02:35    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1390 0 0 00

راجو نہیں مرے گا

میز پر ناشتہ لگ چکا تھا۔فہد اپنی امی کے ساتھ بیٹھا تھا۔اس کے والد ابراہیم شاہ ہاتھ میں بریف کیس پکڑے سیڑھیاں اترتے ہوئے آ رہے تھے۔نیچے اتر کر انھوں نے بریف کیس صوفے پر رکھا اور ناشتے کی میز کی طرف بڑھے۔’’آج آپ نے بھی دیر کر دی۔’‘بیگم ابراہیم نے کہا۔

‘’ہاں ۔ایک فائل دیکھ رہا تھا اور بھئی فہد آج تم خلاف معمول بہت چپ ہو۔’‘وہ پیالی کھسکاتے ہوئے بولے۔

‘’اسے اپنے دوست کی فکر لگی ہوئی ہے۔’‘بیگم ابراہیم منہ بنا کر بولیں ۔

‘’’کیا مطلب! کیا ہوا تمہارے دوست کو؟’‘ انہوں نے چونک کر پوچھا۔

‘’اس کی طبیعت بہت خراب ہے ابو اور پتہ ہے ڈاکٹر نے کیا کہا ہے؟’‘وہ اداس آواز میں بولا۔

‘’کیا کہا ہے؟’‘انہوں نے حیران ہو کر پوچھا۔

‘’’وہ زہریلا پانی پینے سے بیمار ہوا ہے۔’‘فہد نے بتایا۔

‘’زہریلا پانی !’‘ابراہیم شاہ نہ جانے کیوں چونک اٹھے۔

‘’ہاں ابو۔وہ کریم نگر میں رہتا ہے جہاں سے ندی گذرتی ہے۔وہاں کے لوگ جب پانی نہیں آتا تو ندی کا پانی ہی استعمال کرتے ہیں اور اس ندی میں ایک کارخانے کا فضلہ گرتا ہے جس کی وجہ سے پانی زہریلا ہو گیا ہے۔’‘فہد نظریں نیچی کیے ہوئے بولا اور ابراہیم شاہ کے ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں ۔ان کی نظروں کے سامنے سے ایک ایک کر کے کئی پردے ہٹتے چلے گئے اور وہ بہت پیچھے اس زمانے میں پہنچ گئے جب ایک دن اسی طرح وہ بھی اسی میز پر خاموش اور اداس بیٹھے تھے کیونکہ ان کا دوست راجو بہت بیمار تھا۔

٭....٭

‘’راحیل۔آج راجو کیوں نہیں آیا؟’‘ابراہیم نے اسکول کے گراؤنڈ میں ٹہلتے ہوئے راحیل سے پوچھا جو راجو کے پڑوس میں رہتا تھا۔

‘’’وہ تو بہت بیمار ہے۔’‘راحیل نے بتایا۔

‘’بیمار ! کیا ہوا اسے؟’‘ابراہیم نے چونک کر پوچھا۔

‘’پتہ نہیں ،کل اسے بہت الٹیاں آئی تھیں ۔اس کے ابو نے اسے ہسپتال میں داخل کروا دیا ہے۔’‘

‘’اچھا تو راجو ہسپتال میں ہے۔’‘

‘’ہاں ،میں تو آج اسے دیکھنے جاؤں گا۔’‘ راحیل نے کہا۔

‘’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔تم میرے گھر آ جانا۔وہیں سے چلیں گے۔’‘ابراہیم نے کہا۔

‘’ٹھیک ہے۔’‘

٭....٭

شام کو وہ دونوں ہسپتال گئے۔راجو بستر پر پڑا سورہا تھا۔وہ بہت کمزور نظر آ رہا تھا۔اس کے والد کافی پریشان نظر آ رہے تھے۔

‘’ڈاکٹر صاحب!راجو کو کیا ہوا ہے؟’‘ابراہیم نے پوچھا۔

‘’بیٹا یہ زہریلا پانی پینے سے بیمار ہو گیا ہے۔’‘ ڈاکٹر نے بتایا۔

‘’زہریلا پانی !’‘ابراہیم نے حیرت سے کہا۔

‘’ہاں بیٹا۔تمہیں تو پتہ ہے ہمارے علاقے میں کئی کئی دن پانی نہیں آتا۔مجبوراً پھر ندی کا پانی استعمال کرنا پڑتا ہے اور ڈاکٹر صاحب بتا رہے ہیں کہ اس ندی کا پانی زہریلا ہو گیا ہے۔’‘راجو کے والد نے بتایا۔

‘’مگر وہ کیسے ڈاکٹر صاحب؟’‘راحیل نے پوچھا۔

‘’دراصل اس ندی سے ذرا فاصلے پر ایک بہت بڑا کارخانہ ہے اور اس کارخانے سے نکلنے والا گندہ پانی اور فضلہ اس ندی میں گرا دیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے صاف شفاف ندی کا پانی زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔’‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔

‘’ان کو کوئی منع نہیں کرتا۔’‘ابراہیم نے حیرت سے پوچھا۔

‘’ہمارے ہاں ایسی باتوں کی کوئی پروا ہی نہیں کرتا۔دراصل ہم لوگوں نے برائی کے خلاف آواز اٹھانا چھوڑ دیا ہے اور دوسروں کا احساس کرنا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں ۔حالانکہ اگر کارخانے والے چاہیں تو ذرا سا خرچہ کر کے ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا دیں تو پانی زہریلا نہیں ہو گا۔’‘

‘’ٹریٹمنٹ پلانٹ کیا ہوتا ہے؟’‘ابراہیم نے الجھن کے عالم میں کہا۔

‘’ٹریٹمنٹ پلانٹ کارخانے سے نکلنے والے فضلے میں سے زہریلے مواد کو الگ کر دیتا ہے اور پھر اگر فضلہ ندی میں گرا بھی دیا جائے تو پانی زہریلا نہیں ہو گا۔’‘

‘’ہونہہ۔مگر یہ لوگ ایسا کیوں کریں گے؟ان کی بلا سے لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں ۔’‘راجو کے والد تلخ لہجے میں بولے۔

‘’ویسے یہ کارخانہ ہے کون سا؟’‘راحیل نے پوچھا۔

‘’سن رائیز لمیٹڈ۔خیر تم چھوڑو ان باتوں کو۔بچو بس تم دعا کرو کہ تمہارا دوست جلدی اچھا ہو جائے۔’‘راجو کے والد بھرائی ہوئی آواز میں بولے۔

٭....٭

‘’خیر تو ہے بھئی۔آج ابراہیم بہت چپ چپ ہے۔’‘ابراہیم کے والد مکرم شاہ بولے۔

‘’اسے اپنے دوست کا غم کھائے جا رہا ہے۔’‘ بیگم شاہ منہ بنا کر بولیں ۔

‘’کیوں ؟ کیا ہوا اس کے دوست کو؟’‘انہوں نے پوچھا۔

‘’وہ بہت بیمار ہے ابو اور پتہ ہے ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔’‘ابراہیم اداس آواز میں بولا۔

‘’کیا کہا ہے؟’‘مکرم شاہ تو منہ میں ڈالتے ہوئے بولے۔

‘’ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ وہ زہریلا پانی پینے سے بیمار ہوا ہے۔’‘اس نے بتایا۔

‘’زہریلا پانی پینے سے....’‘مکرم شاہ حیرت سے بولے۔

‘’ہاں ۔وہ لوگ کریم نگر میں رہتے ہیں ۔وہاں کئی کئی دن پانی نہیں آتا تو لوگ ندی کا پانی استعمال کرتے ہیں اور ندی کا پانی زہریلا ہو گیا ہے۔’‘

‘’مگر ندی کا پانی زہریلا کس طرح ہو گیا؟’‘بیگم شاہ نے پوچھا۔

‘’دراصل اس ندی میں ایک کارخانے سن رائز لمیٹڈ کا فضلہ گرتا ہے جس کی وجہ سے پانی زہریلا ہو گیا ہے۔’‘

‘’ارے۔! وہ کارخانہ تو ہمارا ہے۔’‘بیگم شاہ چونک کر بولیں ۔

‘’ہاں ہاں ۔بھئی اب کارخانے کا فضلہ تو ندی میں ہی گرایا جا سکتا ہے ناں !!’‘مکرم شاہ جلدی سے بولے اور چائے کا گھونٹ لیا۔

‘’ابو!ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ اگر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوا لیا جائے تو پھر پانی زہریلا نہیں ہو گا۔’‘ابراہیم نے کہا۔

‘’کیا مطلب ہے تمہارا؟ یہ الٹی سیدھی باتیں تم کہاں سے سیکھ کر آتے ہو ۔ہنہ۔ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوا لیں ۔’‘وہ منہ بنا کر بولے۔

‘’مگر بات تو صحیح ہے۔اس طرح تو لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔’‘بیگم شاہ بولیں ۔

‘’کیسی باتیں کرتی ہو بیگم۔جانتی ہو پلانٹ لگوانے اور پھر چلانے میں کتنا خرچہ ہو گا۔اور وہ بھی خوامخواہ کا۔بھلا اس سے ہمیں کیا ملے گا۔’‘

‘’بہت سے لوگ بیمار ہونے سے بچ جائیں گے۔’‘بیگم شاہ نے کہا۔

‘’کیا سارے لوگ ہمارے اس کارخانے کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں ۔کتنے لوگوں کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے ۔کتنے جعلی دواؤں سے مر جاتے ہیں ۔کتنے ہی لوگ ملاوٹ شدہ غذا کھانے سے مر جاتے ہیں ۔کوئی ہے انہیں پوچھنے والا....!!پھر ہمیں کیا پڑی ہے خواہ مخواہ لوگوں کی فکر کریں ۔یہاں لوگوں کو خود اپنا خیال نہیں ۔یہ لوگ خود بھی تو اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ ندی نالوں میں پھینک دیتے ہیں ۔’‘وہ سخت لہجے میں بولتے چلے گئے۔

‘’ہاں ۔ یہ تو ہے ۔’‘بیگم شاہ نے ایک آہ بھری۔

٭....٭

‘’یہ ابراہیم کہاں ہے؟’‘مکرم شاہ نے رات کے کھانے پر پوچھا۔

‘’اپنے کمرے میں رو رہا ہے۔’‘بیگم شاہ نے جواب دیا۔

‘’رو رہا ہے ۔مگر کیوں ؟’‘انہوں نے حیرت سے پوچھا۔

‘’اس کا دوست راجو مر گیا ہے۔’‘

‘’راجو مر گیا ہے۔!’‘مکرم شاہ کے منہ سے نکلا اور وہ نظریں چرا گئے۔

کئی دنوں تک ابراہیم چپ چپ رہا اور راجو کو یاد کرتا رہا۔مگر وقت سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ہر زخم پر مرہم رکھ دیتا ہے۔ابراہیم کی زندگی بھی بالآخر ایک ڈگر پر آ گئی۔کبھی کبھی اس کو راجو یاد آ جاتا اور پھر دوبارہ دھند میں کہیں کھو جاتا۔ کچھ عرصے بعد مکرم شاہ نے اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھجوا دیا اور پڑھائی میں لگ کر وہ سب کچھ بھول گیا۔ بس صبح شام کتابیں ہوتیں اور وہ ہوتا۔امتحان میں اعلیٰ پوزیشن لینے کا بھوت ہر وقت اس پر سوار رہتا اور پھر اس نے واقعی اپنا ہر امتحان نمایاں پوزیشنوں کے ساتھ پاس کیا اور اپنے والد کا تمام کاروبار سنبھال لیا۔

٭....٭

‘’کیا ہوا ؟کیا سوچنے لگ گئے؟’‘بیگم ابراہیم نے پوچھا۔

‘’ہیں ....!کچھ نہیں ۔میں سوچ رہا تھا کہ وہ کارخانہ تو ہمارا ہے۔’‘وہ چونک کر بولے۔

‘’ہاں تو اس سے کیا ہوتا ہے۔اب کارخانے کا فضلہ ندی میں نہیں جائے گا تو اور کہاں جائے گا۔یہ فہد تو یونہی پریشان ہو جاتا ہے۔’‘بیگم ابراہیم بولیں ۔

‘’ابو....’‘فہد نے ڈرتے ڈرتے کہنا شروع کیا۔ ‘’ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا کہ اگر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوا لیا جائے تو پھر ندی کا پانی زہریلا نہیں ہو گا۔’‘

‘’فہد اپنے ابو کو پریشان مت کرو۔جلدی جلدی ناشتہ کرو اور اسکول جاؤ۔’‘بیگم ابراہیم بولیں ۔

‘’کیا نام ہے تمہارے دوست کا؟’‘ابراہیم شاہ نے پوچھا۔

‘’راجو....’‘فہد نے بتایا۔

‘’راجو....’‘وہ چونک کر کھڑے ہو گئے۔ ‘’راجو....تمہیں تو میں بھول ہی گیا تھا۔اف خدایا! مجھ سے کتنی بڑی بھول ہوئی ہے۔میں بھی زیادہ کمانے کے چکر میں اسی ظالمانہ نظام کو جاری رکھے ہوئے تھا۔’‘

‘’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔کیوں خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں ۔’‘بیگم ابراہیم بولیں ۔

‘’نہیں بیگم....مجھ سے واقعی بھول ہوئی ہے ۔فہد بیٹے تمہارا شکریہ۔تم نے مجھے یاد دلا دیا۔ایک دن میرا دوست بھی مجھ سے اس زہریلے پانی کی وجہ سے بچھڑ گیا تھا۔ مگر....مگر....اب ایسا نہیں ہو گا۔اب ندی میں زہریلا مواد نہیں گرے گا....اب کوئی راجو نہیں مرے گا....ہاں فہد.... راجو زندہ رہے گا....’‘

اور فہد کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔اس نے وہ کام کر دکھایا تھا جو اس کے والد نہ کر سکے تھے۔ بہت سے راجو مرنے سے بچ گئے تھے۔

٭٭٭

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔