02:42    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1085 0 0 00

صدی کا بیٹا

مغرب کی نماز ختم ہو چکی تھی۔ آسمان پر شفق کی سرخی ماند پڑ رہی تھی اور ستارے اپنی جلوہ نمائی کے لیے بے چین تھے۔ ایسے میں شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانے کے چند قیدی نماز کے بعد ذکر و اذکار میں مصروف تھے کہ اچانک فوجی بوٹوں کی دھمک سنائی دی جو آہستہ آہستہ قریب آتی گئی۔

‘’ آپ میں سے مولانا مودودی کون ہیں ؟’‘ آنے والے چند فوجی افسران میں سے ایک فوجی افسر نے قیدیوں سے دریافت کیا۔

‘’ میں ہوں مودودی....’‘ ایک با وقار اور پرسکون آواز سنائی دی۔

‘’ آپ کو ’قادیانی مسئلہ ‘ نامی پمفلٹ لکھنے کی پاداش میں  (جس میں آپ نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا ہے) مارشل لاء کی فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہے۔ آپ اس فیصلے کے خلاف عدالت سے کوئی اپیل نہیں کر سکتے۔ صرف گورنر جنرل صاحب سے سات دل کے اندر رحم کی اپیل کر سکتے ہیں ۔

موت کی سزا کا فیصلہ سن کر مولانا کا چہرہ تمتما اٹھا، جیسے بہت ہی زیادہ خوشی کی خبر ملنے پر انسان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔مولانا نے سزا سن کر فرمایا۔

‘’ مجھے کسی سے کوئی درخواست اور رحم کی اپیل نہیں کرنی، موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں ۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کر لیا ہے تو بندہ خوشی سے اپنے رب سے جا ملے گا اور اگر اس کا حکم ابھی نہیں آیا تو پھر چاہے یہ الٹے لٹک جائیں مجھ کو ہر گز نہیں لٹکا سکتے۔’‘

سزائے موت کا اعلان ریڈیو پر ہوا تو پاکستان سمیت پورے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا۔ متعدد اسلامی ممالک نے درخواست کی کہ اگر پاکستان کو مولانا مودودی جیسے عظیم المرتبت مفکر اور عالم کی ضرورت نہیں ہے تو انہیں ہمارے پاس بھیج دیا جائے اور پھر حکومت اس عوامی ردِ عمل ، بیرونی دباؤ اور مولانا مودودیؒ کی حق گوئی اور جوانمردی کے آگے نہ ٹھہر سکی اور بالآخر اسے سزائے موت کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

آپ کا نام سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ  اﷲ علیہ تھا۔ مولانا مودودیؒ ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ ء کو  ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے آپ کی بہت بہترین تربیت کی۔

مولانا مودودی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک ملازم کے بچے کو مارا تو میرے والد صاحب نے اس بچے کو بلا کر کہا ‘’تم بھی اسے مارو۔’‘ مولانا کہتے ہیں کہ اس واقعے میں مجھے ایسا سبق ملا کہ پھر زندگی بھر میرا ہاتھ کبھی زیردست پر نہیں اٹھا۔

آپ کے والد صاحب نے نو سال تک آپ کی ابتدائی تعلیم کا بندوبست گھر پر کیا تاکہ آپ کی تربیت خالص اپنی نگرانی میں کر سکیں ۔ اساتذہ آپ کو عربی زبان ، فقہ اور حدیث کی تعلیم دینے آیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فرماتے ہیں گھر کی یہ تعلیم میرے لیے مدرسے کی تعلیم سے زیادہ مفید ثابت ہوئی۔

۱۹۱۵ءمیں آپ ابھی بارہ سال کے تھے کہ سیرت نبوی ﷺ لکھنی شروع کر دی۔ پندرہ سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ اخبار نویسی کے میدان میں قدم رکھا اور سترہ سال کی عمر میں ہی روزنامہ اخبار ‘’تاج’‘ کے مدیر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب آپ کے والد محترم کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا۔

۱۹۱۶ءسے ۱۹۲۱ء تک کا زمانہ آپ کے لیے سخت کوشی اور مصائب و مشکلات کا زمانہ تھا ۔ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا۔

۱۹۲۱ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں جمعیت علمائے ہند کے ہفت روزہ اخبار ‘’مسلم’‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو پھر سے تعلیم کی طرف متوجہ ہو گئے، اسی دوران انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور اخبار نویسی کے ساتھ ساتھ مختلف علماء کرام سے عربی، ادب، تفسیر، حدیث ، منطق اور فلسفہ کی کتابیں پڑھتے رہے اس طرح ہر فن پر دسترس حاصل کرنے کا موقع ملا۔

اسی دوران ۱۹۲۴ء میں جمعیت علمائے ہند کو اپنے سہ روزہ اخبار ‘’الجمعیة’‘ کے لئے ایڈیٹر کی تلاش تھی بالآخر ان کی نظر ایک مرتبہ پھر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر پڑی اور انہوں نے اکیس سالہ نوجوان کو اپنے اخبار کا مدیر منتخب کیا۔

۱۹۲۶ءکے اواخر میں ہندو انتہا پسند تنظیم آریہ سماج کے لیڈر سوامی شردھا نند کو نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت کرنے پر عبدالرشید نامی مسلمان نے جوش میں آ کر قتل کر ڈالا اور اس کے بعد ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور قتل و غارت گری کا طوفان برپا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوؤں نے ہر طور پر یہ ثابت کرنا چاہا کہ اسلام دلیل کے بجائے تلوار کا مذہب ہے اور مسلمان جہاد کا نام استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں ۔

اس پروپیگنڈے کے طوفان میں مسلمانوں کے قائد مولانا محمد علی جوہرؒ نے دہلی کی جامع مسجد میں تقریر کرتے ہوئے رُندھی ہوئی آواز میں فرمایا ‘’ کاش کوئی اﷲ کا بندہ اٹھتا اور ہندوؤں کے ان الزامات کے جواب میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتا۔’‘

ہزاروں مسلمانوں کے اس اجتماع میں نوجوان مودودیؒ نے مولانا جوہرؒ کی بات گرہ میں باندھ لی اور ان کی پکار پر لبیک کہنے کا پکا ارادہ کر لیا اور صرف چوبیس سال کی عمر میں ‘’الجہاد فی الاسلام’‘ کے نام سے کتاب لکھ کر اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کر دیا۔

جب علامہ اقبال نے یہ کتاب پڑھی تو فرمایا ‘’ اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔’‘

زندگی کے آخری سالوں میں علامہ اقبال ؒ جب مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو پڑھتے تو فرماتے ‘’ یہ مولوی رسول اﷲ ﷺ کے قلم سے ان کے دین کو پیش کر رہا ہے۔’‘

۱۹۳۳ءمیں مولانا مودودیؒ نے اپنا رسالہ ماہنامہ ‘’ترجمان القرآن’‘ شائع کرنا شروع کیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے باطل نظریات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کی۔

آپ نے محسوس کیا کہ وہ اس بے دینی اور روایتی مذہب پرستی کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا ۱۹۴۱ء میں انہوں نے ۵۷ افراد پر مشتمل ایک تحریک اسلامی کا آغاز کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا پیغام ملک کے طول و عرض میں پھیلتا چلا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد آپ لاہور آ گئے اور ایک مرتبہ پھر اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ دین کے کاموں میں لگ گئے۔

۱۹۴۷ء میں قائد اعظمؒ نے مولانا مودودیؒ سے فرمایا کہ ‘’مولانا ہم نے پاکستان بنا دیا ہے اب آپ کو یہاں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔’‘

اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اس کمیٹی میں بھی شامل کیا جس کے ذمے پاکستان کے آئین کی تیاری کا کام تھا۔لہٰذا مولانا مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان سے ایک درس کا سلسلہ شروع کیا ۔ لیکن ۱۹۴۸ء میں قائد اعظم ؒ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ زبردستی روک دیا گیا اور مولانا مودودیؒ کو جیل میں بند کر دیا گیا۔

لیکن مولانا مودودیؒ اپنا کام کرتے رہے۔ ان کی بے شمار تصنیفات پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں اور لوگ انہیں امام مودودیؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ صرف ان کی ایک کتاب ‘’دینیات’‘ ہی دنیا کی تقریباً ساٹھ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ دنیا میں اب تک لاکھوں ،کروڑوں افراد آپ کی تحریروں سے متاثر ہوئے۔ جبکہ لاتعداد لوگوں نے آپ کی کتابیں پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ آپ ؒ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ قرآن مجید کی تفسیر ‘’تفہیم القرآن’‘ تحریر کرنا ہے جس میں آپ نے انتہائی سادہ اور دل نشیں انداز میں قرآن کی ترجمانی کی ہے تاکہ ہر خاص و عام قرآن کے اصل پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو سکے۔آپ کی علمی خدمات کے اعتراف میں سعودی عرب کی طرف سے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ مولانا مودودی ؒ کو دیا گیا۔

آج دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ‘’تفہیم القرآن’‘ ہے جو مختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ دنیا بھر میں نہایت ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ۔ مولانا مودودیؒ کا انتقال ۱۹۷۹ءمیں ہوا اور آپ لاہور میں دفن ہیں ۔

اﷲ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی قبر کو نور سے بھر دے۔(آمین)

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔