09:05    , پیر   ,   06    مئی   ,   2024

ہمارے مسائل

2169 2 0 05

سرفراز صدیقی - 2013-نومبر-8

بڑھتی ہوئی آبادی

بد قسمتی سے ہمارے ملک میں بیروزگاری اور غربت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ کی وجوہات بہت ساری ہیں جس میں چہار سوُ پھیلی بدعنوانی سرفہرست ہے لیکن اکثر معاشیات کے ماہر اور کچھ دیگر پڑھے لکھے لوگ پاکستان کی آبادی میں بے تحاشہ اِضافہ کو ہماری زبوں حالی کی سب سے پہلی یا بہت بڑی وجہ گردانتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے قارئین میں سے کچھ اس بات سے اتفاق کرتے ہوں کیونکہ بادی النظر میں لگتا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لیکن بحیثیت ایک مسلمان میں اِس بات سے قطعی اِتفاق نہیں کرتا۔ کائنات اور اس میں موجود تمام مخلوقات کو اللہ نے پیدا کیا ہے، وہی انہیں رزق دیتا ہے اور وہی ایک متعین وقت پر انہیں موت دیتا ہے۔ جس جان کے لیے اُس نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ وہ پیدا ہو گی تو وہ ضرور پیدا ہو گی۔ دُنیا کی کوئی طاقت، کوئی حربہ، کوئی حیلہ، کوئی تدبیر اُس جان کو اس دُنیا میں آنے سے روک نہیں سکتی ۔ اور جس کو پیدا ہی نہیں ہونا اُس کے لیے دُنیوی بہانے ہزار ہیں! یہ ایک بہت ہی لطیف نقطہ ہے جو اگر انسان کی سمجھ میں آ جائے تو آبادی میں اِضافہ کو پھر کوئی مسئلہ نہیں کہے گا بلکہ اِسے مشیت ایزدی یعنی خالق حقیقی کی مرضی سے تعبیر کیا جائے گا۔

ہم جب مالیاتی اداروں کے بہکاوے میں آکر یا مغربی اقوام اور اُن کی معاشی ترقی سے مرعوب ہو کر اُن کی اندھی تقلید کرنا چاہتے ہیں یا اُن کی لکھی معاشیات کی کتابوں کو پڑھتے ہیں تو بدقسمتی سے یہ نہیں سمجھ پاتے کہ اہل مغرب نے اپنی اس ترقی کے عوض کیا کچھ کھودیا؟ مذہب کو ہم اگر بیچ سے ہٹا بھی دیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ در اصل ان لوگوں نے “معاشی” ترقی اپنی “ معاشرتی” تنزلی کے عوض حاصل کی ہے۔ اب ذرا اس بات پرغور کیجیے کہ جب معاشرہ ہی اپنا وجود کھو دے گا تو معاشی ترقی بھی خود بخود ختم ہو جائے گی! یعنی اگر میرا اور میری آل اولاد کا وجود ہی دُنیا سےختم ہو جائے تو پھر اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں نے اس دُنیا میں دولت اور اسباب کا کتنا اَنبار لگایا؟ میری اس دُنیا کی معاشی ترقی تو محض چیونٹی کی اُڑان ثابت ہوئی! ہونا تو یہ چاہیے کہ انسان معاشرے کی ترقی کے لیے کام کرے اور معاشی ترقی اُس کی ایک ذیلی شاخ ہو۔ لیکن جب شاخ کو درخت کی جگہ اہمیت دے دی جائے تو پھر کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ مندرجہ ذیل دو عدد مثالوں سے بخوبی لگا سکتے ہیں:-

1۔ اہل ِیورپ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشی ترقی حاصل کرنے کے لیے چند ایسے کام کیے کہ جن کے دور رس نتائج وہ سمجھ ہی نہ پائے۔ عورتوں نے گھر چھوڑ کر مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنا شروع کر دیا۔ اولاد کی خواہش اور خاندان بنانے کی جگہ بہتر "معیار زندگی" کے حصول نے لے لی۔ اس سوچ میں گورے کی مذہب سے بیزاری نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ یعنی جب اُس کے خیال میں قیامت، جزا و سزا اور اگلی کوئی زندگی باقی نہیں رہی تو اُس نے یہی بہتر جانا کے اُس کا " آج" ہر صورت میں حسین ہو۔ پھر اُس نے دیکھا کے گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اُتنے ہی اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور معیار زندگی بہتر نہیں ہو پاتا۔ اس وجہ سے اگر لوگ کم ہوں گے تو بچت زیادہ ہوگی اور زندگی کے لمحات بہتر ہو جائیں گے۔ یوں اُس نے نعرہ لگایا: کم بچے خوشحال گھرانہ!اور Quality of Life کا تصور پیش کیا۔ گورا پھر گورا ہے۔ دُنیا کا جو کام بھی کرتا ہے بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ اور اکثر بہت دور تک اُس کی نظر ہوتی ہے۔ مگر افسوس ہے کے وہ اپنی تمام تر دوربینی کے باوجود محض ایک سیا نا کوا ہی توہے جو بہر حال انجام تک نہیں دیکھ پاتا اور تا عمرحقیقی سچ کو جان نہیں پاتا۔ یعنی نہ تو وہ اپنےحقیقی رب کو جان پاتا اور نہ ہی اُس کے قانون اور منصوبہ کو سمجھ پاتا ہے۔

اپنی سوچ اور ذہانت کے حساب سے اہل یورپ نے اپنی آبادی کنٹرول کر کے جنگ عظیم دوئم کے بعد معاشی ترقی تو بہت حاصل کر لی مگر اَب وہی یورپ سر پکڑ کے پریشان بیٹھا ہے! آج یورپ کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ترقی نہیں ، یورو نہیں، تعلیم نہیں، دہشت گردی نہیں، بجلی نہیں، صحت عامہ نہیں، اناج نہیں، شخصی آزادی نہیں، جنگ نہیں بلکہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ اس بات کی آگہی ہے کہ اگلی نصف صدی کے عرصہ میں بیشتر یورپی اَقوم اس دُنیا سے ختم ہو جائیں گی! یہ جھوٹ نہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں ایک حقیقت ہے جس کے بارے میں تحقیق کرنے کی میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں۔ کم بچے پیدا کرنے اور امیر بننے کا خبط اہل یورپ کو مکمل تباہی کی طرف لے گیا ہے اور اب جب کہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ اُن سے کہاں غلطی ہوئی بدقسمتی سے پانی سر سے اُونچا ہو چکا ہے اور وہ اتنے بے بس اور لاچار ہو چکےہیں کہ اپنی معدومی کے اس عمل کو خود اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود وہ نہ تو ختم کرسکتے ہیں اور نا ہی روک سکتے ہیں۔ اب اگر وہ چاہیں بھی تو بچے پیدا کر کے اس تخریبی عمل کو روک نہیں سکتے۔ قدرت کے قانون سے روگردانی کر کے یعنی "نہ پید ا" کر کے "ناپید" ہوجانا کیا ہوتا ہے یہ لوگ اس بات کی ایک عبرت انگیز مثال ہیں۔ یہ دراصل وہ خود کش حملہ ہے جو بغیر جیکٹ پہنے یورپ نے اپنے آپ پر کیا ہے اور جس کے بارے میں معمر قذافی نے چند سال پہلے کہا تھا کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب بغیر تلوار چلائے یورپ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا (مسلمان ہی وہ قوم ہے کہ جس کی آبادی یورپ میں تیزی سے بڑھ رہی ہے)۔

2۔ دوسری طرف چین کی مثال لے لیں۔ 1949 سے لے کر 1976 یعنی 27 سال میں چین کی آبادی تقریباً دگنی یعنی 54 کروڑ سے 94 کروڑ ہوگئی۔ پھر اُس وقت کی چینی قیادت نے اپنی معاشی ترقی اور بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک قانون بنایا جس کے تحت ہر خاندان میں صرف ایک بچہ ہوگا۔ ایک سے زیادہ بچہ جس کسی کا ہو گا اُس کو اچھا خاصہ جرمانہ یعنی ٹھیک ٹھاک ٹیکس دینا ہوگا۔ ملک میں زیادہ تر عوام نے اس قانون کو طوہاً و کرہاً قبول کر لیا۔ اس کے بعد چند دہائیوں میں شدید محنت کر کے چینی قوم نے اتنی ترقی کر لی کے ان کا ملک دُنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا اور جلد ہی چین دینا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ مگر اس کارنامہ کا انتہائی تاریک پہلو یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دُنیا کے سب سے بڑے ملک چین کی عوام آج ایک ایسی قوم بن چکی ہے کہ جس کے کروڑوں نوجوان سماجی طور پر ادھورے ہیں۔ یعنی ایک لڑکے کو یہ نہیں معلوم کےسگی بہن کی محبت کیا ہوتی ہے اور ایک لڑکی کو یہ نہیں معلوم کے ایک بھائی کی محبت زندگی میں کیا معنی رکھتی ہے؟ ایک بچے کی کوئی خالہ نہیں کوئی چچا یا نہیں کوئی ماموں نہیں، کوئی پھوپھی نہیں۔ کچھ والدین کے نصیب میں صرف ایک بیٹی کی محبت ہے تو کچھ نے صرف ایک بیٹے کو پالاہے۔ اس وجہ سے چین میں بہت بڑے پیمانے پر سماجی خرابی ہوئی ہے اور اُس سے عوام میں جو نفسیاتی بیماری پیدا ہوگئی ہے اُس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ معاشی ترقی کی وجہ سے چین کے پاس دولت آگئی ہے اور لوگوں کا معیا زندگی آگے چلا گیا، مگر سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کا؟ وہ لوگ جو رشتوں ناتوں کو جانتے ہی نہیں! جن کے مابین محبت نام کی کوئی چیز نہیں! کیا آپ جانتے ہیں کہ اب چین کی حکومت نے ہر اُس شخص کو پیسہ (انعام) دینا شروع کر دیا ہے جو سال میں ایک بار اپنے والدین سے ملنے جائے گا۔ یعنی اب پیسہ دے کر وہ کسی حد تک اپنی نفسیاتی بیماری کا علاج کرنا چاہ رہے ہیں اور دلوں میں کھوئی ہوئی محبت پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔ پھر وہاں دوسری مصیبت کچھ غریب لوگوں کے لیے یہ ہو گئ کہ جنہوں نے ایک بچہ پال پوس کر بڑا کیا اور پھر وہ کسی حادثہ میں یا بیماری سے مر گیا۔ اُن کی تو دُنیا کے ساتھ ساتھ نسل ہی ختم ہو گئی! اس نقصان کا بدلہ کیا چینی حکومت چکا سکتی ہے؟ یہ تو چین کی ایک مشکل ہے اور دوسری مشکل یہ ہے کہ کل تک جس ملک کے پاس لیبر بہت زیادہ تھی اب اُس کے پاس مزدوروں کی کمی واقعہ ہونے لگی ہے اور اگر اِنہیں اپنی ترقی کی رفتار کو قائم رکھنا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ بہت جلد ایک بچے والے قانون کو ختم کر دیں۔ لیکن ہمارے حساب سے دیر ہو چکی۔ امیر، ذہین و فطین مگر نفساتی مریضوں کا ایک بہت بڑا ملک تشکیل پا چکا اور دُنیا ایک لمبے عرصہ تک اس کے نتائج بھگتے گی!

ہماری اس تحریر کا یہ مقصد قطعی نہیں کے صحت کا خیال کیے بغیر یا دیگر امور کو نظر انداز کر تے ہوئے لوگ خانہ آبادی کے کام میں غلطاں پیچاں ہو جائیں بلکہ اپنی اس تحریر سے ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کے ایسی سوچ رکھنا کے بچے کم ہونگے تو زندگی اچھی گزرے گی اور زندگی کا معیار بلند ہوگا بالکل غلط بات ہے۔ وقتی طور پرہو سکتا ہے کہ زندگی کا معیار بہتر ہو جائے مگر ایک لمبے عرصہ یعنی دو سے تین نسل بعدتباہی آنا لازمی ہے۔ اسی وجہ سے اسلام ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ ہم اُن کاموں میں پڑ جائیں جو اللہ نے خالصتاً اپنے ذمہ رکھے ہیں جیسا کہ پیدا کرنا، رزق دینا اور مارنا۔ اس کے بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے لیے روزگار کے مواقع کس طرح پیدا کر سکتے ہیں۔ یا د رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ ملک دیا ہے جو شاید روئے زمین پر کسی اورکے پاس نہیں۔ اس کی مٹی میں الحمدُللہ وہ بیش بہا خزانے پوشیدہ ہیں کہ جن کے لیے دُنیا ترستی ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی! اور یقین جانئے کے اس مٹی میں نمی پیدا کرنے کے لیے صرف محنت کا پسینہ درکار ہے۔

اگر ہم اپنے قوت بازو پر بھروسا کریں اور رزق حلال کے حصول کے لیے جائز طریقے پر عمل کریں اور "معیار زندگی" کو بلند کرنے جیسی فضول سوچ کی جگہ "معیار بندگی " کو بلند کرنے پر دھیان دیں تو کیا یہ زندگی اور کیا وہ زندگی اِن شاء اللہ سب ہی اچھی گزرے گی۔

والسلام،

سرفراز صدیقی

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔