رات کے اندھیرے میں بس تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ اس کی ہیڈ لائٹوں سے سڑک روشن تھی بس میں بیٹھے انیس احمد بڑی بےچینی سے پہلو بدل رہے تھے۔ آج وہ جتنی جلدی گاؤں پہنچنا چاہ رہے تھے، اتنی ہی ان کو دیر ہو گئی تھی۔ یہ بس گاؤں جانے والی آخری بس تھی، لیکن مسافروں کی کمی کی وجہ سے دیر تک اسٹاپ پر کھڑی رہی۔ بس چلی تو بہت دیر ہو چکی تھی، لیکن مسافروں نے اس پر بھی سکون کا سانس لیا۔
کچھ فاصلہ طے کر کے بس چلتے چلتے رک گئی۔ بس کے اچانک جنگل میں رک جانے پر سب مسافر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ جب کوئی مسافر بس سے نہیں اترا اور نہ کوئی نیا مسافر بس میں چڑھا تو سب مسافروں کو غصہ آنے لگا۔
ایک بڑے میاں نے اپنی سیٹ پر سے کھڑے ہو کر کہا: "کیا ہوا؟ یہ بس کیوں روک دی؟"
ڈرائیور نے کہا: "بڑے صاحب! گاڑی کا انجن گرم ہو گیا ہے، اس لیے بس کو روکنا پڑا ہے۔
ایک نوجوان بولا: "ارے! کہیں یہ ڈاکوؤں سے ملے ہوئے نہ ہوں اور جان بوجھ کر بس کے خراب ہونے کا بہانا بنا کر اپنے ساتھیوں کا انتظار کر رہے ہوں۔"
"آپ خواہ مخواہ قیاس آرائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ شہر سے آئے ہوئے تمام مسافر اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔"
بس ڈرائیور نے مسافروں کو سمجھانے کی کوشش کی: "یہ ہمارا فرض ہے کہ مسافروں کی خدمت کریں۔ ڈاکوؤں سے مل کر ہمیں کیا ملے گا۔ فرض کیجیے ہم ان سے مل جاتے ہیں۔ جب روز روز بس لٹنے لگے گی تو پھر کوئی بھی مسافر اس آخری بس میں سفر نہیں کرے گا اور ہمارا دھندا چوپٹ ہو جائے گا۔ آپ لوگ اللہ کی ذات پر بھروسا رکھیے، کچھ نہیں ہو گا۔" ڈرائیور نے کہا۔
ڈاکوؤں کا نام سن کر انیس احمد پر کپکپی سے طاری ہو گئی۔ انھوں نے سن رکھا تھا کہ اس علاقے میں بڑے خطرناک ڈاکو ہوتے ہیں۔ اگر کوئی پیسے دینے میں ذرا تاخیر کرے تو فوراً سے اسے گولی مار دیتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے خوف سے انیس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں آ گئیں۔ ان کی جیب میں بیس ہزار روپے تھے، جو وہ اپنے کزن کو دینے گاؤں جا رہے تھے۔ انیس احمد نے ماتھے سے پسینا صاف کیا اور بس کے شیشے سے باہر دیکھا کہ کہیں واقعی ڈاکو نہ آرہے ہوں، لیکن باہر ہر طرف اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بس ڈرائیور نے بھی ڈاکوؤں کے خوف سے بس کی روشنی بجھا دی تھی تاکہ ڈاکو روشنی دیکھ کر اس کی طرف نہ آ سکیں۔ مسافر بظاہر خاموش تھے، لیکن چہروں سے خوف جھلک رہا تھا۔
انیس احمد کو ان کے کزن ہاشم کے بیٹے ندیم نے آج ہی شام ٹیلے فون کر کے اطلاع دی تھی کہ ہاشم کا خطرناک ایکسی ڈنٹ ہو گیا، آپ جلدی گاؤں پہنچیں۔ ایکسی ڈنٹ کی اطلاع ملتے ہی انیس احمد نے بیس ہزار روپے کی رقم احتیاطاً اپنے پاس رکھ لی تھی کہ کہیں پیسوں کی ضرورت نہ پڑ جائے، ہاشم کے علاج کے لیے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ کبھی رات میں سفر نہ کرتے۔
انیس احمد تین سال کے بعد اپنے گاؤں جا رہے تھے۔ ہاشم کے ایکسی ڈنٹ کی اطلاع نے احمد کو بے چین کر دیا تھا اور وہ جلد سے جلد ہاشم کے پاس پہنچنا چاہ رہے تھے۔
گاؤں قریب آنے پر بس ڈرائیور نے گاؤں کے مسافروں کو ویران اور سنسان سڑک پر اتار دیا اور بس نواب شاہ جانے کے لیے روانہ ہو گئی۔ سڑک پر اندھیرا تھا اور سڑک کے کنارے درختوں کا سلسلہ دور تک نظر آ رہا تھا۔
"ارے! یہ بس والے نے ہمیں کہاں اتار دیا ہے۔" انیس احمد نے بس سے اترنے پر حیرت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
ایک مسافر بولا: "لگتا ہے بابو صاحب! آپ خاصے دنوں بعد گاؤں آئے ہیں۔"
انیس نے غصے سے کہا: "یہ درست ہے کہ میں تین سال کے بعد نیو سعید آباد آیا ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ بس والا ہمیں اسٹاپ پر اتارنے کے بجائے جنگل میں اتار دے۔"
دوسرے مسافر نے وضاحت کی: "بات دراصل یہ ہے کہ نیشنل ہائی وے اس طرح بنا دی گئی ہے کہ بڑی گاڑیاں اور بھاری ٹرک گاؤں کی چھوٹی سڑک سے گزرنے کے بجائے اس سڑک سے نکل جائیں تاکہ ایکسی ڈنٹ یا ٹریفک جام نہ ہو سکے۔ اس سڑک پر صرف چھوٹی چھوٹی گاڑیاں یا رکشا چلتے ہیں۔ دن کے وقت یہاں رکشا اور تانگے کھڑے ہوتے ہیں، تاکہ مسافروں کر ان کے گھر تک پہنچایا جا سکے۔ بڑے گاڑیوں کے کھیتوں کے درمیان سے نکلنے والی نیشنل ہائی وے سے گاؤں کے لوگوں کو بھی سکون ہے اور یہ گاڑیاں بھی تیزی سے سفر کرتی ہوئی جلد اپنے مقام پر آسانی سے پہنچ جاتی ہیں۔"
انیس احمد نے پوچھا: "اب ہم گاؤں کس طرح جائیں گے؟"
مسافر نے بتایا: "ظاہر ہے اس کچے راستے سے ہوتے ہوئے ہی گاؤں کی سڑک پر پہنچیں گے۔"
وہ اور مسافر پیدل چلتے ہوئے کچے راستے سے گاؤں کو روانہ ہو گئے۔ انیس کو گھر پہنچنے کی زیادہ ہی جلدی تھی۔ وہ مسافروں سے آگے آگے چل رہے تھے۔ ایک موڑ پر اچانک ایک سمت سے ایک کتے نے انیس احمد پر حملہ کرنے کی نیت سے چھلانگ لگائی۔ وہ تیزی سے دوسری طرف کو ہو گئے۔ کتے کو وار خالی گیا تو وہ پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہوا۔ انیس احمد ہوشیار ہو چکے تھے۔ انھوں نے زمین پر پڑی لکڑی اٹھا کر کتے کو دے ماری۔ چوٹ لگتے ہی کتا سہم کر پیچھے ہٹ گیا اور غصے سے بھونکنے لگا، مگر دوسرے مسافروں کو دیکھ کر کتا چپ تو ہو گیا، لیکن اس کتے کی آواز سن کر ادھر ادھر چھپے ہوئے کتے باہر نکل آئے اور انھوں نے مسافروں کو دیکھ کر بھونکنا شروع کر دیا، لیکن قریب آنے سے گھبرا رہے تھے۔
ایک مسافر نے انیس احمد کو سمجھایا: " آپ ہمارے ساتھ ساتھ چلیں، آگے بھاگنے کی کوشش مت کریں، ورنہ اس جنگل میں جنگلی سور اور جنگلی کتے آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ بڑے خطرناک جانور ہیں، اکیلے انسان کو دیکھ کر حملہ کر دیتے ہیں، اس لیے ہم لوگ رات میں سفر نہیں کرتے۔ جسے بھی شہر سے آنا ہوتا ہے وہ جلد سے جلس گاؤں لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے اس سرک کے بننے سے گاؤں کی آبادی اس طرف کو بڑھ رہی ہے چند برسوں میں آبادی اس سرک تک پہنچ جائے گی پھر ان جانوروں سے ہمیں اتنا خطرہ نہیں رہے گا۔
رات گئے انیس احمد کے گاؤں آنے پر ہاشم اور گھر والے سب چونک گئے۔
ہاشم نے حیرت سے پوچھا: "ارے اتنی رات کو آئے ہیں! خیریت ہے نا؟"
"شہر میں خیریت ہے۔ میں تمھارے ایکسی ڈنٹ کی اطلاع سن کر تڑپ اٹھا اور فون سنتے ہی چلا آیا،لیکن تم بالکل خیریت سے ہو، پھر وہ وہ فون۔۔۔"
"کون سا فون؟"
"تمھارے گھر سے ندیم نے مجھے فون پر اطلاع دی تھی کہ تمہارا خطرناک ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے۔" یہ کہتے ہوئے انیس احمد نے فون سے لے کر گھر تک پہنچنے کا سارا واقعہ سنا دیا۔
"ندیم! تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟" ہاشم نے غصے سے کہا: "تم نے ایسا بھونڈا مذاق کیوں کیا؟ یہ مذاق نہیں بد مذاقی ہے۔"
"سوری ابو! مجھ سے غلطی ہو گئی دراصل آج یکم اپریل تھی، میں نے سوچا کہ انیس انکل سے مذاق کیا جائے۔ اس بہانے ان سے ملاقات بھی ہو جائے گی، کیوں کہ کئی سال سے گاؤں نہیں آئے ہیں۔"
ہاشم نے کہا: " اگر تمھارا انکل سے ملنے کو جی چاہ رہا تھا تو مجھے بتا دیتے، میں انھیں بلا لیتا۔ اپنے پیاروں کے ساتھ حادثے کی خبر سن کر انسان بدحواس ہو جاتا ہے۔ اس بدحواسی میں اکثر ایکسی ڈنٹ ہو جاتے ہیں۔ تمھارے انکل کس طرح اور کس مصیبت میں یہاں پہنچے ہیں، تمھیں کیا معلوم۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ بچ گئے ورنہ تم نے انھیں مصیبت میں ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔"
٭٭٭
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس حیات
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید