خواہاں ہوں بوئے باغِ تنزہ شمیم کا
یا رب ادھر بھی بھیج دے جھونکا نسیم کا
تیرے گدا کو سلطنتِ جم سے کیا، کہ ذوق
ہے کاسۂ شکستہ میں جامِ دو نیم کا
نیرنگِ جلوہ، بارقۂ ہوش سوز ہے
کیا امتیاز رنگ سے کیجے شمیم کا
تیری نسیم لطف سے گل کو شگفتگی
وابستہ تیرے حکم پہ چلنا نسیم کا
واجب کی حکمت آئے گی ممکن کی عقل میں؟
کتنا دماغ ہے خلل آگیں حکیم کا
دقت سے پہلے عجز سلامت کی راہ ہے
کیسا سپاس دار ہوں عقلِ سلیم کا
میری فنا ہے مشعلۂ محفلِ بقا
پروانہ ہوں میں پرتوِ شمعِ قدیم کا
گر تیرے شوق میں ہیں یہی بے قراریاں
لے لوں گا بوسہ پایۂ عرشِ عظیم کا
طاعت اگر نہیں تو نہ ہو یاس کس لئے
وابستۂ سبب ہے کرم کب کریم کا
جس وقت تیرے لطف کے دریا کو جوش آئے
فوارۂ جناں ہو زبانہ جحیم کا
اے شیفتہ عذابِ جہنم سے کیا مجھے
میں اُمتی ہوں نار و جناں کے قسیم کا
٭٭٭
یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا
پیمانِ ترکِ جاہ لیا پیرِ دیر نے
پیمانہ دے کے بادۂ عنبر شمیم کا
کیا ڈھونڈتی ہے قوم، کہ آنکھوں میں قوم کی
خلدِ بریں ہے طبقۂ اسفل جحیم کا
اس شوخِ کج ادا سے نہ آئی موافقت
کیونکر گلہ نہ ہو مجھے طبعِ سلیم کا
شکوے یہ اب جو ہوتے ہیں باہم، نئے نہیں
انداز ہم میں، اُن میں یہی ہے قدیم کا
اس وقت ہم گنے گئے احبابِ خاص میں
آیا جو تذکرہ کبھی لطفِ عمیم کا
بدمستیاں کبھی، کبھی مستوری و عفاف
دستور ہے طبیعتِ نا مستقیم کا
اُس رشکِ گُل کو بسترِ گل سے ہے احتراز
ممنون ہوں عدو کے مزاجِ سقیم کا
اے جانِ بے قرار ذرا صبر چاہیے
بے شک ادھر بھی آئے گا جھونکا نسیم کا
جس کی سرشت صاف نہ ہو آدمی نہیں
نیرنگ و عشوہ کام ہے دیوِ رجیم کا
اب جستجو ہے ان کو ہماری تو کیا حصول
باقی نہیں اثر بھی عظامِ رمیم کا
عاشق بھی ہم ہوئے تو عجب شخص کے ہوئے
جو ایک دم میں خون کرے سو ندیم کا
ہم نے کئے قواعدِ وحشت جو منضبط
اہلِ جنوں میں ہم کو لقب ہے حکیم کا
ہے کارنامہ جب سے بیاض اپنی شیفتہ
تقویمِ سالِ رفتہ ہے دیواں کلیم کا
٭٭٭
جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
کچھ اور رنگ ڈھنگ ہوا کائنات کا
شیشہ اتار، شکوے کو بالائے طاق رکھ
کیا اعتبار زندگیِ بے ثبات کا
لڑتے ہو جب رقیب سے کرتے ہو مجھ سے صلح
مشتاق یاں نہیں کوئی اس التفات کا
گر تیرے تشنہ کام کو دے خضر مرتے دم
پانی ہو خشک چشمۂ آبِ حیات کا
یاں خار و خس کو بے ادبی سے نہ دیکھنا
ہاں عالمِ شہود ہے آئینہ ذات کا
کہتے ہیں جان، جانتے ہیں بے وفا مجھے
کیا اعتبار ہے انہیں دشمن کی بات کا
واعظ جنوں زدوں سے نہیں باز پرسِ حشر
بس آپ فکر کیجئے اپنی نجات کا
جوشِ سرشکِ خوں کے سبب سے دمِ رقم
نامہ نہیں رہا یہ ورق ہے برات کا
اے مرگ آ ، کہ میری بھی رہ جائے آبرو
رکھا ہے اس نے سوگ عدو کی وفات کا
ایسے کے آگے شیفتہ کیا چل سکے جہاں
احسان ایک عمر رہے، ایک رات کا
٭٭٭
کیا فائدہ نصیحتِ نا سود مند کا
کیا خوب پند گو بھی ہے محتاج پند کا
جب میں نہیں پسند تو پھر اور آ چکے
عاشق ہوں اس کی خاطرِ مشکل پسند کا
اے بادِ صبح تا بہ کجا اہتزازِ گل
گوشہ الٹ دے یار کے منہ سے پرند کا
اُس ماہ وش کو غیرِ سیہ رو سے کام کیا
ہے فیض اپنے اخترِ بختِ نژند کا
اس کوچے میں ہے عزتِ خسرو گدا سے کم
کیوں ناز مستمند سہے ارجمند کا
نالہ تو نارسا نہیں کیوں کر گلہ کروں
میں شکوہ سنج ہوں ترے کاخِ بلند کا
دیوان کو ہمارے، بتوں کی نگاہ میں
اے شیفتہ وہ رتبہ ہے جو بید و ژند کا
٭٭٭
کچھ امتیاز مجھ کو نہ مے کا نہ سارکا
ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا
لگتی نہیں پلک سے پلک جو تمام شب
ہے ایک شعبدہ مژہِ نیم باز کا
دشمن پئے صبوح جگاتے ہیں یار کو
یہ وقت ہے نسیمِ سحر اھتزاز کا
ایمن ہیں اہلِ جذبہ کہ رہبر ہے ان کے ساتھ
سالک کو ہے خیال نشیب و فراز کا
پھنسنے کے بعد بھی ہے وہی دل شگفتگی
کیا خوب جال ہے نگہِ جاں نواز کا
تقویٰ مرا شعار ہے ، عصمت سرشتِ دوست
پھر مجھ سے کون سا ہے سبب احتراز کا
بارے عجیب بات تو پھیلی جہان میں
پایا کسی نے گو ثمر افشائے راز کا
ساقی کے ہیں اگر یہی الطاف، کیا عجب
ارض و سما میں ہوش نہ ہو امتیاز کا
پیرِ مغاں نے رات کو وہ کچھ دکھا دیا
ہرگز رہا نہ دھیان بھی حسنِ مجاز کا
دیتا ہے داغِ رشک پرندِ سپہر کو
جلوہ تمہاری معجزِ گوہر طراز کا
پانی وضو کو لاؤ، رخِ شمع زرد ہے
مینا اٹھاؤ وقت اب آیا نماز کا
یکتا کسی کو ہم نے نہ دیکھا جہان میں
طولِ امل جواب ہے زلفِ دراز کا
جورِ اجل کو شوخیِ بے جا کہا کیا
تھا مست شیفتہ جو کسی مستِ ناز کا
٭٭٭
نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
نہ شوقِ شعرِ تر و بذلہ ہائے رنگیں کا
شمیمِ زلف یہی ہے تو وحشتِ دل نے
کب انتظار کیا موسمِ ریاحیں کا
بناتِ نعش نے کس واسطے بٹھا رکھیں
نہیں ستارہ گہر خاندانِ پرویں کا
ازل کو دیکھتے ہی ہم سخن کو سمجھے تھے
کہ مشتری نہیں اس گوہرِ نو آئیں کا
نما نما ہے نہایت خلافِ شیوۂ عشق
غلط ہے شوق ہمیں گریہ ہائے رنگیں کا
وہ طرفہ حال کہ جس سے جماد رقص کرے
نہ رنگ بھی متغیر ہو اہلِ تمکیں کا
ہزار مرتبہ فرہاد جانِ شیریں دے
وہی ہے حقِ نمک عشوہ ہائے شیریں کا
عجیب حال میں ہے شیفتہ معاف کرو
جو کچھ قصور بھی ہو اس غلامِ دیریں کا
٭٭٭
ہائے اس برقِ جہاں سوز پر آنا دل کا
سمجھے جو گرمیِ ہنگامہ جلانا دل کا
ہے ترا سلسلۂ زلف بھی کتنا دل بند
پھنسنے سے پہلے بھی مشکل تھا چھٹانا دل کا
دیکھتے ہم بھی کہ آرام سے سوتے کیوں کر
نہ سنا تم نے کبھی ہائے فسانہ دل کا
ہم سے پوچھیں کہ اسی کھیل میں کھوئی ہے عمر
کھیل جو لوگ سمجھتے ہیں لگانا دل کا
عاقبت چاہِ ذقن میں خبر اس کی پائی
مدتوں سے نہیں لگتا تھا ٹھکانا دل کا
کس طرح دردِ محبت میں جتاؤں اس کو
بھید لڑکوں سے نہیں کہتے ہیں دانا دل کا
ہم یہ سمجھے تھے کہ آرام سے تم رکھو گے
لائیے تم کو ہے منظور ستانا دل کا
ہم بھی کیا سادے ہیں کیا کیا ہے توقع اس سے
آج تک جس نے ذرا حال نہ جانا دل کا
جلوہ گاہِ غم و شادی، دل و شادی کم یاب
کیوں نہ ہو شکوہ سرا ایک زمانہ دل کا
شکل مانندِ پری اور یہ افسونِ وفا
آدمی کا نہیں مقدور بچانا دل کا
شیفتہ ضبط کرو ایسی ہے کیا بے تابی
جو کوئی ہو تمہیں احوال سنانا دل کا
٭٭٭
ہم پر ہے التفات ہمارے حبیب کا
گیرا مگر نہیں ہے نفس عندلیب کا
اب وہ ہے جلوہ ریز لباسِ سپاس میں
جو عہدِ کودکی میں گلہ تھا ادیب کا
اچھا جو اس کو سونگھے تو آ جائے اس کو غش
اچھا اثر ہے زلفِ معنبر کی طیب کا
تیری گلی سے آگے نہ ہرگز ہوا چلے
کوچے سے تیرے پاؤں نہ اٹھے غریب کا
مصروف ہے بہت وہ ہمارے علاج میں
ہم بھی ذرا علاج کریں گے طبیب کا
تسلیم سے وفاق، رضا سے ہے اتفاق
نے چرخ کا گلہ، نہ گلہ ہے نصیب کا
ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں کیا کریں
اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا
ہو جائے کاسہ لیس شگرفانِ میکدہ
جس کو کہ اشتیاق ہے حالِ عجیب کا
سنتے ہی نام دشمنِ صد سالہ ہو گیا
پوچھا جو مجھ سے نام کسی نے حبیب کا
اس رشکِ گل نے لی ہے جو بلبل تو شیفتہ
دیکھے چمن میں شور کوئی عندلیب کا
٭٭٭
محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا
حال لکھتا ہوں جانِ مضطر کا
رگِ بسمل ہے تار مسطر کا
آنکھ پھرنے سے تیری، مجھ کو ہوا
گردشِ دہر دور ساغر کا
شعلہ رو یار، شعلہ رنگ شراب
کام یاں کیا ہے دامنِ تر کا
شوق کو آج بے قراری ہے
اور وعدہ ہے روزِ محشر کا
نقشِ تسخیرِ غیر کو اس نے
خوں لیا تو مرے کبوتر کا
میری ناکامی سے فلک کو حصول؟
کام ہے یہ اُسی ستم گر کا
اُس نے عاشق لکھا عدو کو لقب
ہائے لکھا مرے مقدر کا
آپ سے لحظہ لحظہ جاتے ہو
شیفتہ ہے خیال کس گھر کا
٭٭٭
سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا
مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا
تھا کیا ہجوم بہرِ زیارت ہزار کا
گل ہو گیا چراغ ہمارے مزار کا
جور و جفا بھی غیر پر اے یارِ دل شکن
کچھ بھی خیال ہے دلِ امیدوار کا
کھلنے لگے ہیں از سرِ نو غنچہائے زخم
یہ فیض ہے صبا کے دمِ مشک بار کا
گر چاہتے ہو جامہ نہ ہو چاک ناصحو
منگوا دو پیرہن مجھے اس گل عذار کا
ہر کوچہ میں کھلی ہے جو دکانِ مے فروش
کیا فصل ہے شراب کی، موسم بہار کا؟
گھبرا کے اور غیر کے پہلو سے لگ گئے
دیکھا اثر یہ نالۂ بے اختیار کا
وہ آتے آتے غیر کے کہنے سے تھم گئے
اب کیا کروں علاج دلِ بے قرار کا
آزاد ہے عذابِ دو عالم سے شیفتہ
جو ہے اسیر سلسلۂ تاب دار کا!
٭٭٭
اُس بزم میں ہر ایک سے کم تر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا
بے فائدہ ہے وہم کہ کیوں بے خبر آیا
اس راہ سے جاتا تھا ہمارے بھی گھر آیا
کچھ دور نہیں ان سے کہ نیرنج بتا دیں
کیا فائدہ گر آنکھ سے لختِ جگر آیا
گو کچھ نہ کہا، پر ہوئے دل میں متاثر
شکوہ جو زباں پر مری آشفتہ تر آیا
بے طاقتیِ شوق سے میں اٹھ ہی چکا تھا
ناگاہ وہ بے تاب مری قبر پر آیا
بے قدر ہے مفلس شجرِ خشک کی مانند
یاں درہم و دینار میں برگ و ثمر آیا
حالِ دلِ صد چاک پہ کٹتا ہے کلیجہ
ہر پارہ اک الماس کا ٹکڑا نظر آیا
دیکھے کہ جدائی میں ہے کیا حال، وہ بدظن
اس واسطے شب گھر میں مرے بے خبر آیا
کیا دیر ہے اے ساقیِ گلفام سحر ہے
کیا عذر ہے اے زاہدِ خشک، ابرِ تر آیا
احوال میں ہیں شیفتہ کی مختلف اقوال
پوچھیں گے، وہاں سے جو کوئی معتبر آیا
٭٭٭
جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا
کب ہمیں حاجتِ پرہیز پڑی
غم نہ کھایا تھا کہ سم یاد آیا
نہ لکھا خط کہ خطِ پیشانی
مجھ کو ہنگامِ رقم یاد آیا
شعلۂ زخم سے اے صید فگن
داغِ آہوئے حرم یاد آیا
ٹھیرے کیا دل کہ تری شوخی سے
اضطرابِ پئے ہم یاد آیا
خوبیِ بخت کہ پیمانِ عدو
اس کو ہنگامِ قسم یاد آیا
کھل گئی غیر سے الفت اس کی
جام مے سے مجھے جم یاد آیا
وہ مرا دل ہے کہ خود بینوں کو
دیکھ کر آئینہ کم یاد آیا
کس لئے لطف کی باتیں ہیں پھر
کیا کوئی اور ستم یاد آیا
ایسے خود رفتہ ہو اے شیفتہ کیوں
کہیں اس شوخ کا رم یاد آیا
٭٭٭
قبر پر وہ بتِ گل فام آیا
بارے مرنا تو مرے کام آیا
دو قدم یاں سے وہ کوچہ ہے مگر
نامہ بر صبح گیا، شام آیا
مر گئے پر نہ گیا رنج کہ وہ
گور پر آئے تو آرام آیا
خیر باد اے ہوسِ کام کہ اب
دل میں شوقِ بتِ خود کام آیا
شمع کی طرح اٹھے ہم بھی جب
دشمنِ تیرہ سر انجام آیا
جب مری آہ فلک پر پہنچی
تب وہ مغرور سرِ بام آیا
جلد منگواؤ شرابِ گل رنگ
شیفتہ ساقیِ گل فام آیا
س سے میں شکوے کی جا شکرِ ستم کر آیا
کیا کروں تھا مرے دل میں سو زباں پر آیا
٭٭٭
قبر سے اٹھ کے یہی دھیان مکرر آیا
وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا
وعدہ کس شخص کا اور وہ بھی نہایت کچا
ہم بھی کیا خوب ہیں، سچ مچ ہمیں باور آیا
مجھ سے وہ صلح کو اس شان سے آئے گویا
جنگ کے واسطے دارا سے سکندر آیا
جذبۂ شوق کی تاثیر اسے کہتے ہیں
سن کے قاصد کی خبر آپ وہ در پر آیا
خاک ہونے کا مرے ذکر نہ آیا ہو کہیں
آج اس بزم سے کچھ غیر مکدر آیا
اڑ گئے ہوش کہ پیغامِ اجل ہے یہ جواب
کوچۂ یار سے زخمی جو کبوتر آیا
دلِ صد چاک میں ہے کاکلِ مشکیں کا خیال
کہ مجھے گریہ جو آیا تو معطر آیا
اے اجل نیم نگہ کی تو مجھے مہلت دے
اہلِ ماتم میں یہ چرچا ہے کہ دلبر آیا
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا
یہ دیا ہائے مجھے لذتِ آزار نے چین
دل ہوا رنج سے خالی بھی تو جی بھر آیا
آپ مرتے تو ہیں پر جیتے ہی بن آئے گی
شیفتہ ضد پہ جو اپنی وہ ستم گر آیا
٭٭٭
رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا لیکن
تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانئے کس ذوق سے دی جاں دمِ قتل
کہ بہت اس سے ستم گر کو پشیماں دیکھا
نہ ہوا یہ کہ کبھی اپنے گلے پر دیکھیں
یوں تو سو بار ترا خنجرِ براں دیکھا
اس طرف کو بھی نگہ تا سرِ مژگاں آئی
بارے کچھ کچھ اثرِ گریۂ پنہاں دیکھا
پانی پانی ہوئے مرقد پہ مرے آ کے وہ جب
شمع کو نعش پہ پروانے کی، گریاں دیکھا
قطعہ
غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانبِ باغ
لے گئے کل تو عجب رنگِ گلستاں دیکھا
وَرد میں خاصیتِ اخگرِ سوزاں پائی
نسترن میں اثرِ خارِ مغیلاں دیکھا
ایک نالے میں ستم ہائے فلک سے چھوٹے
جس کو دشوار سمجھتے تھے سو آساں دیکھا
کون کہتا ہے کہ ظلمت میں کم آتا ہے نظر
جو نہ دیکھا تھا سو ہم نے شبِ ہجراں دیکھا
شیفتہ زلفِ پری رو کا پڑا سایہ کہیں
میں نے جب آپ کو دیکھا تو پریشاں دیکھا
٭٭٭
جفا و جور کا اس سے گلہ کیا
جو پوچھے مہربانی کیا، وفا کیا
وہ بے پروا جوابِ نامہ لکھے
خدا جانے کہ دشمن نے لکھا کیا
دیا کیوں ہونے اس بد خو پہ عاشق
ہمارا دوست کوئی بھی نہ تھا کیا
شمیمِ گل میں بوئے پیرہن ہے
غلط ہے یہ کہ احسانِ صبا کیا
نہ لکھنا تھا غمِ ناکامیِ عشق
جوابِ نامۂ بے مدعا کیا
ہمیں تھا آپ قصدِ عرضِ احوال
جو وہ خود پوچھتے ہیں پوچھنا کیا
تماشا ہے جلے گر خانۂ غیر
وہ کہتے ہیں کہ آہِ شعلہ زا کیا
فنائے عاشقاں عینِ بقا ہے
دیت زندوں کی کیسی، خون بہا کیا
اگر ہے بوالہوس تو قتل کر چک
عدو سے وعدۂ شوق آزما کیا
قطعہ
کہا کل میں نے اے سرمایۂ ناز
تلون سے ہے تم کو مدعا کیا
کبھی مجھ پر عتابِ بے سبب کیوں
کبھی بے وجہ غیروں سے وفا کیا
کبھی محفل میں وہ بے باکیاں کیوں
کبھی خلوت میں یہ شرم و حیا کیا
کبھی تمکینِ صولت آفریں کیوں
کبھی الطافِ جرات آزما کیا
کبھی وہ طعنہ ہائے جاں گزا کیوں
کبھی یہ غمزہ ہائے جاں فزا کیا
کبھی شعروں سے میرے نغمہ سازی
کبھی کہنا کہ یہ تم نے کہا کیا
کبھی بے جرم یہ آزردہ ہونا
کہ کیا طاقت جو پوچھوں میں "خطا کیاً
کبھی اس دشمنی پر بہرِ تسکیں
پئے ہم جلوہ ہائے دلربا کیا
یہ سب طول اس نے سن کر بے تکلف
جواب اک مختصر مجھ کو دیا کیا
ابھی اے شیفتہ واقف نہیں تم
کہ باتیں عشق میں ہوتی ہیں کیا کیا
٭٭٭
وہ پری وش عشق کے افسوں سے مائل ہو گیا
مفت میں مشہور میں لوگوں میں عامل ہو گیا
میں نہیں فرہاد، وہ خسرو نہیں، پھر کیا سبب؟
غیر کا مائل جو وہ شیریں شمائل ہو گیا
اشک باری ہم کناری کی ہوس میں رات تھی
قلزمِ گریہ کو اس کا دھیان ساحل ہو گیا
زخم میرے خنجرِ خوں ریز تھے اغیار کو
بے وفائی سے خجل کس وقت قاتل ہو گیا
اہلِ وحشت کو مری شورش سے لازم ہے خطر
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں کے مقابل ہو گیا
رشکِ خسرو بے تصرف، نازِ شیریں بے اثر
سینۂ فرہاد مثلِ بے ستوں، سِل ہو گیا
ہے خراشِ ناخنِ غم میں بھی کیا بالیدگی
جو ہلالِ غرہ تھا، سو ماہِ کامل ہو گیا
عید کے دن ذبح کرنا اور بھی اچھا ہوا
حلقۂ اسلام میں وہ شوخ داخل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی یہ ہلچل پڑ گئی بس بزم میں
طورِ روزِ حشر سب کو طورِ محفل ہو گیا
ہوش تو دیکھو کہ سن کر میری وحشت کی خبر
چھوڑ کر دیوانہ پن کو قیس عاقل ہو گیا
ہاتھ اٹھایا اس نے قتلِ بے گنہ سے میرے بعد
طالع اغیار سے جلاد عادل ہو گیا
حسن کے اعجاز نے تیرے مٹایا کفر کو
تیرے آگے نقشِ مانی، نقشِ باطل ہو گیا
میرے مرتے دم جو رویا وہ بڑی تسخیر تھی
آبِ چشمِ یار آبِ چاہِ بابل ہو گیا
ہے عدم میں بھی تلاشِ سرمہ و مشک و نمک
شیفتہ تیغِ نگہ سے کس کی گھائل ہو گیا
٭٭٭
یار کو محرومِ تماشا کیا
مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا
آپ جو ہنستے رہے شب بزم میں
جان کو دشمن کی میں رویا کیا
عرضِ تمنا سے رہا بے قرار
شب وہ مجھے، میں اسے چھیڑا کیا
سرد ہوا دل، وہ ہے غیروں سے گرم
شعلے نے الٹا مجھے ٹھنڈا کیا
مہرِ قمر کا ہے اب ان کو گمان
آہِ فلک سیر نے یہ کیا کیا
ان کو محبت ہی میں شک پڑ گیا
ڈر سے جو شکوہ نہ عدو کا کیا
دیکھئے اب کون ملے خاک میں
یار نے گردوں سے کچھ ایما کیا
حسرتِ آغوش ہے کیوں ہم کنار
غیر سے کب اس نے کنارا کیا
چشمِ عنایت سے بچی جاں مجھے
نرگسِ بیمار نے اچھا کیا
غیر ہی کو چاہیں گے اب شیفتہ
کچھ تو ہے جو یار نے ایسا کیا
٭٭٭
اس جنبشِ ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا
دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا
کچھ تو ہی اثر کر، ترے قربان خموشی!
نالوں سے تو کچھ کام مرا ہو نہیں سکتا
گر غیر بھی ہو وقفِ ستم تو ہے مسلم
کچھ تم سے بجز جور و جفا ہو نہیں سکتا
کھولے گرہِ دل کو ترا ناخنِ شمشیر
یہ کام اجل سے بھی روا ہو نہیں سکتا
سبقت ہو تجھے راہ میں اس کوچے کی مجھ پر
زنہار یہ اے راہ نما! ہو نہیں سکتا
میں نے جو کہا ہمدمِ اغیار نہ ہو جے
تو چیں بہ جبیں ہو کے کہا، ہو نہیں سکتا
یہ رازِ محبت ہے نہ افسانۂ بلبل
محرم ہو مری بادِ صبا، ہو نہیں سکتا
کب طالعِ خفتہ نے دیا خواب میں آنے
وعدہ بھی کیا وہ کہ وفا ہو نہیں سکتا
وہ مجھ سے خفا ہے تو اسے یہ بھی ہے زیبا
پر شیفتہ میں اس سے خفا ہو نہیں سکتا
٭٭٭
صبح ہوتے ہی گیا گھر مہِ تاباں میرا
پنجۂ خور نے کیا چاک گریباں میرا
گرم گرم اس رخِ نازک پہ نظر کی کس نے
رشکِ گل ریز ہے کیوں دیدۂ گریاں میرا
وادیِ نجد کو دلی سے نہ دینا نسبت
ہے وہ مجنوں کا بیاباں، یہ بیاباں میرا
دیکھ کر میری طرف ہنس کے کہا یہ دمِ قتل
آج تو دیکھ لیا آپ نے پیماں میرا
نہ گھر آیا، نہ جنازے پہ، نہ مرقد پہ کبھی
حیف صد حیف نہ نکلا کوئی ارماں میرا
چارہ سازو! کوئی رہتا ہے بجز چاک ہوئے
آپ سو بار سییں، ہے یہ گریباں میرا
آس کی زلفوں کا نہ ہو دھیان تو اے شیفتہ پھر
اس شبِ ہجر میں ہے کون نگہباں میرا
٭٭٭
گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا
واہ اے طالعِ خفتہ کہ شبِ عیش میں بھی
وہم بے خوابیِ اغیار نے سونے نہ دیا
وا رہیں صورتِ آغوش، سحر تک آنکھیں
شوقِ ہم خوبیِ دلدار نے سونے نہ دیا
یاس سے آنکھ بھی جھپکی تو توقع سے کھلی
صبح تک وعدۂ دیدار نے سونے نہ دیا
طالعِ خفتہ کی تعریف کہاں تک کیجے
پاؤں کو بھی خلشِ خار نے سونے نہ دیا
دردِ دل سے جو کہا نیند نہ آئی؟ تو کہا
مجھ کو کب نرگسِ بیمار نے سونے نہ دیا
شبِ ہجراں نے کہا قصۂ گیسوئے دراز
شیفتہ تو بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا
٭٭٭
آج ہی کیا آگ ہے، سرگرمِ کیں تو کب نہ تھا
شمع ساں مجبورِ خوئے آتشیں تو کب نہ تھا
آج ہی دعویٰ ہے کیا تجھ کو بتانِ دہر سے
غیرتِ غلمان و رشکِ حورِ عیں تو کب نہ تھا
آج ہی ہر بات پر بے وجہ کیا رکتا ہے تو
اے ستم گر! برسرِ پرخاش و کیں تو کب نہ تھا
آج ہی تیری جگہ کچھ سینہ و دل میں نہیں
مثلِ تیرِ غمزہ ظالم! دل نشیں تو کب نہ تھا
آج ہی کیا شرم و شوخی کو ملایا ہے بہم
غیر سے بے باک، مجھ سے شرمگیں تو کب نہ تھا
آج ہی کیا ہے فلک پر شکوۂ فریادِ خلق
اے ستم گر! آفتِ روئے زمیں تو کب نہ تھا
آج ہی کیا دشمنوں سے قتل کی تدبیر ہے
اے جفا جو! در پئے جانِ حزیں تو کب نہ تھا
آج ہی باتیں بنانی یاں کے آنے میں نہیں
حیلہ گر تو کب نہ تھا، عذر آفریں تو کب نہ تھا
آج ہی اٹھ کر یہاں سے کیا عدو کے گھر گیا
مہر وش شب کو کہیں، دن کو کہیں تو کب نہ تھا
آج ہی ٹیکہ لگانے سے لگے کیا چار چاند
بے تکلف، بے تکلف مہ جبیں تو کب نہ تھا
آج ہی کچھ سوزِ ہجراں سے نہیں پروانہ وار
شیفتہ بے تابِ روئے آتشیں تو کب نہ تھا
٭٭٭
میں پریشاں گرد اور محفل نشیں تو کب نہ تھا
ہر کہیں کس دن نہ تھا میں، ہر کہیں تو کب نہ تھا
یاں سبک حرفِ ملامت، واں گراں عرضِ نیاز
سخت جاں میں کب نہ تھا اور نازنیں تو کب نہ تھا
ناصح و واعظ کے مطعوں اے صنم ہم کب نہ تھے
آفتِ جان و بلائے عقل و دیں تو کب نہ تھا
انتہا کی بات ہے یاں ابتدائے عشق ہے
ہم نہ تھے کب عجز گستر، خشم گیں تو کب نہ تھا
جستجو میں سرمۂ تسخیر کی ہم کب نہ تھے
چشمِ افسوں ساز سے سحر آفریں تو کب نہ تھا
تجھ کو شک الفت میں اپنی، ہم کو وہمِ ربطِ غیر
بدگماں ہم کب نہ تھے اور بے یقیں تو کب نہ تھا
نا شکیبا، مضطرب، وقفِ ستم، ہم کب نہ تھے
بے مروت، بے وفا، مصروفِ کیں تو کب نہ تھا
تیری ان باتوں پہ ہم طعنے اٹھاتے کب نہ تھے
اے ستم گر شیفتہ کا ہم نشیں تو کب نہ تھا
٭٭٭
میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا
گستاخیوں میں بھی مجھے پاسِ ادب رہا
تغییر وضع کی ہے اشارہ وداع کا
یعنی جفا پہ خو گرِ الطاف کب رہا
میں رشک سے چلا تو کہا بے سبب چلا
اس پر جو رہ گیا تو کہا، بے سبب رہا
دم بھر بھی غیر پر نگہِ لطف کیوں ہے اب
اک عمر میں ستم کشِ چشمِ غضب رہا
تھا شب تو آہ میں بھی اثر، جذبِ دل میں بھی
کیوں کر نہ آئے شیفتہ مجھ کو عجب رہا
٭٭٭
بس کہ آغازِ محبت میں ہوا کام اپنا
پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا
عمر کٹتی ہے تصور میں رخ و کاکل کے
رات دن اور ہے، اے گردشِ ایام اپنا
واں یہ قدغن کہ نہ آوازِ فغاں بھی پہنچے
یاں یہ شورش کہ گزارا ہو لبِ بام اپنا
ان سے نازک کو کہاں گرمیِ صحبت کی تاب
بس کلیجا نہ پکا اے طمعِ خام اپنا
تپشِ دل کے سبب سے ہے مجھے خواہشِ مرگ
کون ہے جس کو نہ منظور ہو آرام اپنا
بادہ نوشی سے ہماری، جو لہو خشک ہوا
خونِ اغیار سے لبریز ہے کیا جام اپنا
لطف سمجھوں تو بجا، جور بھی سمجھوں تو درست
تم نے بھیجا ہے مرے پاس جو ہم نام اپنا
ذکرِ عشاق سے آتی ہے جو غیرت اس کو
آپ عاشق ہے مگر وہ بتِ خود کام اپنا
تاب بوسے کی کسے شیفتہ وہ دیں بھی اگر
کر چکی کام یہاں لذتِ دشنام اپنا
٭٭٭
جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا
ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا
پروانہ بنا میرے جلانے کو وفادار
محفل میں کوئی شمع بدل جائے تو اچھا
کس چین سے نظارۂ ہر دم ہو میسر
دل کوچۂ دشمن میں بہل جائے تو اچھا
تم غیر کے قابو سے نکل آؤ تو بہتر
حسرت یہ مرے دل کی نکل جائے تو اچھا
سودا زدہ کہتے ہیں، ہوا شیفتہ افسوس
تھا دوست ہمارا بھی، سنبھل جائے تو اچھا
٭٭٭
پلا جام ساقی مے ناب کا
کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا
دلِ زار کا ماجرا کیا کہوں
فسانہ ہے مشہور سیماب کا
کہاں پھر وہ نایاب، پایا جسے
غلط شوق ہے جنسِ نایاب کا
نہ کیجو غل اے خوش نوایانِ صبح
یہ ہے وقت ان کی شکر خواب کا
محبت نہ ہرگز جتائی گئی
رہا ذکر کل اور ہر باب کا
دمِ سرد سے لا نہ طوفانِ باد
نہ سن ماجرا چشمِ پر آب کا
وہاں بے خودوں کی خبر کون لے
جہاں شغل ہو بادۂ ناب کا
وہاں تیرہ روزوں کی پروا کسے
جہاں شوق ہو سیرِ مہتاب کا
وہ تشخیصِ شخصی بھی جاتی رہی
کنارا الٹتے ہی جلباب کا
میں بے جرم رہتا ہوں خائف کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا
پڑے صبر آرام کی جان پر
مری جانِ بے صبر و بے تاب کا
لبِ لعل کو کس کے جنبش ہوئی
ہوا میں ہے کچھ رنگ عناب کا
نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا
٭٭٭
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہا گا
صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا
جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا
بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا
وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا
جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا
یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا
قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا
دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا
رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
نالہ نہیں جو آفتِ اجرام ، نہ ہو گا
برق آئینۂ فرصتِ گلزار ہے اس پر
آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا
اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا
اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا
اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا
٭٭٭
دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
آرے سے اگر چیرے تو میں اف نہیں کرتا
تم دیتے ہو تکلیف، مجھے ہوتی ہے راحت
سچ جانئے میں اس میں تکلف نہیں کرتا
سب باتیں انہیں کی ہیں یہ؟ سچ بولیو قاصد!
کچھ اپنی طرف سے تو تصرف نہیں کرتا؟
سو خوف کی ہو جائے، مگر رندِ نظر باز
دل جلوہ گہِ لانشف و شف نہیں کرتا
شوخی سے کسی طرح سے چین اس کو نہیں ہے
آتا ہے مگر آ کے توقف نہیں کرتا
اس شوخِ ستم گر سے پڑا ہے مجھے پالا
جو قتل کئے پر بھی تاسف نہیں کرتا
جو کچھ ہے انا میں وہ ٹپکتا ہے انا سے
کچھ آپ سے میں ذکرِ تصوف نہیں کرتا
تسکین ہو کیا وعدے سے، معشوق ہے آخر
ہر چند سنا ہے کہ تخلف نہیں کرتا
کیا حال تمہارا ہے ہمیں بھی تو بتاؤ
بے وجہ کوئی شیفتہ اُف اُف نہیں کرتا
٭٭٭
اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
دشمن کو اور دوست نے دشمن بنا دیا
مشاطہ نے مگر عملِ سیمیا کیا
گل برگ کو جو غنچۂ سوسن بنا دیا
دامن تک اس کے ہائے نہ پہنچا کبھی وہ ہاتھ
جس ہاتھ نے کہ جیب کو دامن بنا دیا
دیکھا نہ ہو گا خواب میں بھی یہ فروغِ حسن
پردے کو اس کے جلوے نے چلمن بنا دیا
تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کر لیا، سحر آہن بنا دیا
پروانہ ہے خموش کہ حکمِ سخن نہیں
بلبل ہے نغمہ گر کہ نوا زن بنا دیا
صحرا بنا رہا ہے وہ افسوس شہر کو
صحرا کو جس کے جلوے نے گلشن بنا دیا
مشاطہ کا قصور سہی سب بناؤ میں
اس نے ہی کیا نگہ کو بھی پر فن بنا دیا
اظہارِ عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا
٭٭٭
کیا لائقِ زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا
اس قوم کی سرشت میں ہے کم محبتی
شکوہ جو اس سے تھا مجھے ہرگز بجا نہ تھا
تاثیرِ نالہ نکتۂ بعد الوقوع ہے
یاں غیرِ رسم اور کوئی مدعا نہ تھا
وحشت تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ تپش نہ تھی
شورش تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ مزا نہ تھا
ان کی نگاہِ ناز عجب تازیانہ تھی
مقدور پھر اُدھر نظرِ شوق کا نہ تھا
افسوس وہ مظاہرِ کونی میں پھنس گیا
جو عالمِ عقول سے نا آشنا نہ تھا
شرماتے اس قدر رہے کیوں آپ رات کو
مدت سے گو ملے تھے مگر میں نیا نہ تھا
بے پردہ ان کے آنے سے حیرت ہوئی مجھے
وصلِ عدو کی رات تھی روزِ جزا نہ تھا
نان و نمک کی تھی ہمیں توفیق شیفتہ
ساز و نوا کے واسطے برگ و نوا نہ تھا
٭٭٭
کل نغمہ گر جو مطربِ جادو ترانہ تھا
ہوش و حواس و عقل و خرد کا پتا نہ تھا
یہ بت کہ جائے شیب ہے، جب تھا نقاب میں
عہدِ شباب اور بتوں کا زمانہ تھا
معلوم ہے ستاتے ہو ہر اک بہانے سے
قصداً نہ آئے رات، حنا کا بہانہ تھا
حسرت سے اس کے کوچے کو کیوں کر نہ دیکھئے
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا
کیا مے کدوں میں ہے کہ مدارس میں وہ نہیں
البتہ ایک واں دلِ بے مدعا نہ تھا
ساقی کی بے مدد نہ بنی بات رات کو
مطرب اگرچہ کام میں اپنے یگانہ تھا
کچھ آج ان کی بزم میں بے ڈھب ہے بندوبست
آلودہ مے سے دامنِ بادِ صبا نہ تھا
دشمن کے فعل کی تمہیں توجیہ کیا ضرور
تم سے فقط مجھے گلۂ دوستانہ تھا
کل شیفتہ سحر کو عجب حالِ خوش میں تھے
آنکھوں میں نشہ اور لبوں پر ترانہ تھا
٭٭٭
تھا غیر کا جو رنجِ جدائی تمام شب
نیند ان کو میرے ساتھ نہ آئی تمام شب
شکوہ مجھے نہ ہو جو مکافات حد سے ہو
واں صلح ایک دم ہے لڑائی تمام شب
یہ ڈر رہا کہ سوتے نہ پائیں کہیں مجھے
وعدے کی رات نیند نہ آئی تمام شب
سچ تو یہ ہے کہ بول گئے اکثر اہلِ شوق
بلبل نے کی جو نالہ سرائی تمام شب
دم بھر بھی عمر کھوئی جو ذکرِ رقیب میں
کیفیتِ وصال نہ پائی تمام شب
تھوڑا سا میرے حال پہ فرما کر التفات
کرتے رہے وہ اپنی بڑائی تمام شب
وہ آہ، تار و پود ہو جس کا ہوائے زلف
کرتی ہے عنبری و صبائی تمام شب
وہ صبح جلوہ، جلوہ گرِ باغ تھا جو رات
مرغِ سحر نے دھوم مچائی تمام شب
افسانے سے بگاڑ ہے، ان بن ہے خواب سے
ہے فکرِ وصل و ذکرِ جدائی تمام شب
جس کی شمیمِ زلف پہ میں غش ہوں شیفتہ
اس نے شمیمِ زلف سنگھائی تمام شب
٭٭٭
یوں بزمِ گل رخاں میں ہے اس دل کو اضطراب
جیسے بہار میں ہو عنادل کو اضطراب
نیرنگِ حسن و عشق کے کیا کیا ظہور ہیں
بسمل کو اضطراب ہے، قاتل کو اضطراب
آ جائے ہم نشیں وہ پری وش تو کیا نہ ہو
دیوانہ وار ناصحِ عاقل کو اضطراب
سیماب وار سارے بدن کو ہے یاں تپش
تسکین ہو سکے جو ہو اک دل کو اضطراب
وہ با ادب شہید ہوں میرا جو نام لے
قاتل، تو پھر نہ ہو کسی بسمل کو اضطراب
افسوس بادِ آہ سے ہل بھی نہ جائے اور
یوں ہو ہوا سے پردۂ محمل کو اضطراب
میں جاں بہ لب ہوں اور خبرِِ وصل جاں طلب
کیا کیا نہیں دہندہ و سائل کو اضطراب
لکھا ہے خط میں حال دلِ بے قرار کا
ہو گا ضرور شیفتہ حامل کو اضطراب
٭٭٭
کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب
لا و نَعَم نہیں جو تمنائے وصل پر
انکار سے حجاب ہے، اقرار سے حجاب
تقلیدِ شکل چاہئے سیرت میں بھی تجھے
کب تک رہے مجھے ترے اطوار سے حجاب
دشنام دیں جو بوسے میں ابرام ہم کریں
طبعِ غیور کو ہے پر اصرار سے حجاب
رندی میں بھی گئی نہ یہ مستوری و صلاح
آتا ہے مجھ کو محرمِ اسرار سے حجاب
وہ طعنہ زن ہے زندگیِ ہجر پر عبث
آتا ہے مجھ کو حسرتِ دیدار سے حجاب
جوشِ نگاہِ دیدۂ حیراں کو کیا کہوں
ظاہر ہے روئے آئینہ رخسار سے حجاب
روز و شبِ وصال مبارک ہو شیفتہ
جورِ فلک کو ہے ستمِ یار سے حجاب
٭٭٭
دشمن سے ہے میرے دلِ مضطر کی شکایت
کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت
دیوانۂ اُلفت ادب آموزِ خرد ہے
سودے میں نہیں زلفِ معنبر کی شکایت
تاخیر نہ کر قتلِ شہیدانِ وفا میں
ہر ایک کو ہے تیزیِ خنجر کی شکایت
تاثیر ہو کیا، ان لب و دنداں کا ہوں بیمار
نے لعل کا شکوہ ہے نہ گوہر کی شکایت
کیوں بوالہوسوں سے دلِ عاشق کا گلہ ہے
غیروں سے بھی کرتا ہے کوئی گھر کی شکایت
اب ظلم سرشتوں کی نگہ سے ہوں مقابل
ہوتی تھی کبھی کاوشِ نشتر کی شکایت
یاں کانٹوں پہ بھی لوٹنے میں چین نہیں ہے
واں غیر سے ہے پھولوں کے بستر کی شکایت
تعلیم بد آموز کو ہم کرتے ہیں ، یعنی
ہے شکرِ وفا، جورِ ستم گر کی شکایت
بے پردہ وہ آئیں گے تو کیسے مجھے ہو گی
اے شیفتہ ہنگامۂ محشر کی شکایت
٭٭٭
اُس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے عبث
دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث
دشمنی کو جو کہ احساں جانتا ہو ناز سے
اس ستم ایجاد سے امیدِ یاری ہے عبث
غمزہ ہائے دوست بعد از مرگ بھی نظروں میں ہیں
وہمِ راحت سے عدو کو بے قراری ہے عبث
سرو میں کب پھل لگا، تاثیر کیا ہو آہ میں
چشمِ تر کی صورتِ ابر اشک باری ہے عبث
ہم نے غافل پا کے تجھ کو اور کو دل دے دیا
اے ستم گر اب تری غفلت شعاری ہے عبث
ہجر میں چرخ و اجل نے گر نہ کی یاری تو کیا
دشمنوں سے شیفتہ امیدواری ہے عبث
٭٭٭
نہ کر فاش رازِ گلستاں عبث
نہ ہو بلبلِ زار نالاں عبث
کفایت تھی مجھ کو تو چینِ جبیں
کیا قتل کا اور ساماں عبث
مقدم ہے ترکِ عدو کی قسم
وگرنہ یہ سب عہد و پیماں عبث
جو آیا ہے وادی میں تو صبر کر
شکایاتِ خارِ مغیلاں عبث
تکبر گدائے خرابات ہے
نہ اے خواجہ کھو جان و ایماں عبث
وہاں صوتِ مینا و آوازِ ساز
خوش آہنگیِ مرغِ شب خواں عبث
وہاں دس بجے دن کو ہوتی ہے صبح
سحر خیزیِ عندلیباں عبث
دمِ خضر ہے چشمۂ زندگی
سکندر سرِ آبِ حیواں عبث
پری کا وہاں مجھ کو سایہ ہوا
نہیں اشتیاقِ دبستاں عبث
طلب گارِ راحت ہیں نا دردمند
اگر درد ہے فکرِ درماں عبث
یہ نازک مزاجوں کا دستور ہے
خشونت سے اندوہِ حرماں عبث
شکایت کو اس نے سنا بھی نہیں
کھلا غیر پر رازِ پنہاں عبث
مرے غم میں گیسوئے مشکیں نہ کھول
نہ ہو خلق کا دشمنِ جاں عبث
محبت جتاتا ہوں ہر طور سے
اثر کی نظر سوئے افغاں عبث
نہ سمجھا کسی نے مجھے گل نہ صبح
ہوا ٹکڑے ٹکڑے گریباں عبث
مجھے یوں بٹھاتے وہ کب بزم میں
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث
یہ اندازِ دل کش کہاں شیفتہ
جگر کاویِ مرغِ بستاں عبث
اے شیفتہ نویدِ شبِ غم سحر ہے آج
ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج
آہنگِ دل پذیر سے مطرب ہے جاں نواز
آہِ جگر خراش کا ظاہر اثر ہے آج
دل سے کشادہ تر نہ ہو کیوں کر فضائے بزم
تنگیِ خانہ حلقۂ بیرونِ در ہے آج
فانوس میں نہ شمع، نہ شیشے میں ہے پری
ساغر میں جس بہار سے مے جلوہ گر ہے آج
پروانوں کا دماغ بھی ہے آسمان پر
نورِ چراغ میں جو فروغِ قمر ہے آج
ہر سمت جلوہ گر ہیں جوانانِ لالہ رُو
گلزار جس کو کہتے ہیں وہ اپنا گھر ہے آج
سامان وہ کہ آئے نہ چشمِ خیال میں
آ اے رقیب دیکھ کہ پیشِ نظر ہے آج
وہ دن گئے کہ ربطِ سر و سنگ تھا بہم
شکرانے کے سجود ہیں اور اپنا سر ہے آج
اسبابِ عیش یہ جو مہیا ہے شیفتہ
کیا پردہ تم سے، آنے کی اُن کے خبر ہے آج
٭٭٭
شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ
اے ستم گر رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دم نکل جائے گا سینے سے مرے تیر نہ کھینچ
حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ
عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
حسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر نہ کھینچ
ہے یہ سامان صفائی کا عدو سے کیوں کر
دستِ مشاطہ سے یوں زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ
اے ستم پیشہ کچھ امیدِ تلافی تو رہے
دستِ نازک سے مرے قتل کو شمشیر نہ کھینچ
چارہ گر فکر کر اس میں، کہ مقدر بدلے
ورنہ بے ہودہ اذیت پئے تدبیر نہ کھینچ
کون بے جرم ہے جو شائقِ تعزیر نہیں
شوقِ تعزیر سے تو حسرتِ تقصیر نہ کھینچ
وجد کو زمزمۂ مرغِ سحر کافی ہے
شیفتہ نازِ مغنیِ و مزامیر نہ کھینچ
٭٭٭
ناصح تپاں ہے، شیفتۂ نیم جاں کی طرح
کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟
بہتر ہے آپ غیر سے دل کھول کر ملیں
آخر تو یہ بھی میرے ہی ہے امتحاں کی طرح
اُس شمع رُو کی بزم میں مانع نہ تھا کوئی
ہوتی سبک جو نالۂ آتش فشاں کی طرح
کیوں ہر نفس ہے شہدِ خموشی سے بند لب
بھائی ہے دل کو کون سے شیریں بیاں کی طرح
لڑنے میں آشتی نہ تغافل میں التفات
یہ جور کی نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح
خمیازہ بند بند گسل ہے خمار سے
بدمست کر گئی یہ کس ابرو کماں کی طرح
ہر ہر قدم پہ رشک سے جلتی ہے شمعِ فند
چلتا ہے وہ بھی شیفتہ میری زباں کی طرح
٭٭٭
دیا ہے بوسہ مجھے جب کہ میں ہوا گستاخ
غلط ہے بات کہ کم رزق ہے گدا گستاخ
تمہاری بزم میں افسردہ مَیں نہ بیٹھوں گا
نسیم باغ میں چالاک ہے، صبا گستاخ
کہاں ہے غیرتِ شوخی کہ جائے غیرت ہے
نگاہِ یار سے ہر وقت ہے حیا گستاخ
سفیہ جیسے کہ خدمت سے چل نکلتے ہیں
غرورِ مہر و وفا نے مجھے کیا گستاخ
لبوں سے جان ہے گستاخ ذوقِ بے حد سے
زبانِ بوسہ مجھے تو نے کیوں کہا گستاخ
قبول کیوں نہ ہوئی خواہشِ ہم آغوشی
کہ آشناؤں سے ہوتے ہیں آشنا گستاخ
عنانِ ضبط کوئی شیفتہ سے تھمتی ہے
کہ ہر کرشمہ ہے چالاک و ہر ادا گستاخ
٭٭٭
روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد
میری حالت دیکھ لو تغئیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشۂ ساعت کی یاد
میں ہوں بے کس اور بے کس پر ترحم ہے ضرور
حسنِ روز افزوں دلا دینا مری حالت کی یاد
طاقتِ جنبش نہیں اس حال پہ قصدِ عدم
مر گئے پر بھی رہے گی اپنی اس ہمت کی یاد
غالباً ایامِ حرماں بے خودی میں کٹ گئے
آتی ہے پھر آرزو بھولی ہوئی مدت کی یاد
دل لگانے کا ارادہ پھر ہے شائد شیفتہ
ایسی حسرت سے جو ہے گزری ہوئی الفت کی یاد
٭٭٭
طلبِ بوسہ پر اس لب سے شکر آب لذیذ
تند ہے، تلخ ہے، لیکن ہے مئے ناب لذیذ
کچھ مزا تو نہ سمجھ خضرِ اُمورِ عشرت
سب مزاجوں میں نہیں ایک سے اسباب لذیذ
سَم کی تاثیر کرے ہجر میں آبِ حیواں
مے گل گوں سے سوا وصل میں ہے آب لذیذ
ردِ زحاد سہی پر نہیں مقبولِ مغاں
تا نہ معلوم ہو تلخیِ مے ناب لذیذ
شیفتہ ذوقِ سحر اس نے کہاں دیکھا ہے
وہ جو کہتا ہے کہ ہے آخرِ شب، خواب لذیذ
٭٭٭
وصل کے لطف اُٹھاؤں کیوں کر
تاب اس جلوے کی لاؤں کیوں کر
گرم جوشی کا کروں شکوہ کہ وہ
کہتے ہیں تجھ کو جلاؤں کیوں کر
کیا کروں ہائے میں بے تاب، وہ شوخ
چین سے پاس بٹھاؤںکیوں کر
ہر بنِ مُو سے دھواں اٹھتا ہے
آتشِ غم کو چھپاؤں کیوں کر
میرے آنے سے تم اٹھ جاتے ہیں
بزمِ دشمن میں نہ آؤں کیوں کر
یاد نے جس کی بھلایا سب کچھ
اس کی میں یاد بھلاؤں کیوں کر
آپ بھایا مجھے رونا اپنا
کہتے ہیں ہائے میں جاؤں کیوں کر
چارۂ غیر سے فرصت ہی نہیں
دردِ دل اس کو سناؤں کیوں کر
زندگانی سے خفا ہوں اپنی
پھر کہو، تم کو مناؤں کیوں کر
اس کے آتے ہی بھڑک اٹھی اور
آتشِ دل کو بجھاؤں کیوں کر
شورِ محشر ابھی چونک اٹھے گا
شیفتہ کو میں جگاؤں کیوں کر
٭٭٭
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر
شوقِ خوباں اُڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر
رنجِ دنیا مٹ گیا آرامِ عقبیٰ دیکھ کر
ہے وہ آتش جلوہ، اشک افشاں ہمارے شور سے
شمع رو دیتی ہے پروانے کو جلتا دیکھ کر
خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا
خط دیا تھا نامہ بر نے اس کو تنہا دیکھ کر
سائلِ مبرم کی پھبتی مجھ پہ فرمانے لگے
آرزوئے شوق کو گرمِ تقاضا دیکھ کر
ہے وہاں سستی طلب میں ، جان یاں بھاری نہیں
کام کرتے ہیں مزاجِ کارفرما دیکھ کر
ہیں تو دونوں سخت لیکن کون سا ہے سخت تر
اپنے دل کو دیکھئے میرا کلیجا دیکھ کر
گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے
آئے ہیں ہم سخت پُر آشوب صحرا دیکھ کر
اب کسے لاؤں گواہی کے لئے روزِ جزا
میرے دشمن ہو گئے، اس کو احبا دیکھ کر
میں کمینِ توبہ میں ہوں آپ ، لیکن کیا کروں
منہ میں بھر آتا ہے پانی جام و مینا دیکھ کر
التماسِ وصل پر بگڑے تھے بے ڈھب رات کو
کچھ نہ بن آئی مگر جوشِ تمنا دیکھ کر
دوستی کرتے ہیں اربابِ غرض ہر ایک سے
میرے عاشق ہیں عدو اب ربط اس کا دیکھ کر
بے نقط مجھ کو سناؤ گے جو دیکھو گے ستم
آپ عاشق تو ہوئے ہیں شوق میرا دیکھ کر
پھر کہو گے اس کو دل، فرماؤ اے اربابِ دل
جو نہ ہو بے تاب و مضطر، روئے زیبا دیکھ کر
یار پہلو میں نہیں، مے جام و مینا میں نہیں
تم ہوئے حیران مجھ کو نا شکیبا دیکھ کر
ناگہاں بادِ موافق شیفتہ چلنے لگی
جان پر کل بن رہی تھی شورِ دریا دیکھ کر
٭٭٭
تھا قصدِ بوسہ نشے میں سرشار دیکھ کر
غش آ گیا مجھے انہیں ہشیار دیکھ کر
کچھ بیمِ قتل سے نہیں آنکھوں میں اشکِ سُرخ
کھاتا ہے جوش خوں تری تلوار دیکھ کر
جاتے ہیں اور منع کی طاقت نہیں ، مگر
رہ جائیں آپ وہ مجھے ناچار دیکھ کر
پردہ کسی کا یاد، نہ بے پردگی ہے یاد
غش ہو گیا میں کعبے کے استار دیکھ کر
سرخیلِ عاشقاں مجھے کہتے ہیں بوالہوس
عاشق کا اس کو مائلِ آزار دیکھ کر
آتی ہیں یاد کاکل و دل کی حکایتیں
روتا ہوں دام و مرغِ گرفتار دیکھ کر
کیا بن گیا ہوں صورتِ دیوار دیکھنا
صورت کسی کی میں سرِ دیوار دیکھ کر
رحم ایسی سادگی پہ ستم گر ضرور ہے
عاشق ہوئے ہیں ہم تجھے پُرکار دیکھ کر
کم رغبتی سے لیتے ہیں دل، ہوشیار ہیں
بڑھتا ہے مول شوقِ خریدار دیکھ کر
کہتا تھا وقت مرگ کے ہر اک سے شیفتہ
دینا کسی کو دل تو وفادار دیکھ کر
٭٭٭
یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور
یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور
دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے
باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور
مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے؟
اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور
جو لطف میں بھی پاس پھٹکنے نہ دے کبھی
رکھیو الٰہی! ایسے کے مجھ کو غضب سے دور
کیوں کر میں انجمن میں تمہاری شریک ہوں
اربابِ رنج رہتے ہیں اہلِ طرب سے دور
ہم سے اسے معاملہ تھا جان و جسم کا
ہرگز ملا نہ گاہ، ہوا ہائے جب سے دور
تو بھی جو میرے پاس نہ آئے تو کیا کروں
تیرے ہی پاس سے تو میں رہتا ہوں سب سے دور
میں غیرِ بوالہوس نہیں ڈرتے ہو کس لئے
مجھ کو نہ رکھو بوسے میں تم لب کو لب سے دور
بوس و کنار کی نہ کروں گا ہوس کبھی
یہ خواہشیں ہیں عاشقِ حسرت طلب سے دور
آغازِ عمر ہی میں ہے ہم کو خیالِ حج
دلی جو شیفتہ ہے دیارِ عرب سے دور
٭٭٭
ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز
بیت الحزن میں نغمۂ شادی بلند ہے
نکلا ہی بابِ مصر سے ہے کارواں ہنوز
صبحِ شبِ وصال نیِ صبح ہے، مگر
پرویں ہنوز جلوہ گر و کہکشاں ہنوز
ہرگز ابھی شکایتِ دشمن نہ چاہئے
ہم پر بھی یار خوب نہیں مہرباں ہنوز
کیوں کر کہیں کہ چھٹ گئے ہم بندِ جسم سے
اس زلفِ پیچ پیچ میں الجھی ہے جاں ہنوز
جو بات میکدے میں ہے اک اک زبان پر
افسوس مدرسے میں ہے بالکل نہاں ہنوز
ضبط و شکیب یاں ہے نقابِ جمال میں
بے وجہ واں نہیں ہے سرِ امتحاں ہنوز
مدت ہوئی بہارِ جہاں دیکھتے ہوئے
دیکھا نہیں کسی نے گلِ بے خزاں ہنوز
اکثر ہوا ہے مجھ کو سفر در وطن مگر
لایا نہ دوستوں کے لئے ارمغاں ہنوز
اک شب ہوا تھا جلوہ نما چرخ پر وہ ماہ
مدہوش ہیں ملائکۂ آسماں ہنوز
نا آشنا رقیب سے ہے آشنا ابھی
نا آشنا ہے لب سے ہمارے فغاں ہنوز
آشفتہ زلف، چاک قبا، نیم باز چشم
ہیں صحبتِ شبانہ کے ظاہر نشاں ہنوز
اے موجۂ نسیم ذرا اور ٹھہر جا
ہے خاک پر ہماری وہ دامن فشاں ہنوز
مے خانے میں تمام جوانی بسر ہوئی
لیکن ملا نہ منصبِ پیرِ مغاں ہنوز
اے تابِ برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی
کچھ رہ گئے ہیں خار و خسِ آشیاں ہنوز
آتا ہوں میں وہیں سے ذرا صبر شیفتہ
سونے کے قصد میں بھی نہیں پاسباں ہنوز
٭٭٭
ہند کی وہ زمیں ہے عشرت خیز
کہ نہ زاہد کریں جہاں پرہیز
وجد کرتے ہیں پی کے مے صوفی
مست سوتے ہیں صبح تک شب خیز
رند کیا یاں تو شاہد و مے سے
پارسا کو نہیں گزیر و گریز
سخت مشکل ہے ایسی عشرت میں
خطرِ حشر و بیمِ رستا خیز
ہے غریبوں کو جراتِ فرہاد
ہے فقیروں کو عشرتِ پرویز
عیش نے یاں بٹھا دیا ناقہ
غم نے کی یاں سے رخش کو مہمیز
کوئی یاں غم کو جانتا بھی نہیں
جز غمِ عشق سو ہے عیش آمیز
بادِ صر صر یہاں نسیمِ چمن
نارِ عنصر سے آتشِ گل تیز
بوستاں کی طرح یہاں صحرا
دل کشا، دل پذیر، دل آویز
کوئی پامالِ جورِ چرخ نہیں
کتنی ہے یہ زمین راحت خیز
اثرِ زہرہ اس میں یاں پایا
وہ جو مریخ ہے بڑا خوں ریز
شیفتہ تھام لو عنانِ قلم
یہ زمیں گرچہ ہے ہوس انگیز
دور رہنا ہم سے کب تک اور بے گانے کے پاس
ہیں قریبِ مرگ، کیا اب بھی نہیں آنے کے پاس؟
جلوہ آرا بس کہ تھا وہ شمع سیما رات کو
ہم بھی مر کر رہ گئے مجلس میں پروانے کے پاس
آفریں طغیانِ وحشت، مرحبا جوشِ جنوں!
وہ یہ کہتے ہیں کہ کیوں کر جائیں دیوانے کے پاس
غیر سے کہوائیں، یاروں سے سمجھوائیں گے ہم
دیکھ لیں گے پھر کہ تم کیوں کر نہیں آنے کے پاس
شیفتہ نے قصہ مجنوں سنایا رات کو
آ گیا میرا اُنہیں سنتے ہی افسانے کا پاس
٭٭٭
اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش
کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء
کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش
فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی
شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش
یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے
یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش
قدح سے دل ہے مراد اور مے سے عشق غرض
میں وہ نہیں کہ نہ سمجھوں زبانِ بادہ فروش
عجب نہیں کہ کسی روز وہ بھی آ نکلیں
کہ ہے گزرگہِ خلق، آستانِ بادہ فروش
مے و سرود کے اسرار آپ آ کر دیکھ
نہ پوچھ مجھ سے کہ ہوں رازدانِ بادہ فروش
شراب دیکھ کہ کس رنگ کی پلاتا ہے
جز اس کے اور نہیں امتحانِ بادہ فروش
تری شمیم نے گلزار کو کیا برباد
تری نگاہ نے کھولی دکانِ بادہ فروش
عبث ہے شیفتہ ہر اک سے پوچھتے پھرنا
ملے گا بادہ کشوں سے نشانِ بادہ فروش
٭٭٭
اُن کو دسشمن سے ہے محبت خاص
یہ ہمارا ہے ثمرہ اخلاص
وجد میں لائے اہلِ درد ہمیں
باد کے ساتھ خاک ہے رقاص
دل کے ٹکڑے اُڑا، نہیں ہے گناہ
نفس کو قتل کر، نہیں ہے قصاص
حسنِ باطن، زبونیِ ظاہر
ہے مئے ناب اور جامِ رصاص
کیا مزا تم سے آشنائی کا
ما شربتم مدامۃ الاخلاص
ہجر زہر اور وصل ہے تریاق
زہر و تریاق کا جدا ہے خواص
قسمت اُس کی، خبر نہ ہو جس کو
عام اس دور میں ہے بادہ خاص
دام سے تیرے موسمِ گل میں
بلبلوں کو نہیں ہوائے خلاص
شیفتہ نے ہماری داد نہ دی
سچ ہے القاص لا یحب القاص
٭٭٭
ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض
عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمتِ اہلِ نظر سے فیض
ہے عالمِ کبیر میں بھی یوں ہی جس طرح
دل سے جگر کو فیض ہے، دل کو جگر سے فیض
آزردہ جفائے "دے" و "تیر" کو نہیں
یک ذرہ آب و آتشِ لعل و گہر سے فیض
اپنی نہاد میں نہیں احساں فرامشی
پایا ہے ہم نے صاعقے کا ابرِ تر سے فیض
زر کسب کر کہ عشرتِ خسرو نصیب ہو
فرہاد کو سنا ہے، ہوا جو ہنر سے فیض؟
لگتے ہیں اس کے سینہ و بر سے مدام ہم
ہوتا ہے ہم کو روز مہِ سیم بر سے فیض
اربابِ خانقاہ ہیں محتاجِ اغنیا
کافی ہے ہم کو پیرِ مغاں! تیرے در سے فیض
بلبل ہمارے گھر وہ خود آتے ہیں رحم سے
افزوں ہے بے پری میں یہاں بال و پر سے فیض
خرم نہادِ مے کش و زاہد شگفتہ دل
ہے شیفتہ ہر ایک کو وقتِ سحر سے فیض
٭٭٭
لازم ہے بے وفا تجھے اہلِ وفا سے ربط
کیسا ہے دیکھ عکسِ ادا کو ادا سے ربط
یہ ناخن و خراش میں بگڑی کہ کیا کہوں
اک دم ہوا جو عقدہ بندِ قبا سے ربط
ناصح مری ملامتِ بے جا سے فائدہ
بے اختیار دل کو ہے اس دل ربا سے ربط
اس سرد مہر کو ہو اثر، پر جو ہو سکے
کام و دہاں کو میرے دمِ شعلہ زا سے ربط
کیجے گر ان سے شکوہ انجامِ کارِ عشق
کہتے ہیں مجھ کو تم سے نہ تھا ابتدا سے ربط
دو دن میں تنگ ہو گئے جورِ سپہر سے
اس حوصلے پہ کرتے تھےاس کی جفا سے ربط
کیا کیجے، بد گمانیِ ابرو کا دھیان ہے
کرتے وگرنہ ہجر میں تیغِ قضا سے ربط
تیرے ستم سے ہے یہ دعا لب پہ دم بہ دم
یا رب نہ ہو کسی کو کسی بے وفا سے ربط
صبحِ شبِ فراق کیا لطفِ مرگ نے
کیا دیر میں ہوا ہمیں زود آشنا سے ربط
فریادِ نزع کان تک اس کے نہ جا سکی
تھا شیفتہ ہمیں نفسِ نارسا سے ربط
٭٭٭
ترے فسوں کی نہیں میرے دل میں جا واعظ
صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ
کسی صنم نے مگر آپ کو جلایا ہے
نہیں تو حوروں کی کیوں اس قدر ثنا واعظ
تمہارے حسنِ جہاں سوز سے میں جلتا ہوں
کہ ہیں رقیب مرے شیخ و پارسا، واعظ
ملا کے دیکھیں کہ ہے خوب کون دونوں میں
ہم اس کو لاتے ہیں تو حور کو بلا واعظ
ترے فسونِ اثر ریز سے رسا تر ہے
فغانِ بے اثر و آہِ نارسا واعظ
کمی تھی حالتِ رندی میں اس کو کیا یارو
کوئی یہ پوچھے کہ کیوں شیفتہ ہوا واعظ
٭٭٭
خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیائے شمع
پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع
اس تیرہ روزگار میں مجھ سا جگر گداز
مشعل جلا کے ڈھونڈے اگر تو نہ پائے شمع
روزِ فراق میں ہے قیامت، جمالِ گُل
شب ہائے ہجر میں ہے مصیبت، لقائے گُل
پروانے کیا خجل ہوئے دیکھا جو صبح کو
تھا شب کو اس کی بزم میں خورشید جائے شمع
اُس رشکِ شمع و گُل کی ہے کچھ آب و تاب اور
دیکھے ہیں جلوہ ہائے گل و شعلہ ہائے شمع
دیتی ہے اور گرمئ پروانہ داغِ اشک
شب ہائے ہجر میں کوئی کیونکر جلائے شمع
کیا حاجت آفتاب کے گھر میں چراغ کی
ہے حکم شب کو بزم میں کوئی نہ لائے شمع
اُس لعلِ بے بہا سے کہاں تابِ ہمسری
روشن ہے سب پہ قیمتِ گُل اور بہائے شمع
خورشید جس کے جلوہ سے ہو شمعِ صبح دم
کیا ٹھہرے اس کے سامنے نور و ضیائے شمع
اس تیرہ شب میں جائیں گے کیونکر عدو کے گھر
میرا رقیب وہ ہے جو ان کو دکھائے شمع
آتے ہیں وہ جو گور پہ میری تو بہرِ زیب
کوئی نہ پھول لائے نہ کوئی منگائے شمع
گُل پر لگا کے آپ سے پہنچیں گے بے طلب
آئے گی اپنے پاؤں سے یاں بن بلائے شمع
ڈر ہے اُٹھا نہ دے کہیں وہ بزمِ عیش سے
کیا تاب ہے کہ شیفتہ آنسو بہائے شمع
٭٭٭
کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ
کیا لطفِ آہ، صبحِ شبِ ہجرِ مہروش
کیا فائدہ جو کیجئے روشن سحر چراغ
پروانہ گر نہ جائے تو بے جا ہے لافِ عشق
روشن ہے میرے نالوں سے افلاک پر چراغ
حربا کرے طریقۂ پروانہ اختیار
اُس تابِ رخ سے کیجئے روشن اگر چراغ
پروانہ ہو گیا ہے رقیبِ کتاں کہ ہے
اُس مہر وش کے جلوے کے آگے قمر چراغ
گستاخیوں کی تاب کسے اس کی بزم میں
بے باکیِ نسیم سے ہرگز نہ ڈر چراغ
ہے شمعِ انجمن وہ مہِ آتشیں عذار
گھی کے جلیں گے آج تو دشمن کے گھر چراغ
کرتا ہوں فکرِ شعر جو میں شب کو شیفتہ
رہتا ہے خواب گہ میں مری رات بھر چراغ
٭٭٭
واں ہوا پردہ اٹھانا موقوف
یاں ہوا راز چھپانا موقوف
غیر کو رشک سے کیا آگ لگے
کہ ہوا میرا جلانا موقوف
ذکرِ شیریں کی اگر بندی ہے
کوہ کن کا بھی فسانہ موقوف!
اب کس امید پہ واں جائے کوئی
کہ ہوا غیر کا آنا موقوف
رمِ آہو سے وہ رم یاد آیا
دشت و صحرا میں بھی جانا موقوف
بد دماغ آج ہوا وہ گُل رُو
شیفتہ عطر لگانا موقوف
٭٭٭
پابندیِ وحشت میں زنجیر کے مشتاق
دیوانے ہیں اس زلفِ گرہ گیر کے مشتاق
بے رحم نہیں جرمِ وفا قابلِ بخشش
محروم ہیں کس واسطے تعزیر کے مشتاق
رہتے تھے بہم جن سے مثالِ ورق و حرف
اب ان کی رہا کرتے ہیں تحریر کے مشتاق
لکھتا ہوں جو میں آرزوئے قتل میں نامے
ہیں میرے کبوتر بھی ترے تیر کے مشتاق
کیوں قتل میں عشاق کے اتنا ہے تغافل
مر جائیں گے ظالم دمِ شمشیر کے مشتاق
اے آہ ذرا شرم کہ وہ کہتے ہیں اکثر
مدت سے ہیں ہم آہ کی تاثیر کے مشتاق
سیماب تھا دل، جل کے سو اب خاک ہوا ہے
لے جائیں مری خاک کو اکسیر کے مشتاق
کیا ہجر کے دن آنے میں ہے عذر سنیں تو
ہم ہیں ملک الموت کی تقریر کے مشتاق
دل سرد کے سن کے ترے لالۂ موزوں
تھے شیفتہ ہم محسنِ تاثیر کے مشتاق
٭٭٭
رہ جائے کیوں نہ ہجر میں جاں آ کے لب تلک
ہم آرزوئے بوسہ بہ پیغام اب تلک
کہتے ہیں بے وفا مجھے میں نے جو یہ کہا
مرتے رہیں گے آپ پہ، جیتے ہیں جب تلک
تمکینِ حسن ہے کہ نہ بے تاب ہو سکا
خلوت میں بھی کوئی قلقِ بے ادب تلک
آ جائے کاش موت ہی تسکیں نہ ہو، نہ ہو
ہر وقت بے قرار رہے کوئی کب تلک
وہ چشمِ التفات کہاں اب جو اس طرف
دیکھیں، کہ ہے دریغ نگاہِ غضب تلک
ایسے کریم ہم ہیں کہ دیتے ہیں بے طلب
پہنچاؤ یہ پیام اجلِ جاں طلب تلک
مایوس لطف سے نہ کر اے دشمنی شعار
امید سے اٹھاتے ہیں ہم جور اب تلک
یاں عجزِ بے ریا ہے نہ واں نازِ دل فریب
شکرِ بجا رہا گلۂ بے سبب تلک
ایسی ہی بے قراری رہی متصل اگر
اے شیفتہ ہم آج نہیں بچتے شب تلک
٭٭٭
طالعِ خفتۂ دشمن نہ جگانا شبِ وصل
دیکھ اے مرغِ سحر غل نہ مچانا شبِ وصل
ان کو منظور نہیں نیند کا آنا شبِ وصل
اس لئے کہتے ہیں غیروں کا فسانہ شبِ وصل
صبر پروانے کا مجھ پر نہ پڑے ڈرتا ہوں
ماہ رو شمع کو ہرگز نہ جلانا شبِ وصل
خواہشِ کامِ دل اتنی نہ کر اے شوق کہ وہ
ڈھونڈتے ہیں چلے جانے کو بہانا شبِ وصل
آپ منت سے بلانے تجھے کیوں کر آؤں
غیر کے گھر میں ہے تیرا تو ٹھکانا شبِ وصل
شان میں صحبتِ ناکس سے خلل آتا ہے
صبحِ ہجراں کو بس اب منہ نہ لگانا شبِ وصل
تیرگی بختِ سیہ سے مرے لا جا کہ ضرور
جلوہ اس مہر لقا کا ہے چھپانا شبِ وصل
روزِ ہجراں میں اٹھے جاتے ہو کیوں دنیا سے
شیفتہ اور بھی تم لطف اٹھانا شبِ وصل
٭٭٭
اصحابِ درد کو ہے عجب تیزیِ خیال
مثل زبانِ نطق قلم کی زبانِ حال
عہدِ وفا کیا ہے، نباہیں گے، شک عبث
وعدہ کیا ہے، آئیں گے، بے جا ہے احتمال
کیا کچھ وہاں سے منزلِ مقصود پاس ہے
یا ایھاالذینَ سَکَنتم عَلَی الجبَال
ناز و غرور ٹھیک ہے، جور و جفا درست
کس کے ہوا نصیب یہ حسن اور یہ جمال
ساقی پلا وہ بادہ کہ غفلت ہو آگہی
مطرب سنا وہ نغمہ کہ ہو جس سے قال، حال
ہم اگلے عشق والوں کی تقلید کیوں کریں
اے خوردہ گیر، نحن رجال و ہم رجال
اہلِ طریق کی بھی روش سب سے ہے الگ
جتنا زیادہ شغل زیادہ فراغ بال
ہنگامِ عہد کام میں لائے وہ ایسے لفظ
جن کو معانیِ متعدد پر اشتمال
ماذا لتنہبن و انتن فی البیوت
ماذا تقتلن و انتن فی الحجال
قطعہ
یہ بات تو غلط ہے کہ دیوانِ شیفتہ
ہے نسخہء معارف و مجموعۂ کمال
لیکن مبالغہ تو ہے البتہ اس میں کم
ہاں ذکرِ خد و خال اگر ہے، تو خال خال
٭٭٭
یاں کے آنے میں نہیں ان کو جو تمکیں کا خیال
غالباً کچھ تو ہوا ہے مری تسکیں کا خیال
کفِ افسوس مَلے سے بھی پڑے ہاتھ میں نقش
بس کہ ہے دل میں مرے دستِ نگاریں کا خیال
گو مجھے عاشقِ مفلس وہ کہیں طعنے سے
تو بھی کیوں کر نہ رکھوں ساعدِ سیمیں کا خیال
تعزیت کو مری وہ آئے تو کیا ذلت ہے
اہلِ ماتم کو نہیں بزم کی تزئیں کا خیال
کیوں نہ ہو دستِ مژہ ماتمیوں کا رنگیں
مرتے دم تھا مجھے اس پنجۂ رنگیں کا خیال
سخنِ عشق ہے پتھر کی لکیر اے پرویز
دلِ فرہاد سے کیوں کر مٹے شیریں کا خیال
کیا مسلمان ہیں ہم شیفتہ سبحان اللہ
دل سے جاتا نہیں دم بھر بتِ بے دیں کا خیال
بلبل کو بھی نہیں ہے دماغِ صدائے گل
بگڑی ہے تیرے دور میں ایسی ہوائے گل
ہنگامِ غش جو غیر کو اس نے سنگھائے گل
جنت میں لے چلی مری جاں کو ہوائے گل
ایما ہے بعدِ مرگ بھی ہم بے وفا رہے
اس واسطے مزار پہ میرے چڑھائے گل
مرتی ہیں گل کے نام پہ ہی بلبلیں کہ اب
پھرتی ہیں ساتھ ساتھ مرے جب سے کھائے گل
کھٹکوں عدو کی آنکھ میں تا بعدِ مرگ بھی
کانٹے مرے مزار پہ رکھنا بجائے گل
کس کس طرح سے کھوئے گئے غیر کیا کہوں
روزِ جزا بھی سینے پہ میرے جو پائے گل
جلتی ہے تیرے حسنِ جہاں سوز سے بہار
نکلیں گے شعلے خاکِ چمن سے بجائے گل
آخر دو رنگی اس گلِ رعنا پہ کھل گئ
لوگوں کو دیکھ کر جو عدو نے چھپائے گل
عاشق سے پہلے راہِ محبت میں جان دے
کیوں کر نہ عندلیب کرے جاں فدائے گل
خاموش عندلیب، کہ طاقت نہیں رہی
ہیں چاک پردے کان کے مثلِ قبائے گل
شاید دکھانے لائے گا اس کو کہ غیر نے
بستر پہ میرے کانٹوں کے بدلے بچھائے گل
جس گل میں ہے ادا وہ چمن میں بھلا کہاں
اے بلبلو، تمہیں کو مبارک ادائے گل
میرا انہیں کو غم ہے کہ بلبل کی آہ پر
کرتا ہے کون چاک گریباں، سوائے گل
جنت میں پہنچیں بلبلیں، پروانے جل گئے
اب کون شمع گور پر اور کون لائے گل
اک گل کا شوق تھا سبب اپنی وفات کا
پھولوں کے دن مرے رفقا نے منگائے گل
لکھی یہ ہم نے وہ غزلِ تازہ شیفتہ
ہر شعر جس میں داغ دہِ دستہ ہائے گل
٭٭٭
گہ ہم سے خفا وہ ہیں گہے ان سے خفا ہم
مدت سے اسی طرح نبھی جاتی ہے باہم
کرتے ہیں غلط یار سے اظہارِ وفا ہم
ثابت جو ہوا عشق، کجا یار کجا ہم
کچھ نشۂ مے سے نہیں کم نشۂ نخوت
تقویٰ میں بھی صہبا کا اٹھاتے ہیں مزا ہم
موجود ہے جو لاؤ جو مطلوب ہے وہ لو
مشتاقِ وفا تم ہو طلب گارِ جفا ہم
نے طبعِ پریشاں تھی نہ خاطر متفرق
وہ دن بھی عجب تھے کہ ہم اور آپ تھے باہم
کیا کرتے ہیں، کیا سنتے ہیں، کیا دیکھتے ہیں، ہائے
اس شوخ کے جب کھولتے ہیں بندِ قبا ہم
یہ طرزِ ترنم کہیں زنہار نہ ڈھونڈو
اے شیفتہ یا مرغِ چمن رکھتے ہیں، یا ہم
مر گئے ہیں جو ہجرِ یار میں ہم
سخت بے تاب ہیں مزار میں ہم
تا دلِ کینہ ور میں پائیں جگہ
خاک ہو کر ملے غبار میں ہم
وہ تو سو بار اختیار میں آئے
پر نہیں اپنے اختیار میں ہم
کب ہوئے خارِ راہِ غیر بھلا
کیوں کھٹکتے ہیں چشمِ یار میں ہم
کوئے دشمن میں ہو گئے پامال
آمد و رفتِ بار بار میں ہم
نعش پر تو خدا کے واسطے آ
مر گئے تیرے انتظار میں ہم
گر نہیں شیفتہ خیالِ فراق
کیوں تڑپتے ہیں وصلِ یار میں ہم
٭٭٭
مطبوع یار کو ہے جفا اور جفا کو ہم
کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم
دشنام بھی سنی نہ تمہاری زبان سے
ہے کوستی اثر کو دعا اور دعا کو ہم
افغانِ چرس رس کی لپٹ نے جلا دیا
نامے کو ڈھونڈتی ہے صبا اور صبا کو ہم
لاتا ہے ظنِ نیم تبسم سے جوش میں
دل کو قلق، قلق کو بُکا اور بُکا کو ہم
درماں مریضِ غم کا ترے کچھ نہ ہو سکا
چھیڑے ہے چارہ گر کو دوا اور دوا کو ہم
پھر کیوں نہ دیکھنے سے عدو کے ہو منفعل
پھر اس کو دوکھتی ہے حیا اور حیا کو ہم
ہیں جاں بلب کسی کے اشارے کی دیر ہے
دیکھے ہے اس نگہ کو قضا اور قضا کو ہم
ہے آرزوئے شربتِ مرگ اب تو شیفتہ
لگتی ہے زہر ہم کو شفا اور شفا کو ہم
٭٭٭
بچتے ہیں اس قدر جو اُدھر کی ہوا سے ہم
واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم
افشائے رازِ عشق میں ضرب المثل ہے وہ
کیوں کر غبار دل میں نہ رکھیں صبا سے ہم
چلتے ہیں مے کدے کو کہاں یہ عزیز واں
رخصت تو ہو لیں کبر و نفاق و ریا سے ہم
اے جوشِ رشکِ قربِ عدو، اب تو مت اٹھا
بیٹھے ہیں دیکھ بزم میں کس التجا سے ہم
ہے جامہ پارہ پارہ، دل و سینہ چاک چاک
دیوانہ ہو گئے گلِ جیبِ قبا سے ہم
کیا جانتے تھے صبح وہ محشر قد آئے گا
شامِ شبِ فراق نہ مرتے بلا سے ہم
ہر بات پر نگاہ ہماری ہے اصل پر
لیتے ہیں مشکِ زخم کو زلفِ دوتا سے ہم
بے گانہ جب سے یار ہوا ہے، رقیب ہے
اُمید قطع کر چکے ہر آشنا سے ہم
بلبل یہ کہہ رہی ہے سرِ شاخسار پر
بدمست ہو رہے ہیں چمن کی ہوا سے ہم
کم التفات ہم سے سمجھتے ہیں اہلِ بزم
شرمندہ ہو گئے تری شرم و حیا سے ہم
ہاں شیفتہ پھر اس میں نصیحت ہی کیوں نہ ہو
سنتے ہیں حرفِ تلخ کو سمعِ رضا سے ہم
٭٭٭
کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
دانائیوں سے اچھے ہیں نادانیوں میں ہم
شاید رقیب ڈوب مریں بحرِ شرم میں
ڈوبیں گے موجِ اشک کی طغیانیوں میں ہم
محتاجِ فیضِ نامیہ کیوں ہوتے اس قدر
کرتے جو سوچ کچھ جگر افشانیوں میں ہم
پہنچائی ہم نے مشق یہاں تک کہ ہو گئے
استادِ عندلیب، نواخوانیوں میں ہم
غیروں کے ساتھ آپ بھی اٹھتے ہیں بزم سے
لو میزبان بن گئے مہمانیوں میں ہم
جن جن کے تو مزار سے گزرا وہ جی اٹھے
باقی رہے ہیں ایک ترے فانیوں میں ہم
گستاخیوں سے غیر کی ان کو ملال ہے
مشہور ہوتے کاش ادب دانیوں میں ہم
دیکھا جو زلفِ یار کو تسکین ہو گئی
یک چند مضطرب تھے پریشانیوں میں ہم
آنکھوں سے یوں اشارۂ دشمن نہ دیکھتے
ہوتے نہ اس قدر جو نگہبانیوں میں ہم
جو جان کھو کے پائیں تو فوزِ عظیم ہے
وہ چیز ڈھونڈتے ہیں تن آسانیوں میں ہم
پیرِ مغاں کے فیضِ توجہ سے شیفتہ
اکثر شراب پیتے ہیں روحانیوں میں ہم
٭٭٭
کیوں نہ اڑ جائے مرا خواب ترے کوچے میں
فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں
دولتِ حسن یہاں تک تو لٹائی ظالم
اشک ہے گوہرِ نایاب ترے کوچے میں
جوششِ گریۂ عشاق سے اک دم میں ہوا
شجرِ سوختہ، شاداب ترے کوچے میں
ہوش کا پاؤں جو یاں آ کے پھسل جاتا ہے
کیا لنڈھائی ہے مئے ناب ترے کوچے میں
ہے کفِ پائے عدو، پا سے ترے رنگیں تر
بس کہ ہم روتے ہیں خوناب ترے کوچے میں
گوشہ گیری سے بھی گردش نہ گئ طالع کی
پھرتے ہیں صورتِ دولاب ترے کوچے میں
غیر نے سنگ جو پھینکے وہ ہوئے بالشِ سر
چین سے کرتے ہیں ہم خواب ترے کوچے میں
وہ بھی محروم نہیں جن کو نہیں بزم میں بار
تیرے رخسار کی ہے تاب ترے کوچے میں
چل دیا شیفتہ سودے میں خدا جانے کہاں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں احباب ترے کوچے میں
٭٭٭
کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں
کچھ زہر اگل رہی ہے بلبل
کچھ زہر ملا ہوا مے میں
بدمست جہان ہو رہا ہے
ہے یار کی بو ہر ایک شے میں
ہیں ایک ہی گل کی سب بہاریں
فروردیں میں اور فصلِ دَے میں
ہے مستئ نیم خام کا ڈر
اصرار ہے جامِ پے بہ پے میں
مے خانہ نشیں قدم نہ رکھیں
بزمِ جم و بارگاہِ کے میں
اب تک زندہ ہے نام واں کا
گزرا ہے حسین ایک جے میں
ہوتی نہیں طے حکایتِ طے
گزرا ہے کریم ایک طے میں
کچھ شیفتہ یہ غزل ہے آفت
کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
٭٭٭
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
فرشِ رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں
خاک ہو رونقِ گلزار ترے کوچے میں
سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں
گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں
نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام
نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں
ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا
لے گیا شوقِ غلط کار ترے کوچے میں
تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں
ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل
خلد میں روح، تنِ زار ترے کوچے میں
کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے "کہاں رہتے ہو؟"
ترے کوچے میں ستم گار! ترے کوچے میں
شیفتہ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
٭٭٭
شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں
تم سے وفا کروں کہ عدو سے وفا کروں
گلشن میں چل کے بندِ قبا تیرے وا کروں
جی چاہتا ہے جامۂ گل کو قبا کروں
آتا ہوں پیرِ دیر کی خدمت سے مست میں
ہاں زاہدو تمہارے لئے کیا دعا کروں
جوشِ فغاں وداع، کہ منظور ہے انہیں
دل نذرِ کاوشِ نگہِ سرما سا کروں
نفرین بے شمار ہے اس عمد و سہو پر
گر ایک میں صواب کروں سو خطا کروں
مطرب بدیع نغمہ و ساقی پری جمال
کیا شرحِ حالتِ دلِ درد آشنا کروں
تم دلربا ہو دل کو اگر لے گئے تو کیا
جب کاہ ہو کے میں اثرِ کہربا کروں
اے چارہ ساز لطف! کہ تو چارہ گر نہیں
بس اے طبیب رحم! کہ دل کی دوا کروں
پیتا ہوں میں مدام مئے نابِ معرفت
اصلِ شرور و امِ خبائث کو کیا کروں
یا اپنے جوشِ عشوۂ پیہم کو تھامئے
یا کہئے میں بھی نالۂ شورش فزا کروں
میں جل گیا وہ غیر کے گھر جو چلے گئے
شعلے سے استعارہء آوازِ پا کروں
ڈر ہے کہ ہو نہ شوقِ مزامیر شیفتہ
ورنہ کبھی سماعِ مجرد سنا کروں
مانا سحر کو یار اسے جلوہ گر کریں
طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں
تزئین میری گور کی لازم ہے خوب سی
تقریبِ سیر ہی سے وہ شاید گزر کریں
اب ایک اشک ہے دُرِ نایاب، وہ کہاں
تارِ نظر جو گریہ سے سلکِ گہر کریں
وہ دوست ہیں انہیں جو اثر ہو گیا تو کیا
نالے ہیں وہ جو غیر کے دل میں اثر کریں
آئے تو ان کو رنج، نہ آئے تو مجھ کو رنج
مرنے کی میرے کاش نہ ان کو خبر کریں
ہے جی میں سونگھیں نکہتِ گل جا کے باغ میں
بس کب تک التجائے نسیمِ سحر کریں
اب کے ارادہ ملکِ عدم کا ہے شیفتہ
گھبرا گئے کہ ایک جگہ کیا بسر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانیِ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں
واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں
کب ہاتھ کو خیالِ جزائے رفو نہیں
کب پارہ پارہ پیرہنِ چارہ جو نہیں
گلگشتِ باغ کس چمن آرا نے کی کہ آج
موجِ بہار مدعی رنگ و بو نہیں
واں بار ہو گیا ہے نزاکت سے بار بھی
یاں ضعف سے دماغ و دلِ آرزو نہیں
کس نے سنا دیا دلِ حیرت زدہ کا حال
یہ کیا ہوا کہ آئنہ اب روبرو نہیں
تغئیرِ رنگ کہتی ہے وصلِ عدو کا حال
یعنی نقاب رخ پہ کبھو ہے، کبھو نہیں
گستاخِ شکوہ کیا ہوں کہ اندازِ عرض پر
کہتے ہیں اختلاط کی بندے کی خو نہیں
کیا جانے دردِ زخم کو گو ہو شہیدِ ناز
جو نیم کشتِ خنجرِ رشکِ عدو نہیں
ابرِ سرشک و گلشنِ داغ و نسیمِ آہ
سامانِ عیش سب ہے پر افسوس تو نہیں
بد خوئیوں سے یار کی کیا خوش ہوں شیفتہ
ہر ایک کو جو حوصلۂ آرزو نہیں
٭٭٭
کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیں
اے دل یقین جان کہ ہم ہیں تو تو نہیں
بے اشکِ لالہ گوں بھی میں بے آبرو نہیں
آنسو میں رنگ کیا ہو کہ دل میں لہو نہیں
پھر بھی کہو گے چھیڑنے کی اپنی خو نہیں
عطرِ سہاگ ملتے ہو وہ جس میں بو نہیں
یہ کیا کہا کہ بکتے ہو کیوں آپ ہی آپ تم
اے ہم نشیں مگر وہ مرے روبرو نہیں
بے طاقتی نے کام سے یہ کھو دیا کہ بس
دل گم ہوا ہے اور سرِ جستجو نہیں
محفل میں لحظہ لحظہ وہ چشمِ ستیزہ خو
لڑتی ہیں کیوں اگر سرِ صلحِ عدو نہیں
کیا جوشِ انتظار میں ہر سمت دوڑ ہے
بدنامیوں سے ہائے گزر ایک سو نہیں
دی کس نے اشکِ سرمہ سے تیغِ مژہ کو آب
شورِ فغاں کو فکرِ خراشِ گلو نہیں
٭٭٭
یہ پیچ و تاب میں شبِ غم بے حواسیاں
اے دل! خیالِ طرہ تابیدہ مو نہیں
دستِ جنوں نے جامہ ہستی قبا کیا
اب ہائے چارہ گر کو خیالِ رفو نہیں
شکرِ ستم بھی راس نہ آیا ہمیں کہ اب
کہتے ہیں وہ کہ لائقِ الطاف تو نہیں
ہرجائی اپنے وحشی کو منہ سے یہ کہتے ہو
کیا آپ کا نشانِ قدم کو بکو نہیں
نیرنگیوں نے تیری یہ حالت تغیر کی
امید زندگی کی کبھو ہے، کبھو نہیں
کیا ہو سکے کسی سے علاج اپنا شیفتہ
اس گل پہ غش ہیں جس میں محبت کی بو نہیں
٭٭٭
ٹائپنگ: نوید صادق
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید