02:50    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ فرات آنکھوں میں

1847 0 0 00




عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں

عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں

سسکتی پیاس لبوں پر فرات آنکھوں میں

پھر اس کو دامنِ دِل میں کہاں کہاں رکھیں

سمیٹ سکتے ہیں جو کائنات آنکھوں میں

تمہیں تو گردشِ دوراں نے روند ڈالا ہے

رہی نہ کوئی بھی پہلی سی بات آنکھوں میں

قطار وار ستاروں کی جگمگاہٹ سے

سجا کے لائے ہیں غم کی برات آنکھوں میں

وہ بے وفا کبھی اتنا بھی کب تھا بے گانہ

نہ بے رُخی، نہ کوئی التفات آنکھوں میں

بکھر گئے ہیں مِلن کے تمام دن حیدر

ٹھہر گئی ہے جدائی کی رات آنکھوں میں

٭٭٭






لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں

لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں

سارے منظر آئنوں سے خود مٹا کر آئے ہیں

ایک لمحے میں کئی برسوں کے ناطے توڑ کر

سوچتے ہیں ، اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں

راستے تو کھو چکے تھے اپنی ہر پہچان تک

ہم جنازے منزلوں کے خود اُٹھا کر آئے ہیں

سارے رشتے جھوٹ ہیں ، سارے تعلق پُر فریب

پھر بھی سب قائم رہیں یہ بد دعا کر ائے ہیں

ہر چھلکتے اشک میں تصویر جھلکے گی تِری

نقش پانی پر تِرا اَن مِٹ بنا کر آئے ہیں

موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب

زندگی! جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں

سارے شکوے بھول کر آؤ ملیں حیدر اُنھیں

وہ گئے لمحوں کو پھر واپس بُلا کر آئے ہیں

٭٭٭






مِرے بدن پہ ترے وصل کے گلاب لگے

مِرے بدن پہ ترے وصل کے گلاب لگے

یہ میری آنکھوں میں ، کس رُت میں کیسے خواب لگے

نہ پُورا سوچ سکوں ، چھو سکوں ، نہ پڑھ پاؤں

کبھی وہ چاند، کبھی گُل، کبھی کتاب لگے

نہیں ملا تھا تو برسوں گزر گئے یوں ہی

پر اب تو اس کے بِنا ہر گھڑی عذاب لگے

تمہارے ملنے کا مل کر بھی کب یقیں آیا

یہ سلسلہ ہی محبت کا اک سراب لگے

یہ میرے جسم پہ کیسا خمار چھایا ہے

تمہارے جسم میں شامل مجھے شراب لگے

ہمیں تو اچھا ہی لگتا رہے گا وہ حیدر

بلا سے ہم اُسے اچھے لگے، خراب لگے

٭٭٭






کچھ کہہ رہی ہے پھر مِری افسردگی مجھے

کچھ کہہ رہی ہے پھر مِری افسردگی مجھے

شاید کسی کی یاد نے چھیڑا ابھی مجھے

میں منزلوں کی کھوج میں خود سے بچھڑ گیا

پھر عُمر بھر تلاش ہی اپنی رہی مجھے

انجانے راستے سبھی جانے ہوئے لگے

لگتی تھی اجنبی مِری آوارگی مجھے

وسعت میں لامکان کی اب کھو چکا ہوں میں

کس نے فصیلِ وقت سے آواز دی مجھے

مرجھا چکے ہیں پھول تری یاد کے مگر

محسوس ہو رہی ہے عجب تازگی مجھے

دیکھا خلوص موت کا تو یاد آگیا

کتنے فریب دیتی رہی زندگی مجھے

٭٭٭






پیاسے سمندروں کی طرح تَیرتے رہے

پیاسے سمندروں کی طرح تَیرتے رہے

اپنے مقدّروں کا لکھا سوچتے رہے

شب بھر اُتارتے رہے پلکوں پہ چاندنی

تم بوند بوند روشنی میں ڈوبتے رہے

جاگے ہیں میرے ذہن میں جب بھی ترے خیال

خوابوں کے شہر بنتے رہے، ٹوٹتے رہے

خاموشیوں کے لب پہ کوئی گیت تھا رواں

گہری اداسیوں کے کنول جھومتے رہے

رقصاں تھی اِس طرح تری یادوں کی آبشار

کہسار دل کے، جھانجھروں سے گونجتے رہے

تھی کتنے موسموں کی مہک اُس کے جسم میں

سانسوں کی تیز آنچ میں ہم بھیگتے رہے

٭٭٭






خلاف دنیا کی کیا کیا گواہیاں نہ گئیں

خلاف دنیا کی کیا کیا گواہیاں نہ گئیں

گناہِ عشق کی پر بے گناہیاں نہ گئیں

فقیر بن گئے تیری محبتوں کے اسیر

مگر مزاج کی وہ بادشاہیاں نہ گئیں

دُکھوں کے داغوں کے کتنے چراغ روشن ہیں

مِرے نصیب کی لیکن سیاہیاں نہ گئیں

بہاریں لاکھ سجاتی رہیں ، مگر دل سے

تمہارے پیار کی ڈھائی تباہیاں نہ گئیں

مِرے ہی خواب کنوارے نہیں رہے اب تو

کہ آرزوئیں تری بھی بیاہیاں نہ گئیں

تمہیں نے تھوڑا سا خود کو جھکا لیا ہوتا

چلو ہماری اگر کج کلاہیاں نہ گئیں

کسی پہ اب کوئی الزام کیا دھریں حیدر

محبتیں تو ہمیں سے نباہیاں نہ گئیں

٭٭٭






اِس طرح شہرِ اَنا پر میں تباہی مانگوں

اِس طرح شہرِ اَنا پر میں تباہی مانگوں

اپنے ’’ہونے‘‘ سے ’’نہ ہونے‘‘ کی گواہی مانگوں

اُس کے ہونٹوں پہ میں پھر مہکوں تمنا بن کر

پھر وہ چاہت جو کبھی اُس نے تھی چاہی مانگوں

یہ تو ہو گا کہ میں بھڑکوں گا یا بجھ جاؤں گا

یوں سلگنے سے تو بہتر ہے ہوا ہی مانگوں

اُس کو پانے کی تمنا پہ یقیں کب ہے، مگر

ہاتھ جب اُٹھ ہی گئے ہیں تو دعا ہی مانگوں

اپنی کچھ نیکیاں لکھنے کے لئے بھی حیدر

اپنے نا کردہ گناہوں سے سیاہی مانگوں

٭٭٭






روشنی روشنی سی ہر سُو ہے

روشنی روشنی سی ہر سُو ہے

یہ ترا دھیان ہے کہ خود تُو ہے

جب تلک دیکھوں اک گلاب ہے وہ

اور چھونے لگوں تو خوشبو ہے

ہاتھ آتی نہیں دھنک جیسے

وہ بھی رنگوں کا ایک جادُو ہے

اُس نے پتھرا دیا مجھے حیدر

دیکھنے میں جو آئینہ رو ہے

٭٭٭






کسی بھی لفظ کا جادو اَثر نہیں کرتا

کسی بھی لفظ کا جادو اَثر نہیں کرتا

وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا

بنا ہوا ہے بظاہر وہ بے تعلق بھی

جو مجھ کو سوچے بِنا دن بسر نہیں کرتا

ٹھہرنے بھی نہیں دیتا ہے اپنے دل میں مجھے

محبّتیں بھی مِری دل بدر نہیں کرتا

لبوں میں جس کے محبت کا اسمِ اعظم ہے

نجانے پیار کو وہ کیوں اَمر نہیں کرتا

نہیں بساتا جو آ کر بھی شہرِ دل میرا

یہاں سے جا کے بھی اِس کو کھنڈر نہیں کرتا

اُدھر کی مجھ سے چھپاتا نہیں ہے بات کوئی

وہ میری باتیں کبھی بھی اُدھر نہیں کرتا

عجیب طور طریقے ہیں اُس کے بھی حیدر

وہ مجھ سے پیار تو کرتا ہے، پر نہیں کرتا

٭٭٭






خود اپنے ہونٹوں پہ صدیوں کی پیاس رکھتا ہے

خود اپنے ہونٹوں پہ صدیوں کی پیاس رکھتا ہے

وہ ایک شخص جو مجھ کو اُداس رکھتا ہے

نہیں وہ رنگ پہ رنگوں سا عکس ہے اُس کا

نہیں وہ پھول پہ پھولوں سی باس رکھتا ہے

یہ اور بات کہ اِقرار کر نہیں پاتا

مگر وہ دل تو محبت شناس رکھتا ہے

نہیں ہے کوئی بھی اُمید جس کے آنے کی

دل اُس کے آنے کے سو سو قیاس رکھتا ہے

جو تجھ کو ملنے سے پہلے بچھڑ گیا حیدر

تُو کس طرح اُسے پانے کی آس رکھتا ہے

٭٭٭






اداس لمحوں کے ہونٹوں میں تازگی بھر دو

اداس لمحوں کے ہونٹوں میں تازگی بھر دو

بجھے ہوئے مِرے چہرے میں روشنی بھر دو

میں اپنے ’’ہونے‘‘ کے احساس سے ہراساں ہوں

مِرے شعور میں کچھ کیفِ بے خودی بھر دو

کنواری رات کے سینے سے کھینچ کر آنچل

اُفق کی زردیوں میں حُسنِ تِیرگی بھر دو

وہ جب خلوص کی قیمت چُکانے آیا ہے

تو میرے ذہن میں بھی رنگِ تاجری بھر دو

چلو پھر آنکھیں کرو چار موت سے حیدر

پھر آج موت کی آنکھوں میں زندگی بھر دو

إ

٭٭٭






دلوں میں دشمنوں کے اِس طرح ڈر بول اُٹھتے ہیں

دلوں میں دشمنوں کے اِس طرح ڈر بول اُٹھتے ہیں

گواہی کو چھپاتے ہیں تو منظر بول اُٹھتے ہیں

مِری سچائی، میری بے گناہی سب پہ ظاہر ہے

کہ اب جنگل، کنویں ، صحرا، سمندر بول اُٹھتے ہیں

وہ پتھر دل سہی لیکن ہمارا بھی یہ دعویٰ ہے

ہمارے لب جنھیں چھو لیں وہ پتھر بول اٹھتے ہیں

بدل جاتے ہیں اک لمحے میں ہی تاریخ کے دھارے

کبھی جو موج میں آ کر قلندر بول اٹھتے ہیں

یہ کیا جادو ہے وہ جب بھی مِرے ملنے کو آتا ہے

خوشی سے گھر کے سب دیوار اور دَر بول اٹھتے ہیں

زُبانِ حق کسی کے جبر سے بھی رُک نہیں سکتی

کہ نیزے کی اَنی پر بھی ٹنگے سر بول اٹھتے ہیں

لبوں کی قید سے کیا فرق آیا دل کی باتوں میں

کہ سارے لفظ آنکھوں سے اُبھر کر بول اٹھتے ہیں

عجب اہلِ ستم، اہلِ وفا میں ٹھَن گئی حیدر

ستم کرتے ہیں وہ اور یہ ’’مکرّر‘‘ بول اٹھتے ہیں

٭٭٭






بہت چالاک ہوتے جا رہے ہو

بہت چالاک ہوتے جا رہے ہو

بڑے بے باک ہوتے جا رہے ہو

تجاوز مت کرو حدّ گماں سے

یقیں ، ادراک ہوتے جا رہے ہو

دلوں کا خون کرنے لگ گئے ہو

بڑے سفّاک ہوتے جا رہے ہو

کہاں ہے وہ تمہاری خوش لباسی

گریباں چاک ہوتے جا رہے ہو

دُکھوں کی آگ میں جلتے رہو، اور

سمجھ لو پاک ہوتے جا رہے ہو

نہ آندھی ہے نہ کوئی سیل پھر بھی

خس و خاشاک ہوتے جا رہے ہو

کبھی تم چاند سے بڑھ کر تھے حیدر

مگر اب خاک ہوتے جا رہے ہو

٭٭٭






جب تِیر چل گیا تو کماں بھی نہیں رہی

جب تِیر چل گیا تو کماں بھی نہیں رہی

لگتا تھا جیسے جسم میں جاں بھی نہیں رہی

سارے حَسِین بیچتے پھرتے ہیں شہر میں

جنسِ وفا اب ایسی گراں بھی نہیں رہی

وہ مسکرا کے پوچھتے تھے مدعائے دل

اور اپنے منہ میں جیسے زباں بھی نہیں رہی

خواہش وصالِ یار کی زندہ ہے آج بھی

لیکن یہ پہلے جیسی جواں بھی نہیں رہی

اُس سے بچھڑ کے آئینہ دیکھا تو یوں لگا

ہاتھوں میں اپنے عمرِ رواں بھی نہیں رہی

شہرِ ستمگراں میں پنہ ڈھونڈئیے کہیں

شہرِ اماں میں جائے اماں بھی نہیں رہی

اُس کے لبوں پہ میری محبت کے واسطے

اِنکار بھی نہیں تھا تو ہاں بھی نہیں رہی

رسمِ وفا تو اگلے زمانوں کی بات ہے

اب اپنے بیچ رسمِ جہاں بھی نہیں رہی

حیدر اب اپنی عادتیں ، اَطوار ٹھیک کر

ابا بھی چل بسے، تری ماں بھی نہیں رہی

٭٭٭






فاصلہ سا کچھ ہمارے درمیاں ہونے کو ہے

فاصلہ سا کچھ ہمارے درمیاں ہونے کو ہے

یعنی تھوڑا فائدہ، تھوڑا زیاں ہونے کو ہے

آج کل اُس کی ہوائیں اور فضائیں اور ہیں

ایسے لگتا ہے کہ دھرتی آسماں ہونے کو ہے

خود کو کیا سمجھاؤں اور لوگوں سے کیا بحثیں کروں

خود دلِ خوش فہم تجھ سے بدگماں ہونے کو ہے

کاروبارِ عشق سے مل جائیں گی پھر فرصتیں

چند برسوں تک مِرا بیٹا جواں ہونے کو ہے

دل ہی جب اُس شوخ کی چاہت سے اپنا بھر گیا

اب یہ سنتے ہیں وہ ہم پر مہرباں ہونے کو ہے

آتے آتے عقل بھی آخر ہمیں آنے لگی

ذہن و دل سے حُسن کا جادو دھُواں ہونے کو ہے

بیٹھے بیٹھے ہی جو اتنے شعر حیدر ہو گئے

اس کا مطلب ہے، طبیعت پھر رواں ہونے کو ہے

٭٭٭






جہاں بھر میں ہمارے عشق کی تشہیر ہو جائے

جہاں بھر میں ہمارے عشق کی تشہیر ہو جائے

اُسے کس نے کہا تھا دل پہ یوں تحریر ہو جائے

میں سچا ہوں تو پھر آئے مِری تقدیر ہو جائے

میں جھوٹا ہوں تو میرے جرم کی تعزیر ہو جائے

میں اپنے خواب سے کہتا ہوں آنکھوں سے نکل آئے

ذرا آگے بڑھے اور خواب سے تعبیر ہو جائے

زباں ایسی کہ ہر اک لفظ مرہم سا لگے اُس کا

نظر ایسی کہ اُٹھتے ہی دلوں میں تِیر ہو جائے

وہ ہر پَل جس میں اپنے پیار کی یادیں دھڑکتی ہیں

مِری جاگیر ہو جائے، تجھے زنجیر ہو جائے

سبب کچھ تو رہا ہو گا ترے حیدر کی حالت کا

کبھی جو بے سبب ہنس دے، کبھی دلگیر ہو جائے

٭٭٭






اب کے جدائیوں میں بھی رنگِ وصال ہے

اب کے جدائیوں میں بھی رنگِ وصال ہے

بے دَم ہوں میں اِدھر تو اُدھر وہ نڈھال ہے

ہم تو سمجھ رہے تھے کہ وقتی اُبال ہے

اب ماننا پڑا کہ محبت وبال ہے

خاموش کب ہے، دل تو سراپا سوال ہے

اور پھر سوال بھی بڑا مشکل، محال ہے

وہ چاند وہ گلاب، وہ پتھر، وہ آگ بھی

جیسی مثال دیجئے برحق مثال ہے

اُس کی محبتوں کا بھرم کب کا کھل چکا

لیکن یہ دل کہ پھر بھی بڑا خوش خیال ہے

اک سال اُس کو بھولنے میں لگ ہی جائے گا

پر یہ بھی سوچ لو کہ ابھی پورا سال ہے






اب حمد و نعت لکھ کے کماؤں گا کچھ ثواب

اب حمد و نعت لکھ کے کماؤں گا کچھ ثواب

وہ کھو گیا جو میری غزل کا غزال ہے

تجھ کو جدائیوں کے کڑے تجربے سہی

لیکن بچھڑ کے مجھ سے کہو کیسا حال ہے

شک ہو رہا ہے مجھ کو میں مر تو نہیں گیا

دل کو کوئی خوشی ہے نہ کوئی ملال ہے

بے خانماں یہ شخص کہ حیدر ہے جس کا نام

اے ارضِ پاک دیکھ لے تیرا ہی لال ہے

٭٭٭






خود اپنے حُسن کے نشے میں چُور لگتا ہے

خود اپنے حُسن کے نشے میں چُور لگتا ہے

جو سر سے پاؤں تلک رنگ و نُور لگتا ہے

اُتر رہے ہیں عجب قہر فاصلے اب کے

وہ پاس آئے تو کچھ اور دُور لگتا ہے

اگرچہ رشتہ بھی اُس سے کوئی نہیں لیکن

وہ کچھ نہ کچھ تو ہمارا ضرور لگتا ہے

یہ عشق وِشق، یہ ساری محبتیں حیدر

مجھے تو سب تِرے دل کا فتور لگتا ہے

٭٭٭






یہ گفتگو نہ کرو اب کہانیوں کی طرح

یہ گفتگو نہ کرو اب کہانیوں کی طرح

اگر ہے پیار تو کھُل جاؤ جانیوں کی طرح

حقیقتوں کے سرابوں میں کھو چلا ہوں میں

یقیں دلاؤ مجھے بد گمانیوں کی طرح

نجانے کب کوئی آ کر بجھائے پیاس مری

میں کتنی صدیوں سے پیاسا ہوں پانیوں کی طرح

اب اعتبار کرو میرے سبز باغوں کا

کہ یہ بھی سچے ہیں اٹھتی جوانیوں کی طرح

عبث ہے اب تو تلاش اور جستجو حیدر

وہ کھو چکے ہیں وفا کی نشانیوں کی طرح

٭٭٭






مجھ سے تیری یاد کے سائے بھی کترانے لگے

مجھ سے تیری یاد کے سائے بھی کترانے لگے

پھول تیری چاہتوں کے اب تو مُرجھانے لگے

لمحہ لمحہ ٹوٹ کر خود سے بچھڑتا ہی رہے

یوں نہ ہو تو وقت کا پھر سانس رُک جانے لگے

انتہائے اجنبیت میں وہ آیا ہے مقام

اجنبی سارے کے سارے جانے پہچانے لگے

سوچ کے پھیلے ہوئے صحرا میں تنہا دیکھ کر

پھر سرابوں کے حقائق مجھ کو بہکانے لگے

کس کی سازش تھی کہ سائے رُخ بدلنے لگ گئے

ہم جہاں بھی چند گھڑیاں رُک کے سستانے لگے

٭٭٭






لے نہ ڈوبے خواہشوں کا یہ تلاطم دیکھنا

لے نہ ڈوبے خواہشوں کا یہ تلاطم دیکھنا

ہو نہ جانا خود بھی اِس طوفان میں گم دیکھنا

اُس سے آنکھیں چار کرنے کا کہاں ہے حوصلہ

جب وہ اپنے دھیان میں ہو تب اُسے تم دیکھنا

ساعتِ اظہار سے اقرار کے لمحے تلک

لفظ معنی ہی نہ کر بیٹھیں کہیں گم دیکھنا

ساری گھڑیاں اِس ملن رُت کی گزر بھی جائیں گی

اور تُو بیٹھا رہے گا یوں ہی گم صم دیکھنا

اُس کی خاطر ہی سہی حیدر ذرا محتاط ہو

ورنہ پڑ جائے گی تیرے عشق کی دھُم دیکھنا

٭٭٭






اگر ہم پر عنایت ہی، نہ کچھ ا کرام ہونا تھا

اگر ہم پر عنایت ہی، نہ کچھ ا کرام ہونا تھا

ترے قہر و غضب ہی کا کوئی انعام ہونا تھا

تمہارا عشق بھی ہم سے ادھورا رہ گیا جاناں

جہاں میں ہم سے حالانکہ یہی اک کام ہونا تھا

ہرا سکتا نہ تھا ویسے تو کوئی بھی مگر مجھ کو

کسی کی کامیابی کے لئے ناکام ہونا تھا

مشینوں کے اس عہدِ ناروا کا میں ہی یوسف ہوں

مجھے اس نوکری کی شکل میں نیلام ہونا تھا

کسی کا جھوٹ جب اِس عہد کی سچائی کہلایا

ہمارا سچ تو خود ہی موردِ الزام ہونا تھا

دلوں کے کھیل میں پانسا پلٹ کر رہ گیا کیسے

ہمیں بے نام ہونا تھا کسی کا نام ہونا تھا

جو اُس کے وصل کے حقدار ٹھہرے اور تھے حیدر

ہمیں تو صرف اُس کے عشق میں بدنام ہونا تھا

٭٭٭






تمہارے عشق میں کس کس طرح خراب ہوئے

تمہارے عشق میں کس کس طرح خراب ہوئے

رہا نہ عالمِ ہجراں ، نہ وصل یاب ہوئے

بس اتنی بات تھی دو دل کبھی نہ مل پائیں

کہیں پہ پتتے ہوئے تھل، کہیں چناب ہوئے

عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف

نہ مسترد ہوئے اب تک، نہ مستجاب ہوئے

ذہانتیں تھیں تری یا اناڑی پن اپنا

سوالِ وصل سے پہلے ہی لاجواب ہوئے

حقیقت اتنی ہے اُس کے مِرے تعلق کی

کسی کے دکھ تھے مِرے نام انتساب ہوئے

جسے سمجھتے تھے صحرا وہ اک سمندر تھا

کھلا وہ شخص تو ہم کیسے آب آب ہوئے

نہ آیا ڈھنگ ہمیں کوئی عشق کا حیدر

نہ دل کے زخموں کے ہم سے کبھی حساب ہوئے

٭٭٭






وہ جو خوشبوؤں کا خرام ہے جو دھنک کا عکسِ جمیل ہے

وہ جو خوشبوؤں کا خرام ہے جو دھنک کا عکسِ جمیل ہے

مِرے اُس کے بیچ کوئی عجیب سے فاصلوں کی فصیل ہے

کئی خوش نظر سے گماں لیے، گئے ہم بھی کاسۂ جاں لیے

پڑا واسطہ تو پتہ چلا وہ سخی بھی کتنا بخیل ہے

سبھی استعارے، علامتیں بھی بجا ہیں اُس کے لئے مگر

وہ تو آپ اپنی مثال ہے، وہ تو آپ اپنی دلیل ہے

یہ محبتیں بھی ہیں روگ تو یہ اَنا بھی جیسے عذاب ہو

اُسے پوچھنے بھی نہ جا سکے جو کئی دنوں سے علیل ہے

کئی منظروں سے گزر رہا ہے تری طلب میں یہ دل مِرا

کبھی خواہشوں کا ہے دشت تو کبھی آرزوؤں کی جھیل ہے

مِرا طرزِ عشق بھی منفرد، ہے جنون بھی مِرا مختلف

نہ کسی کی مثل میں ہو سکا نہ ہی کوئی میرا مثیل ہے

یہ بجا کہ تم پہ ہوئے ستم، پر اَے میرے حیدرِ بے علَم

نہ کوئی تمہارا گواہ تھا نہ کوئی تمہارا وکیل ہے

٭٭٭






اندر کی دنیائیں مِلا کے ایک نگر ہو جائیں

اندر کی دنیائیں مِلا کے ایک نگر ہو جائیں

یا پھر آؤ مل کر ٹوٹیں اور کھنڈر ہو جائیں

ایک نماز پڑھیں یوں دونوں اور دعا یوں مانگیں

یا سجدے سے سر نہ اٹھیں یا لفظ اثر ہو جائیں

خیر اور شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں

بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جائیں

ہم ازلی آوارہ جن کا گھر ہی نہیں ہے کوئی

لیکن جن رستوں سے گزریں رستے گھر ہو جائیں

ایک گنہ جو فانی کر کے چھوڑ گیا دھرتی پر

وہی گنہ دوبارہ کر لیں اور اَمر ہو جائیں

صوفی، سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں

خود ہی اپنا رستہ، منزل اور سفر ہو جائیں

رزق کی تنگی، عشق کا روگ اور لوگ منافق سارے

آؤ ایسے شہر سے حیدر شہر بدر ہو جائیں

٭٭٭






تم نے کبھی زخموں کے نگینے نہیں دیکھے

تم نے کبھی زخموں کے نگینے نہیں دیکھے

عشاق کے دہکے ہوئے سینے نہیں دیکھے

لہروں سے پتہ پوچھتے پھرتے تھے بھنور کا

دریا نے کبھی ایسے سفینے نہیں دیکھے

اُس نے تو دکھائے تھے کئی خواب کے منظر

نادان تھے ہم آپ ہمی نے نہیں دیکھے

ہے ماہِ شبِ ہجر بھی وہ ماہِ وصالاں

یوں جمع کبھی دونوں مہینے نہیں دیکھے

الزام سبھی تیرے سجا لیتے ہیں خود پر

ہم جیسے زمانے نے کمینے نہیں دیکھے

وہ بھید، وہ اَسرار کھُلے مجھ پہ بدن کے

دنیا میں ابھی تک جو کسی نے نہیں دیکھے

کیا دامنِ دل بھرتا کہ حیدر کے جہاں پر

کشکول بھی آنکھوں کے سخی نے نہیں دیکھے

٭٭٭






سامنے ہے گھر مگر مفقود گھر کے راستے

سامنے ہے گھر مگر مفقود گھر کے راستے

کھو گئے آخر کہاں معبود گھر کے راستے

فاصلہ ہو دل میں تو ہیں دوریاں ہی دوریاں

دل کشادہ ہو تو ہیں محدود گھر کے راستے

دشتِ حیرت میں کھڑا ہوں چشمِ حیرت وا کیے

ہیں ابھی غائب، ابھی موجود گھر کے راستے

پھیلتی جاتی ہیں کیسی خوشبوئیں چاروں طرف

ہو گئے کس کے لئے مسجود گھر کے راستے

اُس نے آنا ہی نہیں تھا اِس محلے کی طرف

ہم سجاتے ہی رہے بے سود گھر کے راستے

ابرِ رحمت اب کے حیدر بن گیا جیسے عذاب

کر دیئے برسات نے مسدود گھر کے راستے

٭٭٭






بیتی یادیں پرو رہا تھا وہ

بیتی یادیں پرو رہا تھا وہ

لوگ کہتے ہیں رو رہا تھا وہ

اپنی آنکھوں کی چاندنی لے کر

میرے خوابوں میں سو رہا تھا وہ

اُگ رہا تھا درخت سورج کا

جب ستاروں کو بو رہا تھا وہ

میری آنکھوں کے خشک موسم کو

بارشوں سے بھگو رہا تھا وہ

شب گزیدہ جسے سمجھتے تھے

صبح کا چہرہ دھو رہا تھا وہ

ڈس گئے جب یقین کے آسیب

کتنا مشکوک ہو رہا تھا وہ

٭٭٭






پھر کوئی غم حَسِین ڈھونڈتا ہے

پھر کوئی غم حَسِین ڈھونڈتا ہے

دل نیا ہم نشین ڈھونڈتا ہے

اک فریبی کا شُوکتا سا پیار

رُوح کی آستین ڈھونڈتا ہے

عشق کا بھید پا سکا ہے کون

لامکاں کو مکین ڈھونڈتا ہے

ارضِ بصرہ تمہاری گلیوں میں

کعبہ کس کی جبین ڈھونڈتا ہے

حوصلہ دیکھ اک اسیرِ خاک

آسماں کی زمین ڈھونڈتا ہے

دل کو پھر ہو رہا ہے شوقِ گنہ

پھر بہشتِ برین ڈھونڈتا ہے

حیدر اپنے گلاب رکھتے ہوئے

کیا گُلِ یاسمین ڈھونڈتا ہے

٭٭٭






شہرِ غم کے امیر بھی ہم ہیں

شہرِ غم کے امیر بھی ہم ہیں

اور تیرے فقیر بھی ہم ہیں

سخت پتھر سہی تمہارا دل

لیکن اس پر لکیر بھی ہم ہیں

تیرا انکار بھی ہمِیں کو ہے

اور تیرے اَسیر بھی ہم ہیں

کل ہمیں خود عظیم مانے گا

آج بے شک حقیر بھی ہم ہیں

بھید اپنے فقط ہمِیں جانیں

اپنے منکر نکیر بھی ہم ہیں

جب سے حیدر ہوئے مرید ان کے

تب سے پِیروں کے پِیر بھی ہم ہیں

٭٭٭






ایک اَن دیکھے کی سوچوں میں گھرا رہتا ہوں میں

ایک اَن دیکھے کی سوچوں میں گھرا رہتا ہوں میں

اُس کی آنکھیں ، اُس کا چہرہ سوچتا رہتا ہوں میں

اُس کے ہونٹوں کا تبسم، اُس کے پیکر کی مہک

خود سے ہی کیا کیا نہ جانے پوچھتا رہتا ہوں میں

کر دیا ہے اُس نے کن خوش فہمیوں میں مبتلا

اُس کے خالی خط کے معنی ڈھونڈتا رہتا ہوں میں

وہ بھی اپنے آئینے میں دیکھتا ہو گا مجھے

جس کو اپنے آئینے میں دیکھتا رہتا ہوں میں

خواہشوں کی تتلیوں کے ساتھ اڑتا ہوں مگر

وسوسوں کے سامنے بے دست و پا رہتا ہوں میں

کون ہے جو رُوح میں میری سرایت کر گیا

رات دن کس کے خیالوں میں پڑا رہتا رہتا ہوں میں

دل کے دروازے پہ دستک دے کے چھپ جاتا ہے وہ

اور اپنے سامنے حیدر کھڑا رہتا ہوں میں

٭٭٭






عذاب فاصلوں کا قربتوں کے رستے میں

عذاب فاصلوں کا قربتوں کے رستے میں

یہ خواہشوں کے سفر خامشی کے سینے میں

میں دھُوپ بن کے جب آنگن میں اُس کے اُترا تھا

سمٹ گیا تھا وہ اپنی اَنا کے سائے میں

اُسے خبر ہی نہیں جس کی خوشبوؤں کے لئے

ٹھہر گئی تھیں کئی صدیاں ایک لمحے میں

کچھ ایسے آتے رہے اُس کے لمس کے جھونکے

دھنک اترتی گئی دل کے ذرّے ذرّے میں

وہ میرے خواب کوئی جوڑنے لگا حیدر

وہ روشنی کوئی چمکی مِرے اندھیرے میں

٭٭٭






نیکی کی راہ میں کوئی بدنام مرگیا

نیکی کی راہ میں کوئی بدنام مرگیا

قربِ خدا سے شاعرِ الہام مرگیا

دانائیوں کے زعم میں جاہل ہی وہ رہا

مشہور آدمی تھا سو بے نام مرگیا

اپنے لہو کی سُرخی اُفق پر اچھالتا

سورج کو کیا ہوا کہ سرِ شام مرگیا

اچھا ہوا کہ ہم سے محبت نہیں تمہیں

اچھا ہوا کہ دل کا یہ ابہام مرگیا

حیدر شرافتوں کا جو الزام ہم پہ تھا

لو آج اپنی موت یہ الزام مرگیا

٭٭٭






جو اپنی ذات میں سمٹا ہوا تھا

جو اپنی ذات میں سمٹا ہوا تھا

سمندر کی طرح پھیلا ہوا تھا

مِرے ہاتھوں میں ہی تھے چند پتھر

میں شیشے کی طرح ٹُوٹا ہوا تھا

ہوا شہکار جب اُس کا مکمل

وہ اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا

شبِ تنہائی میں اک شخص دل پر

اُجالے کی طرح بکھرا ہوا تھا

پتہ وہ دے رہا تھا منزلوں کا

جو خود ہی راہ سے بھٹکا ہوا تھا

بلاتا کس طرح پھر خود کو حیدر

میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا تھا

٭٭٭






نہ جانے کون سازشوں کا ہم شکار ہو گئے

نہ جانے کون سازشوں کا ہم شکار ہو گئے

کہ جتنے صاف دل تھے اُتنے داغ دار ہو گئے

بھرم بھی بے وفائی کا ہمِیں کو رکھنا پڑ گیا

تمام بے وفا ہی جب وفا شعار ہو گئے

ہماری نیک نامیوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا

کہ نیکیوں سے تھک کے ہم گناہ گار ہو گئے

کسی کے گاؤں جا کے دل میں آبلے سے پڑ گئے

گلاب جیسے لوگ تھے کہ خار خار ہو گئے

یہ سوچ لیجئے آئینہ ہے آئینے کے سامنے

جو ہم ہوئے تو آپ بھی بے اعتبار ہو گئے

خزاں کے سرد ہاتھ سے جنہیں بچا کے لائے تھے

بہار پر وہ بدنصیب پھول بار ہو گئے

کنارِ آب حیدر اپنا منہ لئے کھڑے رہے

گھڑے کے بدلے کار میں وہ پُل سے پار ہو گئے

٭٭٭






وہ پچھلی گھڑی شب کی، وہ خوف زدہ چہرہ

وہ پچھلی گھڑی شب کی، وہ خوف زدہ چہرہ

سو پایا نہ اک پَل بھی خوابوں سے ڈرا چہرہ

تسخیرِ خلا سے بھی مفہوم نہیں بدلا

پتھر ہے ترا دل تو، ہے چاند ترا چہرہ

یادوں کے جزیرے میں آیا تھا جو چپکے سے

اشکوں کے سمندر میں وہ ڈوب گیا چہرہ

بھولا ہی نہیں اب تک منظر وہ جدائی کا

وہ کھوئی ہوئی آنکھیں ، وہ اُترا ہوا چہرہ

کہلاتا تھا جو خود کو معبود اُجالوں کا

دن کا ہی اُجالا تھا جب اُس کا بجھا چہرہ

میں جھیل کنارے پر بیٹھا تھا اکیلا ہی

جب جھیل کے پانی میں دیکھا تھا ترا چہرہ

یہ شہر ہے یا کوئی اوہام نگر حیدر

ہر چہرہ یہاں پر ہے تشکیک زدہ چہرہ

٭٭٭






میرے اُس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا

میرے اُس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا

اُس کے طے کرنے کو بھی اک راستہ رکھا گیا

عکس کھو جائیں اگر ہلکا سا کنکر بھی گرے

پانیوں میں ایک ایسا آئینہ رکھا گیا

سب تقاضے ویسے پورے ہو گئے انصاف کے

بس فقط محفوظ میرا فیصلہ رکھا گیا

نارسائی کی اذیت ہی رہی اپنا نصیب

مل گئیں روحیں تو جسموں کو جدا رکھا گیا

بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اُس کی یاد کے

مجھ کو سوتے میں بھی حیدر جاگتا رکھا گیا

٭٭٭






مِری نیندیں بھی مہکانے لگے ہو

مِری نیندیں بھی مہکانے لگے ہو

کہ خوابوں میں بھی دَر آنے لگے ہو

خیالوں پر مِرے چھائے ہو جب سے

بہت ہی خود پہ اِترانے لگے ہو

وصال و ہجر یکجا کر دیا ہے

عجب اب کے ستم ڈھانے لگے ہو

ابھی آئی نہیں ملنے کی نوبت

ابھی سے ہی بچھڑ جانے لگے ہو

ذرا خوفِ خدا حیدر قریشی!

یہ کیسے شعر فرمانے لگے ہو

٭٭٭






وہ نفرتوں سے بھی دیکھے تو دل میں پیار اُگے

وہ نفرتوں سے بھی دیکھے تو دل میں پیار اُگے

ہر ایک دھوکے پہ دل میں اک اعتبار اُگے

فریبِ وعدۂ جاناں نے جب سے سینچا ہے

مِری نگاہوں میں گُل ہائے انتظار اُگے

شریک تھی یہ چمن کی ہوا بھی سازش میں

اِسی لئے تو یہاں نفرتوں کے خار اُگے

خزاں رسیدہ سہی پھر بھی میں اگر چاہوں

جہاں نگاہ کروں اک نئی بہار اُگے

کوئی مسیح یقیناً پھر آگیا حیدر

قدم قدم پہ جو پھر سے صلیب و دار اُگے

٭٭٭






رستے چلے گئے ہیں خرابوں کی جھیل میں

رستے چلے گئے ہیں خرابوں کی جھیل میں

ہم تشنہ لب ہی رہ گئے خوابوں کی جھیل میں

اک ایک لفظ ہو گیا ہو بانجھ جس طرح

سوکھے ہیں یوں معانی کتابوں کی جھیل میں

کترائے وہ کبھی تو کبھی میں جھجھک گیا

اک بھی کنول کھلا نہ حجابوں کی جھیل میں

اس زندگی کی ساری حقیقت ہے اک فریب

ہم تیرتے رہیں گے سرابوں کی جھیل میں

حیدر جب اس نے پلکیں اُٹھائیں تو یوں لگا

جیسے اتر گیا ہوں شرابوں کی جھیل میں

٭٭٭






جب آئے موسموں کی زد میں ساونوں کے بدن

جب آئے موسموں کی زد میں ساونوں کے بدن

ہوا میں بھیگ گئے ننگی بارشوں کے بدن

سُنائی دیتا ہے بہری سماعتوں کو شور

اُنہیں بُلاتے ہیں اَندھی بصارتوں کے بدن

عجیب حادثہ تھا آئینوں سے ٹکرا کر

خود اپنے خون میں ڈوبے تھے پتھروں کے بدن

ترے وصال کی یوں لذتیں اٹھاتا ہوں

کہ روز ملتے ہیں قدموں کی آہٹوں کے بدن

وہ سرد رات کی تنہائی اور یخ بستر

سلگ رہے تھے ہزاروں اداسیوں کے بدن

جو اپنی روح کے صحرا میں کھو گئے حیدر

وہ ڈھونڈ لیں گے خود اپنے سمندروں کے بدن

٭٭٭






کارِ جہاں بھی، عشق بھی کرنا نہ آ سکا

کارِ جہاں بھی، عشق بھی کرنا نہ آ سکا

جینے کا ڈھنگ کیا ہمیں مرنا نہ آ سکا

تیری لگن میں تجھ سے بھی آگے نکل گئے

تیرے مسافروں کو ٹھہرنا نہ آ سکا

ہم ایسے سخت جان تھے جو ٹوٹتے نہ تھے

کچھ ٹوٹ بھی گئے تو بکھرنا نہ آ سکا

بس مسکرا کے پیار سے انکار کر گئے

اچھی طرح سے اُن کو مکرنا نہ آ سکا

حیدر ہم ان کے دل سے اُتر آئے خود مگر

اُن کو ہمارے دل سے اُترنا نہ آ سکا

٭٭٭






آپ لوگوں کے کہے پر ہی اُکھڑ جاتے ہیں

آپ لوگوں کے کہے پر ہی اُکھڑ جاتے ہیں

لوگ تو جھوٹ بھی سو طرح کے گھڑ جاتے ہیں

آنکھ کس طرح کھلے میری کہ میں جانتا ہوں

آنکھ کھلتے ہی سبھی خواب اُجڑ جاتے ہیں

غم تمہارا نہیں جاناں ہمیں دُکھ اپنا ہے

تم بچھڑتے ہو تو ہم خود سے بچھڑ جاتے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ تقدیر اَٹل ہوتی ہے

ہم نے دیکھا ہے مقدر بھی بگڑ جاتے ہیں

وہ جو حیدر مِرے منکر تھے مِرے ذکر پہ اب

چونک اُٹھتے ہیں کسی سوچ میں پڑ جاتے ہیں

٭٭٭






لفظ اندھے ہو گئے، سوچوں کو پتھر کر گیا

لفظ اندھے ہو گئے، سوچوں کو پتھر کر گیا

ایک ہریالی کا پیکر دل کو بنجر کر گیا

چند لمحوں کے لئے ٹھہرا گھٹاؤں کی طرح

خالی آنکھوں کو مگر رنگوں کا منظر کر گیا

کون جانے اُس کی اپنی پیاس کا عالم ہو کیا

وہ جو میری رُوح کو پیاسا سمندر کر گیا

خود جہانِ شاعری کا تو خدا بے شک نہ تھا

شاعری کا وہ مگر مجھ کو قلندر کر گیا

یوں تو پہلے بھی وہ کرتا تھا اداس آ کر مگر

اب کے دل کی اور ہی حالت ستم گر کر گیا

خوشبوئیں اور دودھیا سی روشنی ہے چار سُو

کچھ کہو حیدر یہ جادو کون تم پر کر گیا

٭٭٭






قریب آ کے حَسِیں واہموں میں چھوڑ گیا

قریب آ کے حَسِیں واہموں میں چھوڑ گیا

عجیب عجیب سی خوش فہمیوں میں چھوڑ گیا

نظر سے دور ہے لیکن نظر میں ہے پھر بھی

کہ عکس اپنے مِرے آئنوں میں چھوڑ گیا

لکھی مسافتِ صحرائے آرزو جس نے

وہ میری آنکھوں کو کن پانیوں میں چھوڑ گیا

سماعتوں میں ابھی تک ہیں اُس کی چہکاریں

وہ ہم سفر جو مجھے راستوں میں چھوڑ گیا

وہ شہرِ خواب کا کوئی حَسیں مسافر تھا

جو عمر بھر کے لئے رَت جگوں میں چھوڑ گیا

قدم قدم پہ اُگائے بہار کے موسم

جو میرے دل کو خزاں موسموں میں چھوڑ گیا

ملا تھا گرچہ بچھڑنے کے واسطے حیدر

وہ قربتوں کی مہک فاصلوں میں چھوڑ گیا

٭٭٭






اب تو جذبے زبان مانگتے ہیں

اب تو جذبے زبان مانگتے ہیں

پَر بَریدہ اُڑان مانگتے ہیں

عشق کی پڑھنا چاہتے ہیں نماز

اور اِذنِ اذان مانگتے ہیں

دور سے صرف دیکھتے ہی رہیں

کب یہ ہفت آسمان مانگتے ہیں

ہم تہی دست آبروئے فقر

سود دے کر زیان مانگتے ہیں

دل کی اک بات کہنا ہے لیکن

پہلے جاں کی امان مانگتے ہیں

یا تو کچھ بھی نہیں ہیں مانگتے، یا

تیرے سارے جہان مانگتے ہیں

ایسی عمروں کے پیار تو حیدر

جسم و جاں سے لگان مانگتے ہیں

٭٭٭






اک یاد کا منظر سا خلاؤں پہ لکھا تھا

اک یاد کا منظر سا خلاؤں پہ لکھا تھا

جب ٹوٹتے تاروں سے کوئی جھانک رہا تھا

ہر چہرے پہ تھی ثبت شناسائی کی تحریر

میں اجنبی لوگوں کے قبیلے میں گھِرا تھا

خوابوں کے جزیرے سے بلاتا ہی رہا وہ

میں اپنے کنارے سے اُتر بھی نہ سکا تھا

اب وہ بھی مجھے شعبدے لفظوں کے دکھائے

وہ جو مِری خاموش محبت کی صدا تھا

جو بخش گیا صدیوں کی مہکی ہوئی سوچیں

اک لمحۂ گزراں یا کوئی موجِ ہوا تھا

تُو جس کے لئے خود کو بھلا بیٹھا تھا حیدر

کیا اُس نے بھی بھُولے سے تجھے یاد کیا تھا

٭٭٭






وہ دکھائیں نہ مجھے اپنی اداؤں کا فریب

وہ دکھائیں نہ مجھے اپنی اداؤں کا فریب

مجھ پہ ظاہر ہے سبھی اُن کی وفاؤں کا فریب

جیسے خاموشی چٹخنے کی صدا آئی ہو

یوں گرا ٹوٹ کے اِن زرد خزاؤں کا فریب

لُٹ گیا آج مِرے دیس کے سورج کا شباب

کھا گیا دھُوپ کو اِن کالی گھٹاؤں کا فریب

لَوٹ کر پھر مِری آواز نہ آئی حیدر

ڈوب کر رہ گیا صحرا میں صداؤں کا فریب

٭٭٭






پلکوں پہ تیری یاد کے منظر بکھر گئے

پلکوں پہ تیری یاد کے منظر بکھر گئے

جیسے ستارے سینۂ شب میں اُتر گئے

بے خواب راستوں میں کوئی پوچھتا پھرا

خوابوں کے شہر کے وہ مسافر کدھر گئے

ہم تشنگی میں ڈوبے ہوئے دیکھتے رہے

ٹھنڈی ہوا سے کھیلتے بادل گزر گئے

گھر تو ہے اپنا ایک سو ایسے بچھڑ لئے

تم اپنے گھر کو چل پڑے، ہم اپنے گھر گئے

ٹکرائے آئینوں سے جو پتھر پلٹ گئے

لیکن صداؤں کے جو جنازے ٹھہر گئے!

٭٭٭






خوشی حد سے زیادہ دے کے بھی برباد کرتا ہے

خوشی حد سے زیادہ دے کے بھی برباد کرتا ہے

انوکھے ہی ستم وہ صاحبِ ایجاد کرتا ہے

تماشہ سا تماشہ ہی بنا ڈالا مجھے اس نے

کبھی وہ قید کرتا ہے، کبھی آزاد کرتا ہے

عجب اب کے طلسمِ خامشی طاری کیا اُس نے

وہ جادوگر نہ کچھ سنتا نہ کچھ ارشاد کرتا ہے

سزا یوں مل رہی ہے مجھ کو میرے نیک عملوں کی

گنہ سب میرے حصے کے مِرا ہمزاد کرتا ہے

یہی وہ خانماں ویراں ہے جس کو عشق کہتے ہیں

دلوں میں بستیاں غم کی یہی آباد کرتا ہے

عجب بے کیف سی ہے زندگی پچھلے مہینے سے

نہ کوئی یاد آتا ہے نہ کوئی یاد کرتا ہے

ستم گر حوصلے کی داد تو دینے لگا حیدر

اگرچہ داد میں بھی وہ مجھے بے داد کرتا ہے

٭٭٭






یوں کسی کے ساتھ اپنا واسطہ رہ جائے گا

یوں کسی کے ساتھ اپنا واسطہ رہ جائے گا

وہ چلا جائے گا لیکن خواب سا رہ جائے گا

دُور تک گو دُوریوں کا سلسلہ رہ جائے گا

خط اگر لکھتے رہو گے رابطہ رہ جائے گا

فاصلوں کا اِس طرح نازل ہوا ہم پر عذاب

مل بھی جائیں گے تو کوئی فاصلہ رہ جائے گا

پاس آ کر پڑھ نہ پائے گا کتابِ دل کبھی

وہ تو بس شیلفوں سے مجھ کو جھانکتا رہ جائے گا

ق

میں تو اُس کو دیکھ کر رہ جاؤں گا حیرت زدہ

وہ بھی مجھ کو دیکھ کر کچھ سوچتا رہ جائے گا

گفتگو ہر چند ہو گی لمحۂ موجود کی

دل نہ جانے کن زمانوں میں گھرا رہ جائے گا

رُت بدل جائے گی اُس کے جگمگاتے جسم کی

میری رگ رگ میں مگر اک ذائقہ رہ جائے گا

٭٭٭






وجود میرا اگر اُس پہ منکشف ہو جائے

وجود میرا اگر اُس پہ منکشف ہو جائے

مجھے یقین ہے وہ خود سے منحرف ہو جائے

میں روشنی ہوں تو اُترا ہوں روح تک اُس کی

وہ آئنہ ہے تو پھر مجھ پہ منعطف ہو جائے

جو منہ سے بنتا ہے منکر مِرا اُسے کہہ دو

کہ حوصلہ ہے تو دل سے بھی منحرف ہو جائے

وہ یوں نہ ترکِ تعلق کا خط بھی لکھ پایا

کہ لکھتے وقت کہیں خط نہ مختلف ہو جائے

بھٹکتا پھرتا ہے پھر کیوں مِرے خیالوں میں

وہ خود پسند ہے تو خود میں معتکف ہو جائے

نہ اعتراف بھی حیدر کبھی کریں دونوں

اور اپنے پیار کی دنیا بھی معترف ہو جائے

٭٭٭






حدیثِ درد کی پہلے کوئی کتاب لکھو

حدیثِ درد کی پہلے کوئی کتاب لکھو

پھر اہلِ جَور کے نام اُس کا انتساب لکھو

خوشی کے لمحے لکھو، عمرِ اضطراب لکھو

نکالو وقت کبھی عشق کا حساب لکھو

تمہارے خواب کی تعبیر اب پرائی سہی

تمہارا خواب تو اپنا ہے اپنا خواب لکھو

فقیہِ شہر کی باتوں کا احترام کرو

چمن کو دشت کہو، دشت کو چناب لکھو

زیادتی کی کوئی حد نہیں رہی حیدر

اب اُس کے جھوٹ کا آخر کوئی جواب لکھو

٭٭٭






ترے چمن میں جو کانٹا بنے نہ پھول ہوئے

ترے چمن میں جو کانٹا بنے نہ پھول ہوئے

وہ بارگاہِ بہاراں میں سب قبول ہوئے

اک اعتدال رہا عمر بھر عزیز ہمیں

نہ بے اصول بنے ہم، نہ با اصول ہوئے

کبھی تو مانگ کا سیندور بن ہی جائیں گے

اِس ایک آس پہ قدموں میں تیرے دھول ہوئے

چلو ہم عشق کی اک اور داستان بنیں

وہ اگلے عشق کے قصے تو اب فضول ہوئے

عنایت اُن کی اُنھیں یاد رہ گئے حیدر

وگرنہ ہم تو مقدّر کی ایک بھول ہوئے

٭٭٭






وہ خود فریبی کے لمحے گزر چکے ہوں گے

وہ خود فریبی کے لمحے گزر چکے ہوں گے

کہ خواب سُوکھ کے اب تک بکھر چکے ہوں گے

تمہارے جسم کی خوشبو میں جو دہکتے تھے

وہ سارے رنگ دھنک کے اُتر چکے ہوں گے

گئے جو روشنیاں لے کے سرد ہاتھوں پر

اُس اَندھے شہر میں اب تک تو مر چکے ہوں گے

وہ اپنی سوچ پہ گہری اداسیاں لکھ کر

کچھ اپنے آپ سے سمجھوتہ کر چکے ہوں گے

سمندروں کی طرح جو ازل سے پیاسے ہیں

خود اپنی پیاس میں جل کر نکھر چکے ہوں گے

غلط ہے سوچ مگر پھر بھی سوچتا ہوں میں

تمہاری یاد کے سب زخم بھر چکے ہوں گے

٭٭٭






اپنے اندر اتر رہا ہوں میں

اپنے اندر اتر رہا ہوں میں

اپنی پہچان کر رہا ہوں میں

میں اُبھرتا ہوں ڈوبنے کے لئے

ڈوب کر پھر اُبھر رہا ہوں میں

حُسن بن کر بگڑ گیا ہے وہ

عشق بن کر سنور رہا ہوں میں

اب تو اُس سے کوئی نہیں رشتہ

ہاں کبھی ہم سفر رہا ہوں میں

لوگ مرمر کے جی رہے ہیں آج

اور جی جی کے مر رہا ہوں میں

روشنی ہر طرف ہے جب حیدر

کیوں اندھیرے سے ڈر رہا ہوں میں

٭٭٭






کون دیکھے گا بھلا اِن جلتی آنکھوں کے عذاب

کون دیکھے گا بھلا اِن جلتی آنکھوں کے عذاب

جھیلتے رہنا ہے جن کو اندھے خوابوں کے عذاب

زندگی کی ہر برہنہ شاخ پر تحریر ہیں

پھول چہروں پر جو ٹوٹے زرد لمحوں کے عذاب

سانپ بن کر ڈس گئیں اک دن لکیریں ہاتھ کی

قسمتوں میں رہ گئے اب صرف یادوں کے عذاب

جب بھی یاد آتی ہیں کچھ مجبوریاں ، محرومیاں

گھیر لیتے ہیں مجھے اُس کے سوالوں کے عذاب

اک مسلسل روگ بن کر رہ گئی یہ زندگی

قطرہ قطرہ ایسے اترے زہر سانسوں کے عذاب

کب تلک چھائی رہے گی یوں ہی اندھی روشنی

کب تلک حیدر رہیں گے اِن اندھیروں کے عذاب

٭٭٭






کعبے میں جا کے یا کہیں پتھر تراش کر

کعبے میں جا کے یا کہیں پتھر تراش کر

ممکن ہو جس طرح بھی خدا کو تلاش کر

کوئی صدا ہے تُو تو مِرے دل میں ڈوب جا

ہے راز تو لبوں پہ مِرے خود کو فاش کر

وہ موم ہے اگر تو اُسے دھوپ سے بچا

پتھر ہے اس کا دل تو اُسے پاش پاش کر

چھاؤں کا اک خیال سا تھا وہ بھی چھِن گیا

فیشن کسی نے کر لیا زلفیں تراش کر

اپنا نہیں تو بچوں کا احساس کر ذرا

حیدر ادب کو چھوڑ کے فکرِ معاش کر

٭٭٭






مِرے خوابوں نے یقیناً مجھے بہلایا تھا

مِرے خوابوں نے یقیناً مجھے بہلایا تھا

میں نے خود کو یہ کئی مرتبہ سمجھایا تھا

سوچ کے ماتھے پہ کچھ گہری لکیریں اُبھریں

کسی بیتے ہوئے لمحے کا خیال آیا تھا

اُس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے

میں نے زندہ ہی تری یاد کو دفنایا تھا

کسی قاتل کی طرح تھا جو تعاقب میں مِرے

میں نے پہچان لیا وہ تو مِرا سایہ تھا

منزلوں نے تو مجھے ڈھونڈ لیا تھا حیدر

پھر مِرا شوق سفر مجھ کو چُرا لایا تھا

٭٭٭






جِنّوں ، دیووں اور پری زادوں کے بیچ

جِنّوں ، دیووں اور پری زادوں کے بیچ

ایک قیدی کتنے آزادوں کے بیچ

حق اُسی کا ہو گا جو بھی بچ رہا

فیصلہ ہونا ہے شہزادوں کے بیچ

سوچ لو انجام بھی اِس عشق کا

چُن دیئے جاؤ گے پھر یادوں کے بیچ

کھیل کا پانسہ پلٹ جانے کو ہے

شاہ مارا جائے گا پیادوں کے بیچ

گھر گئے ہیں نا شناسوں میں کہاں

منہ کھڑے تکتے ہیں دلدادوں کے بیچ

زندگی حیدر بسر ہوتی رہی

جیسے کوئی گیت فریادوں کے بیچ

٭٭٭






اُداسیوں سے بھرے دل بھی مسکرائیں گے

اُداسیوں سے بھرے دل بھی مسکرائیں گے

نئی رُتوں کے وہ دن بھی ضرور آئیں گے

بُجھا گئیں جو کئی آفتاب چہروں کو

اُن آندھیوں کے بدن بھی جلائے جائیں گے

اندھیرے دن کی مسافت کا سوچ لو پہلے

اُجاڑ لمحوں کے آسیب بھی ڈرائیں گے

سمٹ سکے گا کہاں اور چھپ سکے گا کہاں

ترے خیال میں آ کر تجھے چُرائیں گے

عجیب لوگ ہیں بے چہرہ شہر کے حیدر

یہ تیری بات کا مطلب سمجھ نہ پائیں گے

٭٭٭






ہم جو میدانِ عمل میں ڈٹ گئے

ہم جو میدانِ عمل میں ڈٹ گئے

راستے سارے سفر کے کٹ گئے

ٹوٹ کر برسے مگر انجام کار

چھَٹنے ہی تھے غم کے بادل، چھٹ گئے

بڑھنے گھٹنے کا عجب ہے سلسلہ

بڑھ گئے حد سے تو سمجھو گھٹ گئے

آپ کی رُسوائیوں کے خوف سے

آپ کے رَستے سے ہم خود ہٹ گئے

جتنی اچھی صورتیں ہم کو ملیں

اُتنے ہی خانوں میں حیدر بٹ گئے

٭٭٭






مِری خاموش محبت کا صِلہ ہو جاؤ

مِری خاموش محبت کا صِلہ ہو جاؤ

حرفِ اظہار کی صورت میں ادا ہو جاؤ

راز ہو تو مِرے سینے میں سما بھی جاؤ

ورنہ آؤ مِرے ہونٹوں پہ صدا ہو جاؤ

تم تصوّر بھی نہیں ہو کہ بھُلا بھی نہ سکوں

تم عبادت بھی نہیں ہو کہ قضا ہو جاؤ

یا ہمیشہ کے لئے تم مِرے ہو جاؤ ابھی

یا ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا ہو جاؤ

اپنے جلتے ہوئے خوابوں میں اُتر کر حیدر

اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا ہو جاؤ

٭ ٭٭






خموش آنکھوں سے کرتا رہا سوال مجھے

خموش آنکھوں سے کرتا رہا سوال مجھے

وہ آ کے کہہ نہ سکا اپنے دل کا حال مجھے

کبھی تو خود کو بھی پہچاننے کی کوشش کر

حصارِ ذات سے آ کر کبھی نکال مجھے

یہ بے یقینی کا گہرا سکوت تو ٹوٹے

فریب دے کوئی خوش فہمیوں میں ڈال مجھے

وہ نام لکھوں تو لفظوں سے خوشبوئیں اٹھیں

وہ دے گیا جو مہکتے ہوئے خیال مجھے

گئے زمانے لئے پھر وہ آگیا حیدر

بکھر نہ جاؤں کہیں پھر ذرا سنبھال مجھے

٭٭٭






شاخِ دل یوں تری یادوں سے ہری رہتی ہے

شاخِ دل یوں تری یادوں سے ہری رہتی ہے

جیسے میووں سے کوئی ڈال بھری رہتی ہے

میں نئے قصے میں سیٹل تو نہیں ہوں لیکن

آنکھ کی جھیل میں وہ بَن کے پری رہتی ہے

میں نہ رانجھا نہ تعلق مِرا وارث سے کوئی

پر مِرے دل میں بھی اک بھاگ بھری رہتی ہے

اُس کو پا لینے کی خواہش بھی ہے کیسی خواہش

اُس کے کھونے کے تصور سے ڈری رہتی ہے

اُس کی خفگی بھی نہیں ہوتی بناوٹ والی

مسکراہٹ بھی سدا اُس کی کھری رہتی ہے

استعارے تو کجا سامنے اُس کے حیدر

شاعری ایک طرف اپنی دَھری رہتی ہے

٭٭٭






چھنکیں یہ کس کے چمپئی پَیروں کی جھانجھریں

چھنکیں یہ کس کے چمپئی پَیروں کی جھانجھریں

حیرت سے رُک کے رہ گئیں لمحوں کی جھانجھریں

پھر گر رہی ہے سوچتی آنکھوں کی آبشار

پھر مسکرائی ہیں تری یادوں کی جھانجھریں

رُوحوں میں گنگناہٹیں جو محوِ رقص تھیں

لَے تھی وہ دھڑکنوں کی یا سانسوں کی جھانجھریں

حیدر پھر آج آئے گا شاید کسی کا خط

پھر کوئی چھنچھنائے گا خوابوں کی جھانجھریں

٭٭٭






چھوڑ گئے سب تجھ کو تیری غزلوں والے لوگ

چھوڑ گئے سب تجھ کو تیری غزلوں والے لوگ

میرے شاعر سب کے دکھ اب تنہا بیٹھا بھوگ

عشق اور نوکری مل کے دونوں چُوس گئے ہیں تجھ کو

تُو تو بس اب ایسے ہے جیسے گنے کا پھوک

اُس سے شکوہ کرنے کا تو حق ہی نہیں بنتا ہے

پتھر کو معلوم ہو کیسے آئینے کا روگ

اپنے ارمانوں کو خود ہی کفناؤ دفناؤ

خود ہی من کو قتل کرو اور خود ہی مناؤ سوگ

میں کوئی رام نہ گوتم، حیدر اک شاعر آوارہ

پھر یہ کیسی خواہش ہے جنگل میں لے لوں جوگ

٭٭٭






اُسے پھر اگلے سفر کے لیے اُبھرنا ہے

اُسے پھر اگلے سفر کے لیے اُبھرنا ہے

وہ جس کو شام کی دہلیز پر اُترنا ہے

نجانے ذات کے گرداب سے وہ کب نکلے

کہ فاصلوں کا سمندر بھی پار کرنا ہے

میں برگِ خشک ہوں تُو کوئی سر پھرا جھونکا

اب آ بھی جا کہ مجھے ٹوٹ کر بکھرنا ہے

ابھی تو اُس نے کئی عہد مجھ سے کرنے ہیں

ابھی تو اُس نے ہر اک عہد سے مکرنا ہے

تو کیوں نہ مل لیں ہم اک دوسرے کو جی بھر کے

یہ جب یقیں ہے کہ اک دن ہمیں بچھڑنا ہے

یہ چند گھڑیاں ہی جنت نظیر ہو جائیں

پھر اپنے اپنے جہنم کو ہم نے بھرنا ہے

میں جس صدا پہ چلا ہوں نئے سفر کے لئے

اُسی کے حکم پہ حیدر مجھے ٹھہرنا ہے

٭٭٭






جبریت کے موسم کا جب عذاب آتا ہے

جبریت کے موسم کا جب عذاب آتا ہے

صرف اہلِ دل پر ہی تب عتاب آتا ہے

وہ حساب تو لے گا پر حساب کیا دیں گے

ہم گناہ گاروں کو کب حساب آتا ہے

بس لحاظ کرتے ہیں ایک بے مرّوت کا

ورنہ اُس کی باتوں کا بھی جواب آتا ہے

عشق میں بچھڑ جائیں اور چاہے مل جائیں

دل زدوں پہ ہر حالت میں عذاب آتا ہے

لب مکر گئے لیکن دل نہیں مکر پایا

جب بھی خواب آتا ہے تیرا خواب آتا ہے

پہلے سے بھی بڑھتے ہیں صرف مسئلے حیدر

جھوٹ بولنے سے کب انقلاب آتا ہے

٭٭٭






وزیر، فِیل اور شاہ پھر سے بدَل رہا ہے

وزیر، فِیل اور شاہ پھر سے بدَل رہا ہے

وہ چال شاید اب اور ہی کوئی چَل رہا ہے

بچی ہوئی ہے بس اب تو خاک اور راکھ باقی

کہ اب نہ رسی نہ کوئی رسی کا بل رہا ہے

چلو پھر ابلیس کو بلاؤ اسے بتاؤ

جو ابنِ آدم پھسل گیا تھا سنبھل رہا ہے

کچھ اِس طرح ڈوبنے لگی ہے یہ دل کی دھڑکن

کہ جیسے دھیرے سے کوئی گھر سے نکل رہا ہے

کسی کے جَور و ستم کی حیدر کرامتیں ہیں

بجھا ہوا ہے یہ دل مگر پھر بھی جل رہا ہے

٭٭٭






روگ سمجھا ہے کوئی کب کسی دیوانے کے

روگ سمجھا ہے کوئی کب کسی دیوانے کے

آدھے ہم تیرے ہیں ، آدھے کسی بے گانے کے

دل نے کچھ اپنے ہی معیار بنائے رکھے

زخم دینے کے قرینے ہوں کہ سہہ جانے کے

ہم کہاں کے کوئی سقراط تھے پر ہم پر بھی

آئے الزام نئی نسل کو بہکانے کے

وہ کہ نازاں رہے جن باتوں پہ، اب دیکھ بھی لیں

آ گئے وقت انھیں باتوں پہ پچھتانے کے

ہم بھی اُٹھے ہیں نیا حوصلہ لے کر حیدر

نئے انداز ہیں اُس کے بھی ستم ڈھانے کے

٭٭٭






اگرچہ پیار کا اب کوئی سلسلہ بھی نہیں

اگرچہ پیار کا اب کوئی سلسلہ بھی نہیں

پر اس سے ترکِ تعلق کا حوصلہ بھی نہیں

کچھ اپنے گرد حصار ایسے کھینچ بیٹھا ہوں

کہ اب خود اپنے نکلنے کا راستہ بھی نہیں

مسافتوں میں ہوں کس پیکرِ ہوا کے لئے

جو کوئی رنگ نہیں ہے کوئی صدا بھی نہیں

مری اُداسیاں ہیں قرض اُس کی چاہت پر

اک ایسا قرض کہ جو واجب الادا بھی نہیں

میں جانتا ہوں کہ یہ وقتِ استجابت ہے

مگر یہ کیا کہ لبوں پر کوئی دعا بھی نہیں

تمام روشنیاں ، خوشبوئیں بجا حیدر

پر اُس گلاب بدن سا کوئی ہوا بھی نہیں

٭٭٭






دو پرندے چہکتے رہے رات بھر

دو پرندے چہکتے رہے رات بھر

اور بھرتے ، چھلکتے، رہے رات بھر

رات کی رانی مہکی کہ تم آئے تھے

دونوں عالَم مہکتے رہے رات بھر

سیدھے رستے کو پانے کی دھن میں مگن

کس طرح ہم بہکتے رہے رات بھر

سرد جسموں میں بھی جان سی آ گئی

ایسے جذبے دہکتے رہے رات بھر

رات بھر وصل کا چاند چمکا کیا

دل سمندر ہُمکتے رہے رات بھر

زندگی! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم

بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر

حاصلِ عمر ٹھہرے ہیں لمحے وہی

جن میں حیدر بھٹکتے رہے رات بھر

٭٭٭






عجیب نشہ، عجب سا سُرور خاک میں ہے

عجیب نشہ، عجب سا سُرور خاک میں ہے

کہ خاکساری کا سارا غرور خاک میں ہے

اگرچہ اِن کا تعلق ہے عرش سے لیکن

اساسِ کعبہ و بنیادِ طور خاک میں ہے

عطا زمیں کی ہیں رسمیں ، روایتیں ساری

کسے خبر ہے کہ کتنا شعور خاک میں ہے

اسیرِ خاک نہیں مٹی ہے مِرا عنصر

جبھی تو میرا ظہور و نشور خاک میں ہے

جو پھونک دیں تو قیامت ہی اک اٹھائے گا

چھپا ہوا کوئی ایٹم کا صُور خاک میں ہے

نہیں جو کوئی بھی اس کی گرفت سے باہر

کوئی نہ کوئی تو جادُو ضرور خاک میں ہے

یہ ساری روشنی حیدر ہے ماں کے چہرے کی

کہاں ہے شمس و قمر میں جو نُور خاک میں ہے

٭٭٭






گھنی تاریکیوں میں روشنی کی آس باقی ہے

گھنی تاریکیوں میں روشنی کی آس باقی ہے

یہی دولت بہت ہے جو ہمارے پاس باقی ہے

تمہارے قُرب نے ٹھنڈک کا اک احساس تو بخشا

مگر اِس جسم کی جلتی، مچلتی پیاس باقی ہے

تمہارے ہی لئے ہیں دل کے جتنے مل سکیں ٹکڑے

تمہارے واسطے ہے تن پہ جتنا ماس باقی ہے

چلو ہم بے سلیقہ ہیں مگر یہ بھی تو بتلاؤ

سلیقہ عشق کا پھر اور کس کے پاس باقی ہے

گلابوں کی مہک تھی یا کسی کی یاد کی خوشبو

ابھی تک رُوح میں مہکار کا احساس باقی ہے

نبھانا ہے ابھی تو قول اپنے باپ کا ہم نے

ابھی اپنے مقدر کا کڑا بَن باس باقی ہے

ابھی قرضے چکانے ہیں عزیزوں کے سبھی حیدر

ابھی موسم بدلنے کی ہماری آس باقی ہے

٭٭٭






طلوعِ صبح سے پہلے شگافِ نیل ہونا ہے

طلوعِ صبح سے پہلے شگافِ نیل ہونا ہے

یہ منظر سامنے کا جلد ہی تبدیل ہونا ہے

گزرتی سرد اور لمبی اندھیری شب کے سینے میں

ابھی کچھ اور شمعوں کا لہو تحلیل ہونا ہے

پھر اہلِ جور کے حق میں فقیہِ شہر کے صدقے

حدیثِ جبر کی کوئی نئی تاویل ہونا ہے

ہماری ایڑیوں سے اب کوئی چشمہ نہ ابلے گا

نہ قسمت میں ہماری کوئی بیتِ اِیل ہونا ہے

تمہارے دل کی بنجر سر زمیں سیراب کرنے کو

ہماری خشک آنکھوں ہی کو آخر جھیل ہونا ہے

کبھی دریا کی لہروں پر، کبھی صحرا کے سینے میں

محبت کا نیا قصہ سدا تشکیل ہونا ہے

ہمارا خواب تو بے شک ادھورا رہ گیا حیدر

مگر تعبیر کی تو لازماً تکمیل ہونا ہے

٭٭٭






کب ہے کہ حقیقت سے دل آگاہ نہیں ہے

کب ہے کہ حقیقت سے دل آگاہ نہیں ہے

گم، راہ بھی ہوتے ہوئے گمراہ نہیں ہے

افلاک کے در وا ہوئے کس شخص کی خاطر

مظلوم ہے ہونٹوں پہ مگر آہ نہیں ہے

جب اذنِ مسافت نہ تھا ہر سمت تھے رستے

اب اذن ملا ہے تو کہیں راہ نہیں ہے

پھر قصرِ زلیخا میں رَسائی بھی ہو کیسے

کنعانِ تمنا میں کوئی چاہ نہیں ہے

آنکھوں میں ہماری کوئی سورج نہیں باقی

ماتھے پہ تمہارے بھی کوئی ماہ نہیں ہے

شرطوں پہ محبت کی کوئی بات نہ کرنا

یہ تیرا طلب گار شہنشاہ نہیں ہے

بس پیار کو بھی پیار کی حد تک ہی نبھائیں

دل، دل ہے کسی پِیر کی درگاہ نہیں ہے

اس چشمِ فسوں ساز کے جادو کو نہ سمجھیں

اب اپنی نظر اتنی بھی کوتاہ نہیں ہے

رہنے دو مِری جان یہ توقیر و تکلف

حیدر ترا اب اتنا بھی ذی جاہ نہیں ہے

٭٭٭






مسافتوں کی لگن تو فقط بہانہ تھا

مسافتوں کی لگن تو فقط بہانہ تھا

مسافروں کو بہرحال آگے جانا تھا

رہا نہ دھیان کسی کو دیا بجھانا تھا

جب اُس کو میں نے، مجھے اُس نے آزمانا تھا

یقین کی یہی دولت ہمارے ہاتھ آئی

کہ ہم نے عشق میں پیہم فریب کھانا تھا

خود اپنے آپ سے احوال کہہ کے روتے رہے

کہ شہرِ دل کو جلانا تھا اور بجھانا تھا

جو میری روح میں بس زہر گھولتا ہی رہے

مِرے نصیب میں چینی کا کارخانہ تھا

جب آنکھیں مند گئیں حیدر گھنے اندھیرے میں

تو روشنی کا کوئی خواب ہی جگانا تھا

٭٭٭

مجموعے ’’سلگتے خواب‘‘ کی غزلیں، تشکُّر مصنف

اردو تحریر میں تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔