02:58    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ناول / افسانے

1641 0 0 00

پیاسا - کرشن چندر

پیاسا

نواب بڑا تریلا اور زنخا سا لونڈا تھا۔ زرینہ کو اس لئے پسند تھا کہ وہ زرینہ کے ہاتھوں سے پٹ کر رو دھو کر صبر کر لیتا تھا۔ وہ دوسرے لوگوں کی طرح بوریا بستر باندھ کر رخصت نہیں ہو جاتا تھا۔  اس کے گندمی چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ اور وہ بہت دبلا تھا اور بہت کھاتا تھا۔ اور سمجھ میں نہ آتا تھا جو تھا وہ کھاتا تھا کہاں جاتا ہے اس کی آواز میں ہلکی سے تتلاہٹ تھی۔ جب وہ کھڑا ہوتا تھا تو کبھی سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ کسی دیوار یا کسی دروازے سی لگ کر نیم دراز حالت میں یوں کھڑا ہوتا تھا کہ پاؤں فرش پر گھسیٹ رہے ہیں سر بائیں طرف لٹکا ہوا ہے تو کولھا دائیں  نکلا ہوا ہے۔ ایک ہاتھ ماتھے پر ہے تو دوسرے سے پیٹھ کھجا رہا ہے۔ نواب کی عورتوں کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر بات چیت کرنے کا شوق تھا۔ انہی کی طرح وہ فقرے چبا کے چٹا کر کے یا ربڑ کی طرح کھینچ کے بولتا تھا۔ مگر باہر کے کام میں بہت ہوشیار تھا۔ اس لئے اپنی تمام مضحکہ خیز اداؤں اور غمزدوں کے  باوجود قابل برداشت تھا۔ گھر کا باورچی تین دن سے غائب تھا اور نواب کو کچن میں کام کرنا پڑ رہا تھا حالانکہ اس صرف اوپر کے کام کے لئے رکھا گیا تھا۔ زرینہ لڑکیوں کے کالج میں پڑھانے جاتی تھی، میں اپنے دفتر جاتا تھا۔ اس لئے اگر نواب کھانا نہ پکائے تو کون پکائے اور اس سے مشکل مسئلہ یہ تھا۔  باورچی کون ڈھونڈے اور کب؟ یہاں کسی کو فرصت ہی میسر نہ تھی۔  نواب کو جب تین دن اور کچن میں بینگن بگھارنا پڑے اور لہسن کی چٹنی پیس کر کھڑے مسالے کا قورمہ تیار کرنا پڑا تو اس کی ساری تتلاہٹ اور نسائیت ختم ہو گئی۔ مردوں کو طرح بڑے کرخت اور جھلائے ہوئے لہجے میں بول پڑا صاحب ہم سے نہیں ہوتا۔ ہم کو ایک دن کی چھٹی دو۔ ہم آپ کے لئے ایک باورچی ڈھونڈ کے لائے گا۔  کوئی باورچی ہے تمہاری نظر میں ، زرینہ نے اس کی جھجھلاہٹ پر مسکرا کر پوچھا۔  کچن سے باہر آ کر نواب کو جو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لگے تو اس کے  مزاج کی نسائیت پھر ابھرنے لگی اس پر اسے گھر کی مالکن کی مسکراہٹ جو ملی اور بھی پھیل گئے۔ آپ نے ایک کندھا اوپر ا چکایا اور دوسرا نیچے کیا بایاں  کولہا اندر کی طرف جھکایا، دایاں کولہا ذرا سا باہر نکالا اور اپنے دونوں ہاتھ ادا سے ملتے ہوئے بولے اب لائیں گے، کہیں نہ کہیں سے آپ کے لئے ‫‫باورچی۔  نواب نے اپنے دیدے گھماتے ہوئے باورچی کا مسئلہ ایک پراسرار سیاسی راز کی طرح ہمارے سامنے کچھ اس طرح پیش کیا کہ جی جل کے کباب ہو گیا۔ جی چاہا سالے کو کو دوں جھانپڑ اور اس کی ساری اتراہٹ نکال دوں مگر ضرورت باورچی کی تھی۔ اور باورچی ڈھونڈنے کی فرصت مجھے نہ تھی۔ نہ زرینہ کو اس لئے نواب کو ایک دن کی چھٹ دینی پڑی۔  ایک دن کے بعد اتوار تھا۔ میں اپنے کمرے میں بیزار بیٹھا ہوا تھا ملگجی صبح کی نیلی نیلی روشنی میں اپنا سر خود ہی ہولے ہولے دبا رہا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اپنا سر ٹوتھ پیسٹ کے ٹیوب کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ جب تک دباؤ نہیں  کچھ نکلتا نہیں اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ نواب دونوں ہاتھوں سے دروازے کی پٹ تھامے گردن ایک طرف لٹکائے نیم باز آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے  ہیں ۔ میں ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہنس پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ہم باورچی لے آئے  کدھر ہے۔ میں نے ڈپٹ کر پوچھا۔  نواب خائف ہو کر ذرا سے سیدھے ہوئے اپنے دونوں بازوں دروازے کی پٹ اتار کر اپنی کمر پر رکھ لئے۔ پھر ذرا پیچھے ہٹ کر کسی اور کو راستہ دے کر بولے، اندر چلے آؤ۔  کالا دبلا پتلا کرنجی آنکھوں والا آدمی اندر آیا، عمر کوئی پینتیس برس کی ہو گی۔ چھوٹے چھوٹے کالے ہونٹ چھوٹ چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں تنگ ما تھا، بال الجھے ہوئے گال اندر دھنسے ہوئے، دانتوں کی ریخوں میں پان کا بھورا میل نمایاں شیو کے باوجود ٹھوڑی پر کہیں بال رہ گئے تھے، عجب کراہت سی محسوس ہوئی۔  تم باورچی ہو میں نے اس سے پوچھا۔  جی۔  کیا نام ہے تمہارا؟ اوم پر کاش۔  میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ پھر نواب سے کہا۔ اسے بیگم صاحب کے پاس لے جاؤ۔ وہ دیکھ لیں اور چاہیں تو رکھ لیں ۔  دوپہر کے کھانے میں شاہجہانی قورمہ اور شملہ مرچ میں بھرا قیمہ تھا۔ اور دم کئے ہوئے آلو تھے۔ مٹر پلاؤ اور رائتہ اور دو طرح کا میٹھا شاہی ٹکڑے اور وردھی حلوہ ہر چیز عمدہ اور نفیس تھی۔ صحیح ذائقے والی۔ میں نے خوش ہو کر کہا اوم پر کاش کھانا تم ٹھیک پکا لیتے ہو۔  اوم پرکاش، زرینہ میری طرف حیرت سے دیکھ کر بولی مگر اس کا نام تو اشتیاق ہے ؟ میں نے باورچی کی طرف دیکھا، جو ایک کونے میں دونوں ہاتھ اپنی ناف پر رکھے کھڑا تھا اور مجھے دیکھنے کی بجائے زمین کو دیکھ رہا تھا۔  کیوں بے تم نے مجھے اپنا نام غلط کیوں بتایا، میں نے باورچی سے پوچھا۔  بولا۔ صاحب آپ کے کمرے میں آیا اور آپ کو دیکھا تو ایسا لگا کہ شاید آپ ہندو ‫‫ہیں تو میں نے آپ کو اپنا نام اوم پرکاش بتایا، پھر میں بیگم صاحب کے کمرے  میں گیا تو مجھ کو ایسا لگا جیسے وہ مسلمان ہیں تو میں نے ان کو اپنا نام اشتیاق بتا دیا۔  مگر بے وقوف، تم اک کمرے میں اوم پرکاش اور دوسرے میں اشتیاق کیسے  ہو سکتے ہو۔  دلی میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ صاحب ایک گھر میں اوم پرکاش تو دوسرے گھر میں  اشتیاق بتانا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹ روٹی مانگتا ہے صاحب، اس نے کسی قدر شکایت لہجے میں کہا، اور اس کے لہجے سے یہ بھی معلوم ہوتا تھا جیسے شکایت اس امر کی نہیں ہے کہ اسے اپنا نام غلط کیوں بتانا پڑا بلکہ اس بات کی ہے کہ پیٹ روٹی کیوں منگتا ہے۔  اگر گرمیوں کے دن تھے دوپہر میں جب جبس بڑھنے لگا، تو میں گھبرا کر دوبارہ نہانے کے لئے باتھ روم میں جا گھسا ٹونٹی گھما کر معلوم کیا کہ شاور خراب ہو چکا ہے نواب کو آواز دی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے تلوؤں میں تیل چڑھا رہا ہے، اشتیاق بھاگا بھاگ آیا، میں نے اس سے کہا۔ چوک میں جا کر منشی پلمبر کو بلاؤ۔ شاور خراب ہے۔  میں ٹھیک کئیے دیتا ہوں ۔ اشتیاق بولا تم۔  وہ سر جھکا کر بڑی عاجزی سے بولا، جی میں پلمبنگ کا کام بھی جانتا ہوں ۔  پانچ منٹ میں اس نے شاور ٹھیک کر دیا۔  شام کو بجلی کا پیڈسٹل پنکھا جو صحن میں خراب ہو گیا۔ زرینہ نے نواب کو آواز دی تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی دوپہر کی نیند سے فارغ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اشتیاق کو بلایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ وہ چوک میں پنکھے والے کے پاس چلا جائے اور اپنے سامنے پنکھا درست کرا کے لائے، بہت گرمی ہے آج تو رات بھر صحن میں پنکھا چلے گا اشتیاق نے گہرے تجسس سے پنکھے کا معائنہ کیا معائنہ کرنے کے بعد اس نے اپنے دونوں بازو اپنی ناف پر رکھ لئے۔ بولا حضور میں یہ پنکھا ٹھیک کر سکتا ہوں ۔  کیا تم پنکھے کا کام بھی جانتے ہو۔ میں نے اس سے پوچھا۔  سر جھکا کر بولا جی بجلی کا کام بھی جانتا ہوں ، پنکھا فٹ کر لیتا ہوں ، ابھی کر کے دکھاتا ہوں ۔  ڈیڑھ گھنٹے میں پیڈ سٹل فین فرفر چلنے لگا میں نے اشتیاق کو نئی نظروں  سے۔ وہ کچھ مسکرایا۔ آخر میں اکڑ کر کچھ سمیٹ کر کچھ دبک کر کچن میں چلا گیا۔  رات کو کھانے میں رام پوری چکن تھا۔ چکن کاٹو تو اندر بریانی ملتی ہے۔  بریانی ہٹاؤ تو اندر چکن چاٹ نظر آتی ہے۔ چکن چاٹ کھا لو تو اندر انڈوں کا خاگینہ ملتا ہے اور بادام اور کشمش کے ساتھ عجیب بھول بھلیاں قسم کی ڈش تھا۔ مگر ستھری اور مزے دار میں نے ایک روپیہ انعام دیا تو جھک کر سات بار ‫‫کورنش بجا لائے بولے آپ نے انعام دیا ہے یہ ہے بندے پر ا کرام۔  ارے میرے منہ سے نکلا۔  جی ہاں سر جھکا کر بولے۔ میں شاعر بھی ہوں میرا تخلص تنہائی ہے۔  میری طبعیت شاعروں سے بہت الجھتی ہے سنا ہے ہر وقت پان کھاتے رہتے  ہیں اور شعر اگلتے رہتے ہیں پہلے جی چاہا آج ہی جواب دے دوں ۔ پھر اگلے  بیس روز میں معلوم ہوا کہ حضرت بیس بائیس دوسرے پیشے بھی جانتے ہیں ۔  کرسیاں بن لیتے ہیں ۔ مونڈھے ٹھیک کر لیتے ہیں ۔ لکڑی کا ٹوٹا پھوٹا سامان بھی ٹھیک کر لیتے ہیں ۔ کیونکہ بڑھئی کا کام بھی سیکھا ہے۔ سینما کے گیٹ کیپر بھی رہ چکے ہیں ۔  گنڈیریاں بیچی ہیں ۔ پنواڑی کے ہاں بھی کام کیا ہے۔ ٹھیلا کھینچا ہے۔ کھلونوں  کی فیکٹری میں کام کیا ہے حجام یہ رہ چکے ہیں ۔ سالئی سے لے کر دھلائی تک کے سب مراحل یہ پیشہ ور کی حیثیت سے پرکھ چکے ہیں ۔ بڑے عمدہ مالشئے  بھی ہیں ، سر کی چمپی کے استاد ہیں ۔ کن ملئے بھی ہیں اور چاٹ بنانا بھی جانتے ہیں اور سب سے بڑی یہ بات کہ انتہائی کم خوراک ہیں ۔ زرینہ کو ان کی عادت بہت بھا گئی ہے کیونکہ وہ نواب کی اشتہا سے عاجز رہتی ہے اس لئے  اس نے دھیرے دھیرے گھر کا سارا کام اشتیاق کو سونپ دیا۔  دو ماہ میں اشتیاق کا سکہ گھر میں جم گیا اس طرح بھاگ بھاگ کے کام کرتا تھا کہ نواب اور بھی کاہل اور ناکارہ ہوتا گیا اور میں نے دیکھا کہ اشتیاق بھی یہی کچھ چاہتا تھا عمر میں نواب اشتیاق سے سترہ اٹھارہ برس چھوٹا ہو گا مگر تھوڑے ہی عرصے میں نواب اشتیاق سی ایسا سلوک کرنے لگا جیسے وہ مالک ہو اور اشتیاق اس کا غلام ہو، پہلے تو میں یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ جذبہ احسان مندی میں ہو رہا ہے اور بعد میں خیال آیا ممکن ہے اشتیاق نواب پر عاشق ہو گیا ہو حالانکہ نواب پر عاشق ہونا بڑے دل گردے کی بات ہے۔  اس کے لئے ضروری ہے کہ عاشق کی آنکھوں کی بینائی بہت کمزور ہو جس کی سماعت تقریباً نہ ہو اور کوئی لطیف جذبہ دل میں نہ ہو، بعد میں معلوم ہوا کہ میرا یہ خیال بھی صحیح نہ تھا اشتیاق نہ نواب کو اپنا محسن سمجھتا تھا اور نہ اس پر فریفتہ تھا بس اس دوسروں کھلانے کا مرض تھا اور دوسروں کو کھلا پلانے میں اک عجیب سی خوشی محسوس کرتا تھا۔ چونکہ وہ خود کم کھلاتا تھا اس لئے وہ اپنے حصے کی خوراک بھی نواب کو منتقل کر دیتا، ہمارے بعد اس کے لئے سالن کا بہترین حصہ مخصوص کر دیتا۔ پہلے اسے کھلاتا اور پھر خود کھاتا ہولے ہولے نواب نہ کام میں دلچسپی لینا بالکل ختم کر دی کسی بڑی بی کی طرح ایک کھٹیا پر آ کر پڑا رہتا اور میں نے دیکھا کہ اشتیاق اس کی فرضی بیماری بڑھا چڑھا کر بیان کرنے میں بڑا مزا لیتا تھا اور اسے کھٹیا پر مستقل آرام کرنے کا مشورہ دیتا اس کے لئے بازار سے دوا لاتا اور پھل سگریٹ اور بیڑی کے پیسے بھی خود دیتا کبھی کبھی ایک آدھ بش شرٹ اور پاجامہ پتلون بھی سلا دیتا۔ ہولے ہولے اشتیاق کی تنخواہ کا بیشتر حصہ نواب پر خرچ ہونے  لگا۔ اور نواب اپنی تنخواہ کی کل رقم بچا کر ماں کو علی گڑھ بھیجنے لگا۔  

‫‫زرینہ نے کئی بار اشتیاق کو سمجھایا اسے اپنی تنخواہ جمع کرنے کے فائدے  سمجھائے مگر اشتیاق پر اس کے سمجھانے بجھانے کا کوئی اثر نہ ہوا مسکرا کر بولا۔ بیگم صاحبہ بچہ ہے۔ کھا لیتا ہے تو کیا کرتا ہے۔  ارے تم اپنے لئے بھی کچھ کر لو کم بخت۔ زرینہ چٹ کر اسے کہتی۔ دوسروں  کے لئے کیوں مرتا ہے۔  میرا آگے پیچھے کون ہے بیگم صاحب۔ اشتیاق گردن جھکا کر جواب دیتا۔ بھائی نہیں ۔ بہن نہیں ۔ ماں نہیں ۔ باپ نہیں ۔ سب بھرت پور سے فسادوں میں مادے گئے۔  میرا سینہ ہر وقت خالی خالی سا رہتا ہے۔  کچھ دنوں بعد نواب کی ماں کا خط علی گڑھ سے آیا اس نے نواب کے لئے ایک لڑکی ٹھیک کر لی تھی۔ دو ماہ بعد شادی تھی ماں اسے بلا رہی تھی۔ غفور سائیکل والا جس کے ہاں دہلی آنے سے پہلے نواب کے لئے تیار ہو گیا۔ ہم بھی اندر سے بہت خوش تھے کیونکہ اب تو تقریباً مفت کی کھاتا تھا ورنہ سارا کام اشتیاق نے سنبھال لیا تھا۔ زرینہ نے بھی طے کر لیا تھا نواب کے جانے کے بعد دوپہر کے کام کے لئے کسی کو نہ رکھے گی اشتیاق کی موجودگی میں کسی دوسرے نوکر کی ضرورت نہیں تھی۔  زرینہ بولی نواب کی شادی ہو رہی ہے اب تو بھی شادی کر لے، اشتیاق میں  تیری بیوی کو رکھ لوں گی، مجھے ایک ملازمہ کی ضرورت ہے۔  شادی کے نام پر میں نے دیکھا کہ اشتیاق کچھ چڑ سا گیا اس کی بھنویں تن گئیں  تنگ ماتھے پر بالوں کی لٹیں ڈولنے لگیں اور اس کے چھوٹے سے ہونٹ پھڑکنے لگے۔ مگر وہ کچھ نہ بولا سر جھکا کر کھانے کہ کمرے میں سے باہر نکل گیا اس کے جانے کے بعد نواب کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی کھانے کی میز کے قریب آ کر بڑی راز داری سے بولا ارے صاحب یہ کیا شادی کرے گا اس کی بیوی تو ا س کو شادی کے دوسرے دن ہی چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔  کیوں ؟زرینہ نے پوچھا۔  معلوم نہیں بیگم صاحب یہ کچھ بتاتا تو ہے نہیں۔  چند منٹ بعد ہم لوگ کھانا کھا کر صحن میں ہاتھ دھونے کے لئے آئے تو دیکھا اشتیاق کچن میں میلے برتن اور راکھ کا ڈھیر اپنے سامنے رکھ کر خال میں  گھور رہا ہے اور اس کی چھوٹ چھوٹ آنکھیں کسی نا معلوم جذبے سے بھیگ کر تار سی چمک رہی تھیں ، مجھے اشتیاق میں دلچسپی پیدا ہوئی۔  آٹھ دس روز بعد نواب نے علی گڑھ جانے کا پروگرام بنایا۔ ا سکے جانے پر اشتیاق چپکے چپکے بہت رویا، اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور ہونٹوں کے  کونے بے طرح پھڑکتے تھے۔ مگر زبان سے اس نے کچھ نہیں کہا، اس نے  نواب کے لئے سفری ناشتہ تیار کر لیا، حالانکہ صرف ڈھائی گھنٹے کا سفر تھا مگر قیمے کے پراٹھے اور سرخ مرچوں کا اچار اور آلو کا بھرتا اور بیسنی روٹی مکھن کی ایک گولی وہ نواب کی بھوک سے واقف تھا خود اپنے خرچ سے اس نے نواب کا ناشتہ تیار کیا تھا۔ اس لئے ہم شکایت بھی کر سکتے تھے۔  

‫‫وہ خود نواب کے لئے ا سکوٹر لے آیا اس کا سامان ا سکوٹر پر رکھا اور اسے  پرانی دلی کے اسٹیشن پر گاڑی میں سوار کرا کے واپس آیا۔  دو دن تک اس طرح مضطرب اور بے چین پھرتا رہا، جیسے اس کا گھر لٹ گیا ہو اور وہ کسی اجاڑ ویرانے میں گھوم رہا ہو۔ کھانے کا معیار ایک دم گر گیا تھا، قورمہ اس کے جذبے کی طرح تلخ تھا اور قلیہ اتنا پتلا جیسے کسی نے اس کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہو، چپاتیاں بے ڈول اور بے ڈھنگی اور ان پر جگہ جگہ مایوسی کی راکھ لگی ہوئی تھی وہ دو دن تک ہم نے کسی نہ کسی طرح صبر کر کے کھانا زہر مار کیا اور یہ سوچ لیا کہ اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو اشتیاق کے جواب دینا پڑے گا۔  مگر وہ دو دن بعد اشتیاق سنبھل گیا کہیں سے وہ ایک بلی بچہ اٹھا لایا۔ اور اب وہ بلی کا بچہ اشتیاق کی توجہ کا مرکز بن گیا گھر کا کام کرنے کے بعد وہ اپنا سارا وقت جو اس سے پہلے نواب کو دیتا تھا۔ اب بلی کے بچے کو دیتا تھا اور اپنی تنخواہ کا کافی حصہ بلی کے لئے دودھ اور گوشت پر خرچ کرنے لگا اور یوں دیکھا جائے تو بلی کا بچہ نواب سے کچھ کم نہیں تھا۔ اور اس کے عشوے و نخرے بھی نواب سے کم نہ تھے اور وہ اتنا ہی اتریلا تھا اور ویسے ہی ادائیں  دکھاتا تھا اور دو دن میں اشتیاق سنبھل گیا اور کھانے کا اور کھانے کا معیار بھی ٹھیک ہوتے ہوتے پھر اپنی اصل حالت پر آگیا اور ہم لوگوں نے چین کا سانس لیا۔  اشتیاق کسی کام کو ناں نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ وہ اپنی دانست میں سب کچھ جانتا تھا یہ کسی شیخی خورے کی عادت نہ تھی اس قدر احساس کہ مجھے یہ کام بھی کر کے دکھا دینا چاہئیے اسے اپنے ذاتی وقار کے تحفظ کا بہت خیال تھا۔  اور ایک عجیب سی لگن تھی اس کے دل میں جو اسے ہر کام کو پورا کرنے  کے لئے اکساتی تھی چاہے وہ اسے جانتا ہو یا نہ جنتا ہو کئی دنوں سے ریڈیو خراب پڑا تھا اور چونکہ میں ریڈیو کا کام اچھی طرح جانتا ہوں اس لئے زرینہ نے مجھے کئی بار ٹھیک کرنے کے لئے کہا مگر دفتر کی طویل جھک جھک کے بعد ذہن اور جسم دونوں اس قدر تھک جاتے ہیں کہ ریڈیو کھولنے اور ٹھیک کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں ؟ میں یہ کام آج اور کل پر ٹالتا رہا۔  ایک دن دفتر سے جو آیا تو دیکھا ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں پورا ریڈیو کھلا پڑا ہے اور اشتیاق گھبرائی ہوئی حالت میں اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور زرینہ قریب کھڑی ہوئی رونکھی ہو رہی ہے۔ میں نے  آنکھوں کے اشارے ہی اشارے میں پوچھا کیا بات ہے ؟ زرینہ بولی۔ اشتیاق نے  کہا تھا میں یہ ریڈیو ٹھیک کر دوں گا اور تمہیں کئی دن سے فرصت نہیں مل رہی ہے۔ اس لئے میں نے اشتیاق کا کام پر لگا دیا۔ وہ ڈھائی گھنٹے سے یہ کام کر رہا ہے۔ حالانکہ تم نے بتایا تھا کہ معمولی سا نقص ہے۔  میں معاملے کی نزاکت سمجھ گیا۔ اشتیاق اپنے چھوٹے سے ماتھے پر بال گرائے  مجھ سے آنکھیں چرائے ریڈیو پر کام کر رہا تھے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ریڈیو

‫‫کھول تو لیا ہے مگر اب جوڑنا نہیں آتا پھر چہرے پر پسینہ پھوٹ پڑا تھا میں  نے زرینہ کو باہر بھیج دیا اور خود اشتیاق کے ساتھ کام کرنے میں مصروف ہو گیا، مگر میں نے اشتیاق کو بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ مجھے معلوم ہے  کہ اسے یہ کام نہیں آتا، بلکہ میں نے اس طریقے پر کام آگے بڑھایا جیسے ہر کام اشتیاق کی مرضی ہو رہا ہے۔ گھنٹے بھر میں ریڈیو ٹھیک ہو گیا۔ زرینہ بہت خوش ہوئی اس نے اشتیاق کو دو روپے انعام دیا مگر چند دنوں بعد پھر اشتیاق کی شامت آئی، زرینہ نے کہیں اس سے پوچھا۔ کیا تم رس گلے بنا سکتے ہو؟۔  جی ہاں ۔ اشتیاق فوراً بولے۔  ایک دن بنا کے دکھاؤ؟ آج کی رات ہی کو بناؤں گا۔  رات کے کھانے کے بعد دیر تک اشتیاق کچن میں کچھ کھڑ پڑ کرتا رہا۔  انگیٹھی سے دیر تک دھواں سلگتا رہا، منہ میں بیڑی جلتی رہی، ماتھے کے بال الجھتے رہے اور کچن کی زرد روشنی دیر تک صحن میں اپنا سر ٹپکتی رہی۔  کوئی ایک بجے کے قریب کچن کی بتی بجھی اور اشتیاق نے دوسرے دن صبح ناشتے میں برف کے ٹھنڈے رس گلے تازے اور عمدہ گلاب کی خوشبو سے  مہکتے ہوئے پیش کئے۔  یہ رس گلے تم نے بنائے ہیں ۔ زرینہ نے حیرت سے پوچھا۔  جی اسی خاکسار نے۔ اشتیاق دروازے سے لگ کر نظریں جھکا کر پاؤں سے  فرش کریدنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔  بالکل بازار کے سے معلوم ہوتے ہیں ۔ زرینہ نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔  یہ ہی تو ان کی خوبی ہے۔ میں نے کہا۔ سیدھی بازار سے لائے گئے ہیں ۔  جی نہیں ۔ اشتیاق نے زور سے احتجاج کیا۔  اس کے احتجاج کی شدت دیکھ کر زرینہ کا شبہ اور بھی بڑھ گیا۔ بولی تو آج رات میرے سامنے رس گلے بناؤ، میں خود دیکھوں گی۔  جی بہت اچھا۔  اشتیاق نے رس گلوں کے سلسلے میں ایک فہرست پیش کی ج منظور کر دی گئی دوپہر میں بہت دیر تک اشتیاق بازار میں رہے۔ سر شام زرینہ نے ان کے  جھولے کی تلاشی لی کہ کہیں وہ رس گلے بازار سے نہ لے آئے ہوں ، رات کو کھانے کے بعد اشتیاق نے بڑے اہتمام سے رس گلے بنانے کا کاروبار کچن میں  پھیلا دیا زرینہ نے گھر اندر سے بند کر کے تالا لگا دیا اور ہر پندرہ بیس منٹ بعد کچن میں جھانک لیتی تھی۔ کوئی دو بجے کے قریب جب نیند کا غلبہ ہونے  لگا تو رس گلے تیار ہو گئے۔ اشتیاق ایک تاب میں رس گلے لے کر آئے  تھے۔ کھانڈ کے معطر شیرے میں فینائل کو گولیوں سے بھی دو تہائی کم حجم کی سفید سفید گولیاں تیر رہی تھیں ۔ زرینہ چیخی ارے یہ رس گلے ہیں بکری کی مینگنی کے برابر؟ ابھی چھوٹے ہیں ۔ دیکھئے سمجھئیے بیگم صاحب اور یہ رس گلے ابھی چھوٹے  ہیں مگر رات بھر شیرا پئیں گے، صبح کو پھول کر پورا رس گلا ہو جائیں گے۔  

‫‫اشتیاق نے سمجھایا۔  زرینہ کو یقین نہ آیا مجھے مگر نیند کا غلبہ شدید تھا اس لئے ہم سو گئے۔ صبح جب ناشتے پر پورے حجم کے بڑی گولائی کے سفید رس گلے کھانے  کو ملے۔ کسی طرح یقین نہ آتا تھا کہ رات کو کونین کی گولیاں کے برابر حجم والے رس گلے پھول کر اس قدر بڑے ہو گئے تھے۔ مگر رات بھر کون جاگے  اور کون چوکیداری کرے ؟ اشتیاق ضرور صبح صبح بازار سے رس گلے خرید لائے ہوں گے اور رات کی گولیاں انہوں نے نالی میں بہا دی ہوں گی۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے ؟جو شخص اپنے ذاتی وقار کی خاطر رات بھر جاگ سکتا ہے اور اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے دوسروں کو رس گلے کھلا سکتا ہے محض اپنی صامت کی اہمیت جتانے کے لئے اس سے الجھنا بے کار ہے۔  جوں جوں بلی کا بچہ بڑا ہوتا گیا، اشتیاق کا جذبہ اور بڑھتا گیا، جند ماہ میں  ہمارے سامنے ایک خوبصورت بلی صحن میں گھومتی تھی، جس کے بال مکھن کی طرح ملائم تھے جو ایک انتہائی میٹھی سرگرمیوں میں خر خر کرتی تھی، اور جب گردن نیوڑھا کے آنکھیں جھپا کے اشتیاق کی طرف دیکھتی تو وہ بے چارہ دل تھام کے رہ جاتا تھا۔ تھی بھی قیامت کی حرافہ، موٹ گل کو تھلی سی، کبھی دھیرے دھیرے مٹک مٹک کر چلتی، کبھی ایک دم چنچل ہو کر چھلانگ لگاتی اور اشتیاق کے کندھے پر جا کر بیٹھ جاتی اور پیار سے اس کی گردن چاٹنے لگتی۔ کبھی اون کا گولہ بنی ہوئی پائنتی بیٹھ کر دھوپ کا مزا لیتی کبھی اس کی باہوں میں پوری طرح پھیل کر بیٹھ جاتی، عورت کی پوری سپردگی کے ہزار انداز میں کبھی شریر تغافل، ادا سے ایک مست انگڑائی لیتی، اور جب اشتیاق ایک عجیب مسرت اور حسرت سے اس کی طرف دیکھے  لگتا۔ اشتیاق نے اس کا نام گلشن رکھا تھا، مگر پیار کی اہمیت میں اسے صرف گلو کہہ کر پکارتا تھا۔  ایک دن میری غیر حاضری میں اشتیاق نے رزینہ کے بیڈ روم میں دستک دی سڑیوں کے دن آ چکے تھے اس لئے رزینہ صبح ختم ہونے کے باوجود اپنے  نائٹ گون میں ملبوس ایک سوئیٹر بن رہی تھی۔ کون ہے زرینہ نے پوچھا۔  میں ہوں اشتیاق۔  اندر آ جاؤ۔ زرینہ بولی۔  کاغذ پنسل لئے ہوئے اشتیاق جھکتے جھکتے ہوئے انتہائی مودبانہ انداز میں  دروازے سے لگ کر کھڑا ہو گیا، پھر اس نے چپکے سے کاغذ اور پنسل آگے  بڑھا دیا اور بولا لکھئیے۔  زرینہ بولی۔ کیا کل کا حساب ابھی نہیں ، بعد میں دیکھوں گی۔  حساب نہیں ہے۔  پھر کیا ہے ؟ آپ لکھئیے تو۔ اشتیاق بار بار کاغذ پینسل آگے بڑھا رہے تھے۔  آخر ہے کیا؟

‫‫ایک غزل کے تین شعر ہوئے ہیں ۔  زرینہ چند لمحوں کے لئے بھونچکی رہ گئی، پھر اس کے دل میں ہنسی پھوٹنے  لگی اور مسکرا کر بولی۔ تم خود نہیں لکھ سکتے ؟ جی نہیں میں نہ لکھ سکتا ہوں نہ پڑھ سکتا ہوں ۔  مگر شعر کہہ سکتے ہو۔ زرینہ نے فقرہ مکمل کیا۔  جی، جی بالکل کہہ سکتا ہوں ، آپ لکھئیے میں بولتا ہوں ۔ کہے زرینہ نے زچ ہو کر کہا۔  اشتیاق نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ایک عجیب محویت کے عالم میں بولا۔  تنہائی میرا کام ہے گلشن تیرا نام ہے جو ہو سو ہو ہم مرتی ہیں تہہ پر تو ڈرتی ہے مجھ سے جو ہو سو ہو۔  مگر اس کی بحر کیا ہے ؟ زرینہ نے پوچھا۔  بحر؟ اشتیاق نے حیرت سے آنکھیں کھول کر پوچھا۔ بہر حال غزل تو غزل ہے۔  مگر اس کا وزن۔ زرینہ نے پھر توجہ دلائی۔  بڑی وزنی غزل ہے بیگم صاحب آپ لکھئیے تو اشتیاق نے کامل دل جمی سے  کہا۔  بڑی مشکل سے زرینہ نے اپنی ہنسی روکی بولی آگے چلئے۔ اشتیاق نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور گہرے مراقبے میں جا کر بولے۔  تیری جدائی میں ہوئے ہم مست فگار جو ہو سو ہو۔  کہتا ہے تنہائی اب گلشن میں کون آیا جو ہو سو ہو۔  زرینہ نے پوچھا۔ کہتا ہے تنہائی، مگر تنہائی تو مونث ہے۔  مگر تنہائی تو میرا تخلص ہے اور میں مونث ہوں ؟ اشتیاق نے سمجھایا۔  اس کے چہرے پر کچھ ایسی مسکراہٹ تھی، جیسے وہ کہنا چاہتا ہو۔  اجی بیگم صاحبہ یہ شعر و شاعری ہے آپ کیا جانیں ۔  اور یہ مست فگار کہاں کی ترکیب ہے تنہائی صاحب۔ زرینہ نے پھر پوچھا۔  ہمارے مراد آباد میں ایسا ہی بولتے ہیں ۔ اشتیاق نے جواب دیا۔  زرینہ نے ایک دم کاغذ اور پینسل بیڈ روم کی کھڑی سے باہر پھینک دئیے گرج کو بولی اشتیاق آج کے بعد تو نے مجھے اپنا کوئی شعر سنایا تو کھڑے کھڑے  گھر سے باہر نکال دوں گی، اشتیاق کھسیا کر سر کھجانے لگے بے حد محجوب اور شرمندہ سے دکھائی دے رہے تھے۔ زرینہ کو اس پر رحم آگیا مجرم لہجے  میں مسکرا کر کہنے لگی میرے خیال میں اگر آپ شعر و شاعری چھوڑ کر ناول نگاری کی طرف توجہ کریں تو بہتر ہو گا۔  کیا نام ہے اس ناول کا؟ لائف اینڈ کک۔ ۔ ۔ ۔ اشتیاق انگریزی میں بولے  اشتیاق کی انگریزی ایسی تھی جیسے پرانے زمانے میں ان باورچیوں کی ہوا کرتی تھی۔ جو انگریزوں کے پاس کام کیا کرتے تھے۔ یا آج کے ان مزدوروں کی جو ان پڑھ ہونے کے باوجود ٹیکنیکل دھندوں میں پڑ جاتے ہیں یہ انگریزی بڑی مختصر اور جامع ہوتی ہے اور بالعموم مصدر کی محتاج نہیں مگر اپنا ‫‫مفہوم ادا کرنے میں اس کی انگریزی سے کہیں بہتر ہوتی ہے جسے آج کے  طالب علم میٹرک تک پڑھتے ہیں ۔  ایک دن جب اشتیاق میرے سر کی چمپی سے فارغ ہو چکا ت میں نے اس سے  کہا تم اتنے سارے دھندے جانتے ہو، اگر تم کوئی ایک دھندا پکڑ کر بیٹھ جاتے  تو غالباً  بہت ترقی کر جاتے۔  صاحب میرا کسی کام میں زیادہ دیر تک جی نہیں لگتا۔ اشتیاق ایک چھوٹے سے  تولیا سے اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولا سال چہ ماہ ایک دھندا کیا پھر دوسرے میں چلا گیا، اسی طرح زندگی کے پینتیس چھتیس برس گزر گئے باقی بھی گزر جائیں گے۔  تو تم کسی ایک دھندے میں جی کیوں نہیں لگاتے ؟میں نے پوچھا جی نہیں لگتا۔ اشتیاق سر جھکا کر کسی اقبالی مجرم کی طرح شرمندہ ہو کر بولا۔  میرا سینہ ہر وقت خالی خالی سا رہتا ہے۔  میاؤں ۔ دروازے پر گلو تشریف لائیں اور وہ منہ اٹھا کر بڑی بڑی آنکھوں سے  اشتیاق کی طرف دیکھنے لگی اشتیاق نے اسے گود میں اٹھا لیا اور اس کے  بالوں پر دھیرے دھیرے پھیرتے ہوئے بولا، گلو بھوکی ہے اسے دودھ دے آؤں ۔  اشتیاق پر کبھی کبھی ذہنی عشق کے لمبے لمبے دورے پڑتے ہیں ۔ جبکہ وہ خود گھنٹوں اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا کچن میں غائب بیٹھا رہتا تھا۔ جانے کیا سوچتا ہے، خود ہی مسکراتا ہے خود ہی گھورتا ہے خود ہی سلگنے لگتا ہے، کبھی کبھی منہ میں کیا جانے کیا بڑ بڑا نے لگتا ہے۔ کیا گزرتی ہے اس پر وہ کون سا کرب ہے جو اسے اندر ہی اندر کھائے جاتا ہے کون جانے کچھ بتاتا تو ہے نہیں  کبھی کبھی نشہ بھی کرتا ہے قیاس غالب ہے جب دل کی گھٹن اور سینے کا سونا پن جد سے آگے بڑھنے لگتا ہے تو کوئی نشہ ضرور کر سکتا ہے، اور دو دن کے بعد جب وہ ہوش میں آ جاتا ہے تو اصرار کرتا ہے کہ، دن نہ بدلہ نہ تاریخ بدلی ہے نہ اس نے کوئی نشہ کیا ہے۔ اور ہم بھی اس لئے چپ رہتے ہیں ، یہ کام بہت اچھا کرتا ہے ماہر ہی نہیں آرٹسٹ بھی ہے۔ اپنے کام کا اور فن کاروں کے دماغ کی ایک چول ڈھیلی ہوتی ہی ہے، یہ سب جانتے ہیں ۔  اس لئے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے اس سے کہا حیدر آبادی بینگن بنائے اور وہ لے آئے،کچھ عجیب سی ڈش، جس میں شوربہ پانی کی طرح پتلا تھا اور اس میں بینگن کے کالے کالے ٹکڑے مرے ہوئے چوہوں کی طرح تیر رہے تھے۔  یہ جیدر آبادی بینگن ہیں ، زرینہ چیخ کر پوچھتی ہے۔  جی نہیں یہ چائنا ٹاؤن ہے۔ اشتیاق کہتا ہے۔ بالکل نئی ڈش ہے کھا کے  دیکھئے۔ سمجھئیے چکھئے بالکل نیا مزا ہے۔  اٹھا کر لے جا ابھی ابھی اسے یہاں سے ورنہ سر پر دے ماروں گا۔ میں گرج کر کہتا ہوں ، کیونکہ اس کو دیکھ کر ہی جی متلی ہونے لگا تھا۔  اس وقت تو اشتیاق ڈش اٹھا کر لے گیا مگر بعد میں اس نے زرینہ سے ‫‫کہا۔ صاحب بھی کیسی نہ انصافی کرتے ہیں چکھے بغیر نا پاس کر دیتے ہیں  کھانے کو۔  اشتیاق موتی قلیہ بہت عمدہ پکاتا ہے، ایک دفعہ گھر پر مخصوص مہمانوں کی دعوت تھی۔ اشتیاق سے موتی قلیہ پکانے کی فرمائش کی گئی جب دستر خوان بچھا تو منجملہ دوسری کی چیزوں کے ایک نہایت بدبو دار اور سڑی ہوئی ڈش سامنے آئی۔  یہ موتی قلیہ ہے۔ زرینہ نے حیرت سے پوچھا۔  جی نہیں ۔ اشتیاق فورا بولے یہ پیسٹ ہے۔  پیسٹ کیا۔ تمہیں موتی قلیہ تیار کرنے کو کہا تھا۔ کہا تھا کہ نہیں زرینہ خفا ہو کے بولی۔  جی موتی قلیہ بگڑ گیا اس لئے میں نے نئی ڈش تیار کر دی ہے، اشتیاق کی یہ عادت اب ہمیں معلوم ہو چکی تھی، کہ جب کوئی سالن بگڑ جاتا ہے تو اسے فوراً نیا نام دے کر دستر خوان پر پیش کر دیتے ہیں ۔ اور ڈش کے بگڑنے کا یوں تذکرہ کرتے ہیں ، جیسے کسی اعلی خاندان کا لڑکا خود بخود بگڑ جائے اور اس کے  بگاڑنے میں ان کا کوئی ہاتھ نہ ہو۔  اب کیا کہیں چند ایسے مہمانوں کی دعوت تھی جب کے سامنے بے تکلف نہ ہو سکتا تھا ورنہ آج میرا ارادہ اشتیاق سے بے تکلف ہونے کا تھا مگر مہمان موجود تھے، اور دوسرا سالن بے جد عمدہ تھے اس لئے خاموش ہونا پڑا۔  دوپہر کے کھانے کے بعد ہم مہمانوں کو لے کر میٹنی شو دیکھنے چلے گئے  اور چلتے چلتے زرینہ نے اشتیاق کو رات کے کھانے کے متعلق ہدایات دے  دیں ، میٹنی شو دیکھنے کے بعد جن ہم شام کو واپس ہوئے تو دیکھا کہ گھر کے  باہر فائر برگیڈ کھڑا ہے، بہت سے لوگ جمع ہیں اور کچن کی چمنی اور چھت اور کھڑکیوں دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے، آگ آگ میرا گھر بچاؤ، لینڈ لارڈ زور زور سے چلا رہا تھا۔  اشتیاق کہاں ہے ؟ میں نے پوچھا کیا معلوم۔ لینڈ لارڈ اپنے سر کے بال نوچتے ہوئے بولا ایک گھنٹے سے چیخ رہا ہوں ،اور وہ دروازہ ہی نہیں کھولتا، اور اندر کچن میں شاید نشہ کر کے بے ہوش پڑا ہے۔  میں اور زرینہ دونوں نے چلا کر دروازہ اشتیاق سے کھلوایا۔ اشتیاق بے جد حیرت زدہ کچن سے نکلے اور دھواں دیکھ کر پلٹے اور کچن کی دونوں انگیٹھیوں پر پانی ڈال کر بجھانے لگے دونوں پتیلیوں کے سالن جل چکے تھے مگر خدا جانے ان میں اس نے کون سا مسالا ڈال تھا کہ دھوئیں کہ گہرے سیاہ بادل اب تک ان کی پتیلیوں سے اٹھ رہے تھے۔ آگ آگ لینڈ لارڈ غصے میں چلا رہا تھا۔  کدھر ہے آگ؟ اشتیاق حیرت سے پوچھنے لگا زرینہ بولی۔ یہ بے چارے ایک گھنٹے سے چیخ رہے ہیں ، دروازے پیٹ رہے  ہیں اور تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں فائر برگیڈ تک آ گئی اور کچن کا دروازہ بند کئے  غافل بیٹھے ہو۔  

‫‫اشتیاق سب لوگوں کو متوجہ دیکھ کر چونکا۔ شرمندہ ہو کر سر کھجانے لگا۔ ایک انگلی اپنی کھوپڑی پر رکھ کر بولے۔ بحث چل رہی تھی۔  کیسی بحث؟ زرینہ کا پارہ چڑھنے لگا۔ تم یہاں اکیلے بیٹھے ہو۔  کورٹ کا مقدمہ تھا۔  کیا مقدمہ؟ آبائی مکان کا مقدمہ تھا میرے اور چچا زاد بھائی لطیف کے درمیان وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی کے درمیان بحث ہو رہی تھی۔  کدھر ہے وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی۔ زرینہ کا غصے سے پارہ چڑھنے لگا۔  میں خود ہی دونوں طرف سے وکیل ہوں ۔ خود ہی کورٹ ہوں ، خود ہی مدعی، خود ہی مدعا علیہ، خود ہی بحث کرتا تھا۔ خود ہی جواب دیتا تھا۔ اشتیاق نے بتایا۔  مگر یہاں کہاں بحث چل رہی تھی۔ زرینہ نے دانت پیس کر کہا۔  یہاں اشتیاق نے اپنی کھوپڑی پر انگلی رکھ کر کہا۔ اور سر جھکا لیا۔  زرینہ کا دل اشتیاق سے ہٹنے لگا، میرا بھی۔ عمدہ باورچی ہونے کے باوجود اس کی خامیاں اب جان لیوا ثابت ہونے لگے۔ ادھر اشتیاق سے زیادہ اس کی بلی گلشن نے مجھے عاجز کر دیا۔ میں دراصل اشتیاق کی وجہ سے اس سے بے  اعتنائی تو نہ برتتا تھا۔ کیونکہ اشتیاق نہیں رکھنا چاہتا تھا کہ اس کے سوا کوئی دوسرا اس کو توجہ دے مگر غالباً  گلشن کو یہ بات پسند نہ تھی وہ مجھے بھی اپنے مداحوں کی فہرست میں شامل کرنے پر مصر تھی وہ ایک بار وہ ایک کمرے میں اٹھلائی ہوئیں آئیں مگر میں نے شش کر کے بھگا دیا پھر میری غیر حاضری میں ایک بار وہ میرے بستر پر چڑھ کر سو گئیں ۔ دراصل سوئی نہ تھی سونے کا بہانہ کر رہی تھی وقت بھی گلشن نہ وہ چنا جو میرے دفتر سے آنے کا تھا، مقصد یہ تھا کہ ہم تمہارے بستر پر چڑھ کر کے سوئیں گے اور تم اسے  برداشت کر گئے تو دوسری بار تمہارے سینے پر چڑھ کر سوئیں گے یعنی جس قدر میں بے اعتنائی دکھا رہا تھا اسی قدر وہ مجھے اپنے قریب لانے پر مصر تھیں ۔ اس وقت میں نے جو انہیں بستر پر سوئے ہوئے دیکھا تو غصے میں آ کر انہیں دم سے پکڑا اور بستر سے نیچے پھینک دیا بے جد خفا ہو کر غرائیں اور جھلا کر کمرے سے باہر چلی گئیں مگر اس کا بدلہ گلشن نے یوں لیا کہ دوسرے دن دفتر سے جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے کمرے میں سیمل کی ریشمیں روئی کے دونوں تکئیے ادھڑے پڑے ہیں اور گلشن انہیں پنجے مار مار کر نوچ رہی ہے اور سمبل ہوا میں اڑ رہی ہے۔   پیچھے آنے لگا۔ مگر وہ میرا غصہ دیکھ کر منہ سے کچھ بول نہیں رہا تھا۔ صرف اس کے ہونٹوں کے کونے پھڑکتے رہے۔  بڑی سڑک پر آ کر میں ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔ اس سڑک پر کئی کھڈے اور گڑھے تھے اور اس پر ان گنت وزنی ٹرکوں گھوں گھوں کرتے ہوئے گزرتے  تھے، میں نے ایک ٹرک قریب آتی ہوئے دیکھ کر یکایک گلشن کو زور سے  سے جھلایا اور نشانہ باندھ کر گزرتے ہوئے ٹرک کے نیچے پھینک دیا، اشتیاق کے گلے سے ایک گھٹی ہوئی چیخ نکلی۔  ٹرک سڑک سے گزر گیا، چند لمحوں تک ایسا محسوس ہوا جیسے گلشن سڑک پر پس کر بھی لیٹی ہوئی پھر یکا یک وہ چونک کر کھڑی ہو گئی اور بجلی کی سرعت سے چھلانگ لگا کر سڑک پار کرتی ہوئی مخالف سمت میں چلی گئی وہ ایک بار اس نے پلٹ کر ہماری طرف دیکھا مگر ہمارے گھر کی طرف آنے کی بجائے، وہ مخالف سمت میں دوڑتی ہوئی چلی گئی اور پھر ہمارے گھر کبھی نہیں آئی۔  تین دن تک اشتیاق نے انتظار کیا مگر گلشن کہیں نظر نہیں آئی چوتھے دن اس نے سامان باندھ لیا۔ اور بولا، صاحب میرا حساب کر دیجئے، میں جانا چاہتا ہوں ۔  کیوں ، تمہیں کیا تکلیف ہے، زرینہ نے پوچھا۔  اشتیاق نے مجھ سے آنکھیں چرا کے زرینہ سے کہا۔ بیگم صاحب جس طرح صاحب نے میری بلی کے ساتھ سلوک کیا وہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔  اور وہ جو تمہاری بلی نے میرے چالیس روپے کے دو قیمتی تکئے پھاڑ ڈالے  ہیں اس کا ہرجانہ کون دے گا میں نے غصے میں بلند آواز میں کہا۔  زرینہ نے معاملہ سلجھانے کے خیال سے بولی ارے ایک بلی کی وجہ سے لگی ‫‫لگائی نوکری چھوڑتا ہے۔ میں تجھے ایسی دس بلیاں لا دوں گی۔  نہیں وہ تو میری گلشن تھی، اشتیاق کی آواز کمزور ہو کر لرزنے لگی جیسے وہ ابھی رو دے گا۔  ارے گلشن تھی کہ زلفن تھی کہ کریمن جو نام چاہے رکھ لینا میں نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ سینکڑوں بلیاں گھومتی ہیں اس علاقے  میں ۔  اشتیاق نے پھر نظریں چرا کے مجھ سے رخ موڑ کر زرینہ کی طرف ہو کر بولا مجھے صاحب سے بڑا ڈر لگتا ہے اب تو۔  کیوں ۔ زرینہ نے پوچھا۔  جب صاحب نے گلشن کو اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا تو مجھے ان کا چہرہ بالکل اپنے باپ کی طرح نظر آیا۔  اپنے باپ کی طرح؟ کیا بکتے ہو؟ زرینہ غصے سے بولی۔  اشتیاق نے ایک دو لمحے توقف کیا پھر گھمبیر لہجے میں کہنے لگا اسی طرح میرے باپ نے ایک دن نشے کی حالت میں مجھے کمرے سے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا اس وقت میری عمر چار سال تھی، میں یقیناً مر جاتا مگر سڑک پر جہاں میں گرا اس پر ایک بڑا سا گڑھا اور میں اس کے گڑھے میں سے رات بھر باہر نہ آ سکا، اور رات کا وقت تھا دو ایک ٹرک پرے پرے گزر گئے پھر شاید میں بے ہوش ہو گیا۔ اور ماں دو ہتڑیاں مار کر چیخنے لگی یکا یک میرے  باپ کو تیش آگیا اور وہ بھاگا بھاگا آیا اور سڑک کے گڑھے سے اٹھا کر اپنے  سینے سے لگا کر گھر لے گیا اور میرا منہ چومتا رہا اور زور زور سے روتا رہا اور کبھی میری ماں اس سے چھین کے اپنے سینے سے لگا لیتی تھی، اور کبھی میرا باپ مجھے میری ماں سے لے کر چھاتی سے لگا لیتا تھا مگر میں  اس کا وہ چہرہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ جب اس نے مجھے غصے میں اپنے  ہاتھوں سے اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا تھا بالکل ویسا ہی چہرہ تھا اس وقت صاحباکپ اس لئے میرا حساب کر دو۔ میں یہاں ہیں رہوں گا؟ اشتیاق میرے پاؤں کو ہاتھ لگانے لگا جیسے گستاخی کی مجھ سے معافی مانگ رہا ہو۔  زرینہ نے اس کا ا کر دیا۔  تین سال بعد جب ہمارا تبادلہ ممبئی ہوا تو وہ ہمیں بمبئی میں ملا ہمیں ایک گھر کی تلاش تھی اور اشتیاق ایک ہاؤس ایجنٹ تھا اور اس کا نام اب لالو کرمانی تھا اور وہ سنگھی تھا اور سندھی زبان بڑے فراٹے سے بولتا تھا وہ کھدر کا پاجامہ اور کھدر کا یاک لمبا کرتا پہنتا تھا، اور پہلی نظر میں کسی مجلہ کمیٹی کا کانگریسی نیتا معلوم ہوتا تھا یہ کیا ڈھنگ ہیں تمہارے یہاں ؟زرینہ نے اپنے  دونوں ہاتھ اٹھا کر اس سے پوچھا۔  ادھر۔ بلڈنگ کا اکھا دھندا سندھی لوگ کے پاس ہے اس لئے ہم بھی سندھی بن گیا، بیگم صاحب کیا کریں پیٹ روٹی مانگتا ہے۔  

‫‫کوئی بلی ولی پالی رکھی ادھر بھی۔ میں نے اس سے پوچھا۔  وہ شرمندہ سا ہو گیا۔ آنکھیں جھپکائے ہوئے بولا۔ صاحب ادھر بمبئی میں جندا  رہنا بھی مشکل ہے ایک ایرانی ہوٹل کے مالک نے ترس کھا کر میرا ٹرنک اور بستر اپنے باورچی خانے میں رکھنے کی اجازت دے دی ہے، رات کو اس کی دکان کے سامنے پڑا رہتا ہوں ، صبح گیارہ بجے تک اس کی دکان میں سموسے  بناتا ہوں ۔ پھر رام داس ماکی جانی کے دفتر میں جاتا ہوں ۔  یہ ماکی جانی کون ہے ؟زرینہ نے پوچھا۔  اصل میں ہاؤس ایجنٹ تو وہ ہی ہے، میں اس کام کا دوسرا اسسٹنٹ ہوں ۔  تم کو کیا ملتا ہے ؟ کمیشن ملتا ہے ؟ کتنا؟ ماکی جانی کو ٹونٹی فائیو پرسنٹ ملتا ہے پہلے اسسٹنٹ کو فائیو پرسنٹ ملتا ہے، اشتیاق انگریزی بگھارنے لگے ہم کو ون پرسنٹ۔  ون پرسنٹ؟ زرینہ نے پوچھا ون پرسنٹ آف واٹ؟ اشتیاق بولے۔ ون پرسنٹ آف دی فایو پرسنٹ آف دی ٹونٹی فائیو پرسنٹ آف دی ہنڈرڈ پر سنٹ۔  زرینہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئی، اشتیاق خود بھی بے جد محظوظ ہوئے  آخر جب زرینہ نے کسی طرح اپنی ہنسی پر قابو پالیا تو بولے۔ آپ کو ایک فلیٹ دے سکتا ہوں ۔  کیسا ہے وہ فلیٹ۔  اشتیاق انگلی پر کمرے گنواتے ہوئے بولے ون بیڈ روم، ون باتھ روم، ون بیڈ روم، مون ون کچن، ون ہال اینڈ سیپرٹیس۔  یہ اینڈ سپیر ٹیس کیا بلا ہے ؟ زرینہ نے پوچھا۔  بس اینڈ سیپرٹیس۔ اشتیاق نے اس طرح حیرت سے زرینہ کی طرف دیکھا گویا کہ رہا ہو، ایم اے کرنے کے بعد اتنی معمولی سی انگریزی نہیں سمجھ سکتیں ۔  آپ؟ اینڈ سیپریٹس۔ بیگم صاحب اشتیاق نے پھر سمجھایا۔  زرینہ یے یکایک سمجھ کر کہا۔ اچھا تمہارا مطلب ہے آل سیپرٹیس یعنی ہر کمرہ دوسرے سے الگ الگ ہے۔  بس اینڈ سیپر یٹس اشتیاق کے چہرے پر احساس برتری کی ایسی جھلک آئی گویا کہہ رہا ہو افواہ کتنی دیر سے بات آپ کی سمجھ میں آئی۔  زرینہ پھر ہنسنے لگی میں نے بات ٹالنے کی غرض سے کہا، اور بھی کچھ کام کرتے ہو؟ جی ہاں ایک ٹوتھ پیسٹ تیار کیا ہے میری ٹوتھ پیسٹ۔  یہ میری کون ہے ؟زرینہ نے چونک کر کہا۔  شرما کر بولے۔ چھوکری ہے۔  تمہاری منگیتر۔  بھئی نہیں ۔ سر ہلا کر بولے ہمارے ہوٹل میں ایک عیسائی بڑھیا کام کرتی ہے، ‫‫اس کی چھوکری ہے۔ کوکن کے گاؤں میں بڈھی اپنی چھوکری کی شادی بناتا ہے۔  تمہارے سنگ۔ زرینہ نے خوش ہو کر پوچھا۔  نہیں کسی عیسائی چھوکرے کے سنگ، ایلفرڈ اس کا نام ہے۔ وہ بھی ادھر کوکن کے گاؤں میں رہتا ہے، مگر بڈھی بہت گریب ہے، اس کے پاس پیسہ نہیں ہے۔  اس لئے ہم نے میری ٹوتھ پیسٹ نکالا ہے اور اس کو شام کے ٹائم میں بیچتا ہے اور اس پیسہ اس کرسچن بڈھی کو دیتا ہے۔  الو کا جنم کیوں اشتیاق؟ روکنے کے باوجود میری ہنسی میرے سوال سے باہر چھلکتی پڑتی ہے۔  الو کا جنم اس لئے صاحب۔ اشتیاق نے گہری سنجیدگی سے کہا کہ اشتیاق کو یعنی ظلم کے ہیرو کورات میں نیند نہی آتی ہے۔ ہیروئن کے فراق میں رات رات بھر جاگتا ہے اور الو بھی رات کو جاگتا ہے اس لئے بات سمجھئے ذرا ذرا سوچنے کیا گہری جقیقت بیان کیا ہوں ۔  ارے الو کے پٹھے۔ زرینہ نے دوپٹا منہ سے نکال کر یکایک چیخ کر کہا۔ بھاگ جا یہاں سے ورنہ اپنی چپل اتار کر اتنے ماروں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے مروں  گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زرینہ چپل اتارنے لگی اشتیاق بھاگ کھڑا ہوا۔  اشتیاق کا کاروبار ایرانی ہوٹل والے کے ہاں خوب چمک گیا۔ پہلے وہ صرف سموسے بناتا تھا پھر اس نے ایرانی ہوٹل کے مالک کو ڈھرے پر لگا کر اسے  شاہی ٹکڑے بیچنے کی ترغیب دی۔ بہت سستے میں بن جائے گا۔ سیٹھ تمہارے  ادھر ڈبل روٹی کا کتنا ٹکڑا بے کار میں پھنکتا ہے ہم اس کو کام میں لائے گا خالی شکر کا خرچ ہے اور تھوڑی سی بالائی اشتیاق نے اسے سمجھایا اور تمہارے پاس تین تین ریفریجریٹر ہے۔ ایک ریفریجریٹر میں شاہی ٹکڑا رکھے  گا۔ گاہک کو ٹھنڈا ٹھنڈا سرو کرے گا۔  ایرانی مان گیا کیونکہ خرچا بہت کم تھا اس مٹھائی کا پہلے دن اشتیاق نے جو شاہی ٹکڑا بنایا تو وہ دو آنے فی ٹکڑے کے ا سے ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔  ایسی عمدہ ڈش جس سے پیٹ بھی بھرے اور مٹھائی کی مٹھائی بھی معلوم ہو ایرانی ہوٹل میں بیٹھنے والوں نے آج تک کا ہے کو کھائی تھی۔ اب تو یہ حالت تھی کہ اشتیاق کو دن میں دو بار شاہی ٹکڑے تیار کرنے پڑتے اور بکری بڑھتی دیکھ کر ایرانی ہوٹل کے مالک نے اشتیاق کو اپنے کچن کا ہیڈ کک مقرر کر دیا کچن میں کام کرنے والے نوکر اشتیاق کو استاد جی کہہ کرتے تھے اور ہوٹل کا مالک میں نے دہرا کر پوچھا۔ نا الیون ون پرسنٹ آف دی فایو پرسنٹ آف دی ٹونٹی فایو پرسنٹ آف دی ہنڈرڈ پرسنٹ؟ نو سر۔ اشتیاق نے سر ہلا دیا۔  تو اس فلم کے گانے کون لکھے گا۔ تم نے تو شاعری ترک کر دی ہے۔  جی اشتیاق نے اپنے ہاتھ کا ناخن دوسرے سے کریدتے ہوئے بولے شاعری تو چھڑ دی ہے مگر اس فلم کے گانے تو میں ہی لکھوں گا، ایک مکھڑا کہا ہے ؟ ‫‫کیا؟ نگاہیں نیچی کئے آنکھوں کے کونوں سے ڈرتے ڈرتے چور نگاہوں سے زرینہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولے، صاحب بات یہ ہے کہ غزل سے بیگم نے ہم کو بہت ڈرایا دیا تھا۔ کہ اس کا وزن بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے غزل چھوڑ دیا مگر فلمی گیت ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا وزن بہت چھوٹا ہوتا ہے کیا مطلب کہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں ۔ اور بیچ بیچ میں میوزک ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے فلمی گیت شروع کیا ہے۔ اس طرح سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے والا؟ تو سناؤ؟میں نے بے چین ہو کر کہا۔  اشتیاق نے کھنکار کے گلا صاف کیا۔  او صنم او صنم۔  میں نے لیا۔  الو کا جنم۔  تیرے لئے۔  زرینہ کی بری حالت تھی دوپٹا ٹھونستے ہوئے اس کا چہرہ لال ہوتا جا رہا تھا بڑی مشکل سے میں نے اپنی ہنسی روکی اور اس سے پوچھا۔ مگر تاکہ اپنی چھوکری کی شادی تمہارے سوا کہیں اور کر سکے۔ زرینہ نے بے جد تلخ ہو کر پوچھا۔  یکایک اشتیاق سٹپٹا گیا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں جلدی جلدی گھومنے لگیں ۔ اس کے ہونٹوں کے کونے تیزی سے پھڑکنے لگے اور گال بھی اندر دھنستے گئے  اور اس کا چہرہ ایک ایسی کالی کھوپڑی کی طرح نظر آئے گا۔ جس پر صرف کھال منڈی ہو۔ اسے دیکھ کر مجھے بہت رجم آیا وہ اس وقت زرینہ سے نظریں  چرا کر یوں چاروں طرف دیکھ رہا تھا جیسے چاروں طرف سے دیواریں اس پر گر رہی ہوں اور اس کے بیچ نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو میں نہ جلدی سے  بات کا رخ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ شعر و شاعری جاری ہے۔  اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔ کیوں ؟میں نے پوچھا۔  اب تو ایک فلمی کہانی لکھ رہا ہوں ۔ اشتیاق نے بڑے فخر سے اعلان کیا۔ وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پا چکا ہے۔  ہیرو کون ہے ؟میں نے پوچھا۔  اشتیاق اپنا نام لے کر بولے۔ ڈبل رول ہے اشتیاق اس کا اس پکچر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ولن کون ہے ؟ زرینہ نے پوچھا۔  اور شاید دلی کمار نبھا جائے۔ اشتیاق سوچ سوچ کر بولے۔ ولن کا رول بہت مشکل ہے۔  زرینہ نے ہنسی روکنے کیلے اپنے منہ میں دوپٹا ٹھونس لیا۔  اور ہیروئن۔ میں نے پوچھا۔  فلم انڈسٹری میں کوئی نہیں ہے۔ اشتیاق سنجیدہ ہو کر بولے باہر دیکھ رہا ہوں ۔  فلم انڈسٹری میں کوئی نہیں ہے ؟ میں نے پوچھا پھر اسی کا انگریزی فقرہ اشتیاق کو شاہی ٹکڑے کے مناسبت سے میرے دل کا ٹکڑا کہتا تھا۔  

‫‫اگر میں نے کبھی اشتیاق کے جسم اور روح پر بہار آتے ہوئے دیکھی ہے تو وہ یہی دن تھے۔ اس کے کلے بھرنے لگے اور کالے رخساروں پر صحت کا اودا پن چھلکنے لگا اور وہ کشتیاں اس کی پتلیوں کی جو اس کی آنکھوں میں ہر وقت بے چین اور مضطرب ہو کر تیرتی رہتی تھی۔ اب بمبئی کے ساحل پر لنگر ڈالتی معلوم ہوتی تھیں جہاں اشتیاق نے ہمیں مکان دلوایا تھا۔ اس کے قریب کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر وہ ایرانی کا ہوٹل تھا۔ یہ چوک کے نکڑ پر سامنے  ٹیکسیوں کا اڈا تھا اور قریب ہی ایک نئی مارکیٹ کھل گئی۔  صبح سے شام تک اس ایرانی ہوٹل میں بڑی بھیڑ رہتی تھی۔ بوٹ پالش کرنے  والے اور پان بیچنے والے اور بھیل پوری کی چاٹ بیچنے والے اور آس پاس کے گھروں اور بنگلوں کے نوکر اور چا کر اور کالجوں کے ٹیڈی بوائز اور کام کی تلاش میں گھومنے والے بے کار اور آوارہ گرد لونڈے جو کالج کی لڑکیوں  سے زیادہ ٹیڈی معلوم ہوتے ہیں ۔ ان سب کا جمگھٹا اس ہوٹل میں اندر اور باہر رہتا تھا اور اس ہوٹل میں اشتیاق بہت پاپولر ہو گیا تھا۔  آتے جاتے میں اسے دیکھتا تھا سہ پہر تک وہ اپنے ملگجے کپڑوں میں کبھی کچن کے اندر کبھی کچن کے باہر مستعدی سے کام کرتا دکھائی دیتا کوئی چار بجے کے قریب وہ نہا کر دھو کر گیروے رنگ کا بنگالی کرتہ اور اس کے  نیچے کھلے پائنچوں والا پاجامہ اور چپل پہن کر ایرانی ہوٹل کے باہر آ کر کھڑا ہوتا۔ اس وقت اس کام کی تلاش میں آئے ہوئے ادھر ادھر کے بہت سے لونڈے  گھیر لیتے تھے۔  وہ ادھر ادھر کے بنگلوں اور فلیٹوں میں ان لڑکوں کو نوکر کرا دیتا کیونکہ ہاؤس ایجنٹ کا اسسٹنٹ ہونے کی وجہ سے آس پاس کے بلڈنگوں میں اس کی خاصی جان پہچان تھی جن لونڈوں کو وہ نوکری نہ دلوا سکتا، انہیں دوسرے دن آنے کا مشورہ دیتا، پھر چلا جاتا۔ پھر بیڑی لگاتا کر لانڈری کے مالک سے باتیں  کرتا جو اس کا ہم وطن تھا یعنی مراد آباد کا تھا۔ جس کے لئے وہ ایک نہایت ہی عمدہ اور نہایت ہی سستی قسم کا ایسا صابن بنانا چاہتا ہے۔  جس میں خرچا بہت کم آئے اور کپڑے بھی بہت عمدہ دہل جائیں مگر اشتیاق ابھی اپنی ایجاد میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ لانڈری سے فارغ ہو کر وہ اپنے ہاؤس ایجنٹ کے ہاں چلا جاتا یا نئے گاہکوں کو لے کر مکان دکھانے کے لئے چلا جاتا، رات کو نو دس بجے فارغ ہو کر ایرانی ہوٹل میں کھانا کھاتا اور پھر ایکاکپ چائے پی کر اور پھر بیڑی سلگا کر اور پان کھا کر وہ سنتو باورچی کے  جھونپڑے میں جا کر سو رہتا کیونکہ اب وہ بڑا آدمی ہو گیا تھا۔  اب وہ ایرانی ہوٹل کے باہر نہیں سو سکتا سنتو باورچی کا جھونپڑا بارہویں نمبر ایک سڑک کے پیچھے ایک چھوٹے سے خالی پلاٹ پر تھا۔ اور اس کی بیوی بچہ ہونے کے باوجود اپنے میکے ٹیڑھی اوال کے کسی گاؤں میں گئی ہوئی تھی اور کہیں چار ماہ کے بعد واپس آنے والی تھی۔  تن اشتیاق سنتو کے جھونپڑے میں رہ سکتا ہے۔ سنتو نے استاد جی سے کہا۔  

‫‫شاہی ٹکڑوں کی روز افزوں بکری دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا ہے اب اشتیاق کے قدم یہاں جم جائیں گے۔ اس لئے مجھے دو ماہ بعد بڑی حیرت ہوئی۔ جب ایرانی ہوٹل کے مالک نے مجھے بتایا کہ اس نے اشتیاق کو نکال دیا ہے۔  کیوں ؟میں نے پوچھا کوئی غبن کیا ہے۔  نہیں آج تک ایک پیسے کا غبن نہیں کیا۔ ایرانی ہوٹل کا مالک بولا۔  پھر کیا کام میں گڑ بڑ کرتا تھا۔  نہیں ؟کام اشتیاق بہت اچھا کرتا تھا۔  پھر۔ ۔ ۔ ۔  ایرانی ہوٹل کے مال نے کچھ کہنے منہ کھولا اور پھر جلدی سے بند کر لیا، پھر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولا اس کا بھیجا پھریلا ہے ہم اس کو ستر روپیہ پگار دیتا تھا وہ پگار بھی اس نے خرچ کر دیا۔  اوپر سے پانچ سو کپ چائے اور دو سو سلائس کا بل ہو گیا۔  پانچ سو کپ چائے اور دو سو سلائس۔ میں نے حیرت سے کہا۔ اشتیاق تو اتنا پیٹو کبھی نہ تھا۔ وہ تو بہت ہی کم خوراک کھاتا تھا۔  ہم جانتا ہے اس لئے تو ہم بولتا ہے ایرانی ہوٹل کا مالک خفا ہو کر بولا وہ خود پانسو تو کیا سات سواکپ پی جاتا تو ہم اس کو منع نہیں کرتا مگر وہ خود نہیں پیتا تھا۔ ادھر ادھر بے کار اور لفنگے لونڈی لوگ کو ادھر ادھر آجو باجو کی بلڈنگوں میں نوکری بنانے کے لئے آتا ہے وہ ان کو بھوکے پیٹ دیکھ کر چائے  پلا دیتا تھا صاحب ہم جب منع کرتے تو کہتا میرے ا میں لکھ دینا لو اب پانسو چائے اور دو سو سلائس کا بل ہو گیا ہے اس کو کس کے ا میں  لکھے گا۔ اس لئے ہم اس کو نکال دیا۔  بہت اچھا کیا۔ ایرانی کے آگے پیسے گنتے ہوئے رکھتے ہوئے کہا۔ ایک ڈبیا کیونڈر کی دو۔  عجیب مغز پھریلا ہے اس آدمی کا۔ ایرانی نے میرے پیسے گنتے ہوئے کہا۔ دو پیسے کم ہے۔  ساری۔ کہہ کر میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کر اسے دو پیسے اور دئیے اور کیونڈر کی ڈبیا لے کر اس سے پوچھا۔ تو آج کل اشتیاق کہاں ہے۔  جیل میں ہے۔  جیل میں ؟میں حیرت سے ایرانی کی طرف دیکھنے لگا۔ تم نے اس بیچارے کو جیل بھجوا دیا؟ ہم نے کہاں پہنچایا ہے۔ صاحب وہ تو کرنی سے گیا ہے۔ شراب کی اسمگلنگ کے دھندے میں ۔  اچھا۔ یہ دھندا نہیں کرتا صاحب۔ مگر ہمارا باورچی سنتو اپنے خالی ٹائم میں یہاا کرتا تھا اور ادھر ادھر کی بلڈنگوں میں رات کو باٹلی پہنچاتا تھا۔ ایرانی بولا۔ پھر ایک رات پولیس نے اس کے جھونپڑے پہ چھاپہ مارا۔ چہ باٹلی پکڑا گیا تو اشتیاق بولا کہ سنتو بے گناہ ہے میں نے چہ بوتل ادھر شراب لا کے رکھا تھا اس واسطے اشتیاق کو تین مہینے کی سجا ہو گئی ہے۔  

‫‫اس نے ایسا کیوں بول؟ وہ بولا۔ ہمارا کیا کام ہے ہم اکیلا آدمی ہے۔ تین مہینے کی سجا چٹکی بجا کے کاٹ لے گا، مگر جب سنتو کی گھر والی اپنے بچے کو لے کر اس کے جھونپڑے  میں آئے گی تو جالی جھونپڑا دیکھ کر روئے گی۔  ایرانی ہوٹل کا مالک اپنے سر پر انگلی رکھ کہ بولا۔ بھیجا پھریلا ہے اس کا؟ زرینہ کو خیال آیا کہ جیل سے رہا ہوتے ہی اشتیاق ہمارے گھر آئے گا لیکن جب تین ماہ سے اوپر کئی دن گزر گئے اور اشتیاق نہ آیا تو اسے کچھ مایوسی سی ہوئی۔ مایوسی مجھے بھی ہوئی پھر بھی میں نے سوچا کہ اشتیاق ہمارے گھر نہیں آئے گا تو ممکن ہے ادھر ادھر ایرانی ہوٹل کے باہر ضرور دکھائی دے گا پر ادھر بھی نہیں ۔ سنتو باورچی سے پوچھا۔ معلوم ہوا کہ اس کے ہاں بھی نہیں  آیا۔ پھر دونوں نے سوچا ممکن ہے اشتیاق مارے شرم کے یہ علاقہ چھوڑ گیا ہو۔ یا بمبئی سے کہیں باہر چلا گیا ہو۔ جب دو ڈھائی ماہ اور گزر گئے تو اشتیاق نہ آیا تو ہمارا یہ خیال پکا ہو گیا۔  پھر ایک روز ہم نے یکایک اسے ایک دعوت میں دیکھا، سردار زور آر خان کے ہاں ہماری دعوت تھی، جن کی بیوی نصرت میری بیوی کی خاص سہیلی تھیں ۔ ہم نے تو کھانے کے شروع کے دو لقمے کھاتے ہی سمجھ گئے تھے کہ یہ کس کا اسٹائل تھا۔ لقمہ چکھتے ہی میں نے زرینہ اور زرینہ نے میری طرف چونک کر دیکھا مگر ہم دونوں چپ رہے کھانے کے بعد جب دعوت کی تعریفیں  ہونے لگیں تو کچن سے خراماں خراماں اشتیاق بر آمد ہوئے کالی پتلون کے اوپر لال بش شرٹ اور اس کے اوپر بھورے رنگ کا ایک میلا ایپرن پہنے ہوئے اور سر جھکائے کو کورنش بجا لاتے ہوئے، شاعروں کے انداز میں داد بٹورنے  لگے۔  نہ میں نے نہ زرینہ نے اس وقت انہیں پہچاننا مناسب سمجھا اشتیاق نے بھی اس وقت ہمارا رویہ سمجھ کر مکمل اجنبیت اختیار کی۔  بعد میں نصرت نے زرینہ کو الگ لے جا کر بتایا۔ بہت اچھا کک مل گیا ہے۔  مجھے اشتیاق احمد خان نام ہے اس اپنی طرف کا ہے قاضی خیل کا پشتو بہت اچھی بول لیتا ہے حالانکہ بچپن ہی سے ادھر رہا ہے، پھر کھانا غضب کا پکاتا ہے، کچن میں بڑی بچت سے کام لیتا ہے، جب سے یہ آیا ہے۔ میرے کچن کا خرچ ڈھائی سو روپے کم ہو گیا ہے پورے ڈھائی سو روپے سنتی ہو؟ میں اس کو صرف ستر دیتی ہوں حالانکہ سو بھی دو تو سستا رہے گا۔  زرینہ انجان بن کر بولی۔ آدمی شریف معلوم ہوتا ہے۔  ارے شریف ایسا شریف۔ ۔ ۔ ۔ نصرت اشتیاق کی تعریف کرتے ہوئے بولیں میرے  بچوں پر تو جان چھڑکتا ہے او میرے سب سے چھوٹے بچے نجو کو تو دل و جان سے چاہتا ہے کوئی سگی ماں اس کی کیا خدمت کرے گی جیسی وہ نجو کی کرتا ہے ابھی چار دن کی بات ہے کہ نجو موٹر مانگ رہا تھا۔ میں نے کہا لادوں گی، میں ٹال رہی تھی کیونکہ گھر میں دو کھلونے موٹر کے پہلے ہی ‫‫پڑے ہیں ۔ ذرا پرانے ہیں تو کیا ہوا۔  نصرت زرینہ کا ہاتھ پکڑ کر خوشی سے بولی۔ یہ موا اشتیاق دس روپے کی موٹر میرے نجو کے لئے لے آیا۔  تو میں نے غصے سے جھلا کر کہا میں تو اس موٹر کے پیسے نہیں دوں گی۔  تو موا بولا نہ دیجیئے گا۔ بیگم صاحب میں تو اپنے پیسوں کی موٹر لایا ہوں ، نجو کے لئے، اس پر وہ غصے سے گرج کر بولے تم کو کس نے کہا تھا، نجو کے  لئے موٹر لانے کو تو اشتیاق پہلے تو ان کی گرج سن کر سہم گیا۔ پھر بولے سر اٹھا کر بولا، صاحب میں نجو کا کہنا نہیں ٹال سکتا،جو کہیں گے ضرور لاؤں  گا۔ اس نے ایسے مضبوط لہجے میں ان سے بات کی کہ ان کا سارا غصہ اتر گیا۔ مسکراتے ہوئے ایک طرف کو سرک گئے میں بھی کیا بولتی بہن؟اہو کر سروتے سے سپاری کاٹنے لگی۔  زرینہ خاموشی سے مسکرا مسکرا کر نصرت کی باتیں سنتی رہیں ۔ مگر اس نے  ایک دفعہ بھی نہیں بتایا کہ وہ اشتیاق کو جانتی ہے کہ نہیں نہ اگلے ایک سال میں اشتیاق نے ایک بار بھی بتایا کہ وہ ہم کو جانتا ہے، ہم نے سوچا کہ بے  چارہ جہاں لگا ہے لگا رہے اس کی خامیاں بتانے ے کیا فائدہ؟ اور خان صاحب کے ہاں رہ کر اشتیاق بہت ٹھیک ہوتا چلا گیا، ماتھے پر بال نہیں لٹکتے تھے، ذہنی طور پر بہت کم غائب رہتا تھا۔ کپڑے صاف ستھرے پہنتا تھا، شعر و شاعری ترک کر دی تھی۔ دن بھر یا تو کچن میں رہتا یا خان صاحب کے بچوں  کی دیکھ بھال کرتا حالانکہ ان کی دیکھ بھال کے لئے دو آیائیں الگ سے مقرر تھیں ، مگر بچے جس قدر اشتیاق سے مانوس ہو گئے تھے۔ اتنے گھر کے کسی ملازم سے نہ تھے۔ میں نے اور زرینہ نے سکہ کا سانس لیا، چلو اشتیاق نارمل تو ہوا۔  ایک رات زور کی گھنٹی بجی کوئی تین بجے کا وقت تھا میں نے گھبرا ر دروازہ کھولا سردار زور آور خان کا ڈرائیور حامد خان تھا۔  حضور جلدی چلئے۔ بیگم صاحبہ نے گاڑی بھیجی ہے۔  کیا بات ہے حامد؟ میں نے پوچھا۔  اشتیاق نے زہر کھا لیا ہے۔  ارے میرے منہ سے نکلا۔  ہاں صاحب اشتیاق نے زہر کھا لیا ہے۔ اور خان صاحب پونا میں ہیں ۔ گھر پر بیگم صاحب کے دو بھائی ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جائے، ڈاکٹر مقصود کو ٹیلی فون کیا تھا۔ بیگم صاحب نے مگر وہ بولے یہ پولیس کیس ہے میں نہیں آ سکتا اور اشتیاق مر رہا ہے۔  زرینہ میرے پیچھے کھڑی تھر تھر کان رہی تھی لرزتے ہوئے لہجے میں  بولی تم جلدی سے چلے جاؤ، بے چاری نصرت سخت پریشان ہو گی؟۔  خان صاحب کے ڈرائنگ روم میں عین مرکز میں فرش پر سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی ایک لاش رکھی ہوئی تھی۔ اور نصرت اور ان کے بھائی بہن اور گھر کے دوسرے ملازم حیرت سے سم بکم کھڑے تھے۔ کیا مر گیا؟  ‫‫میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔  نہیں ابھی تو زندہ ہے۔ ایک آیا آہستہ سے سسکتے ہوئی بلی۔  میں نے چادر ہٹا کر نبض دیکھی سینے کے زیرو بم میں نرخرے کی گھرگھراہٹ تھی، اور نبض ٹوٹ رہی تھی۔ نصرت ایک بھوری شال اوڑھے دنیا و ما فیہا سے بے نیاز پھٹی پھٹ آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔  کب اس نے زہر کھایا؟ میں نے نصرت سے پوچھا۔  نصرت کچھ نہیں بولی جیسے اس نے میرا سوال سنا تک نہ ہو، نصرت کا چھوٹا بھائی بولا،کوئی دو بجے کے قریب میں نے اپنے بستر کے قریب کسی کی آواز سنی اور کوئی آہستہ آہستہ سے مجھے جھنجھوڑ رہا تھا جب جاگا تو معلوم ہوا اشتیاق ہے وہ باورچی خانے سے رینگتا میرے کمرے میں پہنچا تھا اور مجھ سے کہہ رہا تھا۔  مجھے بچا لیجئیے۔ میں نے زہر کھا لیا۔  میں نے پوچھا۔ کون سا زہر؟ بولا۔ ٹک ٹو۔  ٹک ٹو کیا۔  ٹک ٹو ٹک ٹو۔ اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اور آواز میں لکنت تھی وہ کیا کہنا چاہتا تھا ٹیک ٹونٹ لیکن اس کے منہ سے حرف نکلنا تھا صرف ٹک ٹو پھر وہ میری چارپائی سے لگ کر قے کرنے لگا میں نے مزید داستان سننا بے کار سمجھ کر فورا کہا اسے اٹھا کر نیچے گاڑی میں فورا ڈال کر اسپتال لے جائیں  گے ؟ مگر پولیس، نصرت کان کر بولی۔  پولیس کو وہیں سے اطلاع کر دیں گے میں نے کہا۔ ۔ نزدیک کا اسپتال کون سا ہے  نانا وتی۔  یہاں سے کتنی دور ہو گا۔  کوئی چار میل۔  جلدی کرو۔  جس وقت چار آدمیوں نے مل کر اشتیاق کو پہلی منزل سے نیچے اتارا اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ سڑک کے کنارے کنارے روشنی کے قمقمے پانی میں بھیگے ہوئے یوں سر جھکائے کھڑے تھے جیسے اپنی زرد زرد زندگی پر رو رہے ہوں ، بھیگی ہوئی سڑک پر کہیں کہیں روشنی کے پھٹے چیتھڑے نظر آتے پھر اندھیرا انہیں کھا جاتا پھر پھر تنگ و تاریک گڑھوں کی ماری ہوئی ایک سڑک پر کاریوں لڑکھڑا کر چلنے لگی جیسے ایک عورت اپنی عصمت لٹا کر رات کی اوٹ میں اپنے گھر کی طرف بھاگ رہی ہو۔  ایمرجنسی وارڈ میں ۔  اے فارم بھرو۔  بی فارم بھرو۔  زندگی تم بھی رکو۔  اشتیاق کا سر بھورے رنگ کے آئل کے گدوں پر ٹکا ہے اس کی آنکھیں کسی گہرے بھورے اے میں جا گری ہیں ان پر یادوں کا ٹرک گھوں گھوں کرتا ہوا چل رہا تھا۔  پچھتر روپیہ ایڈوانس دو۔  یہ رسید لو۔  وٹھل۔ مریض کو کمرہ نمبر میں لے جاؤ اوپر لفٹ سے میں ابھی ڈاکٹر کوٹھاری ٹیلیفون کرتا ہوں ۔  باہر سے کوئی ٹرک گزرتا ہے گھوں گھوں اشتیاق کا سینہ ہونکتا ہے ہوں ہوں ۔  آئل کلاتھ کا بھورا بستر اپنے بالوں میں لگی ہوئی ربڑ کی چرخیوں کے ذریعے  رہٹ کی جانب حرکت کرنے لگتا ہے۔ لفٹ اوپر کی منزل پر جا کر رک جاتی ہے۔ بستر برآمدے سے گزر رہا ہے۔ کمرہ نمبر سات کے اندر جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں اندر آتی ہیں ۔ سات نمبر کا پردہ گرا دیا جاتا ہے ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں اندر آتی ہیں ۔ اور ہم باہر بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں ۔  لمبے کو ریڈیو میں بے آواز نرسیں خاموشی سے گھوم رہی ہیں اردلی نیند کی غنودگی سے بیزار ٹہل رہے ہیں کہیں کہیں ہولے کوئی کراہتا ہے کوئی دھیرے  دھیرے سسکتا ہے۔  اشتیاق نے زہر کیوں کھایا؟ میں پوچھتا ہوں ۔ ۔ ۔  غبن کیا ہو گا۔ نصرت کا چھوٹا بھائی اندازہ لگا کر کہتا ہے۔  بہن نے ہولے ہولے گھر کا سارا خرچا اشتیاق کے سپرد کر دیا تھا۔ اور ہر وقت چار پانسو روپے اشتیاق کی جیب میں رہتے تھے کل بہن نے اشتیاق سے حساب دینے کو کہا تھا۔ آج اس نے زہر کھا لیا میرا خیال ہے کہ۔  تمہارا خیال غلط ہے۔ نصرت کا دوسرا بھائی بولا، اشتیاق میں دس برائیاں ہوں ، مگر وہ چور نہیں ہے آج تک اس نے ایک دھیلے کی چوری نہیں کی،میرے  خیال میں پچھلے ہفتے جو مرادآباد سے اسے اطلاع ملی تھی۔ کہ اس کے آبائی مکان والے مقدمے کا فیصلہ اس کے خالف ہے معلوم ہوتا ہے اس کا غم اسے  بہت ہوا ہے۔  اجی۔ نہیں ا ا اپنی گھنی بھوؤں پر ہاتھ پھر کر بولا اشتیاق کو مکان دکان پیسے سے کبھی محبت نہیں تھی یہ سب اس لونڈیا کا چکر ہے گلشن کا۔  گلشن۔ میرے کان کھڑے ہوئے گلشن کون ہے ؟ میرے ذہن میں ایک بلی کودنے  لگی۔  ایک نئی آیا رکھی ہے صاحب نے بڑی بد صورت لونڈیا ہے۔ مگر سولہ سترہ برس کی ہے۔ بھاگ بھاگ کام کرتی ہے۔ اس کا نام گلشن ہے اور صاحب ہم نے  سنا ہے کہ اشتیاق کی پہلی بیوی کا نام بھی گلشن تھا۔  ارے۔ میں چونک گیا۔  وہ کسیے ؟ پہلے تو صاحب سے کہتے رہے اس لڑکی کو نکال دو یہ کام ٹھیک سے نہیں‫کرتی ہے۔ پھر ایک دن مجھ سے کہنے لگا کہ میں اس وجہ سے اس کو نکلوانا چاہتا ہوں کہ اس نام گلشن ہے میں نے کہا بھلے مانس اس کا نام گلشن ہے تو کیا ہوا۔  کام تو ٹھیک کرتی ہے مگر اشتیاق نہیں مانے برابر اس کی شکایت کرتے مگر جب صاحب کسی طرح نہیں مانے تو معلوم نہیں کب انہوں نے ہار مانی اور کب اشتیاق نے رویہ بدلا، یہ اس لڑکی پر مہربان ہو گئے۔ دوسرے نوکر چا کر تو چائے پیتے تھے۔ یہ اس کو کافی پلاتے تھے۔ جو صرف صاحب اور بیگم صاحب پیتی ہیں ۔ پھر ایک دن گلشن کو جو پتہ چلا کہ اس کو کافی ملتی ہے اور دوسرے  نوکروں کو چائے ملتی ہے۔  تو ایک دم بدک گئی اور اس دن سے اس نے کافی پینے سے انکار کر دیا ایک دن اس نے اشتیاق کو بازار سے دیسی گھی صابن لانے کو کہا تو اس کے لئے  انگریزی صابن لے آئے، اس نے کھوپرے کا تیل لگا لیا۔ تو گلزار ہئیر آئل اٹھا لائے کل گلشن کی ماں کا خط آیا تھا۔ جو بیگم صاحبہ نے پڑہ کر سنایا تھا۔  اب اشتیاق کی تو عادت تھی چوروں کی طرح دروازے پر کھڑے ہو کر سننے  کی۔ گلشن کی ماں نے لکھا تھا اس نے اس کی شادی کی بات چیت مکمل کر لی ہے۔ لڑکا کسی سیمنٹ فیکٹری میں دربان ہے، یہ خالی باورچی تھے۔ وہ انہیں منہ کیا لگاتی بس جب سے یہ سنا کچن ہی میں بیٹھے بیٹھے ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں  لے رہے تھے۔ اور مجھ سے کہتے تھے اب جینا بیکار ہے۔ یہ آج دوپہر کی بات ہے۔ رات کو انہوں نے زہر کھا لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حامد اتنا کہہ کر چپاہو گئے۔  میں نے چند لمحوں کے سکوت کے بعد پوچھا۔ مگر زہر کھانے سے پہلے اس کمبخت نے لڑکی سے کوئی بات نہیں کی؟ بالکل نہیں صاحب۔ حامد خفا ہو کر بولے۔ بالکل یکطرفہ عشق تھا۔ دس دن تو ہوئے ہیں ۔ گلشن کو آئے ان دس دنوں میں انہوں نے اس لڑکی سے نفرت بھی کی دوستی بھی کی محبت بھی کی پھر آپ ہی آپ مر بھی گئے۔ سب کچھ دس دنوں  میں کر لیا۔ اس لڑکی کو تو کچی خبر ہی نہیں ہے صاحب۔ وہ تو ایسی بدصورت ہے ایسی بھیجے کی خالی ہے کہ اسے تو گمان تک نہیں گزر سکتا کوئی اس سے عشق کر سکتا ہے۔  حامد چونکہ بڈھے تھے اور زندگی کے اس دور سے گزر رہے تھے جب کوئی کسی سے محبت نہیں کر سکتا ہے۔ اس لئے داستان سناتے وقت ان کے لہجے کی شدید تلخی جس طرح ان کی مجبوری کی غمازی کر رہی تھی اس سے مجھے  بڑا لطف آیا۔  کوئی ساڑہے چہ بجے کے قریب ڈاکٹر کوٹھاری کمرہ نمبر سات سے برآمد ہوئے، اور مجھے دیکھ کر بولے، ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا، مگر اگلے چوبیس گھنٹے اس پر بہت نازک ہیں ۔ میں نے اس کا معدے صاف کر دیا ہے۔ گلوکوز کے  سیلائین پر رکھ دیا ہے کھانے کو دوا دے دی ہے انجکشن دے دئیے۔ کچھ لکھ دئیے ہیں ۔  

‫‫شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ مگر کیا مریض اس وقت ہوش میں ہے۔  ہوش میں تو ہے مگر ابھی بہت کمزور ہے ابھی زیادہ لوگ اس سے نہ ملیں تو بہتر ہو گا، ڈاکٹر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، صرف آپ اس سے چند منٹ کے لئے مل لیں ۔ میں نے تھانے ٹیلیفون کر دیا ہے۔ کسی وقت بھی پولیس انسپکٹر اس کا بیان لینے کے لئے آ سکتا ہے کیونکہ مریض کی حالت بہت نازک ہے۔  اتنا کہہ کر ڈاکٹر کو ٹھاری چلے گئے۔ تو نصرت کا چھوٹا بھائی بر افروختہ ہو کے بولا، خان صاحب گھر پر نہیں ہیں ۔ اور یہاں پولیس کے سامنے نہ جانے  کس کس کے بیان ہونگے۔ الو کے پٹھے کو اتنی عقل نہیں آئی کہ اگر مرنا ہی تھا تو سمندر میں ڈوب کے ہی مر جاتا، کسی گاڑی کے نیچے آ کر مر جاتا، کہیں  مر جانا اس گھر سے دور رہ کر ہی مرتا اور یوں ہی ہم سب کو پریشان کر کے  تو زہر نہ کھاتا۔  بجا فرمایا آپ نے۔ مرنے والوں کو ہمیشہ اپنے بعد زندہ رہنے والوں کی سہولت کا خیال کر کے مرنا چاہئیے۔ اس سلسلے میں اگر آپ رہنمائے خود کشی شائع کریں ، تو بتوں کا بھلا ہو گا، اتنا کہہ کر کمرہ نمبر سات میں داخل ہوا۔  اتفاق سے اس کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ نرس کوئی دوا لانے کے لئے گئی تھی۔ اشتیاق گہرے تکیوں میں سر جھکائے لیتا تھا۔ اس کے دائیں بازو کی رگ میں سیلائین جا رہا تھا، دوسرا بازو اس کے سینے پر تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اس کے سیاہ چہرے کے پچھے سفید تکیوں سے پرے کھڑکی کی پلکوں  پر بارش کے قطرے لرز رہے تھے اور کانچ کی سطج پر روشنی اور سائے  امید و بیم کی کشمکش طرح لرزاں تھے۔  اشتیاق میں نے اس کے بستر کے قریب جا کر سرگوشی میں کہا۔ اشتیاق سنو میں  پھر ذرا اونچی سرگوشی میں کہا۔ کان کھول کر سنو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ۔  نرس آ رہی ہے۔  اشتیاق نے آنکھیں کھولیں اور جب میں نے دیکھا کہ اس نے مجھے پہچان لیا ہے تو مین نے اس کے قریب جھک کر کہا،کسی وقت بھی پولیس انسپکٹر تمہارے پاس بیان قلم بند کرنے کے لئے آ جائے گا، اس سے صرف یہ کہنا ہو گا کہ تمہارے پیٹ میں درد تھا اور تم امرت الے کر سو گئے تھے اتفاق سے  کچن میں تمہارے سرہانے ٹونٹی کی شیشی بھی پڑی تھی۔ وہ بھی اتنی ہی بڑی تھی۔ جتنی امرت اکی اس لئے رات کو جب تمہارے پیٹ کا درد بڑھا تو تم نے غلطی سے امرت دھارااکی جگہ ٹیک ٹونٹ پی لی غلطی سے پی لی بس اور کچھ مت کہنا، سمجھے ہو۔  اشتیاق نے میری طرف دیکھ کر خاموشی سے سر ہلا دیا، آنکھوں کی پتلیاں نیم ساکت،ہونٹ اندر بھنچے ہوئے رخساروں کے گڑھے گہری اور ا تھاہ تاریکی میں کھوئے ہوئے، سینہ کھلا اور اجاڑ خشک بالوں سے ڈھکا ہوا۔ کسی ویران جزیرے کے مانند اور دبلی پتلی پسلیاں کسی شکستہ معبد کی سیڑھیوں کی طرح زندگی کے سوکھے تالاب کی طرف جاتی ہوئی۔  

‫‫اشتیاق۔ اشتیاق تم نے ایسا کیوں کیا؟میں نے اس کے سر پر جھک کر پوچھا۔ اس کا چہرہ دیر تک بالک ساکت رہا، جیسے اس نے میرا سوال نہ سنا تھا۔ پھر اس کا ہاتھ اس کے سینے پر سرکنے لگا دھیرے دھیرے وہ اپنا سینہ اپنی انگلیوں  سے سہلاتے ہوئے ہوا کی سی سرگوشی میں بولا سینہ خالی ہے۔  سینہ خالی ہے۔ کتنی صدیوں سے انسان کا سینہ خالی ہے اور انسان کا یہ خالی سینہ دم نہ بھر سکے۔ مسیح نہ بھر سکے اور حسین نہ بھر سکے تو تم کیا بھر سکو گے احمق باورچی ارے اس سینہ کے اندر خوف ناک اے ہیں اور گہری کھائیں ، کیسے کیسے خلا بھر جائے پہلے تو تم نے اس زنخے نواب کو اس میں پھیکا پھر ایک بلی کو دم سے باندھ کر دم سے اٹکا دیا۔ پھر سینکڑوں اکپ چائے کے اس میں انڈیل دئیے اور ڈبل روٹیاں کاٹ کاٹ کر اس اندر پھینکتے رہے۔ تم میری ٹوتھ پیسٹ بناتے رہے۔ اور خود بے گھر رہ کر دوسروں کے لے گھر اتے رہے۔ اور اپنے بچوں کی مایوسی میں دوسروں  کے بچوں سے محبت کرتے مگر تم گلشن کو کبھی بھول نہ سکے اور کسی طرح یہ خلا پر نہ ہو سکا۔ گلشن گلشن تم کانٹے چنتے رہے اور بے قرار اور مضطرب ہو کر ایک پیشے سے دوسرے پیشے کی چکی میں گھستے ہے تاکہ کسی طرح تم وہ خلا بھر سکو۔ جسے صرف ایک عورت کی محبت بھر سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پگلے  نرس اندر آ گئی، میں نے ایک لمحے کے لئے اشتیاق کا خاموش ستا ہوا بد ہئیت چہرہ دیکھا۔ تکیوں کے پیچھے بند کھڑکی کی پلکوں سے چند قطرے ہوا سے  لرز کر ٹوٹے اور کانچ کے رخساروں پر بہتے ہوئے چلے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کمرے  سے باہر نکل آیا۔

ماخذ: http://www.scribd.com/doc/14218125/Krishan-Chandar-Ke-Afsanay

تشکر: شاہد ریاض‫‪shahid.riaz@gmail.com  

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔