07:50    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

سفرنامے

4220 0 0 00

پھر سوئے حرم لے چل - یوسفِ ثانی

ابتدائیہ

بلا شبہ اللہ اپنے بندوں پر بہت رحیم و شفیق ہے۔بندہ جب صدقِ دل سے اللہ کے گھر جانے کا ارادہ کر لے تو وہ اس کے لئے راستے ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔ گذشتہ برس جب ہم نے حج کی نیت کی تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور جملہ مشکلات دور ہوتی چلی گئیں اور ہم نے حج کی تیاری شروع کر دی کہ رب العالمین کا فرمان ہے : اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو۔(البقرہ۔ ۱۹۶ ) عمرہ ادا کرنے کی سعادت تو دو برس قبل ہی اہلیہ کے ہمراہ اور اس سے کافی عرصہ قبل سعودی عرب میں اپنے مختصر قیام کے دوران کئی مرتبہ حاصل کر چکا تھا، مگر حج کا فریضہ ابھی باقی تھا۔ لہٰذا ہم اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے کے لئے عازمینِ حج کی صف میں شامل ہو گئے کہ گناہوں کی یہ گٹھری کافی وزنی ہو چکی تھی کیونکہ اب ع میں نصف صدی کا قصہ ہوں، دوچار برس کی بات نہیں۔ موسیٰ لین لیاری کراچی کے پروفیسر سلیم میمن کافی عرصہ سے عازمینِ حج کی خدمت کر رہے ہیں۔ موصوف خود بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ ہر سال عازمینِ حج کے ساتھ جاتے ہیں اور وہاں انہیں ہر ممکن مادی و تربیتی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی انہی کے گروپ کے ساتھ حج پر جانے کا فیصلہ کیا، جو درست ثابت ہوا۔

پہلا وہ گھر خدا کا

بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھُلی ہوئی نشانیاں ہیں،  ابراہیم علیہ السلام کا مقامِ عبادت ہے۔ اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔(آلِ عمران....۹۷)

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔ اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔(سورة الحج....۳۰)

اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ (البقرة.... ۱۲۵)

اور یاد کرو، ابراہیم علیہ السلام اور اسمٰعیل علیہ السلام جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: ’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے‘‘۔ (البقرة ....۱۲۹)

اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ خبردار ہو جاؤ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ (المآئدة....۹۹)

قرآنی ہدایاتِ حج

اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اَسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکّے پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور اگر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اس طرح پُورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہو گا۔ سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چُکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئیں۔ پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہو گیا تو کوئی حرج نہیں،  اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں __ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔(البقرة....۱۹۶ تا ۲۰۳)

حالت احرام میں شکار حلال نہیں :اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔(المآئدة....۱)

احرام میں شکار کا کفارہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہو گا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہو گا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔ یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہو چکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا۔ لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا۔ اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ (المآئدة.۹۵)

احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے

تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا۔ جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِ راہ بھی بنا سکتے ہو۔ البتہ خشکی کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔(المآئدة....۹۶)

فرائضِ حج

(۱) اِحرام۔مردوں کے لئے دو چادریں جبکہ عورتوں کے لئے معمول کا لباس۔ نیت کرنا اور تین بار تلبیہ پڑھنا۔

(۲) وقوفِ عرفات۔

(۳) طوافِ زیارت (خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانا)

واجباتِ حج

۱۔ وقوفِ مزدلفہ

۲۔ رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا)

۳۔ حج کی قربانی

۴۔ بالوں کا حلق یا قصر

۵۔ صفا و مروا کی سعی (صفا پہاڑی سے مروا پہاڑی تک آنا اور جانا، کل سات مرتبہ)

۶۔ طوافِ وداع

۸ ذی الحجہ

٭ اپنی رہائش پر غسل یا وضو کر کے احرام باندھنا۔

٭ اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل نماز ادا کرنا۔

٭  پھر حج کی نیت کرنا کہ اے اللہ میں حج کی نیت کرتا ہوں،  اس کو میرے لئے آسان فرما دیجئے اور قبول فرمائیے۔ (اَللّٰھُمَّ اِنّی اُریدُالحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی)

٭  اس کے بعد تین مرتبہ تلبیہ پڑھنا۔

٭ اب احرام کی پابندیاں شروع ہو گئیں۔

٭ اس کے بعد مکہ سے تین میل دور منیٰ کو روانگی جہاں دن اور رات کو منیٰ میں قیام کرنا۔

۹ ذی الحجہ

٭  منیٰ سے طلوع آفتاب کے بعد ۶ میل دور عرفات کو روانگی۔

٭ غسل یا وضو کر کے زوال سے غروبِ آفتاب تک دوسرا فرض وقوفِ عرفات کرنا جو کھڑے ہو کر کرنا افضل ہے۔

٭ غروبِ آفتاب کے بعد نمازِ مغرب پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہونا۔

٭  مزدلفہ پہنچنے کے بعد (رات جس وقت بھی پہنچیں ) مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھی پڑھنا۔

٭  یہ مبارک رات ہے۔ اس رات ذکر اذکار، دعا اور آرام کرنا ہے۔

۱۰ ذی الحجہ

٭ مزدلفہ ہی میں نمازِ فجر کے بعد سے طلوع آفتاب کے قریب تک وقوفِ مزدلفہ کرنا۔

٭  رَمی کے لئے کنکریاں مزدلفہ سے اٹھانا۔ ( احتیاطاً ستّر ۷۰کنکریاں جمع کر لیں )۔

٭ طلوع آفتاب کے وقت مزدلفہ سے تین میل دور منیٰ روانہ ہونا۔

٭ زوال سے پہلے منیٰ میں جمرہ عقبہ کی رمی کرنا یعنی سات کنکر یاں مارنا۔ رمی کے دوران آپ کا رُخ اس طرح ہو کہ دائیں جانب منیٰ اور بائیں جانب مکہ ہو۔

٭  جمرہ عقبہ کی رمی کے آغاز سے ہی تلبیہ بند کر دینا۔

٭  بطور شکرانہ حج کی قربانی کرنا جو عید الضحیٰ کی قربانی سے الگ ہے۔

٭  قربانی کرنے کے بعد بالوں کا حلق (گنجا ہونا) یا قصر کرنا (کم از کم بالوں کی ایک تہائی لمبائی کو کاٹنا)۔ خواتین تمام بالوں کے آخری سرے کو تقریباً دو انچ تک کاٹیں۔

 ٭  اب زوجین کے تعلقات کے علاوہ احرام کی جملہ پابندیاں ختم ہو گئیں۔

٭  غسل یا وضو کے بعد احرام میں ہی یا پھر عام لباس پہن کر مکہ روانہ ہونا۔

٭  تیسرا اور آخری فرض، طوافِ زیارت کی ادائیگی جو۱۰ تا ۱۲ ذی الحج کی جا سکتی ہے مگر۱۰ ذی الحج کو کرنا افضل ہے۔

٭ طوافِ زیارت کے بعد دو رکعت نمازِ طواف ادا کرنا۔

 ٭  اگر ممکن ہو توملتزم پر دعا کرنا۔

٭  زم زم کا پانی سیر ہو کر پینا۔

٭  صفا و مروا کی سعی کرنا۔

٭  جمرات کی رمی کے لئے منیٰ روانگی۔

۱۱ ذی الحجہ

٭ بعد زوال اور غروبِ آفتاب سے قبل پہلے جمرہ اولیٰ پھر جمرہ وسطیٰ کی رَمی کرنا یعنی سات کنکریاں مارنا۔ اس کے بعد دعا کرنا کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہے

٭  آخر میں جمرہ و عقبہ کی رمی کرنا۔ اس رَمی کے بعد کوئی دعا نہیں ہے۔

۱۲ ذی الحجہ

٭ زوال اور غروبِ آفتاب کے درمیان تینوں جمرات کی بالترتیب رَمی کرنا۔

٭  منیٰ میں ہی قیام کریں یا مکہ روانہ ہو جائیں۔

٭ افضل یہی ہے کہ منٰی میں قیام کریں اور ۱۳ ذی الحجہ کی رمی کر کے ہی مکہ روانہ ہوں

۱۳ ذی الحجہ

٭ اگر۱۳۱ ذی الحجہ کی صبح منیٰ میں ہو گئی تو ۱۳ ذی الحجہ کی رمی بھی واجب ہو گی، ورنہ نہیں۔

مدینہ میں مرنے اور دفن ہونے کی فضیلت

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو اس کی کوشش کر سکے کہ مدینہ میں اس کی موت ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ مدینہ میں مرے۔ میں ان لوگوں کی ضرور شفاعت کروں گا جو مدینہ میں مریں گے۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)یحییٰ بن سعید انصاری تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں مدینہ کے قبرستان میں کسی میت کی قبر کھودی جا رہی تھی۔ ایک صاحب نے قبر میں جھانک کر دیکھا اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسلمان کے لئے یہ اچھی آرام گاہ نہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ تمہاری زبان سے بہت بری بات نکلی۔ روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اپنی قبر کا ہونا مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو۔یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ (موطا امام مالک)

اپنی تالیف ’پیغامِ حدیث‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری کے دوران ان احادیث پر نظر پڑی تو دل میں یہ تمنا جاگ اٹھی کہ کاش ہمیں بھی اس سفر حج کے دوران مکہ یا مدینہ کی خاک اوڑھ کر ابدی نیند سونے کی سعادت حاصل ہو جائے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ سے رسمی دعا بھی کی اور ایک آدھ قریبی احباب سے اس کا تذکرہ بھی کیا۔ہوائی سفر کے آغاز پر جب ہم نے اہلیہ محترمہ کو اپنی اس تمنا اور دعا کا بتلایا تو وہ آبدیدہ سی ہو گئیں۔ ہم نے کہا کہ کیا تمہارا اللہ اور تقدیر پر ایمان نہیں۔ ہم ہوں یا نہ ہوں،  تمہارا پالنہار تو اللہ ہی ہے۔ وہی اس وقت بھی تمہیں پال رہا ہے اور آیندہ بھی پالے گا۔ اللہ پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھو۔ شکر ہے ہماری یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور چھلکتے نین، چھلکنے سے رہ گئے۔

ایامِ حج سے چند دن قبل اور بعد کے کچھ دن ہماری رہائش حرم سے کوئی تین کلو میٹر دور ’کاکیا ‘ کے علاقہ میں تھی۔چونکہ یہاں سے حرم شریف میں پانچوں وقت نماز کے لئے جانا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا ہم مکہ پہنچ کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد ’کاکیا ‘ہی میں ایک قریبی مسجد میں نمازیں ادا کرنے لگے۔ ہم ٹھہرے بلند فشارِ خون اور ذیابیطس کے مریض۔ گو دواؤں کا بنڈل ہمارے ساتھ تھا مگر کراچی سے روانگی، جدہ ایئر پورٹ پر دن بھر کی تھکان، عمرہ کی مشقت، ان سب نے مل کر اپنا اثر دکھایا۔ اور شاید دوائیں کھانے کا معمول بھی برقرار نہ رہ سکا۔ سعودی عرب میں یہ ہمارا دوسرا یا تیسرا ہی دن تھا کہ ایک روز مقامی مسجد میں فجر کی نماز کے دوسرے رکعت میں حالت غیر ہو گئی۔چنانچہ نماز توڑ کا فوراً مسجد سے باہر نکلے تاکہ ہوٹل پہنچ سکیں۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی الٹی ہو گئی۔ دماغ نے فوراً سگنل دیا کہ بلڈ شوگر کم (ہائپو) ہو گیا ہے۔ ہوٹل کے دروازے پر پہنچے تو وہاں چائے کا اسٹال نظر آیا۔ فوراً ایک چمچہ چینی کا کھایا۔ ایک کپ چائے پی تو کچھ ہی دیر میں حالت بہتر ہو گئی۔یوں ہماری دعا قبول ہوتے ہوتے رہ گئی کہ ابھی تو ہم صرف عازمِ حج ہی تھے۔ حج کی ادائیگی ابھی باقی تھی۔

اس قسم کا دوسرا ’موقع‘ حج کی ادائیگی کے بعد ہمارے چالیس روزہ سفر حج کے عین وسط میں اُس وقت پیش آیا جب ہم حرمِ کعبہ سے چند منٹ کے فاصلہ پر واقع اپنے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ رات گئے ہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ زم زم کی دس دس لٹر کی تین بوتلیں بھر کر ہوٹل پہنچے تو بخار نے آ پکڑا بلکہ جکڑ لیا۔ دوائیں ہمارے پاس موجود تھیں۔ مگر بخار نے پھر بھی ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ ایک دن تک بستر سے اُٹھنے اور دو دن تک ہوٹل سے نکلنے سے معذور رہے۔کمزوری مزید اگلے تین چار روز تک برقرار رہی۔ اور یوں یہاں بھی ’وصال‘ کی آرزو، آرزو ہی رہی۔ ایسا ہی ایک آخری موقع مدینہ منورہ میں بھی ملا۔ اس مرتبہ مرضِ بلند فشارِ خون نے ہماری دعا کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔ ۳۵ دن تک غیر معمولی بھاگ دوڑ کے سبب اس مرض کو کنٹرول کرنے میں پاکستان سے ساتھ لائی ہوئی تمام ادویات ختم ہو گئیں تو ہم نے مقامی فارمیسی سے بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کی ایک دوائی کا پیکٹ خرید لیا۔ یہ سوچ کر کہ اب چار پانچ دن ہی تو رہ گئے ہیں۔ ان سے گذارا ہو جائے گا۔ دواؤں کے ساتھ ساتھ ہم بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر مانیٹر بھی لے گئے تھے تاکہ ان دونوں امراض کو خود بھی مانیٹر کرتے رہیں کہ وہاں ہر وقت اور ہر جگہ بآسانی ڈاکٹر کا ملنا ممکن نہ تھا۔ اسی آخری ہفتہ کا ذکر ہے کہ ایک روز بلند فشارِ خون ہماری خودی کی طرح بلند ہونے لگا تو ہم نے اسے مزید بلند ہونے سے روکنے کے لئے متعلقہ دوائی کی دُہری خوراک لے لی۔مصرع ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کو بچپن سے سنتے اور پڑھتے چلے آئے تھے مگر اس کی’ عملی تفسیر ‘ آج معلوم ہو رہی تھی۔ ۲۴ گھنٹہ میں دو مرتبہ کھانے والے کیپسول کو چار گھنٹہ میں چار مرتبہ کھایا، مگر جب بھی کھایا، فشارِ خون کو مزید بلند پایا۔ جب حالت غیر ہونے لگی تو برادرم پروفیسر سلیم میمن کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ اتفاق سے اُس وقت اُن کے پاس ایک دوست ڈاکٹر شوکت آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کیس ہسٹری لی اور نتیجہ یہ نکالا کہ چونکہ ہم خلافِ معمول بلند فشارِ خون کے لئے صرف ایک دوائی لے رہے تھے، دو تین دوائیوں کا مجموعہ نہیں،  لہٰذا ہمارا بلند فشارِ خون معمول پر نہیں آ رہا تھا۔ انہیں نے دیگر دوائیوں کے ساتھ ساتھ ایمر جنسی میں استعمال ہونے والی دوائی بھی منگوا کر کھلائی اور ہدایت کی کہ اب ان دوائیوں کے مجموعہ کو ہی کھانا ہے۔ ان شاء اللہ بلڈ پریشر نارمل ہو جائے گا جو اگلے روز تک ہو بھی گیا۔ اور قیامِ مدینہ کے آخری دو تین روز میں ہم بھلے چنگے ہو گئے۔اور مدینہ کے جنت البقیع قبرستان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بجھے بجھے قدموں سے وطن واپسی کے لئے جدہ ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ تحریر یہاں تک لکھی جاچکی تھی کہ ایک دلچسپ صورتحال کا انکشاف ہوا۔ معلوم ہوا کہ جب ہم نے تہہِ خاکِ مدینہ میں ہمیشہ کی نیند سو جانے کی اپنی دُعا کا اظہار بیگم صاحبہ سے کیا تھا تو انہوں نے بھی چپکے چپکے اپنے دل میں ایک دعا مانگ لی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے یا تو ہماری سننی تھی یا بیگم صاحبہ کی۔ کیا اب بھی یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ بیگم صاحبہ کی دعا کیا تھی؟ ع یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال ’وہاں ‘ہوتا۔

مشاہدات و تجاویز

منیٰ میں بیشتر خیمے قبلہ رُخ نہیں ہیں جس کی وجہ سے با جماعت نماز میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔خیموں کی چاروں ضلعی دیواروں میں سے کوئی ایک دیوار قبلہ رُخ ہونی چاہئیے تاکہ دورانِ نماز صف بندی میں آسانی ہو۔ اگست ۲۰۱۰ ء میں سعودی نائب وزیر زین العابدین نے بتلایا تھا کہ منیٰ کے شمال میں ۱۵ لاکھ افراد کے قیام کے لئے تیس ارب سعودی ریال کی لاگت سے ایک نیا شہر تعمیر کیا جا رہا ہے جو یا تو کنکریٹ کی عمارتوں پر مبنی ہوں گی یا جدید ڈیزائن کے نئے خیمے ہوں گے۔ ہم نے جمرات سے متصل منیٰ کے خیموں کے ساتھ ہی کثیر منزلہ عمارتوں اپارٹمنٹس کا ایک بلاک دیکھا جو مکمل ہو چکا تھا۔ یقیناً یہی اپارٹمنٹس موجودہ خیموں کا بتدریج متبادل بنیں گے۔ کیونکہ وزیر موصوف کے بقول یہ پروجیکٹ اگلے پانچ سالوں میں مکمل ہو گا۔ کاش ان عمارتوں میں قبلہ رُخ کا اس طرح اہتمام ہو کہ ہر کمرے کی کوئی نہ کوئی دیوار قبلہ رُخ ہو۔

٭  منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں بنائے گئے چھوٹے چھوٹے عوامی بیت الخلا کے اندر ہی غسل کے لئے شاور نصب ہیں۔ غسل خانے اور بیت الخلا الگ الگ ہونے چاہئیے تاکہ عازمینِ حج کو غسل کرتے ہوئے کراہیت محسوس نہ ہو اور دورانِ غسل ناپاک چھینٹوں سے بھی بچا جا سکے۔ احرام کے ساتھ ان ’ ٹوائلیٹ والے چھوٹے چھوٹے غسل خانوں ‘ کا استعمال مردوں کے لئے تو مشکل ہوتا ہی ہے، یقیناً خواتین کو بھی دقت پیش آتی ہوتی ہو گی۔

٭ خیموں کی رہائش گاہوں میں دیواروں کے ساتھ ساتھ ہر بستر کے اوپر چار پانچ فٹ کی بلندی پر ایسے مضبوط ہُک نصب ہوں جن پر حجاج اپنے سامان کے بیگ لٹکا سکیں۔ بیگ نیچے فرش پر رکھے جانے کی وجہ سے دستیاب شدہ قلیل جگہ مزید مختصر ہو جاتی ہے۔ اور حجاج کے بیگز بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔

٭  بالوں کا حلق یا قصر: حج کا واجب رکن ہے اور اس کی ادائیگی کے بغیر کوئی حاجی احرام کی پابندیوں سے باہر نہیں آ سکتا۔منیٰ میں حلق یا قصر کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ صرف جمرات کے قریب حجام کی چند دکانیں ہیں جو لاکھوں حجاج کے لئے ناکافی ہیں۔ لہٰذا لوگ منیٰ میں اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کے بال مونڈتے نظر آتے ہیں۔ جنہیں سعودی شُرطے ایسا کرنے سے روکتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ۱۰ ذی الحجہ کو ہر خیمے میں یا دو تین متصل خیموں کے لئے علیحدہ علیحدہ عارضی حجاموں کا انتظام مکتب کی طرف سے کیا جائے جو مقررہ ریٹ پر بالوں کو مونڈے یا قصر کرے۔ جمرات کے قریب واقع باربر شاپ پر رش کی وجہ سے وہاں حجام حضرات بخشش لیتے بھی نظر آئے۔ ۲۰ ریال مقررہ اجرت کے علاوہ ۵۰ ریال تک کی بخشش لیتے ہوئے تو ہم نے خود دیکھا۔گویا حاجی صاحبان نے ۷۰ ریال صرف بال مونڈنے کے دیئے۔ واضح رہے کہ یہ اُن بخششوں کا تذکرہ ہے جو جبراً لی جا رہی تھیں۔ واضح رہے کہ خانہ کعبہ کے ارد گرد قائم مستقل باربر شاپس میں عمرہ ادا کرنے والے زیادہ سے زیادہ دس ریال دے کر حلق کراتے ہیں۔ بعض باربر شاپ والے تو محض ۵ ریال یا اس سے بھی کم لیتے ہوئے نظر آئے۔

٭  عوامی بیت الخلا کے علاوہ ہر خیمہ کے اندر بھی ایک ایک وضو خانہ اور ممکن ہو تو ایک ایک حمام بھی قائم کیا جائے تاکہ باہر مشترکہ حمام میں رات دن ہر نماز سے قبل طویل قطاروں سے بچا جا سکے۔ شہری خواتین کے لئے بالخصوص یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے کہ عموماً مردوں کے بیت الخلا سے متصل واقع خواتین کے بیت الخلا کی طویل قطار میں کھڑی ہوں۔ ہر خیمہ کے اندر کم از کم ایک یا دو واش رومز اور وضو خانہ ہونے کی صورت میں لوگ خیموں کے اندر ہی باری باری فارغ ہولیا کریں گے اور باہر رش کم نظر آیا کرے گا۔

٭ سعی: وھیل چیئر پر طواف و سعی کروانے والے مزدور پیشہ مول تول کے ذریعہ ۵۰۰ ریال تک کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ تجویز ہے کہ اس کے ریٹس فکس کئے جائیں جو ۵۰ تا ۱۰۰ ریال سے زائد نہ ہوں۔ اور اس کے باقاعدہ کاؤنٹر قائم ہوں جہاں سے ٹوکن بمع نمبر جاری ہوں۔ تاکہ لوگ لوگ ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کریں۔

٭ طوافِ زیارت کے لئے منیٰ سے بیت اللہ شریف جانے اور آنے کے لئے ٹرانسپورٹ کا معقول انتظام نظر نہیں آیا۔ اس ضمن میں باقاعدہ بڑی بسیں مختلف مکاتب کے لئے مختلف اوقات میں چلائی جائیں۔ ان بسوں کا کرایہ بھی مقررہ ہو۔اس مقصد کے لئے لوگوں کو بالخصوص بوڑھوں اور خواتین کو میلوں چلنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کوئی نجی سواری ملتی ہے جو منہ مانگا کرایہ طلب کرتی ہے۔ بہت سے لوگ تو منیٰ تا بیت اللہ شریف پیدل بھی جاتے آتے نظر آئے۔بعض بسوں ویگنوں والوں نے ۵۰ پچاس ریال فی سواری تک کرایہ وصول کیا اور بیت اللہ اور منیٰ سے خاصا دور بھی اتارا۔

٭  منیٰ میں مقیم جمرات سے دور مکاتب والوں کے لئے بھی سواری کا انتظام ہو۔ تاکہ انہیں منیٰ والی اپنی قیام گاہ سے جمرات آنے جانے میں آسانی ہو۔

٭ اس سال پہلی مرتبہ آزمائشی بنیادوں پر منیٰ میں ٹرین سروس کا آغاز کیا گیا جس کا کرایہ ۰۰۱ ریال فی کس تھا جو بہت زیادہ ہے۔ٹرین سروس کو سرکلر ریلوے کی طرز پر اس طرح توسیع دی جائے کہ منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منیٰ، منیٰ سے جمرات بلکہ بیت اللہ تک لوگ بآسانی آ جا سکیں۔

٭  عرفات میں قناتوں کے مختلف کیمپس لگے ہوتے ہیں جن پر باقاعدہ نمبر الاٹ ہوتے ہیں۔ یہاں حاجی صبح سے شام تک رہتے ہیں۔ اسی طرح عرفات سے مزدلفہ پہنچ کر حاجی وہاں پوری رات رہتے ہیں۔ مگر مزدلفہ میں شب بسری کے لئے کوئی باقاعدہ نظام نظر نہیں آیا۔ عرفات کی طرح مزدلفہ میں بھی مکاتب کی طرز پر کیمپس قائم کئے جائیں۔ چونکہ یہاں کھلے آسمان تلے شب بسر کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا صرف تین یا چار فٹ اونچی قناتوں کی باؤنڈریز ہی کافی ہوں گی۔ تاکہ ان مجوزہ باؤنڈریز کے اندر خواتین و مرد الگ الگ حصوں میں شب بسری اور وقوف کر سکیں۔ اس طرح خواتین خصوصاً موجودہ بے پردگی سے بچ سکیں گی۔ اس وقت وہ لب سڑک اِدھر اُدھر بے پردہ الٹی سیدھی لیٹی نظر آتی ہیں۔ اور ان خواتین کے محرم مرد حضرات بوقتِ ضرورت ان کی تلاش میں دیگر خواتین کو دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مزدلفہ میں بھی حاجیوں کے رات کے قیام کو عرفات ہی کی طرح باقاعدہ انتظام کیا جائے۔

٭  قبلہ رخ: منیٰ عرفات اور مزدلفہ۔ ان تینوں جگہوں پر قیام اور وقوف کے لئے کی گئیں حد بندیاں قبلہ رُخ سے آزاد ہیں۔ نمازیوں کو آڑی ترچھی صفیں بنانی پڑتی ہیں۔ منیٰ کے خیمہ اور عرفات کی قناتیں اور مزدلفہ کی مجوزہ سیٹنگ اس طرح کی جائے چہار دیواری کی کوئی نہ کوئی دیوار قبلہ کی طرف ہو تاکہ کم جگہ میں سیدھی صفیں بن سکیں اور لوگ آسانی سے نمازیں پڑھ سکیں۔

٭  مزدلفہ میں اکثر جگہوں پر اور عرفات میں کہیں کہیں قیام کرنے کی جگہوں پر زمین کی سطح غیر ہموار ہے۔ان غیر ہموار سطحوں پر نمازیوں کی صفیں بھی بے ترتیب ہوتیں ہیں اور کچھ دیر آرام کی خاطر لیٹنے والے حاجیوں کو بھی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ سعودی حج انتظامیہ کو چاہئیے کہ ان نا ہموار زمینوں کو ہموار کروا دے۔

٭  کنکریاں : مزدلفہ میں جگہ جگہ کنکریوں کے ڈھیر لگائے جائیں تاکہ انہیں ’’چننا ‘‘نہ پڑے۔ اس مرتبہ مزدلفہ میں جگہ جگہ کنکریوں کے پیکٹس بھی تقسیم کئے گئے۔ ایسا انتظام ہر حاجی کے لئے ہونا چاہئے۔ عرفات میں کھانے کے پیکٹس کے ساتھ ہی کنکریوں کا پیکٹس بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر مزدلفہ ہی میں وافر مقدار میں پیکٹس تقسیم کئے جائیں تاکہ یہ پیکٹس ہر حاجی کو مل سکیں۔ ہر حاجی کو کل ۷۰ کنکریاں درکار ہوتی ہیں۔ چنانچہ احتیاطاً ہر پیکٹس میں ۸۰ کنکریاں ہوں تو بہتر ہو گا۔

خطبہ حج : مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ آلِ الشیخ نے ۹ ذی الحجہ ۲۰۱۰ کو میدانِ عرفات کے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے مکمل شریعت کے ساتھ تمام کائنات کے لئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا۔ اسلام شفقت اور رحمدلی کی تلقین کرتا ہے۔ یہ وہ عالمگیر دین ہے جو ہر زمانے کے فتنوں کا سامنا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔حج کے دوران بہت کم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ وہ مسجدِ نمرہ میں جا کر خطبہ حج سن سکیں۔ چنانچہ یہ خطبہ ریڈیو سے براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ حجاج الانصار کے پروفیسر سلیم میمن نے اپنے کیمپ میں حاجیوں کے لئے ایف ایم ریڈیو اور پورٹیبل اسپیکرز کا خصوصی انتظام کیا تھا تاکہ جملہ خواتین و مرد حجاج کرام بآسانی یہ خطبہ سن سکیں۔ قریبی کیمپس کے بعض دیگر حجاج بھی ہمارے کیمپس میں یہ خطبہ سنتے نظر آئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ خطبہ سننے کا ہر کیمپ میں انتظام نہ تھا۔کاش تمام مکاتب کے ذمہ داران اس طرف توجہ دے سکیں۔ مفتی اعظم نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ اسلام کا نظام عدل و انصاف پر قائم ہے جس میں ظلم اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلام کسی بھی انسان کا ناحق خون بہانے والوں اور فساد پھیلانے والوں کو سخت سزا کی ہدایت کرتا ہے۔ مسلمانوں اور ذمیوں کے جان و مال کو نقصان پہچانا اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔اسلام بنی نوع انسان کو عزت بخشنے کے لئے آیا ہے۔ یہ دین عبادتوں کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرے کی دیکھ بھال کی بھی تلقین کرتا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کو اپنے دین پر فخر کرنا چاہئیے۔شیخ عبدالعزیز نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایک ایسی شریعت دی ہے جس میں انسانیت کے لئے مکمل رہنمائے موجود ہے۔ اسلام میں سب سے زیادہ زور رزقِ حلال پر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تعلیم دی ہے کہ اپنی دولت کو حرام کاموں پر مت خرچ کرو۔ مالدار لوگ ایسے لوگوں کا خیال کریں جو رزق کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا نظامِ جرم و سزا ایک جامع نظام ہے جس سے معاشرے میں نظم و نسق قائم ہوتا ہے۔ اسلامی سزائیں معاشرے کی اصلاح کے لئے ہیں۔ نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا، یہ بھی اسلام کی تعلیمات میں سے ہیں۔ مفتی اعظم نے کہا کہ جو قوم شکر چھوڑ دیتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں کو مصیبت بنا دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی شریعت تمام انسانوں کے لئے ہے۔ اور ہم تمام غیر مسلموں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ قرآن کو پڑھیں۔ اس دین کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانوں کے لئے آسانی پیدا کرتی ہے۔ آسانی اور سہولت کو اسلام کی روح کے مطابق اختیار کرنا ہی دین کا مقصد ہے۔قرآن کی تشریح اپنی مرضی سے کرنے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ امت میں اختلافات کو ہوا دینے والے امت کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ رہبرانِ ملت اور عوام مل کر قرآن کی تبلیغ کے لئے کوشاں رہیں۔ مفتی اعظم نے مسلم دنیا، پاکستان، افغانستان اور فلسطین میں امن کے لئے خصوصی دعا کی۔

حسب روایت اس سال بھی ۹ ذی الحجہ کو غلافَ کعبہ تبدیل کیا گیا۔ نیا غلافِ کعبہ دو کروڑ ریال کی لاگت سے ۶۷۰ کلو گرام خالص ریشم سے تیار کیا گیا ہے۔ اس غلاف کی تیاری میں ۱۵۰ کلوگرام خالص سونا اور چاندی بھی استعمال کی گئی ہے اور اس پر بیت اللہ کی حرمت اور حج کی فرضیت و فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کشیدہ کی گئی ہیں۔ غلافِ کعبہ کا سائز ۶۵۸ مربع میٹر ہے اور یہ ۴۷ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر حصہ ۱۴ میٹر طویل اور ۹۵ سینٹی میٹر چورا ہوتا ہے۔ غلافِ کعبہ کی تبدیلی کے موقع پر اسلامی ممالک کے سفیر، اعلیٰ سعودی حکام اور شہر کی اہم شخصیات شریک تھیں۔ واضح رہے کہ اُتارے جانے والے غلافِ کعبہ کے ٹکڑے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہانِ مملکت اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کر دئے جاتے ہیں۔ اب سعودی حکام حج کے دنوں میں غلافِ کعبہ کو سطح زمین سے کوئی دس فٹ بلند سمیٹ دیتے ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں حج پر آئے ہوئے بعض حجاج کرام تبرک کی خاطر غلافِ کے ٹکڑے کاٹ کر اپنے ہمراہ لے جانے لگے تھے۔

بچپن میں ہم ہر سال حج کے موقع پر منیٰ کے خیموں میں آگ لگنے سے حجاج کی شہادتوں کی خبریں سنا کرتے تھے۔ لیکن جب سے منیٰ میں فائر پروف خیمے نصب کئے گئے ہیں،  آگ لگنے کے واقعات تقریباً ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ تاہم اس سال مصری حجاج کے ۳۸ جل کر خاکستر ہو گئے۔ تاہم خیمہ بستی خالی ہونے کے سبب کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ آگ ممکنہ طور پر بجلی کے شارٹ سرکٹ کے باعث ہوا۔ بہت سے پاکستانی خیموں میں بھی وقتاً فوقتاً بجلی کی سپلائی معطل ہوتی رہی۔ تاہم کہیں سے کوئی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ملی۔واضح رہے کہ منیٰ میں تین ارب ریال کی لاگت سے ۴۰ ہزار فائر پروف خیمے بنائے گئے ہیں۔ خادم الحرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کی دعوت پر اس سال مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی ۱۳۰۰ ممتاز شخصیات نے شاہی مہمان کے طور پر فریضہ حج ادا کیا۔

عموماً حج و عمرہ کی کتابوں میں مختلف فقہ کے مطابق مختلف طریقے درج ہوتے ہیں۔ اسی طرح حج و عمرہ کے سفر کی روداد میں بھی ہر حاجی صرف اپنے نقطہ نظر سے ہی لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ذاتی تاثرات و مشاہدات کے ساتھ ساتھ بنیادی ارکانِ حج کو بیان کرنے کے علاوہ قرآن و حدیث سے براہِ راست اقتباسات پیش کریں۔ لہٰذا مسائلِ حج پر کتاب الحج سے منتخب احادیث پیش خدمت ہیں تاکہ قارئین براہِ راست ہدایاتِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے استفادہ کر سکیں۔

حج کی فضیلت

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ ہم جہاد کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں تو پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سب سے افضل جہاد ’’حجِ مقبول‘‘ ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اﷲ کے لئے حج کرے پھر حج کے دوران کوئی فحش بات کرے اور نہ گناہ کرے تو وہ حج کر کے اس طرح بے گناہ واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے بے گناہ جنم دیا تھا۔سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ علیہ و سلم اﷲ میرے ضعیف با پ پر حج فرض ہے مگر وہ سواری پر نہیں جم سکتے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں کر لے۔(بخاری)

حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اﷲ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ایسا اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :’’اﷲ کے لئے بیت اﷲ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں ‘‘۔ (جامع ترمذی)

حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو کیونکہ حج اور عمرہ دونوں فقر و محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح لوہا اور سنا ر کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے۔ اور ’’حج مبرور ‘‘ کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔(جامع ترمذی، سنن نسائی) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لئے کہو۔ کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ (مسند احمد) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کا جو بندہ حج یا عمرہ کی نیت سے یا راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلا۔پھر راستہ ہی میں اس کو موت آ گئی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واسطے وہی اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے جو حج و عمرہ کرنے والوں کیلئے یا راہ جہاد کرنے والے کے لئے مقرر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

مقاماتِ حج

سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ والوں کیلئے ذوالحلیفہ کو میقات قرار دیا تھا اور شام والوں کیلئے جحفہ اور نجد والوں کیلئے قرن المنازل اور یمن والوں کیلئے یلملم۔ یہ مقامات یہاں کے رہنے والوں کیلئے بھی میقات ہیں۔ اور جو شخص حج یا عمرہ کے ارادہ سے غیر مقام کا رہنے والا ان مقامات کی طرف سے ہو کر آئے، اس کی بھی میقات ہیں پھر جو شخص ان مقامات سے مکہ کی طرف کا رہنے والا ہو تو وہ جہاں سے نکلے احرام باندھ لے اسی طرح مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وادیِ عقیق میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج شب کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اس مبارک وادی یعنی عقیق میں نماز پڑھو اور کہو کہ ’’میں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا‘‘۔ایک اور روایت میں سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اخیر شب میں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ذوالحلیفہ میں تھے، وادیِ عقیق میں یہ خواب دکھایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک مبارک وادی میں ہیں۔ واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب بھی وحی میں شامل ہیں۔ (صحیح بخاری)

آدابِ حرمین شریفین

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے ’’حرم‘‘ ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ کے ’’حرم‘‘ قرار دیئے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کے درمیان پورا رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں خوں ریزی کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھایا جائے۔ جانوروں کے چارے کی ضرورت کے سوا درختوں کے پتے بھی نہ جھاڑے جائیں۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔ (صحیح مسلم)

احرام

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کنگھی کرنے اور تیل ڈالنے اور چادر تہہ بند پہننے کے بعد مدینہ سے چلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی قسم کی چادر اور تہہ بند کے پہننے سے منع نہیں فرمایا سوائے زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کے جس سے بدن پر زعفران جھڑے۔ پھر صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب مقامِ بیداء میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے لبیک کہا اور اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم چوتھی ذی الحجہ کو مکہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قربانی کے جانوروں کی وجہ سے احرام سے باہر نہیں ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے گلے میں ہار ڈال چکے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ کی بلندی پر مقام حجوں کے پاس اترے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم حج کا احرام باندھے ہوئے تھے طواف کرنے کے بعد آپ کعبہ کے قریب بھی نہ گئے یہاں تک کہ عرفہ سے لوٹ آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا اور صفا مروہ کا طواف کریں اس کے بعد اپنے بال کتروا ڈالیں اور احرام کھول دیں۔ اور بال کتروانے کے بعد جس کے ہمراہ اس کی بیوی ہو اس سے صحبت کرنا، خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا سب جائز ہو گیا۔ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مقام جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے، جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو حالانکہ وہ خوشبو سے تر ہو؟ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ دیر سکوت فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہونے لگی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو خوشبو تجھے لگی ہو گی اس کو تین مرتبہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اپنے جسم سے اتار دو اور عمرہ میں بھی اسی طرح اعمال کرو جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔ (صحیح بخاری)

سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج کیلئے مکہ جانے کا ارادہ کرتے تو تیل لگاتے جس میں خوشبو نہ ہوتی تھی پھر ذوالحلیفہ کی مسجد میں آتے اور نماز پڑھتے اس کے بعد سوار ہوتے پھر جس وقت وہ سوار ہوتے اور سواری کھڑی ہو جاتی تو احرام باندھتے اس کے بعد کہتے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ہم حج کے مہینے میں حج کے احرام کے ساتھ مدینے سے نکلے پھر ہم مقامِ سرف میں اترے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم میں سے جس شخص کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ ہو اور وہ چاہے کہ اس احرام سے عمرہ کرے تو وہ ایسا کر لے اور جس شخص کے ہمراہ جانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔ اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ حجة الوداع کے سال مکہ کی طرف چلے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کا احرام باندھا تھا پس جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوا یہاں تک کہ قربانی کا دن آگیا۔ اُمُّ المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم! لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ عمرہ کر کے احرام سے باہر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم عمرہ کر کے احرام سے باہر نہیں ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بال جمائے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈال دیا لہٰذا میں جب تک قربانی نہ کر لوں احرام سے باہر نہیں آ سکتا۔ (بخاری)

مردوں اور عورتوں کے احرام کا فرق

حضرت عبد اﷲ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا کیا کیا کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حالت احرام میں نہ تو قمیض پہنو اور نہ پاجامہ۔ نہ ہی سر پر عمامہ پہنو اور نہ پاؤں میں موزے پہنو۔ ایسا کوئی کپڑا بھی نہ پہنو جس کو زعفران یا خوشبو لگا ہو۔ (صحیح مسلم) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عورتوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے اور چہرے پر نقاب ڈالنے اور زعفران یا خوشبو لگے کپڑوں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے وہ چاہیں پہن سکتی ہیں۔ اسی طرح وہ چاہیں تو زیور بھی پہن سکتی ہیں اور شلوار اور قمیض اور موزے بھی پہن سکتی ہیں۔ (سنن ابی داؤد)

احرام کھولنا

سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے حج میں سر کے بالوں کو منڈوا ڈالا تھا۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت فرما۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم بال کتروانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم بال کتروانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسری بار فرمایا کہ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت فرما۔ (بخاری)

تلبیہ پڑھنا

سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام باندھتے ہی تلبیہ یعنی لبیک نہیں پکارا۔ البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب پہنچے تو تلبیہ پڑھی۔ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ سے مزدلفہ تک سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمر کاب تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہمرکاب کر لیا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دونوں صحابیوں کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جمرة العقبہ کی رمی کی۔ سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کا تلبیہ یہ تھا ’’ اے اﷲ میں تیرے دروازہ پر بار بار حاضر ہوں اور تیرے بلانے کا جواب دیتا ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہر طرح کی تعریف اور احسان تیرا ہی ہے اور بادشاہی تیری ہی ہے کوئی تیرا شریک نہیں۔ (بخاری)

خلاد بن سائب تابعی اپنے والد سائب بن خلاد انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم پہنچایا کہ میں اپنے ساتھیوں کو حکم دوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں۔ (موطا امام مالک، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی): حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اﷲ کا مومن و مسلم بندہ جب حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارتا ہے۔ تو اس کے داہنی طرف اور بائیں طرف اﷲ کی جو بھی مخلوق ہوتی ہے خواہ وہ بے جان پتھر اور درخت یا ڈھیلے ہی ہوں وہ بھی اس بندے کے ساتھ لبیک کہتی ہیں۔ ( ترمذی، ابن ماجہ) عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم جب احرام باندھ کر تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اﷲ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کی دعا کرتے اور اس کی رحمت سے دوزخ سے خلاصی اور پناہ مانگتے(مسند شافعی)

کعبہ اور طوافِ کعبہ

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حطیم دیوار کی بابت پوچھا کہ کیا وہ بھی کعبہ میں سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر ان لوگوں نے اس کو کعبہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ کعبہ کا دروازہ اس قدر اونچا کیوں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ تمہاری قوم نے اس لئے کیا تھا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر داخل کریں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں کو برا معلوم ہو گا تو میں ضرور حطیم کو کعبہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین سے ملا دیتا۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر تمہاری قوم کا دور، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کے منہدم کر دینے کا حکم دیتا اور جو حصہ اس میں سے خارج کر دیا گیا ہے اس کو دوبارہ اسی میں شامل کر دیتا اور اس کو زمین سے ملا دیتا اور اس میں دروازے بناتا ایک شرقی دروازہ اور ایک غربی دروازہ اور میں اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کے موافق کر دیتا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی (قیامت کے قریب) کعبہ کو منہدم کر دے گا۔ ایک اور حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، گویا کہ میں اس سیاہ فام شخص کو دیکھ رہا ہوں جو کعبے کا ایک ایک پتھر اکھیڑ ڈالے گا۔ (بخاری)

طوافِ کعبہ میں رمل کرنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ جب حج کرنے مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے یہ چرچا کیا کہ اب ہمارے پاس ایک ایسا گروہ آنے والا ہے جس کو یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے پس اس بات کی اطلاع پاکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان معمولی چال چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس حکم کے دینے سے کہ لوگ تمام چکروں میں رمل نہ کریں یہ منظور تھا کہ لوگوں پر سہولت ہو، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ تھی۔سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف میں حجر اسود کا بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے تین میں رمل کرتے۔ (بخاری)

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا پھر طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل عمرہ کے لئے نہیں تھا۔ پھر امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا ہاتھ رسی سے باندھا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کو رسی کے ذریعہ کھینچ رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رسی کو اپنے ہاتھ سے توڑ دیا پھر فرمایا کہ اسے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر لے چل۔ (بخاری) سیدنا ابنِ  عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم جب پہلا طواف کرتے تھے تو اس کے تین چکروں میں رمل یعنی دوڑ کر چلا کرتے تھے اور اگلے چار چکروں میں مشی یعنی معمولی چال سے چلا کرتے تھے اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تو بطن المسیل میں سعی (دوڑا) کرتے تھے۔ (بخاری)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ پہنچے تو سب سے پہلے حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا۔ پھر آپ نے داہنی طرف طواف شروع کیا۔ پہلے تین چکروں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمل کیا اور اس کے بعد چار چکروں میں آپ اپنی عام رفتار سے چلے۔ ( مسلم) حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بیت اﷲ کا طواف نماز کی طرح کی عبادت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ طواف میں تم کو باتیں کرنے کی اجازت ہے۔ جو کوئی طواف کی حالت میں کسی سے بات کرے تو نیکی اور بھلائی کی بات کرے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی،  سنن دارمی)

حجرہ اسود اور رکن یمانی

امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ طواف میں حجر اسود کے پاس آئے پھر اس کو بوسہ دیا اور کہا کہ بیشک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے اور اگر میں نے نبی کو تیرا بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حجة الوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، اور لاٹھی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ یعنی حجر اسود کو لاٹھی لگا کر اسے چوم لیا۔ (بخاری)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم! قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کو نئی زندگی دے کر اس طرح اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا۔ اور زبان ہو گی جس سے وہ بولے گا۔ جن بندوں نے اس کا استلام کیا ہو گیا ان کے حق میں سچی شہادت دے گا۔ ( ترمذی، ابن ماجہ، سنن دارمی) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا کہ حجر اسود اور رکن یمانی ان دونوں پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے۔ جس نے اﷲ کے اس گھر کا سات بار طواف کیا اور اہتمام اور فکر کے ساتھ کیا تو اس کا یہ عمل ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہو گا۔ بندہ طواف کرتے ہوئے جب ایک قدم رکھ کر دوسرا قدم اٹھائے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ ایک گناہ معاف کرے گا اور ایک نیکی کا ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا (ترمذی)

حضرت عبد اﷲ بن السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو حالتِ طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً وَّفِی الا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (سنن ابی داؤد)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جوہر اس بندے کی دعا پر امین کہتے ہیں جو اسکے پاس یہ دعا کرے کہ : اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ ا العَفوَ وَالعَافِیَةَ فِی الدُّنیَا وَالا خِٰرَةِ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً وَّفِی الا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (اے اﷲ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں۔ اے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی، اور دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا!)۔ (سنن ابن ماجہ)

زم زم کا پانی

سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو زم زم کا پانی پلایا تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر نوش فرمایا۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔(بخاری)

صفا و مروا کی سعی

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی بہن کے بیٹے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کے قول (ترجمہ) ’’بے شک صفا اور مروہ دونوں اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر جو شخص کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے‘‘ (بقرہ۔ ۸۵۱) کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ واﷲ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر کچھ گناہ نہیں اگر وہ صفا و مروہ کی سعی نہ کرے؟ اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے بھانجے! تم نے بہت بُرا مطلب بیان کیا اگر یہی مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا تو آیت یوں ہوتی (ترجمہ) بے شک کسی پر کچھ گناہ نہ تھا کہ ان کے درمیان سعی نہ کرتا۔ بلکہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مسلمان ہونے سے پہلے ’’مناة‘‘ بت کی پوجا کرتے تھے۔ یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں جب احرام باندھتے تو صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا جب مسلمان ہو گئے تو انہوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم ہم صفا و مروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے۔ تب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کے درمیان سعی کو جاری فرمایا پس کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کو ترک کر دے۔ (بخاری)

قیامِ منیٰ

سیدنا انس بن مالک سے عبدالعزیز بن رفیع نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نے ظہر اور عصر کی نمازیں آٹھویں ذوالحجہ کے دن کہاں پڑھیں ؟ تو انہوں نے کہا ’’منیٰ میں ‘‘ اس شخص نے دوبارہ پوچھا کہ نفر کے دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ تو انہوں نے کہا ’’ابطح میں ‘‘ پھر سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تم ویسا ہی کرو جس طرح تمہارے سردار لوگ کریں۔ (بخاری) عبدالرحمن بن یعمر دئلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے سنا: حج وقوف عرفہ ہے۔ جو حاجی مزدلفہ والی رات یعنی ۹ اور۱۰ ذی الحجہ کی درمیانی شب میں بھی صبح صادق سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پا لیا اور اس کا حج ہو گیا۔ منیٰ میں قیام کے تین دن میں (جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی الحجہ) اگر کوئی آدمی صرف دو دن میں یعنی۱۱، ۱۲ ذی الحجہ کو رمی کر کے منیٰ سے چل دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ ( ترمذی، ابی داؤد، نسائی، ابن ماجہ،

یومِ عرفہ

سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرفہ کے دن زوالِ آفتاب کے بعد حجاج کے خیمے کے قریب آ کر بلند آواز دی تو حجاج نے باہر نکل کر پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو تجھے اسی وقت وقوف کے لئے چلنا چاہیئے۔ حجاج نے عرض کیا کہ مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں۔ پھر حجاج نکلا تو چل پڑے۔ اس موقع پر موجود سالم بن عبد اﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجاج سے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں عجلت کرنا تو وہ حجاج عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھنے لگا۔ جب عبد اﷲ بن عمر نے کہا کہ سالم صحیح کہتے ہیں۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم حجة الوداع میں عرفات سے روانہ ہوئے تو کس طرح چل رہے تھے؟ تو سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہجوم میں بھی تیز تیز چل رہے تھے اور جب میدان صاف ہوتا تو اور بھی تیز چلنے لگتے۔ (بخاری)

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ہم مزدلفہ میں اترے تو اُمُّ المومنین سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور وہ ایک سست عورت تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اجازت دیدی اور وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور ہم لوگ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ مگر مجھے اس قدر تکلیف ہوئی کہ میں تمنا کرتی تھی کہ کاش میں نے بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت لے لی ہوتی جس طرح کہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لے لی تھی تو مجھے ہر خوشی کی بات سے زیادہ پسند ہوتا۔ (بخاری)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اﷲ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اپنے بندوں کے لئے جہنم سے آزادی اور رہائی کا فیصلہ کرتا ہو۔ اس دن اﷲ تعالیٰ اپنی صفت رحمت کے ساتھ عرفات میں جمع ہونے والے اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہو جاتا ہے اور ان پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے کہ دیکھتے ہو!میرے یہ بندے کس مقصد سے یہاں آئے ہیں ؟(صحیح مسلم) تابعی حضرت طلحہ بن عبید اﷲ کریز سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: شیطان کسی دن بھی اتنا ذلیل خوار، پھٹکارا ہوا اورجلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا وہ عرفہ کے دن دیکھا جاتا ہے۔ ایسا صرف اس لئے ہے کہ وہ اس دن رحمتِ الٰہی کو برستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے دیکھتا ہے۔ (موطا امام مالک)

وقوفِ مزدلفہ

سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سب لوگوں کے ہمراہ مزدلفہ گئے اور ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔ ہر نماز کے صرف فرض پڑھے اذان و اقامت کے ساتھ اور دونوں نمازوں کے درمیان کھانا کھایا اس کے بعد جب صبح کا آغاز ہوا تو فوراً فجر کی نماز پڑھ لی۔ نماز سے فراغت پانے کے بعد سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں نمازیں اس مقام یعنی مزدلفہ میں اپنے وقت سے ہٹا دی گئی ہیں مغرب اور عشاء۔ پس لوگوں کو چاہیئے کہ جب تک عشاء کا وقت نہ ہو جائے مزدلفہ میں نہ آئیں اور فجر کی نماز صبح صبح اسی وقت پڑھیں۔ جب خوب سفیدی پھیل گئی تو عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب منیٰ کی طرف چل دیتے تو سنت کے موافق کرتے۔ چنانچہ امیر المومنین نے کوچ کر دیا۔ پھر سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر تلبیہ کرتے رہے اور قربانی کے دن جمرة العقبہ کو کنکریاں ماریں۔ تب تلبیہ موقوف کر دیا۔ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی پھر ٹھہرے رہے اس کے بعد فرمایا کہ مشرک لوگ جب تک آفتاب طلوع نہ ہوتا یہاں سے کُوچ نہ کرتے تھے اور ثبیر نامی پہاڑ سے کہا کرتے تھے کہ اے ثبیر آفتاب کی کرنوں سے چمک جا۔بے شک نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی مخالفت فرمائی تھی۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آفتاب کے نکلنے سے پہلے ہی کوچ کر دیا۔ (بخاری)

حج کی قربانی

سیدنا جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ حج کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہمراہ قربانی لے گئے تھے اور سب صحابہ نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر کے احرام سے باہر آ جاؤ اور بال کتروا ڈالو پھر احرام سے باہر ہو کر ٹھہرے رہو یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آ جائے تو تم لوگ حج کا احرام باندھ لینا اور یہ احرام جس کے ساتھ تم آئے ہو اس کو تمتع کر دو تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم اس کو تمتع کر دیں حالانکہ ہم حج کا نام لے چکے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کچھ میں تم کو حکم دیتا ہوں وہی کرو اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جس طرح تم کو حکم دیتا ہوں لیکن اب مجھ سے احرام علیحدہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ قربانی اپنی اپنی قربان گاہ پر نہ پہنچ جائے۔ (بخاری)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجةالوداع میں عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع فرمایا اور قربانی لائے پس ذوالحلیفہ سے قربانی اپنے ہمراہ لی اور سب سے پہلے آپ نے عمرہ کا احرام باندھا۔ اس کے بعد حج کا احرام باندھا پس اور لوگوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع کیا اور ان میں سے بعض لوگ تو قربانی ساتھ لائے تھے اور بعض نہ لائے تھے۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں تشریف لے آئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو وہ احرام میں جن چیزوں سے پرہیز کرتا ہے حج مکمل ہونے تک پرہیز کرے اور جو نہیں لایا اُسے چاہیئے کہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر کے بال کتر والے اور احرام کھول دے۔ اس کے بعد سات یا آٹھ ذوالحجہ کو کو صرف حج کا احرام باندھے۔ پھر حج کرے اور قربانی کرے۔ پھر جسے قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب اپنے گھر واپس لوٹ کر جائے۔ (بخاری)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم ! یہ تو قربانی کا جانور ہے اس پر کیسے سوار ہو سکتا ہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ سیدنا مسور بن مخرمة رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صلح حدیبیہ میں ایک ہزار سے زائد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالا اور عمرہ کا احرام باندھا۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بکریاں،  قربانی کیلئے روانہ کی تھیں۔ ایک اور روایت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکریوں کو قلادہ پہنا کر روانہ کر دیتے تھے اور حج پر نہ جانے کے باعث اپنے گھر میں بغیر احرام کے رہتے تھے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے قربانی کے جانوروں کے لئے ہار بنائے تھے۔(بخاری)

سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منحر میں یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی کرنے کی جگہ پر قربانی کیا کرتے تھے۔سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے اونٹ کو نحر کرنے کے لئے بٹھا رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس کو کھڑا کر کے اس کا پیر باندھ دے پھر اس کو نحر کر کیونکہ یہی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے۔امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے جانوروں کے پاس کھڑا رہوں اور ان کی بنوائی کی اجرت میں قصاب کو گوشت یا کھال وغیرہ نہ دوں۔ سیدنا جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھاتے تھے اور وہ بھی صرف منیٰ میں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اجازت عنایت کی اور فرمایا کہ کھاؤ اور ساتھ لے جاؤ۔ پس ہم نے کھایا بھی اور ساتھ بھی لے کر آئے۔ (بخاری)

حضرت عبد اﷲ بن قرط سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم النحر(۱۰ ذی الحجہ) ہے۔ اس کے بعد اس سے اگلا دن یوم القر(۱۱ ذی الحجہ) کا درجہ ہے۔ اس کے بعد (یعنی ۱۲ ذی الحجہ) اگر کی جائے تو ادا تو ہو جائے گی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پانچ یا چھ اونٹ کے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب لائے گئے تو ان میں سے ہر ایک آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا، تاکہ پہلے اسی کو آپ ذبح کریں۔ (ابو داؤد)

طوافِ زیارت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے طواف زیارت کو دسویں ذی الحجہ کی رات تک موخر کرنے کی اجازت دی۔ (گو طوافِ زیارت ۱۰ ذی ا لحجہ کے دن افضل ہے تاہم اس دن کے ختم ہونے کے بعد رات میں بھی کیا جا سکتا ہے)۔ حضرت حارث ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص حج یا عمرہ کرے تو چاہئے کہ اس کی آخری حاضری بیت اﷲ پر ہو اور آخری عمل طواف ہو۔ (مسند احمد)

جمرات کی رمی کرنا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ میں جمروں کو کنکریاں کس وقت ماروں تو انہوں نے فرمایا کہ جس وقت تمہارا امام مارے اسی وقت تم بھی مارو۔ اس نے دوبارہ ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور آفتاب ڈھل جا نے کے بعد کنکریاں مارتے۔سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ تو وادی کے اوپر سے مارتے ہیں تو عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمد کے رمی کرنے کی جگہ یہی ہے۔ سیدنا عبد اﷲ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب بڑے جمرے کے پاس پہنچے تو انہوں نے کعبہ کو اپنی بائیں جانب کرلیا اور منیٰ کو اپنی داہنی طرف اور سات کنکریوں سے رمی کی اور کہا کہ اسی طرح سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رمی کی۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ پہلے جمرے کو سات کنکریاں مارتے تھے ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے اس کے بعد آگے بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ نرم ہموار زمین میں پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے پھر درمیان والے جمرہ کی رمی کرتے اس کے بعد بائیں جانب چلے جاتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور یونہی کھڑے رہتے پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے بلکہ واپس آ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جمرات پر کنکریاں پھینکنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ذکر اﷲ کی گرم بازاری کے وسائل ہیں۔ (جامع ترمذی، سنن دارمی)

طوافِ وداع

سیدنا ابنِ عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کا آخری وقت کعبہ کے ساتھ ہو یعنی مکہ سے واپسی کے وقت کعبہ کا طواف کر کے جائیں مگر حائضہ عورت کو یہ معاف کر دیا گیا تھا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جو عورت طوافِ زیارت کے بعد حائضہ ہوئی ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ طوافِ وداع کئے بغیر مکہ سے چلی جائے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے حائضہ عورتوں کو ایسا کرنے کی اجازت تھی۔ (بخاری)

مدینة النبی صلی اللہ علیہ و سلم :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر نیا پھل دیکھتے تو اس کو لا کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس کو قبول فرما کر اس طر ح دعا فرماتے : اے اﷲ! ہمارے پھلوں اور پیدا وار میں برکت دے، اور ہمارے شہر مدینہ میں برکت دے، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت دے ! الہٰی ! ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لئے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم)

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ ( صحیح مسلم) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے مسجد نبوی میں مسلسل ۰۴ نمازیں پڑھیں اور ایک نماز بھی فوت نہیں کی اس کے لئے دوزخ سے نجات اور نفاق سے برات لکھ دی جائے گی۔(مسند احمد، معجم اوسط للطبرانی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔  (صحیح مسلم)

روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس نے حج کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ انہی لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ (شعب الایمان للبیہقی،  معجم کبیر و معجم اوسط للبطرانی)۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گی۔ ( ابن خزیمہ، سنن دار قطنی،  بیہقی)

٭٭٭٭

 

 

٭٭٭

مصنف کی اجازت سے

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔