01:58    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

ہمارے مسائل

1806 2 0 04

سرفراز صدیقی - 2013-جولائی-26

حرام کا رزق

14 اگست ایک بار پھرآیا چاہتی ہے۔ پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ما شاء اللہ سےچھیاسٹھ سال ہو نے والے ہیں۔ ان چھیاسٹھ سالوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اِس کا حساب اگر ہم کرنے بیٹھیں تو سوائے کفِ اَفسوس ملنے کے شاید ہمیں کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ ہم سب نے مل کر ایک گوہر نایاب کو کس طرح لوٹ کھسوٹ کردنیا بھر میں ذلیل اور رسوا کیا ہے شاید ہم اس کا اندازہ بھی لگانے کے قابل نہیں۔ آج ہم اپنے مُلک کی حالت زار پر نا اہل اور کرپٹ سیاست دانوں یا فوجی آمروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر ہم اس حقیقت سے نظر چراتے ہیں کہ در اصل برائی کی جڑ کوئی اور نہیں ہم خود ہیں! ہمارے سروں پر حکمران تو وہی ہیں کہ جیسے ہم ہیں اور یہ کوئی ایسی ویسی حقیقت نہیں ہے یہ اللہ کا فرمان ہے۔ اُس اللہ کا کہ جس کے قبضے میں میری اور آپ کی جان ہے۔ اُس اللہ کا جس کی شان کا یہ عالم ہے کہ اُس نے محض دو لفظ کہہ کر ایک لا محدود کائنات کو تخلیق کر دیا!
جس گھر ، خاندان، معاشرے ، قوم یا ملُک کی اکائیاں خراب ہو جائیں وہ گھر ، وہ خاندان، وہ معاشرہ، وہ قوم اور وہ ملک کیوں کر فلاح پا سکتا ہے؟ خاکم بدہن تباہی اُس کا مقدر نہ ہو تو کیا ہو؟ ہماری موجودہ دگرگوں حالت کے ذمہ دار ہم خود ہیں وہ صرف اس لیے کہ مِن حیث اُلقوَم ہم نے اللہ کی رسی کو چھوڑ کر گناہ کی دلدل میں غوطے کھانے کو ترجیح دی ہے۔ ہم نے جانتے بوجھتے عزت و آبرو کی سادہ مگر بے داغ پوشاک کو بے غیرتی، حرام کی کمائی اور بے حسی کی بظاہر حسین مگر بدنما باطن والی بدبودار پوشاک سے بدل لیا ہے اور اُس پر دولت کا پرفیوم چھڑک کرہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمار ا شمار اب شرفاء اور اُمراء میں ہوتا ہے۔ ہمارے پاس عیش و عشرت کا تمام سامان ہے۔ ہمارے بچے اب مغرب کے اعلیٰ اسکول اور کالجوں میں پڑھتے ہیں- ہمارے پاس اب اتنی دولت ہے کہ ہم ہر سال حج اور بے بھاؤ کے عمرے کرتے ہیں۔ اور معاذ اللہ اپنی حرام کی کمائی سے اپنے رب کو رشوت پیش کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنے اعمال کی 'لانڈرنگ' کی اس بھونڈی کوشش سے اُس کے غضب کو آواز نہیں دے رہے؟
پاکستان اس وقت دنیا میں پہلے نمبر کا ملک ہے جہاں فلاحی کام سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ لوگ یہاں غربا ء و مساکین کو دل کھول کر عطیات، صدقات اور خیرات دیتے ہیں اور دنیا بھر میں اکثر لوگ اس بات کو سراہتے بھی ہیں مگر کبھی کسی نے یہ سوچا کہ یہ پیسہ آتا کہاں سے ہے؟ کیا یہ عوام ہی سے لوٹا ہوا حرام کا پیسہ نہیں ہے کہ جس کی بدولت پاکستان کی عوام غربت اور بدحالی کا شکار ہے؟ اَمیر اَمیر سے اَمیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور غریب سے غریب تر۔ اگر یہ لوٹ مار نہ ہوتی تو شاید ایک عام پاکستانی غربت کی چکی میں اِس بری طرح نہ پس رہا ہوتا اور شاید اُسے کسی کی زکوۃٰ ، صدقہ اور خیرات لینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ ہم نے اپنی لوٹ مار سے کروڑوں کو غریب بنا کر کوئی اچھا کام کیا تھا کہ اب اُن میں سے چند ہزار کی عزت نفس بھی پامال کر دی اُن کو اپنی خیرات کا بھکاری بنا کر؟

اے طائر لاہوتی ، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ایک وقت تھاجب صدر ایوب کے دور میں چینی کی قیمت سوا روپے سے پونے دوروپے ہو جانے پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی تھی اور جس کا سہارا سیاستدانوں نے لے کر آخر کار حکومت کو گرا دیا تھا۔ مگر آج ایک ہی دن میں شکر کی قیمت میں پچاس سے اسّی روپے تک کا اضافہ ہو جاتا ہے اور ہم صرف اخبار اور ٹاک شوز کی حد تک ہی احتجاج کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ وہ کیا وجہ ہے کہ آج ہماری قوم سڑکوں پر آنے اورپر زور احتجاج کرنے سے کتراتی ہے؟ اس کی وجہ ہے آج کے دور میں حرام رزق کی فراوانی! اب سے چالیس سال پہلے زندگی سادہ تھی اور لوگوں کی گزراوقات حلال کی لگی بندھی تنخواہ پر ہوتی تھی۔ اُن شریف اور ایماندار لوگوں کے لیے آٹھ آنے کا اِضافہ بھی ناقابل برداشت تھا۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے میری جیب پر سو روپے کا بار پڑتا ہے تو میں دو سو روپے کسی اور کی جیب سے نکال لیتا ہوں اور وہ کسی اور کی جیب سے اپنا خصارہ سود کے ساتھ پوراکر لیتا ہے اور آخر کاریہ لوٹ مار کہیں نہ کہیں ملک کے وسائل اور آمدن میں کمی اور نتیجاتاً بیرونی قرضوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے جس سے ہماری اصل معیشت روز بروز کمزور ہوتی جار ہی ہے اور مفلسی کا عفریت اپناقد بڑھاتا جارہا ہے۔
اب سوال یہ ہےکہ ہمیں اتنے بہت سے پیسے کی ضرورت آخر کیوں پڑی کہ جس کے لیے ہماری حلال کی آمدنی کم پڑ گئی؟ آج سے چالیس سال پہلے گھروں میں گاڑی ، ٹی وی، ایر کنڈیشنرز، واشنگ مشین، فریج، انٹرنیٹ، کیبل، وائی فائی، آئی فون، ثناء سفیناز (اور اسی قسم کی دیگر لان)، فاسٹ فوڈز اور باہر کے کھانے اور اسی طرح کی دوسری آسائشیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ اور سادگی کی وجہ سے بیماریاں بھی بہت کم ہوتی تھیں جن کی وجہ سے میڈیکل کے اخراجات بھی اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں اسباب کم تھے مگرمحبت زیادہ تھی، سامان کم تھا مگر اخوت زیادہ تھی۔ چھوٹے گھر ہونے کے باوجود جوائنٹ فیملی سسٹم میں زندگی بڑے احسن طریقے سے گزر جاتی تھی اور اولاد کی پرورش صرف والدین نہیں بلکہ یہ کام پورا کنبہ بلکہ اہل محلہ تک کیا کرتے تھے۔ مگر آج ہم نے زندگی کی آسائشوں کو ضروریات زندگی بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے جب انسان اپنی اوقات کی چادر سے پاؤں باہر نکالتا ہے تو پھر مشکل تو ہوتی ہے۔ اس مشکل کا حل ہم نے یہ نکالا کہ بجائے اس بات کے کہ ہم اپنے آپ کو اُس چادر میں سمونے کی کوشش کرتے یا اُس چادر کو حلال آمدن سے بڑھاتے ہم نے اُس میں حرام کی پیوندکاری کر دی اور یوں ہمار ا کام با آسانی چل گیا۔
اس وقت پاکستان کی اعلان کردہ معیشت سے کہیں بڑی زمین دوزمعیشت ہے جس کا کوئی کھاتہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ اتنی بڑی حرام کی معیشت جس ملک میں ہوگی اُس ملک کی حالت زار ایسی نہیں ہوگی تو پھر کیسی ہو گی؟ ہم سے بڑا ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ جب تک ہم شرفا کے جرائم (جن کے بارے میں ہمارے اپنے خاندان میں اور بعض اوقات اپنے گھر میں بھی کوئی بھی نہیں جانتا) یعنی ملاوٹ، بجلی کی چوری، ٹیکس چوری، رشوت ستانی، نا اہل کی سفارش، خیانت، دھوکہ دہی، بد عنوانی اور اسی طرح کے دیگر حرام کاموں کو حلال سمجھتے رہیں گے ہم یونہی برباد ہوتے رہیں گے۔ اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ٹھیک ہو جائے تو ہمیں کسی مسیحیٰ کا انتظار ترک کر کے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا اور حرام کی کمائی کو یکسر رد کرنا ہوگا۔ جب ہم حلال کی جستجو کریں گے اور اپنی اولاد کو حلال کا لقمہ کھلائیں گے تو اُن کےکردار اوراِخلاق ٹھیک ہوں گے۔ میں یہاں اُن ذہین عاقل و بالغ نو جوانوں سے بھی یہ التماس کروں گا کہ وہ اس بات پر غور کریں کے اُن کے گھر میں جو پیسہ آرہا ہے وہ حلال ہے یا حرام؟ کیا اُن کے گھریلو اخراجات ان کے گھر کی آمدن سے زیادہ ہیں؟ اگر ہاں! تو اُن کے گھر حرام کی کمائی آ رہی ہے جس کو اُنہیں روکنا چاہیے۔
یاد رکھئے! جب ہم صرف حلال کے رزق پر اکتفا کریں گے تو سب سے پہلے تو یہ کہ اللہ ہمارے رزق میں کشادگی کرے گا اور پھر جب کبھی ہماری حلال کی آمدن ہمیں کم پڑے گی تب ہی ہم میں وہ ہمت پیدا ہوگی جو ہمیں اس بات پر آمادہ کرے گی کے کسی بھی قیمت پر اِس نظام کو اب تبدیل کرنا ہے۔ جان لیجئے کہ یہ کام کسی حرام خور کے بس کا نہیں!

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سےہی نہ ٹپکا تو پھرلُہوُ کیا ہے؟

4.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔