03:06    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

حکایات سعدی و رومی

5211 8 0 04.3

طوطے کا پیغام - حکایات رومی

تصویر سے پیوستہ: سوداگر ہندوستان پہنچا اور دورانِ سفر جب اس کا گزر ایک جنگل سے ہوا اور اس کے کانوں میں طوطوں کی آواز آئی تو اسے اپنے پالتو طوطے کا پیغام یاد آیا۔ اس نے طوطوں کے سامنے جا کر اس کا پیغام سنا ڈالا۔ پیغام کا سننا تھا کہ ایک طوطا تھر تھرا تا ہوا نیچے گرا اور پھر بے جان ہو گیا۔ سوداگر بہت حیران ہوا اور اس واقعے سے یہی اخذ کیا کہ ضرور یہ طوطا میرے طوطے کا قریبی عزیز ہو گا جو اس کی قید کی خبر سن کر اس کی تاب نہ لا یا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ سوداگر کو بے حد افسوس ہوا۔

قصہ مختصر! جب سوداگر اپنے وطن واپس آیا تو اپنے سارے نوکروں کی فرمائش کردہ چیزیں اُن کے سپرد کر دیں جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ طوطے نے بھی پنجرے سے اپنے پیغام کا جواب طلب کیا۔ سوداگر کے چہرے پر غم کے سائے لہراگئے۔ اُس نے طوطے کو جواب نہ سننے کی تاکید کی لیکن طوطے کا اصرار بڑھتا گیا آخر سوداگر نے کہا: میں نے تیری حالت اور تیرا پیغام دونوں تیرے جنگل کے طوطوں کے سامنے گوش کیا۔ اُن میں سے ایک طوطا جو شاید تیرا قریبی عزیز تھا وہ نیچے گرا اور اُس نے پھڑ پھڑا کر اپنی جان دے دی۔ اتنا سننا تھا کہ قیدی طوطے کی بھی آنکھیں پتھرا گئیں۔ تھر تھری چھوٹ گئی اور وہ پنجرے کے اند ہی قلا بازی کھا کر بے جان ہو گیا۔ سوداگر نے جب اپنے سامنے اپنے پیارے طوطے کو یوں مرتے ہوئے دیکھا تو غم و اندوہ سے بدحواس ہوگیا۔ بار بار سینہ کوبی کرتا کہ میں نے یہ پیغام تجھے کیوں دے دیا؟ اب تیرے جیسا طوطی خوش بیاں کہاں سے لاؤں گا؟ ہائے میں نے کیا کردیا!

جب اُس نے خوب رو دھو کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو مرے ہوئے طوطے کو نہایت پیار سے پنجرے سے نکالا اور دیوار کے باہر پھینک دیا۔ باہر پھینکنا تھا کہ فوراً وہ طوطا اُڑ کر سامنے والے درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا۔ سوداگر ششدر رہ گیا۔ ایک ذرا سے طوطے نے اسے بے وقوف بنا کر رکھ دیا۔ وہ چلاکر بولا: “ اے چالاک و عیار طوطے یہ کیا قصہ ہے؟” طوطے نے جواب دیا “اے شخص! اگر سننا ہی چاہتا ہے تو سن اُس طوطے نے مجھے پیغام دیا تھا کہ تُو اپنی میٹھی بول چال ترک کر اور نغمہ سرائی بند کر۔ انہی اوصاف نے تجھے قیدی بنا دیا اور پھر خود بے جان ہو کر گرا تو مجھے یہ اشارہ دیا کہ تُو بھی خود کو بے جان ظاہر کر کے اس اسیری سے چھٹکارہ پا سکتا ہے۔ تیرا بہت شکریہ تُو نے میرا پیغام میرے ہم وطنوں کو دے کر اور مجھے اُن کا اشارہ بتا کر اس اندھی قید سے رہائی دلائی۔” سوداگر نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: “ جا! خدا تیری حفاظت کرے جاتے جاتے بھی تو مجھے ایک نیا راستہ دکھا گیا۔” طوطا سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا آخر کار اپنے ہم جنسوں سے آملا اور آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہونے لگا۔

میرے دوست! دراصل اس حکایت میں طوطے سے مراد نفس ہے۔ جب تک ہمارا نفس دلفریبیوں میں مبتلا رہتا ہےاپنی خواہشات کا قیدی رہتا ہے۔ جہاں یہ مردہ بن جاتا ہے تو ہمیں ان ذہنی آلائشوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ہمارا نفس اُس پتھر کی مانند ہے جو بہار آنے پر بھی سرسبزو شاداب نہیں ہوتااس لیے خوُد کو بھول کر خاک ہو جا تا کہ تجھ سے نت نئے پھول اُگیں اور تُو زندگی کا اصل مقصد سمجھ سکے۔

4.3 "7"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔