سانحہ پشاور جیسے ظلمِ عظیم پر جہاں دل خون کے آنسو رویا وہیں اس اندوہناک واقعہ پر اپنی قوم کے سوگ منانے کے طریقے کو دیکھ کرطبیعت مزید مکدر ہو گئی۔ یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ من حیث القوم ہم ذہنی طور پر کس قدر مرعوب و مغلوب ہو گئے ہیں کہ ہم اپنے اتنے بڑےنقصان پر سوگ بھی اُسی قوم کے طریقے سےمنارہے ہیں کہ جس کی استعماری سوچ، دُنیا کے وسائل پر اپنے غلبہ کےحصول کی کوششوں اوراسلام و پاکستان دشمنی کی وجہ سےہم اس اندوہناک صدمے سے دوچار ہوئے ہیں! یہ کوئی بہت پرانے دور کی بات نہیں کہ جب ہم کسی کے بچھڑ جانے پر ایصال ثواب کے لیے گھر پر یا مسجد میں قرآن شریف پڑھا کرتے تھے اوراپنی عبادات میں مرحومین کے لیے مغفرت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔ لیکن سانحہ پشاور پران آنکھوں نے یہ منظربھی دیکھا کہ گلی گلی، قریہ قریہ ملک کے طول و عرض میں بڑی تعداد میں خواتین، مرد اور بچے شام ڈھلے بالکل یہود اور نصاریٰ کی عبادتِ شب (vigil) کی طرح موم بتیاں جلارہے تھے اوراُنہیں ہاتھوں میں پکڑ کراظہار افسوس و یکجہتی کے لیے دو منٹ کی خاموشی بھی اختیار کررہےتھے۔ میڈیا اسکی کوؤریج بھی بھرپور کررہا تھا اور کچھ لوگ اپنے اپنے سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک کے صفحات کو مزئین کرنے کے لئے 'سیلفی' بھی کھینچ رہے تھے ۔
فی زمانہ ایسا لگتا ہے اہل مغرب کی بود و باش، رہن سہن، تہذیب و تمدن، لباس، زبان اور لب و لہجہ کو اپنانے کی خواہش ہماری رگ و پے میں کچھ اس طرح سرائیت کر گئی ہے کہ اب ہم نے اپنے مذہبی اور اخلاقی ورثہ کو، تہذیب اور تمدنی اثاثوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اب ہم کھلے دل سے ان اہلیان مغرب کی پیروی کرنا چاہتے ہیں جو اپنے بوڑھے والدین کوکسی بے کار شئے کی طرح اولڈ ہاؤسس میں چھوڑ آتے ہیں اور اپنی زندگی میں اِ ن کی یاد کو باقی رکھنے کے لیے 365 دنوں میں سے ایک دن "مدرس ڈے" اور ایک دن "فادرس ڈے" مناتے ہیں۔ اب ہم بھی انہی کی تقلید میں بڑے ذوق و شوق سے یہ دن مناتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اولڈ ہاؤسس کی تعداد بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ہم نے ان بزرگ ہستیوں کے ساتھ بھی اہلیان مغرب والا سلوک بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اپنے بچپن میں جب ہم کسی بھی کام کے قابل نہ تھے تو یہی بزرگ ہمیں کھلاتے پلاتے، نہلاتے دھلاتے، اوڑھاتے پہناتے، بٹھاتے لٹاتے اور سلاتے تھے۔ ہمیں زمانے کے سردو گرم سے بچاتے اور ہماری ہر شرارت کو ہنس کر ہوا میں اُڑا دیتے تھے یہاں تک کے کھلی نافرمانیوں پر بھی صرف نظر سے کام لیتے تھے۔ اور جب وہی مہربان ہستیاں اپنی طبعی عمر کے آخری حصہ میں پہنچتی ہیں تو بجائے اُن کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنے کے اور اُن کی خدمت کر کے اُن کی دُعائیں حاصل کرنے کے ہم میں سے کچھ ناعاقبت اندیش انہیں اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ تف ہے ایسی اولادوں پر !
میاں بیوی کے پاک رشتے میں جہاں محبت شادی کے بعد پروان چڑھتی تھی اب وہ شادی سے پہلے کی ناجائز مغربی محبت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مخلوط نظام تعلیم، بے لگام پاکستانی میڈیا، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، اسمارٹ فون، ڈش، مغربی فیشن ، غیر اخلاقی تشہیرات، شیشہ بار، بنا روک ٹوک گھر سے باہر رہنے کی آزادی اور ویلینٹائن ڈے جیسے لادینی تہوار نے نوجوانوں میں شادی سے پہلے ہی محبت کرنے کو فروغ دینے میں بڑی مدد کی ہے۔ شادی میں لڑکا لڑکی کی پسند کا شامل ہونا گناہ نہیں بلکہ عین شرعی ہے مگر شادی سے پہلےلڑکے لڑکیوں میں آزادانہ میل جول کا اگر سد باب نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ہاں شرح طلاق بھی اہل مغرب کی شرح سے مقابلہ کرنے لگے گی۔ بڑی سادہ سی بات ہے کہ شادی کا وہ بندھن جو ایک مضبوط خاندان کی شروعات کرنے کے مقصد کے بجائے محض دماغ پر سوار ہارمونز (hormones) کی رسّی سے باندھا جائے گا وہ ہارمونز کے کمزور پڑتے ہی ٹوٹ جائے گا۔ اور عموماً جب نکاح کا مقدس رشتہ ٹوٹتا ہے تو اُس وقت تک دو تین اولادیں جنم لے چکی ہوتی ہیں اور یہی اولادیں والدین کے مابین ہونے والی طلاق میں سب سے زیادہ نقصان اُٹھاتی ہیں۔ والدین میں علیحدگی کی صورت میں ان بچوں کی نفسیات میں والدین، گھر، خاندان اور معاشرہ جیسے الفاظ محض الفاظ ہی رہ جاتے ہیں اور یوں آہستہ آہستہ وہ معاشرہ جنم لیتا ہے جس کی ہر صبح کا اغاز "میں" سے شروع ہوتا ہے اوررات گئے تک "میں" پر ہی قائم رہتا ہے۔ یعنی اہل مغرب کا معاشرہ! اور جب ایک انسان کی زندگی میں سب کچھ 'میں' ہو جاتا ہے تو پھر مادہ پرستی کا عروج شروع ہوتا ہے۔ اور یوں پیسہ ہی دین، پیسہ ہی ایمان اور بالآخر پیسہ ہی معبود بن جاتا ہے۔
اسی طرح مغرب سے درآمد شدہ کیمبرج سسٹم کی تعلیم اپنے بچوں کو دینے کے چکر میں اور اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہم نے اپنے تعلیمی نصاب سے اسلامیات کو بتدریج خارج کرنا شروع کر دیا ہے۔ ساتھ ہی مخلوط نظام تعلیم میں جنسیات کی تعلیم ابتدائی درجات سے ہی دینی شروع کر دی ہے۔۔۔۔ نتیجتاً اسکولوں میں بے راہ روی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس طرح کی مغرب زدہ تعلیم سے ہم اپنی اولاد کو بہترین ڈاکڑ، انجینیر، آرٹسٹ، اکاونٹنٹ، سائنسدان تو شایدبنا لیں گے مگر ایک اچھا مسلمان شاید کبھی نہ بنا پائیں۔ یوں اہل مغرب کی طرح یہ دُنیا تو شاید ہم بہت اچھی طرح حاصل کر لیں مگر۔۔۔۔۔۔۔اپنی ' آخرت' کی قیمت پر کہ جس سے بڑی قیمت دُنیا میں شاید کوئی اور نہیں اور یہ صریحاً گھاٹے کا سودا ہے۔
پھر ایک اور مغربی سوچ ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جا رہی ہے یعنی 'مساوات مرد و زن'۔ اس بحث سے قطع نظر کہ یہ بات کس حد تک اور کس کس زاویہ سے درست ہے۔ انسان اگر صرف جسمانی ساخت اور طاقت کا موازنہ کرے تو یہ بات صاف طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ قدرتی طورپر اس دُنیا میں عورت کے کرنے کے کام مرد سے مختلف ہیں۔ جو کام ایک مرد باآسانی کرسکتا ہے وہ ایک عورت نہیں کر سکتی اسی طرح جو امور ایک عورت باحسن و خوبی سر انجام دے سکتی ہے وہ ایک مرد کسی صورت نہیں کر سکتا اس لیے یہ دونوں کبھی بھی ایک جیسے کام کے لیے برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لیے "عورت کو مرد کے شانہ بہ شانہ کام کرنا چاہیے" یہ مغربی نعرہ محض ایک کھوکھلا نعرہ ہے جو ہمارے خاندانوں کی بنیاد کو تباہ کر رہا ہے۔ ہمارے نزدیک نعرہ یہ ہونا چاہیے "عورت کو مرد کے شانہ بہ شانہ اپنا اپنا کام کرنا چاہیے"۔ یعنی دونوں کو برابر سے اپنے اپنے امور سر انجام دینے میں محنت کرنی چاہیے۔ کسی ایک فریق پر بوجھ کم یا زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
جمہوری نظام بھی ہم نے مغرب سے ہی گود لیا ہے بغیر یہ جانے بوجھے کہ اس کا فائدہ کیا ہے ، کیوں ہے اور کس کو ہے؟ اس کا نقصان کیا ہے اور کیوں ہے ؟ یہ کیوں ہمارے ملک میں کام نہیں کرتا؟ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ بات ہمارے پڑھے لکھے لوگوں اور ساتھ ہی بہت سے جمہوری ملاؤں کے بھی پلّے نہیں پڑتی۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کے کیا واقعی اس دُنیا میں حقیقی جمہوریت ہے؟ اگر اس دُنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے داعی کی طرف دیکھا جائے تو اِس کی مثال دُنیا کے سب سے بڑے استحصالی ملک کی ہے جو "جس کی لاٹھی اُس کی بھینس" کی جیتی جاگتی تفسیر ہے یعنی وہ خود اس دُنیا کا بے تاج بادشاہ بنا پھرتا ہے جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے اوراکثریت سے کچھ نہیں پوچھتا ۔ دُنیا کے کل 196 میں سے 193 ممالک اقوم متحدہ کے ممبر ہیں جن میں سے سلامتی کونسل کے صرف 5 مستقل ارکان ہیں جن کے پاس موجود ویٹو پاورجمہوریت پسندوں کے لیے یقیناً غور طلب بات ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ میں اپنے گھر میں تو اللہ رسولﷺ کی بات کروں اور اپنے تمام گھر والوں کو مذہب کی پیروی کرنے پر زور دوں مگر اپنے گھر سے باہر اسلام کو یکسر بھلا کر ہر گناہ کھلے عام کروں۔ آپ بتائیے اگر میں ایسا کروں تو مجھے اچھا مسلمان کہا جانا چاہیے یا بدترین منافق؟ اور ا س سے بڑی بات یہ کہ کیا لوگوں کو میرے اس طرز عمل کو اپنانا چاہیے؟ سب سے آخری بات یہ ہے کہ ایک مسلمان کو کسی صورت یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ یہ کہے کہ مسلمان عوام پر اللہ کے بجائے عوام کی حکمرانی ہوگی (جو جمہوریت کے اصل معنی ہیں)۔ ظاہر ہے کہ جب عوام ہی عوام پر حاکم ہونگے تو قانون بھی عوام کا ہی ہوگا۔ جب قانون بھی انسان کا تو پھر منصف بھی انسان ۔ اور جزا و سزا بھی انسان کی اپنی وضع کردہ ۔ پھر آخرت کی بھلا کیا اوقات اور کیا ضرورت؟
اور ایک بہت بڑی برائی جو ہم مسلمانوں نے اہل مغرب سے مستعار لی ہے وہ ہے سود پر مبنی نظام معیشت۔ یہودی افکار سے پیدہ شدہ اس ایک نظام نے اس دُنیا کو کس طرح چند لوگوں کے ہاتھوں جکڑ کر رکھ دیا ہے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جن کے پاس کچھ نہیں ہے وہ تو جانتے ہیں کہ اُن کے پاس کچھ نہیں ہے مگر وہ جو یہ سمجھتے ہیں کے اس سودی نظام سے اُنہوں نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے وہ بھی خیام خالی میں مبتلا ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دُنیا کی پچاس فیصد دولت پر صرف ایک فیصد لوگ قابض ہیں۔ اور دنیا کے صرف 85 لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جو 3.5 ارب یعنی آدھی دنیا کے لوگوں کے پاس بھی نہیں ۔ یہ تمام دنیا اس وقت سود خور بینک مالکان کے قبضہ میں ہے اور یہ کون لوگ ہیں یہ کون نہیں جانتا؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سود حرام کیا ہے مگر ہم ہیں کے اہل مغرب کی طرح سود کھا بھی رہے ہیں اور اس پر خوش بھی ہیں! اسلامی بینکاری کو ڈھکوسلہ کہنے والے عمومی طور پر شاید غلط نہ ہوں مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اگر سب مسلمان اس نظام کو سپورٹ کریں اور اس نظام کی بہتری میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو اس میں موجود برائیاں وقت کے ساتھ ان شاء اللہ ختم ہو جائیں گی۔
القصہ مختصرہم مغربی فلسفے سے متاثر ہو کر وحی اللہ کے ذریعے متعین کیے گئے ضابطہ حیات کے منکر بنتے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اگر یہی روش جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم بھی اپنے آپ کو بندر کی اولاد ماننا شروع کر دیں گے۔ پھر جو انسان بندر کی اولاد ہو اُسےعبودیت ، شرم و حیا، اخلاق، معاشرہ، وحی، جزا سزا، جنت دوزخ سے کیا سروکار؟
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
فی زمانہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر مبنی اہل مغرب کی بہت سی اچھی باتوں کو اپنائیں اور اُن سے ہمارے معاشرے میں منتقل ہونے والی خرابیوں سے فی الفور اپنا پیچھا چھڑائیں۔ موجودہ دور میں اہل مغرب میں ایک جو بڑی خوبی کی بات ہے وہ ہے اُن کی سائنس اور ٹیکنولوجی کے میدان میں مہارت۔ جس پر ہمیں بہت سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے کیونکہ اگر ہم نے اس میدان میں ترقی نہیں کی تو جو آج ہم مرعوب ہونے کی وجہ سے اپنی ذہنی غلامی کو رو رہے ہیں خاکم بدہن کل اپنی جسمانی غلامی پر نوحہ کناں ہوں گے۔
وقت مٹھی میں دبی ریت کی مانند تیزی سے پھسل کر ختم ہو رہا ہے۔ اپنے مستقبل کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے اور بہت جلد کرنا ہے! اس فیصلے کے لیے ہمیں جوسب سے اہم نکتہ ذہن میں رکھنا ہے وہ یہ کہ آپ کا اورمیرا جسم تو ایک دن ختم ہو جائے گا مگر ہمارا مستقبل کبھی ختم نہیں ہوگا!
والسلام،
سرفراز صدیقی