04:52    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

ہمارے مسائل

1151 9 0 04.4

سرفراز صدیقی - 2014-جنوری-8

جمہوری نظام حکومت

آج ہم جس کٹھن دور سے گزر رہے ہیں اِس کی سب سے بڑی وجہ ہماری اسلام سے دوری ہے۔ ہم نے اہل مغرب کی مادّی ترقی کی آنکھوں کو چندھیا دینے والی چمک سے مرعوب ہو کر وہاں کی بے تحاشہ برائیاں اپنے یہاں درامد کر لی ہیں جن میں سے ایک جمہوری نظام حکومت ہے۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے قدیم یونان میں پیدا شدہ اس نظام کی خرابیاں خود مغربی دُنیا اچھی طرح جانتی ہے اور اُس پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں مگر چونکہ اس سیاسی نظام سے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملتی ہے اس لیے دُنیا بھر میں ایک خاص گروہ اس کی حمایت اور ترویج کرتا ہے۔ یہ گروہ وہ ہے جو دنیا کے بیشتر وسائل پر قابض ہے اور بقایا کو بھی اپنے زیر نگیں کرنا چاہتا ہے۔ گو کہ حقیقی جمہوریت میں بعض باتیں اچھی بھی ہیں (مثال کے طور پر آزادی رائے کا حق) مگر چونکہ اس نظام میں خرابیاں بہت بڑی ہیں اس لیے اس نظام سے کسی خیر کی اُمید رکھنا بھی ٹھیک نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے وائین (wine) میں انسان کی صحت کے لیے کچھ اچھائیاں ضرور ہیں مگر اس کی عقل و خُرد سے بیگانہ کر دینے والی صفت ایک اتنی بڑی برائی ہے کہ اسےشریعت نے اپنی دیگر اچھائیوں کے باوجود حرام قرار دیا ہے۔ جمہوریت کے نقائص پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے مگر یہاں ہم عوام الناس کی معلومات میں اضافہ کے لیے جمہوریت کی 10 بڑی برائیوں سے پردہ اُٹھاتے ہیں:-

1۔ قانون اللہ کا یا قانون ساز اسمبلی کا؟: بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قانون وہ ہے جو اللہ تعالی نے 14 سو سال پہلے ہمیں دے دیا۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے فرائض اور حرام قرار دی ہو ئی چیزیں، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یا مستحبات) اور مکروھات اب تا قیامت بدلے نہیں جاسکتے۔ اس لیے ان کے بارے میں جمہوری نظام کے تحت کسی قسم کی بھی قانون سازی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر اگر اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے تو پھر اُس کے مقابلے میں کوئی دوسرا قانون کوئی انسان، سیاستدان، ممبر یا اسمبلی نہیں بنا سکتی اور نہ ہی اس میں رتی برابر بھی تحریف کی جا سکتی ہے۔ اس لیے ایسے تمام قوانین جواسمبلی اسلامی احکامات کی نفی میں پاس کرتی ہے وہ نہ صرف غیر اسلامی ہیں بلکہ بعض علماء تو اسے شرک سے بھی تعبیر کرتے ہیں کیونکہ جب انسانوں کی ایک اسمبلی اللہ کے قوانین کے مقابل اپنے قانون بنانا شروع کردے تویہ اللہ کے مقابل آنے کے مترادف ہے جو کہ صریحاً شرک ہے۔ سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان میں فیصلے کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں" (المائدہ: 49)

اسلامی اعتبار سے انسان قانون سازی صرف اور صرف دین کے ایک حصہ میں کر سکتا ہے جسے 'مباح 'کہا جاتا ہے یعنی شریعت جس کام کی اجازت دیتی ہے اور ایسےمعاملات جو زمانے کی جدّت کے ساتھ وجود میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر سڑک پر گاڑی چلانے کے کیا قوانین ہونے چاہئیں؟ بچوں کو کس عمر سے اسکول جانا چاہیے؟ مکان کا نقشہ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے منظور ہونا چاہیے، کسی کمپنی کو تشکیل دینے کے لیے کیا قانون ہونا چاہیے، وغیرہ، وغیرہ۔

2۔ لوگوں کی عددی گنتی بمقابلہ انفرادی شخصیت کا وزن: یہ جمہورت کا ایک بہت ہی بڑا عیب ہے کہ اس میں لوگوں (یعنی ووٹوں) کی گنتی سے اسمبلی وجود میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک حلقہ میں 1000 لوگ جاہل ہیں اور ایک ڈاکٹر عبدالقدیر جیسا شخص ہے تو اس حلقہ میں وہ جیتے گا جسے جاہل ووٹ دیں گے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے تمام تر علم اور شخصیت کے وزن کے باوجود اپنے ووٹ کے ذریعہ کسی قابل اور اہل انسان کو اسمبلی میں نہیں لا سکتے۔ اسی لیے علامہ اقبا ل نے کہا ہے:

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

3- عوام کی اکثریت کے بجائے اقلیت کی حکومت: سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت میں یہ نعرہ لگایا جاتا ہے: 'عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ، عوام کے واسطے'، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ جمہوریت کا وہ نظام حکمرانی جو ہمارے یہاں قائم ہے اس میں عموماً ملک کی اکثریت کے بجائے اقلیت کی حکومت ہوتی ہے۔ اب حالیہ الیکش کی ہی مثال لے لیں۔ پاکستان کی آبادی لگ بھک 19 کروڑ ہے۔ اس میں سے صرف ٪45 یا 8.6 کروڑ رجسٹرڈ ووٹر تھے۔ یعنی آدھی سے زیادہ پاکستانیوں کا الیکشن سے کوئی لینا دینا نہیں تھا (جس میں ایک میں بھی شامل ہوں)۔ پھر 8.6 کروڑ ووٹرز میں سے 4.5 کروڑ نے ووٹ ڈالے یعنی ملک کی کل آبادی کے ایک چوتھائی سے بھی کم صرف٪24 لوگوں نے ووٹ ڈالے (یہاں ہم ٪24 میں دھاندلی سے ڈالے گئے ووٹوں کو بھی درست مان لیتے ہیں)۔ تمام ڈالے گئے ووٹوں میں مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ یعنی 1.47 کروڑ ووٹ ملے جو پاکستان کی کل آبادی کامحض 8 فیصدہے ۔ اب دیکھئے کہ وہ جماعت کہ جس کی مخالفت ملک کی اکثریت یعنی عوام کی اکثریت نے کی وہی جماعت ملک کی نمائندہ جماعت بن کراب حکومت کر رہی ہے۔ یہ بات صرف مسلم لیگ (ن) کی نہیں ہے نہ ہی ہمیں ان سے کسی قسم کی کوئی پرخاش ہے بلکہ ہر جمہوری حکومت ایسی ہی ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت بھی ایسی ہی تھی اور آگے اگر PTI کی حکومت آئی تو وہ بھی ایسی ہی حکومت ہوگی۔ اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری نظام ہی ناقص اور عیب دار ہے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کر دیں کے گوجمہوری صدارتی نظام میں یہ نقص کافی حد تک کم ہے مگر پھر بھی ہے ضرور۔

4۔ ووٹ ڈالنے کی عمر: ایک طرف تو جمہوریت یہ کہتی ہے کہ 18 سال سے کم عمر عوام کو اپنی کم عمری یعنی کج فہمی کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے (یعنی ہماری 40 فیصد سے بھی زیادہ آبادی کو حق نہیں اور یاد رہے کہ 13 سال بلوغت کی عمر ہے)۔ لیکن دوسری طرف غیر تعلیم یافتہ اور نادان لوگوں سے ووٹ حاصل کر کے حکومت بن جاتی ہے۔ ہم یہ ضرورمانتے ہیں کہ اگر تعلیم نہ بھی ہو تو عمر کے ساتھ ساتھ تجربہ حاصل ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں مگر تجربہ کس طرح کے کام اور کس طرح کی زندگی کا ہے یہ سوال بہت اہم ہے۔ کیا امور حکومت چلانے کا تجربہ بھی کھیتی باڑی یا کپڑا بننے سے حاصل ہوسکتا ہے؟

5- خصوصی مہار ت والوں (specialists) کا چناؤ: یہ کس طرح ممکن ہے کے کہ ایک کسان، جولاہا یا راج مستر ی اپنے حلقہ میں سے ایک ایسے شخص کو چن کر اسمبلی میں لا سکے جو بین الاقومی معاشیات یا سیاسیات یا دیگر خصوصی علوم کا ماہر ہو؟ ایک کسان کس قابلیت کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرے گا کہ کون بہتر ہے؟ یہاں ہم ایک کسان کی بحیثیت انسان یا مسلمان تحقیر نہیں کر رہے بلکہ 'جس کا کام اُسی کو ساجھے' کی تشریح کر رہے ہیں۔

6- سیاسیات اور معاشیات، وغیرہ کے مابین گڑبڑ: اکثر جمہور (ووٹروں) کو سیاسی نعروں اورمسائل کے حل میں کنفیوژن رہتا ہے۔ صرف ہمارے یہاں نہیں بلکہ اہل مغرب بھی یہاں مار کھا جاتے ہیں۔ ووٹ وہ سیاسی بڑہکوں کے جوش میں دیتے ہیں لیکن معاشی، معاشرتی اور دیگر معاملات حکومت چلانے کی پالیسی اور اہلیت کہیں کی جانچ اور پرکھ پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ ہم حکومت میں آ کر امریکہ کو یوں کر دیں گے تو لوگ بغضِ امریکہ کی بنیاد پر اِنہیں ووٹ ڈال دیں گے۔ چاہے نعرہ مارنے والا یا جماعت باقی کسی اہلیت کی حامل ہو یہ نہیں۔

7۔ اسمبلی سرمایہ داروں کی: جمہوری نظام سیاست کی ایک اور بڑی برائی یہ ہے کہ اس میں پارٹیاں یا انفرادی حیثیت میں لوگ خطیر رقم لگا کر الیکشن لڑتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے پاس جا کر انہیں جھوٹے سچے طریقہ سے قائل کرتے ہیں۔ بڑے بڑے اور مہنگے ترین جلسے کرتے ہیں جلوس نکالتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص یا پارٹی اتنی بڑی سرمایہ کاری کرے گی تو وہ اس سے ہر طرح کا نفع بھی حاصل کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس منافع بخش کاروبار میں شراکت چاہتے ہیں۔ اور جب حکومت ایک کاروبار بن جائے گی تو کرپشن کو فروغ نہیں حاصل ہوگا تو کس کو ہو گا؟ اور سوچیں پھرعوام کو کیا ملے گا؟

8۔ حکومت کے لیے پانچ سال کا دورانیہ: کسی بھی پارٹی کے لیے ایک دورانیہ یعنی 5 سال مقرر کر دینا ٹھیک نہیں۔ اگر کوئی نااہل ہے تو اُسے ایک ماہ بھی حکومت نہیں کرنے دینی چاہیے۔ اور اگر کوئی حکومت کا اہل ہے تو چاہے ساری زندگی حکومت کر ے کیا فرق پڑتا ہے؟ بلکہ عوام اور ملک کے لیے تو اچھا ہی ہے۔ بہت سے ایسے اچھے کام جمہوری حکومتیں کرتی ہی نہیں کہ جن کا نتیجہ 10 سال بعد آنے کی توقع ہو۔ یعنی ہم لانگ ٹرم پلاننگ اور ایکزیکیوشن سرے سے کرتے ہی نہیں۔

9-حکومت میں ساجھے داری: جب حکومت ایسی بنتی ہے کہ اُس میں کولیشن پارٹنرز کی ضرورت پڑتی ہے تو لا محالہ بلیک میلنگ ہوتی ہے۔ یعنی اکثر یہ ہوتا ہے کہ جس جماعت کی نمائندگی کم ہوتی ہے وہ اپنی حیثیت سے زیادہ اختیارات کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور پھر حکومت میں آ کر وہ عوام کا استحصال کرتی ہے –

10- تعصب کی بنیاد پر ووٹ: جمہورتی میں علاقائی، لسانی، مذہبی، فرقہ واریت اور دیگر تعصبات کی بنیاد پر بھی ووٹ دیا جاتا ہے جس کا اہلیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ اور جب تعصب کو بھڑکایا جاتا ہے تو تفرقہ پروان چڑھتا ہے اور آج ہماری زبوں حالی کی ایک اہم وجہ فرقہ واریت ہے۔

اگرچہ جمہوری نظام کی بہت سی خرابیاں ہم نے پیچیدگیوں کی وجہ سے نہیں بیان کیں لیکن اوپر دی ہوئی 10 خرابیاں اس نظام کو انتہائی ناقص قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔ اس لیے جب تک ہم مغرب سے درآمد شدہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کے پیچھے بغیر کچھ سمجھے بوجھے بھاگتے رہیں گے ہم اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ یاد رکھیے اگر ہمیں اپنی، اپنے ملک ، اپنے بچوں کی بقاء عزیز ہے اور اگر ہم دُنیا میں باعزت قوم بن کر اُبھرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چہرے نہیں بلکہ یہ پورا نظام ہی بدلنا ہوگا۔

اب ایک ارب روپے کا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کا متبادل نظام آخر کیا ہے؟ اس بارے میں ہم ان شاء اللہ علیحدہ سے لکھیں گے ورنہ اس مضمون کی طوالت ہمارے بعض قائین کو گراں گزرے گی۔

4.4 "5"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔