01:25    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

451 0 0 00

رِنکو کی ضد

رِنکو نے اسکول سے آتے ہی بستہ ایک طرف پھینکا اور ماں کے گلے میں جھولتے ہوئے بولا:’’ ماں ماں ! مجھے کل اسکول میں کلر پیٹی لے کر جانا ہے ہم اسکول میں ڈرائنگ بنائیں گے۔ ‘‘

          ’’اچھا! ٹھیک ہے مَیں لے دوں گی۔‘‘ کہہ کر ماں گھر کے کاموں میں لگ گئی۔

          لیکن رِنکو کو کہاں چین پڑتا۔ اگلے پانچ منٹ میں اس نے تین بار ماں کو یاد کرا دیا۔ ہار کر ماں نے ہاتھ کا کام چھوڑا۔ اور رِنکو کو ساتھ لے کر بازار کی طرف چل پڑیں۔ اسٹیشنری کی دکان سے کلر پیٹی خرید کر رِنکو کے حوالے کر دیں۔ رِنکو کلر پیٹی پا کر بہت خوش ہوا۔ اچھلتا کودتا وہ گھر کی طرف آ رہا تھا کہ اس نے ایک دکان کے آگے رنگ برنگی سائیکل دیکھی، وہ وہیں ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ ’’ ماں ! مجھے یہ سائیکل لینا ہے۔ دیکھو نا! کتنی سندر ہے ؟‘‘

          ماں نے دیکھا، سچ مچ سائیکل بہت سندر تھی۔ لیکن ماں جانتی تھیں کہ یہ سائیکل خریدنا ان کے بس کی بات نہیں۔پاپا کی تنخواہ سے جیسے تیسے گھر کا خرچ چلا رہی تھیں۔ پھر بھی رِنکو کی پڑھائی، کھانے اور اس کی دوسری ضروریات میں وہ کوئی بھی کٹوتی نہیں کرتی تھیں۔ ماں نے رِنکو کو ٹالنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن ضدی رِنکو کہاں مانتا؟ وہ تو ضد پر اڑ گیا۔ زور زور سے رونے لگا اور وہیں زمین پر لوٹنے لگا۔ آس پاس کے لوگ اُسے دیکھنے لگے۔ لوگوں کو انھیں یوں گھورتا دیکھا تو ماں کو بہت شرم محسوس ہوئی۔ رِنکو کو وہیں زمیں پر چھوڑ کر وہ دکان کے اندر گھس گئیں۔ رِنکو نے سوچا ماں سائیکل خریدنے کے لیے دکان میں گھسی ہیں۔ وہ بھی اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتا ماں کے پیچھے پیچھے دکان میں گھس گیا۔ ماں نے دکان دار سے سائیکل کے دام پوچھے۔

          دکان دار نے بتایا :’’ ایک ہزار روپے۔‘‘

          دام سُن کر ماں نے تھوک نگلتے ہوئے بڑے دکھ سے کہا:’’ اچھا!‘‘

          ماں نے رِنکو سے کہا :’’ ابھی مَیں اِتنے پیسے لے کر نہیں آئی ہوں جب پاپا آفس سے گھر آئیں گے تو تم اُن کے ساتھ آ کر سائیکل خرید لینا۔‘‘

          رِنکو نے جھٹ ہامی بھر لی اور دونوں گھر لوٹ آئے۔ شام کو جب رِنکو کے پاپا آفس سے لوٹے تو ماں نے اُن کو ساری بات بتائی۔ رِنکو کی اس طرح کی بے جا ضد سے اس کے پاپا کو بہت دکھ ہوا۔ پاپا نے رِنکو کو اپنے پاس بلایا اور اس کو پیار سے سمجھانے لگے۔ پاپا بولے:’’ دیکھو بیٹا! جتنی چادر ہو اتنا ہی پاؤں پھیلانا چاہیے۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔ ہم تمہیں اچھے اسکول میں پڑھوا رہے ہیں۔ تمہاری پڑھائی کے لیے ہم کبھی کوئی کمی نہیں کرتے۔ تمہارے لیے دودھ، پھل فروٹ،  بسکٹ، ٹافی، اور اچھے اچھے چاکلیٹ لاتے ہیں۔ اب تمہیں بھی فضول کی ضد چھوڑ کر محنت سے پڑھائی کرنا چاہیے۔ تمہارے لیے اتنی مہنگی سائیکل خریدنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ تمہیں ایسی ضد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

          لیکن رِنکو کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اُس نے سائیکل لینے کی ضد نہ چھوڑی اور زور زور سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اُسے اِس طرح ضد کرتے ہوئے دیکھ کر پاپا نے کہا:’’ ٹھیک ہے! مَیں کل اپنے آفس سے قرض لے آؤں گا اور تمہیں سائیکل دلا دوں گا۔ پھر دھیرے دھیرے میری تنخواہ میں سے پیسے کٹ جائیں گے۔‘‘

          دوسرے دن پاپا نے رِنکو کو سائیکل دلا دی۔ رِنکو بہت خوش ہو گیا اُسے اگلے دن کا انتظار تھا۔ جب وہ اسکول جا کر اپنے سارے دوستوں کو اپنی نئی سائیکل کے بارے میں بتائے گا اور اپنی سائیکل دکھانے کے لیے گھر لے کر آئے گا۔

          دوسرے دن اسکول جانے سے پہلے رِنکو پاپا کے ساتھ ناشتہ کرنے بیٹھا۔ پاپا نے ماں کو آواز لگائی:’’ بھئی! جلدی دودھ لے کر آؤ رِنکو کو دیر ہو جائے گی۔ ‘‘

          ماں ایک کپ دودھ لے آئی۔ ماں نے بتایا:’’ مَیں نے آدھا دودھ بند کروا دیا ہے۔ رِنکو کی سائیکل کے لیے آفس سے جو قرض لیا گیا ہے اُس کے پیسے کٹنے کی وجہ سے اب تنخواہ کم ملے گی اس لیے گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو جائے گا۔ مجھے بچت کر کے ہی گھر چلانا پڑے گا۔‘‘

          پاپا نے کہا :’’ تم نے ٹھیک کیا۔یہ ایک کپ دودھ تم رِنکو کو دے دو، آج سے میرا دودھ بند، اب مَیں بغیر دودھ پیے ہی آفس چلا جایا کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر پاپا نے آدھا ناشتہ کیا اور اُٹھ گئے۔ رِنکو کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔

          شام کو کھیل کود کر آنے کے بعد رِنکو ماں کے ساتھ بیٹھ کر پھل اور دودھ سے ہلکا پھلکا ناشتہ کرتا تھا۔ اُس دن ماں نے رِنکو کو کھانے کے لیے صرف ایک کیلا ہی دیا۔ کیلا ہاتھ میں لے کر رِنکو نے ماں سے کہا:’’ ماں ! بس ایک ہی کیلا اور دودھ ؟‘‘ ماں نے جواب دیا:’’ بیٹا ! آج ایک ہی کیلا کھا لو اور دودھ تو مَیں نے کم لینا شروع کر دیا ہے، اس لیے دودھ صرف صبح ملے گا۔تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ قرض ادا ہو جانے کے بعد اب دوبارہ پہلے جیسا کھانا پینا شروع کر دیں گے۔

          اچانک رِنکو کو خیال آیا کہ ماں کچھ بھی نہیں کھا رہی ہے۔ رِنکو بولا:’’ ماں ! آپ کچھ نہیں کھائیں گی؟‘‘

          اپنی نم آنکھیں چھپاتے ہوئے ماں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا اور دھیرے سے کہا:’’ مجھے بھوک نہیں ہے، رِنکو تم کھالو۔‘‘ یہ کہہ کر ماں گھر کے کام میں جٹ گئی۔

          پاپا کو رات میں کتاب پڑھتے پڑھتے سونے کی عادت تھی۔ اُس رات رِنکو نے دیکھا کہ پاپا کے کمرے کی لائٹ بند ہو گئی۔ رِنکوسوچنے لگا پاپا آج اتنی جلدی کیسے سوگئے ؟ اُن کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ وہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں پاپا کے کمرے کی طرف گیا، اُس نے دھیرے سے آواز لگائی :’’ پاپا!کیا مَیں اندر آؤں ؟‘‘

          اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پاپا بولے :’’ ہاں ہاں بیٹا آ جاؤ۔‘‘ اندر داخل ہوتے ہوئے رِنکو بولا:’’ آج آپ ہمیں کہانی نہیں سنائیں گے؟ اور آج آپ کچھ پڑھ بھی نہیں رہے ہیں ؟ آپ نے لائٹ اتنی جلدی کیوں بجھا دی پاپا؟

          پاپا نے دھیرے سے جواب دیا :’’ بیٹے ! کوئی خاص بات نہیں۔‘‘ یہ سُن کر رِنکو کو اطمینان نہ ہوا اور پھر ضد کرنے لگا کہ :’’ پاپا صحیح صحیح بتائیے نا کیا مسئلہ ہے؟‘‘تو اُس کے پاپا نے کہا: ’’ چوں کہ مَیں نے سائیکل لانے کے لیے قرض لیے ہیں اور اِس مہینے سے میری تنخواہ میں سے پیسے کٹنے شروع ہو جائیں گے، اِس مہینے بجلی کا بِل کم آئے اس لیے مَیں نے لائٹ جلدی سے بجھا دی۔‘‘

          رِنکو کو احساس ہو گیا کہ میری بے جا ضد کی وجہ سے ممی پاپا دونوں بہت زیادہ پریشان ہو گئے ہیں۔ ’’ اوہو! پاپا ‘‘ کہہ کر رِنکو اپنے پاپا کے گلے لگ گیا اور سسک سسک کر رونے لگا۔پاپا نے جب رِنکو کو روتے دیکھا تو اُس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا :’’ بیٹے ! تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘

          سسکتے ہوئے رِنکو بولا:’’ میری بے جا ضد کی سب کو اتنی بڑی سزا کہ گھر کے سب لوگوں کا سکون برباد ہو جائے، پاپا! مجھے معاف کر دو نا۔ مجھے نہیں چاہیے سائیکل، پاپا!  پلیز اسے کل واپس کر دیں۔ مَیں اب آیندہ سے کبھی کوئی ضد نہیں کروں گا۔

          رِنکو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پاپا بولے :’’ رو مت بیٹا! صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔