نجمی میرا بہت قریبی دوست تھا۔ پڑھائی اور کھیل میں ہمیشہ میرے ساتھ رہتا۔ یہاں تک کہ ہماری شرارتیں بھی آپس میں مشوروں سے انجام پاتیں ۔ دوسرے میرے ماموں زاد بھائی، انجم۔ جو ہم دونوں سے عمر میں بڑے تھے۔ دوستی تو ان سے بھی تھی لیکن اتنی نہیں کہ انہیں ہر معاملہ میں شریک کیا جائے۔ انجم بھائی تھے بہت سر چڑھے اور مغرور۔ لاڈلے کچھ زیادہ تھے لہٰذا ان کی اکثر ضدیں پوری کر دی جاتی تھیں ۔ کھیل کی نت نئی چیزیں لاتے اور ہمیں دکھا کر چڑاتے رہتے۔ ایک بار ایک بوتل لائے جس میں جامنی رنگ بھرا ہوا تھا۔ ہمیں دکھا کر بولے
‘’ دیکھو یہ جادو کا رنگ ہے۔’‘
‘’ وہ کیسے؟’‘ ہم نے سوال کیا۔
‘’ادھر آؤ۔’‘ انجم بھائی نے ہمیں اپنے قریب بلایا۔
نجمی اور میں ان کے قریب گئے ۔ انہوں نے بوتل کھولی اور جھٹ سے کچھ رنگ ہم دونوں کے کپڑوں پر ڈال دیا۔ رنگ پڑنا تھا میں نے اور نجمی نے رونا شروع کر دیا۔ ہمارے کپڑے جو خراب ہو گئے تھے۔ انجم بھائی بڑی ڈھٹائی سے ہنس رہے تھے اور کہتے جاتے ۔
‘’ ارے کچھ نہیں ہوا۔ سب ٹھیک ہے۔’‘
ہمیں فکر تھی کہ گھر گئے اور مار پڑی۔ لیکن چار پانچ منٹ کی اس کہا سنی کے دوران ہمارے کپڑوں سے رنگ غائب ہو چکا تھا اور ہمارے کپڑے پہلے کی طرح صاف تھے۔ بڑی حیرت ہوئی اور اپنے رونے پر شرمندگی بھی۔
‘’نجم بھائی! یہ تو سچ مچ جادو کا رنگ ہے۔’‘
‘’ آپ کہاں سے لائے ہیں ؟’‘
‘’ ہمیں بھی دلا دیں ۔’‘ ہم دونوں نے بڑے خوشامدانہ انداز میں سوالات کر ڈالے۔
انجم بھائی تو اب اور اکڑ گئے۔ ‘’ یہ ایک جن کا فارمولا ہے۔ یہاں تو ملے گا بھی نہیں ۔’‘
‘’تو پھر تھوڑا سا رنگ ہی دے دیں ۔’‘ نجمی نے انجم بھائی سے درخواست کی جو مسترد کر دی گئی۔ ہم دونوں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ بہرحال صبر کیا لیکن یہ تہیہ کر لیا کہ انجم بھائی کو ان کے غرور کا مزہ ضرور چکھانا ہے۔
٭....٭
جمعہ کا دن تھا۔ بارہ بجے کے قریب ناصر ماموں ، جو انجم بھائی کے چچا ہوتے تھے، سفید کرتا، پاجامہ زیب تن کیے بڑی شان کے ساتھ نانا جان کے پاس برآمدہ میں آ کر بیٹھ گئے۔ بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔ انجم بھائی بڑی شوخی کے ساتھ آئے اور اپنی جادو کی بوتل سے جامنی رنگ ناصر ماموں کے کپڑوں پر چھڑک دیا۔ ناصر ماموں بڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ غصہ سے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ چیخ کر بولے۔ ‘’ نالائق یہ کیا حرکت ہے؟’‘
‘’ کیا کیا ہے یہ؟’‘ انجم بھائی کے چہرے پر اطمینان تھا اور وہی شوخ مسکراہٹ ۔ انہیں یقین تھا کہ اب چند منٹوں میں یہ رنگ ہوا ہو جائے گا۔
ادھر ناصر ماموں بڑی مشکل سے اپنے غصے کو ضبط کر رہے تھے۔ پانچ چھ منٹ گزرنے کے بعد بھی جب رنگ اپنی جگہ جمع رہا تو انجم بھائی کے چہرے کا رنگ اڑنا شروع ہو گیا۔ آخر ضبط کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ ناصر ماموں کا ایک بھرپور چانٹا انجم بھائی کے رخسار پر پڑا اور پھرا ن کی آنکھوں سے گنگا جمنا رواں ہو گئی۔ انجم بھائی حیران تھے کہ ایسا تو کبھی نہ ہوا تھا۔ اس کا جادو کہاں گیا؟ ناصر ماموں انہیں مستقل برا بھلا کہے جا رہے تھے اور اب تو وہ سب ہی گھر والوں کی ڈانٹ سن رہے تھے۔
نانی جان نے آتے ہی سنائی۔ ‘’ارے بچے تو دیوانہ ہو گیا ہے کیا؟ یہ کیا کیا تو نے؟یہ تجھے سوجھی کیا تھی؟’‘
‘’آنے دو تمہارے ابو کو آج وہ ہی تمہارے شوق پورے کریں گے۔’‘ ممانی جان بھی آ گئیں ۔ غرض یہ کہ چاروں طرف سے بوچھاڑ پڑ رہی تھی۔
ادھر میں اور نجمی اپنی کارکردگی پر خوش تھے۔ ایسا کیسے ہوا؟ ہم دونوں نے اس جادو کے رنگ کی خالی بوتل حاصل کی۔ دو آنے کا پکا جامنی رنگ لا کر بوتل میں بھر کر کسی طرح نجم بھائی کی بوتل سے بدل دیا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ تو آپ سن ہی چکے ہیں ۔ انجم بھائی کو آج تک یہ بات معلوم نہ ہو سکی کہ اس جادو کے رنگ کا جادو کہاں گیا۔ اگر اب آپ میں سے کسی نے بتا دیا تو ہماری خیر نہیں ۔
٭٭٭