ننھے میاں نے کے جی پاس کر لیا۔ بہت سارے اے کے ساتھ۔ اب وہ درجہ اول میں آ گئے تھے۔ ننھے میاں بہت خوش تھے۔ کیوں نہ خوش ہوتے۔ نیا بستہ، نئی کتابیں، کاپیاں، ربر، پینسل، کٹر نئی نئی یونیفارم، نیا درجہ، اور وہی سب پرانے دوست۔ اپنی نئی کتابوں کو دوستوں کو دکھانے اور ان کی نئی نئی کتابیں دیکھنے میں کتنا مزہ آتا ہے۔ کیا ہوا جو سب کے پاس ایک سی ہی کتابیں ہیں۔
پہلا دن۔ صبح ہی سے گھر میں عید کا ماحول ہے۔فجر کی نماز کے بعد ہی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ امی نے تو سوئیاں بھی بنائی ہیں۔ ابا نے بھی اچھے اچھے کپڑے پہنے ہیں۔ ننھے میاں نے تو نئی یونیفارم پہنی ہے۔ نئے نئے جوتے کیسے چمک رہے ہیں۔ بستہ ذرا بھاری ضرور ہے، لیکن نیا تو ہے۔ وقت سے پہلے ہی سب لوگ اسکول چل دیے۔ آج پہلا دن ہے نہ۔ ابا، امی دونوں ننھے میاں کو اسکول چھوڑنے گئے۔ اسکول کیا، درجہ کے اندر تک ننھے میاں کے ساتھ گئے۔ ننھے میاں کے سب دوست نئی نئی یونیفارم میں نئے نئے بستوں کے ساتھ آئے ہیں۔ ننھے میاں اپنے دوستوں سے باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔ ابا امی خاموشی سے واپس چلے گئے۔ ننھے میاں نے ان کو خدا حافظ بھی نہیں کہا۔ پھر بھی وہ بہت خوش تھے۔ ننھے میاں خوش تھے نا۔
کلاس شروع ہونے کا گھنٹہ بجا۔ اور ان کی ٹیچر آنٹی درجہ میں آ گئیں۔ ہائے اﷲ۔ نئی ٹیچر۔ یہ گمان تو ننھے میاں کے خواب میں بھی نہیں گذرا تھا۔ پچھلی ٹیچر تو بہت پیاری تھیں۔ کیا پتہ یہ کیسی ہوں۔ کہیں یہ مارتی نہ ہوں۔ پہلے والی تو ڈانٹتی تک نہ تھی۔ کیا پتہ۔ انہوں نے بولنا شروع کیا۔ کیا معلوم کیا بول رہی تھیں۔ ننھے میاں کی سمجھ میں تب آیا جب دوسرے بچوں نے جواب دینا شروع کیا۔ سب اپنا اپنا نام بتا رہے تھے۔ اپنے ابا کا نام بتا رہے تھے۔ ننھے میاں کا بھی نمبر آیا۔ انہوں نے بھی اپنا نام بتایا۔ "ننھے"۔ اپنے ابا کا نام بتایا۔"ابا"۔ سب ہنسنے لگے۔ ٹیچر بھی ہنسنے لگیں۔ سب کیوں ہنس رہے ہیں بھلا؟ ننھے میاں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کے دوست نے ان کا اور ان کے ابا کا بھی نام بتا دیا۔ بات آگے بڑھ گئی۔ ٹیچر آنٹی کچھ بول رہی ہیں اب۔
"آپ سب کو گنتی آتی ہے؟"
"آتی ہے۔"
سب بچوں نے مل کر جواب دیا۔ ننھے میاں نے بھی جواب دیا۔ ٹیچر آگے بولیں۔
"اب آپ لوگ ان کو جوڑنا اور گھٹانا سیکھیں گے۔ آپ لوگوں کو الیف بے یاد ہے؟"
"یاد ہے۔"
"اب آپ ان کو ملا کر الفاظ بنانا سیکھیں گے۔ اے بی سی کسے کسے آتا ہے؟"
اب ننھے میاں کو سب سمجھ آنے لگا تھا۔مگر پھر گڑبڑ ہو گئی۔ ٹیچر بولیں۔
"اور کمپیوٹر کس کو کس کو آتا ہے؟"
کیا؟ کیا بولا ٹیچر نے؟ کم پوٹر یہ کیا ہوتا ہے بھلا؟ ننھے میاں کے ہوش پھر اڑ گئے۔ یہ دیکھ کر کچھ جان واپس تو آئی کہ بہت کم بچوں نے ہاتھ اوپر کئے ہیں۔ مگر یہ ہے کیا بلا؟ ٹیچر کہہ رہی تھیں۔
"اس سال میں آپ کو کمپیوٹر کے بارے میں بھی بتاؤں گی۔ یہ کیا ہوتا ہے، کیسا ہوتا ہے، اور اس کے کیا کیا فائدے ہیں۔ پھر اگلے درجوں میں آپ ان پر کام کرنا بھی سیکھیں گے۔آپ لوگوں میں سے کمپیوٹر دیکھا کس کس نے ہے؟"
پھر بہت کم ہاتھ اوپر ہوئے۔
"اچھا چلیے۔ آج میں آپ سب کو کمپیوٹر دکھاتی ہوں۔ اس کے بعد آپ لوگ چاہیں تو میدان میں جا کر کھیل سکتے ہیں۔ یا جو چاہیں درجہ میں بیٹھ کر ڈرائنگ بنا سکتے ہیں۔ پڑھائی ہم کل سے شروع کریں گے۔"
ٹیچر آنٹی چل دیں۔ سب بچے ساتھ ہو لئے۔ ننھے میاں بھی ساتھ ہو لئے۔ ننھے میاں بہت خوش ہیں۔ یہ ٹیچر تو بہت اچھی ہیں۔ بہت ہی اچھی ہیں۔ کے جی والی ٹیچر تو کبھی میدان کی طرف جانے ہی نہیں دیتی تھیں۔ ننھے میاں اور ان کے دوست دالان میں کھڑے ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ میدان میں کھیلتے بڑے بچوں کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ کے جی والی ٹیچر تو کبھی ان لوگوں کو درجہ سے باہر بھی نہیں لے گئیں۔ اچھی ٹیچر!!
ٹیچر سب بچوں کے لے کر اس طرف مڑ گئیں جدھر بہت سے بڑے بڑے کمرے تھے۔ اب تک ننھے میاں اور ان کے دوستوں کو ادھر جھانکنے تک کی اجازت نہ تھی۔ ننھے میاں اور ان کے دوستوں میں ان کمروں کے بارے میں بہت سی پراسرار کہانیاں رائج تھیں۔ ان کہانیوں کو کہنے سننے کے ہر موقع پر کوئی نہ کوئی ان کہانیوں میں ایک نئی کہانی جوڑ دیتا تھا۔ جتنی خوفناک وہ کہانی ہوتی تھی، اتنی ہی ان کمروں میں جھانکنے کی خواہش ان لوگوں میں بڑھ جاتی تھی۔ اور آج ٹیچر آنٹی ان لوگوں کو ان ہی خوفناک اور پراسرار کمروں میں لے جا رہی تھیں!
ٹیچر نے ایک بڑے سے کمرے کا بڑا سا دروازہ کھول کر سب بچوں کو اندر چلنے کو کہا۔ ننھے میاں نے کمرے کے باہر لگے بورڈ کو پڑھنے کی کوشش کی۔ کم.. پو.. ٹر.. لب.. (کمپیوٹر لیب)۔ ننھے میاں کو کچھ خاص سمجھ میں نہ آیا۔ وہ سب بچوں کے ساتھ اندر ہو لیے۔ کمرے کے اندر ہر طرف چھوٹے چھوٹے ٹی وی رکھے ہوئے تھے۔ ہر ٹی وی کے ساتھ ایک بڑا سا ڈبّہ رکھا تھا اور سامنے ایک پٹرے پر بہت سے بٹن بنے تھے جن پر اے، بی، سی ایک عجیب سے انداز میں لکھا ہوا تھا۔اور بھی نہ جانے کیا کیا چیزیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں اور عجیب عجیب بتیاں جل رہی تھیں۔ ننھے میاں کا یہ پراسرار کمرہ کچھ زیادہ ہی پراسرار تھا۔ کمرے میں ہر طرف تار ہی تار بکھرے ہوئے تھے اور کمرے کی ہر چیز ایک دوسرے سے کسی نہ کسی تار سے جڑی ہوئی تھی۔ ننھے میاں گھبرا گئے۔ ان کی امی نے ہمیشہ ان کو تاروں سے دور رہنے کو کہا ہے۔ ان میں بجلی ہوتی ہے۔ اس سے کرنٹ لگ جاتا ہے۔ آدمی مر تک سکتا ہے۔ ننھے میاں ڈر کر سب سے پیچھے ہو گئے۔ ٹیچر نے ایک ٹی وی کے پاس رکھے ڈبے پر لگے ایک بٹن کو دبایا۔ ٹی وی پر طرح طرح کے عکس ابھرنے لگے۔ سب بچوں نے ٹیچر اور اس ٹی وی کو گھیر لیا۔ ننھے میاں چونکہ سب سے پیچھے تھے، ان کو ٹی وی نظر آنا بند ہو گیا۔ ٹیچر کچھ بتا رہی تھیں۔ ننھے میاں کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ٹی وی پر تصویریں بدل رہی تھیں۔ ننھے میاں کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ نظریں گھما گھما کر کمرے میں رکھے دوسرے ٹی وی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سب کے کالے کالے پردوں پر ان کو طرح طرح کے سائے ناچتے نظر آ رہے تھے۔ سب سائے ننھے میاں کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ ننھے میاں کا دل کر رہا تھا کہ زور زور سے رونا شروع کر دیں۔ مگر اتنے ڈراؤنے کمپوٹروں کے سامنے ان کے منھ سے آواز بھی نہ نکلی۔ یہ تو رات والے کالے بھوت سے بھی زیادہ ڈراؤنے ہیں۔ رات والا کالا بھوت تو صرف رات میں آتا ہے۔ اور اکیلا ہی آتا ہے۔ اور وہ تو ابا سے ڈرتا بھی ہے۔ مگر یہ کمپوٹر تو اتنے سارے ہیں۔ اور دن میں بھی نظر آرہے ہیں۔ اور ابا نے تو کبھی ان کا نام بھی نہیں لیا۔ کیا پتہ ابا بھی ان سے ڈرتے ہوں۔ کیا پتہ۔ یہ نئی ٹیچر کتنی خراب ہے۔ بہت بہت خراب ہے۔ گندی ٹیچر
ننھے میاں گھر آ گئے۔ اداس اداس۔ امی نے بلائیں لیں۔ بچہ تھک گیا ہے شاید، انھوں نے سوچا۔ زیادہ کچھ پوچھا نہیں۔ شام کو ابا نے بات کرنے کی کوشش کی۔ ننھے میاں نے بتایا
"نئی ٹیچر بہت گندی ہے۔"
"اچھا"، ابا بولے۔ "وہ نہاتی نہیں ہے کیا؟"
"ابا"، ننھے میاں ناراض ہو گئے۔ ابا نے منانے کی کوشش کی اور ننھے میاں کو گود میں لے لیا۔ آخر ننھے میاں بولے
"ابا، آپ نے کمپوٹر بھوت دیکھا ہے؟"
"کمپیوٹر بھوت"، ابا ہنس پڑے۔ "یہ کیا ہوتا ہے بھلا؟"
اور ننھے میاں نے اسکول کا پورا واقعہ دہرا دیا۔ ابا ایک لمحہ کو ہنسے، پھر خاموش ہو گئے۔ بولے
"کمپیوٹر تو بہت کام کا ہوتا ہے بیٹا۔ وہ تو ہماری بہت مدد کرتا ہے۔ اور بھوت ووت تو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ میں نے کتنی بارسمجھایا ہے آپ کو۔"
"لیکن اس کے ہاتھ پیر تو تھے نہیں۔" ننھے میاں بولے، "وہ کام کیسے کرتا ہے؟"
ابا بولے
"اچھا ننھے میاں، ابھی آپ کھیلئے۔ میں ذرا باہر جا رہا ہوں۔ میں آپ کو رات میں سونے سے پہلے کمپیوٹر کے بارے میں بتاؤں گا۔"
اور ابا باہر چلے گئے۔ اپنے کسی دوست سے ملنے۔ انہیں خود بھی تو معلوم کرنا تھا کہ کمپیوٹر آخر کام کیسے کرتا ہے؟
ابا کافی دیر بعد واپس آئے، بالکل رات کے کھانے کے وقت پر۔ ان کے ہاتھ میں کچھ کتابیں بھی تھیں جن کے ورق وہ کھانے کے دوران بھی پلٹتے رہے۔ کھانے کے بعد ننھے میاں کا سونے کا وقت ہوتا ہے، اور ابا کا کہانیاں سنانے کا۔ آج تو ابا کو کمپیوٹر کی کہانی سنانی تھی۔ کمپیوٹر کا خیال آتے ہی ننھے میاں کے پھر ہوش غائب ہو گئے۔ انہیں پھر ہر طرف کمپیوٹر بھوت ناچتے ہوئے نظر آنے لگے۔ ابا کچھ بتا رہے تھے، ننھے میاں کو سُن کر بھی کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ابا سمجھا رہے تھے، ننھے میاں کو سمجھ کر بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ابا کتابوں میں تصویریں دکھا رہے تھے، ننھے میاں کو دیکھ کر بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ابا سناتے چلے گئے۔ ننھے میاں سنتے چلے گئے۔ بھوت سارے ناچتے چلے گئے۔ ابا کتابوں میں کھو گئے۔ ننھے میاں تکیہ میں دبک کر سو گئے۔ بھوت ہواؤں میں ہوا ہو گئے۔
اچانک ایک زور کی آواز ہوئی۔ جےسے کمرے میں کوئی کودا ہو۔ ننھے میاں نے جلدی سے ابا کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ہاتھ خالی بستر سے ٹکرا گیا۔ ابا وہاں نہیں تھے۔ ننھے میاں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ سامنے کمپیوٹر بھوت کھڑا تھا۔ ننھے میاں نے زور کی چیخ ماری۔ مگر چیخ ان کے گلے سے نکلی نہیں۔ اندر ہی گھٹ کر رہ گئی۔ ان کا چہرہ سفید پڑ گیا، بالکل برف کی طرح۔ آنکھیں باہر کو آ گئیں، بڑی بڑی ہو گئیں۔ ننھے میاں کو لگا وہ کانپ بھی رہے ہیں۔ بھوت ہنس پڑا۔
"سلام ننھے میاں۔"
ننھے میاں کی حالت میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ بس ذرا ہوش سنبھل گئے۔ کمپیوٹر بھوت کو انہوں نے ٹھیک سے دیکھا۔ یہ تو پورا آدمی تھا۔ سر کی جگہ پر ٹی وی تھا۔ ڈبے کا جسم۔ ہاتھوں میں وہ اے بی سی والا تختہ تھا نہ، وہ لے رکھا تھا۔ اس کے تو دم بھی تھی۔ اور تو اور۔ اس کی دم میں ایک چوہا لٹک رہا تھا۔ اور ننھے میاں ہنس پڑے۔ یہ کیسا بھوت ہے بھلا۔ اس کی تو دم میں چوہا لٹک رہا ہے۔ اور ننھے میاں زور سے ہنس پڑے۔
"آپ کیسے بھوت ہیں؟ آپ کی دم میں تو چوہا لٹک رہا ہے۔"
"بھوت کیسا بھوت, یہ بھوت کیا ہوتا ہے ننھے میاں؟" کمپیوٹر بھوت نے پوچھا۔
"آپ۔ آپ بھوت ہیں۔ آپ بھوت نہیں ہیں کیا؟"
"بھوت؟ اچھا۔ ابھی دیکھتا ہوں۔"
بھوت کے ہاتھوں میں جو تختہ تھا اس نے اس پر کچھ بٹن دبائے۔اور اس نے چہرے پر سے آنکھ، ناک، منھ ہٹ گئے اور ان کی جگہ تمام تصویریں اور عبارتیں ابھرنے لگیں۔ پھر دوبارہ اس کا چہرہ واپس آ گیا اور وہ بولا
"میں نے سب معلوم کر لیا۔ بھوت ووت کچھ نہیں ہوتا۔ یہ صرف بچوں کے دماغ کا ایک خیال ہے۔"
"اگر بھوت نہیں ہوتا تو آپ کیا ہیں؟" ننھے میاں نے پوچھا۔
"میں۔ میں تو کمپیوٹر ہوں۔ آپ چاہیں تو مجھے کمپیوٹر ماموں کہہ لیں۔ آپ کمپیوٹر کے بارے میں نہیں جانتے؟"
"نہیں، نہیں، جانتا کیوں نہیں ہوں،" ننھے میاں کیونکر کہہ دیتے کہ انہیں کچھ نہیں معلوم۔ "ابا نے بتایا ہے۔ مگر میں ذرا بھول گیا ہوں۔ آپ مجھے بتائیں گے اپنے بارے میں؟"
"ہاں ہاں۔ کیوں نہیں۔" کمپیوٹر بولا، "سب بچوں کو میرے بارے میں معلوم ہونا چاہئے۔ کمپیوٹر، اِنٹر نیٹ، ورلڈ وائڈ ویب وغیرہ تو آج کی زندگی کا حصہ ہی نہیں ضرورت بن چکے ہیں۔ میں آپ کو سب کے بارے میں بتاؤں گا۔ آپ سنیں گے؟"
"ہاں ہاں۔ کیوں نہیں سنوں گا؟" ننھے میاں فوراً بولے اور بستر پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ کمپیوٹر نے بولنا شروع کیا۔
"کمپیوٹر، یا جس کو آپ جنتر منتر بھی کہہ سکتے ہیں، آج کی دنیا میں کسی تعارف کی ضرورت نہیں رکھتا۔ جو کمپیوٹر کو جانتا ہو وہ انٹرنیٹ اور آفاقی تانے بانے سے واقف نہ ہو، ایسا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ کسی بھی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود شخص سے تفصیل سے تبادلہ خیال کرنا آدمی کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔ ہاں،اگر وہ موش کو بائیں ہاتھ سے پکڑتا ہے تو، ور نہ داہنے ہاتھ کا۔ صنعت و حرفت کی ترقی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک عام آدمی کی پہنچ آسان ہو گئی ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ ادارے اور زیادہ سے زیادہ لوگ آج روزمرّہ کی زندگی اور کام کاج میں کمپیوٹر کا استعمال کر رہے ہیں۔"
"موش۔ وہ جو آپ کی دم میں لٹکا ہوا ہے؟ اس کو ہاتھ سے پکڑنا پڑتا ہے؟ یہ کاٹتا نہیں؟" ننھے میاں نے پوچھا۔
"نہیں ننھے میاں۔ آپ تو بہت ڈرتے ہیں۔ یہ تو بالکل کھلونا ہے۔ اس میں ڈرنے کی کیا بات۔" کمپیوٹر بولا۔
"جی نہیں۔ میں کیوں ڈروں گا؟ میں تو بھوت سے بھی نہیں ڈرتا۔ اور پتہ ہے میرے ابا تو شیر سے بھی نہیں ڈرتے۔" ننھے میاں کہاں ہار ماننے والے تھے۔
"وہ سب تو میں نہیں جانتا۔" کمپیوٹر بولا،"مگر آپ کو موش سے ٹُک ٹُک کرنے میں بہت مزہ آئے گا۔ یہ میں یقین سے جانتا ہوں۔ میرے پاس اور بھی مزے کی چیزیں ہیں۔ آپ نے جامِ جمشید یا جامِ جہاں نما کے بارے میں ضرور سنا ہو گا۔ ابا نے جامِ جمشید والا قصہ سنایا ہو گا۔ یہ سب قصّوں اور کہانیوں کی باتیں جب تھیں تب تھیں۔ اب یہ چیزیں ہمارے سامنے کمپیوٹر کی آرسی پر تانا بانا ورق کی شکل میں موجود ہیں۔ دنیا بھر کا حال اس پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔آپ کو معلوم ہے؟ آج سے کچھ ہی سال پہلے تک چھوٹی سی چھوٹی معلومات حاصل کرنے کے لیے گھنٹوں کسی لائبریری میں گذارنے پڑتے تھے۔ کبھی کبھی تو لائبریری در لائبریری بھٹکنا پڑتا تھا۔ نہ جانے کہا ں کہاں کے اخبارات چھاننے پڑتے تھے۔ اب آپ کمپیوٹر کھولیے، اس کو انٹرنیٹ سے جوڑیے، کسی بھی اچھّے حربہ تلاش کو حکم دیجیے کہ وہ دنیا بھر سے وہ تمام معلومات ڈھونڈ لائے جس کی آپ کو ذرا سی ضرورت ہے۔اور چند ہی لمحوں میں آپ کی ضرورت سے وابستہ ویب صفحات کی بارش شروع ہو جائے گی۔"
"آپ کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے کیا؟" ننھے میاں نے ٹوکا۔
"الٰہ دین کا جِن یاد آ گیا۔ ننھے میاں، جِن اگر آج ہوتا تو مجھ کو ساتھ لے کر گھومتا۔ میں تو اس سے بھی بڑا جن ہوں۔"
"ارے باپ رے۔ تو پھر میں آپ کو حکم کیسے دوں گا؟"
"آسان ہے ننھے میاں،" کمپیوٹر بولا۔ "یہ جو میرے ہاتھ میں بساط دیکھ رہے ہیں نہ۔ کلیدی بساط۔ بس اس کے ذریعہ اپنا حکم داخل کر دیجیے۔ میں فوراً کام میں لگ جاؤں گا۔"
"واہ۔ آپ تو بڑے کام کی چیز ہیں۔ پھر میں آپ سے ڈرتا کیوں ہوں؟" ننھے میاں کے منھ سے نکل ہی گیا۔
"اچھا۔" کمپیوٹر بولا۔ "آپ اب بھی ڈرتے ہیں مجھ سے؟"
"نہیں، نہیں۔" ننھے میاں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً تن کر بیٹھ گئے۔ "میں تو آپ کی دم کھینچوں گا۔"
ننھے میاں بستر پر کھڑے ہو گئے۔ جےسے سچ مچ اس کی دم کھینچنے جا رہے ہوں۔کمپیوٹر چلا پڑا۔
"نہیں میری دم نہ کھینچنا۔ پھر سب مجھے دم کٹا کہیں گے۔"
اور وہ بھاگ کر کھڑکی سے باہر کود گیا۔ ننھے میاں اس کو پکارتے رہ گئے۔
کمپیوٹر ماموں۔ مت جائیے۔ میں دم نہیں کھینچوں گا۔ میں صرف موش سے کھیلوں گا۔"
مگر کمپیوٹر تو اب ننھے میاں سے ڈر گیا تھا۔ وہ نہ ٹھہرا۔ البتہ یہ چیخ پکار سن کر ابا بھاگتے ہوئے آ گئے۔
"کیا ہوا ننھے میاں ؟ کون تھا؟" ابا نے پوچھا۔
"کمپیوٹر ماموں۔ وہ چلے گئے۔" ننھے میاں روہانسے ہو گئے۔
"کمپیوٹر ماموں؟" ابا کھڑکی کے پاس جا کر باہر جھانکتے ہوئے بولے۔
"آپ نے خواب دیکھا ہو گا ننھے میاں۔"
"نہیں۔ خواب نہیں تھا۔" ننھے میاں اڑ گئے۔ "ابھی کمپیوٹر ماموں تھے یہاں۔"
"کون تھا؟ کیا خواب دیکھ لیا؟" امی اندر آتی ہوئی بولیں، "ننھے میاں، آپ جاگ پڑے۔ چلئے اچھا ہوا۔ اسکول کی تیاری شروع کرتے ہیں۔"
اسکول کا نام سنتے ہی ننھے میاں پھر سے بستر میں گھس گئے۔ "نہیں نہیں۔ میں تو ابھی سو رہا ہوں۔ ابھی تو ابا نے بتایا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔"
"اچھا۔" امی بولیں۔ "آپ تو کل بتا رہے تھے کہ آپ کے اسکول میں بہت سارے کمپیوٹر ہیں۔"
"ہیں۔ بالکل ہیں۔" ننھے میاں پھر سے اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ "بہت سارے۔ میں تواسکول جا رہا ہوں۔ جلدی سے تیار ہو جاتے ہیں۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔"
دوسرا دن۔ ابا اسکول کے پھاٹک تگ آئے۔ ننھے میاں نے خوشی خوشی ان کو خدا حافظ کہا اور کلاس کی طرف چل دیے۔ گھنٹہ بجنے تک ننھے میاں اپنے سب دوستوں میں ہی نہیں بلکہ پورے درجہ میں اپنی نئی معلومات کی دھاک قائم کر چکے تھے۔ جب ٹیچر نے پوچھا۔
"آج کیا پڑھیں گے آپ لوگ؟" تو ننھے میاں نے فوراً ہاتھ کھڑا کر دیا اور زور سے بولے
"کمپیوٹر"۔
"اچھا؟" ٹیچر نے کہا۔ " کل تو آپ سب سے پیچھے چل رہے تھے۔"
"وہ اس لئے نہ ٹیچر کہ مجھے کمپیوٹر کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے نہ۔" ننھے میاں نے بڑے اعتماد سے کہا۔
"اچھا۔" ٹیچر نے ذرا حیرت سے کہا۔ "آپ کو کیا کیا معلوم ہے؟ ذرا یہاں آ کر سب کو بتائیں گے۔"
ننھے میاں تو جیسے اس لمحہ کا ہی انتظار کر رہے تھے۔
"کمپیوٹر ماموں بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ ان کو دنیا کی ہر بات معلوم ہے۔ جب ہمیں ان سے کچھ پوچھنا ہوتا ہے تو ہم کلیدی بساط کے ذریعہ لکھ کر ان کو حکم دے سکتے ہیں اور وہ اپنی آرسی پر فوراً جواب دکھا دیتے ہیں۔ اور ان کی دم میں ایک موش لٹکتا رہتا ہے جس سے ٹُک ٹُک کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔"
ننھے میاں سانس لینے کو بھی نہ رکے۔ اور ٹیچر کے منھ سے صرف ایک لفظ نکلا۔
"ایں۔"
یہ سب تو ان کو بھی نہ معلوم تھا۔ کچھ دیر تک تو وہ ننھے میاں کو دیکھتی رہیں، پھر ہنس پڑیں۔ انھوں نے ننھے میاں کو گود میں اُٹھا لیا اور پورے درجے سے مخاطب ہوئیں۔
"ننھے میاں کو تو واقعی کمپیوٹر کے بارے میں بہت کچھ آتا ہے۔ اب کے جب ہم کمپیوٹر کی پڑھائی پڑھیں گے تو ننھے میاں ہی سب کو پڑھائیں گے۔" وہ ننھے میاں سے مخاطب ہوئیں۔ "کیوں ننھے میاں؟"
"جی ہا ں ٹیچر۔" ننھے میاں نے زور سے کہا۔ وہ بہت خوش تھے۔ ان کی ٹیچر نے سب کے سامنے ان کی تعریف کی تھی۔ ان کو گود میں لیا تھا۔ کتنی پیاری ہیں یہ ٹیچر۔ ننھے میاں دل میں سوچ رہے تھے۔ اچھی ٹیچر
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے متن کی فائل عطا کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید