08:33    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

فکاہیاتِ سرفراز

1284 1 0 05

سرفراز صدیقی - 2013-اگست-2

عورت ایک منفرد تخلیق

دنیا کی تمام خواتین اوراپنی بیگم سے معذرت کے ساتھ میں یہ تحریر آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ خواتین سے معذرت اس لیے کہ وہ شائد اس کو پڑھ کر برُا مان جائیں اور بیگم سے معذرت اس لیے کہ ہر عقلمند شوہر کو گاہے بگاہے، بات بے بات، وجہ بے وجہ بیگم سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ جس طرح اللہ سے بار بار معافی مانگنے پرحقیقی جنت کی اُمید کی جاتی ہے اُسی طرح بیوی سے بے بھاؤ معافی مانگنے سے جنتِ اَرضی کی اُمید بھی کی جا سکتی ہے اور بالفرض انسان کے مقدر میں دُنیاوی جنت نہ بھی ہوتو اِس بات میں کم از کم شوہر کی جان اور عزت دونوں کی سلامتی کا راز تو ضرور پنہا ہے!

آپ نے کبھی نہ کبھی تو یہ محسوس کیا ہوگا کہ دُنیا بھر کے گدھے ہو بہو ایک شکل کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک عورت کے لیے مرد خواہ وہ کسی رشتے میں ہو ایک ہی طرح کا ہوتا ہے ! ہاں عورت کی مثال آپ فنگر پرنٹ سے دے سکتے ہیں، یوں وہ دُنیا کے ہر رشتے میں منفرد ہوتی ہے۔ ایک ہی عورت بیک وقت شوہر کے لیے کچھ، باپ کے لیے کچھ، بیٹے کے لیے کچھ، بھائی کے لیے کچھ اور داماد کے لیے کچھ اور روپ دھارتی ہے، لیکن مقصد ہر روپ کا ایک ہی ہوتا ہے: درپردہ حکمرانی!

کہتے ہیں وجود زن سے ہے کائنات میں رَنگ مگر ہماری ناقص رائے میں شاعر نے یہاں کسرنفسی سے کام لیا ہے۔ ایک آدھ رنگ کی کیا حقیقت عورت کے سامنے تو پوری کی پوری قوس و قزاح بھی پھیکی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے خیال میں تو وجود زن کی بدولت تمام کی تمام کائنات موجود ہے۔ خالق حقیقی نے یہ وسیع و عریض کائنات شاید بنائی ہی عورت کے لیے ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو پہلے تخلیق کرنا بھی شائد اسی لیے تھا کے اُنکی پسلی کی ہڈی کو باہر نکال کراُس سےعورت بنانا مقصود تھا۔ اب وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ہر اِبن آدم کی پسلی اپنی حوّا کے آتے ہی یعنی شادی کے دن سے ہی درد کرنا شروع کر دیتی ہے! اور پھر درد بڑھتا جاتا ہے جوں جوں دوا کی جاتی ہے! اب چونکہ یہ بات وسوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ کون سی پسلی سے اَماں حوّا کو پیدا کیا گیا تھا اس لئے درد کبھی بائیں جانب ہوتا ہے تو کبھی دائیں اور بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں جانب تکلیف برابر ہے۔ یہ وہ منحوس وقت ہوتا ہے جب ساس بہو کے درمیان گھمسان کا رن پڑرہا ہوتا ہے۔

ایک مرد اپنی زندگی کی ابتدا میں سب سے پہلے روتا ہوا ماں کی گود میں آتا ہے۔ ماں بڑی ممتا سے اُس کے آنسو پوچھتی ہے اور سینے سے لگا کر اُسے چپ کرواتی ہے۔ غالباً اِس لیے کہ وہ یہ نہیں چاہتی کہ اُس کا بیٹا اِن قیمتی آنسوؤں کو بلا وجہ اپنے بچپنے کی نظر کر دے بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اُس کا فرزند اِن موتیوں کو صحیح وقت یعنی شادی کے بعد کے لیے سنبھال کررکھے۔ بعد ازاں ماں بڑے پیا ر ومحبت سے پال پوس کر اپنے نورِ چشم کو بڑا کرتی ہے اور اسی دوران خاموشی سے اپنی اولاد کی حقیقی جنت اپنے پاؤں کے نیچے داب لیتی ہے مگر اُس چُغد کوتاحیات یہ پتا ہی نہیں چلتا اُس کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہو گیا ہے!

پھر جب یہ سن شعور کو پہنچتا ہے توبلکل ہی گاؤدی ہو جاتا ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی پسلی اور ارضی جنت کی تلاش اَسے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی اور یوں وہ اپنی ایک نجی خُلد کی تعمیر کے خواب بنُنا شروع ہوجاتا ہے۔ ماں کواس 'دوسری قسم' کی بہشت کے بارے میں سب کچھ اچھی طرح پتا ہوتا ہے مگر وہ بھی اِس گھامڑ کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے اور بالآخر بڑے چاؤ سے اُس 'اَرضی جنت' کو گھر لے ہی آتی ہے۔

اس جنت کے گھر آتے ہی سکون کی دیوی اِنتہائی طوطا چشمی سے گھر چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے اور آخر کار دوزخ اپنا ارضی دہانہ پوری شان سے کھول دیتی ہے۔ اس دوزخ کی آگ کی تپش کس قدر ہوتی ہے یہ بات تقریباً ہر شادی شدہ مرد بخوبی جانتا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ برسہابرس مرد کی حقیقی جنت کو اپنے دائیں پیر کے نیچے دبائے رکھنے والی ماں اپنے بیٹے کی اس ارضی جنت کو اپنے بائیں پاؤں تلے دیکھنے کی آرزو مند ہوتی ہے۔ اس طرح وہ شائد اپنے قدموں کا بگڑا ہوا توازن ٹھیک کرنا چاہتی ہے مگر کیا کریں کہ یہ نئی جنت بھی شوہر کی پرانی دنیا میں اپنے لیے ایک منفرد مقام کی دعوے دار بن جاتی ہے اور اپنے حق کے حصول کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں کوُد پڑتی ہے اور یوں گھر کی پرسکون وادی میں گھمسان کا وہ رَن پڑتا ہے کہ اَلامان و اَلحفیظ! قدیم وجدید، حقیقی اور ارضی جنتوں کی اس جنگ میں مرد اپنے آپ کوبرزخ میں کہیں سر کے بل لٹکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ انتہائی بے بسی محسوس کرتے ہوئے دوزخ کی 'نیٹ پریکٹس' دنیا میں ہی شروع کردیتا ہے۔ گو یہ بات مُسلّم ہے کہ مظلوم کی جگہ دوزخ نہیں مگرکہتے ہیں کہ مشکل حالات کی مشق ہونا کبھی نہ کبھی کام دے ہی جاتا ہے۔ کیا پتا عالم بالا میں شاید اِس تجربے کی بنیاد پر کچھ مشکل منزلیں آسان ہو جائیں؟

گھر کا مرد بے چارا تو جمہوری نظام کی 'قیدی عوام' کی طرح یہ سوچتا ہوا ساری زندگی پستا رہتا ہے کہ وہ حکومت کر رہا ہے۔ وہ احمق تا عمر یہ نہیں جان پاتا کہ عنان اقتدار کی طنابیں تو دراصل کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور اِس پُتلی تماشے کی ڈوریاں تو کوئی نازک ہاتھ ہلا رہا ہے!

سچ تو یہ ہے کہ عورت چاہے ماں ہو ،بیوی ہو، بیٹی ہو، بہن ہو، بہو ہو یا اور کسی رشتے میں ہو اِس کے ہرروپ میں خالق نے ایک بالکل منفرد مخلوق تخلیق کی ہے۔ اور اسی طرح عورت کی محبت بھی منفرد ہے جس کی مثال بھی دُنیا میں شاید کوئی اور نہیں!

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔