02:50    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

ہمارے مسائل

1074 1 0 00

سرفراز صدیقی - 2013-دسمبر-5

ہماری منفی سوچ اور میڈیا کا کردار

آج ہمارے ملک پاکستان میں ہمیں درپیش مسائل اتنے زیادہ ہیں کے انتہائی دکھ سے کہنا پڑتاہے کہ اب تو اِن کا شمار ہی ممکن نہیں رہا۔ معاشرے میں خرابی اس قدر گہرائی تک پہنچ چکی ہے کہ بعض اوقات انسان نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم لوگ کبھی بھی بہتر ہو سکیں گے؟ خاکم بدہن کیا مستقبل قریب میں یقینی تباہی ہمارا مقدر بن چکی ہے؟ یہ ایک بہت ہی مایوس کُن صورت حال ہے لیکن اگر ہم بغور دیکھیں تو در حقیقت یہ مایوسی ہماری منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان یہ جانتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے لیکن پھر بھی ہم میں سے بہت سارے لوگ موجودہ حالات کے پیش نظر کسی نہ کسی حد تک بہت سی باتوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے یا متمول لوگ یا تو پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں یا پھر باہر جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ یہ مایوسی اس منفی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ اب بہتری کی گنجائش باقی نہیں رہی اور اس منفی سوچ کو پروان چڑھانے میں جہاں بہت سے عوامل کارفرما ہیں وہیں اس میں ایک بڑا کردار ہمارے بہت ہی مضبوط میڈیا کا بھی ہے۔

دین سے دوری، علم اور تربیت کی کمی کے باعث ہمارے اطراف چہار سوُ منفی چیزیں بڑی تیزی سے ظہور پزیر ہو رہی ہیں اور اُتنی ہی چابک دستی اور جانفشانی سے ہمار ا میڈیا یہ تمام خبریں ہمیں لمحہ بہ لمحہ بہم پہنچاتا ہے۔ اور جوں جوں ہمیں اس طرح کی خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں توں توں ہماری سوچ میں غیر محسوس طریقے سے منفی رجہان پیدا ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہمیں غصہ جلدی آنے لگا ہے اور بہت شدّت سے آنے لگا ہے۔ ہم اپنے ہی لوگوں اور اپنی ہی چیزوں سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ ہمارا رُجحان تعمیری کے بجائے تخریبی ہوتا جا رہا ہے۔ اجتماعیت پر انفرادیت حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنی اپنی ذات کے پندار میں مقید ہوتے جار ہے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ فحاشی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم ایک مادر پدر آزاد جنگلی معاشرے میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ اگر سوچیں تو شاید ہم اشرف المخلوقات کے منصب سے گر چکے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کے یہ برائیاں صرف میڈیا نے ہمارے معاشرے میں پھیلائی ہیں ہاں مگر ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نفرت، شدت پسندی، اخلاقی و سماجی برائیاں اورمعدوم ہوتی ہوئی رواداری، شرم و حیا اور غیرت بھی کافی حد تک میڈیا کی منفی یعنی چٹخارے دار رپورٹنگ، ٹاک شوز کی جھڑپوں، واہیات ڈراموں اور لچر اشتہاروں کا شاخسانہ ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہیں گے کہ معاشرے کی برائیوں کو ڈھاک دینا چاہیےیا اُن سے نظر بچا کر خاموشی اختیا ر کر لینی چاہیے۔ اس کے بالکل برعکس ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اپنے معاشرے میں پنپتی برائیوں کو جاننا اور ان کا سدباب کرنا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے جس کے لیے گلی محلہ سے لے کر ہر سطح پر مختلف فورمز اور ٹاسک فورسز تشکیل دی جانی چاہئیں۔ لیکن ہمیں اور خاص طور پر میڈیا کو یہ بات سمجھنا چاہیے کے اتنے وسیع پیمانے پر ہر خاص و عام، عاقل و جاہل، طفل و بالغ کے سامنے اِن برائیوں کی یوں بے لگام وبے حجاب نشریات معاشرے میں بہتری سے زیادہ بگاڑ پیدا کر رہی ہیں۔ اور کتنے ہی معصوم ذہن اس سے دن بدن متاثر ہو کر خراب ہو رہے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ میڈیا یہ سب قانون یا انصاف یا معاشرے کو سدھارنے کے لیے کم اوراپنے چینل کی ریٹنگ (درجہ) بڑھانے اور پیسہ بنانے کے لیے زیادہ کررہا ہے۔ آپ کو شاید یہ معلوم ہو کہ TV کے تمام چینلز پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگرام وہ ہیں جن میں جرائم پر مبنی حقیقی واقعات کو انتہائی ڈرامائی انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان چٹخارے دار ڈراموں میں کم معاوضہ لینے والے انجانے اداکار کام کرتے ہیں اور لوکیشنز بھی انتہائی سستی ہوتی ہیں اس وجہ سے ان ڈراموں کو بنانے میں کوڑیوں کے حساب سے لاگت آتی ہے مگر اِن کے ذریعے منافع کروڑوں میں بٹورا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اشتہار انہی پروگراموں کے دوران دکھائے جاتے ہیں۔ یعنی یہ پروگرام پیسہ بنانے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں! پرائم ٹائم میں اشتہاروں کی قیمت یقیناً زیادہ ضرور ہوتی ہے مگر تعداد کے حساب سے آپ کو سب سے زیادہ کمرشلز ان ڈراموں کے دوران ملیں گے جس کی بدولت اکثر اوقات یہ پروگرام اپنے وقت پر ختم ہی نہیں ہو پاتے۔

بالفرض اگر ہم اپنےتجزیے کو غلط مان بھی لیں تو بتائیے میڈیا کی کوششوں کے نتیجہ میں اتنے سالوں میں ہمارے معاشرے میں کچھ تو بہتر ہوا ہوگا؟ وہ کیا وجہ ہے کہ یہ تمام کے تمام پروگرام جو معاشرے کی غلاظت کو ہم تک 24/7 پہنچا رہے ہیں وہ کسی قسم کی بھلائی کا موجب نہیں بن رہے۔ مہنگائی، بد عنوانی، اخلاقی بے راہ روی، بد کرداری، بے حیائی، بے غیرتی، بد عہدی، رشوت ستانی، چوری، ڈاکہ، اغوا، قتل، زنا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی، حرام خوری، جھوٹ، دھوکہ دہی، بھتا خوری، ناجائز تجاوزات، غیرت کے نام پر قتل، قرآن سے شادی، ہم جنس پرستی، نسل پرستی، قبر پرستی، فرقہ واریت،قوم پرستی، خود کشی، دہشت گردی، شر پسندی، جادو ٹونا، عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور اسی طرح کے بے شمار جرائم اور معاشرتی برائیوں کے بارے میں میڈیا کی مسلسل رپورٹنگ کے باوجود ان میں پچھلے کئی سالوں میں بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہاں میڈیا والے اپنی صفائی میں یہ کہیں گے کہ ہمارا کام تو صرف عوام کو سچ بتانا ہے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کام تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے جو وہ نہیں کر رہے اس لیے آپ اُن کو پکڑیں، اس میں میڈیا کا کیا قصور؟ یہ بات کسی حد تک درست تو ہے اور اگر حجت تمام کرنے کے لیے اسے بالکل درست مان بھی لیا جائے توسوال یہ اُٹھتا ہے کہ جب ایک چیز پرُ اثر ہے ہی نہیں اور اُس کی وجہ سے معاشرہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہو رہا ہے تو ہم اس طرح کی رپورٹنگ اور ڈراموں کو بند کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا ہم اِن کے بدلے کوئی اور بہتر طریقہ نہیں ڈھونڈسکتے؟

میڈیا ایک قدم آگے جا کر اپنی ہر اُس رپورٹ کی F.I.R. کیوں نہیں کٹواتا کہ جس میں اُس نے کسی گھناؤنے جرم کی نشاندہی کی ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد میڈیا عدالت سے اس بارے میں انصاف کیوں نہیں طلب کرتا؟ اور اگرعدالت اپنا کام نہ کرے تو میڈیا اس پر شور کیوں نہیں مچاتا اور پھر اُس پر ایک عدد پروگرام کیوں نہیں دکھاتا؟ ہمارا نہیں خیال کے میڈیا صرف یہ کہہ کر بری الذمہ ہو سکتا ہے کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ انگلی اُٹھانا تو پاکستانی عوام کو بھی بہت اچھی طرح آتا ہے میڈیا نے اُٹھائی تو کیا کمال کیا ، بلکہ عوام کے برعکس میڈیا تو اپنی انگشت نمائی سے منافع حاصل کرتا ہے!

بہرحال اگر میڈیا کو آزادی صحافت اور آگہی کے نام پر منفی خبروں کا پرچار ہی کرنا ہے اور مثبت چیزوں کے نام پر ڈراموں، اشتہاروں اور بولی وڈ کی خبروں کے ذریعہ فحاشی ہی پھیلانی ہے تو پھر کروڑوں روپے کے سوال یہ ہیں:

1۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر روز ہم اور آپ اپنی زندگی کا انتہائی قیمتی وقت TV کے آگے بیٹھ کر برباد کریں؟
2۔ ہم کیوں اپنے ذہن کو پراگندہ کرنے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ اُن منفی اوراخلاق سے گری باتوں کا اثر اپنے اُوپر لیں اور پھر انہیں غیر محسوس طریقہ سے اردگرد کے لوگوں تک پھیلائیں؟
3- کیا ایسا ممکن نہیں کے ہم TV دیکھناہی انتہائی کم کر دیں؟

مثال کے طور پر 9 بجے شب خبریں دیکھ لیں وہ بھی بس وہاں تک جہاں تک خبروں میں کیف “ آنی” شروع ہو جاتی ہے۔ ا س کے بعد جو بھی وقت بچے وہ اپنے اہل و عیال ، عزیز واقارب، پڑوسی، دوست احباب کے لیے اور ساتھ ہی اللہ کے احکامات جاننے اوراُن کی پیروی کے لیے صرف کریں تو شاید یہ ہم سب کے لیے بہتر ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم لوگوں کی سوچ پر مثبت اثر ہوگا جو دیگر انواع و اقسام کی خرابیوں کو بہتر کرنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہو گا۔ یاد رکھیں! اگر ہماری سوچ مثبت ہو گی تو ہم بڑے سے بڑے اور پیچیدہ ترین مسائل کا حل ڈھونڈ لیں گے۔ لیکن اگر ہم اسی طرح برائی سے برائی ختم کرنے کا سوچتے رہے اور ہر ایک بات پر مرنے مارنے کے لیے تلُے بیٹھے رہے تو ہمیشہ ناکام و نامرُاد ہی رہیں گے۔

آخر میں ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک ہدایت دے، آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارا خاتمہ ایمان پرہو اور ہمیں دوزخ کی آگ سے نجات دے ۔ آمین!

والسلام،
سرفراز صدیقی

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔