02:55    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ انتخاب احسان دانش

1175 1 0 03.7




اُسی وادی میں تم اب جادہ پیما ہو جہاں میں تھا

اُسی وادی میں تم اب جادہ پیما ہو جہاں میں تھا

زمانے کی بھری محفل میں تنہا ہو جہاں میں تھا

مری کوتاہ بینی اب تمہیں فطرت نے بخشی ہے

وہاں اب تم بھی مایوسِ تمنا ہو جہاں میں تھا

مجھے طعنے دیا کرتے تھے لیکن خیر سے تم بھی

اسی منظر میں مصروفِ تماشا ہو جہاں میں تھا

یہ ضبطِ غم کی بخشش ہے ، مقدر کے کرشمے ہیں

تمہاری بھی وہی لے دے کے دنیا ہو جہاں میں تھا

شفق کے سرخ دریا میں نگاہیں تیر جاتی ہیں

کسی کے ہاتھ میں جب جامِ صہبا دیکھ لیتا ہوں

کچل دیتی ہے اس کی بے نیازی جب امیدوں کو

میں اس دنیا ہی میں انجامِ دنیا دیکھ لیتا ہوں

مرے آئینۂ امروز کے صیقل کا کیا کہنا

کہ جس میں منعکس تصویر فردا دیکھ لیتا ہوں

جبیں میں بے ریا سجدوں کا طوفاں سنسناتا ہے

سرِ بزمِ طرب جب عجزِ مینا دیکھ لیتا ہوں

نقابِ رنگ و بو میں چھپنے والے! یہ بھی سوچا ہے

میں ہر ذرے کی پیشانی میں صحرا دیکھ لیتا ہوں

نگاہوں کو مری فرصت کہاں محفل شناسی کی

میں دل کے آئینے میں جانے کیا کیا دیکھ لیتا ہوں

تری محفل میں جا کر اور کچھ دیکھا نہیں جاتا

میں اپنی آنکھ سے اپنا تماشا دیکھ لیتا ہوں

نگاہوں میں وہ جلوے بھر دیے مشقِ تصور نے

اندھیری رات میں رقصِ تجلی دیکھ لیتا ہوں

مری ناکامیوں پر جب ستارے مسکراتے ہیں

میں اک موہوم سا خوابِ تمنا دیکھ لیتا ہوں

مجھے احسان وہ گہری نظر دی دینے والے نے

دلِ شبنم میں غلطاں روحِ دریا دیکھ لیتا ہوں






میرا معیارِ محبت

بہت مشکل ہے میری طرح الفت اس زمانے میں

میں ہنستے وقت بھی اندوہ سے معمور رہتا ہوں

تقدس سے گذر جاتا ہوں عصیاں تک نہیں جاتا

تجلی سے نکل کر تیرگی سے دور رہتا ہوں






دھرے ہیں سینے پہ ہاتھ

گھنیری شاخوں کی تیرگی میں کلی کوئی مسکرا رہی ہے

کسی کے خاموش گھر میں فطرت چراغِ نغمہ جلا رہی ہے

رُخِ حسیں پر بریدہ گیسو ادا سے کروٹ بدل رہے ہیں

جماہی لیتی ہوئی کلی پر سیاہ بھنورے مچل رہے ہیں

وفا ہے بیدار ، روح شاداں ، نظر میں شوخی مچل رہی ہے

سحر کے دامن میں سبز ٹہنی سفید کونپل اگل رہی ہے

دھرے ہیں سینے پہ ہاتھ دونوں یہ حفظِ عفت کا جوش دیکھو

یہ جان دیکھو، یہ عمر دیکھو، یہ عقل دیکھو، یہ ہوش دیکھو

اگرچہ خلدِ بریں کا جواب ہے دنیا

مگر خدا کی قسم ایک خواب ہے دنیا

سحر پیامِ تبسم ہے ، شام اذنِ سکوت

شگوفہ زار کا فانی شباب ہے دنیا

لرز رہی ہے فضا میں صدائے غم پرور

ترنماتِ فنا کا رباب ہے دنیا

جہاں کی عشرتِ فانی پہ اعتبار نہ کر

شبِ بہار کا مستانہ خواب ہے دنیا

یہاں کی شام ہے اک پردۂ سیہ کاری

شرابِ عیش کے پیاسو! سراب ہے دنیا !

قدم قدم پہ طلسماتِ نور و ظلمت ہیں

فریب خانۂ شیب و شباب ہے دنیا

شکستِ دل کی حکایات حسرتوں کے بیاں

فسانہ ہائے الم کی کتاب ہے دنیا

جھکا نہ خاک درِ حسن پر جبینِ امید!

سنبھل سنبھل کہ یہاں بے حجاب ہے دنیا

ہجومِ درد کی ، انبوہِ آرزو کی قسم

تواترِ ستمِ بے حساب ہے دنیا

رہِ خلوص میں احسان اس سے بچ کر چل

کہ ایک خضرِ ضلالت مآب ہے دنیا

صرف اشک و تبسم میں الجھے رہے

ہم نے دیکھا نہیں زندگی کی طرف

رات ڈھلتے جب ان کا خیال آگیا

ٹکٹکی بندھ گئی چاندنی کی طرف

کون سا جرم کیا ، کیا ستم ہو گیا

آنکھ اگر اٹھ گئی آپ ہی کی طرف

جانے وہ ملتفت ہوں کدھر بزم میں

آنسوؤں کی طرف، یا ہنسی کی طرف

نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہوگا

حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا

نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر

نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہوگا

نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے

میں بے آداب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہوگا

غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آسان

مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا

شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو!

خزاں سرشتِ بہار آ گئی تو کیا ہوگا

یہ فکر کر کے اس آسودگی کے ڈھوک میں

تیری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہوگا

خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر

جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہوگا

مآلِ جاں نثاری شدتِ غم ہے جہاں تو ہے

وہاں الفت نہیں الفت کا ماتم ہے جہاں تو ہے

قناعت کا پھریرا ہے یہاں بامِ عقیدت پر

وفا کی قبر پر نفرت کا پرچم ہے جہاں تو ہے

تری فطرت جوابِ غمگساری دے نہیں سکتی

چراغ احساس کا سینے میں مدھم ہے جہاں تو ہے

خدا کا خوف کر غارت گرِ جنسِ شکیبائی

سکونِ عشق کا شیرازہ برہم ہے جہاں تو ہے






دولت اور محبت

ہے زباں بھی دل بھی آنکھیں بھی تعقل بھی مگر

مصلحت بینی انہیں اذنِ عمل دیتی نہیں

اہلِ دولت سے وفا کی آرزو ہے اک گناہ

ان زمینوں میں محبت پھول پھل دیتی نہیں

وہ عہد تم نے توڑ دیا جس پہ بیشمار

پچھلے پہر کے ڈوبتے تارے گواہ تھے

اب جو بھی کہہ رہے ہو بجا ہے درست ہے

ہم کج خیال و کج سخن و کج نگاہ تھے

با وصفِ احتیاط و بہ ایں تجرباتِ دہر

محسوس ہو رہا ہے کہ گم کردہ راہ تھے

لیکن ہے دل کو صبر ، کھلا ہے یہ جب سے راز

تم باعثِ گناہ نہیں تھے گناہ تھے

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے

ساتھ چل موجِ صبا ہو جیسے

لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں

تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ

مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

ایسے انجان بنے بیٹھے ہو

تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے

ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں

تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے

زندگی بیت رہی ہے دانش

اک بے جرم سزا ہو جیسے

نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو

مصلحت کا یہ تقاضا ہے، بھلا دو ہم کو

جرمِ سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو

زہر رکھا ہے تو یہ آبِ بقا دو ہم کو

بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں

ہم اگر سوئے ہوئے ہیں تو جگا دو ہم کو

ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب؟

ہاں اگر حرفِ غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو

خضر مشہور ہو الیاس بنے پھرتے ہو

کب سے ہم گم سم ہیں ہمارا تو پتہ دو ہم کو

زیست ہے اس سحر و شام سے بیزار و زبوں

لالہ و گل کی طرح رنگِ قبا دو ہم کو

شورشِ عشق میں ہے حسن برابر کا شریک

سوچ کر جرمِ تمنّا کی سزا دو ہم کو

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے

وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے

بندھا ہوا ہے اب بہاروں کا وہاں تانتا

جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لیے

کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو

دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لیے

کنویں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں میں دانش

کمند جو تھی ستاروں پہ ڈالنے کے لیے






ایک قطعہ

ہے زباں بھی دل بھی آنکھیں بھی عقل بھی مگر

مصلحت بینی انہیں اذنِ عمل دیتی نہیں

اہلِ دولت سے وفا کی آرزو ہے اک نگاہ

ان زمینوں میں محبت پھول پھل دیتی نہیں

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو

کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے

آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو

آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک

صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو

امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ

گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو

گُلچیں کے سدّ باب سے انکار ہے کسے

لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو

کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار

یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو

ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں

چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو

آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب

اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو

ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ

تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو

ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو

دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو

یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست

اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو

عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر

طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو

اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر

با وصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو

ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز

کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو

ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل

ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو

ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل

کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو

یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف

آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"

ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ

یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو

ہمنشیں! پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے

اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ

تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ

پھر رہا ہے مرا سر گردشِ ایام کے ساتھ

سن کہ نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں!

قہقہے گونج رہے ہیں یہاں کہرام کے ساتھ

پرورش پاتی ہے دامانِ رفاقت میں ریا

اہلِ عرفاں کی بسر ہوتی ہے اصنام کے ساتھ

کوہ و صحرا میں بہت خوار لئے پھرتی ہے

کامیابی کی تمنا دلِ ناکام کے ساتھ

یاس آئینہ ء امید میں نقاشِ الم

پختہ کاری کا تعلق ہوسِ خام کے ساتھ

سلسلہ تونگر کے شبستاں میں چراغانِ بہشت

وعدہ ء خلدِ بریں کشتۂ آلام کے ساتھ

نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہو گا

حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا

نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر

نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہو گا

نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے

میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہو گا

غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آسان

مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہو گا

شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو!

خزاں سرشتِ بہار آ گئی تو کیا ہو گا

یہ فکر کر کے اس آسودگی کے ڈھوک میں

تیری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہوگا

خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر

جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہو گا






وُہ

وہ علم میں جس کے اول سے ہر رازِ نہانِ ہستی ہے

وہ جس کے اشاروں پر رقصاں عالم کی بلندی پستی ہے

وہ جس کی نظر کے تاروں سے وحشی کا گریباں سلتا ہے

وہ جس کے تجلی خانے سے خورشید کو جلوہ ملتا ہے

وہ جس کا وظیفہ کرتے ہیں کُہسار کے بیخود نظارے

وہ جس کی لگن میں تر رہتے ہیں اہلِ صفا کے رخسارے

وہ جس کی نگاہیں رہتی ہیں ہریالی کی رکھوالی پر

وہ جس کی ثنائیں ہوتی ہیں گلزار میں ڈالی ڈالی پر

وہ جس کی رحمت کے نغمے گاتی ہے ہوا برساتوں میں

وہ جس کی یاد ستاتی ہے سردی کی سُہانی راتوں میں

وہ دل میں جس کی الفت سے اک نور سا لہرا جاتا ہے

جب باغ کی لرزاں شاخوں میں مہتاب جبیں چمکاتا ہے

وہ نام سے جس کے، چشموں میں تمہیدِ ترنم ہوتی ہے

وہ جس کے شگوفہ زاروں میں تقلیدِ تبسم ہوتی ہے

وہ جس نے ہمیشہ روندا ہے اُمید کی رخشاں بستی کو

جو راہِ فنا پر لاتا ہے پابند قیودِ ہستی کو

وہ جس کی خموشی راتوں کو چھاتی ہے کشادہ گلیوں میں

وہ جس کے تبسم بستے ہیں گلزار کی کمسن کلیوں میں

وہ جس کو سارے عالم میں محبوب شبیہِ انساں ہے

لاریب اُسی کا بندہ ہوں احسان مرا یہ ایماں ہے

سب کو ادراکِ زیاں گِر کے سنبھلنے سے ہُوا

مجھ کو احساس ترے در سے نکلنے سے ہُوا

کوئی زنجیر کا حلقہ نہیں دیتا جھنکار

حال زنداں کا یہ اک میرے نکلنے سے ہُوا

کوئی رازِ دل ِ کہسار نہ کھِلنے پایا!

روز اعلان تو چشموں کے اُبلنے سے ہُوا

یہ مری فکر کہ آنکھوں کی خطا کہتا ہوں

گرچہ زخمی مرا سر پاؤں پھسلنے سے ہُوا

میں کہ معلوم مجھے اپنی حقیقت نہ مقام

تُو کہ مقصود مرا روپ بدلنے سے ہُوا

گُدگُدایا مجھے سورج نے تو پلکیں جھپکیں

شور دریا میں مری برف پگھلنے سے ہُوا

لوگ اُن کو مرے حالات بتا دیتے ہیں

فائدہ خاک مجھے نام بدلنے سے ہُوا

ٹھوکریں لگتی ہیں ہمسایوں کو اس کُوچے سے

یہ اندھیرا تری قندیل نہ جلنے سے ہُوا

اپنا سر پھوڑ، زمانے کی تباہی پہ نہ رو

جو ہُوا خون کی تاثیر بدلنے سے ہُوا

ہے تری ذات سے مشتق مرے لوہے کا مزاج

میں تو کندن ہی تری آگ میں جلنے سے ہُوا

میرے قدموں سے تعارف نہیں کرتی راہیں

یہ خسارہ بھی مرے ساتھ نہ چلنے سے ہُوا

میں تھا ڈُوبا ہُوا دہکی ہُوئی تاریکی میں

میرا آغازِ سفر چاند نکلنے سے ہُوا

آنا جانا بھی غنیمت ہے وہاں اے دانش

میں جو بیمار ہُوا گھر میں ٹہلنے سے ہُوا

وعدہ نہ سہی یونہی چلے آؤ کسی دن

گیسو مرے دالان میں لہراؤ کسی دن

سن سن کے حریفوں کے تراشے ہوئے الزام

معیارِ حریفاں پہ نہ آ جاؤ کسی دن

یارو! مجھے منظور ، تغافل بھی جفا بھی

لیکن کوئی اس کو تو منا لاؤ کسی دن

کیوں ہم کو سمجھتا ہے وہ دو قالب و یکجاں

خوش فہم زمانے کو تو سمجھاؤ کسی دن

گتھی طلب و ترک کی کھلتی ہی رہے گی

اس عقدۂ ہستی کو تو سلجھاؤ کسی دن

کچھ سوچ کے آپس کی شکایت کو بڑھاؤ

دنیا میں اکیلے ہی نہ رہ جاؤ کسی دن

بیکار پڑے ہیں نگہِ شوق کے بجرے

اس بحر میں طوفان بھی لاؤ کسی دن

ہیں جبکہ مہ و مہرِضیا خواہ تمہیں سے

لو میرے دئیے کی بھی تو اکساؤ کسی دن

یہ خشک جزیرے کہیں پتھر ہی نہ بن جائیں

آنکھیں جو عطا کی ہیں نظر آؤ کسی دن

یہ زخمِ طلب ، کاوشِ ناخن پہ نہ آ جائے

اس گھاؤ کو مرہم سے بھی سلگاؤ کسی دن

دانش ہی کے اشعار ہیں دانش ہی کے افکار

ایسا نہ ہو دانش ہی کے ہو جاؤ کسی دن

جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا

شروع عشق ہے وہ فطرتاً چھپائے گا

دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن

اس آگ کو نہ تیرا پیرہن چھپائے گا

ترا علاج شفاگاہ عصر نو میں نہیں

خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا

حصار ضبط ہے ابر رواں کی پرچھائیں

ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا

نظر کا فرد عمل سے ہے سلسلہ درکار

یقیں نہ کر ، یہ سیاہی کفن چھپائے گا

کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن

جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا

ترا غبار زمیں پر اترنے والا ہے

کہاں تک اب یہ بگولا تھکن چھپائے گا

یوں اس پہ مری عرض تمنا کا اثر تھا

جیسے کوئی سورج کی تپش میں گل تر تھا

اٹھتی تھیں دریچوں میں ہماری بھی نگاہیں

اپنا بھی کبھی شہر نگاراں میں گزر تھا

ہم جس کے تغافل کی شکایت کو گئے تھے

آنکھ اس نے اٹھائی تو جہاں زیر و زبر تھا

شانوں پہ کبھی تھے ترے بھیگے ہوئے رخسار

آنکھوں پہ کبھی میری ترا دامن تر تھا

خوشبو سے معطر ہے ابھی تک وہ گزرگاہ

صدیوں سے یہاں جیسے بہاروں کا نگر تھا

ہے ان کے سراپا کی طرح خوش قد و خوش رنگ

وہ سرو کا پودا جو سر راہ گزر تھا

قطرے کی ترائی میں تھے طوفاں کے نشیمن

ذرے کے احاطے میں بگولوں کا بھنور تھا

کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں

مرے بہے ہوئے آنسو جبیں پہ لائے ہیں

نہ سر گزشت سفر پوچھ مختصر یہ ہے

کہ اپنے نقش قدم ہم نے خود مٹائے ہیں

نظر نہ توڑ سکی آنسوؤں کی چلمن کو

وہ روز اگرچہ مرے آئینے میں آئے ہیں

اس ایک شمع سے اترے ہیں بام و در کے لباس

اس ایک لو نے بڑے " پھول بن " جلائے ہیں

یہ دوپہر ، یہ زمیں پر لپا ہوا سورج

کہیں درخت نہ دیوارو در کے سائے ہیں

کلی کلی میں ہے دھرتی کے دودھ کی خوشبو

تمام پھول اسی ایک ماں کے جائے ہیں

نظر خلاؤں پہ اور انتظار بے وعدہ

بہ ایں عمل بھی وہ آنکھوں میں جھلملائے ہیں

رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں

صورت آئینہ مرہون تماشا ہم بھی ہیں

حال و مستقبل کا کیا ہم کو سبق دیتے ہیں

اس قدر تو واقف امروز و فردا ہم بھی ہیں

با دل نا خواستہ ہنستے ہیں دنیا کے لیے

ورنہ یہ سچ ہے ......پشیماں ہم بھی ہیں

کچھ سفینے ہیں کہ طوفاں سے ہے جن کی ساز باز

دیکھنے والوں میں اک بیرون دریا ہم بھی ہیں

دیکھنا ہے تو دیکھ لو اٹھتی ہوئی محفل کا رنگ

صبح کے بجھتے چراغوں کا سنبھالا ہم بھی ہیں

کاغذی ملبوس میں ابھری ہے ہر شکل حیات

ریت کی چادر پہ اک نقش کف پا ہم بھی ہیں

جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں آثار قدیم

پی گئیں جس کو گزر گاہیں وہ دریا ہم بھی ہیں

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر

تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

موسم ہے سرد مہر ، لہو ہے جماؤ پر

چوپال چپ ہے ، بھیڑ لگی ہے الاؤ پر

سب چاندنی سے خوش ہیں ، کسی کو خبر نہیں

پھاہا ہے مہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر

اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں

جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر

سورج کے سامنے ہیں نئے دن کے مرحلے

اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر

گلدان پر ہے نرم سویرے کی زرد دھوپ

حلقہ بنا ہے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر

یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے

بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


3.7 "3"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔