جدّت پسندی اور معیار زندگی بلند کرنے کے چکر میں آج ہم جس قسم کی شہری زندگی گزار رہے ہیں وہ در حقیقت ایک پس ماندہ زندگی ہے جس میں ہر وہ چیز جو آپ اپنے حلق سے اپنے شکم میں اُتار رہے ہیں وہ یا تو حرام ہے یا پھر ملاوٹ شدہ ہے۔ اور ملاوٹ بھی اُن اجزا سے جو آپ کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ ہمارے ملک کی عوام میں فی زمانہ بے انتہا بڑھتی ہوئی بیماریاں اسی خرابی کا شاخسانہ ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جولوگ اس پر آشوب دور میں بڑی مشکل سے حلال کما رہے ہیں وہ بھی بازار سے حرام اور مضر صحت غذا خریدنے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف لوٹ مار اور سرمایہ داری نظام کی وجہ سے ہونے والی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے ایک گروہ میں چھن جانے کے خوف کو پروان چڑھایا ہے تو دوسرے گروہ میں "نہ ہونے" کی مایوسی نے سماج سے چھین لینے کی چاہ کو فروغ دیا ہے۔ آج اس ملک کے پڑھے لکھے نوجوان ڈگریا ں ہاتھ میں تھامے نوکری ملنے کی تمنا میں اپنی عمر کے سنہری دن ضائع کر رہے ہیں۔ اکثر ملک سے باہر جانے کی تگ ودو میں لگے ہیں اور کچھ مایوسی کے عالم میں سڑکوں پر لوگوں سے موبائل فون اور پرس چھینتے پھر رہے ہیں۔ الغرض پورے ملک میں مایوسی اورحرص و حوس نے ہر سوُ اپنا ڈیرا ڈال لیا ہے۔
کچھ خوش خیال لوگ بد عنوان حکمرانوں سے تبدیلی کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ اِن لٹیروں کے حق میں بددُعائیں کر رہے ہیں ، کچھ ان کو بدل کر دوسری قسم کے نوسر باز اور عاقبت نا اندیش حکمران لانے کا پلان بنا رہے ہیں اور کچھ صرف اللہ سے دُعا کر رہے ہیں کہ وہ اِن کے حال پر رحم فرمائے۔ مگر اپنے سچے دین سے دوری نے انہیں یہ بات بھلا دی ہے کہ اللہ تعالٰی نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے اور یہ بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ایسی گمراہ قوم پر وہ اُنہی کی طرح کے حکمران بھی لے کر آتا ہے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ ہمیں اپنے ملک کی حالت کو بدلنے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور اُس کے لیے اپنی سوچ کو سب سے پہلے تبدیل کرنا ہوگا۔
اس نفسا نفسی کے دور کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اللہ کے احکامات ماننے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں میں سادگی لانی ہوگی۔ اگر انسان کی بنیادی ضرورت کھانا، چھت اور لباس ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم ایک ایسے ملک میں جہاں اللہ تعالٰی نے ان گنت نعمتوں میں سے ایک یعنی بہت ساری زرخیز زمین ہمیں دی ہے وہاں ہم کاشتکاری کے ذریعے اور مویشی پال کر سادگی سے زندگی بسر کرتے؟ خود بھی پاک و حلال غذا کھاتے اور اپنے اولاد کو بھی کھلاتے۔ مگر ہم تو اسے دقیانوسی اور کم تر طریقہ زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کام کو حقیر جانتے وقت ہم تو یہ بھی نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیھم السلام یعنی انسانوں میں اعلٰی ترین انسانوں سے بھیڑ بکریاں کیوں چروائیں؟
ہم لوگوں کی نئی نسل یوں تو بہت پڑھ لکھ گئی ہے مگر ہم آج دُنیوی اعتبار سے بھی ایک کوتاہ بین قوم ہی ہیں۔ ہمیں یہ نظر ہی نہیں آتا کہ دُنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی بدولت بڑھتی ہوئی غذائی قلت آنے والے وقت میں کس چیز کی اہمیت کو زمین سے آسمان پر لے جائے گی؟ خوراک کی کمی کی بدولت مستقبل میں قومیں زمین اور پانی کے لیے ایک دوسرے سے جنگ کریں گی۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے اس گھمبیر مسئلہ کو خاموش سونامی (silent tsunami) کا نام کیوں دیا گیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کے اسی اندیشے کے پیش نظر آپ کے اپنے ملک میں آپ کی سینکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین خلیجی ممالک کےعربوں نے خرید لی ہے؟ آپ میری بات لکھ لیں کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب لوگ آسائش کا ہر سامان ہوتے ہوئے نوٹوں کی گڈیوں کے عوض تھوڑے سے راشن کی بھیک مانگتے پھریں گے۔
ہم اپنی اس تحریر کے ذریعے جدید علم حاصل کرنے اور سائنس و ٹیکنولوجی کے میدان میں ترقی کرنے کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف یہ کہنا چاہتے ہیں معیار زندگی کو بلند کرنے کی دوڑ میں کھو کر مٹّی کو حقیر مت جانیے بلکہ اس کی اہمیت کو سمجھئے، خصوصاً ایسے دور میں جب ہماری عوام معاشی بدحالی سے پریشان ہے۔
مٹّی کی قربت انسان کی دُنیا اور آخرت دونوں کے لیے بے انتہا مفید ہے۔ یہ ایک طرف تو انسان کو حلال رزق فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے تو دوسری طرف جسمانی محنت کی زندگی انسان کی صحت کوبرقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ لائف اسٹائل درست کروا کر بیماریوں سے دور رکھتی ہے یعنی فجر میں بیدار ہونا اور عشاء میں سو جانا۔ مٹّی انسان کو اس کا اصل مقام یاد دلا کر اسے منکسر المزاج بناتی ہے اور تکبر سے بچاتی ہے۔
زرا سوچئے اگر مٹّی میں انسان کے لیے فائدہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنی اتنی وسیع و عریض کائنات میں اپنی سب سے اعلیٰ تخلیق کو مٹّی سے پیدا نہ فرماتا ۔ آج ہمیں اس رمز کو سمجھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اور بہت ممکن ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی میں اپنے پاؤں کے نیچے موجود مٹی کو اُس کا جائز مقام دیں تو ہمارے مرنے کے بعد وہ قبر کے مہیب اندھیرے میں اپنے آپ کو ہم پر تنگ نہ کرے۔ واللہ عالم!
والسلام،
سرفراز صدیقی