02:32    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

3294 1 0 00

جھوٹ کی سزا

یہ ضرور کسی ڈائن کا کام ہے۔ جنگل کے اوجھا نامی لکڑ بھگّے نے آنکھیں گول گول گھما کر کہا۔’’یہ جو آج کل ایک کے بعد ایک بچّے مرتے جا رہے ہیں، ضرور اس میں اُسی کا ہاتھ ہے وہ ڈائن ہے۔ اب اُس کی نظر تیرے بچّے پر ہے۔‘‘

          ’’ تو ہمارا کیا ہو گا؟ ‘‘براؤنی بھالو لگا رونے۔’’ہمارے دو بچّے ہوئے ایک تو پہلے ہی خدا کو پیارا ہو گیا۔ خدا جانے اسے کون سی بیماری لگی ہے۔ ‘‘

          بنٹی لومڑی مانو سسکنے لگی :’’ بابا! کہیں یہ اُس سنہری ہرن کے کرتوت تو نہیں ؟ اتنے بڑے کھیت اور کٹیا کی اکیلی مالکن بنی بیٹھی ہے۔‘‘

           سنہری ہرن تھی تو اکیلی اس کا کوئی بھی نہ تھا مگر کھیتوں پر راج تھا تو اسی کا۔ جیسے ہی بنٹی لومڑی نے ہرن کی بات کی، تو مانو اوجھا لکڑ بھگّا اسی موقع کی تلاش میں تھا۔اس نے کہا :’’ ارے ! وہی تو ڈائن ہے اگر اس کانٹے کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو کتنا اچھا ہو گا ؟ پھر سارے کھیتوں پر ہمارا حکم چلے گا۔ ‘‘ لکڑ بھگّے نے براؤنی بھالو کو اکساتے ہوئے مزید کہا کہ : ’’ ابھی اور اسی وقت جنگل کے راجا شیر سنگھ کے پاس چلو۔ وہ پنچایت بلائے مَیں سب کے سامنے اس بات کا اقرار کروں گا کہ سنہری ہرن ڈائن ہے اور اس کی نظر تمہارے بیٹے پر ہے۔ وہ آنکھوں آنکھوں ہی سے بچّے کا خون چوس رہی ہے۔‘‘

          براؤنی بھالو ان کے جھانسے میں آ گیا:’’ ابھی چلو بابا! شیر سنگھ کے پاس۔‘‘

          پنچایت میں اوجھا لکڑ بھگّے اور بنٹی لومڑی نے سنہری ہرن کے خلاف گواہی دی۔ شیر سنگھ نے فیصلہ سنا دیا کہ :’’ سنہری ہرن ڈائن ہے، اس لیے آج رات جنگل کے تمام جانور میدان میں جمع ہو جائیں تاکہ اسے درخت سے باندھ کر زندہ جلا دیا جائے۔‘‘

          سنہری ہرن بہت روئی لیکن پتھر دل والے شیر سنگھ، بنٹی لومڑی، اوجھا لکڑ بھگّے کے دل نہ پگھلے۔ بل کہ بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے تو جیسے اسی بات کا انتظار کر رہے تھے کہ کب راجا شیر سنگھ فیصلہ سنائے اور کب وہ سنہری ہرن کو دبوچ لیں ؟ چناں چہ جیسے ہی راجا نے فیصلہ سنایا وہ دونوں دوڑے اور سنہری ہرن کو پکڑ کر درخت سے باندھنے لگے۔

          ہرن کا کوئی بھی نہ تھا، وہ بالکل اکیلی تھی۔ جنگل کے کسی جانور میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ راجا شیر سنگھ کے فیصلے کے خلاف زبان کھولیں۔ لیکن کھوکھو بندر اور میکو خرگوش نے دل میں یہ ٹھان لی کہ بدمعاشوں کو ہم ضرور سبق سکھائیں گے۔ کیوں کہ انھیں یہ پتا تھا کہ یہ سب بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کی سازش ہے۔

          سنہری ہرن کو درخت سے باندھ کر بنٹی لومڑی، اوجھا لکڑ بھگّا اور اس کے دوسرے بدمعاش ساتھی درخت کے قریب ہی بیٹھ کر موج مستی کرتے ہوئے بے چاری سنہری ہرن کا مذاق اڑا رہے تھے اور خوب کھا پی کر ناچتے گاتے ہوئے جشن منا رہے تھے۔ جب شام ہوئی اور اندھیرا پھیلنے لگا تو ایک ایک کر کے دوسرے جنگلی جانور میدان میں درخت کے ارد گرد جمع ہونے لگے۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کھوکھو بندر درخت پر چھلانگ مار کر بیٹھ گیا۔ جب سب جانور راجا شیر سنگھ کے آنے کی خبر سُن کر اس کے استقبال میں مصروف ہو گئے تو کھوکھو بندر نے سنہری ہرن کو درخت سے کھول دیا اور اس سے کہا کہ :’’سنہری ہرن ! جنگل میں جھیل کے پاس جھاڑی میں بھاگ کر چھپ جاؤ کل ہم تم سے ملیں گے۔‘‘

          اِدھر جیسے ہی سنہری ہرن کو کھوکھو نے کھولا تو وہ چوکڑیاں بھرتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ میکو خرگوش چند لکڑیاں اور گھاس پھوس اور چند ہڈیوں کے ٹکڑے لیے پہلے ہی سے تیار تھا، کھوکھو بندر اور میکو خرگوش دونوں نے آگ جلادی اور اوجھا لکڑ بھگّے کو دھوکا دینے کے لیے ہڈیاں بکھیر دیں۔

          سب جانور گھبرانے لگے۔ شیر راجا نے جب یہ دیکھا تو کہا :’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ڈائن کو اس کے کیے کی سزا مل گئی، آگ لگ گئی اور وہ اس میں جل کر مر گئی۔‘‘

          اتنا سُن کر بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے نے نعرہ مارتے ہوئے کہا کہ :’’ چلو اب اس کے کھیت اور کٹیا پر ہمارا قبضہ ہو جائے گا۔‘‘

          لیکن یہ کیا براؤنی کے گھر سے خبر آئی کہ اُس کا دوسرا بچّہ بھی مرگیا۔ تمام لوگ حیران رہ گئے کہ سنہری ہرن جو کہ ڈائن تھی وہ تو مر گئی پھر براؤنی کا بچّہ کیسے مرا؟

          جنگل سے لگ کر ایک کارخانہ تھا جہاں سے زہریلا دھواں اور خراب پانی نکل کر جنگل کے چشمے میں مل جاتا تھا۔ اسی پانی کو جنگلی جانوروں کے بچّے پی لیتے تھے وہی ان کے مرنے کا سبب تھا۔ میکو خرگوش اور کھوکھو بندر براؤنی بھالو کو تسلی دینے لگے :’’ دیکھا تم نے تمہارے بھولے پن کا  فائدہ اٹھا کر ان لوگوں نے ایک بے گناہ ہرن پر غلط الزام بھی لگایا اور اس کی جان بھی لے لی، بے چاری سنہری ہرن کتنی سندر اور خوب صورت تھی۔ یہ سب بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کی سازش ہے وہ لومڑی کے کھیتوں اور کٹیا پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔‘‘

          میکو خرگوش کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اُسی رات سنہری ہرن کے کھیت میں بیٹھے بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّا جشن منا رہے تھے۔ اچانک بنٹی لومڑی بُری طرح ڈر کر چلّانے لگی:’’ لکڑ بھگّا بابا! بھوت ۔۔۔ بھوت۔۔۔بچاؤ۔۔۔ بچاؤ !!‘ ‘

          ان دونوں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کی ہرن اُسی زمین پر یہاں سے وہاں بے تحاشہ دوڑ رہی ہے اور اُس کی سینگ پر آگ جل رہی ہے۔

          میکو خرگوش اور کھوکھو بندر ایک جگہ چھپ کر سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ میکو خرگوش کے مشورے پر کھوکھو بندر نے سنہری ہرن کے جسم پر سفید رنگ پوت دیا تھا اور اس کے دونوں سینگوں پر موم بتّی جلا کر لگا دی تھی اور اسے کہا تھا کہ جا کر تمہارے کھیت پر ان لوگوں سے تھورا فاصلے پر بے تحاشہ اِدھر اُدھر دوڑ لگاؤ۔

          اوجھا لکڑ بھگّے کی ساری اوجھائی ہو گئی پھُر ۔۔۔ لگا چلّانے :’’ ارے باپ رے۔۔۔ ارے باپ رے ۔۔۔ کوئی ہے جو ہمیں اِس بھوت سے نجات دلائے ۔۔۔ بچاؤ بچاؤ۔‘‘

          بنٹی لومڑی نے جب اوجھا لکڑ بھگّے کی یہ حالت دیکھی تو وہ لگی دھاڑیں مار مار کر رونے۔

          میکو خرگوش، کھوکھو بندر اور ان کے دوست نیٖل گائے، مور، طوطا، بارہ سنگھاوغیرہ لگے زور زور سے چھپ کر چلّانے کہ :’’ سنہری ہرن کی آتما زمین پر لوٹ آئی ہے ۔۔۔ اپنی موت کا بدلہ لینے۔۔۔ جھوٹوں کا پردہ فاش کرنے۔۔۔ اور بدمعاشوں کو سزادینے ۔۔۔ بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کا خون چوسنے ۔۔۔ ‘‘

          بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے نے جب یہ آواز سُنی تو ڈر کے مارے بے ہوش ہو گئے۔ میکو خرگوش اور کھوکھو بندر کے ساتھیوں نے دونوں کو رسیوں سے جکڑ لیا اور راجا شیر سنگھ کے دربار میں لے گئے اور وہاں ان لوگوں کے دھوکے اور جھوٹ کی قلعی کھول دی۔

          راجا شیر سنگھ کو جب اصلیت کا پتا چلا تو اس نے فیصلہ سنایا کہ:’’ آج رات بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کو درخت سے باندھ کر زندہ جلایا جائے گا۔‘‘

          براؤنی بھالو روتے ہوئے آگے بڑھا اور سنہری ہرن سے معافی مانگنے لگا۔ سنہری ہرن نے اسے معاف کر دیا اور میکو خرگوش اور کھوکھو بندر کے گلے لگ کر رونے لگی۔ اور کہتی جاتی کہ:’’  مَیں تم لوگوں کا شکریہ کیسے ادا کروں کہ تمہاری عقل مندی سے میری جان بچ گئی، اور جھوٹے اور مکار لوگوں کو ان کے کیے کی سزا مل گئی۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔