03:09    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ہمارے مسائل

1171 1 0 05

سرفراز صدیقی - 2015-جون-02

کم عمری میں اسکول کی شروعات

پیدائش کے دن سےلے کر 5 سال تک کی عمر ایک بچے کے لئے اپنے والدین بالخصوص اپنی ماں کے ساتھ ایک مضبوط جذباتی رشتہ (emotional bonding) پروان چڑھانے کی عمر ہوتی ہے۔ دودھ پلانے کے دنوں سے لے کر گھٹنے کے بل چلنے تک بچہ اپنی ماں کے کلیجے سے چمٹا رہتاہے۔ پھرایک دن وہ اپنے پیروں پرکھڑا ہو کر چلنا شروع کردیتا ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچے میں تجسس بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی بدولت وہ ہر چیز کو پکڑ کر دیکھنا اور چکھنا چاہتا ہے یوں اُسے اکثر تکلیف پہنچتی ہے یا پھر وہ کھیل کود میں گرتا ہے اور چوٹ لگنے سے رو پڑتا ہے۔ بچے کے رونے پر ممتا کی ماری ماں بھاگ بھاگ کر اُس کو اُٹھا کر پیار کرتی ہے، سینے سے لگا کر بھینچ لیتی ہے اور بے تحاشہ چومتی ہے۔ طرح طرح کی آوازیں نکالتی ہے، ہاتھو ں سے اُچھالتی ہے ، جھُلاتی ہے اور جس طرح بھی بن پڑے بچے کا دھیان بٹا کر اُسے چپ کرواتی ہے۔ کئی سال تک تمام تمام دن بچے کے لیے اپنی ماں کا یہ بار بار چومنا، سینے سے لگانا اور کھیلنا لا شعوری طور پر بچے کے اندر ایک ایسی محبت کی داغ بیل ڈالتا ہے جو زندگی بھر اُس کے ساتھ نتھی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر بار کی چوٹ کھانے پر ماں کے تڑپنے اور پیار کرنے کی وجہ سے بچہ اپنی ماں کو اپنا درد شریک سمجھ کر اُس پر بھروسا کرنے لگتا ہے۔ اُسے اپنی ماں کی شکل میں ایک مہربان اور شفیق شخصیت نظر آتی ہے جو اُس کی مشکل کشا بھی ہوتی ہے۔

انہی ابتدائی دنوں میں ایک ذہین ماں کھیل ہی کھیل میں اپنے بچے کو بہت سی چھوٹی چھوٹی لیکن بڑے کام کی باتیں سکھاتی ہے جو اُس بچےکے لئے اپنی آنے والی زندگی کو ڈھنگ سے گزارنے کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ باتیں بچے کو کوئی انجانی ہستی نہیں بلکہ ایک قابل بھروسہ شخصیت بتاتی ہے اس لیے یہ باتیں بہت جلد بچے کے دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ اس عمل کو ہم عرف عام میں تربیت کرنا کہتے ہیں (یقین جانئے آج پاکستان کی یہ حالت زار نہ ہوتی اگر والدین نے اپنی اولادوں کی تربیت ٹھیک سے کی ہوتی)۔ اس کے علاوہ ماں بچے کو رات میں سلانے سے پہلے لوری دیتی ہے اور سبق آموزکہانیاں سناتی ہے جس سے بچے میں اِخلاق کے ساتھ ساتھ تخیل کی قوت(power of imagination) جِلا پاتی ہے جس کی بدولت اُس میں تخلیقی صلاحیت (creativity) اُجاگر ہوتی ہیں جو اُس کی آنے والی زندگی میں بہت کام آتی ہے ۔ جس انسان میں یہ صفات ہوں اور وہ محنت کرنا جانتا ہو اُسے ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا چاہے اُس کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری ہو یا نہ ہو۔

صد افسوس! اس جدید دور میں پڑھائی اور سماجی ترقی (social development) کے نام پر لوگوں نے پیسہ کمانے کے ادارے کھول لیے ہیں جن کو وہ مونٹیسوری (Montessori) ، پریپ (Prep) اور کنڈرگارٹن (Kindergarten or KG) یا ایسا ہی کوئی اور نام دیتے ہیں جو در حقیقت دن کی نگہداشت کے مراکز (day care centres) ہیں۔ان اداروں میں ہر صورت کوشش یہ کی جاتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی عمر میں بچوں کو داخل کروا لیا جائے بلکہ پیدائش سے پہلے ہی رجسٹریشن کروا لی جائے۔ یوں ان کی مستقبل کی آمدنی یقینی بھی ہو جاتی ہے اور بڑے اسکولوں میں ممکنہ طور پر بچہ اگلے 12 یا 14 سال تک کے لیے پابندبھی ہو جاتاہے۔ یعنی اُن کا مستقل کلائنٹ (client) بن جاتاہے۔ طالب علم کے بجائے کلائنٹ یا گاہک کی اصطلاح ہم نے اس لیے استعمال کی ہے کہ جو کچھ علم کی شمع جلانے کے نام پر آج کل ہمارے ملک میں ہو رہا ہے وہ صرف مفاد پرستی کی تجارت ہے۔ اس تجارت کی وجہ سے جلنے والی دولت کی شمع ہمارے معاشرے میں خود غرضی کے اندھیرے پھیلا رہی ہے!

آج سے کئی دہائیوں پہلے ہمارے ہاں ماؤں نے خوبصورتی قائم رکھنے یا سہل پسندی کی وجہ سے اپنے بچوں کو اپنے سینوں سے دور کرکے ڈبے کے دودھ کا سہار لے لیا( دودھ نہ پلانے کے طبی نقصانات کو ہم اس وقت الگ رکھتے ہیں)۔ پھر جیسے ہی ان بچوں نے چلنا سیکھا والدین نے ان کو "بڑا آدمی" بنانے کی دھن میں یا ماں نے اپنی ذات کے لیے درکار وقت کے حصول کی وجہ سے اپنے ننھے سے جگر گوشے کو لہک لہک کر مغربی نظمیں پڑھانے اور خرافاتی دن منانے کے لیے بڑی بڑی فیسوں کے عوض بخوشی اِن کاروباری اداروں کے سپرد کر دیا۔ یہ وہی ادارے ہیں جو آئے دن والدین کی ڈھیروں رقم طرح طرح کی پوشاک (costume) اور پروجیکٹس پر خرچ کروا دیتے ہیں جو ایک متوسط آمدنی والے خاندان کے لیے اضافی بوجھ کا باعث ہے۔

اس طرح کے اداروں میں بچے شاید خود اعتمادی کے میدان میں جھنڈے گاڑنا سیکھ لیتے ہیں اور کلاس کے دیگر بچوں کے ساتھ ملنساری بھی سیکھ لیتے ہیں مگر جن لوگوں کے ساتھ ان بچوں کو تا عمر مل کر چلنا تھا ( یعنی اُن کے اپنے والدین)، یہ بچے اُن سے گہری قربت نہیں پروان چڑھا پاتے۔ ان بچوں اور ان کے والدین کے مابین نہ وہ اٹوٹ محبت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ مکمل بھروسا ہوتا ہے جو آنے والی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے والدین کی عمر کے آخری حصے میں جب وہ بچوں کی طرح اپنے لیے کچھ نہیں کر پاتے اور باتیں بھی بچوں والی کرتے ہیں اولاد انہیں اپنے سینے سے لگانے کے بجائے اپنے اوپر بوجھ تصور کرنے لگتی ہے۔ والدین اور اولاد دونوں کے لئے یہ سراسرگھاٹے کا سودا ہے ۔

بڑے رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان کا پورا تعلیمی نظام غیر فطری اور غیر منطقی جہالت پر مبنی ہے۔ اس میں پیلے یا نیلے اسکول کی کوئی تخصیص نہیں۔ سب نے مل کر والدین کو "پرسنٹیج" (Percentage) اور "اے اِسٹار" (A-star) نامی سراب کے پیچھے دوڑایا ہواہے۔ ممکن ہے کہ یہ نظام ایک بچے کو اچھا اور پر اعتماد سائنسدان، ماہر معاشیات، قانون دان، ڈاکٹر، انجینئر، اکاؤنٹینٹ یا اسی طرح کا کچھ اور تو بنا دے مگر اس بچے کو اپنے ماں باپ سے محبت کرنے والا فرمانبردار بچہ نہیں بنا سکتا۔ اور جو بچہ اپنے بوڑھے والدین کا نہ ہو تو پھر وہ ہفت اقلیم کی دولت کمانے کے باوجود قلاش ہے۔ ایسا بچہ کبھی بھی معاشرے کا ایک اچھا اور کارآمد فرد کبھی نہیں بن سکتا۔ قطع رحمی کے باعث ایسے بچوں کی آخرت بھی کچھ اچھی نہ ہو گی۔


یاد رکھئے! جو لوگ آج اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں اَپنی شفقت کے سائے اور محبت سے پُرسینوں سے دور کر رہے ہیں وہ بچے اپنے والدین کو اُن کی بڑی عمر میں اپنے آپ سے دور کر دیں گے۔ اور یہ والدین پھر اپنے ملنے والوں کو یہ بتائیں گے کہ ہمارا بیٹا امریکہ میں بہت بڑا سرجن ہے، بہت بڑا گھر ہے اُس کا، بڑی گاڑی ہے، ماشاء اللہ 3 عدد بچے ہیں اُس کے۔ ہم سے ملنے بھی ہر سال آتا تھا مگر اب فیملی بڑی ہو گئی ہے اس لیے چند سالوں سے آیا نہیں۔ لیکن جلد ہی آنے کا کہہ رہا ہے۔

ہمارے خیال میں ایک ایسا تعلیمی نظام جو رشتوں کو جوڑ نہ سکے اُسے توڑ دینا بہتر ہے۔

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔