سندر بن واقعی بہت ہی زیادہ سندر اور خوب صورت تھا۔چاروں طرف قدرت نے اپنی خوب صورتی بکھیر دی تھی۔ کل کل کرتے جھرنے، اور خوب صورت چمکیلی ہری بھری گھاس، ایسے لگتی تھی جیسے جنگل میں کسی نے قالین بچھا دی ہو۔ان مناظر کو دیکھ کر جانوروں اور پرندوں کے دل باغ باغ ہو جاتے تھے۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول تھے۔ جن پر تتلیاں اور بھونرے منڈلاتے رہتے۔
یہ کہانی اس زمانے کی ہے جب لوگوں کو آگ کا پتا نہ تھا۔ جیسے ہی شام ہوتی لوگ گپھاؤں میں چلے جاتے، اُس وقت لوگ پوری طرح ماحول پر منحصر رہتے تھے۔ کچی جڑیں، قند پھل فروٹ، پتے، سبزیاں اور بغیر پکے ہوئے گوشت لوگوں کی غذا تھی۔
لاتعداد درختوں کی وجہ سے شام سے پہلے ہی جنگل میں اندھیرا چھا جاتا تھا۔ سندر بن میں ایک گہرا تالاب تھا، جس کا پانی جانوروں اور پرندوں کے پینے کے کام آتا تھا۔ اسی تالاب کے کنارے ایک پیپل کا درخت تھا جس پر نیلم چڑیا اپنا گھونسلہ بنا کر رہتی تھی۔ سبھی جانور اسی تالاب پر پانی پینے آتے تھے۔ اس لیے نیلم چڑیا سے سبھی جانوروں کی دوستی ہو گئی۔
نیلم چڑیا کی ایک عادت سبھی جانوروں کو بہت اچھی لگتی تھی، وہ تھی اس کی دوسروں کی مدد کرنے کی عادت۔ کوئی پریشانی میں ہو وہ فوراً وہاں پہنچ جاتی تھی۔ کوئی شکاری جنگل میں آ جاتا تو وہ اڑتے ہوئے زور زور سے چیں چیں کی آوازیں بلند کرتی کہ سبھی جانور سمجھ جاتے کے کوئی خطرہ ہے۔ اور وہ اپنی حفاظت کرنے لگتے۔
نیلم چڑیا کے گھونسلے میں بہت اندھیرا تھا اور اس کے بچّے باہر جانے کی ضد کیا کرتے تھے۔ ایسے میں اس کی ایک خواہش ہوتی تھی کہ کاش! کہیں سے روشنی کی ایک کرن آ جائے۔
اُسی تالاب کے کنارے ایک بہت موٹا درخت تھا جس کی بڑی سی کھوہ میں ایک بھالو رہتا تھا۔ وہ دن بھر سوتا اور جب بھوک لگتی تو تالاب سے مچھلیاں پکڑتا۔ بھالو بہت ہی مطلبی اور خود غرَض تھا۔جنگل کے سبھی جانور اسے مطلبی بھالو کہتے تھے۔
ایک دن خوب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی جاری تھی۔ گھونسلے میں نیلم چڑیا کے دونوں بچّے سہمے ہوئے اپنی ماں کے انتظار میں دبک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں سخت بھوکے تھے۔ بے چینی سے ماں کو یاد کرتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلّی دے رہے تھے۔ اُدھر بوندا باندی باندی کی وجہ سے نیلم چڑیا کے پر بھیگ گئے تھے۔ وہ بہت مشکل سے گھونسلے تک پہنچی، بچّوں کو پیار کیا انھیں کھانا دانا کھلایا، بچّے ماں سے لپٹ کر روتے ہوئے سو گئے۔
ابھی رات کا پہلا ہی پہر گذرا تھا کہ نیلم چڑیا کو پکے ہوئے کھانے کی خوشبو آنے لگی اس نے اپنی گردن گھونسلے سے باہر نکال کر اِدھر اُدھر کا جائزہ لیا تو وہ حیران رہ گئی کہ بھالو کی کھوہ میں ڈھیر ساری لکڑیاں رکھی ہوئی ہیں اور آگ جل رہی ہے اور وہ مزے لے لے کر مچھلیاں بھون کر کھا رہا ہے۔
نیلم چڑیا کو روشنی دیکھ کربڑی خوشی ہوئی، وہ بھالو کے پاس آئی اور اس کو روشنی اور آگ کی مبارکباد دی اور بولی :’’ بھیا بھالو! تمہارے پاس تو ڈھیر ساری لکڑیاں ہیں ایک مجھے بھی دے دو مَیں بھی اپنے گھر میں روشنی کر لوں گی اور کھانا بھی پکا لوں گی۔‘‘
مطلبی بھالو نے نیلم چڑیا کو ڈانٹ کر وہاں سے بھگا دیا، رات بھر نیلم سو نہ سکی۔ وہ سوچتی رہی کہ ساری دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے اگر بھالو تھوڑی سے آگ دیدے تو لوگوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے ایسا لگا جیسے سوکھے پتّوں پر کوئی چل رہا ہے۔ اس نے گردن گھونسلے سے باہر نکال کر دیکھا تو کیا دیکھتی ہے کہ شیر بھالو کی گپھا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سخت سردی کا موسم تھا، درخت کی کھوہ میں آگ کی گرمی کی وجہ سے بھالو بہت گہری نیند سویا ہوا تھا۔
تب ہی نیلم چڑیا نے چیں چیں کا شور مچا دیا، نیلم چڑیا کی چیخ سُن کر بھالو نیند سے جاگ گیا، اس کے شور سے بھالو ہی نہیں بل کہ دوسرے جانور بھی جاگ اٹھے۔ اور نیلم کے گھونسلے کی طرف بڑھنے لگے۔ اتنے سارے جانوروں کو دیکھ کر شیر فوراً ڈر کر وہاں سے رفو چکّر ہو گیا۔ سبھی جانوروں نے نیلم کی خوب خوب تعریف کی۔
مطلبی بھالو کو جب حقیقت سمجھ میں آئی تو شرمندگی سے اس کا سر جھک گیا۔ اس نے دوسرے دن نیلم چڑیا کو کئی لکڑیاں دیں اور کہا کہ :’’ بہن ! مجھے معاف کر دو، اگر تم نہ ہوتیں تو شیر تو مجھے کب کا کھا چکا ہوتا اگر آج میں زندہ بچا ہوں تو وہ تمہاری ہوشیاری کی وجہ سے، لو یہ لکڑیاں آگ جلا کر اپنے گھر میں روشنی بھی کر لو اور کھانا بھی پکا لو۔ اور ہاں ! نیلم بہن ! تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘
نیلم چڑیا نے کہا کہ ’’ بھائی بھالو! شکریے کی کوئی بات نہیں، ایک دوسرے کی مدد کرنے ہی میں سچی خوشی کا راز پوشیدہ ہے، یہ تو میرا فرض تھا کہ میں تمہیں باخبر کروں۔ مَیں تمہارے کسی کام آسکی یہی میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔‘‘
بھالو بہت روہانسا ہوا اور اس دن کے بعد سے جنگل کے سبھی جانوروں کے ساتھ مِل جُل کر رہنے لگا۔ اور اپنی گپھا میں سے اس نے چند جلتی ہوئی لکڑیاں نیلم چڑیا کو دے دیں۔ نیلم نے اس لکڑی سے پہلے تو اپنے گھونسلے میں روشنی کی، کھانا پکایا اور پورے جنگل اور آس پاس کے جنگلوں میں حتیٰ کہ جہاں جہاں روشنی نہیں تھی وہاں وہاں پہنچ کر اس نے روشنی پھیلائی۔ پیار کی روشنی، ایک دوسرے کی مدد کرنے کی روشنی اور مل جل کر رہنے کی روشنی۔