ترکی کو عالم اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مسلم تاریخ میں چھ سو برس تک اہل ترکی عالم اسلام کی قیادت کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہونے کے سبب انسانیت کی پوری تاریخ میں ترکی کو تہذیبوں کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ موجودہ دور میں بھی ترکی کو اسلام اور مغرب کے درمیان ایک پل قرار دیا جا رہا ہے۔
ترکی کی اس اہمیت کے پیش نظر میں نے یہاں کا سفر کیا۔ اس سفر کے تجربات کو میں نے اس سفرنامے کی صورت میں بیان کیا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس سفر نامے کو پڑھ کر mubashirnazir100@gmail.com پر اپنے تاثرات سے ضرور آگاہ کریں تاکہ اسے مزید بہتر بنایا جا سکے۔
محمد مبشر نذیر
September 2009
بل کھاتے ہوئے کچے راستے پر نئے ماڈل کی چھوٹی سی فی ایٹ کار دوڑتی جا رہی تھی۔ گھنے سبزے میں ڈھکے ہوئے پہاڑ، جن کا سبزہ ہمارے شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں کے سبزے سے کچھ زیادہ ہی گھنا تھا، دونوں جانب سے راستے کو گھیرے ہوئے تھے۔ ایک طرف یہ سڑک پہاڑ کے دامن کو مس کر رہی تھی اور دوسری جانب ایک سینکڑوں فٹ گہری کھائی اس سڑک کو پہاڑ سے جدا کر رہی تھی۔
گاڑی کا اسٹیرنگ اس وقت میرے ناتواں ہاتھوں میں تھا۔ اگر یہ گول پہیہ میرے ہاتھ سے ذرا سا بھی پھسل جاتا تو کار رول ہوتی ہوئی کھائی کے اندر گرتی چلی جاتی۔دور نیچے گہرائی میں مخروطی سرخ چھتوں والے مکانات نظر آ رہے تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ کچی سڑک پر کاریں جیپوں کی طرح دوڑ رہی تھیں۔ اچانک ایک دوراہا سامنے آ گیا۔ کوئی بورڈ موجود نہیں تھا۔ دونوں طرف ایک جیسی چوڑی سڑک جا رہی تھی۔ "کس طرف چلا جائے ؟" میرے ذہن میں سوال گونجا۔
اچانک ایک جانب سے جدید طرز کا ٹریکٹر نمودار ہوا جس کی اکلوتی سیٹ پر دھوتی کرتہ اور پگڑی میں ملبوس گھنی مونچھوں والے کسان کی بجائے پینٹ کوٹ پہنے ایک کلین شیو سرخ و سفید بینک آفیسر ٹائپ شخص بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنی طرف کا شیشہ نیچے اتار کر رکنے کا اشارہ کیا۔ کمال خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان صاحب نے بریک پیڈل پر پاؤں رکھ دیا۔
"سیون لیکس، دس سائیڈ؟" میں نے ایک جانب اشارہ کیا۔
جواب میں نامعلوم زبان میں ایک تقریر کر دی گئی۔ ہاتھوں کے اشارے سے بہرحال سمت کا تعین ہو گیا۔ "تھینک یو ویری مچ" اور اس کے ساتھ میں نے شکریہ کے تاثرات اپنی شکل پر پیدا کرنے کی کوشش کی اور ہاتھ سے بھی اشارہ کیا کیونکہ یہ معلوم نہیں تھا کہ زبان کا شکریہ اپنی منزل مراد تک پہنچا یا نہیں۔
تھوڑی دور جا کر کھائی تنگ ہونے لگی۔ پہاڑ ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ سبزہ گہرا اور گھنا ہونے لگا۔ بل کھاتی ہوئی سڑک پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اترنے لگی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کسی گہرے کنویں کی تہہ میں اترتے چلے جا رہے ہیں۔سڑک کے دونوں جانب موجود درخت اوپر جا کر ایک دوسرے سے مل رہے تھے اور ان کے درمیان راستہ کسی سرنگ کی شکل اختیار کر رہا تھا۔
تھوڑی دور جا کر ایک چیک پوسٹ سامنے آئی جس میں کوئی شخص موجود نہیں تھا۔ ایک لمبے سے بانس پر مشتمل بیریئر اوپر اٹھا ہوا تھا۔ ایک جانب ایک بورڈ پر "ییدی گولر نیشنل پارک" لکھا ہوا تھا۔ تھوڑی دور جا کر پانی کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ یہ آواز ایک نہایت ہی دلکش فطری نغمہ تشکیل دے رہی تھی جس کے لئے انسان کے بنائے ہوئے کسی ساز کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نغمے کے سر تال اعصاب کو سکون بخش رہے تھے۔ سبز رنگ کی ایک جھیل ہمارے سامنے تھی جس کا پانی ایک آبشار کی صورت میں بہتا ہوا دوسری جھیل میں گر رہا تھا۔
ییدی گولر کا مطلب ہے "سات جھیلیں"۔ یہ ترکی کا مشہور نیشنل پارک تھا جو گھنے سبزے سے بھرے ہوئے پہاڑوں اور ان کے درمیان موجود سات جھیلوں پر مشتمل تھا۔
ترکی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ایک ایسا ملک ہے جہاں دو براعظموں کا محض جغرافیہ ہی نہیں ملتا بلکہ ان دونوں عظیم خطوں کی تاریخ، ثقافت، افکار اور نظریات ہر دور میں ایک دوسرے سے ملتے چلے آئے ہیں۔ اب سے سو برس پہلے تک ترکی عالم اسلام کا مرکز تھا۔ یہی ترک تھے جو ایک ہزار برس تک مسلمانوں کا عسکری بازو بنے رہے۔ ترکی کی اسی تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ہم نے ترکی کے سفر کا ارادہ اس وقت کیا جب ہم اردن اور مصر کے سفر سے واپس آ رہے تھے۔ اس سفر کی تفصیل آپ میرے سفرنامے "قرآن و بائبل کے دیس میں" میں پڑھ چکے ہیں۔
ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ترکی کا سفر سعودی عرب سے بذریعہ کار کیا جائے۔ درمیان میں شام اور اردن کے ممالک پڑتے ہیں۔ ان کا ویزا لینا ضروری تھا مگر اس سب سے پہلے ترکی کا ویزا حاصل کرنا لازم تھا۔ ترکی ایک ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے لئے اس کا قانون یہ ہے کہ آپ اطمینان سے ترکی تشریف لائیے اور ایئر پورٹ یا بارڈر سے ویزا حاصل کر لیجیے۔ مگر چند ممالک جن میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے، کے لئے یہ قانون ہے کہ اپنے ملک میں ترکی کے سفارت خانے سے ویزا حاصل کر کے آئیے۔
میں جدہ کے ڈسٹرکٹ اندلس میں واقع ترکی کے سفارت خانے میں پہنچا اور ویزا کے حصول کے طریق کار سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ سکیورٹی کم انفارمیشن ڈیسک پر موجود صاحب کہنے لگے : "یہ فارم لے جائیے۔ اس کے ساتھ اپنے پاسپورٹ، اقامہ اور بینک اسٹیٹمنٹ کی کاپی، دو تصاویر اور اپنی کمپنی سے ایک لیٹر لکھوا لائیے جسے چیمبر آف کامرس سے تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔ میں آپ کو اندر بھیج دوں گا۔ ویسے پاکستانیوں کو ویزا مشکل سے ملتا ہے۔ " یہ کہہ کر انہوں نے ہمدردانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا۔
چند دن بعد یہ سب دستاویزات لے کر میں پھر سفارت خانے میں پہنچا۔ ان صاحب نے مجھ سے موبائل فون طلب کیا اور اس کے بدلے ایک کارڈ ایشو کر کے مجھے اندر بھیج دیا۔ ویزا آفس ایک کمرے میں قائم تھا جہاں دو نہایت ہی نستعلیق قسم کے افراد میز کرسی رکھے براجمان تھے۔ ایک سفید بالوں والے بزرگ تھے اور دوسرے نوجوان۔ ایک ایک سعودی نوجوان ویزے کے لئے ان دونوں کے سامنے بیٹھے تھے۔ میں انتظار کرنے کے لئے وہیں موجود صوفے پر بیٹھ گیا۔
بزرگ پہلے فارغ ہوئے اور مجھے اپنے ڈیسک پر آنے کا اشارہ کیا۔میں نے انگریزی میں گفتگو کا آغاز کیا جس کا جواب عربی میں وصول ہوا۔ میں نے اپنے اور اپنی فیملی کے کاغذات پیش کیے۔ انہوں نے بغور مطالعہ کیا۔ ان کی شکل پر قائل ہو جانے کے تاثرات پیدا ہوئے۔ اس کے بعد جب انہوں نے سبز پاسپورٹ دیکھے تو قائل ہو جانے کے تاثرات غائب ہو گئے۔ کہنے لگے، "آپ تشریف رکھیے، مجھے قونصل جنرل سے پوچھنا پڑے گا۔" یہ کہہ کر وہ باہر چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد آ کر کہنے لگے، "قونصل صاحب اس وقت تو موجود نہیں ہیں۔ آپ اپنے کاغذات میرے پاس چھوڑ دیجیے۔ اپنا موبائل نمبر دے دیجیے۔ میں ہفتے یا اتوار تک آپ کو خود کال کر دوں گا۔" میں نے عرض کیا، "اس کی رسید وغیرہ۔" کہنے لگے، "میں ان سے پوچھے بغیر رسید جاری نہیں کر سکتا۔"
میرا خیال تھا کہ انہوں نے مجھے محض ٹالا ہی ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہو گا کہ مجھے کال کرتا پھرے۔ بہرحال میں نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہفتے والے دن میرے موبائل پر ترکی سفارت خانے سے کال وصول ہوئی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ کو ویزا دینے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ آئیے اور اپنے پاسپورٹ لے جائیے۔ " میں جیسے ہی وہاں پہنچا تو ان بزرگ کے پاس رش لگا ہوا تھا۔ میری شکل دور سے دیکھتے ہی چلائے : "تعال تعال" یعنی آئیے، آئیے۔ میں آگے بڑھا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھوٹتے ہی بغیر کسی مروت کے فرمانے لگے، " پانچ سو دس ریال نکالیے۔ "میں نے رقم ان کے حوالے کی۔ انہوں نے مجھے رسید دے دی اور کہنے لگے، "کل تین بجے پاسپورٹ لے لیجیے گا۔"
اگلے دن تین بجے وہاں پہنچا تو کاؤنٹر پر ایک بنگالی صاحب موجود تھے۔ رسید دیکھ کر کہنے لگے، "یہ تو کل کی ہے۔ کم از کم وقت 48 گھنٹے کا ہے۔ " میں نے کہا، "مجھے خود آپ کے آفیسر نے آج کا وقت دیا ہے۔ آپ چیک کر لیں۔" چیک کیا تو واقعی پاسپورٹ موجود تھے جن پر ترکی کا ویزا لگا ہوا تھا جس پر وہ صاحب کافی شرمندہ ہوئے۔ انسان اگر بات کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لے تو پھر شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔ پاسپورٹ کے ساتھ انہوں نے مجھے ترکی کی سیاحت سے متعلق کچھ بروشر بھی دے دیے جن کی مدد سے مجھے اپنے سفر کی منصوبہ بندی میں بہت مدد ملی۔
اگلے دن شام کے سفارت خانے میں گیا۔ ترکی کے مقابلے میں شام کا سفارت خانہ مچھلی بازار لگ رہا تھا۔ ٹوٹے پھوٹے کاؤنٹر اور تنگ و تاریک ماحول۔ لائن تو طویل نہیں تھی البتہ بیورو کریٹک انداز میں کام کی وجہ سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ یہ بیوروکریسی کا خاص طریقہ کار ہوا کرتا ہے جس سے ہم اپنے ملک میں عموماً گزرتے رہتے ہیں۔ چند منٹ کے کام کو اتنا پیچیدہ اور مشکل بنا دیا جاتا ہے کہ سیدھے طریقے سے کام کروانے میں طویل وقت، انتظار اور محنت صرف ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ کا رابطہ کسی ایجنٹ وغیرہ سے ہے تو وہی کام فوراً ہو جاتا ہے۔ کام کو جلد کرنے کی قیمت آپ کو بہرحال ادا کرنا پڑتی ہے۔
جب کاؤنٹر پر پہنچا تو سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی وہی رد عمل سامنے آیا جو ترکی والوں کا تھا۔ "پاسپورٹ چھوڑ جائیے۔ ہمیں قونصل جنرل سے پوچھنا پڑے گا۔" اگلے دن گیا تو تھوڑی سی دیر میں ویزا لگا کر انہوں نے پاسپورٹ میرے حوالے کر دیے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انہوں نے ملٹی پل انٹری ٹرانزٹ ویزا جاری کیا تھا۔
اب اردن کے سفارت خانے کی باری تھی۔ یہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سے ترک اور شامی حضرات موجود تھے جو بذریعہ سڑک اپنے ملکوں میں چھٹیاں گزارنے کے لئے جانا چاہتے تھے۔ ایک ترک جو انطاکیہ سے تعلق رکھتے تھے، مجھے کہنے لگے، "آپ کو عربی لکھنا آتی ہے۔ برائے مہربانی میرا فارم پر کر دیجیے۔ " میں نے ان کا اور ان کی فیملی کا فارم پر کیا۔ وہ صاحب مدینہ سے آئے تھے اور وہاں بطور مکینک کام کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کی شادی ایک پاکستانی خاتون سے ہوئی تھی۔
جب میری باری آئی تو ایک نئی بات سامنے آئی اور وہ یہ تھی کہ اہل پاکستان کے لئے انہوں نے یہ قانون بنا رکھا تھا کہ ان کے ویزا کی درخواست پہلے اردن جائے گی۔ وہاں سے وزارت خارجہ نے اگر اس کی منظوری دے دی تو پھر ویزا ایشو ہو گا ورنہ نہیں۔ میں نے انہیں بہت کہا کہ میں پہلے اردن جا چکا ہوں۔ کہنے لگے، "ہم کیا کر سکتے ہیں جب قانون یہی ہے۔ " اگر یہ بات میرے علم میں پہلے ہوتی تو میں پہلے ہی درخواست دے دیتا۔ خیر اب درخواست جمع کر دی۔ کہنے لگے، "دس دن بعد معلوم کیجیے۔ " دس دن کے بعد گیا تو انہوں نے مزید ایک ہفتے کا کہہ دیا۔ یہ سلسلہ جب تین ہفتے سے زیادہ دراز ہوا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اہل اردن ہم پاکستانیوں کو ویزا ایشو نہیں کرنا چاہتے۔
ہمارے "نظریہ سازش" کے علمبرداروں کی طرح میرے دل میں بھی خیال آیا کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی گہری سازش ہو گی۔ غالباً امریکی اور یہودی ایجنٹوں کو ہمارے اس سفر کی بھنک پڑ گئی ہو گی۔ انہوں نے ہمیں اس سفر سے روکنے کے لئے اردن کے سفارت خانے میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمارا ویزا رکوا دیا ہے۔ یہ اسی قسم کا خیال تھا جیسے ایک صاحب کی اپنی بیگم سے شدید لڑائی ہو گئی اور برتن چلنے کی نوبت آئی۔ مار کھانے کے بعد اپنی ہڈیوں کو سینکتے ہوئے گھر سے باہر آئے تو کہنے لگے، "یہ ہمارے گھر میں جو کچھ ہو رہا ہے، امریکہ کروا رہا ہے۔ "
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند۔ ۔۔۔ گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
اہل اردن پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان کی جنگوں میں ہم نے ان کی مدد کی۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک اردن اور شام میں پاکستانیوں کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ پچھلے سفر میں اردنیوں نے ہم سے بہت محبت کا سلوک کیا تھا۔ مگر محض دو سال میں صورت حال تبدیل ہو چکی تھی۔ ہم ان کے ملک کی سیاحت کا ویزا نہیں مانگ رہے تھے۔ مجھے صرف ٹرانزٹ ویزا درکار تھا جس کے تحت میں ان کے ملک سے محض گزرنا چاہتا تھا لیکن نہ تو وہ ویزا دینا چاہ رہے تھے اور نہ ہی صاف انکار کر رہے تھے۔
ترکی، شام اور اردن، پاکستان سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک نہیں ہیں۔ خاص طور پر شام اور اردن کی فی کس آمدنی تو پاکستان کے آس پاس ہی ہے۔ یہ مشہور ہے کہ اپنے سے زیادہ امیر ملک کا ویزا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ غریب ملک کا ویزا حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک تو آمد پر ہی ویزا جاری کر دیتے ہیں۔ یہاں معاملہ الٹ ہو رہا تھا۔ میں سعودی عرب میں کام کرتا تھا۔ اپنی فیملی کے ساتھ اپنی گاڑی پر سفر کرنا چاہتا تھا اور اس بات کو کوئی امکان نہیں تھا کہ ان کے ملک میں جا کر غائب ہو جاتا۔ لیکن ان سب نے ویزا دینے میں محض اس وجہ سے پس و پیش کیا کہ میں اس ملک کا شہری تھا جس کے ساتھ کچھ ایسے مسائل ہیں جو دنیا میں کم ہی ملکوں کے ساتھ ہوں گے۔
یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کا تجزیہ کرنا اہل پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہم دنیا بھر میں اتنے بے وقعت کیوں ہو گئے ہیں کہ ہمارے برابر کے ممالک بھی ہمیں کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ایک سطحی سوچ رکھنے والا تو یہی کرے گا کہ ان ممالک کو کوسنا شروع کر دے گا۔ ان کی حکومتوں کو برا بھلا کہے گا کیونکہ یہ ممالک پاکستان کے ساتھ تعصب رکھتے ہیں۔ ہم اسلام کا قلعہ اور واحد نیوکلیئر طاقت ہیں جس کی وجہ سے یہ ہم سے حسد کرتے ہیں۔
ایک اور سطحی تجزیہ "نظریہ سازش" کے نقطہ نظر سے کیا جا سکتا ہے۔ اس نظریے کے حاملین خود کو دنیا کا مرکز سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں پوری دنیا کو اس کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے کہ وہ بس ان کے خلاف سازش کرتی رہے اور انہیں نقصان پہنچانے کی فکر میں لگی رہے۔ یہ ہر معاملے میں چند عالمی طاقتوں کی سازش دریافت کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اس نقطہ نظر کے حاملین یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ ملکوں نے پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف لابنگ کی ہے۔ ان کی حکومتوں کو پاکستان کے خلاف کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہ ہمیں ویزا دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یاد رکھیے کہ دنیا میں کسی کے خلاف سازش تبھی کامیاب ہوتی ہے جب اس شخص میں کوئی کمزوری موجود ہو۔
صحیح اور درست طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں کا تجزیہ کریں۔ ہم کسی کو بھی سازش کرنے سے نہیں روک سکتے مگر کم از کم اپنی خامیوں کو دور کر سکتے ہیں تاکہ ہر قسم کی سازش کو ناکام بنایا جا سکے۔
حقیقی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے ہمارا امپریشن پوری دنیا کے سامنے خراب ہو چکا ہے۔ عام زندگی میں ہم دوسروں کے ساتھ معاملات ان کی اخلاقی ساکھ(Credibility) کی بنیاد پر کیا کرتے ہیں۔ اگر ہمارا کوئی جاننے والا ایسا ہو کہ بات بات پر ناراض ہو کر لڑنے مرنے پر اترا رہے۔ معمولی سی تکلیف پر احتجاج شروع کر دے۔ قانون اور سماجی ضوابط کی پرواہ نہ کرے۔ ہمیں دھوکہ دے کر ہم سے ہمارا مال حاصل کرنے کی کوشش کرے اور پھر اپنی چالاکی اور دھوکے بازی پر فخر بھی کرے تو کیا ہم ایسے شخص سے رشتہ قائم کرنا پسند کریں گے ؟ اس کے برعکس ہم ایسے شخص سے دوستی کرنا ضرور پسند کریں گے جو بڑی سے بڑی بات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔ قانون اور سماجی ضوابط کی پابندی کرے۔ بات کا کھرا ہو اور کبھی کسی کو دھوکہ نہ دے۔
ہمارے ساتھ یہ المیہ ہو چکا ہے کہ پچھلے دو سو برس سے ہماری پوری قوم کو جعل سازی، دھوکہ دہی، منفی ذہنیت اور احتجاجی رویے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ منشیات سے لے کر دہشت گردی اور جعلی دستاویزات تیار کرنے سے لے کر انسانوں کی اسمگلنگ جیسے جرائم کے منظم نیٹ ورک ہم ہی نے بنائے ہیں۔ جن ترقی یافتہ اقوام نے ہمیں اپنے ممالک میں رہنے کی اجازت دی ہے، ہم وہاں بھی طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے کرپشن کو فروغ دے رہے ہیں۔پچھلے چند برس میں ان تمام معاملات کو ہمارے معاشرے میں بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔
اگرچہ ان معاملات میں ہماری قوم کے چند لوگ ہی ملوث ہیں لیکن کرپٹ ذہنیت ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ آپ کو بارہا یہ تجربہ ہوا ہو گا کہ کوئی عام شخص آپ کو یہ کہے، "آپ اپنے ہیں اس لئے آپ کے ساتھ تو ایسا معاملہ نہیں کر سکتا۔" اس کا مطلب یہی ہے کہ غیروں کے ساتھ دھوکہ دہی کو وہ شخص جائز اور درست سمجھتا ہے۔ یہ ذہنیت چند افراد میں نہیں بلکہ پوری قوم میں سرایت کر چکی ہے۔ ان حالات میں اگر دوسرے ہم پر اعتماد نہیں کرتے تو ہمیں اس کا الزام انہیں دینے کی بجائے خود اپنے آپ کو دینا چاہیے اور اس کے حل کا آغاز اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں امیر و غریب کے فرق اور حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ نے کرپشن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر یہ ہمارے رویے کے لئے کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔ سری لنکا کی مثال کو لے لیجیے۔ یہ ہم سے زیادہ غریب ملک ہے مگر اخلاقی اعتبار سے ہم سے بہت بہتر ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ کردار سازی کا آغاز دوسروں سے کرنا چاہتے ہیں حالانکہ شخصیت و کردار کی تعمیر کا آغاز ہمیشہ اپنی ذات سے ہوا کرتا ہے۔ ہر شخص دوسروں پر تنقید تو کرتا ہے مگر اپنی ذات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دوسرے ٹھیک ہو جائیں تو معاملہ درست ہو جائے گا۔ معاملہ اس وقت تک درست نہیں ہو گا جب تک ہم خود ٹھیک نہ ہو جائیں۔
خیر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ الحمد للہ ہمارے ہاں اپنے کردار کی کمزوری کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ انسان ایسی مخلوق ہے کہ اس میں جب احساس پیدا ہو جائے تو پھر یہ مسئلے کا حل بھی نکال لیتا ہے۔
ہمیں اردن کا ویزا نہ ملنے کی تکلیف تو ہوئی مگر اس سے اپنے ان بھائیوں کی تکلیف یاد آ گئی جو مزدوری کی تلاش میں صبح گھر سے باہر آتے ہیں مگر انہیں کام نہیں ملتا۔ اپنے ایسے بھائیوں کی مدد ہمارا دینی فریضہ ہے۔ مگر ہم لوگ ایسے محنت کشوں کی مدد کی بجائے پروفیشنل بھکاریوں کو بھیک دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اس ناکامی میں ہمارے لئے ایک اور بھی بڑا سبق تھا۔ آج تو محض اتنا ہی کہا گیا تھا کہ "تم اردن میں داخل نہیں ہو سکتے۔ "اگر کل یہ کہہ دیا گیا کہ "تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے " تو پھر ہمارا کیا حال ہو گا۔ یہ تصور کر کے انسان کی روح لرز اٹھتی ہے۔
اردن کا ویزا نہ مل سکنے کے بعد ہم نے دوسرے متبادل طریقوں پر غور کیا۔ ایک متبادل راستہ یہ تھا کہ ہم عراق کے راستے شام میں داخل ہو جاتے۔ میں نے عراق کے سفارت خانے سے رجوع کیا تو انہوں نے پاسپورٹ دیکھنے کے بعد بخوشی ویزا دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ سعودی عرب کا عراق کے ساتھ زمینی رابطہ صرف ایک ہے۔ سعودی عرب کے شمالی شہر "عرعر" سے ایک سڑک عراق کے شہر "نخیب "میں داخل ہوتی ہے۔ یہ سڑک آگے چل کر کربلا اور بابل سے ہوتی ہوئی بغداد پہنچتی ہے۔ یہاں سے ہم دریائے دجلہ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے "سمارا" اور "تکریت" سے گزرتے ہوئے "موصل" جا پہنچتے جہاں سے محض ایک ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ترکی کی سرحد تھی۔
دوسرا راستہ یہ تھا کہ ہم پورے عراق کو چھوڑتے ہوئے نخیب سے شام کی جانب مڑ جاتے اور "طولیاحہ" اور "ربطہ" سے ہوتے ہوئے تین چار گھنٹے میں شام میں داخل ہو جاتے۔
ان دنوں عراق کی جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہاں کا سفر محفوظ نہ تھا۔کسی بھی مستحکم معاشرے میں انتشار پھیلا کر انارکی پیدا کرنا مشکل کام نہیں ہے لیکن اس کے بعد اس انتشار کو ختم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انارکی کو ظالم سے ظالم حکومت سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ظالم حکومت کا ظلم چند افراد تک محدود ہوتا ہے مگر جب حکومت کی رٹ ختم ہو جائے تو پھر یہ ظلم ہر گھر تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر وہ شخص جس کے پاس کچھ اسلحہ یا طاقت ہے، دوسرے کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی وجہ سے حکمران کے ظلم پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور مسلح بغاوت کے ذریعے انتشار پھیلانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں معاشرے کی جڑیں جب ہلتی ہیں تو پھر کسی بھی شخص کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہیں رہا کرتی۔وہ ظلم جو چند افراد تک محدود ہوتا ہے، اس کی لپیٹ میں ہر بوڑھا، بچہ، خاتون اور معذور فرد آ جاتا ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے :
سیدنا سلمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا، "یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے تو اپنا حق طلب کریں مگر ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟" آپ نے ان کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے پھر یہی سوال کیا تو آپ نے پھر نظر انداز کر دیا۔ جب انہوں نے دوسری یا تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑ کر کھینچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ ان پر ان کے اعمال کی ذمہ داری ہے اور تم پر تمہارے اعمال کی۔" (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث نمبر 4782-83)
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جو میری راہ پر نہیں چلیں گے۔ میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور ان میں سے ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے اور جسم انسان کے سے ہوں گے۔ " میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! اس وقت میں کیا کروں؟" فرمایا، "اگر تم ایسے زمانے میں ہو تو حکمران کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر (کوڑوں کی ) ضرب لگائے اور تم سے تمہارا مال بھی لے لے، تب بھی اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔" (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث نمبر 4785)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "جو شخص حکومت کی اطاعت سے باہر ہو جائے اور جماعت (نظم اجتماعی) کا ساتھ چھوڑ دے اور مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت کی طرح ہو گی۔اسی طرح جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے (کسی نامعلوم مقصد کے لئے ) لڑے۔ اپنی قومی عصبیت کے لئے اس میں غصہ ہو، اپنی قومی عصبیت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہو، اپنی قوم کی مدد کرتا ہو اور اس میں مارا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ جو شخص میری امت کے خلاف بغاوت کرے اور ان کے اچھوں اور بروں کو قتل کرے، اہل ایمان کو بھی نہ چھوڑے، اور جس سے معاہدہ ہوا ہو، اس کی بھی پرواہ نہ کرے تو نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث نمبر 4786)
موجودہ دور کی تمام جنگیں اور بغاوتیں سو فیصد اسی معیار پر پورا اترتی ہیں جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ فرمایا ہے۔ یقینی طور پر عراق میں امریکی افواج غاصبانہ طور پر داخل ہوئی ہیں۔ ان کو اپنی سرزمین سے نکالنے کی جدوجہد عراقی عوام کا حق ہے۔ اگر کوئی بدمعاش ہمارے گھر میں آ گھسے تو کیا ہمیں اپنے گھر کو آگ لگا دینی چاہیے ؟ اس کی بجائے ہمیں اپنے گھر کو ممکن حد تک بچاتے ہوئے غاصبوں کو باہر نکالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ موجودہ دور میں اس کی مثال برصغیر پاک و ہند اور جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کی شکل میں موجود ہے۔
اہل عراق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان ارشادات کو بری طرح نظر انداز کیا اور امریکی افواج کو نکالنے کے لئے اپنا گھر جلانا شروع کر دیا اور اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ اگر وہ اپنے حکمرانوں سے مطمئن نہ تھے تو انہیں بلٹ کی بجائے بیلٹ کی طاقت سے انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے پورے معاشرے کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عراق غیر ملکیوں کے سفر کے لئے تو کیا، خود ان کے اپنے لئے بھی محفوظ نہ رہا تھا۔ جنگ ختم ہو چکی تھی مگر انارکی ابھی باقی تھی۔ دشمن افواج کو چھوڑ کر اہل عراق اب فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کے قتل میں مشغول تھے۔
ہمارے لئے پہلے راستے میں کشش یہ تھی کہ اس طرح کربلا،نجف، بابل، بغداد، نینوا اور موصل کے تاریخی مقامات دیکھنے کو مل جاتے مگر اس میں جان، مال اور آبرو خطرے میں نظر آ رہی تھی۔ دوسرا راستہ نسبتاً محفوظ تھا۔ میرے ایک کولیگ اطہر کے کچھ رشتے دار "عرعر" میں رہتے تھے۔ میں نے اطہر کے ذریعے ان سے رابطہ کیا اور عرعر بارڈر کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ معلوم ہوا کہ عرعر کا بارڈر صرف رمضان اور حج سیزن میں عراق کے حاجیوں کے لئے کھولا جاتا ہے۔ عام طور پر محض ٹرک وغیرہ سامان لے کر آتے جاتے ہیں۔ کاروں کے ذریعے بارڈر کراس کرنے کا یہاں رواج نہیں ہے۔
اب ایک نئی مصیبت پیدا ہو گئی کہ عراق میں داخل ہونے کے لئے کویت کا ویزا بھی حاصل کرنا پڑتا۔ "سالمی" بارڈر سے ہم کویت میں داخل ہوتے اور محض 100کلومیٹر کا سفر کر کے "عبدلی" بارڈر سے عراق جا پہنچتے۔ میں اب سفارت خانوں کے چکر کاٹ کر تنگ آ چکا تھا اور معاملہ شیطان کی آنت سے زیادہ طویل ہو چکا تھا۔ ویسے یہ میں نے محض محاورتاً کہا ہے ورنہ کبھی شیطان کی آنت کی پیمائش کا اب تک مجھے اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
اب ہمارے پاس ایک ہی راستہ باقی بچا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہوا میں طویل چھلانگ لگا کر اردن کو عبور کر تے ہوئے شام میں داخل ہوں۔جدید سائنسی ترقی نے یہ چھلانگ ممکن بنا دی تھی۔ جدہ سے دمشق اور حلب کے لئے براہ راست فلائٹس چلتی ہیں۔ میں نے مختلف ٹریول ایجنٹس سے معلوم کیا تو علم ہوا کہ اگلے دو ماہ تک کوئی سیٹ دستیاب نہیں ہے البتہ ترکی کی فلائٹس میں چند سیٹیں بمشکل دستیاب تھیں۔ اب اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ شام کے سفر کو ملتوی کرتے ہوئے صرف ترکی ہی پر گزارہ کر لیا جائے چنانچہ ہم نے یہی کیا۔
میرے ایک جاننے والے فلپائنی ٹریول ایجنٹ ڈینی نے جوڑ توڑ کر کے سستی ترین سیٹوں کا انتظام کیا اور ہم روانہ ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ میں نے جدہ کے "بلد" میں واقع ایک منی ایکس چینج سے ترکی لیرا اور امریکی ڈالر حاصل کیے۔ میری اہلیہ نے سامان پیک کیا۔ ہمارے ساتھ ہماری چھوٹی بیٹی ماریہ بھی جا رہی تھی۔
سفر کی تیاری کے لئے میں ساتھ ساتھ معلومات حاصل کرتا جا رہا تھا۔ شام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے میں نے اپنے ایک شامی شاگرد امین کرید سے رابطہ کیا۔ یہ سن کر کہ میں شام جا رہا ہوں، وہ مجھ سے بھی زیادہ پر جوش ہو گئے۔ انہوں نے ایک ہی دن میں شام میں ہماری رہائش سے لے کر سیر و تفریح کے تمام انتظامات مکمل کر دیے۔ جب ہمیں مجبوراً شام کا سفر ڈراپ کرنا پڑا تو مجھ سے زیادہ مایوسی امین کو ہوئی۔ ان کے والد شام کے شہر "ادلب" میں میرے منتظر تھے۔ میں ان سے معذرت ہی کر سکتا تھا۔
میں نے اپنے ایک اور شاگرد محمد صوفی سے رابطہ کیا جن کا تعلق ترکی کے شہر انقرہ سے تھا۔ انہوں نے مجھے بہت سی معلومات فراہم کیں اور اس کے ساتھ ساتھ ترکی زبان کے چند ایسے حروف سکھا دیے جو انگریزی میں استعمال نہیں ہوتے۔ ان کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ میں ترکی میں سائن بورڈز وغیرہ پڑھ سکوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ترکی حرف Ç'چ' کی، Ğ 'غ' کی، اور Ş 'ش' کی آواز دیتا ہے۔ اس کے علاوہ H بسا اوقات 'خ' کے طور پر، T کو 'د' اور C کو 'ج' کے طور پر استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
اگر انسان کسی ملک میں داخل ہونے سے پہلے اس کا سفرنامہ پڑھ لے تو اس سے بہت آسانی ہو جاتی ہے۔ میں نے ترکی کے تین سفرنامے پڑھے، پہلا مستنصر حسین تارڑ صاحب کا "نکلے تیری تلاش میں"۔ انہوں نے غالباً 1960 کے عشرے میں بذریعہ سڑک پاکستان سے یورپ کا سفر کیا تھا جس میں ترکی بھی شامل تھا۔ دوسرا سفر نامہ دنیا بھر کے سیاحوں کے روحانی مرشد ابن بطوطہ کا "تحفۃ النظار فی غرائب الأمصار و عجائب الأسفار"تھا۔ ابن بطوطہ نے 1330-31ء میں ترکی کا سفر کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نہ تو ہوائی جہاز تھے اور نہ ہی پکی سڑکیں۔ ان کی ہمت کو داد دینا پڑتی ہے۔ تیسرا سفرنامہ ایک امریکی مصنف مارک آر لیپر کا تھا جنہوں نے 1998ء میں ترکی کا سفر کیا تھا۔اس طرح تین مختلف زبانوں اور ادوار کے افراد کا تجربہ مجھے حاصل ہو چکا تھا۔
اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر ترکی سے متعلق بہت سا مواد موجود تھا۔ www.turkeytravelplanner.com اور www.allaboutturkey.com سے مجھے بہت سی قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔ اب سے بیس برس پہلے تک بڑی مشکل سے چند بروشر اور نقشے ملا کرتے تھے مگر اب میں اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر ترکی کی ایک ایک سڑک کا جائزہ لے سکتا تھا۔ یہ انفارمیشن ایج کا کمال ہے۔ اس دور نے ہمارے لئے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ ہم اپنے دین کی حقیقی دعوت کو دنیا کے سامنے پہنچا دیں۔ خوش قسمتی سے اس معاملے میں ہم غافل نہیں ہیں اور ہمارے بھائی اس کام میں دن رات محنت کر رہے ہیں۔
جولائی کے آخری ایام تھے۔ جدہ میں گرمی اپنے عروج پر تھی۔ میری گاڑی کا تھرما میٹر روزانہ 40-45 سینٹی گریڈ کی خبر سنایا کرتا تھا۔ فلائٹ صبح دس بجے تھی اس وجہ سے ساڑھے چھ بجے ایئر پورٹ پہنچنا ضروری تھا۔ اطہر نے اپنے جاننے والے ایک ٹیکسی والے کو کہہ دیا۔ یہ صاحب صبح چھ بجے آ پہنچے۔ راستے میں بتانے لگے کہ وہ تیس سال سے جدہ میں مقیم ہیں۔ پہلے وہ ٹرک چلاتے تھے مگر اس میں مسئلہ یہ تھا کہ ریاض اور دمام کے طویل سفر کرنا پڑتے تھے جبکہ وہ ایسا کام چاہتے تھے کہ جس میں روزانہ شام کو گھر آ سکوں اور اگر کام کا دل نہ چاہے تو نہ جاؤں۔ چنانچہ انہوں نے ٹیکسی چلانا شروع کر دی۔
حقیقت یہ ہے کہ کام ہو یا زندگی کا کوئی اور معاملہ، اس میں لچک (Flexibility) کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کی اچھی کمپنیوں میں اب Flexible Hours کی سہولت دی جاتی ہے۔ دفتر میں تین سے چار گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جس میں سب موجود ہوں۔ اس کے علاوہ اگر آپ صبح کے وقت زیادہ اچھے طریقے سے کام کر سکتے ہیں تو صبح چھ بجے کام شروع کیجیے اور دو بجے دوپہر گھر چلے جائیے۔ اگر آپ شام میں بہتر کام کر سکتے ہیں تو 11 بجے دفتر آ جائیے اور 7 بجے شام گھر چلے جائیے۔
کمپنیاں یہ سہولت ملازمین کے فائدے کے لئے نہیں دیتیں بلکہ اس میں ان کا اپنا مفاد ہے کہ انہیں اس طریقے سے توانائی اور تخلیقی صلاحیت سے بھرپور کارکن میسر آ جاتے ہیں۔ ہمارے بیورو کریٹک معاشروں میں کام سے زیادہ نام نہاد ڈسپلن کو اہمیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملازم جسمانی طور پر تو دفتر میں ٹھیک وقت پر نظر آ رہا ہوتا ہے مگر اس کا دماغ کام کی بجائے آرام میں مصروف ہوتا ہے۔ اسی طرح شام میں لیٹ سٹنگ کارکنوں کی ذہنی، تخلیقی اور جسمانی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہے۔ کارکن کمپنی کو وقت تو زیادہ دیتا ہے مگر اس کی پیداواری صلاحیت (Productivity) بہت ہی کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کارکن کی صحت اور خاندانی زندگی جس طریقے سے برباد ہوتی ہے، وہ اس کی پیداواری صلاحیت کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں۔
ایئر پورٹ پہنچ کر سامان بک کروانے اور امیگریشن کے معاملات سے فارغ ہو کر ہم لاؤنج میں آ بیٹھے۔ سعودی عرب سے باہر جانے والوں کا سامان چیک نہیں کیا جاتا۔ صرف "ہینڈ کیری "میں جو سامان ہو اسے مشینوں کی مدد سے چیک کیا جاتا ہے۔
جدہ کا ایئر پورٹ تقریباً تیس سال پرانا ہے۔ اس وجہ سے یہاں سہولیات اس درجے کی نہیں ہیں جیسی عرب ممالک کے دیگر ایئر پورٹس پر نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں اس ایئر پورٹ کی تزئین نو کی گئی ہے۔ اس وقت بھی کام چل رہا تھا۔ پائپوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ان پر تختے رکھے گئے تھے جن پر کھڑے کاریگر کام کر رہے تھے۔ ایک طویل سیڑھی بھی موجود تھی جس پر کھڑے ہو کر چھت کی تزئین کی جا رہی تھی۔ ہم کام والی جگہ سے تھوڑی دور آ کر بیٹھے تھے۔ اچانک مجھے عین اپنے سر کے اوپر آواز سنائی دی، "اودروں پھڑیں"۔ کام والی سیڑھی میرے پیچھے آ چکی تھی اور اس پر سوار کاریگر ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ یہ صاحب کہیں کوئی چیز میرے سر پر نہ گرا دیں۔
یہ ہمارے کاریگر تھے جو اپنے کام کے معیار کے لئے پورے عالم عرب میں مشہور تھے۔ کمپنیاں مشکل کاموں کے لئے پاکستانی یا ہندوستانی کاریگروں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اللہ تعالی نے ہماری قوم کو بہت سی تخلیقی اور جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر ہم لوگ اخلاقی اعتبار سے خود کو درست کر لیں تو یقیناً عالمی برادری میں بہت بلند مقام حاصل کرنے کی صلاحیت اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہوئی ہے۔
جدہ کا ایئر پورٹ کافی جدید ہو چکا تھا۔ میں کام کرنے والوں کا مشاہدہ کرنے لگا۔ میری آنکھیں اس چمک دمک کے پیچھے محنت کرنے والے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں۔ کہیں ہنر مند پنجابی نظر آ رہے تھے جو پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو چند منٹ میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کہیں محنت کش پٹھان نظر آ رہے تھے جو جدید مشینوں کی مدد کے بغیر زمین کا سینہ چیرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ ادھر کیرالہ کے مالا باری تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنا کام کرنے کے لئے مشہور تھے۔ ادھر بنگال کے محنتی کارکنان نظر آ رہے تھے جن پر عرب دنیا کے چھوٹے کاروبار کی معیشت کھڑی ہوئی تھی۔ میری نظر اس سے دور فلپائن اور انڈونیشیا کے کارکنوں کو دیکھ رہی تھی جو اپنے ننھے منے وجود سے بڑے بڑے کام کر رہے تھے۔ مصر، سوڈان، شام، اردن، لبنان اور ترکی کے محنت کش بھی تھے جو اپنی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کو یہاں لگا رہے تھے۔ ان سب کے علاوہ خود عربوں کے با صلاحیت افراد بھی تھے جو ہنر کو درست جگہ استعمال کرنے کا فن جانتے تھے۔
ان تمام افراد میں ایک خصوصیت مشترک نظر آ رہی تھی اور وہ تھی انسانیت۔ یہ سب ایک باپ کی اولاد ہیں۔ حالات نے کسی کو ایک مقام پر رکھا ہے اور کسی کو دوسرے پر۔ ہمارے ہاں لوگ اختلافات کو زیادہ نوٹ کرتے ہیں۔ اس کی بجائے میں ہمیشہ مشترک پہلوؤں پر توجہ زیادہ دیا کرتا ہوں۔اس سے محبت جنم لیتی ہے۔ دولت، نسب، رنگ، نسل اور علاقے کے مصنوعی فرق کو لوگوں نے بڑھا چڑھا کر بھاری بھرکم دیواروں میں تبدیل کر کے انسانیت کو تقسیم کر دیا ہے۔ کسی کو مصنوعی طور پر بہتر سمجھا جانے لگا ہے اور کسی کو کمتر۔ اگر انسان اپنے وجود ہی کا جائزہ لے لے تو وہ اس حقیقت کو جان سکتا ہے کہ دوسرے تمام انسان اس کے بھائی اور بہن ہی ہیں اور ان میں موجود فرق محض مصنوعی ہے۔
سعودی عرب ایک ملٹی کلچرل معاشرہ ہے۔ یہاں بہت سی قومیتوں کے افراد اپنے اپنے کلچر کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میں جب سعودی عرب آ رہا تھا، اس وقت بعض دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں علاقے کے لوگوں سے بچ کر رہنا۔ یہ ہمارے بارے میں شدید تعصب میں مبتلا ہیں۔ میں نے ان کی نصیحت کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا۔ اس کے بعد مجھے اس کے بالکل برعکس تجربہ ہوا۔ انہی علاقوں کے لوگ مجھ سے محبت کرنے لگے۔ میں انہیں کچھ دے نہیں سکتا۔ میری کوشش یہ ہوا کرتی ہے کہ ہر شخص کے بارے میں ذہن میں مثبت رویہ رکھوں۔ ان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھوں اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آؤں۔ دفتر میں صفائی کرنے والے سے لے کر ڈائریکٹر تک ہر فرد کا میں یکساں احترام کرتا ہوں۔
اگر میں پہلے سے ہی اپنے ذہن میں ان اقوام کے بارے میں تعصب پیدا کر لیتا تو یقینی طور پر یہی بات میرے طرز عمل میں چھلکتی اور میرا تجربہ بھی وہی ہوتا جس کی طرف میرے دوستوں نے اشارہ کیا تھا۔ نفرت اور تعصب سے جواب میں بھی نفرت ہی ملتی ہے جبکہ محبت اور احترام کا جواب بھی محبت ہی میں ملا کرتا ہے۔ چند متعصب افراد ہر قوم میں ہوا کرتے ہیں۔ ان کے طرز عمل کی بنیاد پر پوری قوم کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لینا بالکل ہی غلط ہے۔ ایسے افراد کا حل یہی ہوا کرتا ہے کہ انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے۔
اس سے پہلے یہی تجربہ مجھے کراچی میں حاصل ہو چکا ہے۔ یہاں مختلف لسانی گروہوں کے افراد موجود ہیں جن میں بعض ایک دوسرے کے لئے انتہا پسندی کی حد تک متعصب ہیں۔ میں نے ہر ایک سے متعلق مثبت رویہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اردو اسپیکنگ، سندھی، پٹھان، بلوچ اور پنجابی کمیونیٹیز سب میں مجھے مخلص دوست نصیب ہوئے۔
سوا نو بجے فلائٹ کا اعلان ہوا۔ جدہ ایئر پورٹ پر ابھی ٹنل کی سہولت دستیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ہم سب کو ایک بس میں لاد کر جہاز کی طرف لے چلے۔ یہ اسپیشل فلائٹ تھی۔ جہاں عام طور پر جہاز کھڑے ہوتے تھے، ہمارا جہاز وہاں موجود نہ تھا۔ اب ہم جدہ ایئر پورٹ کے فارن ٹرمینل کی جانب جا رہے تھے۔ جن احباب کو حج و عمرہ کے لئے سعودی عرب آنے کا اتفاق ہوا ہو وہ یہ بات جانتے ہیں کہ یہاں تین ٹرمینل ہیں۔ ایک سعودی ایئر لائنز کے لئے، دوسرا فارن ایئر لائنز کے لئے اور تیسرا حج کی اسپیشل فلائٹس کے لئے۔ ہم سعودی ایئر لائنز کے ٹرمینل سے آئے تھے مگر ہمارا جہاز اسپیشل فلائٹس والے ٹرمینل پر لگا ہوا تھا۔ اس ٹرمینل کی عمارت نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی چھتریاں لگا کر اسے خاص حاجیوں کے لئے بنایا گیا ہے۔
ٹھیک وقت پر جہاز حرکت میں آیا۔ٹیک آف کے وقت ماریہ کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھی تھی اور فضا میں بلند ہونے کے منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ بلندی پر پہنچ کر اس کے لئے اندر یا باہر کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ چنانچہ میں نے اس سے سیٹ کا تبادلہ کر لیا۔ میرا خیال یہ تھا کہ جہاز صحرا کے اوپر پرواز کرتا ہوا اردن اور شام سے گزر کر ترکی میں داخل ہو گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ جہاز مسلسل سعودی عرب کے ساحل کے ساتھ پرواز کرنے لگا۔ اب میں ایک طائرانہ نظر سے زمین کو دیکھ رہا تھا۔
میری نگاہوں کے سامنے بحیرہ احمر کا نیلا پانی تھا۔ نجانے اس سمندر کو سرخ سمندر کا نام کیوں دیا گیا ہے۔ سمندر کا پانی عرب کے گولڈن صحرا سے ٹکرا رہا تھا۔ حد نگاہ تک سنہری ریت پھیلی ہوئی تھی۔ نیلے اور سنہرے رنگ کا امتزاج آنکھوں کو اچھا لگ رہا تھا۔ پانی اور خشکی کا ملاپ قابل دید تھا۔ یہ ایک سیدھی لکیر کی شکل میں نہیں تھا۔ کہیں خشکی پانی کے اندر داخل ہو کر "جزیرہ نما"بنا رہی تھی اور کہیں پانی خشکی کے اندر داخل ہو کر "کریک" تشکیل دے رہا تھا۔ کبھی ساحل سے کچھ اندر پانی خشکی کے اندر نمودار ہو کر "جھیل " کی صورت اختیار کر رہا تھا اور کبھی خشکی پانی کے بیچ میں سے ظاہر ہو کر "جزیرہ" بنا رہی تھی۔ سمندر میں چھوٹے چھوٹے جزیرے پھیلے نظر آ رہے تھے۔ ایک جزیرہ تو بالکل مچھلی کی شکل کا تھا۔
یہ اللہ تعالی کی تخلیقی قوت کا اظہار تھا۔ میرا دل اللہ تعالی کی طاقت کے احساس سے بھر گیا۔ اس قوت کے چند ذرے اس نے اپنی مخلوقات میں سے صرف انسان کو عطا کیے ہیں جس کی بدولت ہمیں یہ سب سائنسی ترقی نظر آتی ہے۔ انسان کو اس نعمت کا شکر کرنا چاہیے نہ کہ اسی محدود سی قوت کے بل بوتے پر خدا کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جانا چاہیے۔
اس منظر کا ایک عجیب پہلو یہ تھا کہ خشکی اور پانی ایک دوسرے کے متضاد ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ یہی اس دنیا کا معاملہ ہے۔ اس دنیا میں بسا اوقات بالکل ہی متضاد مزاج کے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اگر یہی انسان اپنے اختلافات کے باوجود ساتھ چلنے پر آمادہ ہو جائیں تو پھر انسانیت اجتماعی طور پر ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ جیسے پانی اور خشکی میں تصادم ہو جائے تو پھر طوفان آ جاتا ہے، بالکل اسی طرح اگر انسان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جائے تو پھر انسانیت کی ترقی کا سفر معکوس سمت میں چل پڑتا ہے اور تباہی و بربادی اس کا مقدر بنتی ہے۔
جس طرح پانی اور خشکی ایک دوسرے میں گندھے ہوئے ہیں، بالکل اسی طرح نیکی اور بدی اس دنیا میں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سے ہے جب سے یہ دنیا بنی ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک یہ دنیا رہے گی۔ ہمارے بعض جذباتی نیک افراد دنیا سے برائی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور اس میں ناکامی کے بعد مایوس ہو کر نیکی سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس دنیا سے برائی کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دنیا انسان کے امتحان کے لئے بنی ہے۔ نیکی اور بدی کا وجود اس امتحان کے لئے ضروری ہے۔ انسان کی حقیقی زندگی میں برائی کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا جسے دین میں "جنت" کے نام سے تعبیر کہا گیا ہے۔
دور افق اب دھندلا نظر آ رہا تھا۔ بحیرہ احمر سے نکالی ہوئی درۃ العروس کی خوبصورت مصنوعی جھیلیں نظر آ رہی تھیں۔ یہ جدہ کے قریب ایک تفریحی ریزارٹ ہے۔ اس کے کچھ دیر بعد ینبوع کا شہر نظر آیا جو کہ بحیرہ احمر پر موجود تیل کی بندرگاہ ہے۔ مشرقی صوبے سے تیل بذریعہ پائپ لائن یہاں لایا جاتا ہے اور پھر یہیں سے اسے مغربی ممالک کی طرف بڑے بڑے بحری ٹینکروں پر لاد کر ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔ نیچے سمندر میں تیل کے جہاز نظر آ رہے تھے اور ساحل پر تیل کے گول ٹینک بھی دکھائی دے رہے تھے۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تیل کی دولت کے ذریعے دنیا میں سرفرازی کے حصول کا موقع فراہم کیا تھا مگر انہوں نے اسے ضائع کر دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دولت سے ہم اپنی غربت اور جہالت ختم کرتے مگر ہم نے اسے عیاشیوں میں برباد کر دیا۔ ایک طرف ہمارے ہاں بڑے بڑے سلم ایریاز ہیں جہاں کثیر تعداد میں انسان غلاظت اور گندگی میں پیدا ہوتے ہیں اور اسی حالت میں زندگی گزار کر مر جاتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے امیر ترین افراد اونچی اونچی عمارتوں اور محلات میں اپنی دولت لگا رہے ہیں۔
اب دنیا میں اس کے آثار نظر آ رہے ہیں کہ ہم سے یہ موقع چھین لیا جائے گا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے دنیا کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہائیڈروجن، شمسی توانائی، اور ہوا کی توانائی کو فروغ دیا جائے اور تیل پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔ اس کے بعد یہی ہو گا کہ ہمارے تیل کی دنیا میں کوئی وقعت نہ رہے گی اور ہم اسی حالت میں آ پہنچیں گے جس میں تیل کی دریافت سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ عرب حکومتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے اور وہ متبادل صنعتوں کے قیام کی کوشش کر رہی ہیں۔
جہاز کا عملہ اب ہمارے لئے کھانے کا اہتمام کر رہا تھا۔ بھنی ہوئی شملہ مرچوں کی خوشبو جہاز میں پھیل رہی تھی۔ ہم سب کو بھی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے کہا، "امید ہے شملہ مرچ اور بھنا ہوا گوشت لایا جا رہا ہے۔ " میری اہلیہ کہنے لگیں، "بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔ صرف مرچیں ہی آئیں گی۔" اتنے میں ایک اسٹیورڈ بچوں کے لئے خاص کھانے کی ٹرے ماریہ کو دے گیا۔
ماریہ نے کھانے کو دیکھ کر برا سا منہ بنایا کیونکہ اس کی پسند کی کوئی چیز یہاں موجود نہ تھی۔ فرائیڈ گوشت نما کوئی چیز پلاسٹک کے برتن میں پڑی ہوئی تھی۔ میں نے ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا تو میرا منہ کچھ ایسا ہو گیا جیسے اچانک منہ میں کڑوا بادام آ گیا ہو۔ یہ گوشت نہیں تھا بلکہ کوئی اور چیز تھی اور تیل سے بھری ہوئی تھی۔ یہی کچھ ماریہ کے ساتھ ہوا۔ منہ کا ذائقہ کچھ ایسا ہو رہا تھا کہ ابکائی لینے کو جی چاہتا تھا۔ اسٹیورڈ صاحب کہنے لگے، "سوری، ہمارے پاس ناشتہ ہے، دوپہر کا کھانا نہیں۔" ناشتے میں چٹنی نما انڈا، ایک چھوٹا سا بن اور مکھن کا ایک پیس تھا۔ اسے کھا کر منہ کا ذائقہ ٹھیک کیا۔ یہ ابھی مسئلے کی ابتدا تھی کیونکہ ترکی کے سفر میں ہمیں اپنی مرضی کا کھانا کم ہی نصیب ہوا۔
اسٹیورڈ اور ایئر ہوسٹس اب چائے اور کافی سرو کرنے لگے۔ ہم سے کچھ ہٹ کر دو طویل ریش ترک بیٹھے ہوئے تھے۔ اگلی سیٹ پر کچھ بوڑھی ترک دیہاتی خواتین تھیں جو عمرہ کی ادائیگی کے بعد واپس جا رہی تھیں۔ اپنے اسٹائل سے یہ بالکل پنجاب کی بڑی بوڑھیوں جیسی لگ رہی تھیں۔ ایک اماں نے کافی کے کپ میں جوس پی لیا تھا اور اب اسے اس خطرے کے پیش نظر اس کپ کو جھٹک کر صاف کر رہی تھیں کہ بچا ہوا جوس اور کافی مل کر نجانے کیا ذائقہ بنے۔
میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو زمین اچانک سیاہ رنگ اختیار کر گئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے بہت سا تارکول اس پر گرا دیا ہو۔ ندی نالوں کے بل کھاتے راستے اس تارکول کے بیچ میں سے نظر آ رہے تھے۔ درمیان میں کچھ سفید قطعات بھی تھے جس سے مجموعی طور پر زمین چتکبری نظر آ رہی تھی۔ بعض مقامات پر گول کھیت نظر آ رہے تھے۔ ایک آتش فشاں پہاڑ بھی نظر آ رہا تھا جو نیچے سے تو ایک پہاڑ تھا مگر اوپر سے ایک پیالے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
آتش فشاں جب پھٹتا ہے تو بڑی تباہی پھیلاتا ہے لیکن اس کے بعد یہ تباہی انسان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ زمین کی تہوں سے زرخیز مٹی اوپر کی سطح پر پھیل جاتی ہے جو طویل عرصے کے لئے کھیتی باڑی کا کام دیتی ہے۔ یہی معاملہ انسان کی زندگی کا ہے۔ انسان پر کبھی بہت بڑی مصیبت آ جاتی ہے جس میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی اب ختم ہوئی کہ ہوئی۔ لیکن جب مصیبت کا یہ دور گزرتا ہے تو پھر اسے آسانی اس کا مقدر بنتی ہے۔ مصیبت میں حاصل کیے گئے تجربات انسان کے لئے آسانی کے دور میں مفید ہوتے ہیں۔ مصیبت و آسانی کیا ہے ؟ محض انسان کے لئے صبر و شکر کے امتحانات ہیں۔ جس نے مصیبت میں صبر اور آسانی میں شکر کا دامن تھامے رکھا، وہ حقیقی زندگی میں کامیاب ہو گیا۔
ساحل کے ساتھ ساتھ ایک سیدھی لکیر مسلسل چلے جا رہی تھی۔ یہ جزیرہ نما عرب کی ساحلی سڑک تھی جو جنوب میں یمن کی بندرگاہ عدن سے شروع ہو کر ساحل کے ساتھ ساتھ شمال میں اردن کی بندرگاہ عقبہ تک جاتی ہے۔ یہاں سے یہ شام کے دارالحکومت دمشق تک چلتی ہے۔ دور جاہلیت میں قریش مکہ اسی راستے سے گرمیوں اور سردیوں میں تجارتی سفر کیا کرتے تھے جس کا ذکر سورہ قریش میں موجود ہے۔
میں نے اپنی سیٹوں کے درمیان موجود ہتھی کو اوپر اٹھا دیا اور اب کھلے ڈلے انداز میں آلتی پالتی مارے سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تھکن نہیں ہوتی۔ اچانک میری نگاہوں کے سامنے ایک عجیب منظر آ گیا۔ سمندر میں سے ایک بہت بڑی نہر نکل کر دائیں جانب جا رہی تھی۔ یہ نہر نہیں تھی بلکہ اس مقام پر بحیرہ احمر دو حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔ ایک حصہ خلیج عقبہ کہلاتا ہے اور دوسرا خلیج سویز۔ اس منظر کو میں پہلے گوگل ارتھ پر دیکھ چکا تھا لیکن اپنی آنکھ سے اسے دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ خشکی پانی کے درمیان آگے بڑھ کر تکون سی بنا رہی تھی۔ اس مقام کو "راس محمود"کہا جاتا ہے۔ اب ہم سعودی عرب کی حدود سے نکل کر مصر کی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔ یہاں ساحل کے پاس سمندر کا رنگ ہلکا نیلا تھا جو کورل ریف کی وجہ سے تھا۔ اسے دیکھنے کے لئے بہت سے لوگ غوطہ خوری کیا کرتے ہیں۔
نیچے "جزیرہ نما سینا" نظر آ رہا تھا جس کے جنوبی کونے میں "شرم الشیخ" کا شہر نظر آ رہا تھا۔ یہ ایسا شہر تھا جسے شرم چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ یہاں اہل مغرب اور بے حیائی میں ان کے پیروکار اہل مشرق ساحلوں پر بے ہودگی کی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ اپنے پچھلے سفر میں ہم غلطی سے یہاں آ گئے تھے مگر اس کے ماحول نے ہمیں الٹے قدموں واپس مڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ شرم الشیخ سے کچھ فاصلے پر جزیرہ نما سینا کا جنوبی کونہ نظر آ رہا تھا جو "راس محمد" کہلاتا ہے۔ مفسرین کا اندازہ ہے کہ سیدنا موسی و خضر علیہما الصلوۃ والسلام کی ملاقات یہیں ہوئی تھی۔ قرآن مجید میں اس مقام کو "مجمع البحرین" یعنی دو سمندروں کے سنگم سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تھوڑی دور جا کر ایسا محسوس ہوا کہ جہاز زمین کے قریب آ رہا ہو۔ ایسا نہیں تھا بلکہ زمین اٹھ کر جہاز کے قریب آ رہی تھی۔ ہم اس وقت مصر کے بلند ترین مقام سے گزر رہے تھے۔ یہ کوہ طور کا علاقہ تھا جہاں اللہ تعالی سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے ہم کلام ہوئے تھے۔ بنی اسرائیل جو کئی سو سال کی غلامی کے باعث نہایت ہی پست اور غلامانہ ذہنیت کے حامل ہو چکے تھے، اللہ تعالی نے حکم سے اس صحرا میں قید کر دیے گئے۔ اس صحرا میں ان کی غلامانہ ذہنیت والی پوری کی پوری نسل فوت ہو گئی اور نئی نسل صحرا کے کھلے ماحول میں پل کر جوان ہوئی۔اس نسل میں سیدنا یوشع اور کالب علیہما الصلوۃ والسلام جیسی جلیل القدر ہستیاں تھیں جنہوں نے فلسطین میں خالصتاً خلافت راشدہ قائم کی۔اس کی تفصیل آپ میرے پچھلے سفر نامے "قرآن اور بائبل کے دیس میں " کے باب "جزیرہ نما سینا" میں دیکھ سکتے ہیں۔
کوہ طور کے علاقے سے گزر کر ہم اب حمامات فرعون کے علاقے میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں فرعون کے غرق ہونے کی بعد اس کی لاش تیرتی ہوئی ملی تھی۔یہاں چٹانیں اسٹیڈیم کی سیڑھیوں کی شکل میں موجود تھیں جو مل کر ایک رومن تھیٹر کی صورت بنا رہی تھیں۔ میری نگاہوں کے سامنے رومی دور کے کھیلوں کے مقابلے گردش کرنے لگے جب ظلم و ستم کے شکار غلاموں کو بھوکے شیروں سے لڑایا جاتا تھا۔ اگر خوش قسمتی سے غلام شیر کو ہلاک کر دیتا، جو کہ شاید ہی کبھی ہوا ہو، تو اسے آزادی نصیب ہو جاتی ورنہ وہ شیر کے ہاتھوں ہلاک ہو کر آزادی پا لیتا۔
یہ وہی دور تھا جب اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غلاموں کو آزاد کر کے انہیں معاشرے میں با عزت مقام دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ جدید دور کے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے ڈیڑھ سو سال بعد سیاہ فام اس قابل ہو سکے ہیں کہ ان کی نسل سے تعلق رکھنے والا ایک شخص امریکہ کے صدر کے عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کے برعکس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غلامی کو اس طریقے سے ذہنوں سے کھرچ دیا کہ آپ کے دوسرے خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے بعد ایک سابق غلام سالم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے۔ غلامی کے خاتمے کے لئے اسلام کے اقدامات کی تفصیل آپ میری کتاب "اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ" میں دیکھ سکتے ہیں۔
سینا سے گزر کر ہم خلیج سویز کے اوپر پرواز کر رہے تھے۔ نیچے سویز شہر تھا جس سے نہر سویز نکل رہی تھی۔ یہی نہر آگے چل کر ایک بڑی جھیل میں مل رہی تھی جس سے نہر دوبارہ نکل کر بحیرہ روم کی طرف جا رہی تھی۔ تھوڑی دور جا کر صحرا ختم ہونے لگا۔ اب گولڈن صحرا سبز کھیتوں کے ساتھ مل رہا تھا۔ کچھ ایسا ہی منظر میں نے سندھ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے دیکھا تھا جہاں دریائے سندھ کی وادی تھر پارکر کے صحرا سے ملتی ہے۔ یہاں دریائے سندھ کی بجائے دریائے نیل تھا۔ کچھ جیالوں نے صحرا کے اندر تک پانی پہنچا کر کھیتی باڑی کی ہوئی تھی۔
کھڑکی سے نیچے بالکل وہی منظر تھا جو پنجاب کے اوپر پرواز کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ چوکور کھیت اور ان کے درمیان پھیلے ہوئے دیہات۔ پنجاب میں تو ایک وقت میں چھ ساتھ گاؤں نظر آتے ہیں مگر یہاں بیک وقت دس بارہ گاؤں نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر کی آبادی کا بڑا حصہ دریائے نیل کے ڈیلٹا میں رہتا ہے اور باقی حصہ بہت بڑے صحرا پر مشتمل ہے۔
اچانک ہمارے سامنے دریائے نیل کی مشرقی شاخ آ گئی۔ ڈیلٹا میں پہنچ کر دریائے نیل کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن کے درمیان کی زمین پر کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ سامنے بحیرہ روم تھا جس میں دریائے نیل شامل ہو رہا تھا۔ ہم اب اسکندریہ اور پورٹ سعید کے درمیان سے گزر کر بحیرہ روم کے اوپر پرواز کر رہے تھے۔
بحیرہ روم کا ساحل نصف دائرے کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ یہاں مصر کی حدود ختم ہو کر فلسطین کی حدود شروع ہو رہی تھیں۔ جدید فلسطینی ریاست دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ دریائے اردن کا مغربی کنارہ ہے اور دوسرا حصہ غزہ کی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان اسرائیل کا علاقہ ہے۔ یہاں پچھلے سال اسرائیلی افواج نے فلسطینی گوریلوں کے خلاف کاروائی کے دوران بہت سی خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان کے اس ظلم پر پوری مسلم دنیا سوائے احتجاج اور قنوت نازلہ پڑھنے کے اور کچھ نہ کر سکی تھی جس کا کچھ نتیجہ برآمد نہ ہوا تھا۔
میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا احتجاج اور دعائیں بے اثر کیوں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم مظلوم ہیں۔ اگر ایسا ہے تو دنیا میں ہماری شنوائی کیوں نہیں ہے۔ اس دنیا کو چھوڑیے، اللہ تعالی کے حضور امت مسلمہ کے لئے ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دعا سے پہلے تدبیر کا حکم دیا ہے۔ پانی ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف بہتا ہے۔ اگر کوئی کسان پانی کے چشمے سے اوپر کی جانب کھیت بنا لے اور مصلے بچھا کر بیٹھ کر دعا کرنے لگے کہ میرا کھیت ہرا بھرا ہو تو اس کا کھیت کبھی ہرا بھرا نہ ہو گا۔ وہ پوری دنیا کے سامنے احتجاج کرنے لگے کہ دیکھو میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ دوسرے میرے حصے کا پانی لے کر جا رہے ہیں، مجھے کچھ نہیں مل رہا مگر اس کی بات کوئی نہ سنے گا۔
ہم نے بھی معاملہ کسان جیسا ہی کیا۔ پہلے ایک ہزار برس تک لمبی تان کر غفلت کی نیند سوتے رہے۔ غفلت اور عیش پرستی کے باعث اخلاقی اعتبار سے ہمارے معاشرے انحطاط کا شکار ہوتے چلے گئے۔ علم کے میدان میں ہماری دلچسپی کا اصل مرکز الہیاتی فلسفہ بن گیا اور سائنس و ٹیکنالوجی کو ہم نے کبھی اہمیت نہ دی۔ اقتصادیات کے میدان میں بھی ہمارے ہاں جمود رہا۔دوسری طرف اخلاقی انحطاط کے باعث ہمارے وجود کا ایک حصہ دوسرے کو کھانے لگا۔
اس عرصے کے دوران اہل مغرب نے علم، اقتصادیات اور اخلاقیات کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑنا شروع کیے اور صورت یہاں تک پہنچی کہ ہمارا اور ان کا فرق بڑھتا چلا گیا۔ انہوں نے پہلے ریل، کار اور جہاز کے ذریعے دنیا کے فاصلے ختم کر دیے۔ اس کے بعد ابلاغ کی دنیا میں انقلاب برپا کر کے دنیا میں اپنے افکار پھیلانا شروع کیے۔ سائنسی ترقی کا لازمی نتیجہ اقتصادی ترقی نکلا۔ ان کے ہاں بہت سے انقلابات کے نتیجے میں اخلاقی شعور پیدا ہوا اور دوسروں کے لئے نہ سہی مگر کم از کم اپنی قوم کی حد تک یہ لوگ اچھے انسان بن گئے۔
اس عرصے میں جو کچھ ہوا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قدو قامت میں اہل مغرب کے سامنے ہم بونوں کی طرح چھوٹے رہ گئے۔ یہ لوگ اگرچہ اپنی اقوا م کے لئے اچھے تھے مگر دوسری اقوام کے لئے ان کا اخلاقی معیار بہت ہی پست تھا۔ چنانچہ یہ ہم پر چڑھ دوڑے اور نوآبادیاتی نظام کی شکل میں انہوں نے ایشیا، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ شروع کر دی۔اس معاملے نے اقتصادی اعتبار سے ہمیں بہت ہی پستی میں دھکیل دیا۔ معاش اور اخلاق کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد کے مطابق غربت کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم اخلاقی اعتبار سے پست سے پست ہوتے چلے گئے۔
عیسائی دنیا کو چھوڑ کر اگر مسلمانوں اور یہودیوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس چھوٹی سی قوم سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ دنیا میں ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں جبکہ یہود کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے۔ گویا دنیا میں ہر یہودی کے مقابلے میں 100 مسلمان موجود ہیں۔ یہ یہودی کوئی مذہبی گروہ نہیں ہے بلکہ ایک قومی اور نسلی گروہ ہے۔ یہ ڈیڑھ کروڑ یہودی سوا ارب مسلمانوں کے مقابلے میں انتہائی طاقت ور ہیں۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جدید دور کی تشکیل نو کے پیچھے یہود کے اعلی ترین دماغوں کا کردار ہے۔ فزکس کے میدان میں آئن اسٹائن، نفسیات کے میدان میں سگمنڈ فرائیڈ، معاشیات کے میدان میں پال سیموئیل سن اور ملٹن فرائیڈمین جیسے ماہرین ان کے ہاں پائے جاتے ہیں اور اس درجے کا ایک بھی عالم ہمارے ہاں نہیں ہے۔ میڈیکل کی دنیا کی بڑی بڑی ایجادات یہود ہی نے کی ہیں۔ پچھلے سو برس کے عرصے میں یہودی اہل علم نے 180 نوبل پرائز جیتے ہیں جبکہ مسلمانوں میں ان کی تعداد صرف 3 ہے۔ یہ حضرات بھی مسلم دنیا میں عتاب کا شکار ہی رہے۔ دنیا کی دس بڑی کمپنیوں اور برانڈز کے اکثریتی مالک یہودی ہیں۔ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں بااثر سیاستدان یہودی ہیں۔ دنیا کے میڈیا پر یہودی چھائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بڑے خیراتی ادارے تک یہودی چلا رہے ہیں۔ یہ تو ان کے اہل علم کا حال ہے، ان کے عام لوگوں میں تعلیم کا تناسب 100فیصد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ محض 40 فیصد ہے۔ اس تعلیم کا معیار بھی نہایت ہی پست ہے۔ یہودی اپنے مذہب کو پھیلانا پسند نہیں کرتے ورنہ شاید دنیا کا سب سے بڑا تبلیغی نیٹ ورک بھی انہی کا ہوتا۔
ان اعداد و شمار کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں ہے بلکہ صورتحال کا حقیقی تجزیہ کرنا ہے۔ ہمارے اہل دانش کو اپنی کمزوری کا احساس بہت پہلے ہو چکا تھا۔ انہوں نے اس صورتحال کا درست تجزیہ نہیں کیا اور مسئلے کا حل یہ تجویز کیا کہ ہم جنگ کے ذریعے ان پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالی کی چہیتی قوم ہیں، ہم پر ظلم ہوا ہے اس وجہ سے اللہ تعالی کی مدد ہمارے شامل حال ہو گی۔ بس پھر کیا تھا، مسلمان پوری دنیا میں اہل مغرب کے خلاف صف آرا ہو گئے۔
یہ حل بالکل ایسا ہی تھا کہ کسی یتیم بچے کے گھر کوئی بدمعاش گروہ آ گھسے اور اس پر قبضہ کر کے بیٹھ جائے۔ اس بچے کے نام نہاد خیر خواہ اس کی پیٹھ ٹھونک کر اس کے ہاتھ میں ایک چاقو دیں اور اس بدمعاش گروہ کے مقابلے پر اس بچے کو آمادہ کر دیں۔ ہمارے ساتھ یہی ہوا۔ ہمارے لیڈروں نے ہماری پیٹھ ٹھونک کر ہمیں اس مقابلے پر مجبور کر دیا۔
یقیناً اللہ تعالی کا پسندیدہ دین اسلام ہے جس سے اپنے اخلاقی انحطاط کے باعث ہم کوسوں دور جا چکے تھے۔ سائنس اور اقتصادیات کے میدانوں میں ہم بہت پیچھے تھے۔ دوسرے تو کیا، ہم اپنی قوم کے لئے مخلص نہ تھے۔ چنانچہ ہم نے دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعا کے ساتھ اس میدان میں ان کا مقابلہ شروع کیا جس میں مقابلے کے ہم اہل نہ تھے۔ اللہ تعالی کی مدد تو کیا آتی، ہمیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ اس مقابلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن کو تو ہم شاید ہی کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتے، ہمارے اپنے معاشرے تباہی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ آج امریکہ اور اسرائیل اپنی جگہ موجود ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس صومالیہ، فلسطین، عراق، افغانستان اور پاکستان کی حالت پوری دنیا کے سامنے ہے۔
اگر ہمیں مقابلہ کرنا ہی ہے تو اس کے لئے میدان کچھ اور ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں چین سے سبق سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے دنیا کے ہر جھگڑے سے خود کو علیحدہ رکھ کر اپنی پوری توجہ علمی اور اخلاقی اعتبار سے خود کو بہتر بنانے پر دی ہوئی ہے۔ اسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے جاپان، کوریا، سنگاپور اور ملائشیا جیسے ممالک ترقی یافتہ کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم علم کے میدان میں اہل مغرب کا مقابلہ کریں۔ اگر ان کے ہاں دس اہل علم پیدا ہوتے ہیں تو ہم بیس اہل علم پیدا کر کے دکھائیں۔ اگر وہ اپنے ہاں غربت کا خاتمہ دس سال میں کر سکتے ہیں تو ہم پانچ سال میں ایسا کر کے دکھائیں۔ اگر وہ سو ایجادات کرتے ہیں تو ہم دو سو ایسی ایجادات کر کے اپنی علمی برتری ثابت کریں۔ اگر انہوں نے کرپشن سے پاک معاشرہ پچاس سال میں پیدا کیا ہے تو ہم ایسا پچیس سال میں کر کے دکھائیں۔ اگر وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے ایک ارب خرچ کرتے ہیں تو ہم دو ارب اس کام میں خرچ کریں۔ اگر یہود اپنے دین کی دعوت دوسروں کو نہیں پہنچاتے تو ہم اللہ کے پیغام کو اس کی حقیقی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جس دن ہم نے ایسا کر لیا، اس دن دنیا میں بھی ہماری بات سنی جائے گی اور اللہ تعالی بھی ہماری دعا کو قبول کرے گا۔
الحمد للہ مسلم دنیا میں اس بات کا احساس پید ا ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ ہمارے ہاں اب تخریب کو چھوڑ کر تعمیر کی طرف آ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی غربت کے خاتمے، علم کے فروغ، اور اخلاقی تربیت کا کام شروع ہو چکا ہے۔ اب ضرورت اس کو آگے بڑھانے کی ہے۔ تخریب کے راستے پر دو سو سال کی ناکامیوں کے بعد ہم نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اس راستے پر چل کر ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں ان لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی واقعتاً ایک برائی ہی ہے اور اس برائی سے نیکی کا کوئی مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ہم نے الحمد للہ تعمیر کا راستہ اختیار لیا ہے اور اب انشاء اللہ اب تعمیر کے راستے پر چل کر محض تیس چالیس برس میں ہم نتائج دیکھ لیں گے۔
غزہ کی پٹی کے بعد ہم ساحل سے دور ہوتے چلے گئے۔ اب ہمارے نیچے صرف سمندر تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا دور تک ایک نیلے رنگ کی چادر پھیلی ہوئی ہے۔ فضا میں جا بجا سفید بادلوں کے ٹکڑے اس طرح سے پھیلے ہوئے تھے جیسے ایک وسیع نیلے کینوس پر روئی کے گالے چپکا دیے گئے ہوں۔ میرے کانوں میں قرآن مجید کی یہ آیت گونجنے لگی: "هُوَ الذِى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأرضِ جَمِيعاً" یعنی "وہی (خالق) تو ہے جس نے اس زمین میں جو کچھ ہے، وہ تمہارے لئے بنایا۔"
یہ مٹی، یہ سمندر، یہ بادل، یہ فضا، یہ پانی، یہ ہوا، یہ جانور سب کا سب اللہ تعالی نے ہمارے لئے ہی بنایا ہے۔ ہم ان کروڑوں نعمتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے خالق کی ناشکری ان چند چیزوں پر کر جاتے ہیں جو اس نے کسی مصلحت کے تحت ہمیں عارضی طور پر عطا نہ کی ہوں۔
میں سوچنے لگا کہ یہ سیارہ زمین، جسے اللہ تعالی نے ہمارے لئے بنایا ہے، ہماری ماں کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالی ماں کی چھاتیوں کے ذریعے ہمیں ابتدائی خوراک فراہم کرتا ہے بالکل اسی طرح وہ آکسیجن، پانی، نباتات اور حیوانات کی نعمتوں کو اسی زمین کے ذریعے ہمیں فراہم کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض جذباتی اور تنگ نظر لوگ اس زمین کے کسی مخصوص خطے کو اپنی دھرتی ماں قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پورا کرہ ارض ہماری دھرتی ماں ہے۔ جس طرح انسان اپنی ماں کی خدمت، محبت کے ساتھ کرتا ہے بالکل اسی طرح یہ دھرتی ماں ہم سے اس خدمت کی طلب گار ہے کہ اس کی ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ نہ کیا جائے۔ ہم میں سے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ممکنہ حد تک اسے پاک صاف رکھیں۔یہی ہمارے خدا اور اس کے دین کا تقاضا ہے۔
ان دنوں سوائن فلو پھیلا ہوا تھا۔ اس کے خطرے کے پیش نظر ترکی کی حکومت نے جہاز میں فارم تقسیم کروائے تھے جن میں مسافروں نے اپنی تفصیلات کے علاوہ سوائن فلو کی علامات سے متعلق کچھ سوالات کے جواب دینا تھے۔ اس قسم کے فارمز کا حقیقتاً کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کی وجہ سے ان پڑھ لوگ مشکل میں آ جاتے ہیں۔ میں نے جدہ ایئر پورٹ پر بہت سے سیدھے سادھے دیہاتیوں کو فارم بھرنے کی مصیبت کرتے دیکھا ہے۔ مسافروں کی زندگی مشکل بنانے کی بجائے آسان طریقہ یہ ہے کہ امیگریشن آفیسر کے ساتھ ایک ڈاکٹر کو بٹھا دیا جائے جو امیگریشن کے دوران چند سوالات کر کے ابتدائی معائنہ کر لے اور اگر کسی میں یہ علامتیں پائی جائیں تو اس کے تفصیلی ٹسٹ وغیرہ کر لیے جائیں۔
میرے ذہن میں ابن بطوطہ کے زمانے کی وبا کی یاد تازہ ہو گئی۔ ان کے شام کے سفر کے دوران وہاں طاعون پھوٹ پڑا تھا جس میں صرف دمشق شہر میں ایک ایک دن میں دو دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ موصوف لکھتے ہیں:
"میں عظیم طاعون کے زمانے میں ربیع الآخر سن 749ھ (1348ء) کے آخری دنوں میں دمشق پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ حیران کر دینے کی حد تک اس مسجد کی تعظیم کر رہے ہیں۔ بادشاہ کے نائب ارغون شاہ نے اپنے منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ دمشق کے سب لوگ تین دن روزہ رکھیں اور بازاروں میں کھانا نہ پکائیں۔ لوگوں نے لگاتار تین دن روزہ رکھا۔ آخری روزہ جمعرات کے دن تھا۔ اس کے بعد تمام امراء، شرفاء، جج، فقہاء، اور مختلف طبقات کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ان سے مسجد بھر گئی۔
انہوں نے یہاں جمعہ کی رات نماز، ذکر اور دعا میں گزاری۔ اس کے بعد انہوں نے فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ سب کے سب پیدل باہر نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا اور ان کے امراء تک ننگے پاؤں تھے۔ شہر کے تمام لوگ، مرد و خواتین، چھوٹے بڑے، سب کے سب نکلے۔ یہودی اپنی تورات کے ساتھ نکلے۔ عیسائی اپنی انجیل کے ساتھ نکلے۔ ان کی خواتین اور بچے بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وہ سب کے سب اللہ تعالی کے حضور عجز و انکسار کے ساتھ اپنے کتاب اور انبیاء کا واسطہ دے کر دعا کر رہے تھے۔ وہ پیدل (باہر کی) مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ زوال کے وقت تک عاجزی سے رو رو کر دعا کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ شہر کی جانب پلٹے اور نماز جمعہ ادا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ معاملہ جب ہلکا کیا تو اس وقت ان کے مرنے والوں کی تعداد روزانہ 2000 تک پہنچ گئی۔"
دولت اور عیش میں پڑ کر انسان خود کو اتنا بڑا سمجھنے لگتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے خلاف بغاوت پر اتر آتا ہے۔ وبائی امراض انسان کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ انسان ایک برتر ہستی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ان کا جینا اور مرنا ایک ہی ہستی کے دست قدرت میں ہے۔ ابن بطوطہ کے دور میں طاعون اور ہمارے دور میں ایڈز، برڈ فلو اور سوائن فلو انسان کو اپنے عجز کا احساس دلاتے ہیں۔ اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ اس طرف توجہ دے کر کامیاب ہو یا اس وارننگ کو نظر انداز کر کے ناکام۔
جہاز آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ دور افق پر بادل کچھ اس طرح چمک رہے تھے جیسے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف چمکتی ہے۔ بادلوں سے کچھ نیچے انطالیہ کے پہاڑ نظر آ رہے تھے۔ اب بحیرہ روم ختم ہو رہا تھا اور ہم جزیرہ نما اناطولیہ میں داخل ہو رہے تھے۔ بہتر ہو گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم ترکی کے جغرافیہ اور تاریخ سے متعلق ضروری واقفیت حاصل کر لیں تاکہ بعد میں ان کا حوالہ دینے میں آسانی ہو۔
ترکی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ جیسا کہ آپ نقشے میں دیکھ سکتے ہیں کہ جدید ترکی کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ بڑا سبز حصہ ایک جزیرہ نما کی شکل کا ہے جو کہ "اناطولیہ" کہلاتا ہے۔ اسے ایشیائے کوچک (Asia Minor) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس چھوٹا حصہ جو سرخ لکیروں میں دکھایا گیا ہے، "تھریس" کہلاتا ہے۔ اناطولیہ ایشیا جبکہ تھریس یورپ کا حصہ ہے۔ تھریس میں ترکی کی سرحد بلغاریہ اور یونان سے ملتی ہے۔
اناطولیہ کو مختلف ریجنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نیچے سے دیکھیے تو بحیرہ روم کے ساتھ والا حصہ "میڈی ٹرینین ریجن" کہلاتا ہے۔ بحیرہ روم ترکی کے مغرب میں پتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس حصے کو "آگین ریجن" کہا جاتا ہے اور یہاں کا سمندر آگین سی کہلاتا ہے۔ یہ آگین سی ایک تنگ سی آبنائے کے ساتھ گزر کر ایک نسبتاً کھلی جھیل میں داخل ہوتا ہے۔ یہ جھیل "بحیرہ مرمرہ" کہلاتی ہے اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ "مرمرہ ریجن" کہلاتا ہے۔
استنبول کے پاس پہنچ کر بحیرہ مرمرہ دوبارہ تنگ ہو کر "آبنائے باسفورس "کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ تنگ سی آبنائے دوبارہ ایک بہت ہی بڑی جھیل میں جا گرتی ہے جو "بحیرہ اسود" یا "بلیک سی "کہلاتی ہے۔ یہ بحیرہ کیسپین کے بعد دنیا کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ بلیک سی کے آس پاس کا علاقہ "بلیک سی ریجن" کہلاتا ہے۔
ترکی کا شمال مشرقی علاقہ دشوار گزار اور بلند ترین پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اس کی سرحد جارجیا، آرمینیا اور ایران سے ملتی ہے۔ ترکی، ایران اور آرمینیا کی سرحد پر ترکی کا بلند ترین پہاڑ کوہ ارارات واقع ہے۔ جنوب مشرق میں ترکی کی سرحد عراق اور شام سے ملتی ہے۔ ترکی کے مشرقی بلند پہاڑوں سے دنیا کے دو مشہور دریا دجلہ و فرات نکلتے ہیں۔ دریائے دجلہ براہ راست عراق میں داخل ہو جاتا ہے جبکہ فرات پہلے شام اور پھر عراق میں داخل ہو کر اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ یہ دونوں دریا جنوبی عراق میں بصرہ کے قریب خلیج فارس میں جا گرتے ہیں۔ان دونوں دریاؤں کے درمیان کی وادی میسو پوٹیمیا کہلاتی ہے جس کا اوپری حصہ ترکی، درمیانہ حصہ شام اور نچلا حصہ عراق میں واقع ہے۔
بہتر ہو گا کہ ہم اپنے سفر کا نقشہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش کر دیں تاکہ انہیں واضح طور پر ہر علاقے کے بارے میں علم ہو سکے۔
ہم نے اپنے سفر کا آغاز استنبول سے کیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ پہلے ترکی کے باقی علاقوں کو دیکھ لیا جائے اس کے بعد آخری ایام استنبول میں گزارے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ استنبول پہنچتے ہی ہم یہاں سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹے شہر "بولو" کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد اگلے دن "سامسن" میں رات گزاری۔ تیسرے دن ہم "ترابزن" کی طرف روانہ ہوئے اور شہر سے 90 کلومیٹر دور ایک خوبصورت جھیل "یوزن گول" پر دو دن قیام کیا۔ یہاں سے ہم جارجیا کی سرحد کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں سے "کچکار" پہاڑوں سے گزرتے ہوئے "ارض روم" پہنچے۔ اگلے دن ہم نے ایران کی سرحد پر واقع "ڈوغو بایزید" کا سفر کیا اور کوہ ارارات کی سیر کے بعد واپس ارض روم پہنچے۔ اس کے بعد ہم "ارزنجان"، "شیواس" سے ہوتے ہوئے انقرہ پہنچے۔ انقرہ سے ہم نے "برسا" اور "الوداغ" پہاڑوں کا رخ کیا اور یہاں سے واپس استنبول پہنچے۔
ترکی کے جغرافیے کے ساتھ ساتھ اس کی مختصر تاریخ بھی اگر بیان ہو جائے تو اس کے مختلف علاقوں کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ترکی کے اناطولیہ ریجن کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہاں پتھر کے زمانے سے انسان موجود ہے۔ بلیک سی کے ارد گرد کے علاقے میں اب سے دس ہزار سال پہلے آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ آسانی کے لئے ہم ترکی کی تاریخ کو ان ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں:
· زمانہ قبل ازتاریخ: 2500 ق م سے پہلے
· کانسی کا دور: 2500 ق م سے 700 ق م
· لوہے کا دور: 700 ق م سے 330 ء
· رومن بازنطینی دور: 330 ء سے 1453ء
· سلجوقی دور: 1071ء سے 1300ء
· عثمانی دور: 1299ء سے 1923ء
· ری پبلکن دور: 1923ء سے تا حال
ان ادوار کی تفصیل ہم مختصر طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ قیمتی معلومات ہمیں مختلف انسائیکلو پیڈیاز اور آل اباؤٹ ترکی ڈاٹ کام سے دستیاب ہو سکی ہیں:
ترکی میں قبل از تاریخ کے زمانے کے آثار ملتے ہیں۔ بلیک سی کی تہہ میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ علاقے پانی سے باہر تھے۔ کسی جغرافیائی حادثے کے نتیجے میں بلیک سی کی سطح بلند ہوئی اور یہ علاقے زیر آب آ گئے۔ قدیم زمانے میں اناطولیہ کا بڑا حصہ عراق کی قدیم اکدانی سلطنت کے زیر اثر رہا ہے۔ تاریخی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے طوفان کا زمانہ بھی یہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ انہی کے طوفان کے باعث بلیک سی کی سطح بلند ہوئی ہو۔
اس دور کو کانسی کا دو راس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں آلات اور برتنوں کا بڑا حصہ کانسی سے بنایا جاتا تھا۔ 2500 ق م کے بعد حتیوں نے اناطولیہ میں قدم جمانے شروع کر دیے۔ یہ انڈو یورپین نسل کے کسان تھے۔ انہوں نے اناطولیہ کے علاقے میں ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ ان کے قوانین معاصر تہذیبوں کی نسبت زیادہ انسان دوست تھے۔ ان کے پورے دور میں دیگر اقوام اناطولیہ پر حملے کرتی رہیں۔حتیوں کا مذہب مشرکانہ تھا جس میں وہ متعدد خداؤں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ بادشاہ کو پجاریوں کا سربراہ مانا جاتا تھا۔ حتی سلطنت 1400 ق م کے لگ بھگ اپنے عروج کو پہنچی۔ آہستہ آہستہ اسے زوال آ گیا اور اس کی جگہ متعدد تہذیبوں نے لے لی۔
حتیوں کے ساتھ ساتھ اناطولیہ کے کچھ حصے پر آشوری (Assyrians) بھی قابض رہے۔ ان کا اصل وطن دجلہ اور فرات کے درمیان کی زرخیز وادی تھی جسے میسو پوٹے میا (Mesopotamia) کہا جاتا ہے۔ یہاں سے یہ دجلہ و فرات سے اوپر کی جانب سفر کرتے ہوئے اناطولیہ پر قابض ہوئے۔
اس پورے عرصے میں ترکی کے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم رہیں۔ مغرب کی جانب سے یہ یونانی اقوام کے زیر اثر رہا جبکہ مشرقی جانب سے یہ عراق کی قدیم سلطنتوں کے زیر اثر رہا۔ اس زمانے میں مغربی ترکی میں آئیونیا تہذیب، فرائ جیا تہذیب، اور ٹرائے کی تہذیب غالب رہی۔
لوہے کے دور کا آغاز سیدنا داؤد علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالی نے ان کے ہاتھ میں لوہے کو نرم کر دیا تھا جس کے باعث انہوں نے لوہے کی وسیع سلطنت قائم کی۔ ان کے بیٹے سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں لوہے کے علاوہ دیگر قسم کی صنعتوں کے غیر معمولی ترقی کی۔ ہواؤں کو مسخر کیا گیا۔ سمندر کے خزانوں کو تلاش کیا گیا۔ عظیم الشان عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ ان کی سلطنت میں سائنسی ترقی کا یہ عالم تھا کہ یمن جیسے ترقی یافتہ ملک کی ملکہ بھی ان کے محل میں پہنچ کر خود کو دیہاتی دیہاتی سا محسوس کرنے لگی۔ یہ ترقی اسرائیل سے نکل کر دیگر قوموں تک بھی پہنچی۔
اس دور میں مغربی ترکی لڈیا کی سلطنت اور مشرقی ترکی ایران کی ہاخا منشی سلطنت کے زیر اثر آ گیا۔ 334 ق م میں اس علاقے کو یونان کے اسکندر نے فتح کر لیا مگر اس کے جانشین اتنی بڑی سلطنت کو سنبھال نہ سکے اور یہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ اس کے بعد یہاں طویل عرصے تک یونانیوں کی سلیوسی سلطنت کی حکومت رہی جو کہ 63ء تک قائم رہی۔ درمیان میں کچھ عرصے کے لئے آرمینیوں کی حکومت بھی یہاں قائم رہی۔
اس کے کچھ عرصے بعد رومیوں کو عروج نصیب ہوا اور ان کے فاتحین نے پورا اناطولیہ فتح کر کے اسے روم کا حصہ بنا دیا۔ ابتدا میں یہ ایک جمہوری حکومت تھی لیکن بعد میں یہ بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ انہوں نے ترکی کے علاوہ موجودہ شام، اردن، فلسطین اور مصر پر قبضہ جما لیا۔ اسی دور میں سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی۔ آپ کے بعد آپ کے ماننے والوں کی بڑی تعداد نے ترکی کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں دعوتی و تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
300ء کے لگ بھگ اس پورے علاقے کی اکثریت عیسائی مذہب اختیار کر چکی تھی۔ 330ء میں رومی شہنشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کر کے اسے سرکاری مذہب قرار دیا۔ یہی وہ بادشاہ ہے جس نے موجودہ استنبول کے مقام پر عظیم شہر قسطنطنیہ بسانے کا حکم دیا جو اس کا دار الحکومت قرار پایا۔ اس سے پہلے یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جو بازنطین کہلاتا تھا۔
ساتویں صدی کے دوران مسلمانوں نے شام اور مشرقی ترکی کو فتح کر لیا جس کے نتیجے میں رومی سلطنت صرف اناطولیہ کے مغربی علاقوں تک محدود ہو گئی۔ 1037ء میں اس علاقے میں طغرل بیگ نے سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مشرقی اور وسطی اناطولیہ پر سلجوقوں اور مغربی ترکی پر رومنوں کی حکومت رہی۔ سلجوقی سلطنت کے زوال پر اس کی باقیات سے عثمانی ترکوں نے جنم لیا اور مشرقی ترکی پر اپنی حکومت قائم کر لی۔
1453ء میں عثمانی بادشاہ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد عثمانیوں نے یورپ، وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ میں اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے عثمانی سلطنت کو وسعت دی۔ عثمانیوں نے حکومت کے مختلف شعبوں کو غیر معمولی انداز میں منظم کیا جس کے نتیجے میں وہ اپنے دور کی سپر پاور بن گئے۔ آہستہ آہستہ اس سلطنت کو زوال آنا شروع ہوا۔ انیسویں صدی اس سلطنت کے زوال کا دور ہے جس میں یہ سلطنت اندرونی طور پر کمزور ہوتی چلی گئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی عالمی جنگ ہوئی جس میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ اس جنگ میں جرمنی کی شکست کے ساتھ ہی برطانیہ اور فرانس کی افواج نے اس عظیم سلطنت کے ٹکڑے کر کے بہت سے ممالک بنا دیے۔
عثمانی سلطنت کی باقیات پر جدید ترکی کی حکومت قائم ہوئی۔ نوجوان ترکوں پر مشتمل افواج، جن کی قیادت مصطفی کمال کے پاس تھی، نے بیک وقت سلطنت عثمانیہ اور اتحادی افواج کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ یہ لوگ اتحادیوں کو اپنے ملک سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد مصطفی کمال نے سیکولر دور کی ابتدا کی جو آج تک جاری ہے۔
اب ہم ترکی کی فضاؤں میں داخل ہو رہے تھے۔ ہمارے سامنے جنوبی ترکی تھا جس میں اونچے نیچے پہاڑوں کا سلسلہ جاری جاری تھا۔ آہستہ آہستہ ہم آگین ریجن کی طرف جا رہے تھے۔ ہمارے بائیں جانب بحیرہ آگین تھا اور دائیں جانب بہت سے چھوٹے بڑے شہر پھیلے ہوئے تھے۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی جھیل نظر آ رہی تھی جو کہ "بے شہر گولو" کہلاتی ہے۔ ترکی زبان میں جھیل کو گولو کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی موٹی بہت سی جھیلیں ہمیں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر نظر آ رہی تھیں۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر "قونیہ" کا مشہور تاریخی شہر تھا جو تصوف یا صوفی ازم کے عالمی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ہماری نگاہوں کے سامنے پہاڑوں کے درمیان دریا بہہ رہے تھے۔ جہاں بھی مناسب جگہ تھی وہاں ترکی کی حکومت نے ڈیم تعمیر کر کے بجلی اور آب پاشی کا اہتمام کیا تھا۔ حد نگاہ تک جھیلیں اور ڈیم پھیلے ہوئے تھے۔ جہاں دریا نہیں بھی تھے وہاں بھی ڈیم بنے ہوئے تھے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی کو اکٹھا کیا جا سکے۔
یہ ترکی کا پہلا امپریشن تھا کہ یہاں کی حکومتیں اپنی عوام کے لئے کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے جو اسلام پسند سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کے نام نہاد اسلام پسند سیاست دانوں نے سوائے منفی ذہنیت پھیلانے کے اور قوم کو احتجاجی نفسیات میں مبتلا کرنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ انہیں اگر کہیں حکومت بھی نصیب ہوئی ہے تو انہوں نے عوام کے اصل مسائل سے پہلو تہی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عوام میں کوئی جڑیں موجود نہیں ہیں۔
ترکی کے اسلام پسند اس معاملے میں مختلف ہیں۔ انہوں نے عوام کے اصل مسائل جیسے مہنگائی، کرپشن، توانائی اور امن و امان کو اپنا مسئلہ بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی کو زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ترکی میں ڈیموں کی 1200 سے متجاوز ہے۔ ان میں سے 23 بڑے ڈیم ہیں جن کا مقابلہ ہمارے تربیلا اور منگلا ڈیم سے کیا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ترکی نے دریائے فرات پر ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کیا ہے جس کی وجہ سے شام اور عراق سے اس کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں، جہاں پانچ بڑے اور بہت سے چھوٹے دریا بہتے ہیں، ڈیموں کی تعداد سو سے بھی کم ہے جن میں سے بڑے ڈیم صرف دو ہی ہیں۔ ہم بھی ڈیم بنا کر بجلی اور پانی کے مسائل حل کر سکتے ہیں مگر ہماری قوم ایک دوسرے سے ہی مخلص نہیں ہے۔
جہاں ڈیم بنانا ملک کی ترقی کے لئے اچھا ہے وہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ ڈیم ماحولیات کو تباہ نہ کریں۔ اس وجہ سے ڈیم بنانے سے قبل پانی کی ایکو لوجیکل اسٹڈی کی جاتی ہے تاکہ پانی کی مخلوقات کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ ایسا کر کے ہم ان مخلوقات پر نہیں بلکہ خود اپنے آپ پر احسان کرتے ہیں کیونکہ ان جانداروں کی نسلوں کے خاتمے سے انسانی زندگی پر ایسے زہریلے اثرات رونما ہوتے ہیں جس کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالی نے ہر مخلوق کو کسی خاص مقصد سے بنایا ہے۔ ان میں سے ایک مخلوق کا خاتمہ ماحول پر ایسے برے اثرات مرتب کرتا ہے کہ جس سے انسان اور دیگر جاندار بیماریوں اور وباؤں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ہم ماحولیات سے متعلق شعور پیدا کریں اور اس طرح قرآن مجید کے حکم کے مطابق خود کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔
اب ہم کافی سرسبز علاقے پر پرواز کر رہے تھے۔ یہاں پہاڑوں اور اونچے نیچے میدانوں کا سلسلہ جاری تھا۔ کہیں کہیں یہ میدان سبز کی بجائے بھورے رنگ کے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ یقیناً وہ کھیت تھے جن سے فصل اتار لی گئی ہو گی۔
اب ہم بحیرہ مرمرہ کے اوپر پرواز کر رہے تھے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ بحیرہ روم، آگین سی کی شکل میں تنگ سمندر میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ سمندر شمال میں تنگ ہوتا چلا جاتا ہے اور آبنائے چناقی قلعہ کے پاس جا کر بالکل تنگ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ یک لخت ایک بہت بڑی جھیل کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو بحیرہ مرمرہ کہلاتی ہے۔
نیچے برسا کے گرد و نواح کے نہایت ہی سرسبز پہاڑ نظر آ رہے تھے۔ یہاں عجیب بات یہ تھی کہ سمندر اور سبزہ بیک وقت موجود تھا۔ ایک طرف نیلا سمندر اور دوسری طرف سرسبز پہاڑ۔ یہ پہاڑ عین ساحل پر واقع تھے۔ میرا تجربہ ہے کہ سمندر خشکی کے ساتھ ملاپ سے ہی خوبصورت لگتا ہے ورنہ اس کی یکسانیت سے انسان بور ہو جاتا ہے۔ بحیرہ مرمرہ کے اوپر سے گزر کر جہاز استنبول کے ایئر پورٹ کی طرف جا رہا تھا۔
استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے۔ آبنائے باسفورس کے مشرقی جانب ایشیا اور مغربی جانب یورپ ہے۔ شہر دونوں جانب آباد ہے اور دو بڑے پل ان دونوں حصوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ ایئر پورٹ یورپی حصے میں ہے۔
جہاز کے چیف پائلٹ نے غالباً اپنے اسسٹنٹ کو تربیت دینے کے لئے لینڈنگ کرنے کا کہا تھا۔ ان حضرت نے کافی بری لینڈنگ کا مظاہرہ کیا اور جہاز کے پہیوں نے ٹھک کر کے جھٹکے سے زمین کو چھو لیا۔ جہاز میں موجود ترکوں نے پر جوش انداز میں تالیاں بجا کر وطن پہنچنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان میں وہ لوگ شامل تھے جو کافی عرصے بعد اپنے وطن واپس پہنچے تھے۔ کچھ ایسی ہی خوشی کا اظہار واپسی کے سفر میں سعودیوں نے جدہ کی لینڈنگ کے وقت کیا تھا مگر ان کا اسٹائل کافی مہذب تھا۔
جہاز ٹنل پر جا لگا۔ ہم لوگ یہاں سے نکل کر امیگریشن کاؤنٹر کی جانب بڑھے۔ اتنے میں ایک با حجاب خاتون تیزی سے ہماری جانب آئیں اور عربی میں کہنے لگیں، "سعودی حضرات امیگریشن سے پہلے ویزا کاؤنٹر سے ویزا لے لیں۔" سعودی شہریوں کے لئے ایئر پورٹ پر ہی ویزا کی سہولت موجود تھی۔ ہم لوگ امیگریشن کاؤنٹر کی جانب بڑھے۔ یہاں کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔ اس وقت بہت سی فلائٹس اتری تھیں جس کی وجہ سے امیگریشن کی قطار بہت طویل تھی۔ یہ قطار آخر میں جا کر پندرہ بیس کاؤنٹرز پر ختم ہو رہی تھی۔ امیگریشن آفیسرز تیزی سے مہریں لگا کر لوگوں کو فارغ کر رہے تھے جس کے باعث قطار تیزی سے کھسک رہی تھی۔
قطار میں زیادہ تر لوگ یورپین تھے۔ ان میں سے پاکستانی صرف ہم ہی تھے۔ سابقہ تجربے کے باعث میرا خیال یہ تھا کہ جیسے ہی ہم امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچیں گے، ہمارے سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی امیگریشن آفیسر ہمیں کوئی نامی گرامی دہشت گرد یا اسمگلر سمجھتے ہوئے علیحدہ کمرے کی طرف بھیج دے گا۔ وہاں ترکش امیگریشن اور انٹیلی جنس کا عملہ ہم سے طویل تفتیش کرے گا اور مطمئن ہونے کے بعد ہماری جان چھوڑے گا۔ ہمارے سامان کی باریک بینی سے تلاشی لی جائے گی اور ہمارے جسم کے ریشے ریشے کو جدید مشینوں کی مدد سے چیک کیا جائے گا۔
میں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنے ذہن میں طویل منصوبہ بندی کر لی۔ اگر انہوں نے یہ سوال کیا تو اس کا جواب یہ ہو گا۔ اگر وہ پوچھا تو اس طرح جواب دوں گا۔ میں نے بیس پچیس سوالات کے ممکنہ جوابات تیار کر لیے۔ میں نے سوچا کہ اگر انہوں نے ترکی آمد کا مقصد پوچھا تو کہوں گا کہ ترکی کے تاریخی مقامات پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس طرح شاید ان پر رعب پڑے اور وہ متاثر ہو کر جلدی جان چھوڑ دیں۔ اس خیال کا اظہار میں نے اپنی اہلیہ سے کیا تو وہ فوراً بولیں: "یہ غضب نہ کیجیے گا۔ آپ کسی طرف سے بھی کوئی مصنف یا محقق دکھائی نہیں دیتے۔ "
انہوں نے میری شخصیت کا بے رحمانہ تجزیہ شروع کر دیا، "محققین کی تین نشانیاں ہیں: پہلی یہ کہ اس کی آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک ہونی چاہیے۔ وہ آپ لگاتے نہیں۔ دوسری نشانی یہ کہ محقق کو آدھے سر سے گنجا ہونا ضروری ہے۔ یا پھر کم از کم کنپٹیوں کے بال سفید ہونا ضروری ہے۔ ابھی آپ کے بال جھڑنا شروع نہیں ہوئے اور نہ ہی سفید ہوئے ہیں۔ تیسری نشانی یہ کہ محقق کی توند کا باہر نکلا ہوا ہونا ضروری ہے جس کا ڈایا میٹر کم از کم 48 انچ ہو۔ آپ کی اچھی بھلی توند نکلی ہوئی تھی جسے آپ نے اسکواش کھیل کھیل کر اور فاقے کر کر کے اندر کر لیا۔ اب اگر آپ ایسا کوئی دعوی کریں گے تو امیگریشن والے ہمیں مشکوک سمجھیں گے۔ "
اس تجزیے نے مجھے کافی حد تک قائل کر لیا تھا اور ایسا کوئی دعوی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔حقیقت یہی ہے کہ انسان کو خود کو صرف اور صرف طالب علم سمجھنا چاہیے۔ جب کوئی طالب علم خود کو محقق، مدقق، اسکالر، عالم اور اس طرح کے بھاری بھرکم القابات سے مزین کرنے لگتا ہے تو ابتدا میں اس کی گردن اکڑنے لگتی ہے۔ اس کے بعد وہ دوسروں کو جاہل سمجھ کر انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کے بعد اس کا علم اسے جاہل بنا دیتا ہے۔ یہ لاعلمی والی جہالت نہیں ہوتی بلکہ رویے کی جہالت ہوتی ہے جو انسان کو سرکش بنا دیتی ہے۔ دور جاہلیت کے ایک شاعر عمرو بن کلثوم کے بقول
الا لا يَجهَلنَ أحَدٌ علَينَا..... فنَجهَلُ فَوقَ جَهلِ الْجَاهِلِينَا
خبردار! کوئی ہمارے خلاف جہالت کا اظہار نہ کرے کہ ہم بھی تمام جاہلوں سے بڑھ کر جہالت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
ایسا جاہل واقفیت کے باوجود متکبرانہ رویے کے باعث کسی کی بات نہیں سنتا۔ خود کو ہمیشہ حق پر سمجھتا ہے اور اپنے مخالف کو کافر، فاسق اور فاجر کا خطاب دیتا ہے۔ یہی وہ جہالت پر مبنی رویہ ہے جس کے حاملین سے اگر سامنا ہو تو الجھنے کی بجائے "قَالُوا سَلاماً" کہہ کر رخصت ہو جانے کی ہدایت قرآن مجید نے کی ہے۔ یہ علم بڑی عجیب چیز ہے۔ اس کی طلب میں رہو تو یہ اپنے پیچھے لگا کر انسان کو خدا کی بادشاہی یعنی جنت میں داخل کر دیتا ہے اور اگر اپنے تئیں اس کے علم بردار بن جاؤ تو یہ جہنم کی گہرائیوں میں جا گراتا ہے۔
امیگریشن والوں کو مطمئن کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہم کاؤنٹر پر جا پہنچے۔ یہاں پہنچ کر میری ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی کیونکہ امیگریشن آفیسر نے فٹا فٹ مہریں لگا کر ہمیں مسکرا کر دیکھا اور ویلکم کیا۔ امیگریشن سے جلدی جان چھوٹ جانے کی وجہ سے مجھے کافی مایوسی ہوئی کیونکہ میں دوسرے سفرنامہ نگاروں کی طرح قارئین کو اس کی الم ناک داستان سنانے سے محروم ہو گیا تھا۔
اب بیلٹ سے سامان اٹھانے کا مرحلہ تھا۔ لاؤنج ہر قومیت کے لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ترکی ایک ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن ہے۔ یہاں یورپ، امریکہ اور مشرق وسطی سے کثیر تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ یہ سیاح اس ملک کے ہوٹلوں میں رہتے ہیں جس سے ہوٹل کے مالکان، اسٹاف، ویٹر اور صفائی کرنے والوں کا روزگار چلتا ہے۔ یہی سیاح کرائے پر گاڑیاں اور ٹیکسیاں لیتے ہیں تو ان کی روزی روٹی کا بندوبست ہوتا ہے۔ تاریخی مقامات پر یہی سیاح ترکی کی حکومت کو فیس ادا کرتے ہیں جس سے ان کے ملک کی ترقی کے لئے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاحوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
سیاحت کو فروغ دینا یقیناً ملک کی معیشت کے لئے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو روزگار نصیب ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنے قدرتی حسن، تاریخی مقامات اور کلچرل کشش کو پوری دنیا میں مارکیٹ کرتا ہے۔
تھائی لینڈ نے سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ایک عجیب طریقہ اختیار کیا۔ ان کے بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ ہر گھر اپنی ایک لڑکی کو جسم فروشی کے لئے وقف کر دے تاکہ سیاح تھائی لینڈ کا رخ کریں۔ یہاں کے لوگ بادشاہ کو دیوتا سمجھ کر اسے پوجتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو کیا، کئی لڑکیوں بلکہ لڑکوں تک کو اس مذموم مقصد کے لئے وقف کر دیا۔
تھائی لینڈ میں قدرتی حسن اور تاریخی مقامات کی سیاحت کی بجائے پوری دنیا سے جنسی مریض آنے لگے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ ایڈز اور دیگر بیماریاں لے کر آئے۔ تھائی قوم جو دنیا میں ایک محنتی قوم سمجھی جاتی تھی، جنسی مریضوں کی غلام بن کر رہ گئی جس کے نتیجے میں آج یہ ایڈز کا شکار ملک ہے، ان کا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے اور پورا معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔ حال ہی میں دبئی کو سیکس ٹورازم کے لئے مارکیٹ کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب دبئی ایک بہت بڑے قحبہ خانے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اگر یہاں کے باشندوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اس ملک کا انجام بھی تھائی لینڈ جیسا ہی ہو گا۔
میں سامان والی ٹرالی لینے گیا تو عجیب صورت حال پیش آئی۔ ٹرالیاں ایک زنجیر کے ذریعے جکڑی ہوئی تھیں اور یہ زنجیر ہر ٹرالی پر موجود ایک آٹو میٹک تالے سے گزر رہی تھی۔ یہاں کچھ یورپی سیاح سکے ڈال کر ٹرالی حاصل کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ ٹرالی کے لئے ایک لیرا (اس وقت کے پچاس پاکستانی روپے ) کا سکہ ٹرالی کے تالے میں ڈالنا ضروری ہے۔ یہ ترک تو بڑے کاروباری نکلے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں یہ سہولت بلا معاوضہ ہوا کرتی ہے لیکن یہاں اس کا بھی کرایہ لیا جا رہا تھا۔
قریب موجود ایک کاؤنٹر سے پانچ لیرے کے نوٹ کے بدلے سکے حاصل کیے۔ مجھے خطرہ لگا رہا کہ اس معاملے میں بھی وہ کاروباری ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ لیرے کے بدلے چار لیرے دے دیں گے مگر انہوں نے پورے پانچ ہی دیے۔ ٹرالی لے کر ہم نے بیلٹ سے اپنا بیگ اٹھایا۔ اب امیگریشن کاؤنٹر سامنے تھا۔ یہاں بھی حیرت انگیز طور پر انہوں نے کوئی تعرض نہ کیا اور ویلکم ٹو ترکی کہہ کر ہمیں باہر جانے کا اشارہ کیا۔ ہم ایئر پورٹ سے باہر آ گئے۔
باہر نکل کر ہم رینٹ اے کار کے دفاتر تلاش کرنے لگے۔ یہاں اسی قسم کے ایجنٹ گھوم رہے تھے جو سیاحوں کو تاڑ کر انہیں خدمات حاصل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب ہمیں "یورو پارک" کے دفتر میں لے آئے۔ یہاں موجود صاحب بڑی صاف انگریزی بول رہے تھے۔ انہوں نے مناسب ریٹ پر جدید ماڈل کی ایک فی ایٹ کار کی پیش کش کی۔ ہمارے ہاں تو فی ایٹ کے ٹریکٹر ہی مشہور ہیں مگر یہاں کاریں بھی چلتی ہیں۔
کار کے کاغذات لے کر ہم ایئر پورٹ پارکنگ میں پہنچے۔ یہاں کمپنی کے اسٹاف نے کار کی چابیاں ہمارے حوالے کیں۔ یہ ایک ڈیزل کار تھی۔ یہ ہمارے لئے بہت بہتر تھا کیونکہ ترکی میں پیٹرول دنیا میں شاید سب سے زیادہ مہنگا ہے۔ ڈیزل بھی بہت مہنگا ہے مگر پیٹرول سے کم۔ ان دنوں پیٹرول کی قیمت 3.60 لیرا (175 روپے ) اور ڈیزل کی 2.62 لیرا (125 روپے ) فی لیٹر تھی۔
گاڑی 2009 ماڈل کی تھی اور صرف 9000 کلومیٹر چلی ہوئی تھی مگر اس کے باوجود اس میں بیٹھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم کسی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئے ہوں۔ ڈیزل اور پیٹرول کار میں یہی فرق ہوا کرتا ہے۔ سعودی عرب کی طرح ترکی میں بھی لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہی تھی۔ اس وجہ سے اسٹیرنگ الٹے ہاتھ پر تھا مگر گاڑی مینول گیئر کی تھی۔
مجھے سعودی عرب میں آٹو میٹک گاڑ ی چلانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ مینول گاڑی آخری مرتبہ پاکستان میں چلائی تھی جہاں اسٹیرنگ دائیں جانب ہوتا ہے۔ چنانچہ میں کلچ دبا کر بائیں ہاتھ سے گیئر تلاش کرنے لگا۔ گیئر کی بجائے میرے ہاتھ میں دروازے کا ہینڈل آیا جسے گیئر سمجھ کر آگے پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اب یاد آیا کہ یہاں گیئر دائیں ہاتھ سے لگانا پڑے گا۔ اس گاڑی کے پیڈل بھی کچھ عجیب سے تھے۔ ریس، بریک اور کلچ میں فاصلہ بہت ہی کم تھا اور ایک ہی پاؤں سے تینوں کو دبایا جا سکتا تھا۔ اس کا مقصد غالباً یہ تھا کہ کلچ کے بائیں جانب پاؤں رکھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی جو طویل سفر میں کام آئی۔ پارکنگ فیس کمپنی نے ادا کی ہوئی تھی۔
باہر نکل کر میں نے ریس پر پاؤں رکھا مگر گاڑی کی پک اپ کچھ اچھی نہ تھی۔ سعودی عرب میں تو پاؤں کا ذرا سا دباؤ ملنے پر گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگتی تھی مگر یہاں عجیب ہی معاملہ تھا۔ ڈیزل کی بجائے یہ سی این جی گاڑی لگ رہی تھی۔ میرے ایک دوست سی این جی گاڑی کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پٹرول گاڑی ایک ارنے بھینسے کی مانند ہے۔ سی این جی کٹ لگوانے سے یہ بھینسا خصی ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس ڈیزل گاڑی کا بھی تھا۔
پارکنگ سے باہر نکلے تو استنبول کا پہلا امپریشن بہت ہی اچھا تھا۔ نہایت ہی صاف ستھرا شہر تھا۔ کھلی کھلی سڑکیں اور گھنا سبزہ۔ میں گوگل ارتھ پر کسی حد تک استنبول شہر کا مطالعہ کر چکا تھا۔ اس وجہ سے سڑکوں کا کچھ اندازہ تھا۔ باہر نکلتے ہی حسب عادت میں نے پہلی غلطی کی اور ایک غلط موڑ کاٹ لیا۔ غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب ہم ایک رہائشی علاقے میں داخل ہو گئے۔ یہاں چند دکانیں بھی بنی ہوئی تھیں۔ اس غلطی کا فائدہ یہ ہوا ان دکانوں سے ہم نے پانی، برگر اور آئس کریم خرید لی۔
استنبول کا ماحول کافی مغرب زدہ لگ رہا تھا۔ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں برگر میں بھی خنزیر کا گوشت نہ ہو۔ اس خیال سے ہی میرا جی متلانے لگا۔ میں نے برگر والے صاحب سے پوچھا، "حلال؟" وہ یک دم سنجیدہ ہو گئے، ان کے چہرے پر برا ماننے کے تاثرات پیدا ہوئے اور بولے، "حلال!!!" میں نے ان سے پوچھا، "انقرہ یولو؟" ترکی زبان میں "یولو" سڑک کو کہتے ہیں۔ انہوں نے اشاروں کی مدد سے مجھے راستہ سمجھایا۔
اب ہم استنبول انقرہ موٹر وے کی طرف جا رہے تھے جس پر "بولو" شہر واقع تھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ استنبول کو آخر میں دیکھیں گے۔ کچھ دور جا کر ایک سگنل تھا۔ ساتھ والی گاڑی میں ایک صاحب ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ اسٹیرنگ پر رکھے ہوئے اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے۔
استنبول میں دینی شعائر نظر نہیں آ رہے تھے۔ ہمارے پاکستان یا سعودی عرب میں جگہ جگہ سبحان اللہ، استغفر اللہ لکھا نظر آتا ہے۔ یہاں ایسا کچھ نہ تھا البتہ ہر چند قدم کے فاصلے پر ایک مسجد نظر آ رہی تھی۔ ان مساجد کا آرکی ٹیکچر ایک جیسا تھا۔ ایک بڑا گنبد اور اس کے ارد گرد متعدد چھوٹے گنبد۔ غالباً یہ عثمانی دور کے مشہور آرکی ٹیکٹ "سنان" کی ایجاد تھا۔ اس اسٹائل کا مقصد یہ تھا کہ امام یا خطیب کی آواز گنبدوں کے اندر سفر کرتی دور تک چلی جائے۔ جب لاؤڈ اسپیکر ایجاد نہیں ہوا تھا، اس وقت مسلمان انجینئروں نے اس انداز میں آواز دور کے سامعین تک پہنچانے کا اہتمام کیا تھا جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
استنبول شہر، جدید اور قدیم کا ایک خوبصورت امتزاج نظر آ رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ ہمارے مذہبی راہنما جدیدیت سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ سوائے چند ایک چیزوں، جیسے بے حیائی وغیرہ کے، دور جدید کی عمارت عین اسلام کے اصولوں پر استوار ہے۔ مذہبی آزادی ہو یا ویلفیئر اسٹیٹ، تعلیم کا فروغ ہو یا اقلیتوں کے حقوق، صفائی و ستھرائی ہو یا جمہوریت، ہر پہلو سے دور جدید اسلام کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ چند برائیاں دور جدید میں عام ہوئی ہیں مگر قدیم ادوار میں بھی تو ان سے بھی بڑی برائیاں موجود رہی ہیں۔ اگر بے حیائی اور سود موجودہ دور کے فتنے ہیں تو مذہبی جبر، آمرانہ اقتدار اور جاگیرداری نظام قدیم دور کے فتنے رہے ہیں۔
میری سمجھ میں یہ آیا کہ قدیم دور میں اہل مذہب کو جو اقتدار حاصل تھا، وہ دور جدید نے ان سے چھین لیا ہے۔ ہمارے اہل مذہب اپنی کتابوں میں ایک طرف یہ پڑھتے ہیں کہ بادشاہ، اہل علم کی پالکی کو کندھا دیا کرتے تھے اور شہزادے ان کی جوتیاں سیدھی کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف وہ یہ دیکھتے ہیں کہ جدید معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے تو وہ اس دور میں خود کو ان فٹ محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں اہل مذہب کی اکثریت دین اسلام کو اس کے اصلی ماخذوں سے نہیں بلکہ قرون وسطی کے مخصوص تنگ نظر ماحول میں لکھی گئی کتابوں کے توسط سے سمجھتی ہے، اس وجہ سے انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ دور جدید میں کوئی ایسا حادثہ پیش آیا ہے جس نے انسان کو اس کی اصل راہ سے بھٹکا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جدید دور کی ہر اچھی چیز سے بھی نفرت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر ہم دین اسلام کے اصل ماخذوں یعنی قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت طیبہ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دور جدید نے قدیم دور کی بہت بڑی بڑی برائیوں جیسے مذہبی جبر اور نفسیاتی غلامی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ قرون وسطی کے انسان کو اس بات پر مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ ریاست کے مذہب کو قبول کرے۔ ریاست کے مذہب یا فرقے سے ذرا سا اختلاف کرنے پر انسان کو زنجیروں میں قید رکھا جاتا تھا، اس کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاتے تھے، اسے زندہ آگ میں جلا دیا جاتا تھا۔ الحمد للہ موجودہ دور میں یہ فتنہ بڑی حد تک ختم ہو چکا ہے۔ قرون وسطی میں مذہبی راہنما طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے انسانوں کو اپنا نفسیاتی غلام بنا لیا کرتے تھے۔ انفارمیشن ایج کے اس دور میں ان کے لئے ایسا کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔
موجودہ دور میں بہت سے دانشور عیسائیت کی طرح اسلام کی اصلاح (Reformation) کرنے کی ضرورت کو بیان کرتے ہیں تاکہ اسے دور جدید کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی کسی اصلاح یا ریفارمیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ دور جدید درجہ بدرجہ ترقی کرتا ہوا خود ہی اسلام سے ہم آہنگ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ریفارمیشن کی اصل ضرورت ہمارے مذہبی تصورات میں ہے جنہیں غلط طور پر ہم نے اسلام کا نام دے رکھا ہے۔ اسلام کو نہیں بلکہ مسلمانوں کے طرز فکر کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔
اب ہم انقرہ موٹر وے کی جانب جا رہے تھے۔ گوگل ارتھ سے دیکھے گئے نقشے کے مطابق اب تک ہمیں آبنائے باسفورس کے پل تک پہنچ جانا چاہیے تھا مگر ابھی دور دور تک اس کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہمیں خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں ہم غلط سمت میں تو نہیں جا رہے۔ ابھی ہم با آواز بلند یہ سوچ ہی رہے تھے کہ لندن برج کی طرز کے دو طویل ٹاورز نظر آنے لگے۔ ان ٹاورز کے درمیان آبنائے باسفورس کا پل نظر آ رہا تھا۔ ان ٹاورز سے کو ملانے والے لوہے کے رسے پل کو تھامے ہوئے تھے۔
کہنے کو تو یہ پل محض ایک شہر کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے ملاتا ہے مگر درحقیقت یہ پل ایشیا کو یورپ سے ملا رہا تھا۔ ہم اس وقت یورپ میں تھے۔ اس پل کو پار کر کے ہم ایشیا میں داخل ہو جاتے۔ اس پل کا نام "سلطان محمد فاتح برج" رکھا گیا تھا۔
جیسے ہی ہم پل پر پہنچے ایک عجیب منظر ہمارے سامنے تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم ایک بہت بڑے پہاڑی دریا کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ دونوں جانب سبز ے سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان نیلے رنگ کا ایک بہت بڑا دریا گزر رہا تھا۔ یہ دریا، عام پہاڑی دریاؤں کی طرح پر شور نہیں تھا بلکہ اس کا پانی نہایت ہی پرسکون تھا۔ پل کو اتنی بلندی پر بنایا گیا تھا کہ اس کے نیچے سے بحری جہاز بڑے آرام سے گزر سکتے تھے۔ میری اہلیہ نے اس خوبصورت منظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کی کوشش کی مگر کیمرے میں کسی خرابی کے باعث اچھی تصویر نہ آ سکی۔ اس دن ہمارے ساتھ یہی ہوا۔ اس وجہ سے یہاں ہم انٹرنیٹ سے لی گئی تصاویر پیش کر رہے ہیں۔
آبنائے باسفورس اور سلطان محمد فاتح برج (بشکریہ www.panoramio.com )
پل پار کرتے ہی ٹول پلازہ آ گیا۔ یہاں ٹول ٹیکس کی ادائیگی کے لئے آٹو میٹک کیمرے نصب کیے گئے تھے جو خود بخود گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے ٹول ٹیکس کو مالک کے اکاؤنٹ سے ایڈجسٹ کر لیتے۔ اس کی رقم پہلے ہی گاڑی کے کرایے میں شامل کر لی گئی تھی۔
اب ہم باقاعدہ موٹر وے پر سفر کر رہے تھے۔ ترکی میں صرف دو موٹر وے ہیں۔ ایک استنبول اور انقرہ کے درمیان اور دوسری جنوب میں غازی انٹپ اور انطالیہ کے درمیان۔ اس موٹر وے کا معیار اچھا تھا مگر اس کے مقابلے میں ہماری موٹر وے کافی بہتر ہے۔ سڑک کے دونوں کناروں پر ایمرجنسی لین بہت ہی تنگ تھی جس کی وجہ سے تنگی داماں کا احساس ہو رہا تھا۔ سعودی عرب کی عام سڑکوں پر بھی تقریباً ایک لین کے برابر ایمرجنسی لین چھوڑی جاتی ہے جس کی وجہ سے کھلے پن کا احساس ہوتا ہے۔ موٹر وے پر رات کی ڈرائیونگ میں مدد کرنے والے اسٹڈ نصب نہیں کیے گئے تھے۔
ترکوں کی ڈرائیونگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اچھے ڈرائیور نہیں ہوتے۔ یہ تبصرہ اہل مغرب کے معیار کے مطابق ہے ورنہ پاکستان اور سعودی عرب کی نسبت یہاں ڈرائیونگ کا معیار کافی بہتر تھا۔ گاڑی میں ڈیزل اب ختم ہونے کے قریب تھا مگر دور دور تک کسی پٹرول پمپ کے آثار نظر نہ آ رہے تھے۔ اگر کہیں پر پٹرول اسٹیشن موجود بھی تھا تو وہ موٹر وے سے ہٹ کر سروس لین پر تھا۔ استنبول سے باہر نکلتے ہی ہمیں ایک ریسٹ ایریا نظر آیا۔ میں نے گاڑی یہاں موڑ لی۔ ٹنکی فل کروانے پر ایک سو ایک لیرا خرچ ہوئے۔ یہاں صاف ستھرے باتھ روم بھی بنے ہوئے تھے۔ قریب ہی لکڑی کی بنی ہوئی مسجد تھی جس میں مرد و خواتین کے لئے علیحدہ علیحدہ کمرے تھے۔
استنبول انقرہ موٹر وے (بشکریہ www.panoramio.com )
خلیج ازمت (بشکریہ www.panoramio.com )
وضو کر کے نماز ادا کرنے کے بعد ہم آگے چلنے لگے تو ماریہ نے چپس کی فرمائش کر دی۔میں نے یہاں موجود مارکیٹ سے چپس کا ایک بڑا پیکٹ خریدا۔ کاؤنٹر پر موجود ادھیڑ عمر خاتون سے اس کی قیمت پوچھی۔ کہنے لگیں، "تین لیرا۔" میں نے پانچ لیرا کا نوٹ دیا۔ پھر بولیں، "آپ کہاں سے آئے ہیں؟ " میں نے کہا، "پاکستان سے۔ " انہوں نے تین کی بجائے دو لیرا کاٹ کر تین لیرا مجھے واپس کر دیے۔
اب ہم دوبارہ موٹر وے پر سفر کر رہے تھے۔ "گبزے " اور "تاوشانسل " کے شہروں سے گزر کر ہم اب ازمت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اچانک ہی ایک نہایت دلفریب منظر ہمارے سامنے آ گیا۔ موٹر وے اونچے نیچے پہاڑوں سے گزر رہی تھی۔ یہ پہاڑ گھنے سبزے سے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ سمندر کا کنارہ تھا۔ یہ "خلیج ازمت "تھی جو کہ بحیرہ مرمرہ کی مشرقی شاخ پر مشتمل تھی۔ خلیج کا دوسرا کنارہ بھی ہمیں نظر آ رہا تھا۔ سمندر کے بیچوں بیچ بہت سے بحری جہازوں کے مستول نمایاں تھے۔
خلیج ازمت کے آخری کنارے پر "ازمت" شہر تھا۔ سڑک اور سمندر کے بیچ میں شہر نظر آ رہا تھا۔ مکانوں کی سرخ مخروطی چھتیں نیلے پانی اور زرد روشنی کے بیک گراؤنڈ میں نہایت بھلی لگ رہی تھیں۔
یہاں سے ایک سڑک "برسا "اور "ازمیر "کی جانب جا رہی تھی۔ اس سڑک پر ہمیں واپسی پر سفر کرنا تھا۔ ازمت سے آگے نکلے تو تھوڑی دیر میں "اسپانزا" کا شہر آ گیا۔شہر کے ساتھ ہی ایک نہایت ہی خوبصورت جھیل ہماری منتظر تھی۔ یہ جھیل اسپانزا تھی۔ پورے کا پورا ترکی نہایت ہی دلفریب قدرتی اور مصنوعی جھیلوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس وقت تو نہیں البتہ واپسی کے سفر میں ہم نے اس جھیل پر کچھ وقت گزارا تھا۔
جھیل اسپانزا
اسپانزا سے آگے "ڈوزجے " کا شہر آیا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ یہاں کیتھولک چرچ سے متعلق کچھ کھنڈرات موجود ہیں جنہیں "پروسیا اینڈ ہائپیئم" کہا جاتا ہے۔ یہ ایک صوبائی دار الحکومت ہے۔ ترکی میں صوبے بہت چھوٹے چھوٹے ہیں۔ ان کا ایک صوبہ کم و بیش ہمارے ایک ضلع کے برابر ہے۔ ہر پچاس کلومیٹر کے بعد نئے صوبے کی حدود شروع ہو رہی تھیں اور ہم تین گھنٹے میں پانچ چھ صوبے "پھڑکا" چکے تھے۔
سامنے اونچے پہاڑ نظر آ رہے تھے جن پر سبزہ بہت گھنا تھا۔ سردیوں میں یہ پورا علاقہ برف سے ڈھک جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم ان پہاڑوں کے دامن میں جا پہنچے۔ یہاں موٹر وے ایک سرنگ میں داخل ہو رہی تھی۔ بعد میں ہمیں اندازہ ہوا کہ ترکی میں سڑکوں پر بے شمار سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ سرنگ کے اندر لائٹیں لگی ہوئی تھیں اور اسپیڈ لمٹ 120 سے کم کر کے 80 کر دی گئی تھی۔
سرنگ شیطان کی آنت کی طرح کافی طویل ثابت ہوئی۔ ساڑھے چار کلومیٹر طویل سرنگ پار کر کے ہم پہاڑوں کی دوسری جانب پہنچے تو "بولو" شہر کے آثار نظر آئے۔ ہم دوپہر دو بجے استنبول پہنچے تھے۔ اس کے بعد 300 کلومیٹر کا کافی طویل سفر طے کر چکے تھے۔ اس وقت شام کے آٹھ بج رہے تھے مگر سورج ابھی سوا نیزے پر موجود تھا۔ یہ علاقہ 40 درجے عرض بلد پر واقع ہے۔ جیسے جیسے شمال کی طرف چلا جائے، گرمیوں میں دن اور سردیوں میں رات طویل ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی کے مہینے میں یہاں شام ساڑھے آٹھ بجے سورج غروب ہوتا ہے اور صبح چار بجے پھر طلوع ہو جاتا ہے۔
موٹر وے سے نکل کر ہم شہر کی جانب چلے۔ وسیع وادی میں پھیلا ہوئے شہر کی عمارتوں کی سرخ چھتیں پیلے اور سبز بیک گراؤنڈ میں عجیب سا منظر پیش کر رہی تھیں۔ بعد میں ہمیں اندازہ ہوا کہ پورے ترکی میں عمارتوں کی چھتوں کو مخروطی بنایا جاتا ہے اور ان پر سرخ ٹائلیں لگا دی جاتی ہیں۔ اس طریقے سے پورا شہر سرخ سرخ محسوس ہوتا ہے۔
شہر میں داخل ہو کر میں نے ایک صاحب سے ہوٹل کا پوچھا۔ ترکی میں ہوٹل کو "اوٹل" کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک جانب اشارہ کر دیا اور اشاروں ہی اشاروں میں یہ بھی بتا دیا کہ یہ ون وے سڑک تھی۔ ہمیں گھوم کر اس سڑک پر پہنچنا تھا۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ گاڑی ایک جگہ پارک کر کے پیدل ہی ہوٹل کی تلاش کی جائے۔ جہاں میں نے گاڑی پارک کی، وہاں ایک دکان تھی جس پر "Terzi" لکھا نظر آ رہا تھا۔ یہ واقعتاً درزی ہی کی دکان تھی کیونکہ ترکی زبان میں 'T' کو 'د' کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔
ترکوں کی عجیب عادت تھی۔ اگر ان سے انگریزی میں کسی جگہ کا پوچھا جائے تو وہ انداز سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حضرت وہاں جانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ترکی زبان میں ایک طویل تقریر شروع کر دیتے ہیں اور تقریباً رقص کرتے ہوئے اشاراتی زبان میں اس خوبی سے راستہ سمجھاتے ہیں کہ راستہ واقعی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ ان کی اس خوبی کے باعث ہم راستہ پوچھتے ایک ہوٹل میں جا پہنچے۔ ہوٹل کے منیجر کافی کم گو تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ کسی بات کے جواب میں طویل تقریر کا کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ سوال کے جواب میں مسکرا کر صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیتے۔ ہوٹل کافی معقول تھا۔ میں نے سوچا کہ ابھی وقت ہے، کیوں نہ ایک دو اور ہوٹل دیکھ لیے جائیں۔
قریب ہی ایک اور ہوٹل تھا جس پر "کشمیر ہوٹل" کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ یہ نسبتاً مہنگا تھا اور معیار کے اعتبار سے پہلے ہوٹل جیسا ہی تھا۔ میں نے ہوٹل کے منیجر سے وجہ تسمیہ پوچھی۔ وہ میری بات نہ سمجھے اور بولے، "کشمیر انڈیا اور پاکستان میں ہے مگر یہ کشمیر ہوٹل ہے۔ "بعد میں تجربہ ہوا کہ ترکی میں بہت ہی کم لوگ اچھی انگریزی جانتے ہیں۔ ہم نے پہلے والے ہوٹل میں آ کر کمرہ لیا۔ سامان رکھا اور شہر گھومنے نکل کھڑے ہوئے۔
ہوٹل ایک پہاڑی پر تھا جس سے سیڑھیاں اتر کر نیچے بازار میں جا رہی تھیں۔ یہ بولو کا اندرون شہر تھا۔ ایک طرف تنگ سی سڑک تھی جس پر گاڑیاں چل رہی تھیں اور دوسری جانب یورپ کے شہروں کی طرح اینٹوں کا وسیع راستہ بنا ہوا تھا۔ شہر کا ماحول بڑی حد تک یورپی تھا۔ مغربی لباس میں ملبوس مرد و خواتین ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ بہت سی با حجاب ترک خواتین بھی تھیں مگر ان کی تعداد کم تھی۔ اس ماحول کی وجہ سے ہم بالکل اسی طرح کی گھٹن محسوس کر رہے تھے جیسے کوئی سیکولر لادین قسم کا اکیلا شخص اس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ غلطی سے مولویوں میں آ پھنسے۔
جس طرح قدیم دور میں شرک ایک عالمی برائی تھی، بالکل اسی طرح بے حیائی موجودہ دور میں ایک عالمی برائی بن چکی ہے۔ ارباب میڈیا نے اپنے لئے جو کردار منتخب کر لیا ہے، اس کے نتیجے میں انہیں نہایت ہی بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دوسری طرف ہمارے اہل مذہب ڈنڈے کے زور پر خواتین کو باپردہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس طریقے سے سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ لوگ ضد میں آ کر دین سے اور دور ہوتے چلے جائیں۔ درست طریقہ یہ ہے کہ بے حیائی کے برائی ہونے کا شعور لوگوں میں پیدا کیا جائے۔ انہیں بتا یا جائے کہ بے حیائی برائی کیوں ہے ؟ یہ انسانیت کے لئے کس طرح سے نقصان دہ ہے ؟ اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے ؟
بے حیائی میں بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں بدکاری عام ہوتی ہے۔ مرد و خواتین اختلاط کے دوران اگر کچھ حدود کا خیال نہ رکھیں تو اس کے نتیجے میں ان کے تعلقات حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ جب یہ تعلقات حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو خاندان کے ادارے کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔
اگر انسان جوان حالت میں کسی درخت سے اگ پڑتے اور جوانی کی حالت ہی میں اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے تو شاید فری سیکس ہی انسان کے لئے بہتر نظام زندگی ہوتا۔ ایک مرد جتنی خواتین سے چاہے، ازدواجی تعلقات قائم کرتا اور روزانہ نت نئے مزوں کو انجوائے کرتا۔ اسی طرح ایک خاتون جتنے چاہے مردوں سے تعلقات قائم کر کے روزانہ زندگی کی نئی جہتوں میں سفر کرتی۔ اس صورت میں کسی خاندان کی ضرورت نہیں تھی۔
اللہ تعالی نے انسان کا لائف سائیکل اس سے بہت مختلف بنایا ہے۔ انسان ایک کمزور بچے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے جسے اگر توجہ نہ ملے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ یہیں سے اسے ایک ماں اور ایک باپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ایک ایسی ہستی درکار ہوتی ہے جو خوراک سے لے کر پیشاب کروانے تک اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کی ایک آواز پر وہ دل کی گہرائیوں سے لبیک کہتی ہوئی آئے اور اسے اپنی گود میں لے کر اپنی مامتا کے جذبات نچھاور کرے۔
اہل مغرب نے ماں کے متبادل کے طور پر ڈے کیئر سنٹر بنا لیے۔ ان کی اپنے ماہرین سماجیات کی تحقیقات گواہ ہے کہ کرائے کی مائیں بچے کو وہ محبت نہیں دے سکتیں جو اس کی نفسیاتی نشوونما کے لئے ضروری ہے۔ بچے کو حقیقی ماں کی محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ صرف ماں بلکہ بچے کو ایک باپ کی ضرورت بھی ہوا کرتی ہے۔ ایسا باپ جو بچے کو اپنی پدرانہ شفقت عطا کرے۔ اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے معاشی دوڑ دھوپ کرے۔ اگر ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری کسی ایک فرد کو سونپ دی جائے تو بچے کی مکمل ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔
مغربی تہذیب کو اپنانے والے ممالک میں سنگل پیرنٹ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق آسٹریلیا میں 20 فیصد بچوں صرف والدہ یا والد کے زیر نگرانی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آسٹریلوی ماہر ڈیوڈ رو کہتے ہیں:
ایسے بچے جو کہ والدین میں سے کسی ایک کے زیر سایہ پروان چڑھ رہے ہوں میں دماغی بیماریوں، خودکشی کرنے یا الکوحل سے متعلق بیماریوں کا شکار ہو جانے کا تناسب ان بچوں کی نسبت دوگنا ہے جن کی تربیت ماں اور باپ دونوں نے مل کر کی ہو۔ سنگل پیرنٹ لڑکیوں میں منشیات کے استعمال کا تناسب تین گنا اور لڑکوں میں یہ تناسب چار گنا ہے۔ سویڈن کے نیشنل بورڈ فار ہیلتھ اینڈ ویلفیئر کی مصنف گونیلا رنگ بیک کے مطابق ان بچوں کی بڑی تعداد غربت کے باعث صحت کے مسائل کا شکار رہتی ہے۔
)http://www.theage.com.au/articles/2003/01/24/1042911549349.html)
امریکی ماہر میک لاناہن کے مطابق ان بچوں کو پوری توجہ نہیں ملتی اور ان کے مالی وسائل بھی کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ طرح طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف بچے ہی کا نہیں ہے۔ انسان جوانی کا طویل عرصہ گزار کر اس دور میں بھی جا پہنچتا ہے جسے قرآن میں أَرْذَلِ الْعُمُرِ کہا گیا ہے۔ جوانی ڈھلنے کے ساتھ ساتھ انسان کو طرح طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ بچہ تو دن بدن بہتری کی طرف گامزن ہوتا ہے لیکن ایک بوڑھے شخص کی حالت ہر روز بگڑتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت بھی اس شخص کو کسی بچے کی طرح توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہل مغرب نے اولڈ ہوم بنا کر اس مسئلے کو بھی حل کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ان اولڈ ہومز میں بوڑھوں کو میڈیکل کی سہولیات، کھیل اور ساتھی تو مل جاتے ہیں مگر ان کی حسرت بھری نگاہیں اپنی اولاد کو تکتی رہتی ہیں جن کے پاس اپنے بوڑھے والدین کے پاس آنے کا وقت نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس اہل مشرق خوش نصیب ہیں کہ انہیں بچپن میں ماں اور باپ دونوں کا پیار ملتا ہے۔ جوانی میں یہ اپنی محبت اپنے والدین اور بچوں پر لٹاتے ہیں۔ جب ان کا بڑھاپا انہیں آ گھیرتا ہے تو پھر یہی اولاد ان کی ہر جسمانی اور نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اہل مشرق کو یہ فائدہ صرف اور صرف خاندانی نظام کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس نظام کو انسان کی بنیادی ضرورت کے طور پر قائم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں بدکاری کو گناہ سے بھی بڑھ کر جرم قرار دیا گیا ہے۔
اگر کسی معاشرے میں بدکاری پھیل جائے تو پھر اس کا براہ راست اثر خاندان پر پڑتا ہے۔ کوئی خاتون یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کا خاوند کسی باہر کی عورت سے تعلقات قائم کرے۔ اسی طرح کوئی مرد بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی بیوی کا کوئی آشنا بھی ہو۔ ایسا ہونے کی صورت میں خاندان ٹوٹ جاتا ہے جس کا فوری نقصان بچوں کو پہنچتا ہے۔ چند سال بعد جب یہ مرد و خواتین بوڑھے ہوتے ہیں تو خاندان کے ٹوٹنے کا یہی نقصان ڈپریشن کی صورت میں لوٹ کر انہی کی طرف آتا ہے اور وہ حسرت زدہ نگاہوں سے اپنی اولاد کو تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔
اللہ تعالی اپنی مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے آسمانی شریعت انسان پر پابندیاں لگانے کے لئے نہیں بلکہ اس کے لاینحل مسائل کو حل کرنے کے لئے دی ہے۔ انسان جب آسمانی شریعت سے منہ موڑ لیتا ہے تو وہ افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ کہیں مغربی ممالک جیسی بے راہ روی جنم لیتی ہے اور کہیں ہمارے پس ماندہ علاقوں کی طرح عورت کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔
اگر قرآن مجید کا جائزہ لیں تو اس معاملے میں اس کی ہدایت بہت ہی واضح ہے۔ قرآن مجید مرد و خواتین کو کسی کام سے نہیں روکتا بلکہ انہیں یہ تلقین کرتا ہے کہ اگر ان کے اختلاط کا موقع پیش آ جائے تو انہیں اپنے لباس اور رویے میں ایک شریف اور با حیا انسان کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں حیا اور حجاب کو صرف خواتین کے ساتھ مخصوص کر لیا گیا ہے۔ مگر قرآن مجید کی نظر میں حیا صرف خواتین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مردوں کے لئے با حیا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ خواتین کے لئے۔ قرآن مجید دونوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی نظر کو با حیا بنا کر رکھیں۔ حیا کا مطلب جھجک نہیں ہے۔ حیا ایک رویے کا نام ہے کہ انسان خود کو ایک شریف اور ذمہ دار شخص سمجھے۔ دوسروں کی بہو بیٹیوں اور شوہروں پر ڈورے ڈالنے کی بجائے اس کی نظر ایک شریف انسان کی سی ہو۔ سیکس سمبل بننے کی بجائے وہ اپنے لباس، رکھ رکھاؤ اور کردار میں پاکیزہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، "اگر تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو جی چاہے کرو۔"
اب فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری اگلی نسلیں سنگل پیرنٹ والدین بنیں اور ہم اپنے بڑھاپے کی حسرتوں میں تنہا ہوں تو بصد شوق مغربی تہذیب کو اختیار کیجیے۔ اگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے تو ہمیں خاندان کے ادارے کو بچانا ہو گا۔ اس کے لئے معاشرے میں بے حیائی اور بدکاری کو پھیلنے سے روکنا ہو گا۔ اسی طرح ہم اپنی آنے والی نسلوں کے بچپن اور بڑھاپے کو خوشگوار بنا سکیں گے۔
یہ عجیب بات تھی کہ ہمیں یہ ماحول مغربی لگ رہا تھا مگر ایک مغربی مصنف کو یہ ماحول مشرقی نظر آتا ہے۔ امریکی سفرنامہ نگار مارک لیپر لکھتے ہیں:
"یہاں کی خواتین کی ایک تہائی تعداد گرم موسم میں بھی اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھتی ہے۔ صرف ایک خاوند ہی اپنی بیوی کے بال دیکھ سکتا ہے۔ وہ اس معاملے میں وہی نقطہ نظر رکھتے ہیں جو ہمارا (عورت کے ) سینے سے متعلق ہے۔ "
ترکی کے خواتین و حضرات کی بڑی تعداد اگرچہ مغربی تہذیب کو اپنا چکی ہے مگر یہ ابھی تک پوری طرح مغربی نہیں ہو سکیں۔ اہل مشرق انہیں مغربی سمجھتے ہیں مگر اہل مغرب انہیں ابھی تک مشرقی ہی قرار دیتے ہیں۔ ترکی کے نوجوانوں کو ہم نے بڑی حد تک با حیا ہی پایا۔ کہیں یہ نہیں دیکھا کہ لڑکے لڑکیوں کو تنگ کر رہے ہوں، سیٹیاں مار رہے ہوں یا ان کے پیچھے پیچھے جا رہے ہوں۔
مشرقی شرم و حیا کی روح ہمارے اندر اس گہرائی میں پیوست ہے کہ کئی عشروں تک میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی اسے مکمل طور پر ختم نہیں کر سکی۔ یہ بات اہل مذہب کے لئے اپنے اندر ایک گہرا سبق لیے ہوئے ہے۔ مذہب کو قانون بنا کر ڈنڈے کے زور پر نافذ کرنے کی بجائے اگر وہ اسے تہذیب بنا کر لوگوں کی روح کی گہرائیوں میں اتار دیں تو اسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے اسلاف نے یہی کیا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
اب سورج غروب ہو چکا تھا۔ اتنے میں مغرب کی اذان کی آواز سنائی دی۔ اس اذان نے اس گھٹن کا خاتمہ کر دیا جو کہ ہم یہاں آ کر محسوس کر رہے تھے۔ اذان کی آواز نہایت ہی مناسب تھی۔ہمارے ہاں تو لاؤڈ اسپیکر کو اتنا تیز کر دیا جاتا ہے کہ اس کی آواز کانوں کو چیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اذان سے ہٹ کر مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کو اتنا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کہ لوگ دین سے بیزار ہو جائیں۔ ارباب مسجد ان احادیث کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جن میں پڑوسی کو ایذا پہنچانے کو کتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مجھے مسجد سے بہت لگاؤ ہے مگر اس کے باوجود میری کوشش ہوتی ہے کہ مسجد سے کچھ دور ہی گھر لیا جائے تاکہ لاؤڈ اسپیکر کے جا بجا استعمال سے نجات مل سکے۔ ہمارے ہاں صرف دین دار ہی نہیں بلکہ دنیا دار حضرات کا بھی یہی حال ہے۔ اگر ان کے ہاں کوئی تقریب ہو تو پھر لاؤڈ اسپیکر میں کان پھاڑ دینے والی موسیقی بجائی جاتی ہے تاکہ کوئی آرام نہ کر سکے۔
سڑک پار کر کے ہم مسجد کی جانب بڑھے۔ یہ ایک قدیم مسجد تھی۔ مسجد کے باہر ایک سبیل لگی ہوئی تھی جس میں پینے کا پانی تھا۔ یہ سبیل مسجد کی تعمیر کے دور کی لگ رہی تھی۔ یہاں ایک طویل بالوں والے صاحب کھڑے تھے۔ میں نے وضو خانے کا پوچھا تو بڑے خوش ہوئے اور میرے ساتھ چل کر وضو خانے کی نشاندہی کی جو کہ تہہ خانے میں تھا۔
میں نیچے پہنچا تو ایک عجیب منظر نگاہوں کے سامنے تھا۔ ایک طرف استنجا کے لئے ٹائلٹ بنے ہوئے تھے اور دوسری جانب وضو کے لئے جگہ تھی۔ ہمارے ہاں عموماً ٹائلٹ کے باہر کچھ جمعدار صاحبان سر پر کپڑا باندھے جھاڑو لے کر بیٹھے ہوتے ہیں اور ہر آنے جانے والے سے پانچ روپے وصول کرتے ہیں۔ یہاں ایک شیشے کا کیبن بنا ہوا تھا اور اس میں کسی جمعدار کی بجائے ایک طرح دار خاتون براجمان تھیں اور کسی میوزیم کی طرح ٹائلٹ جانے کے لئے نصف لیرا کا باقاعدہ ٹکٹ ایشو کر رہی تھیں۔
مجھے چونکہ صرف وضو کرنا تھا اس لئے انہوں نے مجھ سے کوئی رقم وصول نہیں کی۔ مسجد کا وضو خانہ ہماری طرح کا تھا مگر اس میں بیٹھنے کے لئے کافی اونچی نشست تھی۔ یہاں بھی عرب ممالک کی طرح جوتوں سمیت وضو خانے میں لوگ جا رہے تھے۔
اوپر مسجد میں پہنچا تو ایک اور عجیب چیز دیکھی۔ محراب میں امام صاحب نماز پڑھا رہے تھے ا ور ان کے پیچھے دو صفوں میں نمازی تھے۔ مسجد کے پچھلے کونے میں ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا جس میں دو صاحبان اسپیکر کے سامنے کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نائب امام تھے اور دوسرے ان کے ساتھ محض صف بنانے کے لئے کھڑے تھے۔ امام صاحب جب تکبیر کہتے تو یہ اسپیکر میں بلند آواز میں تکبیر کو دوہراتے۔ نماز کے بعد نائب امام صاحب نے دعا کروائی۔ اس قسم کے بعض رواج ہمارے ہاں بھی ہیں جن کا کوئی ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت میں نہیں ملتا۔ نماز ایسا معاملہ ہے جس میں ہمیں نت نئے طریقے ایجاد کرنے کی بجائے خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی پیروی کرنا چاہیے۔
اصل میں جب انسان دین کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس میں کچھ ایسا جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے دین کے اصل احکام کافی نہیں لگتے۔ ایک صاحب نظر نے اس کیفیت کا تجزیہ کچھ یوں کیا ہے :
انسان کے اندر یہ عام کمزوری پائی جاتی ہے کہ جن چیزوں کے ساتھ اس کا تعلق محض عقلی ہی نہیں بلکہ جذباتی بھی ہوتا ہے، ان معاملات میں وہ بسا اوقات غیر متوازن اور غیر معتدل ہو جایا کرتا ہے۔ آدمی اپنے بیوی بچوں سے محبت کرتا ہے تو صرف محبت ہی نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات اس محبت میں وہ ایسا اندھا ہو جاتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ عداوت بھی کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس اندھے پن میں اس کو خدا کے حقوق کا بھی کچھ ہوش نہیں رہ جاتا۔ اگر اسے اپنے قبیلہ یا قوم یا ملک سے محبت ہے تو ان کی عصبیت اس پر بسا اوقات اتنی غالب آ جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے پوری انسانیت کا دشمن بن جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ان کی حمایت میں خود خدا سے بھی لڑنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
یہی چیز مذہب کے دائرہ میں آ کر اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے کیونکہ مذہب کے ساتھ اولاً تو عام لوگوں کا تعلق عقلی کم اور جذباتی زیادہ ہوتا ہے اور اگر عقلی ہوتا بھی ہے تو بھی اس معاملے میں انسان کے جذبات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ عقل کے لئے ان کو ضبط میں رکھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ جام و سنداں کی بازی کھیلنا ہر شخص کے بس کا کام نہیں ہے۔ چنانچہ اس دائرہ کے اندر ایسا بہت ہوتا ہے کہ آدمی کو جس حد پر رک جانا چاہیے، وہاں آ کر وہ نہیں رکتا بلکہ اس کو پھلانگ کر آگے نکل جانا چاہتا ہے۔
اگر ایک شخص اس کا مرشد ہے تو وہ اس کو مرشد ہی کے درجہ پر نہیں رکھے گا بلکہ اس کی خواہش یہ ہو گی کہ وہ کسی طرح اس کو رسالت کے مرتبہ پر فائز کر دے۔ اسی طرح اگر ایک ذات کو خدا نے منصب رسالت سے سرفراز فرمایا ہے تو یہ اپنے جوش عقیدت میں یہ چاہے گا کہ اس کو خدا کی صفات میں بھی کچھ نہ کچھ شریک کر دے۔ اگر اس سے کسی کام کا مطالبہ پاؤ کیا گیا ہے تو وہ چاہے گا کہ وہ اسکو بڑھا کر سیر بھر کر دے۔ اس غلو پسندی نے دنیا میں بڑی بڑی بدعتوں کی بنیادیں ڈالی ہیں۔ اسی کے سبب سے عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنایا۔ اسی کے سبب سے انہوں نے اپنے صوفیوں اور عالموں کو ارباباً من دون اللہ (اللہ کے علاوہ رب) کا درجہ دیا اور یہی چیز تھی جس نے ان کو رہبانیت کے فتنہ میں مبتلا کیا۔ ۔۔۔
بدعت کا دوسرا سبب خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ انسان کے اندر یہ بھی ایک کمزوری ہے کہ بسا اوقات وہ ایک نظریہ یا ایک رویہ اختیار تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہشات نفس کے مطابق ہوتا ہے۔ اس سے اس کے کسی مخفی منصوبے کی تکمیل ہو رہی ہوتی ہے۔ اس سے کسی ایسے شخص کی خوشنودی اسے حاصل ہوتی ہے جس کی خوشنودی اسے اپنے دنیوی اغراض کے نقطہ نظر سے مطلوب ہوتی ہے۔ اس سے اس کے وہ ارمان پورے ہوتے ہیں جو نفس کی اکساہٹ سے اس کے اندر ہر وقت گدگدیاں پیدا کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اتنی جرأت و ہمت نہیں رکھتا کہ ان چیزوں کی تکمیل کے لئے وہ صاف صاف نفس پرستی اور دنیا پرستی کے نام سے میدان میں اترے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اپنی اس دنیا داری اور نفس پرستی کے لئے دین داری کی کوئی آڑ بھی تلاش کرے تاکہ رند کا رند بھی رہ سکے اور ہاتھ سے جنت نہ جانے پائے۔
اس خواہش کے تحت وہ مختلف قسم کے نظریات بناتا ہے اور ان کو مذہب کے اندر گھسانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر گھسانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر ان سے اپنی خواہشوں کے بند دروازوں کو کھولنے میں کلید کا کام لیتا ہے۔ خواہشات نفس کے تحت فتوی لکھتا ہے اور ان کو کتاب و سنت کی طرف منسوب کرتا ہے۔ بعض سفلی جذبات کی تسکین کے لئے بہت سے کام کرتا ہے اور ان کو معرفت الہی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بتاتا ہے۔ (امین احسن اصلاحی، تزکیہ نفس)
نماز سے فارغ ہو کر میں امام صاحب سے ملاقات کے لئے آگے بڑھا۔ میں نے بیک وقت انگریزی اور عربی میں گفتگو کا آغاز کیا۔ انہیں دونوں زبانوں سے واقفیت نہ تھی۔ انہوں نے نائب امام کو بلایا اور اشارے سے کہا کہ یہ عربی جانتے ہیں۔ نائب امام تھوڑی بہت عربی جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے مسجد کا کتبہ دکھایا جس پر 1499ء کی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ بتانے لگے کہ یہ مسجد بولو کے گورنر نے 500سال پہلے تعمیر کی تھی اور یہ شہر کی مرکزی جامع مسجد تھی۔
بولو کی 500 سال قدیم جامع مسجد
مسجد کا بورڈ "کادی جامع 1499"
بولو کی 200سال قدیم جامع مسجد
میں سوچنے لگا کہ دنیا میں ہر دور کی تعمیر کردہ مسجد موجود ہے مگر خلافت راشدہ کے دور کی تعمیر کردہ کوئی مسجد موجود نہیں ہے۔ اس وقت سب سے قدیم تعمیر شدہ مسجد دمشق کی جامع بنو امیہ ہے۔ یہ مسجد 75ھ کے آس پاس تعمیر کی گئی ہے۔ خلافت راشدہ کا دور 40ھ میں ختم ہوا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایران اور شام فتح ہوئے اور قیصر و کسری کے محلات تعمیر کرنے والے بہترین کاریگر مسلم دنیا کا حصہ بنے۔ اگر آپ چاہتے تو ان کاریگروں سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی ایسی شاندار تعمیر کرواتے جو کہ آج تک برقرار رہتی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
دور فاروقی کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر پر ذاتی جیب سے کچھ لکڑی کا کام کروا دیا جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے پسند نہیں کیا۔ اس سے خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار کی ملوکیت کا فرق نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ دور ملوکیت میں اسلام کی شان اسی میں سمجھی گئی کہ مساجد کی عالیشان عمارتیں تعمیر کی جائیں جنہیں دیکھ کر آنے والی نسلیں بادشاہ کو یاد رکھیں۔ خلفاء راشدین کا نقطہ نظر اس کے بالکل برعکس تھا۔ یہ حضرات عمارتوں پر پیسہ لگانے کی بجائے انسانوں پر پیسہ لگانا زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ عمارتوں پر پیسہ لگانے سے ان کا نام دنیا میں تو باقی رہ جائے گا مگر آخرت میں اجر پانے کے لئے انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری ادا کرنا ضروری ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں آج بھی مساجد کی تعمیر و تزئین پر کروڑوں روپے لگا دیے جاتے ہیں مگر انہی مساجد کے گرد و نواح میں بسنے والے افراد کی ضروریات کا کسی کے دل میں خیال پیدا نہیں ہوتا۔
عوام کے مال میں اس قدر احتیاط کے باوجود سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس تردد میں رہا کرتے تھے کہ آپ خلیفہ ہیں یا بادشاہ۔ ایک دن غالباً سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا، "اگر آپ عوام کی رقم کا ایک درہم بھی غلط طریقے سے وصول کریں یا غلط جگہ پر خرچ کریں تو آپ بادشاہ ہیں ورنہ آپ خلیفہ ہیں۔"
ہمارے اکاؤنٹنٹ حضرات سال میں ایک مرتبہ اپنے اکاؤنٹس کلوز کرتے ہیں۔ یہ بات ان کے لئے حیرت کا باعث ہو گی کہ خلفاء راشدین بھی سال میں ایک مرتبہ بیت المال کی کلوزنگ کیا کرتے تھے۔ اس کلوزنگ میں وہ کوئی انٹریز پاس کرنے کی بجائے بیت المال میں جو کچھ ہوتا تھا، اسے اس کے حق داروں تک پہنچانے کی پوری کوشش کرتے تھے اور کلوزنگ کے دن بیت المال میں سے ہر قسم کے مال کو اس کے حق داروں تک پہنچانے کے بعد وہاں جھاڑو دے دی جاتی تھی۔ بادشاہ سرکاری خزانے کو ظلم کے مال سے بھر کر اسے بے دردی سے لٹایا کرتے ہیں جبکہ خلیفہ اسے درست طریقے سے وصول کر کے درست جگہ پر خرچ کرتے ہیں۔
میں سوچنے لگا کہ خلافت راشدہ کا عرصہ اتنا قلیل کیوں رہا۔ ہماری 1400 سالہ تاریخ میں خلافت راشدہ کا عرصہ صرف 30 سال ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ عرصہ کل 60 سال بنتا ہے۔ بعد کے کچھ اچھے ادوار بھی خلافت راشدہ کے قریب ہیں۔ ان کا مجموعہ بھی چالیس پچاس سال سے زیادہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل کی 1500 سالہ تاریخ میں خلافت راشدہ کا عرصہ بھی 200 سال سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ دنیا اللہ تعالی نے امتحان کے لئے بنائی ہے۔ اگر ہر طرف خلافت راشدہ کا دور دورہ ہو تو پھر امتحان کیا رہا۔ پھر تو ہر شخص ماحول سے مجبور ہو کر نیکی کرنے پر مجبور ہو گا۔ انسان کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے مخلوط ماحول میں اچھا رہے۔
مسجد سے باہر نکل کر ہم اینٹوں والی گلی میں چل پڑے۔ کچھ دور ایک اور شاندار مسجد نظر آ رہی تھی جس کے بارے میں نائب امام صاحب نے بتایا تھا کہ یہ دو سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کا نام "بایزید یلدرم مسجد" تھا جو کہ ایک عثمانی بادشاہ تھے۔ یہ مسجد سنان کے آرکی ٹیکچر کا شاہکار نظر آ رہی تھی۔ میں مسجد کے اندر چلا گیا۔ اندر سے مسجد نہایت ہی خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی۔ مسجد کی چھت نہایت ہی خوبصورت نقش و نگار سے مزین تھی۔ زیادہ تر نیلا رنگ استعمال کیا گیا تھا۔ ترکوں نے مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا چنانچہ اگر آپ ترکوں کے دور کی بنی ہوئی مسجد نبوی کے گنبدوں کا اندرونی جائزہ لیں تو کچھ ایسے ہی نقش و نگار وہاں بھی موجود ہیں۔
مسجد کے قریب ہی ایک خوبصورت فوارہ بنا ہوا تھا جس میں سے کئی رنگ نکل رہے تھے۔ ہمیں بھوک لگ رہی تھی۔ قریب ہی شاورما کی ایک دکان تھی جو ہمارے لئے غنیمت تھی۔ میں نے اسے خوب مصالحے دار بنانے کے لئے کچھ الٹے سیدھے اشارے کئے جسے کمال مہربانی سے وہ صاحب سمجھ گئے اور انہوں نے خوب مرچیں بھر کر شاورما بنا دیا۔ میرا خیال تھا کہ جب ہم اسے کھائیں گے تو ہمارے کانوں سے دھواں سا نکلنے لگے گا، آنکھوں اور ناک سے پانی بہہ نکلے گا، زبان سے "سی سی" کی آوازیں نکلیں گی مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ شاورما بہت مزیدار تھا اور اس کی مرچیں ذائقے میں بہت مناسب تھیں۔ معلوم ہوا کہ ترکی مرچیں زیادہ تیز نہیں ہوتیں۔
فوارے پر بیٹھ کر شاورما کھانے کے بعد ہم دوسری جانب چل پڑے۔ تھوڑی دور جا کر ایک جگہ "حمام" کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ترکوں کی معاشرت میں حمام کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے ہاں حمام محض نہانے کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ اس کی ایک مخصوص سماجی اہمیت ہے۔ قدیم دور میں سیورج کا نظام نہ ہونے کے باعث گھروں میں بیت الخلا اور نہانے دھونے کا انتظام کرنا مشکل ہوا کرتا تھا، اس زمانے میں حمام بنائے جاتے جن میں تازہ ٹھنڈے اور گرم پانی اور اس کی نکاسی کا اہتمام کیا جاتا۔ حمام ایک بڑے سے ہال کی صورت میں ہوا کرتا جس میں لوگ انڈو ویئر وغیرہ پہن کر نہایا کرتے۔ مردوں اور خواتین کے لئے علیحدہ حمام ہوا کرتے تھے۔ ان حماموں میں غسل کے علاوہ مساج پارلر بھی ہوتے تھے۔ لوگ مساج کروانے کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی لگایا کرتے۔ اس طریقے سے حمام ایک سوشل سینٹر کی صورت اختیار کر جایا کرتا تھا۔
ابن بطوطہ اپنے دور میں ترکی کے حماموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہاں بعض ایسے حمام دیکھے جہاں مرد اپنی لونڈیوں کو لے کر گھس جاتے تھے اور بغیر کسی ستر کے غسل کیا کرتے تھے۔ کسی بھی با حیا انسان کی طرح انہیں یہ بات سخت ناگوار گزری اور انہوں نے قاضی شہر سے کہہ کر اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی۔یہاں کے باشندوں کی بے حیائی کا ذکر کرتے ہوئے ابن بطوطہ بیان کرتے ہیں:
اس شہر کے لوگ برائی کو نہیں روکتے۔ یہی معاملہ اس ملک کے اکثر افراد کا ہے۔ یہ لوگ روم کی خوبصورت لونڈیوں کو خریدتے ہیں اور انہیں فساد پھیلانے (عصمت فروشی) کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ہر لونڈی نے ایک مخصوص رقم اپنے مالک کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ لونڈیاں مردوں کے ساتھ حمام میں چلی جاتی ہیں۔ جو شخص فساد کا یہ کام حمام کے اندر کرنا چاہے، اسے کوئی نہیں روکتا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ اس شہر کے قاضی نے بھی اسی طریقے سے لونڈیاں رکھی ہوئی ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بے حیائی صرف دور جدید کا فتنہ ہی نہیں ہے۔ سابقہ ادوار میں بھی بے حیائی پائی جاتی تھی۔ موجودہ دور میں فرق یہ پڑا ہے کہ میڈیا نے اسے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا ہے۔ عیاش لوگ پہلے زمانوں میں بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے جو آج کل ہوتا ہے۔ خدا پرست لوگ اس دور میں بھی ایسے کاموں سے اجتناب کرتے تھے اور جدید دور بھی ایسی حرکتوں سے دور رہتے ہیں۔
ترکی کے ٹورسٹ بروشرز میں حمام کا بہت شد و مد سے ذکر کیا گیا تھا۔ آج کل حمام کے ساتھ اسٹیم اور سوانا باتھ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مساج کرنے کے بعد شاکنگ شاور کے تجربے کو بھی بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ شاور کے بعد ماربل کے پلیٹ فارم پر آرام کیا جاتا ہے۔ کچھ بروشرز سے ہمیں یہ معلوم ہوا تھا کہ ان میں مرد و خواتین اکٹھے غسل کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں یہ جرأت نہ ہو سکی کہ ہم کسی حمام میں داخلے کا تصور بھی کر سکیں۔
اب ہم واپس ہوٹل کی طرف جا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے ایک سیاہ رنگ کا بہت بڑا مجسمہ نصب تھا۔ میری خواہش تھی کہ کسی انگریزی بولنے والے سے ملاقات ہو سکے تاکہ کچھ یہاں کے بارے میں معلومات حاصل ہو جائیں۔ میری اہلیہ ماریہ کے لئے شاورما لینے دکان پر چلی گئیں۔ اچانک ایک صاحب ہمیں دیکھ کر آئے اور کہنے لگے، " یو سپیک انگلش " میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے بعد ان صاحب سے کافی دیر گپ شپ ہوئی۔
ان کا نام محمد تھا۔ پیشے کے اعتبار سے یہ انجینئر تھے اور سویڈن میں تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ اس وجہ سے ان کی انگریزی کافی بہتر تھی۔ مجھ سے پوچھنے لگے، "آپ کہاں سے آئے ہیں؟" میں نے کہا، "پاکستان سے مگر ان دنوں جدہ میں مقیم ہوں۔" بڑے خوش ہوئے اور بتانے لگے کہ سویڈن میں ان کے روم میٹ پاکستانی تھے اور ہوسٹل میں ان کے ساتھ کئی پاکستانی رہا کرتے تھے۔
جس طرح ہم لوگ دوسری اقوام کی عجیب و غریب عادات کے بارے میں سن اور پڑھ کر محظوظ ہوتے ہیں اور ان کا ریکارڈ لگاتے ہیں، بعینہ یہی معاملہ ان کا ہمارے بارے میں ہے۔ محمد ریکارڈ لگانے کے سے انداز میں کہنے لگے : "مجھے تو پاکستانی بھائیوں کی یہ بات بڑی عجیب لگی کہ وہ روزانہ روٹی پکاتے تھے۔ " مجھے اس وقت تو ان کی بات سمجھ میں نہ آئی مگر اگلی صبح ناشتے پر ان کی بات کا اندازہ ہوا۔
ہم جس مجسمے کے پاس کھڑے تھے، اس کے بارے میں وہ بتانے لگے کہ یہ شہر کے ایک بہت ہی نیک شخص کا ہے۔ ان صاحب نے بہت سے طلباء و طالبات کو وظائف دیے اور بولو شہر کے لئے تعمیر کا بہت سا کام کیا ہے۔ اظہار تشکر کے طور پر ان کا مجسمہ شہر کے مرکزی چوک میں نصب کیا گیا ہے۔ ان کی بات سے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ حدیث یاد آئی کہ سابقہ اقوام میں بھی ایسا ہوتا تھا کہ نیک افراد کے مرنے کے بعد ان کے مجسمے بنا لیے جاتے تھے تاکہ ان کی یاد تازہ رہے۔ کئی نسلوں کے بعد یہ مجسمے مقدس حیثیت اختیار کر جایا کرتے تھے اور ان کی پوجا شروع ہو جاتی تھی۔
محمد ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ اسلامی تاریخ پر ان کی نظر گہری تھی۔ انہوں نے بولو کے گرد و نواح سے متعلق قیمتی معلومات مجھے فراہم کیں۔ میں نے ان سے اپنے ترکی کے سفر کے منصوبہ پر بات چیت کی تو وہ کافی متاثر ہوئے۔ کہنے لگے، "لگتا ہے، آپ ترکی کے جغرافیے کا گہرا مطالعہ کر کے آئے ہیں۔"
اب رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے۔ اب جا کر کہیں عشاء کی اذان ہو رہی تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم ہوٹل پہنچے اور جلد سے جلد سونے کی کوشش کی۔ آج ہمارے سفر کا پہلا دن تھا اور ہم صبح پانچ بجے سے جاگ رہے تھے۔ نیند جلدی آ گئی۔
صبح چار بجے ہی کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ترکی میں گرمیوں کی راتیں بہت مختصر ہوتی ہیں۔ اگر مزید شمال کی طرف چلا جائے تو یہ راتیں اور بھی مختصر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سردیوں کے اس کے الٹ معاملہ ہوتا ہے اور دن بہت ہی مختصر ہو جاتے ہیں۔ چند دن گزارنے کے بعد یہ عجیب رواج سامنے آیا کہ یہاں کھڑکیوں پر بہت ہی ہلکے سے پردے لگائے جاتے تھے۔ اس وجہ سے نماز کے بعد یہاں سونا ایک مشکل کام لگ رہا تھا۔
ناشتہ کمرے کے کرائے میں شامل تھا۔ ہم لوگ نیچے ہال میں ناشتہ کرنے پہنچے۔ ناشتہ بوفہ اسٹائل کا تھا۔ ایک جانب پنیر کے قتلے تھے۔ دوسری طرف ابلے ہوئے انڈے رکھے ہوئے تھے۔ تیسری طرف شہد، پنیر اور مکھن کے ننھے منے ڈبے رکھے ہوئے تھے۔ چوتھی طرف کھیرے اور ٹماٹر کاٹ کر رکھے گئے تھے۔ ہمارے پنجاب کی بڑی بوڑھیوں کے خیال میں کبھی بھی خالی پیٹ کچی سبزی نہیں کھانی چاہیے مگر یہاں ایسا ہی رواج تھا۔میں نے ماریہ کے لئے آملیٹ لانے کا کہا مگر ویٹر صاحب اس لفظ سے ہی ناواقف تھے۔ وہ ہوٹل کے منیجر کو بلا لائے جن کا معاملہ ویٹر سے مختلف نہ تھا۔
روٹی کے طور پر عجیب و غریب قسم کے بن سامنے آئے۔ ترکی میں روٹی کے طور پر یہ بن کھانے کا رواج تھا۔ اندر سے تو یہ نرم تھے مگر ان کا چھلکا نہایت ہی سخت تھا۔ اگر چھلکے کو اتار کر بن کھایا جاتا تو ایک پیس کا ایک ہی نوالہ بنتا۔ میں نے چھلکے کو چبانے کی کوشش کی۔ تھوڑی دیر میں یہ منہ میں گھل گیا مگر اس کوشش میں میرے جبڑوں میں کچھ درد ہونے لگا۔ کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بن کا یہ چھلکا کسی درخت کی چھال سے بنایا گیا ہے۔ اب مجھے محمد کی حیرت کی وجہ سمجھ میں آئی کہ پاکستانی روزانہ روٹی بناتے ہیں۔ روزانہ صبح، دو پہر اور شام کے کھانے میں چند دن یہ بن کھانے سے میری داڑھ میں مستقل درد ہو گئی جو کافی عرصہ بعد جا کر ٹھیک ہوئی۔
ناشتے سے فارغ ہو کر ہم باہر نکلے۔ رات والی شاورما کی دکان سے ماریہ کے لئے چکن کے نگٹ بنوائے۔ اب ہم ییدی گولر جانے کے لئے تیار تھے۔
بولو کے گرد و نواح میں دیکھنے کی بہت سی جگہیں تھیں مگر سب کو دیکھنا ممکن نہ تھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہر شہر کے ایک دو قابل دید مقامات کی سیر کر لی جائے۔ بولو کے گرد و نواح میں سب سے خوبصورت جگہ ییدی گولر تھی۔ ترکی میں ییدی سات کو کہتے ہیں اور گول یا گولر جھیل کو۔ یہ سات جھیلوں کا مجموعہ تھا جو گھنے سبزے سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان واقع تھا۔
بولو سے باہر نکل کر ہم ان کے جی ٹی روڈ کے مرکزی چوک میں پہنچے اور ییدی گولر والی سڑک پر چل پڑے۔ تھوڑی دور جا کر پختہ سڑک ختم ہو گئی۔ اب ہم ایک کچی سڑک پر سفر کر رہے تھے۔ یہاں ہر سال سردیوں میں بہت زیادہ برفباری ہوتی ہے۔ بولو کے قریب بہت سے اسکائی انگ ریزارٹ بنے ہوئے ہیں۔ برف باری کی وجہ سے یہاں پختہ سڑک کا قائم رہنا مشکل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں کی حکومت نے پختہ سڑک کا تکلف ہی نہیں کیا۔ کچی سڑک البتہ بالکل ہموار تھی اور یہاں جیپ کی ضرورت نہیں تھی۔
کچھ دور جا کر ہم پہاڑوں میں داخل ہو گئے۔ اب دونوں جانب پہاڑ ہمیں اپنے جلو میں لیتے ہوئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے تھے۔ درمیان میں پتلی سی وادی تھی جس میں بس یہی سڑک بنی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ ہم اوپر کی جانب جا رہے تھے۔ سڑک کو اتنے اچھے انداز میں پلان کیا گیا تھا کہ گاڑی با آسانی تیسرے گیئر میں چل رہی تھی۔
یدی گولر کا راستہ
پن چکی
پہاڑوں کے اوپر اتنی ہریالی تھی کہ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آ رہا تھا۔ کہیں کہیں مویشی چرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ دور پہاڑ پر سبز پودوں میں ایک سرخ پودا بھی نظر آ رہا تھا۔ ابھی جولائی کے آخری ایام تھے۔ اس نے کچھ جلدی کر دی تھی۔کچھ ہی عرصے بعد ان سب پودوں کے پتوں کو سرخ اور پھر سیاہ پڑ جانا تھا۔
اللہ تعالی نے یہ ایکو سسٹم بھی خوب بنایا ہے۔ زمین سے نمکیات چوس کر یہ پودے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پتے کھا کر جانور پلتے ہیں اور جانوروں کو انسان کھا جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ پودے، جانور اور انسان جب مر کر مٹی میں ملتے ہیں تو دوبارہ ان نمکیات کو پورا کر دیتے ہیں جن کی ضرورت پودوں کو ہوتی ہے۔ دنیا کا یہ نظام انتہا درجے کی ذہانت کی تخلیق ہے۔ اس زمین کا ذرہ ذرہ یہ پکار کر کہہ رہا ہے کہ اسے لامحدود ذہانت کی حامل کسی ہستی سے تخلیق کیا ہے۔ اس کائنات میں صرف انسان ہی ایسی ناشکری مخلوق ہے جو اپنی خواہشات کو بے لگام کرنے کے لئے خالق کائنات کا انکار کر دیتا ہے ورنہ ہر مخلوق اس کے حکم کے آگے سر بسجود ہے۔
پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو ایک تین پروں والی پن چکی ہمارے سامنے تھی۔ یہ بجلی پیدا کرنے کے لئے تھی اور یہاں سے تاریں نکل کر دونوں طرف جا رہی تھیں۔ یہ بجلی پیدا کرنے کا سستا اور آسان طریقہ تھا۔ نجانے ہمارے ہاں اسے کیوں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ توانائی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے ہمارے لئے بے پناہ توانائی مفت ہوا، پانی اور دھوپ کی صورت میں رکھ دی ہے۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے مہنگی تھرمل بجلی پیدا کرنا اللہ تعالی کی ناشکری ہے۔
پہاڑ چنار کے درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ہمارے شمالی علاقہ جات میں پہاڑوں پر یہی چنار کے درخت سایہ کرتے ہیں مگر ان کا پھیلاؤ اتنا زیادہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اگر پہاڑ کی گھاس زرد ہو جائے تو اس کا سبزہ کم محسوس ہوتا ہے۔ یہاں کے چنار کے درخت بہت پھیلے ہوئے تھے جس کی وجہ سے پہاڑ گھنے سبز نظر آ رہے تھے۔
ایک دو مقام پر دو راہے تھے۔ یہاں سے پوچھ کر ہم درست سمت میں چلے۔ سڑک اب نیچے اتر رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہم ییدی گولر جا پہنچے۔ اس علاقے کو ترکی کی حکومت کی جانب سے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ سڑک کے دونوں جانب جھیلیں نظر آ رہی تھیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس اور ایک کیبن بنا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی ایک جانب پارک کر دی۔ کیبن میں سے ایک صاحب نکلے۔ میں نے ان سے اس مقام کی تفصیل پوچھی تو انہوں نے بیزاری سے ترکی زبان میں ایک تقریر کر دی۔ زبان کا تو ایک لفظ بھی پلے نہ پڑا مگر ان کے اشاروں کا خلاصہ کچھ یوں سمجھ میں آیا کہ یہ دوسری اور تیسری جھیل ہے۔ پہلی جھیل اوپر کی جانب تھی اور بقیہ نیچے کی جانب۔
دوسری اور تیسری جھیل کا رنگ ہلکا سبز تھا۔ دوسری جھیل پر درختوں کی شاخیں لٹک رہی تھیں جن سے دھوپ چھن چھن کر پانی پر پڑ رہی تھی۔ پہلی جھیل پر جانے کے لئے ایک ٹریک بنا ہوا تھا۔ ہم اس پر چل پڑے۔ پانچویں جھیل پر پہنچے تو یہ کچھ خاص محسوس نہ ہوئی۔ پوری جھیل سبز رنگ کے الجی نما پودوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اب ہم واپس دوسری جھیل سے ہوتے ہوئے تیسری جھیل کی طرف آئے۔ یہ ان تمام جھیلوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی۔ جھیل کے چاروں طرف گھنا سبزہ تھا جس کے عکس کے باعث جھیل کا رنگ بھی سبز ہو رہا تھا۔ دھوپ پانی پر پڑ کر منعکس ہو رہی تھی۔
اب ہم چوتھی جھیل کی جانب بڑھے۔ یہ ایک چھوٹی سی جھیل تھی۔ اس کے بعد پانچویں جھیل کچھ فاصلے پر تھی۔ اس کے قریب کیمپنگ ایریا بنا ہوا تھا۔ میں ساتھ ساتھ جھیلوں کی تصاویر لے رہا تھا۔ پہلی تین جھیلوں کی تصاویر بے حد خوبصورت آئیں حالانکہ جھیلیں اتنی خوبصورت نہیں تھیں۔ اس میں میرا نہیں بلکہ یہ ڈیجیٹل کیمرے کا کمال تھا۔ اس ایجاد کی بدولت ہم جیسے اناڑی فوٹو گرافر بھی اچھی تصاویر لے لیتے ہیں۔ جو منظر اچھا لگا، کیمرے کا رخ اس کی طرف کر کے بٹن دبا دیا۔ تین چار تصاویر میں سے جو خوبصورت آ گئی، اسے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا۔ پانچویں جھیل کی کوئی تصویر خوبصورت نہیں آ سکی۔ اس وجہ سے میں پینو رامیو پر موجود سلجوق صاحب کی دی ہوئی تصویر پیش کر رہا ہوں۔
پانچویں جھیل پر موجود کیمپنگ سائٹ میں دو خیمے لگے ہوئے تھے۔ یہاں ایک ترک فیملی بیٹھی ہوئی تھی۔ ان سے سلام دعا کرنے کی کوشش کی۔ تعارف ہوا مگر کچھ پلے نہ پڑا۔ یہ معلوم ہو گیا کہ وہ اسی علاقے کے رہنے والے تھے۔ ہمارے پاکستانی ہونے کا سن کر بڑے خوش ہوئے۔
اب ہم جھیل کی جانب جا رہے تھے۔ اچانک پانی گرنے کی آواز سنائی دی۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ جھیل میں ایک تیز رفتار چشمہ آ کر گر رہا ہے۔ یہاں پانی کا نظام یہی تھا۔ بارش اور چشموں کا پانی پہلی جھیل میں اکٹھا ہوتا ہے۔ جب یہ جھیل بھر جاتی ہے تو اس کا فالتو پانی ایک چشمے کی صورت میں دوسری، وہاں سے تیسری، چوتھی اور پانچویں جھیل میں آ گرتا ہے۔ پانچویں جھیل سے یہ پانی ایک زیر زمین راستے کے ذریعے چھٹی جھیل اور وہاں سے ساتویں تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد فالتو پانی ایک نالے کی صورت میں نیچے کی طرف چلا جاتا ہے۔ فضا میں ہلکی سی خنکی تھی۔
پہلی جھیل
دوسری جھیل
تیسری جھیل
پانچویں جھیل (بشکریہ panoramio.com)
کیمپنگ ایریا میں حکومت نے لکڑی کی میزیں اور بنچ رکھے ہوئے تھے۔ ایک جانب بار بی کیو کرنے کے لئے چولہا بنا ہوا تھا۔ اس میں کوئلے اور لکڑیاں ڈال کر سیاح بار بی کیو کر سکتے تھے چنانچہ وہ ترک فیملی یہی کر رہی تھی۔ گوشت کی بھینی بھینی خوشبو ہر طرف پھیل رہی تھی۔دوسری طرف بچوں کے لئے کچھ جھولے لگے ہوئے تھے۔
میری اہلیہ اور ماریہ جھولوں کی طرف چلی گئیں۔ میری طبیعت نیند نہ پوری ہونے کے باعث بوجھل ہو رہی تھی۔ میں نے جھیل کنارے ایک میز کا انتخاب کیا جہاں چشمے کے گرنے سے پیدا ہونے والی موسیقی کی آواز پہنچ رہی تھی۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی سی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ میں بڑے اطمینان سے میز پر لیٹا اور ماحول کو انجوائے کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی۔ ایک گھنٹے بعد آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ ترک بھائیوں نے لکڑی والے بن میں رکھ کر تازہ تازہ چکن تکہ بھیجا ہے۔ اب اس نعمت سے انصاف نہ کرنا ناشکری ہوتی چنانچہ جبڑوں کو جبری مشقت میں ڈالنا پڑا۔ تکے کا ذائقہ ہمارے جیسا ہی تھا۔
دوسری قوموں کی طرح ترکوں میں بھی قومی عصبیت پائی جاتی ہے مگر ان کی عصبیت تعمیری ہے۔ علم سماجیات کے بانی ابن خلدون کے مطابق عصبیت سے ہی قوم بنتی ہے۔ انسان کے اندر یہ جذبہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو ایک گروہ یا قوم کا حصہ سمجھتا ہے۔ کسی قوم میں یہ جذبہ جتنا طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی قوم متحد ہو کر تعمیر کے راستے پر چلتی چلی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں قومی عصبیت کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ دوسری قوموں سے نفرت کی جائے اور اپنی قوم سے محبت۔ ترکوں کے ہاں ایسی عصبیت پائی نہیں جاتی۔ ان کے ہاں عصبیت کا معنی ہے کہ اخلاق اور کردار میں دوسری اقوام سے بہتر بنا جائے۔ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تعمیری بنا جائے۔ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اچھے انسان بنا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں اخلاق کا معیار بہت بلند ہے۔ کرپشن بہت ہی کم ہے۔ لوگ اچھے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ غیر ملکیوں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو خاص طور پر اس کی مدد کی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں بھی اعلی اخلاق کے حامل افراد کی کمی نہیں ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ تعمیری لوگ کم ہی متعصب ہوا کرتے ہیں۔ زیادہ تر تعصب ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جن میں خود کوئی کمی ہو۔ ایسے لوگ اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے لئے تعصب کی آڑ لیتے ہیں۔آپ شاید ہی کسی اعلی تعلیم یافتہ ایگزیکٹو، ڈاکٹر، انجینئر یا کامیاب بزنس مین کو تعصب میں مبتلا دیکھیں گے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ جو کاروبار میں ناکام رہ جائیں، ملازمت حاصل نہ کر سکیں، یا سرے سے کام ہی نہ کرنا چاہتے ہوں، تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد کو سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لئے قابو کر لیتی ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو احتجاجی مظاہروں میں نکلتے ہیں، پتھراؤ کرتے ہیں، گاڑیاں جلاتے ہیں، گھروں کے شیشے توڑتے ہیں اور پٹرول پمپ اور بینک لوٹتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں جلسے جلوس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر جلوس نکال کر معیشت کا پہیہ جام کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس عمل سے کتنے گھروں میں چولہا نہ جل پائے گا۔ ہمارے ایک جاننے والے اپنی آنکھوں دیکھا منظر بیان کرتے ہیں کہ وہ کراچی کے صدر بازار میں کسی کام سے گئے۔ ان دنوں پاکستان میں شراب پر پابندی نہیں تھی اور کھلے عام شراب فروخت ہوا کرتی تھی۔ کچھ لوگ اس کے خلاف جلوس نکال کر احتجاج کر رہے تھے۔ صدر پہنچ کر شراب کی دکان کے سامنے یہ جلوس مشتعل ہو گیا اور انہوں شراب کی دکان پر حملہ کر دیا۔ اندر پہنچ کر جس کے ہاتھ میں شراب کی جو بوتل لگی، اس نے لوٹ کر اپنے تھیلے میں ڈالی اور اس کے بعد دکان کو آگ دکھا دی۔ یہ وہ حضرات تھے جو شراب کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
اگر ہم اس تکلیف دہ کلچر سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی خود کو تعمیری اور مثبت بنانا ہو گا۔ قوم کی تعمیر صرف اور صرف تعلیم اور اخلاقی تربیت سے ہوتی ہے۔ ہمارے جو افراد دین کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور وہ اس کام میں مخلص ہیں، ان کے لئے کرنے کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ وہ قوم کی اخلاقی تربیت کریں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ اپنی قوم کو عزت کا مقام دلوا سکتے ہیں۔ جلسے جلوسوں سے لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے جبکہ اخلاقی تعمیر سے انہیں اپنے حقوق وصول کرنے کا نہیں بلکہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
یہاں سے اٹھ کر ہم چھٹی جھیل کی جانب چلے جو سڑک کے دوسری جانب تھی۔ معلوم ہوا کہ یہاں بھی ایسا ہی کیمپنگ ایریا ہے۔ یہاں لکڑی کی بنی ہوئی چھوٹی سی مسجد تھی۔ ایک صاحب مسجد کی جانب جا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے، "جماعت۔۔۔۔ جماعت۔۔۔۔" کچھ فاصلے پر چشمے کا رخ موڑ کر ایک حوض سا بنا ہوا تھا جس میں سے مستقل پانی بہے جا رہا تھا۔ یہاں سے وضو کیا تو ہاتھ پاؤں منجمد ہوتے معلوم ہوئے۔ گھنے سبزے کے باعث دھوپ بھی پوری طرح پہنچ نہ پا رہی تھی۔
مسجد والے صاحب اذان دے رہے تھے۔ ان کی آواز فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ محسوس ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ارد گرد موجود مرد مسجد کی طرف چل پڑے اور چھوٹی سی مسجد نمازیوں سے بھر گئی۔نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو خواتین مسجد میں جمع ہونے لگیں۔ مرد مسجد کے ایک طرف اکٹھا تھے۔ انہیں شاید میں وکھری ٹائپ کا لگ رہا تھا چنانچہ تعارف کی ناکام کوشش شروع کی گئی۔ انگریزی کسی کو نہ آتی تھی چنانچہ اپنی فیملی کے ایک انگریزی تعلیم یافتہ فرزند کو آواز دی گئی جو کہ ترجمانی کا فریضہ انجام دیں۔ انہیں کچھ کچھ انگریزی آتی تھی جو تعارف کے لئے کافی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ حضرات یہاں سے کچھ دور بلیک سی پر واقع شہر "بارٹِن" سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاصی بڑی اور دین دار فیملی تھی جنہیں اپنے مسلمان اور ترک ہونے پر فخر تھا۔
اب ہمارا کوچ کا پروگرام تھا۔ چھٹی اور ساتویں جھیل دیکھنے کے بعد ہم واپس مڑے اور بولو کی جانب چل پڑے۔ اب ہم استنبول انقرہ جی ٹی روڈ پر تھے اور موٹر وے کے ایگزٹ کی طرف جا رہے تھے۔ گاڑی میں ابھی نصف ٹنکی ڈیزل موجود تھا مگر بہتر یہی تھا کہ ٹنکی بھی فل کروا لی جائے اور حوائج ضروریہ سے بھی فارغ ہو لیا جائے۔ پٹرول پمپ پر کہیں ٹائلٹ نظر نہیں آ رہے تھے۔ میں نے اس بارے میں پٹرول ڈالنے والے صاحب سے پوچھا۔ یہ صاحب بات سمجھنے کی کوشش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ کچھ دیر غور و خوض کے بعد جب بات نہ بن پڑی تو اپنے منیجر کو بلا لائے۔ معاملہ اب مشکل ہو رہا تھا۔ میرے ذہن میں ٹائلٹ کے مترادف جتنے الفاظ آئے، میں نے کہہ دیے : "ٹائلٹ۔۔۔ ڈبلیو سی۔۔۔ حمام۔"
حمام کے لفظ پر منیجر صاحب پھڑک اٹھے۔ ہاتھوں کو اس طرح پھیلایا جیسے ان پر کوئی نقشہ رکھا ہوا ہو۔ کہنے لگے، "آپ کے پاس نقشہ ہے ؟" میں نے نقشہ پیش کیا تو اس پر انقرہ کے قریب ایک مقام پر انگلی رکھ کر بولے، "یہاں آپ کو بہت اچھے حمام مل جائیں گے۔ " گویا ان کے مشورے کے مطابق ہمیں حوائج ضروریہ کے لئے ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے انقرہ جانا چاہیے تھا۔ وہ حمام سے غسل والا حمام سمجھے تھے۔
اب ہم انقرہ موٹر وے پر داخل ہوئے اور مشرق کی جانب چل پڑے۔ جیسے ہماری موٹر وے M1 & M2 کہلاتی ہے، اسی طرح یہاں کی موٹر وے کو O-4 کا نمبر دیا گیا تھا۔ کچھ دور جا کر ایک ریسٹ ایریا آیا۔ سبز پہاڑوں کے دامن میں خوبصورت عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ یہاں بڑا اچھا پارک بھی بنا ہوا تھا جس میں جھولے لگے تھے۔ ماریہ نے یہیں ڈیرا ڈال دیا۔ ہم سپر مارکیٹ کی طرف چل پڑے۔
سفرنامے کے نوٹس لکھنے کے لئے میرا پین گم ہو گیا تھا۔ یہاں سپر مارکیٹ میں بال پین تلاش کیا مگر نہ ملا۔ کاؤنٹر پر موجود خاتون سے اس کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں، "نو پین۔" ان کے اپنے لکھنے کے لئے بہت سے بال پین ایک ڈبے میں رکھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ انہی میں سے دے دیجیے۔ انہوں نے ڈبا میرے سامنے رکھا۔ میں نے ایک بال پین لیا اور قیمت پوچھی۔ کہنے لگیں، "نو منی۔"
ریسٹ ایریا سے نکل کر کچھ دور چلے تو ایک خوبصورت منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا۔ کسی ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی موٹر وے ایک حسین نیلی جھیل کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ایک بورڈ پر اس کا نام "یینی چاغا گولو"لکھا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی جھیل تھی جس کے کنارے ہماری "ہالیجی جھیل "کی طرح سرکنڈوں کا گھنا جنگل تھا۔ جھیل کے کنارے پر یینی چاغا کا قصبہ تھا۔
جھیل سے کچھ آگے پہنچے تو "گریڈی" کا قصبہ آیا۔ یہاں سے ہمیں موٹر وے سے باہر نکلنا تھا کیونکہ اب ہمیں بلیک سی کے کنارے واقع شہر "سامسن" کی طرف جانا تھا۔ ایگزٹ سے نکل کر اب ہم عام سڑک پر آ گئے۔ یہاں ایک ٹول پلازہ بنا ہوا تھا۔ یہاں 11 لیرا ٹول وصول کیا گیا جو میرے خیال میں کافی زیادہ تھا مگر بعد میں ترکی کے آخری سرے تک ہمیں کسی ٹول پلازہ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
اب ہم دو رویہ اونچے نیچے راستے پر سفر کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر پہنچ کر ایک تاریخی شہر "سفران بولو" کو جانے والی سڑک بائیں جانب نکلتی نظر آئی۔ اس شہر میں ترکی کے قدیم گھر پائے جاتے ہیں۔ ہم یہاں نہ جا سکے بلکہ اسی سڑک پر سیدھے سفر کرتے ہوئے "اتکارا چلار" سے ہوتے ہوئے "الغاز" جا پہنچے۔ یہ شہر اپنے گھنے جنگل کی وجہ سے مشہور تھا اور اسے نیشنل پارک قرار دیا گیا تھا۔ یہاں کا منظر کچھ مختلف تھا۔ پہاڑوں پر موجود گھاس زرد ہو چکی تھی اور اس پر سبز رنگ کے گھنے درختوں کا جنگل تھا جو سڑک کے دونوں جانب پھیلا ہوا تھا۔
ہم اب استنبول سے 700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے مگر صرف ایک جگہ ہی پولیس کی گاڑیاں دیکھی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی میں پولیس کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جرائم بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ ہم نے پورے ترکی میں کبھی یہ منظر نہیں دیکھا کہ کوئی شراب پی کر غل غپاڑہ کر رہا ہو۔ ہر شہر میں نائٹ کلب اور ڈسکو موجود تھے مگر وہاں جانے والوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کا کوئی واقعہ ہم نے نہیں دیکھا۔ پولیس والوں کو گاڑیاں روک کر چیکنگ کرتے ہوئے کہیں بھی نہیں دیکھا۔
اس کی وجہ یہی سمجھ میں آئی کہ ان کے ہاں لوگوں کی اخلاقی تربیت کا نظام بہت مضبوط ہے۔ اگر لوگوں کی اخلاقی تربیت کر دی جائے تو پھر پولیس اور اس کی چیکنگ کی ضرورت بہت ہی کم رہ جاتی ہے۔ بعد میں جب ترک دانشوروں سے ملاقات ہوئی تو میرے اس اندازے کی تصدیق ہو گئی کہ ایسا ہی ہے۔
مجھ سے ایک بار ایک صاحب پوچھنے لگے کہ آپ اپنی تحریروں میں اخلاقی تربیت کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ میں نے ان کی خدمت میں ایک مثال پیش کی۔ فرض کر لیجیے کہ آپ کسی مقام پر کوئی پل بنانا چاہتے ہیں۔ اس پل کی تعمیر کے لئے آپ کو جو انسانی وسائل درکار ہوں گے، ان میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے ؟ یقینی طور پر آپ کو ایسے انجینئر درکار ہوں گے جو اپنے فن میں پوری مہارت رکھتے ہوں۔ انہیں ایسے پل بنانے کا تجربہ ہو۔ انہوں نے کسی انجینئرنگ کے ادارے سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو۔ ان سب فنی خصوصیات کے ساتھ ساتھ وہ اخلاقی اعتبار سے اچھے اور دیانت دار انسان بھی ہوں۔
اگر آپ کسی ایسے شخص کوپل بنانے کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں جو اپنے فن میں مہارت نہیں رکھتا تو لازمی طور پر پل اپنی تعمیر کے کچھ ہی عرصے بعد گر جائے گا۔ یہی معاملہ اخلاقی تربیت کا ہے۔ اگر آپ کسی اہل مگر بد دیانت انجینئر کو یہ کام سونپتے ہیں تو بھی نتیجہ یہی ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی تربیت کی اہمیت کلیدی ہے۔
ہمارے دین دار افراد اگرچہ اخلاقیات کو اچھا سمجھتے ہیں مگر بالعموم اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے ہاں مخصوص وضع قطع اور فرقہ وارانہ اختلافات کو جتنی اہمیت دی جاتی ہے اور اس پر جتنا زور صرف کیا جاتا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اخلاقی تربیت پر صرف نہیں کیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے مذہبی طبقے کے افراد میں بھی کرپشن عام ہے۔ مدارس اور مساجد کے فنڈز سے لے کر حکومتی فنڈز میں خورد برد کے بہت سے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔اسی اخلاقی تربیت کے فقدان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسجد کے منبر و محراب کو ان مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جن کی دین میں کوئی اجازت نہیں ہے۔
اب وادی کچھ وسیع ہوتی جا رہی تھی۔ سڑک کے دونوں جانب ہرے بھرے کھیت نظر آ رہے تھے۔ جہاں فصل پک چکی تھی وہاں کھیتوں کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔ یہ طوسیہ کا علاقہ تھا جو چاول کے کھیتوں کے لئے مشہور تھا۔ سبز کھیتوں میں سبزے کے مختلف شیڈ موجود تھے۔ کہیں رنگ زردی کے قریب تھا اور کہیں ہلکا سبز۔ کہیں یہ گہرا سبز تھا۔ دور زرد گھاس کے اندر ایک نیلی جھیل نظر آ رہی تھی۔ یہ سب اللہ تعالی کی قدرت کے مختلف رنگ تھے۔ وادی میں ایک تنگ سا دریا بہہ رہا تھا جو کہ ہماری اپر جہلم نہر جتنا چوڑا تھا۔
کچھ دور دریا ہمارے ساتھ چلا۔ مجھے اب کافی کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ ترکی میں کافی کا استعمال بہت ہی کم ہے۔ اس کے برعکس ان کی اپنی چائے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں جو ٹرکش کافی کے نام پر جو کافی پیش کی جاتی ہے، اس کا ترکی میں کہیں رواج نہ تھا۔ ایک بڑا ریسٹ ایریا آیا۔ میں اتر کر ہوٹل میں گیا۔ خوش قسمتی سے یہاں کافی مل گئی۔ یہاں پر کافی کو نیسلے کے مشہور برانڈ کے نام پر "نیس کیفے " کہا جاتا ہے۔ کافی اتنی تیز تھی کہ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ میں نے گاڑی کی ریس پر پاؤں کے دباؤ میں اضافہ کر دیا مگر پھر بھی ہماری گاڑی بمشکل 120 کی رفتار پر جا رہی تھی۔
سڑک پر کچھ مغربی سیاح کندھوں پر بیگ لٹکائے اپنی سائیکلوں پر جا رہے تھے۔ یہ غالباً "ٹور دی ورلڈ" قسم کے سیاح تھے۔ بعض لوگ ایڈونچر پسند ہوتے ہیں اور کوئی عجیب سا کارنامہ کر کے ممتاز ہونے کے لئے اس قسم کے کام کرتے ہیں۔ ان حضرات میں دراصل جستجو اور تحقیق کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ اگر اسی توانائی کو کسی مثبت اور تعمیری کام میں صرف کیا جائے تو بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ مادہ انسان کے اندر اس لئے رکھا ہے کہ وہ خوب سے خوب ترکی تلاش کرے۔ دنیاوی معاملات میں تو انسان ایسا ہی کرتا ہے۔ اگر وہ بازار میں کوئی چیز لینے جاتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم قیمت میں وہ بہترین سے بہترین چیز خریدے۔ وہ دس دکانوں پر جاتا ہے۔ ان کی مصنوعات اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لیتا ہے۔ ان کا باہمی تقابل کرتا ہے اور پھر جو سب سے بہتر لگے وہ خرید لیتا ہے۔
یہی انسان دین کے معاملے میں انتہا درجے کی غیر ذمہ داری کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ وہ جس مذہب، مسلک اور فرقے میں پیدا ہو جائے، اس سے مضبوطی سے چمٹا رہتا ہے۔ اس کے ذہن میں جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ کوئی دوسرا مذہب یا مسلک حق پر ہو اور میرا مذہب ہی غلط ہو تو وہ اس سوال کو سختی سے دبا دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرما دیا ہے :
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔ جنہوں نے ہماری راہ میں جستجو کی، ہم ضرور ضرور انہیں اپنی طرف راستہ دکھا دیں گے۔ (عنکبوت 29:60)
یہ درست ہے کہ ہر شخص میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ تحقیق کر سکے مگر ذہن میں اٹھنے والے سوالات کو دبا دینا ہی وہ جرم ہے جس کا حساب ہمیں اللہ تعالی کے حضور دینا ہو گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب انسان کے ذہن میں اپنے مذہب، مسلک یا فرقے سے متعلق کوئی سوال پیدا ہو تو وہ اپنے فرقے کے اہل علم کے علاوہ دیگر فرقوں کے اہل علم سے بھی اس کا جواب پوچھے اور پھر اس کے سامنے جو راہ کھلے، اس پر چلنے کی کوشش کرے۔ افسوس کہ ہم دین کو اتنا بے وقعت سمجھتے ہیں کہ جو مذہب یا فرقہ ہمیں سب سے پہلے مل جائے، ہم سوچے سمجھے بغیر اسے اختیار کر لیتے ہیں۔
ہمارے ذہنوں میں یہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا جاتا ہے کہ ہم حق پر ہیں، ہمارے سوا جو لوگ ہیں سب باطل پر ہیں۔ ہمارا کوئی قصور نہیں، ہر معاملے میں قصور صرف دوسروں کا ہے۔ ہم سب سے بڑے ہیں، دوسرے تمام لوگ ہمارے مقابلہ میں چھوٹے ہیں۔ ہم خدا کے محبوب ہیں، دنیا بھی صرف ہماری ہے اور آخرت بھی صرف ہماری ہی ہے۔ کچھ ایسی ہی برین واشنگ دوسرے مذاہب اور فرقوں کے مذہبی راہنما اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مسلک اور فرقے میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے برسر پیکار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض فرقہ پرست لوگ بھی فرقہ واریت کو برا کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں فرقہ واریت کا آسان سا حل یہ ہوتا ہے کہ دوسرا ان کے نقطہ نظر کو قبول کر لے۔ حل تو بڑا سادہ ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے کے ذہن میں بھی حل یہی ہوتا ہے۔ فرقہ پرست ہونے کی بجائے انسان کو حق پرست ہونا چاہیے۔ انسان کی کمٹ منٹ فرقے کی بجائے حق سے ہونی چاہیے۔
اب ہم "بویا بت" نامی شہر کے پاس سے گزر رہے تھے۔ "گرزے " کے مقام پر "سامسن سائنپ یولو" پر جا پہنچے۔ اب ہم بلیک سی کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے۔ یہ ڈبل روڈ تھی۔ یہاں اونچی نیچی ڈھلانوں پر کھیت بنے ہوئے تھے۔ بعض کھیت تو کافی ترچھے تھے۔ شام کے آٹھ بج رہے تھے اور سورج غروب ہو رہا تھا۔اب اندھیرا پھیل رہا تھا۔ اب ترکوں کی ایک اور خوبی سامنے آئی۔ سب لوگوں نے گاڑیوں کی لائٹیں مدھم رکھی ہوئی تھیں۔ تیز لائٹوں سے سامنے والے ڈرائیور کو تکلیف ہوتی ہے جو کسی حادثے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یہی معاملہ ہارن کا ہے جو آواز کی آلودگی (Noise Pollution) پھیلاتے ہوئے دوسروں کو ایذا دینے کا باعث بنتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کی تمام مہذب اقوام تیز لائٹوں اور ہارن کے استعمال سے پرہیز کرتی ہیں۔اب سڑک بہتر ہوتی جا رہی تھی اور اسی مناسبت سے رش بھی بڑھ رہا تھا کیونکہ سامسن شہر قریب آ رہا تھا۔ہم لوگ "دریائے کی زی لرمارک"یا سرخ دریا کو پار کرتے ہوئے شہر کی طرف جا رہے تھے۔
تاریخ میں سامسن کی وجہ شہرت یہ ہے کہ 1919ء میں مصطفی کمال نے جنگ آزادی کا آغاز یہیں سے کیا تھا۔ اس سے متعلق کچھ آثار یہاں پر ملتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے مصطفی کمال اور ان کی تحریک کا جائزہ لے لیا جائے۔ یہ تفصیلات ان کی آفیشل ویب سائٹ www.ataturk.com سے لی گئی ہیں۔
مصطفی کمال کی تحریک
مصطفی کمال کو جدید ترکی کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ 1881ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے استنبول کے ملٹری اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ 1902ء میں وہ فوج میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اگلے دس سال میں ترقی کر کے وہ سینئر میجر کے عہدے تک جا پہنچے۔ 1912ء میں بلقان کی جنگ کی انہوں نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی جس میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ 1915ء میں برطانوی اور فرانسیسی افواج نے آبنائے چناقی قلعہ کے ذریعے ترکی پر حملہ کیا جس میں مصطفی کمال نے شدید مزاحمت کی۔ 1916ء میں انہوں نے مشرقی محاذ پر روسی افواج کے خلاف جنگ کی اور کئی فتوحات حاصل کیں۔
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی اور اس کی اتحادی افواج کو شکست ہوئی جس میں ترکی بھی شامل تھا۔ برطانیہ اور فرانس نے عثمانی سلطنت کے مقبوضات پر قبضہ کرنا شروع دیا۔ اس دور میں عثمانی سلطنت موجودہ دور کے سعودی عرب کے مغربی حصے، عراق، شام، فلسطین، افریقہ کے کچھ ساحلی ممالک اور ترکی پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ ترکی پر یونانی اور فرانسیسی افواج نے قبضہ کر لیا۔
کمال نے ان افواج کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کر لیا۔ ان کی قیادت میں ترکوں نے اپنی جنگ آزادی کا آغاز 1919ء میں سامسن سے کیا۔ اگلے دو تین برس کے عرصے میں ترکوں نے اس جنگ آزادی میں فتح حاصل کی اور جدید جمہوریہ ترکی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس جنگ میں مصطفی کمال کی خدمات کے نتیجے میں انہیں حکومت کا سربراہ بنا دیا گیا اور استنبول کی جگہ انقرہ کو جدید ترکی کا دار الحکومت بنا دیا گیا۔ 1923ء سے لے کر 1938ء میں اپنی موت تک مصطفی کمال ترکی کے حکمران رہے۔
نظریاتی اعتبار سے کمال ایک کٹر نیشنلسٹ تھے۔ ان کے اندر قوم پرستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کی نظریاتی تربیت نوجوانان ترک (Young Turks) کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے دور میں انہوں نے ترکی میں بہت سی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی۔ ان کی خواہش تھی کہ ترکی کو ایک جدید ریاست بنایا جائے۔ اس مقصد کے لئے تبدیلیوں کی جو لہر پیدا کی اس کی کچھ تفصیل یہ ہے۔
· عثمانی بادشاہت کا خاتمہ: کمال سے پہلے ترکی پر عثمانی بادشاہوں کی حکومت تھی۔ ان کا نظام حکومت "تھیو کریٹک بادشاہت" تھا جسے وہ "خلافت" کہا کرتے تھے۔ کمال نے اس مذہبی بادشاہت کو ختم کر کے سیکولر جمہوریہ قائم کی۔
· سیکولر ازم کا فروغ: کمال مغرب کے اس نظریے سے بری طرح متاثر تھے کہ ریاست اور مذہب کو علیحدہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے نہ صرف ریاست کو مذہب سے الگ کر کے خالص سیکولر حکومت قائم کی بلکہ مذہبی علماء کے اثر کو کم کرنے کے لئے ان پر بہت سی پابندیاں بھی عائد کر دیں۔
· مذہبی لباس پر پابندی: عثمانی دور میں مرد و خواتین کے لئے مخصوص لباس پہننے کی پابندی تھی۔ علماء ایک مخصوص لباس پہنا کرتے تھے۔ کمال نے 1934ء میں ہر قسم کے مذہبی لباس پر پابندی عائد کر دی۔اس میں خواتین کے حجاب پر پابندی بھی شامل تھی۔مردوں اور خواتین کے لئے مغربی لباس کو فروغ دیا گیا۔
· خواتین سے متعلق تبدیلیاں: عثمانی دور میں خواتین کو کچھ حقوق سے محروم رکھا گیا تھا۔ کمال نے انہیں ووٹ اور سرکاری ملازمت کا حق دیا۔ نکاح و طلاق کے قوانین میں ترامیم کی گئیں۔ خواتین کو حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ان پر یہ پابندی بھی عائد کی گئی کہ وہ پبلک لائف میں اپنی مرضی کا لباس پہننے کی بجائے مغربی لباس پہنیں۔
· مذہبی قوانین کا خاتمہ: کمال کے عہد میں مذہبی قوانین کو ختم کر دیا گیا اور مکمل سیکولر قوانین کو رائج کیا گیا۔
· حروف تہجی میں تبدیلی: عثمانی دور میں ترکی زبان، عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ کمال نے اس کی بجائے اسے رومن حروف میں لکھنے کا حکم جاری کیا۔
· اذان، نماز اور قرآن کی زبان میں تبدیلی: 1933ء میں یہ حکم جاری کیا گیا کہ اذان ترکی زبان میں دی جائے اور قرآن مجید کی تلاوت ترکی زبان میں کی جائے۔ نماز بھی ترکی زبان میں ادا کی جائے۔
· مغربی تہذیب کا فروغ: کمال نے ترکی میں مغربی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے مغربی رقص و موسیقی کی محفلوں کو سرکاری سرپرستی فراہم کی۔ مغربی لباس پہننے پر زور دیا اور اپنے پیروکاروں کو مغربی طرز زندگی اختیار کرنے کی تلقین کی۔ان کے نزدیک مغربیت اور جدیدیت ہم معنی تھیں۔
· ایلیٹ ازم کا خاتمہ: عثمانی دور میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو مختلف خطابات دیے جاتے تھے۔ اشرافیہ کا طبقہ عوام سے بلند سمجھا جاتا تھا۔ کمال نے اسے ختم کرنے کے لئے اشرافیہ کے القابات پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ کمال کے اقدامات کے نتیجے میں ایک نئی ایلیٹ کلاس پیدا ہو گئی۔
· مدارس اور خانقاہوں پر پابندی: کمال نے مذہبی مدارس اور خانقاہوں پر پابندی عائد کر دی تاکہ مذہبی طبقے کو کچلا جا سکے۔
یکساں تعلیمی نظام کا قیام: ملک میں مختلف طبقوں کے لئے مختلف تعلیمی نظام قائم تھے۔ کمال نے یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے بلیک بورڈ لے کر ایک ایک قصبے میں جا کر خود تعلیم دینے کے عمل کا آغاز کیا۔
· آمرانہ نظام حکومت کا قیام: کمال نے بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے جمہوری حکومت قائم کی مگر یہ جمہوری حکومت صرف ایک پارٹی کی حکومت پر مبنی تھی۔
ان اقدامات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آل اباؤٹ ترکی ڈاٹ کام کے بوراک سنسال لکھتے ہیں:
حکومت سنبھالتے ہیں اتاترک نے ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی میں انقلابات کے سلسلے کا آغاز کیا جس کا مقصد ترکی کو ایک جدید ریاست بنانا تھا۔ ان کے نزدیک جدیدیت کا مطلب مغرب پرستی تھی۔ ایک موقع پر، ایک سیکولر قانونی ضابطہ جو کہ یورپی خطوط پر تیار کیا گیا تھا، نافذ کیا گیا جس نے خواتین، شادی اور خاندانی تعلقات کو متاثر کیا۔ ایک اور موقع پر، اتاترک نے اپنے ہم وطنوں کو یورپیوں کی طرح سوچنے اور عمل کرنے کی تلقین کی۔ یورپی لباس پہننے کے لئے ترکوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اتاترک نے سرکاری تقریبات میں بذات خود بال روم ڈانس کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔"سر نیم" اختیار کیے گئے۔ مثال کے طور پر مصطفی کمال، کمال اتاترک بن گئے۔ عصمت پاشا (وزیر اعظم) نے جنگ آزادی میں اپنی کامیابیوں کو یاد رکھنے کے لئے "انونو" کو سر نیم کے طور پر اختیار کیا۔
اس طرح اتاترک نے اس بات پر زور دیا کہ ماضی سے تمام رشتے توڑ دیے جائیں جسے وہ غلط سمجھتے تھے۔ (عثمانی دور کے ) القابات ختم کر دیے گئے۔ فیض (ترکی ٹوپی) پر پابندی لگا دی گئی جو کہ ایک صدی پہلے پگڑی کی جگہ رائج کی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قوم پرستوں کے نزدیک یہ عثمانی دور کی علامت تھی۔
اتاترک کے انقلابی پروگرام کی نظریاتی بنیاد کمال ازم کہلاتی ہے۔ اس کے بنیادی نکات چھ ہیں۔ ان میں جمہوریت، قوم پرستی، نچلے طبقے کی حکومت، انقلابیت، معیشت پر حکومتی کنٹرول، اور سیکولر ازم شامل ہے۔ ۔۔۔۔
غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتاترک نے ترکی زبان کو از سر نو ایجاد کیا اور ترکی کی تاریخ کو ایک نئے قوم پرستانہ سانچے میں ڈھال دیا۔ زبان سے متعلق اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر اتوار کو صدر خود انقرہ کے ایک پارک میں جا کر لاطینی حروف تہجی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔
http://www.allaboutturkey.com/reform.htm
مصطفی کمال کے بارے میں ہمارے ہاں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ سیکولر حضرات کے لئے وہ ایک آئیڈیل اور فرشتے کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ بہت سے مذہبی حضرات کے نزدیک ان کی حیثیت اہل مغرب کے ایک ایجنٹ کی سی تھی۔ چونکہ کسی کی ذات کے بارے میں بحث کرنا ہماری عادت نہیں ہے، اس وجہ سے ہم اپنی بحث کو صرف اور صرف ان کے اقدامات تک ہی محدود رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں کسی شخص کے اقدامات کا تجزیہ کرتے ہوئے متعصبانہ طریق کار اختیار کیا جاتا ہے۔ کسی شخص کے ایک اقدام سے اگر ہمیں اختلاف ہو تو ہم اس کے تمام اقدامات کو اسی نظر سے دیکھتے ہوئے مسترد کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم کسی شخص کے ایک اقدام کو اچھا سمجھتے ہوں تو پھر اس کے تمام اقدامات کو زبردستی اچھا قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریق کار بالکل ہی غلط ہے۔ تجزیے کا درست طریقہ یہ ہے کہ ہمیں اس شخص کے اقدامات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لے کر ہر معاملے کے بارے میں درست و غلط کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
کمال کے دور میں جو تبدیلیاں لانے کی کوشش کی گئی، ان میں سے بعض وقت کی ضرورت تھیں اور بعض تبدیلیاں یقینی طور پر حد سے تجاوز نظر آتی ہیں۔ مناسب ہو گا کہ ان تبدیلیوں سے ہم اپنا نقطہ نظر بھی یہاں بیان کرتے جائیں۔ قارئین ہمارے نقطہ نظر سے اختلاف کر سکتے ہیں۔
دور جدید کے مسلم ممالک میں یہ ایک بڑی بحث ہے کہ حکومت کو سیکولر ہونا چاہیے یا اسلامی۔ اس بحث میں اختلاف کے نتیجے میں ہمارے ہاں دو مستقل طبقے وجود میں آ چکے ہیں جو کہ خود کو سیکولر یا اسلام پسند کہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ بحث اس وقت اپنے عروج کو پہنچی جب یہاں کے ایک فوجی ڈکٹیٹر نے مصطفی کمال کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہوئے ترکی کی طرز پر تبدیلیوں کے عمل کا آغاز کرنا چاہا۔ اس بحث کا آغاز کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تھیو کریسی اور سیکولر نظام ہائے حکومت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے۔
قدیم دور اور قرون وسطی میں حکومت کے لئے جو ماڈل رائج کیا گیا، وہ تھیو کریسی کہلاتا تھا۔ اس نظام کے مطابق یہ طے کر لیا جاتا تھا کہ حکومت کرنا صرف خدا کا حق ہے۔ خدا نے یہ حق بادشاہ کو اپنے نائب کے طور پر تفویض کیا ہے۔ بادشاہ اس حق کو خدا کے نمائندے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ حکومت کا ایک مذہب ہو گا جس کے مطابق ریاست کے معاملات چلیں گے۔ قانونی اعتبار سے ہر شہری کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ اس مذہب کی پابندی کرے کیونکہ یہ "خدا کا حکم" ہے۔ مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے علماء کا کام ہو گا۔
اس نقطہ نظر کے تحت دنیا بھر میں بدھ، ہندو، مجوسی، یہودی، عیسائی اور اسلامی ریاستیں قائم ہوئیں۔ان ریاستوں میں بادشاہ کو خدائی اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے کیونکہ اس کی حیثیت خدا کے ایک نائب کی سی تھی۔ بعض مشرکانہ مذاہب میں تو یہ تصور تھا کہ خدا بادشاہ میں حلول کر جاتا ہے، اس وجہ سے بادشاہ کی عبادت دراصل خدا ہی کی عبادت ہو گی۔
مذہب کی تشریح کرنے کے لئے مذہبی علماء کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔حکومتی سطح پر مذہبی علماء باقاعدہ ایک تنظیم کی صورت اختیار کر جایا کرتے تھے جس کا ایک سربراہ ہوتا تھا۔ ان علماء کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے۔ مذہبی معاملات میں آزادی رائے کا کوئی تصور نہ تھا۔ اگر کسی شخص کے نظریات ان علماء کے نظریات سے مختلف سامنے آتے تو مذہبی عدالت میں اس کا مقدمہ لے جایا جاتا۔ اس شخص کو اپنے نظریات سے توبہ کرنے کا کہا جاتا اور توبہ نہ کرنے کی صورت میں اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جاتا۔
اگر عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو تھیوکریسی خدا کے نام پر انسان کی حکومت کا نام تھا۔ خدا کی کتاب کی ایک سے زائد توجیہات ممکن ہوا کرتی ہیں۔ توجیہ کے اس حق پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم کر دینے کا معنی یہ ہے کہ آزادی اظہار کا قلع قمع کر دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ علماء نے بادشاہوں کو اور بادشاہوں نے علماء کو سپورٹ کیا۔ ایک دوسرے کی مدد سے عوامی آزادیوں کو سلب کرنے اور خدا کے نام پر انہیں اپنا غلام بنائے رکھنے کا یہ سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔
یہ وہ ماحول تھا جس میں اسلام کا ظہور ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو حکومت قائم فرمائی وہ اللہ تعالی کی کتاب یعنی قرآن مجید کی بنیاد پر تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ خود اللہ تعالی کے پیغمبر تھے، اس وجہ سے آپ اپنے معاملات میں اللہ تعالی سے براہ راست راہنمائی لیا کرتے تھے۔ آپ پر نبوت ختم ہو گئی۔ آپ کے بعد کسی کو یہ دعوی کرنے کا حق حاصل نہیں رہا کہ وہ خدا سے براہ راست راہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ اب صرف اللہ کی کتاب باقی ہے یا اس کے پیغمبر کی سنت۔ ان کی توجیہ و تشریح کے لئے کسی ایک طبقے کو اختیار نہیں دیا گیا بلکہ ہر وہ شخص جو انہیں سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی طبقے سے کیوں نہ ہو، قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کر سکتا ہے۔
قرآن مجید میں اہل ایمان کسی خصوصیت بیان کرتے ہوئے واضح طور پر یہ بتا دیا گیا کہ امرُهُم شُورَى بَينَهُم یعنی "ان کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں اجتماعی فیصلے ہمیشہ باہمی مشورے سے کئے جاتے تھے۔
جب بھی کوئی اہم اجتماعی معاملہ پیش آتا تو مسجد میں لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا۔ اس میں عام و خاص، امیر و غریب، چھوٹے اور بڑے یا مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہ ہوا کرتی تھی۔ ہر شخص کو مشورے کی مجلس میں شریک ہونے اور اس میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی ہوا کرتی تھی۔ ایک عام دیہاتی خلیفہ وقت کے کسی اقدام پر کھلے عام تنقید کر سکتا تھا۔ اپنے نقطہ نظر پر دوسروں کو قائل کر سکتا تھا اور اس طریقے سے اجتماعی عمل میں حصہ لے سکتا تھا۔اگر کسی شخص کے خیال میں خلیفہ قرآن و سنت کی تشریح غلط کر رہے ہوں، تو وہ ان سے مختلف تشریح پیش کر سکتا تھا۔اجتماعی فیصلے خلیفہ کی ذاتی رائے پر نہیں بلکہ ارباب مجلس کی اکثریتی رائے کے مطابق ہوا کرتے تھے۔ جمعہ کی نماز کی صورت میں خلیفہ کو اس بات کا پابند کر دیا گیا کہ وہ عوام کے سامنے حاضر ہو۔ اگر کسی کو خلیفہ سے کسی بات پر اختلاف ہوتا تو وہ دوران خطبہ، خلیفہ کو ٹوک کر اس کا احتساب کر سکتا تھا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کے واقعات مشہور ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے خواتین کے حق مہر کی حد مقرر کرنا چاہی۔ ایک خاتون نے کھڑے ہو اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، "جس حد کو اللہ کے رسول نے مقرر نہیں کیا، آپ یہ حد مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں۔" آپ نے فرمایا، "عمر نے غلطی کی اور خاتون نے درست بات کہی۔" عراق اور شام کی زرخیز زمینوں کے بارے میں آپ کی رائے یہ تھی کہ انہیں حکومتی ملکیت میں رکھا جائے تاکہ ان کی آمدنی کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ باقی لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اسے فاتح فوج کے سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کئی دن کی بحث کے بعد سب کو قائل کر لیا۔ آپ نے اس وقت تک اپنی رائے نافذ نہیں کی جب تک لوگ اس معاملے میں قائل نہ ہو گئے۔
اسلام کی شورائیت کا یہ نظام صرف عرب تک ہی محدود نہ رہا بلکہ ارد گرد کے علاقوں کی فتح کے بعد ان کے عوام کو مکمل آزادی فراہم کر دی گئی۔
خلافت راشدہ کے دور کے بعد وہ دور آیا جس میں عوام الناس سے یہ حق چھین لیا گیا اور خدا کے نام پر اس کے بندوں کو ایک مخصوص طبقے کا غلام بنا دیا گیا۔ عباسی بادشاہوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انہوں نے سلطان کو ظل اللہ قرار دیا۔ ہمارے ہاں بھی اکبر بادشاہ نے خود کو اللہ کا سایہ قرار دیتے ہوئے خدائی اختیارات استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ حکمرانوں کے اس طبقے کو مذہبی راہنماؤں کی حمایت حاصل رہی۔ اس کے بدلے حکمران مذہبی راہنماؤں کو انتظامیہ اور عدلیہ میں ملازمتیں فراہم کیا کرتے تھے۔ قرآن و سنت کی تشریح پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ اگر بادشاہ کا جھکاؤ کسی مخصوص فرقے کی جانب ہوتا تو دیگر فرقوں کے افراد کے لئے زندگی تنگ کر دی جاتی۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس سب تنگ نظری کے باوجود مسلم دنیا میں اظہار رائے کی آزادی باقی دنیا کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ تھی۔
یہ مسئلہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں تھا بلکہ اس دور کے یورپ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ مسلم دنیا میں مذہبی راہنماؤں کی کوئی باقاعدہ تنظیم موجود نہ تھی مگر اس کے برعکس یورپ میں کلیسا کی صورت میں ایک مضبوط تنظیم تھی جس کا سربراہ پوپ کہلاتا تھا۔ ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک مذہبی معاملات میں پوپ کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ بادشاہوں کی تقرری بھی پوپ کے ہاتھوں ہوتی۔ کسی معاملے میں پوپ سے اختلاف رائے کا ذرہ برابر تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ ایسا کرنے والے کو زندہ جلانے کی سزا سنائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پوپ سے اختلاف رکھنے والے بالعموم مسلم دنیا میں آ کر پناہ لیا کرتے تھے۔
سولہویں سے اٹھارہویں صدی کے درمیان یورپ میں ایک غیر معمولی تبدیلی پیدا ہوئی۔ اہل یورپ کا ذہین طبقہ سائنسی اور سماجی علوم کی طرف مائل ہوا۔ انہوں نے مسلم دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں سے علم حاصل کیا اور اپنی زبانوں میں اس کے ترجمے کرنا شروع کیے۔ اس کے بعد انہوں نے اس میں اضافے کرنا شروع کیے۔ ان کے ہاں Renaissance اور Enlightenment کی تحریکیں چلیں جس میں عوام الناس کی فکری اور ذہنی سطح بلند ہوئی۔اب انہیں فکری غلام بنا کر رکھنا ممکن نہ رہا۔
جدید سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں بہت سے ایسے تصورات غلط ثابت ہوئے جنہیں اہل کلیسا نے مذہب کا درجہ دے رکھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب پر لوگوں کا اعتماد اٹھنے لگا۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے اہل کلیسا نے انتہا درجے کے ریاستی جبر و تشدد کا سہارا لیا جس کے نتیجے میں لوگوں میں کلیسا کے خلاف بغاوت کی صورتحال پیدا ہوئی۔ پروٹسٹنٹ اور کچھ اور فرقوں نے بذات خود مذہبی نظام میں اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔
یہ صورتحال تین سو برس تک برقرار رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل یورپ نے فیصلہ کر لیا کہ مذہب اور سیاست کو الگ کر دیا جائے۔ حکومت کے اجتماعی فیصلوں میں مذہب کا کوئی کردار نہ ہو۔ مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود کر دیا جائے۔ جو اسے مان کر اس پر عمل کرنا چاہے، ضرور کرے مگر اسے اجتماعی قوانین کی صورت میں ریاست کے قوت سے نافذ نہ کیا جائے۔ اس تصور کو سیکولر ازم کا نام دیا گیا۔لفظ سیکولر کا معنی ہے "دنیاوی"۔ سیکولر ازم ایسا نظام ہے جس میں اجتماعی دنیاوی معاملات میں مذہب کی مداخلت برداشت نہیں کی جاتی بلکہ تمام دنیاوی قانون خالصتاً دنیاوی طور پر بنائے جاتے ہیں۔
ترکی یورپ کے قریب واقع ہے۔ اس دور میں بہت سے یورپی ممالک عثمانی سلطنت کا حصہ تھے۔ عثمانیوں کے زوال کے د ور میں "ینگ ترکس" نامی تحریک بڑے عرصے سے کام کر رہی تھی۔ یہ تحریک جدید یورپی تصورات سے متاثر تھی جس میں سیکولر ازم اور نیشنلزم شامل تھے۔ مصطفی کمال کا تعلق بھی اسی تحریک سے تھا۔ جب انہیں حکومت کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے سیکولر ازم کو جبراً ترکی پر نافذ کرنے کی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کی کوئی ریاست سیکولر ہو سکتی ہے ؟ اس معاملے میں اسلام کا حکم کیا ہے ؟ اس معاملے میں بعض لوگ سیکولر ازم کی مکمل نفی کرتے ہیں اور اسے خدا کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگ اسلام اور سیکولر ازم کو ہم آہنگ قرار دیتے ہیں۔
اگر کوئی شخص لادین ہو یا کسی ایسے مذہب پر یقین رکھتا ہو جس میں اجتماعی احکام نہ پائے جاتے ہوں تو وہ باآسانی خود کو سیکولر قرار دے سکتا ہے لیکن ایک شخص کا خود کو بیک وقت مسلمان اور سیکولر قرار دینا ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ میں ایک سیکولر مسلمان ہوں تو گویا وہ اللہ تعالی سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے : "یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں۔ میں انفرادی زندگی میں تیرے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں البتہ اجتماعی زندگی میں میں تیرے کسی حکم کی پابندی نہیں کروں گا۔ اگر میری حکومت کوئی ایسا قانون بنائے گی جو تیرے حکم کے خلاف ہو گا تو میں تیرا حکم ہرگز نہیں مانوں گا۔" یہ سیکولر مسلمان کی زندگی میں پیدا ہو جانے والا ایک ایسا تضاد ہے جس کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ اگر خود کو سیکولر مسلمان کہنے والے کوئی صاحب اس تضاد کا حل پیش کر سکیں تو مجھے خوشی ہو گی۔حقیقت یہ ہے کہ بیک وقت ایک اچھا سیکولر انسان اور ایک اچھا مسلمان بننا ممکن نہیں ہے۔
اگر کسی ملک میں متعدد مذاہب کے لوگ رہتے ہوں اور وہ سیکولر ازم کو اختیار کر لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ مذہب ایسا معاملہ ہے جس میں انسان جذباتی ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ ہرگز قبول نہیں کر سکتا کہ اس پر کسی دوسرے مذہب کے قوانین مسلط کیے جائیں۔ ذرا دیر کے لئے تصور کیجیے کہ کسی دوسرے مذہب کا حکمران آپ پر زبردستی اپنے مذہب کو مسلط کرے تو آپ کی جذباتی کیفیت کیا ہو گی۔ یہی معاملہ مسلم ممالک میں رہنے والے غیر مسلموں کا ہے۔ انہیں بھی اپنے مذہب سے محبت ہوتی ہے۔ اگر ہم اسلام کو زبردستی ان پر مسلط کریں گے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلے گا کہ یہ لوگ اسلام ہی سے متنفر ہو جائیں گے۔
ایسی صورت میں یقیناً سیکولر ازم سے بہتر کوئی حل نہیں ہے۔ جدید دور میں اس کی بڑی اچھی مثال ہندوستان ہے جہاں بہت سے مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ اگرچہ یہاں اکثریت ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہے مگر خود ہندومت میں اس قدر فرقے ہیں کہ ہندومت نافذ کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ان کا ایک پرسنل لا ہے۔ اجتماعی معاملات کو سیکولر طریقے سے چلایا جاتا ہے۔
دین اسلام تھیوکریسی اور سیکولر ازم دونوں سے مختلف تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام میں مذہبی طبقے کے اقتدار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں پاپائیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام میں ہر شخص کا تعلق براہ راست خدا سے ہوتا ہے۔ اسے خدا سے تعلق پیدا کرنے کے لئے کسی واسطے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسلام قطعی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مذہبی شخص، خدا کے نام پر اپنا اقتدار قائم کرے۔ ایک صاحب علم کے الفاظ میں اسلام میں ہر شخص اپنا پوپ خود ہی ہوا کرتا ہے۔
دوسری طرف اسلام کا سیاسی تصور سیکولر ازم سے مختلف ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوں، اس کے تمام احکام کو مانیں اور ان پر عمل کریں۔ دین پر جزوی عمل کی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ذاتی زندگی میں تو دین کے احکام پر عمل کروں گا مگر اجتماعی زندگی میں، دین سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا۔
جدید دور میں مذہبی ریاست کے بارے میں چند اور سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ قرون وسطی میں تو بادشاہت اور مذہبی راہنماؤں کے گٹھ جوڑ سے یہ معاملہ چل گیا۔ جدید جمہوری دور میں اس کی صورت کیا ہونی چاہیے ؟ میری نظر میں اس مسئلے کا سب سے بہترین حل پاکستان کے 1973ء کے آئین میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بات سے ان لوگوں کو حیرت ہو گی جو کہ پاکستان کی ہر شے کو کمتر سمجھتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں مثال کے لئے باقی دنیا کی طرف دیکھتے ہیں۔
پاکستان آئینی طور پر ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ یہ تھیو کریٹک اسٹیٹ نہیں ہے جس میں مذہبی راہنماؤں کا ایک ٹولہ اپنی پسند و ناپسند کو خدا کے نام پر لوگوں پر مسلط کر سکے۔ آئین کے مطابق پاکستان کے قانون ساز ادارے عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں اور انہیں قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کا عالم دین ہونا ضروری نہیں ہے۔ ان کے لئے یہ طے کرنا ایک مشکل کام ہے کہ کوئی قانون بناتے ہوئے اللہ تعالی کے احکام کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک آئینی ادارہ "اسلامی نظریاتی کونسل" کے نام سے بنایا گیا ہے۔
یہ مختلف مکاتب فکر کے اہل علم پر مشتمل ایک ادارہ ہے جو پارلیمنٹ کے لئے مشاورتی کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں قوانین کے مسودوں کا شریعت کے ماخذوں کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے اور اپنی سفارشات پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان سفارشات کی روشنی میں قانون کے مسودے میں ضروری تبدیلیوں کے بعد اسے پارلیمنٹ سے منظور کروا لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شہری یہ سمجھتا ہے کہ کسی قانون کی کوئی شق قرآن و سنت کے منافی ہے تو وہ اس قانون کو آئینی عدالتوں میں چیلنج کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے اور اسلام کو ان پر زبردستی مسلط نہیں کیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ وہ ممالک جو جمہوریت اور شرعی قانون کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے پاکستان کے نظام میں ایک مثال موجود ہے۔ اس صورتحال کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔ انتخاب کے بعد ارکان پارلیمنٹ کو ضروری اخلاقی اور دینی تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو سمجھ سکیں۔
اس ضمن میں ایک اور اچھی مثال ملائشیا نے قائم کی ہے۔ ان کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ملائشیا میں حکومت کی سطح پر اسلامی قوانین نافذ ہیں مگر ان کا اطلاق صرف مسلمانوں پر کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے غیر مسلم اقلیتوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اسلام کو ان پر جبراً مسلط کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی مذہبی آزادی برقرار رہتی ہے اور انہیں اپنی آزادانہ مرضی سے اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کا موقع حاصل رہتا ہے۔ مسئلے کا یہ حل کوئی نیا نہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں یہود پر تورات ہی کے قوانین نافذ کیے جاتے تھے۔ مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں یہی حل اختیار کیا گیا۔ اسلام کو جبراً مسلط کر دینے سے غیر مسلموں کے دل میں اسلام کی محبت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے برعکس ایسا کرنا انہیں اسلام سے دور لے جا سکتا ہے۔
ایک مذہبی جمہوری ریاست میں ایک مسئلہ اور پیدا ہو جاتا ہے۔ تجربے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی راہنما اگر سیاست میں آئیں تو وہ سیاست کو تو کیا دین کے مطابق کریں گے، وہ خود سیاست کی کرپشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں مذہبی سیاستدانوں میں سیکولر سیاستدانوں سے شاید زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ انہیں سڑکوں پر لا کر دوسروں کی حق تلفی کروائی جاتی ہے۔ پرمٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ عوام کے فنڈز خورد برد کیے جاتے ہیں۔ مذہب کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ خدا کے نام پر نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں۔لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ لاشوں کی سیاست کی جاتی ہے۔ یہ سب وہ کرتے ہیں جو خود کو "اسلامی سیاستدان" کہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ صورتحال صرف مذہبی ریاست کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ سیاست میں اس قسم کی کرپشن مذہبی اور سیکولر ہر قسم کی ریاستوں میں پائی جاتی ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک موجود ہیں جو خود کو سیکولر کہتے ہیں اور وہاں مذہب نہیں بلکہ کسی اور نام سے اسی طرح کی کرپشن پائی جاتی ہے۔ اس کا حل سیاست اور مذہب کو الگ کرنا نہیں ہے بلکہ معاشرے کی اخلاقی تربیت ہے جس کا تقاضا نہ صرف تمام مذاہب کرتے ہیں بلکہ خود جدید سیکولر معاشروں میں اس کو بے پناہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ترکی ایسا ملک ہے کہ جس کی 99 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اوپر دی گئی تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ مصطفی کمال نے مغرب کی اندھی تقلید میں ترکی پر جو سیکولر ازم مسلط کیا اور مذہب کو زندگی کے ہر معاملے سے نکالنے کی جو کوشش کی، اس کے نتیجے میں ترکی میں ایک عجیب قسم کا تضاد اور منافقت پیدا ہو گئی ہے۔ اہل ترکی بڑے فخر سے خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ اپنے انفرادی معاملات میں یہ اللہ کے احکام کی پیروی کرتے ہوں گے مگر اجتماعی معاملات میں اس کے احکام کی پیروی نہیں کی جاتی۔ اس طرح گویا اہل ترکی اللہ تعالی سے کہہ رہے ہوتے ہیں: "یا اللہ! ہم تیرے بندے ہیں۔ اپنی انفرادی زندگی میں تو ہم تیرے ہر حکم کی پیروی کریں گے مگر جہاں اجتماعی معاملات درپیش ہوں گے، وہاں ہم تیرے بندے نہیں رہیں گے۔ "
ہمارے برصغیر کے لوگ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پر بڑے جزبز ہوئے اور انہوں نے 1919ء میں ایک بہت بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ان کے خیال میں یہ خلافت کا خاتمہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کا خاتمہ دور صحابہ ہی میں ہو گیا تھا۔ اس کے بعد کی تاریخ میں بعض ادوار ایسے ضرور ہوئے جو خلافت راشدہ سے بہت قریب تھے مگر مسلمانوں کی مجموعی تاریخ میں خلافت راشدہ دوبارہ لمبے عرصے کے لئے قائم نہ ہو سکی۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمان بادشاہ خود کو خلیفہ قرار دیتے رہے اور اپنی ذات اور خاندان کو چھوڑ کر باقی لوگوں پر اسلام کا نفاذ کرتے رہے۔ یہی معاملہ بعد کی بادشاہتوں میں جاری رہا۔
عثمانی بادشاہت بھی دیگر بادشاہتوں کی طرح ایک شاہی نظام تھا جو اپنے آخری سانس لے رہا تھا۔ اتحادی افواج نے جب ترکی کے مقبوضات کو فتح کیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تو ترکی کے پاس بس یہی جزیرہ نما اناطولیہ باقی رہ گیا۔ اس علاقے میں انہوں نے بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ اس دور میں دنیا میں اور بھی بہت سی بادشاہتیں ختم ہوئی تھیں۔ یہ اہل ترکی کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ترکی کی خلافت بس نام ہی کی خلافت تھی۔
دین اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ بقرہ، نساء، نور، احزاب اور طلاق کا مطالعہ کرتے چلے جائیے۔ اس میں ہمیں جگہ جگہ خواتین کے حقوق کا تحفظ ہی ملے گا۔ یہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحیح احادیث کا ہے۔
قرون وسطی کے مسلم معاشروں میں غیر مسلم دنیا کی طرح جاگیرداری نظام کو رائج کیا گیا۔ اس نظام میں خواتین کے بہت سے حقوق سلب کر لیے گئے۔ انہیں مردوں کے مقابلے میں کمتر بنا دیا گیا۔ زندگی کے معاملات میں ان کا رول ختم کر دیا گیا۔ اس صورت کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مصطفی کمال نے ترکی میں خواتین کو ووٹ اور ملازمت کے حقوق دیے جو کہ ایک مستحسن اقدام تھا۔
خواتین کو حقوق دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک ہٹلر کی طرز کے فاشسٹ ڈکٹیٹر کا طرز عمل اختیار کیا۔ انہوں نے حجاب پر پابندی عائد کر دی۔ خواتین کو مجبور کیا جانے لگا کہ اگر وہ ملازمت یا تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیں تو وہ ایسا مغربی لباس پہنیں جس میں عریانی کا عنصر نمایاں ہو۔ کمال ازم کے حامیوں نے بدکاری کو جائز قرار دے دیا۔ انہوں نے برہنہ ساحلوں کو فروغ دیا اور نائٹ کلبوں میں برہنہ رقص، اسٹرپ ٹیز اور عصمت فروشی کو پروان چڑھایا۔ ان کے ہاں اگر ایک خاتون کم لباسی کا مظاہرہ کرنا چاہے تو قانون اسے نہیں روک سکتا البتہ اگر کوئی خاتون اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھنا چاہے تو سیکولر ازم کے علم بردار ہمارے مولویوں کی طرح "سیکولر ازم خطرے میں ہے " کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔
ان اقدامات کے نتیجے میں ان حضرات نے خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو تو مغربی لباس پہننے پر مجبور کر دیا ہے مگر وہ ان کے دلوں سے حیا کو اس حد تک نہیں نکال سکے کہ وہ مکمل مغربی ہو جائیں۔ ترکی میں خاندانی نظام اب بھی بہت مضبوط ہے۔ ظاہر ہے کہ مصطفی کمال کے ان اقدامات کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فاشزم اور انتہا پسندی خواہ مذہب کے نام پر کی جائے یا سیکولر ازم کے نام پر، یکساں طور پر قابل مذمت ہے۔
اس معاملے میں سیکولر حضرات کے ہاں ایک عجیب قسم کی منافقت پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی نام نہاد مذہبی گروہ مذہب کے نام پر لوگوں پر جبر و تشدد کرتا ہے تو یہ لوگ لنگوٹ کس کر میدان میں آ جاتے ہیں اور انسانی آزادی کی دہائی دیتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اگر مصطفی کمال ایک فاشسٹ حکمران کا کردار ادا کرتے ہوئے حجاب پر پابندی عائد کرتے ہیں تو یہ لوگ انہیں ہیرو قرار دیتے ہیں۔ اس وقت انسان کی شخصی آزادی کے سارے اسباق انہیں بھول جاتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بھی مذہبی لوگوں کی دوہرے معیارات موجود ہیں۔ جہاں اپنا فائدہ ہو، وہاں دونوں انسانیت اور مذہب کا درس دیتے نظر آتے ہیں اور جب اپنے مفاد پر ضرب پڑتی ہو تو پھر دوسرا معیار اختیار کر لیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس فاشسٹ مذہبی گروہوں کے خلاف خود دین دار طبقے میں ایک مضبوط آواز موجود ہے۔ اگر کوئی مذہبی گروہ اپنا نقطہ نظر لوگوں پر مسلط کرتا ہے تو دین دار طبقے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ وہ فاشسٹ مذہبی گروہوں کی غلطی واضح کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کسی پر اپنا نقطہ نظر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے برعکس سیکولر حضرات نے شاید ہی کبھی اپنے فاشسٹوں کی مخالفت کی ہو۔
ایک غیر جانبدار شخص یہ مشاہدہ کر سکتا ہے کہ اس معاملے میں اہل مذہب، سیکولر حضرات کے مقابلے اخلاقی اعتبار سے بہت بلند مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔
عثمانی دور میں اشرافیہ کا طبقہ بہت مضبوط تھا۔ جو شخص بادشاہوں کے جتنے قریب ہوتا، اس کا درجہ اتنا ہی بلند سمجھا جاتا۔ مصطفی کمال نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ انہوں نے ایلیٹ ازم کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے لئے انہوں نے عثمانی دور کے القابات اور عہدوں کو خلاف قانون قرار دیا۔ یقینی طور پر یہ ایک اچھا کام تھا مگر اس کے نتیجے میں ترکی میں ایلیٹ ازم کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ ان کے ان اقدامات کے نتیجے میں عثمانی دور کی اشرافیہ تو شاید ختم ہو گئی مگر جدید ری پبلکن دور کی اشرافیہ پیدا ہو گئی جو اس وقت ترکی کے اقتدار پر قابض ہے۔
مصطفی کمال نے زبان سے متعلق کچھ ایسے اقدامات کیے جن کی مثال شاید ہی کسی قوم کی تاریخ میں ملتی ہو گی۔ عثمانی عہد میں ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ کمال نے ترکی کو عربی کی بجائے رومن رسم الخط میں لکھنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عربی اور فارسی الفاظ کو ترکی زبان سے نکالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہبی تصورات کو عربی کی بجائے ترکی الفاظ میں بیان کیا جائے۔ انہوں نے نماز، اذان اور تلاوت قرآن کو عربی زبان کی بجائے ترکی زبان میں ادا کرنے کا حکم دیا۔
کمالسٹ اس بات میں تو کامیاب ہو گئے کہ ترکی کو رومن رسم الخط میں لکھا جا سکے مگر وہ دینی معاملات میں دخل اندازی میں ناکام رہے۔ عربی زبان میں نماز، اذان اور قرآن کے معاملے میں انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور خود کمال کی زندگی میں ہی اس حکم کو واپس لے لیا گیا۔
کمال کا یہ اقدام بدیہی طور پر غلط تھا۔ یہ واضح طور پر ترک قوم کو اپنے ماضی سے کاٹ دینے کی کوشش تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی جوان شخص کے سر پر ہتھوڑا مار کر اس کی یادداشت گم کر دی جائے۔ اس کے بعد وہ شخص اپنے ماضی کے تجربات اور ان کے نتائج سے مکمل طور پر محروم ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ ترک قوم کے ساتھ ہوا۔ انہیں ان کے اسلامی ماضی سے کاٹ کر پوری طرح مغرب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ ترک معاشرے میں اسلام کی جڑیں بہت ہی گہری تھیں لہذا اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترک معاشرہ آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر رہ گیا۔ مسلمان ترکوں کو مغرب زدہ سمجھتے ہیں اور اہل مغرب انہیں اسلامی قرار دے کر ان سے فاصلہ رکھتے ہیں۔
کمال نے ایک طرف تو بادشاہت کو ختم کرتے ہوئے جمہوریت قائم کرنے کی دعوی کیا مگر ان کا جمہوری تصور مغرب کے عام جمہوری نظام کی بجائے ہٹلر اور مسولینی کے ماڈل پر مشتمل تھا۔ ترکی میں صرف ایک سیاسی پارٹی کے قیام کی اجازت دی گئی جو کہ کمال کی اپنی پارٹی تھی۔ انہوں نے اختلاف رائے کو سختی سے کچل دیا اور پارٹی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی۔
ترکی کے تعلیمی نصاب میں کمال اور کمال ازم کو اس طریقے سے داخل کر دیا گیا کہ کمال کی شخصیت مقدس رنگ اختیار کر گئی اور ان سے معمولی سا اختلاف بھی جرم قرار پایا۔ موجودہ دور میں بھی ترکی کے سیکولر کمالسٹ، کمال کو کسی پیغمبر سے بھی بلند درجہ دیتے ہیں اور ان کی کسی بات پر تنقید کو برداشت نہیں کرتے۔
کمال نے ترکی میں ایسی اشرافیہ پیدا کر دی جس کی رگوں میں کمال ازم بری طرح رچ بس گیا۔ اشرافیہ کا یہی طبقہ ترک حکومت، فوج اور عدلیہ میں اہم عہدوں پر قابض ہو گیا اور انہوں نے اپنے مخالفین کو کچلنے کے لئے مختلف ادوار میں حکومت کی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ اس کے رد عمل میں ایسے لوگ جو دین اسلام کو اپنی زندگی میں اہمیت دیا کرتے تھے، منظم ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے فاشزم کے خلاف جدوجہد کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔
اس جدوجہد کی تفصیلات پر ہمیں اردو میں کوئی غیر جانبدار تحریر نہیں مل سکی۔ ہمارے مذہبی لوگوں کی زیادہ تر تحریریں کمال ازم کی مذمت اور تردید میں لکھی گئی ہیں جبکہ سیکولر حضرات نے کمال کو پیغمبر بنا کر پیش کیا ہے۔ انگریزی زبان میں رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ مل گئی جس میں بڑی غیر جانبداری سے اس تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کا نام ہے The Rise of Political Islam in Turkey۔ یہ رپورٹ اینجل راباسا اور ایف اسٹیفین لارابی نے مرتب کی ہے۔ انہوں نے دقت نظر سے ترکی کی پوری ری پبلکن تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔ یہاں ہم اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں:
کمال ازم نے مغربی اناطولیہ کے شہری علاقوں میں تو جگہ بنا لی مگر دیہات میں اس کا اثر و نفوذ کم رہا۔ حکومتی سطح پر کئے جانے والے اقدامات کا رد عمل یہ ہوا کہ اسلام پسندوں میں دین کو بچانے کا جذبہ پوری طرح بیدار ہو گیا۔ ترکی میں متعدد تحریکیں پیدا ہوئیں جنہوں نے حکومت کو چھوڑ کر عوام پر اپنی توجہ مبذول کی۔ ان تحریکوں نے ترکوں میں اسلامی شناخت کا احساس پیدا کیا اور دینی تعلیم کو غیر رسمی انداز میں فروغ دیا۔
اس زمانے میں ترکی میں بہت سی دینی شخصیات کا ظہور ہوا۔ ان بزرگوں میں بدیع الزمان سعید نورسی (1873-1960) شامل تھے۔ انہوں نے 6000 صفحات پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ نورسی نہ صرف ایک عالم دین اور صوفی تھے بلکہ انہوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی ہوئی تھی۔ انہوں نے جدید ذہن کو مد نظر رکھتے ہوئے دور جدید کے مسائل پر بہت کچھ لکھا۔ انہوں نے مذہب اور سائنس کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور دین کے مسلمات کو عقل سے ثابت کیا۔ انہیں کمالسٹ حکومت کی جانب سے سخت مخالفت اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں طویل عرصے تک قید اور جلاوطنی کی سزا کاٹنا پڑی مگر یہ صعوبتیں ان کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا کرنے سے قاصر رہیں۔
نورسی اور ان جیسے دیگر بزرگوں نے حکومت کے جبر و تشدد کے باوجود ترک معاشرے میں اسلام کا چراغ جلائے رکھا۔ 1938ء میں کمال کی وفات کے بعد ان کے دیرینہ ساتھی عصمت انونو نے ان کی جگہ سنبھالی۔ انونو کمال سے بھی بڑھ کر انتہا پسند ثابت ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا بلکہ ترکی میں موجود دیگر اقلیتی گروہوں جیسے کردوں اور آرمینیوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی۔ ان کے ان اقدامات کے نتیجے میں پورے ترکی میں کمالسٹوں کے خلاف فضا پیدا ہو گئی۔ حکومت کو1946 ء میں ملٹی پارٹی سسٹم کی اجازت دے دی۔ 1950ء میں عدنان مینڈرس کی جمہوری پارٹی نے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ یہ کمالسٹوں پر مشتمل جمہوریت ہالک پارٹی (CHP) کی پہلی شکست تھی۔
عدنان مینڈرس نے کسی حد تک کمالسٹوں کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے مذہبی گروہوں کو کام کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کردوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔کمالسٹ اس تبدیلی کو برداشت نہ کر سکے اور ترکی کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ 1961ء کے آئین میں جماعت بندی کی آزادی دے دی گئی جس کے نتیجے میں بہت سی غیر سیاسی مذہبی جماعتیں اور صوفی سلسلے کام کرنے لگے۔
1970ء کے عشرے میں ترکی میں سول وار شروع ہوئی جس کے ذمہ دار کمیونسٹ اور بائیں بازو کے عناصر تھے۔ فوجی حکومت نے ان سے مقابلہ کرنے کے لئے مجبوراً اسلام پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور قرآن کلاسز کا اجراء کیا گیا۔ اس دور میں ترک نیشنلزم اور اسلام کے تصورات کو ملا کر ایک آئیڈیالوجی تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ اگرچہ ترکی ایک کٹر سیکولر ریاست تھی مگر اس میں اسلام پسند عناصر کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔
1980ء کے عشرے میں وزیر اعظم ترگت اوزال نے بہت سی معاشی اصلاحات کیں جن کے نتیجے میں اسلام پسندوں کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ اس سے پہلے ترکی کی معیشت پر زیادہ تر کنٹرول حکومت کا تھا۔ انہوں نے پرائیویٹ سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔ اس کے نتیجے میں امیر مذہبی لوگوں نے سرمایہ کاری کرنا شروع کی اور بہت سے کاروباروں پر چھا گئے۔ بہت سے پرائیویٹ اسکول اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں جن میں سے بہت سی اسلام پسندوں کی ملکیت تھیں۔ متعدد ٹیلی وژن چینل قائم ہوئے جس کے نتیجے میں اسلام پسندوں کو اپنا پیغام پہنچانے کا موقع مل گیا۔
صنعتوں کے قیام کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ دیہات سے لوگ شہروں کی طرف منتقل ہونے لگے۔ ترکی کے زیادہ تر شہر مغرب زدگی کی لپیٹ میں آ چکے تھے جبکہ ان کے دیہات میں ابھی تک دین کو اہمیت دی جاتی تھی۔ جب یہ دیہاتی شہروں میں آئے تو انہیں بالکل ہی مختلف ماحول سے سابقہ پڑا۔ دوسری طرف شہر میں سیٹل ہونا ان کے لئے آسان نہ تھا۔ ان کے مسائل کے حل کے لئے اسلام پسند سیاسی جماعتوں کے کارکن آگے بڑھے۔ انہوں نے دیہات سے آنے والوں کو نوکری کی تلاش سے لے کر تعلیم اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام پسند جماعتوں کو عوام میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔
اس پورے عرصے میں سماجی سطح پر "ملی گورش" تحریک چل رہی تھی جو کہ بدیع الزمان سعید نورسی کے نظریات کی پرچارک تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں بہت سے لوگ دین کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ اس تحریک کے سابق کارکنان میں نجم الدین اربکان بھی شامل تھے۔ انہوں نے قومی آرڈر پارٹی یا MNP کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی جسے فوج نے مداخلت کر کے خلاف قانون قرار دے دیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1972ء میں قومی نجات پارٹی یا MSP کی بنیاد رکھی۔ ان کا نعرہ تھا کہ ترکی کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی طرف واپس جایا جائے۔
1973ء کے الیکشن میں MSP نے تیسری پوزیشن حاصل کی اور کمالسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ بعد میں یہ لوگ سلیمان ڈیمرل کی حکومت میں شریک رہے۔ 1980ء میں فوج نے مداخلت کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مارشل لا نافذ کر کے MSP کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ اس کے بعد اربکان نے 1983ء میں نئی رفاہ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
اسلام پسندوں نے عوامی فلاح و بہبود کے پراجیکٹس کے ذریعے ان کی حمایت حاصل کرنے کی اپنی حکمت عملی کو جاری رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1994ء کے بلدیاتی انتخابات میں رفاہ پارٹی نے 28 شہروں میں اکثریت حاصل کر لی جن میں استنبول اور انقرہ بھی شامل تھے۔ 1995ء کے قومی انتخابات میں بھی رفاہ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو گئی جس کے نتیجے میں اربکان وزیر اعظم بن گئے۔
رفاہ پارٹی کی کامیابی کی اصل وجہ اس کا عوامی نیٹ ورک تھی۔ یہ نیٹ ورک قائم کرنے میں اس کی خواتین ورکرز کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان خواتین نے گھر گھر جا کر تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کیں جس کی وجہ سے رفاہ پارٹی کے عوامی نیٹ ورک کو غریب طبقے میں فروغ حاصل ہوا۔
ترکی کی فوج نے نیشنل سکیورٹی کونسل کے نام سے ادارہ قائم کیا ہوا ہے جس کے ذریعے فوج نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہی تجربہ پاکستان کے ایک فوجی ڈکٹیٹر نے کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1997ء میں اس کونسل نے اربکان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا اور اگلے برس رفاہ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے بعد فوج نے کھلے عام اسلام پسندوں کے نظریات کے خلاف مہم چلانا شروع کر دی۔ اربکان نے فضیلت پارٹی کے نام سے ایک اور پارٹی بنائی جس پر آئینی عدالت نے 2001ء میں پابندی عائد کر دی۔
اس کے بعد اسلام پسندوں کے دو حصے ہو گئے۔ ایک حصہ سعادت پارٹی اور دوسرا انصاف و ترقی پارٹی (AKP)کی صورت اختیار کر گیا۔ ترکی میں اسلام پسند پارٹیوں کی تاریخ کو اوپر کے چارٹ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
2002ء کے انتخابات میں AKP کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ انہیں 34% ووٹ ملے جبکہ دوسرے نمبر آنے والی کمالسٹ پارٹی CHP کو محض 19% ووٹ مل سکے۔ اربکان مغربی ممالک کے سخت خلاف تھے اور ان کی نظریاتی بنیاد ہی مغرب کی مخالفت پر تھی۔ اس کے برعکس AKP نے مغربی ممالک سے اچھے تعلقات قائم رکھے اور مغرب کی سیاسی اقدار جیسے انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کے احترام پر زور دیا۔ AKP کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عوام سیکولر پارٹیوں کی کرپشن سے سخت نالاں تھے اور اب تبدیلی چاہتے تھے۔ AKP نے اپنے دور اقتدار میں عوام کی خدمت کو نصب العین بنایا جس کے نتیجے میں 2007ء کے انتخابات میں انہیں پہلے سے بڑھ کر کامیابی ملی۔ انہوں نے 46% ووٹ حاصل کئے اور بغیر کسی سے اتحاد بنائے یہ پارٹی حکومت بنانے کے قابل ہو گئی۔
ترکی میں اسلام پسند پارٹیوں کے انتخابی نتائج کی تفصیل نیچے کے چارٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس کے بعد سے لے کر اب تک AKP کی حکومت ہے۔ مذہبی ترکوں کی اس جدوجہد میں ہمارے ملک کی مذہبی جماعتوں کے لئے کچھ سبق موجود ہیں۔
سب سے پہلا سبق تو یہ کہ کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہماری مذہبی اور غیر مذہبی سیاسی جماعتوں نے کبھی عوام کے اصل مسائل کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ عوام کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آئین میں کیا تبدیلیاں کی جائیں؟ اختیارات صدر کے پاس ہوں یا وزیر اعظم کے ؟ عوام کا اصل مسئلہ کرپشن، مہنگائی، بجلی کی فراہمی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس طریقے پر عمل کر کے ترکی کی اسلام پسند جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر ہماری مذہبی جماعتیں واقعتاً دین اور ملک سے مخلص ہیں تو انہیں بھی یہی روش اختیار کرنی چاہیے۔
لیکن افسوس کہ ہماری مذہبی جماعتوں کا تصور مختلف ہے۔ ان کے خیال میں چونکہ وہ دین کا نام استعمال کرتے ہیں، اس وجہ سے تمام مسلمانوں کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ انہیں ووٹ دیں۔ جو انہیں ووٹ نہیں ڈالتا، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا کم از کم انتہائی گناہ گار ہوتا ہے۔ پچھلے الیکشن میں ایک صاحب نے تو یہ فتوی جاری کیا کہ ان کا انتخابی نشان "کتاب" قرآن مجید ہے۔ جو اسے ووٹ نہیں دے گا، اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ لیکن لوگوں نے اس فتوے کو کوئی اہمیت نہ دی۔اسلام میں سیاست عوام کی خدمت کا نام ہے۔ جو عوام کی خدمت میں جتنا مخلص ہو گا، اس کی سیاست اتنا ہی اسلام کے قریب ہو گی۔
اس جدوجہد میں دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ مذہبی حضرات کو سیکولر لوگوں کی نسبت بہتر اخلاق اور کردار کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ترکی کی سیاست میں سیکولر سیاست دان کرپشن اور بددیانتی کا نشان بن کر رہ گئے تھے۔ مذہبی سیاست دانوں نے اچھے کردار کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے انہیں عوام کی حمایت حاصل ہوئی۔ بدقسمتی سے ہمارے مذہبی اور سیکولر سیاستدان کرپشن میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ترکی کے مذہبی سیاستدانوں کی جدوجہد کا تیسرا سبق یہ ہے کہ پوری تیاری کے بغیر طاقتور سے ٹکرانے کے نتیجے میں نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔ ترکی کی فوج اور اشرافیہ میں سیکولرازم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں کے مذہبی سیاست دانوں نے متعدد بار سیکولر فاشزم کا براہ راست مقابلہ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں انہیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ہاں بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس ضمن میں بڑی مناسب حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ اس کی بجائے اگر ہمارے راہنما پوری توجہ اپنی تعمیر پر دیں تو کچھ ہی عرصے میں وہ اس مقام پر آ سکتے ہیں جہاں وہ کوئی مثبت کردار ادا کر سکیں۔
ترکی میں سیکولر فاشزم کے ذریعے مذہب کو محدود کرنے کی بے پناہ کوشش کے باوجود یہاں مذہب کس درجے میں موجود ہے، اس کے بارے میں اسلام کے مشہور ناقد، لیوس برنارڈ کا یہ تبصرہ قابل غور ہے :
اسلام کی جڑیں ترکی کے عوام میں بہت گہری ہیں۔ اپنی ابتدا سے لے کر زوال تک سلطنت عثمانیہ اسلام کے پرچار یا دفاع سے وابستہ رہی ہے۔ ۔ ۔ ویسٹرنائزیشن کی ایک صدی کے دوران، ترکی میں ایسی بڑی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں جن کے بارے میں ایک باہر کا شخص سوچ بھی نہیں سکتا مگر اسلام کی جڑیں ترکوں کی زندگی اور ثقافت میں زندہ ہیں اور ترک مسلم کی شناخت کو اب بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ (The Emergence of Modern Turkey)
سامسن بلیک سی پر واقع ترکی کی بڑی بندرگاہ ہے۔ یہ دو دریاؤں "کی زی لرمارک" یا سرخ دریا اور "یی زی لرمارک" یا سبز دریا کے درمیان کے ڈیلٹا میں واقع ہے۔ یونانی دیو مالا کے مطابق سامسن، امیزان (Amazons) کی فوج کا علاقہ ہے۔ یہ خواتین پر مشتمل فوج تھی جنہیں کڑی جنگی تربیت دی جاتی اور کمان چلانے کے لئے ان کی ایک چھاتی کاٹ دی جاتی۔ بہرحال یہ کوئی تاریخی حقیقت نہیں بلکہ محض دیو مالا ہی تھی۔ سامسن میں ترکی کی گیس کی تنصیبات ہیں۔ یوکرائن سے بحیرہ اسود کے نیچے سے ایک گیس پائپ لائن سامسن آ کر نکلتی ہے۔
ہم لوگ رات کے اندھیرے میں سامسن پہنچے تھے۔ اس وجہ سے شہر کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر سکے۔ کچھ دیر ہوٹل تلاش کرنے میں لگ گئی۔ ایک ہوٹل ملا جو کہ کافی مہنگا محسوس ہوا۔ قریب ہی ایک صاحب کھڑے تھے۔ میں نے ان سے ہوٹل کے بارے میں پوچھا۔ بولے، "آپ کو عربی آتی ہے۔ " اس کے بعد کہنے لگے، "میں ٹیکسی چلاتا ہوں۔ آپ کو ہوٹل چھوڑ دیتا ہوں۔" ہم ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ یہ ہمیں ایک ہوٹل میں لے آئے جو کہ اسٹینڈرڈ کے اعتبار سے کوئی خاص نہ تھا مگر کرایہ زیادہ تھا کیونکہ ہوٹل والے نے ٹیکسی والے کو کمیشن بھی ادا کرنا تھا۔ کچھ بحث و تمحیص کے بعد 70 لیرا پر معاملہ طے پایا۔
کمرے میں سامان رکھ کر میں کھانا خریدنے نکلا۔ ترکی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کے شہر بہت جلدی بند ہو جاتے تھے۔ ابھی ساڑھے نو بجے تھے مگر شہر میں ہو کا عالم تھا۔ کھانے کے چند ایک ہوٹل کھلے تھے۔ میں ایک ہوٹل میں داخل ہوا۔ یہاں مختلف تھالوں میں کچھ ڈشیں پڑی ہوئی تھیں۔ یہاں چپاتی بھی دستیاب تھی۔ میں نے اس کا نام بھی پوچھ لیا تاکہ آئندہ آسانی ہو۔ معلوم ہوا کہ اسے "لَوَش" کہتے ہیں۔ میں نے مکس سبزی کی ایک ڈش پیک کروائی اور واپس کمرے میں آ گیا۔
ڈرتے ڈرتے کھانا چکھا تو قابل برداشت محسوس ہوا۔ کھانا کھا کر ہم جلد ہی سو گئے۔ ناشتہ کمرے کے کرائے میں شامل تھا۔ صبح اٹھ کر ناشتے کے لئے پہنچے تو وہی لکڑی کے بن اور ان کے ساتھ شہد، پنیر اور مکھن تھا۔ ہوٹل میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب تھی۔ میں نے وائرلیس کے ذریعے اپنے لیپ ٹاپ پر انٹرنیٹ لگا کر ای میلز چیک کیں اور پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اخبارات میں پاکستان سے متعلق ایک ہولناک خبر ہمارے سامنے تھی۔
بعض انتہا پسندوں نے گوجرہ میں ایک عیسائی بستی کو آگ لگا دی تھی جس میں بہت سے افراد جل کر جان بحق ہو گئے تھے۔ اس شرم ناک کاروائی کے لئے بہانہ توہین رسالت کو بنایا گیا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام پر ایسی کاروائیاں کر رہے ہیں کہ جن کے نتیجے میں اسلام بدنام ہو۔ اگر کسی جاہل نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا بھی ہو تو اسے سزا دینے کے لئے ملک میں قانون موجود ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے خود کاروائی کرنا اور بے گناہ افراد کو جلا کر ہلاک کر دینا ایسا جرم ہے جس کی کوئی گنجائش نہ اسلام میں موجود ہے اور نہ ہی کسی اخلاقی ضابطے میں۔ مجھے یقین ہے کہ ان مجرموں کے خلاف قیامت کے دن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعوی دائر کریں گے کیونکہ یہ لوگ آپ کے مقدس نام پر انسانیت کے خلاف ظلم کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں توہین رسالت کے قانون کا جس قدر غلط استعمال کیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں ناموس رسالت کی پاسبانی کا فریضہ تو ہم کیا سرانجام دیتے، ہم نے غیر مسلموں میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کے خلاف نفرت کا بیج اپنے ہاتھوں سے بویا ہے۔ اس غلط استعمال کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ذاتی جھگڑوں میں لوگ توہین رسالت کا غلط الزام لگا کر مخالف کو سزا دلوانے پر تل جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے دین قسم کے لوگ اس قانون ہی کو ہدف بنا لیتے ہیں۔
توہین رسالت، بدکاری کے مقابلے میں ایک بہت ہی بڑا جرم ہے۔ اگر کوئی کسی پر بدکاری کا غلط الزام عائد کرے تو اس کی سزا اسی کوڑے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بدکاری سے کئی گنا بڑے جرم کا الزام عائد کرنے پر ہمارے ہاں کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اگر قانون کے اس غلط استعمال کو روکنے کی بات کی جائے تو مذہبی لوگ اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے میدان میں آ جاتے ہیں۔ افسوس کہ ان کا سارا کاروبار ہی نفرت کی بنیاد پر چلتا ہے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحمت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
اس معاملے میں ایک انتہا تو یہ ہے اور دوسری انتہا وہ ہے جس کی بدولت بے دین قسم کے لوگ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کرتے پھرتے ہیں۔ اس تبصرے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو ختم کیا جائے۔ اللہ کے کسی پیغمبر کے ساتھ کوئی شخص اگر گستاخی کا معاملہ کرے تو کسی بھی صاحب ایمان کی غیرت اسے گوارہ نہیں کر سکتی۔ اس قانون کو یقیناً برقرار رہنا چاہیے اور حکومت کے ذریعے اسے پوری قوت سے نافذ کیا جانا چاہیے تاکہ کسی کو ایسی جسارت کرنے کی جرأت نہ ہو سکے۔ مگر اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے جن کی وجہ سے کوئی بد دیانت انتہا پسند اس قانون کا غلط استعمال نہ کرتے ہوئے کسی بے گناہ کو سزا نہ دے سکے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسلامی قوانین بدنام نہ ہوں۔
ناشتے سے فارغ ہو کر ہم بازار میں نکلے جو کہ ہوٹل کے گرد و نواح میں واقع تھا۔ یہ بازار پتلی پتلی گلیوں پر مشتمل تھا۔عجیب بات یہ تھی کہ ان گلیوں میں بھی بسیں چل رہی تھیں۔ یہاں گوشت کی کچھ دکانیں تھیں اور ان میں ذبح شدہ بکروں کو شو رومز میں کچھ اس طریقے سے ڈسپلے کیا گیا تھا جیسے یہ کوئی جدید فیشن کے ملبوسات ہوں۔ یہاں ایک عجیب چیز نظر آئی۔ قیمے کے سینگ نما لمبے لمبے رول گچھوں کی صورت میں شو رومز میں لٹکائے گئے تھے۔ اسے غالباً کسی خاص ڈش میں استعمال کیا جاتا ہو گا۔
ایک دکان سے پھل خرید کر ہم گاڑی میں آ بیٹھے اور شہر سے باہر جانے والی سڑک کی طرف روانہ ہو گئے۔ ایک صاحب سے ترابزن جانے والی سڑک کا پوچھا۔ انہوں نے ترکی زبان میں نجانے کیا تقریر شروع کر دی۔ خلاصہ یہ تھا کہ ساحل یولو پر چلے جائیے۔ معلوم ہوا کہ یہاں بھی ساحل کو ساحل ہی کہا جاتا ہے۔ اب ہم پرانے شہر کی طرف جا رہے تھے۔ ایک جگہ گاڑی روکی تو ہر طرف پرانے مکانات تھے۔ ایک مکان کی بالکونی میں ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے جن کی عمر 80 سال کے لگ بھگ ہو گی۔ قریب ہی ان کی ہم عمر شریک حیات صفائی کر رہی تھیں اور پان کھانے کے انداز میں منہ چلا رہی تھیں۔ دونوں کے چہروں پر ایک دوسرے کے لئے محبت کے تاثرات تھے۔ کاش ایسا رومانس ہمارے ہر جوڑے کو نصیب ہو تو زندگی کتنی آسان ہو جائے۔
مختلف سڑکوں سے گھومتے ہوئے ہم بالآخر ساحل یولو پر آ پہنچے۔ اب ہماری نظروں کے سامنے بلیک سی تھا جو واقعتاً سیاہ نظر آ رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا یہ رنگ بس یہیں تک محدود ہے۔ آگے جا کر اس کا پانی نیلا ہی ہو جاتا ہے۔ یہاں بحری جہازوں کا ایک میوزیم بنا ہوا تھا جس میں متروک بحری جہازوں کو سجا سنوار کر کھڑا کر دیا گیا تھا۔سامسن سے متعلق بروشرز میں یہاں مصطفی کمال کی ذاتیات سے متعلق ایک میوزیم کا ذکر بھی تھا جس میں ہمیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے ہم شہر سے باہر نکلتے گئے۔ اب ہم ترابزن کے بورڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے ساحل یولو پر سفر کر رہے تھے۔ ہمارے دائیں جانب سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑ تھے اور بائیں جانب سمندر۔ یہ نظارہ ہمارے لئے نیا تھا کہ سمندر اور اتنا ڈھیر سا سبزہ ایک جگہ اکٹھا ہو۔
آسمان پر گھنے بادل اکٹھے ہو رہے تھے۔ اچانک ہی تیز بارش شروع ہو گئی۔ بارش میں سبز پہاڑ گویا نہا رہے تھے اور بارش کے یہی قطرات سمندر میں بھی تلاطم پیدا کر رہے تھے۔ کچھ دور جا کر ہم سمندر سے دور ہونے لگے۔ اب ہم سبز دریا کے اوپر سے گزر رہے تھے۔ یہ "چار شمبا" کا قصبہ تھا۔ یہاں لکڑی کی بنی ہوئی ایک مسجد تھی جس کا سن تعمیر 1206ء تھا۔ اس مسجد کا نام "گوک چیلی مسجد" تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی تعمیر میں دھات کا کوئی کیل استعمال نہ ہوا تھا۔
میں نے تو جیسے تیسے ناشتہ کر لیا تھا مگر میری اہلیہ اور بیٹی نے صحیح طور پر ناشتہ نہ کیا تھا۔ کسی متوقع ہنگامے سے بچنے کے لئے میں نے ایک پٹرول پمپ پر واقع ریستوران پر گاڑی روک دی۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت مقام تھا۔ سبز پہاڑوں کے دامن میں کھیتوں کے درمیان یہ ریستوران بنا ہوا تھا۔ کھانے میں ترک کباب ملے جو کہ واقعتاً بہت مزیدار تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم کسی متوقع ہنگامے سے محفوظ رہے۔
یہاں کے پٹرول پمپ پر گاڑیوں کی صفائی کا عجیب طریقہ نظر آیا۔ گاڑیوں کو دھونے کے بعد ایک اسٹیشن پر لایا جا رہا تھا جہاں بہت بڑے بڑے آٹومیٹک برش گھوم کر اس کی صفائی کر رہے تھے۔
کھانا کھا کر ہم روانہ ہوئے۔ اب ہم ساحل سے کچھ دور ہو چکے تھے۔ اگلا شہر "انیے " تھا۔ یہاں سمندر سڑک کے بالکل ساتھ لگا ہوا تھا۔ ایک جگہ سڑک کے بیچ میں کوئی کام ہو رہا تھا اور ٹریفک کو ایک طرف کرنے کے لئے ایک پولیس اہلکار کسی پنجابی ہیرو کی طرح سینہ تانے اور ہاتھ میں گنڈاسے کی بجائے ڈنڈا پکڑے سڑک کے بیچ میں کھڑا تھا۔ یہ ایکسپریس وے تھی مگر عجیب بات یہ تھی کہ اس پر بھی جا بجا سگنل بنے ہوئے تھے۔ اس پوری سڑک کے نیچے سے گزر کر بہت سے مقامات پر بے شمار ندی نالے سمندر میں مل رہے تھے۔ اسی تازہ پانی کی بدولت بلیک سی آباد تھا۔
ساحل یولو کے کنارے باغات
سامسن کی ساحل یولو
سڑک کے ساتھ ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہورڈنگز لگی ہوئی تھیں جن پر ایک نہایت ہی غمگین صورت صاحب کی تصویر تھی۔ ان کا نام احمد یلماز لکھا ہوا تھا۔ ان کی اس مغموم صورت نے پورے ترکی میں ہمارا پیچھا کیا۔ جہاں جہاں ہم گئے، وہاں وہاں انہوں نے ہمارے استقبال کے لئے ہورڈنگز لگوا رکھی تھیں۔ چونکہ یہ ہورڈنگز ترکی زبان میں تھیں، اس وجہ سے اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ ان کے کوئی سیاستدان وغیرہ ہوں گے۔ بعد میں انٹرنیٹ پر تلاش کیا تو ڈھیروں احمد یلماز نکل آئے جن کی صورتیں اتنی غمگین نہ تھیں۔
انیے سے باہر نکلتے ہی ایک اور عجیب منظر نگاہوں کے سامنے آیا۔ سڑک اور سمندر کے درمیان ایک سرسبز پٹی حائل ہو چکی تھی جس پر لوگوں نے کیمپنگ کی ہوئی تھی۔ اگلا شہر "فستا" تھا۔ یہاں سے سڑک سمندر سے ہٹ کر پہاڑوں کے بیچ میں جا رہی تھی۔ اب سرنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ ہم ایک سرنگ سے نکلتے تو دوسری میں جا گھستے۔ ہر سرنگ کے آغاز میں اس کی طوالت درج تھی۔ ایک سرنگ تو چار کلومیٹر طویل ثابت ہوئی۔ اس سے باہر نکلتے ہی ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ آج جمعہ کا دن تھا اور نماز کا وقت قریب آ رہا تھا۔ ہم لوگ اب اگلے شہر کے قریب پہنچ رہے تھے۔
قارئین کے لئے یہ بات حیرت کا باعث ہو گی کہ ہم نے نماز جمعہ، اردو میں ادا کی۔ بے فکر رہیے، ہم نے کوئی بدعت ایجاد نہیں کی۔ یہاں اردو سے مراد، اردو زبان نہیں بلکہ اردو شہر ہے۔ اب ہم "اردو" شہر پہنچ چکے تھے جو کہ بلیک سی کے کنارے ایک صاف ستھرا خوبصورت شہر تھا۔ یہاں سمندر کے کنارے ایک مسجد بنی ہوئی تھی جہاں سے اذان کی صدا بلند ہو رہی تھی۔ مسجد کے قریب بہت سی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ میں بھی وضو کر کے مسجد میں چلا گیا کیونکہ مجھے اللہ تعالی کی طرف سے عائد کردہ اہم ترین فریضہ انجام دینا تھا۔
ہمارے ہاں بعض لوگ نماز کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے طرح طرح کے فلسفے ایجاد کرتے ہیں۔ ہمارے ایک ملنے والے جو کہ امت مسلمہ کے مسائل پر فلسفے جھاڑنے کے بہت شوقین ہیں، ایک دن عین نماز کے وقت اپنا وعظ شروع کر بیٹھے۔ انہوں نے اپنے دفتر کا ایک واقعہ بیان کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ لوگ نماز کو بہانہ بنا کر کام نہیں کرتے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ دونوں انتہائیں ہیں۔ بعض لوگ نماز کو بہانہ بنا کر کام چوری کرتے ہیں، یہ ایک انتہا ہے جبکہ بعض لوگ نماز کو کم اہم سمجھتے ہوئے سرے سے اسے ادا ہی نہیں کرتے۔ اللہ تعالی نے اپنے فرائض میں سب سے زیادہ اہمیت نماز ہی کو دی ہے۔ ہمیں ان دونوں انتہاؤں سے بچتے ہوئے اللہ تعالی کے حضور نماز کے لئے حاضر ہونا چاہیے۔
ترکی کی مساجد کا اندرونی حصہ بہت سے تیز رنگوں والے نقش و نگار سے مزین ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کی مساجد کا اندرونی حصہ سادہ رکھا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی طرح ترکی کی مساجد کا انتظام بھی حکومت کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
امام صاحب نے خطبہ ترکی زبان میں دیا جس کا کچھ حصہ عربی میں تھا۔ عربی حصے سے معلوم ہوا کہ خطبے کا موضوع رمضان کی تیاری اور شعبان کے فضائل تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ترکی میں مساجد کے ائمہ کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے مگر وہ لوگ اس آزادی کا غلط استعمال نہیں کرتے اور اپنے خطبات میں فرقہ واریت پھیلانے کی بجائے معاشرے کی اصلاح کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔ تخلیقی عمل کے لئے آزادی اظہار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ایک تخلیقی شخص اس وقت تک اعلی درجے کی تخلیق نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے اس بات کا یقین نہ ہو کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اسے کہنے کی آزادی مجھے حاصل ہے۔
موجودہ دور میں مغربی ممالک اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کا میدان ہو یا ادب کا، اعلی درجے کی تخلیقات ان ہی کے ہاں ہوا کرتی ہیں۔ ان کے ہاں آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ امریکی پالیسیوں کے سب سے بڑے ناقد نوم چومسکی کو امریکی شہریت حاصل ہے اور وہ وہاں آزادی سے رہ رہے ہیں۔ ہم لوگ چونکہ اس میدان میں پیچھے ہیں، اس وجہ سے ہمارے تخلیقی صلاحیت رکھنے والے افراد مغربی ممالک میں جا بسنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع میسر ہوا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام انسان کی اظہار رائے کی آزادی کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ اس آزادی کی حدود یہ ہیں کہ ہم دوسروں کی آزادی میں دخل اندازی نہ دیں اور ان کی دل آزاری نہ کریں۔
اردو ایک قدیم شہر ہے۔ یہاں انسانی آبادی کے آثار 3000 قبل مسیح سے ملتے ہیں۔ یہ علاقہ خاص قسم کے نٹس کی پیداوار کے لئے مشہور ہے جنہیں "ہیزل نٹس" کہا جاتا ہے۔ ان کے لئے اردو زبان میں کوئی نام موجود نہیں ہے۔ یہاں جولائی میں ان نٹس کی نمائش بھی ہوتی ہے جو اس وقت ختم ہو چکی تھی۔
اردو سے اگلا شہر گائرسن تھا۔ یہ شہر سمندر کنارے سبز پہاڑوں پر واقع تھا۔مین روڈ سے نکل کر ہم شہر میں داخل ہوئے۔ ایک سڑک اوپر پہاڑ پر جا رہی تھی۔ میں نے گاڑی کو اس سڑک پر ڈال دیا۔ سڑک کا زاویہ بہت ہی گہرا تھا۔ ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گاڑی ابھی آگے سے اٹھ جائے گی اور پھر رول ہوتی ہوئی نیچے سمندر میں جا گرے گی۔ تھوڑی دیر میں ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ اب ایک نہایت ہی حسین نظارہ ہمارے سامنے تھا۔ ہمارے سامنے سمندر تھا جس کے بیچوں بیچ ایک سر سبز چٹان نکلی ہوئی تھی۔ آسمان پر گھنے بادل تھے اور ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ دور بادل گویا سمندر کو مس کر رہے تھے۔
چوٹی پر بہت سے گھر بنے ہوئے تھے۔ پہاڑ کے دوسری جانب گائرسن شہر تھا۔ چوٹی سے لے کر نیچے تک سرخ چھتوں والے گھر ہی گھر تھے۔ ہر گھر کی چھت پر سولر پینل لگا ہوا تھا تاکہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کی جا سکے۔ نیچے ایک قبرستان تھا جس کی قبریں بالکل ہمارے طرز کی تھیں۔
ایک جگہ گاڑی کھڑی کر کے ہم چٹان کنارے کی طرف بڑھے تاکہ یہاں سے سمندر اور گائرسن شہر کی تصویریں لی جا سکیں۔ ادھر ایک ترک اماں اور ان کے دو بیٹے لکڑیوں کے گٹھے اٹھائے چلے آ رہے تھے۔ ان سے سلام دعا ہوئی۔ انہیں بھی ہمارے پنجاب کے دیہاتیوں کی طرح ہمارے بارے میں بہت تجسس ہوا۔ اماں نے ایک لڑکے سے کچھ کہا اور وہ گھر کے اندر سے جا کر اپنی بہن کو بلا لایا۔ ان خاتون کو اچھی خاصی انگریزی آتی تھی۔ انہوں نے ہمارا انٹرویو کیا اور ہمیں چائے کی دعوت دی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی زبان میں یہ تفصیلات اپنی والدہ کے گوش گزار کر دیں تاکہ ان کا تجسس ختم ہو سکے۔
ہم ان کا شکریہ ادا کر کے واپس مڑے اور ہائی وے پر واپس آ گئے۔ اب وہی منظر ہماری نگاہوں کے سامنے تھا۔ ہمارے دائیں طرف سبزے میں ڈھکے پہاڑ تھے اور بائیں جانب سمندر۔ آسمان پر سرمئی بادل تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہاں بادل صرف خشکی پر تھے۔ ساحل کے اوپر پہنچ کر بادل اس طرح ختم ہو رہے تھے جیسے کسی نے باقاعدہ چھری سے انہیں ساحل کے ساتھ ساتھ کاٹ دیا ہو۔
ٹائر بولو، آئی نیسل، چارشی باشی سے گزرتے ہوئے اب ہم ترابزن کے قریب پہنچ رہے تھے۔ اچانک ایک بورڈ ہمارے سامنے آ گیا جس میں دائیں طرف تیر کا نشان دیا ہوا تھا اور بورڈ پر لکھا تھا: "سیرا گولو، 5 کلومیٹر"۔ ہمیں چونکہ جھیلوں سے عشق تھا، اس وجہ سے ہم بھی اسی جانب چل پڑے۔ ہمارے ساتھ ساتھ ایک دریا چل رہا تھا جس میں اس وقت پانی کم تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ یہ مٹیالے پانی کی جھیل تھی جو سرسبز پہاڑوں کے بیچ میں تھی۔ پہاڑوں پر سبزہ تو اچھا تھا مگر جھیل بہت زیادہ خوبصورت نہ تھی۔
ترابزن سے متعلق بروشرز میں ایک خوبصورت جھیل کی تصویر دی گئی تھی۔ میں نے بروشر نکالا تاکہ دیکھا جائے کہ یہ وہی جھیل ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ دوسری جھیل ہے جس کا نام "یوزن گولو" ہے۔ یہاں کچھ ترک لڑکے کھڑے تھے۔ میں نے انہیں یوزن گولو کی تصویر دکھا کر اس کا راستہ پوچھا۔ وہ کہنے لگے، "آپ دوبارہ ساحل یولو پر چلے جائیے۔ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد آپ کو اس کا بورڈ نظر آ جائے گا۔"
جھیل سے ہم دریا کے ساتھ ساتھ سمندر کی جانب بڑھے۔ ساحل یولو پر پہنچے تو یہ گولڈن دریا سمندر میں مل رہا تھا۔ جہاں تک اس کا پانی جا رہا تھا، وہاں سمندر کا رنگ مختلف تھا۔ یہ "اکچا آباد" کا قصبہ تھا۔ اب ہم ترابزن شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ پاکستان کی طرح ترکی کے بہت سے شہروں کے نام کے ساتھ "آباد" کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ایک اور لاحقہ "شہر" بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اسکی شہر وغیرہ۔
ترابزن بلیک سی پر واقع ترکی کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ اس کا شمار بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک قدیم شہر ہے جہاں انسانی آبادی کے آثار 7000 قبل مسیح سے ملتے ہیں۔ یہاں 1263ء کا تعمیر کردہ مشہور "آیا صوفیہ" بھی واقع ہے جو استنبول کے آیا صوفیہ کی ایک شاخ ہے۔ اس کی تفصیل ہم استنبول پہنچنے کر بیان کریں گے۔
ترابزن آٹھویں صدی عیسوی یا دوسری صدی ہجری میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔ یہ رومی سلطنت کی ایک اہم چھاؤنی تھی۔ مسلم دور میں ترابزن کو بین الاقوامی اہمیت حاصل ہوئی جب یہ ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ یورپ کی مصنوعات بذریعہ بلیک سی ترابزن میں لائی جاتیں اور یہاں سے یہ مال ایران کے راستے ہندوستان اور چین کی طرف بھیج دیا جاتا۔ اسی طرح ہندی اور چینی مصنوعات ترابزن سے بذریعہ سمندر یورپ اور روس پہنچائی جاتیں۔
مشہور اطالوی سیاح مارکوپولو بھی اسی راستے سے چین کی طرف گئے تھے۔ چین میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد واپسی پر وہاں کے بادشاہ نے ان کی ذمہ داری لگا دی کہ وہ ایک شہزادی کو ایران چھوڑ دیں جس کی شادی ایران کے بادشاہ سے طے پائی تھی۔ ایک طویل بحری سفر کے بعد جب یہ قافلہ ایران پہنچا تو معلوم ہوا کہ بوڑھے بادشاہ سلامت جہان فانی سے گزر گئے ہیں۔ یقیناً اس کا علم ہونے پر مارکوپولو کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو گی کہ اب شہزادی کو واپس پہنچانے کے لئے دوبارہ چین جانا پڑے گا۔ اس وقت ان کی خوش قسمتی آڑے آئی اور ابا جان کی بجائے، اس کے بیٹے نئے بادشاہ کو چینی شہزادی پسند آ گئی۔ اس نے شہزادی سے شادی کر لی۔ مارکوپولو نے جان چھوٹنے پر یقیناً خدا کا شکر ادا کیا ہو گا۔اس کے بعد ایران سے مارکوپولو ترابزن پہنچے اور بحری جہاز میں بیٹھ کر اپنے وطن روانہ ہو گئے۔
انیسویں صدی میں اس علاقے پر کچھ عرصے کے لئے روس کا قبضہ بھی رہا ہے جو بعد میں عثمانی افواج نے چھڑا لیا۔ اس زمانے میں روسی افواج نے مختلف ممالک میں جنوب کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ بحیرہ کیسپین کے دوسری جانب انہوں نے ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان اور کرغیزستان پر قبضہ کیا اور بحیرہ کیسپین اور اسود کے درمیان جارجیا، آذر بائیجان، آرمینیا اور ترکی پر فوج کشی کی۔
سڑک سے ترابزن شہر کی قدیم فصیل نظر آ رہی تھی جو سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی ہوئی تھی۔ یہاں ساحل یولو پر ٹریفک کافی جام تھا۔ یہاں سے نکل کر ہم مزید آگے بڑھتے چلے گئے۔ اب تک ساحل کے ساتھ ساتھ ہم مشرق کی جانب سفر کرتے آئے تھے مگر اب سڑک ساحل کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف رخ کر رہی تھی۔ ترابزن سے باہر نکلتے ہی ہمیں تیز بارش نے آ لیا۔ ہم جدہ میں بارش نہ ہونے کے باعث اس نعمت سے ترسے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً گاڑی روکی اور باہر نکل کر بارش میں نہانے کو انجوائے کرنے لگا۔ ماریہ بھی باہر نکل آئی۔ موسلا دھار بارش میں بلیک سی خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔اس سے پہلے کہ میں اتنا گیلا ہوتا کہ گاڑی خراب ہوتی، میں واپس آ کر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بارش سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم آگے بڑھے۔ ترابزن کے بعد "یومرا "اور "اراکلی"کے قصبے آئے۔ اس کے بعد ہم لوگ "آف" پہنچ گئے۔ یہاں پہاڑوں کی جانب" یوزن گولو "کی طرف راستہ نکل رہا تھا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ایک پختہ کناروں والا نالہ بہہ رہا تھا۔ ہم اس نالے کے ساتھ والی سڑک پر ہو لئے۔ تھوڑی دور جا کر پختہ کنارے ختم ہو گئے۔ اب ہم ایک شور مچاتے ہوئے تیز دریا کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اس دریا کو ہم دریائے سوات سے تو نہیں البتہ وادی کاغان کے دریائے کنہار سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔
دریا کے دونوں جانب کافی بلند سرسبز پہاڑ تھے۔ ان پہاڑوں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں بلندی پر زمین ہموار کر کے چائے کے باغات لگائے گئے تھے۔ یہ ترابزن کی مشہور چائے تھی۔ تھوڑی دور جا کر "چیکارہ" کا قصبہ آیا۔ قصبے کے قریب ہی ایک خوبصورت منظر ہماری نگاہوں کے سامنے تھا۔ پتلی سی ایک آبشار نالے کی صورت میں پہاڑ سے گر رہی تھی۔ اس کے اوپر چھوٹا سا پل بنا کر سڑک کو گزارا گیا تھا۔ اس سے سو میٹر کے فاصلے پر ایک بہت بڑی آبشار دریا میں گر رہی تھی۔جہاں آبشار دریا میں گر رہی تھی، وہاں پر دریا کے دوسرے کنارے گھنے درخت تھے۔ ان ہرے بھرے کے درمیان عین دریا کے کنارے ایک ٹنڈ منڈ سا خشک درخت کھڑا تھا۔ ہدایت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ بعض لوگ اللہ کے پیغمبر کے زمانے میں ہوتے ہوئے بھی ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ہم کچھ دیر کے لئے یہاں رک گئے۔ گاڑی کا تھرما میٹر اب 14 ڈگری سینٹی گریڈ کا اعلان کر رہا تھا۔ باہر نکلے تو کافی سردی محسوس ہوئی۔ میں نے ڈگی کھول کر گرم فل شرٹ نکالی اور اپنی ٹی شرٹ کے اوپر پہن لی۔ کچھ دیر آبشار کی قدرتی موسیقی سی لطف اندوز ہونے کے بعد ہم آگے روانہ ہوئے۔
تھوڑی دیر کے بعد اچانک چڑھائی شروع ہو گئی۔ چڑھائی کے ساتھ ساتھ دریا کے شور میں بھی اضافہ ہو رہا تھا کیونکہ یہ اب زیادہ تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا تھا۔تھوڑی سی چڑھائی کے بعد اچانک سڑک سیدھی ہو گئی۔ سامنے مسجد کا مینار نظر آ رہا تھا۔ دریا اب پرسکون ہو چکا تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی ہمارے سامنے ترکی کا حسین ترین منظر تھا۔ یہ یوزن جھیل تھی جو اپنے حسن کے لحاظ سے پورے ترکی میں مشہور تھی۔ترابزن کے بروشر میں جس منظر نے ہمیں مسحور کیا تھا، وہ اب نگاہوں کے سامنے تھا اور حقیقتاً اپنی تصویر سے بڑھ کر دلفریب تھا۔
جھیل کے ایک کنارے پر سڑک تھی جس پر دکانیں وغیرہ بنی ہوئی تھیں۔ دوسرے اور تیسرے کنارے پر ہوٹل تھے مگر ہوٹلوں اور جھیل کے درمیان ایک کچی سڑک تھی۔ چوتھی جانب خالی تھی۔ جھیل کے شمالی کنارے پر ایک بہت ہی خوبصورت مسجد بنی ہوئی تھی۔جھیل کے بیچوں بیچ ایک ننھا منا سا جزیرہ تھا جو گھنے سبزے سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کا سائز کچھ اتنا ہی تھا جتنا کہ ہماری کلری جھیل میں نوری جام تماچی کا مقبرہ بنا ہوا ہے۔ جھیل کے ایک جانب سے دریائے یوزن نکل رہا تھا۔چاروں طرف سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑ تھے جن کی چوٹیاں بادلوں سے ہم آغوش ہو رہی تھیں۔
اس جھیل کے منظر کا موازنہ اپنی جھیل سیف الملوک سے کیا جا سکتا ہے مگر یہاں فرق یہ تھا کہ جھیل کے چاروں طرف لکڑی کے بہت سے ہٹس بنے ہوئے تھے۔ یہ جھیل اتنی بلندی پر بھی نہ تھی جتنی بلندی پر سیف الملوک واقع ہے۔ پہلی نظر ہی میں ہم اس جھیل پر عاشق ہو چکے تھے چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ اگلے دو تین دن یہیں بسر کیے جائیں۔ ویسے بھی اب ہم استنبول سے 1300 کلومیٹر کا سفر طے کر چکے تھے۔
جھیل کے کنارے بہت سے لوگ تھے جن میں سعودیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر حضرات اپنی جیپوں اور کاروں پر سعودی عرب سے آئے تھے۔ ان کی خواتین نے برقعے پہنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ماحول پاکیزہ لگ رہا تھا۔ ترکی کے مغرب زدہ ماحول کی وجہ سے ہمیں جو گھٹن محسوس ہو رہی تھی، اس کا بھی یہاں خاتمہ ہو گیا تھا۔ ہمارے ہاں عربوں کا تصور یہ ہے کہ یہ اپنے ممالک سے باہر جا کر خوب عیاشی کرتے ہیں۔ یہ تصور بالکل ہی غلط ثابت ہوا۔ یہاں موجود تمام عرب نہایت ہی شرافت سے انجوائے کر رہے تھے۔ ان کی خواتین بھی مکمل باپردہ تھیں اور مردوں کی نظر میں بھی حیا تھی۔ ترک خواتین بھی باپردہ نظر آ رہی تھیں۔
اس صورت حال سے متعلق ہم آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ اہل مغرب کا کلچر مسلم معاشروں میں پھیلانے کے لئے کس درجے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ میڈیا کی پوری طاقت کو اس کام پر لگا دیا گیا کہ دنیا میں بے حیائی کو عام کیا جا سکے۔ سینما، ٹی وی، رسائل و میگزین، انٹرنیٹ، تھیٹر غرض ہر قسم کے میڈیا کے ذریعے بے حیائی کے فروغ کا کام لیا جانے لگا۔ مصر اور پاکستان جیسے ممالک میں سرکاری طور پر بے حیائی کے کاروبار کی سرپرستی کی گئی۔ ترکی میں حکومتی جبر کے زور پر بے حیائی کو مسلط کیا گیا۔ اس سب کے باوجود مغربی کلچر پوری طرح ہمارے معاشروں میں سرایت نہیں کر سکا ہے۔ اب بھی ہمارے ہاں ایسے خواتین و حضرات کی کمی نہیں ہے جن کے نزدیک حیا اور عفت و عصمت بنیادی اقدار کی حیثیت رکھتی ہیں۔مناسب ہو گا اگر ہم اس موقع پر بے حیائی کی تاریخ کا مختصر جائزہ لے لیں۔
بے حیائی قدیم دور سے دنیا میں موجود رہی ہے۔ پہلے زمانوں میں معاشرے پر مردوں کا مکمل کنٹرول ہوا کرتا تھا۔ معاشی وسائل ان ہی کے قبضے میں ہوا کرتے تھے۔ قدیم دور میں مردوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے بڑے بڑے حرم تعمیر کیے جاتے تھے جن میں خواتین کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔ ایک مرد کے حرم میں اس کی حیثیت کے مطابق سینکڑوں بلکہ ہزاروں عورتیں تک ہوا کرتی تھیں۔ان خواتین کو بچپن سے ہی بے حجابی اور مرد کی جنسی تسکین کی تربیت دی جاتی تھی۔ ان خواتین سے وہ تمام کام لیے جاتے تھے جن کا مظاہرہ آج کل کے عریاں چینلز پر ہوتا ہے۔
مغربی معاشروں کی کیفیت بھی یہی تھی۔ مغرب کے جاگیردارانہ نظام میں عورت کو بری طرح دبا کر رکھا گیا تھا۔ عورت کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ اس نظام کو ان کے مذہبی راہنماؤں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مغرب میں بادشاہت، جاگیرداری اور کلیسا کے جبر و تشدد کے خلاف زبردست تحریک پیدا ہوئی۔اس تحریک کے نتیجے میں مغرب میں انسان کی شخصی آزادی ایک بنیادی قدر کی حیثیت اختیار کر گئی۔ اس آزادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کو ان کے وہ حقوق دیے گئے جن سے وہ صدیوں سے محروم تھیں۔ خواتین کی آزادی کے ساتھ ہی ان کا سماجی رتبہ بلند ہوا اور انہیں کسی حد تک معاشی خود مختاری ملنے لگی۔
صنعتی انقلاب کے بعد جاگیرداری نظام کی سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی جس میں عیاش مردوں کے لئے بڑے بڑے حرم بنا کر رکھنا ممکن نہ رہا۔ معاشی اعتبار سے اب بھی وسائل پر اسی عیاش طبقے کا قبضہ تھا۔ حرم کے سماجی ادارے کے خاتمے کے بعد ان کے معاشروں میں ایک خلا پیدا ہوا اور وہ یہ تھا کہ عیاش مرد اپنی سفلی خواہشات کی تسکین کہاں کریں۔ اس مقصد کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ حیا اور عفت و عصمت کے تصورات کو جاگیردارانہ دور کی یادگار بنا کر فرسودہ قرار دے دیا جائے تاکہ مردوں کو عیاشی کے لئے زیادہ سے زیادہ عورتیں دستیاب ہو سکیں۔عیاش مردوں کے اس طبقے کے پاس جدید ایجادات اور میڈیا کے وسائل تھے جنہیں اس مقصد کے لئے بروئے کار لایا گیا۔
ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت مغربی دنیا میں حیا اور عفت و عصمت کے تصورات کے خلاف مہم چلائی گئی۔ خاندانی نظام کی عفت و عصمت کو غلامی اور جنسی بے راہ روی کو آزادی کا خوبصورت نام دے دیا گیا۔ اس تصور کو عام کرنے کے لئے فلمیں بنائی گئیں، تحریریں لکھی گئیں، ڈرامے تشکیل دیے گئے اور فلسفیانہ موشگافیاں کی گئیں۔ سگمنڈ فرائیڈ وہ پہلا ماہر نفسیات تھا جس نے اس تصور کو باقاعدہ سائنسی زبان میں بیان کیا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں مغرب میں مردوں کی تعداد خواتین کی نسبت بہت کم رہ گئی تھی۔ چونکہ مغرب میں ایک زائد شادیوں کی اجازت نہ تھی، اس وجہ سے خواتین کے معاشی مسائل نے انہیں مجبور کیا کہ وہ مردوں کی ہوس پوری کر کے اپنا گزارہ چلائیں۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں میڈیا کی نت نئی ایجادات نے بے حیائی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہر قسم کے میڈیا نے خود کو مقبول بنانے کا سستا طریقہ یہ نکالا کہ بے حیائی کو فروغ دیا جائے تاکہ ان کا چینل، رسالہ یا ویب سائٹ زیادہ افراد کی نظر سے گزرے۔ اس کے ساتھ ساتھ مانع حمل ادویات نے خواتین کے لئے غیر مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرنا آسان کر دیا۔ جب خواتین کی معاشی حالت بہتر ہوئی تو ان کے عیاش طبقے کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے مرد طوائف اور مردانہ پورنو گرافی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
مسلم دنیا میں بے حیائی کی پہلی لہر بیسویں صدی کے نصف اول میں آئی جب مسلمانوں کی اشرافیہ کے اس حصے نے جو یورپی آقاؤں کو خوش کرنا چاہتا تھا، مغربی اقدار کو اپنانے کی بھونڈی کوشش کی۔ اس سلسلے کو یہاں زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں میڈیا کے انقلاب کے نتیجے میں یہاں بے حیائی کی دوسری لہر آئی ہے جس کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل میں حیا اور عفت و عصمت کی اقدار کا خاتمہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اب انفارمیشن ریوولوشن کو آئے بھی بیس برس ہو چکے ہیں۔ اپنی پوری قوت لگا دینے کے باوجود بے حیائی اور فری سیکس کے علم بردار حیا اور عفت و عصمت کی اقدار کا خاتمہ نہیں کر سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مذہبی اور سماجی راہنما اس خطرے کا احساس کر لیں جو ہمارے معاشروں میں سرایت کر رہا ہے۔ اس ضمن میں اس فرق کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مغربی اور مسلم دنیا میں موجود ہے۔
مغرب میں مذہب کے خلاف ایک بہت بڑی بغاوت موجود تھی۔ مسلم دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ اہل مغرب کو اگر یہ کہا جاتا کہ حیا کو اپناؤ کیونکہ مذہب اس کا حکم دیتا ہے تو اس بات کا ان پر الٹا اثر ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اگر ایک مسلمان کو اگر مثبت انداز میں یہ سمجھایا جائے کہ اس کا دین اسے یہ حیا کا حکم دیتا ہے تو مسلمان اس کی پیروی میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ہمارے ہاں تو طوائفوں سے لے کر سیاستدانوں جیسے طبقات بھی ابھی خدا سے بغاوت کے مقام پر کھڑے نہیں ہوئے۔ اگر مثبت انداز میں انہیں سمجھایا جائے تو اس کے نتائج اچھے نکل سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں عفت و عصمت اور حیا کے تصورات کو عام کرنے کے لئے اتنی ہی شدت سے مہم چلانے کی ضرورت ہے جتنی شدت سے بے حیائی کے علمبرداروں نے مہم چلائی ہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ مولویانہ انداز میں فتوے بازی کی بجائے سنجیدہ اور معقول دلائل کے ذریعے نئی نسل کو حیا اور عفت و عصمت کے تصورات اپنانے کے لئے قائل کیا جائے۔
یہی گفتگو کرتے ہم جھیل کے دوسرے کنارے پر جا پہنچے۔ اچانک میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا: "یا شیخ! انت تعرف عربیۃ۔" "ایوا۔" میں نے جواب دیا۔
"انت سعودی؟" سوال پوچھا گیا۔
"لا۔ انا باکستانی۔" میں نے جواب دیا۔ جواب میں معانقہ کیا گیا۔
میں نے بھی یہی سوال پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ صاحب ترک تھے اور جنوبی ترکی کے مشہور شہر انطالیہ سے آئے تھے۔ اچھی خاصی عربی جانتے تھے۔ مڑ کر دیکھا تو ان کی اہلیہ میری اہلیہ سے گفتگو کر رہی تھیں۔ دونوں خواتین ایک دوسرے کی زبان تو نہیں جانتی تھیں البتہ ایک دوسرے کی بات پوری طرح سمجھ رہی تھیں۔بچوں کی تعداد سے لے کر ان کے سائز اور عمروں تک پوری معلومات کا تبادلہ ہو رہا تھا۔
اب ہم مختلف ہوٹلوں سے کمرے کا پوچھنے لگے۔ معلوم ہوا کہ سب کے سب ہوٹل بک ہیں۔ یہاں کی عجیب بات یہ تھی کہ ہر ہوٹل میں 20 سال سے بھی کم عمر ترک لڑکے اور لڑکیاں ریسپشن پر کھڑے تھے۔ لڑکیوں نے باقاعدہ حجاب پہنے ہوئے تھے۔ ایک جگہ سے یہ مشورہ ملا کہ جھیل کے دوسری طرف چلے جائیے۔ وہاں آپ کو ہوٹل مل جائے گا۔ دوسری طرف پہنچے تو یہاں لکڑی کے بنے ہوئے ہٹس تھے۔ ایک ہٹ کے باہر ایک بزرگ تشریف فرما تھے۔ ان سے کمرے کے بارے میں پوچھا تو ترکی زبان میں ایک طویل تقریر کر دی گئی جس کا کچھ مطلب سمجھ میں نہ آیا۔ انہیں جسمانی زبان استعمال کرنے کی شاید عادت نہ تھی۔
ہم مزید آگے بڑھے۔ ایک ہوٹل سے معلوم کیا۔ یہاں ایک بارہ تیرہ سالہ بچی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے حلق سے انگریزی برآمد کرتے ہوئے پوچھا: "ہاؤ مینی؟" "ٹو۔" "کم۔" یہ کہہ کر وہ ہمارے آگے چل پڑی۔ اس کے انداز میں ایسی عجلت تھی کہ کہیں یہ گاہک ہاتھ سے پھسل نہ جائیں۔ دوسری طرف ہمیں یہ بے چینی تھی کہ کہیں یہ کمرہ بھی ہاتھ سے پھسل نہ جائے۔ بچی ہمیں واپس انہی بزرگ کے پاس لے آئی۔ پہلے تو ان سے کچھ بات کی اور پھر ہمیں ایک ہٹ کھول کر دکھایا۔ لکڑی کا یہ کمرہ بہت اچھے انداز میں سجا ہوا تھا اور کرایہ بھی نہایت ہی مناسب تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ انہی بزرگ کی بیٹی تھی۔ ان کا پورا خاندان بھی اسی جگہ رہتا تھا۔ اپنے گھر کے اوپر نیچے انہوں نے متعدد کمرے بنا رکھے تھے جو ان کی آمدنی کا ذریعہ تھے۔
میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ بچی ہمیں اپنے والد کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلی جائے اور ہم انہیں نہ تو کچھ سمجھا سکیں اور نہ ان کی کوئی بات سمجھ سکیں، اس سے سارے معاملات طے کر لیے جائیں۔ انٹرنیٹ کا پوچھا تو اس نے پاس ورڈ بتا دیا۔ کمرے میں سامان رکھ کر ہم نے سوچا کہ نماز مسجد میں چل کر پڑھی جائے۔ جلدی جلدی گرم کپڑے پہن کر ہٹ سے باہر نکلے تو ایک باریش سعودی صاحب وضو کر کے جا رہے تھے۔ تعارف ہوا تو کہنے لگے، "یہاں کیا کرنے آئے ہو، پاکستان بھی تو ایسا ہی ہے ؟" یہ صاحب سعودی عرب کے شہر قصیم سے آئے ہوئے تھے۔
جھیل کے دوسرے کنارے پر مسجد میں پہنچے تو یہ نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ جماعت ختم ہو چکی تھی مگر دوسری جماعت ابھی جاری تھی۔نماز سے فارغ ہو کر مسجد کے اندرونی حصے پر غور کیا۔ ترکی کی دیگر مساجد کی طرح یہاں بھی نقش و نگار کا بھاری کام کیا گیا تھا۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور مجھے اپنا کیمرہ دے کر کہنے لگے، "میری تصویر اتار دیجیے۔ " یہ کہہ کر وہ خود محراب میں جا کھڑے ہوئے۔ ان سے گپ شپ ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ منورہ سے یہاں آئے ہیں۔
نماز سے فارغ ہو کر ہم کھانے کے لئے ہوٹل تلاش کرنے لگے۔ ایک ہوٹل پر مچھلی کی تصویر بنی ہوئی تھی، ہم نے اسی کا انتخاب کیا۔ کھانے کا آرڈر دینے کے لئے میں نے ان کے بورڈ پر بنی کھانے کی تصویروں کی طرف اشارہ کیا۔ ہوٹل جھیل کے عین کنارے پر تھا۔ موسم کافی سرد ہو رہا تھا۔ کھانے میں روسٹ مچھلی اور پتلی دال آئی جو کہ یہاں "چوربا" کہلاتی تھی۔ اس کے ساتھ روٹی کے طور پر وہی لکڑی والے بن تھے جنہیں کھا کھا کر اب ہماری داڑھیں درد کرنے لگ گئی تھیں۔ اہلیہ کہنے لگیں، "مجھے تو چاول ہی منگا دیں۔" ویٹرس کو اچھی خاصی عربی اور انگریزی آتی تھی۔ چاول منگوائے۔ یہاں کے چاول بھی خوب تھے۔ پنجاب کے باسمتی چاول کھانے والوں کے سامنے چنے کے سائز کے موٹے موٹے چاول لا کر رکھ دیے گئے۔ چوربا اور مچھلی البتہ کافی مزیدار ثابت ہوئے۔
کھانے سے فارغ ہو کر کافی پینے کے بعد ہم کچھ دیر جھیل کے کنارے پیدل چلے۔ مجھے سردیوں کا موسم بہت پسند ہے۔ جدہ میں تو یہ موسم ہمیں نصیب نہیں ہوتا۔اس وقت اگست کے ابتدائی دنوں میں ہم یوزن گولو کی سردی کو انجوائے کر رہے تھے۔
اگلی صبح آنکھ کھلی تو بادل پہاڑ کی چوٹی سے اتر کراس کے نصف تک آ چکے تھے۔ ساری رات یہ بادل ہلکی ہلکی پھوار کی صورت میں برستے رہے تھے جس سے پورے علاقے میں کیچڑ ہو رہا تھا۔ قریبی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے لئے گئے۔ ہوٹل کے اندر ایک خوبصورت منظر تھا۔ ہوٹل کے لان میں بڑے بڑے تالاب بنے ہوئے تھے جن میں سرد پانی کی مچھلیاں پالی گئی تھیں۔ دریا سے پمپ کے ذریعے پانی ان تالابوں میں ڈالا جاتا اور یہاں مچھلیوں کی فصل تیار کی جاتی۔ اس وقت ہوٹل کا ایک ملازم مچھلیوں کو خوراک فراہم کر رہا تھا اور یہ اچھل اچھل کر پانی سے باہر آ کر خوراک جھپٹنے میں مصروف تھیں۔
یہاں سے وہی بوفہ اسٹائل ناشتہ ملا جو ہم روزانہ ہی کر رہے تھے۔ ناشتے کے بعد ہم نے پیدل ہی علاقے کا سروے کرنے کا ارادہ کیا۔ ہوٹل کے عقبی جانب دریا بہہ کر جھیل کی طرف جا رہا تھا۔ دریا کے دونوں کناروں کو پختہ کر دیا گیا تھا اور ان کے ساتھ ساتھ کچے ٹریک بنائے گئے تھے۔ درمیان میں کئی مقامات پر دریا پر لکڑی کے پل بنائے گئے تھے۔ دریا کے ایک جانب بہت سے ہوٹل بنے ہوئے تھے۔ ان میں لکڑی کا فرنیچر تھا جو کہ گیلیوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ تھوڑی دور چل کر ہم ایک چشمے پر جا پہنچے جو پہاڑ کی بلندی سے دریا میں گر رہا تھا۔ چشمے پر جگہ جگہ بند باندھ کر اس کا پانی زرعی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔
اب ہمارا دل چاہ رہا تھا کہ کسی طرح اڑ کر بادلوں میں جا پہنچیں۔ واپس ہوٹل آ کر کار میں بیٹھے اور جھیل کے دوسرے کنارے کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں سے ایک سڑک پہاڑ کے اوپر جا رہی تھی۔ آگے جا کر یہ ایک کچی سڑک میں تبدیل ہو گئی۔ دونوں طرف گھنے سبزے کے بیچ میں سے گزرتے ہم اوپر جا رہے تھے۔ منظر کچھ ویسا ہی تھا جیسا کہ شوگران کی چڑھائی میں نظر آتا ہے۔ نصف پہاڑ کی بلندی پر پہنچ کر ہم بادلوں میں داخل ہو گئے۔ جیسے جیسے ہم اوپر جا رہے تھے، بادل گھنے ہوتے چلے جا رہے تھے۔
گاڑی مسلسل پہلے اور دوسرے گیئر میں چلی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ گھنے بادلوں کی وجہ سے چند فٹ سے آگے نظر نہ آ رہا تھا۔ بل کھاتی ہوئی سڑک کا کنارہ بھی بمشکل دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک ایک بڑا سا چشمہ نظر آیا جس میں سے ڈھیروں ڈھیر پانی بہہ کر نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ یہاں دو تین سعودی فیملیاں اپنی GMC جیپ اور فورڈ کار پر آئے ہوئے تھے۔ انہیں پٹرول کا اچھا خاصا خرچ برداشت کرنا پڑا ہو گا مگر اتنی بڑی فیملی کو گاڑی پر لا کر انہوں نے ہوائی جہاز کا جو کرایہ بچایا ہو گا وہ پٹرول کے خرچ سے زیادہ ہی ہو گا۔
یہ لوگ بھی ہماری طرح ایڈونچر پسند تھے۔ چشمے میں سے کار گزارنا ایک مشکل کام تھا۔ انہوں نے اپنی کار وہیں کھڑی کی اور سب کے سب جیپ میں بیٹھ کر بلکہ زبردستی ٹھنس کر آگے روانہ ہو گئے۔ بادل اب ہلکی ہلکی پھوار کی صورت میں برس رہے تھے۔ کچھ دیر ہم یہیں رک کر موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ میں چہرہ اوپر کر کے اس پر پڑنے والی پھوار سے لطف اندوز ہونے لگا۔
میں سوچنے لگا کہ یہ دنیا کتنی خوبصورت ہے۔ یہاں کس قدر خوبصورت اور دلفریب مقامات ہیں تاکہ انسان یہاں آ کر انجوائے کر سکیں۔ گھنے سبزے سے ڈھکے پہاڑ، ان کے درمیان تیزی سے بہتے آبشار، شور مچاتے دریا، پرسکون جھیلیں، برفیلی وادیاں یہ سب انسان کے اعصاب کو سکون دیتے ہیں۔ اسے اگر جنت ارضی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا مگر اس جنت ارضی میں دو خامیاں موجود ہیں۔
دنیا کی اس جنت میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے انسان کے پاس دولت ہونی چاہیے۔ جو لوگ پیسے سے محروم ہیں، اس جنت کی نعمتیں ان کے لئے نہیں ہیں۔ دوسری خامی یہ کہ امیر افراد کے لئے بھی دنیا کا یہ سارا لطف عارضی ہے۔ انسان کے پاس جتنی بھی دولت ہو، ایک دن ایسا آتا ہے کہ اسے اس دنیا سے جانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد پھر اس کا مال و دولت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ہر انسان کی یہ شدید خواہش ہے کہ اسے زندگی میں ایسی انجوائے منٹ ملے جو کبھی ختم نہ ہو مگر اس دنیا کا ہر مزہ ایک دن ختم ہو کر رہتا ہے۔
اللہ تعالی نے دنیا میں خوبصورت مقامات رکھ کر انسان کے اس شوق کو ہوا دی ہے کہ وہ اس سے ہزاروں گنا زیادہ پر لطف زندگی کو حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی نے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس میں داخلے کے لئے پیسہ نہیں بلکہ نیک عمل شرط ہے۔ اس جنت میں داخلہ خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہو گا۔ اس جنت میں جگہ، موجودہ دنیا کی طرح عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر الاٹ کی جائے گی۔ اس جنت میں انسان کو وہ نعمتیں ملیں گی جن کا اس نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ اس جنت میں ہر امیر و غریب اپنے عمل کی بنیاد پر داخل ہو سکتا ہے۔
اس مقام سے واپس آنے کو جی نہ چاہ رہا تھا مگر اب مسلسل پھوار سے کیچڑ پیدا ہو رہا تھا اور یہ خطرہ تھا کہ واپسی پر کہیں ہم پھسلتے ہوئے ایک گھنٹے کا سفر چند سیکنڈ میں طے نہ کر لیں۔ اب ہم پہلے گیئر میں واپس آ رہے تھے۔ پھوار کا پانی درختوں سے چھن کر گاڑی کی چھت پر گر رہا تھا۔ آہستہ آہستہ ہم نیچے آ پہنچے۔ اب یوزن جھیل نظر آ رہی تھی اور ایک نہایت ہی خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی۔ بلندی سے پانی کا نظارہ ایسا منظر ہے جو انسان کو مسحور کر دیتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے خالق کائنات سے جنت میں اونچے باغات اور نیچے بہنے والے دریاؤں اور نہروں کا ذکر کیا ہے۔
نیچے اتر کر ہم جھیل کنارے ایک ہوٹل میں آ بیٹھے۔ یہاں ایک بڑی آبشار پہاڑ سے گر رہی تھی۔ غالباً یہ وہی چشمہ تھا جسے ہم اوپر دیکھ کر آئے تھے۔ آبشار کے گرنے سے فضا میں پانی کا ایک بادل سا تشکیل پا رہا تھا جو پھوار کی صورت میں چہرے پر نہایت ہی بھلا محسوس ہو رہا تھا۔ یہاں گرما گرم کافی پینے کے بعد ہم واپس اپنے ہوٹل گئے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد دوبارہ نکلے۔
اب شام ہو رہی تھی اور بھوک بھی لگ رہی تھی۔ ایک جگہ ہمیں ایک صاحب پراٹھے تیار کرتے نظر آئے۔ ترکی میں یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں پراٹھے نظر آئے تھے چنانچہ ہم یہیں براجمان ہو گئے۔ یہ پنیر کے پراٹھے تھے۔ ترکی کے ہوٹلوں میں یہ مسئلہ تھا کہ ویٹر اور مالک کے لباس میں کوئی خاص فرق ہم محسوس نہ کر سکے۔ ہر جگہ ویٹر بھی ایسے خوش لباس تھے کہ انہیں ٹپ دیتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ کہیں برا نہ مان جائیں۔ کھانا کھا کر ہم اب دوبارہ جھیل کے کنارے پر جا پہنچے۔ اب آہستہ آہستہ اندھیرا ہو رہا تھا۔ اس مقام سے میں نے جھیل کی ایک ہی زاویے سے متعدد تصاویر کھینچیں جن میں آہستہ آہستہ اندھیرا پھیل رہا تھا۔
یہاں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بعض لوگ جھیل کے کنارے کوئلے جلا کر بار بی کیو کر رہے تھے۔ بعض یونہی چہل قدمی کر رہے تھے۔ بعض لوگ جھیل میں ڈوری ڈالے مچھلیاں پکڑنے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ طریقہ نہایت ہی ظالمانہ ہے۔ ایک کانٹے پر خوراک لگا کر اسے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مچھلی اس خوراک کو کھانے کے لئے یہ کانٹا اپنے حلق میں پھنسوا بیٹھتی ہے اور پھر اسے کھینچ لیا جاتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ ہمارے حلق میں اسی طرح کانٹا ڈال کر ہمیں گھسیٹا جائے تو شاید پھر اس تکلیف کا اندازہ ہو۔ ایک مرتبہ مچھلی کا کانٹا میرے حلق میں پھنس گیا تھا، اس کی تکلیف مجھے آج بھی یاد ہے۔ ہمارے دین نے ہمیں جانوروں کے ساتھ بھی رحم دلی کا حکم دیا ہے۔ جانور کو ذبح کرنے کے لئے چھری کا تیز ہونا ضروری ہے تاکہ اسے کم سے کم تکلیف ہو۔ اسی طرح مچھلی کے شکار کے لئے جال کا طریقہ درست ہے۔
بادلوں میں سے یوزن گولو کا نظارہ
اس مقام پر بہت ہی قومیتوں کے لوگ موجود تھے۔ اللہ تعالی نے یہ دنیا فرق کے اصول پر بنائی ہے۔ یہاں ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے۔ بعض فاشسٹ گروہوں میں انسانوں کے درمیان فرق کو مٹا کر ایک جیسے گھڑے گھڑائے انسان تیار کرنے کا تجربہ کیا گیا جو کہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ ہر انسان شکل و صورت، طرز فکر، رنگ، زبان اور صلاحیت کے اعتبار سے دوسرے سے مختلف ہے۔ انسانوں کا یہی فرق ہے جس سے دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ اہل مغرب نے یہ سیکھ لیا ہے کہ مختلف طرز کے انسانوں میں مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے معاشرتی تنوع (Pluralism) کو انہوں نے بطور پالیسی اختیار کر لیا ہے۔ یک رخے (Authoritarian) معاشرے بالعموم ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان میں انسانوں کے فرق کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
٭٭٭
باقی حصہ دوم میں ملاحظہ کریں
٭٭٭
ماخذ:
http://www.mubashirnazir.org/ER/0020-Turkey/L0020-0000-Turkey.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اگلی صبح اٹھ کر ہم پراٹھا ہوٹل پہنچے۔ آج یہاں آلو کے پراٹھے بھی دستیاب تھے۔ ان میں ہماری طرح کے مصالحے تو نہ تھے مگر یہ پھر بھی غنیمت تھے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہم نے آگے چلنے کا ارادہ کیا۔ اب ہماری منزل آرٹون تھی۔ ترکی کے شمال مشرقی علاقوں سے متعلق بروشرز میں آرٹون سے متعلق بہت ہی خوبصورت تصاویر تھیں چنانچہ ہمارا ارادہ تھا کہ آرٹون میں بھی ایک دو دن جا کر رکا جائے۔
اب ہم یوزن جھیل سے دریا کے کنارے کنارے واپس "آف" کی طرف سفر کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں ہم آف جا پہنچے۔ یہاں سے اب ہم دوبارہ کوسٹل ہائی وے پر سفر کرنے لگے جو بلیک سی کے کنارے پر بنی ہوئی تھی۔ کچھ دور جا کر ایک ہمیں ایک عجیب چیز نظر آئی۔ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایکسر سائز مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ جو لوگ اپنے جسم کو فٹ رکھنے کے شوقین ہوں وہ عین سمندر کے کنارے تازہ ہوا میں ورزش کر سکتے تھے۔ یہ ایک بہت اچھی سہولت تھی ورنہ ہمارے ہاں تو جم کی اچھی خاصی فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ جگہ جگہ سڑک کے کنارے سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ نیچے بنی ہوئی سرنگ سے سڑک پار کر کے ساحل تک جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بہت کم لوگوں کو سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
راستے میں ماریہ نے آئس کریم کی فرمائش کر دی۔ میں نے ایک دکان پر گاڑی روکی۔ اس قصبے کا نام "ارھاوی" تھا۔ یہاں والز آئس کریم کا نام "ال جیڈا" تھا۔ جب میں یونی لیور کے آئس کریم ڈویژن میں کام کرتا تھا تو ہمارے سامنے ترکی میں کمپنی کے آئس کریم بزنس کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ یہی حقیقت تھی کہ ترکی کے ہر ہر اسٹور پر ال جیڈا کا فریزر رکھا ہوا تھا اور ا س میں آئس کریم بھری ہوئی تھی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ یہاں کوکا کولا کا بھی تھا۔ پیپسی کہیں دور دور تک نظر نہ آ رہی تھی۔
ارھاوی سے آگے چلے تو پھر سرنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان میں سے ایک سرنگ بہت قدیم تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ اب گری کہ اب گری۔ سرنگ کی چھت سے باقاعدہ پانی ٹپک رہا تھا۔ جلدی جلدی اس سرنگ سے نکلے۔ اب ہم "رزے " شہر پہنچ رہے تھے جو کہ صوبائی صدر مقام تھا۔
چونکہ اب ہم کافی سفر طے کر چکے تھے۔ مناسب یہ تھا کہ گاڑی کا آئل چینج کروا لیا جائے۔ شیل کا ایک سروس اسٹیشن دیکھ کر میں نے گاڑی یہاں روک دی۔ سروس اسٹیشن کے ملازمین کو بات سمجھانا ایک مشکل کام ثابت ہوا۔ انہوں نے مسئلے کا حل یہ کیا کہ اندر سے اپنے منیجر کو بلا لائے۔ یہ صاحب نہایت ہی صاف انگریزی بول رہے تھے۔ ایسی اچھی انگریزی ترکی میں کم ہی سننے میں ملی تھی۔ ان سے معلوم ہوا کہ موصوف اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ویسے استنبول میں رہتے تھے مگر یہاں ایک ہوٹل کی تعمیر کے سلسلے میں موجود تھے۔ کہنے لگے کہ ہمارے پاس آئل چینج کا سلسلہ تو نہیں ہے البتہ آپ کی گاڑی میں آئل کم ہے۔ اسے پورا کر دیتے ہیں۔ بعد میں آپ آئل چینج کروا لیجیے گا۔
رزے کے بعد اگلا شہر "ہوپا"آیا۔ یہ ترکی کا آخری بڑا شہر تھا۔ اس کے بعد جارجیا کی سرحد تھی۔ جارجیا کا دار الحکومت تبلیسی یہاں سے دو تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ 1990ء تک یہ علاقہ سوویت یونین میں شامل تھا مگر جب اس کے ٹکڑے ہوئے تو جارجیا نے بھی دوسری بہت سی ریاستوں کی طرح آزادی کا اعلان کر دیا۔
اب ہم یاجوج ماجوج کی سرزمین میں داخل ہو رہے تھے۔ بائبل کی کتاب پیدائش کے مطابق سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد انسانی نسل ان کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث سے چلی تھی۔ سام نے رہائش کے لئے دجلہ و فرات کی وادی کا انتخاب کیا جو "میسو پوٹیمیا" کہلاتی ہے۔ حام نے اپنی اولاد سمیت دریائے نیل کی وادی میں رہائش اختیار کی۔ یافث کو بحیرہ کیسپین اور بحیرہ اسود کے درمیان کا علاقہ پسند آیا، چنانچہ انہوں نے اپنی اولاد کو یہاں آباد کر دیا۔ اس وقت ہم اسی علاقے سے گزر رہے تھے۔
یافث کی اولاد میں سے ماجوج (Magog) نام کے ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ان کی نسل میں "یاجوج "یا "جوج "(Gog) نام کا بادشاہ گزرا ہے۔ اس وجہ سے ماجوج کی پوری نسل یاجوج و ماجوج کہلائی۔ سام و حام کی نسلوں نے بڑی بڑی تہذیبیں قائم کیں مگر یاجوج ماجوج زیادہ تر خانہ بدوش رہے۔ ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کی وجہ سے یہ اپنے اصل وطن سے شمال، مشرق اور مغرب کی طر ف نکل کھڑے ہوئے۔ شمال میں انہوں نے روس کو اپنا مسکن بنایا۔ مشرق میں انہوں نے چین اور ہندوستان پر اپنا اقتدار قائم کیا اور مغرب میں یورپ کی سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد معلوم تاریخ میں امریکہ اور آسٹریلیا پر بھی ان ہی کی حکومت قائم ہوئی۔ سام اور یافث کی نسلوں میں کئی مرتبہ زمین کے حصول کے لئے جنگ ہوئی۔ ایسی ہی ایک جنگ کی تفصیل بائبل کی کتاب "حزقی ایل" میں ملتی ہے۔
دنیا کا اقتدار سب سے پہلے حام کی نسلوں کو سپرد ہوا اور مصر میں انہوں نے عظیم الشان تہذیب قائم کی۔ اس زمانے میں حام کی افریقی نسلیں سپر پاور کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اس کے بعد سام کی نسلوں کی باری آئی۔ سام کی نسل کے ایک بطل جلیل سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کی دو شاخوں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کو باری باری زمین کا اقتدار نصیب ہوا۔ اس کی تفصیل آپ میرے سابقہ سفرنامے "قرآن اور بائبل کے دیس میں" پڑھ سکتے ہیں۔
قرآن مجید اور بائبل میں قیامت کی یہ نشانی بیان ہوئی ہے کہ اس سے پہلے روئے زمین پر یاجوج و ماجوج کا اقتدار قائم ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان کے پہلے گروہ نے منگولیا سے اٹھ کر تاتاریوں کی شکل میں عالم اسلام پر یلغار کی۔ کچھ عرصے بعد یہ گروہ تو مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد یاجوج و ماجوج کے دوسرے گروہ نے یورپی استعمار کی صورت میں ایشیا اور افریقہ پر پھر یلغار کی۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں بھی دنیا کی تمام بڑی طاقتیں یعنی امریکہ، روس اور چین کا بڑا حصہ یاجوج ماجوج ہی پر مشتمل ہیں۔ یافث کی ماجوج کے علاوہ اور اولاد بھی ہو گی مگر غالب اکثریت کے اصول پر یافث کی پوری نسل ہی کو یاجوج و ماجوج کے نام سے مذہبی صحیفوں میں بیان کیا گیا ہے۔
بعض صحیح احادیث میں ایک دیوار کا ذکر آیا ہے جس کے پیچھے یاجوج و ماجوج قید ہیں اور روزانہ اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور مستقبل میں ایک دن وہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان احادیث پر جدید دور میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ آج کل تو روئے زمین کا چپہ چپہ سیٹلائٹ کی مدد سے چھانا جا چکا ہے۔ ایسی کوئی دیوار نہیں ملی جس کے پیچھے کوئی اتنی بڑی قوم آباد ہو۔
یہ سوال دراصل ایک غلط فہمی کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے جو کہ اس دیوار کو حقیقی معنی میں لینے سے پیدا ہوئی۔ اصل میں یہاں دیوار کو تمثیل کے اسلوب میں بیان کیا گیا تھا اور اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ اللہ تعالی نے انہیں گویا پہاڑوں کے اندر قید کر کے سام اور حام کی نسلوں کو ان سے محفوظ کر رکھا ہے۔ قرب قیامت میں یہ لوگ آزاد ہو کر روئے زمین پر قابض ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حافظ ابن کثیر نے بھی سورۃ کہف کی تفسیر میں اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ یہ روایت دراصل اسرائیلی روایت ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کعب الاحبار علیہ الرحمۃ سے سنی ہو گی لیکن کسی راوی نے غلطی سے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دیا۔
اب یاجوج و ماجوج کو کسی دیوار کے پیچھے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکیوں، روسیوں، یورپیوں اور چینیوں کی صورت میں یہ اس وقت زمین کے اطراف میں موجود ہیں۔ قرآن مجید اور بائبل کی یہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے۔ اب ہمیں قیامت کا انتظار کرنا چاہیے اور اپنے قول و فعل کے اعتبار سے اس کی تیاری کرنی چاہیے۔
قرآن مجید میں جناب ذوالقرنین کا ذکر آیا ہے۔ یہ ایک صاحب ایمان بادشاہ تھے جنہوں نے اپنی سلطنت کو عدل و انصاف سے بھر دیا تھا۔ ان کا ایک سفر بھی بحیرہ کیسپین اور بلیک سی کے درمیان ہوا تھا جس کے اشارات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ سورہ کہف میں ہے :
پھر (ذوالقرنین نے ایک اور مہم کا) سامان تیار کیا۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو انہیں ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل سے ہی کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے کہا: "اے ذو القرنین! یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم آپ کو کوئی ٹیکس اس مد میں ادا کریں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار تعمیر کر دیں۔"
انہوں نے کہا: "جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے، وہ کافی ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان دیوار تعمیر کر دیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو۔" جب انہوں نے پہاڑوں کے درمیانی درے کو بند کر دیا تو لوگوں سے کہا: "تم آگ دہکاؤ۔ جب یہ (آہنی دیوار) آگ کی طرح سرخ ہو گئی تو انہوں نے کہا: "لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔"
یہ دیوار ایسی تھی کہ یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر نہ آ سکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لئے اور بھی مشکل تھا۔ (ذو القرنین نے ) کہا: "یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ (کہف 18:91-98 )
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ذو القرنین کی سلطنت کے شمالی علاقے میں آباد اقوام پر اس دور میں بھی یاجوج و ماجوج حملے کیا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے آپ کی بنائی ہوئی دیوار کو اوپر بیان کردہ حدیث میں مذکور دیوار قرار دیا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جناب ذو القرنین کی بنائی ہوئی دیوار ساتویں صدی عیسوی تک قفقاز کے شہروں دربند اور دریال کے بیچ میں واقع تھی۔ دربند اب بھی داغستان کا ایک شہر ہے جو بحیرہ کیسپین واقع ہے جبکہ دریال پہاڑی سلسلہ ہے جو جارجیا اور روس کی سرحد پر واقع ہے۔ اسی سلسلے میں کہیں وہ دیوار رہی ہو گی۔ یاقوت حموی نے اس کا ذکر اپنی کتاب "معجم البلدان" میں کیا ہے۔ بہرحال اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔
اگر ہم سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے تو جارجیا میں داخل ہو جاتے مگر ہوپا سے ہمیں بلیک سی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہنا تھا۔ یہاں پہنچ کر ہم نے اس سمندر کا آخری نظارہ کیا اور گاڑی سمندر سے ہٹ کر اندر کی طرف ڈال لی۔ یہ علاقہ بھی باقی بلیک سی ریجن کی طرح سرسبز پہاڑوں پر مشتمل تھا۔
اب ہم ایک چھوٹے سے دریا کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے جسے نالہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یہاں کی سڑک میں بل بہت زیادہ تھے جس کی وجہ سے گاڑی کو زیادہ اسپیڈ پر بھگانا مشکل ہو رہا تھا۔ ایک مقام پر قدیم دور کا پتھر کا ایک محرابی پل بنا ہوا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم "بورچکا" جا پہنچے۔ یہاں کچھ ایسا ہی منظر تھا جیسا کہ ہمارے ہاں تھاکوٹ کے قریب شاہراہ قراقرم کا منظر ہوتا ہے جب یہ سڑک دریائے سندھ پر آ نکلتی ہے۔ بس فرق یہ تھا کہ ہم دریائے سندھ کی بجائے دریائے چوروح پر پہنچ رہے تھے۔
دریائے چوروح ترکی کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ یہ دریا ترکی کے شمال مشرقی ریجن کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور اپنے ساتھ بہت سے چھوٹے دریاؤں کو ملاتا ہوا جارجیا میں داخل ہوتا ہے جہاں کچھ سفر طے کرنے کے بعد یہ بلیک سی میں جا گرتا ہے۔ بورچکا پر ایک بڑا ڈیم بنا ہوا تھا جس کی جھیل کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی تھی۔ ڈیم سے پہلے ہم نے دریا کا پل پار کیا اور دوسری جانب پہنچ گئے۔ اب سڑک بل کھاتی ہوئی اوپر کی طرف جا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہم پہاڑ کے اوپر جا پہنچے۔ یہاں سے جھیل کا نظارہ قابل دید تھا۔
اب ہماری منزل "آرٹوِن" تھی جو یہاں سے محض 25 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ڈیم کی وجہ سے دریا جھیل کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہ جھیل آرٹون تک ہمارے ہمراہ رہی۔ آرٹون کے بارے میں بروشرز میں بڑے بلنگ و بانگ دعوے کئے گئے تھے۔ اس وجہ سے ہمارے ذہن میں یوزن جھیل جیسا تصور موجود تھا مگر جیسے ہی ہم یہاں پہنچے، ہمارے خوابوں کا تاج محل چکنا چور ہو گیا۔ یہ خشک پتھریلے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس میں کہیں کہیں سبزہ نظر آ رہا تھا۔ دریائے چوروح کا رنگ بھی مٹیالا تھا جس کی وجہ سے اس کا حسن بھی ماند پڑ گیا تھا۔
شہر کے بیچ میں ایک نہایت ہی شاندار آبشار موجود تھی جس میں سے بے پناہ پانی نیچے گر رہا تھا۔ میری اہلیہ کہنے لگیں، "یہ آبشار قدرتی نہیں لگ رہی۔ " میرا خیال تھا کہ یہ قدرتی ہے۔ ہم کچھ دیر آبشار کے نیچے بیٹھ کر اس کا نظارہ کرنے لگے۔ ہمارے اختلاف کا تھوڑی دیر ہی میں فیصلہ اس طرح ہوا کہ اچانک بجلی چلی گئی اور یہ قدرتی نظر آنے والی آبشار خود بخود بند ہو گئی۔ یہاں ایک دکان سے ہم نے کھانے پینے کی کچھ اشیاء خریدیں۔ میں نے اپنے لئے پھل لیا جس میں ترکی کی مشہور زمانہ خوبانیاں شامل تھیں۔ یہ سائز میں ہماری خوبانیوں سے دوگنا اور نہایت ہی رسیلی تھیں۔
دریائے چوروح پر بورچکا ڈیم
دکاندار نے مجھے ایرانی سمجھ کر خواہ مخواہ فارسی میں منہ ماری کرنا چاہی۔ جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو وہ صاحب بڑے افسردہ ہوئے۔ کہنے لگے، "پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں۔" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا میڈیا بھی پاکستان کے حالات کو خاصی کوریج دیتا ہے کہ ایک دور دراز دیہاتی علاقے میں رہنے والوں کو بھی پاکستان کے حالات کا علم ہے۔
آرٹون کی متوقع خوبصورتی کے باعث ہمارا ارادہ تھا کہ یہاں بھی ایک دو دن رکیں گے مگر اس شہر کے امپریشن نے ہمارے خواب چکنا چور کر دیے تھے چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ آگے چل کر کہیں رکا جائے۔ اب ہم دریائے چوروح کے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگے۔ کچھ دور جا کر ایک عجیب منظر ہماری نگاہوں کے سامنے آ گیا۔ دریا کے دونوں طرف پہاڑوں کو کھود کر انہیں ایک پیالے کی شکل دی گئی تھی۔ درمیان میں دریا بھی کہیں کہیں چٹانوں کے اندر غائب ہو رہا تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہاں ماہرین نے دریا کو سرنگوں میں سے گزار کر بجلی پیدا کرنے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔
پہاڑ کی چوٹی سے آرٹون کا نظارہ
دریائے چوروح
کچھ دور جا کر سبزہ غائب ہو گیا۔ اب ہم چٹیل پتھریلے پہاڑوں کے بیچ میں سفر کر رہے تھے اور دریائے چوروح ہمارے ہمراہ تھا۔ اس پہاڑی سلسلے کو "کچکار" کہا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ پہاڑ خوفناک ہوتے جا رہے تھے۔ ہم اب ایک تنگ و تاریک درے میں داخل ہو چکے تھے۔ بعض مقامات پر تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پہاڑ جیسے سر پر آ گرے گا۔ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں جگہ جگہ پہاڑ سڑک پر آ گرا تھا۔ ایک مقام پر تو باقاعدہ گاڑیاں لائن میں رکی ہوئی تھیں۔ اتر کر اگلی گاڑی سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہاں ابھی تازہ تازہ سلائیڈنگ ہوئی ہے اور ہائی وے ڈیپارٹمنٹ نے گاڑیوں کو روکا ہوا ہے۔ ہم نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ عین ہمارے گزرنے کے وقت سلائیڈنگ نہیں ہوئی۔ کچھ دیر کے بعد سڑک صاف ہوئی تو یہاں سے روانگی ہوئی۔
کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ایک دو راہے پر جا پہنچے۔ یہاں سے ایک سڑک قریب ہی واقع قصبے "یوسف علی" کی طرف جا رہی تھی۔ یہ مقام "دریائی رافٹنگ" کے لئے مشہور ہے۔ رافٹنگ ایسا کھیل ہے جس میں ربڑ کی کشتیوں پر بیٹھ کر تیزی سے بہتے ہوئے پہاڑی دریا میں کشتی رانی کا شوق پورا کیا جاتا ہے۔ میرا بھی ارادہ تھا کہ اس کھیل کا تجربہ کر کے دیکھا جائے مگر اس وقت یہاں ایسے کوئی آثار نہ تھے۔ سنا ہے کہ ہمارے ہاں بھی شمالی علاقوں میں فوجی جوان یہ کھیل کھیلتے ہیں مگر عوام میں یہ کھیل مقبول نہیں ہے۔
یوسف علی کے قریب ایک سروس اسٹیشن پر نماز ادا کرنے کے بعد سے ہم نے اگلے شہر "ارض روم" کی طرف رخ کیا۔ یہاں سے دریا کی دو شاخیں ہو رہی تھیں۔ ایک تو یوسف علی کی جانب سے آ رہی تھی اور دوسری ارض روم کی طرف سے۔ تھوڑی دور جا کر ہمیں "ٹورٹم آبشار" کا بورڈ نظر آیا چنانچہ میں نے اسی طرف گاڑی موڑ لی۔
پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے ہم آگے بڑھے۔ اس مقام پر لگے ایک تعارفی بورڈ میں ٹورٹم کو ترکی کا سب سے قیمتی قدرتی خزانہ قرار دیا گیا تھا۔ یہاں ایک وسیع وادی تھی جس میں دریائے چوروح ایک پرسکون ندی کی طرح بہہ رہا تھا۔ اچانک دریا کے راستے میں کئی سو فٹ گہری کھائی آ جاتی ہے اور دریا اس کے اوپر سے ایک بہت بڑی آبشار کی صورت میں نیچے گرتا ہے۔ اسی کا نام ٹورٹم آبشار تھا۔
آبشار کے دونوں جانب نیچے جانے کے لئے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ ان سیڑھیوں کی تعداد کم از کم 200تو ہو گی۔یہ آبشار واقعتاً ترکی کا سب سے قیمتی قدرتی خزانہ تھی۔ یہاں پانی چار حصوں میں تقسیم ہو کر نیچے گر رہا تھا۔ درمیان کے دو حصوں میں پانی زیادہ تھا جبکہ کناروں پر پانی کم تھا۔
ٹورٹم آبشار
ٹورٹم جھیل (بشکریہ www.panoramio.com )
ہم ایک طرف کی سیڑھیوں سے نیچے اترنا شروع ہوئے۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچے تو آبشار کا ایک مختلف زاویے سے جائزہ لیا۔ بالکل نیچے پہنچ کر آبشار ایک بڑے سے تالاب میں گر رہی تھی۔ اس تالاب سے پانی چھلک کا دوبارہ ندی کی صورت اختیار کر رہا تھا۔ یہی ندی آگے جا کر دریائے چوروح میں مل رہی تھی۔
یہاں بعض ترک پتھروں پر قدم رکھتے ہوئے آبشار کے قریب جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم نے اس کوشش سے پرہیز کیا کیونکہ پانی کی وجہ سے پتھر کافی چکنے ہو رہے تھے اور ذرا سی غلطی سے ہم تیز بہتی ہوئی ندی میں گر سکتے تھے۔ آبشار سے اڑنے والی پانی کی پھوار دور تک پھیل رہی تھی۔
کچھ دیر یہاں گزار کر ہم نے واپسی کے لئے دوسری جانب کی سیڑھیوں کا انتخاب کیا۔ اوپر پہنچے تو صورتحال مختلف ہو چکی تھی۔ اب ہم ندی کے دوسری جانب تھے۔ یہاں ندی پرسکون تھی۔ یہی ندی آہستہ آہستہ پہاڑی کے کنارے کی طرف جا رہی تھی جہاں سے یہ یک دم پوری قوت سے آبشار کی صورت میں نیچے گر رہی تھی۔ اس مقام پر ندی کو پار کرنے کے لئے پتھر رکھ کر راستہ بنایا گیا تھا جس پر سے گزر کر ہم واپس پارکنگ میں پہنچ گئے۔ یہاں کچھ ریستوران بنے ہوئے تھے۔ اب شام ہو رہی تھی لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ جلد از جلد ارض روم کی طرف روانہ ہوا جائے تاکہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔
کچھ دور جا کر ہم ایک بہت بڑی جھیل پر پہنچ گئے۔ یہ ٹورٹم جھیل تھی۔ سنہرے پہاڑوں کے درمیان اس جھیل کا نیلا پانی خوب منظر پیش کر رہا تھا۔ جھیل کافی بڑی تھی اور سڑک اس کے کنارے پر چل رہی تھی۔ کچھ دیر بعد مغرب ہو گئی اور اندھیرا پھیلنے لگا۔ سڑک اب کافی چوڑی ہو چکی تھی۔ یہاں سنگل سڑک کے بیچ میں ایک لین بنا دی گئی تھی جو کہ اوور ٹیکنگ کے لئے استعمال ہو سکتی تھی۔ اب ہم "ارض روم" کے قریب ہوتے چلے جا رہے تھے۔
ارض روم پہنچے تو یہ ایک عجیب شہر خموشاں کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ابھی عشاء کی اذان ہو رہی تھی اور پورا شہر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ہوٹل ڈھونڈنا نہیں پڑا۔ جلد ہی سڑک کے کنارے ایک ہوٹل نظر آیا جس کے نیچے ریستوران بھی بنا ہوا تھا۔ ہوٹل میں داخل ہوئے تو ریسپشن پر مامور صاحب نماز پڑھ رہے تھے۔ ہمیں بھوک لگ رہی تھی۔ نیچے موجود ریستوران میں داخل ہوئے تو ماحول کچھ ایرانی سا لگا۔ اس سے پہلے اہل ترکی مجھے "پاشا" کہہ کر پکار رہے تھے، ایران سے قربت کے باعث یہاں انہوں نے مجھے "آغا" قرار دیا۔
ہوٹل کے کاؤنٹر پر ایک باریش ترک بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا خیر مقدم کیا۔ اب کھانے کے انتخاب کا مسئلہ تھا۔ سامنے تھال میں کھانے سجے ہوئے تھے۔ سوچ سمجھ کر سبزی گوشت کا انتخاب کیا جو کہ درست ثابت ہوا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ہمارے ہی کھانوں کی ابتدائی شکل ہو جس سے ارتقاء کرتے کرتے موجودہ پاکستانی سالن وجود میں آیا ہو۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں ہوٹل میں کمرہ لینے کے لئے گیا۔ ریسپشن پر موجود صاحب کی نماز ابھی جاری تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے کمرہ دکھایا جہاں ہمیں رات گزارنا تھی۔
ارض روم مشرقی ترکی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ بھی ایک قدیم شہر ہے جس کی تاریخ 4000 قبل مسیح تک جاتی ہے۔ شہر کے نام کی وجہ یہ ہے کہ جب مسلم حکومتوں نے مشرقی اناطولیہ کا علاقہ فتح کیا تو ان کی سرحدیں اس شہر پر آ کر رک گئیں۔ اس زمانے میں یہ رومی سلطنت کا آخری شہر ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عربی اور فارسی میں اسے "ارض روم" یعنی روم کی سرزمین کا نام دے دیا گیا۔اپنی سرحدی لوکیشن کی وجہ سے یہ شہر تاریخ میں ہمیشہ جنگوں کا مرکز بنا رہا ہے۔ ابن بطوطہ کے دور میں یہاں سلجوقیوں اور تاتاریوں کے درمیان جنگ کے نتیجے میں یہ شہر تباہ ہو گیا تھا۔ اپنے سفر نامے میں موصوف لکھتے ہیں:
ہم مڑ کر ارزو روم (ارض روم) شہر پہنچے۔ یہ عراق کے شہروں میں سے ایک شہر ہے جس کا رقبہ بہت زیادہ ہے۔ اس کا اکثر حصہ اس فتنہ کے باعث تباہ ہو چکا تھا جو کہ ترکمان کے دو گروہوں کے مابین واقع ہوا۔ اس میں سے تین دریا گزرتے ہیں۔ اس کے اکثر حصے پر باغات پھیلے ہوئے ہیں۔
ترکی کے باقی حصوں کی طرح ارض روم میں بھی صبح بہت جلد ہو گئی۔ ناشتے کے طور پر ایک بیکری سے پنیر کے پیٹز لئے۔ میں چونکہ دوپہر کے کھانے میں صرف پھل کھاتا ہوں، اس لئے ایک پھلوں کی دکان سے ڈھیر سارے انگور، خوبانیاں اور آڑو بھی خریدے۔ اب میرے پاس ترکش لیرا ختم ہو رہے تھے۔ ایک بینک ڈھونڈ کر یہاں سے لیرا حاصل کرنے کے بعد ہم شہر سے نکلنے کو تیار ہو گئے۔
ارض روم کی مشہور شخصیات میں محمد فتح اللہ گولان شامل ہیں۔ آپ ایک مذہبی سکالر، مفکر، ممتاز اہل قلم اور شاعر ہیں۔ گولان نے جدید معاشرتی اور طبعی علوم کے اصول و ضوابط اور نظریات کا بھی عمیق مطالعہ کیا۔ انہوں نے ترکی میں ایک اسلام پسند تعلیمی تحریک کی بنیاد رکھی۔
محمد فتح اللہ گولان نے اپنے خطبات اور تحریروں میں اکیسویں صدی کا ایسا تصور پیش کیا ہے جس میں ہم ایک ایسی ہمہ پہلو روحانی تبدیلی کا مشاہدہ کریں گے جو خوابیدہ اخلاقی اقدار میں ایک نئی روح پھونکے گی۔ یہ برداشت، فہم و فراست اور بین الاقوامی تعاون کا دور ہو گا۔جو کہ تہذیبوں کے درمیان مکالمہ اور مشترکہ اقدار کی بنا پر ایک مشترک معاشرتی تہذیب کی طرف راہنمائی کرے گا۔تعلیم کے میدان میں انہوں نے بہت سے فلاحی ادارے بنانے میں سرپرستی کی ہے۔ جن کا مقصد نہ صرف ترکی کے اندر بلکہ ترکی کے باہر بھی رفاہ عامہ کے لیے کام کرنا ہے۔ انہوں نے عوام کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اہم مسائل سے آگاہی کے لیے میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
گولان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عوام کے لیے انصاف کا حصول، معقول اور مناسب تعلیم پر منحصر ہے۔ صرف اسی صور ت میں دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور احترام کا مناسب فہم اور بردباری کا جذبہ پیدا ہو گا۔اس مقصد کے لیے انہوں نے سالہا سال سے معاشرے کے سرکردہ افراد اور راہنماؤں، مضبوط صنعت کاروں اور چھوٹے کاروباری لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ وہ تعلیمی معیار بڑھانے میں امداد کریں۔ ان ذرائع سے حاصل ہونے والے عطیات سے تعلیمی رفاہی ادارے اس قابل ہوئے کہ وہ ترکی میں اور ترکی سے باہر بہت سے سکول قائم کریں۔
گولان کے مطابق جدید دنیا میں آپ ترغیب سے ہی دوسروں کو اپنے خیالات ماننے کے لیے قائل کر سکتے ہیں۔وہ بیان کرتے ہیں کہ جو لوگ اپنے خیالات زبردستی دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں وہ عقلی طور پر دیوالیہ ہیں۔ لوگ ہمیشہ اپنے معاملات میں طریقہ کار کے انتخاب اور اپنی مذہبی و روحانی اقدار کے اظہار کے لیے آزادی چاہیں گے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جمہوریت اپنے تمام تر نقائص کے باوجود اب واحد پائیدار سیاسی نظام ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ جمہوری اداروں کو جدید اور مستحکم بنانے کی کوششیں کریں۔ تاکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جا سکے جس میں انفرادی حقوق اور آزادی نہ صرف محفوظ ہوں بلکہ ان کا احترام کیا جاتا ہو۔جہاں سب کے لیے مساوی مواقع ایک خواب کی طرح نہ ہوں۔
ان کی کئی تحریروں کا ترجمہ جرمن، روسی، البانوی، جاپانی، انڈونیشیائی، ہسپانوی اور اردو زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ گولان کی تحریروں کو ان کی ویب سائٹ www.fgulen.com پر دیکھا جا سکتا ہے۔
طویل سفر کے بعد آئل چینج کرنا بہت ضروری ہو گیا تھا۔ میں نے ایک سروس اسٹیشن پر گاڑی روکی اور بونٹ اٹھا کر وہاں موجود اسٹاف کو آئل چینج کرنے کے لئے کہا۔ یہ صاحب برٹش پٹرولیم کے تیل کی بوتل اٹھا لائے اور انجن میں موجود تیل نکالے بغیر اسے گاڑی میں ڈالنے لگے۔ میں نے مداخلت کی اور پہلے پرانا تیل نکالنے کے لئے کہا لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آ سکی۔ یہ اپنے ایک دوست کو بلا لائے جو کچھ کچھ انگریزی جانتے تھے۔ انہیں بمشکل بات سمجھائی اور انہوں نے بمشکل دوسرے کو یہی بات سمجھائی۔ کہنے لگے، ہمارے پاس نیچے سے نٹ کھولنے کا سامان نہیں ہے۔ دوسرے اسٹیشن پر گئے تو وہاں بھی یہی مسئلہ سامنے آیا۔
مجھے یاد آیا کہ رات شہر میں داخل ہوتے وقت راستے میں ایک جگہ بہت سی ورکشاپس دیکھی تھیں۔ اب ہم وہاں کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک مکینک کو آئل چینج کا کہا تو انہوں نے ایگزان موبل، شیل، کالٹیکس اور برٹش پٹرولیم کے تیل کے ڈبے سامنے رکھ دیے اور پوچھا: "کون سا۔" میں نے ایک کا انتخاب کیا۔ یہ صاحب بھی اسی طرح بغیر پرانا تیل نکالے انجن کا ڈھکنا کھولنے لگے۔ اب میں نے تقریباً رقص کرتے ہوئے اشاروں سے بات انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ خدا کا شکر ہے کہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ انہوں نے ساتھ والی ورکشاپ پر آنے کو کہا۔ یہاں زمین میں باقاعدہ خندق کھدی ہوئی تھی۔ ان صاحب نے نیچے اتر کر نٹ کھولا اور پرانا تیل نکالا۔ اس کے بعد نیا تیل ڈال کر فلٹر تبدیل کیا۔ مجھے ان کی صفائی پر حیرت ہو رہی تھی۔ ہمارے مکینک حضرات تو رات کو گھر جاتے ہوئے ہی ہاتھ دھوتے ہیں جبکہ یہ صاحب ہر دو منٹ بعد مخصوص لیکوڈ ہاتھوں پر مل کر ہاتھ دھو رہے تھے۔ اب ہم "ڈوغو بایزید" جانے کے لئے تیار تھے۔
اب ہم ارض روم سے ایران جانے والی سڑک پر رواں دواں تھے۔ قدیم دور میں یہ پورا علاقہ "آرمینیا" کہلاتا تھا جس میں موجودہ ترکی کا تقریباً پورا مشرقی علاقہ شامل تھا۔ موجودہ دور میں آرمینیا ایک الگ ملک ہے جو اسی علاقے میں ترکی کے مشرق میں واقع ہے۔ آرمینیا پر بھی 1991ء تک روس نے قبضہ جمایا ہوا تھا۔ آرمینیا سے پرے آذر بائیجان کا علاقہ ہے جس کا کچھ حصہ ایران کے صوبے آذر بائیجان میں شامل ہے اور بقیہ حصہ ایک علیحدہ ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔
عہد رسالت میں آرمینیا کا علاقہ روم اور ایران کی سپر پاورز کے درمیان سرحدی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا کچھ حصہ ایران اور باقی حصہ روم کے زیر اثر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکی زندگی کے زمانے میں روم اور ایران کے مابین اس علاقے میں شدید جنگ ہوئی۔ ایرانیوں نے ان جنگوں کو مجوسیت اور مسیحیت کے درمیان جنگ کا نام دیا۔ عیسائیوں کے جن فرقوں کو کلیسا نے بدعتی قرار دیا تھا، وہ اور یہودی اس جنگ میں ایرانیوں کے ساتھ تھے۔ شروع میں ایران کی افواج غالب آئیں۔ مکہ کے مشرکین کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں کیونکہ یہ ان کے مشرک بھائی تھے جبکہ مسلمانوں کی ہمدردیاں عیسائیوں کے ساتھ تھیں کیونکہ یہ بہرحال توحید، نبوت اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ اسی دوران سورہ روم نازل ہوئی۔
الْم. غُلِبَتْ الرُّومُ. فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ. فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ. بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ۔
رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال میں وہ غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہو گا جب اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر اہل ایمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ جس کی چاہے مدد فرماتا ہے اور وہ زبردست اور مہربان ہے۔ (روم 30:1-5 )
جب یہ آیات نازل ہوئیں تو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کا خوب مذاق اڑایا کہ تمہارے خدا نے یہ کیا بات کر دی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایرانی افواج، رومیوں کو مارتے ہوئے تقریباً پورا اناطولیہ فتح کر چکی تھیں اور استنبول فتح کرنے کے قریب تھیں۔ جنوب میں انہوں نے پورا شام، فلسطین اور مصر فتح کر لیا تھا۔ سید ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں:
619ء تک پورا مصر ایران کے قبضے میں چلا گیا اور مجوسی فوجوں نے طرابلس (موجودہ لیبیا) کے قریب پہنچ کر اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ ایشیائے کوچک (موجودہ ترکی) میں ایرانی فوجیں رومیوں کو مارتی دباتی باسفورس کے کنارے تک پہنچ گئیں اور 617ء میں انہوں نے عین قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کے سامنے خلقدون (موجودہ قاضی کوئی ) پر قبضہ کر لیا۔ قیصر نے خسرو کے پاس ایلچی بھیج کر نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ میں ہر قیمت پر صلح کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر اس نے جواب دیا کہ "اب میں قیصر کو اس وقت تک امان نہ دوں گا جب تک کہ وہ پا بزنجیر میرے سامنے حاضر نہ ہو اور اپنے خدائے مصلوب کو چھوڑ کر خداوند آتش کی بندگی اختیار نہ کر لے۔ " آخر کار قیصر اس حد تک شکست خوردہ ہو گیا کہ اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ (موجودہ تیونس) منتقل ہو جانے کا ارادہ کیا۔
شہنشاہ ایران خسرو کے غرور و تکبر کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے، جو اس نے یروشلم کی فتح کے وقت قیصر روم کے نام لکھا۔
سب خداؤں سے بڑے خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینہ اور بے شعور بندے ہرقل کے نام۔ تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے۔ کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا۔
قرآن مجید کی اوپر بیان کردہ آیات میں یہ خوشخبری تھی کہ جب اہل روم غلبہ پائیں گے تو اسی زمانے میں اہل ایمان بھی کفار مکہ کے مقابلے میں غالب ہوں گے۔ ان آیات کے نزول کے چند ہی برس کے عرصے میں ایسا ہی ہوا۔ مودودی صاحب لکھتے ہیں:
622ء میں ادھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور ادھر قیصر ہرقل خاموشی سے قسطنطنیہ سے بحر اسود کے راستے ترابزن کی طرف روانہ ہوا جہاں سے اس نے ایران پر پشت کی طرف سے حملہ کرنے کی تیاری کی۔ اس جوابی حملے کی تیاری کے لئے قیصر نے کلیسا سے روپیہ مانگا اور مسیحی کلیسا کے اسقف اعظم سرجیس نے مسیحیت کو مجوسیت سے بچانے کے لئے گرجاؤں کے نذرانوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض دی۔ ہرقل نے اپنا حملہ 623ء میں آرمینیا سے شروع کیا اور دوسرے سال 624ء میں اس نے آذر بائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ (Clorumia) کو تباہ کر دیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر پہلی مرتبہ مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح وہ دونوں پیشین گوئیاں جو سورہ روم میں کی گئی تھیں، دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے بیک وقت پوری ہو گئیں۔
پھر روم کی فوجیں ایرانیوں کو مسلسل دباتی چلی گئیں۔ نینوی کی فیصلہ کن لڑائی (627ء) میں انہوں نے سلطنت ایران کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دستگرد (دشکرۃ الملک) کو تباہ کر دیا گیا اور آگے بڑھ کر ہرقل کے لشکر عین طیسفون (Ctesiphon) کے سامنے پہنچ گئے جو اس وقت ایران کا دار السلطنت تھا۔
اب ہم ارض روم سے مشرق کی طرف جا رہے تھے۔ یہ شاہراہ ریشم (Silk Route) تھی۔ بعض قارئین کو حیرت ہو گی کہ شاہراہ ریشم تو اپنی شاہراہ قراقرم کو کہا جاتا ہے جو چین جاتی ہے، یہ ترکی میں کہاں سے آ گھسی۔ شاہراہ ریشم کسی خاص سڑک کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک قدیم راستے بلکہ راستوں کے مجموعے کا نام ہے جس کے ذریعے یورپ سے لے کر چین تک تجارت کی جاتی تھی۔ یورپ سے تجارتی سامان بلیک سی کے راستے ترابزن لایا جاتا جہاں سے یہ ارض روم پہنچا دیا جاتا۔یہاں سے تجارتی قافلے ایران کے شہر تبریز پہنچ جاتے۔ اس کے بعد یہ زنجان، قزوین، تہران اور نیشاپور سے ہوتے ہوئے پورا ایران پار کر کے ہرات سے افغانستان میں داخل ہوتے۔ ان قافلوں میں سے بعض بخارا، سمرقند اور تاشقند سے ہوتے ہوئے دریائے آمو کے ساتھ ساتھ چین کی طرف چلے جایا کرتے تھے۔
افغانستان میں یہ تجارتی قافلے ہرات، قندہار، غزنی اور کابل سے سفر کرتے ہوئے پشاور کے قریب موجودہ پاکستان کے علاقے میں داخل ہوتے۔ یہاں سے شاہراہ ریشم کے دو حصے ہو جایا کرتے تھے۔ ایک حصہ جنوب مشرق میں لاہور اور پھر دہلی تک جاتا جبکہ دوسرا حصہ شمال مشرق میں مانسہرہ اور گلگت سے ہوتا ہوا چین کے شہر کاشغر پہنچ جاتا۔ یہاں سے پھر آگے چین کے دیگر شہروں میں تجارت ہوا کرتی تھی۔
دور جدید میں سلک روٹ کو دوبارہ آباد کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی ہے۔ شاہراہ قراقرم کی صورت میں چین اور پاکستان نے سڑک تعمیر کر دی ہے۔ ایران اور ترکی میں ان کی سڑکوں کا اپنا نیٹ ورک موجود ہے۔ درمیان میں افغانستان کے حالات کی وجہ سے یہ لنک ٹوٹا ہوا ہے۔ اللہ تعالی اگر اس ملک کو امن نصیب کر دے تو یہ رابطہ دوبارہ بحال ہو سکتا ہے۔ جن دنوں ہم ترکی میں شاہراہ ریشم پر سفر کر رہے تھے، انہی دنوں یہ خبر بھی نظر سے گزری کہ اسلام آباد سے استنبول تک کارگو ٹرین سروس کا آغاز ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ جدید دور کی شاہراہ ریشم ثابت ہو جائے۔
ہمارے ساتھ ساتھ ریلوے لائن چل رہی تھی۔ ارض روم سے نکل کر پہلا شہر "پسنلر" آیا۔ یہاں پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ بنا ہوا تھا۔ قلعے کے نیچے ایک عجیب منظر تھا۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کون نما گھر بنے ہوئے تھے۔ ایسے گھر ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آتش فشانی مادہ پر مشتمل کونز تھیں جن کو کھوکھلا کر کے لوگوں نے ان میں اپنے گھر بنا رکھے تھے۔ انہیں "فیئری چمنی" کا نام دیا گیا ہے۔ اس قسم کے بہت سے گھر ترکی کی مشہور تاریخی سائٹ "کپا دوجیا" میں واقع ہیں۔ فیئری چمنی کو دیکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم "کپادوجیا" کے طویل سفر سے بچ گئے جو کہ ان فئیری چمنیوں کا گڑھ ہے۔
پسنلر کا قلعہ سلجوقی دور کی یادگار لگ رہا تھا۔ قلعہ سیاہ رنگ کی چٹانوں کے اوپر بنا ہوا تھا۔بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ رومن دور میں آرمینیوں نے تعمیر کیا۔ اس کے بعد سلجوقی دور کے گورنر اوزون حسن نے پندرہویں صدی میں اس کی تعمیر نو کی۔ سلجوقی حکمرانوں کا تعلق ترکمانستان سے تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان قبائل نے منظم ہونا شروع کیا۔ دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں یہ جنوب کی طرف اپنی حکومت کو توسیع دیتے چلے گئے۔ ان کے لیڈر کا نام سلجوق تھا۔
1055ء میں سلجوق کے پوتے طغرل بیگ نے بغداد فتح کر لیا۔ اس زمانے میں عباسی بادشاہ وزیروں کے مشہور خاندان "آل بویہ" کے زیر اثر ہوا کرتا تھا۔ حکومت کے تمام فیصلے آل بویہ کیا کرتے۔ طغرل بیگ نے اس خاندان کے اثر سے بادشاہ کو آزاد کروایا۔ اب عباسی بادشاہ سلجوقیوں کا سرپرست تھا جبکہ حقیقی حکومت سلاجقہ کے ہاتھوں میں تھی۔طغرل بیگ کے بعد حکومت اس کے بھتیجے الپ ارسلان کے ہاتھ میں آئی جس نے سلطنت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ملک شاہ کا دور آیا جس میں سلجوقی سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ انہوں نے رومیوں کو متعدد جنگوں میں شکست دے کر تقریباً پورے اناطولیہ پر اپنی حکومت قائم کر لی۔بعد میں انہوں نے قونیہ کو اپنا دار الحکومت قرار دیا۔
سلجوقی حکمران علم کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے پورے ملک میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کر کے انہوں نے تجارت کو فروغ دیا۔ تقریباً 1300ء کے لگ بھگ سلجوقی سلطنت کا زوال شروع ہوا جب یہ مشرق سے تاتاریوں کی یلغار کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ اس کے بعد ایران کی صفوی حکومت اور وسطی ایشیا کی عثمانی حکومت کی یلغاروں نے سلاجقہ کا خاتمہ کر دیا۔
پسنلر سے آگے نکلے توہم نے خود کو ایک وسیع وادی میں پایا۔ پہاڑ اب کافی دور ہو چکے تھے۔ وسیع وادی میں ہم دریائے آرس کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ دریا کی وجہ یہ سے وادی قابل کاشت تھی اس لئے دور دور تک کھیت ہی کھیت نظر آ رہے تھے۔ ان کھیتوں میں سورج مکھی کے پھول چمک رہے تھے۔ کھیتوں میں کرد کسان پینٹ کوٹ پہن کر کام کر رہے تھے۔ یہ منظر ہمارے پنجاب سے بہت مختلف تھا جہاں کے کسان دھوتی کرتے میں کام کرتے ہیں۔ ترکوں کے ہاں خوش لباسی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ پٹری سے ٹرین گزری جس کی بوگیوں کا رنگ ہماری "قراقرم ایکسپریس" جیسا تھا۔ یہ ایک نہایت ہی سست ٹرین تھی۔
کچھ دور جا کر سڑک کے قریب دریا پر ایک پل نظر آیا۔ یہ ایک قدیم پل تھا جو سلجوقیوں نے تعمیر کیا تھا۔ بعد میں مشہور آرکی ٹیکٹ سنان نے اس پل کی تعمیر نو کروائی تھی۔ اب اس پل کو اس کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر بند کر دیا گیا تھا۔ تھوڑی دور جا کر ہمیں تیز بارش نے آ لیا۔ دریائے آرس کے کنارے تیز بارش نے کافی لطف دیا۔
اگلا شہر "حراسان" تھا۔ اسے خراسان نہ پڑھیے گا جو کہ افغانستان کا پرانا نام ہے۔ یہ بھی ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ یہ پورا علاقہ کردستان کا حصہ تھا۔ باقی ترکی کی نسبت کردستان کے شہر اتنے صاف اور ترقی یافتہ محسوس نہیں ہو رہے تھے۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ اس علاقے میں کرد آبادی ایران، عراق اور ترکی میں تقسیم ہوئی ہے۔ کردوں کی شدید خواہش ہے کہ ان کا علیحدہ وطن ہو۔ اس وجہ سے یہ لوگ پچھلے پچاس برس سے تینوں ملکوں میں تحریک آزادی چلا رہے ہیں جس میں بسا اوقات نوبت تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تینوں ممالک کی فوج نے کردوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کی پوری کوشش کی ہے۔
پچھلی صدی میں آزادی کی بہت سی تحریکیں مختلف ممالک میں چلی ہیں۔ آزادی کی تحریکیں بالعموم ان علاقوں میں چلتی ہیں جہاں حکومت غیر قوم کے افراد کے ہاتھ میں ہو۔ ان تحریکوں کے لیڈر عوام الناس میں غیر قوم کے حکمرانوں سے نفرت کو بھڑکا کر انہیں یا تو مسلح جدوجہد کے لئے تیار کرتے ہیں اور یا پھر انہیں سڑکوں پر لا کر آزادی کا مطالبہ پیش کرتے ہیں۔ اگر ان تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک عجیب حقیقت سامنے آتی ہے۔ ان تحریکوں میں عام طور پر غریب طبقے کے افراد اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو سارے کا سارا فائدہ تحریک کے لیڈروں کو چلا جاتا ہے اور قربانیاں پیش کرنے والے افراد کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر برصغیر کی تحریک آزادی کو دیکھیے۔ انگریزوں کے خلاف تحریک میں اصل قربانیاں یہاں کے غریب عوام نے دیں۔ جب انگریز یہاں سے رخصت ہوا تو اقتدار مقامی اشرافیہ کے حصے میں آیا۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں سب سے پہلے تحریک آزادی کے مخلص راہنماؤں کو صفایا کیا گیا۔ پاکستان میں محمد علی جناح کو مناسب علاج فراہم نہ کر کے اور لیاقت علی خان کو براہ راست قتل کر کے راستے سے ہٹایا گیا۔ ہندوستان میں گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک میں کرپٹ اشرافیہ کی حکومت قائم ہوئی جو اس پورے عرصے میں اپنے اپنے ملک کو لوٹ کر کھاتی رہی۔ جن لوگوں نے آزادی کے لئے حقیقی قربانیاں پیش کیں، ان کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ اس پر وہی مثال صادق آتی ہے کہ درد سہیں بی فاختہ، کوے انڈے کھائیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ کردستان کا ہے۔ تینوں ممالک یعنی عراق، ترکی اور ایران میں ایک عرصے سے تحریک چل رہی ہے۔ کردوں کے لیڈر اپنے غریب عوام وطن کے لئے جان دینے پر تیار کرتے ہیں البتہ آزادی کے بعد تمام تر فائدہ لیڈروں ہی کو ہو گا۔
اگلا شہر "آغری" تھا جو کہ صوبائی دار الحکومت کا مقام رکھتا تھا۔ شہر کے شروع میں خوبصورت جدید فلیٹ بنے ہوئے تھے۔ آگے ایک چوک پر میں نے ایک صاحب سے "ڈوغو بایزید" جانے والی سڑک کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے تفصیل سے راستہ سمجھایا۔ یہ صاحب بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ اس دوران ان کی بس نکل گئی۔ مجھے اس کا افسوس ہوا۔ میں نے سوچا کہ انہیں جہاں جانا ہے، ڈراپ کر دوں مگر اتنے میں ایک اور بس آ گئی۔
آغری کے بعد روڈ کافی خراب تھی۔ جگہ جگہ سڑک کو کھود کر دوبارہ بنایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے سفر کی رفتار کافی سست تھی۔ دو گھنٹے میں ہم ڈوغو بایزید جا پہنچے جو کہ شاہراہ ریشم پر ترکی کا آخری شہر تھا۔یہ شہر ترکی، ایران اور آرمینیا کی سرحد پر واقع ہے۔ آذر بائیجان کی سرحد بھی یہاں سے کافی قریب ہے۔
کوہ ارارات یا آرات ترکی کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اس کی بلندی 16000 فٹ سے زائد ہے۔ اس پہاڑ کا منظر نہایت ہی دلفریب تھا۔ بہتر ہو گا کہ میں اسے اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی بجائے مستنصر حسین تارڑ صاحب کے الفاظ میں بیان کروں کیونکہ ان کا طرز بیان بہت دلنشیں ہے۔ انہوں نے 1960ء کے زمانے میں پاکستان سے برطانیہ خشکی کے راستے سے سفر کیا تھا جس کی تفصیلات انہوں نے اپنے سفرنامے "نکلے تیری تلاش میں" میں بیان کی ہے۔ پاکستان سے تارڑ صاحب اپنے دوست علی کے ہمراہ افغانستان اور ایران سے ہوتے ہوئے جب ترکی میں داخل ہوئے تو ان کے سامنے وہی منظر تھا جو اس وقت ہمارے سامنے تھا۔ لکھتے ہیں:
صدر دروازے سے باہر نکل کر ترکی کی سرزمین پر جب پہلا قدم رکھا تو میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ میرے سامنے خنک چاندی کی چمکتی ہوئی ایک دیوار کھڑی تھی۔ دامن سے چوٹی تک سفید برف کے بوجھ تلے دبا ہوا بلند پہاڑ جو سرحد کے اس پار سے دھندلا کہر آلود بادل معلوم ہوتا تھا۔ اتنا نزدیک جیسے ہاتھ بڑھاؤ تو ایک چھناکے سے چھن چھن کرتی چاندی تمام وادی میں بکھر جائے۔ یہ کوہ آرات تھا۔ روایت ہے کہ طوفان نوح (علیہ الصلوۃ والسلام) کے بعد حضرت نوح کی کشتی اسی پہاڑ کی چوٹی پر لنگر انداز ہوئی تھی۔ آرات کے پہلو میں بے شمار چوٹیوں نے سر اٹھا رکھے تھے لیکن سبھی خشک اور ویران۔ اس مقدس پہاڑ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے سر بسجود۔
کوہ آرات کے خوبصورت سحر کے خنک بازو مجھے اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔ یکدم ایک تیز اور یخ بستہ ہوا چلنے لگی جو آرات کے پاک دامن سے چھو کر پھسلتی ہوئی نیچے وادیوں میں اترتی اور میرے جسم کو یخ کر جاتی۔ سیٹیاں بجاتی ہوئی تند ہوا کا شور کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھا۔۔۔۔
آرات کا پورا پہاڑ سورج کی روشنی سے چمک رہا تھا مگر گرد و نواح کے پہاڑوں اور گہری وادیوں میں دھندلکا چھا رہا تھا۔ شام ہونے کو تھی۔ قہوہ خانے کا مالک اب کباب بھوننے کی بجائے زمین پر بیٹھا آگ تاپ رہا تھا۔ میں نے آرات کی چوٹی کی جانب اشارہ کر کے پوچھا: "اس کی برف کس موسم میں پگھلتی ہے ؟" "آرات کی برف کبھی نہیں پگھلتی۔" اس نے تقدس آمیز نظروں سے چوٹی کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے بتایا۔ "یہ نوح کا پہاڑ ہے۔ وادی کے دوسری طرف جس صبح موسم صاف ہو تو اس کی اجلی برفوں میں ایک کالا دھبہ دکھائی دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ نوح کی کشتی کا ایک حصہ ہے۔ "۔۔۔۔
سڑک کے کنارے سفید سنگ میل پر "ارض روم 384 کلومیٹر" کے الفاظ کندہ تھے۔ کچی سڑک بالکل ہموار اور سیدھی جا رہی تھی۔ ہمارے بائیں ہاتھ ٹیلے اور پہاڑیاں تا حد نظر پھیلے ہوئے تھے اور دائیں جانب فصلوں اور چراگاہوں کا ایک وسیع اور سرسبز میدان آرات کی خنک دیوار کے دامن تک چلا گیا تھا۔ میدان کے خاتمے پر آرات کے پہلو میں گڑیوں کے گھروندوں ایسے ننھے منے کچے مکانوں کے گاؤں تھے۔ برف مکانوں کی چھتوں کو چھو رہی تھی۔ خنک ہوا کی شدت میں ابھی تک کوئی کمی واقع نہ ہوئی تھی۔۔ ۔۔
آج سے تقریباً سات سو برس پیشتر مارکو پولو بھی اسی راستے سے گزرا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے : "آرمینیا کے قلب میں ایک نہایت بلند پیالہ نما پہاڑ واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نوح کی کشتی یہاں لنگر انداز ہوئی تھی اور اسی مناسبت سے اسے "نوح کا پہاڑ" کہتے ہیں۔ یہ اتنا لمبا چوڑا ہے کہ اس کے گرد چکر لگانے میں دو دن صرف ہو جاتے ہیں۔ چوٹی پر برف پوری طرح کبھی نہیں پگھلتی بلکہ ہر سال پرانی برف پر نئی برف کی تہیں جم جاتی ہیں اور اس طرح اس کی بلندی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ برف کے پگھلنے سے پہاڑ کا دامن سرسبز اور زرخیز ہے۔ "
ڈوغو بایزید سے ارارات کی تصویر لینے کی ناکام کوشش |
ارارات (بشکریہ www.panoramio.com ) |
ہمارے سامنے بھی یہی منظر تھا جس کی طرف مارکوپولو اور تارڑ صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس وقت پہاڑ کی چوٹی مکمل طور پر بادلوں میں ڈھکی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے میں اس کی صاف تصویر نہ لے سکا۔ پہاڑ کا نچلا حصہ نمایاں نظر آ رہا تھا۔ ارد گرد کے پہاڑ بھی کافی بلند تھے مگر ارارات کے آگے وہ بونے محسوس ہو رہے تھے۔ پہاڑ کی چوٹی پر برف اب بھی موجود تھی اور اس کے گلیشیئر نیچے تک آئے ہوئے تھے۔
سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک بہت بڑے طوفان کی خبر ہمیں مذہبی صحائف سے ملتی ہے۔ اس کی جو تفصیلات قرآن مجید نے بیان کی ہیں، یہاں ہم وہ پیش کر رہے ہیں:
جب ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ (انہوں نے کہا:) "میں تمہیں صاف صاف خبر کرنے والا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ ایک دن تم پر درد ناک عذاب آئے گا۔" جواب میں ان کی قوم کے سرداروں، جنہوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، نے کہا: "ہمارے خیال میں تم ہمارے جیسے انسان ہی ہو۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں ذلیل تھے، بغیر سوچے سمجھے تمہاری پیروی کر لی ہے۔ ہمیں تم میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آ رہی جس میں تم ہم سے بہتر ہو۔بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے فرمایا: "اے میری قوم! دیکھو میں تو اپنے رب کی طرف سے (آفاق و انفس کی) روشن دلیل پر قائم تھا اور اس نے اپنے پاس سے مجھے رحمت (نبوت) عطا فرمائی۔ اب اگر تمہیں یہ نظر نہیں آ رہی تو ہم تمہیں اسے ماننے پر کیسے مجبور کر سکتے ہیں؟ اے میری قوم! میں اس کام کے بدلے تم سے کوئی مال نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ میں ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹانے بھی رہا جو ایمان لے آئے ہیں۔ وہ تو اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں۔ مگر میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہالت برت رہے ہو۔ اے میری قوم! اگر میں ان (کمزور) اہل ایمان کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا؟ تمہاری سمجھ میں کیا اتنی سی بات نہیں آتی؟ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ ہی میرا یہ دعوی ہے کہ میں فرشتہ ہوں، میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جنہیں تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں، انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں گا تو ظالم ہوں گا۔
وہ کہنے لگے : "اے نوح! تم نے ہم سے بحث کر لی اور بہت کر لی۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم دھمکی دیتے ہو۔" انہوں نے کہا: "وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا۔ تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے ہو۔ اب اگر میں تمہاری مزید خیر خواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیر خواہی تمہارے کام نہ آ سکے گی جبکہ اللہ نے تمہیں اس راہ پر چھوڑ دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹنا ہے۔ ۔ ۔۔
نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لانے والے تھے، وہ ایمان لا چکے اب مزید لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اب تم ان کے اعمال پر غم کرنا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کرو۔ دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے، ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا۔ یہ سب کے سب اب ڈوبنے والے ہیں۔
نوح کشتی بنانے لگے۔ ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی ان کے پاس سے گزرتا تھا، ان کا مذاق اڑاتا تھا۔ انہوں نے فرمایا: "اگر تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو تو پھر ہم بھی اسی طرح تمہارا مذاق اڑائیں گے۔ عنقریب تمہیں علم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا آن پڑے گی جو ٹالے نہ ٹلے گی۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور وہ خاص تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا: "ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی پر رکھ لو۔ اپنے گھر والوں کو ساتھ لے لو سوائے ان افراد کے جن کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور اہل ایمان کو بھی ساتھ بٹھا لو۔ "نوح پر ایمان لانے والوں کی تعداد قلیل تھی۔
نوح نے کہا: "اس میں سوار ہو جاؤ۔ اللہ کے نام کے ساتھ ہی اس کا چلنا بھی ہے اور ٹھہرنا بھی۔ میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے۔ " کشتی ان لوگوں کو لے کر پہاڑ جتنی بڑی بڑی لہروں میں چلنے لگی۔ نوح کا ایک بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح نے پکار کر کہا: "بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، ان کفار کے ساتھ نہ رہو۔" اس نے پلٹ کر جواب دیا: "میں ابھی پہاڑ پر چڑھ جاتا ہوں، جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔" نوح نے کہا: "آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ " اتنے میں ایک موج ان دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔
(کچھ عرصے بعد) حکم ہوا: "اے زمین! سارا پانی نگل جاؤ اور اے آسمان! رک جاؤ۔ پانی زمین میں جذب ہونے لگا، معاملہ ختم کر دیا گیا اور کشتی "جودی" پر رک گئی۔ کہہ دیا گیا: "دور ہو گئی ظالموں کی قوم۔"نوح نے اپنے رب کو پکارا: "اے رب! میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں سے تھا۔ تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں ے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ " فرمایا: "اے نوح! وہ تمہارے گھر والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ تو ایک بگڑی ہوئی شخصیت تھی۔ لہذا تم اس کی درخواست نہ کرو جس کی حقیقت کا تمہیں علم نہیں ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں جیسا رویہ اختیار نہ کرنا۔" انہوں نے عرض کیا: "اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔
حکم ہوا: "اے نوح! اتر جاؤ۔ ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تمہارے لئے اور ان گروہوں کے لئے جو تمہارے ساتھ ہیں۔ کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت کے لئے سامان زندگی بخشیں گے۔ پھر انہیں دردناک عذاب آ پہنچے گا۔ (سورہ ہود 11:25-48 )
سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ واقعہ دراصل اللہ تعالی کے اس قانون کا معلوم تاریخ میں پہلا اطلاق تھا جسے "دینونت" کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے آخرت میں ہر انسان کے ساتھ جزا و سزا کا جو معاملہ کرنا ہے، اس نے متعدد بار وہی معاملہ بعض اقوام کے ساتھ دنیا میں کر کے دکھا دیا تاکہ لوگوں کو یہ یقین آ جائے کہ ان کے ساتھ آخرت میں یہ سب ہونے والا ہے۔ دینونت کی اس تاریخ کو مذہبی صحائف میں محفوظ کر دیا گیا تاکہ جو عبرت پکڑنا چاہے، اس کے لئے یہ مواد موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے طوفان کا ذکر نہ صرف بائبل اور قرآن مجید میں موجود ہے بلکہ ہندو مذہب کی کتابوں میں بھی ایک عظیم طوفان کا ذکر ملتا ہے۔ یہی معاملہ جنوبی امریکہ کے ریڈ انڈینز کا ہے۔ ان کی مذہبی داستانوں میں بھی ایک عظیم طوفان کا تذکرہ موجود ہے۔ اس دینونت کی تاریخ میں نے اپنے سفرنامے "قرآن اور بائبل کے دیس میں" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس پر موضوع پر سلائیڈ شو کی شکل میں ایک پریزنٹیشن بھی میری ویب سائٹ پر موجود ہے۔
دور جدید میں کوہ ارارات پر بہت سی مہمات بھیجی گئی ہیں تاکہ کشتی نوح کی باقیات کا پتہ چلایا جا سکے۔ پہاڑ پر ایک چٹان ایسی ملی ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ کشتی کا فوسل ہے۔ حقیقت جو بھی ہو بہرحال اللہ تعالی نے یہ نشانیاں روئے زمین پر بکھیر دی ہیں۔ اب ہر انسان کی مرضی ہے۔ چاہے تو وہ ان واقعات کو محض داستانیں سمجھ کر نظر انداز کر دے اور چاہے تو ان سے سبق سیکھ کر خدا کا بندہ بن جائے۔
کوہ ارارات کا نظارہ دور سے ہی ممکن تھا کیونکہ اس کے بیس کیمپ تک جانے کے لئے بھی انسان کو کوہ پیما ہونا ضروری تھا۔ ہم لوگ ایک ہوٹل کے قریب رکے۔ یہاں کئی بسیں رکی ہوئی تھیں جن میں سے ایرانی زائرین نکل نکل کر آ رہے تھے۔ غالباً یہ لوگ شام کی طرف زیارتوں کے سفر کے لئے جا رہے تھے۔
اب ہم ڈوغو بایزید شہر میں داخل ہو گئے۔ یہاں ایک طویل بازار تھا۔ ہم لوگ اسحاق پاشا کا محل دیکھنا چاہتے تھے۔ جگہ جگہ "اسحاق پاشا سرائے " کی طرف جانے کے لئے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ پہلے میں بھی یہی سمجھا تھا کہ یہ کوئی سرائے ہو گی مگر ایسا نہ تھا۔ ترکی زبان میں محل کو سرائے کہا جاتا ہے۔ شاید اسی سے اردو میں محل سرا کی ترکیب پیدا ہو گئی ہو گی۔ کچھ گلیوں سے گزر کر ہم شہر سے باہر جانے والی تنگ سی سڑک پر ہو لئے۔ کچھ دور جا کر کافی بلندی پر محل کے آثار نظر آئے جو کہ چمکتی دھوپ میں کافی خوبصورت محسوس ہو رہا تھا۔
محل کے نیچے ایک کیمپنگ ایریا بنا ہوا تھا جس میں ٹائلٹ اور بچوں کے لئے جھولوں کی سہولت موجود تھی۔ یہاں کچھ دیر رک کر ہم اوپر محل کے دروازے پر جا پہنچے۔ اتنی بلندی پر محل کی تعمیر کے لئے بہت محنت کرنا پڑی ہو گی۔ بہرحال یہ بادشاہوں کے کام تھے۔ عوام کے پیسے کو اس طرح کی عیاشیوں میں اڑانا ان کا مشغلہ رہا تھا۔
عثمانی دور کے گورنر عبدی پاشا نے یہ محل 1685ء میں تعمیر کروانا شروع کیا تھا۔ اس کے بعض سیکشن ان کے پوتے اسحاق پاشا نے 1784ء میں تعمیر کروائے تھے۔ محل کا دروازہ بہت ہی بلند تھا۔ محل میں اس دور کی تمام لگژری سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ ایک طرف گورنر کا دربار تھا۔ کھیل تماشوں کے لئے ہال الگ تھا۔ مختلف قسم کے کھانے پکانے کے لئے علیحدہ کچن بنے ہوئے تھے۔ گورنر کے لئے حمام بنایا گیا تھا۔ خواتین کے لئے حرم بنا ہوا تھا۔ ان محلات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کے اسباب کیا تھے۔ اس کی مزید تفصیل ہم استنبول کے باب میں بیان کریں گے۔
اس وقت ہم جس علاقے سے گزر رہے تھے، صدیوں پہلے یہیں جناب زرتشت نے توحید اور انسانیت کی دعوت پیش کی۔ ان کے بارے میں جو جدید تحقیقات ہوئی ہیں، ان کے مطابق زرتشت ایک خدا پر یقین رکھتے تھے۔ ان سے پہلے مذہبی راہنماؤں نے عوام کا استحصال کرنے کے لئے بہت سی مذہبی رسومات ایجاد کر رکھی تھیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے حضور قربانیاں پیش کرنا ضروری تھی۔ یہ قربانیاں پروہتوں کے خزانے میں داخل ہو جایا کرتی تھیں۔ قرآن مجید نے ان رسومات کو اصر اور اغلال سے تعبیر کیا ہے۔ زرتشت نے بھی ان رسومات کی مخالفت کی۔
اس معاملے میں اختلاف ہے کہ زرتشت نبی تھے یا نہیں البتہ ان کی تعلیمات کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوا جو انبیاء کرام علیہم السلام کے ادیان کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ ان کی تعلیمات کو مسخ کر کے اس میں شرک کو داخل کر لیا گیا اور آگ کی پوجا کی جانے لگی۔ پورے ایران میں زرتشتی مذہب کو آتش پرستی کا مذہب قرار دے دیا گیا۔ اس کی باقیات آج بھی پارسیوں کی شکل میں موجود ہیں۔ عرب انہیں مجوسی کہا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا معاملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید زرتشت اللہ کے نبی ہی ہوں گے جن کی تعلیمات کو ان کے پیروکاروں نے مسخ کر لیا۔
کچھ دیر محل دیکھنے کے بعد ہم نیچے اترے۔ نیچے شہر سے کھانا کھایا، کافی پی اور واپسی کے سفر کے لئے تیار ہو گئے۔ ہم اس وقت زمین کے اس حصے میں تھے جہاں سے پوری نسل انسانی روئے زمین پر پھیلی ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے تینوں بیٹوں کی نسل زمین کے تین مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہوئی تھی۔ حام کی نسل افریقہ میں، سام کی نسل دجلہ و فرات کی وادی میں اور یافث کی نسل آرمینیا کے علاقے میں۔
ہم آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ یہ نسلیں مختلف علاقوں میں جا کر آباد کیوں ہوئیں۔ قرآن مجید اور بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے انسانوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ ہزار برس کی عمر تو عام سی بات ہوتی تھی۔ یقینی طور پر وہ لوگ بہت ہی مضبوط ہوں گے اور ان کے جسموں میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہو گی۔ اگر کسی شخص کی ہزار سالہ عمر میں 15% بچپن اور اتنے ہی بڑھاپے کے سال فرض کر لیے جائیں تو جوانی کی عمر 700 برس بچتی ہے۔ اگر اس شخص کی شادی 150 سال کی عمر میں کر دی جائے اور اس کے بعد اگلے 500 برس تک ہر سال ایک بچہ ہو تو صرف ایک انسانی جوڑے سے 500 بچے پیدا ہو سکتے تھے۔ ابھی یہ صاحب محض 300 برس کے کڑیل جوان ہی ہوں گے جب ان کی پہلی اولاد بھی شادی کر کے پرفارم کرنے کے لئے تیار ہو گی۔ ان میں سے اگر نصف بچے مر مرا بھی جائیں تب بھی اس شخص کی زندگی ہی میں اس کی اپنی اولاد کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہو گی۔
شروع میں تو اس شخص کی اولاد اکٹھی رہتی ہو گی۔ بعد میں جب وسائل کی تنگی پیدا ہوتی ہو گی تو یہ لوگ مزید زمین کی تلاش میں بکھر جاتے ہوں گے۔ انسانوں کی موجودہ آبادی اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہے کہ یافث کی نسلوں یعنی یاجوج و ماجوج میں سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا۔ یہ لوگ جلد سے جلد نئی زمینوں کی تلاش میں آرمینیا کے علاقوں سے نکل کر مشرق میں چین و ہندوستان، شمال میں روس اور مغرب میں یورپ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس زمانے میں روس اور الاسکا کے درمیان سمندر جما ہوا تھا چنانچہ یہ لوگ سمندر کے اوپر سفر کرتے ہوئے امریکہ جا پہنچے۔ جب یہ سمندر پگھل گیا تو ان کا رابطہ اپنے بھائیوں سے منقطع ہو گیا۔
اب عصر کی نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ میں نے ایک سروس اسٹیشن پر گاڑی روکی۔ یہاں کا پانی بہت سرد تھا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلا تو اسٹیشن کے ملازمین نے مجھے گھیر لیا اور تعارف کی ناکام کوشش کرنے لگے۔ یہ جان کر وہ بہت خوش ہوئے کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ یہ لوگ کرد تھے۔ میں نے یونہی کہہ دیا کہ صلاح الدین ایوبی بھی تو کرد ہی تھے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک صاحب پھڑ ک اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو کہنے لگے : "تم کرد ہو، کیا تمہیں معلوم ہے کہ صلاح الدین ایوبی کرد تھے ؟ " انہوں نے نفی میں سر ہلایا تو بولے : "دیکھو ہمارے پاکستانی بھائی کو یہ معلوم ہے۔ کچھ شرم کرو۔" ظاہر ہے وہ بے چارے تعلیم حاصل کیے بغیر کام کاج پر لگ گئے ہوں گے۔ انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا ہو گا کہ ان کے ایک بطل جلیل پر نہ صرف کرد قوم بلکہ پورا عالم اسلام فخر کرتا ہے۔
مغرب کے قریب جا کر کہیں ہم واپس ارض روم پہنچے۔ اتفاق سے ہم ایک بازار میں جا نکلے جہاں پچھلی رات کی نسبت ایک بہتر ہوٹل میسر آ گیا۔ ہوٹل کی دیوار پر ترکی کا ایک نقشہ لگا ہوا تھا۔ میں نے ہوٹل کے منیجر سے پوچھا کہ انقرہ جانے کے لئے کون سا راستہ بہتر ہے : بلیک سی کے ساتھ ساتھ براستہ ترابزن، سامسن اور سائنپ یا پھر اندرونی راستہ براستہ ارزنجان اور شیواس۔ کہنے لگے کہ اندر کا راستہ زیادہ بہتر ہے۔ اس سے بسیں 12 گھنٹے میں انقرہ پہنچتی ہیں۔ آپ اپنی کار پر ہیں، اس لئے جلدی پہنچ جائیں گے۔ ایک راستہ تو ہم آتے ہوئے دیکھ ہی چکے تھے، چنانچہ ہم نے اندرونی راستے سے واپسی کا ارادہ کیا۔
اگلی صبح ناشتہ کرنے کے لئے ہم ہوٹل کے ساتھ ہی واقع ریسٹورنٹ میں پہنچے۔ یہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا ریسٹورنٹ تھا جس میں فیملی ہال الگ تھا۔ یہاں ایک ترک انکل اور آنٹی بیٹھے ہوئے تھے۔ غالباً آج آنٹی کا ناشتہ بنانے کا موڈ نہیں تھا۔ میں نے ویٹر سے آملیٹ کا پوچھا۔ جواب اثبات میں ملا۔ تھوڑی دیر بعد یہ صاحب تین تھالیاں اٹھا لائے جن میں ہاتھی کے کان سے بھی بڑے انڈے پڑے ہوئے تھے۔ چکھ کر دیکھا تو ذائقہ اپنے دیسی انڈوں جیسا محسوس ہوا۔ ماریہ روٹی کے بغیر انڈا کھایا کرتی تھی۔ اس نے اپنے انداز میں انڈا شروع کیا۔ ہم تینوں کھا کھا کر تھک گئے مگر انڈے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ بمشکل ہم تینوں نے مل کر دو انڈے ختم کئے۔ تیسرے کو راستے کے لئے پیک کروا لیا۔
ہم سوچنے لگے کہ نجانے یہ انڈے کس بلا کے تھے جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہے تھے۔ پہلے ہمارے ذہن میں شتر مرغ کا تصور آیا مگر اس کے انڈے اتنی آسانی سے دستیاب کہاں ہوتے ہیں۔ پھر ہم نے سوچا کہ شاید یہ بطخ کے انڈے ہوں اور آملیٹ دو انڈوں پر مشتمل ہو۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہاں سپر مارکیٹوں میں باقاعدہ ترکی کے انڈے ملتے ہیں۔ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیے گا، یہ تَرکی پرندے کے انڈے تھے، نہ کہ تُرکی ملک کے۔ ان کا چھلکا چتکبرا ہوتا ہے۔
ناشتے سے فارغ ہو کر ہم نے سامان گاڑی کی ڈگی میں رکھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ارض روم کی تاریخی عمارات دیکھنے کے بعد انقرہ کے لئے نکلا جائے۔ ہوٹل کی گلی سی نکل کر ہم مین روڈ بلکہ مین گلی میں آئے۔ میں نے گاڑی دائیں جانب موڑی کیونکہ رات ہم اسی طرف سے آئے تھے۔ اچانک سامنے سے آنے والی ہر گاڑی کے ڈرائیور نے چہرے پر سنگین تاثرات لا کر اشارے کرنا شروع کر دیے کہ ہم غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ چونکہ یہ اندرون شہر تھا، اس وجہ سے ٹریفک کا نظام ون وے تھا۔ تنگ ون وے گلی میں کسی نہ کسی طرح گاڑی موڑ کر ہم آگے بڑھے۔ تھوڑی دور جا کر ایک سیاہ رنگ کی مسجد نظر آئی۔
ایک جگہ بمشکل پارکنگ ملی۔ مسجد چھوٹی سی تھی۔ اس کے کتبے پر "قاسم پاشا جامع" لکھا ہوا تھا اور تاریخ 1657ء درج تھی۔ باہر سے تو مسجد کی حالت مخدوش نظر آ رہی تھی مگر اندرونی حصہ ترکی کی روایت کی مطابق خوب بھڑکیلے نقوش سے سجا ہوا تھا۔ مسجد میں کچھ بچے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر رہے تھے البتہ ان کے استاذ غائب تھے۔ میں یہاں کی تصاویر بنانے لگا۔ ایک بچے نے اپنی تصویر لینے کی فرمائش کر دی۔ مسجد کے قریب ہی موجود اسٹور سے ماریہ کے لئے آئس کریم خرید کر ہم اسی سڑک پر آگے بڑھے۔ تھوڑی دور میں ہی ہم ارض روم کے مشہور مدرسے تک پہنچ چکے تھے۔
مدرسے کی عمارت بہت شاندار تھی۔ مین گیٹ کے باہر وسیع دالان تھا جس میں پارک بنا ہوا تھا۔ مدرسے کا اندرونی حصہ U شکل میں بنا ہوا ہوا تھا۔ دونوں جانب کمرے تھے اور درمیان میں گھاس سے بھرا ہوا لان تھا۔ سامنے کی طرف مسجد تھی۔ مدرسے کے اوپر کی منزل بند تھی مگر نیچے سے نظر آ رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اناطولیہ کا سب سے بڑا مدرسہ تھا۔ مدرسے پر موجود کتبوں میں یہ درج تھا کہ اس کی درست تاریخ تعمیر کا علم نہیں ہے البتہ یہ طے تھا کہ یہ مدرسہ تیرہویں صدی کے نصف آخر میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ وہی دور تھا جب سلجوق سلطنت اپنے آخری سانس لے رہی تھی اور تاتاری ان کی سلطنت پر قابض ہو رہے تھے۔
مدرسے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سلجوق سلطان علاؤ الدین قیقباد کی بیٹی ہاندے خاتون نے تعمیر کروایا تھا۔ اس سے سلجوق بادشاہوں کی علم دوستی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے آخری دور میں بھی انہوں نے تعلیم کے فروغ کی کوشش کی تھی۔ ان کی خواتین تک میں علم کو پھیلانے کا اتنا جذبہ تھا کہ اپنے زوال کے آخری دور میں بھی وہ مدرسے تعمیر کروا رہی تھیں۔ اسی دور کے مدارس ترکی کے دوسرے شہروں میں بھی موجود ہیں۔
سلجوقوں کے دور میں تعلیم کو باقاعدہ اداروں کی شکل میں منظم کیا گیا۔ یہ کارنامہ اس دور کے وزیر اعظم نظام الملک ( م 1092CE/485H) کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے ملک بھر میں بغداد سے لے کر نیشا پور تک مدارس کا جال بچھا دیا۔مسلمانوں کے تاریخ کے کامیاب ترین ایڈمنسٹریٹرز کی اگر ایک فہرست تیار کی جائے تو نظام الملک کا نام اس فہرست میں پہلے پانچ ناموں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی نصیحتوں پر مشتمل کتاب "سیاست نامہ" کے ترجمے آج بھی دنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔
نظام الملک کے قائم کردہ مدارس کو ان کے نام کی مناسبت سے "نظامیہ" کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لفظ "مدرسہ" سے دینی تعلیم کے مدارس ذہن میں آتے ہیں مگر نظام الملک کے نصاب تعلیم میں دینی و دنیاوی کی تفریق نہ تھی۔ ان کے نصاب میں دینی اور دنیاوی دونوں طرز کے علوم شامل تھے۔ نظامیہ مدارس نے بڑے بڑے علماء کو جنم دیا۔ مشہور عالم امام غزالی (م 1111CE/505H) بھی بغداد کے مدرسہ نظامیہ کے صدر مدرس تھے۔ مشہور سائنسدان اور فلسفی عمر خیام (م 1131CE/525H) کا شمار نظام الملک کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔
ہندوستان کے مدارس میں بھی نظامیہ ہی کا نصاب چلتا رہا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر (م 1707ء) کے دور میں ایک جلیل القدر عالم ملا نظام الدین سہالوی (وفات 1748ء) نے اس نصاب میں ضروری ترامیم کر کے عالمگیر کی سول سروس کے لئے ایک نصاب تیار کیا جو ان کے نام کی مناسبت سے "درس نظامی" کے نام سے مشہور ہوا۔ موجودہ دور کے دینی مدارس میں اسی درس نظامی میں کچھ ترامیم کر کے اسے پڑھایا جا رہا ہے۔
دینی مدارس کے نصاب کا آغاز قرآن مجید کے حروف کی تعلیم سے ہوتا ہے۔ طالب علم کو عربی، فارسی اور اردو پڑھنا سکھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد اسے عربی گرامر کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی کتب فارسی زبان میں ہوتی ہیں اور اعلی درجے کی تعلیم عربی زبان میں دی جاتی ہے۔ گرامر کی کچھ کتابیں پڑھانے کے بعد عربی ادب، علم معانی، علم بیان، علم بدیع اور علم عروض کی چند ایک کتب کی تعلیم دی جاتی ہے۔
خالص دینی علوم میں ابتدا علم الفقہ سے ہوتی ہے جس کی متعدد چھوٹی بڑی کتب کئی سال تک پڑھائی جاتی ہیں۔ فقہ کے ساتھ علم کلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان دونوں کے متوازی قرون وسطی کے چند دنیاوی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے جن میں منطق، فلسفہ اور ریاضی شامل ہیں۔
اعلی درجے پر پہنچ کر طالب علم اصول التفسیر، اصول الفقہ، اصول الحدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی تعلیم درمیانی سالوں میں دی جاتی ہے۔ قرآن مجید کا منتخب نصاب (بالعموم سورہ بقرہ کی تفسیر بیضاوی) اور احادیث میں سے مشکوۃ پڑھا دی جاتی ہیں۔ آخری سال میں دورہ حدیث کروا دیا جاتا ہے جس میں صحاح ستہ کی کتابوں کی صرف ریڈنگ کی جاتی ہے البتہ کہیں کوئی اشکال پیدا ہو تو استاذ صاحب وضاحت کر دیتے ہیں۔
اس پورے نظام تعلیم میں چند مسائل موجود ہیں جن پر اہل علم عموماً تنقید کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے مدارس میں اگرچہ ان میں سے بعض مسائل پر قابو پا لیا گیا ہے مگر پھر بھی اکثر جگہ یہ مسائل موجود ہیں۔ اس کی کچھ تفصیل یہ ہے :
مدارس کے نظام تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ "مقصد تعلیم" ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مدارس بالعموم فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ ہر مسلک کے مدارس کا ایک وفاقی بورڈ موجود ہے جو کہ اپنے مسلک کے مدارس کے طلبہ کا امتحان لیتا ہے۔ تعلیم کا سب سے بڑا مقصد یہی سمجھا جاتا ہے کہ اپنے مسلک کے دفاع اور دوسرے مسالک پر حملے کے لئے زبان اور قلم کے جنگجو تیار کیے جائیں۔ کہنے کو تو یہاں اسلام کے داعی تیار کیے جاتے ہیں مگر اصل مقصد اپنے مخصوص مسلک کے داعی تیار کرنا ہوتا ہے۔
دین کا اصل ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت ہے۔ اس کی تفہیم و تبیین احادیث کے ذخیرے میں موجود ہے۔ اکثر مدارس کے نصاب تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو قرآن و حدیث اس میں ترجیح کے مقام پر موجود نہیں ہیں۔ قرآن مجید کی ایک نہایت مختصر تفسیر جلالین داخل نصاب ہے مگر بہت ہی کم مدارس میں یہ پوری تفسیر پڑھائی جاتی ہے۔ اعلی درجے کی تفاسیر میں بیضاوی شامل ہے جس میں سے صرف سورہ بقرہ ہی داخل نصاب ہے۔ بعض مدارس میں چند اور تفاسیر کا مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ یہی معاملہ حدیث کا ہے۔ حدیث کے ذخیرے میں سے مشکوۃ المصابیح ہی وہ کتاب ہے جس کا مدارس کے طلباء تفصیل سے مطالعہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی زیادہ زور ان احادیث کی تشریح میں صرف ہو جاتا ہے جن کی توجیہ میں کچھ فرقہ وارانہ مسائل موجود ہیں۔ معاملات جیسے تجارت، معیشت، سیاست، معاشرت وغیرہ سے متعلق احادیث کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ صحیح و ضعیف حدیث کی جانچ پڑتال کے طریقہ کار کی عملی مشق بہت ہی کم ہی کروائی جاتی ہے۔
مدارس کے نصاب میں جو دنیاوی علوم داخل ہیں، ان میں سے زیادہ تر آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکے ہیں۔ علم المنطق کو ایک خاص زمانے میں اہمیت حاصل رہی ہو گی مگر آج کی دنیا میں اس کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ قرون وسطی میں فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، اکنامکس، آسٹرانومی، پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی وغیرہ سب کی سب فلسفے کے تحت پڑھائی جاتی تھیں۔ اب ان علوم میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ یہ فلسفے سے الگ ہو کر اپنی اپنی جگہ علیحدہ حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ مدارس کے طلباء اس جدید دور میں بھی آٹھ سو سال پرانی سائنس پڑھنے پر مجبور ہیں۔
قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے کی عربی زبان کی اہمیت ناگزیر ہے۔ اکثر مدارس میں عربی سکھانے کے لئے گرامر پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عربی ادب میں قرون وسطی کی چند کتب پڑھا دی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلی درجے کا قدیم عربی ادب نصاب میں شامل کیا جائے۔
علوم دینیہ کا ایک نہایت ہی اہم حصہ بالعموم مدارس میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت اور اسلام کی تاریخ۔ عام طور پر مدارس کے اعلی عہدے دار یہ کہتے ہیں کہ ہم طالب علم میں ایسی استعداد پیدا کر دیتے ہیں جس کی بدولت وہ ان علوم کا خود مطالعہ کر سکتا ہے۔ اگر اس دعوی کو درست بھی مان لیا جائے، اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ طالب علم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے ان علوم کی باقاعدہ تعلیم ناگزیر ہے۔
طالب علموں کی اخلاقی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب یہ حضرات منبر و محراب کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں تو مسجدیں اکھاڑوں میں بدل جاتی ہیں۔ان طالب علموں کو اختلاف رائے کے آداب سے ناواقف رکھا جاتا ہے۔ مخالف فرقوں کی نفرت ان کی رگوں میں اتار دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اختلاف رائے کی صورت میں انہیں گالی گلوچ، الزام تراشی، پتھر، جوتا، اور بندوق کی گولی، جو کچھ دستیاب ہو، استعمال کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔
دین کے ایک طالب علم کے لئے دیگر مذاہب اور مکاتب فکر کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور اگر اس ضمن میں کچھ پڑھایا بھی جاتا ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف ان کی تردید کرنا ہوتا ہے۔ بے تعصب تجزیاتی مطالعہ کے طریق کار سے عموماً اہل مدرسہ ناواقف رہ جاتے ہیں۔
مدارس کے طریق تعلیم کا ایک بہت بڑا مسئلہ ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی ہے۔ مدارس میں برین واشنگ کے ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں طالب علم کی شخصیت کو بری طرح مسخ کر دیا جاتا ہے۔ وہ اب اپنے ہی مسلک کی بعض شخصیات کے ذہنی غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ان شخصیات کو مقدس بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی کسی بات سے اختلاف رائے کو بہت بڑا جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ جو قارئین اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں، وہ اس کی تفصیل میری کتاب "مسلم دنیا میں ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی" میں دیکھ سکتے ہیں۔
یہ وہ مسائل ہیں جن کا کسی بھی مدرسے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص شب و روز مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ بہت سے مدارس کے ارباب اختیار نے ان مسائل کا ادراک کر لیا ہے اور اس ضمن میں وہ اصلاح کی کوششوں میں مشغول ہیں۔ اللہ تعالی ان کی کوششوں کو کامیابی عطا کرے اور دیگر مدارس کے ارباب اختیار کو بھی ان مسائل کا ادراک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مدرسے سے فارغ ہو کر ہم اس کے ساتھ ہی موجود قلعے کی طرف بڑھے۔ اس وقت یہ قلعہ بند تھا جس کی وجہ سے باہر کی دیوار ہی نظر آ سکی۔ یہ ایک عظیم پر شکوہ قلعہ تھا۔ قلعے کی دیواریں کافی چوڑی تھیں۔ ارض روم کی سرحدی حیثیت کی وجہ سے یہاں ہر دور میں فوج رہا کرتی تھی۔ آثار قدیمہ میں بالعموم قلعے، محل اور عبادت گاہیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ ان عمارتوں کی تعمیر غیر معمولی حد تک مضبوط ہوتی ہے۔
اب ہم ارض روم سے باہر جانے والی سڑک پر جا رہے تھے۔ یہ سڑک نئی نئی بنی تھی چنانچہ ڈرائیونگ میں لطف آنے لگا مگر تھوڑی دور جا کر یہ لطف ختم ہو گیا۔ آگے پرانی سڑک تھی جس میں جگہ جگہ کھدائی کر کے ٹریفک کو ادھر ادھر کیا جا رہا تھا۔ پورے ترکی کے سفر میں اندازہ ہوا کہ بحیثیت مجموعی ترکی کی سڑکوں کے مقابلے میں پاکستان کی سڑکیں کافی بہتر ہیں۔
سڑک کے بورڈز پر ارزنجان اور ترابزن دونوں کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم "اشکیل" پہنچے۔ یہاں سے ترابزن اور ارزنجان جانے والے راستے علیحدہ ہو رہے تھے۔ کچھ سفر طے کر کے ہم "ترجان گولو" جا پہنچے۔ یہ نیلے پانی کی ایک خوبصورت جھیل تھی جو خشک پہاڑوں کے درمیان اپنی بہار دکھا رہی تھی۔
تھوڑی دیر میں ہم ارزنجان جا پہنچے۔ شہر کے اندر جانے والی سڑک پر "شہر مرکزی" کا بورڈ لگا ہوا تھا۔یہ بورڈ ہمیں ہر شہر میں نظر آیا۔ ترکی کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہر شہر کے بورڈ پر اس کی آبادی بھی درج ہوتی ہے۔ ارزنجان بھی ایک چھوٹا سا شہر تھا مگر صوبائی دارالحکومت تھا۔ چونکہ ترکی کے صوبے ہمارے ضلعوں کے برابر ہیں اس وجہ سے ان کے دارالحکومت بھی اتنے ہی ہیں۔ یہاں کی خوبی یہ تھی کہ ہر گھر پر سولر پینل نظر آ رہا تھا۔ تیل کی زیادہ قیمتوں کے باعث دنیا بھر کی قومیں اب توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تیل اور گیس کی صورت میں توانائی کے اعلی ترین ذخائر دیے ہوئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان انہیں امت مسلمہ میں سے غربت اور جہالت کے خاتمے کے لئے استعمال کرتے مگر انہوں نے اسے اپنی عیاشی کا ذریعہ بنا لیا۔ اس کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ دنیا توانائی کے متبادل ذرائع کو بہتر بنا رہی ہے۔ جیسے ہی اس ٹیکنالوجی نے ترقی کر لی، تیل کی عالمی ڈیمانڈ اور قیمتیں زمین پر آ جائیں گی۔
ہم جس راستے پر جا رہے تھے، ابن بطوطہ بھی اسی راستے سے گزرے تھے مگر ان کا رخ ہماری مخالف سمت میں تھا۔ لکھتے ہیں:
ہم ارزنجان پہنچے۔ یہ بھی عراق کے بادشاہ کے تحت شہروں میں سے ایک بڑا گنجان آباد شہر ہے۔ اس کے اکثر باشندے آرمینی ہیں۔ یہاں کے مسلمان ترکی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ اس کے بازاروں کی ترتیب عمدہ تھی۔ یہاں بہت ہی خوبصورت کپڑے بنائے جاتے تھے۔ یہاں تانبے کی کانیں تھیں جس سے برتن اور اوزار بنائے جاتے تھے۔
اب تک سڑک کے بورڈ ز میں سب سے اوپر ارزنجان بڑے شہر کے طور پر لکھا نظر آ رہا تھا۔ اس سے آگے کے بورڈز پر "شیواس" لکھا نظر آنے لگا۔ انقرہ کا ابھی دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ تقریباً 250 کلومیٹر کے بعد ایک پہاڑی سے اترتے ہوئے اچانک پولیس کی ایک گاڑی نظر آئی۔ اس سے تھوڑی دور ایک اور گاڑی کھڑی تھی۔ اس وقت جتنی گاڑیاں بھی چل رہی تھیں، انہوں نے سب ہی کو روک لیا۔ ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے، "سر! سپیڈ لمٹ۔" یہ کہہ کر انہوں نے میرا انٹرنیشنل لائسنس طلب کیا۔ کہنے لگے کہ آپ کی اسپیڈ 116 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ میں نے عرض کیا کہ ہائی ویز پر پوری دنیا میں 120 کی حد رفتار کا قانون ہے۔ کہنے لگے : "ترکی میں یہ 100 ہے۔ " مجھے پورے ترکی میں سوائے موٹر وے کے ایک بھی بورڈ نظر نہیں آیا جس میں حد رفتار درج کی گئی ہو۔
چالان کروا کر ہم آگے روانہ ہوئے۔ اب ہم سیواس میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ ایک سرسبز شہر تھا۔ ابن بطوطہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
اس کے بعد ہم نے سیواس کی طرف سفر کیا۔ یہ بھی عراق کے شہروں میں سے ایک ہے اور اس ملک کے تمام شہروں میں سب سے بڑا ہے۔ یہاں حکام اور امراء کے گھر تھے۔ اس شہر کی عمارتیں خوبصورت تھیں اور سڑکیں کھلی تھیں۔ یہاں کے بازار لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہاں مدرسے کی طرز کا ایک گھر تھا جو کہ "دار السیادت" کہلاتا تھا۔ یہاں صرف معزز لوگ ہی ٹھہر سکتے تھے۔ اس کے محافظین اس میں رہتے تھے۔ اس میں رہنے والوں کو ان کی مدت قیام تک بستر، کھانا اور چراغ وغیرہ فراہم کیے جاتے تھے۔ جب یہ ختم ہونے لگتے اور مزید فراہم کر دیے جاتے۔
ابن بطوطہ نے اب سے سات سو برس پہلے مسلمانوں کے جن شہروں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے اکثر اپنے طرز تعمیر کے اعتبار سے دنیا کے خوبصورت شہروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی سڑکیں کھلی ہوا کرتی تھیں۔ اس دور کے لحاظ سے بہترین شہری سہولتیں لوگوں کو فراہم کی جاتی تھیں۔ مسافروں کے لئے حکومت کی جانب سے سرائے وغیرہ بنا دی جاتیں جن میں قیام و طعام کی سہولت مفت ہوا کرتی تھی۔ ہسپتال اور تعلیمی ادارے عوام کے لئے مفت ہوا کرتے تھے۔ دنیا بھر میں قاہرہ، بغداد، دمشق، بخارا اور دہلی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس دور کے یورپی لوگوں کے سفرنامے پڑھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذہین لوگ مسلمانوں کے شہروں میں جا بسنے کی حسرت رکھا کرتے تھے۔
موجودہ دور میں یہ معاملہ الٹ ہو چکا ہے۔ اگر شہری سہولتوں کا جائزہ لیا جائے تو اب مسلم دنیا کے خاص طور پر بڑے شہروں کا شمار گندے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں ٹورنٹو، لندن، نیو یارک، پیرس، یا سنگا پور میں رہنے کا موقع ملے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں تعمیری شعور کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں یہ شعور کم ہی پایا جاتا ہے کہ ہم جہاں رہیں، صفائی کا خیال رکھیں۔ سڑکوں اور گلیوں کو تجاوزات سے پاک رکھیں۔ ماحول میں دھوئیں اور شور کے ذریعے آلودگی پھیلانے سے گریز کریں۔ ترکی کے شہر اس معاملے میں مسلم دنیا کے باقی ممالک کے شہروں سے بہت بہتر نظر آ رہے تھے۔
سیواس شہر میں ایک مدرسہ بھی تھا جس کی تاریخ تعمیر 1271ء بیان کی جاتی ہے۔ یہ کم و بیش اسی دور کا تھا جب ارض روم کا مدرسہ تعمیر کیا گیا۔ افسوس کہ اس وقت مجھے اس کا علم نہ تھا جس کی وجہ سے ہم یہ مدرسہ نہ دیکھ سکے۔
تاریخ میں سیواس کی ایک اور وجہ شہرت تیمور لنگ اور عثمانیوں کے درمیان جنگ ہے۔ تیمور اگرچہ خود بھی نام کا مسلمان تھا مگر یہ وہ بادشاہ ہے جس نے ہندوستان سے لے کر ترکی تک خون کی ندیاں بہا دی تھیں۔ سلطان بایزید یلدرم کے دور میں اس نے ترکی پر یلغار کی۔ سیواس کے مقام پر اس کی جنگ بایزید کے بیٹے ارطغرل سے ہوئی۔ اس جنگ میں تیمور کو فتح ہوئی۔ اس جنگ میں تیمور نے چار ہزار ترک جنگی قیدی بنائے جنہیں اس کے حکم سے زندہ زمین میں دفن کر دیا گیا۔
ارزنجان اور شیواس کے درمیان کے پہاڑوں وہ دریا نکلتے ہیں جو جنوب میں جھیل الازغ میں پہنچتے ہیں۔ اس جھیل کے بعد یہ دریا دجلہ اور فرات کا نام اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی وہ دریا ہیں جن کے کناروں پر چل کر مسلمانوں نے کئی مرحلوں میں اناطولیہ فتح کیا تھا۔ بہتر ہو گا کہ ہم اس مقام پر اس کی تفصیل بیان کرتے چلیں۔
عہد رسالت میں اناطولیہ کے زیادہ تر حصے پر رومیوں کی حکومت تھی۔ اس کے مشرقی حصے پر ایران کی ساسانی سلطنت کا قبضہ تھا۔ اس دور کی حکومتوں کا اصول یہ تھا کہ رعایا بادشاہ کے مذہب پر ہو گی۔ اگر کوئی شخص بادشاہ کے مذہب سے اختلاف کرتا تو اس کی سزا موت تھی۔ یہ مذہبی آزادی کی بجائے مذہبی جبر (Persecution) کا دور تھا۔ اگر کبھی کوئی بادشاہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو اپنے علاقے میں رہنے کی اجازت بھی دے دیتا، تب بھی انہیں دوسرے درجے کے شہری ہی تصور کیا جاتا تھا۔
اللہ تعالی نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی قوم پر اتمام حجت کے بعد عرب اور اس کے گرد و نواح میں ایک ایسا خطہ قائم کرنے کا حکم دیا تھا جس میں ہر انسان کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گرد و نواح کے بادشاہوں کو خطوط لکھ کر انہیں اسلام کی دعوت پیش کر دی تھی۔ ان بادشاہوں میں سے صرف حبشہ کے بادشاہ نجاشی رضی اللہ عنہ ایسے حکمران تھے جو ایمان لا سکے تھے۔
انسانوں کو مذہبی آزادی دلانے اس خدائی مشن کو پورا کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلیفہ راشد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وقت کی دو سپر پاورز روم اور ایران کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایران کی سلطنت مکمل طور پر ختم ہو گئی اور یہاں کے باشندوں کو مکمل مذہبی آزادی نصیب ہو گئی۔ آپ ہی کے دور میں روم کی بازنطینی حکومت کو شام، فلسطین اور مصر میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ عراق اور شام پر ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے باقی ماندہ علاقوں کی طرف توجہ دی۔
اناطولیہ پر مسلمانوں نے دو طرف سے یلغار کی۔ ایک طرف تو عراق میں مسلمان دجلہ اور فرات کے بہاؤ کے مخالف اوپر کی جانب بڑھنے لگے۔ دوسری طرف شام سے شمال میں یلغار کا آغاز کیا گیا۔ اس زمانے میں عرب دجلہ و فرات کے شمالی حصے کے درمیانی علاقے کو "الجزیرہ" کہا کرتے تھے۔ اس لشکر کی قیادت سیدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے یہ پورا علاقہ فتح کر لیا جس میں موجودہ ترکی کے شہر دیار بکر اور سان عرفہ شامل تھے۔ ان کی فوجیں شمال میں سفر کرتے کرتے ارزنجان تک پہنچ گئیں جو بغیر کسی جنگ کے فتح ہو گیا۔اس کے بعد مسلمانوں کی پوری توجہ مشرق کی طرف ہو گئی جس کے نتیجے میں آرمینیا اور آذر بائیجان کے جنوبی علاقے فتح ہوئے۔
جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر بنے تو انہوں نے ایک مہم مشرقی ترکی کی طرف روانہ کی۔ اس مہم کے دوران مسلم افواج فرات کے مغربی کنارے کے شہر غازی انٹیپ اور ملاطیہ کو فتح کرتے ہوئے ارض روم تک جا پہنچیں۔ یہاں عراق سے آنے والی افواج ان میں مل گئیں۔ اس کے بعد ان افواج نے شمالی آرمینیا کو فتح کر لیا۔ ان فتوحات کے نتیجے میں اناطولیہ کا 30% حصہ مسلمانوں کے پاس آ گیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں رومی افواج نے حملہ کر کے آرمینیا واپس لینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انتظامی اعتبار سے اعلی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ آپ کی روانہ کردہ افواج نے ترابزن تک کا علاقہ فتح کر لیا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے بحری فوج قائم کرنے کی اجازت طلب کی مگر مناسب سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث آپ نے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک زبردست بحری فوج تیار کی اور بحیرہ روم کے ان جزیروں کو فتح کرنا شروع کر دیا جو اس وقت رومن ایمپائر کے قبضے میں تھے۔ ان میں جزیرہ قبرص (Cyprus) اور روڈس سب سے اہم تھے۔
مسلم فتوحات (بشکریہ www.faculty.cua.edu ) |
اناطولیہ کے باقی حصے میں خلافت راشدہ کے دور میں مسلمان نہ پہنچ سکے تھے البتہ قیصر روم کے مرکزی شہر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) پر انہوں نے کئی مرتبہ یلغار کی۔ پہلی یلغار عہد عثمانی میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کی۔ اس جنگ میں مسلمان بحری راستے سے قسطنطنیہ پہنچے۔ ان مہمات میں قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا۔اس کے بعد بنو امیہ کے دور کی فتوحات میں زیادہ تر زور اسی پر رہا کہ قسطنطنیہ فتح کیا جا سکے۔ مسلمانوں نے بالعموم اناطولیہ کے اندرونی علاقے کو نظر انداز کر دیا۔ اس مقصد میں کامیابی نہ ہو سکی۔بعض ساحلی شہر مسلمانوں کے قبضے میں آتے اور نکلتے رہے۔ ترکی کو چھوڑ کر اس کے بعد یونان اور اٹلی کے بعض علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے۔ اٹلی کا جزیرہ سسلی ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔
اس کے تین چار سو سال بعد سلجوقیوں نے اناطولیہ کا اکثر حصہ فتح کر لیا مگر یہ بھی قسطنطنیہ فتح نہ کر سکے۔ بعد میں جب انہیں عثمانی ترکوں سے شکست ہوئی تو ترکی پر عثمانیوں کا اقتدار قائم ہو گیا۔ بالآخر عثمانی بادشاہ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے پورے اناطولیہ پر مسلم حکومت قائم کر دی۔
اگر مسلم دور کی ان تمام فتوحات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فتوحات کی بنیادی وجوہات دو تھیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمان ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اپنی حریف قوموں سے بہتر تھے۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں ان کی تعداد اگرچہ کم ہوتی تھی مگر ان کی تنظیم اور تیاری بہت بہتر ہوا کرتی تھی۔
مسلمانوں کی فتوحات کی دوسری وجہ ان کی اخلاقی حالت تھی۔ اس دور کے مسلمان اپنے حریفوں کے مقابلے میں اخلاق میں بہت بہتر ہوا کرتے تھے۔ رومیوں نے اپنے ہم مذہب عیسائیوں پر کثیر تعداد میں ٹیکس لگا رکھے تھے۔ یہودیوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت ہی خراب تھا اور انہیں مسلسل مذہبی جبر کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کھلے دل کے مالک تھے۔ ان کی سلطنت میں غیر مسلموں کو معمولی سے جزیہ کی ادائیگی کے بعد مکمل تحفظ حاصل ہوتا۔ ان پر عسکری نوعیت کی کوئی ذمہ داری نہ ہو کرتی تھی۔ ان پر دشمن کے حملے کی صورت میں دفاع مسلمانوں کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ مذہبی معاملات میں انہیں مکمل آزادی حاصل ہوتی تھی۔
حمص کی فتح کے بعد مسلمانوں نے وہاں جزیہ وصول کیا۔ کسی وجہ سے انہیں یہ شہر چھوڑ کر جنگ کے لئے جانا پڑا تو انہوں نے شہر کے غیر مسلم باشندوں کو جزیہ کی رقم واپس کر دی۔ شہر کے باشندے رو پڑے کہ خدا تمہیں واپس لائے۔ ہمیں قیصر کی نسبت تم عزیز ہو جنہوں نے ہمیں بھاری ٹیکسوں سے نجات دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مقامات پر ان غیر مسلموں نے مسلمانوں کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مسلمانوں کے لئے جاسوسی کرنا، ان کی فوج کو خوراک فراہم کرنا، ان کے لئے راستے صاف کرنا اور ان میں پل بنانا، یہ سارے کام غیر مسلم انجام دیا کرتے تھے۔
جب تک مسلمان علمی اور اخلاقی اعتبار سے دوسری قوموں سے بہتر رہے، تب تک ان کی فتوحات کا دائرہ پھیلتا رہا۔ جب دوسری قومیں ان میدانوں میں ان سے آگے بڑھ گئیں تو وقت کا پہیہ مخالف سمت میں گردش کرنے لگا اور مسلمان مغلوب ہوتے چلے گئے۔
اب بورڈز پر سیواس کی بجائے یوزگت کا نام نظر آ رہا تھا۔ ہم صبح سے اب تک 600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے مگر انقرہ کے ابھی بورڈ تک آنا ابھی شروع نہ ہوئے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ہم یوزگت جا پہنچے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے قریب حتی دور کے کچھ آثار موجود ہیں۔ افسوس کہ ہم یہ آثار بھی نہ دیکھ سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس راستے سے سفر ہمارے منصوبے میں شامل نہ تھا جس کی وجہ سے یہاں آنے سے قبل میں اس راستے پر موجود شہروں کے بارے میں معلومات اکٹھی نہ کر سکا تھا۔ بہرحال یہ کمی انقرہ کے عجائب گھر میں پہنچ کر دور ہو گئی۔ حتیوں نے اناطولیہ پر 1600-1200 قبل مسیح کے دور میں حکومت کی ہے۔
یوزگت کے قریب "ہاتوشا"کے آثار ملتے ہیں جو کہ حتی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ یہاں کے آثار سے پتھر کی سل پر لکھا ہوا ایک تحریری معاہدہ دریافت ہوا ہے جو کہ حتیوں کے بادشاہ اور فرعون مصر کے درمیان تھا۔ یہاں بعض ایسی سلیں بھی ملی ہیں جن پر ملک کا قانون درج تھا۔ غالباً عوام کی اطلاع کے لئے یہ سلیں کسی مرکزی چوک وغیرہ میں نصب کی جاتی ہوں گی۔ حتیوں نے اپنے دور میں ایک جاگیردارانہ معاشرہ قائم کیا جس میں غلامی تہہ در تہہ موجود تھی۔ آقا کو غلام کے جسم و روح پر مکمل اختیار حاصل ہوا کرتا تھا۔
اب رات ہو رہی تھی اور ہم "کری قلعہ" نامی شہر پہنچ رہے تھے۔ ابھی ہم انقرہ سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ میری خواہش یہ تھی کہ انقرہ کی بجائے اس سے پہلے آنے والے کسی چھوٹے شہر میں قیام کر لیا جائے تاکہ طویل سفر کے بعد بڑے شہر میں ہوٹل ڈھونڈنے کی خواری سے بچا جا سکے۔ میں نے شہر کے اندر جانے والی سڑک پر گاڑی موڑ لی۔ تھوڑی دور جا کر اندازہ ہوا کہ شہر سڑک سے کافی دور ہے۔ یہاں ہر طرف اندھیرا تھا اور دور دور تک کوئی روشنی نظر نہ آ رہی تھی چنانچہ واپس مڑے اور واپس انقرہ والی سڑک پر آ پہنچے۔
انقرہ سے کچھ پہلے الما داغ کے مقام پر ایک بڑا سروس اسٹیشن تھا۔ ہم نے مناسب یہی سمجھا کہ یہیں کھانا کھا لیا جائے تاکہ انقرہ پہنچ کر کم از کم کھانا ڈھونڈنے کی خواری سے بچا جا سکے۔ یہ ایک بڑا سروس اسٹیشن تھا جس پر بہت زیادہ چہل پہل نظر آ رہی تھی۔ یہاں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی بنی ہوئی تھی جس کا اندرونی حصہ ترکی کی روایت کے مطابق خوب چمکیلے اور بھڑکیلے نقش و نگار سے سجا ہوا تھا۔
نماز سے فارغ ہو کر ہم یہاں موجود ہوٹل کے فیملی ہال میں جا گھسے۔ یہاں زیادہ تر لوگ باہر ہی میزوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس ہوٹل میں ہم نے ترکی کے پورے سفر کا سب سے مزیدار کھانا کھایا۔ بکرے کی چانپوں کے تکے اور قیمے کے ساتھ سرخ مرچوں کی چٹنی نے بہت لطف دیا۔
کھانا کھا کر ہم دوبارہ روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور جا کر سامسن سے آنے والی سڑک ہم سے آ ملی۔ اب انقرہ نزدیک آ رہا تھا مگر ہر طرف سنسانی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر میں انقرہ پہنچ گئے۔ اس پورے سفر میں ہمارے ساتھ ساتھ ریلوے لائن چل رہی تھی جس پر کئی مقامات پر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ٹرینیں بھی نظر آتی رہی تھیں۔ یہاں کی پٹری تنگ گیج کی تھی جس کی وجہ سے ٹرین کی رفتار کچھ زیادہ نہ تھی۔ تارڑ صاحب اپنے سفر کے دوران اسی ٹرین کے ذریعے 24 گھنٹے میں ارض روم سے انقرہ پہنچے تھے۔ اب بھی ان ٹرینوں کے حالات کچھ ایسے حالات ہی لگ رہے تھے۔ یہی سفر ہم نے کار میں محض 10 گھنٹے میں طے کر لیا تھا۔
میرا خیال تھا کہ یہ بڑا شہر ہے، اس لئے رات گئے تک کھلا رہتا ہو گا مگر یہاں بھی وہی معاملہ تھا۔ دس بجے پورا شہر بند پڑا تھا۔ کافی دیر کسی ہوٹل کی تلاش میں جھک مارنے کے بعد بالآخر ایک ٹیکسی ڈرائیور کے پیچھے لگ کر ایک ہوٹل میں پہنچے جس کے نتیجے میں کرایہ زیادہ ادا کرنا پڑا۔ کہنے کو تو یہ تھری اسٹار ہوٹل تھا مگر صفائی کا معیار کچھ زیادہ اچھا نہ تھا۔ ہم نے جلد از جلد سونے کی کوشش کی کیونکہ اگلا دن انقرہ میں کافی مصروفیت کا دن تھا۔
انقرہ ترکی کا دارالحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے اور سائز کے اعتبار سے یہ ہمارے لاہور کے آس پاس ہے۔ یہ ایک قدیم شہر ہے جس کی تاریخ ساڑھے تین ہزار سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ عثمانی بادشاہت کے خاتمے کے بعد اس شہر کو ترکی کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا۔
صبح اٹھ کر ہم ناشتے کے لئے نیچے ہال میں آ گئے۔ ناشتہ کمرے کے کرائے میں شامل تھا اور کافی اچھا تھا۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ سب سے پہلے انقرہ یونیورسٹی کا دورہ کیا جائے تاکہ یہاں کے کچھ اہل علم سے ملاقات ہو سکے۔ اس کے بعد انقرہ کے میوزیم دیکھے جائیں۔ میں نے ہوٹل کے ملازمین سے انقرہ یونیورسٹی کے بارے میں پوچھا تو یہ لوگ سوچ میں پڑ گئے۔ کافی دیر ایک دوسرے سے مشورہ کرنے کے بعد انہوں نے اشاروں کے ذریعے مجھے راستہ سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کی کوششوں کا فائدہ بس یہ ہوا کہ ہمیں یونیورسٹی کی سمت کا اندازہ ہو گیا۔
ہوٹل سے باہر نکل کر ہم نے یونیورسٹی کی تلاش شروع کی۔ شروع شروع اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے گاڑی روک کر ایک پولیس والے سے یونیورسٹی کا راستہ معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہ صاحب نجانے کیا سمجھے کہ نہایت ہی ترحم آمیز انداز میں باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر ہمیں دعائیں دینے لگے۔ ہم مختلف سڑکوں پر گردش کرنے لگے۔ ہر سڑک پر ایک ہی بورڈ ہمارا منہ چڑا رہا تھا جس پر "انیت کبیر" لکھا ہوا تھا۔ ہم جس طرف بھی رخ کرتے، یہی بورڈ ہمارے سامنے آ جاتا، بس تیر کا رخ مختلف ہوتا۔ یہ دراصل مصطفی کمال کے مقبرے کا بورڈ تھا جس میں ہمیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
ایک جگہ ہمیں ایک بڑی سی عمارت نظر آئی جو دیکھنے میں اسٹیٹ بنک یا پارلیمنٹ ہاؤس سے مشابہ تھی۔ یہاں دھڑا دھڑ لوگ آ جا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ شاید یہاں کوئی انگریزی بولنے والا مل جائے جس سے یونیورسٹی کا پوچھا جا سکے۔ میں جب اس عمارت میں داخل ہوا تو یہ پارلیمنٹ ہاؤس کی بجائے ریلوے اسٹیشن نکلا۔ یہاں بھی کوئی انگریزی بولنے والا نہ مل سکا۔
اچانک مجھے ایسا چوک نظر آیا جو کہ ہمارے لاہور کے جی پی او چوک سے مشابہ تھا۔ جی پی او چوک کے پاس ہی پنجاب یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس ہے۔ میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ انقرہ یونیورسٹی کا کیمپس بھی پاس ہی ہو۔ میرا خیال سچ مچ درست ثابت ہوا۔ یہاں ایک صاحب پیدل چلے جا رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا تو کہنے لگے، "یونیورسی ٹیسی؟" میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ یونیورسٹی کی حد تک تو معاملہ ٹھیک تھا مگر یہ "ٹیسی"کیا بلا ہے ؟ انہوں نے اپنا کارڈ نکالا اور مجھے دکھایا جس پر ترکی زبان میں Univertisitesi لکھا ہوا تھا۔ ارے، یہ صاحب تو یونیورسٹی کے ایڈمن اسٹاف میں شامل تھے۔ میرے لئے تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ میرا دل چاہا کہ ان صاحب کو کسی طرح قابو کر کے ساتھ بٹھا لوں اور اس وقت تک ان کی جان نہ چھوڑوں جب تک یہ ہمیں منزل مقصود تک نہ پہنچا دیں۔
ان صاحب سے مدد حاصل کرنے سے متعلق میرا تمام تر جوش ان کے مقابلے میں کچھ نہ تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہماری مدد کرنے کے لئے اتنے بے قرار ہیں جتنے ہم نہیں ہیں۔ یہ ترکوں کی مخصوص مہمان نوازی تھی۔ ماریہ کی سرگرمیوں کی بدولت کار کا پچھلا حصہ کسی کباڑ خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سامان کو ادھر ادھر کر کے میں نے جگہ بنائی اور ان سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ کار میں بیٹھ جائیں۔ انہیں ساتھ بٹھانے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا کیونکہ چند ہی قدم کے فاصلے پر یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس تھا جو اسی زمانے کا بنا ہوا نظر آ رہا تھا جب لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس بنا ہو گا۔ وہ ہمیں اندر لے گئے اور ایک جگہ رکوا کر اندر سے ایک نہایت ہی مہذب اور نستعلیق قسم کے صاحب کو بلا لائے۔ یہ صاحب شکل سے ہی پروفیسر نظر آ رہے تھے اور بڑی شستہ انگریزی میں گفتگو فرما رہے تھے۔ تعارف ہونے پر معلوم ہوا کہ یہ فزکس ڈیپارٹمنٹ ہے۔ میں نے ان سے "تھیالوجی ڈیپارٹمنٹ" کے بارے میں پوچھا۔
پروفیسر صاحب کہنے لگے : "وہ الہیات ڈیپارٹمنٹ کہلاتا ہے۔ " میں خوش ہو گیا کیونکہ اردو میں بھی تھیالوجی کو الہیات ہی کہا جاتا ہے۔ کہنے لگے، "یہ اصل میں فیکلٹی آف سائنس ہے۔ یہاں ارد گرد کیمسٹری، فزکس اور فارمیسی ڈیپارٹمنٹس ہیں۔ الہیات کا شعبہ آرٹس کیمپس میں ہے جو یہاں سے قریب ہی ہے۔ انہوں نے مجھے راستہ سمجھا دیا اور بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ الوداع کہا۔ جو صاحب ہمیں لے کر آئے تھے، وہ پروفیسر صاحب کو کچھ کہہ کر دوبارہ ہمارے ساتھ آ بیٹھے اور کہنے لگے، "میں آپ کو وہاں پہنچا کر آؤں گا۔" چند منٹ میں ہم آرٹس کیمپس پہنچ گئے۔ الہیات کے شعبے میں پہنچ کر وہ اتر گئے۔ میں نے ان سے بہت کہا کہ میں آپ کو واپس چھوڑ آتا ہوں مگر پر زور طریقے سے انکار کرتے ہوئے سلام کر کے وہ واپس چلے گئے۔
الہیات ڈیپارٹمنٹ کی بلڈنگ بھی کافی پرانی تھی اور ماحول کے اعتبار سے یہ واقعی مذہبی تعلیم کا ادارہ نظر آ رہا تھا۔ ریسپشن پر ایک خاتون تشریف فرما تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا: "کیا کسی انگریزی بولنے والے اسکالر سے ملاقات ہو سکتی ہے ؟" وہ کچھ دیر حیرت سے ہمیں دیکھتی رہیں۔ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ کون عجیب آدمی ہے جو بیوی بچوں کے ساتھ یہاں آ کر اسکالر کا پوچھ رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک نمبر ملایا اور کچھ گفتگو کرنے کے بعد ہمیں فرسٹ فلور پر جانے کا کہہ دیا۔
اوپر پہنچے تو ایک صاحب ہمارے منتظر تھے جو اپنے رکھ رکھاؤ سے ہی اعلی درجے کے اسکالر نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو ان کی گرمجوشی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ تعارف سے معلوم ہوا کہ ان کا نام ڈاکٹر شعبان علی ڈوزگون ہے۔ انہوں نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔ یہ وہی یونیورسٹی ہے جہاں مشہور مستشرق جان ایل ایسپوزیٹو جیسے اسکالر فیکلٹی کا حصہ ہیں۔
عام مستشرقین کے برعکس ایسپوزیٹو غیر متعصب اور کھلے ذہن کے مالک ہیں۔ نے "مسلم کرسچن انڈر اسٹینڈنگ" کے نام سے ایک ادارہ بنایا ہوا ہے جو اہل مغرب کو اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ یہ ادارہ پرانے مستشرقین کی طرح متعصبانہ طریقہ اختیار کرنے کی بجائے کھلے ذہن سے اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے میں مصروف ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان احترام اور انسانیت کے تعلقات قائم کیے جائیں۔ اس ادارے کی ویب سائٹ کا ایڈریس ہے :
ڈاکٹر شعبان ہمیں لے کر اپنے دفتر میں آ گئے۔ یہ ایک لمبوترا سا خاصا بڑا کمرہ تھا جس کی دو دیواروں کے ساتھ صرف کتابوں کے ریک لگے ہوئے تھے۔ کتابوں میں ناصر الدین البانی کی "ارواء الغلیل" اور ابن تیمیہ کا "مجموعۃ الفتاوی" نمایاں تھے۔ ایک جانب الہ دین کے چراغ کی طرز کا ایک چراغ پڑا ہوا تھا۔ ایک کونے میں کھانے پینے کا سامان رکھا ہوا تھا جس میں الیکٹرک کیتلی، چائے، بسکٹ اور اس قبیل کی چیزیں شامل تھیں۔ دوسرے کونے میں ایک ستار بھی رکھی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں بہت سے مذہبی موضوع زیر بحث آئے۔ میں نے خاص طور پر ان سے ترکی اور اسلام کے حوالے سے بات چیت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے خاص طور پر غیر مسلموں کو اسلام سے متعارف کروانے کے لئے انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے Uncovering Islam۔ اس کتاب میں انہوں نے دین کے بنیادی تصورات،اعمال اور تاریخ کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اسلام اور انسانیت کے تعلق کو بیان کیا ہے۔
ان کی یہ کتاب http://www.diyanet.gov.tr/English/web_kitap.asp?yid=30 پر دستیاب ہے۔ ترکی کی مذہبی زندگی کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اگرچہ ترکی کی حکومت نے سختی سے سیکولر ازم کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے مگر اس کے باوجود حکومت نے مصطفی کمال کے زمانے سے ہی "دیانت" کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف ترکی بلکہ یورپ کے مختلف ممالک بالخصوص جرمنی میں موجود مساجد کا انتظام کرتا ہے۔ ملک بھر میں یونیورسٹیوں کے الہیات ڈیپارٹمنٹ کا تعلق دیانت سے ہے۔ بیرون ملک مقیم ترک عام طور پر زیادہ دین دار ہیں۔ یہ ان یونیورسٹیوں میں آ کر دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر واپس یورپی ممالک میں جا کر دعوتی و تبلیغی کام سر انجام دیتے ہیں۔ جرمنی میں اسلام کا تعارف انہی لوگوں کے ذریعے پہنچ رہا ہے۔
ترکی کی موجودہ حکومت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی لیڈر شپ دینی اعتبار سے اعلی تعلیم یافتہ ہے۔ ترکی کا مسئلہ بھی بڑی حد تک پاکستان سے مشابہ ہے کہ وہاں فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہتی ہے۔ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں اور فوج کی مداخلت ملکی معاملات میں کم ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت نے بڑی حد تک سیکولر فاشسٹ پالیسیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب یونیورسٹیوں کے دروازے ان خواتین کے لئے کھل گئے ہیں جو کہ دین پر عمل کرتے ہوئے حجاب لینا چاہتی ہیں۔
ترکی کی دینی تحریکوں اور مکاتب فکر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہاں غالب اکثریت حنفی ماتریدی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں کی دینی تحریکیں بہت مضبوط اور متحرک ہیں۔ جب سیکولر فاشسٹوں کی طرف سے انہیں پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے تو یہ تحریکیں انڈر گراؤنڈ ہو جاتی ہیں۔ جب مذہبی آزادی کا دور آتا ہے تو یہ لوگ دوبارہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ تصوف کے میدان میں غالب اکثریت نقشبندی سلسلے سے تعلق رکھتی ہے اگرچہ قادری سلسلہ بھی یہاں موجود ہے۔ نقشبندی حضرات کاروبار اور بینکنگ کے میدان میں چھائے ہوئے ہیں اور ملک کی معیشت پر ان کا کنٹرول غالب ہے لیکن یہ حضرات موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا: "ترکی میں جو وقت گزارا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخلاقی اعتبار سے ترک بہت اچھے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟" کہنے لگے، "یہ بات میرے لئے فخر کا باعث ہے کہ آپ کی یہ رائے ہے۔ یہ بات درست بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی اور کمیونٹی کا نظام بہت مضبوط ہے۔ اس نظام کے تحت ہر شخص میں مضبوط اخلاقی اقدار راسخ کر دی جاتی ہیں۔" ان کی یہ بات ہمارے لئے خوشی کا باعث تھی کہ مغرب زدگی کو اس حد تک مسلط کر دینے کے باوجود ترکی میں خاندان کا ادارہ تباہ نہ ہو سکا ہے بلکہ اپنی پوری جڑوں کے ساتھ موجود ہے۔
ڈاکٹر شعبان کو اچانک خیال آیا کہ انہوں نے ہم سے کچھ کھانے کے لئے نہیں پوچھا۔ وہ فوراً کھڑے ہو گئے اور بولے، "آپ کیا لینا پسند کریں گے ؟ میں آپ کو چائے اور بسکٹ پیش کر سکتا ہوں۔" ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا مگر انہوں نے اپنے اسٹاک سے بسکٹوں کا ایک ڈبہ برآمد کیا اور خاص طور پر اسے ماریہ کو پیش کر دیا۔
کچھ عرصہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث سے متعلق انقرہ یونیورسٹی کے ایک پراجیکٹ کی خبر اخباروں میں آئی تھی۔ مغربی میڈیا نے اس پراجیکٹ کو "Radical Reinterpretation of Islam" کے عنوان سے تعبیر کیا تھا۔ میں خاص طور پر اس پراجیکٹ سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر شعبان کہنے لگے کہ یہ پراجیکٹ انقرہ یونیورسٹی کا نہیں ہے بلکہ دیانت کا ہے۔ اس کام کے لئے انہوں نے ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیوں کے اسکالرز کی مدد حاصل کی ہے۔
مغربی میڈیا نے اپنے مقاصد کے لئے اس پراجیکٹ کو بدنام کر دیا ہے۔ اس ضمن میں پراجیکٹ کی ویب سائٹ www.hikem.net پر ایک تفصیلی پریس ریلیز شائع کی گئی ہے جس میں بڑے شد و مد سے اس بات کا انکار کیا گیا ہے کہ اس پراجیکٹ کا مقصد ہرگز ہرگز اسلام کی تشریح نو نہیں ہے۔ اس پراجیکٹ کا مقصد احادیث کے پورے ذخیرے کو جدید طرز زندگی سے متعلق ابواب میں تقسیم کر کے شائع کرنا ہے۔ اس پراجیکٹ میں محدثین کے طریقے پر احادیث کے ذخیرے کا درایت و روایت کے نقطہ نظر سے جائزہ لینا ہے۔ اس معاملے میں قدیم محدثین کے قائم کردہ اصولوں کی روشنی میں احادیث کے ذخیرے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی بات کو منسوب کرنے کا معاملہ بہت ہی نازک ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جو شخص حضور سے کسی بات کو غلط طور پر منسوب کرے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قدیم اہل علم نے حدیث کے بارے میں بے پناہ احتیاط سے کام لیا ہے۔ کسی بات کے بارے میں یہ اطمینان کرنے کے لئے کہ اس کی نسبت واقعتاً حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درست ہے یا نہیں، بنیادی طور پر دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ ان طریقوں کو "روایت" اور "درایت" کا نام دیا گیا ہے۔
روایت کے طریقوں کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ حدیث روایت کرنے والے کون لوگ ہیں؟ کیا وہ قابل اعتماد ہیں یا نہیں؟ ان کی عمومی شہرت کیسی ہے ؟ اگر کسی راوی کے بارے میں ذرا سا بھی شک پڑ جائے تو یہ حدیث ناقابل قبول کے درجے میں آ جاتی ہے۔ درایت کے طریقوں میں حدیث کے متن کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس حدیث میں بیان کردہ بات قرآن مجید، دیگر صحیح احادیث اور عقل عام کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر اس میں کوئی تضاد پایا جائے تو اس حدیث کو "شاذ" قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ حدیث کو مسترد کرنے کا معنی یہ نہیں کہ معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رد کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف نسبت درست نہیں ہے یا آپ کی بات کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ اس فن کی تفصیل آپ میری کتاب علوم الحدیث : ایک مطالعہ میں دیکھ سکتے ہیں۔
کچھ دیر ان سے گفتگو کے بعد ہم باہر نکلے۔ میری اہلیہ اس گفتگو سے کافی بور ہو رہی تھیں۔ اس لئے وہ نیچے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئیں جبکہ میں کسی اور اسکالر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ان دنوں چھٹیاں تھیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر کمرے بند تھے۔ ایک کمرہ کھلا نظر آیا تو میں اس میں داخل ہو گیا۔
یہاں ایک اور اسکالر تشریف فرما تھے۔ ان سے تعارف پر معلوم ہوا کہ ان کا نام ڈاکٹر حسین عطائی تھا۔ یہ "عطائی" اس معنی میں نہیں ہے جس میں ہمارے ہاں عطائی ڈاکٹر اور حکیم ہوتے ہیں۔ یہ ان کا نام تھا یا کسی صوفی سلسلے کی نسبت ہو گی۔ انہیں انگریزی سے واقفیت نہیں تھی۔ اس وجہ سے ان سے گفتگو عربی میں ہوئی۔ ڈاکٹر حسین بغداد اور دمام کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم رہے تھے۔ ان کا خاص میدان "اصول الفقہ" تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر شعبان کے ساتھ مل کر امام نسفی کی اصول الفقہ پر ایک کتاب کو ایڈٹ کر کے شائع کروایا تھا۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کروں کہ قدیم کتب کو ایڈٹ کرنا ایک بہت بڑا فن ہے۔ قرون وسطی میں جب پرنٹنگ پریس ایجاد نہیں ہوا تھا، تمام کی تمام کتب ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ ایک مصنف ہاتھ سے کتاب لکھتے۔ اس کے بعد ان کے شاگرد یا قریبی لوگ، ان کی لکھی ہوئی کتاب سے اپنے لئے نسخے تیار کر لیتے۔ اگر کتاب کی اشاعت بڑے پیمانے پر کرنا مقصود ہوتی تو اسے پروفیشنل کاتبوں کے حوالے کر دیا جاتا جو کتاب کا ایک ایک نسخہ اپنے ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ جو لوگ اس کتاب سے دلچسپی رکھتے، وہ ان نسخوں کو خرید لیا کرتے تھے۔ ہاتھ سے لکھے ہوئے ان نسخوں کو مخطوطات (Manuscripts) کہا جاتا ہے۔
جدید دور میں جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ قدیم اہل علم کی کتابوں کو جدید دور کے معیار پر شائع کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں قدیم مخطوطات پر تحقیق کرنے کا آغاز ہوا۔ یہ مخطوطات یا تو مختلف لائبریریوں میں محفوظ تھے یا پھر اہل ذوق نے انہیں اپنے ذاتی کتب خانوں میں شامل کر رکھا تھا۔ بہت سے مخطوطات عجائب گھروں میں موجود تھے۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ دنیا بھر میں موجود مخطوطات کی ایک فہرست تیار کی جائے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمان اسکالرز مستشرقین سے پیچھے رہ گئے۔ ان مستشرقین میں کارل بروکلمان کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے "تاریخ الادب العربی" کے نام سے پوری دنیا کی لائبریریوں میں موجود مخطوطات کی فہرستیں تیار کیں۔ ان کی تیار کردہ فہرستوں سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بعض اہل علم نے ان فہرستوں میں قابل قدر اضافے کیے ہیں۔ان میں ایک جرمن ترک اسکالر فواد سزکین کی "تاریخ التراث العربی" مشہور ہے۔
مستشرقین (Orientalists) مغربی دنیا کے ان اسکالرز کو کہا جاتا ہے جو مشرقی علوم میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے مختلف اہل علم اپنے اپنے ذوق کے مطابق بدھ مت، ہندو مت، اسلام اور دیگر مشرقی مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مستشرقین کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ یہ لوگ صرف اور صرف اسلام دشمن ہوتے ہیں۔ ان کی تصانیف کا مقصد ہی اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ استعمار کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ یہ خیال جزوی طور پر درست ہے مگر اس تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے۔
یہ بات تو درست ہے کہ مستشرقین کے ایک طبقے نے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے اور دین اسلام کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت طیبہ کو مسخ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پانچوں کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے خالصتاً علمی انداز میں اسلام پر تحقیق کی ہے اور دیانتداری سے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے بہت سوں کو اللہ تعالی نے اسلام قبول کرنے کی توفیق بھی عطا کی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ اور علوم کے بعض ایسے پہلوؤں پر مستشرقین کی تحقیقات موجود ہیں جن پر مسلمانوں میں سے کسی صاحب علم نے قلم بھی اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ رہے متعصب مستشرقین تو ان کی کتب کو ان کے تعصب کے باعث اب خود اہل مغرب مسترد کر چکے ہیں۔
ہمیں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہ سازش کی دہائی دینے کی بجائے متعصب اور مخلص مستشرقین میں فرق کرتے ہوئے ان کے کام کے مثبت پہلوؤں سے فائدہ اٹھائیں۔ موجودہ دور میں ایک زبردست امکان اس بات کا بھی موجود ہے کہ مخلص مستشرقین کے ذریعے ہم اسلام کی دعوت ان کی اقوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ہر قوم کے لوگ باہر کے لوگوں کی نسبت اپنے اہل علم کی کتابیں پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر مستشرقین تک صحیح دینی علم پہنچا دیا جائے تو ان کے ذریعے اسلام کی دعوت ان کی اقوام میں پھیل سکتی ہے۔ اس طرف کم ہی لوگوں نے توجہ دی ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کے پرنس ولید بن طلال نے واشنگٹن میں "مسلم کرسچن انڈر اسٹینڈنگ سنٹر" قائم کیا ہوا ہے جس کے سربراہ جان ایل ایسپوزیٹو ہیں۔ اس طرز کے مزید ادارے قائم ہونے چاہییں تاکہ اسلام کی دعوت کو غیر مسلموں کے سامنے انہی کے علماء کے ذریعے پہنچایا جا سکے۔
خیر بات مخطوطات کی ہو رہی تھی۔ جب کوئی اسکالر کسی قدیم کتاب پر تحقیق کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ بروکلمان کی تیار کردہ فہرستوں کی مدد سے اس کتاب کے مختلف مخطوطات کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے کہ وہ کہاں کہاں موجود ہیں۔ اصل مخطوطے کا حصول تو ناممکن ہوتا ہے کیونکہ کثرت استعمال سے وہ ضائع ہو سکتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے لائبریریوں اور میوزیمز کی انتظامیہ ان مخطوطات کی کاپی مائیکرو فلم یا سی ڈی کی شکل میں فراہم کر دیتی ہے۔ محققین اس کتاب کے ایک نسخے پر انحصار کرنے کی بجائے عموماً زیادہ سے زیادہ نسخے اکٹھے کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ غلطی سے محفوظ رہا جا سکے۔
مخطوطوں کے حصول کے بعد یہ حضرات مختلف نسخوں کا جائزہ لے کر کتاب کو دوبارہ لکھتے ہیں۔ اگر ایک نسخے میں کتاب کا کوئی حصہ موجود نہیں ہے یا اس میں کاتب نے لکھنے میں کچھ غلطی کر دی ہے تو مختلف نسخوں کا جائزہ لے کر درست عبارت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کام کے لئے نہ صرف عربی زبان (یا جس زبان میں بھی مخطوطہ موجود ہو) میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس متعلقہ علم میں بھی مہارت حاصل کی جائے جس میں وہ کتاب لکھی گئی ہو تاکہ مصنف کی بات کو درست طور پر سمجھا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کام بالعموم اعلی درجے کے ماہرین سر انجام دیتے ہیں۔ حال ہی میں ان ایڈٹ شدہ کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ انٹرنیٹ پر بلا معاوضہ مہیا کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر حسین عطائی سے فارغ ہو کر میں واپس ڈاکٹر شعبان کے پاس آیا۔ مجھے خطرہ تھا کہ آگے نجانے کوئی انگریزی بولنے والا ملے یا نہ ملے، اس لئے بہتر ہے کہ اگلی معلومات ان سے ہی حاصل کر لی جائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ دیانت کے دفتر کا بھی دورہ کر لیا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دیانت کے پراجیکٹس کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔اس کے علاوہ میری خواہش تھی کہ اگر وہاں حدیث پراجیکٹ پر کام کرنے والے کوئی اسکالر مل جائیں تو ان سے بھی گفتگو کی جا سکے۔
ڈاکٹر شعبان نے اتنے اچھے طریقے سے دیانت کے دفتر کا پتہ بتایا کہ ہم بغیر کسی غلطی کے سیدھے وہاں جا پہنچے۔ یہ دفتر انقرہ سے "اسکی شہر" جانے والی سڑک پر واقع تھا۔ گیٹ پر موجود سکیورٹی گارڈز کو نجانے میری شکل پر کیا نظر آیا کہ انہوں نے بغیر کچھ پوچھے گیٹ کھول دیا۔ ایک نہایت ہی دس منزلہ پر شکوہ عمارت ہماری نگاہوں کے سامنے تھی جس کی وسیع و عریض پارکنگ کسی باغ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ہر طرف پھول ہی پھول نظر آ رہے تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ "دیانت" ترکی کی حکومت کا ایک ادارہ ہے۔ اس ادارے کا مقصد ترکی کے مذہبی امور کی ایڈمنسٹریشن ہے۔
میں نے یہاں بھی ریسپشن پر وہی نسخہ آزمایا کہ کسی انگریزی بولنے والے اسکالر سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ایک صاحب احمد ساجندی سے کال ملا دی۔ میں نے ان سے اپنا مدعا بیان کیا تو وہ بولے : "آپ وہیں ٹھہریے، میں نیچے آ رہا ہوں۔" اس کے بعد یہ صاحب مجھے اپنے دفتر میں لے گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کے ایک اور کولیگ اردال عطالائی بھی آ گئے۔ ان دونوں نے کافی کوشش کی کہ حدیث پراجیکٹ پر کام کرنے والے کسی اسکالر سے ملاقات کا بندوبست کیا جائے مگر بدقسمتی سے وہاں کوئی دستیاب نہ تھا۔ میں نے ان سے دیانت کے کام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کافی تفصیلات فراہم کیں۔
انہوں نے بتایا یہ ادارہ نہ صرف ترکی بلکہ یورپ کے مختلف ممالک بالخصوص جرمنی میں موجود مساجد کا انتظام کرتا ہے۔ ان کے زیر انتظام اندرون و بیرون ملک مساجد کی تعداد 75000 سے زائد ہے۔ ان مساجد کے ائمہ کی تنخواہیں ترکی کی حکومت ادا کرتی ہے۔ ان مساجد کے ذریعے دین کی دعوت کا کام پورے یورپ میں جاری ہے۔ سیکولر ترکی کا یہ روپ میرے لئے نیا تھا۔انہوں نے مجھے دیانت سے متعلق کچھ بروشر بھی دیے۔
ان بروشرز میں دی گئی معلومات کے مطابق دیانت کوئی تھیوکریٹک ادارہ نہیں ہے۔ یہ محض ایک انتظامی نوعیت کا ادارہ ہے جس کا کام مساجد کا انتظام و انصرام ہے۔ ترکی کے اہل علم کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور اس کام میں حکومت مداخلت نہیں کرتی۔ دیانت کا ادارہ یونیورسٹیوں کی فیکلٹی آف ڈیوائنٹی کی مدد سے مختلف تحقیقی پراجیکٹس کا اہتمام کرتی ہے تاکہ عوام کو صحیح علم فراہم کیا جا سکے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ ادارہ دوسرے مذاہب کے اداروں کے ساتھ مل کر ورکشاپس اور کانفرنسز کا اہتمام کرتا ہے تاکہ مذاہب کے درمیان مثبت مکالمے کو فروغ دیا جا سکے۔
دیانت کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر علی بارداکوغلو ہیں۔ احمد نے مجھے ان کی ایک کتاب Religion and Society: New Perspectives for Turkey بھی دی۔ بعد میں میں نے یہ کتاب پڑھی تو بہت دلچسپ محسوس ہوئی۔ قارئین کے لئے ان کی کتاب کے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں تاکہ ان کے خیالات سے ہم بھی آگاہ ہو سکیں۔ صحیح دینی علم کی اہمیت سے متعلق لکھتے ہیں:
اسلام کی روایت میں اہل علم نے معاشرتی انضباط، قومی استحکام اور رائے عامہ کو تیار کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ علم سوسائٹی کی بنیاد میں شامل ہے۔ اس وجہ سے ایک حقیقی مسلم معاشرہ وہ ہے جو کہ صحیح علم پیدا کرے۔ غلط فہمیوں کو مسترد کرے اور علم کو قوت کے طور پر تیار کرے۔ ۔۔۔۔
صحیح علم کا مطلب ہے کہ توہم پرستی، غلطی، جہالت، بے انصافی اور مذہب کے غلط استعمال کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ اسلامی روایت میں، یہ مذہبی علماء ہی ہیں جنہوں نے بے انصافی، توہم پرستی، مذہب کے غلط استعمال اور انتہا پسندی کے خلاف جہاد جاری رکھا ہے۔ مذہبی علم اپنی حقیقت کے اندر ایک جدوجہد کا نام ہے۔ اپنے معاملات کو مضبوط مذہبی علم کی بنیاد پر قائم رکھتے ہوئے، ادارہ مذہبی امور (دیانت) انتہا پسندانہ رجحانات کو برداشت نہیں کرتا جو کہ سماجی امن کو نقصان پہنچائیں۔ جن لوگوں میں یہ رجحان پائے جائیں، انہیں درست معلومات فراہم کی جاتی ہیں، انہیں تعلیم دی جاتی ہیں اور (انتہا پسندی ترک کرنے کے لئے ) انہیں قائل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک پرخطر راستہ ہے۔ ایسی مذہبیت جو کہ علم کی بجائے جذبات کی بنیاد پر قائم ہو، بالعموم معاشرے سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔ ایسے افراد جنہوں نے جذباتی ماحول میں خود کو کسی خاص قوت، تحریک یا مرکز کے سامنے سرنگوں کر دیا ہو، ان کے ذہنوں کو روشن کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ ۔۔۔
ڈاکٹر علی بردا کوغلو سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کرنے کے شدید ناقد ہیں۔ اس سے متعلق لکھتے ہیں:
ہم یہ دعوی تو نہیں کرتے کہ تشدد، ٹینشن اور بے امنی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ہمیں دو بنیادی غلطیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پہلی تو یہ کہ مذہبی تعلیم و تربیت کی عدم فراہمی کے سنگین نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی ترقی میں مذہب کا مثبت کردار ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری غلطی یہ کہ مذہب کو قومی یا بین الاقوامی مفادات کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر توسیع پسندانہ عزائم کے لئے مذہب کو استعمال کیا گیا ہے۔ ۔۔۔
دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں بھی علم ہو گا وہاں خود اعتمادی اور آزادی ہو گی۔ایک تعلیم یافتہ شخص وہ ہوتا ہے جس میں خود اعتمادی ہو اور وہ دوسروں کی آزادی کے دائرے میں مداخلت نہ کرے۔ ۔ ۔۔
جب ہم آج کی مسلم دنیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں جمہوریت اور مذہب و حکومت کے تعلقات سے متعلق کئی مسائل نظر آتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک میں غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کو درست ثابت کرنے کے لئے اسلام کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب ہمیں سیاسی مفادات کی خاطر اسلام کے غلط استعمال کے مسئلے کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے۔ اسلام انسانی حقوق، سیاست میں عوام کی شمولیت، شہری آزادیوں، مساوات اور انصاف کو فروغ دیتا ہے۔ یہ خدا کے نام پر خیالات کو دبا دینے کا نام نہیں ہے۔ ۔۔۔
رواداری کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
انتہا پسندی اور اعتدال پسندی کا بنیادی فرق رواداری ہے جو کہ معتدل سوچ کے اندر شامل ہے۔ یہ اعتدال پسندی ہی ہے جو کہ "دوسروں" کو برداشت کرنا سکھاتی ہے جبکہ انتہا پسندی میں "دوسروں" کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے سے مختلف نظریات کو برداشت نہیں کر سکتے تو پھر آپ کی اعتدال پسندی، اعتدال پسندی کے نام پر ایک اور انتہا پسندی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔۔
رواداری اور مثبت مکالمے کے معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خواہش ہے کہ تمام اختلافات کو ختم کر دیا جائے۔ یہ کوشش کہ دوسرے ہمارے سانچے میں ڈھل جائیں اور انہیں اسی وقت قبول کیا جائے جب وہ ہم سے مشابہ ہو جائیں (ہی رواداری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ )
انسانیت کو آج کی اس دنیا میں دو بنیادی مسائل کا سامنا ہے۔ ایک تو وہ مسئلہ ہے جس کا تعلق انسانی زندگی کو ختم کر دینے والے عناصر سے ہے۔ ان میں بھوک، غربت، بے روزگاری، عدم مساوات، اخلاقی انحطاط، مذہب سے دوری، ظلم، طبی سہولتوں کی عدم فراہمی، تعلیم کے مسائل، قانون کا عدم احترام، آمرانہ طریقے، سماجی کلچر کا فروغ نہ پانا، تاریخی اور ثقافتی اقدار کی تباہی وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرا مسئلہ پہلے سے کم اہم نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق بھی پہلے مسئلے سے ہی ہے۔ اس میں افراد کے مابین مناسب مکالمے کی عدم دستیابی، رواداری کی کمی، اختلافات کو برداشت نہ کرنا، اور اختلاف کے باوجود امن برقرار رکھنا شامل ہے۔ یہ کسی ایک علاقے یا ایک قوم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ۔۔۔۔
دور جدید سے متعلق لکھتے ہیں:
ہمیں جلد از جلد (جدیدیت سے متعلق) فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس کے تین راستے ہیں: پہلا تو وہ طریقہ ہے جو کلیسا نے شروع میں اختیار کیا۔ انہوں نے کھڑکیاں بند کر لیں اور یہ فرض کر لیا کہ جدیدیت نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ اگر ہم جدیدیت کا اقرار نہیں کریں گے تو یہ ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم وہی کچھ کریں جو مغرب میں آج کلیسا کر رہا ہے اور وہ یہ کہ جدیدیت کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈالتے ہوئے دور جدید کے تمام تقاضے پورے کر دیے جائیں۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ ایک واضح روڈ میپ تیار کیا جائے جس کے ذریعے ہم جدید دور کے تقاضوں کا مستند مذہبی علم کی روشنی میں اس طریقے سے جائزہ لیں کہ اس کے نتیجے میں ہمارے مذہبی عقائد پر زد نہ پڑ سکے۔
جدت پسندی (Modernity) اس کا نام نہیں ہے کہ ہم دنیا پرست ہو جائیں۔ دوسرے الفاظ میں جدیدیت کسی شخص کو مذہبی اقدار سے خالی کر دینے کا نام نہیں ہے۔ ۔ ۔۔
آج مسلمانوں کو دو بہت بھاری کام سر انجام دینا ہیں۔ ایک تو انہیں اپنے اندر موجود انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ دوسرے انہیں (باہر کی دنیا میں) اسلام کے منفی تاثر کو ختم کرنا ہے جو کہ بعض مخصوص حلقوں نے جان بوجھ کر غلط نیت سے قائم کیا ہے۔ ۔۔ اسلام کے منفی امیج کو قائم کرنے میں ان الفاظ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو کہ لفظ "اسلام" سے پہلے لگا دیے جاتے ہیں۔ ان میں ماڈریٹ اسلام، ریڈیکل اسلام اور بنیاد پرستانہ اسلام شامل ہیں۔۔ ۔ ایسا نہیں ہے۔ تمام آسمانی مذاہب اعتدال پسندانہ ہیں اور یہ امن اور ہم آہنگی کے قیام کا ذریعہ ہیں۔۔۔۔
مذہب میں ریفارم کے بارے میں لکھتے ہیں:
(مذہب میں ریفارم کے بارے میں) لوگوں کی توقعات دو طرح کی ہوتی ہیں: بعض لوگ مذہب کی ایسی توجیہ چاہتے ہیں جو ان کے طرز زندگی سے موافقت رکھتی ہو۔ وہ خود کو مذہب کے مطابق ڈھالنے کی بجائے مذہب میں اپنی خواہشات کے مطابق تراش خراش کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں مذہب کی اصلاح ہونی چاہیے اور اس کی ایک نئی تعبیر کی جانی چاہیے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ مگر یہ ممکن نہیں ہے۔ مذہب کی فطرت اس کی اجازت نہیں دیتی۔
دوسری طرز کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے روایتی تصورات اور تشریحات کو اصلی دین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان تصورات میں تبدیلی، دراصل مذہب میں تبدیلی ہوتی ہے۔ حالانکہ یہاں اصل دین زیر بحث نہیں ہوتا بلکہ مذہب کا تاریخی تجربہ زیر بحث ہوتا ہے۔ دین اور مذہبی تجربہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ دین اس پیغام کا نام ہے جو ہمیشہ کے لئے یکساں طور پر قابل عمل ہے جبکہ مذہبی تجربہ اس پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے مختلف طریق ہائے کار کا نام ہے۔ یہ مختلف معاشروں اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ہو سکتا ہے۔
اس وجہ سے دین کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا مگر مذہبی تجربہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات کسی سنجیدہ معاملے میں مختلف آراء پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی روایتی سمجھ کو دین قرار دے رہے ہوتے ہیں، اسے دین میں تحریف اور ماڈرنائزیشن قرار دے دیتے ہیں۔۔۔۔
(اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ) ہم دوسروں کی جو غلطیاں دیکھیں، ان کے خلاف مہم چلانے کی بجائے اچھی مثالیں قائم کر کے ان کے سامنے رکھ دیں۔
میں احمد اور اردال کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہا تھا۔ احمد بنیادی طور پر دیانت کے انٹرنیشنل ریلیشز ڈیپارٹمنٹ کا حصہ تھے۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ دیگر ممالک کے مذہبی اداروں سے تعلق قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہ ترکی سے باہر کی مساجد کے ذمہ دار تھے۔ اردال کا تعلق ریسرچ پراجیکٹس کے انتظامی امور سے تھا۔
احمد بتانے لگے کہ ان کے پاس پاکستان کی "اسلامی نظریاتی کونسل" کا وفد بھی آیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر خالد مسعود کر رہے تھے۔ انہوں نے الماری سے کونسل کا بروشر بھی نکال کر دکھایا۔ احمد کہنے لگے : "انہوں نے ہم سے بہت سے سوالات پوچھے۔ پھر ہم نے بھی ان سے کچھ سوالات پوچھے۔ " میں نے کہا: "اسلامی نظریاتی کونسل آپ کی دیانت کی طرز کا ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ پارلیمنٹ کی مشاورتی کونسل ہے۔ " وہ یہ بات پہلے سے جانتے تھے۔ خالد مسعود صاحب نے اس ادارے کو بہت فعال بنا دیا ہے اور اس میں بہت سے تحقیقی پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔
دیانت اور اس کے کاموں کا امپریشن بہت ہی شاندار تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری وزارت مذہبی امور بھی اس طرز کا ادارہ بن جائے۔ سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کی مساجد اور دینی مدارس کو وزارت مذہبی امور سے متعلق کیا جائے تاکہ اللہ کے گھروں کا فرقہ وارانہ اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال بند ہو سکے۔
احمد اور اردال کی یہ خواہش تھی کہ میں کھانا ان کے ساتھ کھاؤں۔ وہ بار بار اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ میرا کام نہیں کر سکے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرکے اجازت چاہی۔تھوڑی دیر میں ہم دوبارہ انقرہ کی سڑکوں پر اڑے جا رہے تھے۔ انقرہ شہر کا انفرا اسٹرکچر اچھا تھا۔ سگنل کافی کم تھے۔ اکثر مقامات پر اوور ہیڈ برج بنا کر راستوں کو ہموار کیا گیا تھا۔ اب ہماری منزل "الوس" کا علاقہ تھی جو کہ انقرہ کا قدیم تاریخی علاقہ تھا۔ یہ علاقہ ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ ہر طرف اس کے بورڈ بھی موجود تھے اور ہر شخص اس سے واقف بھی تھا۔
ڈاکٹر شعبان نے مجھے بتایا تھا کہ انقرہ میں دو بڑے عجائب گھر ہیں۔ ایک عجائب گھر آرٹس سے متعلق ہے جس میں قدیم دور سے لے کر جدید دور تک کے مصوری اور مجسمہ سازی کے نمونے موجود ہیں۔ دوسرے عجائب گھر کا تعلق ایتھنو گرافی سے ہے۔ میری دلچسپی ایتھنو گرافی سے تھی۔ اس وجہ سے ہم نے ایتھنو گرافیکل میوزیم دیکھنے کا ارادہ کیا۔
ایتھنو گرافی، علم بشریات (Anthropology) کی ایک شاخ ہے۔ اس میں کسی معاشرے کے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔قدیم معاشروں سے متعلق آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران وہاں سے جو اشیاء ملتی ہے، اس کی روشنی میں اس تہذیب کے لوگوں کے رہن سہن کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
انقرہ کا ایتھنو گرافیکل میوزیم قدیم قلعے کے ساتھ ہی بنا ہوا تھا۔ ٹکٹ کافی مہنگا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ایک پر شکوہ عمارت ہمارے سامنے تھی۔ اس عمارت کی تعمیر سلطان محمد فاتح کے وزیر اعظم محمود پاشا نے 1455-73 ء کے زمانے میں کروائی تھی۔ یہ دراصل اس دور کی مین مارکیٹ تھی جس کے باہر کی جانب 102 دکانیں تعمیر کی گئی تھیں۔ 1881ء میں اس عمارت میں آگ لگ گئی تھی۔مصطفی کمال کے زمانے میں اس عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
ایتھنو گرافیکل میوزیم کے اندر مختلف ادوار کی بہت سی اشیاء موجود تھیں جن سے ان ادوار میں رہنے والوں کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے چند اشیاء کی تفصیل یہ ہے :
مذہبی نوعیت کے نوادرات: ان میں دیوی دیوتاؤں کے مجسمے اور تصاویر رکھے ہوئے تھے۔ زیادہ تر تصاویر بھی پتھر تراش کر بنائی گئی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح اناطولیہ میں بھی شرکیہ مذاہب کا غلبہ رہا ہے۔ بعض تصاویر میں دیوتاؤں کو جنگ کرتے دکھایا گیا تھا۔ ایک جگہ ابو الہول کے مجسمے بھی تھے جس کا سر انسان کا اور دھڑ شیر کا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصری مذہب کے آثار یہاں بھی موجود رہے تھے۔ بعض دیویوں کے مجسمے بھی موجود تھے۔ اناطولیہ کے لوگوں کے خیال میں زمین اور ماں کی کوکھ کی زرخیزی کا تعلق کچھ دیویوں سے تھا۔
جنگ سے متعلق نوادرات: ان میں پتھروں پر تراشیدہ تصاویر میں جنگی مناظر پیش کئے گئے تھے۔ قدیم دور کی کچھ تلواریں اور نیزے بھی پڑے ہوئے تھے۔ ایک مجسمے میں ایک گھڑ سوار کو شیر سے لڑتا دکھایا گیا تھا۔
گھریلو اشیاء: گھریلو اشیاء میں تانبے، کانسی اور مٹی کے ہر سائز کے برتن شامل تھے۔ بعض تصاویر بھی گھریلو زندگی کی عکاسی کرتی تھیں۔ایک تصویر میں ایک شخص کو چھت پر چڑھتے دکھایا گیا تھا۔ ایک جگہ پتھر کی بنی ہوئی باقاعدہ پارٹیشن موجود تھی جس سے گھر کے اندر پردے کا کام لیا جاتا ہو گا۔
بادشاہوں کی تصاویر اور مجسمے : یہاں مختلف تصاویر اور مجسمے موجود تھے جو بادشاہ کی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔ بعض تصاویر میں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ عوام کو بادشاہ کے سامنے سر نگوں ہو کر رہنا چاہیے۔ ایک تصویر میں بادشاہ کو رتھ پر دکھایا گیا تھا جس کے گھوڑے کے سم ایک شخص کو کچل کر جا رہے تھے۔
معیشت سے متعلق نوادرات: بعض نوادرات کا تعلق معاش سے تھا۔ پتھر کو تراش کر ایک بیل گاڑی بنائی گئی تھی جس کے آگے دو بیل جتے ہوئے تھے۔ ایک تصویر میں چرواہے کو بکریاں چراتا دکھایا گیا تھا۔ایک تصویر میں بازار کا منظر دکھایا گیا تھا۔
کہانیوں پر مشتمل تصاویر: بعض تصاویر ایک سیریز پر مشتمل تھیں جن میں ایک کہانی بیان کی گئی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم انسان اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیسے کرتا تھا۔
پورنو گرافی: فحش تصاویر صرف موجودہ دور میں ہی نہیں پائی جاتیں بلکہ قدیم دور میں فحش جذبات کا اظہار مجسموں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ یہاں بھی ایسے بعض بیہودہ مجسمے موجود تھے۔
سکے اور مہریں: بادشاہوں کے مختلف ادوار کے سکے اور مہروں سے چند شو کیس بھرے ہوئے تھے۔ یہ زیادہ تر سونے، تانبے اور کانسی کے بنے ہوئے تھے۔
بادشاہوں کے سر: بعض بادشاہوں کا پورا مجسمہ بنانے کی بجائے ان کے صرف سر بنائے گئے تھے جس میں ان کی شکل کو نمایاں کیا گیا تھا۔
زیورات: خواتین کے مختلف زیورات جن میں انگوٹھیاں، نیکلس اور بریس لٹ شامل تھے۔ یہ زیادہ تر سونے اور چاندی کے بنے ہوئے تھے۔
میوزیم میں مختلف طرز کے مذہبی اور غیر مذہبی مجسمے ہر سائز میں موجود تھے۔ چھوٹے مجسمے شاید بچوں کے کھلونوں کے طور پر استعمال ہوتے ہوں گے۔ میوزیم کی چند تصاویر آپ کے پیش خدمت ہیں:
اس میوزیم میں میری توجہ کا مرکز قدیم اناطولیہ کے مذہب سے متعلق مجسمے تھے۔ یہاں مختلف قوموں کے دیوی دیوتاؤں کے مجسمے موجود تھے۔ قدیم دور میں ہر قوم کے دیوی دیوتا مختلف ہوا کرتے تھے۔ ان کے خیال میں تمام دیوی دیوتا ایک بڑے خدا کے تحت کام کرتے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ توحید انسان کی فطرت میں اس حد تک راسخ ہے کہ شرک کو اختیار کرنے کے باوجود وہ ایک بڑے خدا کو ماننے پر مجبور ہے۔
اگر ہم دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتے جائیں تو ایک عظیم خدا کا تصور یکساں طور پر موجود رہتا ہے جبکہ نچلے درجے کے دیوی دیوتا ہر قوم اور تہذیب میں تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت صرف ایک ہی ہوتی ہے جبکہ جہالت ہر علاقے کی مختلف ہوا کرتی ہے۔ ہر قوم کے مذہبی راہنماؤں نے اپنے تصور کے مطابق کچھ نام رکھ لیے اور انہیں خدا قرار دے دیا۔اس کے بعد انہوں نے ان دیوتاؤں سے متعلق پوری کی پوری دیو مالا گھڑ لی۔ دور کیوں جائیے، برصغیر پاک و ہند کا علاقہ اس دیو مالا کے بارے میں خود کفیل ہے۔
انقرہ میں چند مساجد بھی تھیں جن میں حاجی بہرام مسجد زیادہ مشہور تھی۔ یہ مسجد 1428ء میں تعمیر کی گئی تھی۔وقت کی کمی کے باعث ہم یہ مساجد نہ دیکھ سکے۔
میوزیم دیکھنے کے بعد ہم باہر نکلے۔ اب ہم انقرہ کے قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ یہ ویسا ہی قلعہ تھا جیسا کہ عام طور پر قلعے ہوا کرتے ہیں۔ برصغیر کے قلعوں کے برعکس اس قلعے کی دیواریں پتھروں کی بنی ہوئی تھیں۔ قدیم دور میں پتھروں کو تراش کر مکعب شکل کی بڑی بڑی اینٹوں میں تبدیل کر دیا جاتا اور پھر انہیں تعمیراتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا۔ اس قلعے کی ابتدائی تعمیر رومی دور سے پہلے ہوئی تھی۔ اس کے بعد رومیوں، بازنطینیوں اور سلجوقیوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق قلعے میں تبدیلیاں کرتے رہے۔
انقرہ، جو اس وقت "انگورہ" کہلاتا تھا میں تیمور اور بایزید یلدرم کے درمیان ایک زبردست جنگ ہوئی تھی جس میں تیمور کو فتح حاصل ہوئی تھی۔ اس طریقے سے تیمور نے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا تھا مگر عثمانی کچھ ہی عرصے میں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔
قلعے سے فارغ ہو کر ہم شہر کی طرف بڑھے۔ یہ انقرہ کا "ضلع الوس" تھا۔ ایک دکان سے موبائل کارڈ لینے کے بعد ہم اندر کی طرف آئے۔ ایک موڑ مڑتے ہی چوک کے بیچوں بیچ ایک قدیم مینار ہمارے سامنے تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس مینار کا نام "جولین مرتد کا ٹاور" تھا۔ یہ ایک رومی بادشاہ تھا جو 360-363 ء کے عرصے میں بادشاہ رہا تھا۔ اسے مرتد کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے رومی سلطنت کو عیسائیت سے واپس قدیم مشرکانہ مذہب کی طرف لے جانے کی کوشش کی تھی۔ جولین سے پہلے روم کے بادشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کر کے اسے ملک کا سرکاری مذہب قرار دے دیا تھا۔
جولین مشرکانہ مذہب کے احیاء میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ایران کی ساسانی سلطنت سے جنگ کے سلسلے میں جب وہ انقرہ سے گزرا تو اس کے پیروکاروں نے اسے خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یہ مینار تعمیر کیا تھا۔اس مینار کو ترکی زبان میں "بلقیس میناریسی" بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی کیونکہ سبا کی ملکہ بلقیس، جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام سے شادی کر لی تھی، کا شاید ہی کبھی انقرہ سے گزر ہوا ہو گا۔
مینار دیکھنے کے بعد ہم شہر سے باہر جانے والی سڑک پر آ گئے۔ کچھ ہی دیر میں ہم انقرہ کے رنگ روڈ پر پہنچ گئے۔ اب ہماری منزل "بُرسا" تھی جس کے لئے ہمیں استنبول کی جانب سفر کرنا تھا۔ ابھی ہم کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک بڑے سے بورڈ پر "قونیہ" لکھا نظر آیا۔ ہمارے سفر کے ابتدائی پلان میں قونیہ شامل تھا مگر اردن کا ویزا نہ ملنے کے باعث ہمیں جنوبی ترکی کے سفر کا ارادہ منسوخ کرنا پڑا تھا ورنہ سفر کافی لمبا ہو جاتا۔ مناسب ہو گا کہ ہم اس شہر کی کچھ تفصیل بھی قارئین کے سامنے پیش کر دیں کیونکہ مذہبی تاریخ میں قونیہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
قونیہ ایک قدیم شہر ہے۔ سلجوقیوں کے زمانے میں یہ ان کی سلطنت کا دارالحکومت رہا ہے۔ مذہب اور تصوف سے متعلق کسی بھی شخص کے سامنے اگر قونیہ کا نام لیا جائے تو جو اگلا نام اس کے ذہن میں آتا ہے وہ مولانا جلال الدین رومی کا ہے جو کہ مولانا روم کے نام سے مشہور ہیں۔
مولانا کا شمار اہل تصوف کی اعلی ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ 1207ء یا 604ھ میں موجودہ افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی۔ جوانی کی عمر میں وہ شام چلے گئے اور حلب اور دمشق کے بڑے مدارس سے انہوں نے اعلی مذہبی تعلیم حاصل کی۔ آپ فقہ، علم کلام اور تصوف کے بڑے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے قونیہ میں رہائش اختیار کی جو کہ سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ ظاہر ہے کہ وہاں تعلیم و تعلم کے مواقع بھی زیادہ ہوں گے۔
یہاں ان کی ملاقات شمس تبریزی نام کے ایک بزرگ سے ہوئی۔ یہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں ایک مکمل صوفی بنا دیا۔ مولانا کو ان سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اچانک ان کے مرشد شمس تبریزی غائب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے انہیں قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد مولانا روم بیمار اور بے قرار رہنے لگے۔ اسی کیفیت میں انہوں نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی لکھی۔ انہوں نے 1273ء یعنی 672ھ میں وفات پائی۔
مولانا روم کی تصوف کے لئے خدمات بے پناہ ہیں۔ ان کی مثنوی کا شمار اہل تصوف کی مقبول ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے اشعار کی تعداد 2500 سے زائد ہے۔ علامہ اقبال اس مثنوی سے بہت متاثر تھے۔ وہ مولانا روم کو اپنا مرشد کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ان کے لئے "مرشد رومی" اور خود کے لئے "مرید ہندی" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
مولانا روم ایک بہت بڑے صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجے کے شاعر تھے۔ انہوں نے تصوف کی تعلیمات کو اشعار کی زبان میں پیش کیا۔ چونکہ مسلم دنیا میں شعر و شاعری کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ نہ صرف ادب اور تصوف، بلکہ ریاضی، سائنس اور گرامر جیسے خشک مضامین کو بھی اشعار میں بیان کیا جاتا تھا، اس وجہ سے ان کی مثنوی کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ فارسی ادب میں مثنوی کو بلا مبالغہ مقبول ترین کتاب کہا جا سکتا ہے۔
میرے ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے شعر و شاعری کو اتنی اہمیت کیوں دی کہ حساب اور گرامر جیسے مضامین بھی اس میں بیان کیے۔ اس سوال کا جواب مجھے البیرونی کی مشہور زمانہ "کتاب الہند" سے ملا۔ البیرونی جو کہ ایک بڑے سائنسدان، جغرافیہ دان، مورخ، سیاح اور ادیب ہیں، بیان کرتے ہیں کہ علوم سے ناواقف کاتب حضرات کتاب کو نقل کرتے ہوئے اس میں بہت سی غلطیاں کرتے ہیں اور بات کو کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے قدیم دور میں یہ رواج رہا ہے کہ بات کو اشعار میں بیان کیا جائے۔ وزن، قافیے اور ردیف کی پابندیوں کے باعث اشعار کی غلطی فوراً پکڑی جا سکتی ہے۔ انہیں آسانی سے یاد کیا جا سکتا ہے اور صحیح طور پر اگلوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مثنوی ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں۔ ہر شعر کا ایک نیا ہی قافیہ ہوتا ہے۔ اشعار کے ہم وزن ہونے کی شرط کے ساتھ شاعر جتنے چاہے شعر کہتا چلا جائے۔ قافیہ کی پابندی نہ ہونے کے باعث عموماً مثنویاں بہت طویل ہوتی ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی بھی سات جلدوں پر مشتمل ہے۔
مجھے ذاتی طور پر شعر و شاعری اور خاص طور پر فارسی شاعری میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں انتہا پسندی کی حد تک حقیقت پسند ہوں۔ حقائق خواہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں، مجھے خوبصورت سے خوبصورت تخیل سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ شاعری کو پسند کرنے کے لئے انسان کا تخیل پسند ہونا ضروری ہے جو کہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا روم کی مثنوی کا مطالعہ کرنے کے لئے میں نے اس کے نثری ترجموں اور شروحات کا مطالعہ کیا ہے۔
مثنوی میں مولانا روم کا طریق کار یہ ہے کہ وہ علمی انداز میں گفتگو کرنے کی بجائے فکشن کی طرز پر چھوٹی چھوٹی کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ یہ حقیقی کہانیاں نہیں ہوتیں بلکہ بادشاہوں، شہزادوں، درویشوں، شیاطین، طوطا و مینا اور دیگر جانوروں کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کہانی ملاحظہ فرمائیے۔ یہ کہانی مولانا کے خاندان کے لوگوں کی تیار کردہ ویب سائٹ www.mevlana.net سے لی گئی ہے :
تیل کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کے پاس ایک طوطا تھا جو بڑی باتیں کیا کرتا تھا۔ جب وہ شخص باہر جاتا تو اس طوطے کو اپنی دکان پر رکھوالی کے لئے چھوڑ جاتا۔ ایک دن طوطا دکان میں اکیلا تھا کہ ایک بلی آئی اور اس نے تیل کا ایک مرتبان الٹا دیا۔ جب سوداگر واپس آیا تو مرتبان کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ طوطے نے ایسا کیا ہے۔ اس نے طوطے کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ اس کے بال جھڑ گئے اور وہ گنجا ہو گیا۔ اس کے گفتگو کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ کچھ دن بعد طوطا دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک گنجا آدمی باہر سے گزرا۔ طوطے کی قوت گویائی واپس آ گئی اور وہ چلایا: "تم نے کس کا مرتبان الٹایا ہے ؟"
طوطے کی اس غلط فہمی سے مولانا یہ سبق اخذ کرتے ہیں کہ جیسے طوطے نے غلط طور پر گنجے پن کا تعلق مرتبان کے الٹنے سے قائم کر لیا، اسی طرح بہت سے لوگ غلط طور پر جعلی پیروں کو ولی اللہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
بعض لوگوں کے خیال میں یہ کہانیاں قبل از اسلام ایران کی دیو مالا سے اخذ کی گئی ہیں۔ کہانی کو بیان کرنے کے بعد وہ اس میں سے سبق اخذ کرتے ہوئے اپنے مخصوص صوفیانہ نظریات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے اس طریق کار نے مثنوی کو بہت پر اثر بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی دانوں میں مثنوی بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ مولانا کے بعض غالی عقیدت مند تو نعوذ باللہ مثنوی کو الہامی کتاب قرار دیتے ہیں اور اسے فارسی زبان کا قرآن سمجھتے ہیں۔
مخصوص صوفیانہ نظریات کے علاوہ مثنوی میں بہت سی ایمانی و اخلاقی تعلیمات بھی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے کچھ اشعار اور ان کا مفہوم پیش خدمت ہیں۔ یہ اشعار حکیم محمد اختر صاحب کے درس مثنوی سے لیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی کے بارے میں لکھتے ہیں:
آہ را جز آسمان ہمدم نبود۔ ۔۔۔۔ راز را غیر خدا محرم نبود
میں تنہائی میں ایسی جگہ اللہ کا نام لیتا ہوں جہاں اللہ کے سوا میری آہ میں میرا کوئی ساتھی نہیں ہوتا۔ میری محبت کے راز کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔
اے کہ صبرت نیست از فرزند و زن۔ ۔۔۔صبر چوں داری ز رب ذوالمنن
عجیب بات ہے کہ تم بیوی بچوں کی ناراضی پر تو صبر نہیں کر سکتے جبکہ احسان کرنے والے رب کریم کی ناراضی پر صبر کر لیتے ہو۔
دہد نطفہ را صورتے چوں پری۔ ۔۔۔ کہ کردہ است بر آب صورت گری
اے اللہ! تو نے نطفہ کے ایک قطرہ سے اتنی خوبصورت شکل تخلیق کی ہے۔ یہ تو گویا پانی سے نقش و نگار بنانے کے مترادف ہوا۔
چیست دنیا از خدا غافل بدن۔ ۔۔۔ نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
دنیا پرستی خدا سے غفلت کا نام ہے۔ یہ کپڑے، سونا چاندی، اولاد اور بیوی کے ساتھ تعلق کا نام نہیں ہے۔
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں۔ ۔۔۔ ایں خیال است و محال است و جنوں
خدا کو بھی چاہتے ہو اور دنیا پرستی بھی اختیار کرتے ہو۔ یہ خیال تو محض پاگل پن اور ناممکن ہے۔
عشق من پیدا و دلبر ناپدید۔ ۔۔۔ در دو عالم ایں چنیں کہ دلبر کہ دید
خدا کی محبت تو میرے دل میں پیدا ہو گئی جبکہ میرا محبوب نظروں سے اوجھل ہے۔ دونوں جہان میں کوئی ایسا محبوب تو دکھاؤ کہ جس کو دیکھے بغیر ہر کوئی اس پر جان نثار کر رہا ہو۔
لحن مرغاں را اگر واقف شوئی۔ ۔۔۔ بر ضمیر مرغ کے عارف شوئی
(اے جعلی صوفیو!) اگرچہ تم نے چمن کے مرغوں کی آواز کی نقل کر بھی لی، پھر بھی ان کے دل میں جو مضمون ہے، اسے تم کیسے جان سکتے ہو۔
گر بیا موزی سفیر بلبلے۔ ۔۔۔ تو چہ دانی کوچہ گو ید با گلے
اگرچہ تم نے بلبل کی آواز کی نقل کر بھی لی مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ پھول کے ساتھ کیا گفتگو کرتی ہے ؟
کار مرداں روشنی و گرمی است۔ ۔۔۔ کار دوناں حیلہ و بے شرمی است
مردوں کا کام سر گرم عمل رہنا ہے جبکہ کمینہ خصلت لوگوں کا کام حیلے بہانے اور بے شرمی سے (کام سے جی چرانا) ہے۔
پیش نور آفتاب خوش مساغ۔ ۔۔۔ رہنمائی جستن از شمع و چراغ
روشن آفتاب کی موجودگی میں شمع و چراغ سے روشنی حاصل کرنا عجیب بات ہے۔ (یعنی اللہ تعالی کی ہدایت کے ہوتے ہوئے ادھر ادھر سے ہدایت کی توقع فضول ہے۔ )
یکے آں کہ بر غیر بد بیں مباش۔ ۔۔۔ دویم آں کہ بر خویش خود بیں مباش
دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے انسان کو اپنی خامیاں تلاش کرنی چاہییں۔
مرکب توبہ عجائب مرکب است۔ ۔۔۔ تا فلک تا زد بیک لحظہ ز پست
توبہ کا مرکب بھی عجیب چیز ہے۔ یہ توبہ کرنے والے کو ایک سیکنڈ میں پستی سے نکال کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔
لیک شیرینی و لذات مقر۔ ۔۔۔ ہست بر اندازہ رنج سفر
منزل پر پہنچنے کے لطف کا اندازہ سفر کی صعوبتوں سے ہی ہوتا ہے۔
ہمچو امرد کز خدا نامش دہند۔ ۔۔۔ تابداں سالوس در دامش کنند
امرد (ایسا خوبصورت لڑکا جس کی داڑھی نہ نکلی ہو) کو یہ لوگ خدائے حسن کہتے ہیں تاکہ انہیں اپنے جال میں پھنسا لیں۔
قونیہ میں مولانا روم کا مقبرہ موجود ہے۔ اس مقبرے کی خاص بات یہاں پر ہونے والا درویشوں کا رقص ہے جو کہ "سماع" کہلاتا ہے۔ یہ برصغیر کے چشتی حضرات کے سماع سے خاصا مختلف ہے۔ قونیہ میں بہت سے غیر ملکی سیاح صرف یہ رقص دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس رقص کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں چند درویش لمبے لمبے فراک پہن کر اسٹیج پر آتے ہیں۔ سر پر انہوں نے اوندھی بالٹیوں کی طرز کی ٹوپیاں لی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ہاتھ پھیلا کر ایک عالم بے خودی میں خلاف گھڑی وار گردش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان درویشوں کا استاد مختلف رنگ کا سوٹ پہن کر ان کے ساتھ کھڑا موسیقی کی زبان میں انہیں ہدایات جاری کرتا رہتا ہے۔
درویشوں کا یہ رقص دیوانہ وار ہوتا ہے مگر ان کے استاد میں ذرا بھی والہانہ پن نہیں پایا جاتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں قوالی کے دوران بہت سے لوگ وجد میں آ کر حال کھیلنے لگتے ہیں مگر قوال کو خود کبھی وجد نہیں آتا۔ اس رقص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا روم کی نسل کے بزرگ ڈاکٹر جلال الدین جلبی اس سماع کے بارے میں لکھتے ہیں:
سماع کے اندر چار بار سلام کیا جاتا ہے : پہلا سلام سچائی پر انسان کی پیدائش کو بیان کرتا ہے۔ ۔۔۔ دوسرا سلام تخلیق کے بارے میں خدا کی عظمت کے بارے میں انسان کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔ تیسرا سلام ان جذبات کو محبت میں تبدیل کر دینے کی علامت ہے۔ انسان عقل کو اس محبت پر قربان کر دیتا ہے۔ یہ مکمل سپردگی کا نام ہے۔ یہ خود کو خدا کی محبت میں فنا کر دینے کا نام ہے۔ بدھ مذہب میں یہ انسان کے لئے سب سے بڑا درجہ ہے جو کہ "نروان" کہلاتا ہے۔ اسلام میں اسے "فنا فی اللہ" کہا جاتا ہے۔ لیکن اسلام میں سب سے بڑا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہے جو کہ خدا کے بندے پہلے ہیں اور اس کے بعد اس کے رسول ہیں۔۔ ۔۔۔ چوتھا سلام اسی طرح ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرش پر جا کر واپس آ گئے۔ اسی طرح ایک درویش فنا فی اللہ کی منزل تک پہنچ کر مخلوق کی خدمت کے لئے واپس آ جاتا ہے۔
)www.mevlana.net/sema.htm (
درویشوں کے اس رقص اور اس میں ان کے والہانہ پن کے بارے میں پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں قرآن مجید کی یہ آیت آئی جس میں اہل مکہ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا كَانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلاَّ مُكَاءً وَتَصْدِيَةً (الانفال 8:35) یعنی بیت اللہ کے پاس ان کی نماز تالیوں اور سیٹیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔
درویشوں کا رقص (بشکریہ longpassages.org)
بشکریہ www.mawlana-konya.com
اللہ تعالی کے حضور اپنے جذبات اور والہانہ پن کے اظہار کے لئے اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے نماز جیسا خوبصورت طریقہ سکھایا ہے۔ انسان اپنے رب کی محبت میں اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اسی کی محبت میں ڈوب کر اس کے سامنے رکوع میں جھکتا ہے۔ پھر اوپر اٹھتا ہے اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس کے سامنے سجدے میں گر جاتا ہے۔ قرآن مجید سجدے کو اللہ تعالی سے قربت کا ذریعہ بتاتا ہے : وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ یعنی سجدہ کر کے میرے قریب ہو جاؤ۔
نماز کے ذریعے انسان اپنے رب کے ساتھ جس قدر محبت و قربت حاصل کر سکتا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اسے ان ناچ گانوں سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہ انسان کے بنائے ہوئے طریقے ہیں جبکہ نماز اللہ کے پیغمبروں کی میراث ہے۔
انسانیت کی تاریخ میں تصوف یا صوفی ازم ایک عالمگیر تحریک رہی ہے۔ ایک طویل عرصے سے اناطولیہ کا علاقہ تصوف کا عالمی مرکز رہا ہے۔ مناسب ہو گا کہ اس کی کچھ تفصیل یہاں پیش کر دی جائے۔
انسانوں میں دو رجحان بہت عام رہے ہیں۔ ایک رجحان دنیا پرستی کا ہے جس میں انسان مال و دولت، شہرت، اور لذت حاصل کرنے کے لئے اپنے دین و ایمان کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس دوسرا رجحان دنیا سے گریز کا ہے جس میں انسان دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جاتا ہے۔ قدیم دور سے یہ دونوں رجحان انسانوں میں موجود رہے ہیں۔ ایسے خواتین و حضرات جن میں دنیا سے گریز کا رجحان قوی تھا، انہوں نے ضروریات زندگی سے منہ موڑ کر جنگلوں اور خانقاہوں کی راہ لی اور اپنا پورا وقت اپنے رب کی تلاش میں صرف کرنا شروع کر دیا۔ یہی لوگ "راہب" کہلائے۔
دنیا کے جھمیلوں سے فراغت کی وجہ سے ان خواتین حضرات کے پاس وقت کی کمی نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے بارے میں سوچتے سوچتے انہوں نے بہت سے فلسفے وضع کر لیے۔ یونانی فلسفے سے تصوف میں "وحدت الوجود (Pantheism)" کا فلسفہ داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عبادت کے نت نئے طریقے ایجاد کیے۔ تصوف کی دنیا کا بنیادی اصول یہ طے پایا کہ اس راہ میں چلنے والا ہر شخص اپنی شخصیت کو مٹا کر کسی مرشد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے اور اس کا غلام بن کر خود کو اس کے مکمل سپرد کر دے۔
اہل تصوف نے اپنا وقت نفسی علوم (Parapsychology) جیسے ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور اس قبیل کے دیگر علوم میں بھی صرف کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں محیر العقول کرامتیں دکھانے کی صلاحیت نصیب ہو گئی۔ چونکہ تصوف اور مذہب کا موضوع ایک ہی ہے، اس وجہ سے اس بات کا غالب امکان تھا کہ تصوف کا ٹکراؤ مروجہ مذاہب کے ساتھ ہو جائے۔ ایسا ہی ہوتا مگر اہل تصوف کی اکثریت نے مذہب سے ٹکراؤ کی بجائے ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اختیار کی۔ انہوں نے تصوف کے بنیادی نظریات اور اعمال کو قائم رکھتے ہوئے ہر مذہب کے اندر جگہ بنا لی۔ قدیم مذاہب میں بدھ مت، ہندو مت اور ایران کا زرتشتی مذہب اس کی مثال ہیں۔ خاص طور پر ہندوؤں کے جوگی برصغیر کے معاشرے میں آج تک غیر معمولی مقام کے حامل رہے ہیں۔
یہودیوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ ان کے ہاں "کبّالہ" کا مکتب فکر پیدا ہوا۔ یہود کے راہبوں نے نفسی علوم میں غیر معمولی مہارت حاصل کی اور اس کے ذریعے لوگوں کے کام کرنے لگے۔ انہوں نے "زوہار" کے نام سے تورات کی ایک صوفیانہ تفسیر لکھی۔ ان کی کامیابیوں کے پیش نظر بہت سے دنیا پرست بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان جعلی صوفیوں کا مقصد لوگوں کو اپنا مرید بنا کر انہیں لوٹنا تھا۔ انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ان صوفیاء کا بہت غلبہ تھا۔ آپ کایہ ارشاد بہت مشہور ہے :
اے شریعت کے عالمو اور فریسیو! اے ریاکارو! تم پر افسوس، کیونکہ تم کسی کو اپنا مرید بنانے کے لئے تو تری اور خشکی کا سفر کر لیتے ہو اور جب بنا لیتے ہو تو اسے اپنے سے دوگنا جہنمی بنا دیتے ہو۔ (یعنی اپنے سے دوگنا بے عمل بنا دیتے ہو۔) (متی 23:15)
یہودیت کے بعد عیسائیت کا دور آیا۔ عیسائیوں نے رہبانیت یا تصوف کو غیر معمولی درجہ دیا۔انہوں نے رہبانیت کو باقاعدہ فن بنا کر پوری عیسائی دنیا میں پھیلا دیا۔ رومی مملکت کے طول و عرض میں بڑی بڑی خانقاہیں قائم ہوئیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے نفس کو کچلنے کے لئے خود کو اذیت دینے میں مصروف رہا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض صحابہ جیسے سیدنا عثمان بن مظعون، ابوذر غفاری اور ابو درداء رضی اللہ عنہم میں دنیا سے گریز کا رجحان پایا جاتا تھا۔ ان کی اصلاح کرتے ہوئے آپ نے شدت سے رہبانیت کی نفی فرمائی۔ یہ واقعات چند مشہور احادیث میں اس طرح بیان ہوئے ہیں:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: تین آدمیوں کا ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عبادت کے بارے میں سوال کر رہے تھے۔ جب انہوں نے آپ کی عبادت کی تفصیلات بیان کیں تو وہ بولے : "کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم؟ اللہ نے آپ کی اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔" ان میں سے ایک نے کہا: "جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو ہمیشہ پوری رات نماز پڑھا کروں گا۔" دوسرے نے کہا: "میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا۔" تیسرے نے کہا: "میں خواتین سے دور رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔"
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو آپ نے فرمایا: "کیا تم لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے ؟ اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس خوف رکھتا ہوں مگر روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے اعراض کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (بخاری کتاب النکاح)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے : "تم (دین کے معاملے میں) اپنی ذات پر تشدد نہ کیا کرو ورنہ تم پر تشدد کیا جائے گا۔ ایک قوم نے شدت سے کام لیا تو اللہ نے ان پر شدت کر دی۔ یہ انہی کی باقیات ہیں جو تم گرجوں اور خانقاہوں میں دیکھتے ہو۔ (پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی) رَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ یعنی"رہبانیت تو انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہ کیا تھا۔ " (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان واضح ارشادات کے باعث مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں میں صوفی ازم یا رہبانیت کا مزاج پروان نہ چڑھ سکا۔ بعد کی صدیوں میں مسلم معاشروں میں کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی بدولت یہاں تصوف کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ ان تبدیلیوں کی تفصیل یہاں ہم ریحان احمد یوسفی صاحب کے الفاظ میں بیان کر رہے ہیں:
"خلافتِ راشدہ کے زمانے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کے ابتدائی حصے تک مسلمان ان دونوں کے ساتھ مستقل حالت جنگ میں رہے۔ آخر کار مسلمانوں نے سلطنتِ فارس کا خاتمہ کر دیا اور روم کے تمام ایشیائی مقبوضات پر قبضہ کر کے اس کی کمر توڑ دی۔ اس عمل کے نتیجے میں مشرکانہ تہذیب مغلوب ہو گئی اور ان تمام علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یوں صحابۂ کرام کا مشن مکمل ہو گیا۔ تاہم اس دوران میں مسلم معاشرے میں ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ رسول اللہ کے فیض یافتہ صحابہ کی تعداد کم ہوتی گئی اور مال و دولت کی بے پناہ کثرت ہو گئی۔ قیصر و کسریٰ کے خزانے اور شام و عراق کی سونا اگلتی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آ گئیں، لیکن غیر تربیت یافتہ نومسلموں کے زیر اثر مسلمانوں کی وہ اخلاقی روایت متاثر ہونے لگی جو نورِ نبوت کے فیضان سے مدینہ کے معاشرے میں روشن تھی۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں مسلمانوں کے باہمی خلفشار کا آغاز ہوا اور پھر ان کی مظلومانہ شہادت کے ساتھ ہی مسلمانوں میں باہمی جنگ و جدال کا آغاز ہو گیا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا پورا دور اسی جنگ و جدال اور انتشار میں گزرا۔اس کے بعد بنو امیہ کا تقریباً ایک صدی پر محیط عرصہ مستقل بغاوتوں، جنگوں اور خانہ جنگیوں سے عبارت ہے۔ اس عرصہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کی بے حرمتی جیسے المناک واقعات پیش آئے۔ اس کے علاوہ بھی باہمی جنگوں کے دیگر ان گنت واقعات میں صالحین کی بڑی تعداد اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
132ھ میں بنوامیہ کا خاتمہ علویوں(حضرت علی کی اولاد و وابستگان) اور عباسیوں کی ایک بڑی بغاوت کے نتیجے میں ہوا۔ تاہم امن ابھی لوگوں کے نصیب میں نہ تھا۔ پہلے عباسیوں نے بنو امیہ پر ظلم و ستم کے بدترین پہاڑ توڑے۔ اس کے بعد علویوں اور عباسیوں کا باہمی جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ علویوں کی پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میں خلیفہ منصور کے زمانے تک یعنی اگلے بیس برس مسلم معاشرہ خانہ جنگی کی ایک مستقل کیفیت میں رہا۔
دوسری صدی ہجری کے نصف اول تک کے یہ وہ حالات ہیں جن میں ایک طرف مسلم معاشرے میں مال و دولت کی بے پناہ کثرت تھی اور دوسری طرف مستقل جنگ و جدال اور بد امنی کا ماحول تھا۔ان حالات میں ایک مسلمان کی ضرورت تھی کہ مادیت کے ماحول میں اس کے روحانی ارتقا اور بدامنی کی فضا میں ذہنی و قلبی سکون کے لیے مذہبی قیادت آگے آتی اور قرآن پاک کی روشنی میں اس کی رہنمائی کرتی۔ بدقسمتی سے یہ نہیں ہو سکا۔
صالحین کی ایک بڑی تعداد مستقل جنگوں میں مصروف رہی، چاہے وہ خارجی قوتوں کے خلاف تھیں یا بنو امیہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کی شکل میں۔باقی اہل علم کی توجہ ایک عظیم مسلم ریاست کے قانونی نظام کی تشکیل کے لیے فقہی سرگرمیوں میں صرف ہونے لگی۔ فقہا کی آرا کے رد عمل میں لوگوں نے دینی احکام کو احادیث سے جمع کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ ائمہ اربعہ کا کام دوسری اور تیسری صدی میں سامنے آیا۔ اسی عرصے میں صحاح ستہ کی تدوین ہوئی۔مسلمان اہل علم فقہ اور حدیث کی تدوین سے فارغ ہوئے تو یونانی فکر و فلسفہ سے مسلم معاشرے میں در آنے والے کلامی مباحث کی طرف متوجہ ہو گئے۔ چوتھی صدی کے نصف اول میں امام ابو الحسن اشعری(م324ھ) اور امام ابو منصور ماتریدی (م 332ھ) جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے عقائد کے حوالے سے پیدا ہونے والے کلامی مباحث پر علمی کام کیا۔
اس جائزے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں جب مستقل خانہ جنگی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اور مال و دولت کی فراوانی کی بنا پر پیدا ہونے والے روحانی خلا اور اخلاقی بگاڑ جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت تھی، مسلمان اہل علم کی ترجیحات جنگ و سیاست، فقہ و حدیث اور فلسفہ و کلام بنی رہیں۔
ابتدائی صدی میں اس صورتحال میں ایک نمایاں استثنا حسن بصری (م110ھ) کا تھا۔آپ ایک جلیل القدر تابعی، مفسر اور محدث تھے۔ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پرورش پانے والے حسن بصری(پیدائش21ھ) نے صحابۂ کرام کا کافی زمانہ پایا۔ اپنے دور کے انتشار اور صحابۂ کرام کے دور کے بعد آنے والے اخلاقی انحطاط کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے خلاف بھرپور جدو جہد کی۔وہ صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ نظر، صاحبِ درد اور قادر الکلام خطیب بھی تھے۔ ان کے مواعظ کی اثر آفرینی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں ان کے کلام کو نبیوں کے کلام کی طرح قرار دیا۔
ان کی کوششوں کے نتیجے میں ایک فضا پیدا ہوئی مگر بدقسمتی سے ان کے بعد یہ میدان اہل علم کی دلچسپی کا موضوع نہ بن سکا۔جبکہ معاشرے کی اخلاقی تربیت کرنا اور ربانی تعلق کی درست جہت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا بہرحال معاشرے کی ضرورت تھی جو اُس دور کے معروضی حالات میں زیادہ شدت اختیار کر گئی تھی۔اس کے نتیجے میں ایک زبردست خلا پیدا ہوا۔انسانی ضروریات کی طلب سے پیدا ہونے والا کوئی خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔یہ خلا تصوف کی تحریک نے بھر دیا۔ مسلم معاشرے کے زہد اور غیر مسلم فلسفوں اور روایات سے متاثر تصوف کی تحریک اس فضا میں غیر محسوس طریقے سے اپنی جگہ بناتی چلی گئی اور دوسری اور تیسری صدی میں عوام و خواص دونوں میں مقبول ہو گئی۔
تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد جب عباسی خلفا کے زیر حکومت مسلم معاشرہ علمی، تمدنی، معاشی اور معاشرتی پہلو سے اپنے عروج پر تھا، اسی دور میں تصوف کی روایت بھی وقت کے بہترین لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی۔سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی(م 297ھ)،شیخ بایزید بسطامی(م261ھ)،شیخ سری سقطی(م 253ھ)، شیخ ذوالنون مصری(م 245ھ)،شیخ ابو بکر شبلی(م334ھ)اورشیخ ابو القاسم گرگانی(م450 ھ) جیسے اکابرین نے اگر تصوف کی عملی روایت کو منتہائے کمال پر پہنچایا تو سہل بن عبداللہ تستری(م283 ھ)، شیخ ابو طالب مکی(م 386ھ)، امام ابوالقاسم قشیری(م 465ھ)، شیخ علی ہجویری(م465 ھ)،امام غزالی(م 505ھ)، شیخ عبدالقادرجیلانی(م561 ھ)، شیخ شہاب الدین سہروردی(م632 ھ)، شیخ ابن عربی(م 638ھ) اور جلال الدین رومی(م 672ھ) جیسے صوفیوں نے عملی روایت کے ساتھ علم اور قلم کی طاقت کے ساتھ تصوف کے اسرارو رموز کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کیا۔
تاہم پانچویں صدی ہجری میں تصوف کا افراط و تفریط سامنے آنے لگا تھا۔ اس لیے اس پر شدید تنقید شروع ہو گئی۔ پانچویں صدی میں اس تنقید کا آغاز ابن حزم (م456ھ) نے کیا۔چھٹی صدی میں ابن جوزی (م597ھ) اور پھر ابن تیمیہ(م 728ھ) اور ان کے شاگرد ابنِ قیم (م 791ھ) نے اس تنقید کو عروج پر پہنچا دیا۔
یہ تنقید آنے والے زمانے میں اگر جاری رہتی تو بہت عرصے قبل ہی تصوف کی روایت ختم ہو جاتی یا کم از کم اس کا اثر بہت محدود ہو جاتا۔تاہم اس عرصے میں مسلم دنیا کو ایک زبردست سانحے کا سامنا کرنا پڑا جس نے نہ صرف مسلمانو ں کی علمی روایت کو شکست و ریخت سے دوچار کر دیا بلکہ وہ حالات پیدا کر دیے جن میں لوگوں کے لیے سکون و عافیت کی واحد جائے پناہ گوشۂ تصوف تھا۔
یہ سانحہ تاتاریوں کا مسلم دنیا پر حملہ تھا جس نے ساتویں صدی ہجری میں وسطی ایشیا سے لے کر مشرق وسطی تک تمام عالم اسلام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔مسلم دنیا کے تمام تہذیبی اور علمی مراکز (بجز اسپین کے جو بعد میں مسیحیوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا) اس آفت کی نذر ہو گئے۔ اس فتنہ کا نقطۂ عروج بغداد کی تباہی کا سانحہ تھا جو 1258ء (بمطابق 656ھ) میں پیش آیا۔ جس کے بعد مسلم دنیا پر تباہی و بربادی کی وہ المناک رات مسلط ہوئی جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
مسلم معاشرہ، ریاست، سیاست، علم، تہذیب غرض ہر شعبۂ زندگی پر اس کے ایسے منفی اثرات مرتب ہوئے جن سے مسلمان کئی صدیوں تک باہر نہ نکل سکے۔ مسلمانوں نے سیاسی اعتبار سے اپنا کھویا ہوا مقام سلطنتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کی شکل میں کسی نہ کسی طرح واپس لے لیا، لیکن علمی طور پر وہ دوبارہ نہ اٹھ سکے۔ ایسے تباہ حال مسلم معاشرے میں اہل تصوف کا اثر و نفوذ مزید بڑھ گیا۔خاص کر عالمِ عجم میں تصوف کی مختلف شاخوں اور خانوادوں کے سلسلے پھیلتے چلے گئے۔ اہلِ شریعت کے بالمقابل اہلِ طریقت ہی اصلاً معاشرے کی فکری قیادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔
اس دور میں ہندوستان مسلمانوں کا فکری مرکز بن چکا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم اقتدار کا یہ واحد خطہ تھا جو فتنہ تاتار سے محفوظ رہا تھا۔ چنانچہ پورے وسطی ایشیا، ایران اور مشرق وسطیٰ سے مسلم شرفا، علما اور صوفیا ہجرت کر کے یہاں آ گئے۔ سرزمینِ ہند اپنے سیاسی حالات، تاریخی پس منظر، مذہبی روایت اور فلسفیانہ افکار کی بنا پر تصوف کے پودے کی زر خیری کے لیے ایک بہترین جگہ تھی۔ چنانچہ شجرِ تصوف یہاں خوب پھلا پھولا اور اس کے بطن سے خواجہ معین الدین چشتی (م627 ھ)، خواجہ قطب ا لدین بختیار کاکی(م 633ھ)،خواجہ فرید گنج شکر(م664 ھ)، شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی(م 665ھ)اور شیخ نظام الدین اولیا(م725ھ) جیسے اکابرینِ تصوف نے جنم لیا۔
مغلیہ سلطنت کے زمانے تک ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت غیر مقامی حکمرانوں کی نہیں رہی تھی بلکہ بحیثیت قوم یا گروہ ان کا اجتماعی تشخص واضح ہونے لگا تھا۔لیکن حکومت کے باوجود ہندوستان میں مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں بہرحال اقلیت میں تھے۔ دوسری طرف اس معاشرے میں اہل تصوف کی حیثیت صرف صوفیا ہی کی نہیں بلکہ مسلم معاشرے کے فکری رہنماؤں کی بھی تھی۔ اس پس منظر میں ہند میں تصوف کی روایت علمی اور سیاسی طور پر بھی فعال ہونے لگی۔ اس میں ایک طرف شیخ احمد سر ہندی (م 1033ھ)جیسے صاحبِ علم و فضل اور صاحبِ عزیمت لوگ پیدا ہوئے تو دوسری طرف شاہ ولی اللہ(م1762ء بمطابق 1176ھ) جیسے بے نظیر عالم اور مدبر پیدا ہوئے جن کی نظیر تاریخ اسلام میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال سید احمد شہید(م1831ء بمطابق 1246ھ) اور شاہ اسماعیل(م1831ء بمطابق 1246ھ) کی ہے جو صاحبِ سیف و قلم تھے۔ جیسا کہ معلوم ہے یہ دونوں بزرگ تصوف کی روایت سے منسلک تھے، خاص پر شاہ اسماعیل صاحب جن کی تصنیف’ عبقات ‘تصوف کی ایک بہت اہم کتاب ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی کا زمانہ مسلمانوں کے ہمہ جہتی زوال کا دور تھا۔ عالمِ اسلام تقلید و جمود کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔علمی و فکری جمود اور سیاسی و معاشرتی انحطاط کی لہر ہر جگہ اپنے اثرات مرتب کر رہی تھی۔ دوسری طرف اہلِ مغرب تقلید کی بیڑیاں کاٹ کر اور علم و عقل کو امام بنا کر موڈرن ازم یعنی جدیدیت کے دور میں داخل ہو چکے تھے۔ وہ سائنسی اور سماجی علوم میں ترقی کے ہتھیار سے لیس ہو کر نکلے اور پورے عالم اسلام پر چھا گئے۔
اس کے رد عمل میں عالم اسلام میں جو احیائی تحریکیں یا افکار وجود میں آئے، ا ن سب نے یہ محسوس کیا کہ تصوف اس جمود و بے عملی کو پیدا کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کر رہا ہے اور تصوف کی اعلیٰ اخلاقی روایات گدی نشینوں کے مفادات پر قربان ہونے لگی ہیں۔اس صورتحال پر اقبال(م 1938ء) جیسے بڑے لوگوں نے تنقید کی اور اپنی پر جوش شاعری سے لوگوں کو علمی و عملی جمود توڑنے پر آمادہ کیا۔ اِس زمانے میں سیاسی حالات سے متاثر ہو کر جو مسلم احیائی تحریکیں وجود میں آئیں ان میں اہل تصوف کا زیادہ کردار نہ تھا۔ مزید یہ کہ ابن تیمیہ کے زیر اثر عرب میں جو احیائی تحریک اٹھی وہ تصوف کے قطعاً خلاف تھی۔ خود برصغیر میں پیدا ہونے والی اسلام کے سیاسی انقلاب کی تعبیر اپنی روح کے اعتبار سے تصوف کے خلاف تھی۔ اس سے وابستہ بڑے اہل علم نے تصوف پر شدید تنقیدیں کیں۔
امت کی تاریخ میں ایک طویل عرصہ بعد فکری قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی جو تصوف کے خلاف تھے یا اس سے زیادہ ہمدردی نہیں رکھتے تھے۔ نیز جدید تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحانات بھی اس بات میں مانع ہوئے کہ لوگ اپنا ہاتھ شیخ کے ہاتھ میں دے کر دنیا سے منہ پھیر لیں۔مسلم معاشرہ مغرب کی جدیدیت کا براہِ راست اثر قبول کر رہا ہے جس میں تقلید کے مقابلے میں آزادی اور باطنی تجربات و مشاہدات کے مقابلے میں عقلیت کو بہرحال ترجیح حاصل ہے۔ ان تمام چیزوں نے مل کر مسلم معاشرے میں اہل تصوف کے کردار کو بہت محدود کر دیا ہے اور زمانۂ قدیم کی طرح آج اعلیٰ اذہان تصوف کی تحریک سے کم ہی وابستہ نظر آتے ہیں۔" (انسان کا مسئلہ)
میرے خیال میں دور جدید میں تصوف کے زوال کی ایک بڑی وجہ اہل تصوف کا اپنا کردار ہے۔ قدیم دور کے صوفی اپنے مشن سے مخلص ہوا کرتے تھے۔ ان کے اندر دولت کی طلب نہ ہوا کرتی تھی۔ موجودہ دور میں زیادہ تر صوفیاء نے اپنے روحانی سلسلوں کو جاگیر بنا لیا ہے جو وراثت کی طرح ان کی اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ اب پیری مریدی کا سب سے بڑا مصرف یہی بنا دیا گیا ہے کہ بے وقوف مریدوں کو ذہنی طور پر غلام بنا کر ان کی دولت پر عیش کی جائے۔
مسلمانوں کی پوری تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم صوفیاء میں تین غالب رجحانات نظر آتے ہیں:
صوفیاء کے پہلے گروہ کا مقصد صرف اور صرف "تزکیہ نفس" ہے۔ یہ لوگ قرآن و سنت کا علم حاصل کرتے ہیں اور اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور اس طریقے سے لوگوں کی شخصیتوں کو نفسانی آلائشوں سے پاک کرتے ہیں۔ یہ لوگ بدعات سے پرہیز کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی شریعت کے مطابق بسر ہوتی ہے۔ اس قسم کے صوفیاء کا سراغ مسلمانوں کی ابتدائی صدیوں میں ملتا ہے۔ سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات اس کی مثال ہیں۔ موجودہ دور میں صوفیاء کا یہ گروہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
صوفیاء کا دوسرا گروہ وہ ہے شریعت کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے۔ ان کے نزدیک دینی علوم محض ظاہری علوم ہیں۔ اصل علم باطن کا علم ہے جو ظاہری حواس سے نہیں بلکہ باطن کی آنکھ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس گروہ کے صوفی کھلے عام فحش کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں، نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں، مزاروں کی پوجا کرتے ہیں اور شریعت کی تمام حدود کو توڑتے ہیں۔
صوفیاء کا تیسرا گروہ وہ ہے جو شریعت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے البتہ انہوں نے ایسے بہت سے تصورات اوراد و مشاغل ایجاد کر رکھے ہیں جن کا دین میں کوئی تصور نہیں ملتا۔ اس گروہ کے صوفی عام طور پر دینی اعتبار سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صوفیاء کے دوسرے گروہ کی شدید مذمت کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے بات کرتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق پہلے گروہ سے تعلق رکھنے والے صوفیاء اصلی نہیں ہوتے۔ اس تیسرے گروہ میں بعض بڑے مذہبی علماء بھی شامل رہے ہیں۔ اس وقت یہی تیسرا گروہ صوفیاء کی اکثریت پر مشتمل ہے۔
پہلے گروہ کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ دین پر پوری طرح عمل پیرا ہوا کرتے تھے۔ دوسرے گروہ کے بارے میں بھی بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی تردید تو خود شریعت پسند صوفی کرتے ہیں۔ تیسرے گروہ کے بعض بزرگوں کے ساتھ مجھے وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے نظریات اور اعمال کا اگر اللہ تعالی کے کلام قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو چند ایسے معاملات ہیں جن میں ان کے عقائد و اعمال قرآن و سنت سے بالکل متضاد نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان اہل تصوف کے ساتھ میرا جو تجربہ رہا ہے، اس کے نتیجے میں چند ایسے معاملات میرے سامنے آئے ہیں جہاں تصوف کی روایت قرآن و سنت سے بالکل مختلف نقطہ نظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔
قرآن مجید اور مروجہ صوفی ازم کی تعلیمات میں سب سے بڑا تضاد "وحدت الوجود (Pantheism) " کا نظریہ ہے۔ صوفیاء کی اکثریت اس نظریہ کی قائل ہے۔ قرآن کا تصور توحید تو یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ اکابر صوفیاء قرآن کے اس تصور توحید کو "عوام کی توحید" قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں لا الہ الا اللہ کی توحید عام لوگوں کی توحید ہے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق توحید "لا موجود الا اللہ" ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی بھی چیز خدا کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کائنات میں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔
بظاہر تو یہ نظریہ توحید کا بڑا علم بردار نظر آتا ہے مگر ذرا سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ ایک بہت بڑے شرک کی راہ کھول دیتا ہے۔ اگر کائنات میں خدا کے سوا کچھ نہیں ہے تو یہ جو سب کچھ نظر آتا ہے، یہ خدا ہی ہوئے۔ اس کے بعد انسان کا اپنا وجود بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہر انسان خدا ہی ٹھہرا۔ صرف انسان ہی پر کیا موقوف، تمام حیوانات، نباتات، جمادات، سیارے، ستارے، زمین، آسمان سبھی خدا ہوئے۔ اس کے بعد ایمان و کفر کی حقیقت ختم ہو گئی۔ جب ہر انسان خدا ہی کے وجود کا حصہ ہے تو پھر آخرت کی جزا و سزا کیا معنی رکھتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صوفیاء نے انا الحق یعنی "میں حق ہوں" اور سبحانی ما اعظم شانی یعنی "میں پاک ہوں، میری شان کیا بلند ہے !" کے نعرے لگائے۔ وحدت الوجود کو بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے ہاں اختیار کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے ہاں ہر چیز کو دیوی دیوتا کا مقام دے دیا گیا ہے۔
اسلام اور مروجہ صوفی ازم میں دوسرا بڑا فرق "ختم نبوت" کا عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ پر نہ صرف نبوت ختم ہوئی بلکہ نبوت کے دروازے کو مکمل طور پر بند کر کے اسے سیل کر دیا گیا۔ صوفی علماء بظاہر تو ختم نبوت کے قائل نظر آتے ہیں مگر یہ انبیاء کرام کی وحی کے علاوہ بھی خدا سے براہ راست ہدایت حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ اس طریق کار کو "الہام" کا نام دیا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ محض لفظی اختلاف ہے ورنہ دونوں کی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالی سے براہ راست ہدایت حاصل کی جائے۔
اگر خدا سے براہ راست ہدایت حاصل کرنے کو ممکن تصور کر لیا جائے تو پھر وحی اور نبوت کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد کوئی شخص اگر نبوت کا دعوی نہ بھی کرے، وہ الہام کی بنیاد پر ہی دوسروں کو اپنی اطاعت کے لئے مجبور کر سکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس الہام کے قائل ہمارے بزرگ بڑی شدت سے ختم نبوت کے عقیدے کا پرچار کرتے ہیں اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ الہام کو درست تصور کر کے خود ہی ختم نبوت کے عقیدے پر ضرب بھی لگا رہے ہوتے ہیں۔ ان حضرات کے ہاں یہ ایک ایسا تضاد ہے جس کی نظیر شاید ہی کسی اور معاملے میں مل سکے۔
قرآن مجید اور مروجہ تصوف کی دعوت میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ قرآن بار بار انسان کی عقل کو اپیل کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو ایک عقل مند مخلوق بنایا ہے۔ یہ عقل ہی وہ شرف ہے جس کی بدولت انسان حیوانات سے بڑا درجہ رکھتا ہے۔ عقل اور وحی میں کوئی تضاد نہیں بلکہ انسانی عقل اگر جذبات سے مغلوب نہ ہوئی ہو تو پھر یہ وحی کی آواز کو پہچانتی اور اس کی طرف لپکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بار بار أَفَلا تَعْقِلُونَ یعنی "کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟" اور لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ یعنی "تاکہ تم عقل سے کام لو" کہہ کر انسانی عقل کو اپیل کی جاتی ہے۔ قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ اس کی نشانیوں میں اہل عقل ہی غور و فکر کرتے ہیں۔
اس کے بالکل برعکس ان اہل تصوف کی اکثریت کے ہاں عقل کو "حجاب اکبر" قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی محفلوں میں اپنی عقل سے سوچنے والوں کی بری طرح حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مریدین کو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ خود کو مرشد کے سپرد اس طریقے سے کریں جیسے مردہ کے ہاتھ میں زندہ ہوتا ہے۔ برصغیر کے ایک بڑے صوفی عالم لکھتے ہیں:
بیعت ارادت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختم کر کے خود کو شیخ و مرشد ہادی برحق کے بالکل سپرد کر دے، اسے مطلقا اپنا حاکم و متصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بغیر اس کی مرضی کے نہ رکھے۔ اس کے لئے مرشد کے بعض احکام، یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعال خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی مثل سمجھے، اپنی عقل کا قصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے۔ ۔۔۔۔
مرشد کے حقوق مرید پر شمار سے افزوں ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ ہو کر رہے۔ اس کی رضا کو اللہ عزوجل کی رضا اور اس کی ناخوشی کو اللہ عزوجل کی ناخوشی جانے۔ اسے اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے، اگر کوئی نعمت دوسرے سے ملے تو بھی اسے (اپنے ) مرشد ہی کی عطا اور انہیں کی نظر کی توجہ کا صدقہ جانے۔ مال، اولاد، جان سب ان پر تصدق (وار دینے ) کرنے کو تیار رہے۔
ان کی جو بات اپنی نظر میں خلاف شرعی بلکہ معاذ اللہ (گناہ) کبیرہ معلوم ہو، اس پر بھی نہ اعتراض کرے، نہ دل میں بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے۔ ۔۔۔۔۔جو وہ حکم دیں "کیوں" نہ کہے، دیر نہ کرے، سب کاموں میں اسے تقدیم (اولیت) دے۔ ۔۔۔۔
ان تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرید، اپنے پیر کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ مرید کی مکمل برین واشنگ کر کے اسے پیر و مرشد کا ذہنی و نفسیاتی غلام بنا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جو طریق ہائے کار استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی تفصیل ہم اپنی کتاب "مسلم دنیا اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی" میں بیان کر چکے ہیں۔
موجودہ اہل تصوف کے ہاں مرشد کی ذہنی غلامی کی یہ روایت دین اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ آج کے دور کا بڑے سے بڑا ولی بھی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ ان کے ہاں یہ عام معاملہ تھا کہ اگر کسی شخص کو ان سے کسی بات پر اختلاف ہوتا تو بھرے مجمع میں ان سے اس اختلاف کا اظہار کر کے ان سے جواب طلبی کر سکتا تھا۔ اس کے برعکس صوفیاء کے ہاں اختلاف رائے تو درکنار، اس بارے میں سوچنا بھی جرم ہے۔
موجودہ اہل تصوف اور اسلام کے درمیان چوتھا بڑا فرق "قبر پرستی" ہے۔ صوفیاء کی اکثریت بزرگان دین کے مزارات پر چلہ کشی کرتی ہے اور قبروں سے روحانی فیض حاصل کرنے کا دعوی کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے صحابہ کا مزاج اس سے بالکل مختلف تھا۔ اگر قبروں سے روحانی فیوض و برکات حاصل کیے جا سکیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر انور سے بڑھ کر کون سی قبر ہو گی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض وفات میں ارشاد فرمایا: "اللہ نے ان یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائی جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو نماز کی جگہ بنا لیا۔ " آپ فرماتی ہیں: "اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ حضور کی قبر کو بھی لوگ نماز کی جگہ بنا لیں گے تو آپ کی قبر مبارک کھلی جگہ پر ہوتی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر لکھنے، ان پر عمارت تعمیر کرنے اور ان پر پاؤں رکھ کر چلنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی، کتاب الجنائز)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد آپ کے کثیر تعداد میں صحابہ 90 سال تک موجود رہے ہیں۔ان کے حالات زندگی پر دوسری صدی ہجری ہی میں طبقات ابن سعد جیسی کتاب لکھی گئی ہے جس میں ہزاروں صحابہ کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کی گیارہ جلدیں ہیں جن میں ہر جلد 600صفحات کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ تیسری صدی میں امام بخاری کے استاذ کے استاذ ابن ابی شیبہ نے صحابہ کرام کے اقوال و اعمال کو اپنی مشہور کتاب "المصنف" میں جمع کیا ہے۔ اس کتاب کی 26 جلدیں ہیں جن میں سے ہر جلد 700 صفحات کے آس پاس ہے۔ ان تمام کتب میں کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی کہ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر انور پر آ کر چلے اور مراقبے کیے ہوں اور اس طریقے سے روحانی سفر طے کیے ہوں۔ اگر آپ کی قبر مبارک کا یہ معاملہ ہے تو پھر بعد کے کسی بزرگ کی قبر سے فیضان کا حصول کیسے ممکن ہے ؟
موجودہ اہل تصوف اور اسلام کے درمیان پانچواں بڑا فرق "ترک دنیا" کا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح الفاظ میں ترک دنیا سے منع فرمایا ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے ارباب تصوف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک بہرحال ترک دنیا افضل ہے۔ کھانے پینے کی لذتوں، ازدواجی زندگی کی مسرتوں اور دنیا کے دیگر معاملات سے لطف اندوز ہونے کی بجائے خود کو خدا کے لئے وقف کر دینا چاہیے۔
اہل تصوف کا تیسرا گروہ جس میں شامل لوگ قرآن و حدیث پڑھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام ترک دنیا کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بڑے طبقے میں ترک دنیا کو ترک کر دیا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دنیا رب کی یاد سے غافل نہ کرے تو پھر دنیاوی زندگی کے مزے لوٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اسلام اور مروجہ تصوف میں چھٹا بڑا تضاد وہ اذکار، اوراد، چلے اور مراقبے ہیں جن کا کوئی ذکر قرآن مجید یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت میں نہیں ملتا۔ بغیر سوچے سمجھے قرآن ختم کرنے پر زور، لاکھوں کی تعداد میں آیات کا ورد، سانس اوپر نیچے کرنے کے ذریعے ذکر، جنگلوں اور غاروں میں چالیس چالیس دن کے مراقبے، ان سب کے پورے مدون قوانین ہیں جو ارباب تصوف نے تخلیق کر لیے ہیں۔ ان سب کا کوئی ذکر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات میں نہیں ملتا۔
اسلام اور تصوف میں یہ وہ تضادات ہیں جن کا تصوف سے وابستگی کے دور میں میں نے بذات خود مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے بہت سے صوفی بزرگوں کی خدمت میں جب ان تضادات کی نشاندہی کی تو مجھے بس خاموش رہنے کا حکم ہوا۔ کوئی صوفی بزرگ اس کا تسلی بخش جواب پیش نہ کر سکا۔ اگر کوئی صاحب ان تضادات کو حل کرنے کی کوشش کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ سب کے سب صوفی علماء اوپر بیان کردہ تضادات میں سے ہر ایک کا شکار نہیں ہیں۔ بہت سے ایسے صوفی علماء جنہوں نے قرآن و سنت کا مطالعہ کیا ہے، بھی ان بدعات کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
ان تمام تضادات کے باوجود مسلم اہل تصوف نے چند ایسی خدمات سرانجام دی ہیں جن کی مثال دوسری قوموں کے صوفیوں میں نہیں ملتیں۔ ہندو اور عیسائی صوفیاء کے برعکس مسلم صوفیاء نے جنگلوں میں چھپ کر زندگی گزارنے کی بجائے معاشرے کے بیچ میں رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ابتدائی صدیوں میں فقہ اور حدیث کی تدوین اور کلامی و فلسفیانہ بحثوں میں مشغولیت کے باعث اہل علم کی بڑی تعداد عوام الناس کی اخلاقی تربیت نہ کر سکی تھی۔ صوفیاء نے اس خلا کو پر کیا۔ انہوں نے انسانی نفسیات میں گہری مہارت حاصل کی اور اس کو اپنے نظریات پھیلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اخلاقی تربیت کے لئے استعمال کیا۔
مسلمانوں کے علماء میں بالعموم عوام سے دوری کا رجحان رہا ہے۔ انہوں نے عام طور پر دین کو دلوں میں اتارنے کی بجائے ڈنڈے کے زور پر اسے لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس مسلم صوفیاء نے عوام سے قربت اختیار کی۔ انہوں نے اپنے لباس، رہن سہن اور نشست و برخاست کو عوامی بنایا۔
علماء نے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کیا۔ برصغیر کے علماء نے عام طور پر مقامی زبانوں کی بجائے عربی و فارسی کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس طریقے سے وہ پڑھے لکھے طبقے تک تو اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے مگر عوام الناس تک ان کی رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس صوفیاء نے عوامی طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے عوامی ذوق کے مطابق مقامی زبانوں میں اپنا پیغام پیش کیا۔ ہمارے ہاں پنجابی، پشتو اور سندھی زبان کی شاعری کا بڑا حصہ صوفیانہ کلام پر مشتمل ہے۔
صوفی بزرگ آسان آسان نظموں کی صورت میں اپنا پیغام لکھ دیتے۔ اس پیغام کو لے کر ان کے مرید گویے، بھانڈ اور میراثی گرد و نواح کے دیہات میں پہنچ جاتے اور چوپالوں میں گا گا کر یہ پیغام لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کر دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دیہاتی معاشرت میں صوفی ازم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ علماء کے برعکس صوفیاء میں رواداری کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ تشدد اور سختی کے ذریعے اپنی بات منوانے کی بجائے ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ اپنی بات کو اعلی ادبی شہ پاروں اور خوبصورت تمثیلات کی مدد سے منوایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے صوفی ازم کے احیاء کی بات کی جا رہی ہے۔
ان سب معاملات کے ساتھ ساتھ صوفی بزرگ طب اور بعض پیرا سائیکالوجیکل علوم جیسے ہپنا ٹزم، ٹیلی پیتھی، تعویذ گنڈوں وغیرہ میں مہارت حاصل کرتے اور اسے عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے استعمال کرتے۔ جس کا مسئلہ حل ہو جاتا، وہ ان بزرگ کا بے دام غلام بن جاتا اور جس کا مسئلہ حل نہ ہوتا، وہ اسے رضائے الہی پر صابر و شاکر رہنے کی تلقین کرتے۔ ان کی ان خدمات کے باعث انہیں معاشرے میں غیر معمولی مقام حاصل ہو گیا جو کہ اب تک باقی ہے۔
تزکیہ نفس اور انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لئے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی دوا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس ہی کو قرار دیتے ہوئے اس کا طریقہ یہ بتایا کہ یہ رسول انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ. (آل عمران 3:164)
بے شک اللہ کا اہل ایمان پر عظیم احسان ہوا جب اس نے ان میں ایک شاندار رسول بھیجا جو کہ خود انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، انہیں (روحانی و اخلاقی آلائشوں سے ) پاک کرتا ہے اور (اس کے لئے ) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہمارے اہل علم عوام کی سطح پر اتر کر انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے اور ان کی روحانی و اخلاقی تربیت کرتے۔ ان کے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے وہ خلا پیدا ہوا جو اہل تصوف نے پر کیا اور اس پاکیزہ عمل میں بہت سی بدعات داخل کر دیں۔
تصوف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے قونیہ موڑ سے گزر کر ہم استنبول جانے والی موٹر وے پر پہنچ گئے۔ اب ہمیں بھوک لگ رہی تھی۔ تھوڑی دور جا کر جو پہلا ریسٹ ایریا نظر آیا، وہاں رک کر ہم نے کھانا کھایا۔
یہاں کی موٹر وے پر خوبی یہ نظر آ رہی تھی کہ مختلف سروس اسٹیشن مختلف کمپنیوں کو دے دیے گئے تھے۔ کہیں شیل کا اسٹیشن نظر آ رہا تھا اور کہیں ایگزان موبل کا، کہیں برٹش پٹرولیم کے اسٹیشن تھے اور کہیں ترکی کی کمپنی فاکس ٹو کے۔ یہ اچھا طریقہ تھا۔ ہماری موٹر وے پر ایک ہی کمپنی کو سارے سروس اسٹیشن دے دیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔ ایک عام آدمی کو فائدہ اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب کاروبار میں اجارہ داری کو ختم کر کے مقابلے کو عام کیا جائے۔
قدیم اور جدید دور کے کاروبار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قدیم دور میں کاروبار اور اس کے مالک کی شخصیت میں فرق نہ ہوا کرتا تھا۔ اگر کاروبار میں نقصان ہوتا تو یہ مالک کی ذاتی ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ وہ اپنے گھر کے اثاثے بیچ کر قرض خواہوں کی رقم ادا کرے۔ جدید دور میں جائنٹ اسٹاک کمپنی کا تصور پیدا ہوا۔ اب کاروبار کو ایک علیحدہ شخصیت فرض کر لیا گیا۔ اب نقصان کی صورت میں قرض خواہوں کو بس وہی رقم مل سکتی ہے جو کمپنی کی ملکیت اثاثے بیچ کر پوری کی جا سکے۔ اس تصور نے سرمایہ دارانہ نظام کو زبردست تقویت دی۔ وہ لوگ جن کا کمپنی کے معاملات پر مکمل کنٹرول ہو، باآسانی کمپنی کے اثاثے اپنے ذاتی نام سے رکھ سکتے ہیں تاکہ قرض خواہوں کو ادائیگی نہ کرنی پڑے۔
جدید دنیا، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دنیا ہے۔ پوری دنیا میں ہر قسم کے کاروبار پر چند کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ اس اجارہ داری کا نقصان عام آدمی کو ہو رہا ہے۔ حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے اور ان کے ہم خیال سوشلسٹ گروہوں کی طرف سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اس اجارہ داری کے خلاف زبردست آواز سامنے آئی ہے۔
سوشلسٹ طرز فکر رکھنے والے ایک عجیب المیہ کا شکار ہیں۔ جب یہ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں بیان کرنے پر آتے ہیں تو بڑے خوبصورت طریقے سے اس نظام کی خامیاں اجاگر کرتے ہیں۔ سرمایہ داروں کے مزدور پر ظلم کے حقائق کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے مسائل ایسے درد ناک بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کا دل یہ چاہتا ہے کہ وہ اٹھے اور اس کھیت کو آگ لگا دے جو کسان کو روٹی مہیا نہ کر سکے۔ سرمایہ داروں کی اجارہ داریوں اور اس کے استحصال کی ایسی ایسی تفصیلات بیان کرتے ہیں کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگا لے۔
یہ سب بیان کرنے کے بعد وہ اس مسئلے کا جو متبادل حل پیش کرتے ہیں، وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ چند سرمایہ داروں کی اجارہ داریوں کو ختم کر کے حکومت کی ایک ہی بڑی سی اجارہ داری قائم کر دی جائے۔ ظاہر ہے کہ حکومت پر کنٹرول ایک یا چند اشخاص کا ہوتا ہے۔ سوشلسٹ نظام کے قیام کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پورے ملک کی معیشت چند افراد کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور اس طریقے سے سرمایہ داروں کے ایک بڑے گروہ کا خاتمہ کرتے ہوئے پورے ملک کو چند افراد کا غلام بنا دیا جاتا ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری واقعتاً ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مغربی ممالک میں اس مسئلے کا حل "کارپوریٹ سوشل ریسپانسی بلٹی" کی صورت میں نکالا گیا ہے۔ ان کی حکومتیں کمپنیوں کے منافع میں سے 40-60% حصہ وصول کر کے انہیں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہیں۔ کمپنیوں کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ خود بھی معاشرے کی خدمت کے لئے تعلیم اور صحت کے فلاحی منصوبوں میں پیسہ لگائیں۔ اس ضمن میں نہ صرف قانونی اقدامات کیے جاتے ہیں بلکہ اس تصور کو کاروباری تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس اور بزنس ایڈمنسٹریٹرز کی تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت اخلاقی اقدار کو دی جاتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ انہیں معاشرے سے متعلق اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے عوام کا شعور اس حد تک بیدار کر دیا گیا ہے کہ جو کمپنیاں سماجی مسائل کو حل کرنے پر رقم نہیں لگاتیں، لوگ ان کی پراڈکٹس خریدنا چھوڑ دیتے ہیں۔
میرے خیال میں دولت کے ارتکاز کے مسئلے کا حل یہی ہے۔ ایک طرف اس مقصد کے لئے قانون سازی کرنی چاہیے کہ بڑی کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح زیادہ ہو۔ انہیں عوام پر رقم خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے اور کاروباری تعلیم میں نئے ایگزیکٹوز کو اس کام کے لئے تیار کیا جائے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کو ترجیح دیں۔
عہد رسالت میں پیداوار بنیادی طور پر زرعی ہوا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کے حالات کے مطابق اس پیداوار کا 10% یا 5% بطور زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد ملکی پیداوار کا بڑا حصہ صنعتی پیداوار پر مشتمل ہے۔ دور جدید کے بعض اہل علم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ صنعتی پیداوار پر بھی زکوٰۃ عائد کر دینی چاہیے۔ جو لوگ کاروبار کو سمجھتے ہیں، وہ اس سے واقف ہیں کہ زراعت، صنعت اور سروس جدید پیداواری معیشت کے تین سیکٹرز ہیں۔ اگر ایک چھوٹے سیکٹر پر زکوٰۃ عائد کی جا رہی ہے تو باقی دو بڑے سیکٹرز کو اس سے مستثنی کیوں کیا جائے۔
اب ہم دوبارہ "بولو" شہر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ وہی شہر تھا جہاں سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جانے اور آنے کے سفر میں ہم ایک شہر سے دوسری بار گزرنے والے تھے۔ بولو کے بعد، یہاں کی طویل سرنگ آئی اور اس کے بعد ہم جھیل اسپانزا جا پہنچے۔ یہاں کچھ رک کر جھیل کے نظاروں کو اپنی آنکھوں میں اتارنے کے بعد ہم آگے روانہ ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم "ازمت" کے ایگزٹ پر پہنچ چکے تھے۔ یہاں ٹول پلازہ پر باقاعدہ عملہ موجود تھا جنہوں نے پانچ لیرا وصول کر کے ہمیں موٹر وے سے نکلنے کی اجازت دی۔ آگے ازمت شہر تھا۔
بحیرہ مرمرہ شمال مشرق میں ایک تنگ جھیل کی شکل اختیار کر جاتا ہے جو کہ خلیج ازمت کہلاتی ہے۔ اس خلیج کے آخری کونے میں ازمت شہر واقع ہے۔ شہر کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم خلیج کے دوسرے کنارے پر آ گئے۔ آج بادلوں کی وجہ سے اس خلیج کا رنگ نیلے کی بجائے گرے نظر آ رہا تھا۔ کچھ دیر ہم خلیج کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اس علاقے میں آبادی بہت گنجان تھی۔ اس کی وجہ سے ہر تھوڑے فاصلے پر ایک سگنل آ جاتا تھا۔ اس وجہ سے ہمارا دم الجھ رہا تھا۔
عشاء کے قریب جا کر ہم برسا پہنچے۔ یہ استنبول، انقرہ اور ازمیر کے بعد ترکی کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ عثمانی بادشاہوں نے اناطولیہ فتح کرنے کے بعد قونیہ کی بجائے برسا کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلا جب سلطان محمد فاتح نے استنبول فتح کر کے اسے اپنا دار الحکومت وہاں منتقل کر دیا۔
اب ہمارا بھوک اور تھکن کے مارے ہمارا برا حال ہو رہا تھا مگر برسا میں کوئی ہمیں پرسہ دینے کے لئے موجود نہ تھا۔ مین روڈ کے اوپر ہی میکڈونلڈ کا سائن نظر آ رہا تھا۔ کسی نئے ترکی کھانے کو آزمانے سے بہتر تھا کہ اسی کھانے کو آزمایا جائے جس کے ذائقے سے ہماری زبانیں پہلے سے آشنا تھیں۔ میں نے گاڑی میکڈونلڈ کے ڈرائیو وے کی طرف موڑ لی اور تین "بگ میک" کا آرڈر دیا۔ کھڑکی میں موجود خاتون کو نجانے کیا سمجھ میں آیا کہ انہوں نے چار برگر لا کر ہمیں پکڑا دیے۔ میں نے کہا، "میں نے تو تین کا آرڈر دیا تھا۔" معصومیت سے کہنے لگیں، "سر! پھر ایک کے پیسے میں اپنی جیب سے دے دیتی ہوں۔" ہمیں یہ مناسب نہ لگا چنانچہ چاروں برگر کے پیسے دے کر آگے روانہ ہوئے۔
تھوڑی دور جا کر ہمیں ایک عجیب چیز نظر آئی۔ ایک اشارے پر گاڑی روکی تو ایک بہت ہی طویل بس ہمارے سامنے موجود تھی۔ یہ ایک کی بجائے دو بسیں تھیں جنہیں جوڑا گیا تھا۔ اگلی بس مکمل تھی مگر اس کا پچھلا حصہ غائب تھا۔ جبکہ پچھلی بس ڈرائیور والے حصے کے بغیر تھی۔ ان دونوں بسوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا کر ایک لمبی بس تیار کی گئی تھی۔ درمیانی حصے میں ربڑ لگا ہوا تھا تاکہ بس آسانی سے مڑ سکے۔ ان بسوں کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو لے جایا جا سکے۔
تھوڑی دیر میں ہم "شہر مرکزی" یا اندرون شہر جا پہنچے۔ یہ بھی ترکی کے دیگر شہروں کی طرح نہایت ہی صاف ستھر شہر تھا۔ یہاں ایک چوک میں بہت سے ہوٹل موجود تھے۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہاں انقرہ کی طرح ہوٹل تلاش کرنے کے لئے ہمیں جھک نہیں مارنی پڑی۔ دو تین ہوٹل دیکھ کر ایک صاف ستھرا ہوٹل پسند کیا اور وہیں ڈیرا ڈال دیا۔
برسا شہر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے سلطنت عثمانیہ کے پہلے دارالحکومت ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ مناسب ہو گا کہ اگر سلطنت عثمانیہ کی مختصر تاریخ بیان کر دی جائے جو کہ چار سو سال تک دنیا میں واحد سپر پاور کی حیثیت سے موجود رہی ہے۔
سلطنت عثمانیہ کا آغاز 1299ء میں عثمان خان سے ہوا۔ تقریباً سات سو سال کے بعد اس کا اختتام 1923ء میں سلطان محمد ششم پر ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کے پورے دور کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
· دور آغاز اور عروج 1299 – 1566 ء
· دور جمود 1566-1822 ء
· دور زوال 1822-1923 ء
بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ سلطنت عثمانیہ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے بادشاہوں کی حکومت کو کہتے ہیں۔ یہ سلاطین ایک ترکمان سردار عثمان خان کی اولاد میں سے تھے جو کہ سلجوقی بادشاہوں کے ایک اہم جنگی کمانڈر تھے۔ عثمان خان نے سلجوقی اور بازنطینی سلطنتوں کے درمیان ایک چھوٹی سی عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی جو کہ اناطولیہ کے تقریباً نصف حصے پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے اور خان اور پوتے مراد اول کے دور میں یہ سلطنت پھیلنے لگی۔ 1453ء میں سلطان محمد اول نے قسطنطنیہ فتح کیا۔ سلطان سلیم (1512-1520) نے شام، عراق، فلسطین اور مصر کے علاقے فتح کر کے آخری عباسی بادشاہ سے "خلیفہ" کا ٹائٹل چھین لیا۔
سلیم کے بعد سلیمان قانونی (1520-1566) کا دور آیا جو کہ عثمانی سلطنت کا نقطہ عروج سمجھا جاتا ہے۔ اس دور میں یورپ کے بہت سے علاقے فتح ہوئے اور جزیرہ نما بلقان کا بڑا حصہ عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ موجودہ دور کے بلغاریہ، یونان، رومانیہ اور ہنگری کے علاقے عثمانیوں کی سلطنت کا حصہ بنے۔ اپنے آباؤ اجداد کے برعکس سلیمان نہ صرف تلوار کے دھنی تھے بلکہ وہ تصنیف و تالیف کے شوقین بھی تھے۔ وہ پہلے عثمانی بادشاہ تھے جنہوں نے سلطنت کے قوانین مرتب کئے اور اس کے بل بوتے پر انہیں "قانونی" کا لقب ملا۔انہوں نے یہودی و عیسائی اقلیتوں کو بہت سے حقوق عطا کیے۔ ان کے دور میں آرٹ اور کلچر نے بہت ترقی کی۔
سلیمان کے بعد سلطنت عثمانیہ کا دور جمود شروع ہوا جو کہ مزید اڑھائی سو برس جاری رہا۔ اس کے بعد عثمانیوں نے یورپ اور روس کے کئی علاقے کھو دیے۔ بالآخر سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا اور سلطنت کمزور پڑنے لگی۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ جب جرمنی کو شکست ہوئی تو اتحادی افواج نے ترکی کے حصے بخرے کر دیے اور انہی کے زیر اثر مصطفی کمال نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا۔
مختلف ادوار میں سلطنت عثمانیہ کا نقشہ(بشکریہ ottomansouvenir.com)
عثمانیوں کے عروج کے پیچھے جو اسباب کار فرما تھے ان میں بنیادی حیثیت ان کی دینی اور اخلاقی حالت کو حاصل ہے۔ شروع کے دور کے عثمانی بادشاہ بہت دین دار اور نیک تھے۔ یہ لوگ اپنی رعایا کے ساتھ نہایت ہی اچھا سلوک کرتے۔ ان کے لئے رفاہ عامہ کے کام کرواتے۔ میدان جنگ میں بادشاہ خود اگلی صفوں میں لڑ کر اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے۔ سرکاری دعوتوں میں بادشاہ اپنے سپاہیوں کو خود کھانا سرو کیا کرتے تھے۔
عثمانیوں کے عروج کا دوسرا سبب ان کی برتر ٹیکنالوجی تھی۔ ان کی ہم عصر یورپی اقوام اپنے اس دور کو ڈارک ایجز سے تعبیر کرتی ہیں۔ یہ وہی دور تھا جب ان کے سائنس دانوں کو ایسے سائنسی انکشافات، جو کہ ان کے مذہبی عقیدے سے مختلف تھے، کی پاداش میں زندہ جلایا جا رہا تھا۔ انکویزیشن کی عدالتوں کے ذریعے عقیدے میں ذرا سا اختلاف کرنے والے کو موت کی سزا دے دی جاتی۔ عثمانیوں نے ایک شاندار بحری قوت تیار کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے سائنس دان نت نئی ایجادات میں مصروف رہے جس کے نتیجے میں انہیں یورپ اور معاصر ایشیائی قوتوں پر زبردست برتری حاصل رہی۔
عثمانیوں کے عروج کی تیسری وجہ ان کی شاندار تنظیم تھی۔ ان کے درمیانے دور میں ایک ادارہ تشکیل پایا جو کہ "دیو شرمی" کہلاتا تھا۔ یہ غلاموں پر مشتمل افواج تھیں۔ وسطی ایشیا کے عیسائی خاندانوں سے ان کے بچوں کو خریدا جاتا۔ ان کی تربیت کی جاتی اور اعلی تربیت کے بعد ان کی صلاحیت کے اعتبار سے انہیں فوج یا سول سروس میں اعلی عہدے دیے جاتے۔ اس موقع پر انہیں آزاد بھی کر دیا جاتا۔ یہ لوگ ساری عمر بادشاہوں کے وفادار بن کر رہتے۔ چونکہ ان لوگوں کو سلطنت میں اعلی اسٹیٹس حاصل ہوتا، اس لئے غریب والدین خود اپنے بچوں کو حکومت کے ہاتھوں فروخت کر دیا کرتے تھے تاکہ ان کے خاندان کو معاشرے میں اچھا مقام حاصل ہو سکے۔
عثمانیوں کے عروج کی چوتھی بڑی وجہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کا حسن سلوک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں انتہا پسند عیسائیوں کے ستائے ہوئے اعلی تعلیم یافتہ یہودی اور اسپینی مسلمان ترکی میں آ کر آباد ہوئے۔ نہ صرف یہودی اور مسلمان بلکہ خود عیسائیوں کے وہ فرقے جو کلیسا سے اختلاف رکھتے تھے، ان کی جائے پناہ عثمانیوں کا دیس تھا جو انہیں خوش آمدید کہنے کے لئے تیار تھا۔ کلیسا کے ستائے ہوئے عیسائی اور یہودی، عثمانیوں کی فتح میں بہت ممد و معاون ثابت ہوئے۔ مشہور مستشرق لوئیس برنارڈ، جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے شدید ناقد ہیں، لکھتے ہیں:
بہت سی عیسائی کمیونیٹیز (عثمانی سلطنت میں) اپنی لیڈر شپ کے تحت رہ رہی تھیں جو کہ حکومت کی منظور کردہ تھیں۔ ان کے اپنے اسکول اور تعلیمی نظام تھے۔ شادی، طلاق، وراثت اور مذہبی معاملات کے بارے میں ان کے اپنے قوانین ان پر نافذ کیے جاتے تھے۔ یہودیوں کا بھی یہی معاملہ تھا۔ اس طرح صورت حال یہ تھی کہ ایک ہی گلی میں رہنے والے تین افراد، جو تین مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے، اگر مرتے تھے تو ان کی جائیدادیں تین مختلف قانونی نظاموں کے تحت تقسیم ہوا کرتی تھیں۔
یہود اگر یوم سبت یا یوم کپور کی خلاف ورزی کرتے تو ان کو سزائیں ان کی اپنی ربانی عدالتوں سے ملتی تھیں۔ عیسائیوں کو دوسری شادی کرنے پر ان کی اپنی عدالتیں سزا دیتیں کیونکہ یہ عیسائیت میں تو جرم ہے مگر عثمانیوں کے ہاں یہ جرم نہ تھا۔ اسلامی قوانین کی پابندی سے یہود و نصاریٰ آزاد تھے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں ان پر سر عام کھانے کی کوئی پابندی نہ تھی۔ انہیں شراب بنانے، آپس میں بیچنے اور پینے کی آزادی بھی تھی۔ عثمانی دور کی بعض سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالتوں کے سامنے یہ مسئلہ پیش آیا کہ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی شادیوں میں شراب پینے سے کیسے روکا جائے؟ اس معاملے میں بھی سب پر پابندی عائد کر دینے کے آسان حل کو قابل غور نہ سمجھا گیا۔
(Europe & Islam)
یہ عثمانیوں کے عروج کی وجوہات تھیں جس کی بدولت ان سے تمام کمیونیٹیز خوش رہا کرتی تھیں۔ جب ایک عام آدمی کو حکومت سے اس کا حق مل رہا ہو تو وہ خود کو قوم کا حصہ سمجھتا ہے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر حکومت اسے اس کا حق نہ دے تو پھر وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہوئے ملک و قوم سے لا تعلق ہو جاتا ہے۔
اپنے دور زوال میں عثمانیوں نے اپنے آباؤ اجداد کی اچھی عادتوں کو چھوڑ دیا۔ ان کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ان کا اخلاقی انحطاط تھا۔ سلاطین اور امراء نے اپنے حرموں میں خوبصورت لڑکیاں جمع کرنا شروع کر دیں۔ اس عیش پرستی کے نتیجے میں وہ حکومتی معاملات سے بے خبر ہوتے چلے گئے اور کرپشن پھیلنے لگی۔ سلیمان اعظم اپنی ایک خوبصورت روسی لونڈی روکسلین کے عشق میں ایسا پاگل ہوا کہ اسے ملکہ بنا کر سارے معاملات اس کے سپرد کر دیے۔ ترک مصنفہ، محترمہ خالدہ ادیب خانم لکھتی ہیں:
سلیمان نے اپنی بیوی کے اثر سے صرف اتنا ہی نہ کیا کہ اپنا جانشین ایک نہایت ہی نااہل اور نالائق شہزادہ کو بنایا۔ اگر معاملہ یہیں تک محدود رہتا تو سلیم کے سلطان بننے کے اتنے برے نتائج نہ نکلتے کیونکہ اگر کسی سلطنت کا نظام مستحکم ہوتا ہے تو بادشاہ کی نالائقی کا تدارک اچھے کارکنوں کے حسن انتظام سے ہو جاتا ہے۔ مگر بادشاہ کی بیوی نے سلیمان کو اس پر بھی آمادہ کر لیا کہ وہ شہزادوں کو محل میں ہی بند رکھ کر تعلیم و تربیت دلانے کا رواج شروع کر دے۔ شہزادوں کے نصاب تعلیم سے جسمانی تربیت اور عملی تجربے خارج کر دیے گئے۔ ۔۔۔ اس نئے رواج کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ایسے لوگ بادشاہ ہونے لگے جو بند محل میں تعلیم پاتے تھے۔ عیش و عشرت اور تن آسانی کے عادی تھے اور جنہیں کاروبار سلطنت سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔
سترہویں صدی میں اول سے آخر تک نااہل سلاطین کا ایک سلسلہ بندھا ہوا نظر آتا ہے۔ ان میں جو عیش پرست نہیں تھے، وہ پرلے درجہ کے ظالم و جابر تھے اور جو حرم کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، وہ انتہا سے زیادہ بداطوار تھے۔ ان کی منظور نظر بیگمات سلطنت کے بڑے بڑے عہدے فروخت کرنے لگیں۔ ہم کہتے ہیں، "مچھلی اپنے سر سے گلنا شروع ہوتی ہے۔ " عثمانیوں کی سول سروس اسی رنگ میں رنگی جانے لگی اور رشوت لے کر عہدے فروخت کیے جانے لگے۔ میرٹ، جو کہ پہلے ترقی پانے کا معیار تھا، اب بے حیثیت ہو کے رہ گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ عثمانی سلاطین جو کہ شروع کے رومی بادشاہوں کی طرح شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے، اب بازنطینی حکمرانوں کی طرح آرام پسند ہو گئے۔ اس دور کے بہت کم سلطان ایسے ہوں گے جو طبعی موت مرے ہوں گے۔ اس صدی میں فوجوں کی بغاوت اور فرماں رواؤں کی معزولی کا بازار گرم تھا، اس وجہ سے ان میں اکثر قتل کر دیے جاتے تھے۔ (Conflict of East & West in Turkey)
عثمانی بادشاہوں کے مرنے کے بعد ان کے شہزادوں میں مغلوں کی طرح اقتدار کے حصول کی جنگیں ہونے لگیں۔ ان کے ہاں ایک عجیب قانون یہ طے پایا کہ ایک بادشاہ کے لئے اپنے بھائیوں کا قتل جائز قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہر شہزادہ باپ کے مرنے کے بعد اپنے بھائیوں کے قتل کے درپے ہو جاتا اور فوج تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے برسر پیکار ہو جاتی۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال کا ایک بڑا سبب ان کا علمی جمود تھا۔ عثمانیوں کا سرکاری نظام تعلیم ان علماء کے ہاتھ میں تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ علم تیرہویں صدی عیسوی یا چھٹی صدی ہجری پر آ کر رک گیا ہے۔ اس کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ سلطان سلیم ثالث کے دور میں جدید علوم و فنون کے مدارس قائم کرنے کی کوشش کی گئی جسے علماء نے ناکام بنا دیا۔ اس میں انہیں فوج کی حمایت حاصل رہی تھی۔ اس کے برعکس ترکی کی حریف اقوام رینی ساں اور ریفارمیشن کے ادوار میں علمی اعتبار سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھیں۔
ان کی یہ علمی ترقی جلد ہی اقتصادی اور عسکری ترقی میں بدل گئی اور مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے۔ ان کا علمی جمود، معاشی و عسکری جمود میں تبدیل ہو گیا۔ یہ صورتحال اب تک برقرار ہے اور ہمارے علماء آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ علمی ترقی بس وہی ہے جو ہمارے اسلاف کر گئے۔ اب موجودہ دور میں جو کچھ بھی ہے، وہ سراسر انحراف ہی ہے۔
اگلی صبح اٹھ کر ہم نے وہی لکڑی والے بن اور شہد کا ناشتہ کیا اور باہر نکلے۔ قریب ہی ایک دکان تھی۔ کچھ ڈرنکس اور دوپہر کے لئے پھل وغیرہ لینے کے لئے ہم اندر گئے۔ برسا، ترکی میں پھلوں اور خاص طور پر ڈرائی فروٹ کی پیداوار کے لئے مشہور ہے۔ یہاں کی خاص چیز مونگ پھلی ہے۔ یہ ہمارے ہاں کی مونگ پھلی سے سائز میں دوگنا ہوتی ہے اور اس کے دانے بھی بہت موٹے موٹے ہوتے ہیں۔ ہم نے خاص طور پر یہ مونگ پھلی گھر کے لئے خریدی۔ میری شکل دیکھتے ہی دکاندار نے پوچھا، "اسے سفر کے لئے پیک کر دوں؟" میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
یہاں سے فارغ ہو کر میں نے ایک منی ایکسچینج سے ترکی لیرا حاصل کیے۔ اب ہم "الوداغ" جانے کے لئے تیار تھے۔ ایک سگنل پر میں نے ساتھ والی کار میں موجود صاحب سے الوداغ کا راستہ پوچھا۔ ان صاحب کی شکل مشہور کرکٹر عمران خان سے ملتی جلتی تھی۔ کچھ دیر سوچتے رہے، پھر کہنے لگے، "آپ میرے پیچھے آئیں۔ میں آپ کو اس کے راستے تک پہنچا دیتا ہوں۔" انہوں نے ہماری خاطر اپنا راستہ تبدیل کر لیا۔ کچھ دیر ان کے پیچھے چلنے کے بعد ہم ایک چوراہے پر پہنچے۔ یہاں انہوں نے شیشے سے ہاتھ نکال کر ہمیں ایک سڑک دکھا دی اور خود واپس ہوئے۔ میں نے بھی ہاتھ ہلا کر ان کا بھرپور شکریہ ادا کیا۔
الوداغ کا جنگل
الوداغ کی سردیاں بشکریہ pbase.org
الوداغ ایک پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہ علاقہ سردیوں میں مکمل طور پر برف سے ڈھک جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں اسکی انگ اور سردیوں کے دیگر کھیلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ ترکی کا سب سے بڑا اسکی انگ سنٹر ہے۔ ان دنوں اگست کے ابتدائی ایام تھے۔ اس وجہ سے برف کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا البتہ سبزہ اپنے پورے جوبن پر تھا۔ پہاڑی علاقوں کی طرح یہاں بھی تنگ سی سڑک بل کھاتی ہوئی اوپر کی طرف جا رہی تھی۔ سڑک کے دونوں جانب گھنے سبزے کے درمیان سرخ، سفید، پیلے اور کاسنی رنگ کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔
تھوڑی دیر میں ہم بلندی پر جا پہنچے۔ یہ پہاڑ بہت زیادہ بلند تو نہیں تھے مگر اپنے موسم کی وجہ سے ان کا ماحول وہی تھا جو ہمارے شمالی علاقہ جات کا ہے۔ علاقہ اچھا تھا مگر یوزن گول اور بولو کے مقابلے میں زیادہ پسند نہ آیا۔ اوپر ایک پارک بنا ہوا تھا جس میں بچے جھولے جھول رہے تھے۔ یہاں کچھ اسکول کے بچے پکنک منانے آئے ہوئے تھے۔ ان کی با حجاب ٹیچرز ایک جانب بیٹھی گپیں ہانک رہی تھیں۔ مرد ٹیچر باقاعدہ ایپرن باندھے بار بی کیو کر رہے تھے۔ بچے پستولوں میں پانی بھر کر ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے۔ کچھ بچے پینگیں چڑھانے میں مصروف تھے۔ ماریہ نے بھی ان کے ساتھ جھولے لیے۔
آج دھوپ نکلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے موسم کچھ گرم تھا۔ ہم اب سفر کر کر کے تنگ آ چکے تھے، اس وجہ سے ارادہ کیا کہ اگلے ایک دو دن میں استنبول دیکھ کر واپسی کا کوچ کیا جائے۔ کچھ دیر یہاں گزار کر ہم نے الوداغ کو الوداع کہا اور واپسی کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ برسا سے نکل کر ہم دوبارہ اسی سگنلز سے بھرپور سڑک پر سفر کرنے لگے۔
یہ پورا علاقہ مرمرہ ریجن کہلاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے شمال اور مغرب دونوں جانب بحیرہ مرمرہ پھیلا ہوا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ طویل عرصے تک یونان کے قبضے میں رہا ہے۔ اس وجہ سے یہاں مسلم تاریخ کے آثار کم اور یونانی تاریخ کے آثار زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یونان کی دیو مالا کے بہت سے کرداروں کا تعلق مرمرہ ریجن سے ہے۔
اہل مغرب چونکہ اپنی تاریخ کا آغاز یونان سے کرتے ہیں، اس وجہ سے ان کے لئے اس علاقے میں بہت کشش ہے۔ ہم لوگوں کے لئے اس ریجن میں کچھ خاص کشش نہ تھی اور ہم طویل سفر سے بھی تنگ آ چکے تھے، اس وجہ سے ہم نے یہاں زیادہ وقت گزارنے کی بجائے واپسی ہی میں عافیت محسوس کی۔ مگر بہتر ہو گا کہ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس علاقے کے خاص خاص مقامات کا ذکر کر دیا جائے۔
برسا سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر "چناقی قلعہ" کا مشہور شہر واقع ہے۔ یہ بحیرہ مرمرہ کا آخری کونا ہے۔ یہاں سے بحیرہ مرمرہ ایک تنگ سی آبنائے کے ذریعے بحیرہ آ گیان میں جا ملتا ہے جو جنوب کی طرف بحیرہ روم میں جا ملتا ہے۔ اس لحاظ سے بحیرہ مرمرہ کسی سپیرے کی بین کی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک ایسی جھیل بن جاتا ہے جو ایک طرف بحیرہ روم اور دوسری طرف بحیرہ اسود کے ساتھ دو تنگ سی آبناؤں کے ذریعے ملا ہوا ہے۔
چناقی قلعہ شہر کے قریب ہی قدیم یونانی شہر "ٹرائے " کے آثار موجود ہیں۔ یہ شہر اب سے چار سے پانچ ہزار سال پہلے ایک بڑا تجارتی مرکز رہا ہے۔ کوئی تین ہزار سال پہلے یونان چھوٹی چھوٹی شہری ریاستوں میں تبدیل ہو گیا جن کے درمیان وسائل کی چھینا جھپٹی کے سلسلے میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس شہر سے متعلق "ٹروجن ہارس" کی مشہور زمانہ کہانی یونانی دیو مالا میں ملتی ہے۔
اس کہانی کے مطابق ٹرائے پر ایک دوسرے شہر کی فوج حملہ آور ہوئی اور انہوں نے اس کا محاصرہ کر لیا۔ طویل محاصرے کے باوجود شہر فتح نہ ہو سکا۔ ناکام ہو کر حملہ آوروں نے واپسی کا اعلان کر دیا۔ جاتے جاتے وہ لکڑی کا ایک بہت بڑا گھوڑا چھوڑ گئے۔ شہر کے لوگوں نے جب دشمن فوج کو واپس جاتے دیکھا تو قلعے کے دروازے کھول کر باہر نکلے۔ دیکھا کہ دشمن تو جا چکا ہے مگر ایک بہت بڑا لکڑی کا گھوڑا کھڑا ہے۔ وہ اسے یادگار سمجھتے ہوئے اندر لے گئے۔ جب رات ہوئی تو گھوڑے کے پیٹ کا دروازہ کھلا اور اس میں موجود دشمن کے سپاہی باہر نکلے۔ انہوں نے طے شدہ منصوبے کے تحت شہر کے پھاٹک کھول دیے۔ ان کے ساتھی جو بظاہر جا چکے تھے، چپکے سے واپس آ گئے اور اس طرح شہر فتح ہو گیا۔ اس کہانی کی بدولت انگریزی ادب میں خفیہ سازش کے لئے "ٹروجن ہارس" کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ اس گھوڑے کا ایک ماڈل اب بھی "چناقی قلعہ" میں موجود ہے۔
چناقی قلعہ سے تین سو کلومیٹر جنوب میں ازمیر کا شہر واقع ہے جو ترکی کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس کا قدیم نام "سمرنا" ہے۔ ازمیر کی وجہ شہرت اس سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قدیم شہر افسُس (Ephesus) کے کھنڈرات ہیں۔ اس شہر کو عیسائی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کے حواریوں نے اناطولیہ کے علاقے کو اپنی دعوت کا مرکز بنا لیا۔ شروع میں تو عیسائیوں کی حیثیت یہودیوں کے ایک ضمنی فرقے کی تھی جن پر آرتھو ڈوکس یہودی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑا کرتے تھے۔
اللہ کے عظیم رسول سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو جھٹلانے کے سبب 70ء میں یہود پر اللہ کا عذاب رومی بادشاہ ٹائٹس کی شکل میں نازل ہوا جس نے یروشلم کو تباہ کر دیا اور یہودیوں کو غلام بنا کر پوری رومن ایمپائر میں منتشر کر دیا۔ یہودیوں کے مقابلے میں عیسائیوں کے ساتھ رومیوں کی پالیسی نرم تھی۔ عیسائیوں نے پورے اناطولیہ میں اپنی دعوت پھیلانا شروع کی۔ سینٹ پال جو کہ عیسائیت کے پرجوش مبلغ تھے، انہوں نے افسس کو اپنا مرکز بنایا۔ یہاں سے انہوں نے یونان کے مختلف شہروں میں موجود عیسائیوں کو جو خطوط لکھے، وہ بائبل کے عہد نامہ جدید میں "رومیوں، کرنتھیوں اور گلتیوں کے نام" کے عنوان سے موجود ہیں۔ پال نے ایک خط افسس شہر کے باشندوں کے نام بھی لکھا تھا جو کہ بائبل میں "افسسیوں کے نام" کے عنوان سے موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اصحاب کہف کا تعلق بھی افسس سے تھا۔ ان سے منسوب ایک غار بھی یہاں پائی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک غار جنوبی ترکی کے شہر طرسوس اور ایک غار اردن میں عمان کے قریب بھی موجود ہے۔
ازمیر کی ایک مشہور شخصیت شباطائی زیوی ہے۔ مارک لیپر نے اپنے سفرنامے میں ان کے حالات لکھے ہیں۔ یہ صاحب 1626ء میں ازمیر کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے یہودی فقہ کے عظیم مجموعے "تالمود" کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ان کا رجحان تصوف کی طرف ہو گیا۔ انہوں نے یہودی تصوف یا کبالہ میں مہارت حاصل کی۔اس زمانے کے یہودیوں میں "ہزار سالہ" نظریات گردش کر رہے تھے۔ ان نظریات کے مطابق اب تورات میں دی گئی پیشین گوئیوں کے مطابق "مسیحا" کی آمد کا وقت قریب تھا۔ اس قسم کے خیالات 1000 ہجری کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر بھی موجود رہے ہیں۔غالباً ہمارے ہاں بھی یہ خیال یہودیوں کی جانب سے آیا ہو گا۔
زیوی نے 1648ء میں مسیح موعود ہونے کا دعوی کر دیا۔ ان کا دعوی تھا کہ وہ یہودیوں کو دوبارہ اکٹھا کر کے اسرائیل کی عظیم سلطنت قائم کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ترکی پر ان دنوں مسلمان عثمانی بادشاہوں کی حکومت تھی جو کہ غیر مسلموں کے معاملات میں قطعی مداخلت نہ کیا کرتے تھے۔ زیوی کی دعوت پھیلنے لگی۔ حلب کے ایک متمول یہودی رفائیل جوزف حلبی نے ان کی دعوت کو قبول کیا تو اپنی دولت اس کے لئے وقف کر دی۔ زیوی نے فلسطین کا رخ کیا۔ یہاں غزہ کے علاقے میں ان کی ملاقات "ناتھن آف غزہ" سے ہوئی جو کہ بعد میں ان کے دست راست ثابت ہوئے۔
آہستہ آہستہ شباطائی زیوی یہودیوں کے سربراہ کی حیثیت اختیار کر گئے۔ انہوں نے تورات کی شریعت کو منسوخ کر دیا۔ ان کا ارادہ تھا کہ یہودیوں کو منظم کر کے اسرائیل کی سلطنت کو دوبارہ قائم کیا جا سکے۔ ان کی دعوت اب نہ صرف سلطنت عثمانیہ بلکہ یورپ کے طول و عرض میں موجود یہودیوں میں پھیل چکی تھی۔ ان کے عزائم کو بھانپتے ہوئے حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا مگر ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔
1666ء میں شباطائی نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے نتیجے میں ان کے بہت سے مرید ان سے بد ظن ہو گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے سرکاری سرپرستی میں اپنا کام جاری رکھا۔ ایک طرف انہوں نے مسلمانوں کو کبالائی تصوف سے آگاہ کیا اور دوسری طرف یہودیوں میں سے اپنے عقیدت مندوں کو اسلام کی طرف راغب کیا۔اس طریقے سے کبالائی تصوف اور اسلام کی آمیزش سے انہوں نے ایک نیا فرقہ پیدا کیا جو کہ "شباطائی فرقہ" کہلاتا ہے۔ ان کے ماننے والے آج بھی ترکی میں پائے جاتے ہیں جو کہ بظاہر مسلمان ہیں لیکن اندر سے اپنی یہودی رسومات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ میں بھی مسلمانوں کی طرح مہدی اور مسیح ہونے کے بہت سے دعوے دار پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگ ان جھوٹے دعوے داروں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے رہیں گے۔
ازمت کے پاس پہنچ کر ہم مرمرہ ریجن سے نکل آئے۔ خلیج ازمت کے گرد چکر کاٹ کر ہم اس کی دوسری جانب پہنچے۔ موٹر وے پر پہنچ کر ہم نے اپنا رخ استنبول کی جانب کر لیا۔ تھوڑی دیر ہی میں ہم استنبول شہر کے مضافات میں داخل ہو گئے۔ یہ ایک صنعتی علاقہ تھا۔ پہاڑوں کے بیچ میں وادیوں کے درمیان مختلف فیکٹریاں نظر آ رہی تھیں۔ استنبول شہر ابھی پچاس کلومیٹر دور تھا مگر اس کے مضافات یہیں سے شروع ہو رہے تھے۔
استنبول ایک قدیم شہر ہے۔ اس شہر کو 1600 سال تک دنیا کی دو سپر پاورز کا دار الحکومت رہنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ استنبول کی تاریخ کے آثار6500 قبل مسیح تک دریافت ہو چکے ہیں۔ جب اس شہر کو یونانیوں نے اپنی سلطنت میں شامل کیا تو اس کا نام "بازنطین" رکھا۔ 100 قبل مسیح کے لگ بھگ یہ شہر رومی سلطنت کا حصہ بنا۔ رومی شہنشاہ قسطنطین یا کانسٹنٹائن جب یہاں سے گزرا تو اسے یہ جگہ بہت پسند آئی۔ اس نے اس شہر کو 330ء میں اپنا دار الحکومت بنا لیا۔ اس نے شہر کا نام کانسٹنٹائنوپل رکھا جو عربی میں قسطنطینیہ اور فارسی و اردو میں قسطنطنیہ بن گیا۔ اس کے بعد تقریباً 1100 سال یہ شہر رومی سلطنت کا دا ر الحکومت رہا۔ جب 1453ء میں اسے سلطان محمد فاتح نے فتح کیا تو یہ مسلمانوں کی عثمانی سلطنت کا دا ر الحکومت قرار پایا۔ اس کی یہ حیثیت 1923ء تک برقرار رہی۔ اب استنبول جدید ترکی کا دار الحکومت تو نہیں ہے مگر اس کا اہم ترین شہر ہے۔
شہر میں داخل ہونے کے بعد اچانک پھولوں سے لدی ہوئی دیواریں ہمارے سامنے آ گئیں۔ سڑک کے دونوں جانب پہاڑی چٹانوں پر اس طریقے سے پھول اگائے گئے تھے کہ یہ ایک تختے کی طرح انہیں ڈھانکے ہوئے تھے۔ ارد گرد کے پہاڑوں پر خوشنما سرخ چھتوں والے مکان سبز بیک گراؤنڈ میں دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔ یہاں پہاڑوں پر بھی دس پندرہ منزلہ عمارتیں عام تھیں۔
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ استنبول شہر بیک وقت ایشیا اور یورپ میں واقع ہے۔ نقشے پر دیکھیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی پلاس کے جبڑوں کی طرح ایشیا اور یورپ کا ایک ایک کونہ نکل کر ایک دوسرے کے مقابل آ کر رک گیا ہو۔ درمیان میں آبنائے باسفورس ہے۔ یہ تنگ سی سمندری پٹی جو کہ ایک عظیم الشان دریا کا منظر پیش کرتی ہے، بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کو آپس میں ملاتی ہے۔ یورپی حصے میں باسفورس سے ایک شاخ نکل کر دور تک خشکی کے اندر چلی جاتی ہے۔ یہ "شاخ زریں" یا "گولڈن ہارن" کہلاتی ہے۔ باسفورس اور گولڈن ہارن کے درمیان کا علاقہ "غلطہ" کہلاتا ہے۔ اس خطے کے حسن کا نظارہ تارڑ صاحب کے الفاظ میں سنیے :
میرے سامنے گنبدوں اور میناروں کا ایک شہر سمندر سے اٹھا۔ یہ شہر ماضی بعید میں بازنطینیوں کا بازنطائن۔ ماضی میں کانسطنطائن کا قسطنطنیہ اور حال میں عثمانی ترکوں کا استنبول کہلایا۔ ایک شہر تین عہد، تین روپ اور تین ہی حصے۔ ایک حصہ ایشیا میں جہاں سے ہم آ رہے تھے۔ دوسرا یورپ میں اسلامبول اور تیسرا الغلطہ جسے شاخ زریں اسلامبول سے جدا کرتی ہے۔ ایک ہی شہر۔ ہمارے گرد آبنائے باسفورس میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ایشیا اور یورپ کے درمیان درجنوں مسافر بردار کشتیاں رواں دواں۔ سامان سے لدے ہوئے بیڑے، مچھیروں کی لاتعداد کشتیاں۔ دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے تجارتی جہاز اور پھر ہارن اور بھونپوؤں کی متواتر آوازیں۔ دنیا بھر میں کسی بھی شہر نے اپنے گرد پھیلے ہوئے سمندر کو اتنی خوبصورتی نہیں بخشی جو باسفورس کے حصے میں آئی ہے۔ وینس کی خوبصورتی کا انحصار ہی سمندر پر ہے مگر استنبول میں سمندر شاخ زریں کا کشکول ہاتھ میں لیے شہر سے حسن کی بھیک مانگ رہا ہے۔ میری نظروں کے سامنے اس حسین شہر کے طلسمی افقی خطوط ابھر رہے تھے۔ آیا صوفیہ کا عظیم الجثہ گنبد۔ نیلی مسجد کے چھ نازک اندام اور باریک مینار۔ ترک سلطانوں کا محل سرا۔ شاخ زریں پر پل الغلطہ اور اس گھنے جنگل میں سینکڑوں لامبے اور پتلے مینار ہر سو بکھرے ہوئے جیسے نیلے آسمان کے سینے میں تیز چمکتے ہوئے برچھے گڑے ہوں۔ میرے لئے استنبول کی پہلی جھلک جوانی کے فریبوں اور پہلی محبت کے احساسات سے زیادہ حسین اور ہیجان خیز ثابت ہوئی تھی۔
ہم لوگ بھی استنبول کے فطری حسن اور صفائی سے کافی متاثر تھے مگر تارڑ صاحب کی نسبت ذرا کم۔ تھوڑی دیر میں ہم باسفورس کے پل پر جا پہنچے۔ یہ بغیر ستونوں کے ایک عظیم پل تھا جس کے دونوں طرف ٹاور تعمیر کر کے ان سے لوہے کے رسے لٹکائے گئے تھے۔ ان کے درمیان پل لٹک رہا تھا۔ آج آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے جن کی وجہ سے نیلے باسفورس کا رنگ سرمئی لگ رہا تھا۔
دفاتر سے چھٹی کا وقت ہوا تھا جس کی وجہ سے دور دور تک ٹریفک بلاک تھی۔ اس میں استثنا استنبول کی "میٹرو" کا تھا۔ یہ وہی ڈبل بسیں تھیں جو ہم نے برسا میں بھی دیکھی تھیں۔ کھلی سڑک کے بیچوں بیچ دو لینز ان کے لئے مخصوص کر دی گئی تھیں۔ یہی پر ان کے اسٹاپ بنے ہوئے تھے۔ یہ تیز رفتاری سے ٹریفک میں پھنسی ہوئی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے سینے پر مونگ دلتی ہوئی چل رہی تھیں۔ تمام بسیں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ ان کے ہاں خواتین کے علیحدہ کمپارٹمنٹ کا رواج نہ تھا۔ ہم نے شکر کیا کہ ہم جدہ میں رہتے ہیں جہاں ابھی تک ٹریفک بلاک ہونے کا مسئلہ شدت اختیار نہیں کر سکا۔
چونکہ اب ہم سفر سے تنگ آ چکے تھے اس لئے مناسب یہی محسوس ہوا کہ پہلے اپنی واپسی کی سیٹیں پہلے کی تاریخ میں کروا لیں۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں سعودی ائر لائن کا دفتر کون ڈھونڈتا۔ اس لئے ہم نے ائر پورٹ کا رخ کیا۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ سعودی عرب کی تمام فلائٹیں جا چکی ہیں اس لئے دفتر اب بند ہے۔ اب رات گزارنے کے لئے ہوٹل ڈھونڈنے کا مرحلہ تھا جو کہ بڑے شہر میں کچھ ایسا تھا جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کی جائے۔ ایک عربی بولنے والے صاحب نے بتایا کہ آپ "توپ کاپی" چلے جائیے۔ وہاں ہر طرف ہوٹل ہی ہوٹل ہیں۔
ائر پورٹ سے توپ کاپی کے راستے سے میں واقف تھا کیونکہ گوگل ارتھ پر یہ راستہ میں تفصیل سے دیکھ چکا تھا۔ سڑک پر لگے سائن بورڈز کے مطابق ڈرائیو کرتے ہم کچھ دیر میں شہر کی فصیل سے گزر کر توپ کاپی جا پہنچے۔ استنبول شہر کی فصیل "رومیلی حصار" کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر سلطان محمد فاتح نے کی تھی۔ توپ کاپی ایک وسیع علاقے کا نام تھا جس میں استنبول کے اساسی تاریخی آثار موجود ہیں۔ یہ ایک طویل سڑک تھی جس کے اطراف میں دکانیں اور پلازے بنے ہوئے تھے۔ سڑک کے بیچوں بیچ "مونو ریل" کی پٹریاں تھیں۔ ان پر دو بوگیوں والی ٹرینیں چل رہی تھیں۔ یہ ٹرام کی جدید شکل تھی۔ ٹرین کے دونوں جانب انجن تھا۔ جدھر جانا ہو، اس طرف کا انجن چلا لیجیے۔ مونو ریل اور سڑک کی ٹریفک کو اشاروں کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
یہاں واقعی ہر جانب ہوٹل ہی ہوٹل تھے۔ کچھ دیر کے بعد ایک ہوٹل پسند آ گیا۔ ہوٹل کے قریب ہی ایک چارجڈ پارکنگ تھی۔ وہاں گاڑی کھڑی کر کے ہم کھانا کھانے کے لئے نکلے۔ قریب ہی ایک باربی کیو ریسٹورنٹ تھا۔ یہاں پہنچتے ہی ایک گھاگ قسم کے بیرے نے بالکل اسی انداز میں اپنے کھانوں کی تعریف شروع کر دی جیسے ہمارے شاعر اپنی محبوبہ کی تعریف کرتے ہیں۔ ہماری شکلوں کو دیکھتے ہوئے آخری مصرعہ یہ فٹ کیا کہ "یہاں حلال کھانا ملتا ہے۔ "
اس ہوٹل کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں انیسویں صدی کے زمانے کے استنبول اور دیگر ترک شہروں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ افسوس کہ ہم کیمرہ گاڑی میں بھول آئے تھے، ورنہ ان تصاویر کی مزید تصاویر لے لیتے۔ کھانا مزیدار تھا۔ فارغ ہو کر گاڑی قریب ہی ایک چارجڈ پارکنگ میں کھڑی کی۔ وہاں موجود صاحب نے پہلے تو قومیت پوچھی۔ پاکستانی ہونے کے باعث انہوں نے دس کی بجائے پانچ لیرا وصول کیے۔ اب ہم اپنے کمرے میں آ گئے۔ رات کے دس بج رہے تھے اور استنبول شہر بھی ویران ہو رہا تھا البتہ اس کی ویرانی دیگر شہروں کی نسبت کم تھی۔
اگلی صبح ناشتے میں وہی لکڑی والے بن اور شہد سے گزارا کیا۔ میں بڑی تگ و دو کے بعد ہوٹل کے ملازمین کو کسی نہ کسی طرح یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گیا کہ میں فلائٹ میں اپنی سیٹ جلدی کی تاریخ میں کروانا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد انٹرنیٹ کے ذریعے سعودی ائر لائن کے دفتر کا نمبر معلوم کیا اور انہیں فون کیا۔ مجھے امید نہ تھی کہ وہ فون اٹھا لیں گے اور اگر اٹھا لیں گے تو میری بات سمجھ سکیں گے مگر انہوں نے نہ صرف فون اٹھایا بلکہ وہاں موجود صاحب نے نہایت ہی اچھے طریقے سے بات سنی، سمجھی اور فون پر ہی اگلے دن کی سیٹ کنفرم کر دی۔
اب پارکنگ سے گاڑی سے لے کر ہم استنبول کی سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اچھی بات یہ تھی کہ یہاں کی تمام قابل ذکر جگہیں ایک ہی مقام پر واقع تھیں۔ ویسے تو پورا استنبول ہی مسجدوں کا شہر ہے مگر ہم ایک دن میں تمام مساجد دیکھ نہ سکتے تھے اور ویسے بھی ان مساجد کا آرکی ٹیکچر بالکل ایک جیسا ہے۔ یہاں اتنی زیادہ تاریخی مساجد ہیں کہ گویا ہر بادشاہ اور اس کے افسر نے ایک مسجد بطور نشانی تعمیر کی تھی۔ہر مسجد کے نام کے ساتھ کسی نہ کسی پاشا کا نام لگا ہوا تھا۔
سائن بورڈز کے مطابق چلتے ہوئے ہم پہلے ساحل یولو پر آئے اور اس کے بعد ایک تنگ سی گلی میں گھس گئے جو سیدھی فصیل کے اندر جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہم تاریخی ایریا میں پہنچ گئے۔ ایک گلی میں بمشکل پارکنگ ملی جو کہ ڈھائی لیرا فی گھنٹہ کے حساب سے تھی۔
پارکنگ سے نکل کر جیسے ہی ہم آگے بڑھے تو ایک نہایت ہی عالیشان مسجد ہمارے سامنے تھی۔ یہ سلطان احمد مسجد تھی۔ ہمارے دائیں جانب "آیا صوفیہ" کا گرجا، مسجد یا عجائب گھر تھا۔ آیا صوفیہ اور سلطان احمد مسجد کے درمیان ایک وسیع اور سرسبز پارک بنا ہوا تھا۔ ہم مسجد کی جانب بڑھنے لگے۔ ڈھیروں ڈھیر سیاح مسجد کے اندر جا رہے تھے۔ انہیں صرف مسجد کے بیرونی صحن تک جانے کی اجازت تھی۔ اس سے آگے ٹورسٹ پولیس کے اہل کار تھے جو صرف معقول لباس والوں کو ہی آگے جانے دے رہے تھے۔ بیرونی صحن پتھر کی سلوں سے بنا ہوا تھا۔
ہم لوگ پہلے مسجد کے بیرونی صحن میں پہنچے۔ یہاں ایک بوڑھی سکھ خاتون بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنے بیٹے سے مشرقی پنجاب کے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ مسجد کے باہر پلاسٹک کے بیگ ایک رول میں لپٹے ہوئے تھے۔ جو بھی اندر جانا چاہتا، وہ ان لفافوں میں اپنے جوتے ڈال کر لے جاتا۔ مسجد کے اندر داخل ہوئے تو ہر طرف نیلا ہی نیلا رنگ بکھرا ہوا تھا۔ مسجد کی چھت پر نیلے رنگ کا کام کیا گیا تھا۔ اس کی کھڑکیوں کے شیشے بھی نیلے رنگ کے تھے۔ اگرچہ سنان کے آرکی ٹیکچر کے تحت تعمیر کردہ مساجد کے اندرونی حصے میں زیادہ تر نیلے رنگ کا استعمال ہی ہوا ہے مگر اس مسجد کو اہل مغرب نے "نیلی مسجد" کے نام سے مشہور کر دیا ہے۔
یہ مسجد 1609-1616 ء کے عرصے میں سلطان احمد کے حکم سے تعمیر کی گئی۔ اہل مغرب اسے عثمانی دور کے آرکی ٹیکچر کا شاہکار قرار دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر بازنطینی بادشاہوں کے محل موجود تھے۔ مسجد کو سنان کے ایک شاگرد محمد آغا نے ڈیزائن کیا۔
آج جمعہ کا دن تھا۔ جیسے ہمارے ہاں نماز جمعہ سے پہلے مسجدوں میں بچے تلاوت و نعت شروع کر دیتے ہیں، ویسے ہی یہاں بھی تلاوت کلام پاک جاری تھی۔ میں نے ایک پولیس والے سے نماز کے وقت کے بارے میں پوچھا۔ معلوم ہوا کہ نماز ایک بجے ہو گی۔ گویا ابھی نماز میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ ہم نے سوچا کہ اس وقت میں کوئی اور جگہ دیکھ لی جائے۔ چنانچہ مسجد سے باہر آ گئے۔
اب ہمارا رخ مسجد کے مغربی جانب تھا۔ یہاں ایک ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر بنا ہوا تھا۔ میں نے ان سے پانی میں بنے ہوئے ستونوں کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بڑے اچھے طریقے سے اس کا رخ سمجھا دیا۔ کہنے لگے، یہ صرف دو منٹ کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے مجھے استنبول کا ایک سیاحتی نقشہ بھی مل گیا۔
مونو ریل کی پٹریاں پار کر کے ہم دوسری جانب آ گئے۔ یہاں ایک طویل مینار بنا ہوا تھا۔ اس کا نام "ملین" تھا۔ یہاں بورڈ پر درج تھا کہ چوتھی صدی عیسوی میں یہ مینار سلطنت روم کے مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا اور اسے مرکزی نقطہ مان کر یہاں سے سلطنت کے طول و عرض کی پیمائش کی گئی۔
مینار کے دوسری طرف "باسیلیکا سسٹرن" کا عجوبہ تھا۔ یہ کیا چیز تھی؟ تارڑ صاحب کے الفاظ میں سنیے :
ٹکٹ خرید کر ہم جھونپڑی کے اندر داخل ہو گئے۔ دروازے کے ساتھ ہی لکڑی کی سیڑھیاں نیچے جاتی تھیں۔ ہم نیم تاریکی میں آہستہ آہستہ نیچے اترے۔ ہمارے سامنے کانسطنطائن کا زیر زمین آبی محل کھڑا تھا۔ تین سو چھتیس مرمریں ستون جو کمر تک گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ محل کی چھت سے پانی کی بوندیں رس رس کر ستونوں کے اس وسیع تالاب میں ٹپ ٹپ گر رہی تھیں جیسے جل ترنگ بج رہا ہو۔سیڑھیوں کے قریب چند ستونوں پر بجلی کے قمقمے ٹمٹما رہے تھے لیکن اس سے پرے مکمل تاریکی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ایک پراسرار جھیل میں سینکڑوں ستون اگ آئے ہیں۔
پچاس برس میں اب فرق یہ پڑا تھا کہ اس پراسرار مقام کے اوپر جھونپڑی کی بجائے ایک شاندار عمارت تعمیر کر دی گئی تھی۔ ٹکٹ اب پندرہ لیرا کا تھا۔ نیچے ہر ستون کے ساتھ خوبصورت لائٹیں لگا دی گئی تھیں۔ میری تحقیق کے مطابق یہ آبی محل نہیں تھا بلکہ اس جگہ کو بادشاہ کے محل کے لئے پانی کی ٹنکی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بارش کے پانی کو یہاں اکٹھا کر کے پھر انسانوں یا جانوروں پر لاد کر اسے محل میں لایا جاتا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ گرمی لگنے پر بادشاہ سلامت بھی یہاں انجوائے کرنے آ جاتے ہوں۔ بہرحال یہ جو کچھ بھی تھا، خوب تھا۔
پانی میں رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ یہاں کے ماحول میں عجیب وحشت سی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کسی بھوت بنگلے میں آ گھسے ہیں۔ سیاحوں کی کثرت کے باعث یہ وحشت بہرحال ایسی نہ تھی کہ انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلے۔ پورے ہال میں لکڑی کا پل بنا ہوا تھا جس پر سے گزر کر لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے تھے۔ ایک مقام پر عجیب و غریب ستون بنے ہوئے تھے۔ ان ستونوں پر عجیب قسم کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ انہیں "میڈوسا" کے ستون کہا جاتا ہے۔
میڈوسا (بشکریہ www.concierge.com) |
باسیلیکا سسٹرن |
یونانی دیو مالا میں میڈوسا ایک بھتنی کا نام ہے۔ یہاں کے ستونوں پر میڈوسا کی تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ بادشاہ کانسٹنٹائن نے عیسائیت قبول کر لی تھی مگر یونانی مشرکانہ مذہب کے اثرات اس پر یا اس کے عملے کے ذہنوں پر ابھی باقی تھے۔ یہی معاملہ مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ افریقہ، ایران، وسط ایشیا، ترکی اور ہندوستان میں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول تو کر لیا مگر ان کے ذہنوں پر ان کے قدیم مشرکانہ مذاہب کے اثرات باقی رہے۔ یہی اثرات اگلی نسلوں کو بھی منتقل ہوئے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں جو توہم پرستی پائی جاتی ہے، یہ اسی کی باقیات میں سے ہے۔
اب ایک بجنے میں پندرہ منٹ تھے۔ ہم نے مناسب یہی محسوس کیا کہ واپس مسجد چلا جائے تاکہ جمعہ کی نماز میں بروقت شامل ہوا جا سکے۔ تھوڑی دیر میں ہم وہاں جا پہنچے۔ مسجد کے بیرونی صحن میں وضو خانہ بنا ہوا تھا۔ ترکی میں بالعموم رواج یہ تھا کہ مسجد کے ٹائلٹ پر رقم ادا کرنا پڑتی ہے مگر وضو خانہ بالکل فری ہوتا ہے۔ اپنے قدیم اسٹائل سے ایسا لگ رہا تھا کہ اس وضو خانے کو بھی سلطان صاحب نے مسجد کے ساتھ ہی تعمیر کروایا ہو گیا۔ سنگ مرمر کی ٹائلوں کے بیچ میں سے ٹونٹیاں نکلی ہوئی تھیں جن میں سے ہلکا ہلکا پانی آ رہا تھا۔
مسجد مکمل طور پر بھر چکی تھی۔ مجھے بمشکل برآمدے میں جگہ مل سکی۔ ٹھیک ایک بجے اذان ہوئی۔ اس کے بعد امام صاحب نے عربی اور ترکی زبان میں خطبہ شروع کیا۔ آج کے خطبے کا موضوع "غیبت، بدگمانی اور تجسس" تھا۔ یہ وہ گناہ ہیں جو ہمارے معاشرے میں پورے زور و شور سے پھیلے ہوئے ہیں مگر انہیں گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہر شخص دوسرے کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہے۔ کسی کے عمل کو مثبت انداز میں لینے کی بجائے ہمارے ہاں منفی سوچ عام ہے۔ جب تک یہ ذہن کے اندر رہتی ہے، یہ بدگمانی کہلاتی ہے۔ انسان جب دوسروں کے بارے میں منفی رویہ اختیار کرتا ہے تو اس کے بعد اگلا مرحلہ تجسس کا ہوتا ہے۔ دوسروں کی عیب جوئی کے لئے ان کی ٹوہ لی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان عیوب کو غیبت کی صورت میں اچھالا جاتا ہے۔ یہ تینوں گناہ وہ ہیں جن میں ہم مذہبی لوگ سب سے زیادہ مبتلا ہیں۔ امام صاحب نے سورہ حجرات کے حوالے سے بتایا کہ قرآن مجید میں بدگمانی سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنْ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ. (حجرات49:12 )
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔ بہت سے گمان تو گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کیا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کی غیبت کیا کرو۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ تم اس سے کراہت کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
ہمارے ہاں مساجد میں جمعہ کے خطبے زیادہ تر فرقہ وارانہ مسائل اور حکومت پر تنقید کی نظر ہو جاتے ہیں۔ اگر ان خطبات کو لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے نتائج بہت جلد سامنے آ سکتے ہیں۔ سال کے باون جمعوں میں اگر باون اخلاقی برائیوں یا اچھائیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے تو ہم اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
امام صاحب کی قرأت بہت دلکش تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم باہر نکلے تو مغربی سیاح مسجد سے نکلنے والوں کی دھڑا دھڑ تصاویر لے رہے تھے۔ بعض لوگ باقاعدہ فلم بنا رہے تھے۔ ان کے لئے یہ شاید نئی چیز ہو گی اور انہوں نے اپنے سفر ناموں میں اسے بیان کرنا ہو گا۔ اذان اور نماز کی یہ صورت غیر مسلموں کو عمل کے ذریعے اسلام کی دعوت پیش کرتی ہے۔ یہ لوگ اس سے کس حد تک متاثر ہوتے ہیں، اس کا اندازہ ایک مغربی مصنفہ کرسٹینا برزوسٹوسکی کے اس بیان سے ہوتا ہے۔
نماز کے لئے دی جانے والی ماورائی اذان کی آواز سے زیادہ کوئی چیز دل ہلا دینے والی نہیں ہے۔ نیلی مسجد کا لاؤڈ اسپیکر کھٹکھٹاتا ہے اور اس کے بعد "اللہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ" کی آواز نکلتی ہے۔ اس نغمے کی گونج پورے علاقے میں پھیل جاتی ہے جس سے پوری کی پوری فضا بھر جاتی ہے۔ ابھی یہ صدا ختم نہیں ہوتی کہ دوسرا مینار جاگ اٹھتا ہے اور (دوسری پکار کے ساتھ) اس پہلی صدا کا جواب دینے لگتا ہے۔ خاموشی کے چھوٹے سے وقفے کے بعد نیلی مسجد کی اذان دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ اذان کا یہ نغمہ خاموشی کے وقفوں کے ساتھ جاری رہتا ہے اور اس سے اعلی درجے کی موسیقی تخلیق ہوتی ہے۔ چند منٹ تک اذان جاری رہنے کے بعد یہ ختم ہوتی ہے۔ یہ پورا نغمہ استنبول کی ٹریفک کے شور کے درمیان بھی سنا جا سکتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ مسلم ممالک کا سفر کرنے والے ان سیاحوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متعلق کتابچے فراہم کیے جائیں تاکہ ان تک دین کا پیغام پہنچے۔ اس کے بعد یہی لوگ اپنی سفری داستانوں کے ذریعے اس پیغام کو اپنی باقی قوم تک پہنچا سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں دعوت دین کی اس ذمہ داری سے غفلت کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی بجائے اپنے لئے دلچسپی کے کچھ اور ہی میدان ڈھونڈ لیے ہیں۔ اہل مغرب کے بعض شریر حکمرانوں کے فساد کی وجہ سے ہمارے لوگ پوری غیر مسلم دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ اگر ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے تو چند فسادیوں کی وجہ سے عام انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو اللہ کے دین کی دعوت سے محروم نہ رکھتے۔ عین ممکن ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اس بات کا حساب ہم سے طلب کرے کہ ہم نے اس کے دین کی دعوت کے بارے میں اس قدر غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا۔
عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہاں یہ کمی بھی پائی جاتی ہے کہ انہوں نے دوسری قوموں تک اپنی دعوت پہنچانے کے لئے ادارے اس درجے میں قائم نہیں کیے۔ ہمارے دینی مدارس میں اسلام کے نہیں بلکہ مخصوص فرقوں کے مبلغ تیار ہوتے ہیں۔ ہماری دعوتی و اصلاحی تحریکوں میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جس نے غیر مسلموں تک دعوت دین پہنچانے کو اپنا ہدف بنایا ہو۔ البتہ مغربی ممالک میں بعض لوگ انفرادی یا اجتماعی سطح پر اس مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس عیسائیوں کے ہاتھ بہت ہی منظم دعوتی ادارے موجود ہیں۔ ان کے ہاں ہر علاقے کے مخصوص سماجی ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے مبلغ تیار کیے جاتے ہیں۔ افریقہ و ہندوستان کے قبائلی علاقوں کے لئے "ورلڈ ٹرائبل مشن" الگ سے کام کر رہا ہے۔
ہمارے ہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ دعوت دین کے لئے باقاعدہ مستقل ادارے بنائے جائیں۔ دینی مدارس کے تعلیم میں دعوت دین کو ایک سبجیکٹ کی صورت میں پڑھایا جائے۔ جو لوگ دعوت دین کو بطور فل ٹائم یا پارٹ ٹائم مشغلے کے طور پر اختیار کریں، ان کی کاؤنسلنگ کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ کاؤنسلنگ کا کچھ ذریعہ بناؤں تاکہ اس میدان میں اپنے تجربات ہم ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ جو قارئین اس کام میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ بذریعہ ای میل مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں میرا کتابچہ "دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار" دین کی دعوت دینے والوں کے لئے مفید ہو سکتا ہے۔
مسجد سے باہر نکلے تو ایک جگہ اسٹال لگا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ شام کو کسی آڈی ٹوریم میں گھومتے درویشوں کے رقص کا پروگرام ہے۔ یہ وہی رقص ہے جس کی تفصیل ہم قونیہ کے باب میں بیان کر چکے ہیں۔ یہاں اسٹال پر بروشر موجود تھے جن پر باقاعدہ تصاویر کے ذریعے رقص کی تفصیل دی گئی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس رقص پر باقاعدہ 40 لیرا کا ٹکٹ لگایا گیا تھا۔ ساتھ یہ بھی درج تھا کہ حاضرین کے لئے ڈرنکس مفت ہوں گے۔
بروشر دیکھ کر ہماری ہنسی نکل گئی۔ یہ ترک بڑے کمرشل نکلے۔ انہوں نے دنیا پرستی سے دور بھاگنے والے صوفیوں اور درویشوں کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ یہ آئیڈیا ہمارے ہاں کے کسی ٹور آپریٹر کو نہیں آیا۔ ورنہ عین ممکن تھا کہ مغربی سیاحوں کے لئے کسی آڈی ٹوریم میں مزاروں پر دھمال ڈالنے والے ملنگوں کے رقص کا اہتمام کیا جاتا۔ رقص کے ساتھ صوفیانہ موسیقی کے نام پر انہیں قوالی سنائی جاتی۔ ملنگوں کی گھوٹی ہوئی بھنگ کے سوم رس کا ایک ایک پیالہ حاضرین کو ٹکٹ کی قیمت میں ہی شامل کر کے پیش کیا جاتا جسے پی کر وہ معرفت کی منازل طے کرتے چلے جاتے۔ ابھی تک ہمارے لوگوں نے صرف قوالی کو کمرشلائز کیا ہے۔
سلطان احمد مسجد کے بالکل سامنے پارک تھا جس کے دوسری طرف آیا صوفیہ یا "حاگیہ صوفیہ" تھا۔ یہ ایک قدیم گرجا گھر تھا جو بادشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کرنے کے بعد 330ء کے لگ بھگ تعمیر کروایا تھا۔ یہ عمارت تباہ ہو گئی تھی جس کے بعد 537ء میں جسٹنین اول نے اس کی دوبارہ تعمیر کروائی۔ بعد میں اس کی تعمیر میں کچھ اضافے ہوتے رہے۔ 900 سال تک یہ چرچ، عیسائیت کے مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ صلیبی جنگوں کے دوران اسے خود ان عیسائی حملہ آوروں نے شدید نقصان پہنچایا جو کہ مخالف فرقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ فرقہ واریت چیز ہی ایسی ہے کہ انسان اس میں پڑ کر ایسا درندہ بنتا ہے کہ وہ عبادت گاہوں کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھتا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ہاں بھی پایا جاتا ہے جب مخالف فرقے کی مسجد میں بم دھماکہ کر کے عین نماز کی حالت میں لوگوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔
1453ء میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ میں نے تواریخ میں جب یہ پڑھا تو مجھے سخت حیرت ہوئی۔ دین اسلام قطعی طور پر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ پر قبضہ کر کے اسے مسجد میں تبدیل کیا جائے۔ یروشلم کی فتح کے موقع پر جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہر کے بڑے گرجا گھر میں پادریوں کے ساتھ مذاکرات میں مشغول تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ آپ نے گرجا کی بجائے اس کی سیڑھیوں میں نماز ادا کی۔ پادریوں نے جب اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: "میں نہیں چاہتا کہ مستقبل میں کوئی مسلمان یہ کہہ کر کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز ادا کی تھی، تم سے یہ گرجا چھیننے کی کوشش کرے۔ "
عجیب بات یہ ہے کہ سلطان کے اس اقدام پر ان کے علماء نے بھی توجہ کیوں نہیں دلائی۔ انہی تواریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عام عیسائی آبادی کے لئے سلطان نے بڑی وسعت نظری کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ عیسائی آبادی کے بڑی تعداد میں انخلا کے باعث یہاں وہ لوگ نہ رہے ہوں جو گرجا کی دیکھ بھال کر سکیں۔ اس وجہ سے اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ یہ عبادت گاہ ہی رہے۔ بعد میں مصطفی کمال نے اس عمارت کا عبادت گاہ کا اسٹیٹس ختم کرتے ہوئے اسے میوزیم کا درجہ دے دیا۔
آیا صوفیہ کی عمارت بڑی پر شکوہ ہے۔ یہ بازنطینی اور عثمانی آرکی ٹیکچر کا شاہکار ہے۔ گرجا کی اصل عمارت کو برقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کے گرد مینار تعمیر کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک محراب اور منبر کا اضافہ کیا ہے۔ گرجا کے گنبدوں میں اب بھی سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام اور سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کی تصاویر موجود ہیں۔ اس کے دوسرے فلور پر بازنطینی دور کے موزائک آرٹ کے نمونے بھی موجود ہیں جن میں باریک باریک پتھروں کی مدد سے تصاویر بنائی گئی ہیں۔ اس موزائک آرٹ کی تفصیل میں اپنے سفرنامے "قرآن اور بائبل کے دیس میں" کے باب "مادبہ" میں پیش کر چکا ہوں۔
آیا صوفیہ کی سائیڈ سے گزر کر ہم توپ کاپی محل کی جانب بڑھے۔ اینٹوں کی بنی ہوئی گلی میں چلتے چلتے ہم محل کے صدر دروازے پر جا پہنچے۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا گیٹ تھا جس کے دونوں جانب ایک بہت ہی موٹی دیوار جا رہی تھی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا مرکز تھا جسے اب میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح کے دوران رومی بادشاہ کا محل تباہ ہو گیا تھا، اس لئے سلطان محمد فاتح نے یہاں اپنے لئے محل تعمیر کروایا۔
محل کے دروازے میں داخل ہوئے تو دونوں جانب بندوقیں تھامے سپاہی بت بنے کھڑے تھے۔ یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ حقیقی انسان ہیں یا مومی اسٹیچو۔ ہم مسلسل انہیں دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر میں ایک سپاہی سے رہا نہ گیا اور اس نے پلکیں جھپکا ہی لیں۔ معلوم ہوا کہ حقیقی انسان ہیں۔ دروازے کے اندر ایک بہت بڑا لان تھا۔ اس کے ایک جانب محل کی مسجد بنی ہوئی تھی۔ محل کے دروازوں پر عربی و فارسی میں بہت سے اشعار لکھے ہوئے تھے جن میں سلاطین کی خوشامد سے لے کر ان کے دشمنوں کی تباہی و بربادی کی دعائیں تک درج تھیں۔ ایک شعر میں تو بادشاہ کے دشمنوں کو باقاعدہ گالیاں اور کوسنے دیے گئے تھے۔ کچھ اشعار پیش خدمت ہیں:
حضرت سلطان محمود ابن خان عبدالحمید۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشقیا مردود با بندن حرامی نابدید
جناب حضرت سلطان احمد خان ثالث کیم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سپہر سلطنت دہ ذات پاکی آفتاب نور
شہ تخت سعادت غازی صاحب کرامت دار۔ ۔۔۔۔۔ ولی پاک خصلت علم و حلم و لطف لہ مشہور
اس سے بادشاہوں کے گرد موجود مفاد پرست حلقے کی چمچہ گیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ یقیناً یہی وہ طبقہ تھا جو ان کے زوال کا باعث بنا تھا۔
لان کے دوسرے سرے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہاں تک تو معاملہ فری تھا۔ اب آگے جانے کے لئے ٹکٹ لینا ہو گی۔ ٹکٹ لے کر اگلا دروازہ پار کیا تو ہم ایک اور لان میں تھے۔ لان کے چاروں جانب کمرے بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے ہر کمرے کو نوادرات کی ایک خاص قسم کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ ایک کمرے میں سلاطین کے بستر تھے۔ دوسرے کمرے میں ان کے برتن، تیسرے میں ان کی انگوٹھیاں، چوتھے میں ان کے جوتے، پانچویں میں ان کی تلواریں، چھٹے میں ان کے کپڑے، ساتویں میں ان کی تصاویر، آٹھویں میں ان کے قالین اور اسی طرح اور بہت سے کمروں میں نجانے کیا الا بلا بھرا پڑا تھا۔
میری اہلیہ کو بادشاہوں کے زرق برق گھاگرے اور فراک بہت پسند آئے۔ انہیں اس بات کی حیرت ہوئی کہ یہ لباس ان کے مرد پہنا کرتے تھے۔ آج کل اس قسم کے لباس ہمارے ہاں صوبہ سرحد کے دیہات کی پٹھان خواتین پہنتی ہیں۔ بادشاہوں کی تصاویر بھی خوب تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی بچے نے بھدی سی پینٹنگز بنائی ہوں۔ ایک تصویر میں کسی سلطان کا پورٹریٹ بنایا گیا ہوا تھا۔ میں نے آج تک اتنا مسکین صورت بادشاہ نہیں دیکھا۔ اونچی ٹوپی میں وہ بادشاہ سلامت کی بجائے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے شیف معلوم ہو رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تصویر ان کی وفات کے بعد ہی بنائی گئی ہو گی ورنہ اگر ان کے سامنے یہ تصویر پیش کی جاتی تو وہ مصور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کر دیتے۔
بادشاہوں کی ہر چیز میں ہیرے جواہرات کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا۔ اور تو اور تلواروں اور خنجروں پر بھی ہیرے جواہرات لگائے گئے تھے۔ ایک تلوار پر ہزار کے قریب ہیرے جڑے تھے۔ تارڑ صاحب کے دوست علی کے بقول اس تلوار سے تو سلطان صاحب بادام ہی توڑتے ہوں گے، آدمی تو مرنے سے رہا۔
محل کی بالکنی سے گولڈن ہارن کا نظارہ
مغربی سیاحوں کے لئے ان اشیاء میں بہت کشش تھی۔ انہوں نے اپنے ملکوں میں جا کر اپنے دوستوں کو مشرقی بادشاہوں کے لگژری لائف اسٹائل کی داستانیں سنانا ہوں گی۔ اس کے برعکس میرے لئے یہاں سلطنت عثمانیہ کے زوال کی داستان اکٹھی کر دی گئی تھی۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے :
آ تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر امم کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔ شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
عثمانی سلاطین بھی اپنی ابتدا میں بڑے جفا کش اور محنتی لوگ تھے۔ جب انہوں نے محنت چھوڑ کر عیاشی کی زندگی اختیار کی تو ان پر زوال آ گیا۔ اسی زوال کی داستان یہاں اس عجائب گھر میں محفوظ کر دی گئی تھی۔
ایک کمرے سے نکل کر ہم آگے بڑھے تو ایک بالکنی ہمارے سامنے تھی جس سے گولڈن ہارن کا نظارہ نہایت ہی دلفریب نظر آ رہا تھا۔ اس معاملے میں سلاطین واقعی بہت ہی با ذوق واقع ہوئے تھے۔ بالکنی کے نیچے ایک ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا جس میں ہر چیز پانچ گنا قیمت پر فروخت کی جا رہی تھی۔
مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے ہم نے بادشاہوں کے دیوان عام اور خزانے کی عمارتیں دیکھیں۔ اس وقت یہ خالی ہال ہی تھے۔ ادھر ادھر سے ٹیکس اکٹھا کر کے انہیں سلاطین کی عیاشیوں پر خرچ کیا جاتا رہا تھا۔ اس معاملے میں یہ بادشاہ ہمارے آج کل کے جمہوری حکمرانوں سے بہرحال بہتر تھے کہ وہ اپنی عیاشیوں کے علاوہ ٹیکسوں کی اس آمدنی کا کچھ حصہ عوام پر بھی خرچ کر دیتے تھے۔ مسلم بادشاہوں نے اپنے زمانے کے معیار کے لحاظ سے تعلیم اور صحت کی جو سہولتیں اپنے عوام کو فراہم کی تھیں، اس کا عشر عشیر بھی غیر مسلم دنیا میں نہیں ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور کی مسلم دنیا باقی ممالک کے مقابلے میں بہت ترقی یافتہ تھی اور یہاں آ کر رہنا اور تعلیم حاصل کرنا اہل یورپ کا ایک خواب ہوا کرتا تھا۔
محل کے مختلف حصوں کو دیکھتے دیکھتے ہم اس کے آخری کونے تک پہنچ گئے۔ یہاں تین چار الگ کمرے بنے ہوئے تھے۔ ان میں داخل ہوتے ہیں تلاوت کی دلنواز آواز کان میں پڑی۔ معلوم ہوا کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سابقہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے منسوب تبرکات موجود ہیں۔ ان تبرکات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موئے مبارک، آپ کے قدم مبارک کا نشان، نعلین مبارک، آپ سے منسوب تلواریں،آپ کا نامہ مبارک، دندان مبارک اور لباس مبارک شامل تھے۔ اس کے علاوہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے منسوب برتن، سیدنا یوسف علیہ السلام سے منسوب عمامہ، سیدنا موسی علیہ السلام سے منسوب عصا اور سیدنا داؤد علیہ السلام سے منسوب تلوار بھی اس میوزیم کا حصہ تھیں۔ ان تبرکات کے علاوہ یہاں خانہ کعبہ کی کنجی، حجر اسود کا کیس، خانہ کعبہ کا پرانا دروازہ اور خانہ کعبہ میں استعمال ہونے والا ایک پرانا شہتیر بھی موجود تھا۔ ان تبرکات کی تصاویر اتارنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وجہ سے یہاں ہم haqonline.lightuponlight.com سے ان کی تصاویر پیش کر رہے ہیں:
ان تبرکات کے بارے میں حتمی طور تو یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی نسبت ان بزرگوں کی طرف درست ہے یا نہیں البتہ یہ تبرکات ان بزرگوں کی طرف منسوب ضرور ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ تبرکات آخری عباسی بادشاہ متوکل نے سلطان سلیم اول کو اس وقت دیے تھے جب سلطان نے عباسی خلافت کے خاتمے کا اعلان کر کے خود کو خلیفہ قرار دیا تھا۔
چونکہ انبیاء کرام خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی چیز کو منسوب کرنا دنیا و آخرت میں سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے اس معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں صحیح رویہ یہ ہے کہ اگر اس نسبت کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی دلیل نہ ہو تو خاموشی اختیار کی جائے اور کوئی تبصرہ کرنے سے باز رہا جائے۔ ہاں اگر کسی چیز کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف درست ہے تو پھر اس سے محبت و عقیدت ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ بقول مولانا حسن رضا خان
جو سر پر رکھنے کو مل جائے نعل پاک حضور
تو پھر کہیں گے کہ ہاں ! تاجدار ہم بھی ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب دو اصلی تبرکات ہمارے ہاتھوں میں موجود ہیں اور وہ ہیں آپ کا دیا ہوا قرآن اور آپ کی سنت طیبہ۔ افسوس کہ ہم نے ان تبرکات کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہے۔ قرآن و سنت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہماری محبت و عقیدت کے دائرے سے خارج ہو چکا ہے۔
میوزیم کے ایک جانب نوادرات کو ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹری بھی تھی۔ یہاں کاربن ڈیٹنگ ٹیسٹ کی سہولت میسر تھی جس کی مدد سے نوادرات کے اصل وقت کا پتہ چلایا جاتا ہے۔
تبرکات کی زیارت کے بعد ہم واپس مڑے۔ تھوڑی دیر میں ہم حرم سلطانی کے دروازے پر پہنچ گئے۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے چند اسباب تو ہم پہلے دیکھ آئے تھے مگر اس زوال کا سب سے بڑا سبب اس وقت ہمارے سامنے تھا اور یہ تھا سلاطین کا حرم۔ جو لڑکی بادشاہوں کو پسند آ جاتی اسے داخل در حرم کر دیا جاتا۔ اس کی تفصیل ہم اپنی کتاب "اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ" میں بیان کر چکے ہیں۔ وہی تفصیل ہم یہاں درج کر رہے ہیں:
حرم کے ادارے کا تصور مسلمانوں میں یونانی اور رومی سلطنتوں سے آیا۔ بادشاہ کو جو لڑکی پسند آ جاتی، اسے حرم میں داخل کر دیا جاتا۔ ان میں سے بعض خوش نصیب لڑکیوں کو ملکہ کی حیثیت حاصل ہو جایا کرتی تھی لیکن ان کی زیادہ تر تعداد لونڈیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اگر یہ معاملہ صرف بادشاہ تک ہی محدود رہتا تب بھی اس کے اثرات زیادہ نہ پھیلتے لیکن بادشاہ کی دیکھا دیکھی شہزادوں، وزراء، فوجی جرنیلوں، درباریوں اور بڑے تاجروں نے بھی اپنے حرم بنانے شروع کر دیے۔
مسلم سلطنت کے ان علاقوں، جن میں حکومت کی رٹ مضبوط نہ ہوا کرتی تھی، کم سن بچیوں کو اغوا کر کے لونڈی بنایا جاتا۔ ان میں خاص طور پر وسط ایشیا کے ممالک جارجیا اور آذر بائیجان قابل ذکر ہیں جہاں کی خواتین بہت خوبصورت ہوا کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں بھی خواتین کی بطور طوائف اسمگلنگ میں ان علاقوں کا ایک خاص کردار ہے۔ اس کے علاوہ غیر مسلم ممالک جیسے یورپ وغیرہ میں بھی بچیوں کو اغوا کر کے مسلم ممالک میں اسمگل کر دیا جاتا۔
ان بچیوں کو تجربہ کار نخاس یا بردہ فروش ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں فروخت کر دیا کرتے تھے۔ فروخت ہوتے ہوتے یہ ان لوگوں کے ہاتھ میں آ جایا کرتی تھیں جن کا کام ہی ان بچیوں پر طویل المدت سرمایہ کاری کرنا ہوا کرتا تھا۔ ان لونڈیوں کی اعلی درجے کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا اور انہیں شعر و ادب، موسیقی، رقص اور دیگر فنون لطیفہ کی تربیت دی جاتی۔ صنف مخالف کے جذبات کو ابھار کر اسے اپنے قابو میں لانے کی خاص تربیت ان لونڈیوں کو دی جاتی تھی۔ ان کے مربی عموماً ان سے اچھا سلوک کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اپنی انوسٹمنٹ کو واپس وصول بھی کرنا ہوا کرتا تھا۔
جوان ہونے پر ان لونڈیوں کی بولیاں لگتیں اور شاہزادے اور رئیس ان کی خریداری میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ جو شخص سب سے زیادہ بولی دیتا وہ لونڈی کا مالک بن جایا کرتا تھا۔ بسا اوقات کچھ رئیس کسی لونڈی کے مربی کو اس کے بچپن ہی میں ایڈوانس رقم دے کر اس کی جوانی کی بکنگ کروا لیا کرتے تھے۔ لونڈی کی پہلی ازدواجی رات اسے دلہن بنایا جاتا اور اس کا مالک اس سے بطور سہاگ رات کے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یہ رسم آج بھی "نتھ اتروائی" کے نام سے جاری ہے۔ اس صورتحال کے معاشرے پر اثرات سے متعلق رضا الشیرازی لکھتے ہیں:
لونڈیوں کی کثرت ہوتی چلی گئی اور اس کے باعث مردوں کے دلوں سے غیرت نکلتی چلی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ ایک دوسرے کو لونڈیوں کا تحفہ دینے لگے جن میں رومی، ترکی اور ایرانی لونڈیاں شامل تھیں۔ یہ عرب عورتوں کی نسبت زیادہ خوبصورت اور ملائم چہرے کی حامل ہوا کرتی تھیں۔ پہلے مرد دوسروں کی خواتین کو نہ تو دیکھا کرتے تھے اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے خواتین محفوظ ہوا کرتی تھیں۔ جب خواتین کی کثرت ہو گئی تو غیرت کم ہوتی چلی گئی۔ جب کسی بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کی مشغولیت میں کمی واقع ہو گئی تو اس کی عصمت، عقل اور شرف کے بارے میں مرد کی توجہ بھی کم ہوتی چلی گئی۔
جیسے جیسے عباسی عہد میں تمدن ارتقاء پذیر ہوتا رہا، عرب شہروں میں خواتین نے بھی اپنی آزادی اور غیرت کو بھلا دیا۔ بسا اوقات خواتین خود اپنے شوہر کا قرب حاصل کرنے کے لئے اسے خوبصورت لونڈی کا تحفہ دینے لگیں۔ خاوند کا دوسری عورت سے ازدواجی تعلقات قائم کرنا ان کے لئے بڑا مسئلہ ہی نہ رہنے لگا اور نہ ہی ان کے لئے یہ بات حسد کا باعث رہنے لگی۔ (محمد رضا الشیرازی، الآداب الاجتماعیۃ فی المملکۃ الاسلامیۃ)
ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں جا بجا اس بات کا ذکر کیا ہے کہ خوبصورت رومی لونڈیاں امراء کے حرم میں موجود تھیں۔ اندلس اور ترکی کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں کے حماموں میں مرد اپنی لونڈیوں کو لے کر غسل کرنے کے لئے جاتے ہیں جہاں مرد و عورت ایک ہی بڑے سے ہال میں برہنہ ہو کر غسل کرتے ہیں۔ اس دور کے حمام کو آج کل کے مساج سینٹر اور بیوٹی پارلر سمجھ لیجیے۔ غرض یہ کہ جو کچھ آج عیاشی کے بڑے بڑے اڈوں پر ہو رہا ہے، وہی سب کچھ مسلم امراء کے حرم میں ہوا کرتا تھا۔
حرم میں داخل ہونے کے بعد لونڈیوں کے ساتھ مختلف قسم کے حالات پیش آیا کرتے تھے۔ بعض لونڈیاں تیز طرار ہوتیں اور اپنے مالک کو قابو میں لے کر اس کے گھر کی مالکن بن بیٹھتیں۔ شاہزادوں اور بادشاہوں کی لونڈیاں بسا اوقات ان کے ہوش و حواس پر چھا کر مملکت کے امور کی نگہبان بن جایا کرتی تھیں۔ ابن الطقطقی کے بیان کے مطابق عباسی بادشاہ الھادی باللہ کو اس کی سوتیلی ماں کے حکم پر لونڈیوں ہی نے اس کا سانس بند کر کے قتل کیا تھا۔
اسی طرح ابن طقطقی کے بیان کے مطابق آل بویہ کا حکمران عضد الدولہ ایک لونڈی کے عشق میں اتنا پاگل ہوا کہ امور سلطنت سے ہی غافل ہو گیا جس سے پوری سلطنت کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ اس کے بعد جب اسے ہوش آئی تو اس نے خود اپنے ہاتھ سے اسی لونڈی کو دریائے دجلہ میں ڈبو کر ہلاک کر دیا۔ اسی طرح مغلیہ دور میں انارکلی کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے شہزادہ سلیم کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا لیکن جہاندیدہ بادشاہ اکبر نے شہزادے کو اس سے محفوظ رکھنے کے لئے اسے زندہ دیوار میں چنوا دینے کی سزا سنائی تھی۔ معلوم نہیں کہ یہ واقعہ محض فکشن ہی ہے یا اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ شہزادے صاحب اتنے دل پھینک واقع ہوئے تھے کہ جب بادشاہ بنے تو پھر بھی اپنی ملکہ نورجہاں کے مکمل کنٹرول میں رہے۔ اگر جہانگیر کے بعد دو اچھے کردار کے بادشاہ مغلیہ خاندان کو نہ ملتے تو مغلیہ سلطنت کا زوال سو برس پہلے ہی شروع ہو جاتا۔
حرم کی جن لونڈیوں میں تیزی طراری کی صفت مفقود ہوا کرتی تھی، اول تو ان کا شاہی حرم تک پہنچنا ہی ناممکن تھا، اگر وہ یہاں تک پہنچ بھی جاتیں تو بادشاہ یا شہزادے کا دل ان سے جلد ہی بھر جاتا۔ اس کے بعد ان کی پوری زندگی ایک نہایت ہی بھیانک انتظار کا شکار ہو جاتی۔ جو زیادہ پارسائی کا مظاہرہ کرتیں، وہ ہسٹریا کی مریض بن جاتیں اور جو اپنی خواہشات پوری کرنے کے دوسرے راستے اختیار کرتیں، وہ شاہی عتاب کی زد میں آ کر موت سے ہمکنار ہوتیں۔
کنیزوں میں محافظوں اور شاہی خاندان کے دوستوں کے ساتھ صنفی تعلقات استوار کر لینے کے واقعات بھی بکثرت ملتے ہیں۔ کسی کنیز سے دل بھر جانے کے بعد اسے کسی دوست یا افسر کو تحفتاً پیش کر دینے کا رواج بھی شاہی خاندانوں میں عام رہا ہے۔ بہت سی کنیزیں محلات کی اندرونی سازش میں مختلف بیگمات، شہزادوں اور شہزادیوں کے جاسوسوں کا کردار بھی ادا کیا کرتی تھیں۔ فریق مخالف کے غالب آ جانے کی صورت میں ان کی بقیہ زندگی پس زنداں گزرا کرتی تھی۔
وزراء، امراء اور درباریوں کی کنیزوں کے ساتھ بھی ذرا کم تر سطح پر یہی معاملہ پیش آیا کرتا تھا۔ ان کی سیاست اپنے حرم کی حدود میں جاری رہتی۔ ان میں سے جو کنیز ذرا زیادہ تیز ہوتی، وہ ترقی پا کر کسی بادشاہ یا شہزادے کے حرم میں داخل ہو جاتی اور کچھ عرصہ دولت سمیٹنے کے بعد واپس اپنے مقام پر آ جاتی۔ افسوس کہ غلامی کے خاتمے کے بعد اب بھی حرم بنانے کا یہ سلسلہ مسلم دنیا میں جاری ہے جس میں لالچ، قانونی معاہدوں اور اغوا کے ذریعے لونڈیاں اور غلام بنائے جاتے ہیں۔
لونڈیوں کے علاوہ ہم جنس پرست قسم کے امراء خوبصورت نوجوان لڑکے بھی اپنے حرم میں رکھ لیا کرتے تھے اور ان سے جنسی طور پر لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ان لڑکوں کو "امرد" کہا جاتا تھا۔ ان لڑکوں کو بھی ناز و ادا دکھا کر اپنے شوقینوں کے صنفی جذبات کو بھڑکانے کی بھرپور تربیت دی جاتی تھی۔ جاحظ نے اپنے رسائل میں اپنے مخصوص ادیبانہ انداز میں ایسے لوگوں پر شدید تنقید کی ہے اور ان کی بدکاریوں پر کڑا محاسبہ کیا ہے۔ ابن بطوطہ نے جزیرہ مالی کے اپنے سفر میں شاہی دربار پر تنقید کی ہے جس میں خوبصورت لونڈیوں اور غلاموں کو عریاں کر کے کھڑا کیا جاتا تھا۔ لکھتے ہیں:
لونڈیاں اور غلام دربار میں عریاں حالت میں کھڑے ہوتے تھے جہاں انہیں سب ہی دیکھتے تھے۔ بادشاہ کے ماتحت اس کے سامنے آ کر اپنے عجز و انکسار کا اظہار اس طرح سے کرتے کہ وہ اپنی کمانیں زمین پر مارتے اور راکھ اور خاک کو اپنے سر پر ڈالتے۔ شاہی شاعر پرندوں کے لباس پہنے ادھر ادھر گھوم رہے ہوتے تھے۔
جیسا کہ شیرازی نے بیان کیا ہے مردوں کی اس شہوت پرستی کے اثرات عام آزاد خواتین پر بھی وقوع پذیر ہونے لگے۔ ایک مرد اگر خوبصورت لونڈیوں کے جھرمٹ میں ہر وقت رہے گا تو اس کے پاس اپنی بیوی کے لئے وقت کہاں بچ سکے گا۔ اس کے نتیجے میں بیوی اور دیگر لونڈیاں لازماً دیگر راستے تلاش کرے گی۔ اس صورتحال کا تجزیہ مشہور محدث ابن جوزی نے ان الفاظ میں کیا ہے :
مجھ سے بعض بوڑھے حضرات نے شکایت کی، "میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اور میری قوت کمزور پڑ گئی ہے، پھر بھی میرا نفس نوجوان لونڈیوں کی خواہش کرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مجھ سے نکاح کرنا چاہتی ہیں جبکہ میں اس قابل نہیں رہا۔ اگرچہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں مگر میرا نفس گھر والی پر قناعت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ "
میں نے کہا، "میرے پاس دو جواب ہیں: ایک تو عام لوگوں کا جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ موت کو زیادہ یاد کرنے میں مشغول ہو جائیے اور اسی طرف اپنی توجہ رکھیے۔ اس بات سے محتاط رہیے کہ جو شخص لونڈی خریدتا ہے اور پھر اس کے حقوق کی ادائیگی نہیں کر پاتا تو وہ اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ اگر وہ (ازدواجی تعلقات کی ناکام) کوشش کرتا ہے تو یہ نفرت جلد پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر اس کی خواہش باقی رہ جائے تو اس کی نفرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لڑکیاں بوڑھوں کو پسند نہیں کرتیں۔ جان رکھیے کہ وہ اس کا بدلہ اس طرح لے گی کہ آپ سے مال بٹور کر کسی اور سے تعلق قائم کر لے گی اور آپ کا معاملہ ٹیڑھا کر دے گی۔ اس لئے اپنی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھیے اور اس کام کو ترک کر دیجیے اور اسی لذت پر قناعت کیجیے جو آپ پہلے حاصل کر چکے۔
دوسرا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ اس بات کو نہ بھولیے کہ اس وقت آپ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر آپ اس قابل نہیں ہیں تو اس کام کو مکمل طور پر چھوڑ کر اس پر صبر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر کوئی کسی عورت کو محض اخراجات اور اچھے تعلقات کا لالچ دے کر ایسا کرے گا بھی تو یہ خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔ اگر آپ اس وقت بھی ایسا کرنے کے قابل ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے نفس میں نوجوان لڑکیوں کی شدید خواہش ہے تو ان (بے چاریوں) کو تو نکاح یا ازدواجی تعلق کی خواہش ہی نہیں ہے۔ ایسی لونڈیوں سے تو حسن سلوک کرنا چاہیے اور ان پر خرچ کرتے ہوئے احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اگر ان سے ازدواجی تعلقات قائم بھی کریں تو آپ کو انزال کو اس وقت تک روکنا چاہیے جب تک کہ خاتون کی ضرورت پوری نہ ہو جائے۔ (اس کے ساتھ ساتھ) خاتون کو آخرت کی یاد بھی دلاتے رہیے، نکاح سے ہٹ کر عشق کی برائی بیان کیجیے اور اسے عشاق کے (عبرت ناک انجام) کے واقعات سنائیے۔ اچھے لوگوں کے ذکر سے اس کے دل میں (نیکی کی) محبت پیدا کیجیے۔ اپنے لباس اور شکل و صورت کا خیال رکھیے، اس سے اچھا سلوک کیجیے، اس کی ضروریات کا خیال رکھیے اور اس پر خرچ کرنے میں وسعت سے کام لیجیے۔ اس طریقے سے امید ہے کہ آپ خطرہ مول لینے کے ساتھ ساتھ زندگی کی گاڑی کو کھینچ لیں گے۔ (ابن جوزی، صید الخاطر)
شاہی خاندانوں نے اتنے بڑے بڑے حرم بنا لئے تھے کہ ان میں ہزاروں کی تعداد میں لونڈیاں موجود رہا کرتی تھیں۔ حرم کا مالک، خواہ کتنے ہی کشتے اور معجون وغیرہ کھا کر اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کی کوشش کرے، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں موجود خواتین کو جنسی اور نفسیاتی اعتبار سے مطمئن کر سکے۔ حرم رکھنے کا لازمی نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ یہ خواتین اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے متبادل راستے تلاش کریں۔ یہ بات شاہی خاندانوں کو گوارا نہ تھی۔
شاہی خاندانوں کے لئے مشکل یہ تھی کہ اگر وہ حرم کی حفاظت پر محافظ مقرر کرتے ہیں تو یہی محافظ ان کی جھوٹی عزت کے لٹیرے بن جائیں گے۔ خواتین کی فوجی تربیت اتنی عام نہ تھی کہ ان پر فوجی خواتین کو ہی محافظ بنا دیا جائے۔ مسلمان بادشاہوں کو یونانی معاشرے سے اس مسئلے کا حل مل گیا۔ وہ حل یہ تھا کہ مخنثوں پر مشتمل ایک پولیس تشکیل دی جائے اور حرم کی حفاظت کا کام اس پولیس کے سپرد کر دیا جائے۔
قدرتی طور پر مخنث اتنی بڑی تعداد میں پیدا نہیں ہوتے کہ ان کی ایک باقاعدہ پولیس فورس تشکیل دی جا سکے۔ اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی تھی اور وہ یہ کہ مردوں کو خصی کر کے مخنث بنایا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ اسلام میں کسی مرد یا خاتون کو مخنث بنانا قطعی حرام ہے۔ بعض راہبانہ مزاج رکھنے والے صحابہ نے ایسا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ یہ کام مسلم سلطنتوں کی حدود سے باہر انجام دیا جانے لگا۔ بردہ فروشوں نے افریقہ، وسط ایشیا اور یورپ کے غیر مسلم ممالک کے بردہ فروشوں سے تعلقات قائم کر لئے۔ یہ لوگ اپنے ہاں کے غلاموں اور جنگی قیدیوں کو مخنث بنا کر انہیں مسلم ممالک کی طرف اسمگل کر دیتے۔ چونکہ یہ سارا کاروبار بادشاہوں کی خواہش سے ہوا کرتا تھا اس وجہ سے اس پر حکومت کی جانب سے کوئی پابندی عائد نہ تھی۔ خواجہ سراؤں کو محلات میں ایسا آزادانہ مقام حاصل ہونے لگا کہ حرم کی بیگمات اور لونڈیاں بھی بسا اوقات اپنی ناآسودہ خواہشات سے مجبور ہو کر انہی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہو جایا کرتی تھیں۔ مسلم سلاطین اور امراء کی اس شہوت پرستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی حکومتیں زوال کا شکار ہونے لگیں۔
توپ کاپی محل سے نکل کر ہم پارکنگ کی طرف بڑھے۔ پارکنگ بوائے نے بارہ لیرا بطور فیس وصول کر کے ہمیں گاڑی لے جانے کی اجازت دے دی۔ گلیوں سے نکل کر اب ہم مین روڈ پر آ گئے۔ یہ استنبول کی ساحل یولو تھی جو کہ ساحل کے عین کنارے پر بنی ہوئی تھی۔ ہمارے ساتھ ساتھ پرانے شہر کی فصیل چل رہی تھی۔ اس وقت ہم "گولڈن ہارن" کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ نیلا سمندر ایک جھیل نما دریا کی صورت میں ہمارے دائیں جانب پھیلا ہوا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم اس تاریخی پل پر پہنچ گئے جو "پل غلطہ" کہلاتا ہے۔ یہ پل گولڈن ہارن کے عین دھانے پر بنا ہوا ہے۔
اس مقام پر تاریخ میں متعدد پل موجود رہے ہیں۔ 1502ء میں یہاں سلطان بایزید دوم نے پل تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیا جو کہ ناکام رہا۔ 1845ء میں یہاں پہلا پل تیار ہوا جو کہ "جسر جدید" کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں گولڈن ہارن پر آگے کی جانب ایک قدیم پل موجود رہا ہے جو کہ "جسر قدیم" کہلایا کر تا تھا۔ اس کے بعد اس پل کی چار مرتبہ تعمیر نو ہوئی۔ موجودہ پل 1994ء میں تعمیر ہوا ہے کیونکہ اس سے پہلے والے پل کو 1992ء میں آگ لگ گئی تھی۔
پل پار کر کے تھوڑی دیر میں ہم "غلطہ ٹاور" جا پہنچے۔ یہ ایک پرانا مینار ہے جو 1348ء میں رومیوں نے تعمیر کیا تھا۔ جس زمانے میں تارڑ صاحب نے یہاں کا سفر کیا تھا، اس وقت غلطہ ٹاور کے اوپر فائر بریگیڈ کا دفتر تھا۔ آج کل اسے ایک تاریخی ورثہ قرار دے کر محفوظ کر دیا گیا ہے۔
یہاں سے یو ٹرن لے کر ہم واپس مڑے اور پل غلطہ دوبارہ پار کر کے گولڈن ہارن کے یورپی کنارے پر واپس آ گئے۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایک جگہ سمندر کنارے ایک پارک نظر آیا۔ یہاں کچھ دیر گاڑی روک کر ہم بیٹھے۔ میں نے قریبی دکان سے اپنے لئے بطور لنچ پھل خریدے۔ ماریہ کو یہاں کے جھولے بہت پسند آئے۔ سمندر میں چھوٹے بڑے بحری جہاز گزر رہے تھے۔ ساحل سے تازہ تازہ ہوا مشام جاں کو معطر کر رہی تھی۔ عین ساحل پر ایک سڑک بنی ہوئی تھی۔ یہاں کنارے پر بھی پانی کافی گہرا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہاں کوئی جنگلا وغیرہ نہیں لگا ہوا تھا اور بچے کھیل رہے تھے۔
پارک میں کچھ دیر گزار کر ہم دوبارہ سڑک پر آ گئے اور گولڈن ہارن کے اوپر کی جانب بڑھنے لگے۔ تھوڑی دیر میں ہم استنبول کے "ایوب ڈسٹرکٹ" میں داخل ہو گئے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں میزبان رسول سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر موجود ہے۔ اب یہ ایک گنجان آباد محلہ ہے۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اصل نام خالد بن زید تھا۔ آپ مدینہ کے قبیلہ بنو خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اسے شرف میزبانی بخشیں۔ آپ نے فرمایا کہ جہاں میری اونٹنی رکے گی، وہیں میرا قیام ہو گا۔ یہ اونٹنی خود بخود سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے جا رکی۔ یہ وہی مقام ہے جہاں آج مسجد نبوی واقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں اس وقت تک قیام فرمایا جب تک کہ مسجد نبوی اور آپ کی رہائش کے لئے چند کچی اینٹوں کے کمرے تیار نہ ہو گئے۔
جنگ بدر، احد اور خندق میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ رہے۔ دور خلافت میں بھی آپ جذبہ جہاد سے سرشار تھے۔ طبقات ابن سعد میں آپ کے حالات زندگی کے تحت بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں 53 ہجری یا 674ء میں ایک مہم قسطنطنیہ کی طرف اپنے بیٹے یزید کی سرکردگی میں بھیجی۔ اس مہم میں سیدنا حسن و حسین اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے اکابرین شامل تھے۔ اس زمانے میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے لیکن آپ بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے۔
مسلمانوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔ اس دوران آپ بیمار پڑ گئے۔ یزید آپ کی خدمت میں عیادت کے لئے حاضر ہوئے اور آپ سے آپ کی آخری خواہش دریافت کی۔ آپ نے فرمایا، "ہاں، میری خواہش یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے سوار کر کے دشمن کے علاقے میں جہاں تک ممکن ہو لے جانا۔ جہاں سے وہ آگے نہ بڑھنے دیں، مجھے وہیں دفن کر دینا۔" جب آپ نے وفات پائی تو یزید نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں جہاں تک ممکن ہوا، اندر لے جا کر آپ کو دفن کیا۔
آپ کی شخصیت کچھ ایسی تھی کہ رومی بھی آپ کے عقیدت مند ہو گئے تھے۔ آپ کے جنازے میں بعض رومیوں نے بھی شرکت کی۔ بعد کے ادوار میں بھی ان کے ہاں آپ کی حیثیت ایک "سینٹ" کی رہی۔ چونکہ عیسائی حضرات میں قبر پرستی بہت پائی جاتی ہے اس وجہ سے انہوں نے اپنے سینٹ یا اولیاء اللہ کی طرح آپ کی قبر کو بھی مرجع خلائق بنا لیا۔ ابن سعد (م 230ہجری) بیان کرتے ہیں کہ آپ کی قبر قسطنطنیہ کے قلعے کی دیوار کی جڑ میں ہے۔ روم کے لوگ اپنے معاہدے آپ کی قبر پر آ کر کرتے ہیں۔ وہی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور جب قحط میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہاں آ کر دعا کرتے ہیں۔
بعض تاریخی روایات میں آتا ہے کہ جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو آپ سلطان کے خواب میں تشریف لائے اور اسے اپنی قبر پر ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک بالکل ہی بے اصل روایت ہے۔ اگر آپ کو اپنی قبر مبارک پر مقبرہ بنانے کی شوق ہوتا تو آپ اپنی وفات سے پہلے اپنے ہی ساتھیوں ہی کو حکم دیتے کہ میرے مرنے کے بعد میرا ایک عظیم الشان مزار بنوانا اور اسے عبادت گاہ کا درجہ دینا۔ اس کے لئے آپ کو چھ سو سال کا انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ یقیناً اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان ارشادات سے واقف تھے کہ :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض وفات میں ارشاد فرمایا: "اللہ نے ان یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائی جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو نماز کی جگہ بنا لیا۔ " آپ فرماتی ہیں: "اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ حضور کی قبر کو بھی لوگ نماز کی جگہ بنا لیں گے تو آپ کی قبر مبارک کھلی جگہ پر ہوتی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر لکھنے، ان پر عمارت تعمیر کرنے اور ان پر پاؤں رکھ کر چلنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی، کتاب الجنائز)
آپ نے گمنامی کے لئے دشمن کی سرزمین کا انتخاب کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کے طریقے پر چلتے ہوئے آپ کی قبر مبارک پر مسجد تعمیر کر ڈالی اور ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کر دیا۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے منسوب مسجد کی تعمیر سلیمان کے دور میں ہوئی تھی اور یہ ترکی اسٹائل کی مسجد ہے۔ مسجد سے گولڈن ہارن کا نظارہ بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔
اب ہم واپس ہوٹل کی طرف جا رہے تھے کہ راستہ بھول گئے۔ سامنے ایک جگہ فاسٹ فوڈ کے بہت سے ریسٹورنٹ تھے۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے ہم نے یہاں سے کچھ برگر وغیرہ لیے۔ کچھ دیر بعد راستہ ڈھونڈ کر واپس ہوٹل پہنچے۔ اگلی رات گزار کر صبح اٹھے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر میں پارکنگ میں گیا جہاں گاڑیاں دھونے کا اہتمام بھی تھا۔ چونکہ آج گاڑی بھی واپس کرنا تھی، اس لئے اسے دھلوا کر صاف کروایا۔ ہماری فلائٹ پونے تین بجے کی تھی جس کے لئے بارہ بجے ایئر پورٹ پہنچنا ضروری تھی۔
تھوڑی دیر میں ہم ایئر پورٹ جا پہنچے۔ بورڈنگ پاس اور امیگریشن کے مراحل سے گزر کر ہم لاؤنج میں جا بیٹھے۔ جہاز ٹھیک وقت پر روانہ ہوا۔ جہاز میں زیادہ تر ترک ہی تھے جو عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب جا رہے تھے۔ تین گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم اہل محبت کے خوابوں کی سرزمین یعنی مدینہ منورہ کے ایئر پورٹ پر جا اترے۔ یہ ایئر پورٹ مدینہ منورہ سے مشرقی جانب قصیم اور ریاض جانے والی موٹر وے پر واقع ہے۔
مدینہ منورہ کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر موجودہ حکومت نے حرم مدنی کے مشرقی حصے میں "نالج اکنامک سٹی" کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق یہاں ایک جدید شہر بسایا جائے گا جس میں دنیا بھر سے اعلی تعلیم یافتہ حضرات کو یہاں لا کر آباد کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے یہاں ایسی انڈسٹری کو فروغ دیا جائے گا جس میں اعلی درجے کی فنی مہارت کی ضرورت ہو گی۔ میڈیکل، انجینئرنگ، آئی ٹی، کامرس غرض ہر شعبے کے ممتاز ماہرین کو یہاں لا کر آباد کیا جائے گا۔ اس طریقے سے مدینہ منورہ، جو کبھی مسلمانوں کے اعلی ترین دماغوں کا مرکز ہوا کرتا تھا، ایک مرتبہ پھر عالم اسلام کا علمی مرکز بن جائے گا۔ اللہ تعالی اس خواب کو پورا کرے۔
زیادہ تر زائرین مدینہ ہی اتر گئے تھے۔ اب جہاز خالی تھا۔ آدھے گھنٹے بعد اس نے پھر پرواز شروع کی۔ اس مرتبہ جہاز نے پورے مدینہ کے گرد چکر لگایا۔ میری کھڑکی شہر کی جانب تھی۔ فضا سے مدینہ منورہ کو دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ اس وقت اندھیرا چھا رہا تھا اور شہر کی لائٹس آن کر دی گئی تھیں۔ شہر کے بیچوں بیچ چمکتے سفید رنگ کی مسجد نبوی اپنی بہاریں دکھا رہی تھی۔ شہر کے چاروں طرف گول رنگ روڈ نے احاطہ کیا ہوا تھا۔
تقریباً بیس منٹ کی فلائٹ کے بعد ہم جدہ ایئر پورٹ پر جا اترے اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس سفر سے حاصل کردہ تجربات سے سبق سیکھنے اور ان سے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.mubashirnazir.org/ER/0020-Turkey/L0020-0000-Turkey.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید