ ویسے صبح کا منظر ہی بہت دیر تک دیکھتے رہے۔ آج بھی باتیں ہی ہوتی رہیں۔ دوپہر میں دو تین مہمان آئے اور  مل کر گئے۔ شام میں ہماری حقیقی بھانجی شاہدہ اور ان کے شوہر خورشید محی الدین آئے۔ بعد مغرب ان کے ساتھ ادھر ادھر گھومنے کے لئے گئے۔ ائی لنگ ٹن تک ان کی موٹر میں گئے وہاں سے زیر زمین ٹرین سے ٹورنٹو کے ڈاون ٹاون قلب شہر ینگ اسٹیٹ گئے۔ یہ ٹورنٹو کا بہت بڑا شاپنگ سنٹر ہے۔ وہاں ہمارے بھانجے داماد نے ہم لوگوں کو ’’ دربار اکبری رسٹورنٹ ‘‘ میں کھانا کھلایا۔ ہم لوگ صرف چائے وغیرہ ہی پینا چاہتے تھے۔ لیکن میزبان نے تھوڑا تھوڑا کہ کر کھانے ہی کا آرڈر دے دیا۔ ایک بیرا جس نے ہمارا آرڈر لیا تھا اور جو انگریزی بہت صحیح اور روانی سے بول رہا تھا۔ ہماری آپس کی باتیں جو اردو میں ہو رہی تھیں سن رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے میز پر رکابیاں وغیرہ رکھیں تو ہم سے مخاطب ہو کر کہا کہ بابوجی آپ کہاں سے آئے ہیں۔ ہم نے کہا ہندوستان سے تو پھر اس نے کہا کہ ہندوستان میں کس مقام سے ہم نے جواب دیا۔ حیدرآباد سے۔ پھر ہم بھی اس سے پوچھ بیٹھے کہ وہ کہاں کے ہیں تو اس نے کہا کہ لکھنو کا۔ پھر اس نے کہا کہ وہ ہماری باتیں سن رہا تھا۔ ہماری زبان سے ایک لفظ ’’تکلف‘‘ اسے بہت بھا گیا۔ اس لئے اس نے اٹی کیٹ سے ذرا ہٹ کر گاہک کی باتوں میں مداخلت کی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ ٹورنٹو یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور شام کے وقت بیرا کا کام کرتا ہے۔ اس کی باتیں بہت پسند آئیں اور رسٹورنٹ کے ڈل مالو میں ذرا خوشگوار دکھیں۔ یہاں کی زمین دوز ٹرینیں اچھی اور اسٹیشن صاف ستھرے دکھائی دئے۔

رات دیر گئے واپس ہوئے۔ ہمارے بھانجے داماد رچمنڈ ہلس میں رہتے ہیں جو ہمارے لڑکے کے مقام سے تقریباً ۳۰ میل ہے۔ لیکن یہاں کی سڑکیں اور موٹریں بہت اچھی ہیں۔ اس لئے اتنا فاصلہ بھی زیادہ نہیں معلوم ہوتا ہے۔

اتوار۔ ۱۰/ اکتوبر ۱۹۷۶ء

مسی ساگا۔ کنیڈا۔ آج ہم نیاگرا آبشار دیکھنے کے لئے اپنے لڑکے کی موٹر میں نکلے۔ کینیڈا میں کسی شاہ راہ پر کس طرح موٹر چلائی جانی چاہئے اس کے دیکھنے کا پہلی مرتبہ تجربہ ہوا۔ اس پر جا بجا کافی جلی حروف میں ہدایتیں لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ آگے اگزٹ کب آئے گی۔ یعنی آگے سڑک کب پھوٹے گی اور وہ کہاں جائے گی۔ یا یہ کہ فلاں مقام جانے کے لئے فلاں نمبر کی اگزٹ لی جائے۔ پھر اس اگزٹ سے کچھ پہلے ہدایت آئے گی کہ اگزٹ نمبر فلاں اتنے فرلانگ پر ملے گی۔ سڑک پر اسٹیل کی مضبوط کمانیں نصب کر کے ان پر بورڈ لگائے گئے ہیں اور ان پر جا بجا لکھا ہوا ملے گا کہ کونسی شاہ راہ کس شہر کو جائے گی یا یہ کہ کس شہر کو جانے کیلئے کس شاہ راہ پر آ جائیں۔ منقسم شاہ راہ کے درمیانی حصہ کو باڑھ وغیرہ سے علیحدہ کر دیا گیا ہے جس سے ایک رخ کی موٹریں دوسری رخ کی سڑک پر آسانی سے نہیں جا سکتیں۔ اگر آپ مڑنا چاہیں تو آپ کو اس وقت تک آگے جانا پڑے گا جب تک کہ آپ کو سیدھے طرف کی کوئی ایسی اگزٹ  نہ جائے جس سے نکل کر پل پر سے ہوتے ہوئے آپ بائیں رخ والی سڑک میں نہ مل جائیں۔ ایسی سہولت کے لئے بعض کافی لمبے فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ اگر اتفاق سے اپ متعلقہ اگزٹ پر نہیں مڑے بلکہ کچھ آگے نکل گئے تو پھر آپ نہ تو اپنی موٹر الٹی چلا سکتے ہیں اور نہ اسی سڑک پر موڑ کر اس اگزٹ پر آ سکتے ہیں۔ آپ کو آگے بڑھ کر سیدھی ہاتھ والی (اگزٹ سب سیدھی طرف ہوتی ہیں ) اگزٹ سے مڑ کر پھر اپنے مقام کو کسی اور راستہ سے جانا پڑے گا۔ اگر کوئی موٹر کسی وجہ سے راستہ میں خراب ہو جائے تو اس کو سیدھی طرف کونے میں لے کر ٹھیک کرنا پڑتا ہے اور جب تک گاڑی وہاں کسی وجہ سے کھڑی رہے تو پیچھے کی بلنک لائٹ کھلی رہنی چاہئے۔ اگر بیچ راستہ میں کوئی گاڑی کسی وجہ سے رک جائے۔ اور وہاں وہ ٹھیک نہ ہو سکتی ہو تو ٹو کرنے یا کرین سے اٹھا کر کسی اور گاڑی میں لے جانے کے لئے کئی ایجنسیاں موجود ہیں۔ جب شاہ راہ پر کوئی دوسری سڑک ملتی ہے تو اس کو اس طرح ملاتے ہیں کہ شاہ راہ کی ٹرافک ایک سکنڈ کے لئے بھی متاثر نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح سڑک کے ملانے کو ( رامپ ) کہتے ہیں۔ اس کی نشاندہی بہت پہلے سے کئی مرتبہ کر دی جاتی ہے۔ شاہ راہ پر خود کار ٹرافک کی روشنی نہیں ہوتی ہے البتہ جب کوئی شاہ راہ کسی شہر سے گزرتی ہے تو اس کو ٹرافک کی روشنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور وہاں رفتار کو کم کرنا ہی پڑتا ہے کوشش یہ ہوتی ہے کہ شاہ راہ کو کسی شہر کے بازو سے گزار دیا جائے تا کہ ٹرافک کے چالو رہنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔

آج کل شاہ راہ پر زیادہ سے زیادہ رفتار فی گھنٹہ ۶۰ میل مقرر ہے۔ معلوم ہوا کہ پہلے انتہائی رفتار ستر میل فی گھنٹہ تھی۔ لیکن جب سے آئیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کی بچت کی طرف پوری کوشش ہو رہی ہے اس وقت سے انتہائی رفتار کو ۷۰ سے گھٹا کر ۶۰ میل فی گھنٹہ کر دیا گیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ۵۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پٹرول کا خرچ اور طے مسافت کا تناسب ٹھیک رہتا ہے اس کے بعد مسافت کم طے ہوتی ہے اور پٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے۔

شاہ راہ سے ہٹکر ہم پہلے افریکن سفاری دیکھنے گئے۔ یہ بہت بڑے علاقہ پر محیط ہے مختلف جانوروں کے احاطے الگ الگ ہیں۔ لیکن ایک احاطے سے دوسرے احاطے میں جانے کے لئے گیٹ لگے ہیں جن سے دیکھنے والوں کی موٹریں گزرتی ہیں۔ سفاری کا عملہ بھی ان گیٹوں کے قریب موجود رہتا ہے تا کہ ایک احاطے کے جانور دوسرے احاطے میں نہ جا سکیں۔ یہ عام طور پر موٹروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک رائفل بھی رہتی ہے۔ اگر کسی احاطے کے جانور کونے میں چلے جائیں تو وہ موٹر سے ان کا پیچھا کر کے ان کو احاطے کے بیچ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بیچ میں بھی کچھ مینار نما عمارتیں بنی ہیں جن سے سفاری کے عملے کا کوئی نہ کوئی آدمی بیٹھ کر اونچائی سے جانوروں میں گزرتی ہوئی موٹروں پر نظر رکھتا ہے۔ سفاری کے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے ناظرین کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی موٹروں میں پٹرول ، آئیل ، پانی وغیرہ تنقیح کر لیں۔ اگر اتفاق سے احاطہ سفاری میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو موٹر کا دروازہ کھول کر باہر نہ آئیں بلکہ ہارن بجائے تا کہ سفاری کے لوگ آ کر ان کی مدد کر سکیں۔

بندر اور لنگور عام طور پر موٹروں پر بیٹھ کر ان کے ٹاپ خراموٹروں پر بیٹھ کر ان کے ٹاپ خراپ بکر دیتے ہیں۔ اس لئے سفاری کے ابتدائی گیٹ پر موٹر والے کو یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو سفاری کی موٹر کرائے پر لے جا سکتے ہیں۔ بعض لوگ بندروں کے احاطے سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ اور بعض اپنی موٹروں کے ٹاپ کے خراب ہونے کا زیادہ خیال نہیں کرتے۔

اس سفاری میں داخلہ کی فیس ۲ ڈالر فی بالغ ہے۔ ہماری موٹر میں چار بڑے اور تین چھوٹے بچے تھے۔ صرف بڑوں ہی کا ٹکٹ لیا گیا۔

موٹریں۔ شیروں۔ ببروں اور دوسرے جانوروں کے بالکل قریب سے گزرتی ہیں لیکن یہ جانور اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ان کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔ جب چیتے شیر اور ببر کے احاطوں سے موٹریں گزر جاتی ہیں تو بورڈ پر لکھا ہوتا ہے کہ چاہیں تو موٹروں کے شیشے اتارے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ جا بجا لکھا ہوا ہے کہ جانوروں کو کچھ نہ کھلایا جائے لیکن ناظرین کچھ نہ کچھ ان کو کھلاتے ہیں اور جانور بھی شتر مرغ۔ اونٹ وغیرہ موٹروں کے قریب آتے ہیں۔ اور اگر شیشے اترے ہوئے ہوں تو موٹروں کے اندر منہ بھی ڈالتے ہیں۔ تا کہ ان کو کچھ نہ کچھ کھانے کی چیز مل جائے۔

کھلے ہوئے جانوروں کے اتنا قریب سے گزرنے کا ہمارا پہلا تجربہ تھا۔ ایک حصہ میں شمالی امریکہ کے جانور رکھے گئے ہیں اور اس کا نام امریکن سفاری رکھا گیا ہے۔

اس کے بعد ہم نیاگرا آبشار گئے۔ یہ ٹورنٹو سے تقریباً نود میل اور افریکن سفاری سے تقریباً ۳۵ میل ہے۔ پہلے پہل امریکن حصہ کے نیاگرا آبشار پر نظر پڑتی ہے اور اس کے بعد کینیڈا کے حصہ میں گرنے والے آبشار پر دریائے نیاگرا جھیل ایر سے جھیل آن ٹے ریو جاتے ہوئے جس کا پورا راستہ ۵۶ کیلو میٹر ہے۔ یہاں تقریباً سو میٹر اونچائی سے گرتی ہے۔ کینیڈا کے حصہ آبشار میں جو Canadian Horseshoe Falls کہلاتے ہیں فی منٹ ۱۵ کروڑ۵۰ لاکھ لیٹر پانی گرتا ہے۔ امریکن علاقے میں گرنے والے آبشار کے پانی کی مقدار فی منٹ ایک کروڑچالیس لاکھ لیٹر ہے۔ کینیڈا کے حصہ آبشار کا منظر ناقابل فراموش ہے۔ پورے غار کی گہرائی ایک سو آٹھ میٹر ہے۔ اور اس میں پانی کی سطح ۵۴ میٹر ہے۔ اس آبشار سے پچاس لاکھ ہارس پاور کی بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

یہاں موٹر پارک کرنے کی فیس ایک ڈالر پچاس سنٹ ہے جیسا کہ ظاہر کیا گیا کہ کینیڈا کے علاقے میں آبشار بڑا اور طاقتور اور دو حصوں میں منقسم ہے۔ سرنگ میں جانے کے لئے فی کس دو ڈالر دس سنٹ فیس ہے۔ اس میں جانے سے پہلے ربر کا لانبا جوتا واٹر پروف اور سر پر ربر کا ٹوپ پہننا پڑتا ہے۔

ٹیبل راک ہاؤس سے لفٹ سے سخت پہاڑ میں کھودے ہوئے راستے میں ۳۵ میٹر نیچے جاتے ہیں۔ اس سطح پر ایک ۲۰۰ میٹر لمبی سرنگ کھودی گئی ہے۔ اس میں تین مقامات ایسے ہیں جہاں سے اس طاقتور آبشار کو بہت ہی قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے اچھا منظر آبشار کا ابزرویشن پلازا سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی آبشار کا پانی جسم پر کچھ نہ کچھ گرتا ہے۔ دوسرے دو مقامات پر آبشار سے قریب سے قریب ہو سکتے ہیں۔ اس کا پانی جسم پر گرتا ہے اور ہاتھ سے اس کو چھو سکتے ہیں۔ بالخصوص آخری جگہ پر پانی انتہائی شدت سے گرتا ہے۔ وہاں آبشار سے پرے پانچ چھ فیٹ پہلے ہی اڑڈنڈا لگا دیا گیا ہے اس کے باوجود پانی جسم پر گرتا ہے۔ اور اگر ربر کا لباس نہ ہو تو جسم پورے کا پورا بھیگ جائے۔ یہاں سے آبشار کے گرنے کا زور شور بھی خوب دکھائی دیتا ہے۔

اتوار کی وجہ سے آبشار کو دیکھنے والوں کا کافی ہجوم تھا۔ بڑی مشکل سے ہمارے لڑکے کو موٹر پارک کرنے کی جگہ ملی۔ سرنگ سے آبشار کا منظر دیکھنے کے بعد ہم چاہتے تھے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں داخل ہو کر اس کا سرحدی شہر Buffalo دیکھ آئیں۔ یہاں ہمارے حیدرآبادی ہمسایہ مسٹر حمید پاشاہ کا لڑکا جاوید رہتا ہے۔ اس مقام پر کینیڈا اور متحدہ امریکہ کی سرحد پر ایک پل ہے۔ اس کے ایک سرے پر کینیڈا کا اور دوسرے سرے پر متحدہ امریکہ کا علاقہ ہے۔ کینیڈا والوں نے پل سے گزرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن دوسرے سرے پر امریکہ والوں نے ہم کو اپنے علاقے میں نے کی اجازت نہیں دی۔ ہم دونوں نے امریکہ کا ویزا حاصل نہیں کیا تھا۔ چونکہ ہمارا لڑکا اور بہو کینیڈا کے ایمگرنٹ ہیں وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ماں باپ کو امریکہ کی سرحد میں داخل کرا سکیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اس لئے ہم لوگ پھر پل عبور کر کے کینیڈا کے علاقے میں واپس آ گئے۔

رات کے آٹھ بجنے کے بعد میں اور بیوی اسکائی لائن مینار پر چڑھے۔ ہمارا لڑکا اور بہو چونکہ اس سے پہلے اس مینار پر چڑھ چکے تھے۔ وہ لوگ ہمارے ساتھ اوپر نہیں آئے۔ بچوں کو نیچے ہی کھلاتے رہے۔ اس پر چڑھنے کی فیس فی کس دو ڈالر پچھتر سنٹ ہے۔

Nigara Go rgetskylon سے آٹھ سو فیٹ اونچا اہے۔ اس مینار کے نیچے کے صحن میں بہت اچھا شاپنگ سنٹر ہے۔ اسی نیچے کی طرف دوسرے حصہ میں کھیل کود کی چیزیں رکھی گئی ہیں۔ اس طرح ایک میلے کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔

اوپر جانے کے لئے تین پیلے رنگ کے یلیویٹر ہیں جن کو Gellow Bug کہا جاتا ہے ان کے سامنے کا بڑا حصہ شیشوں سے ڈھانکا گیا ہے۔ یہ مینار کے بیرونی حصہ سے اوپر اور نیچے جاتے ہیں۔ اس مینار کے اوپر کے حصہ کو گول کر کے کافی چوڑا کر دیا گیا ہے سب سے اوپر Aircraft Beacon ہے اس سے نیچے تین منزلیں ہیں۔ ہوائی جہاز کے بیکن لائٹ کے نیچے اندرونی اور بیرونی ڈک ہیں جہاں کھرے ہو کر آبشار کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ Indoor and outdoor observation decks  ہم لوگ بیرونی ڈک پر کھڑے ہو کر تھوڑی دیر تک آبشار کا نظارہ کرتے رہے لیکن باہر بہت سرد ہوا چل رہی تھی اس لئے ہم اندر کے ڈک پر آ کر بہت دیر تک اس مسحور کن آبشار کو دیکھتے رہے ویسے اطراف کا منظر بھی قابل دید ہے۔ دور دور تک ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ شہر ایک دوسرے سے لگے ہوئے اور کافی منور ہیں۔ اس سے نیچے کی منزل میں باتھ روم وغیرہ میں اور یہاں ایک ڈرائینگ ہال بھی ہے جہاں مالدار لوگ بیٹھے کھا پی رہے تھے اس سے نیچے ایک مشہور گھومنے والا ڈائننگ ہال ہے۔ وہ دھیرے دھیرے گول گھومتا رہتا ہے۔ جس سے وہاں بیٹھ کر کھانے والے لوگ کھانے کے ساتھ ساتھ آبشاروں کے علاوہ دور دور تک قدرتی مناظر کا بھی لطف اٹھاتے رہتے ہیں ہم چاہتے تھے کہ اس گھومنے والے ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر چائے پئیں لیکن وہاں بتایا گیا کہ صرف چائے نہیں دی جاتی ہے۔ ڈنر کھانے والوں ہی کو چائے یا کافی دی جاتی ہے۔ ہم گراں ڈنر کھانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ویسے کھانا بھی ہمارے ذوق کا نہیں رہتا ہے گھوم پھر کر نیچے اتر گئے۔ تیسری یا چوتھی منزل پر ۳۰ ، ۳۰ منٹ میں گرم گرم چائے پی۔ اپنے لڑکے کے گھر مسی ساگا آتے آتے رات کے تقریباً بارہ بج گئے۔

پیر۔ ۱۱/ اکتوبر ۱۹۷۶ء۔ مسی ساگا۔

Mtario Place ایک تفریحی مقام ہے۔ کافی خرچ کر کے بنایا گیا ہے۔ ہم لوگ جب چار ، پانچ بجے شام میں وہاں گئے تو ایک بہت بڑے شیڈ میں آرکسٹرا کا پروگرام چل رہا تھا۔ یہاں سب سے خاص چیز جو دیکھنے کی ہے اسپیس سنیما ہے اس سنیما کا پردہ کافی چوڑا اور اونچا ہے۔ پکچر جو دکھایا جاتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم خود کسی موٹر ، ہوائی جہاز یا پانی کی کشتی میں بیٹھ کر گھوم پھر کر دیکھ رہے ہیں۔ سامنے پہاڑ آ رہا  ہو یا پھر بڑی بلڈنگ ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے قریب آتے آتے ٹکرا جائیں گے۔ جو پکچر ہم نے دیکھی وہ Onta جو کینیڈا کی ریاست ہے کہ تفریحی مقامات اور عجائبات سے متعلق تھی۔ پکچر دیکھنے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ہم خود ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر یکے بعد دیگرے سب مقامات دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس قسم کی سنیما دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہندوستان میں اب تک اس قسم کی سنیما شروع نہیں ہوئی ہے۔ اس طرف حکومت کو یا پھر ہماری فلم انڈسٹری کو متوجہ ہونا چاہئے۔

شام میں ہماری بھانجی شاہدہ نے ہم کو کھانے پر بلایا تھا۔ رچمنڈ ہل میں ان کے شوہر خورشید محی الدین کا اچھا ایک علیحدہ مکان ہے۔ یہاں نوکر یا کسی باورچی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بھانجی ہی نے سب کچھ تیار کیا تھا۔

منگل۔ ۱۲/ اکتوبر ۱۹۷۶ء

آج ہم میاں بیوی ریاستہائے متحدہ امریکہ (اسٹیٹس) کا ویزا لینے کے لئے نکلے۔ پہلے مسی ساگا ٹرانزٹ بس سے آئی لنگٹن زیر زمین ریلوے اسٹیشن گئے۔ وہاں سے سینٹ پیٹرک اسٹیشن زمین دوز ریلوے سے گئے۔ وہاں سے امریکن کونسلگری قریب ہی ہے پیدل چلے گئے امریکن کونسلگری ( ٹورنٹو ) کے سامنے ایک مرد اور ایک عورت اپنے جسم پر بڑے بڑے پوسٹر لگائے ہوئے تھے۔ ان پر لکھا تھا کہ ( نو مور آرمس ) ہتھیار میں اضافہ کی ضرورت نہیں۔ آفس میں اہل غرض اصحاب کا کافی ہجوم تھا۔ پہلے ویزا لینے کے فارم حاصل کئے گئے۔ اس کے  بعد ہمارا جو بیاگ یا پرس وغیرہ تھے ان کی وہاں تنقیح کی گئی۔ اس کے بعد درخواستیں مکمل کر کے پاسپورٹ کے ساتھ داخل کر دی گئیں۔ کئی کاؤنٹرس پر کاغذات کی تنقیح ہو رہی تھی ہمارا نمبر کافی دیر آیا۔ ایک خاتون نے ہمارے کاغذات کی تنقیح کی اور پوچھا کہ ہم نے ہندوستان میں امریکن ویزا کیوں حاصل نہیں کیا۔ ہم نے جواب دیا کہ ہندوستان میں ہمارے پاس بیرونی سکوں کے سفری چیک وغیرہ نہیں تھے۔ وہ ہم کو ہندوستان سے باہر آنے کے بعد ہمارے عزیزوں سے ملے۔ اس لئے ہم نے ہندوستان میں ویزا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے کہا کہ کینیڈا میں ہمارا لڑکا امیگرنٹ ہے اور اس وقت مسی ساگا میں مقیم ہے۔ اور اسٹیٹس میں ہماری لڑکی ہے۔ ہمارے پاس ضرورت کے مطابق پیسہ بہ شکل سفری چک موجود ہے۔ اور دیکھنا چاہیں تو کھایا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس  نے پوچھا کہ ہمارے پاس انکم ٹیکس اسسمنٹ آرڈرس یا ذاتی جائیداد کی ملکیت کے کاغذات ہیں۔ ہم نے کہا کہ وہ نہیں ہیں البتہ ہندوستان کو واپس جانے کے لئے ہمارے پاس ہوائی جہاز کا ٹکٹ ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی بھی ضرورت نہیں۔ اور کہا کہ ہم ہندوستان سے اپنے مکان وغیرہ کی ملکیت کے کاغذات منگوائیں اور پھر رجوع ہوں۔ ہم نے کہا کہ اس میں کافی وقت لگے گا۔ ہم کو ۲۱ / نومبر کو ٹورنٹو سے لندن واپس ہونا ہے اور اسی دوران ہم کو امریکہ کا سفر اور وہاں اپنی لڑکی سے ملنا ہے اس نے کہا کہ وہ اس خصوص کچھ اور نہیں کر سکتی اور ہمارا پاسپورٹ واپس کر دیا۔ ہم کو بڑی مایوسی ہوئی اور سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے۔ ایک خیال آیا کہ دوسرے دن لڑکے کو لے کر پھر یہاں آئیں اور اس کے امیگریشن وغیرہ کے کاغذات دکھا کر امریکن ویزا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایک کاؤنٹر پر ہندوستانی لڑکی بیٹھی تھی۔ اس کے پاس رجوع ہوئے اور اس کو اپنی مشکل بتائی اس نے کہا کہ ہم کونسل سے مل لیں۔ اس نے پاسپورٹ لے لیا اور دوسرے کاؤنٹر سے ہماری درخواستیں منگوا لیں۔ اور ہم کو انتظار کرنے کے لئے کہا۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری طرح اور کئی لوگ ( یورپ وغیرہ ) کے ویزا کے لئے کونسل سے ملنے والے تھے۔ ان کے متعلقہ کاؤنٹروں پر ان کے لئے بھی کوئی دقت پیدا کر دی گئی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ایسے بہت سے لوگ کونسل کے کمرے میں بلائے جا رہے ہیں۔ اور ان کی کار روائیوں کی یکسوئی ہو رہی ہے۔ لیکن ہمارا نمبر آتا ہی نہیں۔ بیزار ہو کر ہم نے ایک مرتبہ پھر ہندوستانی لڑکی کو متوجہ کیا تو اس نے کہا کہ ہم بھی بلائے جائیں گے توقف کریں۔ بہرحال کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد ہم بلائے گئے۔ اس وقت ہماری بیوی باتھ روم گئی ہوئی تھیں۔ لیکن ہم ان کا انتظار کئے بغیر کونسل کے کمرے میں چلے گئے۔ اس نے بھی ہم سے یہی سوال کیا کہ ہم نے اسٹیٹس کا ویزا ہندوستان میں کیوں نہیں لیا۔ ہم نے بھی ان کو وہی جواب دیا جو ہم نے کاؤنٹر والی خاتون کو دیا تھا۔ لیکن وہ ہماری کسی بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ ہمارے سفری چیک یا واپسی کے ہوائی جہاز کے ٹکٹ دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھے۔ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ ہم نے ویزا اپنے ملک کی سفارت ریاستہائے متحدہ امریکہ سے کیوں حاصل نہیں کیا۔ میری گزارش اور بحث پر اس نے کہا کہ وہ ہمارا کیس دہلی کو بھیجے گا اور اس کے اخراجات مجھے برداشت کرنے پڑیں گے۔ اس دوران میری بیوی بھی کونسل کے کمرے میں داخل ہو کر میرے بازو بیٹھ گئیں۔ میں نے کونسل کو کہا کہ ہم ٹورسٹ ہیں۔ ۱۹۷۳ء میں بھی ہم نے مختلف ممالک مشرقی وسطی کا سفر کیا تھا جس کی پوری تفصیل ہمارے پاسپورٹ میں موجود ہے۔ اور اب بھی ہم کئی ممالک کا دورہ کر کے کینیڈا آئے ہیں اگر ہمارا خیال کسی طرح امریکہ میں داخل ہو کر رہ جانا ہوتا تو درمیان میں ہم اتنے ممالک کا سفر نہیں کرتے۔ ہم نے کہا کہ یہاں تک آ کر اپنی لڑکی سے ملے بغیر اپنے وطن کو واپس چلے جائیں تو ہم کو بہت دکھ ہو گا۔ لندن سے ٹورنٹو اور ٹورنٹو سے لندن کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ ۴۵ دن کا ہے تاخیر ہو گی تو یہ ٹکٹ بیکار ہو جائیگا۔ ہم نے اپنی لڑکی کا خط جو اس نے ارونگ ٹیکساس سے ہمارے لندن کے پتہ پر لکھا تھا کونسل کو دے دیا۔ یہ خط اس نے بڑے غور و خوض سے پڑھا۔ اندر کے لکھے ہوئے خط کا لفافے پر لکھے ہوئے پتہ کے خط سے تقابل کیا اور پھر خط کی تاریخ اور لفافہ پر پوسٹ آفس کی مہر و تاریخ کو دیکھا۔ اور پوچھا کہ یہ لڑکی امریکہ میں کب سے ہے۔ اس کی حیثیت کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کو امریکہ کی قومیت مل گئی ہے اور وہ تقریباً ۶ سال سے امریکہ میں مقیم ہے۔ لڑکی نے خط میں لکھا تھا کہ امریکہ میں کون کونسے مقامات دیکھے جائیں نیویارک اور واشنگٹن میں کیا کیا دیکھیں وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال اس خط نے ہمارے لئے سب کچھ کیا۔ کونسل ہم کو ویزا دینے پر تیار ہو گیا۔ خود ہی آفس میں جا کر تین ماہ کا کئی بار آنے جانے کے ویزا کی مہر ہمارے پاسپورٹ میں لگا کر ہمیں پاسپورٹ واپس کیا۔ ہم نے بھی اس کا دل کھول کر شکریہ ادا کیا۔ بیوی بھی ہم کو اس کا بار بار شکریہ ادا کرتے دیکھ کر چلتے وقت اپنی طرف سے بھی سر جھکا کر ’’تھینک یو‘‘ کہہ دیا۔ خوشی خوشی گھر واپس ہوئے کہ اب اپنی لڑکی سے چھ سال بعد ملنے میں کوئی دقت نہیں رہی۔

مسی ساگا۔ ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۶ء

چہار شنبہ۔ آج شام میں ہم اپنے لڑکے کے ساتھ کسی گیاس اسٹیشن پر ان کی موٹر دھلوانے گئے۔ موٹر میں سب لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ البتہ اس کے سب شیشے چڑھا دئے جاتے ہیں۔ سروس شیڈ میں گاڑی پہنچا دینے کے بعد اس کی دھلوائی اور اس کا آگے بڑھنا اور پھر اس کا برشوں سے صاف ہونا اور سکھایا جانا وغیرہ سب خود کار مشینوں سے ہوتا ہے۔ جب سامنے پانی گرنے لگتا ہے۔ اور بعد میں بڑے بڑے برش ونڈ اسکرین کو صاف کرنے کے لئے نمودار ہوتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو پہلے پہل خوف ہو سکتا ہے۔

آج ہم نے اپنے گھر حیدرآباد ٹرنک کال کر کے اپنے بچوں کی خیریت معلوم کی یہاں جونہی ٹرنک کال کی خواہش کی جائے اکسچینج والی لڑکی فوراً ہی لائن ملانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر لائن مل جائے تو بات ہو جاتی ہے۔ اگر لائن مصروف ہو تو وہ آپ کو کہہ دے گی کہ لائن مصروف ہے۔ اگر چاہیں تو پھر تھوڑی دیر کے بعد اکسچینج کو ملا کر مخاطب کا نمبر اور مقام وغیرہ بتا سکتے ہیں۔ وہ پھر اسی وقت لائن ملانے کی کوشش کرے گی۔ اگر لائن مل گی تو بات ہو جائے گی۔ ورنہ وہ آرڈر منسوخ سمجھا جائے گا۔ ہمارا یہاں کی طرح آرڈر بک کرا کر گھنٹوں انتظار نہیں کرنا پڑتا اور نہ ٹکٹ نمبر کا حوالہ دے کر اکسچینج کو بار بار متوجہ کرنا پڑتا ہے۔

مسی ساگا ۱۴/ اکتوبر ۱۹۷۶ء

جمعرات۔ آج ہم نے بس ٹرمینل سے دو Ameripass خرید لئے بیوی کا ٹکٹ نمبر ۷۱۶۱۹ اور ہمارا ۷۱۵۷۵ ہے۔ ہر ٹکٹ کی قیمت دو سو پچیس کنیڈین ڈالر لی گئی۔

گھر سے کچھ فاصلہ پر جا کر مسی ساگا ٹرانزٹ بس سے آئی لنگن زمین دوز ریلوے اسٹیشن گئے۔ وہاں ٹرین کا ٹکٹ خریدتے وقت پوچھا کہ بس ٹرمینل جانے کے لئے ہم کونسے ریلوے اسٹیشن پر اتریں۔ اس نے کہا کہ فلاں اسٹیشن پر ار کر ٹرانزٹ لے کر فلاں بس سے بس ٹرمینل چلے جائیں۔ ہم نے پھر اس سے پوچھا کہ بس ٹرمینل سے کسی قریبی ریلوے اسٹیشن کا نام بتا دیں ہم ریلوے اسٹیشن سے بس ٹرمینل تک پیدل ہی جانا چاہتے ہیں۔ اس نے ذرا تعجب سے ایسے اسٹیشن کا نام بتا دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ زمین دوز ریلوے کا ٹکٹ خرید لیں اور آگے کی طرف سفر کو جاری رکھنے کے لئے بس کا سفر کرنا پڑے تو ریلوے اسٹیشن سے ٹرانزٹ لے سکتے ہیں اور اس کے لئے مزید کچھ دینے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح ایک بس سے دوسری بس میں جانے کے لئے مفت ٹرانزٹ ٹکٹ لیا جا سکتا ہے۔ لیکن سفر آگے کی طرف ہونا چاہئے اور ٹرانزٹ ٹکٹ سے نہ تو پلٹ کر آ سکتے ہیں اور نہ زیادہ وقت گزرنے کے بعد اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔

Le-Bristol Tourist Accommodation

1657 - Rue Saintdevis Montreal -Canada

جمعہ۔ ۱۵/اکتوبر ۱۹۷۶ء آج صبح میں ہم اپنے لڑکے کی موٹر میں بس ٹرمینل گئے ۸ بجے Voyageur اکسپرس بس مانٹریال جا رہی تھی۔ ہمارے Ameripass میں بیس بیس ٹکٹ ہیں۔ ہم Grey Hound یا Gray Coachسے امریکہ یا کینیڈا میں سفر کر سکتے ہیں۔ ہمارے ٹکٹوں کی پہلی سلپ پر ہم نے مانٹریال منزل مقصود لکھائی۔ بس بہت آرام دہ اور رفتار ۶۰ میل تھی۔ پہلے یہ بس کنگسٹن پر رکی۔ بس ڈرائیور نے اعلان کیا کہ یہاں بس چالیس منٹ تک رکی رہے گی۔ یہ بس اسٹانڈ پورا چھت پوش ہے۔ اس سے متصل ایک رسٹورنٹ ہے۔ تقریباً سب ہی مسافر اتر کر ضرورت سے فارغ ہوئے اور ریفریشمنٹ کھایا۔ وہاں ہر چیز موجود تھی اپنی مدد آپ والا معاملہ تھا۔ ہم اپنے ساتھ روٹی اور قیمہ  لائے تھے۔ اس کو بس ہی میں بیٹھ کر کھالیا تھا۔ رسٹورنٹ میں صرف چائے پی۔ کنگسٹن سے بس نکلنے سے پہلے ڈرائیور نے سب پاسنجروں سے ٹکٹ حاصل کر لئے۔ ٹورنٹو میں ان کو صرف پنچ کیا گیا تھا۔ بس میں کوئی کنڈکٹر نہیں تھا۔ وہاں سے بس نکلی تو مانٹریال پر رکی۔ مانٹریا بھی بڑا شہر ہے۔ وسط شہر میں ٹرافک رکنے نہ پائے اس کے لئے مختلف پل نیچے اوپر بنائے گئے ہیں ان پر سے ہر طرف کی ٹرافک آسانی سے گزر جاتی ہے۔ یہاں ہم ڈھائی بجے دوپہر میں پہونچے۔

بس ٹرمینل Voyageur کے سامنے ہی ایک ہوٹل تھی۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ دو بستر والے کمرے کا کرایہ پندرہ ڈالر پچاس سینٹ فی یوم ہے۔ اس پر آٹھ فیصد ٹیکس الگ دینا ہو گا۔ اس کرایہ میں ناشتہ شریک نہ تھا۔ بس اسٹانڈ سے باہر آ کر ایک راستہ پر آ گیا تواس ٹورسٹ ہاؤس میں دو بستر کا کمرہ کل پندرہ ڈالر بارہ سینٹ میں مل گیا اس کرایہ میں صبح کا ناشتہ شریک ہے۔

آج ہم نے بس ٹرمینل میں دیکھا کہ کئی لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے کرسیوں سے جڑے ہوئے سٹس میں ٹیلی ویژن پروگرام دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں۔ ہر سٹ کے پاس پیسے ڈالنے کا خانہ بنا ہوا ہے مقررہ سکے ڈال کر کچھ وقت کے لئے ٹیلی ویژن دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ منظر ہم نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا۔

شام کے وقت اپنی ہوٹل سے ہوئی سڑک پر دور تک پیدل گئے۔ ہوٹل میں مطلق سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ مانٹریال بھی بہت سرد ہے۔ واپسی ہم نے دیکھا کہ Dominion نامی اسٹور میں کافی ہل چل ہے ہم بھی اس میں داخل ہو گئے۔ ہر قسم کا سامان گوشت۔ ترکاری۔ پھل۔ کیک۔ بسکٹ اور ایسی بیسیوں چیزیں اس میں موجود تھیں۔ اندر بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی اسٹیل کے تاروں کی ہاتھ گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ہر گاہک اسٹور میں داخل ہونے کے بعد اس قسم کی گاڑی لے لیتا ہے اور اسٹور میں گھوم پھر کر اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھا اٹھا کر اس میں ڈالتا جاتا ہے۔ یہاں ہر چیز پر قیمت لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر گوشت وغیرہ لیا جائے تو کاؤنٹر والا اس کو تول کر ایک پوڑے میں پیک کر کے حوالے کر دے گا۔ اور پڑے پراس کی قیمت لکھ دے گا۔ اسٹور میں کئی کیاش کاؤنٹرس بنے ہیں۔ ایک مرتبہ کوئی اسٹور میں داخل ہو جائے تو واپسی کے وقت اس کو کسی نہ کسی کیش کاؤنٹر ہی سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ گاہک ہاتھ گاڑی میں لایا ہوا سامان کیش کاؤنٹر کی میز پر جما دیتا ہے لڑکی (عام طور پر نقدی کاؤنٹر پر لڑکیاں ہی ہوتی ہیں ) ایک ایک سامان لیتی ہے اور اس کے سامنے رکھے ہوئے مشین پر اس کی قیمت بٹن سے دباتی جاتی ہے۔ جب پورا سامان ختم ہو جاتا ہے تو وہ میزان کا بٹن دباتی ہے۔ کل قیمت ادا ہو جانے کے بعد لیا ہوا سامان پوڑوں میں رکھ کر کیشیر کے پاس کھڑے ہوئے ایک دو آدمی گاہک کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہم نے بھی چھوٹی موٹی سات چیزیں خریدیں اس کی کل قیمت چار ڈالر باسٹھ سنٹ ہوئی۔ کل ہفتہ اور پرسوں اتوار ہے اس لئے اسٹور میں کافی ہجوم تھا۔

۱۶/ اکتوبر ۱۹۷۶ء شنبہ مانٹریال

ہم جس ہوٹل (INN) میں ٹھیرے ہوئے ہیں اس کے مالک ایک فرانسیسی Frasqois نامی ہیں لیکن انگریزی اچھی بولتے ہیں۔ ان میں دو ایک لڑکیاں کام کرتی ہیں ان کو انگلش بالکل نہیں آتی۔ ناشتہ کے لئے ڈبل روٹی۔ روٹی سیکھنے کا الکٹرک آلہ موجود تھا اس میں روٹی کے دو ٹکرے سیکھنے کے بعد خود بخود اوپر آ جاتے ہیں اور اس کی بجلی کی رو بند ہو جاتی ہے۔ اگر ان ٹکڑوں کو مزید سیکھنا ہو تو ذرا وقفہ سے بٹن کے ذریعہ ان ٹکڑوں کو نیچے کی طرف کرنا پڑتا ہے۔ جس سے بجلی کی رو آنی شروع ہو جاتی ہے جوں ہی ٹکڑے گرم ہوئے وہ اوپر کی طرف آ جاتے ہیں۔ بجلی کی رو بند ہو جاتی ہے۔ روٹی کے علاوہ جام۔ جیلی۔ مسکہ۔ شہد۔ کافی۔ چائے۔ شکر اور دودھ وغیرہ ڈائننگ ہال میں موجود تھا۔ دودھ۔ روٹی وغیرہ کچھ کم پڑے تو مالک نے ریفریجریٹر کھول کر بتا دیا تھا کہ اس میں سے لے سکتے ہیں۔ چائے ، کافی بنانے کے لئے الکٹرک کیتلی موجود تھی۔ جتنا چاہیں ناشتہ کیا جا سکتا تھا۔ اس پر کوئی تحدید نہیں تھی۔ البتہ ایک کانچ کی کٹوری میں کچھ چلر (وردہ ) پرا ہوا تھا۔ وہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ گاہک چاہے تو اس میں اپنی طرف سے کچھ پیسے بطور ٹپ ڈال سکتا ہے۔

اس ڈائننگ ہال میں ایک نیویارک کے امریکن سے ملاقات ہو گئی۔ وہ بہت باتونی لیکن کافی معلومات والا تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ مانٹریال کے پرانے شہر کا دورہ ہم پیدل ہی کریں۔ مالک ان  نے باہر کا دروازہ کھول کر بتایا کہ ان سے نکل کر بائیں طرف مڑ جائیں اور کافی دور تک سیدھے سیدھے چلے جائیں اور پھر دائیں مڑ جائیں۔ مالک نے یہ بھی کہہ دیا کہ باہر کافی سردی ہے ہم گرم کپڑے پہن لیں۔ جب ہم باہر نکلے تو ہمارے جسم پر شرٹ۔ اس پر سوئٹر۔ پھر کوٹ اور او ور کوٹ۔ او ور کٹ ہم نے اپنے لڑکے سے مسی ساگا میں لیا تھا۔ بیوی کے پاس ساڑھی اور بلوز پر کشمیری کوٹ اور اس پر او ور کوٹ جو انہوں نے اپنی بہو سے لیا تھا۔ میں سر اگر گردن پر گلوبند باندھ لیا تھا۔ اور بیوی نے اسکارف۔ ہاتھ کھلے تھے۔ اس لئے بیوی نے دونوں ہاتھ او ور کوٹ کے جیب میں رکھ لئے تھے۔ میرے پاس ایک چھوٹی سی تھیلی تھی جس میں کھانے کی چیزیں اور گلاس اور مگ تھا۔ اس تھیلی کو کبھی ایک ہاتھ میں تھامتا اور کبھی دوسرے ہاتھ میں اس طرح وقفہ وقفہ سے ایک نہ ایک ہاتھ جیب میں رکھا رہتا۔ جب ہم چل رہے تھے تو ایک مقام پر وقت اور ٹمپریچر بتایا جا رہا تھا۔ اس وقت صبح کے ساڑھے دس بجے تھے اور مانٹریال کا ٹمپریچر ۵ ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں کا ٹمپریچر منفی ۲۵ ڈگری سنٹی گریڈ تک جاتا ہے۔ اس وقت بھی ہم نے مقامی لوگوں کو دیکھا کہ جیبوں میں ہاتھ رکھ کر چل رہے تھے۔

ہائی کورٹ کی پرانی بلڈنگ کے سامنے ایک صاحب کو ہم نے دیکھا کہ وہ کیمرہ وغیرہ لئے کھڑے ہیں ہم نے ان سے کچھ پوچھا تو انہوں نے ہم کو بہت ہی اخلاق اور خوش دلی سے جواب دیا۔ اور ہم دونوں کی فوٹو لینے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم یہ سمجھ کر یہ فوٹوگرافر ہیں یہ پوچھ بیٹھے کہ ہم کو کیا دینا پڑے گا۔ انھوں نے جواب دیا کہ کچھ نہیں اور یہ غیر پیشہ ور فوٹو گرافر ہیں۔ انھوں نے ہماری اس مقام پر تین ، چار تصویریں لیں۔ اور مانٹریال کے تعلق سے کئی معلومات بہم پہونچائیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے نام کا کارڈ دیا جس یہ لکھا ہوا تھا۔

Jean R.Pelland, C.G.A Suporvisor

Budgets and Cost Analyris Bank Conadian National.

Montreal. Tel / 395 - 6572

ان کا بینک مقام ملاقات سے قریب تھا۔ باوجود چھٹی کے وہ ہم کو اپنے کمرہ پر لے گئے۔ ان کا کمرہ کافی اونچی منزل پر تھا۔ وہاں سے انھوں نے مانٹریال شہر کا منظر دکھایا۔ اور پوچھا کہ اگر ہم اجازت دیں تو وہ ہم کو اپنی موٹر میں شہر مانٹریال کی گشت کرائیں گے۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ شاید ان کی کوئی مصروفیت ہو وہ ہمارے لئے تکلیف نہ کریں۔ جواب دیا کہ ان کو اپنی ماں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانا ہے وہ ابھی ٹیلی فون کئے دیتے ہیں اور اس کے بعد وہ فری ہیں۔ باتوں باتوں میں ہم نے پوچھا کہ ان کے بال بچے نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ چودہ سال ساتھ رہنے کے بعد بیوی نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے تو انھوں نے کہا کہ اس تلخ تجربہ کے بعد دوسری شادی کے لئے طبیعت مائل نہیں۔ البتہ ان کی ایک گرل فرینڈ ہے جب وہ ملنا چاہتی ہے تو مجھے ٹیلی فون کر دیتی ہے۔ یا میں جب تنہائی محسوس کرتا ہوں تو اس کو ٹیلی فون کر دیتا ہوں۔ اس طرح ہم دونوں ہفتہ کے ختم پر ایک آدھ دن یا بیچ میں کچھ وقت ساتھ گذار لیتے ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے کہا کہ زندگی بعض وقت بالکل مایوس کن دکھائی دیتی ہے اور کبھی پر لطف جذبات میں اس طرح اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔

وہ ہم کو شہر کے بڑے بڑے علاقوں میں لے گئے۔ شہر کے مالدار لوگوں کے رہنے کے حصے دکھائے۔ مانٹریال یونیورسٹی سینٹ جوزف چرچ دکھایا۔ اور سمپک گاؤں کو لے گئے۔ وہاں کا اسٹیڈیم دکھایا۔ بہرحال ان کی موجودگی ان کی کار کردگی کی سہولت کی وجہ سے ہم مانٹریال بہت کچھ دیکھ سکے۔ ورنہ اس کا قطعی امکان نہ تھا۔ اور مقامات پر بھی انھوں نے ہماری کئی فوٹوئیں لیں۔ جب ہم نے چاہا کہ ان کے کیمرہ سے ہم ان کی کوئی فوٹو لیں۔ اور کہا کہ وہ ہماری بیوی کے بازو کھڑے ہو جائیں تو انھوں نے بلا تکلف ہماری بیوی کے گلے میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور اس پوز میں فوٹو کھنچوائی۔ چونکہ ان کی تہذیب میں یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے نہ تو بیوی کچھ کر سکیں اور نہ ہم کچھ کہہ سکے۔ (بعد کو یہ سارے فوٹو انہوں نے ہمارے لڑکے کے پتہ پر مسی ساگا پر روانہ کیا۔ جو ہم کو امریکہ کے سفر سے واپس آنے پر ملے ) اور اس کا ہم نے خط کے ذریعہ شکریہ بھی ادا کیا)

مانٹریال کیوبک اسٹیٹ کا بہت بڑا شہر ہے۔ اس اسٹیٹ کے ۸۵ فیصد رہنے والوں کی زبان فرانسیسی ہے۔ ہمارے میزبان بھی فرانسیسی بولنے والے کنڈین ہیں۔ انگریزی بھی اچھی خاصی بول لیتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ کیوبک میں فرانسیسی بولنے والوں کے حقوق کی پوری حفاظت نہیں ہوتی ہے۔ انگریزی بولنے والوں کے ساتھ ملازمت اور کاروبار میں جانب داری برتی جاتی ہے۔ امریکن کافی تعداد میں یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ ملامت وغیرہ کے معاملہ ہمیشہ انگریزی بولنے والوں کے ساتھ جانب داری کرتے ہیں۔ حکومت کا رویہ بھی اسی طرح طرفدارانہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرانسیسی بولنے والوں کے جذبات کافی مجروح ہیں۔

۱۷/ اکتوبر ۱۹۷۶ء

اتوار چونکہ برسٹل ٹورسٹ اکومیڈیشن سنٹر میں نکلنے کا وقت یعنی دوسرے دن کے شمار کا وقت بارہ بجے دن تھا۔ ہم نے دس بجے صبح ہی اپنی کمرہ خالی کر دیا۔ لیکن سامان اسی ہوٹل میں ڈائننگ ہال سے متصل کمرہ میں رکھ دیا۔ بارہ بجے کی بس سے ہم اٹاوا گئے۔ یہ کینیڈا کا صدر مقام ہے۔ وہاں دو بج کر دس منٹ دوپہر کو پہنچے۔ یہاں بھی سردی کا وہی حال ہے جو مانٹریال میں ہے۔ کوٹ اور او ور کوٹ کے علاوہ سر اور کانوں اور گردن کی حفاظت کے لئے گلوبند بھی باندھنا پڑا۔

voyageur بس ٹرمنس سے ہم پیدل ہی نکلے۔ آج اتوار ہونے کی وجہ سے ٹرافک بہت کم تھی اور شہر سونا سونا دکھائی دے رہا تھا۔ پہلے ہم ایک بلڈنگ میں گئے جس میں فیڈرل کورٹ اور سپریم کورٹ واقع ہیں۔ یہ بلڈنگ اندر سے خوب ہے اس کا فرش۔ اس کے کمرے۔ ان کی زینت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بڑے دروازہ سے داخل ہوتے ہی بائیں طرف فیڈرل کورٹ واقع ہے اور اوپر سامنے سپریم کورٹ۔ ججوں کی کرسیاں و میز۔ وکلاء اور فریقین کی نشست کا ہال وغیرہ سب ہی دبدبے والے دکھائی دئے۔ پروسس کلرک کا کمرہ بھی خوب تھا۔

اس بلڈنگ کے نگران کار سے پوچھ ہم نے اپنا کھانا یہیں کھایا۔ واٹر کولر اور باتھ روم وغیرہ کی سب سہولت یہاں موجود تھی۔ چھٹی کی وجہ سے صرف سیاح ہی اس عمارت میں گھوم رہے تھے لیکن کئی طرف نگران کار موجود تھے۔

پانچ بجے کی بس سے مانٹریال واپس ہوئے جہاں ہم شام میں ۷ بج کر ۱۰ منٹ پر پہونچے۔ یہاں بسیں ٹھیک وقت پر نکلتی ہیں اور مقررہ وقت پر منزل مقصود پہونچتی ہیں۔ برسٹل مسافر سنٹر سے جا کرسامان لالیا۔ اور ساڑھے آٹھ بجے شب کی بس سے باسٹن یونائیٹیڈ اسٹیٹس کے لئے روانہ ہو گئے سوا نو کے قریب ہم اسٹیٹس کی سرحد پر پہنچے۔ وہاں امیگریشن ہوا۔ امریکہ کے امیگریشن افسروں نے بعض مسافرین سے پوچھ تاچھ کی۔ ہم نے اسٹیٹس کا ویزا ٹورنٹو ہی میں حاصل کر لیا تھا۔ ہم سے بھی دو تین سوالات کئے گئے۔ ہماری لڑکی کا پتہ جو ارونگ میں ہے لکھ لیا گیا۔

وہاں سے بس نکلی تو راستہ میں دو ایک جگہ رک کر برلنگٹن میں ۳۰ منٹ کے لئے ٹھیری۔ یہاں سب مسافروں کو بس سے اتر جانا پڑا اور بس فیول وغیرہ لینے کے لئے کسی اور جگہ گئی۔ ویٹنگ ہال سے متصل ایک رسٹورنٹ بھی تھی۔ مسافرین نے ریفرشمنٹ کھایا۔ کچھ لوگ ویٹنگ ہال میں نیچے کی طرف ریسٹ ہاؤس میں جا کر ضرورت سے فارغ ہوئے۔ کینیڈا اور پورٹ وغیرہ میں بیت الخلاء وغیرہ کو Toilets لکھتے ہیں۔ برمنگٹن اور باسٹن میں دیکھا کہ یہاں ریسٹ ہاؤس تھا۔ ہم ۱۸! کی صبح کے تقریباً ۵ بجے ہاسٹن پہونچے اور ویٹنگ ہال میں بیٹھے رہے۔ باہر زبردست سردی تھی ۹ بجے کے قریب باہر گئے۔ دو تین ہوٹلوں کو دیکھا۔ یہاں کرائے زیادہ ہیں۔ Gray Hound Bus Terminus پارک اسکوائیر کے قریب ہی ہے۔ ہم کو یہیں سنیما ہاؤس میں جگہ مل گئی۔ ہم کو پانچویں فلور پر کمرہ نمبر ۵۳۷ دیا گیا ہے اس کا کرایہ جو پیشگی لیا جاتا ہے۔ فی یوم ۲۲ یو ایس ڈالر ہے۔

باسٹن آزادی جنگ میں بہت نمایاں مقام رکھتا ہے۔ انگریز جب ۱۶۳۰ء میں Massachusetts آئے تو اپنے ساتھ سیاسی خیالات بھی لائے John Winthrop نے جو Massachusetts Bay Colony کا پہلا گورنر تھا، کہا تھا عام اصول حکومت یہ ہے کہ اقتدار کی بنیاد محکوم رعایا کی رضا پر ہو۔ ایک سو سال سے بھی اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار رہے۔ تقسیم اراضی سڑکوں کی تعمیر اور ٹیکس کی منظوری ان کے نمائندوں کی اکثریت کی رائے سے ہوتی تھی۔ میساچوسٹس ( جس کا باسٹن صدر مقام ہے ) کو ۱۷۶۳ء میں یہ بھی فخر تھا کہ وہ برٹش ایمپائر کا حصہ ہے۔ وہاں کے لوگ برٹش حکومت کے اقتدار کو بیرونی معاملات میں تسلیم کرتے تے۔ اور ان کی فوجی اور بحریہ کی امداد کا خیر مقدم کرتے تھے۔

جب انگریزوں اور فرانسیسیوں کے حملہ کا خطرہ جاتا رہا تھا۔ انگریزوں نے یہ چاہا کہ ان کا بار کچھ امریکیوں پر بھی منتقل کریں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ فرانسیسیوں کے حملے کا خطرہ ٹل جانے سے سب سے زیادہ فائدہ امریکیوں ہی کو ہوا ہے اس طرح تین قوانین منظور کئے گئے Stamp Act 1785 - Sugar Act -1764 اور The Townshed Act - 1767 نو آبا دیاتی لوگوں نے انگریزی سیاسی اصول کے تحت یہ اعتراض کیا کہ ان کی اپنی نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ انگریزوں نے خیال کیا کہ انھوں نے اپنے دستور اور پارلیمنٹ کے اقتدار کی حدود میں یہ ٹیکس لگایا ہے۔ درخواستوں۔ بائیکاٹ۔ انگلینڈ میں دوستوں کی مدد۔ مجمع۔ دھمکی اور تشدد سے نو آبا دیاتی لوگوں نے ان قوانین کو ناکام بنا دیا۔ ۱۷۷۰ تک یہ قوانین منسوخ کر دئے گئے۔ لیکن چائے اور راب پر ٹیکس باقی رہا۔

میساچوسٹس میں جہاں لوگوں نے آزادی کی مدافعت کو ہر شئی پر مقدم جانا دو چیزیں پہلے سے مہیا تھیں۔ ایک تو ان کی ایک طرف کی خود مختار حکومت اور دوسرے Sam Adams اور Joseph warren جیسے بڑے لیڈروں کی قیادت۔ Faneuil Hall اور اولڈ ساؤتھ میٹنگ ہاؤس میں جلسے ہوئے جن میں انگریزی پالیسیوں کی مخالفت کی گئی۔ مقابلہ اور سخت اقدام کی رائے رکھنے والوں کی مخالفت کی گئی اور یہ مباحثے نظریے اور عمل کے تعلق سے بہت سبق آموز ثابت ہوئے۔

انگریزوں کے اقتدار کی نشانی لال وردی والے سپاہی تھے۔ ان کے خلاف نفرت و غصہ بڑھنے لگا۔ چنانچہ ۵! مارچ ۱۷۷۰ء کو ان فوجیوں کو ہتک آمیز جملے پتھر اور برف کے گولوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آخر کار فوجیوں نے گولی چلا دی اور پانچ آدمی مرگئے۔ ان میں ایک Crispus Attacks کالا آدمی تھا۔ کیپٹن اور فوجیوں پر مقدمہ چلا گیا۔ ان کی مدافعت میں جان آڈمس اور Joriah Quney نے پیروی کی۔ ۶!مارچ کو فے نیل میں لوگ جمع ہوئے اور دوپہر میں اولڈ ساؤتھ میٹنگ ہاؤس میں جلسے ہوئے اور بعد میں سام آڈمس نے انگریزی عہدہ داروں سے مل کر مطالبہ کیا کہ ہاسٹن سے سارے انگریز فوجی ہٹا دئے جائیں۔ وہ ہٹا دئے گئے اور کچھ عرصہ کے لئے حالات پر امن ہو گئے۔ لیکن بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ انگریز عہدہ داروں نے دعوی کیا کہ یا تو برٹش پارلیمنٹ کو پورا اقتدار ہونا چاہئے یا پھر کچھ بھی نہیں۔ میساچوسٹس ہاؤس نے ۱۷۷۲ء میں یہ تصفیہ کیا کہ اگر یہی دو راستے کھلے ہیں تو موجودہ پارلیمنٹ کو ہمارے لئے کسی تصفیہ کا حق نہیں۔ اس سے مراد آزادی ہی سمجھ لی جائے۔

آخری مقابلہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تعلق سے پیش آیا۔ ان کے پاس بہت سی چائے اور ادا طلب بقایا رہ گیا تھا۔ برٹش پارلیمنٹ نے ۱۷۷۳ء میں پھر چائے کا قانون پاس کیا اس کے ذریعہ چائے کی قیمت میں کمی کی گئی۔ لیکن اس پر ٹیکس باقی رکھا گیا۔ اس سے برہم ہو کر باسٹن والوں نے ۱۶/ ڈسمبر ۱۷۷۲ء کو ۳۴۰ چائے کی پیٹیاں سمندر میں ڈھکیل دیں۔ یہ واقعہ باسٹن کی ٹی پارٹی کے نام سے مشہور ہے۔ سیاح مقام واقعہ پر اس تعلق سے ایک میوزیم دراصل جہاز کا نمونہ Replica پائے گا۔ انگریزوں نے تصفیہ کیا کہ اپنے اقتدار کو نو آبا دیاتی لوگوں سے منوائیں۔ ۱۷۷۴ء میں ایک ایسا قانون منظور کیا گیا جس سے نو آبا دیاتی لوگوں کے سب اختیار چھین لئے گئے۔ اس کا جواب باسٹن کے لوگوں نے باسٹن سے باہر اپنی حکومت بنا کر دیا۔

Gen - Thomas Yage کو جو میسا چوسٹس کا گورنر اور انگریز فوجوں کا کمانڈر بھی تھا حکم ملا کہ وہ اقدام کرے۔ اس نے ۱۸/ اپریل ۱۷۷۵ کو اپنی فوجیں Lexington اور Concord کو روانہ کیں۔ گیارہ مہینے تک محاصرہ باقی رہا۔ اور ۱۷! جون ۱۷۷۵ء کو Bunker Hill کی لڑائی ہوئی۔ آخر کار جارج واشنگٹن کی قیادت میں امریکیوں نے انگریز فوجوں کو باسٹن سے باہر نکال پھینکا چارہ ماہ کے بعد Second continental کانگریس نے یہ تصفیہ کیا کہ پارلیمنٹ کا اب کوئی اقتدار نہیں رہے گا۔

باسٹن میں پارک اسٹریٹ میں ایک انفرمیشن سنٹر ہے۔ جہاں دو صد سالہ آزادی امریکہ کے تعلق سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس سنٹر سے سڑک پر ایک لال لکیر جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پیدل گئے۔ اس طرح faneuel Hall , Martyres Burial ground, Old City Hall Massacrespot دیکھا۔ فی نیل ہال میں سامیول آڈمس اور دوسرے باسٹن کے محبان وطن نے حصول آزادی کے قبل کے دنوں میں بہت اہم مباحث میں قیادت کی تھی۔ اس ہال کی توسیع ۱۸۰۶ء میں ہوئی اس کے بعد بھی یہ ہال متواتر عام جلسوں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کے سامنے کچھ کھلا حصہ ہے اور ایک مارکٹ بھی ہے دوسرے دن صبح میں ہم نے باسٹن پورٹ کا کچھ حصہ دیکھا اور اس حصہ بحراوقیانوس پر نظر ڈالی۔

363 Kenwood Street

Engle wood New Jersey U.S.R

چہار شنبہ۔ ۲۰/ اکتوبر ۱۹۷۶ء  ہم کل باسٹن سے نیویارک کے لئے گرے ہاؤنڈ اکسپرس بس سے ایک بجے دوپہر میں نکلے۔ راستے میں مختلف سڑکیں ملنے لگیں جیسے جیسے نیویارک قریب آنے لگا۔ سڑکوں کی تعداد زیادہ دکھائی دینے لگی۔ لیکن کہیں بھی ایک سڑک دوسری سڑک سے راست نہیں ملتی۔ ان کو پل پر سے گزارتے ہوئے اس طرح ملاتے ہیں کہ دوسری سڑک کی ٹرافک میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ جا بجا اگزٹ نمبر لکھے ہیں۔ کس اگزٹ سے سڑک کس شہر یا قصبہ کو جاتی ہے اس کی لکھی ہوئی اطلاع اگزٹ سے پہلے ہی جلی حروف میں آ جاتی ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگزٹ پر مڑنے والے سیدھے طرف کی لائن پر آ جائیں۔ اکثر جگہ یہ لکھا رہتا ہے غذا۔ فون۔ گیاس اور رہائش کے لئے اگزٹ نمبر فلاں پر مڑ جائیے۔ ہائی وے (شاہ راہ ) پر موٹروں کی ان گنت تعداد دوڑتی ہے۔ سفر کرنے والوں کے لئے یہ ہدایات بہت مفید ہوتی ہیں۔ گرے ہانڈ کی بس میں جس میں ہم سفر کر رہے تھے اندر کی طرف اس کا نمبر ۳۲۴۸ لکھا تھا اور نیچے کی پلیٹ پر لکھا تھا۔

Your Operator

Dean Jackson

Safe, Reliable - Courteous

جب کبھی ڈرائیور بدلتے ہیں تو جانے والے ڈرائیور اپنے نام کی پلیٹ نکال لیتا ہے۔ اور اسی طرح آنے والا ڈرائیور اپنے نام کی پلیٹ لگا دیتا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے اس قسم کی بسوں میں ڈرائیور، کنڈکٹر کا کام بھی کرتے ہیں۔ اس لئے غالباً ان کو آپریٹر لکھا جاتا ہے۔

راستہ میں صرف ایک جگہ ریفریشمنٹ کے لئے پانچ منٹ بس رکی۔ کچھ ضرورت سے فارغ ہوئے اور بعضوں نے خود کار مشینوں سے اسناک اور مشروبات سکے ڈال ڈال کر حاصل کیں۔

پانچ بجے کے قریب ہماری بس نیویارک میں داخل ہوئی۔ جس علاقہ میں داخل ہوئی اس میں ہم کو صرف کالے ہی کالے دکھائی دئے۔ اور بہت دور تک بھی سارے پیدل چلنے والے یا گھروں سے باہر نکلنے والے صرف کاہی تھے۔ راستے میں کچھ چمن اور مختصر پلے گراؤنڈ بھی ملے۔ ان میں ہم نے کالوں ہی کو بیٹھے ہوئے یا کھیلتے ہوئے دیکھا۔ جیسے جیسے بس آگے بڑھتے گئی کالوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ گرے ہانڈ بس ٹرمینس پر پہنچے تو ساڑے پانچ بج چکے تھے آبادی میں داخل ہونے کے بعد کو جا بجا ٹرافک لائٹ اور کثرت ٹرافک کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس لئے بس کو روکنا اور کی رفتار کو کم کرنا پڑ رہا تھا۔

جب ہم بس ٹرمینل پر اتر گئے تو ہم نے دریافت کیا کہ ان گل وڈ۔ نیوجرسی کو کیسے جا سکتے ہیں۔ دریافت کرنے پر کاؤنٹر والے  نے کہا کہ چوتھی منزل پر پلیٹ فارم نمبر ۷۱ سے بس  نکلتی ہے۔ جب ہم متعلقہ پلیٹ فارم پر گئے تو کیو میں کھڑے ہوئے پاسنجروں سے معلوم ہوا کہ ہم کو بس نمبر ۱۶۶ پکڑنی چاہئے۔ ہم کو بس نمبر اور پلیٹ فارم نمبر کے اختلاف سے کچھ پریشانی ہونے لگی۔ صراحت سے پوچھنے پر معلومہ ہوا کہ پلیٹ فارم نمبر ۷۱ سے کئی جگہ جانے کے لئے مختلف بسیں نکلتی ہیں۔ انگل وڈ کے لئے ہمیں بس نمبر ۱۶۶ پکڑنی چاہئے۔ ایک لڑکی کو جو کیو میں کھڑی تھی ہمارے عزیز کا مکمل پتہ بتایا کہ وہ Kenwood St. 363 میں رہتے ہیں۔ لڑکی نے کہا وہ اس کو نہیں معلوم ہے۔ بس آنے پر ڈرائیور سے پوچھا جائے گا۔ ہم چاہتے تھے کہ ہم اپنے عزیز کے مکان سے جتنا ہو سکے قریب اتریں۔ وہ میاں اور بیوی دونوں ہی کام پر جاتے ہیں۔ شام میں تھکے ماندے گھر واپس ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم نے ان کو نیویارک بلانا مناسب نہیں سمجھا۔ ڈرائیور کو بھی یہ پتہ معلوم نہیں تھا۔ ہم نے کیو والی لڑکی کو بتا دیا تھا کہ انگل وڈ جا کر ہم اپنے عزیز کو ٹیلی فون کر دیں گے اور وہ ہمیں آ کر لے جائیں گے۔ لڑکی نے ڈرائیور کو سمجھایا کہ ہم کو Palisade پر اتار دیں اور وہ خود اپنے مقام پر اتر گئی۔

بس ڈرائیور ہر مسافر سے اترتے وقت طے کردہ فاصلہ کے لحاظ سے کرایہ لے رہا تھا۔ ٹکٹ اور کچھ پیسے واپس کرنا ہو تو وہ مسافر کو دیتے ہوئے ایک اور بٹن دباتا جس سے سیڑھیوں کے سامنے کا اڑڈنڈا ہٹ جاتا اور پاسنجر اتر جاتا۔ اور جوہی بس کا دروازہ بند ہو جاتا وہ اڑڈنڈا اپنی جگہ پر آ جاتا۔ پالی سیڈ کے کچھ سامنے بس ڈرائیور نے ہم کو اتار دیا۔ اس وقت دیر ہو گئی تھی۔ غالباً سات بج چکے تھے۔ ساری دوکانیں بند ہو چکی تھیں۔ ہم اب ذرا پریشان ہو گئے کہ ٹیلی فون کہاں سے کریں۔ بازو ہی ایک ہال میں کچھ نوجوانوں سے مختلف قسم کی ورزشیں کرائی جا رہی تھیں۔ وہاں اس کے مختلف آلات تھے۔ کوئی بیٹھا ہوا کوئی کھڑا ہوا اور کچھ اور ڈھنگ سے وہ آلات گھما رہا تھا۔ ہم نے چاہا کہ ان کے ٹرینر کو متوجہ کریں اور پوچھیں کہ کیاہم ان کے پاس سے ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ ہماری طرف متوجہ ہی نہیں ہوا۔ ایسے میں ہماری نظر سامنے ایک ٹیلیفون بوتھ پر پڑی۔ وہاں دو کالی لڑکیاں تھیں جن میں سے ایک ٹیلی فون پر بات کر رہی تھی۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ جب اس کی گفتگو ختم ہوئی تو ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ ہمارے لئے بھی ٹیلی فون ملا دے لڑکی نے نمبر دیکھ کر دس سنٹ کا سکہ سوراخ میں ڈالا اور پش بٹن ٹیلی فون پر نمبر دبائے اور جب گھنٹی بجنے لگی تو لڑکی نے ریسور ہمیں دے دیا۔ ادھر سے ایک امریکن نے پوچھا کہ میں کون بات کر رہا ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ میں فلاں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر اس نے پھر پوچھا کہ میں کون ہوں مجھے شبہ ہوا ٹیلی فون غلط مل گیا ہے۔ میں نے ٹیلی فون کا نمبر دھرایا تو اس نے اس کی تصدیق کی عزیز کا نام کہا تو اس نے کہا کہ وہ ان کو جانتا ہے۔ لیکن اس نے اصرار کیا کہ میں کون ہوں۔ میں نے اپنا بتایا اور کہا کہ میں حیدرآباد سے آیا ہوں۔ جواب میں عزیز نے ’’ السلام علیکم ‘‘ سے گفتگو کا آغاز کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ امریکن ان کا سکریٹری ہے جو دن رات ان کے پاس رہتا ہے اور ان کے کام میں مدد دیتا ہے۔ لکھے ہوئے پتہ پر ان کے پاس پہنچنا بڑا مشکل تھا۔ ٹیلی فون ہی ایک ذریعہ تھا جس سے ہم راست بات کر سکتے تھے۔ امریکن آواز آئی تو خیال ہوا کہ ہم کو دیا ہوا ٹیلی فون نمبر غلط ہے۔ اس خیال سے نیویارک واپس جا کر وہاں ہوٹل تلاش کرنی پڑے گی ذرا پریشانی ہونے لگی تھی۔ بہرحال ہمارے عزیز فوری موٹر لے کر آئے۔ اور ہم سے بغل گیر ہو گئے۔ اور شکایت کی کہ نیویارک سے ان کو ٹیلی فون کیوں نہیں کیا گیا۔

وہ اسی رات واشنگٹن جانے والے تھے۔ اگر ہم دیر سے ٹیلی فون کرتے تو وہ شاید اپنے سکریٹری کے ساتھ نکل گئے ہوتے۔ گھر بڑا ہے اور نیچے کے حصہ میں دو ٹیلی فون لگے ہیں۔ وہ چلے جاتے تو رات میں کوئی جواب نہ دیتا۔ اوپر ایک ٹیلی فون ان کی خوابگاہ میں بھی ہے لیکن اس کا نمبر ہم کو معلوم نہ تھا۔ بہرحال یہاں آنے پر ہم کو ہر قسم کی سہولت مل گئی۔

آج یونائیٹیڈ نیشن (اقوام متحدہ) کی عمارت دیکھی۔ یہ دیکھنے کے لئے فی کس دو ڈالر فیس داخلہ دینے پڑتے ہیں۔ یہ معائنہ گائیڈ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر گروپ ۲۰!۲۵ افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان سب کو ایک ہی نمبر دیا جاتا ہے۔ جرمن، فرنچ اور انگلش وغیرہ میں سمجھانے کا انتظام ہے۔ ہم انگلش گائیڈ کے ساتھ گئے تھے جو ایک لڑکی تھی اس نے اقوام متحدہ کی مختصر سی تاریخ بیان کی اور اس کے کام پر تبصرہ کیا۔

اقوام متحدہ کا منشور دوسری جنگ عالمگیر کے اختتامی حد میں سان فرانسسکو میں مرتب کیا گیا۔ اس کے ابتدائیہ میں یہ الفاظ کے لئے قابل عبور ہیں۔ ’’ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھیں ‘‘۔

اقوام متحدہ کوئی بالا دست عالمی حکومت نہیں ہے۔ اس کی رکن مملکتوں اپنے معاملات میں خود مختار اور آزاد ہیں۔ منشور یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ وہ صرف رکن ممالک سے خواہش کرتا ہے کہ وہ اپنے آپسی معاملات کو پر امن طریقوں سے حل کر لیں۔ البتہ صیانتی کونسل سے کوئی بات منظور ہو تو اس کو بزور منوایا جا سکتا ہے۔ مگر اس میں پانچ مستقل اراکین کو حق تنسیخ دیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اس کونسل کی تجویز کو اپنے انفرادی انکار سے منسوخ کر سکتا ہے۔ ویسے کونسل کے پندرہ ارکان سے نو کی رائے کسی اقدام کے لئے کافی ہے۔ جنرل اسمبلی ، منشور اقوام متحدہ کے تحت کسی عنوان پر بحث کر سکتی ہے۔ اہم معاملات میں دو تہائی اکثریت اور ویسے معمولی اکثریت کسی فیصلہ کے لئے کافی ہے۔ لیکن اس اسمبلی کو اپنے فیصلہ کو رو بہ عمل لانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن یہاں کے فیصلوں کا عالمی سطح پر بہت بڑا اخلاقی اثر ہوتا ہے۔

گائیڈ نے ہم کو صیانتی کونسل۔ ٹرسٹی شپ کونسل۔ اکنامک اور سوشل کونسل اور جنرل اسمبلی دکھائی اور ہر ہال میں اپنے گروپ کے افراد کو ایک طرف بٹھا کر اس کے کام کے اور ذمہ داریوں کو مختصر الفاظ میں بیان کیا۔ بعد میں مختلف ممالک سے جو تحائف دئے گئے ہیں ان کو دکھایا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک گھمانے کے بعد اس نے لابی میں لا کر چھوڑ دیا۔ یہاں اقوام متحدہ کی کتب کی دوکان اس کا پوسٹ آفس اور تحائف کا سنٹر اور ڈائننگ روم ہے۔ یہاں ہم نے چار کارڈ خریدے اور اقوام متحدہ کا اسٹامپ لگا کر وہیں کے پوسٹ باکس میں ڈالا۔ اقوام متحدہ کے اسٹامپ لگا کر کارڈ وغیرہ اس عمارت سے باہر جا کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے میل باکس میں بوسٹ نہیں کر سکتے۔ یہاں کے اسٹامپ صرف اسی عمارت میں پوسٹ کرنے کے لئے کارآمد ہیں۔

ہم نے تھوڑا سا ریفریشمنٹ لے کر جنرل اسمبلی کا اجلاس دیکھنے کا پاس حاصل کیا۔ اور تھوڑی دیر تک وہاں ہونے والی تقاریر سنتے رہے۔ اس وقت افریقہ کے ممالک کے نمائندے یکے بعد دیگرے نو مورد کی آزادی کے تعلق سے تقریر کر رہے تھے۔ اکثر تقاریر عربی میں ہو رہی تھیں۔ اس کا ترجمہ بھی غالباً پانچ زبانوں میں ساتھ ساتھ ہو رہا تھا۔ ہم نے کچھ دیر کے لئے راست عربی میں اور کچھ دیر کے لئے انگریزی ترجمہ سنا۔ لیبیا کے نمائندہ نے انگریزی میں تقریر کی۔ کان پر آلہ لگا کر راست تقریر یا اس کا ترجمہ آسانی سے سن سکتے ہیں۔ نشست کے ایک بازو میں ایک گول بٹن لگا ہے۔ اس کو گھمائے تو مختلف زبانوں کا ترجمہ سنائی دے گا۔ جس ترجمہ کو سننا چاہیں اسی مقام پر اس بٹن کو ٹھیرا رکھیں۔

آج یہاں تقریباً دن بھر بارش ہوتی رہی۔ ہمارے میزبان نے ہم کو ایک چھتری دے دی تھی ویسے ہم دونوں کے پاس او ور کوٹ بھی تھا۔

اقوام متحدہ کی عمارت سے نکل کر ہمth Avenue 5 تک پیدل ہی گئے۔ یہ اوینیو بڑا شاپنگ سنٹر ہے۔ یہاں بڑی بڑی دکانیں ہیں۔ اور ان کو اچھی طرح سجایا گیا ہے۔ لیکن ہم نے پیرس اور زیورک کی سجاوٹ کو نیویارک کے مقابلہ میں بڑھیا پایا۔ یہاں کی صفائی بھی کوئی خاص نہیں۔ لوگ کاغذ کے تکڑے اور سگریٹ کے پیندے آسانی سے سڑک یا فٹ پاتھ پر پھینک دیتے ہیں۔ کچرا ڈالنے کے جو اسٹانڈ ہیں وہ بعض جگہ حد سے زیادہ بھرے ہوئے تھے۔ مکان کا کچرا پلاسٹک کے تھیلوں میں بند پڑا تھا۔ لیکن بعض جگہ تھیلے پھٹے پڑے تھے یہ بات زیورک میں نہیں دیکھی گئی۔ لیکن زیورک اور نیویارک کی آبادیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں ہزاروں آدمی مقامی اور باہر کے وقت واحد میں سڑکوں پر چلتے ہیں۔ اگر ان میں ایک یا دو فیصد بھی کچھ ڈال دیں تو فٹ پاتھ پر کافی کچرہ جمع ہو جاتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں کلکتہ کا حال ہے۔ لیکن کلکتہ کا اژدھام غیر معمولی اور وہاں کی غلاظت حد سے زیادہ ہے۔ لیکن نیویارک میں اتنے لوگ پیدل چلتے ہیں اور نہ یہاں اتنی غلاظت ہے۔

ساڑھے پانچ بجے تک ہم گھوم پھر کر پھر یونائیٹیڈ نیشنس کی بلڈنگ کے سامنے آ گئے۔ ہمارے میزبان کی اہلیہ ہم کو یہاں سے اپنی موٹر میں گھر لے جانے والی تھیں۔ پانی اس وقت کافی پڑ رہا تھا۔ بسیں بھری بھری آ رہی تھیں۔ لوگ ٹیکسی لینا چاہ رہے تھے وہ بھی اکثر بھری بھری آ رہی تھیں۔ ایک دو مل بھی جا رہی تھیں ہم دونوں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے والی سڑک والے بس اسٹانڈ کے پاس کھڑے تھے۔ ہماری میزبان سامنے والی سڑک سے نکل کر آگے چلی گئیں۔ بارش اتنی ہو رہی تھی کہ وہ ہم کو موٹر روک کر تلاش نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ راستہ بھی ایک رخی تھا۔ وہ دوبارہ لمبا چکر لگا کر آئیں اور ہم ساتھ ہو گئے۔ اس وقت ٹرافک بڑھی ہوئی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹہ ہم کو گھر پہونچنے میں لگا۔ صبح میں ہمارے میزبان کی لیڈی سکریٹری ہم کو یونائیٹیڈ نیشنس کی بلڈنگ کے پاس لا کر چھوڑ گئی تھیں۔ آتے وقت وہ ہم کو واشنگٹن برج کے بالائی حصہ پر سے لائی تھیں۔ اس وقت اس کی وسعت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ یہ دو منزلہ لانبا پل The Hadson دریا پر بنا ہے۔ یہ اس ملک کا تیسرا لانبا پل ہے۔ اس کی دونوں منزلوں پر ٹرافک رہتی ہے۔ کل ہماری روانگی اور آج شام میں واپسی بھی پل کی نچلی منزل سے ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اوپر کی منزل پر نیچے کے مقابلہ میں زیادہ ٹرافک ہوتی ہے۔

جمعرات ۲۱/ اکتوبر ۱۹۷۶ء

اگلوڈ۔ نیوجرسی آج ہمارے عزیز جناب صدر الدین کی اہلیہ ڈاکٹر عظمت قریشی جو Albert Hospital کی Obstetrics and gynaecology کی بڑی ڈاکٹر وسرجن ہیں۔ اپنے ہاسپٹل کے قریب ایک زیر زمین ریلوے اسٹیشن کے پاس چھوڑ گئیں۔ پانچویں اوینو کو جانے کے لئے کونسی ٹرین سے جانا چاہئے واپسی کس طرح ہونی چاہئے۔ وہ سب انھوں نے سمجھا دیا تھا۔ آج کا پروگرام The Empire State Building کا دیکھنا اور بڑے بڑے بازار گھومنے کا تھا۔ یہ بلڈنگ نیو یارک کے ففتھ اوینو کے ۳۴ ویں اسٹریٹ پر واقع ہے۔ ٹی۔ وی کے مینار تک اس کی اونچائی ۴۷۲،  ۱ فیٹ ہے۔ ایک سو دو منزل جہاں تک ناظر لفٹ سے اوپر جاتا ہے۔ اس کی اونچائی ۲۵۰،  ۱ فیٹ ہے یہیں سے ٹی وی کا  مینار شروع ہوتا ہے۔ اسی ٹی وی مینار سے جو پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں اس سے تقریباً ۸۰ لاکھ ٹی وی سٹس والے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس عمارت میں ۷۳ Elevators چلتے رہتے ہیں۔ ان کی رفتار چھ سو سے لے کر بارہ سو فیٹ فی منٹ تک ہوتی ہے۔ ان کے لئے جو شافٹ لگا ہے اس کو پھیلایا جائے تو وہ سات میل لانبا ہو گا۔ اگر کوئی سڑک کی سطح سے ایک سو دو منزل کی اونچائی تک چڑھنا چاہے تو اس کو ایک ہزار آٹھ سو ساٹھ سیڑھیوں کو طے کرنا پڑے گا۔ تقریباً پندرہ لاکھ آدمی سالانہ اس بلڈنگ کی رصد گا ہوں سے شہر نیویارک اور آس پاس کے مقامات کے مناظر کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اس پوری عمارت کا حجم ۳ کرور ستر لاکھ مکعب فیٹ ہے۔ ۱۷۹۹ء میں اس مقام پر جہاں یہ بلڈنگ بنائی گئی ہے۔ John Thomson کا فارم تھا۔ سطح زمین سے نیچے تہہ خانے کی دو منزلیں ہیں اس کے نیچے اس عمارت کی بنیاد زیر زمین ۵۵ فیٹ سے شروع ہوتی ہے تہہ خانے میں بڑے بڑے دیو ہیکل ایرکنڈیشنرس لگے ہیں۔ یہ اس عمارت کی پوری ہوا کو گھنٹے میں چھ مرتبہ بدلتے ہیں اس بلڈنگ کا ڈیزائن Sherye, Lain B and Associates N.Y. نے دیا ہے یہ ۱۹۳۱ میں مکمل ہوئی۔ اس کی چھ ہزار پانچ سو کھڑکیاں ہیں جن کو مہینے میں دو مرتبہ دھویا جاتا ہے۔

پہلے چھیاسویں (۸۶) منزل سے ہم نے شہر نیویارک آس پاس کے مناظر دیکھنے اور اس کے بعد ایک سو دو منزل پر گئے اور وہاں سے بھی ان ہی مناظر کا معائنہ کیا۔ شہر نیویارک کی عظمت اور اس کی فلک بوس عمارتوں اور لانبی لانبی سڑکوں اور گلیوں کا پتہ اس عمارت کی اونچائی پر چڑھنے سے ہوتا ہے۔ یہاں داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہے جو صبح نو بجے سے لے کر آدھی رات تک کھلا رہتا ہے۔ ہم چونکہ نیویارک سے ذرا دور ٹھیرے تھے رات میں اس عمارت پر چڑھ کر نیویارک کا منظر نہیں دیکھ سکے۔ اس نیویارک شہر میں Manhothan علاقہ میں سولہ ایکر پلاٹ میں دو مینار ہیں جو ہوا میں ۱۳۵۰ فیٹ اونچے چلے گئے ہیں۔ یہ بالکل ایک ہی جیسے دو مینار دنیا کی سب سے اونچی عمارت مشہور ہیں۔ یہ دو مینار نئے عالمی تجارتی مرکز کا جزو ہیں۔

یہ تجارتی مرکز ایک دیو ہیکل سوپر مارکٹ ہے۔ یہاں بہت بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس مرکز سے دنیا کے کسی کونے کی پیداوار یا صنعت کا سودا ہو سکتا ہے۔ اس تجارتی مرکز کے علاوہ ان عمارتوں میں سیکڑوں دفاتر ، دوکانیں ، رسٹورنٹ اور سنیما تھیٹرس ہیں اور چھ سو کمرے والی ایک ہوٹل بھی ہے اس مرکز کی نوعیت شہر میں شہر کی ہے۔

وقت کی تنگی کی وجہ سے ہم ان میناروں پر صرف دور سے نظر ڈال سکے اندر جا کر ان کو نہیں دیکھ سکے۔

۲۳/ اکتوبر ۱۹۷۶ء۔ آج ہمارے عزیز کے مشورہ پر ہم ریڈیو ہال گئے۔ ہمارے عزیز اپنی موٹر میں قریب تک چھوڑ گئے۔ یہ بہت کشادہ ہال ہے۔ اس میں بہت بڑی تعداد میں دیکھنے والے سما سکتے ہیں۔ اس کا اسٹیج بھی کافی وسیع اور مختلف پردوں سے منقسم ہے۔ اگر کسی حصہ اسٹیج پر کوئی پروگرام ہو رہا ہو تو اس کے پچھلے حصوں میں آنے والے پروگرام پہلے ہی سٹ کر کے رکھے جا سکتے ہیں تا کہ تسلسل بغیر کسی زیادہ وقت لئے کے باقی رہے۔ پکچر اور ناچ گانے دونوں ہی خوب تھے۔

جب ہم ریڈیو ہال سے نکل کر پاس والی لائف او ور ٹائم کی عمارت کے احاطہ سے گزر رہے تھے تو ہم نے دکھا کہ ایک کالی لڑکی ہاتھ میں پمفلٹ لئے ہوئے ہمارے سامنے سے گزری اور کسی شخص کو روک کر ایک پمفلٹ دیا۔ چند قدم بڑھنے پر دیکھا کہ دوسری کالی لڑکی اسی قسم کا پمفلٹ تقسیم کر رہی ہے۔ ہماری خواہش پر اس لڑکی نے ہم کو بھی ایک پمفلٹ دے دیا۔ دیکھنے سے پتہ چلا کہ پہلی لڑکی نے یہ ہم کو کیوں نہیں دیا تھا۔ اس میں ہر قسم کے گناہ کی دعوت خاص انداز میں دی گئی تھی۔ مختلف مرد و عورت کی عریاں قربت اس میں کافی عیاں دکھائی گئی تھی۔ مختلف روشنائیوں میں طباعت۔ تصویریں اور کاغذ سب ہی بڑھیا تھے۔ بیوی کی معیت اور ہماری عمر کا لحاظ کر کے غالباً پہلی لڑکی نے ہم کو پمفلٹ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسری لڑکی ہمارے مانگنے پر انکار نہ کر سکی۔ اس میں ہر چیز کی صراحت تھی مختلف ممالک کی لڑکیاں عمریں ۱۸، ۲۰ کے لگ بھگ کچھ پینا پلانا بھی۔ یہ سب لطف پمفلٹ کے الفاظ میں صرف ۲۰ ڈالر میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ پمفلٹ ہم اپنے ساتھ لانا چاہتے تھے لیکن اس خیال سے کہ کہیں یہ بچوں کے ہاتھ نہ پڑ جائے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔

اس کے بعد ہم Statue of Liberty دیکھنے کے لئے نکلے۔ پہلے کچھ بھٹکے ، پھر زیر زمین ریل سے South Ferry ریلوے اسٹیشن گئے۔ وہاں ہم نے سمندر (بحر اوقیانوس) میں آزادی کے مجسمہ کو کنارے ہی سے دیکھا سیاح موٹر بوٹ سے جا کر لبرٹی جزیرہ میں آزادی کے مجسمہ کو دیکھنے کے لئے ٹکٹ خرید رہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جانے آنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگے گا۔ ویسے اس وقت ساحل پر بھی بہت سرد ہوا چل رہی تھی۔ گو جس موٹر بوٹ سے سیاح جاتے ہیں گرم رکھی جاتی ہے۔ لکن ٹاپو پر مجسمہ کو کھلی ہوا ہی میں دیکھنا پڑتا تھا۔ ایک تو وقت کی تنگی اور دوسرے سرد ہواؤں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی اس لئے اس آزادی کے مجسمہ کو کنارہ سمندر ہی سے دیکھنے پر اکتفا کیا۔

یہ مجسمہ بندرگاہ نیویارک کے باب داخلہ پر ہے۔ اس کا ڈیزائن M.Auguste Barthold نے بنایا اور اس کو فرانسیسی قوم نے امریکہ کی جمہوریہ کو پیش کیا۔ اس کے بنانے میں دس سال لگے اور اس کی نقاب کشائی ۱۸۸۶ء میں ہوئی۔

اس ساوتھ فیری اسٹیشن کے قریب ایک کینٹین میں آلوچس وغیرہ کھائے اور دوسری میں چائے پی۔ یہاں ٹماٹو ساس کے چھوٹے چھوٹے ٹیوب (جس طرح ٹوتھ پیسٹ کے ٹیوب) ہوتے ہیں۔ مطلب صفائی اور حفظان صحت ہے۔

زیر زمین ریل سے البرٹ ہاسپٹل جانے کے لئے نکل گئے۔ لیکن غلط ٹرین میں بیٹھ کر کسی اور طرف چلے گئے بعد میں صحیح ٹرینوں کا حوالہ لے کر صحیح اسٹیشن کے لئے نکلے۔ اس غلط ہیر پھیر سے گو ہمارا وقت بہت ضائع ہوا لیکن ہم کو زیادہ پیسے دینے نہیں پڑے اگر ایک مرتبہ ٹکٹ لیکر زیر زمین ٹرین میں بیٹھ جائیں اور کسی اسٹیشن پر باہر نہ نکلیں تو دن بھر کتنی ہی ٹرینوں میں جتنے چاہیں چکر لگا سکتے ہیں۔ البتہ ایک مرتبہ کسی اسٹیشن پر باہر نکل جائیں تو پھر داخلہ کے لئے ٹکٹ لینا پڑے گا۔

جب ہم مقام مقصود پر پہونچے تو ہماری عزیزہ اپنے کلینک کے روم کو بند کر کے چلی گئی تھیں۔ اسی بلڈنگ میں رہائشی کمروں میں ہمارے حیدرآبادی دوست ڈاکٹر مرزا حامد علی بیگ کی ایک لڑکی ڈاکٹر شا کرہ رہتی ہیں۔ کل ان کے کمرے میں گئے تھے آج اس کا نمبر یاد نہیں رہا۔ چوکیدار سے پوچھا تو وہ بتانے سے قاصر تھا۔ وہ انگریزی نہ بول سکتا تھا اور نہ سمجھ رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ باہر سے آیا ہوا پناہ گزین ہے۔ ہماری عزیزہ کو کہیں اور جانا تھا۔ وہ ہمارا انتظار کر کے وہاں گئیں اور وہیں سے گھر ٹیلی فون کیا کہ ہم وہاں تو نہیں پہونچ گئے ہیں۔ ان کے صاحب نے کہا کہ ہم نہیں آئے ہیں اور یہ کہ وہ ہم کو مقام مقررہ سے لیکر ہی نکلیں خواہ اس میں کتنی ہی دیر کیوں نہ ہو۔ بہرحال وہ آئیں اور ہماری ان سے ملاقات ہو گئی اور ہماری تھوڑی بہت پریشانی بھی دور ہو گئی۔

Capital Hotel Neyork Avenue

Near Grej hound Bus Terminal Washington D.C.

شنبہ ۲۳/ اکتوبر ۱۹۷۶ء آج ہم دو بجے دوپہر کے بعد انگلوڈ نیوجرسی سے اپنے عزیز کی موٹر میں گرے ہاؤنڈس بس ٹرمینل کے لئے نکلے۔ گو ہم اس ٹرمینل کے باسٹن سے آتے وقت اترے تھے ہم اس کا پتہ پوچھنا بھول گئے تھے۔ ہمارے عزیز نے بھی دو تین مرتبہ بسوں کے اوقات کے لئے ٹیلی فون کیا تھا۔ لیکن اس کا محل وقوع دریافت نہیں کیا تھا۔ ہمارے عزیز کی اہلیہ ڈاکٹر عظمت قریشی ان کے دو بچے ہمارے ساتھ ہو گئے تھے۔ ہماری خواہش پر ان کی موٹر جارج واشنگٹن پل کے بالائی حصہ پر سے گزری۔ ہر موٹر کار کو نیویارک شہر میں داخل ہوتے وقت ڈیڑھ ڈالر ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ بس اور ٹرکس سے زیادہ لیا جاتا ہے۔ باوجود شنبہ ہونے کے گرے ہاؤنڈ ٹرمینل پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ پہلے ہم گرے ہاؤنڈ کے گراج پر پہونچ گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ ان کا ٹرمینل آٹھ اور نو اے وینو کے درمیان ۴۲ ویں گلی میں واقع ہے۔

عزیزہ اور ان کے بچوں کو خدا حافظ کہہ کر ہم یہ دریافت کرنے گئے کہ واشنگٹن کے لئے بس کس پلیٹ فارم سے نکلتی ہے۔ معلوم ہوا کہ پلیٹ فارم نمبر ۳۲ سے ہر گھنٹہ پر ایک راست (نان اسٹاپ) بس واشنگٹن کے لئے جاتی ہے۔

اس گھومنے پھرنے میں ہم نے دیکھا کہ اس بہت بڑے اور کئی منزلہ ٹرمینل میں ایک طرف چند لڑکیاں  فیملی پلاننگ کے خلاف کچھ پوسٹر لئے کھڑی ہیں۔ وہ کچھ پرچیاں بھی اسی تعلق سے تقسیم کر رہی تھیں۔ ہم نے ایک لڑکی سے اس خصوص میں بات کی اور بتایا کہ ہندوستان میں آبادی کس تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اور یہ کہ اگر فیملی پلاننگ نہ ہو تو ہم جیسے غیر ملکوں کے مصائب میں نہ صرف اضافہ ہو گا بلکہ دنیا کے لئے بھی ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ لڑکی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس کا بیان تھا جب خدا نے پیدا کیا ہے تو روزگار بھی فراہم کرے گا۔ ہندوستان کے تعلق سے اس نے کہا کہ ہمارے گوداموں میں غلہ بھرا پڑا ہے لیکن مسز اندرا گاندھی (اس وقت کی وزیر اعظم) عمداً تقسیم نہیں کر رہی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ اس کی ساری بحث مذہبی جنون کے تحت ہو رہی ہے۔ وہ بحث کو طول دینا چاہتی تھی لیکن ہم کو واشنگٹن کے لئے بس لینی تھی۔ اس سے کسی طرح پیچھا چھڑا کر نکلے۔

واشنگٹن پہنچتے پہنچتے اس بس کو کئی جگہ ٹول ٹیکس دینا پڑا۔ نیویارک شہر سے یہاں تک کی مسافت ساڑھے چار گھنٹے کی ہے۔ یہاں کی سڑکیں بہت صاف اور سیدھی ہیں۔ ادھر ادھر سے سواریوں کے گزر نے کے لئے اوپری پل بنا دئے گئے ہیں۔ تا کہ شاہ راہ کی سواریوں کی رفتار میں رکاوٹ نہ ہو۔ راستے میں ایک بڑا شہر۔ Baltimore ملا۔ لیکن یہاں شاہ راہ کی ٹرافک کو آسانی سے گزر جانے کے لئے قلب شہر کے نیچے ایک لانبی اور وسیع سرنگ بنا دی گئی ہے اس سرنگ کو دو حصوں میں پختہ درمیانی دیوار بنا کر منقسم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح آنے اور جانے والی ٹرافک بالکل جدا ہو گئی ہے۔ اس سرنگ کو ٹیوب لائٹ سے کافی روشن رکھا گیا ہے۔ کہیں کہیں پولیس والے بھی اس سرنگ میں دکھائی دئے درمیانی دیوار ہی میں ایک چھوٹی سی کٹگر ان کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کے لئے بنا دی گئی ہے۔ یہ سرنگ ایک حصہ شاہ راہ کو دوسرے حصہ سے ملاتی ہے۔  واشنگٹن پہونچتے پہونچتے رات کے ساڑھے آٹھ بج گئے۔ شہر بڑا ہے لیکن نیویارک سے کوئی مقابلہ نہیں۔ بس ٹرمینل پر ہم نے پہلے معلوم کرنا چاہا کہ گرے ہاؤنڈ کا یہاں کوئی Slumber Stop ہوٹل ہے۔ Ameri Pass پر سفر کرنے والوں کو ان ہوٹلوں میں کچھ رعایت دی جاتی ہے۔ لیکن یہ ذرا مہنگی ہی ہوتی ہیں۔ لیکن ہم کو بس ٹرمینل سے بالکل قریب ہی۔ کیاپیٹل ہوٹل مل گئی دو بستر والے کمرے کا کرایہ روزانہ ۱۵!ڈالر ۱۲ سنٹ ہے۔ ہم نے جب پوچھا کہ ہم کرایہ سفری چک کے ذریعہ دے سکتے ہیں تو منیجر نے کہا کہ اس کو رقم نقد چاہئے۔ ہم کو بس ٹرمینل واپس جا کر اور منیجر ٹرمینل کی اجازت لے کر کچھ سفری چک بھنانے پڑے۔ اس طرح منیجر ہوٹل کو ایک دن کا پیشگی کرایہ دے کر کمرہ حاصل کرنا پڑا۔

واشنگٹن ڈی۔ سی کوئی ایسا شہر نہیں ہے جو بڑھتے بڑھتے دارالخلافہ مملکت بنا ہو۔ یہاں ایک عمارت بھی نہیں تھی جب اس کو دارالخلافہ مملکت بنانا طے پایا جارج واشنگٹن پہلے صدر مملکت نے اس مقام کو ۱۷۹۱ء میں اس غرض سے منتخب کیا اور Major Pierre Charles l E nfant کی خدمات اس کا پلان بنانے کے لئے حاصل کیں۔ یہ بہت خوبصورت اور نمایاں شہر ہے۔ اس کی آبادی ۲۸ لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ کسی ایک اسٹیٹ کا شہر نہیں ہے۔ یہ خود اپنا آپ اسٹیٹ یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ہے۔ یہ کانگریس کے راست زیر انتظام ہے۔ امریکن کانگریس اس شہر یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے لئے قانون بناتی ہے۔

اس شہر یا ڈسٹرکٹ میں کوئی بڑی صنعت نہیں ہے۔ صرف طباعت اور اشاعت کی صنعت کا وجود ہے۔ یہاں کئی کھلے علاقے چمن اور رہائشی مکانات کے لئے چھوڑے گئے ہیں۔ یہ شہر بعض وقت فیڈیرل یا صاف سٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی ۷۱ فیصد آبادی کالوں پر مشتمل ہے۔

رات کو بازار ہی میں ایک رسٹورنٹ میں کھا پی کر آ گئے۔ اس رسٹورنٹ میں کام کرنے والے سب ہی کالے دکھائی دئے۔

اتوار۔ ۲۴/ اکتوبر ۱۹۷۶ء

واشنگٹن۔ ڈی۔ سی آج صبح بارش ہو رہی تھی اس وجہ سے سردی میں ذرا اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن یہاں نیویارک کے مقابلہ میں سردی کم ہے ہم راستہ پوچھتے ہوئے وائٹ ہاؤس (جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ ہے ) کی طرف پیدل ہی نکل گئے۔ راستہ میں میکڈونالڈس کی رسٹورنٹ نظر آئی۔ سارے امریکہ میں یہ مشہور ادارۂ رسٹورنٹس ہے۔ ہر جگہ بورڈ پر ان کا M پیلا لکھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ ادارہ والے اپنے پاس کی اشیاء کا معیار ایک ہی قسم کا رکھتے ہیں۔ قیمتیں واجبی اور چیزیں اچھی ہوتی ہیں۔ البتہ مقام کے بڑے یا چھوٹے ہونے پر کچھ قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔ واشنگٹن کی قیمتیں نیویارک کے مقابلہ میں کم دکھیں۔ ان کے رسٹورنٹ میں عام طور پر پائخانہ اور واش بیسن بھی ضرور ہوتا ہے۔ گاہک چاہیں تو وہاں ضرورت سے فارغ ہو سکتے ہیں۔ نیویارک میں ایک مرتبہ ہم کو پبلک پائخانہ دریافت کرنے میں دقت ہوئی تھی۔ وائیٹ ہاؤس سے پہلے ٹریژری بلڈنگ ملی۔ وائٹ ہاؤس ۱۶۰۰ پینسلوانیا اوینیو پر واقع ہے۔ آج عوام کے لئے داخلہ بند تھا اس لئے اس کو باہر سے دیکھا۔ ۱۸۰۰ء سے امریکہ کے صدر کی رہائش اور ان کی آفس کے لئے یہ مکان استعمال ہوتا رہا ہے۔ جارج واشنگٹن نے اس مکان کے لئے یہ جگہ چنی تھی۔ اس کا ابتدائی ’’پلان‘‘ ایک آئرش آرکیٹکٹ James Hoben نے بنایا تھا۔ ۱۸۱۴ء میں انگریزوں نے اس کو جلا دیا تھا۔ اس کو دوبارہ بنایا گیا اس کی آہک پاشی سفیدے سے کی گئی تب سے یہ وائٹ ہاؤس کے نام سے مشہور ہے۔

وہاں سے نکل ہر واشنگٹن یونیورسٹی کی طرف سے ہوتے ہوئے واٹر گیٹ بلڈنگ کی طرف جانے لگے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کئی عمارتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ کچھ پرانی اور کچھ نئی ہیں۔

ہم اپنے قد و قامت کے لحاظ سے تیز گام ہیں۔ ہم آہستہ بھی چلتے ہیں تو بیوی سے کچھ نہ کچھ قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ اسی طرح ہمارے آگے رہنے کی وجہ سے سینٹ پیٹرس اسکوائیر ویٹکن سٹی روم میں ہم دونوں ایک دوسرے سے کچھ دیر کے لئے بچھڑ گئے تھے۔ اس طرح جب میں ذرا آگے اور بیوی پیچھے واشنگٹن یونیورسٹی دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے ایک امریکن سے واٹر گیٹ بلڈنگ کا راستہ پوچھا تو اس نے کہا میں کلکتہ سے آیا ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ میں کلکتہ سے نہیں آیا ہوں۔ لیکن میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں۔ اس نے کہا کلکتہ سے اس کی مراد ہندوستان ہی تھی۔ پھر اس نے پوچھا کہ واٹر گیٹ بلڈنگ کیوں جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ وہاں ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے صدر کو مستعفی ہونا پڑا۔ یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ بیوی پیچھے سے آئیں اور میرے بازو کھڑی ہو گئیں۔ اس امریکن (گورے ) نے ان پر نظر ڈالی اور مجھ سے پوچھا کہ وہ میری بیوی ہیں میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے پوچھا کہ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر کیوں آگے نکل گیا تھا۔ میں نے جواب دیا وہ اپنے شوہر کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چلتی ہیں۔ اس لئے ان کو بعض وقت پیچھے چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ اس نے مجھے تنبیہی انداز میں کہا کہ ایک وفادار شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ قدم ملا کر چلے اور اس کو تنہا نہ چھوڑ دے اور پھر ہنستے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں کیں اور واٹر گیٹ بلڈنگ کا پتہ بتا کر ہم سے رخصت ہوا۔

واٹر گیٹ بلڈنگ کافی بڑی ہے ڈیموکریٹس کی آفس کدھر تھی وہاں جا کر دیکھنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ وہاں سے قریب The John. Kennedy Center ہے۔

ہم اس بلڈنگ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ یہ بہت ہی شاندار اور رعب دار عمارت ہے۔ اس کے لئے کئی ممالک نے مختلف تحفے دئے ہیں۔ اس میں بہت ہی قیمتی اور کمیاب سنگ مر مر کافی زیادہ تعداد میں استعمال کیا گیا ہے۔ ہم نے صرف تین ہال دیکھے اس میں Concert Hall سب سے بڑا ہے۔ بہترین لال قالین سے اس کا سارا فرش ڈھاکا گیا ہے کرسیاں بھی لال اور مخملی کوشن کی ہیں۔ آواز کے تعلق سے اس ہال کی تعمیر میں یہ خوبی رکھی گئی ہے کہ آواز کسی کونے سے بھی نکلے۔ وہ اس ہال میں ہر طرف یکساں سنائی دے گی۔ چنانچہ گائیڈ کی آواز اس کے قریب اور دور ہر طرف برابر سنائی دے رہی تھی۔ حالانکہ وہ اس وقت مائیک کا استعمال نہیں کر رہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ واشنگٹن ڈی۔ سی کو بھی جو سیاح آئیں وہ اس سنٹر کو ضرورت دیکھیں۔ ہم اس کے اوپر چھت پر گئے اور شہر واشنگٹن پر نظر ڈالی وہیں سے ہم نے Lincoln Memorial اور Thomas Jefferson میموریل کو دیکھا۔ اس وقت کچھ بوندا باندی جاری تھی۔ وہاں سے ہم واشنگٹن میموریل کی طرف پیدل ہی گئے۔

یہ Constitution Avenue at 15th St. N.W.1 پر واقع ہے۔

واشنگٹن کے لئے کوئی موزوں یادگار قائم کرنے کے لئے ایک کمیٹی ۱۸۳۳ء میں ترتیب دی گئی۔ اس یادگار کا سنگ بنیاد ۱۸۴۸ء میں رکھا گیا۔ کئی دقتوں اور بڑی تاخیر کے بعد یہ یادگار ۱۸۸۴ء میں پایہ تکمیل کو پہونچی۔ اور شنبہ ۲۱! فبروری ۱۸۸۵ء کو اس کا افتتاح عمل میں آیا۔ اور ۱۸۸۸ء میں یہ یادگار پبلک کے لئے کھول دی گئی۔ سیاح ۱۵۲ میٹر یا ۵۰۰ فیٹ ہی سے ہو سکتی ہے۔ یا پھر وہ ۸۹۸ سیڑھیوں پر سے ہوتے ہوئے اور ایک سو نود یادگار پتھروں کا معائنہ کرتے ہوئے نیچے اترسکتا ہے۔

ہم بھی اوپر جا کر شہر واشنگٹن کا نظارہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن لفٹ سے چڑھنے والوں کی قطار کافی لمبی لگی ہوئی تھی۔ ہمارے لئے وقت بہت تنگ تھا ویسے کنیڈی میموریل سنٹر ے کے اوپر چڑھ کر شہر کا کچھ نہ کچھ نظارہ کر چکے تھے۔ اس لئے اور اوپر نہیں گئے۔

ہم پیدل ہی چلتے ہوئے پہلے (ہسٹری اینڈ ٹیکنالوجی) کی میوزیم اور اس کے بعد نیچرل ہسٹری کی میوزیم دیکھی۔ ما بعد الذکر میوزیم میں ایک حصہ Nation of Nations کا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ یورپ کے مختلف قوموں کے لوگ امریکہ میں کہاں کہاں سے آ کر بسے اور پھر ان کی آبا دیاں کہاں کہاں بڑھتی گئیں ، اور پھر ان کی ترقی کس طرح ہوئی۔ بتانا یہ ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جو موجودہ قوم ہے وہ کئی قوموں پر مشتمل ہے۔

تاریخ اور ٹکنالوجی کی میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں گیٹ میں داخل ہونے سے پہلے Smithson کی ایک کندہ کی ہوئی تحریر پر نظر پڑتی ہے اس میں اس نے لکھا ہے کہ ایک آدمی کا علم دوسرے کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے۔ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ انسان کے علم میں اضافہ کے لئے جو کچھ کیا جائے وہ بہتر ہے اس لئے اس نے اپنی پوری جائیداد اس مقصد کے لئے وقف کر دی ہے۔ اسی وجہ سے یہ دونوں میوزیم اس کے نام سے معنون کی گئی ہیں۔

گو ہم نیشنل گیالری کے سامنے سے گزرے لیکن اس کے اندر نہیں گئے۔ چلتے چلتے ہم United States Capitol بھی گئے۔

کیپٹل بلڈنگ فیڈرل گورنمنٹ وفاقی حکومت کی نشانی ہے۔ اس کی تعمیر Potomac دریا کے کنارے ۱۷۹۳ء میں شروع ہوئی۔

۲۲/ نومبر ۱۸۰۰ء کو صدر جان آڈمس نے پہلی مرتبہ اس بلڈنگ کے سینٹ چیمبر میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس کو مخاطب کیا۔ لیکن یہ شاندار بلڈنگ ۱۸۶۷ء میں پایہ تکمیل کو پہونچی۔ اس عمارت میں امریکی تاریخ کی کئی بڑی ہستیاں گزری ہیں۔ اسی طرح پبلک کے منتخبہ نمائندوں نے اس میں اپنا قیمتی وقت گزارا ہے۔

شام ہو رہی تھی اور ہم کو اسی دن یہاں سے نکلنا تھا اس لئے کچھ پیدل جا کر بس پکڑنی پڑی۔ ایک بس سے کچھ دور جا کر دوسری بس لینی پڑی۔ لیکن پہلی بس ہم نے ٹرانسفر ٹکٹ سے لے لیا تھا۔

ہم دن بھر امریکہ کے دارالخلافہ میں پیدل ہی گھومتے رہے۔ واشنگٹن کشادہ اور خوبصورت شہر ہے وائٹ ہاؤس سے قریب کئی سرکاری عمارتیں ہیں۔ چوڑی، چوڑی سڑکیں اور کئی کھلے سبزہ زار ہر طرف موجود ہیں۔ عمارتیں پکی ہیں عام طور پر چار پانچ منزلہ سے زیادہ نہیں۔ یہاں مجسمے بھی کافی دکھائی دئے۔ جیسا  کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ یہاں نیویارک کے مقابلہ میں سردی کم ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں کا موسم امریکہ کے کئی بڑے شہروں کے مقابلہ میں معتدل ہے۔ اس لئے اس کو دارالخلافہ مملکت بنایا گیا ہے۔

واپس ہو کر ہم نے اپنا سامان ہوٹل سے لے لیا۔ صبح میں نکلتے وقت ہی ہم نے اپنا کمرہ خالی کر دیا تھا۔ اور سامان منیجر کے کمرہ میں رکھوا دیا تھا۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو ہم کو دو دن کا کرایہ دینا پڑتا۔ گرے ہاؤنڈس بس ٹرمینل سے میامی اکسپریس (میامی جانے والی اکسپرس بس) ٹھیک سات بجے شام واشنگٹن سے نکلی۔ نو بج کر تیس منٹ پر یہ رچمنڈ پر رکی۔ چالیس منٹ کا اسٹاپ (وقفہ) دیا گیا۔ یہاں ہم نے رات کا کھانا کھایا۔ ایک مرغی کا ٹکڑا چار روٹی (بریڈ) کے ٹکڑے۔ کیک کا ایک ٹکڑا۔ دودھ کی دو چھوٹی گلاسیں ان کی قیمت کل دو ڈالر پچاس سنٹ ہوئی یعنی ہندوستانی ۲۴، ۲۵ روپئے۔ یہاں کے لوگ دو تین ڈالر اسی طرح خرچ کرتے ہیں جس طرح ہم لوگ دو تین روپئے اپنے ملک میں خرچ کر دیتے ہیں۔ رچمنڈ کے بعد میں Fayette Ville پر رکی۔ یہاں نیا ڈرائیور (آپریٹر) آیا اور ٹکٹوں کی تنقیح کی۔ ہم سے ٹکٹ کی نئی سلپ لے لی گئی۔ یہ واشنگٹن پر ہی لکھ دی گئی تھی۔ جب ہم واشنگٹن سے نکل رہے تھے تو ہم نے کہہ دیا تھا کہ ہم کو Jackson Ville جانا ہے۔ ٹکٹ کاؤنٹر والے نے ہم دونوں کے لئے دو دو ٹکٹ کی سلپس لکھیں۔ ایک واشنگٹن سے فئے ٹی وی کے لئے اور دوسری وہاں سے جیکسن ولی کے لئے۔ اس وقت رات کے دو بجے تھے۔ یعنی ۲۵/اکتوبر شروع ہو چکا تھا۔ بس چلانے سے پہلے آپریٹر نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ بس کہاں ، کہاں اور کب پہونچے گی اور خود اس کا ساتھ جیکسن ولی تک رہے گا۔ جہاں یہ بس دن میں (۱۱) بجے پہونچے گی۔ میامی جو فلوریڈا کا آخری کنارہ ہے رات میں ساڑھے آٹھ بجے پہونچے گی۔ اس نے بتایا کہ منسٹری آف ٹرانسپورٹیشن کی ہدایت کے بموجب پائپ اور سگار کا بس میں پینا بالکل ممنوع ہے۔ سگریٹ صرف پیچھے کی ان نشستوں پر پئے جا سکتے ہیں۔ جہاں سگریٹ نہ پینے کا نشان ہے۔ بس میں کوئی بھی ریڈیو یا ریکارڈ پلیر نہیں چلا سکتا جب تک کہ اس کے پاس ہیڈ فونس نہ ہو۔ اور اس کی آواز بازو والے کو بھی نہ آتی ہو۔ اس نے امید ظاہر کی کہ اس کی بیان کی ہوئی ہدایت کی عمل پیرائی میں مسافرین بس اس سے تعاون کریں گے۔ پھراس نے کہا کہ ہم لوگ آرام سے سوجائیں ’’ شب بخیر ‘‘ اندر کی لائٹ بالکل بند کر دی گئی۔ جیسا کہ شاید پہلے لکھا گیا ہے۔ گرے ہاؤنڈ کی ساری بسوں کے بالکل پیچھے ڈرائیور کی طرف رخ کریں تو سیدھی طرف بیت الخلاء اور واش بیسن ایک ہی چھوٹے سے کمرے میں ہوتا ہے۔ اندر دھیمی لائٹ ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔ اندر جا کر دروازہ بند کر کے جب ناک کریں گے تو اندر تیز لائٹ آ جائے گی۔ اندر اجابت کے بعد صفائی کے لئے اور منہ ہاتھ پوچھنے کے لئے علیحدہ علیحدہ قسم کے کاغذ رکھے گئے ہیں۔ اجابت کے سلسلہ میں جو کاغذ استعمال میں آتا ہے وہ کھڈی (کموڈ) میں ڈال دیا جاتا ہے۔ البتہ منہ ہاتھ پوچھنے کے لئے کوئی کاغذ ہوتا ہے اس کے لئے خود بخود ڈھکن بند ہونے والا ڈبہ الگ ہے جب فارغ ہو کر اندر کی کنڈی ہٹائیں گے تو تیز لائٹ بند ہو جائے گی۔ اس پر دروازہ کھول کر نشستوں کے حصہ میں باہر نکل سکتے ہیں۔ رچمنڈ پر بہت سے مسافر اتر گئے تھے اس لئے کئی نشستیں خالی ہو گئی تھیں۔ کچھ لوگ Fayette پر اتر گئے اس لے اور جگہیں خالی ہو گئیں۔ ہم نے اپنی دو نشستیں بیوی کو دے دیں اور بازو والی دو نشستوں پر ہم کسی طرح دراز ہو گئے۔ بیوی آرام سے سوئیں اور ہم ذرا مشکل سے راستہ میں سات بجے صبح  ناشتہ کے لئے ایک جگہ بس رکی۔ کھانے پر طبیعت مائل نہیں تھی۔ ہم بس سے باہر جا کر چائے دو گلاسوں میں لے آئے۔ یہاں کھانے پینے کی سب چیزیں پتلے کارڈ کی بنائی ہوئی گلاسوں۔ رکابیوں اور کٹوروں وغیرہ میں دی جاتی ہیں۔ چمچے ، کانٹے چھریاں اور پائپس (Strow) سب پلاسٹک کے ہوتے ہیں۔ استعمال کیا اور کچرے کے کنڈے میں پھینک دیا۔ ہر شخص کے لئے برتن الگ الگ ہوتے ہیں۔ استعمال کئے ہوئے برتن واپس نہیں آتے۔ البتہ رسٹورنٹ میں جہاں بیرے آرڈر دی ہوئی چیزیں سپلائی کرتے ہیں وہاں کرا کری اور کٹلری مستقل نوعیت کے ہوتے ہیں۔ لیکن بس اسٹاپ یا ریلوے اسٹیشن کے اسناک بارس وغیرہ میں سب استعمال کے برتن وغیرہ پلاسٹک یا موٹے کاغذ کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ چائے یا شربت وغیرہ کی گلاسوں پر ڈھکن لگے رہتے ہیں۔ پائپ (Straw) سے سوراخ ڈالنے کے لئے ایک نشان ڈھکن پر بنا رہتا ہے۔ جہاں پائپ دبانے سے سوراخ آسانی سے پڑ جاتا ہے۔ اس طرح ڈھکن لگے ہوئے گلاس سے صرف چھوٹا سوراخ ڈال کر پائپ سے چائے پینے میں چائے چھلک کر نیچے نہیں گرتی۔

جیکسن ویلی کا پہنچنے وقت گیارہ بجے صبح تھا۔ لیکن بس اس سے پہلے ہی پہونچ گئی۔ ہمارے دوسرے داماد کے ایک بھائی وحید الدین اختر یہاں کسی ہاسپٹل میں کام کرتے ہیں۔ ایک رات ان کے ہاں گزارنے کا ہم نے ارادہ کر لیا تھا۔ نیویارک سے یعنی ان کے بڑے بھائی صدر الدین کے مکان (انگلوڈ۔ نیوجرسی) سے ایک مرتبہ ان سے بات چیت بھی ہو چکی تھی۔ گو ہم ان کو بتا چکے تھے کہ ہم Orlando جاتے وقت ان کے پاس آئیں گے۔ لیکن تاریخ اور وقت نہیں بتا سکے تھے۔ گیارہ بجے کا وقت ایسا تھا کہ وہ اس وقت گھر پر تو نہیں رہ سکتے تھے۔ ہم نے سونچا کہ آرلینڈو چلے جائیں۔ ہم جس بس سے اترے تھے وہی بس ۴۵ منٹ کے بعد میامی جاتے ہوئے وہاں سے گزرنے والی تھی۔ پھر بھی ہم نے سونچا کہ اپنے عزیز کو اطلاع دئے بغیر یہاں سے چلا جانا مناسب نہیں ہے۔ ہم نے ان کے ہاسپٹل کا نمبر ملایا۔ معلوم ہوا کہ وہ اس وقت وہاں نہیں ہے اور دوسرے ہاسپٹل چلے گئے ہیں لیکن آپریٹر نے ہم کو دوسرے ہاسپٹل کا بھی نمبر دے دیا۔ ہم نے وہاں ٹیلی فون ملایا تو ان سے بات ہو گئی۔ ہم نے ان سے کہا کہ اب آرلینڈو چلے جاتے ہیں۔ واپسی میں ان کے پاس قیام ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج ہم ان کے ہاں آرام کریں اور کل صبح آرلینڈو چلے جائیں اور یہ کہ وہ تھوڑی دیر میں ہم کو لینے آتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ ہاسپٹل سے نکلنے میں کوئی امر مانع تو نہیں ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے لئے پوچھ کر نکل سکتے ہیں۔ بہر حال وہ آئے اور اپنی نئی موٹر میں جو انھوں نے حال ہی میں خریدی ہے اپنے گھر پہنچایا اس کے بعد لے جا کر ایک اسناک بار میں مچھلی وغیرہ کھلائی اور گھر واپس لا کر کہا کہ ہم آرام کریں اور خود ہاسپٹل واپس چلے گئے۔ ان کا مکان ڈاون ٹاون قلب شہر سے قدرے دور ہے لیکن پر فضاء مقام پر ہے یہ دریا کے کنارے ہے یہاں مچھلیاں پکڑنے کی کئی کشتیاں ہیں۔ ان سب میں موٹر لگے ہیں۔ اس مکان کا ماہانہ دو سو ڈالر کرایہ ہے۔ اس میں ہمارے عزیز کے علاوہ ایک اور ڈاکٹر جو ان کے ساتھی ہیں رہتے ہیں۔ دونوں آدھا آدھا کرایہ دیتے ہیں۔ دونوں ہی تنہا اور غیر شادی شدہ ہیں۔ چیزیں کافی بکھری پڑی تھیں۔ ہم نے سونے کی کوشش کی لیکن رات میں نیند ہو چکی تھی اس لئے جلد ہی اٹھ گئے۔ باورچی خانے کے سنک کا پانی رک گیا تھا اور کئی برتن جھوٹے پڑے تھے۔ ہم دونوں نے اس سنک کی رکاوٹ دور کی اور برتن صاف کر دئے۔ چائے بنا کر پی۔ شام کے لئے چاول ڈھول کر چڑھا دیا۔ بعد میں ہمارے عزیز پیاز ، قیمہ وغیرہ لے کر آئے۔ مغرب کی قریب وہ ہم کو جیکسن ولی کی (ساحل) بیچ کو لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن اس وقت بارش ہو رہی تھی اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اس لے گھر ہی پر رہے۔ رات میں گرم گرم خشکہ ، دال ، قیمہ ، اچار اور فرج میں رکھا ہوا آلو کا سالن (جس کو گرم کر لیا گیا تھا) خوب سیر ہو کر کھایا۔

Room No.62

Howard Vernon Motel - 600

W.Colonial Orlando Florida 32804

Tel 305 - 422 - 7162

منگل ۲۶/ اکتوبر ۱۹۷۶ء آج ہم اپنے عزیز کے مکان سے ان کی موٹر میں نکلے رات کو سیر ہو کر کھایا تھا اس لئے ناشتہ پر طبیعت بالکل مائل نہ ہوئی۔ اپنے ٹکٹ بک کی ایک ایک سلپ پر آرلینڈو کا اسٹامپ ایک ٹکٹ کاؤنٹر پر لگوا لیا۔ بس آٹھ بجے صبح جیکسن دلی سے نکلی اور گیارہ بجے سے کچھ پہلے ہی Orlando پہونچ گئی۔

والٹ ڈیزنی ورلڈ۔ آرلینڈو کے گرے ہاؤنڈ بس ٹرمینل سے ۲۰ میل دور ہے گرے ہاؤنڈ خود اپنی دوبسیں ۹ بجے اور گیارہ بجے صبح وہاں تک دوڑاتی ہے۔ ہم یہ سمجھے تھے کہ ڈزنی ورلڈ جانے کے لئے ہم کو بس کا کرایہ الگ دینا پڑے گا ایسا نہیں ہوا۔ Ameripan والوں کو گرے ہاؤنڈ کی بس سروس میں فری (مفت) ٹرپ مل سکتی ہے۔ ہمارے ٹکٹوں کی بکوں میں دو دو سلپ استعمال میں آئیں ایک پر آرلینڈو سے ڈزنی ورلڈ کی اور دوسرے پر ڈزنی ورلڈ سے آرلینڈو کی مہر لگادی گئی۔ آرلینڈو سے پہلے بس سی ورلڈ جاتی ہے۔ یہ دس بارہ میل پر ہے اور وہاں سے والٹ ڈزنی ورلڈ۔ چالیس پینتالیس منٹ میں پہنچ گئے۔ آرلینڈو میں پہلے ہم نے پورا سامان اسٹیل کی الماری (جیسے ہمارے پاس بینک کے سیف لاکرس ہوتے ہیں ) کے ایک خانہ میں رکھا دیا۔ اس لا کر کی کنجی ساتھ رکھ لی۔ اور اس خانہ کی نمبر ڈائیری میں لکھ لیا۔ صرف ایک تھیلی جس یں کھانے وغیرہ کی چیزیں ساتھ رکھ لی گئی۔

والٹ ڈزنی ورلڈ پر بس سے اترتے وقت آپریٹر نے ہر شخص کو ایک ایک پیلی سلپ دی اس میں اور چیزوں کے علاوہ گہری لال روشنائی میں یہ لکھا ہوا تھا۔ ’’ آپ کی بس ۵۰ نمبر کے خانہ میں پارک کی ہوئی ملے گی‘‘۔ اور آپریٹر زبانی بول رہا تھا کہ واپسی کا وقت ۷ بجے شام ہے۔ ذرا آگے بڑھے تو عورتوں اور مردوں کے Rest Rooms پر نظر پڑی۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو ایک نوٹس پڑھی۔ اس میں لکھا تھا کہ کھانے پینے کی چیزیں ڈزنی ورلڈ میں لے جانا منع ہے۔ وہیں قریب میں ایک پک نک کی جگہ تھی۔ سمنٹ کے بنچس۔ اس کے سامنے کھانے کے پلیٹ فارم۔ اوپر دھوپ سے بچاؤ کے لے چھتری۔ واٹر کولر اور کچرہ ڈالنے کی ڈھکی ہوئی چھوٹی کنڈی۔ ہمارے عزیز نے چلتے ہوئے ڈبل روٹی کے ٹکڑے۔ قیمہ۔ آملیٹ اور کچھ پھل ساتھ رکھ دئے تھے۔ جتنا کھا سکتے تھے کھا لیا اور پھل ساتھ رکھ لئے اور باقی بموجب ہدایت کچرے کی با سکٹ میں ڈال دیا۔ ڈزنی ورلڈ میں جانے کے لئے کم از کم چھ ڈالر کچھ سنٹ کا ٹکٹ ہے۔ ہم نے دو ٹکٹ $8=25 والے لئے۔ اس ٹکٹ سے مختلف سیریز کے بارہ اڈوینچرز دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہر ایٹم کا الگ الگ ٹکٹ اندر جا کر لیا جائے تو ایسے بارہ آئیٹمس کے لئے کل $13=95خرچ ہوں گے۔ یکمشت بک لینے سے کچھ پانچ ڈالر سے زیادہ کی بچت ہو جاتی ہے۔

گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی کچھ فاصلہ پر ہم کو ایک ٹرین ملتی ہے جو تھوڑی دیر میں ڈزنی ورلڈ کے بیچوں بیچ پہنچا دیتی ہے۔ ٹرین جاتے وقت کیمپنگ گراؤنڈ جھیلوں اور بڑے بڑے رسٹورنٹوں کے سامنے سے گزرتی ہے۔ ہر کمپارٹمنٹ میں لاؤڈ اسپیکر لگا دئے گئے ہیں۔ جس میں ریکارڈ کی ہوئی کمنٹری ٹرین کے رفتار کے ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے۔ ڈزنی ورلڈ کو ان حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

(۱) اڈوینچر لینڈ (۲) فرنٹیر لینڈ (۳) لیبرٹی اسکوائیر (۴) فیانسٹے لینڈ ٹو ماربو لینڈ۔

ہمارا وقت زیادہ تر ٹومارو لینڈ میں گزار۔ ویسے دوسرے علاقوں میں بھی جا کر مختلف شو دیکھے۔ یہ ایک تفریح گاہ کے علاوہ معلومات آفریں مقام ہے۔ کئی دلچسپ شو مفت دکھائے جاتے ہیں۔ ایک Horse Show بھی ہے جو ایک رسٹورنٹ میں ہوتا ہے۔ اس میں داخلے کے لئے کوئی ٹکٹ نہیں۔ جب تماش بیں پوری نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ تو بیرے ادھر ادھر پھر کر آرڈر لیتے ہیں۔ اور پھر ان کو وہ چیزیں سپلائی کی جاتی ہیں۔ اس میں کافی وقت چلا جاتا ہے۔ جب سب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوتے ہیں۔ تو وہ شو شروع ہوتا ہے۔ یہاں اتنے شو ہوتے ہیں کہ سب ایک ہی دن میں ختم کرنا مشکل ہے۔ اپنے لئے ہوئے ٹکٹ سے کوئی تماش بین دو تین دن بھی آ کر اس ڈزنی ورلڈ کو تفصیل سے دیکھ سکتا ہے۔ جب ہم ڈزنی ورلڈ کے گیٹ میں داخل ہو رہے تھے تو گیٹ والے ہر دن ہونے والے سے پوچھ رہے تھے کہ وہ ان کا پہلا۔ دوسرا یا تیسرا ہے۔ غالباً اس کا ریکارڈ بھی رکھ رہے تھے۔

جو بک جاتی ہے اس میں A.B.C.D and E سیریز کے ٹکٹ ہوتے ہیں۔ جب کبھی کسی آئیٹم کو دیکھنے کے لئے کسی پیویلین یا اسٹال پر جاتے ہیں تو وہاں فری لکھا ہو گا یا پھر یہ لکھا ہو گا کہ کس سیریز کا ٹکٹ درکار ہے۔ اپنی بک سے اس سیریز کا ٹکٹ نکال کر تیار رکھیں اور جو گیٹ پر کھڑا ہوا (اکثر لڑکیاں کھڑی ہوتی ہیں ) اس کو دے دیں اور اندر داخل ہو جائیں۔ بعض وقت تماش بین کو دس یا پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے کہ چالو شو ختم ہو جائے اور لوگوں سے ہال خالی ہو جائے۔

والٹر  نے جس کی عرفیت ڈیزنی ہے اس جادو کی بادشاہت کو بنانے میں کافی پلاننگ۔ محنت اور اپنے کمال فن کا استعمال ہے۔ یہاں کے آنے والوں کے ہجوم کو دیکھ کر حکومت اور مختلف ایجنسیوں میں بھی یہاں اپنے اپنے اسٹال یا پویلین قائم کئے ہیں۔ ان میں اچھی اچھی چیزیں جاتی ہیں۔ یہاں ایک شو The Beautiful America ہے یہ فلم رونڈ (گول) اسکرین پر دکھائی جاتی ہے۔ گول اسکرین اونچا ہوتا ہے۔ ہر شخص ہال میں بیٹھا ہوا چاروں طرف نظر گھما کر فلم دیکھ سکتا ہے۔ جو فلم بتائی جاتی ہے وہ امریکہ (اسٹیٹس) کے اہم پہلو زندگی پر مشتمل ہے۔ بڑے بڑے شہر ، پہاڑ دریا، خوبصورت ساحل ، جنگل اس کے جانور کے علاوہ یہ بھی بتایا جاتا ہے اس ملک کے بڑے لوگ کیسے رہتے تھے۔ بعض پرانے گاؤں کو ان کی ابتدائی دور میں محفوظ رکھا گیا ہے تا کہ پرانی زندگی کا پتہ چل سکے۔ ایر فورس اکیڈیمی کی پریڈ اس قسم کی بیسیوں چیزیں دکھائی جاتی ہیں۔ جو فلم ہم نے Ario Place ٹورنٹوں میں دیکھی تھی وہ بھی اسی قسم کی تھی۔ لیکن اس کا اسکرین بہت بڑا اور چوڑا تھا۔ ان فلموں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ دیکھنے والا تھیٹر میں موجود ہوتا ہے۔ محسوس کرتا ہے جیسے کہ وہ ہوائی جہاز میں یا پانی کے جہاز یا جیسے کسی اور سواری میں ہوا سارے مناظر کو دیکھتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ جب سامنے پہاڑ یا عمارتیں وغیرہ آتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان سے ٹکرا جائیں گے۔ ٹکرا جانے کا ڈر دل میں خود بخود پیدا ہوتا ہے۔ ایک شو y.e (General Electricity)  کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ کھیل مختلف ’’ اسٹیجس ‘‘ پر بتایا جاتا ہے۔ اس میں پتلے بٹھائے گئے ہیں۔ بجلی کے استعمال سے پہلے زندگی کیسی تھی۔ جیسے جیسے بجلی کا استعمال بڑھتا گیا تو زندگی میں فرق آتا گیا۔ ہر اسٹیج پر پتلون (جن پر اس زمانہ کے لحاظ سے کپڑے پہنائے گئے ہیں ) کے علاوہ گھریلو سامان زمانہ کے لحاظ سے رکھا گیا ہے۔ آپس میں جیسے میاں بیوی، باپ بیٹے اور دادا وغیرہ میں بڑی دلچسپ گفتگو کرائی جاتی ہے۔ زمانہ ترقی کرتا جاتا ہے اور تماش بینوں کا ہال جو گھومنے والا ہے ایک اسٹیج سے دوسرے اسٹیج کے سامنے چلا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ رہن سہن کھانے ، پینے اور خیالات میں کیسی تبدیلی ہوئی اس کو جیتے جاگتے جیسے پتلوں سے بات کرا کر اور ان کے اطراف اشیائے ضروری جمع کر کے بتایا گیا ہے۔ بہرحال یہ ایک دلچسپ پروگرام ہے۔ سو ڈیڑھ سو سال میں آدمی کیسا بدل گیا بالکل عیاں ہو جاتا ہے۔

Ours is a small world ایک دلچسپ پروگرام ہے جو خود بخود پانی میں چلنے والی کشتیوں میں بیٹھ کر دیکھا جاتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بڑوں سے زیادہ چھوٹے بچے اس پروگرام کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ مختلف ممالک کے بچوں کے پتلے بنا کر مختلف اسٹیجوں پر ان سے امریکن گانے گوائے جاتے ہیں۔ اور ان سے ڈانس بھی کرایا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ میوزک بھی اچھی رہتی ہے۔

یہاں موٹروں کی ایک دوڑ بھی ہوتی ہے۔ دو تین موٹر آزو بازو دوڑتی ہیں لیکن وہ آپس میں ٹکراتی نہیں۔ اس میں ایک اسٹیرنگ اور اکسلے ریٹر ہوتا ہے۔ اکسلے ریٹر کو پاؤں سے دباؤ تو گاری آگے بڑھتی ہے ورنہ رک جاتی ہے۔ اس کو جتنا دبایا جائے اتنی ہی رفتار بڑھتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ رفتار بھی کافی کم ہے۔ بیوی کو ایک موٹر میں بٹھایا اور ہم ان کے راستے پر بالکل پیچھے کی موٹر میں بیٹھے۔ پیچھے سے سامنے والی موٹر کو ٹکر دی جا سکتی ہے ان لئے ہم نے بیوی کو پیچھے والی موٹر پر قبضہ کر لیا کہ شاید کوئی دوسرا بیٹھے تو ان کی موٹر کو زور سے ٹکر دیدے اس طرح ہم دونوں موٹر ریس میں الگ الگ موٹروں میں بیٹھے۔ لیکن ٹکٹ صرف مجھ سے لیا گیا۔ بیوی کوبھی متعلقہ سیریز کا ٹکٹ پھاڑ کر دے دیا گیا تھا لیکن وہ ان کے ساتھ ہی رہا۔ واپس آتے وقت وہ انھوں نے موٹر ہی میں چھوڑ دیا تھا۔ لیکن وہاں کا آدمی اسے اٹھا کر بیوی کو دے دیا اس طرح ایک بک میں اس سیریز کا ایک ٹکٹ بچ گیا۔

  اس طرح جب ہم ٹہل رہے تھے تو ہم نے ایک جگہ لوگوں کو موٹر بوٹ میں بیٹھے دیکھا اور جب اس سے آگے بڑھے تو ایک چھوٹے اسٹیشن پر ایک ٹرین آئی۔ جس سیریز کا ٹکٹ بچ گیا تھا وہ اس ٹرین میں بیٹھنے کے لئے کار آمد ہو سکتا تھا۔ ہم اندر کے کسی بوتھ سے علحدہ ٹکٹ خرید کر اس میں بیٹھ سکتے تھے لیکن ہم نے اس کو ضروری نہیں سمجھا۔ اور ہم نے ریلوے کے آدمی سے جو داخلہ کے گیٹ پر کھڑے ہو کر ٹکٹ لے رہا تھا پوچھا کہ یہ ٹرین چکر لگا کر یہاں آئے گی تو اس نے اثبات میں جواب دیا۔ بیوی کو ہم نے وہ ٹکٹ دے دیا کہ وہ بیٹھیں اور واپس آ کر اتر جائیں۔ ہم اسٹیشن سے ذرا پرے ہٹ کر ایک بیچ پر بیٹھ گئے۔ آرلینڈو ، فلوریڈا اسٹیٹ میں ہے۔ یہاں کا موسم باسٹن اور نیویارک (شمالی ریاستوں میں ) کے موسم سے بہت مختلف ہے۔ ہم نے اس ڈزنی ورلڈ میں سیکڑوں لوگوں کو انتہائی ہلکے پھلکے کپڑے پہنے دیکھا۔ یہاں اچھا خاصا گرمی کا موسم معلوم ہو رہا تھا۔ ہم نے بھی کوٹ نکال کر ہاتھ پر ڈال لیا تھا۔ جب بیوی ٹرین میں بیٹھ کر چلی گئیں تو ہم کو ذرا خنکی محسوس ہوئی اور ہم نے اپنا کوٹ بش کوٹ پر پہن لیا۔ دس پندرہ منٹ میں ٹرین گھوم کر واپس آئی اور ہم اسٹیشن کی کٹگر کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے دیکھا کہ اترنے والے پاسنجروں میں ہماری بیوی نہیں ہیں۔ جب گیٹ والے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ شاید بڑے ریلوے اسٹیشن پر اتر گئی ہوں گی۔ ہم بڑے اسٹین کی طرف تیزی سے چلے۔ گو ہم صحیح راستے پر جا رہے تھے لیکن پھر بھی ایک بوتھ پر جہاں کچھ لوگ اندرونی کھیل تماشے کے ٹکٹ خرید رہے تھے۔ کیو میں رخنہ اندازی کرتے ہوئے بوتھ والی سے بڑے ریلوے اسٹیشن کا پتہ پوچھا اور اس نے بھی اسٹشین کا رخ وہی بتایا۔ بڑے اسٹیشن پر پہونچ کر وہاں کے گیٹ والے کو ہم نے اپنی پریشانی بتائی۔ اس نے کہا کہ وہ داخلہ پر کھڑا ہے خروج نیچے ہے وہاں جا کر دیکھوں۔ نیچے جا کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ڈزنی ورلڈ کا وسیع احاطہ تماش بینوں کا زبردست ہجوم اور بیوی کا انگریزی نہ بول سکنا اور سمجھنا بھی کچھ یونہی سا ہماری پریشانی میں اضافہ کرنے لگا۔ ہم پھر اوپر گئے اورٹکٹ کلکٹر سے کہا کہ بیوی ہم کو نیچے نہیں ملیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہاں لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کرنے کا انتظام ہے۔ اس نے نفی میں جواب دیا اور کہا  یہاں کوئی بھٹک جائے تو زندگی اور موت کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ اس جملے نے ہماری پریشانی میں اور اضافہ کر دیا اتنے میں ٹرین چکر لگا کر اس بڑے اسشین پر پہونچی اور وہ شخص جس سے ہم نے چھوٹے اسٹیشن پر بات کی تھی ٹرین سے اتر کر اپنے ساتھی سے کچھ بولنے کے لئے آیا۔ مجھے دیکھ کر اس نے پوچھا کہ بیوی ملیں یا نہیں۔ میں نے کہا نہیں۔ یہ جواب سن کر وہ بھی کچھ پریشان سا ہوا۔ پھر مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید میں نے چھوٹے اسٹیشن پر اترنے والے پاسنجروں کو اچھی طرح نہ دیکھا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ بیوی وہیں اتر گئی ہوں۔ اور میرا انتظار کر رہی ہوں۔ میں نے ٹرین والے شخص سے کہا کہ میں ٹرین میں اس کے ساتھ چھوٹے اسٹیشن چلتا ہوں تا کہ میں وہاں پھر سے بیوی کو تلاش کروں۔ اس نے رضا مندی ظاہر کی اور میں جا کر ٹرین میں بیٹھ گیا۔ ٹرین ابھی چلی نہیں تھی کہ گیٹ والا آدمی جو میری پریشانی سے واقف تھا ڈبے کی طرف آیا اور مجھے اشارہ سے اپنی طرف بلایا۔ میں اتر کر اس کے ساتھ گیٹ پر آیا تو دیکھا کہ بیوی ہال میں گیٹ کی طرف چلی آ رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ گیٹ والا ایک ہندوستانی عورت کو سیڑھیوں پر چڑھتا ہوا دیکھ کر میری طرف تیزی سے آیا کہ کہیں ٹرین نکل نہ پڑے اس کو غالباً اندازہ ہو گیا کہ پریشانی میں تیز گام خاتون شاید میری گم شدہ بیوی ہو۔ بیوی سے معلوم ہوا کہ وہ بڑے اسٹیشن پر جب انھوں نے بہت سے پاسنجروں کو اترتا دیکھا تو خود بھی اتر گئیں۔ اور یہ محسوس نہیں کیا کہ جس اسٹیشن سے وہ چڑھی تھیں وہ یہ نہیں ہے۔ باہر نکل کر انہوں نے مجھے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ایک بنچ پر بیٹھ گئیں اور سمجھا کہ میں کہیں گیا ہوں گا۔ آ جاؤں گا۔ جب زیادہ دیر ہونے لگی تو ان کو پریشانی ہونے لگی۔ جب کافی دیر ہو گئی تو وہ بہت فکر مند ہو گئیں اور یہ سونچنے لگیں کہ لوگوں پر اپنا ما فی الضمیر کس طرح واضح کریں۔ ان کی نظریں خاص طور پر میرے بش کوٹ کے رنگ والے کپڑوں پر پڑ رہی تھیں۔ میں ہجوم میں تقریباً ان کے سامنے ہی سے بڑے اسٹیشن پر گیا۔ لیکن میں اس وقت کوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس لئے غالباً ان کی نظر مجھ پر نہیں پڑی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک جوڑا جو غالباً جنوبی ہند کا تھا۔ بیوی کے قریب ہی بنچ پر آ کر بیٹھا۔ غالباً ان دونوں نے ہم کو ایک ساتھ پہلے ڈزنی ورلڈ میں کہیں دیکھا تھا۔ اب بیوی اکیلی بیٹھی متوحش نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔ اور غالباً یہ لوگ مجھے بھی اسٹیشن پر ادھر ادھر اکیلا پھرتا ہوا دیکھ چکے تھے۔ مرد نے بیوی سے انگریزی میں کہا کہ تمہارے ہسبنڈ سامنے اسٹیشن پر ہیں۔ یہ سننا تھا کہ بیوی سامنے کی روڈ کراس کر کے اسٹیشن پر چڑھنے لگیں۔ اور ٹکٹ کلکٹر کی نظر ان پر پڑ گئی۔

اس پریشانی اور وقت کے ضائع ہونے کی وجہ سے دوچار آئیٹم جو اور دیکھ سکتے تھے نہ دیکھ پائے۔ اس کے بعد اس ریلوے اسٹیشن پر گئے جہاں سے ٹرین سیاحوں کو قلب ڈزنی ورلڈ سے باہر کے گیٹ کے قریب تک لاتی ہے۔ واپسی کا راستہ بھی وہی ہے اور اسی طرح کمپارٹمنٹ میں ریکارڈ کی ہوئی کمنٹری ہوتی ہے۔

اپنی بس سے آرلینڈو واپس ہوئے۔ رات ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر انیسہ (جو معلوم ہوا کہ کبھی ہماری بڑی لڑکی ڈاکٹر خورشید بیگم کی ہم جماعت تھیں ) یہاں رہتی ہیں۔ صبح ان کو وقت کی تنگی کی وجہ سے ان کے ہاسپٹل پر ٹیلی فون نہ کر سکے تھے۔ اب ان کے گھر پر ٹیلی فون کیا تو گھنٹی بجتی رہی لیکن کسی نے ٹیلی فون اٹھایا نہیں۔ ہم سمجھ گئے کہ شاید ان کی رات کی ڈیوٹی ہو۔ ہم نے ان کے ہاسپٹل پر ٹیلی فون نہیں کیا اس کے بعد ہم نے ڈاکٹر وحید اختر کو جن کے پاس ہم جیکسن ویلی میں ٹھیرے تھے ان ہی کے خرچ پر ٹرنک کال کیا۔ اور کہا کہ اب ہمارا قیام ڈاکٹرانیسہ کے پاس نہیں ہو گا آرلینڈو میں ایک رات کسی ہوٹل یا موٹل میں گزار کر ہم ڈالس کی طرف دوسرے قریب ترین راستے سے چلے جائیں گے۔ اس لئے واپسی میں جیکسن ولی نہیں آ سکیں گے۔ اس کے بعد اکیلا ہی جا کر میں نے ہاورڈ جانسن میں دریافت کیا کہ کوئی دو بستر والا کمرہ مل سکتا ہے۔ ایک تو وہاں کرایہ زیادہ تھا اور دوسرے کہا گیا کہ اس وقت کوئی کمرہ خالی نہیں ہے واپس آ کر گرے ہاؤنڈ کے انچارج سے پوچھا تو اس نے ہاورڈ ڈورنن موٹل کا پتہ بتایا اور ہماری گذارش پر اس نے وہاں ٹیلی فون کر کے معلوم کر لیا کہ دوبستروں کا کمرہ موجود ہے۔ گو انچارج نے ٹرمینل سے موٹل قریب بتائی تھی۔ لیکن ہم تھکے ہوئے تھے اور سامان اٹھا کر لے جانا پڑا تھا اس لئے فاصلہ ذرا زیادہ ہی لگا۔ جب ہم موٹل کے سامنے کے ہال میں داخل ہوئے تو استقبالی کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے ہمارا استقبال ’’نمستے ‘‘ سے کیا۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ ایک امریکن لڑکی ہندوستانی لفظ سے ہمارا خیرمقدم کر رہی ہے۔ ہم نے بھی نمستے سے جواب دیا۔ اور پوچھا کہ وہ اس لفظ سے کیسے واقف ہوئی۔ اس نے کہا کہ اس نے کئی مہینوں تک ہندوستان کا دورہ کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس نے یہ سفر کس کے ساتھ کیا تھا تو اس نے جواب دیا کہ اس نے تنہا ہی کیا تھا۔ پھر میں نے پوچھا کہ وہ موٹل میں کیا کرتی ہے تو اس نے کہا کہ اپنے والد کو ان کے کام میں مدد دیتی ہے۔ کمرے کا کرایہ اڈوانس لیا گیا کمرے کی کنجی کے لئے ایک ڈالر ڈپازٹ کے طور پر لیا گیا۔ کنجی کی واپسی کے وقت یہ ایک ڈالر قابل واپسی تھا۔

چہارشنبہ ۲۷/اکتوبر ۱۹۷۶ء

چونکہ آج ڈلاس کی طرف نکلنا تھا اس لئے باوجود تھکے ہوئے ہونے اور مزید نیند کی زبردست تمنا کے صبح میں جلد ہی اٹھنا پڑا۔ کنجی واپس کر کے ڈالر حاصل کر لیا اور سامان لے کر گرے ہاؤنڈ بس ٹرمینل پہونچ گئے۔

کاؤنٹر والے سے ہم نے کہا کہ ہم کو ڈلاس جانا ہے۔ اس نے ہم سے دونوں ٹکٹ بک لے لئے اور ہر ایک میں سے دو دو سلپ کا استعمال کیا۔ ایک پر اس نے اورنالڈو ٹو لیک چارلس اور دوسرے پر لیک چارلس ٹو ڈالاس اور ہم سے کہہ دیا کہ پہلے ہم کو فلوریڈا کے صدر مقام ٹالاہاسی پر بس بدلنی پڑے گی اور اس کے بعد ہوسٹن پر بس صبح میں ۹ بجے وقت مقررہ پر نکلی اور کئی چھوٹے موٹے اسٹاپ پر رکتی ہوئی سہ پہر کے چار بج کر پانچ منٹ پر ٹالاہاسی پہونچی یہ فلوریڈا کا صدر مقام ہے۔ جس بس سے ہم نے آج آرلینڈو سے ٹالاہاسی تک سفر کیا وہ پاسنجر تھی وہ کئی چھوٹے مقامات پر رکتی ہوئی آئی۔ اس طرح ہم کو متحدہ امریکہ کے کئی گاؤں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مکانات چھوٹے اور لکڑی کے بنے ہوئے تھے لیکن کافی صاف ستھرے اور وائیٹ پینٹ کئے ہوئے۔ کھیتوں کی بھی کئی  جگہ ٹریکٹروں سے صفائی ہو رہی تھی۔ اکثر مقامات پر موسمبیوں سے لدے ہوئے درخت ملے۔ یہاں کے درخت ہندوستان کے مقابلہ میں ذرا اونچے اور گھنے دکھے۔

ٹالا ہاسی سے ہماری دوسری بس ۵ بج کر ۴۵ منٹ پر نکلنے والی تھی۔ بیوی کو ٹرمینل بلڈنگ میں بٹھا کر ہم شہر میں اندر گئے اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدیں۔ یہ شہر بڑا ہے سڑکیں اور عمارتیں بہت اچھی اور صاف ستھری ہیں ہر چورا ہے اور اہم مقام پر خود کار ٹرافک لائٹ موجود ہے امریکہ کے ہر چھوٹے موٹے شہر میں خودکار لائٹ چوبیس گھنٹے چلتی رہتی ہے۔ ایک پندرہ سولہ منزلہ عمارت بھی نظر آئی۔ ایک دوکان سے ایک بڑی ڈبل روٹی، سلاد ، چار کیلے اور موسمبیاں خریدیں۔ اس کی کل قیمت دو ڈالر ۲۹ سنٹ ہوئی۔ موسمبی پندرہ سینٹ میں پڑی یعنی ہمارے حساب سے ایک روپیہ چالیس پیسے میں ایک۔

ٹالا ہاسی سے ہم وقت مقررہ پر نکلے۔ یہاں پہنچنے سے پہلے اور  نکلنے کے بعد ہم نے بہت سے متحرک مکانات دیکھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ انڈسٹری یہاں بہت چالو ہے۔ اس طرف جنگل بہت ہے۔ اس لئے لکڑی کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ ان چھوٹے مکانات کو اوپر اور اندر سے پینٹ کر کے اور اندر سے سجا کر بہت اچھا کر دیتے ہیں۔ ان میں سینٹری فٹنگس وغیرہ مکمل اور بڑھیا ہوتی ہیں۔ آج ہم نے ایک اخبار آرلینڈو میں خریدا تھا اس میں سے ایک اشتہار اس قسم کے مکانات کے تعلق سے بجنسہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔

ٹو بیڈ روم ڈبل وائیڈ موبائیل ہوم ۸۹۵۰ ڈالر۔

اگر ہم ایک ڈالر کے نو روپیہ لگائیں تو اس مزین گھر کی قیمت ۵۵۰،  ۸۰ روپیہ ہوتی ہے۔ اس راستہ پرایسے بکنے والے مکانات سیکڑوں کی تعداد میں نظر آئے رات میں جب بس نیو اورلینس کی طرف جا رہی تھی تو مختلف چھوٹے بڑے مقامات سے گزر رہی تھی۔ پھیلی ہوئی اور تیز لائٹ مختلف سڑکوں کا ادھر ادھر گزرنا۔ دوکانوں کی روشنی جو ان کے بند ہونے کے بعد بھی اندر سے کھلی ہوئی تھی اور ان کی زیبائش اس ملک کی ترقی کو ظاہر کر رہی تھی۔ رات میں ۲ بج کر ۵۰  منٹ یعنی ۲۸/اکتوبر کی صبح کو یہ بس نیوآرلینس پہونچی۔ اس شہر کے آنے سے دس بارہ میل پہلے ہی اس کی سڑک کی لائٹ شروع ہو گئی تھی۔ جتنی سڑکیں ادھر ادھر جا رہی تھیں وہ سب تیز لائٹ سے منور تھیں۔ نیو آرلینس آنے سے پہلے اور بڑا شہر ملا تھا غالباً وہ BiloziMiss یا gulfpart Miss  تھا۔

سٹی نیو آرلینس جو جنوب کی بڑی بندرگاہ ہے دن بدن ترقی پر ہے۔ چونکہ اس کے قرب وجوار میں آئیل ، گیس ، نمک ، اور سلفر کے ذخائر موجود ہیں۔ یہاں کئی قسم کی صنعتیں وجود میں آ گئی ہیں۔ یہاں کا دیو ہیکل میچوڈ پلانٹ خلا کی صنعت کے لئے انجن بناتا ہے۔ جہازوں کو اوتھل پانی سے بچانے کے لئے ایک گہری نہر جو نیوآرلینس اور خلیج میکسیکو کو ملاتی ہے بنائی گئی ہے اس بندرگاہ سے درآمد ہونے والی چیزیں زیادہ تر کیلے ، کافی ، شکر اور تیل اور اس طرح یہاں سے برآمد ہونے والی چیزیں کپاس ، نمک ، گندھک ، اور تمباکو ہیں۔

ویسے تو ہم سے کہا گیا تھا کہ ٹالا ہاسی کے بعد ہم کو بس ہوسٹن میں بدلنی پڑے گی۔ لیکن جب ہم نیو آرلینس پہونچے تو ہمارے بس کے آپریٹر صاحب نے اعلان کیا اور خاص طور پر پوچھنے پر تصدیق کی کہ ہوسٹن جانے والے مسافر زون (پلیٹ فارم ) نمبر ۸ پر کھڑی ہوئی بس میں بیٹھ جائیں۔ جب  اس زون پر گئے تو دیکھا کہ کھڑی ہوئی بس پر اب تک نیو آرلینس کا ہی بورڈ چڑھا ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ کے کچھ پاسنجر بھی وہیں کھڑے تھے۔ جب ہمارے آپریٹر صاحب جن کے ساتھ ہم نیو آرلینس تک آئے تھے اپنا بیاگ وغیرہ لے کر ہمارے سامنے سے گزرے تو انہوں نے اصرار سے کہا کہ زون نمبر ۹ کی بس میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ ہم اس میں بیٹھ گئے۔ لیکن اس سے پہلے ہم معلومات کاؤنٹر پر بھی جا کر پوچھ چکے تھے۔ یہ سب دقت اس وجہ سے ہو رہی تھی کہ بس پر ہوسٹن کا بورڈ چڑھا ہوا نہیں تھا۔  

رات کے سوا تین کے قریب بس کے آپریٹر صاحب آئے۔ پہلے انہوں نے  ہینڈل سے پھرا کر اوپر کا منزل مقصود کا نام بدلا۔ پھر کئی کھٹکے دبا کر دیکھ لیا کہ بس کی ضروری کار کردگی ٹھیک ہے کہ نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے سب مسافروں کے ٹکٹوں کی تنقیح کی۔ اور ہماری بکوں سے وہ ٹکٹ پھاڑ لیا۔ جس پر آرلینڈو سے لیک چارلس لکھا تھا۔ ہم کو اطمینان ہوا کہ ہم صحیح بس میں بیٹھے ہیں۔

ٹالا ہاسی پر ۵ بجے کھانا کھایا تھا اس کے بعد میری طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ کچھ بے چینی اور سر میں دھمک۔ بس کی پچھلی قطار میں تین نشستیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں جا کر بیٹھ گیا کہ وہاں دراز ہو جاؤں۔ لیکن وہاں گرمی ہونے لگی۔ اس لئے پھر سامنے کی نشست پر آ گیا آج کل بسیں خالی خالی جا رہی ہیں۔ بڑی مشکل سے کچھ نشستیں پر ہوتی ہیں۔

نیو آرلینس پر ہم نے صرف چائے پی۔ ایک کپ کی قیمت ۲۵سنٹ اور ایک سنٹ ٹیکس لگا کر کل ۲۶ لئے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کھانے پینے کی چیزوں پر ۴ فیصد ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ چائے پینے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک گلاس (جو یا تو موٹے کاغذ یا پتلے کارڈ بورڈ کا بنا ہوتا ہے ) لیتے ہیں۔ اس کے بعد گرم پانی کے کین کے نیچے گلاس رکھ کر اس کا نل کھولتے ہیں۔ اس سے کھولتا ہوا گرم پانی گلاس میں گرتا ہے۔ چائے کی پتی کی پڑیا ایک پتلے کاغذ میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اوپر کا کاغذ پھاڑکر پتی کی پڑیا جس کو ایک تاگا لگا رہتا ہے نکالتے ہیں اور تاکے کو پکڑکر چائے کی پتی کی پڑیا جو بہت ہی پتلے کاغذ کی ہوتی ہے کھولتے ہوئے پانی میں اس طرح چھوڑتے ہیں کہ دھاگا گلاس کے باہر کی طرف لٹکتا رہتا ہے۔ اس پڑیا کے پڑنے سے پانی میں چائے کا رنگ اور اس کا مزا آ جاتا ہے۔ لیکن پتی پڑیا میں بند رہتی ہے۔ اور پانی میں بکھرتی نہیں۔ اگر دودھ ڈالنا چاہیں تو دودھ کی بہت چھوٹی کٹوریاں جو موٹے کاغذ کی ہوتی ہیں موجود رہتی ہیں۔ ایک یا دو لے کر اور اوپر کے ڈھکن میں سوراخ ڈال کر دودھ گلاس میں ڈال لے سکتے ہیں۔ چینی (شکر) کی پڑیاں بھی الگ رکھی رہتی ہیں ایک یا دو اپنے مذاق کے مطابق لے کر گلاس میں ڈال لے سکتے ہیں۔ شکر ملانے کے لئے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے صاف ستھرے چمچے رکھے رہتے ہیں۔ شکر کی خالی پڑیاں۔ دودھ کی خالی کٹوری ، لکڑی کا چمچہ اور چاہیں تو چائے کی پڑیا کچرے کی کنڈی میں چائے استعمال کرنے سے پہلے ڈال دیں۔ اور چائے کی گلاس پینے کے بعد پھینک دیں۔ بہرحال حفظان صحت کا اتنا خیال کیا جاتا ہے کہ استعمال کے لئے ہر چیز نئی اور بہترین پیک کی ہوئی۔ استعمال کیا اور پھینک دیا۔ بعض جگہ ہم نے دیکھا کہ چینی (شکر) چھوٹی باٹلوں میں رکھی رہتی ہے۔ اوپر ڈھکن میں چھوٹا سا سوراخ ہوتا ہے اور اس پر ایک ڈھکن رہتا ہے اس کو ہاتھ سے دبانے سے سوراخ کھل جاتا ہے اور پھر اس شیشی کو ٹیڑھا کر کے شکر چائے وغیرہ میں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن اس باٹل میں نہ تو چمچہ ڈال سکتے ہیں اور نہ اندر کی شکر کو ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ ان طریقوں کی وجہ سے نہ تو کوئی مکھی دکھائی دیتی ہے۔ اور نہ مچھر۔

ہمارا سفر جاری رہا۔ ہوسٹن پر بس ۱۲ بج کر ۵ منٹ دن میں پہونچی۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑا بس اسٹیشن آنے والا ہوتا تو بس ڈرائیور جسے یہاں آپریٹر کہتے ہیں۔ مائیک (یہاں ہر بس پر مستقل مائیک لگا رہتا ہے ) پر اناؤنس کرتا ہے کہ اب تھوڑی دیر میں فلاں اسٹیشن پر بس پہونچنے والی ہے۔ یہاں فلاں فلاں مقام کو جانے والے بس بدل لیں۔ فلاں فلاں مقام کی بسیں فلاں فلاں وقت فلاں پلیٹ فارم یا زون سے نکلیں گی۔ مزید تفصیل اسٹیشن کے ٹکٹ کاؤنٹر سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ اترتے وقت بس کی سیڑھیوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ اور یہ بھی خواہش کرتا ہے کہ بس جب تک بالکل تھم نہ جائے اس وقت تک سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں۔ بس کو اپنے مقررہ زون یا پلیٹ فارم پر روک دینے کے بعد وہ دروازہ کھول کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے تا کہ اترنے والوں کو سہارا دے سکے اور حقیقت میں کمزور اور بوڑھے مسافرین کا ان کے ہاتھ میں لیا ہوا سامان پہلے اپنے ہاتھ لیتا ہے اور پھر ان کو سہارا دے کر نیچے اتارتا ہے اورسامان واپس کرتا ہے۔

ہوسٹن کو آئیل کی بندرگاہ کہا جاتا ہے۔ آئیل نے ہوسٹن کو بہت مالدار شہر بنا دیا ہے۔ اس شہر کے ایک میل کے  حلقے میں دو سو پچاس سے زیادہ آئیل اور قدرتی گیاس کے ذخائر ہیں۔ یہاں پائپ لائنوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ ان پائپوں کے ذریعہ روزانہ تقریباً ۲۰ لاکھ بیرل آئیل ایک درجن سے زائد تیل صاف کرنے والے کارخانوں کو پہونچتا ہے۔ پھر کروڈ اور فائن آئیل ٹیکروں یا پائپ لائینوں کے ذریعہ شمال مشرقی امریکہ کے صنعتی شہروں کو پہونچایا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ دور دراز کے مقامات کو ٹینکروں سے آئیل پہونچانا بمقابلہ پائپ لائینوں کے سستا پڑتا ہے۔ لیکن جنگ کے دوران پائپ لائینوں کے مقابلہ میں ٹینکرس دشمنوں کے گولہ بارود کا آسانی سے نشانہ بنتے ہیں۔

یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے الیکشن کا زمانہ ہے۔ لیکن سیاح کے لئے یہاں کوئی خاص بات نہیں معلوم ہوتی۔ ہندوستان کی طرح نہ انتخابی جلسے دکھائی دیتے ہیں اور نہ مائیک پر وقت بے وقت تقریروں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ نہ دیواروں پر کچھ لکھا ہے اور نہ بڑے بڑے اشتہار لگے ہیں۔ البتہ نیویارک کی زیر زمین ٹرینوں میں ہم نے خوبصورت سائین بورڈ دیکھے اس میں لکھا تھا کہ فلاں کی الیکشن کمیٹی نے یہ مضمون منظور کیا ہے۔ اور اس نے اس کا خرچ بھی برداشت کیا ہے۔ اس کے علاوہ جب ہماری بس بعض چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاؤں سے گزر رہی تھی تو کہیں کہیں کچھ بڑے بورڈ مختلف امیدواروں کی تائید میں دکھائی دئے۔ البتہ ٹیلی ویژن۔ ریڈیو اور اخبارات میں انتخابات کی ہماہمی دکھائی دیتی ہے۔ موٹروں پرجو پہلے انتخابات میں چٹھیاں چپکائی جاتی تھیں وہ اب غائب ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس مرتبہ اخراجات الیکشن میں قانوناً کمی کر دی گئی ہے۔ البتہ ہم نے ہوسٹن میں ایک ہوائی جہاز دیکھا۔ اس کے دم سے ایک بڑا جھنڈا ہوا میں اڑ رہا تھا۔ اس پر فورڈ اور ان کے ساتھی کو صدارت اور نائب صدارت کے لئے ووٹ دینے کی خواہش کی گئی تھی۔ ہم نے نیویارک کے قریب انگلوڈ میں اپنے عزیز کے مکان میں ٹیلی ویژن پر ایک مکالمہ جمی کارٹر اور جیرالڈ فورڈ کے درمیان دیکھا تھا ہمارے لئے فورڈ کا طرز تخاطب زیادہ پسندیدہ اور ان کے جملے زیادہ قابل فہم تھے۔ جمی کارڈر بہت زیادہ تیز بولتے ہیں۔ اس لئے ہم جیسے غیر امریکی کے لئے ان کی ہر بات سمجھنا ذرا مشکل تھا۔ عام طور پر یہ کہا جا رہا تھا کہ فورڈ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ سب کچھ نکسن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر ہے۔ اپنی اپچ اور تحریک پر نہیں۔ ٹرینوں میں ہم نے جو اشتہار جمی کارٹر کی تائید میں دیکھے تھے ان میں زیادہ زور اس پر تھا کہ تبدیلی نظم ونسق کے لئے کارٹر کو و وٹ دیا جائے۔

ہم کل صبح ۹ بجے سے نکلے ہوئے ہیں۔ تقریباً ۲۷ گھنٹے کا بس کا سفر ہو چکا ہے۔ میں انسٹھویں سال میں داخل ہو گیا اور بیوی پچاس کے دہے میں ہیں۔ کافی تھک گئے ہیں۔ کم از کم ایک رات کے آرام کی ضرورت تھی۔ لیکن اب ہم ڈلاس جا رہے تھے جس کے متصل ارونگ میں ہماری بیٹی اور داماد رہتے ہیں۔ ہماری اس لڑکی کی شادی ۲۱/فبروری ۱۹۷۱ کو ہوئی اور اس نے ایک ماہ بعد ہی ۲۱/مارچ کو حیدرآباد چھوڑا۔ ساڑھے پانچ سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ اس کی ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔ اس لئے اشتیاق ملاقات جتنا ہم اس کے مقام سے قریب ہوتے جا رہے ہیں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہم آرلینڈو سے میامی بیچ جانا چاہتے تھے لیکن لڑکی سے جلد ملاقات کرنے کے خیال سے ہم نے وہ ارادہ ترک کر دیا۔ اس طرح ہوسٹن سے ڈلاس کے لئے اپنا سفر جاری رکھا۔ بس تقریباً پون بجے نکلی۔ اس کی رفتار سست تھی اور یہ بہت چھوٹے چھوٹے مقامات پر رک رہی تھی۔ اس کا نمبر ۱۵۳۱ تھا۔ اور اس کے آپریٹر جارج گپسن تھے۔ چھوٹے چھوٹے مقامات پر جہاں گرے ہاؤنڈ کے قلی نہیں تھے یہ آپریٹر صاحب ہی سامان اتار رہے تھے۔ اور اسٹاپ پر رکھا ہوا سامان اٹھا کر اور بعض وقت اپنے کاندھے پر لاد کر بس میں رکھ رہے تھے۔ بس میں جو سامان رکھا جاتا ہے اس کی جگہ نشستوں کے فرش کے نیچے ہے۔ بس کے نیچے ہر دو طرف اس کے خانے بنے ہیں۔ ہندوستان میں جس طرح چھت پر سامان رکھا جاتا ہے۔ اس طرح یہاں نہیں رکھا جاتا۔ سامان رکھنے کے دو تین خانے ہوتے ہیں۔ جب ایک طرف کا خانہ پر ہو جاتا ہے یا پھر ایک خاص مقدار سامان کی ایک طرف رکھ کر دوسرے بازو کا دروازہ کھول کر ادھر بھی سامان رکھ دیا جاتا ہے۔ ان خانوں کے دروازے مقفل کر دئے جاتے ہیں۔ سامان محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور اس پر گرد وغیرہ جمنے کا کوئی سوال نہیں رہتا۔ بس کے بڑے اسٹیشنوں پر جہاں زیادہ سامان رکھا اور اتارا جاتا ہے وہاں مقررہ قلی ہوتے ہیں۔ وہ سامان اتار لیتے ہیں۔ اور مسافرین کے مثنی دینے پر ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اگر سامان بس سے اتر جانے کے بعد مسافر فوری نکلے یا پھر سامان پارسل سے بھیجا ہوا ہو تو قلی اس کو بیاگیج روم لے کر چلے جاتے ہیں۔ وہاں سے بھی سامان مثنی ٹیاگ دینے پر  حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ہم نے جتنے بھی قلی بڑے اسٹیشنوں پر دیکھے وہ سب کالے ہی تھے۔ مسافروں کو کسی قسم کی حمالی قلی کو دینی نہیں پڑتی۔ سب  حمال بس سروس کی نوکری میں رہتے ہیں۔ اگر یہ شبہ ہو کہ مسافر کے پاس مقررہ مقدار سے زائد سمامان ہے تو تول کر سرچارج لے لیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر جہاں مسافر کو اترنا ہے اس کا ٹیاگ سامان کو لگا کر اس کا مثنی اس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ اس کے سامان کا ٹیاگ اس کو مل جائے تو پر اس کو اپنے سامان کے فکر کی ضرورت نہیں۔ منزل مقصود پر پہونچ کر وہ اپنا ٹیاگ بتا کر اپنا سامان واپس لے سکتا ہے۔ قلی عام طور پر بیاگیج روم سے بس تک اور بس سے بیاگیج روم تک سامان گاڑی میں رکھ کر لے جاتے ہیں۔

راستے میں کاشت کے کھیتوں سے زیادہ چراگاہیں ملیں ، اکثر چراگا ہوں میں سفید ، کالی اور سرخ گائیں چر رہی تھیں۔ ہر چراگاہ کے اطراف لوہے کے تاروں کی باڑھ لگی ہوئی ہے۔ ہم نے کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سڑک سے کافی سفر کیا ہے۔ لیکن ہم نے کہیں بھی سڑک پر کوئی جانور نہیں دیکھا۔ صرف ایک جگہ ایک گاؤں کے قریب تین کتے سڑک کے نزدیک دکھائی دئے۔ سفر میں ہم کو اکثر جنگل ملے۔ یہ سب جنگل کسی نہ کسی ترتیب سے اگائے گئے ہیں۔ اور یہ سیدھے اور لانبے درختوں پر مشتمل ہیں۔ ہم نے یہاں دیکھا کہ لکڑی کا کافی استعمال کیا جاتا ہے۔ لائیٹ کے اکثر کھمبے لکڑی کے ہیں۔ اس طرح کھیتوں اور چراگاہوں کے اطراف جتنی باڑھیں لگائی گئی ہیں ان کے سب تار لکڑی کے ڈنڈوں ہی سے پیوست کئے گئے ہیں۔ مکانات کی تعمیر میں بھی لکڑی کا بہت استعمال کیا جاتا ہے۔ دروازے اور کھڑکیوں  کے علاوہ نیچے کے فرش اور دیواروں کو بھی لکڑی کے تختوں سے ڈھانکا جاتا ہے۔ ان لکڑی کے تختوں کو وارنش اور پینٹ وغیرہ کر کے خوبصورت اور چکنا کر دیا جاتا ہے۔

۲۸/اکتوبر کی شام میں ساڑھے سات بجے کے بعد ہماری بس ڈلاس کے گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن پر پہونچی۔ سامان وغیرہ اتار کر ہم نے اپنی لڑکی کے گھر ٹیلی فون کیا۔ ان کو ہم نے بتایا تھا کہ ہم ۲۹/ تک آئیں گے۔ گھر پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ لیکن کسی نے اٹھایا نہیں۔ اس طرح ہم نے چار پانچ مرتبہ ٹیلی فون کیا۔ لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ یہاں ٹیلی فون کے لئے دس دس سینٹ کے دو سکے ڈالنے پڑتے ہیں۔ اگر دوسری طرف کوئی ریسیور نہ اٹھائے اور بات کرنے والا اپنا ٹیلی فون منقطع کر دے تو ڈالے ہوئے پیسے نیچے خانے میں واپس آ جاتے ہیں۔ اور ٹیلی فون کرنے والے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں پہلے ٹیلی فون ملا کر دوسری طرف سے جواب آنے پر سکے ڈالے جاتے ہیں۔ پیسے ڈالنے میں کچھ تاخیر ہو ہی جاتی ہے۔ اگر دوسری طرف سے بات کرنے والا ایک آدھ مرتبہ ہیلو کہہ کر ٹیلی فون رکھ دے تو بات کرنے والے کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایسی صورت نہیں ہے۔ جوں ہی دوسری طرف آدمی ریسیور اٹھائے ڈالے ہوئے سکے مشین کے اندرونی حصہ میں چلے جاتے ہیں۔ اور بات کرنے والے کا ربط اپنے مخاطب سے بلا کسی تاخیر کے ہو جاتا ہے۔ ٹیلی فون کے کسی بوتھ سے دور دراز مقام بھی Collectکال کیا جا سکتا ہے۔ دس دس سینٹ کے سکے ڈال کر دور دراز کا نمبر گھمانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مخاطب کے بجائے ٹیلی فون آپریٹر آپ سے پوچھے گی کہ آپ کس سے کس طرح بات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو مخاطب کا اور اپنا نام بتانا پڑے گا۔ اور کہنا پڑے گا کہ یہ کال کلکٹ ہے یعنی مخاطب اس کا بل ادا کرے گا۔ آپریٹر آپ کے مخاطب سے بات کرے گی اور بتائے گی کہ فلاں صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ کلکٹ کال ہے۔ آپریٹر اور مخاطب کی گفتگو کو ٹیلی فون کرنے والا بھی سنتا ہے۔ مخاطب اگر ہاں کہ دے تو پھر بات کرنے والے اور مخاطب کا ربط راست قائم ہو جاتا ہے اور دس دس سنٹ کے دو سکے واپس خانے میں آ جاتے ہیں۔ اس طرح یہ کال بات کرنے والے کے لئے بالکل مفت پڑتی ہے۔

ہماری لڑکی اور داماد اپنے گھر دس بجے کے قریب آئے۔ ان سے بات ہوئی۔ ہمارا بس اسٹیشن ڈلاس میں تھا اور وہ ارونگ میں ان کے آتے آتے پون گھنٹہ لگ گیا۔ گھر جا کر کھانا کھا کر سوتے سوتے رات کا ڈیڑھ بج گیا۔ یعنی ۲۹/ اکتوبر شروع ہو گئی۔

جمعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۶ء

Ayt No./30 - 316 W5th St  Irving Texas U.S.A. 75060

آج ہماری لڑکی کام پر رہی۔ دوپہر میں وہ کچھ گروسری (اشیائے خوردنی) خرید کر لائی اور تھوڑا سا کھانا کھا کر پھر کام پر چلی گئی۔ واپسی اس کی شام ساڑھے چھے بجے ہوئی۔ آتے ہوئے وہ اپنی بچی کو ساتھ لے آئی۔ جس نرسری میں اس کی بچی پڑھتی ہے۔ اس میں ہماری نواسی ہی سب سے آخری بچی ہوتی ہے جس کو ہماری لڑکی وہاں سے لے لیتی ہے۔ بعض وقت جب ذرا زیادہ دیر ہو جاتی ہے تو نرسری کی اس عورت کو جو ہماری نواسی کے لئے ٹھیری رہتی ہے۔ ہماری لڑکی کو اپنی موٹر میں اس کے گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہاں کی زندگی کافی مصروف ہے۔ ہماری لڑکی کو روزانہ صبح میں ساڑھے سات بجے برائے نام ناشتہ کر کے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ اس سے پہلے خود اس کو تیار ہو کر اپنی بچی کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ کام پر جاتے ہوئے وہ پہلے اپنی بچی کو نرسری میں چھوڑ جاتی ہے۔ چونکہ جس کلینک میں وہ کام کرتی ہے گھر سے قریب ہے۔ وہ دوپہر میں کھانے کے لئے گھر آ جاتی ہے۔ شام میں آتے آتے ساڑھے چھ ، سات بج جاتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کو شنبہ اور اتوار چھٹی رہتی ہے۔ اس وقت پورے ہفتہ کے لئے خریدی ، کپڑوں کی دھلوائی و استری، گھر کی صفائی، سنیما میں ایک ادھ پکچر بینی تبدیلی کے لئے باہر جا کر کسی رسٹونٹ میں کھانا کھانا۔ اپنے عزیز واقارب کو خطوط لکھنا اور اسی قسم کی مصروفیات ہوتی ہیں۔

یہاں مکانوں کے کرائے زیادہ ہیں۔ لیکن سعودی عرب کی طرح نہیں۔ مکانوں کے ملنے میں بھی زیادہ دقت نہیں ہوتی ہے۔ ہم جس میں ہیں وہ دو بیڈ روم کا آراستہ مکان ہے۔ سوائے باورچی خانے کے دونوں کمروں اور ڈرائینگ روم میں دیوار سے دیوار تک قالین بچھا ہوا ہے۔ گرم اور ٹھنڈا پانی نلوں میں ۲۴ گھنٹے آتا ہے۔ گرم رکھنے کا تعلق کسی دور مرکز سے ہے۔ البتہ ہر مکان میں ہیٹ کو کم و زیادہ کرنے کا کنٹرول موجود ہے۔ باورچی خانہ میں دو سنک ہیں اور غلہ وغیرہ رکھنے کے لئے کئی چھوٹی چھوٹی صاف ستھری شیلف نما الماریاں جو سنک اور ترکاری وغیرہ کاٹنے کے پلیٹ فارم کے اوپر بنائی گئی ہیں موجود ہیں۔ یہا ریفریجریٹر کے علاوہ وقت واحد میں چار ہانڈیاں پکانے والا الکٹرک چولھا بھی موجود ہے۔ ہر اسٹور پر چار موٹے بجلی کے تار گول گول گھمائے گئے ہیں۔ ہر اسٹور کے لئے چاروں تار گرم ہو جائیں گے۔ اور اس سے کافی ہیٹ (حرارت) نکلے گی۔ دو یا تین تاروں کو گرم کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ بٹن ہیں۔ سب سے چھوٹے حلقے کے تار کو گرم کرنے کے لئے بٹن پر صرف نیم گرم لکھا ہے۔ کسی اسٹو کا جب یہ بٹن دبایا جاتا ہے تو اس پر رکھی ہوئی ہانڈی پکتی نہیں بلکہ صرف گرم رہتی ہے۔ ان سب بٹنوں کے علاوہ ہر اسٹو کے لئے ایک بٹن ہوتا ہے جس پر لال نشان بنا ہے جب تک کوئی اسٹو بھی کم یا زیادہ جل رہا ہو۔ اس کا لال بٹن اوپر رہے گا جو اس بات کی نشانی ہے کہ خطرہ جاری ہے یعنی بجلی جل رہی ہے۔ جب اسٹو کو بالکیہ بجھا دینا ہوتا ہے تو لال بٹن دبا دیتے ہیں۔ جس سے لال نشان دب جاتا ہے اور نظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ یعنی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس لئے سوتے وقت یا باہر جاتے وقت چولھے پر نظر ڈال لیتے ہیں کہ کسی اسٹو کا لال نشان اوپر تو نہیں ہے۔ کمروں میں پلنگ ، گدے۔ دیوان خانے میں کتابوں کے لئے شیلف ، صوفہ اور فرنیچر۔ باورچی خانہ ہی میں ڈائننگ یبل اور کرسیاں موجود ہیں۔ یہ سب سامان مالک مکان کی طرف سے فراہم کیا گیا ہے۔ کرایہ دار کو اس مزین مکان کا ماہانہ کرایہ ڈیڑھ ڈالر دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بجلی اور ہیٹنگ کے اخراجات خرچ کے حساب سے دینے پڑتے ہیں۔

رات میں Pancho ایک میکسیکن رسٹورنٹ کو میکسن بوفے کھانے کے لئے گئے۔ یہاں ہر بالغ کو کھانے کی قیمت  دو ڈالر دینی پڑتی ہے۔ ایک قیمہ میں بھری سخت پوری کے علاوہ کئی قسم کے کھانے موجود تھے۔ جیسے ہمارے پاس بگھارا کھانا ہوتا ہے۔ ویسا چاول بھی تھا۔ اپنے داماد کو لیتا ہوا دیکھ کر ہم دونوں نے بھی اپنی اپنی رکابی میں وہ چیزیں لے لیں۔ لیکن ہم دونوں بھی پوری طرح نہیں کھا سکے۔ کچھ نہ کچھ اپنی اپنی پلیٹ میں بچادینا پڑا۔ ہم کو بہت کم مقدار لینی چاہئے تھی۔ ضرورت ہوتی تو اور لے سکتے تھے۔ میٹھے میں ان کے پاس صرف سادی پوری ہوتی ہے۔ اس کو خالص شہد اور مسکہ لگا کر کھا سکتے ہیں۔ اس کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ تین ، چار یا جتنا بھی چاہیں کھا سکتے ہیں چونکہ کھانا زیادہ کھا چکے تھے ہم صرف ایک ہی پوری شہد اور مسکہ کے ساتھ کھا سکے۔ دوسری رسٹورنٹوں کے مقابلہ میں یہاں کا کھانا سستا ، غیر محدود اور ہندوستانی مذاق سے ملتا جلتا ہے۔

ہم لوگ سکس فلاگس مال کو بھی گئے۔ ایک ہی بلڈنگ میں مختلف سامان کی جب دوکانیں ہوتی ہیں تو اس کو مال کہا جاتا ہے یہاں شاپنگ سنٹر کے سامنے بہت بڑا حصہ موٹروں کو ٹھیرانے کے لئے چھوڑنا پڑتا ہے۔ بلا مبالغہ ایسے حلقہ میں سیکڑوں موٹریں کھڑی رہتی ہیں۔ ارلنگٹن میں ایک نیا بسٹ پراڈکٹس شاپنگ سنٹر کھلا ہے۔ اس میں بعض وقت بعض چیزیں بہت سستی ملتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے داماد صاحب نے ۱۶ ڈالر کی ٹیبل گھڑی تقریباً دس ڈالر میں خریدی۔ اس طرح ہم نے بھی دو گرم اور واٹر پروف کوٹ تقریباً دس ڈالر میں اورنگ کے ،  کے۔ مارٹ اسٹور سے سیل پر خریدا۔ اس کی اصلی قیمت پندرہ ڈالر اٹھاسی سنٹ فی کوٹ تھی۔ معلوم ہوتا ہے یہ اسٹور والے کبھی بھی کوئی چیز زیادہ دنوں تک اسٹور میں رکھنے کے قائل نہیں۔ جہاں انہوں نے دیکھا کہ کوئی چیز رک رہی ہے تو اس کو فوری سیل پر لے آئیں گے یعنی اس کی مقررہ قیمت میں کمی کر کے بیچ دیں گے۔ اور یہ کام بالکل صداقت کے ساتھ  ہوتا ہے۔ اس لئے بہت سے لوگ سیل پر اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے منتظر رہتے ہیں۔

۳۱/اکتوبر کو ہم لوگ تقریباً گھر ہی پر رہے۔ یکم نومبر کو ہم ساوتھ ویسٹ بینک اینڈ ٹرسٹ گئے اور ڈرائیو ان کاؤنٹر کا طریقہ عمل دیکھا۔ ویتھ ڈرال کاؤنٹر پر پیسے مل جاتے ہیں۔ موٹر چلانے والوں کو نیچے اترنے کی ضرورت نہیں پڑتی کریڈٹ جمع کرنے کی جگہ پر جب جاتے ہیں تو وہ ہاں ایک بڑا ڈبہ جیسا بنا رہتا ہے۔ اس میں ایک چھوٹا ڈبہ رہتا ہے۔ اس کا منہ کھول کو نوٹ اور کریڈٹ سلپ رکھ دینی پڑتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص اپنے اکاؤنٹ میں ۸۰ ڈالر کے لئے سلپ پر کر کے چھوٹے ڈبے میں وہ سلپ اور سو ڈالر کا نوٹ ڈال دے گا۔ اور پھر اس کا منہ بند کر کے بڑے ڈبے میں مقررہ جگہ پر رکھے دے گا۔ وہ ڈبہ ویاکیوم کے ذریعہ کاؤنٹر پر چلا جائے گا۔ وہ کاؤنٹر والی (عام طور پر عورتیں ہی یہ کام کرتی ہیں ) اس کا پورا اندراج رجسٹر وغیرہ میں کر کے کریڈٹ سلپ پر  مہر لگا اور باقی بیس ڈالر بھی چھوٹے ڈبے میں ڈال کر واپس کر دے گی۔ وہ ڈبہ کسی خود کار طریقہ سے جمع کرنے والے کے پاس واپس آ جائے گا۔ وہ ڈبہ کھول کر کریڈٹ اور سلپ اور پیسے واپس لے لے گا۔ اور ڈبہ اپنی جگہ پر دوسرے آنے والے کے لئے رکھ دے گا۔ اگر کاؤنٹر والی بھی کچھ کہنا یا پوچھنا چاہتی ہو تو اس طرف سے پوچھ سکتی ہے۔ یہ سب کام دو تین منٹ میں ہو جاتا ہے۔ اور موٹر آگے بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کے پیچھے جو موٹر منتظر تھی وہ آگے بڑھ کر اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ اس طرح رقم جمع کرنے اور واپس لینے کے کیو الگ الگ رہتے ہیں۔ اس ویاکیوم کے سسٹم کے علاوہ کھڑکی والا سسٹم بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتا ہے۔ راست کریڈٹ سلپ دے کر اندراج کروا کر واپس لے لیتے ہیں۔ جب کھڑکی پر رقم واپس لی جا رہی ہو تو چک پر دوبارہ دستخط لے کر کاؤنٹر والی کھاتہ رکھنے والے سکشن سے کال کر کے پوچھ لیتی ہے کہ اکاؤنٹ میں کتنا باقی ہے۔ اگر باقی ہے تو رقم چک اس میں لکھا کر برداشت کرنے والے کو رقم دے دیتی  ہے۔ یہ کام بھی آناً فاناً میں ہو جاتا ہے۔

ہم ڈلاس ایرپورٹ پر گئے۔ گو یہ انٹرنیشنل ایرپورٹ نہیں ہے لیکن معلوم ہوا کہ وسعت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ایر پورٹ ہے۔ یہاں مختلف ایرلائنس کے الگ الگ ٹرمینل عمارتیں ہیں۔ بعض ٹرمینل عمارتیں ایک سے زیادہ ایر لائینس کے کام آتی ہیں۔ بعض ٹرمینل بلڈنگ میں  دس بارہ یا ۱۵ ، ۲۰ گیٹ بھی ہوتے ہیں۔ ہر گیٹ پر کچھ نہ کچھ دوکانیں لگی رہتی ہیں۔ ہوائی جہاز پر چڑھنے اور اس سے اترنے کے لئے کنکٹر لگے ہوئے ہیں یعنی ٹرمینل عمارت کے نکڑ سے گزر کر سیدھے ہوائی جہاز پر پہونچ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہوائی جہاز سے ٹرمینل بلڈنگ میں پہونچ جاتے ہیں۔

ایک ٹرمینل عمارت سے دوسری ٹرمینل عمارت کو جانے یا ہوٹل ، یا کسی پارکنگ ایریا (علاقہ) وغیرہ کو جانے کے لئے مختلف ٹرامیں  بلو ، یلو اور ریڈ رنگ کی الکٹرک سسٹم سے چلتی رہتی ہیں۔ ٹرام میں بیٹھنے کے گیٹ پر اکثر معلومات کاؤنٹر بھی ہوتا ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی کو ڈلاس ایرلائن کی ٹرمینل بلڈنگ سے امریکن ایرلائنس کی ٹرمینل بلڈنگ کو جانا ہے۔ معلومات کاؤنٹر پر پوچھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ کس رنگ کا بورڈ روشن ہونے پر ٹرام کار میں بیٹھا جائے۔ مختلف راستوں پر ٹرام کاریں الکٹرانک طریقہ پر چلتی ہیں۔ جس راستے کی ٹرام کار آ رہی ہو گی اس کا بورڈ پیلا۔ اودا۔ یا لال روشن ہو جائے گا۔ ہر رنگ کے بورڈ پر لکھا رہے گا کہ اس بورڈ کے روشن ہونے پر جو ٹرام کار آئے گی وہ آگے کہاں کہاں رکے گی۔ اس سے کوئی بھی آسانی سے معلوم کر سکتا ہے کہ اس کو اپنے مقام پر جانے کے لئے کس رنگ کے ٹرام میں بیٹھنا چاہئے۔ اس کار میں نہ تو کوئی ڈرائیور ہوتا ہے اور نہ کوئی کنڈکٹر البتہ اس میں چڑھنے کے لئے پلیٹ فارم پر آنا پڑتا ہے۔ اس وقت ہر فرد کو ایک اڑڈنڈے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ اڑڈنڈا اس وقت تک نرم نہیں پڑتا جب تک اس کے سوراخ میں ۲۵ سنٹ کا سکہ نہ ڈالا جائے۔ سکہ ڈالنے کے بعد جب ایک شخص گزر جائے گا تو دوسرے شخص کو بھی گزرنے سے پہلے ۲۵ سنٹ کا سکہ سوراخ میں ڈالنا ہو گا۔ اس طرح ہر شخص کو جو پلیٹ فارم میں داخل ہو گا ۲۵ سنٹ کا سکہ سوراخ میں ڈال کر اڑڈنڈے کو نرم کرنا پڑے گا۔ پلیٹ فارم سے باہر نکلنے کے لئے بھی اڑڈنڈے سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ نرم رہتا ہے۔ یعنی واپس آنے والوں کے لئے پیسے ڈال کر اڑڈنڈوں کو نرم کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب ٹرام کار پلیٹ فارم پر آتی ہے تو وہ پلیٹ فارم کے دروازے کے بالکل روبرو تھم جاتی ہے اور پھر پلیٹ فارم اور ٹرام کا دروازہ ساتھ ساتھ کھل جاتا ہے۔ اور اتنی دیر کھلا رہتا ہے کہ مسافر اتر اور چڑھ سکتے ہیں۔ پھر دروازے بند ہو جاتے ہیں اور ٹرام کار چل پڑتی ہے۔ جب دوسرا اسٹیشن یا اسٹیج آنے لگتا ہے تو کار میں ریکارڈ کی ہوئی آواز اس بات کی اطلاع دیتی ہے کہ کونسا اسٹیشن آ رہا ہے اور وہ کن ایرلائنس سے متعلق ہے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔ ایرلائنس کے علاوہ اسٹیجس موٹر پارکنگ ایریا۔ ہوٹل اور کئی اغراض کے لئے بنے ہوئے ہیں۔ ایک ہی لائین پر کئی کاریں چلتی رہتی ہیں لیکن وہ کبھی ٹکراتی نہیں۔ الکٹرانک سسٹم سے علیحدہ رکھی جاتی ہیں۔ اگر سامنے کے اسٹیج پر کوئی ٹرام کار اسی لائن پر رکی ہوئی ہے تو پیچھے سے آنے والی ٹرام کار خود بخود دھیمی ہو جاتی ہے بلکہ کچھ فاصلہ پر آ کر بالکل رک جائے گی اور جب سامنے کی ٹرام کار ہٹے گی تو پیچھے کی آگے بڑھے گی۔

ڈلاس میں آج ہم جان ایف کنیڈی میوزیم بھی گئے ہم نے وہ بلڈنگ بھی دیکھی جہاں سے قاتل نے صدر امریکہ پر تین گولیاں چلائیں تھیں۔ وہ سڑک بھی دیکھی جہاں جان آف کنیڈی اور گورنر کینلی کو گولی لگی تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ میوزیم میں ’’ دی انکریڈیبل ہارس‘‘ فلم بھی دیکھیں لیکن یہ بائیس منٹ کی فلم ہونا بتایا گیا۔ ہمارے داماد صاحب کو اپنے کالج کو ساڑھے چار بجے جانا تھا اگر ہم فلم دیکھتے تو ان کو دیر ہو جاتی۔ ہو سکے تو کل دیکھیں گے۔

۲! نومبر۔ میری بیوی ، بیٹی اور میں پھر جان۔ ایف۔ کنیڈی میوزیم دیکھنے گئے۔ یہاں کے شہروں میں موٹروں کو پارک کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ہماری لڑکی کو موٹر میں دو ایک راؤنڈ میوزیم کے قریب لگانے پڑے کہ کوئی مناسب اور واجبی دام پر پارکنگ کی جگہ مل جائے۔ میوزیم سے قدرے دور ایک میٹر والی جگہ مل گئی۔ میٹر میں دو کوارٹر ( ۲۵ ، ۲۵ سینٹ ) اور ایک ڈیمس (دس سنٹ کا سکہ ) ڈال کر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پارکنگ لے لی گئی۔ میوزیم پہونچے تو معلوم ہوا کہ پکچر شروع ہونے والا ہے۔ یہ پکچر سلائیڈس میں بتایا جاتا ہے۔ سامنے ایک اونچے حصہ پر ڈلاس کا ایک چھوٹا شہر بنایا گیا ہے۔ پردہ پر جب سلائیڈ سے کوئی تصویر یا مقام بتایا جاتا ہے تو اس بنے ہوئے چھوٹے شہر میں اس مقام کے چھوٹے چھوٹے بلب روشن ہو جاتے ہیں۔ صدر کنیڈی کا ایرپورٹ پر اترنا لوگوں سے ملنا۔ موٹر میں بیٹھنا موٹروں کے قافلہ کا سڑکوں سے گزرنا پردہ پر سلائیڈس اور اس چھوٹے شہر کا متعلقہ جگہوں کو ان چھوٹے بلب کو روشن کر کے بتایا گیا۔ لوگوں کی آواز کو بھی خاص ڈھنگ سے سنایا گیا ہے۔ آخری سین کچھ اس طرح ہے۔ موٹروں کا قافلہ مین اسٹریٹ سے سیدھی طرف ہوسٹن اسٹریٹ کی طرف مڑتا ہے کچھ قدم آگے بڑھ کر ELM کی سڑک سے مل کر بائیں طرف مڑ جاتا ہے اور چند قدم ریلوے برج کی طرف جاتا ہے کہ اسٹیپر کی تین شوٹ (گولیوں ) کی آواز آتی ہے۔ صدر کنیڈی کا سر اپنی بیوی کے ہاتھو ں میں گرتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن بیوی کی آواز ’’ اوہ نو ‘‘ کو کسی سے کہلوا کر سنایا گیا ہے۔ بعد میں فرسٹ لیڈی کا موٹر کے پیچھے حصہ سے اترنا اور ایک سکیوریٹی آفیسر کا آگے بڑھ کر ان کو اترنے میں مدد دینا سلائڈس سے بتایا گیا ہے۔ یہ خونی ڈرامہ ۲۲/ نومبر ۱۹۶۳ء میں دن میں ۱۲ بجے کے بعد کھیلا گیا۔ قاتل کی گولیوں کے چلنے کے بعد اس جوان پریزیڈنٹ کو موٹر میں جس تیزی سے ہاسپٹل کی طرف لے جایا گیا اس کو بھی تیزی سے لائٹ روشن کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس فلم کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک حد تک ہم بھی اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ فلم کے بعد سیدھے ہاتھ کی طرف ایک اور ہال میں جانا پڑتا ہے۔ وہاں صدر کنیڈی کی تدفین کے مختلف مناظر کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں نائب صدر لنڈن جانس کا صدارت کے لئے حلف لینا کنیڈی کی نعش کو ڈھکی ہوئی حالت میں دیدار کے لئے رکھنا اور دیکھنے والوں کا غیر معمولی اژدہام۔ آخری رسوم میں بڑے بڑے سربراہان ممالک کی شرکت۔ صدر کنیڈی کے بڑے لڑکے (جو اس وقت بڑی مشکل سے تین چار سال کا ہو گا) کا اپنے باپ کے جنازے کو آخری سلام کرنا وغیرہ شریک ہیں۔

بعض جگہ اس جوان سال صدر کے کہے ہوئے اہم جملوں کو لکھا گیا ہے۔

قاتل آسولڈ کے متعلق بھی وہاں معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔ بندوق جس سے اس نے پریزیڈنٹ کو قتل کیا تھا وہاں دیوار پر لگائی گئی ہے۔ آسولڈ کی دو تصویریں بھی وہاں لگائی گئی ہیں یہ اس نے مارچ ۱۹۶۳ء میں اس بندوق کے ساتھ لی تھیں۔ ایک شوکیس میں جان۔ ایف۔ کنیڈی کے تعلق سے جتنی مشہور کتابیں لکھی گئی ہیں ان کو جمع کیا گیا ہے۔

میوزیم کی بلڈنگ اس مقام حادثہ سے بڑی مشکل سے سو ڈیڑھ سو قدم پر واقع ہے۔ جس بلڈنگ میں بیٹھ کر آسولڈ نے صدر کنیڈی کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا وہ اس کے بالکل سامنے ہے صرف ہوسٹن اسٹریٹ بیچ میں ہے۔

آج ریاستہائے متحدہ امریکہ کا پولنگ (رائے دیہی کا) دن ہے۔ صدر نائب صدر۔ گورنرس اور دوسرے ہاوسس کے نمائندوں کے انتخاب کے سلسلہ میں رائے دہی ہو رہی ہے۔ ہم کو شبہ تھا کہ شاید اس وجہ سے آج میوزیم بند ہو۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ ہماری لڑکی کے پاسپورٹ کے سلسلہ میں ایک آفس جو میوزیم کے قریب ہے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ پولنگ کی وجہ سے بند ہے ویسے دوکانیں وغیرہ سب کھلی ہیں ڈلاس اور ارونگ کی چہل پہل وغیرہ بھی حسب معمول ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ ہو سکے تو کوئی پولنگ بوتھ دیکھیں۔ اورنگ میں ایک اسٹور میں پوچھا کہ کہیں قریب ہی کوئی پولنگ بوتھ ہے تو وہاں اس سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ مغرب کے ساتھ ہی نتائج ٹیلی ویژن پر آنے لگے۔ رات میں جب ۹ بجے کے بعد ہم ڈلاس سے نکلے اس وقت جمی کارٹر کافی سبقت میں تھے۔ ہمارا دوسرا مقام El- Paso ٹیکساس ہے۔ یہ ٹیکساس اسٹیٹ کے بالکل مغرب میں ہے۔

Room No . 214 Hotel Mccoy

 123 Pioneer Plaza El Paso. Texas (79901)

Tel - 915 - 533 - 1681

چہار شنبہ۔ ۳/ نومبر ۱۹۷۶ء ۲/ نومبر کی رات کو ہم لوگ ڈلاس سے دس بج کر ۴۵ منٹ پر گرے ہاؤنڈ بس سے ال پاسو کے لئے نکلے۔ ایک گھنٹہ کے اندر ہی فوٹ ورتھ پہونچے۔ یہ شہر بھی کافی روشن دکھ رہا تھا۔ Abilene پر ۳ بجے صبح یعنی ۳/ نومبر کو جب بس پہونچی اور کچھ  وقفہ کے بعد نئے ڈرائیور صاحب بس میں آئے تو پاسنجروں نے نتائج کے تعلق سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا آئندہ صدر جمی کارٹر ہو گا۔ اس اعلان پر کئی پاسنجروں نے تالیاں بجائیں۔ ویسے رات میں بس تین چار مقامات پر رکی۔ کچھ پاسنجر اترے اور کچھ چڑھے لیکن بس میں کافی گنجائش تھی۔ کئی پاسنجر ہم لوگوں کی طرح دو دو نشستوں پر قابض تھے کہ ذرا پاؤں پھیلا کر سوسکیں۔ ناشتہ کے لئے بس صبح میں آٹھ بج کر ۴۵ منٹ پر Pecos. Tex پر رکی۔ لیکن اس سے پہلے ہم جب اوڈیسا سے ۷ بج کر ۱۵ منٹ پر نکلے تو شہر ختم ہونے کے بعد ہی ہم کو سڑک کے دونوں جانب سیکڑوں کی تعداد میں زمین سے لگے ہوئے پمپ دکھائی دئے۔ بعض پمپ چل رہے تھے اور بعض خاموش تھے۔ جو پمپ چل رہے تھے وہ زمین سے کیا نکال رہے تھے کچھ دکھ نہیں رہا تھا۔ کچھ کچھ فصل سے ہم کو آئیل کنٹینرس دکھائی دئے جیسے ہمارے پاس بعض ریلوے اسٹیشنوں سے پرے آئیل یا پٹرول رکھنے کے بڑے بڑے اسٹوریج ٹینک بنائے جاتے ہیں۔ ایک امریکن ہم سفر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ پمپ زمین سے آئیل نکال رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی چھپے ہوئے پائپ کے ذریعہ وہ آئیل پمپ ہو کر کسی اسٹوریج ٹینک میں جمع ہو رہا تھا۔ پیکاس سے ۹ بج کر ۱۵ منٹ پر نکل کر جب ہم ال پاسو پہونچے تو دوپہر کے ۱۲ بج کر ۲۰ منٹ ہو رہے تھے۔ یہ شہر ٹیکساس اسٹیٹ کے عین مغرب میں ہے۔ اس کا وقت ڈلاس کے مقابلہ میں ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ یعنی جب ال پاسو میں ۱۲ بج کر ۲۰ منٹ ہو رہے تھے اس وقت ڈلاس ایک بج کر ۲۰ منٹ تھے۔

گرے ہاؤنڈس بس اسٹیشن سے قریب ہی ہم پہلے گراؤنڈ ہوٹل گئے۔ وہاں دو بستر والے کمرے کا کرایہ سات ڈالر بیالیس سنٹ تھا۔ ہم کو وہاں کی صفائی پسند نہیں آئی ایک کمرہ تیسری منزل پر بھی دکھایا گیا۔ لیکن اس ہوٹل میں لفٹ نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم نے Mccoy Hotel دیکھی اس میں لفٹ ہے اور صفائی بھی بہترہے۔ اور کرایہ صرف ایک ڈالر اٹھاون سنٹ زیادہ یعنی چوبیس گھنٹے کے لئے دو بستر والے کے کمرے کے نو ڈالر۔ یہ ہوٹل بھی بس اسٹیشن سے بالکل قریب ہے۔ یہاں آ کر ٹھیرگئے۔ میں باہر جا کر اسٹور سے ڈبل روٹی کیلا اورموسمبی لے آیا۔ لڑکی نے ٹماٹر کی چٹنی اور اچار دیا تھا۔ کھا کر سوگئے۔ شام میں ال پاسو کے بازاروں کا چکر لگایا۔ سوائے ہوٹلوں ، شراب خانوں اور گروسری اسٹور کے سب دوکانیں بند ہو گئی تھیں۔ یہاں بھی سڑکیں چوڑی چوڑی ہیں۔ دوکانیں گو بند تھیں۔ لیکن اندر سے روشن تھیں۔ ٹرام کی پٹریاں بڑے بازاروں میں بچھی ہوئی ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کا چلنا بند ہو چکا ہے۔ یہ شہر ٹیکساس اسٹیٹ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بالکل سرحد پر ہے اس سے لگا ہوا میکسیکو کا ایک شہر Juares واقع ہے۔ ان دونوں شہروں کے درمیان صرف ایک پل ہے۔ یہاں کے لوگ ادھر ادھر کے لوگ یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہم لوگ بھی جانا چاہتے تھے۔ لیکن رات ہو رہی تھی اس لئے نہیں گئے۔ کل کوشش کریں گے۔

یہ ہوٹل والے کمرے کی کنجی کے لئے ایک ڈالر رکھ لیتے ہیں۔ کنجی جاتے وقت واپس کرنے پر ڈالر واپس کر دیا جاتا ہے۔

ال پاسو لاس اینجلس (کیلی فورنیا)

جمعرات ۴/ نومبر ۱۹۷۶ء آج صبح میں ہم میکسیکو کی سرحد تک گئے۔ عام پیدل لوگ جس طرف سے جا رہے تھے ہم بھی اسی طرف سے گئے۔ ہم یہ سمجھے تھے کہ جانے کے پیدل راستے پر بھی کوئی اسٹیٹس کا امیگریشن آفیسر بیٹھا ہو گا۔ اگر وہ ہم کو پاسپورٹ پر اندراج کئے بغیر جانے دے تو تین گھنٹوں میں میکسیکو کا جوریس شہر دیکھ کر آ جائیں گے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ میکسیکو کی سرحد پر دو اڑڈنڈے لگے ہیں لوگ ان کے خانوں میں پیسے ڈال کر ڈال کر ان کو نرم کر کے میکسیکو کی سرحد میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہاں کاؤنٹر پر صرف ایک عورت بیٹھی تھی اس کا کام غالباً چلر (خوردہ ) دینا اور یہ دیکھنا تھا کہ کوئی سکے ڈالے بغیر اڑڈنڈوں کو پھاند کر تو نہیں جا رہا ہے۔ ہم نے اس سے کہا کہ ہم متحدہ امریکہ کے شہری نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے پاس اس کا ویزا ہے۔ کیا ہم میکسیکو کی سرحد میں داخل ہو کر تھوڑی دیر کے لئے جو ریس شہر دیکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا جانے میں کوئی دقت نہیں البتہ واپس آتے وقت اسٹیٹس کے امیگریشن آفیسر پوچھ تاچھ کریں گے۔ وہ لوگ دوسری  طرف تھے یعنی میکسیکو سے آنے والے لوگوں اور کاروں کی دیکھ بھال اور باز پرس کر رہے تھے۔ ہم الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس طرف سڑک کراس نہ کرنے کے لئے کافی اونچی جالی لگی ہوئی تھی۔ ہم کو کافی فاصلہ پر واپس آ کر کراسنگ سے سڑک پار کرنا پڑتا تھا۔ چونکہ ہم میکسیکو کی سرحد میں داخل ہوئے بغیر واپس ہو رہے تھے ہم اسی راستہ پر تھے جو میسیکو کو جانے کا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اسٹیٹس کے دو پولیس آفیسر ہمارے سامنے سے گزرے اور ایک موٹر کی طرف جانے لگے۔ بعد کو غالباً ان کو ہم پر شبہ ہوا۔ ہم جس راستے سے واپس ہو رہے تھے عام واپسی کا راستہ نہیں تھا۔ ان میں سے ایک نے آ کر پوچھا کہ کیا ہمارے پاس پاس پورٹ ہے۔ ہم نے اس کو جواب دیا کہ ہم ہندوستانی شہری ہیں اور ہمارے پاس ہندوستانی پاسپورٹ ہے اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کا ’’ملٹیپل‘‘ (کئی مرتبہ آنے کا) ویزا ہے۔ ہم لاس اینجلس جا رہے ہیں۔ ایک رات کے لئے ال پاسو پر رک گئے تھے۔ ویسے ہماری بس یہاں سے دوپہر میں نکلنے والی  ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ اس وقت ہو سکے تو میکسیکو کا شہر جیوریس دیکھ لیں۔ لیکن جانے کے راستہ پر امریکہ کا کوئی امیگریشن آفیسر نہیں ہے۔ اس لئے ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم پاسپورٹ پر اندراج کرائے بغیر اسٹیٹس سے خارج ہو جائیں تو واپس آتے وقت ہم کو کوئی دقت تو نہیں ہو گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہماری باتوں سے مطمئن ہو گیا اور ہم سے پاسپورٹ کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ اگر ہمارے پاس اسٹیٹس میں کئی بار آنے کا ویزا ہے تو ’’اسٹیٹس‘‘ کے امیگریشن آفیسر سے لکھا کر ہم میکسیکو میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر اس نے معذرت کے لہجے میں کہا کہ چونکہ بہت سے لوگ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اس سرحد سے غیر قانونی طور پر داخل ہورہے ہیں اس لئے اس کو ہم سے کچھ پوچھنا پڑا۔ پھر ہم نے سونچا کہ اس تھوڑے سے وقت میں یہ ساری کھٹ پٹ کی کیا ضرورت ہے۔ کئی شہر ہم دیکھ چکے ہیں میکسیکو کا جوریس بھی ان جیسا ایک شہر ہو گا۔

ال پاسو میں مستعملہ کپڑے بہت سستے مل رہے تھے۔ ہمارے ملازمین اور ان کے بچوں کے لئے گرم کپڑے خرید کر اپنی ہوٹل کو واپس ہو گئے۔ کپڑے وغیرہ سامان میں جما کر پھر باہر نکلے کہ دوپہر کا کھانا کھائیں۔ میکسیکو کی غذائیں کچھ ہندوستانی غذا سے ملتی جلتی ہیں۔ پوچھنے ایک بڑھیا از راہ کرم ہمارے ساتھ ہو گئی اور ایک رسٹوران کو لے گئی۔ اور وہاں کے منیجر سے کہا کہ ہم باہر کے لوگ ہیں ہم کو واجبی دام پر اچھی غذا فراہم کی جائے۔ ایک میکسیکن کھانے کی پلیٹ منگوائی۔ اس کے ہم کو دو ڈالر آٹھ سنٹ دینے پڑے۔ یہ ہم دونوں کے لئے کافی ہو گئی۔ کھانے کے بعد ہم آرینج جوس (موسمبی کا شربت ) پینا چاہتے تھے۔ پوچھا تو ہم کو قیمت ذرا زیادہ لگی۔ مسیکائی ہوٹل کے بازو میں Oasis Restaurant ہے۔ اس میں جا کر آرینج جوس پیا۔ سب سے بڑی گلاس کے ساٹھ سنٹ اور اوسط کے چالیس سنٹ ہوئے۔ ٹیکس ۵ سینٹ لیا گیا۔ مانگنے پر شکر اور چمچا الگ دیا گیا کہ اگر مٹھاس کم ہو تو اور چینی ملائی جا سکتی ہے۔ اوسیس رسٹوران میں ہم نے دیکھا کہ بل میز پر رکھ دی جاتی ہے اور گاہک اسے لیکر کیاشیر کے پاس جا کر پیسے دے دیتا ہے۔ ایسا عام طور پر ہمارے پاس ویجیٹیرن ہوٹلو ں میں ہوتا ہے۔ اس طریقہ سے گاہک ٹپ دینے کے زحمت سے بچ جاتا ہے۔

ال پاسو سے ہماری بس کے نکلنے کا وقت ۲ بج کر ۱۵ منٹ تھا۔ لیکن وہ پندرہ بیس منٹ دیر سے نکلی۔ جس بس میں ہم سفر کر رہے ہیں اس کا نمبر 2443 ہے۔ چار بجنے کے قریب ہم ایک راستے سے گزرے جہاں Indian Jewellery Cheafert rates Indial Doll۳۵ سینٹ کے سائن بورڈ لگے تھے۔

تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ریسٹ ایریا کے بورڈ بھی ہوتے ہیں۔ شاہ راہ سے لگی ہوئی لیکن ذرا ہٹ کر ایک کمان نما سڑک بنا دی جاتی ہے۔ یہاں اگر کوئی موٹر۔ ٹرک۔ لاری وغیرہ کو روکنا چاہے تو روک سکتا ہے۔ ویسے ریسٹ ایریا کے علاوہ گاڑی وغیرہ کو شاہ راہ پر روکنا منع ہے۔ ایسے ریسٹ ایریا میں بیٹھنے اور پانی وغیرہ کی سہولت بھی ہوتی ہے۔

لارڈس برگ پر بس شام کے پونے چھ بجے پہونچی۔ مغرب ہو رہی تھی۔ ڈرائیور نے کہا کہ بس یہاں ۳۰ منٹ تک رکی رہے گی۔ مسافر چاہیں تو کھانا وغیرہ کھالیں۔ ہم صرف چائے پینا چاہتے تھے۔ دیکھا تو چاول اور آلو کا سالن جیسے ہمارے پاس قورمہ ہوتا ہے موجود تھا۔ بڑے بڑے کوفتوں کا سالن بھی تھا۔ بیوی کو بس سے نیچے بلا کر ہم نے چاول (یہاں سیویوں جیسی ایک ڈش ہوتی  ہے۔ ہمارے ہاں سیویاں باریک اور اس کے ٹکڑے زیادہ لانبے نہیں ہوتے لیکن یہاں سیویاں موٹی اور لانبی ہوتی ہیں ) سیویوں کی ڈش آلو اور کوفتوں کا سالن۔ ایک چھوٹی پاؤ (روٹی ) اور دو گلاس چائے کی لیں۔ ان سب کی قیمت ۳ ڈالر ۳۵ سنٹ ہوئی۔

اب ہمارا سفر سات ، آٹھ دن کا رہ گیا ہے۔ ٹورنٹو (کنیڈا) کو اپنے لڑکے پاس ۱۳/ نومبر تک پہونچنا ہے۔ وہاں سے ۲۱/ نومبر کو ہوائی جہاز سے لندن اور پھر لندن سے بمبئی یا تو راست یا پھر ایمسٹرڈم سے ہوتے ہوئے جانا ہے۔ لندن سے نکلنے سے پہلے ہم نے ایر انڈیا سے واپسی کے لئے لندن سے ایمسٹرڈم کے لئے ۲۲/ نومبر کو نشستیں محفوظ کرائی تھیں۔ اور اسی کا چارٹرڈ فلائٹ میں ایمسٹرڈم سے بمبئی کے لئے ۲۳ نومبر کو ہماری جگہیں محفوظ کی گئی تھیں۔ بعد کو لندن والے عزیز نے ہم کو اپنی لڑکے پتہ پر اطلاع دی کہ ایر انڈیا والوں نے ان کو مطلع کیا کہ ان کی ۲۳/ نومبر کی چارٹرڈ فلائٹ ایمسٹرڈم سے بمبئی کے لئے منسوخ کر دی گئی ہے۔ اگر ہم چاہیں تو لندن سے راست ہم کو بھی بمبئی بھیجا جا سکتا ہے۔ ہم نے اپنے عزیز کو اپنی رضا مندی لندی سے راست بمبئی جانے کے لئے لکھ بھیجی ہے۔ چونکہ ہماری واپسی ٹورنٹوں سے بمبئی تک ہوائی جہاز ہی سے ہے اور راستے میں کہیں ٹھیرنا نہیں ہے اس لئے خرچ میں زیادہ احتیاط نہیں کر رہے ہیں۔

راستے میں ہم کو کئی موٹلس ملے۔ یہ اکثر ایک ہی منزلہ کمرے ہوتے ہیں ، ٹھیرنے والے اپنی اپنی موٹروں کو اپنے اپنے کمروں کے سامنے کھڑا کر کے آرام کرتے ہیں۔ Phoenix Ariz پر پہونچنے کا وقت رات کے ۱۱ ج کر ۵۵ منٹ پر تھا۔ لیکن یہ دس منٹ پہلے ہی یعنی پونے بارہ بجے آ گئی۔ ڈرائیور (آپریٹر) نے مائیک (یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بسوں۔ ٹراموں اور زیر زمین ٹرینوں میں ڈرائیوروں کے پاس مائیک لگا رہتا ہے ) سے کہا کہ فلاں فلاں مقامات کو جانے والے یہاں بسیں بدل لیں۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ بسیں کن دروازوں (یہاں دروازوں پر نمبر لکھا رہتا ہے ان کو بعض وقت زون کہتے ہیں ) سے اور کس وقت نکلیں گی اور یہ بھی کہا کہ اس بس سے سفری جاری رکھنے والے یہاں بس سے اتر جائیں کیونکہ اس بس کو دھویا جائے گا اور اس کی سروس کی جائے گی۔ یہ بس یہاں سے چالیس منٹ کے بعد اسی دروازہ سے نکلے گی۔ اس میں کوئی قیمتی سامان چھوڑا نہ جائے اور یہ خیال رہے کہ اس بس کا نمبر ۲۴۴۳ ہے۔ بس رکنے پر وہ دروازہ کے قریب کھڑا ہو گیا۔ اور عورتوں اور معمر افراد کو اترنے میں مدد دینے لگا۔ اب  اس بس کی روانگی ۱۲ بج کر ۳۰ منٹ رات کو یعنی ۵/ نومبر کی صبح کو ہو گی۔

۵/ نومبر کو رات کے بارہ بجنے کے بعد جب بس دروازہ نمبر ۱۱ پر دھل دھلا کر اور صاف ہو کر رکی تو پاسنجر اس میں بیٹھ نہیں سکے اس لئے کہ اس کو چلانے والے ڈرائیور نہیں آیا تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ ان بسوں کو ڈرائیوروں کو جس کو یہاں آپریٹر کہا جاتا ہے ڈرائیور اور کنڈکٹر دونوں کا کام کرنا پڑتا ہے۔ بعض صورتوں میں وہ بس میں سوار ہونے سے پہلے ہی مسافروں کے ٹکٹ وغیرہ کی تنقیح کر لیتا ہے۔ یہاں کے قواعد کے لحاظ سے مسافر کے علاوہ کسی اور کا داخلہ بس یا لوڈنگ ایریا میں ممنوع ہے۔

ہم نے بس اسٹیشنوں اور پوسٹ آفسوں میں دیکھا کہ کیو (قطار ) میں کھڑے ہوئے لوگ کھڑکی سے دو چار قدم آگے ہی روک دئے جاتے ہیں وہاں لکھا ہوتا ہے کہ جب تک کوئی کھڑکی گاہک سے خالی نہ ہو جائے سامنے والا آدمی کھڑکی طرف نہ جائے۔ فرض کیجئے کہ کسی اسٹامپ یا بس کے ٹکٹ تین کاؤنٹروں پر فروخت ہو رہے ہیں اور تینوں کھڑکیوں پر ایک ایک گاہک کھڑا اپنا معاملہ طے کر رہا ہے۔ اس وقت منتظرین کی قطار خاموش ٹھیری رہے گی۔ یعنی قطار کا سب سے آگے کا آدمی اس سرحد کے پاس کھڑکی یا کھڑکیوں سے دو چار قدم پرے کھڑا رہتا ہے۔ جوں ہی کوئی کھرکی کسی گاہک سے خالی ہوئی قطار کا سب سے آگے کا آدمی اس کھڑکی کے پاس چلا جائے گا۔ اس طرح کاؤنٹر کے پاس وقت واحد میں ایک گاہک اور کلرک کے سوا کوئی نہیں رہے گا۔

ریاست کیلی فورنیا میں ہم رات میں ساڑھے تین وچار بجے کے درمیان داخل ہوئے۔ سرحد کے اندر بس روک دی گئی۔ اس پوسٹ کا ایک با ڈریس آدمی بس میں آیا اور اس نے بآواز بلند پوچھا کہ کسی کے پاس تر میوہ یا کھانے کی چیز تو نہیں ہے سب مسافر سو رہے تھے یا نیند کے غلبہ میں تھے۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اور پوچھنے والا شخص خود ہی آل رائیٹ کہہ کر بس سے نیچے اترگیا۔ ڈرائیور بس کا دروازہ بند کر کے بس چلانے لگا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اعلان کیا کہ کیلی فورنیا کا وقت ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ اس لئے وقت ملالیا جائے۔ اس وقت کسی نے بھی غالباً وقت نہیں ملایا۔ سب ہی اس وقت کے فرق سے واقف ہیں۔

جب صبح کے آثار شرع ہوئے تو ہم اٹھ بیٹھے۔ یہاں کی زمین کا منظر اس منظر سے بالکل مختلف ہے جو ہم ۲۰ ، ۲۲ دن سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ سیکڑوں ٹیلے ادھر ادھر ابھرے ہوئے ہیں۔ لیکن ان ٹیلوں پر کوئی درخت وغیرہ موجود نہیں۔ کھلی زمین پر جھاڑ چھوٹے ہیں لیکن ہر بھرے۔ تھوڑی دیر میں بورڈ پر نظر پڑی کہ لاس اینجلس ۷۳ میل پر ہے۔ بعض جگہ کرسمس ٹری کے بورڈ لگے تھے۔ ایک جگہ کرسمس ٹری فارم کا بورڈ تھا۔ ساتھ ہی ایسے درختوں کا کھیت جب ریور سائیڈ شہر آنے لگا تو اونچے اونچے اور پتلے درخت بہت نظر آنے لگے۔ یہ درخت ہمارے پاس کے سپاری کے درختوں کے جیسے تھے کچھ درخت چھوٹے لیکن ان میں کوئی پھل وغیرہ نہیں تھا۔ ریور سائیڈ شہر میں ایسے چھوٹے بڑے درخت کافی موجود ہیں۔ یہاں بس اسٹیشن کے پاس ایک کالے کے ساتھ ایک گوری لڑکی دکھائی دی۔ ہماری بیوی کا بیان ہے کہ لڑکی اپنے ساتھی کے کاندھے پر سر رکھی ہوئی تھی۔ کالے گورے لڑکا لڑکی بہت کم ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے پورے سفر میں ے دوسرا یا تیسرا واقعہ ہے۔

اس طرف بجلی کے تار لکڑی کے کھمبوں پر سے دوڑائے گئے ہیں۔ البتہ ہائی ٹیشن بجلی کے تار مینار نما اسٹیل کے کھمبوں سے دوڑائے گئے ہیں۔

صبح میں جس شاہ راہ سے ہم لاس اینجلس کی طرف جا رہے تھے اس میں ایک طرف کی سڑک پر چار قطاریں بنی ہوئی تھیں۔ ہر قطار میں موٹروں کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کی رفتار بڑی مشکل سے ۱۵ ، ۲۰ میل فی گھنٹہ ہو گئی تھی۔ آگے بڑھنے پر کچھ رفتار تیز ہوئی۔ ہر مقام پر ہاسپٹل کی نشاندہی کی تیر لگی ہوئی ہے۔ راستہ میں فیڈرل بلڈنگ ۳۰۰ نارتھ لا اینجلس اچھی بلڈنگ نظر آئی۔

لاس اینجلس پہونچ کر ہم نے وہ بیاگ جو رسید لے کر ال پاسو میں بس میں رکھایا تھا واپس نہیں لیا۔ اور جو سامان ساتھ تھا وہاں ایک لا کر لے کر اس میں رکھ دیا۔ صرف کھانے و پھل وغیرہ کی تھیلی لے کر لاس اینجلس دیکھنے نکل گئے۔ سب سے پہلے ہم بحرالکاہل دیکھنا چاہتے تھے۔ 7th Street Main Blad سے بس میں بیٹھ کر سیدھے مڑ کر Wilshire St. پر آ گئے۔ اس کے بعد ایک لمبا سفر جانب مغرب جاری رہا۔ اس لمبی سڑک پر بینکوں کی بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں اس میں سے چند یہ ہیں۔

(۱) یونائیٹیڈ کیلیفورنیا بنک (۲) بینک آف امریکا (۳)  سنچری بنیک (۴) گریٹ ویسٹرن سیونگ سنٹر (۵) کرا کر بنک (۶) یونین بنک (۷) فرینچ بینک آف کیلی فورنیا۔

 ہم کو ۹۱۰۰ ول شائر پر Doheny Plaza بھی ملا۔

ہم جس میں Santomonica Beach جا رہے ہیں اس کا نمبر ۷۲۲۱ ہے۔ یہ شہر ہم کو خوبصورت اور صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہے۔ ول شائر بہت بڑی لمبی سڑک ہے اس سڑک کے ۱۱۰۰۰ نمبر پر ایک بڑی فیڈرل بلڈنگ ہے۔ یہ سڑک اوسین ایوینو سے جا کر ملتی ہے۔ اسی اوسین ایونیو کے بس اسٹاپ پر ہم اتر گئے۔ اور پارک میں جھاڑوں کے سائے میں لیٹ کر آرام کرنے لگے۔ یہاں کافی گرمی ہے۔ ہمارے ہاں جیسے بمبئی میں گرمی ہوتی ہے ویسے یہاں محسوس ہو رہی ہے۔ ایک مقامی عورت سے ہم نے بس میں بات کی تو اس نے بھی آج غیر معمولی گرمی بتائی۔ اور کہا کہ اسی لئے وہ سمندر کی ہوا کھانے جا رہی ہے۔ جب ہم پارک میں آرام کر رہے تھے تو ایک امریکن نوجوان ہمارے پاس آیا۔ اور اس نے ہم کو ایک چاکلیٹ دیا اور پوچھا کہ کیا ہم ہندوستانی ہیں۔ ہم نے اثبات میں جواب دیا وہ ہم کو ہرے راما ہرے کرشنا کی تلقینات سنانے لگا۔ ہم تھکے ماندے تھے اور کچھ دیر چمن میں آرام لینا چاہ رہے تھے۔ اس نے ہم سے کچھ چندے کی بھی خواہش کی۔ ہم نے مختصر گفتگو کر کے ان کو رخصت کر دیا۔ اوسین اسٹریٹ کے جانب مغربی بحرالکاہل نظر آ رہا تھا۔ بیچ کے سطح پر ایک سڑک نیچے بھی ہے۔ اس پر بھی موٹروں کی کافی آمد و رفت ہے پیدل چلنے والوں کے لئے اس سڑک پر ایک پل بنا دیا گیا ہے۔ اترنے پر راست ساحل پر پہونچ جاتے ہیں۔ ساحل ہی پر ریسٹ روم (بیت الخلاء و پیشاب خانے ) بنائے گئے ہیں۔ ساحل پر ہم نے دیکھا کہ بیسیوں مرد و عورت سورج کی گرمی کا سیکا لے رہے تھے۔ وہ لوگ اپنے ساتھ چادریں لائے تھے ان کو بچھا کر ان پر جسم کے بڑے حصہ کو عریاں رکھ کر ساحل کی ہوا کھا رہے تھے۔ اور سورج کی گرمی لے رہے تھے۔ بعضوں نے جسم پر تیل کی مالش بھی کی تھی۔ بعض بالکل چت لیٹے ہوئے تھے انھوں نے آنکھوں پر روئی رکھ لی تھی۔ کہ راست سورج کی تمازت ان کی آنکھوں کو متاثر نہ کرے۔ ہم بھی سمندر میں گئے اور موجوں سے اپنے جسم کو بگھویا۔ پانی کافی کھارا تھا۔ موجوں کے ساتھ مٹی بھی آ رہی تھی۔ اس طرح جسم پر پانی کے ساتھ مٹی بھی لگ رہی تھی۔ بعض لوگ ساحل پر کھیل کود بھی رہے تھے۔ اور کئی سمندر میں نہا بھی رہے تھے۔

ہم پھر پیدل اوسین ایوینیو آئے اور وہاں سے ۸۳ نمبر کی بس میں بیٹھے۔ ہم کو ہالی ووڈ جانا تھا۔ ہم کو بتایا گیا تھا کہ بیورلے ایونیو پر اتر کر وہاں سے دوسری بس لیں۔ بس کے ٹکٹ کے فی کس ۳۵ سنٹ اور ٹرانسفر ٹکٹ کے دس سنٹ اس طرح ہم دونوں کے ٹکٹ کے کل نود سنٹ ہوئے۔ ہم نے ڈالر کا نوٹ بتایا اور ڈرائیور نے اس کے سامنے رکھے ہوئے سیل بند یا مقفل ڈبے کی طرف اشارہ کیا اور ہم نے وہ نوٹ اس میں ڈال دیا۔ ڈرائیور کے پاس چلر (خوردہ ) وغیرہ نہیں رہتا ہے۔ جو بھی مسافر آتا ہے وہ پہلے ڈبے میں پیسے ڈالتا ہے۔ وہ پیسہ سیدھا نیچے نہیں جاتا۔ موٹے پلاسٹک یا شیشہ کا جو ڈھکن رہتا ہے اس سے ڈالا ہوا سکہ دکھتا رہتا ہے۔ جب ڈرائیور دیکھ لیتا ہے کہ پیسہ برابر ڈالا گیا ہے تو وہ اس ڈبے کا ہینڈل (دستہ) پھراتا ہے۔ اور وہ پیسے ڈبے کی نیچے کی تہ میں چلا جاتا ہے۔ اور نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس بس کے سفر کا کم سے کم ٹکٹ ۳۵ سینٹ تھا۔ پہلے مسافر ۳۵ سنٹ میں ڈبہ میں ڈالتا اور ڈرائیور ڈالے ہوئے سکوں پر نظر ڈال لیتا اور پھر ہینڈل پھرا کر اس کو نیچے کی تہہ میں گرا دیتا۔ مسافر بڑھ کر سیٹھ پر بیٹھ جاتا۔ اس ۳۵ سنٹ پر کوئی ٹکٹ وغیرہ نہیں ملتا۔ اگر کسی نے ۳۵ کے بجائے ۴۵ سینٹ ڈالے ہیں تو ڈرائیور اس کو ایک ٹرانسفر ٹکٹ (یعنی اس بس سے اتر اسی زون میں دوسری بس میں جانے کا ٹکٹ ) حوالے کر دیتا ہے۔ ہم کو بھی ٹرانسفر ٹکٹ درکار تھا۔ اس لئے اس  ہم کو دو ٹرانسفر ٹکٹ دے دئے۔ ہم دونوں کے ٹکٹ کی قیمت نود سنٹ ہوئی۔ چونکہ ہمارے پاس چلر (خوردہ ) نہیں تھا۔ ہم کو ایک ڈالر کا سکہ اس ڈبہ میں ڈالنا پڑا اس طرح ہمارا دس سنٹ کا نقصان ہوا۔ بعض مسافر بجائے ۳۵ سنٹ یا ۴۵ سٹ کے ۷۰ سیٹ ڈال رہے تے۔ ان کو ڈرائیور ایک اودا سلپ دے رہا تھا۔ غالباً وہ ایک زون سے دوسرے زون میں سفر کرنے کا پروانہ اجازت تھا۔ بس کے سفر میں چلر (خوردہ) رکھنا ضروری ہے۔ ڈرائیور ڈبے میں کم پیسے ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اگر زیادہ ڈالیں گے تو وہ خاموش ہو جائے گا۔ لیکن اس میں مسافر کا نقصان ہے ڈرائیور پیسے کو ہاتھ ہی نہیں لگاتا ہے۔ وہ سب پیسہ ڈبہ میں جاتا ہے۔ جو غالباً ڈپو میں آفیسر کی موجود گی میں کھولا جاتا ہے۔

ہالی ووڈ جانے کے لئے ہم کو ۸۳ نمبر کی بس سے اتر کر ۹۱۰ نمبر کی بس میں بیٹھنا تھا۔ ہم کو کچھ دیر اس بس کا انتظار کرنا پڑا۔ ہم جس بنچ پر بیٹھے تھے اسی پر ایک امریکن جوڑا بھی اس بس کا انتظار کر رہا تھا۔ ہماری ان سے باتیں ہونے لگی۔ ان کو کوئی اولاد نہیں ہے۔ لیکن ایک زمانہ میں وہ بچوں کے لئے بنائے کپڑوں کا بیوپار کرتے تھے۔ اب ریٹائر ہو گئے ہیں۔ ہم سے بہت دلچسپی سے بات کرتے رہے۔ ان کی بیوی بھی خوش مزاج دکھ رہی تھی۔ جب بس آئی وہ ہمارے قریب ہی بیٹھے اور بیورلے ہلس کے لکھ پتی اور کروڑ پتیوں کے مکانات بتانے لگے۔ بعد میں اپنے مقام پر وہ صاحب اپنی بیوی کے ساتھ اتر گئے۔ اور ڈرائیور سے کہہ دیا کہ ہم کو Mannis Chnese Theatre پر اتار دیں۔ چنانچہ ہم وہاں اتر کر گھومتے رہے۔ اس تھیٹر کے بالکل روبرو سڑک کی دوری طرف فٹ پاتھ پر ہی صاف اور چمکدار پتھروں پر نام کندہ ہیں۔ معلوم ہوا یہ سب ہالی ووڈ کے مشہور آرٹسٹ رہے ہیں۔

ہالی ووڈ سے ہم سنچری سٹی شاپنگ سنٹر گئے۔ یہاں چھ سات بڑی بری اور اونچی عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ یہ سب عمارتیں نئی معلوم ہو رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ کو ڈیولپ کیا جا رہا ہے۔ یہ شاپنگ سنٹر بھی نیا نیا بنا ہے۔ کچھ دوکانیں قائم ہو گئی ہیں اور کچھ قائم ہو رہی ہیں۔ موٹروں کی پارکنگ کے لئے دو تہ خانے B-1 اور B-2 بنائے گئے ہیں اور تہہ خانوں سے اوپر شاپنگ سنٹر تک آنے اور اوپر سے نیچے جانے کے لئے لفٹ لگے ہیں۔

کیلیفورنیا ریاستہائے متحدہ امریکہ کی اکیاون ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کی آبادی دوسری کسی بھی ریاست کے مقابلہ میں کم از کم ۲ کروڑدس لاکھ زیادہ ہے۔ اس ریاست کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر لاس اینجلس ہے۔ یہاں متعدد پارکنگ علاقوں کے علاوہ کئی منزلہ عمارتیں صرف موٹروں کو ٹھیرانے کے لئے بنی ہوئی ہیں۔ شاپنگ سنٹر ہی میں کچھ کھا پی کر ہم گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن واپس ہونے کے لئے نیچے اترے اور بس نمبر ۹۱ میں بیٹھ گئے۔ واپسی کے وقت ہم کو پھر ہالی ووڈ سے گزرنا پڑا۔ سنٹو مونیکا بھی کافی لمبی سڑک ہے۔ ہم نے بس ڈرائیور کو کہ دیا تھا کہ گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن جانا ہے۔ اس خیال سے کہیں گڑبڑ میں وہ بھول نہ جائے ہم نے ایک اور مسافر سے بھی کہہ دیا۔ اس  نے کہا کہ ہم وین اسٹریٹ پر اتر کو دو تین بلاک چلے جائیں تو گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن مل جائے گا۔ اس بات کو قریب کے دوسرے مسافروں نے بھی سن لیا تھا۔ جب وہ اسٹریٹ آئی تو ایک مسافر نے ہم کو اترنے کے لئے کہا۔ جب ہم اترنے لگے تو ڈرائیور نے کہا کہ اس نے خیال کیا تھا کہ ہم ڈاون ٹاون (قلب شہر) کے گرے ہاؤنڈ پر اتریں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم کو بڑے اسٹیشن پر اترنا ہے۔ قلب شہر میں ہمارا مقام آتے آتے تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔ اگر ہم وائن اسٹیٹ پر اتر جاتے تو پریشان ہو جاتے۔ ال پاسو سے آنے کے بعد ہم نے اپنا ایک بیاگ لگیج کلیم سے نہیں لیا تھا۔ اور ہمارا دوسرا سامان بھی اسی اسٹیشن کے ایک لا کر میں رکھا تھا۔ اس لئے ہمارا اس صدر اسٹیشن پر آنا ضروری تھا۔

لاس اینجلس میں ہم نے کئی  ایسے افراد کو دیکھا جن کے پاؤں کمزور تھے ایسے لوگ لکڑی کے سہارے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ ان میں کئی کم عمر لوگ بھی تھے۔ نہیں معلوم یہ کسی خاص بیمار کا شکار ہوئے ہیں۔

پورا ایک دن اور رات کے کچھ گھنٹے لاس اینجلس میں گزار کر رات کی ساڑھے دس بجے کی بس سے ہم سان فرانسسکو کے لئے نکل گئے۔

روم نمبر Hotel Odeon 410

4- - 7th Street San Francisco

C.A. 94103 Tel - 552 - 3700

شنبہ ۶ / نومبر ۱۹۷۶ء لاس اینجلس سے ہم لوگ یہاں آج صبح ساڑھے چھ بجے پہونچے۔ یہ ہوٹل گرے ہاؤنڈس بس اسٹیشن سے بالکل لگی ہوئی ہے۔ دو بستر کے کمرے کا کرایہ فی یوم بارہ ڈالر ہے۔ اس میں پرائیویٹ باتھ روم ہے۔ کمرہ میں ایک چالو ٹیلے ویژن سٹ بھی رکھا ہے۔

منیجر ہوٹل سے ہم نے سان فرانسسکو کا نقشہ لیا۔ اور اس کے مشورے پر مارکٹ اسٹریٹ کراس کر کے بس نمبر ۲۰ میں بیٹھ گئے۔ ہم کو گولڈن گیٹ برج دیکھنا تھا۔ یہ پل سان فرانسسکو Bay کے ایک حصہ پر بنایا گیا ہے۔ یہ سان فرانسسکو اور Sausalito کے علاقہ کو ملاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پل دنیا کا سب سے بڑا معلق پل ہے۔ لیکن مجھے اپنے ہندوستان کا ہوڑا برج اس سے بڑا معلوم ہوتا ہے۔ ہم پل پر سے گزر کر ساسالیٹو کے علاقہ میں اتر گئے۔ یہاں بڑی تعداد میں سیاح جمع تھے۔ سان فرانسسکو خلیج میں سیکڑوں کی تعداد میں بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ اس میں بیٹھ کر تفریح کر رہے تھے۔ اور بعض مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ بعض چھوٹی موٹر کشتیوں کو بہت تیز جیسے کسی مقابلے میں دوڑاتے ہیں دوڑا رہے تھے۔ وہاں ایک The Spinnacker رسٹورنٹ اور بار ہے۔ جو بالکل پانی سے لگا ہوا ہے۔ وہاں بڑھیا قسم کے لوگ شراب ، کولڈرنکس اور کچھ پی رہے تھے۔ وہاں ایک بالکنی جیسا حصہ تھا۔ وہاں بھی لوگ بیٹھے کھانے پینے کے ساتھ سمندر کا لطف بھی اٹھا رہے تھے۔ سمندر سے ہٹ سڑک کی دوسری طرف بہت سی دوکانیں لگی ہوئیں ہیں۔ ان میں کئی نوادرات کی ہیں۔ بوروڈ انڈسٹریز کے شوروم میں لکڑی سے بنی ہوئی بہت اچھی اور خوبصورت چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے جھاڑوں کے تنوں کی میز۔ کہیں جھاڑوں کی شاخوں پر خوبصورت کنڈے لٹکتے ہوئے اور کہیں ٹہنیوں پر ایسی کٹوریاں رکھ دی گئی ہیں کہ اوپر کی کٹوری کا پانی نیچے کی کٹوری میں خوبصورت انداز سے بہایا گیا ہے۔ پانی جتنا گرتا ہے اتنا ہی گرتا ہے کبھی چھلکتا نہیں۔ اسی بازار میں ایک بلڈنگ کی تین چار منزلوں میں بعض اچھی دوکانوں کا مجموعہ ہے۔ نیچے لکھا تھا۔

40 - Unsual Shops - 10-30 to 5-30

ان میں سے کئی دوکانوں کا ہم نے سرسری معائنہ کیا۔ اسی بلڈنگ کی ایک کیفے میں چائے پی۔ شہر میں فی گلاس چائے (یہاں عام طور پر گلاس میں چائے دی جاتی ہے ) کی قیمت ۲۵ سنٹ ہیں۔ لیکن اس بلڈنگ میں ایک گلاس کے ۳۲ سنٹ لئے گئے۔

واپسی میں بھی ہم ۲۰ نمبر کی بس سے آئے۔ جاتے اور آتے ہم Van, Ness St.پر سے گزرے۔ ادھر جو بھی عمارتیں ہیں خواہ وہ تجارتی ہوں یا رہائشی کافی صاف ستھری اور آہک پاشی کی ہوئی ہیں۔ رہائشی مکانات دو تین منزلہ سے زیادہ اونچے نہیں ہیں۔ اوپر کی منزل پر اکثر جگہ کویلو کو چونے وغیرہ سے چپکایا گیا ہے۔ تا کہ وہ ہوا وغیرہ سے گر نہ جائے۔ اکثر رہائشی مکانات کی اوپر چھتوں کو سلوپ (ڈھلاؤ) دے کر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے تکڑوں کا چھاون کیا گیا ہے۔ اور ان تکڑوں کو اس طرح وارنش یا پینٹ کیا گیا ہے کہ ان میں پانی جذب نہیں ہوتا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ لوگ مکانوں کی تعمیر پر زیادہ خرچ نہیں کرتے البتہ اس کو فرنش (مزین) کرنے سیانٹری فٹنگ لگانے۔ پینٹ کرنے اور اندر وباہر سے آہک پاشی کرنے۔ باورچی خانہ میں ہر سہولت کی چیز مہیا کرنے میں کافی خرچ کرتے ہیں۔

راستے میں سکنڈ ہینڈ (مستعملہ) موٹروں کے کئی شوروم دکھائی دئے ان میں موٹریں بھی بظاہر اچھی حالت میں دکھائی دیں۔

واپسی میں بس والا ہم کو بس ٹرمینل تک لے گیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ جہاں سے ہم چڑھے تھے وہ مقام آئے گا تو ہم اتر جائیں گے۔ جب ہم ٹرمینل سے باہر نکلے تو ہم کو بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں۔ باہر ایک (گورے ) پولیس آفیسر سے ہم نے گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن کا پتہ پوچھا تو اس نے کہا کہ وہاں وہ نیا آیا ہے زیادہ واقف نہیں۔ ہم نے اس کو شہر کا نقشہ دکھایا تو اس نے کہا کہ وہ مقام یہاں سے ذرا دور ہے۔ ہم نے چائینا ٹاون کا حصہ نقشہ میں دکھایا تو اس نے کہا کہ وہ اس مقام سے نزدیک ہے۔ اس نے کہا کہ چائینا ٹاون پیدل جا کر دیکھ لیں البتہ جب گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن جائیں تو کوئی سواری لے لیں کیونکہ یہ کوئی پرامن شہر نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کالے لوگ گڑبڑ کرتے ہیں تو اس نے کہا کہ کالے اور گورے دونوں ہی لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ بہرحال ہم کچھ گھبرائے ہوئے چائینا ٹاون کی طرف بڑھے تو انھوں نے کہا کہ یہ ’’ ڈاون ٹاون ‘‘ یعنی یہ قلب شہر ہے۔ ایک لڑکی نے کہا کہ اس کو فینانشیل اسٹریٹ کہتے ہیں۔ یہاں بڑی بڑی بنک اور انشورنس کمپنیاں واقع ہیں۔

چائینا ٹاون گرانٹ لین پر واقع ہے۔ یہاں سے چینی لوگوں کی دوکانیں شروع ہوتی ہیں وہاں روڈ پر ایک کمان بالکل چینی وضع کی بنائی گئی ہے۔ اس گرانٹ لین پر چینیوں کی بیسیوں دوکانیں اور ان کے رسٹوران ہیں۔ ان دوکانوں میں چین ، برما اور جاپان وغیرہ کا سامان بڑی مقدار میں بھرا پڑا ہے۔ لیکن اس سامان کو بالکل امریکن انداز میں سجایا گیا ہے۔ دوکانیں بہت شاندار ہیں۔ جب اس گرانٹ لیکن (گلی) پر دوسری طرف سے سڑکیں ملتی ہیں تو ناموں کی تختیاں انگریزی کے علاوہ چینی زبان میں بھی لکھی گئی ہیں۔ ایک جگہ چینی زبان کے اخبار بھی اسٹانڈ پر رکھے تھے۔ کئی چینی لوگ بھی اس سڑک پر آجا رہے تھے۔ مغرب کے بعد بھی اس سڑک پر کافی چہل پہل تھی۔ اسی بازار میں ایک چھوٹی سی کینٹن (جس کو کوئی غیر چینی چلا رہا تھا) میں ہم نے مچھلی۔ فرنچ فرائی ( آلو کے پتلے پتلے لانبے تلے ہوئے تکڑے ) کھائے۔ اور آرینج جوس پیا۔ ہماری ہوٹل جس میں ہم مقیم ہیں۔ 7th اسٹریٹ پر واقع ہے۔ اور یہ مارکٹ اسٹریٹ سے ملتی ہے۔ اسی اسناک بار میں ہم نے ایک امریکن گاہک سے پوچھا کہ مارکٹ اسٹریٹ کدھر ہے تو اس نے کہا کہ سیدھے دو بلاک (دو سڑکوں کے درمیان جتنی عمارتیں ہوں گی وہ ایک بلاک کہلائے گا) چلے جائیں مارکٹ اسٹریٹ مل جائے گی۔ ہم نے کہا کہ ہمیں گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن جانا ہے تو اس نے کہا کہ مارکٹ اسٹریٹ جا کر کیبل کار لے لیں۔ یہاں بسیں بھی بجلی کے تاروں سے ٹرام کی طرح چلتی ہیں۔ ویسے اس نے کہا کہ چھ سات بلاک چلے جائیں تو ہم کو گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن مل جائے گا۔ ہم نے پوچھا کہ پیدل جانے میں کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ تو اس نے کہا کہ مارکیٹ اسٹریٹ بڑی سڑک ہے اور وہاں اس وقت کافی چہل پہل رہتی ہے۔ پیدل جانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے اس طرح کہنے پر ہم پیدل ہی پیدل اپنی ہوٹل کو آ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ مارکیٹ اسٹریٹ پر گو بہت سی دوکانیں بند ہو گئی تھیں لیکن کئی اسٹور کھلے تھے۔ اسی طرح شراب خانے وغیرہ بھی کھلے تھے۔ سڑک پر کافی چہل پہل تھی۔ کئی لوگ بسوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔ بعض جگہ ہم نے دیکھا کہ بس اسٹاپ کے قریب بہت ہی صاف و شفاف پتھر رکھ دئے گئے لوگ ان پر بیٹھ کر بس کا انتظار کر رہے تھے۔

۷/ نومبر ۱۹۷۶ء میں یکشنبہ

آدھی رات کے بعد بھی میں سڑک پر کچھ آدمیوں کی آوازیں سنتا رہا۔ ساڑھے تین کے قریب اٹھا تو اس وقت بھی آوازیں آ رہی تھیں۔ کھڑکی سے پردہ ہٹا کر شیشہ میں سے دیکھا کہ سامنے والی رسٹورنٹ جہاں Jack in The Box اور Ham Burgers بڑے بڑے حروف میں کیانویس کے پردوں پر لکھا تھا کھلی ہے۔ کئی لوگ پیدل اور بعض موٹر نشین اس میں آ جا رہے تھے۔ کل رات میں جب ہم اپنی ہوٹل اوڈین واپس ہو رہے تھے تو اس رسٹورنٹ کے سامنے رکے تھے اور سامنے لگی ہوئی قیمت اغذیہ کی فہرست دیکھی تھی۔ قیمتیں ہمیں واجبی معلوم ہوئی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسٹورنٹ دن رات کھلا رہتا ہے۔ اور لوگ یہاں کافی تعداد میں آتے ہیں۔

سان فرانسسکو میں ہم نے کئی افراد کو حالت نشہ میں دیکھا۔ کل جب ہم صبح اوڈین ہوٹل میں اترنے سے پہلے ہوٹل فیڈرل کے پچھلے دروازہ پر گئے تو ہم نے ایک آدمی کو دروازہ کے ورانڈے میں نشہ میں چور پڑا دیکھا۔ میں جب گھنٹی بجانے لگا تو وہ اٹھا اور جیسے میں نے اس سے کچھ پوچھا ہو جواب دینے لگا۔ آل رائیٹ کل جب ہم شام میں مارکٹ اسٹریٹ سے پیدل آ رہے تھے تو ہم کو کئی افراد نشہ کی حالت میں نظر آئے۔

۷/ نومبر اتوار۔ صبح میں ناشتہ کر کے ہم پھر مارکیٹ اسٹریٹ پر نکل پڑے اتوار کی وجہ سے دوکانیں بند تھیں۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ لوگ چل رہے تھے۔ رسٹورنٹ بار وغیرہ کھلے تھے۔ Powel Street پر ایک پلازا ہے جو Andrews Halledie کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس نے ۱۸۷۳ء میں کیبل اسٹریٹ ریلوے کو ترقی دی۔ وہ ٹرین پٹریوں پر ہمارے ہاں کے ٹرام کار کی طرح اب بھی چلتی ہے۔ ہمارے ہاں اوپر کے تاروں سے بجلی لی جاتی ہے۔ یہاں نیچے ہی سے کرنٹ لیا جاتا ہے۔ یہیں ہم نے ایک کالی عورت کو لب سڑک مذہبی لکچر دیتے دیکھا۔ ساتھ ساتھ وہ اسٹیٹ کے واقعات کی طرف بھی اشارہ کرتی جاتی تھی۔ پیچھے ایک کالا جوان ایک باجہ لئے کھڑا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے بجاتا جاتا۔ اس طرح اس عورت کو دم لینے کا موقعہ ملتا۔

دوپہر میں ڈیڑھ بجے بس نمبر ۲۵۶۳ میں اپنے لمبے راستہ پر نکلے۔ اس بس کی منزل مقصود واشنگٹن ڈی۔ سی ہے۔ راستے کے بڑے بڑے مقامات Chacago - Saltlake City - Reno اور نیویارک وغیرہ میں ہمارا دوسرا مقام سالٹ لیک سٹی ہے۔

اس بس کا پہلا اسٹاپ Oakland تھا۔ یہاں آنے سے پہلے ہم کو ایک بہت ہی لمبے پل پر سے گزرنا پڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی خلیج سان فرانسسکو کے کسی جزو پر بنایا گیا ہے۔ یہ کل والا معلق پل نہیں۔ یہ دو منزلہ پل ہے۔ ہم جس منزل آئے وہ ایک رخی تھا۔ اسی طرح اوپر والی منزل بھی یک رخی ہی ہو گی۔ ہم راستہ میں روک لینڈ ہاربر کے ٹرمینل سے گزرے وہاں بڑے بڑے Cranes نظر آئے۔ کوئی جہاز دکھائی نہیں دیا۔ البتہ جب ہم پل سے گزر رہے تھے تو پانی میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں تیر رہی تھیں۔ اوک لینڈ شہر بھی کافی بڑا معلوم ہو رہا تھا۔ اس میں بھی دوچار عمارتیں اونچی اونچی ہیں۔

Sacramento دوپہر میں ۳ بج کر چالیس منٹ پر پہونچے یہاں بس ۲۰ منٹ کے لئے رکتی ہے۔ کئی مسافر اتر گئے اور آگے جانے والے بھی اتر کر کیفے ٹیریا میں کچھ کھانے پینے گئے۔ یہاں چائے فی پیالی ۲۵ سنٹ ہے۔ ہماری دو پیالیوں کے ۵۰ سنٹ ہوئے اور اس پر ۳ سنٹ ٹیکس لیا گیا۔

سیک رومنٹو سے نکلے تو سوا گھنٹے تک کوئی خاص زمین دکھائی نہیں دی۔ اطراف میں ٹیلے ہی ٹیلے تھے۔ کہیں بھی ہرا بھرا نہیں تھا۔ البتہ اس کے بعد زمین ہری بھری ہوتی گئی۔ دونوں طرف سرو کے درخت دکھائی دے رہے تھے۔ شام کے پانچ بجے ہی سورج غروب ہونے لگا۔ ہمارا سفر مشرق کی طرف ہو رہا تھا۔ ساڑھے پانچ بجے کافی اندھیرا ہو گیا۔ ہم کو آئندہ گھڑی کا وقت بڑھانا ہو گا۔

reno شہر بڑا معلوم  ہو رہا تھا۔ دور ہی سے روشنی کافی پھیلی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ جب ہم شہر میں داخل ہوئے تو موٹلس کے نیون سائن یکے بعد دیگرے نظر آنے لگے۔ سڑک پر بھی لائٹ کافی تیز تھی۔ گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن بھی کافی بڑا ہے اور صاف ستھرا تھا۔ رسٹورنٹ میں جا کر مچھلی تلے ہوئے آلو کے تکڑے اور ایک ملک شیک کا آرڈر دیا اس کی قیمت ایک ڈالر اکہتر سنٹ ہوئی۔ فش اور آلو کے تکڑوں کے ساتھ ایک چھوٹا بن بھی آیا۔ بعد میں ایک ملک شیک اور لیا گیا جس کے ساٹھ سنٹ دینے پڑے۔ ملک شیک ایک طرح کی آئسکریم ہی ہوتی ہے۔ جو گلاس میں ڈھکن لگا کر دی جاتی ہے۔ ڈھکن پر ایک حصہ پائپ جانے کے لئے بالکل کمزور بناتے ہیں۔ اس حصے پر دبا کر پائپ اندر کر کے آئسکریم پی لیتے ہیں۔ جو زیادہ گاڑھی نہیں ہوتی۔

ہم نے یہاں دیکھا کہ وہ لڑکا جو آرڈرس لے کر اشیاء سپلائی کر رہا تھا۔ جب اس کے پاس کام نہ رہا تو ایک مشین سے کارپٹ صاف کرنے لگا۔ اس طرف ایک آدمی مختلف کام کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ ہمارے پاس کے کسی رسٹورنٹ کے باورچی کو فرش پر چھاڑو دینے کے لئے کہیں تو وہ شاید اس سے انکار کر دے کہ وہ اس کا کام نہیں۔

ہم نے سان فرانسسکو میں کئی گوری لڑکوں کو کالے لڑکوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ یہاں بھی رسٹورنٹ کی ایک گوری لڑکی کالے قلی کے ساتھ کافی بے تکلف ہو کر ہنس رہی تھی و مذاق کر رہی تھی۔

۸/ نومبر ۱۹۷۶ء پیر

کل رات جب ہماری بس گرے ہاؤنڈ میں اسٹیشن سے نکلی تو ہم نے رینو کے کئی کسینو اور شراب خانوں میں کافی مجمع دیکھا۔ اتوار کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ پینے پلانے اور انڈور گیمس میں بہت مصروف تھے رات میں رینو کے بعد بھی دو تین مقامات ملے ان کے شراب خانوں وغیرہ میں بھی اس طرح چہل پہل دکھائی دی۔

رات میں کسی مقام پر ڈرائیور نے اعلان کیا کہ اب وقت بدل گیا ہے۔ یعنی گھڑیوں میں ایک گھنٹہ آگے بڑھا لیں۔ جب سالٹ لیک سٹی تقریباً ۵۰ میل ہو گی ہم اٹھ بیٹھے۔ اس وقت کیلیفورنیا کے وقت کے لحاظ سے صبح کے ساڑھے پانچ بجے تھے۔ لیکن مقامی وقت کے لحاظ سے ساڑھے چھ۔ ہم نے دیکھا کہ سڑک سے دور دور بھی کوئی جھاڑ وغیرہ نہیں۔ صرف چھوٹے چھوٹے پودے ہیں۔ لیکن وہ بھی سوکھے ہوئے۔ لیکن کئی جگہ پانی کھڑا ہوا تھا۔ معلوم ہوتا ہے زمین اور پانی میں کھارا پن بہت ہے۔ اس لے نہ تو یہاں آبادی نظر آئی اور نہ کاشت کئے ہوئے کھیت، اور نہ کسی قسم کے جھاڑ۔ اطراف میں جہاں ٹیلے ہیں تو ان پر درخت نہیں ہیں۔ جب گریٹ لیک سٹی ۳۰ میل رہ گئی تو ہماری بائیں طرف پانی ہی پانی دکھائی دیا۔ اور سیدھی طرف سوکھا۔ ایک دو جگہ کرین اور کارخانوں کی چمنیاں دکھائی دیں۔ ان میں سے کافی دھواں نکل رہا تھا۔ جس وقت ہم گریٹ لیک کی بیچ سے ایک میل دور تھے مشرق سے سورج نمودار ہو کر اپنی روشنی پھیلا رہا تھا۔ اس طرف شارہ راہ منقسم ہے یعنی آنے جانے کی سڑکیں الگ الگ جب سالٹ لیک سٹی ۱۶ میل رہ گیا تو سیدھی طرف مزید دو ایک کارخانے دکھائی دئے ان کی چمنیوں سے بھی دھواں نکل رہا تھا۔ کچھ ہوٹلوں کے بورڈ بھی نظر آئے۔ اب سورج اوپر آ گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم کچھ شمال مشرق کی طرف جا رہے ہیں۔ سیدھی ہی طرف مورٹن سالٹ کمپنی کی عمارت ملی۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو کارخانے پہلے گزرے وہ شاید نمک بنانے ہی کے ہوں گے۔ اب ہم سالٹ لیک سٹی سے قریب ہو رہے ہیں۔ ڈرائیور صاحب مائیک پر اعلان کر رہے ہیں کہ اب ہم چند منٹوں میں سالٹ لیک سٹی پہونچ رہے ہیں۔ یہاں کہاں کہاں کے مسافروں کو بسیں بدلنی ہیں اس کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ وہ بسیں کب کب نکلیں گی۔ Seranco Motor Motel کا بورڈ سیدھی طرف دکھائی دیا کچھ کارخانے بائیں طرف دکھائی دے رہے ہیں۔ اب ہمارا سفر بس نمبر ۲۵۶۳ سے ختم ہو رہا ہے۔ ہم یہاں ایک رات آرام لینا چاہتے ہیں اور کل یعنی ۹/ نومبر کو اسی صبح کی راست اکسپرس بس سے شکاگو کے لئے نکلیں گے۔ بائیں طرف چھوٹا سا ایر پورٹ دکھائی دیا یہاں چھوٹے چھوٹے ہوائی جہاز کھڑے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کوئی سیول اے دیشین کلب ہے۔

اب جب ہم شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ تو جھاڑ قدرے بڑے ملے لیکن سوکھے سیدھی طرف تجارتی اغراض کے لئے ایک عمارت بن رہی ہے۔ اس میں نائین اور کھمبے لکڑی کے ہیں۔ یہاں تعمیر میں لکڑی کا استعمال خوب ہوتا ہے۔ کچھ سرو کے درخت ہرے بھرے نظر آ رہے ہیں۔ سالٹ لیک سٹی میں ریل کی کئی پٹریاں گزر رہی ہیں۔ جب ہم سالٹ لیک سٹی میں گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن پہونچے تو ۸/ نومبر کی صبح کے ساتھ بج کر پینتالیس منٹ ہو رہے تھے۔ بیوی ضرورت وغیرہ سے فارغ ہوئیں تو ان کے گلے میں پاسپورٹ اور سفری چک وغیرہ کا بستہ (بیگ) ڈال کر میں ہوٹل وغیرہ تلاش کرنے کے لئے نکلا۔ بس اسٹیشن سے قریب ہی ایک پیالیس موٹل ہے اس کی سہولتیں جو بورڈ پر لکھی ہیں۔

گیٹ میں داخل ہو کر آفس پوچھا تھا تو کسی نے ایک طرف اشارہ کیا۔ جب میں آفس کی طرف جانے لگا تو ایک گورے امریکن کو دیکھا کہ صحن میں پڑے ہوئے پتے جھاڑو سے ایک اسٹانڈ میں جمع کر رہا تھا۔ جب میں آفس پہونچا تو دروازہ بند پایا۔ اتنے میں اس گورے نے مجھ کو دیکھ لیا۔ کچھ کہتے ہوئے سامنے کے دو تین پتے اسٹانڈ میں لے کر میری طرف آیا۔ میں نے پوچھا کہ دو بستر کا کوئی کمرہ مل سکتا ہے۔ اس نے پوچھا کہ دو افراد کے لئے۔ تو میں نے ہاں کہا۔ اس نے کہا کہ موجود ہے۔ کرایہ پوچھا تو اس نے ٹیکس کے ساتھ ۱۸ ڈالر فی یوم بتایا۔ سستا کمرہ پوچھا تو کہا کہ اس سے سستا نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں کہیں اور جگہ سستے کمرے مل سکتے ہیں تو اس نے کہا کہ سیدھی طرف ہوٹل ہے دریافت کر لوں۔ اس کی گفتگو اور آفس میں گھومنے پھرنے کے انداز سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ آفس کی منیجری کا کوئی کام بھی کرتا ہے۔ اور ضرورت پڑے تو موٹل کے صحن میں جھاڑو لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ کچھ فاصلہ طے کر کے ہوٹل میں آیا تو ایک لیڈی کلرک نے کرایہ ٹیکس کے ساتھ چودہ ڈالر فی یوم بتایا۔ اور کنجی دی کہ میں کمرہ دیکھ لوں۔ کمرہ بہت صاف ستھرا ، دونوں پلنگوں پر گدے پڑے ہوئے۔ ان کی چادریں سفید جھک کمرے میں واش بیشن لگا ہوا تھا۔ بیت الخلاء وحمام قریب ہی لیکن عام سان فرانسسکو میں ہم کو کمرہ پرائیویٹ باتھ کے ساتھ بارہ ڈالرس میں ملا تھا۔ اس لئے اس عورت کو کنجی دیتے ہوئے ہم نے کہا کہ مزید گھوم پھر کر دیکھ لیتے ہیں۔ چکر لگا کر ’’ ٹراویل لاج‘‘ میں گئے تو وہاں فی یوم ۲۳ ڈالر بتائے گئے۔ اس لئے ہم چودہ ڈالر والی ہوٹل میں چلے آئے۔ یہ بھی گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن سے قریب ہے۔

دوپہر میں ہم ٹہلتے ہوئے ٹمپل اسکوائیر میں The church of Jesus of Latler - Day saints گئے۔ یہاں مفت گائیڈ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ احاطہ کئی چرچوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں دو تین لکچر ہال بھی ہیں۔ جہاں مذہبی فلمیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ یہاں کا ایک ویزیٹر بک میں ہم نے اپنا اور بیوی کا نام و پتہ لکھا۔ اس کے بعد ایک لکچر ہال میں ایک پادری صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کو خوشی ہے کہ آج کے سننے والوں میں ہندوستان کا ایک جوڑا بھی ہے۔ یہاں کے چرچ جوزف اسمتھ کے مشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بہت بڑھیا قسم کے ہیں۔ اور بہت صاف ستھرے رکھے جاتے ہیں۔ اس چرچ کے پیروؤں کا اعتقاد ہے کہ عیسی علیہ السلام سینٹ پیٹر ، سینٹ جیمس اور سینٹ جان جوزف اسمتھ کو ولایت سے نوازا ہے۔ یہ لوگ یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ ایک آسمانی فرشتہ نے آ کر جوزف اسمتھ کو بتایا کہ میٹل (دھات ) پر لکھی کتاب Book of Mormon کہاں چھپی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اس پر بھی یقین کرتے ہیں کہ اس کتاب میں اس براعظم کے قدیم باشندوں کے جو واقعات لکھے ہوئے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔

ان چرچوں کے دیکھنے کے بعد مین اسٹریٹ پر گئے۔ اس کے بیچوں بیچ ایک یادگار ہے اس یادگار پر لکھا ہوا ہے۔ In Honour of Brighman young the Ploneer۔ اس یادگار کے سامنے ہی "Kennecott"بلڈنگ بہت اونچی چلی گئی ہے۔ اس بلڈنگ کے ایک نچلے حصہ میں Ziono First National Bank ہے۔ اس سے متصل ہی Zion's Co-operative mercontile Institution ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر صیہونی تحریک کا کوئی بڑا مرکز ہے۔ اسی چورا ہے کے ایک طرف آٹھ دس منزلہ Hotel Ytah ہے۔ اوٹاہ اس اسٹیٹ کا نام ہے جس میں سالٹ لیک سٹی واقع ہے۔

مغرب ہو گئی تھی سردی زیادہ محسوس ہونے لگی۔ اس لئے جلدی واپس ہونے لگے۔ گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن کے کیفے ٹیریا میں کچھ کھانے کے لئے پلٹے تو پیچھے سے دو نوجوان اشخاص جو موٹر میں آ رہے تھے۔ بیوی کو ساڑی میں ملبوس دیکھ کر موٹر کو روک کر اتر گئے۔ بیوی پیچھے تھے ان کو انھوں نے ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ یہ سلام کی آواز کچھ میرے کانوں میں بھی پڑی لیکن میں نے اپنی سماعت پر بھروسہ نہیں کیا کہ اس دور افتادہ شہر میں ہم کو کون سلام کرنے چلا ہے۔ اسی طرح جب ہم نے میونخ مغربی جرمنی میں ہوٹل یا پنسین کی تلاش میں رات کے وقت سرگرداں تھے تو دور سے اردو رسم الخط میں کوئی تحریر کسی دوکان کے بورڈ پر دکھائی دینے لگی تھی۔ اس وقت ہم نے اپنی بصارت پر شبہ کیا تھا کہ یہاں کون اردو لکھنے چلا ہے لیکن قریب پہونچنے پر اس کو ’’فروشگاہ کریم ‘‘ پایا تھا۔ بیوی نے ان اصحاب کو وعلیکم السلام کہہ کر مجھے پکارا۔ پھر ہم سے بھی ان کی سلام علیک ہوئی اور پھر زوروں میں اردو میں باتیں ہونے لگیں۔ معلوم ہوا یہ دونوں پاکستان کے رہنے والے ہیں۔ ایک راولپنڈی کا اور دوسرا پنجاب کا۔ یہاں کچھ کام کرتے ہیں۔ جب ہم نے کہا کہ ہم ہندوستان میں حیدرآباد کے رہنے والے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ایک صاحب حیدرآباد کے ہیں۔ ان کا نام پوچھا تو انہوں نے کہا کہ پورا نام تو معلوم نہیں وہ لوگ ان کو خان صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا کہ کیا وہ ہماری کوئی خدمت کر سکتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ انھوں نے ہم سے ہماری زبان میں گفتگو کر کے جو لطف بہم پہونچایا وہ ہم کو ان کی طرف سے کسی اور چیز میں حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ ہم نے اپنا کارڈ ان کو دیا کہ وہ اپنے حیدرآبادی دوست کو دے دیں۔ تھوڑی دیر میں ہنس بول کر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ بعد میں کیفے ٹیریا میں کچھ کھا پی کر اپنے کمرہ پر آ گئے۔

کمرے کی لائٹ کھولی تو بہت مدھم تھی۔ نگرانکار خاتون سے کہا تو اس نے سو والٹ کا بلب لا کر لگانا چاہا۔ لیکن اس کا ہاتھ نہیں پہونچ رہا تھا۔ ہم نے کرسی پر چڑھ کر جلتا بلب نکال کر دوسرا بلب لگا دیا۔ یہاں بلب نکالنے اور لگانے کے لئے پھرانا پڑتا ہے۔ یعنی ساکٹ میں پیچ ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس ربط میں رخنہ پڑجاتا ہے تو لائٹ نہیں آتی یا کبھی آتی اور کبھی نہیں آتی ہے۔ اگر یہاں ایسا ہو تو مزید پیچ پھرا کر ربط کو بحال کر سکتے ہیں۔

۹/ نومبر ۱۹۷۶ء۔ منگل۔ ہمارا سفر سالٹ لیک سٹی سے ۹ بج کر ۱۵ منٹ صبح کو شروع ہوا۔ بس ایک گھنٹہ ۴۵ منٹ کے بعد Evanston (Wyo) میں رکی۔ سارا راستہ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں اور ناقابل کاشت زمین پر مشتمل تھا۔ زمین اور ٹیلوں پر جو پودے تھے وہ چھوٹے اور سوکھے ہوئے تھے۔ بعض جگہ جہاں معلوم ہوتا ہے کہ زمین ذرا نم تھی قدرے اونچے اونچے سرو کے جھاڑ دکھائی دئے۔ آبادیاں بہت کم ملیں۔ کہیں کہیں پہاڑیاں نظر آئیں۔ لیکن بہت کمزور پتھر کی۔ لیکن یہ ناقابل کاشت زمین دمشق اور بغداد کے درمیانی حصہ کی طرح ریگستان نہیں ہے۔ یہاں گھاس وغیرہ ہے۔ گھاس کاٹ کر اور اس کے گٹھے بنا کر رکھا گیا تھا۔ یہ گھاس کے ڈھیر کھلے تھے۔ ہماری طرح ان کو محفوظ کرنے کے لئے مٹی یا گوبر سے لیپ کر ڈھانکا نہیں گیا تھا۔ اس طرح گھاس کی گریاں گٹھوں کی شکل میں زیادہ دکھائی دیں۔ کئی جگہ گائے اور گھوڑے چرتے ہوئے دکھائی دئے راک اسپرنگ سے قریب ایک گرین ریور نام کی چھوٹی سی ندی بہتی ہوئی دکھائی دی۔ ہم یہ سفر بس نمبر ۷۶۳۱ میں کر رہے ہیں۔ راک اسپرنگس میں ڈرائیور تبدیل ہو گیا۔ اس نے اپنے نام کی پلیٹ بھی آپریٹر کے خانہ میں لگا دی۔ یہاں ایک بجنے کے بعد لنچ کے لئے بس رکی تھی اور ۴۵ منٹ ٹھیرا دیا گیا تھا۔ بس چلانے سے پہلے ڈرائیور نے پاسنجروں کی تعداد گن لی۔ غالباً سابق ڈرائیور نے اس کو جو چارٹ دیا ہے اس میں موجود پاسنجروں کی تعداد درج ہے۔

اب ہمارا راستہ متواتر مشرق کی طرف ہے۔ پونے تین کے قریب ہم کو کئی پمپنگ انجن دکھائی دئے۔ معلوم ہوا کہ وہ آئیل پمپ کر رہے ہیں کئی سفید ٹینک بھی ہیں جن میں آئیل پمپ ہو کر ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔ اس صحرائی علاقہ میں ریلوے لائن بھی ہے۔ چار پانچ Freight Trains مال گاڑیاں جاتی آتی دکھائی دیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس طرف کوئی پاسنجر ٹرین نہیں چلتی۔ پونے تین کے قریب جو ٹرین دکھائی دی وہ میل ڈیڑھ میل لانبی تھی۔ اس کو چار ڈیزل انجن کھینچ رہے تھے۔

اس وقت تین بج رہے ہیں۔ صحرائی علاقہ جاری ہے۔ کہیں کاشت کی ہوئی زمین کا پتہ نہیں۔ چھوٹے چھوٹے سوکھے پودے موجود ہیں۔ ٹیلی چھوٹے ہیں لیکن ان پر کوئی پودا و جھاڑ موجود نہیں یہ ڈیوائیڈ ہائی وے منقسم شاہراہ ہے۔ دو سڑکوں کے درمیان دس بارہ گز کی جگہ چھوڑ دی گئی ہے جو نشیب میں ہے اور اس میں گھاس اگی ہوئی ہے۔ جہاں کافی نشیب ہے وہاں ریلنگ ( باڑھ) لگا دی گئی ہے ، ویسے سڑک کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے کالے پول لگا دئے گئے ہیں۔ ان پر ایک انچ گول پلاسٹک وغیرہ کی تکیہ جوڑی گئی ہے۔ یہ اندھیرے میں موٹر کی لائٹ پڑنے پر چمکتی ہے۔ اور ڈرائیور کو سڑک کے حدود کا پتہ چل جاتا ہے۔ ایک جگہ بورڈ پر Red Desert لکھا تھا۔ لیکن اس علاقہ میں کئی پٹرول پمپ لگائے ہیں۔ بعض جگہ سڑک سے متصل ٹیلوں کا ڈھلوان ہے۔ وہاں لکڑی کے کئی اسٹانڈ لگائے گئے ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جب برف بڑتی ہے تو ہوا کے زور سے برف کے تودے سڑک پر آ جاتے ہیں اور اس سے آمد و رفت میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ اس لڑھکنے والی برف کو روکنے کے لئے ڈھلوان پر لکڑی کے اسٹانڈ جا بجا رکھ دئے گئے ہیں۔

جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے جو ٹرک ہوتے ہیں وہ لانبے ، چوڑے اور اونچے ہوتے ہیں۔ یہ اوپر ، نیچے اور سامنے سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ البتہ بازوؤں سے چھوٹی چھوٹی ساندیں تازہ ہوا کے لئے کھلی رہتی ہیں۔ اندر پانی اور دانے کا بھی انتظام ہونا چاہئے۔

سواتین کے قریب ایک یا دو کمرے والی یک منزلہ عمارت سیدھی طرف ملی اس کے سامنے ایک سفید پینٹ کیا ہوا لمبوترا ٹینک تھا۔ نہیں معلوم اس میں کیا ہے پانی یا گیاس۔ پانی کے یہاں دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ ایک بورڈ دکھائی دیا۔ جس پر لکھا تھا Continental Divided Road Righter اس طرف صرف ٹیلی فون کے تار کھمبوں سے لگے دکھائی دئے۔ کہیں بجلی کے تاروں کا پتہ نہیں۔ اس طرف فاصلے کی نشاندہی کرنے کے لئے پتھر نہیں لگائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں کی دوری کی صراحت کافی وقفہ وقفہ سے بورڈ پر کی جاتی ہے۔

رالنس پر دس منٹ کے لئے بس رکی۔ بعض مسافرین نے ٹھنڈا ، گرم پیا، بیوی نے چائے اور ہم نے آرینج جوس پیا۔ چائے موٹے کاغذ کی چھوٹی گلاس میں اور آرینج جوس چھوٹے سے ٹن میں جو فرج میں رکھا ہوا تھا۔ بہت ٹھنڈا تھا۔ چائے کے ۲۰ سنٹ اور جوس کے ۳۰ سنٹ دینے پڑے۔ رالنس کے چار پانچ میل بعد ایک آئیل ریفانئری ملی۔ اس کے آنے تک زمین کا وہی حال ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا۔ ہمارا سفر مشرق کی طرف جاری ہے اس وقت چار بج کر ۲۰ منٹ ہوئے ہیں سورج گو روشن ہے لیکن کافی ڈھلا ہوا معلوم ہو رہا ہے۔

پانچ بجنے کو ابھی دس منٹ باقی تھے کہ ہم نے دیکھا کہ ہماری سیدھی طرف ایک بڑی لانبی اور چوڑی چراگاہ ہے۔ وہاں جا بجا گھاس کاٹ کر گٹھوں کی شکل میں رکھی گئی تھی۔ اس طرف دور دور تک گائیں چر رہی تھیں۔ سرو کے درختوں کے جھنڈ بھی دکھائی دئے۔ سورج غروب ہو گیا ہے لیکن روشنی باقی ہے۔ دو تین پہاڑیوں پر کچھ کچھ برف جمی ہوئی دکھائی دی۔ کچھ دور جانے کے بعد پھر افتادہ زمین دکھنے لگی۔ بس کی رفتار کافی سست معلوم ہو رہی ہے۔ انتہائی رفتار سڑک پر دی ہوئی ہدایات کے بموجب ۵۵ میل فی گھنٹہ ہے۔ بسوں کی آمد و رفت کے اوقات ایسے رکھے گئے ہیں کہ ڈرائیور تیز چلا بھی نہیں سکتا۔ کبھی کبھی یہ ڈرائیور بڑے اسٹیشن پر دس پندرہ منٹ پہلے بس لے آتے ہیں ویسے ان کو پابندی اوقات کرنی پڑتی ہے۔ اور ان کو تیز چلانے سے کوئی فائدہ نہیں کسی مقام پر بہت پہلے پہونچنے پر اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے۔ کہیں کہیں جھاڑبڑے بھی ہوتے ہیں تو سوکھے ہیں۔ ہم اس وقت صحت  سے گزر رہے ہیں۔

Dmaha, Nebrask

 ۱۰/ نومبر ۱۹۷۶ء ساڑھے نو بجے صبح رات میں تین ساڑھے تین بجے کے قریب ڈرائیور نے اناؤنس کیا کہ اب وقت بدل لیں۔ سنٹرل امریکہ کا وقت یہ ہے یعنی اپنی گھڑیوں میں ایک گھنٹہ بڑھا لیں۔ صبح کا جب اجالا ہوا تو ہم نے کاشت کی زمین کے مسطح میدان ہی میدان دیکھے۔ کئی کھیتوں سے فصل کاٹ لی گئی تھی۔ کئی جگہ گھاس یا کڑبی جمع کر کے رکھی گئی تھی۔ بعض جگہ اونچے اسٹیل کی جالی کے خول کھڑے کئے گئے تھے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کس غرض کے لئے ہیں۔ لیکن ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ اس میں چارہ گھاس ، کڑبی جمع کر کے رکھی گئی ہے۔ اس خول پر ڈھکن ہے اور اس کے چاروں طرف اسٹیل کی جالی لگی ہوئی ہے۔ غالباً چارے کو پانی اور برف سے محفوظ کرنا اور ساتھ ہی اس کو ہوا بھی پہونچانا مقصود ہے۔ اوماہا سے سات ، آٹھ میل قبل ڈرائیور نے کہا کہ ہماری بائیں طرف مشہور بوائزٹاون ہے۔ وہ ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر دکھائی دیا۔ وہاں بائز ٹاؤن کی ایک (لوح) بھی لگی ہوئی تھی۔

اوماہا کے گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن کا ویٹنگ روم بہت صاف ستھرا ہے۔ اس کے گول ہال میں بیسیوں کرسیاں فرش سے مستقل جوڑ دی گئی ہیں۔ اوپر کی گول دیوار بہت خوبصورت پینٹنگس سے بھری ہوئی ہے۔ وہ سب ریاستہائے متحدہ امریکہ کے خاص مقامات کے مناظر وغیرہ ہیں۔

یہاں کی رسٹورنٹ میں اونچے اسٹول لگے ہیں جس طرح شراب خانوں میں ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے میز ہے۔ اس اسٹول کی نشست گول پھر سکتی ہے۔ لیکن اسٹول اپنی جگہ پر جما ہوا ہے۔ اب تک ۲۴ گھنٹے متواتر بس میں گزرچکے ہیں۔ لیکن ابھی شکاگو پہونچنے کے لئے مزید ۱۲ گھنٹے درکار ہیں۔

Des Moines Lowa پر بس ۲۰ منٹ کے لئے رکی۔ گرے ہاؤنڈ اور ٹرائیل ویس کے بس اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں اسناکس اور ڈرنکس کی خود کار مشینیں لگی ہیں۔ پاسنجر پیسے ڈال ڈال کر  لیز ، اسناکس اور ڈرنکس لے رہے تھے۔ ہم نے آلوچپس لئے ڈبل روٹی ساتھ تھی۔ لڑکی  نے اچار کا شیشہ دیا تھا۔ لگا کر کھا لیا اور مشین سے ٹھنڈا پانی پی کر فارغ ہو گئے۔

یہاں سے نکلے تو راستے میں چاروں طرف کھیت مل رہے ہیں۔ کہیں ٹریکٹر سے فصل کاٹی جا رہی ہے کہیں مشین سے فصل کو جھٹک کر دانہ الگ کیا جا رہا ہے اس طرف کئی سوروں کے فارم ملے۔ سوروں کے قریب قریب رکھا جاتا ہے۔ گائیں کافی وسیع چراگاہوں میں چرتی ہیں۔

ہمارا سفر بس نمبر ۷۶۳۱ سے جاری ہے۔

ہم تین بجے سہ پہر میں Iowa City میں تھے۔ اس وقت جھاڑ بالکل سوکھے ہیں۔ صرف ڈالیاں دکھ رہی ہیں پتوں کا نام نہیں ہے۔ پتھ جھڑکا موسم گزرچکا ہے۔ اب برف گرے گی۔ اور اس کے بعد بہار کا موسم آئے گا۔

یہاں ہمارا گورا ڈرائیور بدل گیا۔ اس کی جگہ ایک اونچے پورے جوان کالے ڈرائیور نے لی ہے۔ ویسے ہم نے شہر کی بسوں میں بہت سے کالے ڈرائیوروں کو دیکھا ہے لیکن گرے ہاؤنڈ کے لمبے سفروں میں پہلی مرتبہ کالے آپریٹر (ڈرائیور) کو دیکھ رہے ہیں۔ اس ڈرائیور کے کپڑے بہت صاف ستھرے ہیں۔ جب وہ ہمارے بازو سے گزرا تو لگائے ہوئے سنٹ کی خوشبو بھی آئی۔ خانے میں لگائی ہوئی پلیٹ کے لحاظ سے اس کا نام T.E.Steele ہے۔ جب ہم اس شہر سے گزر رہے تھے تو ہماری نظر ایک قبرستان پر پڑی اس کی صفائی ایک شخص چھوٹی سی مشین کو ڈرائیو (چلاتے ہوئے ) کرتے ہوئے کر رہا تھا۔ جیکسن ویلی میں بھی ہم نے ایک شخص کو گھر کے لان کی گھاس کو ڈرئیوننگ چھوٹی موٹر سے کاٹتے ہوئے دیکھا تھا۔

بڑے بڑے فارم ہاؤس میں چھت پوش ٹینک بنے ہوئے ہیں۔ ان میں غالباً غلہ محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہ سب چوہوں سے بالکلیہ محفوظ ہیں۔ اس شاہراہ پر جتنی سڑکیں پھوٹتی ہیں ان کو نمبر دئے گئے ہیں جیسے اگزٹ نمبر ۱۰۔ اگزٹ نمبر ۱۱۔

سڑکیں اور موٹروں کے لئے وقفہ وقفہ سے ریسٹ ایریاز بنائے گئے ہیں۔ جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے یہ شاہراہ سے فرلانگ ڈیڑھ فرلانگ ہٹ کر ہوتے ہیں۔ یہاں گاڑیوں کو ٹھنڈا یا درست کر سکتے ہیں۔ بعض جگہ شیڈ بنائے گئے ہیں۔ کھانے کیلئے مستقل میز اور ان پر سائے کے لئے پختہ چھتریاں بھی بنی ہوئی ہیں۔ سڑک کے بازو ہورڈینگس (اشتہاری بورڈ) وقفہ وقفہ سے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کوئی شہر آنے والا ہوتا ہے تو موٹل ، ہوٹل اور اسٹورس کے ہوڈرنگس دکھائی دیتے ہیں۔ بعض جگہ یہ بھی ہدایت ہوتی ہے کہ آہستہ جانے والی سواریاں سیدھی طرف رہیں۔

Walcottعلاقہ میں میدان ایک بڑا پٹرول پمپ جسے یہاں گیس اسٹیشن کہتے ہیں۔ موجود ہے اس میں پانچ چھ پمپس پٹرول اور ڈیزل کے لگے ہیں۔ اس سے لگا ایک اچھا رسٹورنٹ ہے۔ یہ گیاس (پٹرول) اسٹیشن اور اس سے متصل رسٹورنٹ بالکل میدان میں ہیں۔ لیکن ہائی وے سے قریب ہیں۔ یہاں مکانات کی کثرت نہیں۔ البتہ چیدہ چیدہ مکانات ادھر ادھر ہیں۔ یہاں اکثر پاسنجر بس ، ٹرکس اور موٹر کارس وغیرہ  کھانے اور پٹرول وغیرہ کے لئے رکتی ہیں۔ رسٹورنٹ کی صفائی بہت اچھی ہے بس کے پاسنجروں کے لئے ایک حصہ الگ ہے اور دوسروں کے لئے الگ ، تین چار اونچے اسٹول بھی رکھے ہیں کہ ان پر بیٹھ کر سروس ٹیبل ہی پر کھا سکتے ہیں۔ ایک شیشے کے کیس میں مرغی کے علاوہ کئی اور ڈشیں موجود تھیں۔ ایک میٹھا فروٹ سلاد جس پر جیلی رکھی ہوئی تھی موجود تھا۔ اس پر لکھا تھا۔ اس میں سے آپ جو چاہیں کھا سکتے ہیں۔ نرخ بالغ کے لئے تین ڈالر دس سال سے کمر عمر کے بچوں کے لئے دو ڈالر۔ اس کے علاوہ مینو (نرخ نامہ) بک بھی تھی۔ جس میں ایٹم واری قیمتیں درج تھیں۔ بعض اس شیشے کے کیس میں سے اپنی پسند کی ڈشیں جتنی مقدار میں چاہیں ڈال کر کھا رہے تھے۔ ہم نے صرف چائے کا آرڈر دیا۔ میز پر دودھ۔ شکر (چینی) پیالی اور چمچہ وغیرہ پہلے ہی سے موجود تھے۔ لڑکی نے (پورے رسٹورنٹ کو اس وقت عورتیں ہی چلا رہی ہیں ) دو اسٹیل کیانس میں گرم پانی اور چائے کی پتی کی ایک ایک پڑیا لا کر دی۔ چائے بنائی تو بالکل ٹھنڈی تھی۔ ہم نے لڑکی سے کہا کہ پانی گرم نہیں تھا۔ اور گرم پانی لے آئے۔ اس نے ہاں کہا لیکن کافی دیر تک نہیں لائی۔ دوبارہ توجہ دلانے پر کہا کہ ابھی پانی مکمل طور پر گرم نہیں ہوا ہے لیکن تھوڑی ہی دیر میں دو اسٹیل کے کیان میں گرم گرم پانی اور مزید دو چائے کی پڑیاں لے آئی۔ اس سے چائے اچھی بنی۔ ہم کو خیال تھا کہ وہ دو دو پیالیوں کی قیمت بل میں درج کرے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نے صرف دو پیالیوں کی قیمت ۵۲ سنٹ یعنی فی پیالی ۲۵ سنٹس اور کل ۲ سنٹس ٹیکس کے لئے۔

ہر شخص بل اپنے ہمراہ لے کر اگزٹ کے قریب بیٹھی ہوئی کیاشیر خاتون کے پاس جا رہا تھا۔ وہ بل دیکھ کر اس کے سامنے رکھی ہوئی مشین کے عدد کے بٹن دباتی اور گاہک کو جو پیسے دینے ہوتے اس کا عدد سامنے آ جاتا اس طرح بل کی ادائی ہو رہی تھی۔

اب شام کے پانچ بجنے والے ہیں لیکن سورج ڈوب گیا ہے۔ ہم مشرق کی طرف شکاگو جا رہے ہیں۔ جہاں معلوم ہوا کہ بس رات میں ۹ بجے پہونچے گی۔ رسٹورنٹ اور ہماری بس دونوں گرم رکھے گئے ہیں۔ بس سے رسٹورنٹ کو آتے وقت اور وہاں سے بس کو واپس جاتے وقت کافی سردی محسوس ہوئی۔

پانچ بجنے کے دو تین منٹ بعد Daven Prot (IA) پر بس رکی۔ ڈرائیور نے اعلان کیا کہ فلاں فلاں مقامات کو جانے والے یہاں بس تبدیل کر لیں۔ اور جو یہاں نہیں اتر رہے ہیں وہ براہ کرم بس میں ہی بیٹھے رہیں۔ وہاں سے نکلے تو راک آئیلینڈ کانٹینینٹل بلڈنگ سے گزرے۔ ۵ بج کر ۲۵ منٹ پر راک آئیلینڈ پر بس رکی۔ ڈیون پورٹ اور راک آئیلینڈ کے درمیان صرف ایک پل حائل ہے۔ اس بس اسٹاپ پر راک آئی لینڈ سے شکاگو کا کرایہ نو ڈالر ستر سنٹس لکھا ہوا ہے۔

اس وقت شام کے ۵ بج کر ۳۵ منٹ ہوئے ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے رات ہو گئی ہو۔ کئی دوکانیں بند ہو گئی ہیں لیکن اندر سے روشن ہیں سارا شہر روشنی سے جگمگا رہا ہے۔ سڑکوں پر جدھر دیکھو موٹریں پارک کی ہوئی ہیں۔ سردی کی وجہ سے سوائے دو ایک پیدل را ہو کے کوئی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

شکاگو کے آنے سے ۲۰ ، ۲۵ میل پہلے ہی سڑک پر الکٹرک پول کی روشنی شروع ہو گئی۔ پہلے سفید روشنی تھی اس کے بعد تھوڑے فاصلہ کے لئے پیلی روشنی اور پھر شہر پہونچنے تک سفید روشنی رہی۔ ہم جب شکاگو سے قریب ہو رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ سڑک پر ہزاروں ذرات اڑ رہے ہیں۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید روشنی کی وجہ سے چھوٹے کیڑے ہیں جو آ گئے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ یہ سب برف کے ذرات تھے جو گر رہے تھے چونکہ اس منظر سے ہماری نظریں زندگی میں پہلی مرتبہ دوچار ہوئی تھیں اس لئے ہم اس کو نہیں سمجھ سکے تھے۔

گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن پہونچنے سے پہلے ہم شکاگو کے قلب شہر کی بعض اونچی اونچی عمارتوں کے سامنے سے گزرے۔ یہ بس اسٹیشن 74, West Randulph St. پر ہے۔ ہم کو یہاں تہہ خانہ میں اتارا گیا۔ ہم Elevator سے اوپر آئے تو ویٹنگ اور بکنگ آفس کا ہال ملا۔ ہم نے بکنگ کلرک سے پوچھا کہ قریب میں کوئی سستی قسم کی ہوٹل یا موٹل مل سکتی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اس کو نہیں معلوم ایک طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہاں وائی۔ ایم۔ سی۔ اے ہوٹل کا ٹیلی فون رکھا ہے میں بات کر لوں۔ وہاں گیا تو دیکھا کہ ریسور اٹھا کر راست وائی۔ ایم۔ سی۔ اے سے بات کی جا سکتی ہے۔ اور یہ کہ مردوں ، عورتوں اور خاندانوں کے لئے کمرے موجود ہیں۔ پتہ بھی درج تھا۔ بس سے آنے کا راستہ بھی بتا دیا گیا تھا۔ ہم نے ٹیلی فون اٹھایا تو بات ہو گئی۔ بات کرنے والے نے کہا کہ ہم آ جائیں تو کمرہ مل جائے گا۔ ہم نے پوچھا کہ ہم پیدل یا بس سے آ سکتے ہیں تو اس نے کہا نہیں ہم کو ٹیکسی لینی پڑے گی۔ ہم نے پوچھا کہ گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن سے وہاں تک کا اندازا کرایہ کیا ہو گا۔ تو اس  نے کہا کہ ڈالر ڈیڑھ ڈالر۔ دو بستر کے کمرے کا کرایہ پوچھا تو گیارہ ڈالر کہے۔ اس گفتگو کے بعد ہم بس اسٹیشن کے رسٹورنٹ میں گئے اور کچھ کھا پی لیا۔ ہم نے سنا تھا کہ شکاگو میں جرائم بہت ہوتے ہیں۔ اس وقت جب کہ رات کے دس بج رہے تھے اور بڑی رات ہونے کے آثار تھے۔ ہم ٹیکسی میں بیٹھ کر جانے کے پس و پیش کر رہے تھے۔ بس اسٹیشن پر ہم نے ایک کالے پولیس آفیسر پوچھا کہ وائی۔ ایم  سی۔ اے ہوٹل تک ٹیکسی میں بیٹھ کر جانے میں کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ بہرحال ایک ٹیکسی لے کر بیٹھ گئے۔ اس کو ایک گورا چلا رہا تھا۔ اس نے پوچھا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں تو ہم نے کہا انڈیا سے۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا ہم اس وقت راست انڈیا سے آ رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم گھوم پھر کر آ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ ۱۹۴۵ء میں کولمبو میں امریکن نیوی میں تھا۔ لیکن ہندوستان جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا یہاں ہندوستانی اور پاکستانی بہت ہیں ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے باتوں باتوں میں یہ بھی  بتایا کہ یہاں گورے شہر سے ذرا ہٹ کر ہیں۔ کیونکہ یہاں سب کالے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں سے ملتے نہیں اور اپنے ہی میں رہتے ہیں۔ اس لئے پاکستانی ، ہندوستانی اور مقامی گورے قلب شہر سے ذرا دور ہیں۔ تھوڑی دیر میں ہم وای۔ ایم۔ سی۔ اے Hotel, 826 S.Wabash Avenue, Chicago پہونچ گئے۔ اس وقت موٹر کا میٹر ۱۵۰ سنٹس بتا رہا تھا۔ پیسے دینے لگا تو ڈرائیور نے ایک سو ستر سنٹس مانگے۔ ہم نے ۱۷۵ سنٹس دئے۔ جب ہم ٹیکسی سے اترے تومحسوس کیا کہ اوپر سے برف کے ذرات گر رہے ہیں جب ہم ہوٹل میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ہوٹل کے سب کاروبار کالے ہی چلا رہے ہیں۔ جب ہم کمرہ دینے والے کلرک کے پاس پہونچے تو بیوی ذرا دور کھڑی تھیں۔ اس نے ہم کو تنہا سمجھ کر پوچھا کہ ہم کو چھ ڈالر کا کمرہ چاہئے یا آٹھ ڈالر کا۔ چونکہ پرائیویٹ w.c آٹھ والے کمرے میں تھا۔ وہ ہم لے لیا۔ کارڈ مکمل کر کے دو دن کا کرایہ دے دیا۔ ہم کو گیارہویں منزل پر کمرہ ملا۔ ہمارے کمرے کا نمبر ۱۱۰۰۸ تھا۔ کمرے میں آئے تو اس میں ایک ہی بستر پایا۔ اتنا تھک گیا تھا کہ پھر نیچے جا کر دو بستروں کے کمرے کے لئے کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ یہ منزل صرف تنہا مردوں کے رہنے کی ہے۔ دوسرے دم ہم کو کمرہ بدل دینا پڑا۔ جب ہم گیارہویں منزل سے اپنا سامان لینے کے لئے جانے لگے تو لفٹ والے نے بیوی کو اس منزل پر اترنے نہیں دیا۔ نہیں معلوم رات میں لفٹ والے نے بیوی کو اس منزل پر کیسے اترنے دیا۔ ہم کو ہی دو تین چکر کر کے گیارہویں منزل سے اپنا سامان دوسری منزل کے کمرے میں لے جانا پڑا۔

702 - 580 - Lolita

Gardens, Miss Ssauga

Ontario - Canada

۱۴/ نومبر ۱۹۷۶ء کل گھوم پھر کر ڈیڑھ بجے دوپہر ہم گرے ہاؤنڈ بس  سے ٹورنٹو پہونچ گئے۔ لڑکے کو ٹیلی فون کیا تو وہ اپنی موٹر میں اگر اپنے گھر لے گئے۔ وہ اس وقت اپنے ایک دوست کے گھر جا رہے تھے۔ وہ دوست اپنا مکان بدل رہے تھے۔ ایسی صورتوں میں عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ مکان تبدیل کرنے والا اپنے دوستوں کو بلا لیتا ہے۔ اور  وہ اپنی اپنی موٹریں لے کر پہونچ جاتے ہیں۔ اور سب سامان ان میں بھر کر نئے مکان میں پہونچا دیتے ہیں۔ بلکہ کچھ نہ کچھ جمانے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ وہاں لیبر اور سواری اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ اس طرح ایک دوسرے کو مدد دینا پڑتا ہے۔

شکاگو میں دو دن اور دو رات قیام رہا۔ اس کی آبادی ۴۰ لاکھ ہے یہاں خوب ہوائیں چلتی ہیں۔ یہ ونڈے سٹی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مشیگن جھیل پر واقع ہے۔ یہاں ہوا ، پانی ، روڈ اور ریل سب ہی طرح سے آ سکتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کانریڈ ہلٹن دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل یہاں واقع ہے۔ جھیل اور اس کے اطراف میں سیاحوں کی رہائش کے علاوہ صرف قلب شہر میں ۲۰ ہزار مسافرین کی رہائش کا انتظام ہے۔ زمین دوز تیز رفتار ریلیں ، سطح زمین پر چلنے والی بسیں اور قلب شہر سے ذرا ہٹ کر دو منزلہ ٹرینوں کے علاوہ عین قلب شہر میں اسٹیل اور لکڑی کے تختوں کی چھت والی کران پر ٹرینیں چلائی جاتی ہیں۔ یہ سروں کے اوپر چلنے والی لوپ ٹرینیں کہلاتی ہیں۔ یہ لوٹ ٹرینیں شہر کے بڑے بازاروں کو چھوتی ہیں۔ ہم اس میں بیٹھ کر قلب شہر کے دو تین چکر لگائے۔ اس کے علاوہ ایوانسٹن اکسپریس میں بیٹھ کر شکاگو کے کنارے والے علاقہ کا بھی کچھ اندازہ لگایا۔

جب ہم شکاگو میں ۱۱/ نومبر کی صبح کو گیارہ بجنے کے بعد کافی گرم کپڑے پہن کر باہر نکلے تو زبردست سردی محسوس ہوئی۔ ہمارے دستانے بیوی نے لڑکے کے پاس مسی ساگا میں بھول آئیں تھیں ہاتھوں کو کھلا رکھنا مشکل معلوم ہو رہا تھا۔ جب ہم نے مرین اسکوائیر میں جہاں شکاگو سن ٹائم کا آفس ہے۔ فوٹو لینے کے لئے جیبوں سے ہاتھ نکالا تو اتنی سردی لگی کہ ہاتھ سن دکھائی دینے لگے۔ مجبوراً دو دو ڈالر میں دو جوڑدستانوں کے بیوی اور میرے لئے لینے پڑے۔ ان کے پہننے کے بعد بھی ہاتھ گرم کوٹ کی جیبوں میں رکھنے کو دل چاہ رہا تھا۔

شکاگو میں ہم کو اسٹیٹ اسٹریٹ کافی بڑی اور تجارتی دکھائی دی۔ اس کے لائٹ کے کھمبوں پر بڑے بڑے پتوں کے گلدستے بنا کر لگائے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی سے کرسمس کی کچھ نہ کچھ تیاری شروع ہو گئی ہے۔ کئی دوکانوں کے شوکیسوں میں بہت سلیقے سے جھاڑ اور پتلے بنا کر رکھے گئے ہیں۔ یس۔ وباش اوینیو کی ایک دوکان Drigstone Associaties میں کرسمس کے جھاڑ کے پتلے بہت سلیقے اور زینت کے ساتھ شوکیس میں رکھے گئے تھے۔ اور بجلی کے کرنٹ سے ان کو متحرک کر کے ان سے مختلف دلچسپ حرکات کرائی جا رہی تھیں۔

Shmenol's Viena Pure Beff میں دیکھا کہ کافی لوگ کھا پی رہے تھے۔ ہم نے اس میں جا کر ’’ برگر اور فرنج فرائزر ‘‘ وغیرہ کھا چیزیں مزیدار تھیں لیکن گرم گرم خشکہ اور کھٹے سالان یہاں کہاں ؟

۱۲/ نومبر کو دن میں Randolph's Street کے ایک کنارے پر جو مشی گن جھیل کے قریب ہے گئے۔ وہاں ہم نے پروڈنشیل بلڈنگ اور اسٹانڈرڈ آئیل بلڈنگ دیکھی۔ پروڈینشیل بلڈنگ چالیس منزلہ اور اسٹانڈرڈ بلڈنگ ۸۰ منزلہ ہے۔ پروڈینشیل کی چالیسویں اور بیسویں منزل پر الیوپٹر (لفٹ ) سے گئے۔ اسٹانڈرڈ آئیل بلڈنگ کے نچلے حصہ میں ’’دی شکاگو بینک آف کامرس ‘‘ دیکھی۔ اس بلڈنگ کے اوپر کی ۸۰ منزلوں کے علاوہ سطح زمین سے نیچے ۵ منزلیں ہیں۔ اس میں بائیلر پلانٹ۔ پارکنگ کی سہولتیں ، میٹنگ رومس وغیرہ موجود ہیں۔ آگ سے جان و جائیداد کو بچانے کے لئے مختلف تدابیر کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ ایک تربیت یافتہ عملہ اس کی چوبیس گھنٹے حفاظت کرتا ہے۔

جب سالٹ لیک سٹی سے شکاگو کے لئے نکلے تھے تو بس کے بیاگیج کمپارٹمنٹ میں ہم نے اپنا ایک بیگ ٹیاگ لگوا کر رکھ دیا تھا۔ جب ہم شکاگو پر اترے تو اس کو ٹیاگ کا مثنی دے کر حاصل نہیں کیا۔ جب سامان منزل مقصود پر اترنے کے بعد حاصل نہیں کیا جاتا ہے تو وہ بس سے بیاگیج کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ ایسا سامان تین دن تک بیاگیج روم میں مفت چھوڑا جا سکتا ہے۔ ہم جیسے مسافر کے لئے یہ سہولت بہت مفید تھی۔ ہم پہلے ہی اندازہ لگا لیتے تھے کہ اس بیاگ سے ہم کو آئندہ مقام پر کس چیز کی ضر رت پڑے گی وہ اس میں سے نکال لیتے تھے۔ اور کوئی چیز اس میں رکھنی ہوتی تھی جس کی آئندہ مقام پر ضرورت نہیں پڑنے والی ہو تو وہ اس میں رکھ دیتے تھے۔ اور جب منزل مقصود پر پہونچ جاتے تواس بیاگ کو حاصل نہیں کرتے بلکہ بیاگیج روم ہی میں پڑا رہنے دیتے۔ ہمارا قیام سوائے نیویارک اور ڈلاس (ارونگ) کے کسی مقام پر بھی دو دن سے زیادہ نہیں رہا۔ اس طرح بیاگ کے لگیج روم میں چھوڑ دینے سے اس کو بس اسٹیشن سے کسی ہوٹل یا موٹل کو لے جانے اور وہاں سے واپس لانے کی زحمت سے بچ جاتے تھے۔ جہاں ہم نے بیاگ چھوڑا تھا وہاں سے جب ہم آگے کا سفر شروع کرتے تواس بیاگ کو اپنی مثنی ٹیاگ بتا کر حاصل کر لیتے اور اس میں سے کچھ لینا ہوتا یا اس میں کچھ رکھنا ہوتا تو رکھ دیتے اور پھر بس یا لگیج روم ہی میں اگلے سفر کے لئے اپنا ٹکٹ بنا کر یہ بیاگ پھر دے دیتے۔ اور اس پر آئندہ منزل مقصود کا ٹیاگ لگا یا جا کر اسی نمبر کا مثنی ٹیاگ ہم کو دے دیا جاتا۔ اس تین دن تک بیاگیج روم  میں مفت رکھنے کی سہولت کا پتہ ہم کو بس کے آغاز سفر کے آدھے دنوں بعد ہوا۔ ابتداء میں دوسرے سامان کے ساتھ یہ بیاگ بھی ہوٹل یا موٹل کو لاتے لیجاتے رہے۔

جب ہم ۱۲/ نومبر جمعہ کو سہ پہر میں شکاگو سے ٹورنٹو (کنیڈا) کے لئے نکلنے والے تھے تو روانگی وقت سے بہت پہلے ہم نے اپنا بیگ جو سالٹ لیک سٹی سے آیا ہوا تھا ، ٹیاگ بتا کر لگیج روم سے حاصل کیا۔ اس میں سے کچھ لے کر اور اس میں کچھ رکھ کر پھر وہ بیاگ ہم نے بیاگیج کلرک کو دیا کہ ہم ٹورنٹو جا رہے ہیں اس پر ٹورنٹو کا ٹیاگ لگا کر ہم کو اس کی مثنی سلپ دے دی جائے۔ اس وقت ایک کالی خاتون بیاگیج روم کی انچارج تھی۔ اس نے کہا کہ ہم بس پر چڑھتے وقت چیک ان کرا لیں۔ بس میں سوار ہونے کے لئے دو منزل نیچے جانا پڑتا تھا۔ ہم دوسرے سامان کے ساتھ یہ مقفل بیاگ (مقفل اور بند بیاگ کے سوا کھلا سامان لگیج کمپارٹمنٹ میں نہیں رکھا جاتا ہے ) بھی اٹھا کر نیچے لے جانے کی زحمت سے بچنا چاہتے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ ہمارا سامان لگیج روم پر چک ان کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ؟ اس پر اس نے ہمارا ٹکٹ مانگا۔ ہم نے دکھایا۔ ہمارے دو ٹکٹ بنے تھے ایک شکاگو سے ڈیٹرائیٹ تک اور دوسرا ڈٹرائیٹ سے ٹورنٹو تک کالی خاتون نے ہمارے بیاگ پر ڈیٹرائٹ کا ٹیاگ لگا کر اس کی ایک پرت ہم کو دے دی۔ ہم نے کہا کہ وہ راست ٹورنٹو تک کے لئے بیاگ پر ٹیاگ لگا دے اس نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ پہلے ہم کو ڈیٹرائیٹ پر اپنا بیاگ حاصل کرنا پڑے گا اور پھر ٹورنٹو کے لئے رکھانا پڑے گا۔ ہم کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس لئے معلومات کے کاؤنٹر پر جا کر ہم نے اس کے متعلق گفتگو کی۔ اس نے کہا کہ ڈیٹرائیٹ کے بعد ہی کینیڈا والے سامان کا کسٹم کریں گے اور یہ کہ سامان لینے کے لئے ڈیٹرائیٹ پر کافی وقت رہے گا۔ ہم خاموش ہو گئے۔

ہم دروازہ نمبر ۹ سے بس میں چڑھنے والے تھے۔ یہ تہہ خانے کی دوسری منزل پر تھا۔ جب ہم بس میں چڑھنے لگے تو ہم نے دیکھا کہ بس کے بیاگیج کمپارٹمنٹ میں ہمارا بیگ موجود نہیں ہے۔ ہم نے آپریٹر (ڈرائیور) کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اس نے کہا کہ شاید ہمارے بیاگ پاسنجر بس سے جو اس اکسپرس بس سے آدھ گھنٹہ پہلی نکلی ہے بھیج دیا گیا ہو۔ ہم نے کہا کہ ہم اوپر جا کر بیاگیج روم میں جا کر دیکھیں۔ تو اس نے کہا کہ بس اب نکلنے والی ہے۔ اتنا وقت نہیں ہے۔ ہم نے پھر اس سے عرض کی کہ سامنے رکھنے ہوئے ٹیلی فون سے وہ بیاگیج روم سے ربط پیدا کر کے ہمارے بیگ کے متعلق دریافت کرے۔ اس نے جواب دیا کہ بیاگیج روم میں ٹیلی فون نہیں ہے۔ اتنے میں ایک شخص (قلی) ٹرالی میں کچھ اور سامان چڑھانے کے لئے لایا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میرا بیاگ نہیں چڑھایا گیا ہے تو اس نے لائی ہوئی ٹرالی کا سامان دکھایا۔ اس میں بھی ہمارا بیاگ نہیں تھا۔ اس نے بھی کہا کہ ممکن ہے وہ پہلی بس سے چلا گیا ہو۔ بس تھوڑی دیر میں نکل گئی۔ یہ اکسپرس بس ڈیٹرائیٹ رات کے گیارہ بجے ٹھیک وقت پر پہونچتی۔ وہاں سے دوسری اکسپرس بس ٹورنٹو کے لئے رات کے گیارہ بج کر بیس منٹ پر نکلنے والی تھی۔ پاسنجر بس اس وقت تک وہاں نہیں آئی تھی ہم نے ڈیٹرائیٹ کے لگیج کلرک کو اپنی مشکل بتائی تو اس نے کہا کہ "Authorisation Letter" پر دستخط کر دیں۔ ہم دوسرے دن تمہارا بیاگ کسٹم کرا کر ٹورنٹو بھیج دیں گے  اس کے بعد اس نے کہا کہ وہ پیر سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ اس لے کہ ان کی لگیج ٹرک ہفتہ اور اتوار کو نہیں جاتی ہے۔ اس طرح عمل میں ہم کو دقت معلوم ہوئی۔ ایک اور انچارج سے ہم نے اپنی پریشانی بتائی تو اس نے کہا کہ وہ ٹورنٹو جانے والی اکسپرس کو اس وقت تک روکے رکھے گا جب تک کہ شکاگو سے پاسنجر بس نہ آ جائے۔ چنانچہ اس نے ویسا ہی کیا۔ لیکن جب پاسنجر بس آئی تو اس میں بھی ہمارا بیاگ نہیں تھا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے بیاگ کی ڈیٹرائیٹ کے لگیج سکشن کے حوالے کر دی کہ وہ پیر کے دن کینیڈا کی سرحد پر اس بیاگ کا کسٹم کرا کر ٹورنٹو بھیج دیں۔ دوبارہ سوچ کر ہم نے طے کیا کہ ہم ڈیٹرائیٹ ہی میں ٹھیر جائیں اور سوپر وائزر سے کہہ کر شکاگو کے گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن سے ربط پیدا کریں۔ سوپر وائزر یہاں ایک گوری عورت تھی۔ اس کی کئی مرتبہ کوشش کے بعد ربط پیدا ہوا بھی تو وہاں سے جواب ملا کہ شاید ہمارے بیاگ رات کی ۱۱ بج کر ۵۳ منٹ والی بس میں رکھ دیا گیا ہو۔ آدھی رات کو شہر میں جا کر کسی ہوٹل میں ٹھیرنا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسری  اکسپرس بس شکاگو سے ۱۲/ نومبر کی صبح ۶ بج کر ۴۵ منٹ پر آنے والی تھی۔ سپروائزرسے ہم نے پوچھا کہ وہاں کوئی ایسا کمرہ وغیرہ ہے جہاں ہم لیٹ سکیں۔ اس نے کہا کہ بس اسٹیشن پر ایسا کوئی کمرہ نہیں ہے۔ پھر ہم نے پوچھا کہ ویٹنگ ہال میں کسی طرف ہم کچھ بچھا کر اپنے پاؤں دراز کر سکتے ہیں۔ تو اس نے کہا کہ میں سکیوریٹی آفیسر سے بات کروں۔ اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ویٹنگ روم میں کرسیوں پر بیٹھنے کی اجازت ہے لیکن فرش پر لیٹنے کی نہیں۔ ہم نے ساری رات کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے گزار دی اسی دوران ایک کالا نوجوان لڑکا فوجی کیڈٹ کے لباس میں ہمارا بازو آ کر بیٹھا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد ہم نے پوچھا کہ کیا ریاستہائے متحدہ امریکہ میں گوروں کے مقابلے میں کالوں کے ساتھ کوئی فرق برتا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ ایسا صاف کہتے تو نہیں اور ویسے ظاہر بھی کرتے لیکن ان کو (کالوں کو ) ذمہ دارانہ خدمات اور ترقی وغیرہ دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔

ڈیٹ رائیٹ موٹر سٹی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دیو ہیکل انڈسٹری کا مقام مشیگن جھیل کے جنوبی حصہ پر ہے۔ ڈیٹ رائیٹ اور اس کے اطراف کی زبردست آٹو موبائیل صنعت دنیا کے کسی بھی علاقہ کی آٹو موبائیل صنعت سے بہت بڑھ کر ہے۔ ہنری فورڈ جس نے اپنی کھینچی جانے والی سواریوں کی دوکان کو آٹو موبائیل شاپ میں تبدیل کر دیا تھا اور اس کے جسے دوسرے افراد کی اپج اور انتھک کوششوں کا یہ نتیجہ ہے کہ ڈیٹرائیٹ شہر کو دنیا میں یہ اہمیت حاصل ہوئی۔ جنرل موٹرس۔ فورڈ اور کرسی لر جیسے دنیا کے مشہور آٹوموبائیل بنانے والی کمپنیوں کا یہ ہیڈکواٹرس ہے۔

صبح میں جب اکسپرس بس شکاگو سے آئی تو اس میں ہمارا بیگ بھی آ گیا۔ اس کو ہم نے اپنا ٹیاگ دے کر حاصل کر لیا۔ وہی بس ۸ بجے ڈیٹرائیٹ سے نکل کر ٹورنٹو جا رہی تھی۔ وہ بیاگ ہم نے اپنے ساتھ ہی رکھ لیا کہ کینیڈا کی سرحد پر کسٹم کرانا تھا۔

جب اس بس میں سوار ہونے کے لئے قطار میں کھڑے ہوئے تھے تو ہم سے دو تین اشخاص آگے کھڑی ہوئی لڑکی جو شبہات اور لباس میں بالکل امریکن معلوم ہو رہی تھی ہماری بیوی کی ساڑی کو دیکھ کر ان کے پاس آئی۔ اور پوچھا کہ کیا وہ ہندوستان کی ہیں۔ ہم نے ان کی طرف سے جواب دیا اور انگریزی میں باتیں ہونے لگیں۔ اس نے کہا کہ وہ ہندوستان کی ہے۔ اور کیرالا کی رہنے والی ہے۔ ڈیٹرائیٹ کے کسی ہاسپٹل میں نرس کا کام کرتی ہے اس کو اجرت فی گھنٹہ ۸ ڈالر اور کبھی شفٹ کی تبدیلی سے زیادہ بھی ملتی ہے۔ اتنا کمانے کے باوجود امریکن زندگی سے بہت نالاں تھی۔ کہتی تھی کہ وہاں کسی چیز کی حفاظت کا یقین نہیں ، جان ، عزت اور مال سب ہی کو ہر وقت خطرہ ہے۔ وہ خود ہندوستان واپس ہونا چاہتی ہے۔ لیکن اس کا بھائی جو کینیڈا کے ہیملٹن شہر میں رہتا ہے اس کو روکتا ہے۔ وہ اس وقت اپنے بھائی سے ملنے جا رہی تھی۔ ہر مہینے دو مہینے میں اس سے ملنے جاتی رہتی ہے۔

ڈیٹرائیٹ شہر سے لگی ہوئی ڈیٹرائیٹ ندی ہے۔ اس کے پرے کینیڈا کی سرحد کا شہر Windsor ہے۔ اس ندی کو عبور کرنے کے لئے دو راستے ہیں۔ ایک اس پر پل بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف ندی کے نیچے سرنگ ہے جس میں دو رخی راستہ ہے۔ ہماری بس جب سرنگ سے گزر رہی تھی تو وہ کیرالا لڑکی کہہ رہی تھی کہ جب بھی وہ اپنے بھائی کے پاس جاتی ہے تو اس کو اس سرنگ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور اس کو ہمیشہ یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر اس سرنگ میں کہیں کچھ شگاف وغیرہ پڑ جائے تو اس وقت جو بھی سرنگ میں ہو گا پانی کی قبر میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گا۔

ونڈسر میں کینیڈا کے ایمگریشن کے آدمی نے بس میں آ کر مسافرین کے پاسپورٹ کی تنقیح کی او دوچار آدمیوں کو اتر کر آفس میں جانے کے لئے کہا ان میں ہم بھی ایک تھے۔ آفس میں بھی ہمارا پاسپورٹ ذرا تفصیل سے دیکھا گیا جوں ہی ان لوگوں نے ہمارے گذشتہ ماہ میں ٹورنٹو کی ایرپورٹ پر اترنے کی مہر دیکھی ہم سے مزید کچھ پوچھے بغیر کینیڈا کی سرحد میں دوبارہ داخل ہو جانے دیا۔

کینیڈا میں بھی ایک لندن شہر ہے جہاں سے ہماری بس گزرنے والی تھی۔ پوری رات بیٹھے بیٹھے گزری تھی اس لئے ہم بس کی آخری سیٹ  پر چلے گئے جہاں تین نشستیں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہاں کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کر کے لیٹ گئے۔ بیوی کا بیان ہے کہ لندن آنے سے قبل ہی ان کو اطراف کے کھیتوں میں کچھ سفید سفید دکھائی دیا۔ انہوں نے خیال کیا کہ ہر طرف چونا کیوں چھڑکیا گیا ہے۔ لیکن تھوری دیر بعد پتہ چلا کہ وہ چونا نہیں برف ہے جو پھیلی ہوئی ہے۔

لندن میں بس داخل ہوتے وقت میں اٹھ بیٹھا۔ میں نے دیکھا کہ اس طرف کافی برف پڑی ہے۔ سڑک پر موٹروں کی آمد و رفت کی وجہ سے برف جمی ہوئی نہیں تھی۔ لیکن اس کے بازو ساری زمین برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اسی طرح لندن کے مکانات کی بعض چھتوں پر جو زیادہ ڈھلوان نہیں تھے برف جمی ہوئی تھی۔ گھروں کے سامنے اور پیچھے کے سب صحن اور دوسری کھلی جگہ برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ وہ موٹریں جو غالباً رات سے کھڑی ہوئی تھیں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ ۱۹۷۳ء میں جب ہم تبریز (ایران) سے ارزردوم (ترکی) جا رہے تھے تو ہم نے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر برف جمی ہوئی دیکھی تھی۔ بعض جگہ برف کاٹ کر سواریوں کے لئے راستہ بنایا گیا تھا۔ پھر بھی ہم اس طرح مکانوں اور کھلی زمین کا برف سے ڈھکا رہنا اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ لندن کے بعد بھی ۱۵، ۲۰ میل تک برف دکھائی دی۔ اس کے بعد کم ہوتی گئی۔ ہملٹن شہر آتے آتے برف بالکل غائب ہو گئی۔ اسی طرح ٹورنٹو پہونچے تو گو سردی بہت تھی لیکن برف نام کو نہیں تھی۔ یہ جو برف ہم نے دیکھی تھی غالباً رات میں پڑی ہو گی ہماری بس جب گزر رہی تھی اس وقت برف نہیں پڑ رہی تھی۔

جب ہم اپنے لڑکے پاس مسی ساگا (ٹورنٹو) پہونچے تو محسوس ہوا کہ ہم متواتر سفر سے کافی تھک گئے ہیں۔ جب ہم نے نقشہ سے طے شدہ فاصلہ دیکھا تو وہ اس طرح ظاہر ہوا ٹورنٹو سے مانٹریال۔ ۳۴۵ میل اٹاوا۔ ۱۲۸ میل۔ مانٹریال واپس۔ ۱۲۸ میل۔ باسٹن ۳۳۱ میل ، نیویارک ۲۱۹ میل واشنگٹن ۲۳۶ میل جیکسن ولی ۸۱۷ میل ، آرسپانڈو ۱۵۷ میل ، ڈالس ۱۲۸۴ میل ، ال پاسو ۶۲۹ میل۔ لاس اینجلس ۷۹۷ میل ، سان فرانسسکو ۴۲۵ میل سالٹ لیک سٹی ۷۵۴ میل ، شکاگو ۱۴۵۱ میل ، ٹورنٹو ۵۲۹۔ کل فاصلہ جو تین دن میں گرے ہاؤنڈ بس کے ذریعہ طے کیا گیا (۸۲۳۰) میل تھا۔

اس طویل بس کے سفر کے بعد گھر کا کھانا اور ہر طرح کا آرام ہمارے لئے مفید ثابت ہوا۔ لڑکے کئی دوستوں نے ہم کو کھانے پر بلایا۔ ہمارے ایک بھانجے داماد خورشید محی الدین اور ہماری حقیقی بھانجی شاہدہ نے ان کے رچمنڈ ہل کے مکان میں ہم کو کھانے پر مدعو کیا۔ یہ سب دعوتیں رات کے وقت ہوئیں۔ یہاں سب جگہ ہندوستانیوں کا اجتماع تھا۔ البتہ ہمارے داماد صاحب کے پاس کچھ پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ادھر بھی ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے گروپ کچھ الگ الگ ہی رہتے ہیں۔

کینیڈا میں ہمارے مقام سے جو بھی آئے ہیں معلوم ہوا کہ محنت سے کام کرتے ہیں۔ کام تقریباً سب ہی کو مل جاتا ہے۔ اگر نوکری چھوٹ جائے تو بے روزگاری کا اتنا الاؤنس ملتا ہے کہ کھا پی کر کچھ سینما بینی ہو سکتی ہے۔ چونکہ اکثر نوجوان کمانے کے خیال سے ادھر آتے ہیں اور ان کا ایک مقصد اپنے ماں باپ اور خاندان والوں کی مدد بھی کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ کافی محنت سے کام کرتے ہیں۔ اور او ور ٹائم (مقررہ وقت سے زاید کام) کر کے بھی کماتے ہیں۔ جیسی آمدنی ویسا خرچ بھی ہے۔ لیکن ہندوستانی اور پاکستانی نوجوان کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں۔ اور وہاں جو کچھ بچتا ہے اس کا بدل ہندوستان اور پاکستان میں کئی گنا زاید ہوتا ہے۔ جیسے کوئی لڑکا محنت کر کے دو تین سو ڈالر ہر ماہ بچا لیتا ہے تو ہندوستان میں اس کی بچت دو تین ہزار روپئے کے قریب ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ خیال غلط ہے کہ پیسہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ وہاں خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے پاس جس طرح چھوٹے بڑے کام کام خیال کیا جاتا ہے یہاں وہ ذہن سے نکال دینا پڑتا ہے۔ منتقل ہونے والوں کو زیادہ تر کارخانوں ، ہوٹلوں اور دوسری جگہ جسمانی محنت کا کام کرنا پڑتا ہے۔ حیدرآباد کے کئی ایک بڑے گھرانوں کے لڑکے یہاں چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں۔ لیکن اس سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی ہے۔ وہاں دفتری کام کے مقابلے میں جسمانی محنت کے کاموں میں زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے جسمانی کام کرنے والوں میں کوئی حجاب نہیں ہوتا ہے۔ گو کھانا اور کپڑا ہمارے مقابلہ میں زیادہ مہنگا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کی دسترس میں ہے۔ صحت بخش غذا ، گرم اور صاف ستھرا کپڑا۔ اور سر پر چھت جو انسان کی بنیادی ضروریات ہیں کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سب کو میسر ہیں۔ گو امریکہ میں کالوں کا حال مقابلتاً برا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ ہمارے ہاں غریبوں اور دوسری جاتیوں کا ہوتا ہے۔

۲۱/ نومبر ۱۹۷۶ء

اتوار۔ ہمارے پہلے سے بنائے ہوئے پروگرام کے لحاظ سے ہم ۲۱/ نومبر کو ٹورنٹو سے شام میں برٹش ایرویز کی پرواز (BA600) سے لندن کے لئے روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹہ بعد ہی رات کا کھانا دیا گیا۔ ہم لوگ گھر سے کھا کر نکلے تھے میٹھے کے سوا کچھ نہیں کھا سکے۔ یہ پرواز سارھے چھ گھنٹے میں مکمل ہوئی۔ ٹورنٹو کے رات کے دو بجے انگلینڈ میں صبح کے ساتھ بج رہے تھے اور سورج کی روشنی نمایاں تھی۔ اس وقت ہم کو صبح کا ناشتہ دیا گیا۔ لندن کے ہیت رو ایرپورٹ پر ہمارا ہوائی جہاز سات بج کر ۴۵ منٹ پر اترا۔

جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ لندن سے ایمسٹرڈم اور ایمسٹرڈم سے بمبئی تک ہمارا ایر انڈیا کا ٹکٹ ہے۔ لیکن ایمسٹرڈم سے بمبئی تک ہمارا ایر انڈیا کا ٹکٹ اس چارٹرڈ فلائٹ سے ہے۔ ہم نے لندن سے ٹورنٹو جانے سے پہلے ۲۲/ نومبر کو برٹش ایرویز کی پرواز سے لندن سے ایمسٹرڈم کے لئے نشستیں محفوظ کرالی تھیں اور ایمسٹرڈم سے بمبئی کے لئے ہماری ۲۳/ نومبر کی ایر انڈیا کی چارٹرڈ فلائٹ سے جگہیں محفوظ کی گئیں تھیں۔ ایر انڈیا والوں نے ہمارا لندن کا پتہ پوچھا تو ہم نے ان کو کہ دیا کہ ہم متواتر سفر میں رہنے والے ہیں کسی خاص مقام کا پتہ نہیں دے سکتے۔ پھر بھی انہوں نے اصرار کیا کہ لندن کا کوئی پتہ دے دیں۔ شاید کوئی صورت پیش آئے تو اس کی اطلاع دی جا سکے۔ اس پر ہمارے عزیز باوجود اس وقت ساتھ تھے ان کے آفس کا ٹیلی فون نمبر دے دیا گیا۔ جب ہم ارونگ میں ختم اکٹوبر میں تھے تو بابر کا خط ہماری بیٹی کے پتہ پر وصول ہوا۔ اس میں لکھا تھا کہ ایرانڈیا والوں نے ان کو ہمارے تعلق سے اطلاع دی ہے کہ ان کی ۲۳/ نومبر والی چارٹرڈ پرواز ایمسٹرڈم سے بمبئی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اور یہ کہ ہم چاہیں تو ہم کو  لندن سے راست بمبئی بھیج دیا جائے گا۔ ہم نے اپنے عزیز کو لندن جواب دیا کہ ہم راست لندن سے بمبئی جانے تیار ہیں اور یہ ہم ۲۴/۲۵/ تک بمبئی پہونچنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کو لندن پر کسی وجہ سے روکا گیا تو اس کا خرچہ ایر انڈیا والوں کو برداشت کرنا چاہئے اور یہ بھی لکھ دیا کہ ہم خود ٹورنٹو پہونچ کر ان کی آفس (ایرانڈیا) سے ربط قائم کریں گے۔ چنانچہ ہماری درخواست پر ٹورنٹو کی ایر انڈیا آفس نے اپنی لندن کی آفس کو ہمارے تعلق سے دو مرتبہ ٹیلکس پیامات بھیجے۔ ہم کو ٹورنٹو ہی میں معلوم ہو گیا تھا کہ ۲۲/ نومبر ہی کو ساڑھے دس بجے لندن سے دہلی ، بمبئی کے لئے ایر انڈیا کی پرواز ہے۔ اس لئے ہم چاہتے تھے کہ اسی پرواز سے ہماری نشستیں محفوظ ہو جائیں۔ لیکن لندن سے کوئی جواب وصول نہیں ہوا۔ اس لے ہم کو یہ معلوم نہ تھا کہ ہم لندن سے بمبئی ایر انڈیا کی کس پرواز سے اور کس دن جانے والے ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنا سامان برٹش ایرویز کی پرواز میں ٹورنٹو سے لندن تک ہی بک کرایا کہ شاید لندن میں ٹھیرنا ہو تو سامان ساتھ رہے۔

ہم لندن کی ہیت رو ایرپورٹ پر اترتے ہی برٹش ایرویز کے ٹرانسفر کاؤنٹر پر گئے۔ ٹرانسفر کاؤنٹر ایسی جگہ رکھے گئے ہیں کہ مسافر ہوائی جہاز سے اتر کر ایمگریشن اور کسٹم میں گئے بغیر ان سے ربط پیدا کر سکتا ہے۔ اکثر کاؤنٹرس پر عورتیں ہوتی ہیں۔ ہم نے اپنے کاؤنٹر والی خاتون کو صورتحال بتائی۔ اس نے ایرانڈیا کے مختلف آفس سے ٹیلی فون اور کمپیوٹر سے ربط پیدا کر کے ہمارا معاملہ نپٹانا چاہا۔ لیکن وہ طے نہیں ہو سکا اس نے کہا کہ میں نیچے جا کر ایر انڈیا کے کاؤنٹر سے اپنے معاملہ کو سلجھاؤں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ چونکہ ہمارے پاس چارٹرڈ فلائٹ کا ٹکٹ ہے۔ اس لئے ریگولر (روزانہ) کی فلائٹ سے سفر کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے کہا کہ نیچے جانے کے لئے ہم کو امیگریشن سے گزرنا پڑے گا۔ ہم نے یو کے میں داخل ہونے کا پرمٹ نہیں لیا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’ یہ آپ اور امگریشن آفیسر طے کر لیں ‘‘ اس ٹرانسفر کاؤنٹر کے بازو ہی ایرانڈیا بھی ایک ٹرانسفر کاؤنٹر تھا۔ لیکن اس پر کوئی موجود نہ تھا۔ لیکن اپنے ہم نے دیکھا کہ اس پر ایک لڑکی آ گئی ہے اس کے پاس جا کر ہم نے اپنا مسئلہ  پیش کیا۔ اور کہا کہ ہم کو ٹورنٹو ہی میں ایرانڈیا کی آفس سے ان کی ایمسٹرڈم سے دہلی بمبئی کی چارٹرڈ پرواز کے منسوخ ہونے کی اطلاع کی توثیق ہو چکی تھی۔ ایر انڈیا کی لڑکی نے بھی ادھر ادھر ٹیلی فون ملایا اور کہا کہ ہم کو ان کی سٹی کی آفس کو جا کر اپنا ٹکٹ بدلنا پڑے گا۔ جب ہی ہم ان کی ساڑھے دس بجے کی پرواز سے سفر کر سکتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ اتنے مختصر سے وقت میں ہیت رو ایرپورٹ سے شہر کی آفس کو نہیں جا سکتے اور یوں ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ٹیکسی وغیرہ کو دینے کے لئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اور یہ کہ ہم واپسی کے سفر پر ہیں۔ ہمارے اس جواب پر اس نے پھر متعلقہ آفس کو ٹیلی فون ملایا اور کہا کہ مسافر کے پاس شہر کو جانے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اس پر غالباً کسی آفیسر نے اس لڑکی سے کہا کہ اس کے حوالے سے ہمارے موجودہ ٹکٹوں پر ہی یہ تجویز کر دے کہ وہ ان کی پرواز A1-116 کے لئے قبول کر لئے جائیں۔ چنانچہ ہمارے دونوں ٹکٹوں پر اسی قسم کی تجویز کر دی گئی۔ اور ہوائی جہاز پر سوار ہوتے وقت جو ہمارے ٹکٹ کی تنقیح کرنے والے تھے ان کو بھی ٹیلی فون ملا کر اس لڑکی نے صورت حال بتا دی کہ کہیں ہم کو عین وقت پر کوئی دقت نہ ہو۔ اس وقت ہم نے کہا کہ ہم نے اپنا سامان 8A 600 سے اب تک حاصل نہیں کیا ہے اور یہ کہ اس کو حاصل کر کے کس کو دیں۔ اس نے ہم سے برٹش ایرویز کے سامان کے ٹیاگ حاصل کئے اور برٹش ایرویز کے ٹرانسفر کاؤنٹر پر جا کر ان پر A1-116 لکھا لائی اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہا کہ برٹش ایرویز کی کاؤنٹر والی خاتون سے اس نے ان کے لگیج انچارج کے پاس ٹیلی فون کروایا ہے۔ لیکن اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ پھر ٹیلی فون کروائے گی۔ اس لئے ہم اس سے پھر ملیں۔ چنانچہ آدھ گھنٹے کے بعد ہم نے پھر اس سے ملاقات کی۔ لیکن ہم کو قطعی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ہمارا سامان جو برٹش ایرویز کی پرواز نمبر ۶۰۰ سے اترا تھا وہ ایرانڈیا کی پرواز ۱۱۶ میں منتقل ہوا یا نہیں۔

جب ہم ایرانڈیا کے جہاز میں بیٹھنے کے لئے متعلقہ گیٹ پر پہونچے تو وہاں بھی ہم نے ایرانڈیا کے لوگوں سے کہا کہ ہمارا سامان بی۔ اے ۶۰۰ سے آیا ہو گا اور یہ کہ ایرانڈیا کی پرواز ۱۱۶ میں منتقل ہوا یا نہیں اس کی تصدیق ہو جائے تو بہتر ہے۔ انھوں نے ہمارے سامان کا ٹیاگ لیا۔ اور خود ہوائی جہاز میں جا کر دیکھا اور واپس آ کر کر کہا کہ ابھی ہمارا سامان ہوائی جہاز میں نہیں آیا۔ ہم اس اطلاع پر ہوائی جہاز میں سوار نہیں ہوئے اور ایر انڈیا کے اصحاب سے عرض کی کہ وہ دوبارہ برٹش ایرویز کو ٹیلی فون ملا کر ہمارا سامان منتقل کرنے کے لئے کہیں۔ انھوں نے دو ایک مرتبہ ٹیلی فون کیا اور پھر ہم سے کہا کہ ہم ہوائی جہاز میں بیٹھ جائیں۔ وہ پھر کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا سامان منتقل ہو جائے چنانچہ ہم ہوائی جہاز میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایر انڈیا کے ایک صاحب نے آ کر کہا کہ ہمارا سامان منتقل ہو گیا اور ہوائی جہاز میں رکھ دیا گیا ہے ہم نے ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد ایر انڈیا کے ایک اور صاحب آئے اور توثیق کی کہ ہمارا سامان جہاز میں رکھ دیا گیا ہے۔ ہیت رو ایرپورٹ پر راست ٹیوب کے ذریعہ ہوائی جہاز میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لئے ہمارا ہوائی جہاز کے لگیج کمپارٹمنٹ تک جانے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ ہم نے دوسرے صاحب کا بھی شکریہ ادا کر دیا۔

ہوائی جہاز کچھ دیر سے اڑا۔ پہلے پیرس اور اس کے بعد فرانک فرٹ پر رکا۔ وہاں ہوائی جہاز میں اعلان کیا گیا کہ ہوائی جہاز آدھ گھنٹے سے زیادہ رکے گا آگے جانے والے مسافرین اگر تھوڑی دیر کے لئے ایر پورٹ پر اترنا چاہیں تو اتر سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم کنکٹر کے ذریعہ ایرپورٹ کے اس حصہ پر آئے جہاں مختلف قسم کی دوکانیں ہیں۔ دوکانیں گھڑیوں۔ زیورات ، کھلونوں وغیرہ کی زیادہ تھیں۔ بعض مسافرین نے خرید و فروخت کی۔ فرانک فرٹ سے ہوائی جہاز اڑا تو کویت پر رکا پھر وہاں سے دہلی اور اس کے بعد ۲۳/ نومبر کی صبح کو بمبئی ایرپورٹ پر اترا۔ اس دوران ایرانڈیا کی سروس بہت اچھی رہی۔ دہلی اور بمبئی کے دوران جو ناشتہ دیا گیا تھا وہ بہت ہی اچھا تھا ایسا ناشتہ ہم نے کسی اور ایرلائنس میں نہیں کھایا۔

بمبئی ایرپورٹ پر ہم سامان کے بلٹ پر اپنے سامان کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہیں آیا۔ ایرانڈیا کے کاؤنٹر پر جا کر کہا کہ ہمارا سامان نہیں آیا ہے تو وہاں کے صاحب نے ہمارا نام پوچھا بتانے پر لندن سے آیا ہوا ایک ٹیلکس پیام بتایا۔ اس میں لکھا تھا کہ برٹش ایرویز والوں نے ہمارا سامان منتقل نہیں کیا ہے اس لئے ایرانڈیا کے ہوائی جہاز میں سوار نہیں کرا سکے۔ فوری بھیجنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ۲۴/ نومبر کو لندن سے دوسرا ٹیلکس پیام ایرانڈیا بمبئی کو ملا کہ ہمارا سامان تلاش کر لیا گیا ہے اور اس کو A1-104 سے بھیجا جا رہا ہے۔ اس طرح ہمارا سامان ۲۵/ نومبر کو بمبئی ایرپورٹ سے ملا۔ کسٹم میں کوئی دقت نہیں ہوئی سوائے چند ساڑیوں اور کچھ کپڑوں کے جو ہمارے لڑکے نے اپنی بہنوں وغیرہ کے لئے دئے تھے ہم نہ کوئی چیز از قسم گھڑی ، سونے کا زیور ، ٹرانسسٹر ٹیپ ریکارڈ یا کیال کولیٹر وغیرہ نہیں لائے تھے۔

۲۶/ نومبر کو سکندرآباد اکسپرس نکل کر ہم حیدرآباد ۲۷/ نومبر کی صبح کو پہونچے۔ بچے سمجھ رہے تھے کہ ہم بمبئی سے ہوائی جہاز سے آئیں گے حالانکہ ہم نے ایسی کوئی اطلاع نہیں دی تھی وہ خود ہی حیدرآباد ایرپورٹ کا دو تین مرتبہ چکر لگا آئے تھے۔

۱۵! اگست کو حیدرآباد سے رات میں نکلے تھے۔ ۲۷/ نومبر کی صبح کو یہاں پہونچے۔ گو ہم دونوں ہی دبلے ہو گئے تھے لیکن صحت ٹھیک تھی۔

٭٭٭

 

ان پیج سے تبدیلی، تدوین و تہذیب اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔