ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ آدھا رمضان گزر بھی گیا اور مجھے احساس تک نہ ہوا، دوسری طرف آدھا غزہ خاک و خون میں لتھڑ گیا مگر اُمت مسلمہ کو صحیح معنوں میں احساس بھی نہ ہوا! فی زمانہ "اُمت مسلمہ" محض ایک کتابی لفظ بن چکا ہے جو میں نے یہاں اپنے دل کو بہلانے کے لیے لکھ دیا ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہم بہت زمانے پہلے ہی منقسم ہو چکے۔ ماضی رفتہ کی طرح آج اگر ہم ایک اُمت ہوتے تو غزہ کا یہ حال کبھی نہ ہوتا، غزہ کا کیا عراق، افغانستان، شام، کشمیر، پاکستان، برما، مصر، لیبیا اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی عزت و آبرو، جان ومال اتنے ارزاں نہ ہوتے۔ اسلامی عہد میں ایک سنہری دور ایسا بھی تھا کہ جب مسلمانوں نے اُس وقت کے غیر مسلم سندھ کے راجہ داہر کے ہاتھوں صرف ایک مسلمان لڑکی کی بے حرمتی روکنے کے لیے سمندر پار سے محمد بن قاسم کی قیادت میں لشکر کشی کر دی تھی اوردیبل کے ساحل سے لے کر ملتان تک کا علاقہ فتح کر لیا تھا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کراسپین کے بادشاہ راڈرک کے ہاتھوں ایک عیسائی نواب کی لڑکی کی آبرو ریزی کے بدلے کے لیے کی گئی التجاء کے نتیجہ میں گورنر موسیٰ بن نصیر کی طرف سے طارق بن زیاد کی قیادت میں اسلامی دستہ روانا کیا گیا جس نے 7 ہزار فوجیوں کی قلیل تعداد کے باوجود ایک لاکھ کی عیسائی فوج سے جنگ کی یعنی ہر 14 عیسائی فوجیوں سے صرف ایک مسلمان نے جنگ کی اور جنوبی اسپین (ہسپانیہ) سے لے کر جنوبی فرانس تک کے علاقوں کو فتح کر لیا تھا۔ اگر اُس موقع پر موسیٰ طارق کو فرانس کے محاذ سےواپس نہ بلوا لیتا تو شاید آج پورے یورپ کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔
یہ تو اُس وقت کی بات ہے جب مسلمان آبادی کے لحاظ سے بہت تھوڑے تھے مگر آج دُنیا کی 7 ارب کی کُل آبادی میں الحمدُللہ ڈیڑھ ارب(%21<) مسلمان موجود ہیں مگر پھر بھی یہ حالت زار؟ اس قدرذلت, اس قدر پستی؟ حیف صد حیف! میرے نزدیک اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے اللہ کےواضح فرمان سے روگردانی۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں صاف صاف حکم دیا ہے : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا یعنی "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو"۔ مگر افسوس ہم نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنی صفوں کو مضبو ط کرنے کے بجائے اسلام ہی کے نام پر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مساجد بنا لیں۔ کوئی شیعہ ہو گیا تو کوئی سنّی، کوئی دیوبندی تو کوئی بریلوی، کوئی صوفی تو کوئی سلفی، کوئی اہلسنت تو کوئی اہل حدیث اور اسی طرح کے دیگر سینکڑوں چھوٹے بڑے گروہوں میں اُمت مسلمہ بٹ کر رہ گئی اور پھراس پرمستزاد یہ کہ ہر ایک گروہ کی نظرمیں دیگر تمام گروہ کفّار قرار پائے۔ یوں جب ہمارا شیرازہ بکھر گیا توہم نے اپنے کھلے دشمن کو چھوڑ کر آپس میں ہی لڑنا بھڑنا شروع کردیا اور پھربتدریج ہماری حیثیت ایک پر ہبیت شیر سےکم ہو کر اُن مسکین بھیڑوں کی سی ہو گئی جو تعداد میں تو بہت ہوتی ہیں مگر وہ صرف اور صرف اپنا ذاتی پیٹ بھرنا جانتی ہیں یا پھر بات بے بات ممیانا جانتی ہیں۔ جب کبھی کوئی بھیڑیا کسی ریوڑ میں موجود بھیڑ کا شکار کرتا ہے تو اپنی انفرادی دنیا میں گم ارد گرد موجود یہ گھاس چرتی بھیڑیں تھوڑی دیر کے لیے بدکتی اور ممیاتی ہیں اور پھر فوراً ہی دوبارہ اپنے پسندیدہ مشغلہ یعنی کھانے پینے میں لگ جاتی ہیں۔ ایک یا چند بھیڑوں کی قربانی کے بعد اُن بقایا بھیڑوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس وقت تو بھیڑیے کا شکم سیر ہوچکا ہے اور اُن کی جان بچ گئی ہے۔ اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بھیڑیں شکار ہوتی رہتی ہیں مگراِن کی آبادی میں اضافہ کچھ اس طرح سے ہوتا ہے کہ اس قتال کے باوجودمجموعی طور پر بھیڑوں کی تعداد بڑھتی جا تی ہے۔ دوسری طرف شکاری اس بات پربہت خوش ہوتا ہے کہ اُسے اپنی ہر طرح کی بھوک مٹانے کا سامان اپنی ہی آنکھوں کے سامنے چرتا نظر آتا ہے۔ ہماری یہی ایک سب سے بڑی حماقت ہے کہ جس کی وجہ سے ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا ہے۔
آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم گھاس کے میدانوں کے علاوہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی ممیاتے ہیں اوراطراف میں اگر کوئی چپ کھڑا ہو تو اُس کو کہتے ہیں کہ تم کیسے مسلمان ہو اپنی پروفائل پکچر یا کور فوٹو یا سٹیٹس اپڈیٹس میں اپنا احتجاج کیوں نہیں رجسٹر کراتے؟ اجتماعی دُعائیں کیوں نہیں پڑھتے؟ اللہ کے سامنے رورو کر فریاد کیوں نہیں کرتے؟ بھیڑیے کہ ظلم پر ممیاتے کیوں نہیں؟ اب کوئی ان معصوم لوگوں سے پوچھے کہ بتاؤ کہ جس دن سے اللہ تعالٰی نے بھیڑیا تخلیق کیا ہے کیا کبھی اُس نے بھیڑوں کے ممیانے پر کان دھرا ہے؟ اگر تاریخ میں ایک متربہ بھی ایسا ہوا ہے تو پھر یقیناً ممیانا تمھارا حق بنتا ہے اور اگر ایسا کبھی نہیں ہواتو خدارا بند کرو یہ رونا پیٹنا، یہ آہ و بکا، یہ گریہ و زاری، یہ نوحہ و فریاد، اور کر و اپنی صف بندی اُس طرح جس طرح ایک اُمت مسلمہ کو کرنی چاہیے ۔ چھوڑو اللہ پریہ بات کہ اُس کے دین میں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا کون کافر ہے اور کون ناجی ہے، کون جنتی ہے اور کون جہنمی۔ اورکرو آپس میں اتحاد اُس طرح پیداکہ جس طرح میرا اور تمہارا خدا چاہتا ہے، وہ خدا جس کے قبضہ میں میری ، تمھاری اور غزہ کے مظلوموں کی جانیں ہیں۔ سورۃ الرّعد کی گیارہویں آیت میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ: "بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔" اب بھی اگر تم نے اللہ کے حکم کے مطابق اُس کی رسی کو مل کر مضبوطی سے نہیں تھاما اور یونہی ایک دوسرے کو کافر کافر کہہ کر اپنے دینی بھائی سے دینی دشمن بناتے رہے اور اپنی ہی صفیں کھوکھلی کرتے رہے تو پھر یاد رکھو تمھاری دُعاؤں اور مناجات کو قبولیت کا درجہ ملنے والا نہیں۔ دُنیا میں پھیلے بھیڑیے اسی طرح تمہاری جان و مال اور عزت و آبروُ سے کھیلتے رہیں گے اور تم اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ممیاتے رہنا اور یہ اُمید رکھنا کہ اللہ تمھارا حال بدل دے گا اور تمھاری عزت اور جان بخش دے گا۔ سوچواگر ایسا کبھی ہونا ہوتا تو پھر تمام معصوم بھیڑیں اللہ سے دُعا کرتیں اور اپنی اپنی جانیں بھیڑیوں سے بچا لیتیں۔ لیکن کیا کبھی ایسا ہوا؟
آخری مگر بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ جس کسی کی بقا کا دارومدار کسی دوسرے کی موت پر ہو اُس سے کسی قسم کی رحمدلی کی اُمید لگانا دُنیا کی سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ وہ مارے گا اور ضرور مارے گا، اُسے کوئی احتجاج نہیں روک سکتا۔ اس میں رتّی برابر شک نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ اپنے بچاؤ کے لیے مارنے والےظالم کا ہاتھ روک سکو؟ میرا نہیں خیال کہ ممیاتی بھیڑیں کبھی بھی ایسا کر سکتی ہیں۔
والسلام،
سرفراز صدیقی