03:01    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

سفرنامے

2589 0 0 00

ذرا شیوسار جھیل تک - ڈاکٹر محمد اقبال ہما

عرض کیا ہے

انتساب

 

ثمینہ

علینا

دانیال

اور

ہادیہ

کے نام

اب میں کیا عرض کروں ؟

میں نے ’’سکردو میں پونم‘‘ میں چیلنج کیا تھا:

 ’’ عالم برج سے سکردو تک لگ بھگ پونے دو سو کلومیٹر کے اس سفر میں کمزور دل حضرات تمام دعائیں اور خصوصاً آیت الکرسی کا ورد اتنی مرتبہ کر لیتے ہیں کہ جنم جنم کا کوٹہ پورا ہو جاتا ہے۔یہ سیاسی بیان نہیں آپ بیتی ہے جسے آپ بخوشی آزما سکتے ہیں۔ جھوٹ ثابت کرنے والے کو سفر خرچ واپس کر دیا جائے گا۔‘‘

اس چیلنج کے جواب میں ایک صاحبزادے بذریعہ ای۔میل فرماتے ہیں :

 ’’انکل میں بہت کمزور دل کا لڑکا ہوں اور میں نے عالم پل سے سکردو تک کے سفر کے دوران کوئی دعا یا آیت الکرسی وغیرہ نہیں پڑھی۔میں تو سکردو روڈ پر قدم رکھتے ہی غشی کی حالت میں چلا گیا تھا …  اور نہ بھی جاتا تو دعائیں وغیرہ نہیں پڑھ سکتا تھا کیونکہ مجھے کوئی دعا یا آیت الکرسی آتی ہی نہیں … بہرحال یہ تو ضمنی باتیں ہیں اصل بات یہ ہے کہ میں نے کمزور دل رکھنے کے باوجود اس سفر میں کسی دعا کا ورد نہیں کیا۔ اس لئے وعدے کے مطابق میرا سفر خرچ واپس کر دیں …  لندن سے سکردو آنے پر میرے آٹھ سو پاؤنڈ خرچ ہوئے۔ امید ہے آپ ایک مفلس طالبعلم کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کریں گے۔آپ کے چیک کا بے چینی سے منتظر … ایکس وائی زیڈ۔‘‘

اب میں کیا عرض کروں ؟

 جناب سجاد احمد سجاد صاحب کا فرمانا ہے کہ آپ کی کتاب کسی دیدہ و بینا شاعر کے ہتھے چڑھ گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔آپ نہ جانے کتنے شعر نہ صرف استعمال کر رہے ہیں بلکہ اُن کا حلیہ بھی  بگاڑ رہے ہیں۔  پچھلے دنوں ایک انتہائی معروف شاعر نے کسی مصنف پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا تھا جس نے اپنی کتاب میں موصوف کا ایک شعر لکھ دیا تھا۔

اب میں کیا عرض کروں ؟ …  یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ میری کتابوں کو دیدہ و بینا شعرا کی نظر سے محفوظ رکھے۔

طاہر دانیوال کا فرمانا ہے:

 ’’یار تمھیں اردو ادب سے پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے؟ … تم سفرنامے لکھ رہے ہو یا مزاحیہ کہانیوں پر طبع آزمائی کر رہے ہو؟ تمھاری کتا بیں میری نسبت میری لاڈلی بیٹی میراب زیادہ دلچسپی سے پڑھتی ہے …  یہ آخر کس قسم کا ادب ہے جسے پانچویں جماعت کے طالب علم بھی سمجھ لیتے ہیں ؟‘‘

اب میں کیا عرض کروں ؟ … یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ سفرنامے انتہائی بے ادب ہوتے ہیں … ادب ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا۔

محسن شاہ صاحب فرماتے ہیں :

 ’’ کامران آپ پر سخت خار کھائے بیٹھائے۔وہ بے چارہ ’’اب کے بار پونم میں ‘‘ سنا سنا کر خود پونم ہو گیا اور آپ نے یہ کارنامہ محبوب کے کھاتے میں ڈال دیا۔آجکل وہ ’’ہزار بار منع کیا میری گلی نہ سیاں آنا‘‘ کی مشق کر رہا ہے … لہٰذا سوچ سمجھ کر سکردو تشریف لائیں۔ ‘‘

اب میں کیا عرض کروں ؟ … یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کامی دیکھنے میں اتنا زیادہ محبوب لگتا ہے کہ مجھے بے حد افسوس ہو رہا ہے … اُسے غیر سے گڈ مڈ کیا؟  … خود سے کیوں نہ کیا؟

اور جب میں یہ سطریں لکھ رہا تھا تو برخوردار دانیال راؤ نے سوال کیا … یہ کس قسم کا دیباچہ ہے جس میں نہ کتاب کا نام لکھا گیا نہ کسی کا شکریہ ادا کیا گیا؟ … کم از کم میرا شکریہ تو ادا کر دیں کہ میں نے مسودے میں تین عدد غلطیاں دریافت کی تھیں۔

اب میں کیا عرض کروں ؟ … یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ’’ذرا شیوسار جھیل تک‘‘ کا دیباچہ نہیں ہے اور اس میں دنیا کے بلند ترین سبزہ زار ’’دیوسائی‘‘ اور ’’بابِ قراقرم‘‘ اسکولی کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا … اللہ حافظ

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

iqbalhuma@hotmail.com

٭٭٭

تم کو آنا پڑے گا

’’اگر نیلے نیلے امبر کا نظارہ تمہاری روح کو سرشار کر دیتا ہے،نوزائیدہ کلیاں تمہارے جذبات میں ہلچل مچا دیتی ہے اور تم مناظر کی سرگوشیاں سمجھ لیتے ہو تو …  مبارک ہو کہ تمہارا دل زندہ ہے۔‘‘

(ایلیونورا ڈیوز)

 

مجھے افسوس ہے کہ محترم ایلیونورا ڈیوز سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہو سکا،ورنہ میں اُن سے ضرور دریافت کرتا کہ جنابِ والا کو روح کی سرشاری کے لئے ’’ نیلی‘‘ اور ’’ امبر‘‘ کے بجائے نیلے نیلے امبر کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ … محبوب کی ہیجان انگیز سرگوشیوں کے بجائے فطرت کدوں میں سرسرانے والی خوابناک سرگوشیاں آپ کے نزدیک زندہ دلی کا معیار کیوں بن گئیں ؟

اور مجھے علم ہے کہ وہ کیا جواب دیتے۔

 ان بظاہر بے ضرر اور رومان پرور سوالات کے جواب میں نسلِ انسانی کی تہذیبی اور معاشرتی کایا پلٹ کی طویل داستان پوشیدہ ہے۔

ایک صدی کا قصہ ہے … بہت پرانی بات نہیں کہ انسان ویرانوں کو خوف اور دہشت کی علامت سمجھتا تھا، شیطان کا مسکن … تنہائی کا عذاب … ہلاکت خیز صحرا  …  زمین کا ناسور جیسے ناموں سے پکارتا تھا اور ان کی نحوست سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا تھا۔آبادی کی حد سلامتی کی سرحد سمجھی جاتی تھی اور اس سرحد سے باہر قدم رکھنے والے کے لئے ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بائیبل انسانی آبادی کی سرحد عبور کرنے کو منشائے خداوندی کے خلاف گردانتی ہے اور بے آباد مقامات کو   مر  د ُعجز ر امعہ کر شیطان مردود کی مملکت قرار دیتی ہے۔ موسیٰ نے چالیس سال تک ویرانوں کی خاک چھانی تو اسے ایک آفت یا امتحان سمجھا گیا۔ جان ملٹن کی خیالی جنت ایسے علاقوں سے گھری ہوئی تھی جن کے شیطانی ماحول میں قدم رکھنے کے تصور سے آدم و حوا کے دل لرز جاتے تھے۔

آج کا انسان آبادی کی سرحدیں توڑ کر ویرانوں کا رخ کرتا ہے تاکہ اپنی ذات کا عرفان حاصل کر سکے … اور خدا تک لے جانے والی صراطِ مستقیم تلاش کر سکے۔

ایک صدی قبل انسان احساسات اور جذبات کی دولت سے مالا مال تھا اور اس بیش بہا دولت کی موجودگی میں اُسے روح کی سرشاری کے لئے کسی بیرونی واسطے کی ضرورت نہیں تھی۔ آج کا انسان اپنی تخلیق کردہ ایجادات کے چنگل میں پھنس کر  ماؔ://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.htmlن ہوزے آیا ہوا ہوں۔ ہیں۔ اس کا بھی برقی مجموعہ بن سکتا ہے۔ کے اشرف صاحب کے کچھ افسانایک بے حس فولادی چرخے کا روپ دھار چکا ہے۔وہ ایسے فطرت کدوں کی تلاش میں ہے جہاں مسلسل گھرگھراہٹ کے عذاب سے پناہ حاصل کر کے روح کی سرشاری کے اسباب پیدا کر سکے۔

میں فطرت کدہ جیسی نامانوس اور ’’بے ادب‘‘ اصطلاح استعمال کرنے پر شرمندہ ہوں ، مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ میں انسان کی دست و برد سے محفوظ لینڈ سکیپ کے لئے کوئی مناسب اور مروجہ ترکیب منتخب نہ کر سکا۔انگریز اس لینڈ سکیپ کو wildernessکہتا ہے جس کا اردو ترجمہ صحرا، بَن،بیابان، جنگلات،  ویرانہ یا وحشت کدہ کیا جا سکتا ہے۔ میری ناقص رائے میں فطرت کدہ فطری مناظر کے خزانے کا بہترین ترجمان ہے،اور مجھے اُس وقت سے خوف آتا ہے جب کائنات کا آخری فطرت کدہ بھی انسانی آبادی سے آلودہ ہو جائے گا  …  دنیا پر روبوٹس کی حکومت کا ڈنکا بج رہا ہو گا  … انسان کی رگ رگ میں میکانیت گردش کر رہی ہو گی  …  اس زمین پر بسنے والا ہر شخص سوال کر رہا ہو گا  …  بھری دنیا میں آخر دل کو بہلانے کہاں جائیں  …  تھکاوٹ ہو گئی جن کو وہ بے چارے کہاں جائیں ؟

ایسا وقت آنے سے پہلے دو چار فطرت کدے دیکھ لئے جائیں تو غنیمت سمجھنا چاہئے … یہ مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لئے طالب علمی کے دور میں فطرت کدوں کی رعنائیوں سے دل بہلانا ہمارے پانچ افراد پر مشتمل چھوٹے سے ٹریکنگ گروپ کا معمول رہا۔ محدود وسائل اور لا علمی کے باعث ہم فطرت کدوں کی دنیا کو سوات، کاغان،مری اور اس کی گلیات وغیرہ تک محدود سمجھتے تھے، لیکن ہماری کلاس میں طارق امین جیسے ’’پاؤں پھرے‘‘ بھی پائے جاتے تھے جن کی آوارگیوں کے طفیل ہمیں پاکستان کے کئی خوبصورت مقامات کے اسمائے گرامی سے آشنا ئی ہوئی۔

نشتر میڈیکل کالج کے اقبال ہال کے کامن روم میں شطرنج کی محفل عروج پر تھی اور سیالکوٹی منڈا عابد محمود شہ مات کے شدید خطرے سے دوچار تھا۔طارق امین ایک ہاتھ سے سکواش کا ریکٹ گھُماتے اور دوسرے ہاتھ سے اپنی جبیں سے پسینہ پونچھتے ہوئے نازل ہوا،اور ریکٹ کی مدد سے اپنے روم میٹ طارق کریم کی تشریف پر پیار بھری دَھول جماتے ہوئے طارق شاہی حکم صادر کیا:

 ’’بگو گوشے میری حاضری لگواتے رہنا،میں ذرا شیوسار تک جا رہا ہوں۔ ‘‘

 ’’ یہ شیوسار کیا بلا ہے اور کہاں پایا جاتا ہے؟‘‘ طارق کریم نے اپنی تشریف سہلاتے ہوئے سوال کیا۔

طارق امین ویرانوں کی روح تھا جو اپنے والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے شیخو پورہ میں پیدا ہو گیا تھا اور فطری تقاضے نبھانے کے لئے ہر سال کسی نہ کسی ویرانے کا رُخ کرتا تھا۔اُس نے طارق کریم کی گول مٹول تشریف پر ایک اور دَھول جمائی۔

 ’’ شیوسار پاکستان کی سب سے خوبصورت جھیل ہے اور دیوسائی سے مل کر ایک دیومالائی منظر تخلیق کرتی ہے۔تم جیسے کوڑھ مغزوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ دیوسائی دنیا کا منفرد ترین اور پاکستان کا بلند ترین سبزہ زار ہے۔‘‘ طارق نے کہا۔

  ’’ کیا انفرادیت ہے اس میں ؟ درختوں کا رنگ سبز کے بجائے ’’مس ڈریکولا‘‘    کے ہونٹوں سے زیادہ سرخ ہوتا ہے؟‘‘ عابد نے جارحانہ انداز میں پوچھا۔

رول نمبر گیارہ لپ سٹک نہیں لگاتی تھی،اس کے باوجود ہونٹوں کی رنگت کی وجہ پرستاروں میں ’’ریڈ روز‘‘ اور ناقدین میں مس ڈریکولا کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔افواہ گرم تھی کہ آجکل اُس کے اور طارق امین کے درمیان ’’کچھ کچھ ‘‘ ہوتا ہے۔

 ’’بکواس بند کر … رول نمبر گیارہ کو ڈریکولا کہنے والے کی …  ریڈ روز اُن  پریوں سے کہیں زیادہ دلکش ہے جو شیوسار کے کرسٹل کلیئر پانی میں غسل فرما کر دیوسائی کی طلسماتی فضاؤں میں رقص کرتی ہیں۔  ‘‘ طارق امین نے عابد کے گال سہلاتے ہوئے کہا۔ عابد کے گال اتنے بھرے بھرے اور سرخ و سفید تھے کہ انہیں بات بے بات سہلانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے تھے۔

 ’’خواہ مخواہ ورغلانے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے سال تم نے جھیل سیف الملوک کے بارے میں یہی شوشہ چھوڑا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو پریوں کے بجائے خچروں کے ریوڑ غسل فرما رہے تھے۔‘‘ عابد نے بیزاری سے کہا۔

 ’’اپنا اپنا حسنِ نظر ہے … سیف الملوک کی دلکشی پر بھی سینکڑوں پریاں قربان کی جا سکتی ہیں لیکن شیوسار کی بات کچھ اور ہے۔شیوسار تک جانے والے راستے دیوسائی سے گزرتے ہیں جسے پریوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔تم لوگ میرے ساتھ چلو،سچ مچ پرستان کی سیر کا مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔‘‘

 ’’اندازاً کتنی رقم کی ضرورت ہو گی؟‘‘

 ’’ ٹریکنگ کا بنیادی سامان مثلاًسلیپنگ بیگ،خیمہ،ٹریکنگ شوز،  واکنگ سٹک اور سٹوو وغیرہ ہیں تمہارے پاس؟‘‘

 ’’وغیرہ وغیرہ ہے … اور کچھ نہیں ہے۔‘‘

 ’’اس صورت میں تقریباً دس ہزار کی ضرورت پڑے گی۔‘‘

 ’’دس ہزار؟ … تم اپنی شکل گم نہیں کر سکتے؟خواہ مخواہ دماغ خراب کر کے رکھ دیا۔ میرے پاس دس ہزار جمع ہو گئے تومیں بابرہ شریف کے ساتھ  …  لا حول ولا قوۃ  …  میں بہرحال اُنھیں کسی میدان میں دھکے کھانے کے لئے استعمال نہیں کروں گا۔‘‘ عابد نے رُخ کو ایک خانے سے اٹھا کر دوسرے خانے میں رکھتے ہوئے کہا۔

طارق امین نے اپنی شکل گم کر لی لیکن شیوسار جھیل اور دیوسائی کی تصوراتی شکل ایک خواہش کی صورت میں میرے لا شعور میں بسا دیں  … آج کل شیوسار جانے کے لئے دس ہزار کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ اب پنڈی سے سکردو کے لئے براہِ راست بس سروس مل جاتی ہے اور سکردو سے شیوسار کے لئے جیپ ٹریک بن چکا ہے …  انیس سو پچاسی میں شیوسار جھیل کے لئے چار دن کا پیدل ٹریک کیا جاتا تھا۔ اُن دنوں مجھے ماہانہ اخراجات کے لئے صرف چارسو روپے ملتے تھے اور دس ہزار میرے لئے ایک ’’ناقابلِ تسخیر رقم‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے، اس لئے پرستان کی سیر کے خواب تو دیکھے جا سکتے تھے، پریوں کی ’’ رقص گاہ‘‘ کا نظارہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ روزگار کے دلفریب غم کا زمانہ شروع ہوا تو سلسلہ ہائے آوارگی میں ایک طویل وقفہ آ گیا، شیوسار اور دیوسائی کے خواب آہستہ آہستہ حسرت میں تبدیل ہوئے اور غمِ دوراں کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے۔

ایک طویل عرصے بعد،  ہارون آباد پوسٹنگ کے دوران ڈاکٹر طاہر حسین شاہد اور محمد یونس رانانے گلگت کے سفر کی تجویز پیش کی تو مجھے گزرے زمانے یاد آ گئے اور میں نے بخوشی اس سفر کی ہامی بھر لی۔ اس پروگرام میں سکردو بھی شامل تھا لیکن لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سکردو کے راستے بند ہو گئے اور سکردو بھی ناکام حسرتوں کی لسٹ میں شامل ہو گیا۔

گلگت کے سفر نے بھولی بسری یادوں کے دیپ ایک مرتبہ پھر روشن کر دیئے۔ ڈاکٹر ارشد اور ڈاکٹر اسلم نے فیری میڈوز ٹریک کیا تو ان چراغوں کی لو مزید بھڑک اُٹھی اور میں نے طاہر اور عمر کی سنگت میں نانگا پربت کے فیری میڈوز بیس کیمپ کے لئے رُک سیک سنبھال لیا۔ہم فیری میڈوز میں تھے کہ کسی نے دیوسائی کا ذکر چھیڑا  …  میرے دل کے تار  …  بجے بار بار … کہ چلو چلو سکردو چلو،دیوسائی چلو،شیوسار چلو … اور ابھی چلو۔سکردو فیری میڈوز سے صرف چھ گھنٹے کی دوری پر تھا۔میں نے چوہدری برادران کو آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن طاہر چوہدری اور عمر چوہدری نے سرخ جھنڈی دکھا دی اور میں دونوں خواہشات کا بار اُٹھائے وہاڑی واپس آ گیا۔

اور اب … لگ بھگ چوتھائی صدی قبل دل کے حسرت خانوں میں بسیرا کرنے والی یہ خواہشات عالمِ تصور کے بجائے عالمِ رنگ و بو میں اپنی دلکشی و رعنائی سے مسحور کرنے کے لئے بار بار پکارتی تھیں۔ اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے میں نے سکردو اور دیوسائی کا پروگرام بنایا۔ طاہر کمپیوٹر نے … وہ طاہر جو کمپیوٹر کا کاروبار کرتا ہے …   فرمان جاری کیا کہ سکردو بے شک جاؤ،  دیوسائی کا رخ نہ کرو کیونکہ وہ خود اس سال بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر سکردو جانے سے قاصر ہے:

 ’’ شیوسار جھیل اگلے سال جاواں گے،تے دوویں بھراجاواں گے … میں کلم کلا دیوسائی تے شیوسار کیویں جاواں گا؟‘‘

میں نے دیوسائی نہ جانے کا وعدہ کر لیا

 وعدہ کرتے وقت مجھے اس کی سفاکی کا اندازہ نہیں تھا۔

سکردو پہنچ کر دیوسائی نہ جانے کا وعدہ نبھانا کتنا اذیت ناک ہے؟ اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو شیوسار جھیل کے جنت نظیر مناظر اور دیوسائی کے لازوال حسن کی رعنائیوں کے چرچے سن چکا ہو، یہ رعنائیاں صرف تیس کلومیٹر دور ہوں ،اور پیروں میں وعدے کی زنجیر پڑی ہو! … سکردو میں قیام کے دوران شاہ صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے کئی مرتبہ سوال کیا کہ آپ دیوسائی جانے سے کیوں کترا رہے ہیں ؟میں انھیں طاہر کمپیوٹر سے کئے گئے وعدے کے بارے میں بتانا چاہتا تھا لیکن اس جواب میں چھپا ہوا سوال مجھے شرمندہ کرتا تھا!

گھونگھٹ تک رسائی کے بعد پارسائی کا وعدہ نبھانے والے کو کیا کہا جائے گا؟ میں خود کو ’’وہ‘‘ نہیں کہلوانا چاہتا تھا اس لئے خاموش رہا اور شیوسار ودیوسائی سے اگلے سال حاضری کا وعدہ کر کے چپ چاپ واپس چلا آیا۔

اور جب شیوسار کے درشن کے … آئے موسم رنگیلے سہانے … تو:

وعدہ کر کے مکر گیا ہائے

کمپیوٹر بے ایمان نکلا

طاہر کمپیوٹر نے دیوسائی کے راستے میں ناگزیر مجبوریوں کا ہمالیہ کھڑا کر دیا اور ساتھ چلنے سے معذرت کر لی۔سکردو میں پونم کے جلووں سے لطف اندوز ہونے کے بعد شیوسار سے وعدہ خلافی ایک گناہ تھا۔ میں جلد از جلد اس گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا اس لئے طاہر دانیوال … وہ طاہر جو دانیوال ٹاؤن میں رہتا ہے،رانا محمد یونس، شاہد چوہدری اور عمر چوہدری کو رضامند کرنے کی ’’موبائل توڑ‘‘ کوشش کی لیکن اِن حضرات نے طاہر کمپیوٹر کے بہانوں سے زیادہ بھاری بھرکم اور عجیب و غریب قسم کے بہانے ایجاد کر لئے :

کسی کی بیوی کے تایا کی بیٹی کے چچا کی بھتیجی کی والدہ کی داڑھ میں سخت درد تھا۔

کسی کی سالی کے شوہر کے ہم زلف کے سسر نے دو سال قبل بائی پاس کروایا تھا اور اسے پانچ کلومیٹر چلنے کے بعد سانس چڑھ جاتا تھا۔

کسی کے سالے کے سالے کے بہنوئی کی بہن کی ساس عمرہ کرنے جا رہی تھیں اور انھیں خدا حافظ کہنے کے لئے کراچی جانا بہت ضروری تھا۔

 مجھے ان حضرات کی مجبوریوں کی فہرست سن کر بے تحاشہ ترس آنے لگا۔ میرے عزیز دوست اتنی خوفناک مجبوریوں کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں اور میں انھیں شیوسار کی رنگین فضاؤں کے خواب دکھا رہا ہوں ؟ میں نے مجبوراً پروگرام ملتوی کرنے کا ارادہ کر لیا، مگر شیوسار اور دیوسائی خوابوں میں آ کر دہائی دیتے تھے:

روکے زمانہ، چاہے روکے خدائی

تم کو آنا پڑے گا

 اس مشکل وقت میں مجھے عرفان فیصل آبادی یاد آیا۔

 ’’ خیر تو ہے؟ اتنے عرصے بعد بھولے بسرے لوگوں کی یاد کیسے آ گئی؟‘‘ فون پر علیک سلیک کے بعد عرفان نے سوال کیا۔

 ’’ مسئلہ وہی پرانا ہے۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔ ’’ذرا شیوسار جھیل تک جانے کا ارادہ ہے …  کوئی ساتھی نہیں مل رہا۔ ‘‘

 ’’ میں ہوں ناں !آپ فیصل آباد آ جائیں ،حسبِ روایت آپ کو سکردو پہنچا دیا جائے گا۔ آگے آپ جانیں اور آپ کی شیوسار۔‘‘

 ’’ویری گڈ۔اسکا مطلب ہے کہ آپ براستہ سکردو کہیں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں … کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘

 ’’ وہی غونڈو غورو  … پچھلے سال واپس آنا پڑا تھا، اس مرتبہ دوبارہ کوشش کرنے کا ارادہ ہے۔ لیکن آپ کو شیوسار کی کیا سوجھی؟ آپ نے کئی دن سکردو میں قیام کیا تھا،  دیوسائی نہیں گئے؟‘‘

 ’’نہیں جا سکا تھا۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’ دس دن تک سکردو میں کیا کرتے رہے تھے؟‘‘ وہ حیران ہوا۔

 ’’جھک مارتا رہا تھا۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔

 ’’اور اب پھر جھک مارنے جا رہے ہیں۔ شیوسار جھیل اور سکردو بچوں کے مشغلے ہیں۔  اس مرتبہ ہمارے ساتھ غونڈو غورو کراس کریں۔ زندگی سنور جائے گی۔‘‘ عرفان نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی۔

 ’’میں آج تک پچھتا تا ہوں کہ جوانی میں یہ پنگے کیوں نہیں لئے؟اب میری بزرگی اس قسم کی مہمات کی اجازت نہیں دیتی۔آپ کے لئے آپ کا غونڈو غورو  …  میرے لئے شیوسار جھیل۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب پنگے لئے نہیں جاتے …  ہو جاتے ہیں۔  پچھلے سال شاہراہِ قراقرم پر ہونے والی لینڈسلائیڈنگ کے علاقے کورات کی تاریکی میں پیدل عبور کرنے والا پنگا آپ نے سوچ سمجھ کر لیا تھا؟‘‘

عرفان ’’سکردو میں پونم‘‘ سے واپسی پر پیش آنے والے پنگے کا حوالہ دے رہا تھا، میں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔

 ’’بہرحال میرا مشورہ ہے کہ شیوسار جیپ سفاری میں اسکولی جیپ سفاری بھی شامل کر لیں تاکہ آپ کا سفر باضابطہ ہو جائے۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’صرف شیوسار کے لئے سفر کرنا بے ضابطہ ہو گا؟‘‘

 ’’اسکولی،  دیوسائی جیپ سفاری کچھ کمپنیوں کے سالانہ ٹور پروگراموں کا حصہ  اور ایک جانا پہچانا شیڈول ہے۔ شیوسار جیپ سفاری لنڈورا سا لگے گا۔‘‘

 ’’او۔کے  … اسکولی فائنل سمجھیں ، لیکن آپ کی جیپ میں میری گنجائش کیسے نکلے گی؟ میرا مطلب ہے آپ کے ساتھی مائنڈ تو نہیں کریں گے؟‘‘

 ’’جیپ میں صرف میں اور آپ ہوں گے۔ہمارے گروپ کی چھٹیوں کا شیڈول  ایسا ہے کہ بقیہ ساتھی تین چار دن پہلے روانہ ہوں گے اور ٹریک کے انتظامات مکمل کریں گے۔ پئی یو میں ایک دن کا لازمی قیام ہو گا تو میں ان کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

 ’’اس کا مطلب ہے آپ جیپ کا کرایہ شیئر کرنے کے لئے مجھے اُلٹی پٹی پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ،ورنہ دو مختلف سمتوں میں جیپ سفاری کی کیا تک ہے؟اسکولی سکردو کے شمال اور دیوسائی جنوب میں ہے۔‘‘

 ’’آپ کو شیوسار جانے کے لئے ساتھی نہیں مل رہا تومیں اپنی جیپ کا کرایہ شیئر کرنے کے لئے آپ کو الٹی پٹی پڑھانے کی کوشش کیوں نہ کروں ؟‘‘

عرفان کے لہجے میں معصومیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔میں بخوشی اس معصومیت کے جال میں گرفتار ہو گیا۔

اسکولی کا نام میں نے شمالی علاقہ جات پر لکھے گئے تقریباً ہر سفرنامے میں پڑھا تھا۔ مجھے علم تھا کہ یہ پاکستان کی شمالی سرحد کا آخری گاؤں ہے اور اس سے آگے برف کے دیوتاؤں کی سلطنت کا آغاز ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں اسکولی کا تصور ایک عارضی کیمپنک سائٹ کا تھا۔میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی نے اسکولی ٹریک یا اسکولی جیپ سفاری کا پروگرام بنایا ہو۔اب اگر شیوسار اور عرفان کے ذہن پر چھائے ہوئے ’’غونڈوغورولا‘‘ کے طفیل اسکولی کا دیدار ہو رہا تھا تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟

مگر غونڈو غورو -لا عرفان کے ذہن پر کیوں چھایا ہوا تھا؟

 وادیِ  شگر کو وادیِ ہوشے سے ملانے والا غونڈو غورو لا ( بلتی زبان میں درّے کو ’’لا‘‘ کہتے ہیں ) ہر اُس کوہ نورد کے ذہن پر غاصبانہ قبضہ جما لیتا ہے جو قراقرم کے جغرافیے کے مطالعے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔

یہ میرے ذہن پر بھی قبضہ جمانے کی کوشش کرتا ہے مگر؟

 سطح سمندر سے ساڑھے پانچ ہزار میٹر …  یعنی اٹھارہ ہزار فٹ بلندغونڈو غورو لا اور اس کا راستہ سنو لائن سے زیادہ بلندی پر واقع ہیں اس لئے دونوں کی برف کبھی نہیں پگھلتی، درجہ حرارت منفی بیس ڈگری سنٹی گریڈ کے لگ بھگ رہتا ہے اور ہوا میں آکسیجن کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔

 غونڈو غورو ٹاپ تک جانے والی چڑھائی تقریباً پینتالیس درجے کا زاویہ بناتی ہے۔یہ چڑھائی دراصل وِگنے گلیشئر ہے جو سورج کی حرارت سے نرم و ملائم ہوکر برفانی دلدل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس دلدل کو دن کے وقت عبور کرنے کا دوسرا نام ’’ خودکش برف دھماکہ‘‘ ہے۔رات کو وگنے گلیشئر اس حد تک ٹھوس ہو جاتا ہے کہ برف گھٹنوں تک پہنچتی ہے،  سر پر سے نہیں گزرتی۔ اس لئے غونڈو غورو لا ٹریک کے آخری دن کا سفر رات کے وقت کیا جاتا ہے،اور انتہائی محتاط انداز میں کیا جاتا ہے کیونکہ وگنے گلیشئر اپنی قاتل دراڑوں کے لئے مشہور ہے۔

اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کے دوران … سطح سمندر سے نو ہزار فٹ بلند جیل گاؤں سے فیری میڈوز جانے والی شریفانہ چڑھائی پر ایک گھنٹہ چلنے کے بعد اگر اٹھارہ سالہ بالی عمریا اور ٹیم کا سب سے فٹ ممبر عمر چوہدری ہوش و حواس کھو بیٹھے …  تو سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ بلند غونڈو غورو لا عبور کرنے کا خواب آنکھوں میں بسانے والے اڑتالیس سال پرانے بابے کو کس نوعیت کے مسائل پیش آ سکتے ہیں ؟

مزید یہ کہ اُسے اس حرکت پر اُکسانے والے کو کیا سزا ملنا چاہیے؟

سوال نمبر دو یہ ہے کہ اتنے مشکل اور اوٹ پٹانگ سپنے آنکھوں میں بسانے کی ضرورت کیا ہے؟

جواباً عرض ہے کہ غونڈو غورو ٹاپ سے قدرت کے برفانی عجائب گھر کا جو لازوال منظر دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اس کائنات کا خوبصورت ترین منظر ہے اور کوہ نوردی کی دنیا کی معراج کہلاتا ہے۔کوہ نورد یہ معراج حاصل کرتا ہے اور کے۔ٹو،گیشر بروم،براڈ پیک، میشر بروم اور بے شمار دوسری چوٹیوں کے ساتھ برفانی دنیا کی لیلائے حسن … لیلیٰ پیک کو اپنے سامنے جلوہ افروز دیکھ کر مجنوں ہو جاتا ہے اور فطرت کی ’’مس یونیورس‘‘ کے حضور  عہدِ وفا استوار کرنا چاہتا ہے:

برفوں میں ترے جینا مرنا

اب دور یہاں سے جانا کیا

 گائیڈ جو اس دلکش خواب کی اگلی قسط سے بخوبی آگاہ ہے …  اصرار کرتا ہے:

صاحب جی اٹھو، اب کوچ کرو

اس برف میں جی کا لگانا کیا

 اس ٹریک کا اگلا مرحلہ وادیِ ہوشے میں داخل ہونا ہے۔ وادیِ ہوشے تک  جانے والی ’’ اُترائی ‘‘ بھی ایک گلیشئر ہے اورغونڈو غورو گلیشئر کہلاتی ہے۔یہ گلیشئر وگنے گلیشئر کا بھی باپ ہے اور ایک بے ہنگم، بے ڈول اور پتھریلی ڈھلوان بناتا ہے جو ساٹھ درجے کا زاویہ بناتے ہوئے نیچے پہنچتی ہے۔ جیسے جیسے سورج بلند ہو گا،  غونڈو غورو کے برفانی سمندر سے برفانی تودے لڑھکنے شروع ہو جائیں گے۔ اس لئے فوراً نیچے اترنا شروع کر دینا چاہیے اور مسلسل ورد کرتے رہنا چاہئے:

سورج میں تپش نہ آئے

 آئے تو برف نہ پگھلائے

 پگھلائے تو ذرا دور پگھلائے

 تودے نے نیچے اترنے والے کی طرف لڑھکنا شروع کر دیا تو؟

 چھوڑیں جی، دفع دور کریں اس موضوع کو  … میں یا آپ کونسا غونڈو غورو جا رہے ہیں ؟ ان معلومات کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ عرفان مجھے کس قسم کے الٹے سیدھے پنگے میں الجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور میں نے اس پنگے سے دامن بچا کر کتنی عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔عرفان ایک تربیت یافتہ راک کلائمبر، باقاعدہ ٹریکر اور کوہ پیما ٹیموں کے لئے سند یافتہ رابطہ آفیسر ہے۔ وہ پچھلے سال موسم کی خرابی کی وجہ سے غونڈو غورو لا عبور نہیں کر سکا تھا اور کے۔ٹو بیس کیمپ سے واپس آ گیا تھا۔اس لئے غونڈو غورو لا اُس کے ذہن پر چھا چکا ہے۔اپنے ذہن کو غونڈو غورو سے آزاد کرانے اور اپنی بے داغ ٹریکنگ لائف پر لگا ہوا ناکامی کا داغ دھونے کے لئے غونڈو غورو عبور کرنا اس کی انا کا مسئلہ ہے۔ میں اُن حرکات سے دور رہتا ہوں جو اَنا پر ایسے داغ دھبے لگا دیں جنہیں دھونے کے لئے غونڈو غورو وغیرہ عبور کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس لئے :

شیوسار جھیل زندہ باد

 غونڈوغورو ’’ہائے …  …  ہائے‘‘

ہائے میں تھوڑی سی حسرت، خوفزدگی اور ناتوانی کا اضافہ کر لیں … شکریہ!

٭٭٭

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

’’او جاہل باغیو! تمھیں تاجِ برطانیہ کی خدمت کرتے سو سال ہو گئے لیکن اب تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ ہم اپنی حاکمیت پر کسی قسم کے شک و شبہے کو برداشت کرنے کے عادی نہیں اور زندگی کی آخری سانس تک حکمرانی کرتے ہیں۔ ‘‘

(جان نکلسن کا خطاب جسے سر ہنری بولٹ نے منظوم کیا)

 

میں اور عرفان دوپہر تین بجے ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی کے سکردو ٹائم میں راولپنڈی سے سکردو کے لئے روانہ ہوئے اور موٹر وے کے نتیجے میں جنم لینے والی شاہراہوں کی بھول بھلیوں سے گزر کر پشاور روڈ عرف گرانڈ ٹرنک روڈ پر پہنچے جسے مختصراً جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے۔

 

 ’’یار ڈاکٹر صاحب،کہا جاتا ہے کہ جی۔ٹی روڈ شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی۔ اُس دور میں انگریزی کی رسائی برّ صغیر تک ہوئی ہی نہیں تھی،پھر اسے جی۔ٹی روڈ کیوں کہا جاتا ہے؟ شیر شاہی سڑک کیوں نہیں کہا جاتا؟‘‘

 ’’ آپ اپنی معلومات اپ ڈیٹ کر لیں … اس سڑک کا آغاز … اور خاص طور پر اس جگہ سے آغاز شیر شاہ سوری نے نہیں ،چندر گپت موریہ نے کیا تھا۔‘‘

 ’’میرے لئے یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے … یہ درست ہو تب بھی اسے چندر گپت سے منسوب کرنا چاہیے، گرانڈ ٹرنک روڈ کیوں ؟‘‘

 ’’ مسئلہ یہ ہے کہ ہم تاریخ اور مذہب کو گڈ مڈ کرنے پر مجبور ہیں۔  ہماری تاریخ کا پہلا باب بر صغیر میں محمد بن قاسم کی آمد سے شروع ہوتا ہے،اس سے پہلے تمام صفحات کورے کاغذ ہیں۔  بے شک چندر گپت موریہ نے ہندوستان اور یونان کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لئے ٹیکسلا سے پاٹلی پتر(موجودہ پٹنہ) تک سڑک بنائی جسے موجودہ گرانڈ ٹرنک روڈ کا آغاز کہا جا سکتا ہے، لیکن ہمیں علم ہی نہیں کہ چندر گپت موریہ کس کھیت کی مولی تھا تو اُس کے سر سہرا کیوں باندھیں ؟ہماری گرانڈ ٹرنک روڈ کا معمار شیر شاہ سوری ہے جس نے سولھویں صدی میں اپنے آبائی قصبے سہسرام سے دہلی تک سڑک بنوائی۔ اس سڑک کو بعد میں بنگال کے شہر سونار گاؤں اور پنجاب کے اٹک تک وسعت دی گئی اور ’’شاہراہِ اعظم ‘‘ کا نام دیا گیا۔‘‘

 ’’میں یہی تو جاننا چاہتا ہوں کہ اسے شیر شاہ کے دیئے ہوئے نام سے کیوں نہیں پکارا جاتا؟‘‘

 ’’عرفان صاحب عقل کے ناخن لیں۔ کہاں وکٹوریہ جیسی من موہن گوری، کہاں کالا کلوٹا شیر شاہ سوری۔ آپ کیوں ہمیں روشن خیال دورِ غلامی سے نکال کر بنیاد پرستی کے تاریک دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں ؟‘‘

 ’’اللہ آپ کی روشن خیالی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آپ نے اس سڑک کی آدھی تاریخ پڑھا دی لیکن یہ نہیں بتا یا کہ اسے انگلش نام کیوں دیا گیا؟‘‘

یہ جاننے کے لئے آپ کو اس شاہراہ کی پوری تاریخ پڑھنی پڑے گی،آدھی سے کام نہیں چلے گا۔‘‘

 ’’پڑھا دیں۔ ‘‘ عرفان نے بے نیازی سے کہا۔

 ’’شیر شاہ سوری نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکستِ فاش دے کر ہندوستان کی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا تھا۔شیر شاہ کی زندگی میں ہمایوں کو ہندوستان کا رخ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔بدقسمتی سے شیر شاہ کے جانشین نا اہل ثابت ہوئے اور ہمایوں نے ہندوستان پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔اُس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شیر شاہ کی بنائی ہوئی سڑک کو اٹک سے کابل لے گیا تاکہ شیر شاہ سوری دوبارہ پیدا ہو جائے تو مغل  شہزادوں کو ہندوستان سے فرار ہونے کے لئے راہبروں کی تلاش میں دھکے کھانے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔ ‘‘

 ’’سبحان اللہ،آپ کا شجرہ نسب شیر شاہ سے تو نہیں ملتا؟‘‘

 ’’ ’’مائنڈ یور  لینگوئج پلیز۔ہماری رگوں میں خالص راجپوتی خون دوڑ رہا ہے اور ہم ہرگز برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے شجرہ نسب میں کسی بہاری کا نام شامل کیا جائے۔‘‘ میں نے نہایت سنجیدگی سے شاہانہ انداز میں کہا۔

 ’’بجا ارشاد فرمایا۔خالص راجپوتی خون مغلوں کے بدیسی خون کی آمیزش بخوشی برداشت کر سکتا ہے،اپنی دھرتی کے دیسی خون کی ملاوٹ پسند نہیں کرتا۔‘‘

عرفان کی طنز بہت تلخ اور دل شکن  … لیکن تاریخی حقائق کے عین مطابق تھی اس لئے میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔عرفان کو غالباً احساس ہوا کہ اس نے مذاق کی بات کو کچھ زیادہ سنجیدہ بنا دیا ہے،اُس نے فوراً معذرت کی اور فیصل آبادی لہجے میں کہا:

 ’’مٹی پاؤ جی مغلاں تے سوریاں تے۔تسی من موہنی گوری دی گلاں کرو۔میرا مطبل اے جے سڑک دیسی اے تے ایدا ناں انگریز کیوں اے؟‘‘

 ’’ مغلوں کے بعد انگریزوں کا دور آیا۔اُن کا دارالحکومت کلکتہ تھا۔انھوں نے شاہراہِ اعظم کو اپنی وسیع مملکت کے ایک کونے یعنی پشاور سے دوسرے کونے کلکتہ تک توسیع دے کر اس کی تعمیر کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کر لئے اور اسے گرانڈ ٹرنک روڈ کا نام دیا۔گرانڈ ٹرنک روڈ شاہراہِ اعظم کاہی آسان انگریزی ترجمہ ہے،لیکن ہم اصل سے زیادہ نقل کو پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق انگریز بادشاہ سے ہے۔‘‘

 ’’آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ یورپی ممالک اپنی موجودہ اینٹی اسلام پالیسیوں پر قائم رہے تو عالمِ اسلام خود بخود ان سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور پسندیدگی کے پیمانے تبدیل ہو جائیں گے۔‘‘

 ’’بات پسندیدگی کی نہیں ،ذہنیت کی ہے۔ خوئے غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا اب ہمارے بس میں نہیں رہا،اور میرے دعوے کا جیتا جاگتا ثبوت آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔‘‘ میں نے سامنے نظر آنے والی پہاڑی کی چوٹی کی طرف اشارہ کیا۔

ہم نے تقریباً پچیس کلومیٹر کا فا صلہ طے کر لیا تھا اور ہماری بس بلند و بالا پہاڑیوں سے گھرے ہوئے مارگلہ پاس سے گزر رہی تھی۔ اس درے کی جنوبی پہاڑی پر صلیبی طرز کا سرخ پتھروں سے بنایا گیا یادگاری ستون دور سے نظر آنے لگتا ہے۔

 ’’یہ کس قسم کا ثبوت ہے؟‘‘ عرفان نے ٹاور کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔

 ’’یہ ستون برطانیہ کے ایک قابل فخر سپوت بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن کی بہادری اور سرفروشی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اس کے ساتھیوں نے ۱۸۶۸ء میں تعمیر کیا تھا۔‘‘

 ’’ کس قسم کی بہادری اور سرفروشی ؟‘‘

 ’’ جان نکلسن کو دہلی کا اصل فاتح اور ۱۸۵۷ء کا برطانوی ہیرو کہا جاتا ہے۔ اس نے غدر کے اختتامی مراحل میں دہلی پر حملے کی پلاننگ اور قیادت کی تھی۔ اس کی قیادت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج ظفر موج نے ۱۸۵۷ء کی بغاوتِ ہند کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے کئی سو سالہ اقتدار کا بوریہ بستر گول کیا اور اسے عالم پناہ ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر کی شہنشاہی پر سوار کر کے برما کے شہر رنگون بھجوا دیا۔ ‘‘

 ’’ایک طرف آپ اس ستون کو ذہنی غلامی کی نشانی تصور کرتے ہیں اور دوسری طرف ۱۸۵۷ء کے معرکے کو غدر اور بغاوت کہہ رہے ہیں۔ ہماری تاریخ میں یہ جد و جہد جنگِ آزادی کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔‘‘

 ’’میں معذرت خواہ ہوں کہ فاتح دہلی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے تعمیر کئے گئے مینار کے پہلو سے گزرتے ہوئے بغاوتِ ہند کو جنگِ آزادی کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘

 ’’اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ،سوال یہ ہے کہ فتحِ دہلی کی یادگار یہاں کیوں بنائی گئی؟‘‘

 ’’بر صغیر کو برطانیہ کی غلامی سے آزاد کرانے کی جد و جہد کرنے والوں کے ہاتھوں جان نکلسن اپنے تابناک کیریئر کے دوران دو مرتبہ زخمی ہوا۔ایک مرتبہ مارگلہ پاس کے قریب اور دوسری مرتبہ لال قلعے پر حملے کے دوران دہلی کے کشمیری گیٹ کے نزدیک۔پہلے زخم کے نتیجے میں وہ تھوڑا سا لنگڑانے لگا تھا لیکن دوسرا زخم مہلک ثابت ہوا اور وہ لال قلعے کی تسخیر کے نو دن بعد جہنم رسید … معاف کیجئے  … آنجہانی ہو گیا۔اس کی جد و جہد کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے مارگلہ پاس پر یادگاری ستون تعمیر کیا گیا اور دہلی میں کشمیری گیٹ کے قریب اس کی قبر کے سرہانے اُس کا مجسمہ نصب کیا گیا۔‘‘

 ’’آپ نے مجسمے کا دیدار بھی کیا ہو گا کیونکہ آپ دہلی کا سفر کر چکے ہیں۔ غالباً اسی لئے بے چارا نکلسن آپ کے غم و غصہ کا نشانہ بن رہا ہے۔‘‘

 ’’آپ کا خیال بڑی حد تک درست ہے۔ مجھے جان نکلسن کے کارناموں سے آگاہی دہلی میں اُس کی قبر کی زیارت کے لئے آئے ہوئے ایک برطانوی وفد کی زبانی ہوئی تھی۔اس وفد میں اس کا پوتا یا پڑپوتا بھی شامل تھا اور مسلسل بھارت کے غیر مہذب،اجڈ اور احسان فراموش باشندوں کو لعنت ملامت کر رہا تھا جنھوں نے اُس کے جد امجد کے مجسمے کو دیس نکالا دے دیا۔‘‘

 ’’مجسمے کو دیس نکالا کیسے دیا جا سکتا ہے؟‘‘

 ’’ آزادی کے فوراً بعد بھارت کے عوام فاتح دہلی کا مجسمہ پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے تھے لیکن ماؤنٹ بیٹن نے اسے راتوں رات برطانوی سفارت خانے اور بعد میں آئر لینڈ میں اُس کے آبائی قصبے میں پہنچا دیا۔ مجسمے پر بس نہ چلا تو بے دین ہندوستانیوں نے جان نکلسن کی آخری آرام گاہ کھود ڈالی اور اسے ہموار کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔‘‘

 ’’آپ چاہتے ہیں کہ آخری آرام گاہ کی طرح اس ٹاور کو بھی ہموار کر دیا جائے؟‘‘

 ’’نعوذ با اللہ … میں بھارت کے بے دین کافروں کی طرح نمک حرام نہیں ہوں۔  میں تو چاہتا ہوں کہ ہر سال تئیس ستمبر کو نکلسن ٹاور کے سائے تلے ’’ جشنِ فتحِ دہلی‘‘ کا اہتمام کیا جائے جس میں مسلح دستے فاتح دہلی کی روح کو باقاعدہ گارڈ آف آنر پیش کریں۔ ‘‘ میرا لہجہ غیر ارادی طور پر انتہائی تلخ ہو گیا۔

عرفان ہنسنے لگا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب ان نادر و نایاب معلومات کا شکریہ … لیکن ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر نہ لیا کریں۔ مارگلہ کی پہاڑیاں عنقریب بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والی ہیں کیونکہ ان پر اماں حوا کے قدموں کے نشانات دریافت ہو چکے ہیں۔ آپ کا دل جلانے والے نکلسن ٹاور کی شہرت خودبخود پس منظر میں چلی جائے گی۔‘‘

 ’’جی؟ … کیا فرما رہے ہیں آپ؟اماں حوا کے قدموں کے نشانات یہاں ؟‘‘ میں سچ مچ حیران ہوا۔

 ’’کیوں ؟ … اگر حسن ابدال میں بابا گورو نانک کے ہاتھ کا نشان، حیدرآباد میں حضرت علی کے ہاتھ کا نشان،سوات میں مہاتما بدھ کے جانشین گورو پدم سمبھاوا کے قدموں کے نشان اور سری لنکا میں حضرت آدم کے نقشِ پا دریافت ہو سکتے ہیں تو مارگلہ کی پہاڑیوں پراماں حوا کے قدموں کے نشانات دریافت ہونا کون سی اچنبھے کی بات ہے؟‘‘

 ’’لیکن اماں حوا کویہاں تشریف لانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟‘‘

 ’’ہو سکتا ہے جنت سے رخصتی کے بعد اُن کی پالکی نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر لینڈ کیا ہو،یا پھر بابا آدم سے کھٹ پٹ ہو گئی ہو اور وہ یہاں گوشہ نشین ہو گئی ہوں۔ اس دنیا میں کیا نہیں ہو سکتا؟‘‘

 ’’آپ جو شوشہ چھوڑنا چاہتے ہیں اس کی وضاحت فرمادیں تو عین نوازش ہو گی۔‘‘

 ’’ میں نہیں ، یہ شوشہ پاکستان کا محکمہ آثارِ قدیمہ چھوڑنا چاہتا ہے۔محکمے کی ایک ٹیم نے مارگلہ کی چوٹیوں پر دو عدد قدموں کے نشانات دریافت کئے ہیں۔  ان کے بارے میں تحقیق جاری ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دس لاکھ سال پرانے ہیں۔  محکمے کا ارادہ ہے کہ ان نشانات کی عمر کی تصدیق ہو گئی تو انھیں اماں حوا کے مقدس قدموں کے نشانات کے طور پر متعارف کرایا جائے گا۔ ‘‘

 ’’آپ نے یہ نشانات دیکھے ہیں ؟‘‘

 ’’بالکل دیکھے ہیں۔ میرا کزن ان نشانات پر تحقیقی مقالہ لکھ رہا ہے،وہ مجھے بطور ڈرائیور اپنے ساتھ گھسیٹ لایا تھا۔نشانات کی لمبائی ایک فٹ کے لگ بھگ ہے۔ ایک پاؤں پورا ہے جبکہ دوسرے کی ایک انگلی غائب ہے اور یہ نشانات بُھربُھری چٹان پر ثبت ہیں۔  ‘‘

’اور آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا اس مضحکہ خیز دعویٰ کی صداقت کو تسلیم کر لے گی کہ یہ اماں حوا کے قدموں کے نشانات ہیں ؟‘‘

 ’’تسلیم کرے نہ کرے،تحقیق تو کرے گی ناں … غیرملکی تحقیقاتی ٹیمیں یہاں آئیں گی تو ان نشانات کی شہرت پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ہزاروں سیاح ان کی زیارت کے لئے آئیں گے اور اپنے ساتھ ڈالرز بھی لائیں گے … جن کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔‘‘

 ’’جانے دیں سر  … پاکستان کو سیاحت سے ڈالرز کمانے کا فن آتا تو بات ہی کیا تھی۔آپ کو علم ہے کہ جس سرزمین سے آپ گزر رہے ہیں اُس کی کیا اہمیت ہے اور اُس سے کتنا زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے؟‘‘

ہم اُس وقت ٹیکسلا سے گزر رہے تھے۔

 ’’ٹیکسلا کی کہانی پرانی ہو چکی ہے،غیر ملکی سیاح اب اسے زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔‘‘

 ’’آپ غیرملکی سیاحت کو یورپ تک محدود نہ سمجھیں۔ ٹیکسلا ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے قبلہ و کعبہ کی حیثیت رکھتا ہے …  …۔ ‘‘

 ’’چھڈو جی۔‘‘ عرفان نے میری بات کاٹی۔ ’’ہندوؤں کی تو اپنی روٹی اور دھوتی پوری نہیں ہوتی،انھیں پاکستان بلا کر ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟‘‘

 ’’سکھوں کو پاکستان بلا کر ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟سکھ یاتری پنجہ صاحب کی زیارت کے لئے حسن ابدال جاتے وقت ٹیکسلا کے پہلو سے گزرتے ہیں تو ٹیکسلا ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔اُس کی فرمائش ہے کہ بھارت، تبت،چین اور نیپال سے آنے والے ہندو اور بدھ یاتریوں کو وہی سہولیات فراہم کی جائیں جو سکھ یاتریوں کو دی جاتی ہیں ،اور اِسی انداز میں آؤ بھگت کی جائے جیسے سکھ یاتریوں کی کی جاتی ہے۔‘‘

 ’’اچھا؟ … ٹیکسلا آپ سے باتیں بھی کرتا ہے؟‘‘ عرفان شدید حیران ہوا۔

 ’’ٹیکسلا ہر اُس شخص کو پکارتا ہے جو اُس کے قریب سے گزرتا ہے، افسوس کوئی اس کی پکار پر دھیان نہیں دیتا۔ٹیکسلا کا دعویٰ ہے کہ اُس کا ’’ستونوں والا ہال‘‘ جو تین صدی قبل مسیح میں علم و عرفان کی کرنیں بکھیرنے والا روشن مینار تھا،آج بھی امن و آشتی کو فروغ دینے اور نظریاتی اختلافات کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ‘‘

 ’’میں ٹیکسلا کے میوزیم کی سیر کر چکا ہوں۔ میرا خیال میں آپ ٹیکسلا اور ہندو مت  یا بدھ مت کے تعلق کے بارے میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی کر رہے ہیں۔ وہ آخر ٹیکسلا میں اتنی دلچسپی کیوں لیں گے؟انڈیا اور نیپال میں قدم قدم پر اُن کی مذہبی یادگاریں بکھری ہوئی ہیں۔ ‘‘

 ’’اشوک اعظم کا نام سنا ہے آپ نے؟‘‘

 ’’اشوک اعظم؟ … آپ کا مطلب ہے اشوکا؟ … وہ اپنی کرینہ کپور والا؟‘‘

 ’’اپنی کرینہ کپور؟ …  چشمِ بد دور … مجھے پتہ ہوتا کہ وہ آپ کی ہو چکی ہے تو اشوکا دیکھنے کے دوران بھی اُسے اچھی اچھی نظروں سے دیکھتا۔ویسے میرا خیال ہے خود اشوک اعظم اشوکا دیکھ لیتا تو شاہ رُخ خان ’’روشنی سے بھرے بھرے نینا ترے‘‘ کے بجائے ’’بھولی ہوئی ہوں داستاں ،اُجڑا ہوا خیال ہوں ‘‘ گاتا پھرتا۔ ‘‘

 ’’آپ ٹیکسلا اور ہندو مت کے تعلق کے بارے میں کچھ فرما رہے تھے۔‘‘ عرفان نے جھینپے ہوئے انداز میں کہا۔

 ’’جی نہیں … میں آپ کی کرینہ کپور کے اشوکا کے بارے میں بتا رہا تھا۔اشوک اعظم کو بدھ مذہب کا مہدی کہا جا سکتا ہے،وہ اپنی ولی عہدی کے زمانے میں ٹیکسلا کا گورنر رہا، اُن دنوں ٹیکسلا اشوک کا شہر کہلاتا تھا،اس کے چپے چپے پر اشوک کے قدموں کے نشانات ثبت ہیں اور بدھ یاتری اشوک سے تعلق رکھنے والی ہر یادگار کے درشن کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔  ٹیکسلا کی ایک خانقاہ بدھ یاتریوں کے لئے دنیا کی ہر خانقاہ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ایک مقبولِ عام روایت کے مطابق مہاتما بدھ نے اس خانقاہ میں اپنے ہاتھ سے اپنا سر تن سے جدا کر کے ایک عقیدت مند کے حوالے کر دیا تھا۔‘‘

 ’’اور خود سر کے بغیر زندگی بسر کرتے رہے؟‘‘ عرفان نے حیرانی سے دریافت کیا۔

 ’’اپنے لئے انھوں نے سورگ سے نئے ماڈل کا سر امپورٹ کر لیا تھا۔ جہاں تک ہندو مت کا تعلق ہے تو اطلاعاً عرض ہے کہہندو مت کی مقدس ترین اور دنیا کی طویل ترین نظم مہا بھارت پہلی مرتبہ ٹیکسلا کی فضاؤں میں تلاوت کی گئی،ہندوستان کے ارسطوچانکیہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’ارتھ شاستر‘‘  ٹیکسلا کی یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھ کر لکھی۔ ان کے علاوہ بھی ٹیکسلا کو بہت سے اعزازات … ‘‘

 ’’یہی کافی ہیں ،میرا ٹیکسلا پر پی ایچ ڈی کرنے کاکوئی ارادہ نہیں۔ ‘‘ عرفان نے میری بات کاٹی۔ ’’لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتا کہ ہندوؤں یا بدھوں کی ٹیکسلا یاترا سے زرِ مبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔بدھ بھکشو تو اپنے کھانے پر پیسے خرچ کرنے کو بھی حرام سمجھتے ہیں اور ہندؤں کی بنیا ذہنیت سے کون واقف نہیں ؟وہ صرف لنگوٹی باندھ کر یہاں آئیں گے اور چنے پھانکتے ہوئے رام رام کرتے واپس چلے جائیں گے … اُن سے پیسے بٹورنے کے امیدوار اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے۔‘‘

ہو سکتا ہے عرفان درست کہہ رہا ہو،لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکسلا کے بدھ مت اور ہندو مت سے تعلق رکھنے والے مذہبی ورثے کی تشہیر کر کے دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو ٹیکسلا یاترا پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔اُن کی آزادانہ آمدورفت سے پاکستان اور اسلام کے بارے میں پائی جانے والی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے جو فی الوقت پاکستان کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس میل جول سے حاصل ہونے والی مذہبی رواداری کی دولت پاکستان کے لئے یو۔ایس ڈالرز سے زیادہ قیمتی ثابت ہو سکتی ہے۔

ٹیکسلا کے بعد شہر ایوب ہری پور اور پھر چینی پیار کا پہلا شہر  … حویلیاں … جہاں سے شاہراہ قراقرم کا آغاز ہوتا ہے۔

حویلیاں تا کاشغر،  تقریباً ایک ہزار کلومیٹر لمبی معجزاتی شاہراہِ قراقرم کے چپے چپے پر پاک چین پیار بھری دوستی کی ماورائی طاقت کے ناقابلِ یقین مظاہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔  اس شاہراہ پر سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسے لینڈ سکیپ پر تعمیر کی گئی ہے جہاں سڑک بچھانا تقریباً ناممکن تھا۔شاہراہِ قراقرم ایک جیتا جاگتا معجزہ ہے۔

ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ایک جیتے جاگتے معجزے کا نہ صرف مشاہدہ کر سکتے ہیں بلکہ اسے اپنی گاڑی کے ٹائروں تلے روندنے پر بھی قادر ہیں۔

اور شاہراہِ قراقرم کتنی بدقسمت ہے کہ ہم جیسے قدر ناشناسوں کی سر زمین پر پائی جاتی ہے۔ہم اس شاہراہ کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہتے ہیں ،اسے ساتواں عجوبہ بنانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔چند ماہ پہلے انٹرنیٹ پر دنیا میں پائے جانے والے عجائبات کی از سرِ نو درجہ بندی کی گئی اور پہلے سات عجائبات کا تعین کیا گیا۔ ہم نے اس مقابلے میں شاہراہِ قراقرم کو شامل کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔مقابلہ جیتنا ضروری نہیں ،اس میں شامل ہونا بذاتِ خود ایک اعزاز ہے۔نئی درجہ بندی کے مطابق اہرامِ مصر جیسے مستند عجائبات بھی پہلے سات عجائبات میں جگہ نہ پا سکے،جبکہ تاج محل دنیا کے پہلے سات عجائبات میں شامل کر لیا گیا کیونکہ بھارت کے عوام نے اس مقابلے کے لئے باقاعدہ تیاری کی تھی۔

 کوئی شک نہیں کہ تاج محل دلوں کو مسحور کر لیتا ہے۔

اور کوئی شک نہیں کہ شاہراہِ قراقرم دلوں کومرعوب کر دیتی ہے۔

  مانسہرہ سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ڈھوڈیال نامی قصبہ ہے۔

ڈھوڈیال بظاہر ایک غیر اہم اور معمولی قصبہ ہے جو ایک انتہائی غیر معمولی اعزاز کا حامل ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں اپنی نوعیت کا ایشیا کا سب سے بڑا ’’پرندہ گھر‘‘ (DHODIAL PHEASANTRY) قائم کیا گیا ہے۔ اس میں دنیا کے نایاب ترین اور خاص طور پر ایسے پرندے رکھے گئے ہیں جن کی نسل ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ دنیا میں پرندوں کی باون نسلیں (SPECIES)پائی جاتی ہیں جن میں سے چونتیس ڈھوڈیال کے پرندہ گھر میں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے تمام پرندوں کو چھ نسلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور باقی اٹھائیس نسلیں غیر ممالک کے نایاب پرندوں پر مشتمل ہیں۔  ڈھوڈیال کے پرندہ گھر میں ایک ہزار سے زائد پرندوں کے پنجرے موجود ہیں اور اس کا رقبہ بیس ایکڑ سے تجاوز کر چکا ہے۔پرندوں کے علاوہ یہاں ٹائیگر،چنکارا اور اڑیال کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ میں نے یہ پرندہ گھر ۱۹۸۵ء میں دیکھا تھا۔ اُس وقت اسے قائم ہوئے چندماہ ہوئے تھے، اس کا رقبہ چار ایکڑ تھا اور اس میں چند پرندے موجود تھے۔اب یہ پرندوں کا عجائب گھر بن چکا ہے۔ یہ پرندہ گھر میرے ذہن سے محو ہو چکا تھالیکن چند روز پہلے شائع ہونے والی ایک خبر نے اس کی یاد تازہ کر دی۔خبر کے مطابق ڈھوڈیال فیزنٹری کو منتقل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں تاکہ اس جگہ ہزارہ یونیورسٹی کا گرلز ہوسٹل بنایا جا سکے۔ خبر میں ماہرین کی یہ رائے بھی موجود تھی کہ اس منتقلی کے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے اور اربوں روپے کے نایاب پرندوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔اس کے علاوہ منتقلی کے اخراجات کا تخمینہ بھی اربوں روپے میں لگایا گیا ہے۔پرندوں کے حقوق کی عالمی تنظیموں نے حکومتِ پاکستان سے اپیل کی تھی کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور نادر و نایاب پرندوں کی جان پر رحم کیا جائے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ اپیل منظور کر لی جائے کیونکہ یہ پرندوں کے حقوق کی تنظیموں کی طرف سے کی گئی ہے …  انسانی حقوق کی تنظیموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

ضلع مانسہرہ کی انتظامیہ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ شاہراہِ قراقرم پر جہاں ڈھوڈیال کے آغاز کا اطلاعی بورڈ لگا ہے وہاں اس ’’پرندہ گھر‘‘ کے بارے میں بھی ایک عدد معلوماتی بورڈ کا اضافہ کر دیا جائے۔ یہ معلوماتی بورڈ مانسہرہ کے بس سٹاپ پر نصب کیا جائے  تو بہتر ہو گا تاکہ شاہراہ پر سفر کرنے والے اس نادر عجائب گھر کی زیارت کا پروگرام بنا سکیں۔

ہم شنکیاری،چھتر پلین اور شرکول سے گزرتے ہوئے بٹ گرام میں داخل ہوئے۔

اس سفر کے دوران  ۲۰۰۵ء میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں نمودار ہونے والے قیامت خیز مناظراب تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ جگہ جگہ خیمہ بستیاں قائم ہیں۔ بٹگرام کی تباہی کا منظر انتہائی المناک تھا۔ سڑک کے دونوں طرف بہت سی دکانیں دوبارہ تعمیر ہو چکی تھیں لیکن ان کے عقب سے جھانکنے والی رہائشی عمارات کے بیشترکھنڈرات جوں کے توں موجود تھے۔ یہ کھنڈرات اپنے مکینوں کے منتظرتھے  … کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن  …  ان آشیانوں میں دوبارہ بسیرا کرنے کی خواہش رکھنے والے گردشِ دوراں کی بھول بھلیوں میں چکرا رہے تھے۔وہ اپنے پیاروں کی لاشوں اور اپنی امنگوں کے مدفن کی پُکار سنتے تھے لیکن  نظریں چرا کر خیمہ بستی کی طرف لوٹ جاتے تھے۔ اُن کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ اس مدفن کو دوبارہ ہوم سویٹ ہوم میں تبدیل کر سکیں۔

 آج کے دور میں زلزلہ زدگان کے چہرے پر لاچارگی اور بے بسی دیکھنا آسان کام نہیں۔ جس ملک کے اربابِ اقتدار کے باورچی خانوں کا روزانہ بجٹ لاکھوں روپے سے تجاوز کر جائے اور بیت المال سے بخوشی ادا کر دیا جائے، اُس ملک کے شہریوں کو ایک کمرے پر چھت ڈالنا بھی نصیب نہ ہو تو:

ان کی بے سامانیوں سے کیوں نہ دل اپنا جلے

شرم سی آتی ہے اِن کو بے نوا کہتے ہوئے

 ’’ خدا محفوظ رکھے۔ یہ سب ان لوگوں کے اعمال کی سزا ہے۔‘‘ ایک مولانا صاحب نے تسبیح گھمانے کے شغل میں وقفہ کئے بغیر با آوازِ بلند اظہارِ خیال فرمایا۔

چند مقامی لوگوں نے چونک کر مولانا صاحب کی طرف دیکھا۔

 ’’ اس علاقے میں فحاشی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ حد سے بڑھا ہوا گناہ عذابِ الٰہی کو دعوت دیتا ہے۔ ان لوگوں کو اپنے گناہوں پر معانی مانگنی چاہئے۔‘‘ مولانا صاحب نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر تبصرے کی دوسری قسط میں ہدایت نامہ بھی شامل کر دیا۔

 ’’اوئے خانہ خراب کا بچہ۔تم بولتا اے کہ ادر کا لوگ سارے ملک کا لوگ سے زیادہ  بد چلن تھا اور تم بوت پاک صاف بندہ اے؟‘‘ ایک مقامی شخص نے غضبناک لہجے میں مولوی صاحب کو مخاطب کیا۔

 ’’میں نہیں بول رہا، پورا ملک بولتا ہے کہ زلزلہ بد اعمالیوں کی سزا تھی۔ خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ رکھے۔‘‘

میں نے دیکھا کہ مقامی شخص کی آنکھوں میں آگ دہکنے لگی اور وہ قہر آلود نظروں سے مولانا صاحب کو گھورنے لگا۔صاف ظاہر تھا کہ اس کے ذہن میں بے شمار خیالات گردش کر رہے ہیں اور وہ انھیں الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہے۔ اس نے اپنے خیالات اور الفاظ مجتمع کرنے کے بعد کہا:

 ’’تمہارا مطلب اے کہ اس علاقے کا لوگ سارے ملک سے زیادہ بد چلن اے؟‘‘

 ’’عذاب اسی وقت آتا ہے جب گناہ حد سے بڑھ جائے۔ اس علاقے پر خدا کا عذاب اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگ حدود اللہ کو پار کرنے میں زیادتی کر چکے تھے۔‘‘

 ’’تم کدر سے آیا اے؟‘‘

 ’’میں پنڈی سے آیا ہوں اور داسو جاؤں گا۔‘‘

 ’’تم کہنا چاہتا اے کہ راولپنڈی کا لوگ کوئی گناہ نئیں کرتا؟ کوئی بے ایمانی نئیں کرتا؟اور باقی ملک کا لوگ بی بہت نیک اے۔سارا بے ایمانی بٹ گرام کا لوگ کرتا تھا؟‘‘ مقامی شخص نے تپے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔

 ’’آپ بلا وجہ ناراض ہو رہے ہیں۔  میں نے عام بات کی ہے۔ خدا کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہئے۔‘‘

 ’’ام کو پناہ مانگنا چائیے اور تم کو مصیبت میں گھرے ہوئے لوگوں پر لانت بھیجنا چایئے۔تم پنڈی کا لوگ تو گناہ کرتا نئی اے۔ام بوت گناہ کرتا اے۔ابی دوبارہ بٹگرام کے لوگوں کو برا بھلا بولو۔ام اسی جگہ گناہ کرے گا اور تمہاری …  …۔ ‘‘

اس دھمکی سے مولانا صاحب کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اس علاقے میں فحاشی تمام حدود کراس کر چکی ہو گی۔

 میں کسی حد تک مقامی شخص کے جذبات سمجھ رہا تھا۔زلزلے سے برباد ہونے والے لوگوں کو ان کے منہ پر بدترین گناہ گار اور عذاب یافتہ قرار دے کر توبہ کی تلقین کرنا مناسب بات نہیں تھی۔ میں نے مقامی شخص کے جذبات ٹھنڈا کرنے کے لئے مولانا صاحب سے سوال کیا:

 ’’کیا قدرتی عذاب کسی وارننگ کے بغیر نازل کر دیا جاتا ہے ؟‘‘

مولانا صاحب نے خوفزدہ نظروں سے مقامی شخص کی طرف دیکھا اور خاموش رہنا مناسب سمجھا لیکن ان کی نظریں سوال کر رہی تھیں  … کیسی وارننگ ؟

 ’’ میرے ناقص علم کے مطابق قرآن میں عذاب نازل کرنے کا ذکر ہے تو حجت پورا کرنے کا اعلان بھی ہے۔ عذاب ہمیشہ اس قوم پر نازل کیا گیا جس نے اپنی جانب بھیجے جانے والے نبی کی صداقت کو چیلنج کیا۔آپ کے خیال میں جن علاقوں میں زلزلہ آیا وہاں حجت پوری ہو چکی تھی؟‘‘

 ’’رسولِ پاک کو آخری نبی کہنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ حجت پوری ہو چکی ہے۔‘‘ حضرت جی نے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں جواب دیا۔

میں چند ثانیے کے لئے لاجواب ہو گیا … لیکن ایک جین پوش نوجوان نے بہت اچھا سوال کیا … یہ نوجوان چند سیٹ پیچھے بیٹھا تھا اور غالباً طالبِ علم تھا۔

 ’’سوال یہ ہے کہ آفت اور عذاب میں تفریق کیسے کی جائے ؟ عذاب غالباً اُس تبدیلی کو کہنا چاہیے جس کی سائنسی توجیہہ پیش کرتا ممکن نہ ہو …  مثلاً انسانی شکل بدل جانا، پوری دنیا میں سیلاب آ جانا اور آسمان سے پتھروں کی بارش ہونا …  زلزلے کی بنیاد  سائنسی وجوہات ہیں تو اسے قدرتی عذاب کیوں کہا جائے؟‘‘

’ اللہ کا عذاب سائنس وائنس نہیں دیکھتا  … جس شکل میں چاہے آ جاتا ہے۔‘‘ مولانا صاحب نے کہا۔

 ’’ لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ عذاب ہمیشہ پوری قوم پر نازل کیا گیا اور اکثریت فنا کر دی گئی۔کیا آپ کوئی ایسا حوالہ دے سکتے ہیں جسکے مطابق کسی سرکش قوم پر بھیجے جانے والے عذاب نے اقلیت کو ہلاک کر دیا ہو اور اکثریت کو زندہ رہنے  کا موقع فراہم کیا ہو؟‘‘ میں نے طالبعلم کے سوال کو آگے بڑھایا۔

مولانا صاحب سوچ میں پڑ گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔

 ’’تمھارا منہ بند کیوں ہو گیا اے؟ ام کو بتاؤ کہ زلزلہ عذاب تھا تو امارے اوپر کیوں آیا؟تمھارے اوپر کیوں نئی آیا؟‘‘ مقامی شخص نے جارحانہ لہجے میں سوال کیا۔

 ’’ یہ عذاب نہیں تو اور کیا تھا؟ ‘‘ مولانا صاحب نے جواب دینے کے بجائے  ڈھیلی ڈھالی آواز میں سوال کیا۔

 ’’ہم لوگ اپنی کوتاہیوں اور حماقتوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قدرت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ زلزلہ ان لوگوں کی کوتاہیوں اور لغزشوں کی وجہ سے آیا ؟‘‘ مولانا صاحب نے فرمایا۔

 ’’زلزلہ کسی کی غلطی سے نہیں آیا، تباہی اور بربادی غفلت کی وجہ سے ہوئی۔ اس سے بچنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔‘‘

 ’’ زلزلے سے آنے والی تباہی کو کیسے روکا جا سکتا تھا ؟‘‘ مولانا صاحب نے حیرانی ظاہر کی۔

 ’’ دنیا کے گنجان آباد خطوں میں تسلسل سے زلزلے آتے ہیں لیکن عام طور پر جانی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ عمارات لکڑی سے بنائی جاتی ہیں اور طرز تعمیر ایسا ہوتا ہے جو زلزلے کے جھٹکے آسانی سے برداشت کر سکے۔ہماری کوتاہی یہ ہے کہ ہم نے اس خطرے سے نبٹنے کے لئے پیش بندی نہیں کی۔عمارتوں کے ڈیزائن میں پتھر کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے اور کئی کئی منزلہ عمارات بنائی جا رہی ہیں۔  یہ طرزِ تعمیر اس علاقے کے لئے مناسب نہیں۔ بہت مشہور حدیث ہے کہ پہلے اونٹ کو باندھو پھر اللہ کے آسرے پر چھوڑو۔ہم نے اونٹ کو بے مہار چھوڑ دیا اور وہ گم ہو گیا تو اسے عذابِ الٰہی قرار دے رہے ہیں۔ ‘‘

 ’’ابی کیا بولتا ہے یارا … تمہارا مطلب ہے سارے ملک کا بلڈنگ گرا کر لکڑی سے بنایا جائے؟‘‘ مقامی شخص نے اختلافِ رائے کیا۔

مولانا صاحب کے چہرے پر بھی مضحکہ اُڑاتی ہوئی مسکراہٹ پھیل گئی۔

 ’’میں سارے ملک کی نہیں ، اِن علاقوں کی بات کر رہا ہوں۔ یہ بات ثابت ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے کہ اس علاقے میں مسلسل ایسی جغرافیائی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جن کے نتیجے میں زلزلہ آنا،اور شدید زلزلہ آنا ناگزیر ہے۔‘‘

 ’’آپ کون سی جغرافیائی تبدیلیوں کی بات کر رہے ہیں ؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔وہ اس بحث کو بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا۔

 ’’آپ جانتے ہی ہوں گے کہ زمین کے دو بڑے خطوں کے ٹکراؤ کی لائن ان علاقوں سے گزرتی ہے اور یہ خطے ابھی تک حرکت میں ہیں۔  ‘‘

 ’’زمین کے خطوں کا ٹکراؤ؟ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟زمین کے خطے نہ ہوئے مولا جٹ تے نوری نت ہو گئے۔‘‘ عرفان نے شگفتہ لہجے میں تبصرہ کیا۔

 ’’مولا جٹ پرانی بات ہو گئی،بُش اور اسامہ کہیں۔ ‘‘ جین پوش نے تصحیح کی۔

اِن تبصروں پر ادھر اُدھر سے دبی دبی ہنسی کی آواز آئی اور ماحول کا تناؤ کچھ کم ہو گیا۔

 ’’سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بر اعظم ایشیا خشکی کے دو ٹکڑوں ، انڈین پلیٹ اور ایشین پلیٹ سے مل کر بنا ہے۔ زمین کے یہ خطے مسلسل حرکت میں ہیں اور جب تک حرکت جاری ہے ان علاقوں میں زلزلے آتے رہیں گے۔ اس سائنسی حقیقت کا علم ہونے کے باوجود پتھروں سے کئی کئی منزلہ عمارات کی تعمیر کو خود کُشی کہا جا سکتا ہے … قدرتی عذاب کہنا شاید مناسب نہیں۔ ‘‘

 ’’میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ بالا کوٹ میں فحاشی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ ہوٹلوں میں بدکاری کے اڈے قائم تھے اور کئی لاشیں برہنہ اور ناقابل بیان حالت میں دریافت ہوئی تھیں۔ ان حالات میں عذاب نازل نہیں کیا جاتا تو کب کیا جاتا ہے؟‘‘ مولانا صاحب نے جھجکتے ہوئے سوال کیا۔

 ’’ بدکاری پنڈی جیسا بڑا شہر سے آنے والا امیر لوگ کرتا تھا،بالا کوٹ کا  غریب لوگ تو نئی کرتا تھا ناں۔ تمھارا کیا خیال اے …  بالا کوٹ آ کے حرام کاری کرنے والا اپنا علاقہ میں حج کرتا ہو گا؟ ام حلف اٹھا سکتا اے کہ جتنا بدکاری پنڈی میں ہوتا اے اس کا ہزارواں حصہ بی ادر نہیں ہوتا، پھر تم جیسا لوگ پر عذاب کیوں نئیں آیا؟‘‘ مقامی شخص نے مولانا صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے سوال کیا۔

مولانا صاحب نظریں چرا گئے۔

 ’’اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھے۔مولانا صاحب میں آپ سے ایک اور سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے زلزلہ زدگان کی مدد کی تھی؟‘‘

 ’’بالکل کی تھی۔ ‘‘ مولانا صاحب نے فخریہ انداز میں کہا۔ ’’ہماری جماعت نے  ایک لاکھ روپے امدادی فنڈ میں جمع کرائے اور ضروریاتِ زندگی سے بھرے ہوئے دو ٹرک کشمیر بھجوائے۔میں ایک ٹرک کے ساتھ مظفرآباد گیا تھا۔‘‘

 ’’کیوں ؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’کیوں کا کیا مطلب؟مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرنا سب پر فرض ہے۔‘‘

 ’’آپ کے خیال میں مصیبت زدہ اور عذاب یافتہ لوگوں میں کوئی فرق نہیں ؟‘‘

 ’’کیا فرق ہے؟‘‘ انھوں نے سوال در جواب کیا۔

 ’’مصیبت پیغمبروں پر بھی آ سکتی ہے۔عذاب صرف سرکش اقوام پر نازل کیا جاتا ہے اور اس کا فیصلہ عدالتِ خداوندی سے جرم ثابت ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس عدالت سے سزا یافتہ لوگوں کی مدد کرنے کا مطلب خدائی فیصلے سے اختلاف اور اللہ کے مجرموں کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔اللہ کے رسول نے عذاب سے تباہ ہونے والے علاقے سے تیز تیز گزرنے کی ہدایت کی تھی … آپ عذاب یافتہ علاقے میں امداد تقسیم کرنے تشریف لے گئے اور قیام فرمایا  …  کیا آپ کے طرزِ عمل کو خدائی فیصلے سے اختلاف اور سرکشی سمجھنا غلط ہو گا؟‘‘

 میرے سوال پر مولانا صاحب نے دم سادھ لیا،مقامی شخص حیران ہوا اور عرفان نے فیصلہ صادر کیا:

 ’’میں آپ کو ڈاکٹر صاحب کے بجائے مولوی صاحب کہا کروں گا۔‘‘

میں نے یہ بحث مقامی شخص کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے شروع کی تھی … لیکن یہ درست ہے کہ میں زلزلے کو نظامِ قدرت کا حصہ سمجھتا ہوں ،اسے قدرتی عذاب نہیں کہتا۔ نظامِ کائنات اے مسلسل متحرک عمل کا نام ہے جس میں طبعی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا عمل ہر لمحہ جاری و ساری ہے۔

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں

زلزلے، طوفان،سیلاب اور حادثات اس نا تمام کائنات کو مکمل کرنے کے عمل کا حصہ ہیں اور نسلِ انسانی اس عمل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آفات میں مبتلا لوگوں سے عبرت حاصل کرنا اور چیز ہے، انہیں لازمی گنہگار سمجھنا اور عذاب الٰہی میں مبتلا سمجھ کر مطعون کرنا انتہائی مختلف معاملہ ہے۔

اس بحث کے بعد بس میں ایک بوجھل خاموشی طاری ہو گئی۔

تھاکوٹ نامی قصبے سے چند سو گز آگے ہم نے دریائے سندھ پر بنا ہوا دنیا کا طویل ترین معلق پل … یو یی پل  … یا دوستی پل عبور کیا اور تقریباً دس بجے بشام پہنچے جہاں کھانے کے وقفے کا اعلان کر دیا گیا۔

بشام کا پیدائشی نام بشام قلعہ ہے۔بشام کے پہلو میں دریائے سندھ نسبتاً پُر سکون حالت میں بہتا ہے۔آج کا بشام ایک اہم کاروباری مرکز ہے اور اس کی مار کیٹ میں الیکٹرانک کے سامان کی بھرمار ہے۔آج سے بائیس سال پہلے ہم نے پورا بشام چھان مارا تھا اور اپنے کیمرے کے لئے فلم خریدنے میں ناکام رہے تھے۔اُن دنوں دریائے سندھ کی لہریں گننا اور چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرنا بشام کی مقبول ترین تفریح سمجھی جاتی تھی۔ ہماری ٹیم کے چھ ارکان نے شیر دریا کے سُنسان کنارے پر منعقد ہونے والے سنگ بازی مقابلے میں پُر جوش حصہ لیا تھا۔اس مقابلے میں پہلی پوزیشن اُس وقت کے موٹو بھائی اور آج کے نامور کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن محمد رفیق ذکی نے حاصل کی تھی، اُس کے پتھر نے دریائے سندھ کا دو تہائی پاٹ عبور کر لیا تھا۔

 رات کے وقت شاہراہ قراقرم پر اکیلے سفر کرنے کی اجازت نہیں  … آٹھ دس گاڑیاں اکٹھی ہو جائیں تو کارواں تشکیل دے کر سفر کیا جاتا ہے۔ ہمارا کارواں ساڑھے دس بجے تشکیل پایا اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔

٭٭٭

بتانِ رنگ و بو کو دیکھ کر بھونڈی میں گم ہو جا

’’ہزاروں تھکے ماندے،اعصاب زدہ اور تہذیب گزیدہ لوگوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے کہ کہسار،سبزہ زار اور انسانی دست برد سے محفوظ مقامات جنگلات اور دریاؤں کو ہی پانی مہیا نہیں کرتے … انسان کی روح کو بھی سیراب کرتے ہیں۔ ‘‘

(جان موئر)

 

بشام سے آگے شاہراہ قراقرم صوبہ سرحد کے ضلع کوہستان سے گزرتی ہے جو چند عشرے پہلے یاغستان یعنی باغیوں کی سر زمین کہلاتا تھا۔شاہراہ قراقرم کے دیدار کے لئے آنے والوں پر واجب ہے کہ وہ شاہراہ کے کوہستانی حصے کا سفر دن کی روشنی میں طے کریں۔  رات کی تاریکی میں سنگلاخ چٹانوں کی بے ڈھب بلندیوں اور عمودی ڈھلوانوں پر شاہراہ کی تعمیر میں پیش آنے والی دشواریوں کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔  شاہراہِ قراقرم کی تعمیر کے دوران سب سے زیادہ اموات اِس علاقے میں ہوئیں اور دو افراد فی کلو میٹر کا بھاری تاوان وصول کیا گیا۔ کوہستان کو شاہراہِ قراقرم کے معماروں کی قتل گاہ کہا جاتا ہے۔ ہم نے یہ سفر رات کی تاریکی میں طے کیا اور دریائے سندھ کی ایک جانب ہمالیہ کی شاداب ہریاول اور دوسری جانب قراقرم کی  شکستہ سنگلاخ سی ترتیب پانے والے ’’قدرت کے چٹانی عجائب گھر‘‘ کا منفرد منظر نہ دیکھ سکے۔

شاہراہ کے بائیں جانب نمودار ہونے والے روشنیوں کے جزیرے ضلع کوہستان کے دوسرے بڑے شہر پٹن کی آمد کا اعلان تھے۔پٹن سے گزرتے ہوئے اس کی دل موہ لینے والی شادابی دعوتِ نظارہ دیتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ پٹن کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے بشام کے بجائے پٹن کے ریسٹ ہاؤس میں سفری قیام کروں  …  یہ خواہش اپنی ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے پوری ہو سکتی ہے  …  دیکھئے کب پوری ہوتی ہے؟

روشنیوں کا دوسرا سیلاب کوہستان کے ضلعی صدر مقام داسو کی آمد کا اعلان تھا۔ اندھیری رات میں کسی نسبتاً بڑے پہاڑی شہر کی ایڑی سے چوٹی تک بہتی ہوئی بے ترتیب بتیوں سے ترتیب پانے والے ’’ماؤنٹین لائٹ شو‘‘ مجھ جیسے پینڈو کے ذہن کو اپنے سحر میں جکڑ کر نیند خراب کرتے ہیں اور سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر سونے کی راہ میں خوبصورت رکاوٹیں ڈالتے ہیں … مجھے اس منظر کے لئے نیند قربان کرنا بُرا نہیں لگتا۔

ہم نے داسو پُل عبور کیا تو شاہراہِ قراقرم دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر آ گئی اور ہم لوٹر،سُمر نالہ اور سازن کی بتیاں دیکھتے ہوئے پو پھٹنے سے پہلے صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات کی سرحد پر پہنچ گئے۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرت کی طرف سے مملکتِ خداداد کے لئے ایک انمول اور منفرد تحفہ ہیں۔ یہ علاقے بلا شبہ مناظر کا خزانہ کہلانے کے مستحق ہیں ،انہیں سیاحوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ان علاقہ جات کو ابھی تک پاکستان کے صوبے کا درجہ نہیں دیا جا سکا۔ انتظامی لحاظ سے ان علاقوں کو تین ڈویژنز میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر ڈویژن میں دو ضلعے ہیں۔ دیامیر ڈویژن ضلع دیامیر(چلاس) اور ضلع استور پر مشتمل ہے۔ گلگت ڈویژن کو ضلع گلگت اور ضلع غزر میں تقسیم کیا گیا ہے، جبکہ بلتستان میں ضلع سکردو اور ضلع گھانچے شامل ہیں۔ قدرت نے ہر ایک ڈویژن کو ایک خوبصورت اور منفرد چوٹی سے نوازا ہے جو ان علاقوں کی پہچان بن گئی ہیں۔ دیامیر کی پہچان نانگا پربت ہے جو پاکستان کا تیسرا اور دنیا کا نواں بلند ترین پہاڑ ہے،گلگت کی شان پاکستان کے کہساروں کی شہزادی ’’راکا پوشی‘‘ ہے جسے کچھ لوگ پاکستان کی خوبصورت ترین چوٹی کہتے ہیں اور بلتستان مائٹی ’’ کے۔ٹو‘‘ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے … کے۔ٹو دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے اور کوہ پیمائی کی دنیا کا مشکل ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔

 شمالی علاقہ جات کی پولیس چیک پوسٹ پر روایتی تلاشی اور غیرملکیوں کی رجسٹریشن کی رسمی کاروائیاں شروع ہوئیں۔ ہماری بس نو گاڑیوں کے کارواں میں ساتویں نمبر پر تھی۔ امکان تھا کہ اس کی تلاشی کی باری ڈیڑھ دو گھنٹے بعد آئے گی۔ میں اور عرفان اکڑی ہوئی ٹانگیں کھولنے کے لئے دریائے سندھ کے کنارے پہنچے اور چہرے پر پانی کے چھینٹے مار کر تر و تازہ ہونے کی کوشش کی۔ دریائے سندھ پر بنا ہوا خوبصورت معلق پل ہماری نگاہوں کا مرکز تھا جو وادیِ تنگیر اور وادیِ  داریل کو شاہراہِ قراقرم سے ملاتا ہے۔ہم سے کچھ دور ایک چھوٹا سا غیرملکی ہجوم موجود تھا۔ یہ کسی اور بس کے مسافر تھے جو ہم سے پہلے یہاں پہنچے تھے۔ایک مقامی گائیڈ پُل کے پار اشارہ کرتے ہوئے انہیں کچھ بتا رہا تھا۔ اس گروہ میں شامل چند اسبابِ دلکشی نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا اور ہم ٹہلتے ہوئے بظاہر غیر ارادی اور بباطن سو فیصد ارادی طور پر غیرملکی ٹولے کے قریب پہنچ گئے۔

 ’’اوئے سر جی  … یہ کیٹی ونسلٹ یہاں کیا کرتی پھر رہی ہے۔‘‘ عرفان نے ایک دلکش سبب کو گھورتے ہوئے کہا۔

 ’’کون  کیٹی ونسلٹ؟‘‘

 ’’اس کا مطلب ہے آپ نے ٹائی  ٹینِک(TITANIC)  نہیں دیکھی؟‘‘

 ’’آپ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ خاتون کیٹ ونسلٹ ہے؟ٹائی ٹینِک کی ہیروئن؟‘‘  میں نے شدید حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’یس سر۔‘‘

 ’’عرفان صاحب خدا کا خوف کریں … آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے … کیٹ ونسلٹ پاکستان آتی تو میڈیا پر ہلچل مچ جاتی۔‘‘

 ’’میرے دل کے میڈیا پر زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے  … اور۔ کیٹی کے سلسلے میں کسی غلط فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے مسلسل تین ہفتے اس کا دیدار کیا ہے۔‘‘ عرفان نے وثوق سے کہا۔

 ’’تین ہفتے؟ … آپ ہالی ووڈ چلے گئے تھے؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔

 ’’مجھے کیا ضرورت تھی کہیں جانے کی؟ … میں نے صرف ٹائی ٹینِک دیکھی تھی  …  اس کے بعد کیٹی خود آتی رہی تھی میرے پاس …  تین ہفتے تک … خواب میں۔ ‘‘

 ’’لا حول ولا قوۃ …۔ ‘‘ میں نے جھینپ کر کہا۔

 ’’میں ذرا کیٹی سے آٹو گراف لے آؤں۔ ‘‘

عرفان نے اپنی بیلٹ سے منسلک پاؤچ سے ایک چھوٹی سی آٹو گراف بک نکالی اور غیر ملکی گروپ کی طرف بڑھ گیا۔میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتا رہ گیا۔یہ خاتون ’’ٹھیک ٹھاک‘‘ تھی لیکن کیٹ ونسلٹ سے معمولی سی مشابہت بھی نہیں رکھتی تھی۔میرا خیال تھا عرفان سفر کی بوریت دور کرنے کے لئے اِدھر اُدھر کی ہانک رہا ہے۔میں اس بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ وہ اتنی سنجیدگی سے خاتون کو کیٹ ونسلٹ سمجھ رہا ہے کہ اس کے آٹو گراف لینا چاہتا ہے۔میں عرفان کا اندازِ درخواست اور ’’کیٹی‘‘ کا رد عمل دیکھنے کے لئے چند قدموں کے فاصلے سے عرفان کے ساتھ ہولیا۔

 ’’ایکسکیوز  می … کیا میں آپ سے آٹو گراف کی درخواست کر سکتا ہوں۔ ‘‘ اس نے انتہائی فدویانہ مگر والہانہ انداز میں آٹو گراف بک خاتون کی طرف بڑھائی۔

 ’’میں ؟ … تم میرے آٹو گراف لینا چاہتے ہو؟‘‘ وہ اُچھلی … اور بہت کچھ اُچھلا۔

 ’’آف کورس۔‘‘

 ’’مگر میں ؟ … میں کوئی اہم شخصیت نہیں ہوں۔ میں نے آج تک کسی کو      آٹو گراف نہیں دیئے۔‘‘ اس نے پزل ہوتے ہوئے کہا۔اس کی منمناتی ہوئی انگلش ہوا کے گھوڑے پر سوار تھی اور الفاظ بمشکل سمجھ آئے۔

 ’’میرے لئے دنیا کی کوئی شخصیت کیٹ ونسلٹ سے زیادہ اہم نہیں ہے۔‘‘

 ’’ میں کیٹ ونسلٹ نہیں ہوں۔ ‘‘ اس نے مزید گھبرا تے ہوئے کہا۔

 ’’میرا خیال ہے تمہیں ہمارا مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں … تم ہو کون؟‘‘ گروپ میں سے ایک شخص نے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا۔

 ’’میں اپنے ملک میں آئے ہوئے مہمانوں کا مذاق اُڑانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اور حقیقت میں تمہاری ساتھی کو کیٹ سمجھا تھا۔تمھارے جذبات مجروح ہوئے تو میں معافی چاہتا ہوں۔ ‘‘ عرفان نے سنجیدگی سے کہا۔غیر ملکی کے چہرے پر الجھن کے واضح تاثرات نظر آئے۔

 ’’مگر … مگر اس کی شکل کیٹ ونسلٹ سے بالکل نہیں ملتی۔‘‘ اس نے الجھتے ہوئے کہا۔ ’’وہ بہت چارمنگ اور پُر کشش …۔ ‘‘

 ’’ تمھارے خیال میں یہ خاتون بہت چارمنگ اور پُر کشش نہیں ہے؟ ‘‘ عرفان نے اُس کی بات کاٹ کر انتہائی معصومیت سے سوال کیا۔

غیر ملکی گروپ کے تمام اراکین کے چہروں پر لمبی لمبی مسکراہٹیں نمودار ہوئیں اور فضا پر چھائی ہوئی نامعلوم ٹینشن کا خاتمہ ہو گیا۔ عرفان ایک شاندار اور متاثر کن شخصیت کا مالک ہے۔دراز قد،کھلتا ہوا رنگ، بلوری آنکھیں …  اسے غیر ملکیوں سے گفتگو کا ڈھنگ کچھ زیادہ ہی آتا ہے کیونکہ وہ کئی غیرملکی مہماتی ٹیموں کے ساتھ رابطہ آفیسر کی حیثیت سے مختلف چوٹیوں کے بیس کیمپ اور ہائی کیمپ تک جا چکا ہے۔

 ’’اسکی دلکشی میں کوئی شک نہیں مگر یہ کیٹ ونسلٹ نہیں ہے۔‘‘

 ’’تمھارے لئے نہیں ہے … میں اسے کیٹ ونسلٹ سمجھتے ہوئے آٹو گراف لینا چاہتا ہوں ، یہ خاتون چند لفظ لکھ کر نیچے کیٹ ونسلٹ لکھ دے تو اس کا کیا نقصان ہو گا؟‘‘

 ’’یہ سراسر بے ایمانی ہو گی۔‘‘ خاتون نے احتجاج کیا۔

 ’’عزت مآب خاتون … کیا تم نے بیس سال میں کبھی کوئی بے ایمانی نہیں کی؟‘‘ عرفان کے لہجے میں اُکساہٹ تھی۔

 خاتون عزت مآب تھی یا نہیں ،  بیس سال کی نہیں تھی۔کم از کم پینتیس سال کی تھی۔

اُس نے چند لمحے سوچنے کے بعد عرفان کے ہاتھ سے آٹو گراف بک اور بال پوائنٹ لئے، ایک فقرہ لکھا،نیچے دستخط کئے اور آٹو گراف بک عرفان کو واپس کر دی۔

عرفان نے پڑھا۔

 ’’بیسٹ وشز فرام کیٹ  … ایک پاکستانی کے لئے  …  ونسلٹ‘‘

عرفان نے فقرے پر غور کیا … نظروں سے خاتون کی ذہانت کی داد دی اور تھینک یو کہتے ہوئے آٹو گراف بک پاؤچ میں رکھ لی۔

 ’’مسٹر ارفان تم انتہائی خطرناک شخصیت کے مالک ہو۔تمہاری گفتگو چند منٹ اور جاری رہی تو میری ڈارلنگ تمہاری گرویدہ ہو جائے گی اور میں پردیس میں تنہا رہ جاؤنگا۔‘‘ خاتون کے ساتھی نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ’’ہن میں اتنا وی پاگل نئیں … میری اپنی ڈارلنگ ایس توں ودھ سوہنی اے۔‘‘ عرفان نے ٹھیٹھ پنجابی میں کہا۔

ان کے ساتھی گائیڈ نے چونک کر عرفان کی طرف دیکھا اور شرارت آمیز انداز میں مسکرایا۔وہ اب تک ہونے والی کاروائی کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔

 ’’کیا؟‘‘ غیر ملکی نے وضاحت طلب انداز میں پوچھا۔

 ’’میں نے اپنی زبان میں شکریہ ادا کیا ہے۔او۔کے … بائی اینڈ تھینکس اگین۔‘‘ عرفان نے ہاتھ لہرایا اور واپسی کے لئے مڑ گیا۔

 ’’یہ کیا ڈرامے بازی تھی ؟ … اس ے بہتر تھا ہم ان کے گائیڈ کی گفتگو سن لیتے۔ وہ اس علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔‘‘

 ’’اس علاقے کے بارے میں معلومات میں بھی فراہم کر سکتا ہوں۔ کیٹی کے آٹوگراف کہاں ملتے ہیں ؟‘‘

 ’’وہ کیٹ ونسلٹ نہیں تھی۔‘‘ میں نے قدرے جھلا کر کہا۔

 ’’وہ ہو بہو اس کیٹی جیسی تھی جو مسلسل تین ہفتے میرے خوابوں کو رنگین بناتی رہی  … میں اسے صدقِ دل سے کیٹ سمجھتا رہوں گا۔‘‘ عرفان نے ہٹ دھرمی سے کہا۔

مجھے شک ہوا کہ عرفان کے دماغ کی کوئی چول ڈھیلی ہو چکی ہے … یہ پچھلے سال والا عرفان نہیں تھا … کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور تھی۔

ہماری بس تلاشی کے سنگھاسن تک پہنچ چکی تھی۔ تلاشی کا عمل مکمل ہونے میں مزید بیس منٹ لگے اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔

 دیامیر کے صدر مقام چلاس سے کچھ پہلے لینڈ سکیپ بہت زیادہ وسیع ہو جاتا ہے اور گمان ہوتا ہے کہ ہم کسی صحرا سے گزر رہے ہیں۔ چند منٹ پر محیط یہ منظر شاہراہِ قراقرم کی تنگ دامنی سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس کی انفرادیت زائر کو مسحور کر دیتی ہے۔منظر کے سحر سے آزاد ہوئے تو ہم چلاس پہنچ چکے تھے۔ چلاس ایک پتھریلا شہر ہے جس کا مزاج اور ہوائیں ملتان اورسبی کے مزاج اور ہواؤں سے کم گرم نہیں۔ ہم نے چودہ گھنٹے کے سفر کے بعد صبح پانچ بجے چلاس کی سر زمین پر قدم رکھا تو کنڈیکٹر نے اعلان کیا کہ چلاس ناشتا سٹاپ ہے۔ڈرائیور نے فوراً  ترمیمی آرڈیننس جاری کیا:

 ’’ناشتا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ چلاس کو مرمت سٹاپ سمجھا جائے۔ گاڑی کا ریڈی ایٹر لیک ہو گیا ہے۔اس وقت تمام ورکشاپ بند ہیں اور نو بجے سے پہلے اس کی مرمت ہونے کا کوئی امکان نہیں۔  کمپنی اس غیر متوقع تاخیر پر معذرت خواہ ہے اور گزارش کرتی ہے کہ چار گھنٹے تک ناشتہ فرمائیں  … عین نوازش ہو گی …  ناٹکو کی شان میں گستاخی کرتے وقت لہجہ دھیما رکھیں تو اور زیادہ عین نوازش ہو گی …  شکریہ۔‘‘

میں نے اس اعلان کو تشویش کے ساتھ ساتھ دلچسپی سے سنا۔چلاس کا انتقام ابھی باقی تھا اور میں اس انتقام کی تیسری قسط وصول کئے بغیر آگے نہیں جا سکتا تھا۔

جب سے ’’ نانگا پربت کے جھرنوں میں ‘‘ شائع ہوئی تھی، چلاس مجھ سے ناراض تھا۔ میں نے چلاس اور اس کے باشندوں کی قدیم تاریخ پر روشنی ڈالنے کی غلطی کی تھی اور چلاس کا گرم مزاج مزید برہم ہو گیا تھا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ’’نانگا پربت کے جھرنوں میں ‘‘ کا مصنف جب جب چلاس سے گزرے گا اُسے قید با انتظار کی سزا سے نوازا جائے گا۔

میں نے اس سزا کی پہلی قسط پچھلے سال وصول کی جب سکردو جاتے ہوئے چلاس میں چار گھنٹے رُکنا پڑا کیونکہ ایک لینڈ سلائیڈ نے چلاس سے باہر نکلنے کا راستہ مسدود کر دیا تھا۔

دوسری قسط سکردو سے واپسی کے موقع پر ادا کر دی گئی۔ہم ایک لینڈ سلائیڈ عبور کر کے رات تین بجے چلاس پہنچے۔توقع تھی کہ چلاس پہنچتے ہی بشام کی بس یا ویگن مل جائے گی … لیکن چلاس کا فیصلہ کچھ اور تھا … اُس وقت بس ملنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا، ویگن ملنے کی سو فیصد امید تھی لیکن چلاس کے بس سٹاپ پر کوئی ’’ایک نمبر‘‘ ویگن موجود نہیں تھی۔ ایک نمبر اور دو نمبر کے معنی مجھے اُسی دن سمجھ آئے۔ ہم جس ویگن ڈرائیور کو بشام چلنے کے لئے کہتے وہ انکار کر دیتا اور کہتا کہ وہ پولیس چوکی تک جا سکتا ہے،بشام جانے کے لئے کوئی ایک نمبر ویگن تلاش کی جائے …  پولیس چوکی سے مراد صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات کی سرحد تھی۔ ایک نمبر گاڑیاں وہ تھیں جن کے کاغذات پورے تھے اور وہ بلا خوف و خطر صوبہ سرحد میں داخل ہو سکتی تھیں۔ دو نمبر گاڑیاں کاغذات وغیرہ رکھنے کا تکلف نہیں کرتی تھیں اور ان میں سے بیش تر پنجاب اور سندھ سے چوری کر کے شمالی علاقہ جات میں لائی جاتی تھیں … یہ نیک پروین بیبیاں بابل کی چوکھٹ ایک مرتبہ عبور کرنے کے بعد دوبارہ اُدھر کا رُخ کرنے کی ہمت نہیں کرتی تھیں۔ ہمیں ایک نمبر ویگن تلاش کرنے میں چار گھنٹے لگے  … یہ چلاسی قید کی دوسری قسط تھی۔

ریڈی ایٹر کی خرابی تیسری قسط کا اعلان تھا … چار گھنٹے قید با انتظار!

میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ریڈی ایٹر کی نالائقی پر خواہ مخواہ شرمندہ ہونے والا ڈرائیور تاخیر کے اصل سبب سے بے خبر تھا۔ اُسے حقیقت کا علم ہو جاتا تو وہ مجھے بس سے  اتار کر سکردو کی راہ لیتا۔

ہم نے دو سالہ تلخ تجربے کی بنیاد پر ناٹکو کے تجویز کردہ ہوٹل میں ناشتے کا  خطرہ مول نہ لیا اور اپنے آزمودہ ریستوران ’’ماؤنٹین ایکو‘‘ کا رخ کیا۔ ماؤنٹین ایکو کے کچن کو تالا لگا ہوا تھا اور آس پاس کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا۔ہم نے ’’چلاس اِن‘‘ کو شرف ناشتا بخشا۔ گزارہ ہو گیا،لیکن بس گزارہ ہوا … سواد نہیں آیا۔

ناشتے کے بعد عرفان نے فرمائش کی:

 ’’ ڈاکٹر صاحب چلاس کے پیٹرو گلائف کی(چٹانوں پر کھدائی کر کے بنائی گئیں تصاویر) بہت شہرت سنی ہے۔ مجھے کئی مرتبہ چلاس سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے مگر ان کی زیارت سے محروم ہوں۔ موقع سے فائدہ اُٹھا کر انھیں کیوں نہ دیکھ لیا جائے؟‘‘

چلاس کو ’’پیٹرو گلائف کا شہر‘‘ یا ’’راک کارونگ سٹی‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس پتھریلے شہر کے ارد گرد کی چٹانوں پر پیٹرو گلائف کے چار ہزار سے زیادہ نادر و نایاب نمونے بکھرے ہوئے ہیں اور سب سے بڑا ذخیرہ تھالپن جانے والی سڑک کے آس پاس پایا جاتا ہے، جسے دیکھنے کے لئے پورا دن چاہئے۔بس سٹاپ کے نزدیک دریا کے کنارے کی چٹانوں پر بھی اچھی خاصی تعداد میں کندہ کی گئیں تصاویر موجود ہیں۔  چلاس کے پیٹروگلائف کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ چار ہزار سال سے زیادہ قدیم اور بے ترتیب لکیروں کا مجموعہ ہیں اور ان میں زیادہ تر قدرتی مناظر اور جانوروں کی شبیہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ قدیم نمونے غالباً ’’پون چھو‘‘ مذہب کے دور کی نمائندگی کرتے ہیں جب مناظر اور جانوروں کی پوجا کی جاتی تھی۔دوسرا دور بدھ مت سے تعلق رکھتا ہے۔دنیا کے کسی اور مقام پر چٹانی کندہ کاری کے فن نے اتنی خوبصورتی اور باریک بینی سے مہاتما بدھ کی زندگی کا احاطہ نہیں کیا جتنا چلاس کے پیٹروگلائف کرتے ہیں۔  یہ پیٹروگلائف بدھ مت کے ارتقا اور ترویج و اشاعت پر بھی نہایت تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔  راک کارونگ کے اکثر نمونے انتہائی مشاق اور ہنرمند سنگ تراشوں کے اظہارِ فن کا نتیجہ ہیں جنہوں نے گندھارا سلطنت کے معبدوں میں تربیت حاصل کی اور اپنے فن کو بدھ مت کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا۔شکار کے مناظر رکھنے والے پیٹروگلائف مقامی باشندوں کے ذوقِ خود نمائی کا اظہار ہیں۔  مجھے سو فیصد یقین ہے کہ پیٹروگلائف کا یہ نادر و نایاب مذہبی و ثقافتی اثاثہ کسی مغربی ملک میں موجود ہوتا تو آثارِ قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والے بے شمار سیاح اور محققین ان کے طواف میں مصروف رہتے اور وہ ملک ڈالر سمیٹنے میں مصروف رہتا۔افسوس اس بات کا ہے کہ بین الاقوامی اہمیت کے حامل یہ نادر و نایاب نمونے پاکستان میں پیٹرو گلائف کا سب سے بڑا ذخیرہ تشکیل دینے اور آثارِ قدیمہ کے حوالے سے بے شمار تحقیقی مقالہ جا ت  کا موضوع ہونے کے باوجود سیاحت کے حوالے سے اپنے آبائی وطن میں بھی گمنام بلکہ بے نام و نشان ہیں۔ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن یا مقامی حکومت کو اتنی توفیق نہیں کہ چلاس کے بس سٹاپ پر پیٹرو گلائف کے زائرین کے لئے کوئی راہنما نقشہ نصب کر دے۔ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے جاری کردہ نقشوں سے تھوڑی بہت راہنمائی ملتی ہے لیکن ہر آنے والے کو یہ نقشے میسّر نہیں۔  پیٹروگلائف دیکھنے کے لئے آنے والے سیاح بس سٹاپ کے نزدیک واقع دکانوں کے مالکان یا ملازمین سے راہنمائی کی توقع رکھتے ہیں ، لیکن یہ حضرات پیٹرو گلائف یا  راک کارونگ کے نام تک سے واقف نہیں۔ اِن کے نزدیک یہ نادر و نایاب نمونے صرف ’’بدھا‘‘ ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے آنے والے اُن کی ’’گاہکی‘‘ میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

میں نے کئی سال پہلے یہ راک کارونگ دیکھی تھیں اس لئے عرفان کی راہنمائی کا فریضہ سنبھال لیا،مگر یہ بھول گیا کہ چلاس کی آبادی اور دکانوں کی تعداد میں کئی گُنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے  …  ۲۰۰۰ء میں یہاں چند دکانیں تھی اور ہم ایک مقامی باشندے کی راہنمائی میں باآسانی ان چٹانوں تک پہنچ گئے تھے جو فی الوقت محاورتاً نہیں حقیقتاً آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہو گئی تھیں … کافی دیر ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کے باوجود ہم پیٹروگلائف دریافت کرنے میں ناکام رہے اور واپس بس سٹاپ پر آکر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ آخری چارۂ کار کے طور پر ہم نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے راہنمائی چاہی۔

 ’’سر ام کو ادر کا علم نئیں …  مگر تھوڑا آگے بتو گہ نالے کا پاس ایک بدھا موجود اے …  آپ بولے تو ابی آپ کو ادر لے چلے؟‘‘

 ’’کرایہ کتنا لو گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’آپ سے زیادہ نئیں لے گاناں۔  آپ امارا وطنی اے ! آپ صرف پانچ سو دو۔ ابھی ہمارا بھائی گورا لوگ سے ایک ہزار لے گا۔‘‘

 ’’ہم پچھلے سال ٹیکسی میں بشام گئے تھے اور دو ہزار روپے کرایہ ادا کیا تھا۔ بتوگاہ نالہ یہاں سے چند سو میٹر سے زیادہ دور نہیں ہے۔تم پانچ سو روپے مانگ رہے ہو۔ رہنے دو ہم کسی سے لفٹ لیکر چلے جائیں گے۔‘‘

یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور سو روپے میں سودا فائنل ہو گیا۔ ہم ایک دروازے سے ٹیکسی میں غروب ہوئے اور دوسرے سے طلوع ہوئے تو بتو گاہ نالہ پہنچ چکے تھے۔

بتوگاہ نالے کے قریب پہنچتے ہی ایک فلیش بیک ہوا … کئی بھولی بسری یادیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔  میں نے پہلی مرتبہ چلاس میں قیام کیا تو بتوگاہ نالہ کے کنارے چند گھنٹے گزارے تھے۔اُس وقت بتوگاہ نالہ چلاس کی آبادی سے کافی باہر تھا اور چلاس کی سنگلاخی سرحد پر اس کی نخلستانی فضا نے ہماری بیزاری ختم کر دی تھی۔ہم نے لنگوٹ کس کر نالے کے ٹھنڈے ٹھار دل بہار قسم کے پانی سے غسل کیا تھا۔ایک دوسرے پر پانی اُچھالا تھا اور خوب پچھتائے تھے کہ خیمے ساتھ کیوں نہ لائے؟بتوگاہ نالے کی ٹھنڈک کی سنگت میں رات گزارنا چلاس کے کسی بھی ہوٹل میں رات گزارنے سے بہتر تھا۔

اب بتوگاہ نالے کا ماحول وہ نہیں رہا … یہ اچھا خاصا شہری ہو چکا ہے۔اس پر ایک پل بنا کر شاہراہِ قراقرم گزاری گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ساٹھ فٹ چوڑی شاہراہِ ریشم زیر تعمیر ہے جو بابوسر ٹاپ، ناران،کاغان، بالاکوٹ اور مانسہرہ ہوتی ہوئی پنڈی پہنچتی ہے۔ یہ سڑک پنڈی سے گلگت کے سفر کا دورانیہ چار گھنٹے کم کر دے گی اور گلگت یا سکردو آنے والوں کے لئے آسانی فراہم کرے گی کہ وہ جھیل سیف الملوک، جھیل دودی پت سر اور جھیل لالو پت سر کی زیارت کرتے ہوئے بابوسر ٹاپ سے گزر کر چلاس پہنچیں۔  یہ سڑک تقریباً مکمل ہو چکی تھی کہ۲۰۰۵ء کے تباہ کن زلزلے کی زد میں آکر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اس کی دوبارہ تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے اور امید رکھنی چاہیے کہ ’’ راولپنڈی سے گلگت براستہ کاغان بارہ گھنٹے ‘‘ کا ادھورا رہ جانے والا خواب عنقریب پورا ہو جائے گا۔

بتوگاہ نالے کے پل سے چند قدم کے فاصلے پر ایک چٹانی سائز کے پتھر کے دامن میں کئی غیر ملکی خواتین و حضرات نظر آ رہے تھے۔ غیرملکیوں کے خط و خال واضح ہوئے تو عرفان رک گیا اور انتہائی سنجیدگی سے فرمایا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب مجھے علم ہوتا کہ آپ اتنے بد ذوق انسان ہیں تو میں ہرگز ہرگز آپ کے ساتھ سفر کرنے کی غلطی نہ کرتا۔‘‘

 ’’کیا ہو گیا ہے؟ ‘‘ میں اس اچانک حملے پر ششدر رہ گیا۔ ’’یہ پیٹروگلائف آپ کو دکھانا بد ذوقی ہے؟‘‘

 ’’پیٹروگلائف کی بات نہیں۔  آپ کو سفر کرنے کے لئے یہی بس ملی تھی؟اس میں سوار ہونے سے پہلے بس سٹاپ کا چکر لگا کر دوسری بسوں کا جائزہ لے لیتے تو اس فضول بس میں سفر نہ کرتے۔ ‘‘

 ’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ ‘‘ میں نے قدرے رکھائی سے کہا۔ ’’یہ نیک فریضہ آپ بھی سر انجام دے سکتے تھے۔‘‘

 عرفان کے بے موقع تبصرے کے لہجے اور انداز نے ایک مرتبہ پھر مجھے حیران بلکہ پریشان کر دیا تھا … میں نے اندازہ لگایا کہ پچھلے سفر میں اُس کی طبیعت کے ’’اسرار‘‘ اس لئے نہیں کھُلے تھے کہ وہ ذہنی طور پر اپنے سفر کے انتظامات میں مصروف رہا تھا۔ اس مرتبہ اُس کے ساتھی تمام بندوبست کر کے آگے جا چکے تھے۔ وہ ہر ذمہ داری سے آزاد تھا اس لئے عرفانیت کے نئے نئے گوشے بے نقاب ہو رہے تھے۔عرفان پر سنجیدگی اور ظرافت دوروں کی شکل میں نازل ہوتی تھیں۔  سنجیدگی کے دوران وہ انتہائی عالمانہ گفتگو کرتا تھا اور اس کا علم محدود نہیں تھا۔ ظرافت کے دوروں میں وہ مذاق فرمانے کی کوشش کرتا تھا لیکن اس کا لہجہ اور تاثرات کیفیات میں کسی قسم کی تبدیلی کی عکاسی نہیں کرتے تھے۔ اُسکی بلوری آنکھیں شرارت کی تھوڑی سی چغلی کھاتی تھیں لیکن یہ بہت زیادہ گہری تھیں اور ان کی تہہ تک پہنچنا آسان کام نہیں تھا۔

 ’’کیٹ ونسلٹ کے علاوہ بھی کتنے خوبصورت اور ملیح چہرے … اور … اور …  تار تار جسم ان بسوں میں موجود ہیں جو ہماری بس سے چند منٹ پہلے یا بعد پنڈی سے روانہ ہوئی ہوں گی۔انھیں نظر انداز کر کے طالبان سے بھری ہوئی بس میں سفر کرنے والوں کو بد ذوق کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟‘‘ اس نے غیر ملکی گروپ پر نظریں ٹکاتے ہوئے حسرت زدہ لہجے میں کہا۔

مجھے ہنسی آ گئی۔ اس گروپ کی کئی خواتین چہرے کی دلکشی سے زیادہ تار تار لباس کے انتخاب کی وجہ سے قابلِ دید تھیں۔

 ہماری بس کے بیش تر مسافر با ریش تھے۔

 ’’عرفان صاحب آپ یہاں تار تار جسم نہیں بدھ مت کا سٹوپا دیکھنے آئے ہیں۔ ‘‘ میں نے یاددہانی کروائی۔

 ’’ فطرت کی سٹوپیاں سامنے ہوں تو بدھ مت کے سٹوپے کون دیکھتا ہے؟ آپ نے شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا شعر نہیں سُنا؟ ‘‘

 ’’اچھا؟ … انھوں نے اس موضوع پر بھی کچھ فرمایا ہے؟‘‘

 ’’نہ صرف فرمایا ہے بلکہ حکم دیا ہے :

بتانِ رنگ و بو کو دیکھ کر بھونڈی میں گم ہو جا

کوئی کالی رہے باقی،  نہ گوری ہی رہے باقی

 ’’اللہ آپ کو کلامِ اقبال کی مزید سوجھ بوجھ عطا فرمائے۔ ‘‘ میں نے دعا دی۔

 ’’آمین۔‘‘ عرفان نے نہایت خلوص سے تائید کی۔

بدھ مت کی اصطلاح میں سٹوپا ایسی عمارت کو کہا جاتا ہے جہاں مہاتما بدھ کے جسم کی مقدس راکھ کا کچھ حصہ دفن کیا گیا ہو۔قدیم زمانے کے بدھ یاتری چٹانوں پر سٹوپا کی شبیہ بنا کر مہاتما بدھ اور اس کی راکھ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ بتوگاہ نالے کے کنارے ایک چٹان پر چھینی اور ہتھوڑے سے کندہ کی گئی یہ شبیہ سٹوپا کی ابتدائی شکل کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں ایک چوکور چبوترہ ہے جسکے اوپر کے کونے گولائی لئے ہوئے ہیں اور چبوترے پر ایک چھتری بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قسم کے سٹوپے ایک ہزار سال پہلے بنائے جاتے تھے اور صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات میں بکھرے ہوئے لا تعداد سٹوپوں کے آثار و شواہد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایک زمانے میں یہ علاقے بدھ یاتریوں کی گزرگاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔یہ نام نہاد سٹوپا دیکھ کر عرفان کو سخت مایوسی ہوئی۔ ہمارے نزدیک کھڑی ہوئی سٹوپیاں بھی مطمئن نہیں تھیں ، وہ بھی غالباً ٹیکسی ڈرائیور کی باتوں کے جال میں پھنس کر یہاں تک چلی آئی تھیں۔

 ’’یہ تو ایک ہی ہے۔‘‘ ایک سٹوپی نے تبصرہ کیا۔ ’’میں نے سنا تھا کہ چلاس میں بے شمار پیٹروگلائف پائے جاتے ہیں۔ ‘‘

 ’’وہ آگے ہیں …  ایک ڈیڑھ کلو میٹر آگے دریائے سندھ کا پل عبور کر کے تھالپن جانے والی سڑک پر راک کارونگ کے بہت خوبصورت اور نادر نمونے پائے جاتے ہیں۔ ‘‘ میں نے  دخل در نا معقولات کرنے کی کوشش کی۔

اُس نے کوئی توجہ نہ دی  … ایک شانِ بے نیازی سے ہم پر نگاہِ غلط انداز … یا شاید قہر انداز ڈالی، پتھر پر رکھی ہوئی فولڈنگ چھتری اٹھائی ا ور چھتری کے ساتھ ساتھ پتا نہیں کیا کیا ہلاتی ہوئی واپس چلی گئی۔ عرفان نے ایک عدد طنزیہ مسکراہٹ اچھالی۔گوریوں سے لفٹ لینے کے لئے عرفانیت درکار ہے اور عرفانیت کے لئے غیرملکی مہماتی ٹیموں کے رابطہ آفیسر کے عہدے پر فائز ہونا شرط ہے۔

ہم واپس بس سٹاپ پر پہنچے تو ریڈی ایٹر کی مرمت ہو رہی تھی۔مجھے حیرانی ہوئی کہ کم از کم چار گھنٹے پر محیط منصوبہ ڈیڑھ دو گھنٹے میں کیونکر مکمل ہو سکتا ہے؟ انکوائری پر علم ہوا کہ مستری صاحب کو دو گنا معاوضہ کا لالچ دے کر ورکشاپ کھولنے پر آمادہ کیا گیا تھا۔اس وقت استاد جی کسی چھوٹے کی مدد کے بغیر ریڈی ایٹر کو ٹانکہ لگا رہے تھے اور ریڈی ایٹر کے ساتھ ساتھ خود کو، ڈبل معاوضے کو، بس کو اور وغیرہ وغیرہ کو ہیوی ڈیوٹی گالیوں سے نواز رہے تھے۔ وہ بڑھاپے میں تسبیح کے علاوہ کچھ اور پکڑنے یا پکڑانے قابل نہیں رہے تھے، جبکہ ڈبل معاوضے کے لالچ نے انہیں بڈھے وارے ویلڈنگ راڈ پکڑا دیا تھا۔

استاد جی کی استادی نے میری چلاسی قید کا دورانیہ قدرے مختصر کر دیا اور سکردو کے لئے ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا۔

چلاس سے آگے گونر فارم نامی قصبہ ہے جہاں سے نانگا پربت کے مغربی بیس کیمپ …  دیامیر فیس بیس کیمپ ٹریک کا آغاز ہوتا ہے۔اس جگہ جولی پور پیک اور جولی پور گلیشئر سے جنم لینے والا جولی پور دریا … دریائے سندھ کا حصہ بنتا ہے۔

گونر فارم سے آگے وہ علاقہ شروع ہوا جس نے پچھلے سال سکردو سے واپسی پر ہمیں بہت ستایا تھا۔شاہراہ قراقرم کے بارہ کلومیٹر لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر دریائے سندھ میں جا گرے تھے۔ ہم نے یہ فاصلہ، جہاں عملاً کوئی راستہ نہیں تھا اور لینڈ سلائیڈنگ کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی، رات ساڑھے نو بجے سے دو بجے تک،ساڑھے چار گھنٹے میں طے کیا تھا۔ عرفان نے اسی سفر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا، پنگے لئے نہیں جاتے خود بخود ہو جاتے ہیں۔ اس سفر کی تمام دشواریاں بھول چکی ہیں ،ایک مقامی شخص کی پوٹلی سے برآمد ہونے والی روغنی روٹی کا ذائقہ اب تک یاد ہے۔اس روٹی کے لئے تقریباً تیس افراد کے درمیان چھین جھپٹ ہوئی تھی۔مقامی شخص کے بقول یہ روغنی روٹی اس کی نئی نویلی دلہن نے شادی کی پہلی رات پکائی تھی۔

گونر فارم اور رائے کوٹ کا درمیانی علاقہ لینڈ سلائیڈنگ کے لئے بدنام ہے۔ اس مقام پر اسی قسم کا لیکن تھوڑا سا بھاری بھرکم پنگا  ۱۸۴۰ء میں ہوا تھا جب لینڈ سلائیڈ نے دریائے سندھ کی تنگ گھاٹی میں ایک عارضی بند باندھ دیا تھا۔اس بندش کے نتیجے میں یہاں سے گلگت تک پچاس کلو میٹر طویل جھیل وجود میں آئی اور کئی ماہ قائم رہی۔ شیر دریا کی شاہانہ طاقت نے اس بند کو توڑ کر ایک عظیم سیلابی ریلے کو جنم دیا۔اس ریلے نے سینکڑوں کلومیٹر دور اٹک کے قریب دریائے سندھ کے کنارے خیمہ زن ایک سکھ رجمنٹ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جو مقامی مسلم قبائل کو نیست و نابود کرنے کی پگڑی توڑ کوشش کر رہی تھی۔

راولپنڈی سے پانچ سو بیس کلومیٹر کے فاصلے پر رائے کوٹ پل پہنچ کر گاڑی کی دائیں جانب والی کھڑکی سے باہر جھانکیں تو سرمئی رنگ کا ایک فلک بوس سنگلاخ نظر آتا ہے۔ اس چٹانی سلسلے کے اُس پار، رائے کوٹ سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر جیل گاؤں ہے۔ دو سال پہلے اس گاؤں کے ’’ پونی پوائنٹ‘‘ پر علاقے کا نامی گرامی گرانڈیل گھوڑا ہمارے ایک ساتھی کے بوجھ تلے دب کر زمین بوس ہو گیا تھا۔

 پونی پوائنٹ سے پانچ کلومیٹر کی ٹریکنگ کے فاصلے پر پریوں کی سرزمین ’’فیری میڈوز‘‘ ہے جہاں ہماری ملاقات دنیا کے نمبر ون سمجھے جانے والے کوہ پیما رائن ہولڈ  میسنر سے ہوئی تھی اور ایک دل رُبا قسم کی لیڈی باکسر نے عمر چوہدری کو باکسنگ میچ کی پیشکش کر کے حیران و پریشان کر دیا تھا۔

 فیری میڈوز سے پانچ کلومیٹر دور جھلمل جھلمل پانیوں کی دنیا ’’ بیال کیمپ‘‘ ہے جہاں عثمان ڈار ایک اسپینی کوہ نورد خاتون سے چولی کے پیچھے کیا ہے کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتا ہوا پکڑا گیا تھا۔

بیال کیمپ سے چار کلومیٹر اور رائے کوٹ سے چوبیس کلومیٹر دور  … نانگا پربت بیس کیمپ ہے،جہاں  …  گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میر … بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے … کی با تصویر تشریح خود بخود ذہن نشین ہو جاتی ہے۔

 ’’نانگا پربت کے جھرنوں میں ‘‘ اس خوبصورت ٹریک کی روداد ہے۔

رائے کوٹ پل کے بعد، جگلوٹ سے چند کلو میٹر پہلے تھالیچی ہے اور تھالیچی  کے آس پاس ’’نانگا پربت ویو پوائنٹ‘‘ ہے۔اس جگہ سے نانگا پربت نظر آتا ہے اور موسم صاف ہو تو پورے منظر پر چھا جاتا ہے۔مجھے نانگا پربت کی جھلک نظر آئی تو میں خیالوں ہی خیالوں میں نانگا پربت کے مقدس چرنوں میں پہنچ گیا اور راستے میں آنے والے جھرنوں ، چشموں ،سبزہ زاروں اور گلزاروں کا تصوراتی دیدار کیا۔ میرے خیال میں نانگا پربت ویو پوائنٹ بارہ سو کلومیٹر لمبی شاہراہ قراقرم کا خوبصورت ترین پوائنٹ ہے۔ ہنزہ کے راکا پوشی ویو پوائنٹ سے انتہائی معذرت کے ساتھ  …  نئی آشنائیاں پرانے تعلقات میں دراڑ ڈال دیتی ہیں۔

جگلوٹ پہنچ کر ڈرائیور نے چائے سٹاپ کا اعلان کیا۔

 جگلوٹ ایک خوبصورت پہاڑی قصبہ اور دو اہم ٹریکس کا سٹارٹنگ پوائنٹ ہے۔ایک دیوسائی، جہاں میں براستہ سکردو جا رہا تھا،اور دوسرا نانگا پربت روپل فیس( ساؤتھ فیس) بیس کیمپ  …  ایک ضمنی ٹریک ’’راما لیک ‘‘ کے درشن بھی کرا تا ہے۔

چائے سٹاپ کو کچھ لوگوں نے ’’جھٹ پٹ لنچ‘‘ سٹاپ میں تبدیل کر لیا۔

ہم نے کولڈ ڈرنک کا ارادہ کیا تو  بلتستان کی جنگ آزادی کا کردار غلام دستگیر یاد آ گیا اور ہم نے اس کی دکان کا رخ کیا۔کاؤنٹر پر اس کا برخوردار تشریف فرما تھا۔ ہم نے سپرائٹ طلب کی اور غلام دستگیر کے بارے میں دریافت کیا۔اس نے بتا یا کہ غلام دستگیر کی طبیعت کچھ ناساز ہے اور وہ گھر پر آرام کر رہا ہے۔ہم نے برخوردار سے فرمائش کی کہ گھر جائے تو غلام دستگیر کی خدمت میں ہمارا غائبانہ سلام عرض کر دے۔

کولڈ ڈرنک کی قیمت کی ادائیگی کا مرحلہ آیا تو عزیزی برخوردار ہتھے سے اکھڑ گیا۔

 ’’تم امارا باپ کا مہمان بنتا اے اور ام کو پیسا دیتا اے؟‘‘ اس نے باقاعدہ آنکھیں دکھائیں۔

 ’’ہم نے تمہارے باپ کو بھی پیسے دیئے تھے۔‘‘ میں نے جوابی آنکھیں دکھائیں۔

 ’’اچھا؟اب ام اپنے باپ کو کیا بولے؟ … مگر ام اتنا بے غیرت نئی اے کہ باپ کے مہمان کو پانی پلانے کا پیسا وصول کرے۔‘‘

ہم نے بڑی مشکل اور منت سماجت کے بعد اسے پیسے لینے پر آمادہ کیا اور بس میں سوار ہو گئے۔

٭٭٭

ہاتھی حلال کا ہے قومی نشان تمہارا

’’یاد رہے کہ دھرتی تمہارے پاؤں کے تلووں کا لمس محسوس کر کے مسرت سے سرشار ہو جاتی ہے اور فضائیں تمہاری زلفوں سے اٹکھیلیاں کرنا پسند کرتی ہیں۔ ‘‘

(خلیل جبران)

 

جگلوٹ سے چند کلو میٹر آگے مشرق سے آنے والا دریائے سندھ اپنا رخ بدل کر جنوب کی سمت بہنے لگتا ہے۔اس موڑ پر شمال سے آنے والا دریائے گلگت دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے … اور یہ ایک ایسا منظر ہے جہاں مجھے دریائے گلگت سے نا انصافی کا احساس ہوتا ہے۔سیدھی سے بات ہے دریائے گلگت شمال سے بہتا ہوا آتا ہے اور جنوب کی سمت بہتا چلا جاتا ہے … دریائے سندھ مشرق سے آتا ہے اور شمالاً جنوباً بہنے والے دریائے گلگت میں شامل ہو جاتا ہے … پھر اس ملن سے آگے والا دریا سندھ کیوں کہلاتا ہے؟ … دریائے گلگت کیوں نہیں کہلاتا؟

 شاہراہ قراقرم صراطِ مستقیم پر گامزن رہتی ہے اور دریائے گلگت کے ساتھ گلگت روانہ ہو جاتی ہے۔ ہم سکردو کے راہی تھے اس لئے سندھ اور گلگت کے ملن سے آگے جا کر دریائے گلگت پر بنا ہوا فرہاد پل عبور کیا اور چند گز واپسی کا سفر کر کے دریائے سندھ کے دائیں کنارے پہنچ گئے۔ فرہاد پل عبور کرتے ہوئے ہم نے قدیم پل ’’عالم پل‘‘ کا حشر نشر دیکھا۔ اس مشہورِ عالم اور تاریخی پل کا آغاز اور انجام سو فیصد سلامت ہیں ، درمیانی حصہ کسی حادثے کا شکار ہو کر دریا برد ہو چکا ہے،آپ چشمَ تصور سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ایک ایسا معلق پل جسکے درمیان کے ایک تہائی حصے میں خلا ہو،  کتنا مزاحیہ مزاحیہ لگتا ہو گا؟

دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ بنائی گئی گلگت سکردو ہائی وے ٹیڑھی سکردو جاتی ہے۔ہماری بس نے اس پر ٹائر رکھے ہی تھے کہ ایک منحنی سا غیر ملکی، جو کسی سیٹ کی پشت کے پیچھے پوشیدہ تھا اچانک کھڑا ہو گیا اور سٹاپ سٹاپ کا شور مچانا شروع کر دیا۔ بس کا کنڈیکٹر گھبرا کر انجن کے بونٹ سے اٹھا اور غیر ملکی کے پاس آ کر مخاطب ہوا۔

 ’’او مسٹر …  کیا مسئلہ ہے؟‘‘

غیر ملکی کچھ نہ سمجھا اور بدستور سٹاپ سٹاپ کا شور مچاتا رہا۔

 ’’او یارا کیوں سٹاپ؟‘‘

 ’’سٹاپ … سٹاپ … سٹاپ۔‘‘ غیر ملکی نے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کنڈیکٹر کو ایک طرف دھکیل کر ڈرائیور تک پہنچنے کی کوشش شروع کر دی۔

 ’’اوئے کیوں سٹاپ اوئے … تکلیف کیا ہے تجھے؟‘‘ کنڈیکٹر نے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر غیر ملکی کو جوابی دھکا دیا۔وہ لڑکھڑاتا ہو کئی قدم پیچھے ہٹا اور اپنے شانے پر ہاتھ رکھ کر حیران حیران اور مظلومانہ نظروں سے کنڈیکٹر کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ غالباً اس عزّت افزائی کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

 ’’میرا خیال ہے اسے پیشاب ویشاب تنگ کر رہا ہے۔‘‘ کسی نے خیال ظاہر کیا۔

 ’’پیشاب کرے گا؟‘‘ کنڈیکٹر نے غیر ملکی کی مظلومانہ نظروں سے متاثر ہو کر انتہائی ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔

 ’’پلیز … سٹاپ۔‘‘ اس نے مرے مرے لہجے میں کہا اور بیتابانہ نظروں سے کھڑکی سے باہر دیکھا۔

 ’’یورن مورن کرے گی؟ … یورن … یورن …۔ ‘‘ ایک معقول صورت مقامی شخص نے انتہائی غیر معقول اشارے کی مدد سے کنڈیکٹر کے سوال کی وضاحت کی۔

 ’’نو … نو … انگلش لٹل لٹل … پلیز سٹاپ۔‘‘ اس نے لجاجت سے کہا۔

 ’’انگلش توڑا توڑا؟‘‘ یورن مورن پوچھنے والے نے شدید حیرانی سے کہا۔ ’’او یارا یہ کوئی فراڈ مراڈ تو نئیں اے؟یہ کیسا گورا لوگ اے؟ اس کو انگریزی ونگریزی بی نئیں آتا۔مگر یہ تو منت ونت کرتا اے۔پتہ نئیں اس کو کیا مشکل اے۔ابی گاڑی ماڑی روکو۔ام دیکتا اے یہ سفید بندر کا بچہ کرتا کیا اے؟‘‘

یہ رائے کنڈیکٹر کے دل کو بھا گئی۔اس نے بس کے دروازے پر ہاتھ مار کر ڈرائیور کو بس روکنے کا اشارہ دیا۔

بس فرہاد پل سے کچھ دور آ چکی تھی لیکن اس کی رفتار بہت کم تھی۔ ڈرائیور نے بریک لگانے شروع کئے تو گورے نے ہائی جمپ اور لانگ جمپ کا مشترکہ مظاہرہ کرتے ہوئے بس رکنے سے پہلے کنڈیکٹر اور دروازے کو عبور کر لیا۔اس نے کچھ نامانوس الفاظ کہے اور دریا کے کنارے کنارے بگٹٹ بھاگنا شروع کر دیا۔

 ’’بندر کا بچی … ‘‘ مقامی شخص نے مسکراتے ہوئے مربیانہ انداز میں کہا۔ ’’یہ پشاب مشاب کرتا اے اور ام لوگ کو خا مخا پریشان کرتا اے۔‘‘

بندر کا بچہ دریا کے قریب پہنچ کر رک گیا اور ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعد پیچھے کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔۔

 ’’اوئے کافر کا بچہ کدر جاتا اے؟اس کو پکڑو یارا۔ام کو لگتا اے یہ پاگل ماگل اے، ابی دریا میں چھلانگ ملانگ لگائے گا۔‘‘ مقامی شخص نے پریشانی سے کہا۔

گورا کچھ دور دوڑنے کے بعد ارد گرد کا جائزہ لینے لگا اور پتھروں کو پھلانگتا ہوا ایک چٹان کے قریب پہنچ کر رک گیا۔اس نے اپنی جیب سے ایک پوسٹ کارڈ سائز تصویر نکالی اور اس کا موازنہ چٹان سے کرنے لگا۔

 ’’الو کا پٹھا۔‘‘ کنڈیکٹر نے جھلا کر کہا اور بے ساختہ ہنسنے لگا۔

مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو گیا کہ سفید بندر پاگل نہیں … گورے کا بچہ کچھ دیکھ کر ہی بس سے اترتا ہے۔یہ اندازہ غالباً کنڈیکٹر کو بھی ہو گیا تھا۔

 ’’آؤ …۔ ‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا اور عرفان کا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔

 ’’کہاں آؤ؟ … آپ بھی یورن مورن کریں گے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’ہو سکتا ہے یہ پیٹرو گلائف دیکھ کر آپ کی مایوسی کم ہو جائے۔ عالم پل کے پیٹرو گلائف کا شمار دنیا کے چند مشہور ترین آثارِ قدیمہ میں ہوتا ہے۔‘‘

ہم گورے کے قریب پہنچے۔وہ ایک دیو قامت چٹان کے سامنے کھڑا غالباً اس مشہور راک کارونگ کا جائزہ لے رہا تھا جس نے بڑے بڑے محققین کو مخمصے میں ڈالا ہوا ہے۔ گورے نے اپنی پاکٹ سے ڈائری اور بال پوائنٹ نکالے اور ان لکیروں کو اپنی ڈائری پر نقل کرنے کی کوشش کرنے لگا جو بری طرح مسخ ہو چکی تھیں اور بمشکل نظر آ رہی تھیں۔  اس کی  کوشش بری طرح ناکام ہوئی۔

 اس پیٹرو گلائف کو دیکھ کر عرفان کی مایوسی کم نہیں ہوئی، البتہ میری مایوسی میں اضافہ ہو گیا۔میں نے اس خطاطی کے بارے میں پڑھا تھا اور مجھے اسے دیکھنے کا اشتیاق تھا۔میرا خیال تھا ایک ہموار چٹان پر …  انتہائی خوبصورت رسم الخط میں لکھی ہوئی کوئی تحریر میری منتظر ہو گی جسکا موازنہ لاہور میوزیم کی دیواروں پر آویزاں صادقین کی خطاطی کے نمونوں سے کیا جا سکے گا۔ مگر یہ بے ہنگم لکیریں ؟میں اسے خطاطی کا نمونہ سمجھنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھا۔یہ کسی شریر بچے کا کارنامہ تھا جس کے ہاتھ چھینی ہتھوڑا لگ گیا ہو اور وہ پتھر پر اپنے نوزائیدہ فن کا اظہار کرتا رہا ہو۔

 آثارِ قدیمہ سے لطف اندوز ہونے کے لئے ایک خاص سینس یا نان سینس کی ضرورت ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے،ہو سکتا ہے عرفان کا اور میرا شمار اکثریت میں ہوتا ہو۔

ہم نے گورے کو تحریر کے ساتھ مغز ماری کرتے چھوڑا اور واپس آ کر اپنی  نشستوں پر بیٹھ گئے۔

 ’’سر جی … یہ کیا شے تھی؟‘‘ عرفان نے تجسس آمیز انداز میں وضاحت چاہی۔

 ’’عر فان صاحب دو ہزار سال پہلے لکھا گیا خطاطی کا یہ نمونہ آثار قدیمہ کے ماہرین کے لئے ایسا گورکھ دھندا بن چکا ہے جو سلجھائے نہیں سلجھ رہا۔یہ تحریر بر صغیر کی قدیم ترین زبان ’’کھروستی‘‘ میں لکھی گئی ہے جو اب متروک ہو چکی ہے۔دنیا کے نامی گرامی ماہرِ تحریر پروفیسر فس مین نے اس تحریر کو پڑھنے کا دعویٰ کیا اور اس میں ’’ دردا‘‘ سلطنت کے ایک بادشاہ کا نام ڈھونڈ نکالا۔ پاکستان کے ماہر آثارِ قدیمہ پروفیسر احمد حسن دانی نے فس مین کی دریافت کو چیلنج کیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس انسکرپشن میں کسی دردا کنگ کا ذکر نہیں ہے۔تقریباً دو عشرے گزر چکے ہیں ، یہ اختلاف ختم نہیں ہو رہا۔ یہ پیٹرو گلائف آج بھی بیشمار تحقیقی مقالہ جات کا موضوع ہے۔‘‘

 ’’ناں … اتنی پرانی تحریر کو پڑھنے کی ضرورت کیا ہے؟اور یہ بیچاری ویسے ہی مٹ چلی ہے،اس پر اتنی مغز ماری کرنے کا فائدہ؟‘‘

 ’’ماہرین اسی مغز ماری سے دنیا کی تاریخ دریافت کرتے ہیں۔ ‘‘

 ’’اوئے اس بندر کا بچی کو واپس بلاؤ یارا … یہ سب کا ٹائم کیوں خراب کرتا اے؟‘‘ مقامی شخص کا ضبط جواب دے گیا۔

’ڈرائیور نے ہارن بجانا شروع کر دیا۔گورے نے بس کی طرف دیکھا اور دانت نکالتے ہوئے کچھ دیر انتظار کرنے کا اشارہ کیا۔

 ’’نئی آتا اے؟ … ٹیک اے … ام خود جاتا اے اور اسے گردن مردن سے پکڑ کر  چھپکلی کا مافق لٹکا تا ہوا واپس آتا اے۔‘‘ اس نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا۔

ڈرائیور نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بریک پر سے پاؤں ہٹا کر ایکسلریٹر پر دباؤ بڑھا دیا۔گورے نے بس رینگتے دیکھی تو اپنا کیمرہ نکالا،پیٹرو گلائف کی تصویر لی اور برق رفتاری کا مظاہرہ کر کے چلتی ہوئی بس میں سوار ہو گیا۔سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے اس نے ناقابل فہم زبان میں چھوٹی سی تقریر کر کے غالباً شکریہ ادا کیا۔ کنڈیکٹر اور یورن مورن صاحب سے ہاتھ ملایا اور اپنی سیٹ کی پشت کی اوٹ میں روپوش ہو گیا۔

گلگت سکردو روڈ پر ہمارا سفر شروع ہوا … اور ہم  بلتستان کی وادیِ روندو کی حدود میں داخل ہوئے۔  بلتستان روایتی طور پانچ وادیوں … روندو، سکردو،شگر،  خپلو اور کھرمنگ پر مشتمل ہے۔ فرہاد پل سے سکردو تک روندو ہی روندو ہے۔

فرہادپل سے ہنوچل تک لینڈ سکیپ میدانی ہے۔دریا کا پاٹ قدرے چوڑا ہے اور اس کے کنارے انتہائی ننھے منے ’’صحرائی‘‘ ٹکڑے نظر آتے ہیں۔  ان صحرائی خطوں کے سر سبز درخت ایک منفرد منظر پیش کرتے ہیں۔ ہنوچل سے آگے لینڈ سکیپ کا خوابیدہ خوابیدہ منظر آہستہ آہستہ کروٹ بدلنا شروع کرتا ہے۔میں ان پہلو بدلتے ہوئے حسینوں کی دلکشی میں کھویا ہوا تھا کہ عرفان نے متوجہ کیا:

 ’’جناب سسی آ گیا ہے۔‘‘

 ’’سسی آتا نہیں  … آ تی ہے‘‘ میں نے  چونک کر تصحیح کی۔ ’’آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ سسی عرصہ دراز پہلے ’’گھڑیا پار لنگھا دے وے … منتاں تیریاں کر دی‘‘ گاتے ہوئے چناب کی لہروں میں گم ہو گئی تھی … وہ مرحومہ دریائے سندھ کے کنارے کیسے آسکتی ہے؟ ‘‘

 ’’کہاں گم ہیں جناب، یہ چناب کی سسی نہیں  بلتستان کا قصبہ سسی ہے۔‘‘

 ’’پتا نہیں کتنے قصبے بلکہ شہر گزر چکے ہیں ،آپ نے کسی کی آمد کا اعلان نہیں کیا۔سسی پر یہ نظرِ عنایت کیوں فرمائی جا رہی ہے؟‘‘

 ’’سسی سے وادیِ ہارموش اور ہارموش بیس کیمپ ٹریک کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘

 ’’ مجھے ہارموش بیس کیمپ سے کوئی دلچسپی نہیں۔  یہ انتہائی بنجر اور سنگلاخ ٹریک آپ جیسے جھکی اور پیشہ ور ٹریکر کے لئے باعثِ کشش ہو سکتا ہے،مجھ جیسے شوقیہ زائر کے لئے اس میں کیا رکھا ہے؟‘‘

 ’’آپ کو کس نے کہا کہ یہ ٹریک بنجر یا سنگلاخ ہے؟ … اطلاعاً عرض ہے کہ یہ کوئی ٹیکنیکل ٹریک نہیں ہے اور اس میں جو کچھ رکھا ہے شوقیہ زائر کے لئے ہی رکھا ہے۔‘‘

 ’’مثلاً کیا رکھا ہے؟‘‘

 ’’اس ٹریک پر کوتوال ہے … اور …۔ ‘‘

 ’’ کوتوال؟ … مجھے ایسے ٹریک سے کوئی دلچسپی نہیں جس کی رکھوالی کوتوال کرتا ہو۔‘‘ میں نے اُس کی بات کاٹی۔

 ’’ آپ کاشوگر لیول تو ڈاؤن نہیں ہو گیا؟ہر بات کا الٹا مطلب نکال رہے ہیں۔  کوتوال ایک انتہائی خوبصورت جھیل ہے۔ اس کے شفاف پانیوں میں اترا ہوا ہارموش چوٹی کا عکس  … آپ نے کوئی خوبصورت جھیل دیکھی ہے؟‘‘

 ’’جی نہیں ،میں نے دنیا کی بدصورت ترین جھیلیں دیکھی ہیں۔ ‘‘ میں نے جل کر کہا۔

عرفان چسکے لے رہا تھا۔اسے اچھی طرح علم تھا کہ میں پاکستان کی کون کون سی جھیلیں دیکھ چکا ہوں۔

 ’’کوتوال جھیل کے کنارے کیمپ لگا ہو … رات کا سماں ہو … چاند تارے جھیل کے پانی میں اُتر کر رقص کر رہے ہوں … دور دور تک جگنو جگمگا رہے ہوں … سر پر چاندنی سے نہائی ہوئی ہارموش کی برفیلی بلندی سایہ فگن ہو …  چاروں طرف چھائے ہوئے بیکراں سناٹے کا طلسماتی سکوت روح کی گہرائیوں میں اتر رہا ہو … اور … اور … کوئی چیز رہ تو نہیں گئی؟‘‘

 ’’دو عدد احمق رہ گئے ہیں جو اس جھیل کے کنارے نصب خیمے میں زوردار خراٹے لے رہے ہوں۔ ‘‘ میں نے منظر نامہ مکمل کرنے کی کوشش کی۔ ’’آپ نے سکردو روانہ ہونے سے پہلے کونسا رومانی ناول پڑھا تھا؟‘‘

عرفان نے جواب دینے کے بجائے اپنی بات جاری رکھی:

 ’’اور اس پیاری سی ننھی منی جھیل سے آگے،صرف چار گھنٹے کی ٹریکنگ کے فاصلے پر …  ساڑھے تین ہزار میٹر کی بلندی پر … فیری میڈوز سے ملتا جلتا ایک سرسبز و شاداب میدان ہو جس میں …۔ ‘‘

 ’’ہر طرف لکڑی کے کیبن بکھرے ہوئے ہوں … گھوڑے،خچر،گائے اور بھیڑ بکریاں مٹر گشت کر رہی ہوں۔ ان کی لید اور گوبر کی بھینی بھینی خوشبو سے فضا مہک رہی ہو۔ کوتوال گاؤں کی چمنیوں سے اٹھتے ہوئے دھویں کے بادل سایہ فگن ہوں وغیرہ وغیرہ  …  کوئی چیز رہ تو نہیں گئی؟‘‘ میں نے عرفان کی بات کاٹتے ہوئے منظر نامہ دوبارہ مکمل کیا۔ مجھے ’’اصلی تے وڈا‘‘  فیری میڈوز یاد آ گیا تھا۔

 ’’میں آپ کو یہی بتانے کی کوشش رہا ہوں کہ یہ والا فیری میڈوز ابھی تک ان تمام خوبیوں سے پاک ہے۔ اس میں کوئی ہوٹل یا آبادی نہیں ،  صرف فطرت ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی بھولی بھٹکی پری نظر آ جائے۔‘‘

 ’’پھرتو … اور کیا کچھ ہے وہاں۔ ‘‘ میرے لہجے میں تبدیلی آ گئی۔

 ’’وادیِ ہارموش انتہائی خوبصورت وادی ہے، لیکن آف دی ٹریک ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ اس چھوٹی سی وادی میں بہت سہی دلچسپیاں اکھٹی ہو گئی ہیں … ایک خوبصورت جھیل کے علاوہ یہاں مانی گلیشئر ہے۔ہارموش گلیشئر اور ہارموش درہ ہے۔ہارموش لا کی بلندی پر کھڑے ہوکرقراقرم کی چوٹیوں کا انتہائی خوبصورت منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس درّے کو عبور کر کے وادیِ شگر میں داخل ہوا جا سکتا ہے اور سپاتنک بیس کیمپ سے ہوتے ہوئے سکردو پہنچا جا سکتا ہے …  لیلیٰ پیک کا دیدار بھی ہوتا ہے جسے کچھ لوگ پاکستان کی سب سے خوبصورت چوٹی قرار دیتے ہیں۔ اتنی ورائٹی کا ایک جگہ اکٹھے ہونا معمولی بات نہیں … ایک شوقیہ زائر اور کیا دیکھنا چاہتا ہے؟‘‘

میں خاموش رہا۔

 ’’ اور اس ٹریک کا دلچسپ ترین آئٹم مقامی لوگوں کے جھونپڑے ہیں جن کا طرز تعمیر کم از کم ایک صدی پرانا ہے۔ ‘‘

’ ان جھونپڑوں کے باسیوں کارہن سہن اور تہذیب و تمدن بھی ایک صدی پرانا ہے؟‘‘ میں نے ذرا دلچسپی سے پوچھا۔

 ’’یقیناً ہو گا …  فی الحال وادیِ ہارموش پیشہ ور ٹریکرز کی زد سے محفوظ ہے اور اسے باہر کی ہوا نہیں لگی۔یہ ابھی تک ان چھوئی ہے۔ ‘‘

 ’’آپ یہ ٹریک کر چکے ہیں ؟‘‘

 ’’کر چکا ہوتا تو آپ کو ورغلانے کی کوشش کیوں کرتا؟‘‘ اس نے معصومیت سے کہا۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘

 ’’میں آپ کو ہارموش بیس کیمپ ٹریک کے لئے ورغلانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہوں اور آپ چکنے گھڑے ثابت ہو رہے ہیں۔ ‘‘ عرفان نے انکشاف کیا۔

 ’’ اگر یہاں ایک ایسی جھیل ہے جس کے کنارے ابھی تک کوہ نوردوں کے خیمے نصب نہیں ہوئے،اور ایسی فیری میڈوز ہے جس کی گھاس جانوروں کے فضلے وغیرہ سے پاک ہے،اور اس ٹریک کے دوران لیلیٰ پیک درشن دیتی ہے تو …  میرا خیال ہے کہ آپ مجھے ورغلانے میں کچھ نہ کچھ کامیاب ضرور ہو گئے ہیں۔ ‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

ہارموش … بے چارہ ہارموش … یہ چوٹی سات ہزار چارسو نو فٹ بلند ہے لیکن نانگا پربت کی بلندی اور راکا پوشی کی دلکشی نے اسے اس طرح گھیرا ہوا ہے کہ یہ کوہ نوردوں اور کوہ پیماؤں کو اپنی طرف متوجہ کرنے سے قاصر ہے۔

سسی یاساسی ایک چھوٹا سا روایتی پہاڑی قصبہ ہے۔ اس کی اہمیت بس اتنی ہے کہ یہاں سے ہارموش وادی کے لئے ٹریک شروع ہوتا ہے۔اس کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ سسی کے بعد جادو کے زور سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ اصل روندو شروع ہو جاتا ہے جس کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے:

 ’’روندو ایک ایسی وادی ہے جہاں ایک ڈھال برابر زمین بھی ہموار نہیں۔  ‘‘

میں اس تعریف میں کچھ ترمیم کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک ایسی وادی ہے جہاں ہموار زمین ہے ہی نہیں۔  میرے دونوں جانب آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمودی پہاڑیاں تھیں اور ان دونوں کے درمیان دریائے سندھ تھا  …  ایسا سندھ جسے سر پٹخنے کے لئے کوئی ساحل میسر نہیں تھا۔بیچارا چٹانوں سے سر ٹکرانے پر مجبور تھا۔

 گلگت سکردو روڈ بنانے کے لئے ہموار زمین کہاں سے لائی گئی تھی؟

گلگت سکردو روڈ کی تعمیر سے پہلے موسم سرما میں سکردو کا رابطہ ملک کے بقیہ حصوں سے مکمل طور پر کٹ جاتا تھا کیونکہ سکردو سے گلگت جانے کا روایتی راستہ، براستہ دیوسائی شدید برف باری کی وجہ سے نا قابل عبور ہو جاتا تھا۔ سکردو کو سارا سال قابلِ رسائی بنانے کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ دریائے سندھ کے کنارے کنارے سڑک تعمیر کر کے سکردو کو شاہراہِ قراقرم سے ملا دیا جائے۔اس مقصد کے لئے ایک ایسے ماہر تعمیرات کی تلاش شروع ہوئی جو اس لینڈ سکیپ میں ،جہاں ایک ڈھال جتنی ہموار زمین بھی نہیں پائی جاتی، پونے دو سو کلو میٹر طویل ڈبل روڈ کا اضافہ کر سکے۔

ارباب اقتدار کو سن گن ملی کہ دنیا میں صرف ایک ماہر تعمیر ایسا ہے جو بغیر کنارے والے دریا کے کنارے کنارے سڑک تعمیر کر سکتا ہے،اور اس کا تعلق سویڈن سے ہے۔اس ماہر سڑکیات سے رابطہ کیا گیا اور کمیشن وغیرہ وغیرہ کے معاملات طے کرنے کے بعد اسے پاکستان درآمد کر لیا گیا۔ سویڈن کے سڑک سپیشلسٹ نے چھ ماہ تک عرق ریز سروے کرنے کے بعد پہلے بھاری معاوضہ وصول کیا پھر رپورٹ پیش کر دی:

 ’’اس لینڈ سکیپ پر سڑک بنانے کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنی توانائی اور بجٹ اس قسم کے ’’بلنڈرز‘‘ میں ضائع کرنے کے بجائے کسی مفید اور قابل عمل منصوبے پر صرف کرے۔‘‘

سویڈش ماہر سڑکیات سویڈن چلا گیا۔

گلگت سکردو روڈ بنانے کا کام پاکستانی ا نجینئرز کے سپرد کر دیا گیا۔یہ معصومین  بے خبری میں مارے گئے۔ اِن دیسی ڈگری کے حامل ا نجینئرز  کو پڑھایا ہی نہیں گیا تھا کہ دنیا میں ایسے لینڈ سکیپ بھی پائے جاتے ہیں جہاں سڑک بنانا ممکن نہیں ہوتا۔انہوں نے سوچے سمجھے بغیر اس بلنڈرانہ منصوبے پر کام شروع کر دیا۔دریائے سندھ کے کناروں پر سوار ہونے کی جگہ نہ مل سکی تو انھوں نے اپنی بے خبری کے کندھوں پر سوار ہو کر گلگت سکردو ہائی وے کو فرہاد پل سے سکردو پہنچا دیا۔

افواہ ہے کہ سویڈش ماہرِ سڑکیات گلگت سکردو روڈ دیکھنے  بلتستان تشریف لایا  اور سڑک پر ہیوی ڈیوٹی ٹرک اور بسیں رواں دواں دیکھ کر دریائے حیرت میں غرق ہو گیا  … حق مغفرت کرے عجب ’’غیور‘‘ مرد تھا۔

 شنگس اور یوبو نامی بستیوں سے گزر کر ہم استک نالے کے پل پر پہنچے جس کے قریب بنے ہوئے ہوٹل میں لنچ کرنے کا حکم صادر ہوا۔

استک ایک انتہائی تند و تیز پہاڑی نالا ہے جو چند کلومیٹر ’’اوپر‘‘ واقع استک نامی قصبے سے موسوم ہے۔ آج کا استک ایک گمنام قصبہ ہے۔کل کا استک لونچھے سلطنت کا دارالحکومت تھا اور خود مختار وادیِ روندو پر حکومت کرنے والا ’’لونچھے‘‘ خاندان سکردو پر قبضہ کر کے استک کو  بلتستان کا دارالحکومت بنانے کی خواہش رکھتا تھا۔ استک نالے کے منہ زور اور جھاگ اُڑاتے ہوئے صاف و شفاف پانیوں میں ابھی تک لونچھے خاندان کا غیض و غضب پھنکارے مارتا ہے۔

 ریستوران کا ’’ ا وپن ایئر ڈائننگ لان ‘‘ نالے کے عین کنارے پر واقع ہے۔ ہم لان میں بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے اور استک نالے کے پانی کے بے شمار چھینٹے ہمارے دامن سے چھیڑ چھاڑ کر کے بارش کا سماں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اوپن ایئر ڈائننگ لان میں لگے ہوئے خوبانی کے درختوں پر انگور کی بیلیں اس انداز میں چڑھائی گئی تھیں کہ لان پر انگور کی بیلوں کی چھت وجود میں آ گئی تھی۔ انگوروں کی بیلوں کی اس معلق چھت کے نیچے استک نالے کی منہ زور لہروں کی رم جھم رم جھم پڑے پھوار … اور قل ھو اللہ پڑھتی ہوئی آنتوں کے لئے ہو رہا ہو چکن بریانی اور مٹن ’’ روش ‘‘ تیار  …  فطرت اپنے زائرین کو خوش آمدید کہنے کے لئے اور کیا اہتمام کر سکتی ہے؟

لنچ کے بعد روانگی میں تاخیر ہوئی تو تجسس پیدا ہوا۔ہم کرسیوں سے اُٹھ کر بس  کے قریب آئے۔ کنڈیکٹر بتا رہا تھا:

 ’’ دو کلومیٹر آگے ایک ٹرک الٹ گیا ہے جس پر لدی ہوئی سبزیوں اور پھلوں کی پیٹیوں نے سڑک بلاک کر دی ہے۔ فی الحال راستہ کھلنے کا کوئی امکان نہیں۔ ‘‘

 ’’راستہ پیٹیوں نے بلاک کیا ہے؟ … اُلٹے ہوئے ٹرک نے بلاک نہیں کیا؟‘‘ میں نے کنڈیکٹر سے پوچھا۔

 ’’درست حالات کا علم وہاں پہنچ کر ہو گا یا اس وقت پتہ چلے گا جب راستہ کھلنے کے بعد سامنے سے کوئی گاڑی آئے گی۔ہو سکتا ہے ٹرک راستہ بلاک کرنے کے قابل ہی نہ رہا ہو اور دریا میں پہنچ چکا ہو۔ ‘‘ کنڈیکٹر نے لاپرواہی سے کہا۔

عرفان نے ایک منفرد تجویز پیش کی۔

 ’’کیوں نہ ہم اس جگہ تک پیدل چلیں جہاں ٹرک اُلٹا ہے۔‘‘

 ’’کیوں ؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’بیٹھے بیٹھے ٹانگیں اکڑ گئی ہیں … انہیں کچھ ریسٹ مل جائے گا۔‘‘

 ’’واہ … کیا نادر و نایاب تھیوری ہے۔پیدل چلنے سے ٹانگوں کو ریسٹ مل جائے گا۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

یہ نادر و نایاب تھیوری بہت مقبول ہوئی اور اس کی گونج ’’دور دور‘‘ تک پھیل گئی۔اس کے نتیجے میں ایک چھوٹے سے قافلے نے سکردو روڈ پر سفر شروع کر دیا جس میں کئی بسوں اور کوسٹروں کی سواریاں شامل تھیں۔

گلگت سکردو روڈ پر پیدل چلنا ایک منفرد تجربہ تھا۔تھوڑی دور تک دریا ہمارے راستے سے کچھ دور رہا،پھر یہ دوری ختم ہو گئی۔دائیں جانب فلک بوس عمودی چٹانیں ،بائیں جانب بھی فلک بوس عمودی چٹانیں اور ان دونوں کے درمیان بپھرا ہوا سندھ۔ دریائے سندھ کی ہیبت پوری طرح حاوی ہو گئی۔ یہ سندھ کا وہ روپ ہے جو بس کی کھڑکیوں سے نظر نہیں آتا۔بس دریائے سندھ کے اتنے قریب آ جائے تو آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں یا دعائیں یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں ،سندھ کی خوفناک لہروں کی طرف نظر اٹھانے کا ہوش نہیں رہتا۔سندھ کی لہریں جتنی قوت سے پتھروں سے ٹکرا رہی تھیں اسے دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ پتھروں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تو سکردو روڈ کہاں جائے گی؟

 ’’ڈاکٹر صاحب ٹانگوں کو آرام مل رہا ہے یا نہیں ؟‘‘ عرفان نے مجھے سوچ میں گم دیکھ کر سوال کیا۔

 ’’ٹانگوں کو تو واقعی آرام مل رہا ہے، ذہن کسی حد تک بے آرام ہو گیا ہے۔میں محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے ایک سنگی پنجرے میں قید کر کے اس میں سندھ جیسا شیر ببر چھوڑ دیا گیا ہے جس کی گھن گرج دل دہلاتی ہے۔‘‘  میں نے قدرے شرمندگی سے کہا۔

عرفان ہنسنے لگا۔

 ’’آپ کے خیالات کنن گھم سے بہت زیادہ ملتے ہیں۔ الفاظ کا فرق ہے۔‘‘

 ’’ کنن گھم(CUNNINGHUM  ) اس سلسلے میں کیا فرماتا ہے؟‘‘

 ’’ کنن گھم کا خیال ہے کہ سکردو سے روندو اور روندو سے ’’ ماک پو ئی شونگ رون ‘‘ تک …  شیر دریا جنگل کا آزاد شیر ہے جو ہر لمحہ منہ سے جھاگ اڑانے اور دہاڑنے کے ساتھ ساتھ طاقتور تھپیڑوں سے ارد گرد کی چٹانوں کو ریزہ ریزہ کر کے اپنی سلطنت کی حدود کو وسعت دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔اس بپھرے ہوئے شیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے لئے فولاد کا جگر چاہیے۔‘‘

 ’’یہ مائی پونگ پونگ کیا بلا ہے؟‘‘

 ’’’ ماک پو ئی شونگ رون غالباً سسی کا قدیم نام ہے۔‘‘

 ’’عرفان صاحب اتنا مشکل نام اپنی جدید محبوبہ کا ہو تب بھی یاد نہیں رہتا، آپ نے مسٹر پنوں کی محبوبہ کا قدیم نام دل پر لکھا ہوا ہے۔قیامت والے دن مسٹر پُنوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟‘‘

 ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے حال ہی میں دریائے سندھ کے بارے میں ایک آرٹیکل لکھا تھا،اس لئے یہ حوالہ یاد رہ گیا۔‘‘

 ’’آپ آرٹیکل بھی لکھتے ہیں ؟‘‘ میرے لئے یہ ایک نیا انکشاف تھا۔

 ’’کبھی کبھی،خاص طور پر ایڈونچر کے حوالے سے۔‘‘

 ’’ما شا اللہ،آرٹیکل لکھا ہے تو یہ بھی بتا دیں کہ سندھ کو شیر دریا کیوں کہتے ہیں ؟ ‘‘

 ’’یہ اس کے تبتی نام سنگے چھو کا اردو ترجمہ ہے اور تبت کے باشندے اسے سنگے چھو اس لئے کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں یہ شیر کے منہ سے برآمد ہوتا ہے۔‘‘

 ’’میری معلومات کے مطابق یہ تبت کی جھیل مانسروور سے برآمدہ وتا ہے، تبت کے باشندے جھیل مانسروور کو شیر کا منہ کہتے ہیں ؟‘‘

 ’’جدید تحقیق کے مطابق دریائے سندھ کا دہانہ جھیل مانسروور سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ آپ کا سوال بتا رہا ہے کہ آپ جھیل مانسروور سے منسوب روایات سے ناواقف ہیں۔ ‘‘

 ’’مثلاً کونسی روایات؟‘‘

 ’’اس جھیل نے ہندوؤں کے معزز دیوتا برہما کے ذہن میں جنم لیا اور برہما نے اسے ہندو مت کے مرکز کائنات کوہِ کیلاش کے چرنوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔‘‘

 ’’پلیز … میں کیٹی ونسلٹ نہیں ہوں۔ ‘‘

 ’’یہ مذاق نہیں حقیقت ہے۔ہندو مت اور بدھ مت کے مطابق تبت کا کیلاش نامی پہاڑ کائنات کا مرکز اور شیوا جی کا استھان ہے۔ دونوں مذاہب کے یاتری  کوہِ کیلاش کے پانیوں سے پوترتا حاصل کرنے کے بعد اس کا طواف کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ یاتری یہاں آتے تھے تو انہیں اشنان کرنے میں بہت دشواری ہوتی تھی کیونکہ یہاں کوئی جھیل نہیں تھی۔برہما صاحب چاہتے تو کوئی دنیاوی جھیل اٹھا کر یہاں لا سکتے تھے … لیکن دیوتا کے خیال میں کوئی زمینی جھیل کوہ کیلاش کے شایانِ شان نہیں تھی، انہوں نے اپنے ذہن میں ایک جھیل کو جنم دیا اور کیلاش کے چرنوں میں رکھ دیا۔اب یہ طلسماتی جھیل ایک انتہائی خوبصورت منظر نامے کو جنم دیتی ہے۔‘‘

 ’’ جھیل منظر نامے کو جنم دیتی ہے تو شیر دریا کو کون جنم دیتا ہے؟‘‘

 ’’بظاہر دریائے سندھ کا دہانہ جھیل مانسروور سے کافی دور ہے، لیکن عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ اسے بھی جھیل مانسرور ہی جنم دیتی ہے۔روایت ہے کہ اس نوے فٹ گہری مقدس جھیل کی تہہ میں بے  شمار دیویاں رہائش پذیر ہو گئی تھیں۔  چار سوشل ورکر قسم کی دیویاں مختلف جانوروں کے منہ کے راستے جھیل سے برآمد ہوئیں اور دریاؤں کا روپ دھار کر میدانی علاقے کی طرف نکل کھڑی ہوئیں تاکہ عوام کی خدمت کر سکیں۔ ‘‘

 ’’پریاں دریا کے بھیس میں ؟آپ کا مطلب ہے یہ خوفناک دریا ایک نازک اندام پری ہے؟‘‘ میں نے دریائے سندھ کی شوریدہ سر لہروں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

 ’’جی جناب! … اور یہ پری کیونکہ شیر کے منہ سے برآمد ہوئی ہے اس لئے یہ دریا شیر دریا کہلاتا ہے۔‘‘

 ’’میرا خیال ہے دریائے سندھ کی قربت نے مجھے کچھ کچھ کند ذہن بنا دیا ہے  … آپ مزید وضاحت نہیں کر سکتے؟‘‘

 ’’کوشش کرتا ہوں۔  مانسرور جھیل کی تہہ میں کرنالی نامی دیوی رہتی تھی۔وہ جھیل کے اس دہانے سے برآمد ہوئیں جسے مور کی چونچ کہا جاتا ہے اور دریائے گھاگرا بن کر میدانوں کا رخ کیا۔ دریائے گھاگرا کا پانی پینے والی خواتین مورنی کی طرح خوبصورت اور ماہر رقاصہ ہوتی ہیں۔ ‘‘

 ’’ یار یہ دریائے گھاگرا کہاں پایا جاتا ہے؟ … وہاں کوئی ٹریک شریک ہے یا نہیں ؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔

 ’’دریائے گھاگرا کسی زمانے میں چولستان کو سیراب کرتا تھا۔آجکل پتا نہیں کہاں بہتا ہے؟ … اسی طرح پک شو دیوی نے گھوڑے کے منہ کو پسند کیا اور دریائے برہم پتر کے روپ میں برآمد ہوئیں۔  دریائے برہم پترکا پانی پینے والے مخصوص گھوڑائی طاقت کے حامل ہوتے ہیں۔ ‘‘

 ’’اچھا؟ …  اسی لئے  مخصوص دواؤں کی شیشی پر گھوڑے کے ساتھ احتیاطاً دیوی جی کی تصویر بنا دی جاتی ہے تاکہ سامنے رہے اور بوقت ضرورت کام آئے؟‘‘

 ’’اس کا مطلب ہے بات سمجھ میں آ گئی ہے؟‘‘

 ’’کچھ کچھ … لیکن ہمیں گھاگھرا یا برہم پتر سے کیا لینا دینا؟ … آپ سندھ والی دیوی کی بات کریں۔ ‘‘

 ’’ گانگا دیوی نے ہاتھی کے منہ سے برآمد ہونے کا فیصلہ کیا اور دریائے ستلج کا روپ دھارا۔اس دریا کا پانی پینے والوں میں ہاتھی کی صفات پائی جاتی ہیں۔ ‘‘ عرفان نے سندھ والی سے پہلے ستلج والی کا ذکر کیا۔

 ’’جی ای … کیا فرمایا؟کونسا دریا؟‘‘ میں چند سیکنڈ کے لئے رک گیا۔

 ’’ستلج!آپ اتنے حیران کیوں ہیں ؟‘‘

 ’’میں بالکل حیران نہیں ہوں۔ غضبناک ہوں۔ میرا دل کر رہا ہے کہ میں اس  …  آپ نے دیوی کا کیا نام بتا یا تھا؟‘‘

 ’’گانگا دیوی۔‘‘

 ’’میرا دل کر رہا ہے کہ میں گانگا دیوی کی کھال کھینچ کر اس میں بھس بھر دوں اور خوب ٹھوک ٹھوک کر بھروں۔ غضب خدا کا …  اسے مانسرور جھیل سے باہر آنے کے لئے ہاتھی کے علاوہ اور کوئی جانور نظر نہ آیا؟یہ احمق دیوی مور کی چونچ سے برآمد ہو جاتی تو اس کا کیا بگڑتا؟ مور پر پہلے قبضہ ہو گیا تھا تو گھوڑے سے مستفید ہو کر خود بھی عیش کرتی ا ور وہاڑی کے حضرات کو بھی عیش کرنے کے وسائل فراہم کر دیتی۔‘‘

 ’’وہاڑی کے لوگ ستلج کا پانی استعمال کرتے ہیں ؟‘‘

 ’’اور کس کا کریں ؟وہاڑی دریائے ستلج کے کنارے پر واقع ہے۔‘‘

 ’’ویری سیڈ۔مجھے آپ سے پوری پوری ہمدردی ہے اور یہ بھی علم ہو گیا کہ آپ کی روز بروز پھیلتی ہوئی صحت کا راز کیا ہے۔‘‘ عرفان نے مسکراتے ہوئے کہا:

ستلج کے پانیوں پر پل کر جواں ہوئے ہو

ہاتھی حلال کا ہے قومی نشان تمہارا

 ’’ہاتھی حلال نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے اعتراض کیا۔

 ’’ستلج کا پانی پاک ہے تو اس کا منبع حرام کیسے ہو سکتا ہے؟بہرحال سیتا دیوی نے شیر کے دہانے کا انتخاب کیا اور سنگے چھو یاشیر دریا کا روپ دھار لیا۔ سندھ کے پانیوں میں شیر کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ‘‘

 ’’خاک پائی جاتی ہیں۔ جو آتا ہے سندھ کا پانی پینے والوں کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی لگاتا ہے۔ آریاؤں اور سکندر کی مثال آپ کے سامنے ہے۔‘‘

 ’’یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔بیرونی حملہ آور پہلا پڑاؤ سندھ پر کرتے تھے اور شیر دریا کا پانی پینے کے بعد بر صغیر کے مرکزی علاقے پر حملہ کرتے تھے۔سکندر نے پورس کو شکست دی تو یہ سندھ کے شیر دل پانیوں کا کمال تھا۔بیوقوف پورس اپنے ہاتھیوں کو گنگا اور جمنا کے بجائے شیر دریا کے پانی پر پرورش کرتا تو وہ وقت پڑنے پر گیدڑ نہ بنتے  …  شیرِ ببر بنتے  … اور اسے پورسِ اعظم بنا دیتے۔‘‘

 ’’میں دریائے سندھ کی جانب سے اس مکھن لگائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ‘‘

 ’’یو آر ویلکم سر۔‘‘

دریائے سندھ کے پانی نے سکندر کو شیر کی خصوصیات عطا کیں …  سکندر کے سپاہیوں نے اسے انڈس کا نام عطا کیا جو اس کے مقامی نام سے زیادہ مشہور ہوا۔مقامی باشندے اسے ’’سندھو‘‘ کہتے تھے،سندھو سنسکرت کا لفظ ہے اور اس کے معنی ’’بہت بڑا پانی‘‘ ہیں …  یونانیوں نے اسے ’’سن تھو‘‘ (Sintho) کہا اور لاطینیوں نے ’’سنڈس‘‘ (Sindus) بنا دیا، یہی سنڈس بعد میں انڈس بن گیا۔انڈیا کا مآخذ بھی انڈس ہے۔

تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ایک چٹان کے قریب پہنچے جو کافی دور تک دریائے سندھ کے غضب ناک دھارے میں داخل ہو رہی تھی۔ اس چٹان کی وجہ سے شاہراہِ قراقرم ایک ہیئر پن لوپ قسم کا موڑ کاٹ رہی تھی۔اس موڑ سے بس میں بیٹھ کر گزرا جاتا تو یقیناً آیت الکرسی یاد آ جاتی،پیدل چلتے ہوئے ہم دریا کی شوریدہ سری سے پیدا ہونے والے قدرتی فوارے سے لطف اندوز ہوئے۔چٹان سے ٹکرانے والی لہروں سے پیدا ہونے والی پھواریں ایک فوارے کی صورت میں بلند ہو رہی تھیں۔ ہم نے کئی منٹ اس منفرد منظر کی نذر گزارے۔ اس موڑ سے گزرتے ہی اُس ٹرک پر نظر پڑی جس کے صدقے ہمیں شیر دریا کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ٹرک دریا میں نہیں گرا تھا، سڑک کے کنارے ’’اٹکا‘‘ ہوا تھا۔ ٹریفک بلاک کی وجہ سے چند گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ ان کا عملہ اور مسافر سڑک پر بکھرے ہوئے آلو،  خوبانیاں اور سیب اکٹھا کر رہے تھے۔جو پیٹیاں کھلنے سے محفوظ رہی تھیں ان کا انبار ٹرک کے قریب لگایا جا رہا تھا۔ہمارے ساتھ آنے والے چند حضرات بھی پھل ہٹاؤ مہم میں شامل ہو گئے۔

ٹرک کا عملہ زخمی تھا اور اسے سکردو پہنچا دیا گیا تھا۔ٹرک کی لا وارثی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھل ہٹاؤ مہم میں کبھی کبھی پھل کھاؤ شغل کا تڑکا بھی لگایا جا رہا تھا۔میں اور عرفان الٹے ہوئے ٹرک کے بالمقابل ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ہمیں فارغ بیٹھا دیکھ کر ایک شریف آدمی نے ایک عدد سیب ہماری طرف اچھالا جسے عرفان نے کیچ کر لیا اور میری طرف اشارہ کر کے ایک اور سیب کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ بخوشی پورا کر دیا گیا۔

سڑک قابلِ قبول حد تک صاف ہو گئی تو سکردو سے آنے والی ایک بس کے ڈرائیور نے ٹرک اور پہاڑی کی درمیانی جگہ سے بس گزارنے کی کوشش کی۔اُس نے انتہائی مہارت کا مظاہرہ کیا اور ٹرک کی باڈی سے کچھ الجھتی کچھ بچتی ہوئی بس اس راستے سے گزر گئی۔سب نے تالیاں بجا کر اور نعرے لگا کر خوشی کا اظہار کیا۔ اس بس کے مسافر سوار ہوئے اور استک کی جانب روانہ ہو گئے۔ بس استک پہنچتی تو وہاں رکی ہوئی ٹریفک کو راستہ کھلنے کی اطلاع ملتی اور وہ سکردو کے لئے روانہ ہوتے۔

 ’’عرفان بھائی … ذرا اس آفت زدہ ٹرک کی ذہانت ملاحظہ فرمائیں۔ میں کسی پاکستانی نژاد ٹرک سے اس خطرناک سڑک پر الٹتے وقت اتنی بھرپور ذہانت کی توقع نہیں رکھتا۔‘‘ میں نے عرفان سے کہا۔

 ’’جی ی ی … کیا ملاحظہ فرماؤں ؟‘‘ عرفان حیران رہ گیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب خیر تو ہے ناں ؟  … میرا مطلب ہے …   بہکے بہکے میرے سرکار نظر آتے ہیں … ہائٹ لگنے کے آثار نظر آتے ہیں۔ ابھی تو بلندی شروع بھی نہیں ہوئی،اسکولی پہنچ کر آپ کا کیا حال ہو گا ؟‘‘

 ’’عرفان صاحب اس ٹرک کی باڈی کے صرف چند انچ سڑک کے کنارے سے باہر ہیں۔ ایک آدھ انچ اور کھسک جاتا تو نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا۔ دوسری جانب اس ذہین و فطین ٹرک نے شاہراہ کو بلاک کرنا بھی مناسب نہ سمجھا اور پوری طرح ناپ تول کر اتنا راستہ چھوڑ دیا کہ ایک فل سائز بس پھنس پھنسا کر ہی سہی …  گزر تو گئی  … ہر چند اس میں سائڈ مرر اس کا قلم ہوا،اور باڈی کے نشیب و فراز پر بد نما خراشیں نمودار ہوئیں۔ ‘‘

 ’’یہ واقعی دنیا کا ذہین ترین ٹرک ہے۔‘‘ عرفان نے چند سیکنڈ غور و فکر کرنے کے بعد میری رائے سے اتفاق کیا۔

 بس گزرنے کے بعد باقاعدہ آمدورفت شروع ہو گئی۔ بڑی بسیں ذرا اڑ پھنس کر اور کوسٹرز وغیرہ آرام سے گزر رہی تھیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہماری بس آ گئی لیکن اسے رکاوٹ عبور کرنے میں بہت دیر لگی کیونکہ گاڑیوں کی قطاروں کی وجہ سے راستہ ’’ون وے‘‘ ہو چکا تھا۔

گلگت سکردو ہائی وے پر ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا۔

میرے خیال میں اسے گلگت سکردو ’’ہائے وے‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا جس میں ’’ہائے‘‘ زیادہ اور ’’وے‘‘ بہت کم ہے۔اس کے با وجود سکردو روڈ پر سفر کرنے میں سواد آتا ہے،ایک نامعلوم لیکن خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔دریائے سندھ میں شامل ہونے والے صاف و شفاف پانی کے پہاڑی ندی نالے اور چٹانوں میں سے پھوٹنے والے گنگناتے ہوئے جھرنے ماحول پر یک رنگی کی فضا طاری نہیں ہونے دیتے … اور یہ جو میں نے خطرناکی وطرناکی کا ذکر کیا ہے اسے محض زورِ بیان ہی سمجھا جائے۔اُس شریف النفس سڑک کو خطرناک کیسے کہا جا سکتا ہے جس پر ایک ٹرک باقاعدہ الٹ جائے اور لوٹ پوٹ کر دوبارہ اُٹھ کھڑا ہو؟

وادیِ  روندو کے تحصیل ہیڈ کوارٹر روندو سے گزرتے ہوئے ہم سکردو کی ذیلی، اور انتہائی خوبصورت وادی باشو کے پہلو میں پہنچے اور پھر وادیِ روندو ختم اور وادیِ سکردو شروع ہوئی۔ روندو اور سکردو کی سرحد دریائے سندھ کے دو پاٹوں کا سنگم ہے۔سکردو سائیڈ والے سندھ کا پاٹ کافی چوڑا ہے … کہنے کو یہ بھی شیر دریا ہے … لیکن یہ چڑیا گھر کا شیر ہے جو رعب داب رکھنے کے باوجود خوفزدہ نہیں کرتا اور کچھ سہما سہما رہتا ہے۔

٭٭٭

بعض اوقات دلاسا بھی بلا ہوتا ہے

’’فطرت کے مناظر میں سرسرانے والی نسیمِ گل کا ایک جھونکا اخلاقیات کے وہ زریں اصول ذہن نشین کرادیتا ہے جو دنیا کے تمام دانشور مل کر بھی نہیں سمجھا سکتے۔‘‘

(ولیم ورڈز ورتھ)

 

دریائے سندھ کے دو پاٹوں کے سنگم پر ایک عدد ڈیم بنانے کی تجویز ہے۔

  سکردو ڈیم بنانے کی تجویز واپڈا نے  ۱۹۶۲ء  میں پیش کی۔ بیالیس سال کے مختصر غور و فکر کے بعد …  ۲۰۰۴ء میں اس تجویز کو قابل عمل قرار دے کر انتہائی مسرت سے اعلان کیا گیا :

 ’’سکردو ڈیم دریائے سندھ کی تہہ سے دو سو تیس اور سطح سمندر سے دو ہزار تین سو پچاس فٹ بلند ہو گا۔اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بیس مکعب کلومیٹر ہو گی۔ ڈیم کے نتیجے میں بننے والی جھیل تین سو مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہو گی۔ڈیم پر اندازاً چوبیس کروڑ روپے لاگت آئے گی اور یہ  بلتستان کی زمینوں کی آبپاشی کی تمام ضروریات کے لئے کافی ہو گا۔  اہلِ بلتستان کو مبارک ہو کہ خوش حالی کے اُس دور کا آغاز ہو چکا ہے جسکا خواب وہ عرصہ دراز سے دیکھ رہے تھے۔ ‘‘

 سکردو ڈیم کا فائل ورک مکمل ہو چکا اور چوبیس کروڑ روپے کی ادائیگی کا مرحلہ آیا تو چند ’’فضول‘‘ دشواریاں سامنے آ گئیں۔

حکومت کو بتایا گیا کہ سکردو ڈیم وادیِ  سکردو کی نسبت زیادہ بلند ہو گا، اس لئے  چھیانوے بستیاں ، بیس ہزار مکانات،ساڑھے سات ہزار دکانیں اور چالیس ہزار ایکڑ زرعی رقبہ زیرِ آب آ کر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور اس ’’رپھڑ‘‘ میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار شہری بے گھر ہو جائیں گے۔بد قسمتی سے بلتستان کی کوئی وادی اتنی وسیع نہیں جو ان بے گھر ہونے والے لوگوں کو پناہ دے سکے۔ چھوٹی موٹی بستیوں کی تو خیر ہے،اصل مسئلہ یہ ہے کہ بلتستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر سکردو اور  بلتستان کا دوسرا بڑا شہر شگر دنیا کے نقشے سے غائب ہو کر پتا نہیں کہاں چلے جائیں گے؟

بے گھر ہونے والے شہریوں کا مسئلہ ان سب کو دہشت گرد قرار دے کر با آسانی حل کیا جا سکتا ہے،  تشویشناک بات یہ ہے کہ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر تعمیر کردہ دنیا کا طویل ترین رن وے (بارہ ہزار فٹ طویل) صفحہ ِ بلتستان سے غائب ہو جائے گا۔یہ رن وے نہ رہا تو مستقبل میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں سکردو کا دفاع ناممکن ہو گا۔

مزید یہ کہ موجودہ گلگت سکردو ہائی وے، ڈیم بنانے کے لئے درکار ہیوی ڈیوٹی  مشینری کی نقل و حمل کے لئے ذرا ’’نازک‘‘ ہے۔ڈیم بنانا ہے تو یہ سڑک دوبارہ بنانی پڑے گی  …  اور مضبوط بنانی پڑے گی۔

پس ثابت ہوا کہ حکومتِ پاکستان باشند گانِ سکردو کو خوشحال بنانے کے لئے اُن کا تن من  …  اور اپنا دھن لٹانا چاہتی ہے … لیکن فی الحال حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اہل  بلتستان سے گزارش ہے کہ وہ ڈیم کی تعمیر میں ہونے والی تاخیر پر چراغ پا ہونے کے بجائے تسلی دلاسوں پر اکتفا کریں۔ خدا نخواستہ ڈیم بن گیا تو؟

سادہ دل ’’بلتیوں ‘‘ کو نہیں معلوم فراز

بعض اوقات دلاسا بھی بلا ہوتا ہے

ساڑھے چار بجے ہم سکردو پہنچے۔

سکردو بس سٹاپ پر ہو کا عالم طاری تھا۔ ہم نے ٹیکسی لی اور سکردو بازار کے یادگار چوک کے قریب گیشا بروم ہوٹل پہنچ گئے۔کاؤنٹر پر ہنستا مسکراتا شبیر خاں موجود تھا اور گاہکوں کے چھوٹے سے ہجوم میں گھرا ہوا تھا۔ ٹی۔وی لاؤنج بھی اچھا خاصا آباد نظر آ رہا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ گیشا بروم ہوٹل چل نکلا ہے۔

رش کم ہوا تو عرفان نے شبیر خان سے ڈبل بیڈ کمرے کا کرایہ پوچھا۔

 ’’آٹھ سو روپے۔‘‘ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔

 ’’ شبیر خاں ہم نے تمہیں پچھلے سال ڈیڑھ سو روپے فی کس کرایہ ادا کیا تھا اورہم اس سے زیادہ ادائیگی کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ‘‘ عرفان نے فیصلہ سنایا۔

 ’’آہستہ بولو سر … کیوں ہمارا کاروبار خراب کرتا اے۔ اور تم امارا نام کیسے جانتا اے ؟ اوئےئے … آپ عرفان صاب اے ناں ؟ آپ کنکارڈیا سے واپس آ گیا تھا ؟  …  غونڈو غورو کراس نئیں کیا تھا۔‘‘

 ’’بڑے غلط حوالے سے یاد رکھا ہے تم نے۔‘‘ عرفان نے ہنستے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’مگر کرایہ وہی پچھلے سال والا ہو گا،ہم تمہارے پرانے چاہنے والے ہیں ،اور دعا کرو کہ اس مرتبہ غونڈو غورو کراس ہو جائے۔‘‘

 ’’اب ام کیا بولے صاب ؟ … جیسا آپ کا مرضی  … مگر آپ بوت ضدی لگتا اے۔ اتنی جلدی کوئی بی دوبارہ نئی آتا۔ آپ ریسٹ کرو، کھانا مانا کھاؤ، پھر بات کرے گا۔‘‘ اس نے ہمارے رک سیک اٹھائے اور کمرہ نمبر تین تک ہماری راہنمائی کی۔

شبیر خاں پورٹرز وغیرہ کے بندوبست کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہو گا۔ اسے علم نہیں تھا کہ اس مرتبہ پیشگی انتظامات ہو چکے ہیں۔  ہم بری طرح تھکے ہوئے تھے لیکن عرفان آرام کرنے سے پہلے شیر خاں کو فون کرنا چاہتا تھا۔ شیر خاں پورٹر پلس باورچی مکس تھا جس نے پچھلے سال عرفان کے کنکارڑیا ٹریک کے انتظامات مکمل کئے تھے اور سامان کی خریداری کے دوران اُسے ناکوں چنے چبوائے تھے … نہ جانے عرفان ایک مرتبہ پھر ناکوں چنے چابنے پر کیوں تلا ہوا تھا؟

 عرفان نے شیر خاں کے دئیے ہوئے نمبر پر فون کیا۔شیر خاں موجود نہیں تھا۔ کال ریسیو کرنے والے نے یقین دلایا کہ عرفان کا پیغام شیر خاں تک پہنچا دیا جائے گا اور وہ خود عرفان سے رابطہ کر لے گا۔ شبیر خان نے گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ شیر خان کو بلانے کا مقصد جیپ کا بندوبست کرنا ہے تو اس نے قدرے دلبرانہ لہجے میں پیش کش کی:

 ’’شیر خان کو کیوں بلاتا اے؟ ام کو خدمت کا موقع دو ناں۔ آپ کے لئے جیپ کا بندوبست ام کرے گا۔‘‘  

 ’’ضرور کرو … تمہیں دوسو روپے تک کمیشن کی اجازت ہے اس سے …۔ ‘‘

 ’’آپ سے کمیشن لے گا؟‘‘ اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ ’’آپ تو امارا دوست بن گیا تھا ناں ،آپ سے کمیشن کیسے لے گا؟آپ مارکیٹ ریٹ کا خود پتہ کرو … پھر ام کو پیسا دو۔‘‘

 ’’او۔کے،مگر شیر خان ہمارے ساتھ جائے گا۔کسی وجہ سے نہ جا سکا تو ہمیں ایک قابلِ اعتماد پورٹر درکار ہو گا،اور ہم صبح چھ بجے سکردو سے روانہ ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’بالکل ٹیک ٹائم اے صاب۔آپ کس وقت تک شیر خان کا انتظار کرے گا؟‘‘

عرفان کے جواب دینے سے پہلے شیر خاں آ گیا۔ وہ انتہائی گرمجوشی سے ملا اور علیک سلیک کے بعد ہمارا پروگرام پوچھا۔عرفان نے اسے صورت حال سے آگاہ کیا اور  ساتھ چلنے کی فرمائش کی۔ شیر خان نے یہ پیشکش قبول کر لی، مگر اسے علم ہوا کہ اس کا عہدہ کک نہیں ، پورٹر ہو گا تو وہ تذبذب میں پڑ گیا۔اسے اطمینان دلایا گیا کہ کوروفون پہنچتے ہی وہ ’’پورٹر سردار‘‘ کے عہدے پر فائز ہو جائے گا۔پورٹر سردار  …  سردار زیادہ اور پورٹر بہت کم ہوتا ہے۔شیر خان مطمئن ہو گیا اور صبح آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گیا۔

شبیر خاں نے صبح پونے چھ بجے دروازے پر دستک دے کر اطلاع دی کہ جیپ اور شیر خان دونوں آ گئے ہیں۔  ہمیں علم ہوتا کہ شبیر خان پابندیِ وقت میں قائد اعظم کی فوٹو کاپی ہے تو ہم اسے چھ بجے کا وقت دینے کی غلطی نہ کرتے۔ہمارا خیال تھا کہ چھ بجے کا وقت دیا ہے،ساڑھے چھ بجے بیدار ہوں گے،واش روم وغیرہ سے فارغ ہوتے ہوتے سات، ساڑھے سات بج جائیں گے۔اس وقت تک جیپ آ جائے گی۔پندرہ بیس منٹ میں ناشتہ کر کے ہم آٹھ بجے کے لگ بھگ اسکولی کے لئے روانہ ہو جائیں گے کہ یہی بھلے مانسوں کے آفس جانے کا وقت ہے۔مگر شبیر خاناں ؟

 ’’شبیر خان … یار تمہیں اتنا بھی علم نہیں کہ پاکستان میں چھ بجے کا مطلب سات بجے بلکہ آٹھ بجے ہوتا ہے۔ تم شادی وغیرہ اٹینڈ نہیں کرتے؟‘‘

 ’’ام کو کیا پتا تھا صاب کہ آپ ادر شادی بنانے آیا اے۔‘‘ شبیر خان نے ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔‘‘ ام سمجھا آپ اسکولی جاتا اے،اور جو اسکولی جاتا اے وہ صبح صبح چھ بجے بلکہ اس سے پہلے سکردو سے نکل جاتا اے۔‘‘

 ’’کیوں نکل جاتا ہے؟اسکولی صرف چھ گھنٹے کا سفر ہے۔صبح صبح نکلنا ڈرائیور کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ وہ جتنی جلدی اسکولی پہنچے گا،  اتنی جلدی سواریوں کا بندوبست کر کے واپس آ جائے گا۔ہمیں گھنٹے دو گھنٹے سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘

 ’’ابی ایسا بات نئی اے صاب۔پچھلے سال کا ام کو معلوم نئی،  مگر اس سال بانگسا نالا توڑا شرارت مرارت کرتا اے …  صبح صبح اس میں بوت توڑا پانی ہوتا اے۔جیپ آرام سے گزر جاتا اے۔ مگر جیسا جیسا سورج چڑھتا اے برف زیادہ پگھلتا اے اور نالے میں پانی چڑھتا جاتا اے۔ بارہ بجے اتنا پانی ہو جاتا اے کہ جیپ نہیں گزرتا۔‘‘

 ’’پھر کیا گزرتا ہے؟‘‘ عرفان نے پریشان ہو کر پوچھا۔

 ’’پھر صاب لوگ گزرتا اے۔‘‘ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔

 ’’ جیپ اگر نالا عبور نہیں کرے گی تو ہم اسکولی کیسے جائیں گے۔‘‘

 ’’اسی لئے تو بولتا اے کہ آپ جلدی نکلو۔ نالے پر رکاوٹ ہوا تو ڈرائیور آپ کو ایک ہزار روپے واپس کر دے گا۔نالا کے دوسری طرف جیپ کھڑا ہوتا اے۔آپ نالا کراس کر لو گے تو وہ آپ کو اسکولی لے جائے گا،مگر کرایہ تھوڑا زیادہ لے گا۔‘‘

 ’’کتنا زیادہ لے گا؟‘‘

 ’’ ’’ابی ام کیا بتائے سر۔وقت وقت کا بات اے۔اُدر زیادہ جیپ کھڑا ہو گا تو شاید دو ہزار میں چلا جائے۔دو چار جیپ ہو گا تو چار پانچ ہزار لے گا … اور صرف ایک جیپ ہوتا اے تو اُس کا مرضی،جتنا دل کرے گا مانگے گا۔‘‘

 ’’یہ ہمیں ایک ہزار واپس کرے گا اور ہم دوسری جیپ والے کو چار پانچ ہزار دیں گے۔تمہارا مطلب ہے ہم ساڑھے سات یا آٹھ ہزار میں اسکولی پہنچیں گے؟‘‘

 ’’ آپ دس بجے سے پہلے بانگسا پہنچے گا تو ساڑھے چار ہزار میں اسکولی جائے گا۔ لیٹ پہنچے گا تو آٹھ یا  نو ہزار میں اسکولی جائے گا۔‘‘

 ’’ہم ساڑھے چار ہزار میں اسکولی جائے گا۔‘‘ عرفان اچھل کر کھڑا ہوا اور رک سیک کی طرف جھپٹا۔

 ’’یار نہا تو لیں۔ ‘‘ میں نے احتجاج کیا۔

 ’’جو ادھر نہاتا اے وہ ساڑھے آٹھ ہزار میں اسکولی جاتا اے۔جو اسکولی کو شرفِ غسلیت بخشتا اے اسکولی اس کا چار ہزار بچاتا اے۔‘‘ عرفان نے شبیر خانی لہجے میں کہا۔

 ’’ام اسکولی کو شرفِ غسلیت بخشتا اے۔‘‘ میں نے جوابی اعلان کیا۔

ہم نے تیزی سے سامان سمیٹا اور ہوٹل سے باہر آ گئے۔جیپ میں ڈرائیور اور شیر خان کے علاوہ دو پورٹرز نما حضرات بھی تشریف فرماتھے۔

 ’’یہ کون صاحبان ہیں ؟‘‘ عرفان نے شبیر سے پوچھا۔

 ’’یہ جیپ کا ڈرائیور مومن خان اے اور یہ پوٹر اے۔ ‘‘ شبیر نے پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے دو افراد کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’یہ پورٹر کیوں ہے ؟ ہمیں پورٹرز کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ عرفان نے اعتراض کیا۔

 ’’یہ صرف امارے ساتھ جائے گا سر۔بے چارہ اسکولی جا کر کوئی کام وام تلاش کر لے گا اور امارا مدد بی کرے گا۔بانگسا نالے میں توڑا بوت مسئلہ ہو گا تو یہ نالے میں پتھر وغیرہ ڈالے گا اور جیپ نالے میں سے گزر جائے گا۔‘‘ ‘شیر خان نے سفارش کی۔

 ’’اور ہمارا چار ہزار بچ جائے گا۔‘‘ عرفان چہکا۔

 ’’جی سر۔‘‘ شبیر خان نے تائید کی۔

 ’’ان کا پیشگی شکریہ،اور تمہارا بھی بہت شکریہ۔‘‘

پورٹرز نے دانتوں کی نمائش کر کے ہمارا شکریہ ادا کیا۔ ہم ساڑھے چھ بجے اسکولی کے لئے روانہ ہوئے۔ہم سکردو سے نکل رہے تھے اور دریائے سندھ داخل ہو رہا تھا۔اس جگہ دریا کا پاٹ کافی چوڑا ہے اور ایک پرسکون ساحل کا منظر پیش کرتا ہے جسکے کنارے غیر معمولی ہریالی ہے۔یہ سکردو کے گرد و نواح میں دریائے سندھ کا خوبصورت ترین منظر ہے۔ اس ’’بیچ‘‘ کو تھوڑی سی ترقی دے دی جائے تو ایک خوبصورت تفریح گاہ وجود میں آسکتی ہے۔ اس دلکش پینٹنگ نما صحرائی منظر میں کچھ دور خپلو روڈ پر سفر کرنے کے بعد ہم بائیں ہاتھ مڑے اور دریائے سندھ پر بنایا گیا پل عبور کیا۔یہ پل تھورگو کے مقام پر بنایا گیا ہے … اور تھورگو کیا ہے؟

تھورگو وہ مقام ہے جہاں سکردو کی قسمت کا اہم ترین باب لکھا گیا تھا۔آجکل راستوں کی حالت تبدیل ہو چکی ہے۔۱۹۴۸ء میں کشمیر سے آنے والوں کو سکردو میں داخل ہونے کے لئے ’’تھورگو پڑی‘‘ سے گزرنا پڑتا تھا۔پڑی بلتی زبان میں ایسی گھاٹی کو کہتے ہیں جس کے دونوں جانب پتھریلی چٹانیں ہوں۔

بر صغیر کی آزادی کے وقت سکردو مہاراجہ کشمیر کے زیرِ تسلط تھا۔بلتستان کی جنگِ آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا۔مجاہدین نے گلگت میں آزاد حکومت قائم کرنے کے بعد سکردو چھاؤنی کا محاصرہ کر لیا۔چھاؤنی میں اڑھائی سو ڈوگرہ سپاہی موجود تھے جن کی قیادت کرنل شیر جنگ تھاپا کر رہا تھا۔مہاراجہ کشمیر نے سری نگر سے چار سو سپاہیوں کا ایک دستہ اور فوجی ساز و سامان بریگیڈیئر فقیرا سنگھ کی کمان میں بطور کمک روانہ کیا۔بریگیڈیئر فقیرا سنگھ سکردو پہنچ کر ڈوگرہ فوج کی کمان سنبھال لیتا اور ساڑھے چھ سو ڈوگرہ سپاہی سکردو چھاؤنی سے باہر نکل کر جنگِ آزادی کے مجاہدین پر ہلّہ بول دیتے۔

تھورگو پڑی نے مہاراجہ کشمیر کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔

تھورگو پڑی کے ایک جانب تھورگو نامی پہاڑی اور دوسری جانب ناربوچھنگ نامی گاؤں اور پہاڑی تھی۔ڈیڑھ کلومیٹر طویل یہ گھاٹی اتنی تنگ تھی کہ دو گھوڑے برابر برابر نہیں چل سکتے تھے۔مجاہدین کے پاس اسلحے اور افرادی قوت کی شدید قلت تھی۔انھوں نے تھورگو پڑی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس ہتھیار نے جنگِ آزادی کا رُخ پلٹ دیا۔بریگیڈیئر فقیرا سنگھ ایک گھوڑے پر سوار اپنے جوانوں کی قیادت کرتا ہوا گھاٹی میں داخل ہوا۔تمام سپاہی گھاٹی میں داخل ہو چکے تو پتھروں کی بارش شروع ہو گئی جس میں چند ایک فائروں کی آوازیں بھی شامل تھا۔پتھروں کی بارش کرنے والے سویلین تھے جو مجاہدین کی مدد کرنے کے لئے پڑی کی دونوں جانب کی پہاڑیوں پر پھیل گئے تھے۔بیش تر ڈوگرہ سپاہی تھورگو پڑی کے پتھروں کا نشانہ بن گئے،بہت سے دریائے سندھ کی لہروں کی نظر ہوئے۔ چند ایک فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، ان میں بریگیڈیئر فقیرا سنگھ بھی شامل تھا،مگر اس کے چہرے کی ایک تہائی کھال تھورگو پڑی میں ہی پڑی رہ گئی تھی۔

مجاہدین کو ڈوگرہ سپاہیوں کی لاشوں سے زیادہ خوشی اسلحہ کی مقدار دیکھ کر ہوئی۔ اسلحہ لانے کے لئے چھ سو مزدور استعمال کئے جا رہے تھے۔یہ اسلحہ مجاہدین کے علاوہ عام شہریوں میں بھی تقسیم کیا گیا اور مجاہدین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔اسی اسلحے کے بل بوتے پر مجاہدین کے ایک دستے کو کارگل پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔بلتستان کی جنگِ آزادی کے ہیرو اور اُس وقت کے ایریا کمانڈر میجر احسان علی لکھتے ہیں کہ سکردو کی قسمت کا فیصلہ سترہ مارچ ۱۹۴۸ء کو تھورگو پڑی کے پتھروں سے لکھا گیا۔

میں اس پڑی کے درشن کرنا چاہتا تھا،اس لئے مومن خان سے راہنمائی چاہی۔ اُس نے تھورگو پہاڑی کی نشاندہی تو کر دی لیکن اُس راستے اور مقام کی نشاندہی نہ کر سکا جہاں صرف ایک گھوڑے یا انسان کے گزرنے کی گنجائش تھی۔ شاید سکردو کے ارد گرد کا جغرافیہ اتنا بدل چکا ہے کہ اس ’’پڑی‘‘ کو سلیوٹ نہیں کیا جا سکتا،اور شاید وہ سڑک جس سے گزر کر ہم تھورگو پل پر پہنچے تھے تھورگو پڑی سے ہی گزرتی ہو!

سکردو سے وادیِ  شگر کے صدر مقام ’’ شگر‘‘ تک میٹل روڈ ہے اور شگر سے آگے اسکولی تک جیپ ٹریک ہے۔شگر ضلع سکردو کی تحصیل ہے۔ سکردو سے شگر کا سفر ایک  بلتستانی عیاشی ہے کیونکہ میرے خیال میں اتنی سیدھی اور شریف النفس سڑک  بلتستان میں کہیں اور نہیں پائی جاتی  … لیکن کبھی کبھی شگر کا سہانا سفر دھماکہ سفر ہو جاتا ہے۔

 ہم نے شگر روڈ پر دس بارہ کلو میٹر فاصلہ طے کیا ہو گا کہ مومن نے جیپ روک دی اور پاؤں سے ا  یکسلریٹر دبانے کے بجائے ٹیپ ریکارڈر پر پلے ہونے والے بلتی گانے کی دھن پر تھاپ دینا شروع کر دی۔

 ’’مومن خان صاحب آپ میں مومن خان مومن کی روح تو حلول نہیں کر گئی؟ میوزک سٹاپ بانگسا نالا کراس کرنے کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے۔وہاں تک تو نان سٹاپ چلیں۔ ‘‘ عرفان نے مومن خان سے کہا۔

 ’’ہم میوزک سننے کے لئے نہیں رُکا سر … دھماکے کی وجہ سے رُکا ہے۔‘‘

 ’’دھماکہ؟ … کیسا دھماکہ؟‘‘ میں نے گھبرا کر پوچھا۔

 ’’ابھی یہ پہاڑ اُڑے گا ناں۔ ‘‘ اس نے اطمینان سے کہا۔

 ’’او خدا کے بندے پہاڑ کیوں اُڑے گا؟‘‘ عرفان نے پریشان ہو کر دریافت کیا۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا کہ دھماکہ ہو گیا،بلکہ دھماکی ہوئی جس سے کوئی پہاڑ نہ اُڑا۔ گردو غبار کا ایک بگولا ضرور بلند ہوا جو چند منٹ میں غائب ہو گیا۔ مومن خان نے جیپ سٹارٹ کر دی۔گرد و غبار کے علاقے سے گزرتے ہوئے ہم نے چند ہیلمٹ پوش افراد کو ادھر اُدھر حرکت کرتے دیکھا۔غالباً انہی میں سے کسی نے مومن خان کو پہلے رکنے اور پھر آگے جانے کا اشارہ کیا تھا۔

 ’’بھائی مومن خان مومن صاحب!یہ دھماکے کیوں ہو رہے ہیں آخر؟‘‘  عرفان نے استفسار کیا۔

 ’’انجینئر لوگ پتھر نکالتا ہے ناں۔ یہ لوگ پہلے اندازہ لگاتا ہے کہ قیمتی پتھر کس جگہ ہو گا۔پھر ادھر سوراخ کرتا ہے۔ سوراخ میں بارود بھرتا ہے اور آگ لگاتا ہے۔اس طرح جو پتھر ٹوٹتا ہے اس میں سے قیمتی پتھر ملتا ہے۔یہ روز کا کاروبار ہے صاحب، آپ نے کبھی پتھر نکلتا ہوا نہیں دیکھا؟‘‘

ہم نے یہ منظر پہلے تو نہیں دیکھا تھا لیکن جب تک ہم دریائے شگر کے کنارے سفر کرتے رہے ہمیں اپنے دائیں جانب کی پہاڑیوں میں سوراخ اور پتھر نکالنے کے آثار نظر آتے رہے۔ان آثار کے علاوہ اس سفر کی اہم خصوصیت لینڈ سکیپ کی وسعت تھی … اور شگر کی ہریالی تھی۔امپیریل گزٹ آف انڈیا میں وادیِ شگر کو  بلتستان کا باغ (Garden of Baltistan) کہا گیا ہے اس کے علاوہ اسے سونے اور قیمتی پتھروں کی کان کے خطاب سے بھی نوازا گیا ہے۔شگر اور اس کے ارد گرد پائے جانے والے دریاؤں اور ندی نالوں ،  خاص طور پر دریائے شگر،دریائے برالدو اور دریائے باشا میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ طلا گری انتہائی منافع بخش پیشہ سمجھا جاتا تھا اور اس پیشے سے منسلک خاندانوں پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا تھا۔اب یہ پیشہ انتہائی محنت طلب اور ’’مہنگا سودا‘‘ ہونے کی وجہ سے ترک کیا جا چکا ہے لیکن شگر کے کئی گاؤں اب تک سونا گروں کے گاؤں کہلاتے ہیں۔

ناشتے کے لئے شگر نالے کے کنارے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا گیا۔

 ہوٹل خلاف توقع کافی صاف ستھرا تھا۔ڈائننگ ہال سے عقبی لان کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ہم نے ہال کے بجائے سر سبز اور گل و گلزار لان میں ناشتہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لان میں داخل ہوئے تو ایک لمحے کے لئے ٹھٹک گئے۔

 ’’یہ کیا شے ہے بھئی۔‘‘ عرفان نے حیرت سے کہا۔

یہ شے شہتوت اور بید کی چھڑیوں سے بنا یا گیا ایک عظیم الشان ٹوکرا تھا جو ایک کونے میں اوندھا پڑا تھا۔

 ’’کمرہ اے ناں صاب … ادھر ہوٹل کا ملازم رہتا اے۔‘‘ شیر خان نے بتایا۔

 ’’ یہ کیسا کمرہ ہے؟ … مجھے تویہ اُس ٹوکرے کا جمبو ایڈیشن لگتا ہے جس کے نیچے میری دادی اماں اپنی مرغیوں اور بطخوں کو ’’تاڑا‘‘ کرتی تھیں ؟‘‘ عرفان نے چاروں طرف سے ٹوکرے کا جائزہ  لیتے ہوئے کہا۔

 ’’ آپ کا دادی اماں مرغے کو تاڑتا تھا؟ … وہ مرغے کو کیوں تاڑتا تھا؟‘‘ شیر   ڑوٹا سا روائعو سنگکے بعد کہا:

خان نے شدید حیران ہو کر پوچھا۔

عرفان نے قہر آلود نظروں سے شیر خان کو گھورا۔

 ’’اس کا مطلب ہے مرغیوں کو ٹوکرے میں بند کر دیتی تھیں۔ ‘‘ میں نے وضاحت کی۔

ہم نے غور کیا تو علم ہوا کہ اس دڑبہ نما ٹوکرے میں ایک عدد دروازہ بھی لگایا گیا ہے۔ چھڑیوں سے بنا ہوا دروازہ پہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ٹوکرے میں اون کے نمدے بچھے ہوئے تھے جن پر تین چار رضائیاں پڑی تھیں۔ ہم برضا و رغبت اس دڑبے میں ’’تاڑے‘‘ گئے۔

 ’’کیا زبردست دڑبا ہے۔ دل چاہتا ہے زوردار آواز میں ککڑوں کوں کی صدا لگائی جائے۔‘‘ عرفان نے ٹوکرے میں بند ہونے کے بعد کہا۔

 ’’سوچ سمجھ کے لگانا … اس ہوٹل میں مرغ کڑاہی بھی بنتا ہو گا۔‘‘

 ’’ناشتہ یہیں نہ منگوا لیں ؟دڑبے میں ناشتہ کرنے کا موقع کب کب ملتا ہے؟‘‘ عرفان نے تجویز پیش کی۔

 ’’یہاں ناشتہ؟ … اس دڑبے میں آپ کی خدمت میں نیشنل پولٹری فیڈ یا رانی کھیت کی گولیاں پیش کی جا سکتی ہیں … گر قبول افتد۔ ‘‘

 ’’صاب آپ کو خامخا ڈراتا ہے سر … ادھر سب کچھ ملے گا۔آپ تشریف رکھو ہم ناشتا منگواتا ہے۔‘‘ مومن خان نے کہا

ناشتہ پراٹھوں ، انڈوں کے آملیٹ اور چائے پرمشتمل تھا۔ مجھے بھوک نہیں تھی اس لئے صرف چائے پر اکتفا کیا اور ٹوکرا تڑا کر فرار ہو گیا۔

  میں نے شگر نالے کے قریب ایک مسجد دیکھی تھی۔ میرا خیال تھا یہ وہی معروف مسجد ہے جس کی تعمیر حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی سے موسوم ہے …  لیکن یہ ایک خانقاہ تھی اور اس کا سنِ تعمیر۱۰۲۳؁ھ اور سنِ مرمت ۱۳۹۲؁ھ لکھا ہوا تھا۔یہ تبتی طرز تعمیر کی نمائندہ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد ہے جسکے منقّش دروازے اور کھڑکیاں بلتی سٹائل کی کندہ کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ وہاں موجود ایک مقامی باشندے نے بتایا کہ یہ خانقاہ سیّدوں کی خانقاہ کہلاتی ہے۔ حضرت امیر کبیر کی مسجد محلہ امبوڑک میں ہے اور تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ میں نے اُس سے شگر کے قابلِ دید مقامات کے بارے میں دریافت کیا۔اُس نے بتایا کہ شگر کا قلعہ سکردو کے قلعے سے زیادہ خوبصورت ہے اور اب اُسے ایک جدید ہوٹل میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔اُس کے خیال میں شگر کا پولو گراؤنڈ بلتستان کا قدیم ترین پولو گراؤنڈ تھا اور قابلِ دید مقامات میں شامل تھا۔

میں ابھی یہ معلومات حاصل کر رہا تھا کہ جیپ کا پریشر ہارن بار بار بجنے کی آوازیں  بلند ہوئیں۔  میں نے مقامی باشندے کو خدا حافظ کہا اور ہاتھ ملا کر جیپ کی طرف بڑھ گیا۔

٭٭٭

کدی ماردا اے چھمکاں دی مار

’’ویرانوں میں ہی زندگی جیسا معجزہ ظہور پذیر ہوتا ہے اور اس کی چکاچوند میں ہمارے سائنسی کارنامے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ ‘‘

(چارلس لنڈن برگ)

 

میں جیپ کے پاس پہنچا تو وہاں صرف ایک پورٹر کھڑا تھا جو بار بار ہارن بجانے کا فریضہ نبھا رہا تھا۔اُس سے عرفان وغیرہ کے بارے میں دریافت کیا تو علم ہوا کہ وہ لوگ مجھے تلاش کرنے چلے گئے ہیں۔  میں بہت حیران ہوا … چند منٹ کی غیر حاضری پر اتنی لمبی چوڑی تلاش کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟

میری واپسی کے بعد پورٹر پریشر ہارن کے بٹن پر رکھی گئی انگلی ہٹانا بھول گیا۔ میں نے توجہ دلائی تو اُس نے بتایا کہ میری واپسی کی نشانی مسلسل ہارن بجانا مقرر کی کئی ہے۔ شگر کی فضاؤں میں پریشر ہارن کی کان پھاڑ دینے والی آواز اُس وقت تک گونجتی رہی جب تک میری تلاش میں جانے والے واپس نہ آ گئے۔ عرفان نے واپس آتے ہی خفا ہونا شروع کر دیا کہ میں بغیر اطلاع غائب کیوں ہوا تھا؟ میں نے صفائی پیش کی کہ میں صرف چند منٹ کے لئے گیا تھا اور پہلے ہارن پر ہی واپس آ گیا ہوں ،اگر چند سیکنڈ انتظار کر لیا جاتا تو میری تلاش کی ضرورت پیش نہ آتی۔ میری صفائی سختی سے مسترد کر دی گئی اور وارننگ دی گئی کہ میں نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو ٹیم لیڈر انتظار کرنے کے بجائے مجھے چھوڑ چھاڑ کر آگے روانہ ہو جائے گا کیونکہ اُسے بروقت بانگسا نالا عبور کرنا ہے۔میں نے اس ڈانٹ ڈپٹ کو مائنڈ نہیں کیا۔ عرفان کے لہجے میں سرزنش سے زیادہ ’’مادرانہ‘‘ تشویش کا عنصر پایا جاتا تھا۔ڈاکٹر صاحب جیپ کے پاس نہیں ہیں تو کہاں گئے؟ ایسا تو نہیں کہ شگر نالے کی شوریدہ سری کا قریب سے نظارہ کرنے کی کوشش میں ادھر ادھر لڑھک گئے ہوں ؟

 ’’ویسے آپ بہت چٹک مٹک ہے صاحب۔‘‘ مومن نے جیپ سٹارٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا۔

 ’’ کیا مطلب؟ میں چٹک مٹک ہوں ؟دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟‘‘

 ’’ جی صاحب! آپ بہت چٹک مٹک ہے۔ اتنا ذرا سا دیر میں مسجد بھی دیکھ آیا۔ ہم ہارن نہ بجاتا تو آپ قلعے پر چڑھ جاتا۔‘‘

 ’’ یار خدا کا خوف کرو۔ یہ لفظ کسی نرم و نازک لڑکی کے لئے استعمال کرنا،وہ بہت خوش ہو گی۔میرا مذاق اڑا کر تمہیں کیا ملے گا؟‘‘

 ’’ہم  مذاق نہیں اڑاتا، تعریف اڑاتا ہے۔ابی آپ کا مذاق کیوں اڑائے گا؟ ابی آپ نے کرایہ بی نہیں دیا ہے۔‘‘

 ’’  کرایہ لینے کے بعد مذاق اڑاؤ گے ناں ؟‘‘ عرفان نے انتہائی پُر شوق انداز میں تصدیق چاہی۔

 ’’کیسا بات کرتا ہے سر۔ہم بے وقوف نہیں ہے۔ کرائے کے بعد صاحب سے ٹپ مانگے گا۔‘‘

مومن خان واقعی بیوقوف نہیں تھا۔

جیپ اپنی مخصوص رفتار اور آواز کے ساتھ آگے بڑھتی رہی اور ہم وادیِ شگر کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔میں وادیِ شگر کو جامع انداز میں بیان نہیں کر سکتا، کیوں نہ اس وادی کی جھلک ایف۔ڈریو کے الفاظ میں دکھائی جائے؟یہ صاحب اپنی کتاب ’’ہندوستان کے شمالی علاقے‘‘ میں فرماتے ہیں :

 ’’وادیِ شگر اسی نام کے قصبے سے چوبیس میل آگے تک پھیلی ہوئی ہے اور لگ بھگ تین میل چوڑی ہے۔یہ سطح سمندر سے اوسطاً آٹھ ہزار فٹ بلند ہے جبکہ اس کے دونوں جانب کی پہاڑیاں وادی سے سات ہزار فٹ بلند ہیں۔ اس وادی کی صحرائی اور پتھریلی سطح  کو کئی دریا اور بے شمار ندی نالے قطع کرتے ہیں اور ان پانیوں کے دونوں جانب کاشتکاری کی جاتی ہے۔ان دریاؤں سے چھوٹی چھوٹی نہریں بھی نکالی گئی ہیں جو قدرے دور کی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں۔ شگر نامی قصبہ دریائے شگر کے بائیں کنارے پر واقع ہے اور اس کی زمین بتدریج اُٹھان کی صورت میں پہاڑیوں کے دامن تک پہنچتی ہے۔اس زرخیز زمین میں گندم،جو،باجرہ اور مکئی کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔  یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شگر  بلتستان کی خوبصورت ترین وادی ہے۔‘‘

ہم وادیِ شگر میں سفر کر رہے تھے تو  بلتستان کی خوبصورت ترین وادی سے گزر رہے تھے،بلکہ پاکستان کی خوبصورت ترین وادی سے گزر رہے تھے کیونکہ پاک سر زمین کا کوئی اور علاقہ  بلتستان کی دلکش وادیوں کا ہم سر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

  تراپی اور حشوپی کے سر سبز اور ثمر بار باغات وادیِ شگر کی انفرادیت ہیں۔ شگر اگر  بلتستان کا باغ کہلانے کا مستحق ہے تو حشوپی کو شگر کا باغ کہنا چاہئے۔حشوپی میں باغات لگانے کا سلسلہ ڈوگرہ سردار مہتہ منگل سنگھ نے شروع کیا، اور ڈوگروں کا یہ واحد کارنامہ ہے جسے  بلتستان میں اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔کچھ لوگ حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ ڈوگرہ راج میں کوئی فلاحی منصوبہ کیوں اور کیسے پایہ تکمیل تک پہنچا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ سکھوں کے ’’بارہ‘‘ کی طرح ڈوگروں کا بھی کچھ نہ کچھ بجتا ہو؟

حشوپی سے گزرتے ہوئے مومن خان نے ایک کٹیا نما جھونپڑی کے سامنے گاڑی روکی اور کسی رستم خاناں کو آواز دی۔رستم خان باہر تشریف لایا اور ایک عدد شاپر اُس کے حوالے کر دیا۔شاپر کے کونوں کھدروں سے خوبانیاں جھانک رہی تھیں اور شاپر جوشِ شباب سے پھٹنے والی چولی کی طرح لبریز نظر آ رہا تھا۔مومن خان نے شاپر ہمارے حوالے کر دیا۔ میں نے خوبانیوں کی قیمت کے بارے میں دریافت کیا … مومن نے تعجب سے میری طرف دیکھا:

 ’’خوبانی کا پیسا کون لے گا سر؟‘‘

مرزا غالب نے آم کی شان میں قصیدہ لکھا تھا،اُس نے حشوپی کی خوبانی چکھ لی ہوتی تو خوبانی کا قصیدہ نہ کہتا، خوبانی پر غزل لکھتا۔شگر یا  بلتستان خوبانی کا آبائی وطن نہیں۔  اس کے اولین درخت یارقند اور ہنزہ سے لائے گئے۔بلتستان اور خاص طور پر شگر کی آب و ہوا خوبانی کو یارقند اور ہنزہ سے زیادہ راس آئی اور یہ شیرینی،لطافت اور رسیلے پن میں اپنے آبائی وطن کی پیداوار پر سبقت لے گئی۔بر صغیر کی تقسیم سے پہلے شگر کی خوبانی کی سب سے زیادہ کھپت لداخ اور سری نگر کی منڈی میں ہوتی تھی،اور یہ اتنی مقبول تھی کہ کشمیر کے لوگ  بلتستان کو ’’خوبانیوں کا تبت‘‘  یا ’’زرد آلوؤں کا ملک ‘‘ کہنے لگے تھے۔

ہور چس کے مقام سے گزرے تو مومن خان نے انکشاف کیا۔

 ’’ ہورچس کا گلیشیئر ہمارے دادا کے مرشد نے اگایا تھا۔‘‘

 ’’گلیشئر کیسے اُگایا جا سکتا ہے؟‘‘ عرفان نے حیران ہو کر سوال کیا۔

 ’’ ہمارا داد شریف کا مرشد شریف اوپر والے پہاڑسے ایک کدو میں نر گلیشیئر لایا تھا۔مادہ گلیشیئر دوسرے کدو میں تبت کی طرف سے لایا تھا۔ ان کے ملاپ سے ہورچس گلیشیئر اگایا تھا۔ہماری زبان میں ہور چس کدو کو بولتے ہیں۔ ‘‘

 ’’انہوں نے نکاح بھی پڑھایا تھا یا نہیں ؟دولہا دلہن کا نا جائز ملاپ تو نہیں کروا دیا تھا۔ ‘‘ میں نے اسے چھیڑنے کے لئے پوچھا۔

 ’’ہمارا مذاق بے شک اُڑاؤ سر، مگر مرشد شریف کو کچھ مت بولو۔وہ ناجائز ملاپ کیوں کرواتا؟‘‘ اس نے قدرے ناراضگی سے کہا۔

 ’’سوری، میں نے پچھلے سال وادیِ چُندہ میں ایک گلیشئر دیکھا تھا جو کسی بزرگ نے یاک کی کھال وغیرہ سے اگایا تھا۔ نر اور مادہ گلیشیئر کا ملاپ میرے لئے نئی بات ہے۔ تمہیں نر اور مادہ گلیشئر کی پہچان ہے؟‘‘

 ’’ کیوں نہیں ہے؟نر گلیشیئر مٹی کے رنگ کا ہوتا ہے اور اس کا برف موٹا موٹا ہوتا ہے … بدر منیر کی طرح۔اور مادہ گلیشیئر کا برف بالکل سفید ہوتا ہے۔ دودھ کی طرح  …  چکنا چکنا  …  نرم نرم … ملائم ملائم … اب ہم کیا بتائے کہ کس کی طرح؟‘‘

 ’’کیٹ ونسلٹ کی طرح کہہ لو … تم نے ٹائی ٹینک دیکھی ہے؟‘‘ عرفان نے مذاق اُڑانے والے انداز میں پوچھا۔

 ’’ آپ لوگ یقین نہیں کرتا؟ ہور چس کے گلیشیئر کا پانی دیکھو،آپ مانے گا کہ یہ بالکل کدو کے رنگ کاہے،پورا ملک میں اس رنگ کا پانی نہیں ملتا۔‘‘

 ’’شکر ہے تمہارے دادا کے مرشد بینگن میں گلیشئر نہیں لائے تھے۔ ‘‘

مومن نے گھور کر عرفان کو دیکھا اور احتجاجاً خاموشی اختیار کر لی۔

یونو سے گزر کر ہم الچوڑی پہنچے۔

وادیِ  شگر درختوں کے علاوہ قیمتی پتھروں کی دولت سے بھی مالا مال ہے اور الچوڑی کو اس ضمن میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔یہاں کے قیمتی پتھر کوہ ایلپس کے سلسلے میں پائے جانے والے پتھروں سے حیرت انگیز مماثلت رکھتے ہیں اور عالمی شہرت کے مالک ہیں۔ نیلم اس وادی کا خاص پتھر ہے اور ایک قابل ذکر مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے۔الچوڑی میں جنم لینے والے نہ جانے کتنے نیلم یورپ کی حسیناؤں کے گلے کا ہار بن چکے ہیں۔

 چھورکاہ کے مقام پر عجیب و غریب قسم کی جھاڑیو ں سے پالا پڑا۔یہ جھاڑیاں سڑک کے دونوں اطراف صف آرا تھیں اور ان سر سبز جھاڑیوں پر کھلے ہوئے  ننھے منے  سفید اور پیلے پھول ایک دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔یہ خوبصورت جھاڑیاں جیپ کے کھُلے ہوئے شیشے سے اندر داخل ہو کر جارحانہ بے تکلفی کا مظاہرہ کر رہی تھیں اور پیار بھری نوچ کھسوٹ پر اُتر آئی تھیں۔ یہ انوکھا استقبال کئی سو گز تک جاری رہا اور میرے بازو پر کئی خون آلود خراشیں نمودار ہو گئیں۔

چھورکاہ سے آگے چھورتن کے وسیع لینڈ سکیپ سے گزر ہوا۔اس سارے سفر کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ ہر بڑے قصبے میں آغا خان فاؤنڈیشن اور یورپی یونین کے تعاون سے سکول بنایا گیا تھا۔ فیڈرل گورنمنٹ کے سکول بھی موجود تھے۔ مختلف اداروں کے درمیان سکول بنانے کا مقابلہ چل رہا تھا اور اس صحت مندانہ رجحان کی وجہ سے  بلتستان کی تعلیمی حالت میں نمایاں بہتری کی توقع رکھی جا سکتی تھی۔

چھورتن سے چند منٹ کے فاصلے پر سامنے سے آنے والا دریائے برالدو اور بائیں جانب سے آنے والا دریائے باشا آپس میں مل کر دریائے شگر کو جنم دیتے ہیں جو سکردو پہنچ کر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔ہم دریائے شگر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچے تھے اور اب دریائے برالدو کی وادی میں داخل ہو رہے تھے۔وادیِ باشا ہمارے بائیں ہاتھ تھی اور سنا ہے کہ یہ بہت خوبصورت وادی ہے۔ کسی زمانے میں برالدو اور باشا کی درمیانی تکون میں ’’غوڑو چھو‘‘ نامی شہر بستا تھا۔غوڑو چھو اُس وقت کے  بلتستان کا دارالحکومت تھا۔ روایت ہے کہ غوڑو چھو کے باشندے دریائے باشا اور برالدو سے سونا حاصل کرتے تھے اور میلوں ٹھیلوں میں مصروف رہ کر دادِ عیش دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ غوڑو چھو کے میدان میں جام چھلکائے جا رہے تھے اور بدمستی اپنے عروج پر تھی۔اتفاقاً ایک فقیر وہاں آ نکلا اور کھانے کا سوال کیا۔لوگوں نے اُسے دھتکار دیا۔ فقیر سخت طیش کے عالم میں واپس جانے لگا تو ایک عمر رسیدہ خاتون نے اُس کی خدمت میں ایک سوکھی روٹی پیش کر دی۔ فقیر نے روٹی کے دو حصے کئے۔ایک حصہ خود تناول فرمایا اور دوسرا خاتون کو دے کر کہا کہ وہ اسے کھاتی ہوئی غوڑو چھو سے دور چلی جائے اور جب تک روٹی ختم نہ ہو پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ خاتون نے فقیر کی ہدایت پر عمل کیا اور روٹی کھاتی ہوئی ایک پہاڑی پر چڑھنے لگی۔ روٹی ختم کرنے کے بعد مڑ کر دیکھا تواُس کے ہوش اُڑ گئے۔ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈ پتھروں کے طوفان کی صورت میں غوڑو چھو کی طرف بڑھ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے غوڑو چھو کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے پر اب بھی فقیر کی بد دعا کا اثر ہے اور یہاں کوئی بستی نہیں بسائی جا سکتی۔ کوئی شخص اگر یہاں گھر بناتا ہے تو چند روز بعد اوپر سے پتھروں کا ریلا آتا ہے اور سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔

  تقریباً نو بجے ہم داسو کے مقام پر دریائے برالدو پر بنا ہوا پل کراس کر رہے تھے۔

چند سال پہلے داسو آخری جیپ سٹاپ تھا اور اسکولی روڈ داسو روڈ کہلاتی تھی۔ شنید ہے کہ داسو سے اسکولی تک کا راستہ کے۔ٹو بیس کیمپ کے راستے کا خطرناک ترین اور انتہائی دشوار گزار مرحلہ تھا۔ میرا ہاتھ خود بخود اس پل کو سلیوٹ کرنے کے لئے اُٹھ گیا۔یہ پل نہ ہوتا تو عرفان غونڈو غورو اور میں واپس سکردو جا رہا ہوتا۔

داسو سے چند کلومیٹر آگے مومن نے جیپ روکی۔

 ’’گاڑی گرم ہو گیا ہے سر … ہم پانی لینے جاتا ہے۔‘‘

اس نے دوڑ لگائی اور درختوں کے ایک جھنڈ کے پیچھے غائب ہو گیا۔ہم نے چند منٹ سکون سے انتظار کیاپھر بے چینی ہونے لگی۔

 ’’یار دیکھو تو سہی مومن خان کہاں غائب ہو گیا ہے؟‘‘ عرفان نے جیپ کے عقبی حصے میں بیٹھے ہوئے شیر خان کو مخاطب کیا۔

 ’’ادر اُس کا گھر اے صاب۔گاڑی گرم ہو گیا اے تو ڈرائیور بی گرم ہو گیا ہو گا ناں۔ وہ جیپ لے کے ہوشے سائڈ پر گیا ہوا تھا۔ابی کئی دن کے بعد آیا اے۔تسلی وسلی کر کے واپس آئے گا۔ آپ بی تسلی رکھو۔‘‘ شیر خان نے جواب دیا۔

ہم جیپ سے اتر آئے اور سفیدے کے جھنڈ کے نیچے کھڑے ہو کر تسلی وسلی رکھتے ہوئے مومن خان کا انتظار کرنے لگے۔ارد گرد کا منظر انتہائی سر سبز و شاداب تھا لیکن کہساروں پر چھائی ہوئی گھٹا گھنگور  … گھور …  شور نہیں مچا رہی تھی، چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں میں سجے ہوئے بے شمار پھول رنگ نہیں بکھرا رہے تھے، دریا کے پتھریلے کنارے اور جیپ ٹریک کے درمیان پھنسی ہوئی تنگ دامن لیکن انتہائی سرسبز نخلستانی پٹی اپنی طرف متوجہ نہیں کر رہی تھی۔ بادلوں ،  پھولوں اور ہریالی میں سے بانگسا نالے کا غضبناک دھارا ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور ہماری جیبوں سے ایک ایک ہزار کے کئی نوٹ چرا کر اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا تھا۔

ہم شدید گرج چمک کے ساتھ مومن خان پر اپنا غصہ اُتارنے کے لئے پر تول رہے تھے لیکن مومن خان ہماری توقع سے زیادہ چالاک ثابت ہوا۔وہ ایک ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا جری کین اور دوسرے ہاتھ میں غصہ روکنے کے لئے ایک مضبوط ڈھال کی کلائی تھامے کھلکھلاتا ہوا نمودار ہوا۔

 ’’یہ ہمارا عورت ہے سر۔‘‘ اس نے ڈھال کا تعارف کروایا۔ ’’ ابھی یہ آپ کو پانی دیتا ہے۔ آپ انصاف سے بولو! بالکل کدو کے رنگ کا ہے کہ نہیں ہے؟‘‘

اسے اپنی تاخیر اور ہمارے غصے کا بخوبی اندازہ ہو گا۔اس نے ہمارے جذبات پر پانی پھیرنے کا انتظام کیا اور اس کے حسنِ انتظام کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔خاتون بے پردہ نہیں تھی۔اس نے اپنا چہرہ گھونگھٹ کی اوٹ میں چھپانے کی کوشش کی تھی۔یہ کوشش کسی حد تک ناکام تھی کیونکہ دوپٹہ یا تو چہرہ چھپا سکتا تھا یا پھر … ؟

 جو جھلک نظر آئی تصویر نظر آئی۔

خاتون نے گلاس میں پانی انڈیلا اور عرفان کو پیش کر دیا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب رنگ تو واقعی کدو جیسا ہے۔‘‘ عرفان نے گلاس اپنے ہاتھ میں لئے بغیر پانی کا جائزہ لیتے ہوئے اعلان کیا۔

 ’’نان سنس … ‘‘ میں نے زیر لب کہا۔

عرفان نے مجھے گھور کر دیکھا لیکن کوئی جواب نہ دیا۔

 ’’آپ اس کو پی کر دیکھو صاحب۔ یہ پانی ہورچس سے آیا اے۔گلیشئر کا پانی ہے مگر چشمے کے پانی سے زیادہ میٹھا نہ ہو تو بے شک ہمارا نام بدل دو،ہمارا بیوی کو بھی یہ نام پسند نہیں ہے۔‘‘ ریڈی ایٹر میں پانی ڈالتے ہوئے ڈرائیور نے چیلنج کیا۔

 ’’تم اس کے پہلو میں بھی مومن بن کر رہتے ہو گے؟‘‘

 ’’اس کے کس میں مومن بن کے رہتا ہو گا؟‘‘ اس نے چوکنا ہو کر پوچھا۔

 ’’میرا مطلب ہے تم اس کے پاس بیٹھ کر بھی مومن بنے رہتے ہو گے۔‘‘

میری بات اسے چند لمحے بعد سمجھ آئی،اور سمجھ آئی تو اس نے زوردار قہقہہ لگایا۔

 ’’اوئےئےئے … صاب آپ کیسا بات کرتا اے؟‘‘ اس نے بمشکل ہنسی پر قابو پا کر کہا۔ ’’اِس کے پاس بیٹھ کے ہم مومن کیسے رہ سکتا ہے؟ایسا وقت میں تو ہم پورا کافر کا بچہ بن جاتا ہے۔یہ خود ہر وقت مومنہ بنا رہتا ہے۔‘‘

 عرفان نے گلاس کا پانی چکھے بغیر مومن کا دعویٰ تسلیم کر لیا۔ اس لئے مومن کا نام مومن ہی رہا۔

مومن اور مومنہ کے بیچ  … آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور خاتون ایک ہاتھ میں جری کین اور دوسرے میں جگ گلاس اُٹھائے مست مست قدموں سے چلتی ہوئی واپس چلی گئی۔درختوں کے جھنڈ کے قریب پہنچ کر مومنہ نے جگ بردار ہاتھ لہرا کر اپنے ’’کافر‘‘ کو الوداع کہا۔

شیر خان نے ہماری طرف دیکھا اور مسکراتی ہوئی نظروں سے سوال کیا۔

 ’’صاب تسلی وسلی کا مطلب سمجھا کہ نئیں سمجھا ؟‘‘

 ’’آپ نے نان سنس کیوں کہا تھا؟‘‘ عرفان نے بھی سوال کیا۔

میں نے ڈرائیور کی طرف دیکھا۔وہ جیپ کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس تک ہماری آواز پہنچنے کے امکانات بہت کم تھے۔

 ’’ مومنہ کی کلائی کو کدو رنگ قرار دینا انتہائی نان سنس حرکت تھی۔‘‘

 ’’میں نے کلائی کو نہیں پانی کو کدو رنگ کہا تھا۔‘‘ عرفان نے احتجاج کیا۔

 ’’اچھا؟آپ بقائمی ہوش و حواس اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کیٹ ونسلٹ کی کلائی سے کئی گنا زیادہ دودھیا اور گدرائی ہوئی کلائی کی موجودگی میں پانی کی رنگت کا جائزہ لے رہے تھے اور اس کے باوجود آپ کو عاقل کے ساتھ ساتھ بالغ بھی سمجھا جائے؟‘‘

عرفان نے چند لمحے سوچا،پھر ’’نان سنس‘‘ کہہ کر مسکراتے ہوئے اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

سفر دوبارہ شروع ہوا اور گیارہ بجے  … تھا جسکا انتظار وہ شاہکار آ گیا … وہ مقام جہاں سڑک بلاک ہونے کی اطلاع تھی۔اب تک یہ بانگسا تھا،لیکن یہاں پہنچ کر علم ہوا کہ اس کا درست تلفظ بہانگسہ ہے۔ سڑک بلاک ہونے کی اطلاع گمراہ کن تھی۔جو سڑک موجود ہی نہ ہو وہ بلاک کیسے ہو سکتی ہے؟

اوپر سے آنے والا شوریدہ سر بہانگسہ نالہ تقریباً بیس فٹ جیپ روڈ اپنے ساتھ بھگا لے گیا تھا اور اب وہاں کوئی روڈ نہ تھی،صرف نالہ تھا۔ دو جیپیں ہم سے پہلے یہاں پہنچی تھیں اور ان کے ڈرائیور اور پورٹرز بڑے بڑے پتھر اس نالے کے دھارے میں ڈال کر سڑک  ’’اگانے ‘‘ کی کوشش کر رہے تھے۔ نالے کے بہاؤ میں ڈالے ہوئے بیش تر پتھر پانی کے شدید ریلے کے سامنے مزاحمت کرنے سے عاری تھے اور جمے رہنے کے بجائے نالے کے طوفانی بہاؤ میں شامل ہو کر دریا بُرد ہو رہے تھے۔ ہماری جیپ کا ڈرائیور اور پورٹرز بھی اس شغل میں شامل ہو گئے۔

 ’’ڈاکٹر صاحب نالہ کراس کر لیں ؟‘‘ عرفان نے کچھ دیر بعد تجویز پیش کی۔

 ’’کیا مطلب؟ …  راستہ تو بننے دیں۔ ‘‘

 ’’راستہ خالی جیپ کے لئے بنے گا۔آپ دیکھیں دھارا کتنا تیز ہے؟ڈرائیور ہمیں جیپ میں بٹھا کر نالہ عبور کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔ میرا خیال ہے بارہ بجے تک اس ریلے میں اضافہ جاری رہے گا اور اس وقت اسے پیدل عبور کرنا آسان نہیں ہو گا۔بہتر ہے ہم اسے ابھی کراس کر لیں۔ ‘‘

ہم نے پائنچے چڑھائے، ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ ے اور ٹھنڈے ٹھار ’’دل پچھاڑ‘‘ پانی کے طوفانی دھارے میں داخل ہو گئے۔ ہم سے پہلے کچھ پورٹرز ٹہلتے ہوئے گزر ے تھے، لیکن وہ عادی تھے۔ ہمیں لشٹم پشٹم لڑکھڑاتے ہوئے دیکھ کر انھوں نے مسرت آمیز قلقاریاں بلند کیں اور ہمارے لئے ہدایات جاری کرنا شروع کر دیں۔

 ’’صاب ڈانس مانس مت کرو … پیر جما کر رکھو۔‘‘

 ’’ او یارا پہاڑی کی طرف ٹھہرو ناں … سمندر کی طرف کیوں جاتا اے؟‘‘

 ’’صاب اپنا پاؤں کی طرف دیکھو … امارا طرف مت دیکھو۔‘‘

ہم نے اس ہوٹنگ کو نظر انداز کر کے اپنے قدموں کو پتھروں میں پھنسائے رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ پانی کا ریلا نہ صرف دریا کی طرف دھکیل رہا تھا بلکہ اوپر اچھالنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ہم نے ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے نالہ کراس کر لیا اور اس چھوٹے سے ایڈونچر کو اچھا خاصا انجوائے کیا،جب یہ ختم ہو گیا۔

 دوسرے کنارے پر پہنچ کر ہم پورٹرز کی محنت کا نتیجہ دیکھنے لگے جو قطعاً حوصلہ افزا نہیں تھا لیکن ڈرائیورز اور پورٹرز مایوس نہیں تھے۔ وہ چند لمحوں کے لئے رک کر پسینہ پونچھتے اور مزید پتھر لا کر نالے میں ڈال دیتے۔کچھ دیر بعد اسکولی سے دو اور جیپیں آ گئیں۔  اس کمک نے صورت حال اور مورال پر انتہائی خوشگوار اثر ڈالا۔ اب پتھروں کے نالے میں گرنے کی رفتار بہہ جانے والے پتھروں سے زیادہ تھی اور راستے کی شکل نمودار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ایک گھنٹے بعد پہلی جیپ نے ٹرائی کی۔یہ منظر قابل دید تھا، جیپ لڑکھڑاتی تھی، ڈولتی تھی،  پانی کا دھارا اس کے درمیان،  بلکہ اوپر سے گزرتا تھا،لیکن ڈرائیور کی مہارت نے طوفانی دھارے کی طاقت کو شکست دی اور بخیر و عافیت نا لا عبور کر لیا۔اس جیپ کے مسافر غیر ملکی تھے، اور جیپ سے پہلے نالا عبور کر چکے تھے ایک گورے نے پانچ ڈالر کا نوٹ بطور انعام پیش کیا،ڈرائیور نے وہ نوٹ ٹرافی کی طرح بلند کیا اور چوم کر جیب میں رکھ لیا۔

 ایک کے بعد دوسری اور پھر ہماری جیپ بحفاظت گزر گئی۔ ہم نے اپنے ڈرائیور کو شاباش اور مبارکباد پر ٹرخایا۔اس مردِ مومن کو بھی ہم سے کوئی اچھی امید نہ تھی اس لئے وہ باآسانی ٹرخ گیا اور کسی کی ماں بہن کی شان میں گستاخی کرنے لگا۔

 ’’آپ کسے گالیاں دے رہے ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

  ’’اُس خنزیر کے تخم انجینئر کو،اور کس کو دے گا؟‘‘

 ’’ انجینئر کو گالیاں کیوں دے رہے ہیں ؟‘‘ انجینئر عرفان نے چونک کر پوچھا۔

 ’’آپ نے یہ پلر نہیں دیکھا ؟‘‘ اس نے ایک ادھورے ستون کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’دیکھا ہے۔شاید اگلے چند سال میں یہاں پل بن جائے۔ ‘‘

 ’’اب نہیں بنے گا ناں۔ اس جگہ ہر سال پرابلم بنتا ہے۔ حکومت نے ادر پُل بنانے کا فیصلہ کر لیا۔سارا سامان آ گیا اور کام بھی شروع ہو گیا۔ پلر مکمل ہوا تو پرانا انجینئر کا بدلی ہو گیا۔ نیا انجینئر کوئی …  تھا۔ اس …  کا ادھر دل نہیں لگا۔ اس …  نے اوپر رپورٹ بھیجا کہ اس جگہ پل کا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گورنمنٹ  … کا پیسہ ضائع ہوتا ہے۔بس پھر کام رک گیا۔سامان اور وہ  … انجینئر نعرہ مارتا ہوا واپس چلا گیا۔ ‘‘

خالی جگہ حسبِ ذائقہ گالیوں سے پُر کر کے پیرا گراف دوبارہ پڑھ لیں۔

 پتہ نہیں اس ادھورے ستون کو قائم رکھنے میں کیا مصلحت تھی؟ بہانگسہ پل کا منصوبہ اگر ختم کر دیا گیا تھا تو اِسے بھی ختم کر دینا چاہئے۔ جب تک یہ ستون باقی ہے انجینئر کی شان میں دی گئی گالیوں کے انبار میں اور واقفان حال کے نامہ اعمال کی سیاہی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

دو بجے ہم اپالی گون پہنچے اور مومن صاحب نے لنچ کا مطالبہ پیش کر دیا۔

اپالی گون کا اکلوتا ریستوران قدیم و جدید کا امتزاج تھا۔ جدید طرز کے برآمدے اور ملحقہ لان ہم جیسے خارجیوں کے لئے بنائے گئے تھے۔مقامی باشندے قدیم ڈائننگ ہال ہی کو ترجیح دیتے تھے۔یہ ڈائنگ ہال نا تراشیدہ پتھروں اور درختوں کے تنوں سے تعمیر کیا گیا تھا جس کی بیرونی دیواروں پر تندور کے دھوئیں سے اور اندرونی دیواروں پر سگریٹ کے دھوئیں اور نسوار کی پچکاریوں سے آٹو میٹک قسم کا پینٹ ہو گیا تھا۔ میرا ارادہ اس کلاسیکل ہال میں بیٹھ کر کھانا کھانے کا تھا لیکن یہاں کے دھواں دھار ماحول اور فرش پر بچھے ہوئے اون کے نام نہاد قالین سے اٹھتی ہوئی بو نے اس ارادے سے باز رکھا اور ہم لان میں بچھی ہوئی کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔

 کھانے کا معیار ’’بس ٹھیک‘‘ تھا۔ گرما گرم تندوری روٹی نے شوربے پر تیرتے ہوئے کئی عیوب کو چھپا لیا۔ ’’صاحبوں ‘‘ اور ’’پورٹروں ‘‘ کے لئے ریٹ مختلف تھے۔ہماری سبزی کی پلیٹ مومن خان کی گوشت کی پلیٹ سے دُگنا مہنگی تھی۔

چار بجے کے لگ بھگ اسکولی روڈ کی تنگ گھاٹیاں اختتام کو پہنچیں اور ہم ایک کشادہ کشادہ نخلستان میں داخل ہوئے … یہ تبدیلی اتنی اچانک تھی کہ میں نے حیران ہو کر اُس جادوگر کو تلاش کرنے کی کوشش کی جس کے سحر نے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اردگرد کی دنیا کو یکسر بدل ڈالا تھا۔

یہ دلکشا نخلستان تھونگل تھا … ایک خوبصورت کیمپنگ سائٹ!

لیکن ٹھہرئیے !تھونگل سے پہلے … بارے اسکولی روڈ کا کچھ بیان ہو جائے۔

سکردو تا شگر میٹل روڈ ہے۔ شگر سے آگے اسکولی روڈ مزاجِ یار کی طرح بات بے بات برہم ہونے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔ دریائے برالدو سڑک سے کچھ ہٹ کر بہہ رہا ہو تو اسکولی روڈ ایک شریف النفس اور مہربان ہم سفر معلوم ہوتی ہے۔ جیسے ہی دریا قریب آتا ہے یہ بد چلن سڑک برالدو سے ہم آغوش ہونے کی کوشش میں مصروف ہو جاتی ہے اور جیپ میں پھنسا ہوا مسافر اس ہم آغوشی کے نتیجے میں جنم لینے والے نتائج کا اندازہ کر کے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔

دور بہت ہی دور سڑک سے اور اس سے بھی دور …  برالدو چنگھاڑتا ہے۔ کاش یہ دوری آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہوتی۔ یہ نا معقول دوری تقریباً نوے درجے کا زاویہ بناتی ہوئی  بلا روک ٹوک قسم کی عمودی گہرائی کی صورت میں ہے۔ اس گہرائی کے کنارے پر اسکولی روڈ کئی ہیئرپن لوپ قسم کے موڑ کاٹتی ہے۔ جیپ کو یہ نازک نازک موڑ کاٹنے کے لئے کئی مرتبہ آگے پیچھے ہونا پڑتا ہے … اور جب یہ آگے ہوتی ہے تو پتہ نہیں کہاں آگے ہوتی ہے؟ …  ایک دو مقامات ایسے آئے جب میرا دل چاہا کہ جیپ سے چھلانگ لگا دوں اور جیپ مڑ چکے تو دوبارہ سوار ہو جاؤں ، لیکن چھلانگ لگانے کی جگہ تو دور کی بات ہے،جیپ کے اطراف میں قدم تک دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ عرفان سے معذرت کروں اور رُک سیک اُٹھا کر جیپ سے اتر جاؤں … اسکولی جانا کیا ضروری تھا؟ … کیوں نہ واپس جا کر شگر کے تاریخی قلعے میں قیام کروں … امیر کبیر سید علی ہمدانی سے منسوب مسجد کی زیارت کروں … شگر کا پولو گراؤنڈ دیکھوں اور دیوسائی اسکولی جیپ سفاری کو دیوسائی شگر جیپ سفاری میں بدل دوں … لیکن یہ سوچ مکمل ہونے سے پہلے اسکولی روڈ وسیع لینڈ سکیپ میں داخل ہو کر شرافت اور معصومیت کا لبادہ اوڑھ لیتی تھی۔ میں واپس جانے کا ارادہ ملتوی کر کے   …  رب کا شکر ادا کر بھائی  … جس نے اسکولی روڈ بچھائی …  کا ورد کرتے ہوئے اردگرد کے مناظر پر نظر ڈالتا تھا اور اسکولی روڈ کی بے راہروی کو بھول جاتا تھا۔

اسکولی روڈ پر سرسبز ہریالی اور گلابی ’’حریانی ‘‘ کا حسین امتزاج ہماری جیپ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا۔ میرے لئے یہ منظر بالکل نیا تھا اور میں پوری طرح اس منفرد منظر کے سحر میں مبتلا ہو چکا تھا۔دونوں جانب آسمان کو چھو لینے کی کوشش کرنے والی گلابی گلابی چٹانوں کی ڈھلوانی سطح پر فطرت کے سنگتراش نے تجریدی آرٹ کے نمونے کندہ کر دیئے تھے۔ ان نمونوں میں سب سے دلچسپ وہ لہریئے تھے جو ساحلِ سمندر کی ریت پر لہروں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بننے والے نشیب و فراز سے مشابہ ہیں اور یہ عجیب و غریب لہریئے اُس طوفانِ عظیم کی تصدیق کرتے ہیں جس کے چرچے میں نے پچھلے سال وادیِ چُندہ کے ایک مولوی صاحب کی زبانی سُنے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ کئی صدی پہلے سکردو اور وادیِ روندو کی سرحد پر ایک انتہائی خوفناک لینڈ سلائیڈ نے دریائے سندھ پر مصنوعی بند باندھ دیا تھا۔یہ وہی مقام ہے جہاں آجکل سکردو ڈیم تعمیر کئے جانے کے منصوبے زیر غور ہیں۔ اس ڈیم کا آئیڈیا غالباً اسی لینڈ سلائیڈ سے لیا گیا ہو گا۔اس قدرتی بند کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیلابِ عظیم نے سکردو سے کارگل تک کے علاقے کو ایک جھیل میں تبدیل کر دیا تھا اور سکردو وغیرہ دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئے تھے، بالکل اسی طرح جیسے سکردو ڈیم بننے کی صورت میں غائب ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اسکولی کے راستے کی چٹانوں کے لہریئے اس سیلاب کی باقیات میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔  سکردو کارگل جھیل طویل عرصے تک قائم رہی۔دریائے سندھ نے اپنا راستہ صاف کر لیا تو سرزمینِ بلتستان دوبارہ نمودار ہوئی اور رفتہ رفتہ آباد بھی ہو گئی۔میں کیونکہ اس سیلاب کا تفصیلی تذکرہ سن چکا تھا اس لئے ان لہریوں کو دلچسپی سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسکولی روڈ کی خواہش ہے کہ اُس پر سفر کرنے والے صرف اُسے اور اُس کے منظورِ نظر دریائے برالدو کو دیکھیں ،اِدھر اُدھر تانک جھانک کرنے کی کوشش نہ کریں۔ چند منٹ کی ’’منہ ماری‘‘ کے بعد بھی میں دوبارہ اسکولی روڈ کی طرف متوجہ نہ ہوا تو اُس نے میرا دل دہلانے کے لئے ایک مرتبہ پھر برالدو سے محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں …  اس بالم کی طرح جو:

کدی کدی کردا اے پیار

تے کدی ماردا اے چھمکاں دی مار

ہائے نی میرا بالم ہے بڑا ظالم

 اسکولی روڈ البتہ بالم جتنی ظالم نہیں ہے۔ ’’مار‘‘ اور ’’پیار‘‘ کے وقفوں میں انتہائی منصفانہ توازن قائم رکھنے کے لئے دل دہلنے کے اختتامی مرحلے سے پہلے ایک وسیع اور پُر سکون لینڈ سکیپ میں داخل ہو جاتی ہے۔

اسکولی روڈ پر سفر کرنا ایک یادگار تجربہ ہے جس کی سحر انگیزی کا اندازہ اسکولی روڈ پر سفر کئے بغیر ممکن نہیں۔  ایں جہانِ دیگر است … و دلکش است … و چشم کُشا است … و پتا نہیں کیا کیا کُشا است۔اس روڈ پر سفر کرتے ہوئے میں اُن لوگوں کی ’’ حماقت‘‘ پر حیران ہوتا رہا جو جیپ ٹریک بننے سے پہلے یہاں سے گزرتے تھے۔ سنا ہے کسی زمانے میں کے۔ٹو بیس کیمپ ٹریک سری نگر سے شروع ہوتا تھا اور زوجی لا، برزل پاس اور سکردو سے ہوتا ہوا تین ماہ میں کے۔ٹو کے برفانی لبادے کو بوسہ دیتا تھا  …  اُس وقت کاؤنٹ ابروزی جیسے سر پھرے یہاں تشریف لاتے تھے اور کے۔ٹو سر کرنے کا نیا راستہ ’’ابروزی رِج‘‘ دریافت کر کے واپس چلے جاتے تھے … ایک سال بعد!

اس کے علاوہ کاشغر اور یارقند سے آنے والے تاجر حضرات بھی یہی راستہ اختیار کرتے تھے۔وہ مستاغ پاس عبور کر کے چین سے  بلتستان میں داخل ہوتے اور دریائے باشا کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے وادیِ شگر سے گزر کر براستہ سکردو کشمیر کی منڈی تک رسائی حاصل کرتے … یہ لوگ بھی خرید و فروخت سے فارغ ہو کر چائنا واپس چلے جاتے تھے  …  ایک سال بعد!

اُن دنوں اسکولی روڈ  بلتستان سے چین جانے کا مختصر ترین راستہ تھا۔

پس ثابت ہوا کہ یہ ایک تاریخی راستہ ہے۔

تھونگل میں جیپ رکی تو ہم نے بہت سے لوگوں کو دریا کی سمت بھاگتے دیکھا۔ میں تھونگل میں اپنی آمد کو ’’مولا جٹ ٹائپ اینٹری‘‘ سمجھ کر فلک شگاف بڑک مارنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ مومن خان مومن اور شیر خاں بھی فرار ہو گئے۔ہم نے ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بجائے اس ریس کے شرکاء میں شامل ہو نا مناسب سمجھا اور دریائے برالدو کے کنارے شور مچاتے ہوئے بے ہنگم ہجوم کا حصہ بن گئے۔

میری نظر تھونگل کے برالدو پر پڑی تو … بھول گیا سب کچھ … یاد نہیں اب کچھ  … بس یہی بات نہ بھولی … برالدو !آئی لو یو …  میں نے تندو تیز دریا دیکھے تھے،بپھرے ہوئے دریا دیکھے تھے،غضبناک دریا دیکھے تھے … پُر کشش،پُر جلال اور پُر شکوہ دریا پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔ کاش مجھے منظر نگاری کے فن پر مکمل عبور حاصل ہوتا اور میں اس دلکش منظر کے منفرد تاثر کو جوں کا توں منتقل کر سکتا۔

برالدو کے سحر سے آزاد ہوا تو مجھے اُس نیلے ڈرم نے اپنی جانب متوجہ کیا جو دریائے برالدو میں ڈبکیاں لگا رہا تھا اور سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔کچھ لوگ ڈرم پر نظریں جمائے دریا کے کنارے کنارے دوڑ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ ڈرم کنارے کے نزدیک آئے تو اسے پکڑنے کی کوشش کی جائے،  لیکن برالدو کے دھارے کی رفتار بہت تیز تھی اور ڈرم ادھر ڈوبے اُدھر نکلے … اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے کی تفسیر بنا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

 لوگ ڈرم کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کرتے واپس ہوئے۔ یہ ڈرم ’’اوپر‘‘ سے بہتا ہوا آیا تھا اور اس کی ملکیت نا معلوم تھی۔ دعائیں کی جا رہی تھیں کی اس ڈرم سے کوئی خطرناک حادثہ وابستہ نہ ہو۔ ہمارے ساتھ آنے والے پورٹرز ’’بوجھ ‘‘ کی تلاش میں روانہ ہو گئے۔ مومن خان اور شیر خان چند منٹ بعد واپس آ گئے۔ مومن خان نے اپنی اجرت وصول کی،ہمارے بقیہ سفر کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور الوداعی مصافحہ کر کے ایسے گروپ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا جو تھونگل سے سکردو جانا چاہتا ہو۔

اس ہنگامے نے ہمیں تھونگل پر پہلی نظر کے سواد سے محروم کر دیا۔

تھونگل سنگلاخ چٹانوں میں پھنسا ہوا ہریالی کا سمندر ہے جو عارضی خیمہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ شیر خان نے بتایا کہ ایک ہفتہ قبل جیپ اسکولی تک جاتی تھی لیکن تقریباً دو ہفتے پہلے دریائے برالدو غضبناک ہو گیا اور آہستہ آہستہ جیپ روڈ پر قبضہ جمانا شروع کر دیا، یہاں تک کہ روڈ کا بیش تر حصہ زیرِ آب آ گیا۔اب اکثر لوگ تھونگل پر ہی کیمپ لگا لیتے ہیں اور یہیں سے ٹریک کا آغاز ہوتا ہے۔کئی ٹور کمپنیوں نے یہاں کیمپنگ سائٹ بنائی ہوئی ہیں جو ان کے کلائنٹس کے لئے مخصوص ہیں۔  تھونگل کافری زون بھی بہت وسیع ہے اور کہیں بھی کیمپنگ کی جا سکتی ہے۔ کیمپنگ سائٹ میں جگہ جگہ رنگ برنگے خیمے بکھرے ہوئے تھے۔عرفان ان خیموں کے درمیان گردش کرتے ہوئے کئی چہروں پر کیٹی ہونے کا شبہ کرنے کے موڈ میں تھا لیکن وقت کی کمی کے باعث اُس نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا۔

تھونگل نامی قصبہ پتہ نہیں کہاں تھا اور کیسا تھا۔تھونگل کیمپ سائٹ ایک چھوٹا سا سبزہ زار تھا جس کی مارکیٹ دنیا کی منفرد ترین مارکیٹ تھی۔اس مارکیٹ میں صرف ایک دکان تھی،اور وہ حجام کی تھی۔ آپ نے دنیا میں کوئی ایسی مارکیٹ دیکھی ہے جہاں ایک ہی دکان ہو اور وہ بھی حجام کی؟ … نہیں دیکھی؟

رک سیک اُٹھائیے اور حجامت کرانے کے لئے تھونگل تشریف لے آئیے۔

 تھونگل میں دریائے برالدو کے کنارے بیٹھ کر اس کی بپھری ہوئی اور گرج دار لہروں کا نظارہ ایک منفرد اور مسحور کن تجربہ ہے۔ میں حیران تھا کہ لوگ صرف تھونگل اور تھونگل کے دریائے برالدو سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہاں کیوں نہیں آتے؟ اسے صرف راہ گزر یا عارضی قیام گاہ کے طور پر کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ آپ گھر سے صرف تھونگل آنے کا ارادہ کر کے یہاں آئیں ، دریائے برالدو کے کنار ے دو تین دن کیمپنگ کریں ، ارد گرد گھومیں پھریں اور واپس چلے جائیں۔  یقین کریں آپ زندگی کی انمول ساعتوں سے فیض یاب ہوں گے … اور ہاں تھونگل کے اکلوتے بیوٹی پارلر میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی حجامت بنوانا ہرگز نہ بھولیں۔

٭٭٭

ہو پرانی بھی تو پوشاک بچا کر رکھیے

’’فطرت کو نہ تو دھوکا دیا جا سکتا ہے اور نہ بے وقوف بنایا جا سکتا ہے … یہ آپ کی محنت کا انعام آپ کے حوالے کرنے سے پہلے اُس کی پوری قیمت وصول کر لیتی ہے۔‘‘

(نپولین ہل)

 

ہم نے ڈیڑھ دو گھنٹے تھونگل میں گزارنے کے بعد اس کولی جانے کا فیصلہ کیا۔ میں جیپ سفاری کے ارادے سے آیا تھا اور پیدل ٹریکنگ میرے شیڈول میں شامل نہیں تھی اس لئے میرا دل بے ایمان ہو رہا تھا۔عرفان کی مجبوری ہے تو وہ جائے اسکولی  …  تھونگل کے سرسبز و شاداب میدان، اُس میں نصب خیموں اور خیموں میں آتی جاتی سنگِ مرمر کی مورتیوں کا حق تھا کہ تھونگل کی آغوش میں ایک رات گزاری جائے۔ اسکولی میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں ؟  …  لیکن میرا رک سیک بغاوت پر اُتر آیا۔

 ’’سر جی اسکولی یہاں سے صرف دو کلومیٹر دور ہے … قدرت کے برفانی عجائب گھر کے ’’بابِ حیرت ‘‘ کا دیدار کئے بغیر واپس چلے جائیں گے؟ … دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے ؟ ‘‘

رُک سیک نے میرے کاندھوں پر سواری گانٹھی اور چابک اُٹھا لیا … چل میرے دو ٹانگوں کے گھوڑے چل … چلا چل دوڑے چل!

اسکولی روڈ کے دائیں جانب دریائے برالدو اور بائیں جانب اونچی اونچی پہاڑیاں تھیں۔  ہم ان دونوں کے درمیان اسکولی روڈ کی باقیات پر قدم جماتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ جس جگہ سڑک کے ایک دو فیصد شناختی نشانات موجود تھے وہاں تک دریائے برالدو کی سرکش لہروں کا قدموں سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کر کے واپس چلے جا نا اچھا لگتا رہا۔جب سڑک بالکل غائب ہو گئی اور دریائے برالدو کی سطح سڑک سے کئی فٹ بلند ہو گئی تو قدموں کو آٹومیٹک بریک لگ گئے۔

 ’’شیر خان صاحب اب آگے کیسے جائیں ؟‘‘ میں نے گھبرا کر سوال کیا۔

 ’’اب آگے نئی جائے گا،اوپر جائے گا۔‘‘ شیر خان نے اطمینان سے جواب دیا۔

 ’’اوپر؟ … کہاں اوپر؟‘‘ میں نے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا۔

 ’’اس پہاڑی پہ چڑھے گا ناں۔ ‘‘

 ’’یار شیر خان صاحب خدا کا خوف کرو … اس پہاڑی پر چڑھنا میرے بس کا روگ ہوتا تو میں کے۔ٹو بیس کیمپ نہ چلا جاتا؟‘‘

 ’’ ابی اس پہاڑی کی چوٹی پر تو نئی جانا اے … تھوڑا اوپر چڑھے گا …  سو دوسو قدم چلے گا اور اسکولی روڈ دوبارہ نظر آتا اے تو آرام سے نیچے اتر جائے گا۔‘‘

شیر خان کے لئے یہ ایک معمول تھا،عرفان کے لئے شغل تھا،میرے لئے گلے میں پڑا ہوا ڈھول تھا جسے بجانا مجبوری تھی۔چڑھائی کی حد تک غنیمت تھا، لیکن برالدو کی لہروں اور پہاڑی کی چوٹی کے درمیان معلق ہو کر دو سو قدم فاصلہ طے کرنا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ پہاڑی بھربھری مٹی (سکری) پر مشتمل تھی جس پر قدم جمتے نہیں تھے، پھسلتے تھے۔شیر خاں  …  اور شیر خان سے پہلے برالدو کی لہروں کے بھنور میں پھنسا ہوا ڈرم وارننگ دے چکے تھے کہ پھسلنے کا مطلب برالدو کی دعوت قبول کرنا ہے  … سیاں نیچے آنا رے  …  آ کے پھر نہ جانا رے  … اور پھر نہ جانا تو کہاں جانا؟ … جہاں نیلا ڈرم گیا تھا؟ …  پھسلنے سے زیادہ پھسلنے کا خوف طاری رہا اور میں نے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی کوشش کی۔

 شیر خان نے اس پر بھی اعتراض کر دیا۔

 ’’صاب اِدر قدم روکنا نئی اے۔اوپر سے پتھر آ گیا تو کیا کرے گا؟‘‘

 ’’یار شیر خان ڈراؤ مت۔ایک طرف تم کہتے ہو پھسلنا منع ہے،دوسری طرف کہتے ہو آہستہ چلنا منع ہے۔آخر میں کیسے چلوں ؟ یہ ناہنجار چپل الگ تنگ کر رہے ہیں ، سکری نہیں پھسلتی تو یہ پھسل جاتے ہیں۔ ‘‘

 ’’آپ امارا  جوگر لے لو صاب … اپنا چپل ام کو دو … مگر ذرا تیز چلو۔‘‘

 ’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ میں اس پیشکش سے بہت خوش ہوا۔

میں نے شیر خان کے جوگر پہن کر چند قدم ہی اٹھائے ہوں گے کہ ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا۔مجھے محسوس ہوا کہ میرا پاؤں آگے چلا گیا ہے،شیر خان کا جوگر کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر پاؤں کی طرف دیکھا،پاؤں جوگر کی حدود  سے باہر آ گیا تھا،جوگر البتہ پیچھے نہیں رہا تھا،پاؤں میں اٹکا ہوا تھا۔

 ’’شیر خان۔‘‘ میں نے گھبرا کر ہانک لگائی۔ ’’یار یہ جوگر پھٹ گیا ہے،اب کیا ہو گا؟ … اسکولی سے نیا جوگر مل جائے گا ناں ؟‘‘

 ’’فکر مت کرو صاب۔آپ چلتا رہو،یہ اب نہیں پھٹا،پچھلے سال پھٹا تھا۔‘‘ شیر خان نے اطمینان سے کہا۔

 ’’کیا مطلب؟تم یہ پھٹا ہوا جوگر پہن کر غونڈو غورو جانا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے اپنے پاؤں کو جوگر کی حدود تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

 ’’کیوں نئی جائے گا؟ام پچھلے سال کنکارڈیا نئی گیا تھا؟‘‘

 ’’تم پچھلے سال پھٹے ہوئے جوگر پہن کر کنکارڈیا گئے تھے؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’نئے جوگر کیوں نہیں خریدے؟‘‘

 ’’صاب آپ جوگر کے بجائے چلنے کا فکر کرو،ام جوگر خریدے کہ روٹی خریدے؟‘‘ شیر خان نے تلخ لہجے میں کہا۔

اس بات کو بیان کرنا بہت مشکل ہے کہ میں نے پھٹے ہوئے جوگر کے ساتھ یہ فاصلہ کیسے طے کیا؟

چلنے کا حوصلہ نہیں ، رکنا محال کر دیا

 ’’اس ناروا‘‘ سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

تمام تر دشواری کے با وجود پھسلنے کی رفتار میں کمی ہو گئی تھی۔ اسکولی روڈ کی جھلک دوبارہ نظر آئی تو جان میں جان آئی۔ نیچے اترنے کے بعد راستہ کافی بہتر ہو گیا۔ میں نے شیر خان کے جوگر واپس کر دیئے … وہ کچھ اور پھٹ گئے تھے۔

لینڈ سکیپ ایک مرتبہ پھر بدل رہا تھا۔تھونگل اور اسکولی کے درمیان چٹانوں کی ہیئت منفرد تھی … ان کی مخروطیت اور توازن میں اہرامِ مصر کی شباہت پائی جاتی تھی۔ یہ اہرامی ماحول میرے حواس پر چھا گیا اور مجھے عملاً ہپناٹائز کر دیا … یہاں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کی ابتدائی شکل کیا تھی اور انسان نے اسے کتنا بدل دیا ہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ انسان خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے ویرانوں کا رُخ کیوں کرتا رہا ہے  …  اور کیا یہی وہ پہاڑ اور دریا نہیں ہیں جن کے بارے میں سورۃ الرعد میں فرمایا گیا:

 ’’اللہ نے زمین پھیلا کر بچھا دی اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کر دیئے …  اور غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ‘‘

مہاتما بدھ نے نروان حاصل کرنے کے لئے ویرانوں میں دھونی کیوں رمائی ؟  … مکہ کے ایک ویرانے میں موجود غارِ حرا میں کونسی خوبی تھی کہ خیرالبشر نے بھری جوانی کی راتیں اس غار میں سجدہ ریز ہو کر گزار دیں ؟ … خدا نے موسیٰ کو اپنی تجلی دکھانے کے لئے ویرانے کو کیوں منتخب کیا؟

میں اپنے خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اسکولی روڈ نے پیار کا وقفہ ختم کر کے چھمکاں دی مار کا پیریڈ شروع ہونے کی گھنٹی بجا دی۔ یہ مار ایک پہاڑی نالے کی صورت میں نازل کی گئی جو اوپر سے آ کر دریائے برالدو میں گرتا تھا۔شیر خان اور عرفان اسے عبور کر چکے تھے اور میرا انتظار کر رہے تھے۔ شیر خاں کے بقول عام دنوں میں اس  نالے میں زیادہ پانی نہیں ہوتا تھا،لیکن اس وقت یہ برالدو کا ولی عہد بنا ہوا تھا۔ میرے چپل باتھ روم میں بھی پھسلنے سے باز نہیں آتے اس لئے میں نے احتیاطاً جوگرز پہننے کا ارادہ ظاہر کیا …  لیکن عرفان نے روک دیا:

 ’’ جوگرز پہن کر نالہ عبور کرنا مناسب نہیں۔ آپ کے پاؤں شل ہو جائیں گے اور جوگر خراب ہو جائیں گے۔‘‘

 ’’پھر میں کیا کروں ؟یہ چپل …  بہت پھسلنے والے ہیں۔ ‘‘

 ’’ فکر نہ کریں ،میرے چپل بھی پھسلنے والے ہیں ،بس آ جائیں۔ ‘‘

 میں نے محتاط انداز میں نالے سے گزرنا شروع کر دیا۔چپل واقعی نہیں پھسلے اور میں نے بحفاظت نالہ عبور کر لیا لیکن … !

ضروری نہیں کہ حادثہ کسی خطرناک جگہ پر ہی ہو … میں نالے کے کنارے ’’ محفوظ‘‘  جگہ پہنچ کر سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک درمیانے سائز کا پتھر اوپر سے لڑھکتا ہوا آیا اور میری پنڈلی سہلاتا ہوا دریا برد ہو گیا۔میں اس ناگہانی آفت کو سمجھ نہ سکا اور لڑکھڑا کر دوبارہ نالے میں تشریف لے جانے لگا تھا کہ شیر خاں نے بروقت حاضر دماغی کا مظاہرہ کیا اور آگے بڑھ کر مجھے سنبھال لیا۔ ہوش و حواس درست ہونے کے بعد میں نے قدم اُٹھانے کی کوشش کی تو پنڈلی میں درد کی شدید لہر اُٹھی۔

 میں نے پنڈلی کا تفصیلی جائزہ لیا، بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔پاؤں کو جنبش دینے کی کوشش کی تو دیکھنے میں ’’ہٹا کٹا‘‘ نظر آنے والے پاؤں نے ہلنے جلنے سے صاف انکار کر دیا۔

 ’’یہ تو گیا کام سے۔‘‘ میں نے پاؤں کو جنبش دینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

 ’’ شیر خاں تم کہہ رہے تھے اسکولی تک کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ‘‘ عرفان نے پتھر کا غصہ شیر خان پر نکالنا چاہا۔

 ’’ مسئلہ تو کوئی نہیں ،  یہ جیپ روڈ ہے، مگر پتھر آنے کا کیا پتا ہوتا ہے ؟‘‘

میں نے درد کی گولیاں کھائیں۔ دس پندرہ منٹ تک پنڈلی کو سہلایا اور آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا۔

 ’’جی؟کیا صورتِ حال ہے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’اس وقت تو شاید گزارا ہو جائے،لیکن کل واپس جاتے وقت اُس نا معقول پہاڑی پر سے گزرنا تقریباً نا ممکن ہو گا۔ ‘‘ میں نے چند قدم چلنے کے بعد عرفان سے کہا۔

 ’’کل کی کل دیکھی جائے گی۔دوا  آپ لے چکے ہیں ،اسکولی میں ریسٹ کے بعد انشاء اللہ سو فیصد فٹ ہو جائیں گے۔‘‘ عرفان نے  پُر امید لہجے میں کہا۔

 ’’صاب چلتا اے ؟ یا ام کوئی بندوبست کرتا اے؟‘‘ شیر خان نے میری لنگڑاہٹ دیکھ کر سوال کیا۔

 ’’صاب اگر نہیں چلتا تو تم کیا بندوبست کرتا ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔

 ’’آپ کا وزن زیادہ نہ ہوتا تو کمر پہ اُٹھا لیتا۔ابی آپ کو سہارا دے گا۔‘‘

 ’’شکریہ!مگر میں کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

واکنگ سٹک نے رفاقت کا حق ادا کر دیا اور مجھے علم ہوا کہ …  سٹک بڑے کام کی چیز ہے۔اس سے پہلے میں واکنگ سٹک کوٹریکنگ ٹول سے زیادہ سٹیٹس سمبل سمجھتا تھا جسے ہاتھ میں لے کر ٹریکر ذرا معزز معزز لگتا ہے۔

اسکولی سے فوراً پہلے ایک بے ڈھب ’’پڑی‘‘ سے واسطہ پڑا اور اس پتھریلی چڑھائی کو سر کرنے میں مجھے دانتوں پسینہ آ گیا۔ جو پتھر عرفان اور شیر خان کے قدموں تلے مضبوطی سے جما رہتا تھا، میری چپل کا لمس محسوس کرتے ہی لڑھکنیاں کھانے پر اتر آتا تھا۔ میں نے ایسے پتھروں کا انتخاب کرنے کی کوشش کی جو عرفان اور شیر خان کی زد سے محفوظ رہے ہوں ،مگر یہ سوا سیر ثابت ہوئے۔ عرفانی اور شیر خانی پتھر دو چار قدم لڑھک کر رک جاتے تھے … خالص اقبال ہمائی پتھر برالدو سے پہلے بریک نہیں لگاتے تھے۔ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ پتھروں کی بغاوت کے پیچھے برالدو کا ہاتھ ہے:

میں خوب سمجھتا ہوں یہ دریا کی ہے سازش

پتھر اگر میرا ہی قدم روک رہے ہیں

 میں ہائے وائے کرتا ہوا اس پڑی کی بلندی پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

پڑی سے آگے منظر نامے میں وسعت آ گئی اور اب ہماری نظروں کے سامنے ایک شریفانہ پگڈنڈی تھی جو سنہرے کھیتوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔اس پگڈنڈی پر چلتے ہوئے ہمیں ایک مرتبہ پھر برالدو کے کنارے سفر کرنے کا اعزاز حاصل ہوا … اور اس جگہ میں نے پہلی مرتبہ ’’جھولا پل‘‘ کو فعال حالت میں دیکھا۔برالدو کے آر پار ایک فولادی تار باندھا گیا تھا، لکڑی سے بنا ہوا ایک چوکور ڈبا اس تار سے منسلک تھا، ایک خاتون اس ڈبے میں تشریف فرما تھی اور ڈبہ آہستہ آہستہ سفر کرتا ہوا دوسرے کنارے کی طرف جا رہا تھا … ہم کافی دیر سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ ڈبہ چل کیسے رہا ہے؟ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا تو شیر خان نے انکشاف کیا کہ خاتون کی انگلیاں اس ڈبے کو ڈرائیو کر رہی تھیں … ڈبہ کیونکہ برالدوکی آدھی سے زیادہ وسعت عبور کر چکا تھا اس لئے ہم خاتون کی فنکاری کا مشاہدہ نہیں کر سکے …  خواتین کسی بھی چیز کو کسی بھی فنکاری کے بغیر انگلیوں پر نچا سکتی ہیں  …  بے چارہ جھولا کیا وقعت رکھتا تھا؟

شیر خان نے بتایا کہ یہ جھولا پل کا جدید ترین ماڈل ہے۔ابتدائی ماڈل میں فولاد کے تار کی جگہ بید کی نرم شاخوں سے بنائے گئے تین عدد رسے اور لکڑی کے ڈبے کی جگہ رسیوں سے بنا ہوا جھولا استعمال کیا جاتا تھا … اور میں حیران تھا کہ ڈبہ نشین خاتون تشریف کہاں لے جا رہی تھی؟اپالی گون کے بعد اسکولی روڈ پر آبادی نہ ہونے کے برابر نظر آئی تھی اور یہ سوچنا محال تھا کہ برالدو کے اُس پاربا قاعدہ بستی ہو گی جو اس جھولا پل کے ذریعے اسکولی اور اسکولی روڈ سے منسلک ہو گی۔شیر خان نے بتایا کہ برالدو کے اُس پار ایک نہیں کئی بستیاں ہیں۔ یہ خاتون اس وقت جس درّے سے گزر رہی ہے وہ اسکولی سے شگر جانے کا شارٹ کٹ ہے اور ’’سکورا لا‘‘ (SAKORA LA)کہلاتا ہے۔اسکولی روڈ نہیں بنی تھی تو شگر براستہ داسو چار دن کا ٹریک تھا جبکہ شگر براستہ سکورا لا دو دن میں پہنچا جا سکتا تھا اور چین سے کشمیر جانے والے تاجروں کے علاوہ ہنزہ سے سکردو آنے والوں کا یہ مقبول ترین راستہ تھا۔عرفان کا فرمانا تھا کہ اگر ڈاکٹر صاحب خاتون کے تعاقب میں ’’ سکورا لا‘‘  کراس کر لیں تو ’’ غونڈو غورو لا ‘‘ کراس کرنے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔اُس بیچارے کو علم نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس قسم کی بنیادیں رکھنے کا کوٹہ عرصہ دراز پہلے پورا کر چکے ہیں۔

تھونگل سے جھولا پل تک برالدو کا رویہ غیر مہذبانہ … بلکہ کمینہ کمینہ رہا تھا۔ جھولا پل سے آگے برالدو نے تمام زیادتیوں کی تلافی کر دی اور ایک انتہائی خوبصورت منظر کا تحفہ ہماری خدمت میں پیش کر دیا۔

یہ منظر اسکولی کی پہلی جھلک تھا۔

اسکولی کی پہلی جھلک نے یہ تاثر دیا کہ وقت کا پہیہ جب چاہے اُلٹا گھوم سکتا ہے  …  اور آپ کو بھی گھما سکتا ہے … کم از کم ایک صدی پُرانا طرزِ تعمیر رکھنے والا اسکولی ایک پینٹنگ کی طرح نظروں کے احاطے میں آیا اور حواس پر چھا گیا … سکردو سے اسکولی زمان و مکاں کا سفر ہے،اس دوران جیپ خواہ آگے کی طرف رینگتی رہے …  گردشِ ایّام مسلسل پیچھے کی طرف دوڑتی رہتی ہے اور مسافر انتہائی غیر محسوس انداز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ دنیا سے نکل کر پتھر کے زمانے میں پہنچ جاتا ہے۔

تھونگل سے اسکولی ٹریک کا فاصلہ چالیس منٹ سے ایک گھنٹہ سمجھا جاتا ہے، ہم اڑھائی گھنٹے میں اسکولی پہنچے۔ اسکولی ہریالی کی چاردیواری سے گھرا ہوا ایک انتہائی شاداب قصبہ اور ایک بہت مصروف کیمپنگ سائٹ ہے، لیکن اس وقت ؟

 ’’آپ کہہ رہے تھے اسکولی بہت مصروف کیمپنگ سائٹ ہے … یہاں تو اُلّو بول رہے ہیں۔ ‘‘ میں نے عرفان سے شکوہ کیا۔

 ’’اچھا؟ … یہ جو بول رہے ہیں الو بول رہے ہیں ؟‘‘ عرفان نے میرے چہرے پر نظر جماتے ہوئے شوخ لہجے میں سوال کیا۔

 ’’اِس سے بہتر تھا تھونگل میں رُک جاتے … وہاں کافی رونق تھی … کیمپنگ کے دوران تھوڑا بہت ہلا گلا تو ہونا چاہیے۔‘‘

 ’’آپ واپسی پے تھونگل میں ایک رات کے واسطے رُک جانا صاب۔‘‘ شیر خان نے دخل اندازی کی۔ ’’عرفان صاب کو پئی یو میں بوت زیادہ رونق مل جائے گا،اُدر پورٹر لوگ خوب ڈانس مانس کرتا اے۔‘‘

 ’’تم بھی کرتے ہو؟‘‘

 ’’ام کیوں نئی کرتا؟ … ابی آپ ڈرپوک نئی ہوتا تو آپ کو غونڈو گورو کراس کراتا  …  اور ہسپانگ میں زبردست ڈانس وانس دکھاتا۔‘‘

 ’’تھوڑا بہت یہاں بھی دکھا دو۔‘‘ میں نے فرمائش کی۔

 ’’اکیلا ڈانس کرنے کا مزا نئی آتا اے … پورا گروپ ہو گا تو ڈانس کرے گا۔‘‘

ہم ایڈونچر ٹورز کمپنی کی کیمپنگ سائٹ میں پہنچے۔اس کے ارد گرد کئی اور کیمپنگ سائٹس بھی موجود تھیں لیکن وہاں بھی صرف ہم بول رہے تھے۔پہلی نظر کا تاثر یہی تھا کہ جدید طرز کی کیمپنگ سائٹس، ادارۂ موسمیات کی عمارت میں نصب ٹاور اور ٹیلی کمیونیکیشن کی عمارات اسکولی کے ماحول کو غیر متوازن بناتے ہیں … فطرت کی کلاسیکل پینٹنگ کے نام کو دھبا لگاتے ہیں۔

عرفان نے پچھلے سال ایڈونچر ٹورز کیمپنگ سائٹ میں قیام کیا تھا۔کیمپنگ سائٹ کا مین گیٹ مارخور کے سینگوں سے آراستہ تھا اور یہاں جدید طرز کے چند کمرے اور سنگِ مرمر کے ٹائیلوں سے مزین باتھ روم موجود تھے۔ کیمپنگ سائٹ ایڈونچر ٹورز کے کلائنٹس کے لئے فری تھی۔ ہم جیسے فری لانسرز سے دوسو روپے فی بندہ کیمپنگ فیس وصول کی جاتی تھی۔یہ کیمپنگ سائٹ اسکولی کی شرافت کی گواہ تھی۔تمام کمرے اور باتھ روم وغیرہ کھُلے ہوئے تھے  … چھوٹا موٹا سامان بھی موجود تھا لیکن کوئی رکھوالا یا منتظم نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہم نے لان میں کیمپ لگا لیا۔ کیمپنگ انتظامیہ نہ جانے کہاں سو رہی تھی،اور شیر خان کا فرمانا تھا کہ  …  جو سوتی اے …  وہ چھ سو روپے کھوتی اے۔

خیمہ نصب کر لیا تو کھانے کی فکر ہوئی۔

 ’’شیر خان کھانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

 ’’اسکولی میں کھانا ملتا اے ناں …  آپ کیا کھائے گا؟‘‘

 ’’ہم کوفتے کھائیں گے۔‘‘ عرفان نے کہا۔

 ’’کوفتہ تو اسکولی میں نئیں ملتا … ادر صرف دال یا سبزی ملتا اے۔‘‘ شیر خان نے مایوسی سے کہا۔

 ’’میرے رک سیک میں پکے پکائے کوفتوں کا ڈبہ موجود ہے۔تم انہیں تھوڑا سا فرائی کر لو اور کسی ہوٹل سے روٹیاں لے آؤ۔‘‘

شیر خان چلا گیا اور ہم گھوم پھر کر کیمپنگ سائٹ کا جائزہ لینے لگے۔شیر خان تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایک پتیلے پر چمچ سے تھاپ دیتا ہوا نمودار ہوا۔

 ’’آپ کھانے کا ڈبہ نکالو صاب۔ تھوڑا دیر میں روٹی بی پہنچ جاتا اے۔‘‘

عرفان رک سیک سے کوفتوں کا سر بند ڈبّہ اور جیب سے ملٹی پرپز نائف سیٹ نکال کر ٹن کٹر سے ڈبہ کھولنے لگا۔

 ’’ٹھہرو ٹھہرو صاب،یہ کیا کرتا اے … ڈبہ کھولتے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر ضرور بولو۔ ‘‘  شیر خان نے ہدایت کی۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘ عرفان نے ہاتھ روک کر اُسے گھورا۔

 ’’ یہ ڈبہ کافر انگریزوں کا ملک میں بنا اے۔ اُن کا کیا خبر؟ جانور پر بسم اللہ پڑھا ہو کہ نہ پڑھا ہو۔مسلمان کو تو پڑھنا چاہئے ناں۔ ‘‘  شیر خان نے نہایت مدبرانہ انداز میں اظہار خیال فرمایا۔

 ’’ میرا خیال ہے یہ ڈبہ پاکستان میں بنا ہے اور اس پر بڑے بڑے لفظوں میں حلال لکھا ہوا ہے۔ ‘‘ عرفان نے ڈبے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

 ’’حلال تو صاب جیو لوگ بھی لکھتا اے۔ ‘‘ شیر خان نے جارحانہ انداز میں کہا۔

 ’’شیر خاں تم کوئی مفتی وغیرہ تو نہیں ہو؟‘‘ عرفان نے لاجواب ہو کر کہا۔ ’’ مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ حلال کا لفظ یہودی بھی استعمال کرتے ہیں ۔‘‘

 ’’مفتی ؟ … ام مفتی وفتی بالکل نئیں اے صاب۔پیسا دیتا اے چیز لیتا اے  …  اور ام گورا لوگ کے ساتھ کافی سارا ایکسپیڈیشن پر گیا اے،ام نے دیکھا اے۔ جیو لوگ اپنے کھانے کو حلال  بولتا اے۔ ‘‘ شیر خان نے ناراض ناراض لہجے میں وضاحت کی۔

 ’’ مگر اہلِ کتاب کا ذبیحہ کھانا حلال ہے، پھر ڈبے پر تکبیر پڑھنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ ‘‘

 ’’ فائدہ تو ہو سکتا اے نا صاب۔آپ یہ بولو نقصان کیا اے؟‘‘ شیر خاں نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

عرفان نے بسم اللہ،اللہ اکبر کہتے ہوئے ڈبہ حلال کیا اور شیر خان کے حوالے کر دیا۔ ہمارے پاس فی الحال انتظار کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا اس لئے اسکولی کی مٹر گشت کا پروگرام بنایا گیا۔عرفان نے میرے پاؤں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا  … لیکن میرا خیال تھا جہاں اتنا چل لیا ہے وہاں اسکولی کے دوچار گلی کوچوں کی خاک چھاننے سے کیا فرق پڑے گا؟

اسکولی کچی گلیوں اور کچے پکے در و دیوار کا بے ترتیب مجموعہ ہے جس کی کل آبادی ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ان در و دیوار میں قرونِ وسطیٰ کے طرزِ تعمیر کی جھلک آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اکثر مکانات کی کھڑکیاں ،دروازے اور روشندان بید یا شہتوت کی چھڑیوں سے بنے ہوئے ہیں ۔ گھروں کی چھت پر چھڑیوں سے بنا ہوا چوبارہ اسکولی کی انفرادیت ہے۔ ان  چوباروں میں سردیوں کے لئے ایندھن اور خوراک ذخیرہ کی جاتی ہے۔شگر کے ریستوران میں بنایا گیا ٹوکرا اسکولی کے چوباروں کی جدید فوٹو کاپی تھا۔ اسکولی کی کیمپنگ سائٹ میں اس قسم کے ٹوکروں کی ایک دو قطاریں بنا دی جائیں تو اس طرزِ تعمیر کو نہ صرف محفوظ کیا جا سکتا ہے بلکہ فروغ بھی دیا جا سکتا ہے۔

 ایک چھوٹا سا پہاڑی نالہ اسکولی کے درمیان سے گزرتا ہے۔ میں پہلی نظر میں اسے گندے پانی کا نالہ سمجھا تھا،بعد میں علم ہوا کہ ’’کدو رنگ‘‘ پانی رکھنے والا یہ نالہ اسکولی کے لئے پینے کا پانی مہیا کرنے کے علاوہ دھوبی گھاٹ کا کام بھی دیتا ہے۔ اس نالے پر گاؤں کی ’’زردیاں ‘‘ کپڑے دھو رہی تھیں ۔ اسکولی کے خواتین و حضرات کے چہروں سے چھلکنے والی زردی اور ان کے منفرد خط و خال اس اہم تاریخی پس منظر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ زردی چین سے درآمد شدہ ہے۔اسکولی کے باشندوں کے آباء و اجداد یارقند کے خانہ بدوش قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ یارقند ایک زمانے میں سلطنتِ کاشغر کا حصہ تھا۔ کاشغر کے سلطان سعید خاں کے  بلتستان پر حملے کے بعد، وادیِ  شگر کے راجہ نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یارقند کے لوگوں کو یہاں جاگیریں تفویض کر دیں تاکہ کا شغر کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار ہو سکیں ۔

اسکولی میں شاید سلطان سعید کے دور کے چند مکانات موجود ہوں لیکن اب یہاں جدید طرز کی عمارتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب اسکولی کے کچے در و دیوار اور ان میں نصب شہتوت اور بید کی لچکیلی چھڑیوں کے دروازے،  کھڑکیاں ،  روشندان اور چوبارے غائب ہو جائیں گے۔میرا بس چلے تو کم از کم چند قدیم گھروں کے کینچلی بدلنے پر پابندی لگا دوں ۔ان کے باشندے بے شک کسی اور جگہ محل دو محلے بنا لیں مگر:

اپنے اجداد کی املاک بچا کر رکھیے

ہو پرانی بھی تو پوشاک بچا کر رکھیے

اسکولی کے زرد چہرے پر غربت و افلاس کی چھائیاں بہت واضح ہیں اور تر و تازہ چہرے قریب قریب نایاب ہیں ۔عرفان اپنے مطالعے کی بنیاد پر ایسی نوخیز لڑکیوں کی تلاش میں تھا جنھیں اسکولی کی دستکاری کے نمونے ہم جیسے کوہ نوردوں کی خدمت میں پیش کرنے چاہئیں تھے،مگر وہ نہ جانے کہاں روپوش تھیں اور کچھ بھی پیش نہیں کر رہی تھیں ۔اسکولی کی کچی گلیوں میں بزرگوں ،  بچوں اور گندے پانی کے علاوہ کوہ نوردوں ، کوہ پیماؤں اور راک کلائمبرز کے خوبصورت لیکن ادھورے خواب بسیرا کرتے ہیں کیونکہ اسکولی دنیا کے خوبصورت ترین ٹریکس کا پہلا پڑاؤ ہے۔ ان ٹریکس میں :

قدرت کے برفانی عجائب گھر ’’کنکارڈیا‘‘ کا کلاسیکل ٹریک

دنیا کا طویل ترین گلیشریائی … بیافو،ہسپر ٹریک

دنیا کا خطرناک ترین  … سنو لیک ٹریک

اور دنیا کا مشکل ترین … غونڈو غورو ٹریک شامل ہیں ۔

دنیا میں چودہ چوٹیاں ایسی ہیں جو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں ۔انھیں سر کرنا دنیا کے ہر کوہ پیما کا خواب ہے۔اِن چودہ میں سے تین کے بیس کیمپ کا ٹریک اسکولی سے شروع ہوتا ہے۔کے۔ٹو،براڈپیک اور گیشر بروم کی چوٹی پر قدم رکھ کر اپنے خواب کی تکمیل کرنے کے خواہشمند کوہ پیما اسکولی کے چرنوں میں خیمہ نصب کر کے بلندیوں کا سفر شروع کرتے ہیں ۔

دنیا کے بلند ترین چٹانی سلسلے، ٹرانگو ٹاور کی ناممکن بلندی کو سر نگوں کرنے کی حسرت رکھنے والے راک کلائمبرز اپنی مہم کا آغاز اسکولی سے کرتے ہیں ۔ ٹرانگو ٹاورز  ماؤنٹ ایورسٹ کی طرح مشہور نہیں ہوا تو یہ ایک افسوسناک قومی کوتاہی ہے۔

 بلتستان اور چائنا کے درمیان شارٹ کٹ براستہ ’’مستاغ پاس‘‘  اسکولی سے گزرتا ہے اور بیرونی حملہ آوروں کا پسندیدہ ترین راستہ رہا ہے۔

ہم اسکولی کی سرحد پر پہنچے تو گویا دنیائے حیرت کے دروازے پر پہنچ گئے۔ میں اس پگڈنڈی کو حسرت سے تکتا تھا جو عرفان کو غونڈو غورو لے جانے والی تھی اور میرے لئے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی … میں نے اس پگڈنڈی پر کھڑے ہو کر عہد کیا:

 ’’آج نہیں تو کل … میں اسکولی سے آگے جاؤنگا … کہاں ؟ … شاید کنکارڈیا  … یا شاید ٹرانگو ٹاورز بیس کیمپ … یا پھر … ہائے … ہائے۔

ہم اسکولی کا چکر لگا کر واپس آئے تو شیر خاں کھانا تیار کر چکا تھا اور دو نئے چہروں کے ساتھ گپیں ہانک رہا تھا۔ہمیں دیکھتے ہی اُس نے تشوش بھرے لہجے میں اطلاع دی کہ کنکارڈیا کا راستہ بہت زیادہ خراب ہو چکا ہے اور آگے جانے والی کئی ٹیمیں ٹریک ادھورا چھوڑ کر واپس آ رہی ہیں ۔اُس کا کہنا تھا کہ ’’ اوپر‘‘ سیلاب آیا ہوا ہے اور ندی نالوں میں سے گزرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے پاس موجود افراد کا تعارف کراتے ہوئے اُس نے بتایا کہ دونوں حضرات پورٹر ہیں اور راستوں کے بارے میں اطلاعات سن کر کسی گروپ سے بغاوت کر کے واپس آ گئے ہیں ۔

عرفان نے پورٹرز کا انٹرویو لیا اور یہ جان کر پریشان ہو گیا کہ یہ پورٹرز اس کے ساتھیوں کا گروپ چھوڑ کر واپس آ رہے تھے جو کورو فون سے آگے جانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔

 ’’آپ لوگ واپس کیوں جارہے ہیں ؟کورو فون میں پورٹرز کا بندوبست کیسے ہو گا؟پورٹرز پورے نہ ہوئے تو ہم آگے کیسے جائیں گے‘‘ عرفان نے پریشانی کے عالم میں  ایک سانس میں کئی سوال کر دیئے۔

 ’’سر اوپر سے اطلاع آیا اے کہ چھوٹا چھوٹا پانی سمندر بن گیا اے اور گلیشیئر میں بڑا بڑا کریواسے (دراڑیں )  پیدا ہو گیا اے۔‘‘ اُن میں سے ایک نے جواب دیا۔

 ’’آپ لوگ بھی ڈرتے ہیں ؟‘‘ عرفان نے حیرانی سے کہا۔

 ’’کیوں ؟ آپ ام کو انسان نئی سمجھتا ؟راستہ خراب اے تو سب کے واسطے خراب اے … ابی آپ آگے جائے تو پتا چلے گا کہ ڈرتا اے کہ نئیں ڈرتا۔‘‘ پاس کھڑے ہوئے دوسرے پورٹرنے تیزی سے کہا۔

 ’’مجھے خوفزدہ کرنے کی کوشش مت کرو۔مجھے علم ہے کہ اس وقت پورٹرز کی قلت ہے۔آپ لوگوں کو کسی نے زیادہ اجرت کی پیشکش تو نہیں کر دی؟‘‘

 ’’ ام کو گالی مت دو صاب … ۔‘‘ پورٹرز نے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’دوسرا پارٹی ملے گا تو بتا کر جائے گا،ام کو کون روکے گا؟‘‘ اس نے غصے سے سر جھٹکا اور چلا گیا۔

شیر خاں نے دستر خوان لگا یا اور کھانا ہمارے سامنے رکھ دیا۔ میں نے اپنے اعزاز میں پکائے گئے کوفتے کی تلاش میں پہلے نظریں دوڑائیں ، پھر لقمہ دوڑایا،  مگر کوفتہ ہاتھ نہ آیا … عرفان بھی اسی شغل میں مصروف تھا۔

 ’’ اوئے شیر خاں … یہ تم نے کیا پکایا ہے یارا … ہماری پلیٹوں میں کوئی کوفتہ نہیں ہے۔‘‘ عرفان نے ہانک لگائی۔

 ’’اچھا ؟ کدر چلا گیا؟ ام ابی پکڑ کے لاتا اے۔‘‘

وہ پتیلا وہیں اٹھا لیا اور اس میں چمچ گھمانا شروع کر دیا۔ شیر خان اپنی پوری کوشش کے باوجود کوئی کوفتہ پکڑنے میں کامیاب نہ ہوا۔

 ’’صاب پتہ نئی کدر چلا گیا۔ام نے تو پتیلا اچھی طرح بند کر دیا تھا۔‘‘ شیر خان نے بے چارگی سے کہا۔

 ’’تمہارا مطلب ہے کوفتے پتیلے میں سے فرار ہو گئے ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’اور کدر چلا گیا؟‘‘ اس نے حیران ہو کر جوابی سوال کیا۔

 ’’تم نے یہ کوفتے بنائے کیسے تھے؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔

 ’’بنایا؟ … ام نے کب بنایا اے؟  … ام نے اس کافر کا بچہ کو صرف پکایا اے۔‘‘ شیر خان نے مظلومانہ لہجے میں فریاد کی۔

 ’’ کیسے پکایا ہے؟‘‘ عرفان نے وضاحت چاہی۔

 ’’ ام نے پتیلے کو پانی سے بھر کے اس میں سارا کوفتہ موفتہ ڈالا، اس کو اچھی طرح گلایا، پھر اس کو دس روپے کے گھی میں فرائی کیا۔‘‘

 ’’گلایا؟گلانے کی کیا ضرورت تھی؟میں نے صرف فرائی کرنے کے لئے کہا تھا۔‘‘ عرفان نے قدرے ناراضگی سے کہا۔

 ’’جو چیزگلے گا نئی وہ فرائی کیسے ہو گا؟ابی آپ نے ام کو گھی بی نئی دیا تھا۔ وہ ام نے اپنی جیب سے خریدا،  پھر بی آپ ناراض ہوتا اے۔‘‘ شیر خان نے شکوہ کیا۔

 ہمارے پاس اس فرائی کوفتہ سوپ کو نوش جان فرمانے کے علاوہ اور کیا چارہ تھا؟ کوفتوں کے سوپ میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی شیر خان کی مہارت سے اندازہ ہوا کہ وہ اس مرتبہ عرفان کی ٹیم کا آفیشل کک کیوں نہیں تھا؟

کھانے کے بعد ہم نے کیمپ میں بستر لگائے اور دراز ہو گئے۔تھوڑی دیر بعد شیر خاں  پردہ ہٹا کر خیمہ میں داخل ہوا اور سہمے ہوئے انداز میں کہا:

 ’’صاب ایک ایمرجنسی ہو گیا اے  … ام ابی تھوڑا دیر میں آتا اے۔‘‘

 ’’کیوں ؟ کیا ہو گیا ہے ؟‘‘ عرفان نے تیزی سے اٹھتے ہوئے کہا۔

 ’’ادر امارا ایک دوست اے …  اس کا ماما پورٹر اے۔وہ ایک ٹیم کے ساتھ بیس کیمپ جاتا تھا … ابی پئی یو نالہ میں گر گیا اے۔ ‘‘

 ’’ وہ کہاں ہے؟ … میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں … اُسکی چوٹیں وغیرہ دیکھ لوں گا۔‘‘ میں نے پیشکش کی۔

 ’’چوٹ؟صاب پئی یو نالے میں گرنے کے بعد چوٹ نہیں آتا، موت آتا اے۔ ابی اس کا ڈیڈ باڈی بی نئیں ملا۔ ‘‘

 ’’ اوہ مائی گاڈ … ۔‘‘ چند لمحوں کے لئے ہم ششدر رہ گئے۔

 ’’آپ کو وہ ڈرم یاد اے جو تھونگل کے سمندر میں بہتا تھا ؟‘‘

 ’’ہاں … ہاں بالکل یاد ہے۔‘‘

 ’’وہ شہباز خاں کے ماموں کا تھا ناں ۔باڈی تو پتہ نئیں کدر گیا،  ڈرم نالے میں بہہ کر سمند ر میں آ گیا۔‘‘

اس اطلاع نے میرے جسم میں ایک سرد لہر دوڑا دی۔ راستوں کی حالت اتنی خراب تھی اور عرفان غونڈو غورو کراس کرنے جا رہا تھا۔

شیر خان چلا گیا،اور کچھ دیر بعد اپنے دوست شہباز خان کے ساتھ واپس آیا۔ شہباز خان نوجوان اور مضبوط جسم کا مالک تھا لیکن اُس کا چہرہ سُتا ہوا تھا۔ہم نے اس سے تعزیت کی، اس کے ماموں کے لئے دعائے خیر کی اور اسے رخصت کرنے کے لئے اسکولی کی سرحد تک چھوڑنے گئے۔

اسکولی میں موسم خوشگوار تھا لیکن شیر خان کے دوست کے ماموں کے ساتھ ہونے والے حادثے نے اسکولی کی فضاؤں کو افسردہ کر دیا تھا۔ میں عرفان کو غونڈو غورو جانے سے منع کرنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی۔عرفان غونڈو غورو کے بارے میں بہت جذباتی تھا اور اُس نے پورٹر سے گفتگو کے دوران جو لہجہ اختیار کیا،مجھے یاد تھا … کسی اور موضوع پر گفتگو کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا اس لئے سونے کی تیاری شروع کر دی۔ اسکولی کا موسم خنک تھا لیکن سلیپنگ بیگز میں داخل ہونے کی ضرورت پیش نہیں آئی،  انھیں کمبلوں کی طرح استعمال کیا اور میٹریس پر دراز ہو کر سو گئے۔

رات کے کسی پہر شدید پیاس کی وجہ سے میری آنکھ کھلی۔ہم نے پانی کی بوتل بھرنے کی زحمت نہیں کی تھی کیونکہ کیمپنگ سائٹ میں واش بیسن موجود تھا۔ میں نے اٹھ کر ٹینٹ کی زپ کھولنا چاہی تو پنڈلی میں درد کی شدید لہر اٹھی۔ میں بیٹھ گیا اور ٹارچ جلا کر پنڈلی کا جائزہ لیا  …  پنڈلی سوج کر کُپّا ہو گئی تھی۔

 ’’کیا ہوا ؟‘‘ عرفان شاید ٹارچ کی روشنی سے جاگ گیا تھا۔

 ’’شدید پیاس لگی ہے۔ ‘‘ میں آواز کی کپکپاہٹ پر قابو نہ رکھ سکا۔

 ’’ تو آپ پانی پی آئیں ،اور یہ کراہ کیوں رہے ہیں ؟‘‘

 ’’ٹانگ میں شدید درد ہے۔کھڑا نہیں ہوا جا رہا۔ ‘‘

میری پنڈلی پر نظر پڑی تو عرفان کا رنگ َ فق ہو گیا۔

 ’’ آپ کیسے سرجن ہیں ؟آپ کو ہائٹ پر لگنے والی چوٹ کی پیچیدگیوں کا علم نہیں ؟ میرا خیال ہے آپ نے پہلی خوراک کے بعد دوا لی ہی نہیں ۔ آپ اگر شام اور رات کی خوراک بروقت لے لیتے تو یہ نوبت نہ آتی۔‘‘ عرفان کے لہجے میں تاسّف،  تشویش،  خفگی اور خدشات سب کچھ چھپا تھا۔

 ’’میرا خیال تھا مجھے کمزوری کا اظہار نہیں کرنا چاہئے، معمولی چوٹ ہے ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’ہائٹ پر معمولی چوٹ بھی ٹھیک نہیں ہوتی، یہاں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور بعض اوقات معمولی خراش خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔‘‘

 ’’مجھے اس کا علم ہے، لیکن عملی تجربہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔‘‘

 ’’ میں آپ کے لئے پانی لاتا ہوں ۔آپ دوا ئی کھائیں ، اور ٹانگ پر کریپ بینڈیج لپیٹ لیں ۔‘‘

عرفان پانی لے آیا۔میں نے اینٹی بائیو ٹک اور درد کی دو گولیاں بیک وقت نگل لیں ۔عرفان نے کریپ بینڈیج لپیٹی،اور جس مہارت سے لپیٹی اس سے اندازہ ہوا کہ ونٹر سروائیول کورس بڑے کام کی چیز ہے۔

 ’’ یہ تو اچھا خاصا مسئلہ بن گیا ہے۔‘‘ میں نے تشویش کا اظہار کیا۔

 ’’مسئلہ نہیں بنا …  صرف پاؤں بھاری ہوا ہے۔آپ کی جگہ کیٹی میرے ساتھ ہوتی تو خوشی سے ناچ رہی ہوتی۔میرا پاؤں بھاری ہو گیا … بہرحال فی الحال سو جائیں ،اللہ مہربانی کرے گا۔‘‘ عرفان نے صورتِ حال کو ہلکا پھلکا بنانے کی کوشش کی۔

 رات کا باقی حصہ کچھ سوتے کچھ جاگتے گزرا۔صبح بیدار ہوتے ہی عرفان نے پنڈلی کی خیریت دریافت کی۔دواؤں کے زیرِ اثر درد بہت کم ہو گیا تھا لیکن سوزش اور سرخی بدستور موجود تھیں ۔عرفان کچھ دیر خاموشی سے پنڈلی کی طرف دیکھتا رہا پھر ڈھیلے ڈھالے لہجے میں کہا:

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ دو تین دن سفر نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ چلتے رہیں ،لیکن پہاڑی کراس کرتے وقت پاؤں مڑنے یا پھسلنے کی صورت میں صورتِ حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ یہ میرے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ‘‘

 ’’آپ کے لئے یا میرے لئے ؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’میرے لئے! … میں اس حالت میں آپ کو اکیلا واپس نہیں بھیج سکتا۔ آپ کے ساتھ واپس جاتا ہوں تو بہت گڑبڑ ہو جائے گی۔ میرے ساتھی آگے چلے جائیں گے اور میری آمدنی اتنی نہیں ہے کہ میں روز روز کے۔ ٹو بیس کیمپ ٹریک کر سکوں  …  یہ پچیس تیس ہزار کا نسخہ ہے۔‘‘

 ’’مجھے اس صورتِ حال پر انتہائی افسوس ہے،لیکن آپ کو میرے ساتھ واپس چلنے کی ضرورت نہیں ۔میں کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری وجہ سے آپ کا پروگرام خراب ہو۔ آپ اس انداز میں کیوں سوچ رہے ہیں ؟‘‘

 ’’ آپ اسکولی صرف میری وجہ سے آئے ہیں ۔میں کسی اور انداز میں کیسے سوچ سکتا ہوں ؟آپ کا خیال ہے کہ آپ کو اس حالت میں واپس بھیج کر میں اطمینان سے بیس کیمپ پہنچ سکتا ہوں ؟ ‘‘

 ’’پلیز بی ریلیکس۔اسکولی کا منظر مجھے بہت پسند آیا ہے۔میں کیمپنگ سائٹ میں ایک دو روز گزاروں گا اور پاؤں ہلکا ہونے کے بعد واپس جاؤں گا … آپ اطمینان سے کوروفون جائیں ۔‘‘

 ’’ام کچھ بولے سر؟‘‘ شیر خاں نے اجازت چاہی۔

 ’’بولو بولو۔ ‘‘ میں نے ماحول کا تناؤ کم کرنے کے لئے مضحکہ خیز انداز میں کہا۔

 ’’ابی ام ڈاکٹر صاب کو تھونگل لے جاتا اے،اُدر ان کو جیپ میں بٹھائے گا اور واپس آئے گا۔کوروفون کا راستہ بالکل سیدھا اور صرف تین چار گھنٹے کا اے۔اسکولی سے ایک اور گروپ بی کوروفون جاتا اے۔عرفان صاب ان کے ساتھ کوروفون جائے، ام ڈاکٹر صاب کو تھونگل پہنچاتا اے اور تیر کا مافق واپس آتا اے۔‘‘

 ’’مگر اصل مسئلہ ان کی ٹانگ کا ہے … ۔‘‘

 ’’اس کا آپ فکر نئی کرو صاب۔ کوئی مسئلہ بنتا اے تو ام خود بندوبست کرے گا۔آپ کوروفون پہنچ کر کیمپ لگاؤ۔‘‘

شیر خانی ترمیم منظور کر لی گئی۔

میں نے درد اور سوزش کی دو دو گولیاں بیک وقت کھائیں اور پوری کوشش کی کہ زخمی پاؤں کے ساتھ پہاڑی کراس کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے خدشات میرے چہرے سے ظاہر نہ ہوں ۔ میں بری طرح ناکام ہوا اور میری کیفیت کا اندازہ لگا کر عرفان نے کہا:

 ’’ڈاکٹر صاحب یہ مسائل ٹریکنگ کا حصہ ہیں ۔آپ کو اس حالت میں خدا حافظ کہہ کر آگے جانا میرے لئے بہت مشکل ہے۔آپ کہیں تو میں آپ کے ساتھ تھونگل چلوں ؟‘‘

 ’’آپ تھونگل جاتے ہیں تو آپ کے ساتھی آگے چلے جائیں گے کیونکہ اُن سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ؟‘‘ میں نے تصدیق چاہی۔

عرفان نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔

میں نے زبردستی اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی اور خداحافظ کہنے کے انداز میں ہاتھ ہلا کر واپسی کے لئے مڑ گیا۔

٭٭٭

لوٹ کے بدھو ہوسٹل آئے

’’زمین کے سینے پر بکھری ہوئی جھیلیں ،جنگلات،دریا اور پھول … فضا میں تیرنے والے بادل اور ہوائیں … اور آسمان پر چمکنے والے ستارے روح کی گہرائیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔‘‘

(اوریسن سویٹ مارڈن)

 

مجھے خوشی ہوئی کہ واپسی کے راستے میں چڑھائی نہیں تھی،کسی حد تک اترائی تھی اور میری زخمی ٹانگ پر ترس کھا کر اس کی مدد کرتی تھی۔ پاؤں کسی اونچی نیچی جگہ پڑتا تو درد کی شدت میں اضافہ ہو جاتا لیکن اس درد نے برداشت کی حد کو عبور نہیں کیا۔ جس نالے میں سے گزرتے ہوئے مجھے چوٹ آئی تھی وہ اس وقت تقریباً خشک تھا اور میں باآسانی وہاں سے گزر گیا۔برباد شدہ سڑک والی پہاڑی عبور کرتے وقت شیر خان نے مسلسل سہارا دے کر میری مدد کی۔

چار گھنٹے میں ہم تھونگل پہنچ گئے۔

تھونگل میں آج بھی ایک ریس کا منظر تھا … کل کی ریس میں انسان حصہ لے رہے تھے،آج خیموں کی دوڑیں لگ رہی تھیں ۔ ہمارے تھونگل پہنچنے سے کچھ دیر پہلے تیز ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی اور اس ہوا نے تھونگل کی کیمپنگ سائٹ کے کئی خیمے اُکھاڑ ڈالے تھے جو ہوا کے سنگ سنگ باقاعدہ پرواز کر رہے تھے۔ان کے باشندے اور باشندیاں جو اس سانحے سے قبل غالباًً کسی حد تک قابلِ اعتراض لباس اور حالت میں تھے، جوں کے توں اپنے اپنے خیموں کا تعاقب کر رہے تھے۔ کسی حد تک کا لفظ میں نے از راہِ مروّت لکھ دیا ہے اسے نظر انداز کر دیا جائے تو صورت حال زیادہ بہتر انداز میں واضح ہو جائے گی۔

شیر خاں نے یہ منظر دیکھ کر میرا رک سیک وہیں پٹخا اور بظاہر خیموں کے تعاقب میں دوڑ تا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔مقامی باشندے اور پورٹرز بھی وہاں جمع ہو رہے تھے۔ صورتحال دلچسپ تھی،  لیکن میرے لئے شیر خان کی طرح بھاگ دوڑ کر کے اس سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں تھا، اس لئے وہیں ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد گورے اُسی حالت میں اور گوریاں خیموں کی اوٹ میں واپس تشریف لے آئے۔مزید کچھ دیر بعد شیر خان بھی آ گیا۔اُس نے بتایا کہ غیرملکی گروپ سنو لیک کے بائیس روزہ ٹریک کے بعد واپس آیا تھا۔رات کافی دیر تک کامیاب واپسی کی خوشی میں ہلا گلا مچایا جاتا رہا۔ٹریک اور ہلے گلے کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے صاحب لوگ دوپہر تک آرام فرمانا چاہتے تھے لیکن طوفانی ہوا نے ڈسٹرب کر دیا۔

 ’’آپ کا بندوبست بی ہو گیا اے۔‘‘ شیر خان نے اطلاع دی۔ ’’ ہوشے ٹور کمپنی والوں کا جیپ پورٹروں کو لے کے واپس جاتا اے۔ پورٹر سے یہ لوگ دو سو روپے کرایہ لیتا اے، آپ سے پانچ سو لے گا، کیونکہ صاب کو سیٹ پہ بٹھائے گا۔‘‘

صاب سیٹ پر بیٹھ گیا۔

 یہ سفر گزشتہ روز کے سفر کا ایکشن ری پلے تھا،لیکن چار اہم تبدیلیوں کے ساتھ:

نمبر ایک … جیپ اور ڈرائیور گرم نہیں ہوئے۔

نمبر دو … بہانگسہ نالا پُر سکون تھا۔اس نے زخمی پاؤں کا احترام کیا اور مجھے جیپ سے اترنے کی زحمت دینا مناسب نہیں سمجھا۔جیپ چند لمحے کے لئے نالے کے عین درمیان میں ’’پھنس‘‘ گئی اور پانی کے بہاؤ کے زور سے تھرتھراتی رہی۔خدا کا شکر ہے کہ  ڈرائیور کے تجربہ کار ہاتھوں نے جیپ کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھا۔

نمبر تین … لنچ اپالی گون کے بجائے حیدر آباد میں کیا گیا۔میں نے چکن کری منگوایا لیکن اس میں عجیب سی نا گوار بو آ رہی تھی۔ دوسرے نمبر پر دال فرائی ٹرائی کی جو بری طرح ناکام ہوئی کیونکہ حیدر آباد کی دال بالکل نہیں گلی تھی۔میں نے شکوہ کیا تو ہوٹل کے مالک نے انکشاف کیا کہ حیدر آباد کی دال گلنے کے معاملے میں انتہائی ڈھیٹ ہے اور آج اُن کے پریشر کوکر کی سیلنگ ربڑ پگھل گئی ہے اس لئے یہ کچھ زیادہ ڈھیٹ ہو گئی ہے۔سبزی کے نام پر شوربے دار آلو شلجم پکائے گئے تھے اور شوربہ اتنا زیادہ تھا کہ یہ شیر خان کے بنائے ہوئے کوفتہ سوپ کی پیروڈی معلوم ہوتے تھے۔

میری قسمت میں یارب کیا نہ تھی اک ٹانگ مرغی کی ؟

نمبر چار … میں نے پتا نہیں کون سی جھیل دیکھی۔

شگر کے گرد و نواح میں ایک صحرائی خطے کے بھورے بیک گراؤنڈ میں ناقابلِ یقین سائز کا عظیم الشان نیلم جڑا ہوا تھا۔ اس نیلم سے منعکس ہو نے والی روشنی کی کرنوں نے مجھے ہپنا ٹائز کرنا شروع کر دیا۔ میں اس مسحور کُن منظر پر نظریں جمائے رہا اور یہ گزرتا رہا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ چند سیکنڈ بعد یہ نظروں سے اوجھل ہو جائے گا اور میں اسے دوبارہ نہیں دیکھ سکوں گا تو میں نے ڈرائیور کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:

 ’’پلیز … ایک منٹ کے لئے رک جاؤ۔‘‘

ڈرائیور نے جیپ روک دی۔

 ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے نیلم کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’جھیل ہے سر۔‘‘

 ’’جھیل؟ یہ کونسی جھیل ہے؟میں نے سکردو کے ارد گرد ست پڑا اور کچورا کے علاوہ کسی جھیل کے بارے میں نہیں سنا۔‘‘

 ’’اس کے نام کا مجھے علم نہیں ،اور یہ سکردو کے ارد گرد نہیں ہے۔ یہ شگر میں ہے۔ شگر یہاں سے تقریباً تین کلو میٹر دور ہے۔‘‘

 ’’ہم اس جھیل کے قریب نہیں جا سکتے؟‘‘ میں نے پُر امید لہجے میں پوچھا۔

 ’’یہ کافی دور ہے سر۔راستہ بہت خراب ہے۔ جیپ وہاں نہیں جا سکتی۔‘‘

 ’’وہ … میرا مطلب ہے … اگر میں کرائے میں سو روپے کا اضافہ کر دوں ؟‘‘ میں نے جیپ کے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ہم اسکولی سے روانہ ہوئے تو جیپ کے عقبی حصے میں کئی پورٹر موجود تھے لیکن یہاں پہنچتے پہنچتے وہ سب مختلف آبادیوں میں اتر گئے تھے اور میں جیپ کا اکلوتا مسافر تھا۔

ڈرائیور اس پیشکش پر بہت حیران ہوا۔

 ’’بہت مشکل ہے سر … اور وقت بھی کافی لگے گا۔‘‘

 ’’دو سو روپے سے زیادہ کا وقت لگے گا؟‘‘ میں نے بولی بڑھائی۔

 ’’ جھیل تک جانا کیا ضروری ہے سر؟یہ یہاں سے نظر تو آ رہی ہے۔‘‘ اس نے گہری نظروں سے میرا جائزہ لیا۔

 ’’ممکن ہو تو بہت ضروری ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی۔

 ’’ٹھیک ہے سر، چلتے ہیں ۔‘‘ اس نے کہا اور جیپ آگے بڑھا دی۔

جیپ جھیل تک گئی!

کیسے گئی؟اس داستان میں کئی ’’درد ناک‘‘ مرحلے آتے ہیں ۔جیپ سڑک سے اتر کر ریگزار میں داخل ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ ٹائروں پر چل کر نہیں ، فری فال کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیچے پہنچی ہے۔میں نے خود کو بمشکل فری فال میں مبتلا ہونے سے بچایا۔ نیچے اتر کر جھیل تک پہنچنے کے لئے جیپ نے جو اچھل کود مچائی اس نے جسم کے ناقابلِ دِکھان اعضاء کو ناقابلِ بیان دکھ دیا۔

اور یہ پتا نہیں کون سی جھیل سکردو کی تمام جھیلوں سے منفرد ہے۔

ست پڑاجھیل کے وسطی جزیرے کی ہریالی، شنگریلا کے پگوڈوں کی سُرخی،اپر کچورا پر چھائی ہوئی چوٹیوں کی برفیلی سفیدی اور کتپنا جھیل کے ’’ کُت۔پنے‘‘ کی سیاہی، یہاں نہیں ہے۔ جو کچھ یہاں ہے،وہ اور کہیں نہیں ہے۔اس جھیل کی انفرادیت سکوت ہے، اس کا ریگزار حدود اربعہ ہے، اس کی نارسائی ہے۔اس بے نام جھیل کی دلکشی کو بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں محسوس کرنے کے لئے بہت کچھ ہے، بیان کرنے کے لئے کچھ نہیں ۔ بس گہری گہری آنکھوں جیسی ایک سکون بخش جھیل ہے جسکے تین اطراف بھورے رنگ کی مٹی ہے اور ایک جانب سنگلاخ ہے … اور میں ہوں … میں ڈرائیور کا شکر گزار ہوں کہ وہ جیپ میں بیٹھا ہے، میرے احساسات کو منتشر نہیں کر رہا۔میں چند منٹ جھیل کے منظر کو ذہن کے پردے پر منتقل کرتا رہا، پھر کیمرے میں قید کیا اور جیپ کی طرف پلٹ آیا۔

ہماری جیپ ریگزار سے سڑک تک کی چڑھائی عبور کرنے میں ایک مرتبہ ناکام ہو چکی تھی اور دوبارہ کوشش کرنے والی تھی کہ ہم نے ایک جیپ کو سڑک کے کنارے پہنچتے دیکھا۔ ہمیں ’’ ٹرائی‘‘ کرتا دیکھ کر وہ جیپ اوپر ہی رک گئی۔ہماری جیپ نے دوسری کوشش میں کامیابی حاصل کی اور ڈرائیور نے سکردو کی جانب سے آنے والی جیپ کے قریب پہنچ کر بریک لگا دیئے۔ دونوں ڈرائیورز ایک دوسرے کے شناسا تھے ان کے درمیان علیک سلیک ہوئی۔میں نے زبردستی مداخلت کرتے ہوئے دوسری جیپ کے ڈرائیو کو سلام کیا، خیر و عافیت دریافت کی اور پھر اصل سوال کیا کہ اس جھیل کا نام کیا ہے؟وہ بے چارہ میری جیپ کے ڈرائیور سے بھی زیادہ لا علم تھا۔میں نے حیرانی ظاہر کی کہ وہ جھیل کا نام جانے بغیر غیر ملکیوں کو یہاں کیسے لے آیا ہے؟اُس نے بتایا کہ غیر ملکی گروپ مشہ بروم ہوٹل میں قیام پذیر ہے اور اُسے ہوٹل کے منیجر نے حکم دیا تھا کہ انھیں شگر والی جھیل دکھا لائے۔میں نے جیپ سواروں سے ہیلو ہائے کرنے کی کوشش کی، اُنھوں نے چاؤں چوں سے جواب دیا اور دونوں فریق انگلش بولنے کے باوجود ایک دوسرے کی بات سمجھنے سے قاصر رہے۔

اس جھیل کا نام ابھی تک معمہ ہے۔یہ غالباً ’’ سرفرنگا‘‘ جھیل تھی … یا شاید ’’جوبارتسو‘‘ تھی یا شاید … پتا نہیں کون سی تھی۔

 میں رات آٹھ بجے سکردو پہنچا۔

جیپ کے عقبی حصے سے رُک سیک برآمد کیا تو اُس کے پیچھے بندھا ہوا فوم میٹریس غائب ہو چکا تھا۔ مجھے اس کا بہت افسوس ہوا کیونکہ یہ قیمتی میٹریس عرفان نے مجھے بطور تحفہ عنایت کیا تھا۔ ڈرائیور کو علم ہوا تو وہ بہت شرمندہ ہوا اور پورٹرز کی شان میں اچھی خاصی گستاخیاں کر ڈالیں ۔اُس کا کہنا تھا کہ یہ جدید تہذیب کے اثرات اور قیامت کی نشانیاں ہیں ۔چند سال پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی پورٹر ’’صاب ‘‘ کے رک سیک سے بندھا ہوا میٹریس چوری کر لے گا۔اُس نے عہد کیا کہ وہ پوری تفتیش کرے گا اور چور کا سراغ لگا کر میٹریس مجھے واپس پہنچائے گا۔ چور اور اس کی ہمشیرگان کے سا تھ اُس نے جو کچھ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا وہ ہو جانے کے بعد چور سے میٹریس کی واپسی کا مطالبہ کرنا سو فیصد زیادتی ہوتی، میں نے پیشکش کی کہ وہ اگر اپنے ’’تمام‘‘ مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو میٹریس کو اپنی محنت کا ’’اضافی‘‘ انعام سمجھے۔اُ س نے زوردار قہقہہ لگا کر اس پیشکش کا پُر جوش خیر مقدم کیا۔

میں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور سات سو روپے اُس کی خدمت میں پیش کر دیئے۔اُس نے پانچ سو کا نوٹ اپنی جیب میں رکھا اور دوسو روپے واپس کر دیئے۔میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

 ’’میں آپ سے زیادہ پیسے نہیں لے سکتا سر۔‘‘ اس نے کہا۔

 ’’یہ اضافی سفر کا معاوضہ ہے اور بہت کم ہے۔‘‘

 ’’سو کلو میٹر کے سفر میں دو کلو میٹر کا اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔شگر میرا گھر ہے اور آپ نے ایک بے نام جھیل دیکھنے کے لئے جس شوق کا مظاہرہ کیا وہ میرے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔ آپ کو جھیل تک لے جا کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔میں اس خدمت کا معاوضہ لے کر اپنی خوشی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

 ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ میرے لئے ایک جیپ ڈرائیور کا یہ رویہ ’’ نویکلا‘‘ تھا۔

 ’’میرا نام سرفراز علی ہے سر۔‘‘

 ’’میرا اندازہ ہے کہ تم تعلیم یافتہ ہو؟‘‘

 ’’میں نے عربی میں ماسٹر کیا ہوا ہے سر۔‘‘ اس نے سادگی سے کہا۔

 ’’کیا؟ … ایم۔اے؟ … اور تم … میرا مطلب ہے آپ جیپ چلاتے ہیں ۔‘‘ میں تقریباً بوکھلا گیا۔

 ’’اس میں کوئی حرج ہے سر؟‘‘ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

 ’’حرج تو کوئی نہیں ، مگر …  یہ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔‘‘

 ’’آپ کا اندازہ ٹھیک ہے سر۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’میں ٹیچر ہوں ۔یہ جیپ میرے قریبی دوست کی ہے۔وہ کل ایک گروپ لے کر تھونگل گیا تھا۔ اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہ جیپ وہیں چھوڑ کر واپس آ گیا۔میری ڈیوٹی صرف اتنی ہے کہ جیپ اور آپ لوگوں سے وصول کیا گیا کرایہ اس کے حوالے کر دوں ۔‘‘

 ’’او۔کے سر فراز علی صاحب … آپ نے میری مردم شناسی کی صلاحیت کو بری طرح شہ مات دی سر … میں آپ کا انتہائی ممنون ہوں سر  … آپ نے مجھے پتا نہیں کون سی جھیل دکھانے کے لئے جیپ توڑ کوشش کی سر … اللہ آپ کو خوش رکھے سر۔‘‘ میں نے سرفراز علی سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے اور اپنی عزت افزائی کے لئے ادا کئے گئے تمام ’’سروں ‘‘ کا بدلہ اتارنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

اس وقت آرمی پبلک سکول کے ہوسٹل جانا مناسب نہیں تھا۔

 میں نے سکردو آنے کے بعد محسن شاہ صاحب اینڈ کمپنی سے رابطہ نہیں کیا تھا اور اس کوتاہی پر باقاعدہ فردِ جرم عائد ہونے کا امکان تھا۔ ہوسٹل کی عدالتِ عالیہ مقدمے کی سماعت فوراً شروع کر دیتی تو آرام کا موقع ملنا محال ہو جاتا۔

محسن شاہ صاحب ’’سکردو میں پونم‘‘ کے ہیرو ہیں ، لیکن انھوں نے کتاب پڑھنے کے بعد خود کو ولن سمجھنا شروع کر دیا ہے اور ’’روٹھے روٹھے میرے سرکار نظر آتے ہیں ‘‘ کا عنوان بن گئے ہیں ۔شاہ صاحب اینڈ کمپنی سے میرا تعارف پچھلے سال ہوا تھا۔شاہ صاحب کی سسرال وہاڑی میں ہے اور میں پچھلے سال سکردو آیا تو اُن کے ’’سالا صاحب ‘‘ کا تعارفی خط لے کر آیا تھا۔ یہ خط پڑھتے ہی شاہ صاحب اینڈ کمپنی نے ’’زورازوری‘‘ ہمارا سامان گیشا بروم ہوٹل سے اپنے ہوسٹل منتقل کر لیا تھا۔شاہ اینڈ کمپنی کے تمام اراکین اپنے اپنے مضمون میں ماسٹرز ڈگری کے حامل ہیں اور آرمی پبلک سکول اینڈ کالج میں لیکچرر ہیں ۔ ان میں سے چند ایک غیر شادی شدہ ہیں اور جو شادی شدہ ہیں وہ اپنی ذاتی بیوی کو سکردو کی رومان پرور فضا سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں ۔یہ تمام خواتین و حضرات  … آئی ایم سوری  … خواتین نما حضرات سکول سے ملحقہ ایک قدیم گھر میں قیام پذیر ہیں جسے زبردستی ہوسٹل کہلوایا جاتا ہے۔ شاہ صاحب اینڈ کمپنی ’’خواتین نما ‘‘ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں ، میری مراد صرف اتنی ہے کہ تمام حضرات میک اپ کرنا، چائے بنانا،کپڑے دھونا،بٹن ٹانکنا،شور مچانا اور نوک جھونک کرنا جیسے خالص زنانہ علوم و فنون میں مہارت کے آخری درجے پر فائز ہیں ۔ہوسٹل کے عالمانہ،فنونانہ  اور زنانہ ماحول نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا تھا۔کیوں بنا لیا تھا؟ آپ اگر یہ کتاب پڑھنے کا حوصلہ کر بیٹھے ہیں تو چند صفحے انتظار کیجئے۔

میں نے گیشا بروم ہوٹل جانے کا فیصلہ کیا۔ شبیر خان مجھے دیکھ کر حیران ہو ا اور میری لنگڑاہٹ دیکھ کر پریشان بھی ہو گیا۔ اُس نے کسی فکرمند بی بی کی طرح میری اور عرفان کی خیریت دریافت کی۔میں نے اُسے اپنی پنڈلی کی چوٹ کے بارے میں بتایا تو وہ پنڈلی کا معائنہ کرنے اور اس پر کسی خود ساختہ دوا کی مالش کرنے پر تل گیا۔ میں نے اُسے بمشکل سے روکا اور درخواست کی کہ فوراً کمرہ کھول دے کیونکہ میں شدید تھکاوٹ کا شکار ہوں اور فی الحال آرام کرنا چاہتا ہوں ۔

اس نے کی بورڈ سے چابیاں اتاریں اور ایک کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ شبیر خان کے چہرے سے عیاں تھا کہ اس کا تجسس ختم نہیں ہوا، لیکن میرا موڈ دیکھ کر اس نے چوٹ کے بارے میں مزید سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔

 ’’صاب کھانا کھائے گا ناں ؟‘‘ اُس نے پوچھا۔

 ’’صاب پہلے نہائے گا،پھر کھانا کھائے گا، قہوہ پئے گا اور سوئے گا۔‘‘

 ایک طویل اور ٹھنڈے ٹھار غسل نے پہلے ہوش و حواس پر کپکپی طاری کی پھر انہیں مکمل بحال کیا۔چکن کری کے ساتھ گرما گرم روٹیوں نے اچار اور سلاد کی معیت میں کھانے کا لطف دوبالا اور لیموں کا رس ملے خوشبودار قہوے نے سہہ بالا کر دیا۔میں نے پنڈلی پر دافع درد جیل کی مالش کی،گولیاں کھائیں اور خیالی گھوڑے گدھے بیچ کر نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔

فجر کی نماز کے بعد میں نے شبیر خان کا حساب بے باق کیا،رُک سیک اُٹھایا اور آرمی پبلک سکول کے ہوسٹل کا رُخ کیا۔میرا خیال تھا کہ فی الحال شاہ صاحب کو سرپرائز دیا جائے اور اسکولی جیپ سفاری کے بارے کچھ نہ بتایا جائے تاکہ فوری معذرت کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس منصوبے کے تحت میں کسی حد تک ’’برے حال بانکے دہاڑے‘‘ کی تصویر بنا صبح چھ بجے آرمی پبلک سکول کے ہوسٹل کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ محبت علی نے دروازہ کھولا۔ میں نے اُس سے علیک سلیک کی اور شاہ صاحب کے کمرے کا رُخ کیا۔وہ شیو فرما رہے تھے۔میرا خیال تھا مجھے دیکھ کر وہ اپنے ڈبل روٹی نما رخسار پر کٹ شٹ لگا لیں گے۔ اُنھوں نے اپنے گال پر کٹ لگانے کے بجائے میرے سرپرائز دینے کے منصوبے کو کٹ کر دیا اور نہایت اطمینان سے گویا ہوئے:

 ’’آپ؟ … عرفان صاحب کہاں ہیں ؟ہمیں تو اطلاع ملی تھی کہ آپ لوگ گونڈو گورو ٹریک پر روانہ ہو چکے ہیں ۔‘‘

میرے خیال میں انہیں میری سکردو آمد سے لاعلم ہونا چاہیے تھا،  شاہ صاحب نہ صرف میری آمد سے واقف تھے بلکہ غونڈو غورو پروگرام سے بھی آگاہ تھے۔میں چند سیکنڈ کے لئے گم سم ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب کیا مسئلہ ہے؟سب خیریت ہے ناں ؟ ‘‘ شاہ صاحب حیران تو نہیں ہوئے تھے میری مصنوعی افسردگی دیکھ کر پریشان ضرور ہو گئے۔

 ’’ اللہ کا شکر ہے۔ ‘‘ میں نے اُن کا مصافحے کے لئے بڑھا ہو ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ’’عرفان صاحب کوروفون پہنچ چکے ہوں گے،میں اسکولی سے واپس آ گیا ہوں ۔ ‘‘

شاہ صاحب واپس آنے کا سن کر مزید پریشان ہوئے۔

 ’’خیریت سے واپس آئے ہیں ناں … میرا مطلب ہے … ؟ ‘‘

 ’’ٹانگ پر معمولی سی چوٹ کی وجہ سے واپس آنا پڑا۔کاش میں یہ بے وقوفی نہ کرتا اور اس وقت کوروفون میں طلوعِ آفتاب کا منظر دیکھ رہا ہوتا۔ ‘‘

 ’’اوہ ! آپ کی ٹانگ زخمی ہے؟ کوئی ٹوٹ پھوٹ  … ۔‘‘

 ’’ایسی کوئی بات نہیں … معمولی چوٹ ہے ورنہ چلنا ممکن نہ ہوتا۔‘‘

 ’’چوٹ لگ گئی تھی تو اچھا ہوا کہ واپس آ گئے۔ اس پر اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟آپ اگلے سال آ جائیں ہم سب آپ کے ساتھ چلیں گے۔‘‘

شاہ صاحب نے میری ’’مایوسی‘‘ کم کرنے کے لئے شگفتہ انداز میں میری ہمت بندھائی۔ ہوسٹل کے تمام اراکین بھی یکے بعد دیگر ے تشریف لا کر یہ نیک فریضہ سر انجام دیتے رہے۔وہ انتہائی گرمجوشی سے خوش آمدید کہتے، واپسی کی وجہ دریافت کرتے اور  نہایت خلوص سے تسلی دلاسہ دینے میں مصروف ہو جاتے۔ ایک دو نئے چہرے بھی نظر آئے۔ میں واپسی کی وجہ بتاتے بتاتے بور ہو گیا تو محسن شاہ صاحب سے فرمائش کی:

 ’’ شاہ جی پلیز،ایک کاغذ پر یہ شعر لکھ کر برآمدے کی دیوار پر چسپاں کر دیں :

اسکولی سے ٹانگ تڑائے

لوٹ کے بدھو ہوسٹل آئے

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ کندل لال سہگل،دلیپ کمار اور شاہ رُخ خان کی ہمسری کا دعویٰ تو نہیں کرنا چاہتے؟‘‘

 ’’آپ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ نامور فنکار اسکولی سے ٹانگ تڑا کر واپس آ چکے ہیں ؟‘‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا۔

 ’’انھوں نے اپنے اپنے زمانے میں دیو داس کا رول ادا کیا تھا۔آپ ٹریک میں ناکام ہو کر دیو داس بننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ویسے ایک بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ پچھلے سال ست پڑا جھیل سے واپس آتے ہوئے آپ کی موٹی کمریا بل کھا گئی تھی اور آپ دو دن تک لنگڑاتے رہے تھے،وادیِ  چندہ جاتے ہوئے کئی مرتبہ لڑھکتے لڑھکتے بچے تھے۔ اس شاندار ریکارڈ کی موجودگی میں آپ کو گونڈو گورو کراس کرنے کی سوجھی کیا تھی؟‘‘

 ’’شاہ جی خدا کا خوف کریں … ڈاکٹر صاحب پہلے ہی بہت پریشان ہیں ،آپ یہ الٹے سیدھے سوال ملتوی نہیں کر سکتے؟‘‘ کامران نے شاہ صاحب کو ٹوکا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب کی پریشانی کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہی۔انھیں علاج بالمثل کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

 ’’غونڈو غورو کراس کرنے کی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’ کوئی حرج نہیں … مگر اس احمقانہ کوشش میں ناکام ہو کر  دیو داس بن جانے میں بہت بڑا حرج ہے۔ آپ گونڈو گورو پر لعنت بھیجیں اور لمبی تان کر سو جائیں ۔ شام کی مجلسِ بکواسیات میں غور کیا جائے گا کہ آپ جیسے بزرگ کے لئے کونسا ٹریک مناسب رہے گا۔‘‘ شاہ صاحب نے کہ فیصلہ صادر کیا۔

 ’’او۔کے  … مگر یہ تو بتائیں کہ آپ کو غونڈو غورو پروگرام کا علم کیسے ہوا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’ یہ انکشاف اُس وقت ہو گا جب اے۔پی۔ ایس کی عدالت میں آپ پر بیوفائی کا کیس دائر کیا جائے گا۔ آپ سکردو آئے،ایک رات قیام کیا اور ہمیں فون کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اب ہم اتنے غیر ہو گئے ہیں ؟‘‘ شا ہ صاحب نے افسردہ لہجے میں کہا۔

 ’’شاہ جی غیروں کے دروازے پر منہ اندھیرے دستک نہیں دی جاتی۔ہم سکردو بہت تاخیر سے پہنچے تھے۔میرا پروگرام تھا کہ ناشتے کے بعد فون کر کے آپ کو سرپرائز دوں گا۔ جیپ والا چھ بجے سے پہلے نازل ہو گیا۔ اس نے کچھ ایسی افراتفری مچائی کہ ناشتے کی نوبت ہی نہیں آئی اور ہم اسکولی کے لئے روانہ ہو گئے۔مجھے حیرانی ہے کہ آپ کو ہمارے پروگرام کا علم کیسے ہوا؟‘‘

 ’’شاہد نے وہاڑی سے فون کر کے آپ کی آمد کی اطلاع دی تھی۔‘‘

 ’’ لیکن غونڈو غورو پروگرام کا علم شاہد کو بھی نہیں تھا۔‘‘

 ’’شاہد کا فون آنے کے بعد آپ ہمارے پاس نہ آئے تو ہمیں تشویش ہوئی۔ ہم نے گیشا بروم ہوٹل سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جہاں آپ نے پچھلے سال قیام کیا تھا۔ شبیر خان نے ہمیں آپ کے پروگرام سے آگاہ کر دیا اور آپ کا سرپرائز دینے کا منصوبہ نا کام ہو گیا۔‘‘

 ’’یہ آپ کا خیال ہے اور سو فیصد غلط ہے۔میں اب بھی آپ کو سر پرائز دے سکتا ہوں ۔‘‘ میں نے بے نیازی سے کہا۔

 ’’کیسا سرپرائز؟‘‘ شاہ صاحب نے تجسس سے کہا۔

 ’’ میں اُن تمام لوگوں کے خلاف اے۔ پی۔ ایس کی عدالتِ عالیہ میں مقدمہ دائر کرنا چاہتا ہوں جو مجھے اتنا بے وقوف اور غیر ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ میں آپ لوگوں کو اطلاع دیئے بغیر دنیا کے انتہائی دشوار گزار اور خطرناک ترین ٹریک پر جا سکتا ہوں ۔ذرا یہ تو فرمائیں کہ میں غونڈو غورو کی کسی دراڑ وغیرہ میں غائب وغیرہ ہو جاتا تو ہمارے گھر اطلاع کون دیتا؟‘‘ میں نے اطمینان سے سوال کیا۔

 ’’کیا مطلب؟آپ گونڈو گورو ٹریک پر نہیں گئے تھے؟‘‘

 ’’شاہ جی! کیوں بڈھے وارے مذاق کرتے ہیں ؟میرا مطلب ہے میرے بڈھے وارے۔کہاں میں کہاں غونڈو غورو ٹریک  … آپ کی عقل یہیں ہے یا گجرات میں کپڑے دھو رہی ہے ؟‘‘

 ’’ اس کا مطلب ہے شبیر خان نے جھوٹ بولا تھا؟مگر … مگر آپ وہاں نہیں گئے تو دو دن سے کہاں تھے؟‘‘ شاہ صاحب نے تیزی سے پوچھا۔

 ’’سرپرائزڈ؟‘‘ میں نے تصدیق چاہی۔

 ’’سرپرائزڈ۔‘‘ شاہ صاحب نے اعتراف کیا۔

 ’’غونڈو غورو کا پروگرام عرفان کا تھا۔میں اُسے خدا حافظ کہنے جیپ ٹریک کے آخری سٹاپ تک اُس کے ساتھ گیا تھا۔میرا پروگرام دیوسائی کا ہے۔ دیوسائی جیپ سفاری کے تمام انتظامات مکمل کریں اور شامل ہو کر ثوابِ دارین حاصل کریں ۔‘‘

 ’’یعنی گونڈو گورو ٹریک کی ناکامی پر مایوسی اور افسردگی کا اظہار سو فیصد اداکاری تھا؟‘‘ شاہ صاحب سچ مچ حیران تھے۔

 ’’اور ہم آپ کو تسلیاں دے رہے تھے تو ہمیں بیوقوف بنانے کے کارنامے پر آپ  خود کو شاباش دے رہے تھے؟‘‘ کامران نے تصدیق چاہی۔

 ’’دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔‘‘ میں نے پُر مسرت انداز میں تصدیق کر دی۔

 ’’آپ شکل و صورت کی وجہ سے مار کھا گئے،ورنہ ایک اور دیو داس بنائی جا سکتی تھی۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا اور باتھ روم کی طرف چلے گئے۔

پتا نہیں شاہ صاحب کے ذہن پر دیو داس کیوں سوار تھی؟

ناشتے کے بعد تمام حضرات ڈیوٹی پر چلے گئے اور میں نے بستر سنبھال لیا۔ نیند پوری ہو چکی تھی لیکن درد اور مانع درد دواؤں کی وجہ سے پیدا ہونے والی کسلمندی باقی تھی۔ تازہ دم ہونے کے لئے … کروٹیں بدلتے رہے کافی دیر ہم … پھر غسلخانے کا رخ کیا۔سکردو کے خاص الخاص ٹھنڈے ٹھار پانی نے کسلمندی کے ساتھ ساتھ طبیعت بھی صاف کر دی۔ میں کپکپاتا ہوا باتھ روم سے برآمد ہوا تو محبت علی انتہائی محبت سے بنائی ہوئی،بھاپ اڑاتی چائے کا کپ لے آیا۔

میں یہ کپ لے کر ٹی۔وی کے سامنے بستر نشین ہو گیا۔

٭٭٭

عشق اور زندگی

’’فطرت  کے مناظر کا ہر ایک عنصر اُس کی تمام تر قوت کا مظہر ہے اور ہر عنصر کی تخلیق ایک ہی مادے سے کی گئی ہے۔‘‘

(رالف والڈو ایمرسن)

 

لنچ تک کا وقت میں نے ٹیلی ویژن کے سامنے الٹے سیدھے،بلکہ الٹے الٹے پروگرام دیکھ کر گزارا۔ دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد صحن میں لان چیئرز پر نیم دراز ہو کر چائے یا کافی کی چسکیاں لگاتے ہوئے گپ شپ کرنا روز مرّہ کا معمول ہے اور ہوسٹل کی اصطلاح میں محفلِ بکواسیات کہلاتا ہے۔ اس ماورائے ادب محفل میں اردو، انگلش، سائنس، تاریخ اور اسلامیات آپس میں گتھم گتھا نظر آتے ہیں اور دنیا کے ہر موضوع پر فری سٹائل قسم کی طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ان محفلوں کا اپنا نشہ ہے جو شاہ صاحب کی محبت میں شامل ہو کر دو آتشہ ہو جاتا ہے اور مجھے آدابِ مہمانی سے بے گانہ کر دیتا ہے،ورنہ ’’ایک دن کا مہمان، دو دن کا مہمان،تیسرے دن بلائے جان ‘‘ جیسا ہر دلعزیز محاورہ کسے یاد نہیں ؟

 آج دوپہر کی نشست میں صابر اور کامران گرما گرم بحث میں الجھے ہوئے تھے اور اُنکی آوازیں خاصی بلند تھیں۔ 

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے خیال میں انسان کی زندگی کا اہم ترین مقصد کیا ہونا چاہیے ؟‘‘  کامران نے اچانک مجھے مخاطب کیا۔

 ’’زندگی کو ایک مقصد کے لئے وقف کرنا بڑے لوگوں کا مشغلہ ہے۔میں ایک معمولی سا ا نسان ہوں۔ چھوٹے بڑے کئی مقاصد کا تعین کرتا ہوں ،یہ پورے ہو جائیں تو نئے مقاصد پیدا ہو جاتے ہیں۔  ‘‘

 ’’صابر کہتاہے کہ زندگی کا اہم ترین مقصد عشق ہے۔‘‘

 ’’سبحان اللہ … جزاک اللہ …  ایشوریا رائے سے یا برٹنی سپیئر سے؟‘‘ میں نے  مسرت آمیز لہجے میں وضاحت چاہی۔

 ’’میں عشقِ حقیقی کی بات کر رہا ہوں۔  ‘‘ صابر نے تنک کر کہا۔

 ’’ ایشوریا رائے سے کون احمق غیر حقیقی عشق کرے گا؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’ مہربانی فرما کر ایشوریا رائے پر رحم کریں اور اپنے سفید بالوں کی مناسبت سے معشوقہ کا انتخاب فرمائیں۔  ‘‘ کامران نے مشورہ دیا۔

 ’’مادھوری ڈکشٹ ٹھیک رہے گی؟‘‘ میں نے مزید مشورہ  مانگا۔

 ’’ ڈاکٹر صاحب پلیز! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عشق حقیقی سے کیا مراد ہے۔ ‘‘ صابر نے تند و تیز لہجے میں کہا۔

 ’’ پہلے ہمیں عشق کی تعریف کرنی چاہئے۔ ‘‘ میں اُس کے لہجے سے ڈر گیا۔

 ’’یہ ہوئی نا بات۔ ‘‘ صابر پُر جوش انداز میں اچھلتا ہوا بولا۔ ’’ میں بہت دیر سے عشق کی تعریف کر رہا ہوں۔  یہ کوڑھ مغز سمجھتا ہی نہیں۔ ‘‘

 ’’ابے کاٹھ کے اُلو !ڈاکٹر صاحب کا مطلب ہے کہ عشق کو ڈیفائن کیا جائے۔ ‘‘ کامران نے اسے سمجھایا۔

 ’’عشق جیسی لازوال سچائی کو کسی ڈیفائن ویفائن کی ضرورت نہیں۔  ‘‘ صابر گرجا  …  یا شاید چنگھاڑا۔

 ’’پھر بھی !کچھ تو پتا چلے کہ عشق سے آپ کی مراد کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ عشق کا مطلب ہے کہ مطلوب کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کی جائے خواہ اس میں ساری زندگی گزر جائے۔ ‘‘

 ’’اور اگر مطلوب زندگی گزرنے کا انتظار نہ کرے اور چند روز بعد ہی طالب کے ہتھے چڑھ جائے تو آپ کے خیال میں بقیہ زندگی بے مقصد ہو جاتی ہے؟‘‘

 ’’آپ خواہ مخواہ انجان بن رہے ہیں۔ میں عشقِ حقیقی کی بات کر رہا ہوں جس میں صدیاں بیت جاتی ہیں اور گوہر مقصود ہاتھ نہیں آتا۔‘‘

 ’’یہ عزم یا قوّتِ ارادی کی تعریف ہو سکتی ہے،عشق کی نہیں۔  عشق کے لئے حصول کی شرط کو لازم سمجھ لیا جائے اور ہر قسم کے طریقے اختیار کرنے کی آزادی ہو تو عشق اور ہوس میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟‘‘

 ’’ منصور حلاج کا نام سنا ہے آپ نے؟‘‘ اُس نے سوال کیا۔

 ’’ سنا ہے،حسین بن منصور الحلاج تاریخِ اسلام کی انتہائی متنازعہ شخصیت ہے۔‘‘

 ’’ منصور کی ذات کو متنازعہ کہنا بہت بڑی زیادتی ہے۔اُس نے خود کو عشقِ حقیقی میں فنا کر لیا تھا۔میرے خیال میں اُس کی زندگی اور موت دونوں عشقِ حقیقی کی بہترین مثال ہیں۔ ‘‘ صابر نے فخریہ انداز میں کہا۔

 ’’اُس نے خود کو فنا نہیں کیا، اُس کے نعرے انا الحق نے اُسے پھانسی کے تختے تک پہنچایا۔‘‘ 

 ’’ پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر انا الحق کا نعرہ بلند کرنا عشقِ حقیقی کی تعریف بھی تھا اور تفسیر بھی۔عشقِ حقیقی کے بغیر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت کون کرتا ہے؟ آپ نے یہ شعر نہیں سُنا؟

کہاں یہ عشق کا سنگِ گراں ہر ایک سے اُٹھتا ہے

بہت سے لوگ تھے یوں تو یہ پتھر چومنے والے

 ’’ ماتا ہری کا نام سنا ہے آپ نے؟‘‘ میں نے اُسی کا انداز اختیار کیا۔

 ’’ کون ماتا ہری؟‘‘ صابر نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’ماتا ہری جنگِ عظیم اول کی ایک نا قابل فراموش اور طلسماتی شخصیت تھی۔ اس کا آبائی وطن ہالینڈ تھا لیکن اُس نے خود کو ہندوستانی شہزادی ظاہر کیا اور مشرق کے کلاسیکی فن کے نام پر نیم عریاں رقص پیش کر کے فرانس کے اونچے طبقے میں شہرت حاصل کی۔ ‘‘

 ’’آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔ ایک رقاصہ کا عشق حقیقی سے کیا تعلق ؟‘‘

 ’’جنگ اپنے عروج پر تھی کہ اُسے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور مختصر  مقدمہ چلا کر سزائے موت سنا دی گئی۔ سزائے موت والے دن علی الصبح اُسے گہری نیند سے جگا کر بتایا گیا کہ فائرنگ سکواڈ تیار ہے اور اسے آخری دعائیں پڑھ لینی چاہئیں۔  آپ کے خیال میں اس نے کیا کیا ہو گا ؟‘‘

 ’’میں طوائفوں کے حالات زندگی نہیں پڑھتا۔‘‘ صابر نے بیزاری سے کہا۔

 ’’اُس نے خوشبو دار پانی سے غسل کیا، رقص کا مخصوص لباس زیب تن کیا اور پوری دلجمعی سے سولہ سنگھار کئے۔ ‘‘ میں نے بات جاری رکھی۔ ’’فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرنے سے قبل اُس کی آنکھوں پر غلاف چڑھانے اور ہاتھوں کو پشت پر باندھنے کی کوشش کی گئی لیکن اُس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔وہ اپنے قدموں پر چل کر اپنا مقتل بننے والے چبوترے پر سینہ تان کر کھڑی ہوئی اور اپنے قاتلوں کا نام لے لے کر انہیں ہوائی بوسوں سے نوازا اور فحش اشارے کئے۔‘‘

 ’’آپ ایک بدنام فاحشہ کی موت کا موازنہ منصور کی پھانسی سے کیوں کر رہے ہیں ؟‘‘ اس نے سخت احتجاج کیا … میں نے ایک مرتبہ پھر سنی ان سنی کر دی۔

 ’’جونہی فائرنگ سکواڈ کے انچارج نے گنتی کا آغاز کیا۔ ماتا ہری نے اپنا گاؤن اتار دیا۔ فائرنگ سکواڈ گاؤن کے نیچے اس کا برہنہ سینہ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ دوران سفر اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول دیئے تھے۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک اپنے قاتلوں کے جذبات سے کھیلنا چاہتی تھی۔ایک سپاہی یہ نظارہ دیکھ کر بوکھلا گیا اور ٹرائیگر نہ دبا سکا لیکن بقیہ گیارہ رائفلوں کی گولیاں ماتا ہری کے عریاں سینہ میں پیوست ہو گئیں۔  عینی شاہد کا بیان ہے کہ آخری سانس تک ماتا ہری کے ہونٹوں پر ترغیب آمیز مسکراہٹ تھی۔‘‘

 ’’ آپ بات کو خواہ مخواہ طول دے رہے ہیں اور غیر متعلق حوالے دے کر اصل موضوع کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ ‘‘ صابر نے ناگواری سے کہا۔

 ’’یہ غیر متعلق حوالہ کیسے ہو گیا؟ … کیا ماتا ہری کی جرأت اور حوصلہ عشقِ حقیقی کی بہترین تعریف اور تفسیر کہلانے کے مستحق نہیں ؟آپ کے خیال میں ماتا ہری عشقِ حقیقی کے کون سے درجے پر فائز ہو گی؟ ‘‘

 ’’اسکا مطلب ہے آپ منصور کو ولی اللہ نہیں مانتے۔ ‘‘ صابر نے خفگی سے کہا۔

 ’’ میرے ماننے یا نہ ماننے کی کیا وقعت ہے؟اور اگر ہے تو میں ایک ایسے شخص کو ولی اللہ کیوں سمجھوں جسے عدالت نے مرتد قرار دے کر سزائے موت سنا ئی؟‘‘ میں نے کہا۔

 ’’ کشف المحجوب پڑھی ہے آپ نے ؟‘‘

 ’’کسی زمانے میں نظروں سے گزری تھی۔‘‘

 ’’اسکے باوجود آپ عشق اور زندگی کا باہمی تعلق نہیں سمجھ سکے؟آپ نے منصور کے بارے میں داتا گنج بخش کے ارشادات نہیں پڑھے؟یا آپ داتا صاحب جیسے بزرگ کی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں ؟‘‘

 ’’  آپ اگر عشق کو حاصل زندگی سمجھتے ہیں تو اسے روزمرہ کی مثالوں سے واضح کریں۔ اتنی مشکل مشکل کتابیں کیوں پڑھواتے ہیں ؟‘‘

 ’’یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں  … دیکھیں ناں …۔ ‘‘

 ’’آپ ہر گز یہ نہیں کہہ رہے، آپ پتا نہیں کیا کہہ رہے ہیں۔ ‘‘ میں نے تنگ آ کر کہا۔

 ’’  آپ نے دلائل سلوک پڑھی ہے؟‘‘ صابر نے نرم لہجے میں پوچھا۔

 ’’بالکل نہیں پڑھی اور نہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ زندگی اور عشق کے ناجائز تعلقات کے مقدمے میں مجھے منصف نہ بنائیں ؟‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب مائنڈ نہ کریں۔  آپ نے دلائل سلوک نہیں پڑھی تو آپ زندگی میں عشق کی اہمیت کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟ آپ اگر دین کی روح کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے دلائلِ سلوک کا مطالعہ ناگزیر ہے۔‘‘

 ’’یار صابر! …  اگر میں دین کی روح کو سمجھنا چاہوں گا تو قرآن مجید اور احادیث سے آغاز کروں گا اور میرا خیال ہے اس میں بقیہ عمر گزر جائے گی۔‘‘

 ’’مگر دلائلِ سلوک کے بغیر  …۔ ‘‘

میں نے معذرت کے ساتھ فرار ہو جانے میں عافیت سمجھی۔ شاہ صاحب مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔

 ’’لگتا ہے گفتگو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔‘‘

 ’’خدا کی پناہ!میں نے اتنی ہشت پہلو گفتگو پہلی مرتبہ سنی ہے۔‘‘

شاہ صاحب سکول کی لائبریری سے غلام عباس کے افسانوں کا مجموعہ آنندی لے آئے تھے۔ اُس کی ورق گردانی کرتے ہوئے شام ہو گئی اور شام کی چائے کے بعد سٹی پارک کا پروگرام بنا۔

اے۔پی۔ایس کے ہوسٹل سے چند قدم کے فاصلے پر واقع سٹی پارک اپنی چھوٹی چھوٹی آبشاروں ،بہت چھوٹی جھیل اور بہت ہی چھوٹی نہر کی وجہ سے شام کے وقت بچوں کے پارک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔داخلے کے گیٹ سے ملحقہ لان میں ایک ہوائی جہاز کے پائلٹ کیبن کا ڈھانچہ کھڑا کر دیا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہو گا کہ سٹی پارک میں آنے والے بچوں کی  معلوماتِ عامہ میں اضافہ ہو اور وہ پائلٹ کیبن سے روشناس ہو سکیں … لیکن موجودہ دور کے ایڈوانس بچے اس خستہ حال ڈھانچے کو پائلٹ کا کیبن سمجھنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ، وہ اسے اپنا ’’پاٹی روم‘‘ سمجھتے ہیں۔

سٹی پارک کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے سکردو کے اربابِ اقتدار کی بصیرت و بصارت اچھی خاصی مشکوک نظر آنے لگیں۔ سکردو کے ارد گرد مشہورِ عالم قسم کی جھیلوں ، آبشاروں اور ندی نالوں کی بہتات ہے۔اُن کا باقاعدگی سے دیدار کرنے والے سٹی پارک کی مائیکرو سکوپک جھیلوں ،آبشاروں اور نہروں میں دلچسپی کیوں لینے لگے؟ میری حکومتِ پاکستان سے گزارش ہے کہ اس خوبصورت پارک کو سکردو سے اُٹھا کر وہاڑی میں نصب کر دیا جائے تاکہ اس کی مناسب قدردانی ہو سکے۔

پارک کا چکر لگانے کے بعد ہم ایک سرسبز اور گل و گلزار لان کی پتھریلی نشستوں پر تشریف فرما ہو گئے۔ ایک دو صاحبان نے گیٹ سے داخل ہونے والی بچیوں کے ناموں کا اعلان کرنا شروع کر دیا … اوئے صبا آ گئی ہے … نادیہ بھی آ گئی ہے مگر یہ اریبہ کہاں مر گئی؟ روزانہ تو نادیہ کے ساتھ ہی آتی تھی۔

پارک میں آنے والی بچیاں سٹی سکول کی طالبہ تھیں۔ میں نے اس غیر اخلاقی حرکت پر شدید رد عمل کا اظہار کیا،انھیں ٹھیک ٹھاک لعنت ملامت کی اور استاد و شاگرد کے مقدس رشتے پر ایک طویل لیکچر دیا۔ اُنھوں نے مسکراتے ہوئے پورا لیکچر سنا اور تقریر کے اختتام پر اعلان کیا کہ وہ سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی تمام بچیوں کو اپنی ذاتی بیٹیاں سمجھتے ہیں اور اس مقدس رشتے کے بارے میں بدگمانی رکھنے والے پر کوڑے برسانا واجب سمجھتے ہیں۔ سکردو میں کیونکہ کوڑے اور ٹکٹکی کا بندوبست نہیں ہو سکتا اس لئے مجرم کو سکردو کے  ’’یاک اینڈ یرت‘‘ نامی ہوٹل میں اجتماعی ڈنر کی سزا سنائی جاتی ہے۔ انھوں نے مزید انکشاف فرمایا کہ وہ تو بچیوں کے ساتھ آنے والی اماؤں اور خالاؤں کا انتظار کر رہے ہیں  …  اب کوئی اپنی ذاتی بچیوں کی ماؤں اور خالاؤں پر بھی بُری نظر نہ ڈالے؟

سٹی پارک کے بعد لیڈی بازار کا پروگرام بنایا گیا۔سکردو میں لیڈی بازار کا پایا جانا ایک حیران کُن اطلاع تھی کیونکہ سکردو کے کسی بازار میں کوئی مقامی لیڈی نہیں پائی جاتی۔لیڈی بازار دراصل ایک محلہ ہے جہاں ہر آٹھ دس گھروں کے بعد کسی ایک گھر میں خواتین کے ذاتی استعمال کی اشیا فروخت کی جاتی ہیں اور یہ گھر مکمل بازار کہلاتا ہے۔ جس گھر میں عصر اور مغرب کے درمیان خواتین کی آزادانہ آمد و رفت کے آثار پائے جائیں وہ یقیناً لیڈی بازار ہے اور جس گھر کے ارد گرد کامران اور محبوب جیسے منچلے منڈلاتے نظر آئیں وہ کچھ زیادہ ہی لیڈی بازار ہے۔سکردو کے لیڈی بازار سکردو کی انفرادیت ہیں ، میرے علم کے مطابق اس قسم کے بازار پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں پائے جاتے۔سنا ہے ان بازاروں میں سکردو کے مین بازار سے زیادہ بزنس ہوتا ہے اور چھوٹی موٹی ’’چور بازاری ‘‘ پر بھی کوئی خاص پابندی نہیں۔

میں نے کامران سے سوال کیا کہ وہ اور محبوب پارکوں اور لیڈی بازاروں میں خجل خوار ہوتے پھرتے ہیں تو اس کا کوئی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے یا انھیں بے لوث دھکے کھانے کا چسکا پڑ گیا ہے۔کامران نے اس کا نہایت جامع اور روح پرور جواب دیا:

 ’’ڈاکٹر صاحب سکردو انتہائی مہربان اور پذیرائی بخش شہر ہے، ٹارگٹ کا تعین ہونا چاہیے، نشانہ لگانے میں خرچ کیا گیا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں جاتا اور پہلے دن ہی ستر گنا ہو کر بمعہ سود واپس ملنا شروع ہو جاتا ہے۔مطلوب کی آمادگی کے لئے چلّہ کشی کی ضرورت پیش نہیں آتی، ایک روزہ نہ چالیس روزہ۔‘‘

کامران درست کہہ رہا تھا تو یہ سکردو کی زندگی کا وہ روشن پہلو تھا جو پچھلے سال اس شہر میں ’’دس روزہ‘‘ چلّہ کشی کے باوجود میری نظروں سے اوجھل رہا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ اب بھی اوجھل تھا … کامران جس ٹارگٹ کا ذکر فرما رہا تھا وہ ٹارگٹ آخر پائے کہاں جاتے ہیں ؟ سکردو کے بازار اور گلی کوچے ضمیر جعفری کی اس رباعی کی جیتی جاگتی تصویر تھے:

ہر طرف مردانِ ’’ بلتستاں ‘‘ کی آبادی ضمیر

خد و خال و قد و قامت میں صلابت کی نذیر

عورتیں بھی کچھ تو ہوں گی کہ ہے یہ ناگزیر

جانے کن حجروں میں ہے مدفون یہ حسن اسیر

رات کا کھانا سیاچن ہوٹل میں کھایا گیا کیونکہ محبت علی مختصر رخصت پر تھا۔کھانے کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے ہوسٹل واپس پہنچے تو تھکاوٹ سے برا حال تھا اس لئے بستر سنبھال لیا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ کی آج کی واک بتا رہی ہے کہ پنڈلی کی چوٹ محض اداکاری تھی  …  اب آگے کیا پروگرام کیا ہے آپ کا؟‘‘ شاہ صاحب نے خراٹوں کا آغاز کرنے سے پہلے استفسار کیا۔

 ’’پنڈلی کی چوٹ اداکاری نہیں تھی، دواؤں کی ڈبل خوراک کی وجہ سے تنگ نہیں کر رہی، اور پروگرام میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ دیوسائی کا ارادہ ہے۔‘‘

 ’’دیوسائی ایک دن کا پروگرام ہے۔ آگے بات کریں۔ ‘‘

 ’’آگے کچھ نہیں۔ اس مرتبہ وقت کم ہے۔میرے ہسپتال میں رینو ویشن وغیرہ ہو رہی ہے اور میں جلد واپس جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘

 ’’آپ کا مطلب ہے کہ آپ صرف دیوسائی جانے کے لئے سکردو آئے ہیں ؟‘‘ شاہ صاحب نے تصدیق چاہی۔

 ’’جی بالکل۔کیا اس پر کوئی فردِ جرم عائد ہوتی ہے؟ ‘‘

 ’’ہونی تو چاہیے۔ایک دن کے ٹریک کے لئے اتنا لمبا سفر۔ ‘‘

 ’’یہ کیا بات ہوئی،میں ایک گھنٹے کے ٹریک کے لئے اس سے لمبا سفر کر سکتا ہوں۔  اہمیت اس بات کی ہے کہ ٹریک کہاں کا ہے۔ٹیکنیکل طور پر دیکھا جائے تو یہ ٹریک ہے ہی نہیں ،جیپ سفاری ہے۔دیوسائی اسکولی جیپ سفاری۔‘‘

 ’’ٹریک اور سفاری میں کیا فرق ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’ٹریک پیدل چلنے کو کہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’ جیپ بھی تو پیدل چلتی ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے معصومیت سے کہا۔

 ’’’آپ کو نیند آ رہی ہے … بہتر ہے سو جائیں۔ ‘‘ میں نے مشورہ دیا۔

 ’’سونے سے پہلے پروگرام بنا لینا چاہیے،میرا خیال ہے دیوسائی کا پروگرام پرسوں رکھیں۔ پرسوں چھٹی ہے،سب لوگ چلیں گے۔‘‘

 ’’اوکے۔دیوسائی پرسوں … پھر کل کیا کریں گے؟‘‘

 ’’کل آپ اکیلے مٹر گشت کریں۔ پچھلے سا ل آپ کا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا تھا۔‘‘

 ’’گڈ آئیڈیا …۔ ‘‘

میں گڈ آئیڈیئے کے تحت اگلے دن ناشتے کے بعد مٹرگشت کرتا ہوا پولو گراؤنڈ کے قریب واقع کے۔ٹو ٹریولز ہوٹل پہنچا تاکہ صابر پریشانی صاحب سے سلام دعا ہو جائے۔ صابر صاحب سے پچھلے سال تعارف ہوا تھا اور اُن کے تکیہ کلام ’’اس میں آپ کو کیا پریشانی ہے‘‘ کی وجہ سے انھیں صابر پریشانی کا خطاب دیا گیا تھا۔اُن سے ملاقات نہ ہو سکی۔ منیجر کے آفس میں ایک نیا شخص موجود تھا۔اُس نے بتایا کہ وہ کسی صابر وابر کو نہیں جانتا اور یہ کہ ہوٹل کی پوری انتظامیہ تبدیل ہو چکی ہے۔ اُس نے مہذبانہ انداز میں مشورہ دیا کہ میں اگر تفتیش کے لئے تشریف لایا ہوں تو فوراً چلتا پھرتا بنوں کیونکہ اُس کے پاس فضولیات کے لئے بالکل وقت نہیں ہے۔ ہاں اگر کے۔ٹو ٹریولز ہوٹل میں قیام یا طعام کا ارادہ ہے تو وہ اپنا دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ مجھے قیام و طعام سے نہیں ، صابر صاحب سے دلچسپی تھی، اس لئے چلتا پھرتا بنا۔

سکردو کے قلعہ معلی یعنی کھرپوچو کے اتنے نزدیک آ کر اس کی زیارت نہ کرنا صریحاً بے مروّتی تھی اس لئے میں کھرپوچو جانے والے راستے پر چل دیا۔

٭٭٭

بد چلن اے۔ٹی۔ایم مشین

’’فطرت کا وفادار محافظ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ یہ خوبصورت کائنات اُسے وراثت میں نہیں ملی … یہ اگلی نسل کی امانت ہے جس کی حفاظت فرض ہے۔‘‘

(آڈوبن)

 

سکردو کا قلعہ معلیٰ یا کھرپوچو ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قلعہ سکردو کی شمالی پہاڑی کھرڈونگ کی چوٹی پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے گیٹ تک پہنچنے کے لئے پچاس فٹ کی بلندی تسخیر کرنا پڑتی ہے۔میں نے پچھلے سال اس کا نہ صرف تفصیلی جائزہ لیا تھا بلکہ تھوڑی بہت ریسرچ بھی کی تھی۔ اس وقت میں اس بلندی کو تسخیر کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور پستی پر رہ کر کھرپوچو کی بلندی کو سلام کرنا چاہتا تھا لیکن؟

 ’’دِس اِز اسکندریہ فورٹ بلڈ بائی ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ۔‘‘

میں نے یہ فقرہ سنا اور چونک کر کہنے والے کی طرف دیکھا۔

یہ ایک اجاڑ صورت غیر ملکی جوڑا تھا جو سکردو کی عجوبہ روزگار ’’گنگوپی نہر‘‘ کے پشتے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔خاتون کے ہاتھ میں ایک کتابچہ تھا، وہ اس میں لکھی ہوئی معلومات دُہرا رہی تھی اور اس کا ساتھی بیزاری سے سن رہا تھا۔خاتون نے قلعے اور ڈوگرہ مقپون جنگ کے بارے میں چند فقرات پڑھے جو میرے علم کے مطابق غلط تھے۔ میں الجھن میں مبتلا ہو گیا اور دخل در نا معقولات سے گریز کرنے کی پوری کوشش کے با وجود تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خاموش نہ رہ سکا۔

 ’’ایکسکیوز می سر اینڈ میڈم، یہ بالکل غلط ہے۔‘‘ میں نے رسانیت سے کہا۔

 ’’کیا غلط ہے؟‘‘ دونوں نے چونک کر بیک وقت پوچھا۔

 ’’یہ اسکندریہ فورٹ نہیں ہے،اور اسے زور آور سنگھ نے تعمیر نہیں تباہ کیا تھا۔‘‘

 ’’ہمیں کسی گائیڈ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ مرد نے بیزاری سے کہا۔

 ’’میں گائیڈ نہیں ، عام شہری ہوں ،لیکن جو کچھ تم کہہ رہے ہو یہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔یہ اسکندریہ فورٹ نہیں ،کھرپوچو یا مقپون فورٹ ہے اور اسے علی شیر خان انچن نے تعمیر کیا تھا۔میں اس دخل اندازی پر شرمندہ ہوں لیکن یہ میرا ملک ہے اور اس کے بارے میں غلط حقائق سن کر میں خاموش نہ رہ سکا۔میں ایک مرتبہ پھر معذرت خواہ ہوں۔ ‘‘ میں واپس آنے کے لئے مڑ گیا۔

 ’’ایک منٹ پلیز،مجھے افسوس ہے۔یہ تاریخ ہم نے تبدیل نہیں کی، اس کتاب میں یہی لکھا ہے۔‘‘

 ’’یہ کونسی کتاب ہے؟‘‘

اس نے کتاب میری طرف بڑھا دی۔

یہ کتاب لندن سے شائع ہوئی تھی اور اس کا نام ’’ٹریول ان تبت‘‘ تھا۔اس کے ایڈیٹر کے طور پر کسی ایچ۔جی مائر کا نام دیا گیا تھا۔یہ مختلف ٹریکرز کی یادداشتوں کے حوالہ جات پر مشتمل تھی جو نا مکمل تھے۔سکردو کے قلعے کے لئے اسکندریہ فورٹ کا نام کسی ایچ۔ سوئفٹ نے استعمال کیا تھا۔

 ’’تمہیں پاکستان کے محکمہ سیاحت نے معلوماتی لٹریچر فراہم نہیں کیا؟‘‘

 ’’کیا ہے۔لیکن وہ روایتی معلومات پر مشتمل خشک اعداد و شمار ہیں۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اس قلعے کی بلندی کتنی ہے اور یہ کتنے طول بلد یا عرض بلد پر واقع ہے۔ میں اس کے پس منظر اور اس سے وابستہ کہانیوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔  ‘‘

میں بہت متاثر ہوا۔عام طور پر غیر ملکیوں کا رویہ انتہائی مختلف ہوتا ہے۔وہ مقام دیکھنے اور اس پر ٹک مارک لگانے کے عادی ہوتے ہیں۔ انہیں پس منظر سے،اور خاص طور پر پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک کے پس منظر سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟

 ’’او۔کے مسٹر اینڈ مسز؟‘‘

انہوں نے جواب دینے سے پہلے معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر ایک مشترکہ اور ’’بکھرتا‘‘ ہوا قہقہہ لگایا۔

میں کچھ نہ سمجھا اور استفہامیہ نظروں سے انہیں دیکھتا رہا۔

 ’’مجھے حیرانی ہے کہ تم نے اتنا انتظار کیسے کر لیا؟پاکستانی سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم شادی شدہ ہیں یا صرف دوست۔ ‘‘

 ’’آئی ایم سوری۔میرا مقصد تعارف حاصل کرنا تھا۔مجھے سو فیصد یقین ہے کہ تم لوگ دوست نہیں ، میاں بیوی ہو۔ ‘‘ میں نے انتہائی خشک لہجے میں کہا۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘ خاتون نے چونک کر کہا۔ ’’تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘

 ’’میں اس کی وضاحت کر سکتا ہوں ، لیکن تم لوگ مائنڈ کرو گے۔‘‘

 ’’ہرگز نہیں ،ہم مائنڈ کیوں کریں گے؟‘‘

 ’’دوستوں کے چہرے پر اتنی بیزاری اور لا تعلقی نظر آئے جتنی تم لوگوں کے چہرے سے جھلک رہی ہے تو وہ علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا مطالعہ کرنے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس سیاحتی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔‘‘

اُن کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات ابھرے،پھر انہوں نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ خاتون کا قہقہہ زیادہ بلند تھا۔

 ’’اوہ مائی گاڈ۔ڈیئر  سالومن … یہ بہت خوفناک تجزیہ ہے اور ہمیں اپنے رویے پر فوراً نظر ثانی کرنا چاہیے۔‘‘ خاتون نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا۔

 ’’فوراً نہیں … کمرے میں چل کر کریں گے۔‘‘ سالومن نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔ ’’فی الحال ہمیں اس شریف آدمی سے تعارف حاصل کرنا چاہیے۔میرا نام سولومن فرانک ہے اور یہ مسز گریٹا سولومن ہے۔ہمارا تعلق رومانیہ سے ہے۔‘‘

 ’’تم سے مل کر خوشی ہوئی۔میں اقبال ہوں۔  ‘‘ میں نے اُن سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

 ’’او۔کے مسٹر ایک بال۔ہمیں بھی تم سے مل کر خوشی ہوئی۔میرا خیال ہے تم اس قلعے میں جا رہے ہو، ہمیں کمپنی دینا پسند کرو گے؟‘‘

 ’’میں ؟میں پچھلے سال اس کا تفصیلی دورہ کر چکا ہوں ،اب اس کی بلندی مجھے ڈراتی ہے۔‘‘ میں نے دامن بچانے کی کوشش کی۔

 ’’میرا خیال تھا تم اس قلعے کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنا پسند کرو گے۔ورنہ ہم یہی سمجھتے رہیں گے کہ یہ زور آور سنگھ نے تعمیر کیا تھا۔‘‘

اس تبصرے کے بعد میرے پاس کھرپوچو کی بلندی سر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔وہ دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے، ایک دوسرے کو سنبھالتے اور قہقہے لگاتے ہوئے پتھریلا اور بے ڈھب راستہ طے کرتے ہوئے قلعے کے صدر دروازے تک پہنچے، اور میں ہانپتا کانپتا، قدم قدم پر رکتا اور پسینہ پونچھتا ہوا وہاں پہنچا۔

قلعے کا چوبی گیٹ بند تھا لیکن کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور یہ کھڑکی چوکھٹ سے کافی بلندی پر واقع تھی۔سولومن کھڑکی پھلانگ کر اندر پہنچا۔اس کی بیوی قدرے پست قامت تھی اس لئے کھڑکی میں اٹک گئی۔سولومن نے اسے ’’جپھی‘‘ ڈال کر اندر کھینچ لیا۔اس مختصر جپھی کے دوران سولومن نے شرارت آمیز انداز میں میری طرف دیکھا اور ایک آدھ شوہرانہ حرکت کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک دوسرے سے بیزار نہیں ہیں۔

قلعے کے اندر پہنچ کر وہ بہت زیادہ بے زار ہوئے۔

 ’’یہ کس قسم کا قلعہ ہے؟ہم نے پڑھا ہے کہ اس کا طرز تعمیر لہاسا کے پوٹالا پیلس اور لداخ کے لیہ پیلس کی مانند ہے،یہاں تو کوئی طرزِ تعمیر نظر ہی نہیں آ رہا۔چند کھنڈرات نما کوٹھڑیوں کو قلعہ کہنا سخت زیادتی ہے۔‘‘ گریٹا نے احتجاج کیا۔

 ’’آج سے پونے دو سو سال پہلے اس قلعے کی سات منزلیں تھیں ، یہ اس پہاڑی کی دو میل سے زیادہ طویل چوٹی پر پھیلا ہوا تھا اور لداخ پیلس سے زیادہ شاندار تھا۔ ڈوگرہ سردار لکھپت کشتواڑیہ نے  ۱۸۴۱ء  پورا قلعہ جلا کر راکھ کر دیا۔ یہ مسجد تباہی سے بچ جانے والی واحد یادگار ہے۔‘‘ میں نے مسجد کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’قلعے کو جلانے کی کیا ضرورت تھی؟عام طور پر قلعوں پر قبضہ کرنے کے بعد فاتح انہیں اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور انہیں مزید مضبوط بناتا ہے۔‘‘

 ’’اسے جلانا ایک حفاظتی اقدام تھا۔ڈوگرہ سردار زورآور سنگھ نے ۱۸۴۰ء  میں سکردو پر حملہ کیا تو کھر پوچو میں محصور بلتی افواج نے سخت مزاحمت کی تھی۔زورآور سنگھ نے سکردو کے راجہ کے ناراض داماد کی مدد سے مذاکرات کے بہانے راجہ کو قلعے سے باہر بلایا اور گرفتار کر لیا۔ راجہ کی گرفتاری کے بعد فوج نے مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیئے اور مقپون سلطنت کے سات سو سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔زورآور سنگھ نے قلعے کو جزوی نقصان پہنچایا اور آخری مقپون بادشاہ احمد شاہ مقپون کو گرفتار کر کے جموں لے گیا۔اگلے سال اس نے تبت پر حملہ کیا لیکن شکست کھائی اور میدانِ جنگ میں مارا گیا۔اس کی موت کے بعد ڈوگرہ سلطنت میں کئی بغاوتیں اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ سکردو میں بغاوت کی قیادت حیدر خان نے کی اور ڈوگرہ گورنر اور سپاہیوں کو قید کر کے کھرپوچو پر قبضہ کر لیا۔‘‘

 ’’مجھے اتنی تفصیل یا شخصیات کے ناموں سے دلچسپی نہیں۔ ہلکا پھلکا پس منظر کافی ہے۔‘‘ سولومن نے قدرے اکتاہٹ کا اظہار کیا۔

 ’’میں پیشہ ور گائیڈ نہیں۔  اس لئے تمہارے موڈ کے مطابق اندازِ بیان بدلنے سے قاصر ہوں۔  تمھیں دلچسپی نہیں تو داستان اسی جگہ ختم کی جا سکتی ہے۔‘‘

 ’’میں بہر حال یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس عظیم الشان قلعے کو جلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔‘‘

 ’’جموں کے راجہ نے بغاوت کچلنے اور سکردو پر قبضہ بحال کرنے کے لئے لکھپت کشتواڑیہ کو بھیجا۔لکھپت قلعے پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گیا تو اس نے مقامی سرداروں کو بھاری رقومات دے کر خرید لیا اور ان غداروں کی مدد سے کھرپوچو پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔قلعے پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے مسجد کے سوا قلعے کی تمام تعمیرات کو آگ لگا دی۔ اُسے خطرہ تھا کہ دوبارہ بغاوت ہوئی اور باغی کھر پوچو میں قلعہ بند ہو گئے تو اسے تسخیر کرنا بہت مشکل ہو گا۔ ‘‘

 ’’میں سمجھ گیا۔بائی دی وے یہ قلعہ کتنا قدیم ہے اور اس کا بانی کون تھا۔‘‘

 ’’کھر پوچو پندرھویں یا سولھویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔اس کے تعمیر کنندہ کے بارے میں اختلاف ہے،کچھ لوگ مقپون بوخا کو اس کا بانی قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسے علی شیر خان انچن نے تعمیر کیا۔‘‘

 ’’بہت بہت شکریہ۔ہم ذرا اس کا جائزہ لے لیں پھر واپس چلتے ہیں۔ ‘‘

واپسی پر میں نے انہیں گل خاتون کے قلعے کے کھنڈرات اور گنگوپی نہر کے بارے میں بتایا۔سکردو بازار پہنچ کر وہ گنگوپی نہر کے پشتے کا جائزہ لینے لگے اور میں انہیں گڈ بائی کہہ کر  بازار میں داخل ہو گیا۔کچھ دیر ونڈو شاپنگ کی،ضرورت کی ایک دو چیزیں خریدیں ، اور پھر ایک عدد پنگا مفت میں مول لیا۔

ایک بنک کی بیرونی دیوار پر چسپاں پوسٹر کے ذریعے اطلاع دی گئی تھی:

 ’’اے۔ٹی۔ایم مشین کی سہولت موجود ہے۔‘‘

سکردو میں یہ بہت بڑی عیاشی تھی۔مجھے فی الوقت رقم کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں نے ’’تصدیقاً‘‘ اے۔ٹی۔ایم کی سہولت سے مستفید ہونے کا فیصلہ کیا۔ اے۔ٹی۔ایم مشین بنک کے باہر نصب کی جاتی ہے تاکہ بنک بند ہو جانے کے بعد بھی رقم نکالی جا سکے، لیکن مجھے کسی کیبن کا دروازہ نظر نہ آیا اور میں عمارت کے اندر داخل ہو گیا۔ ایک بابو صاحب سے میں نے اے۔ ٹی۔ ایم مشین کے بارے میں دریافت کیا۔اس نے زبان ہلائے بغیر اندرونی دروازے کی طرف اشارہ کر دیا۔میں نے کمرے میں داخل ہو کر مشین کی سلاٹ میں کارڈ ڈالا اور کوڈ ورڈ فیڈ کیا۔مشین سے کچھ دیر گھر گھر کی آواز بلند ہوتی رہی۔ چند سیکنڈ بعد سکرین پر سوال نمودار ہوا کہ مجھے کتنی رقم درکار ہے۔میں نے دس ہزار فیڈ کر دیا۔ مشین کی گھرگھراہٹ دوبارہ شروع ہو گئی۔ گھرگھراہٹ کے اختتام پر کارڈ سلاٹ سے باہر آ گیا۔میں نے کارڈ وصول کیا اور رقم برآمد ہونے کا انتظار کرنے لگا۔رقم کے بجائے مشین کی سکرین پر اطلاع دی گئی:

 ’’آپ کی مطلوبہ رقم کی ترسیل مکمل ہو چکی ہے۔کیا آپ مزید رقم نکلوانا پسند کریں گے؟‘‘

میں سچ مچ چکرا گیا۔رقم کی ترسیل مکمل ہو چکی تھی تو وہ کہاں گئی؟میں نے اس فراڈ مشین کا چاروں طرف سے جائزہ لیا، شاید رقم برآمد ہونے والا سلاٹ کسی پوشیدہ گوشے میں ہو … مگر وہاں کوئی رقم نہیں تھی۔

میں نے ایک مرتبہ پھر بابو صاحب کی میز پر حاضری دی اور اسے مشین کی غلط بیانی سے آگاہ کیا۔بابو صاحب نے نظریں اٹھائیں ،بال پوائنٹ سے ایک میز کی طرف اشارہ کیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔میں اشارہ کردہ میز کی طرف گیا۔میز پر رکھی ہوئی تختی کے مطابق یہ منیجر صاحب تھے۔میں نے انہیں اپنے مسئلے کے بارے میں بتایا۔

 ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ہماری مشین جھوٹ نہیں بولتی۔‘‘

 ’’آپ کا مطلب ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں ؟‘‘ میں نے تنک کر کہا۔

 ’’جناب اس جدید ترین مشین کو نصب ہوئے صرف دو ہفتے ہوئے ہیں۔  اتنی جلدی کسی خرابی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پلیز آپ اپنی رقم دوبارہ گن لیں۔ ‘‘

مجھے سخت غصہ آیا۔

اس منیجر کے پٹھے کا خیال تھا کہ میں نے رقم وصول کر لی ہے اور اب انہیں چکر دے رہا ہوں۔ میں نے اس سے فون کرنے کی اجازت مانگی جو با دلِ نا خواستہ عطا کر دی گئی۔میں نے شاہ صاحب کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ آ رہے ہیں۔

 ’’محسن سے آپ کا کیا تعلق ہے؟‘‘ میں نے ریسیور رکھا تو منیجر نے پوچھا۔

 ’’وہ میرے دوست ہیں ،اور میزبان بھی …۔ ‘‘

 ’’اچھا؟یہ تو مسئلہ ہو گیا۔وہ بھورا بندر میرا دماغ چاٹ جائے گا۔آئیں اس کے آنے سے پہلے آپ کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘ اس نے اٹھ کر ایک کمرے کا رخ کرتے ہوئے کہا۔

 ’’آپ انہیں جانتے ہیں ؟‘‘ میں نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔

 ’’وہ میرا قریبی دوست ہے اور اس نے مجھے اپنے کئی دوستوں کے اکاؤنٹ  دیئے ہیں۔ ‘‘

ہم جس کمرے میں داخل ہوئے وہ غالباً کنٹرول روم تھا اور اس میں کمپیوٹرز کا جال بچھا ہوا تھا۔منیجر نے آپریٹر کو میرے مسئلے کے بارے میں بتایا۔وہ بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔اس نے میرے کارڈ کا نمبر کمپیوٹر میں فیڈ کیا اور اعلان کیا کہ اس کارڈ سے آج کی تاریخ میں رقم نکلوائی گئی ہے۔

 ’’مگر مجھے کوئی رقم نہیں ملی۔‘‘

 ’’سر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟میرا مطلب ہے کمپیوٹر کو آپ سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟‘‘

 ’’مجھے نہیں پتا کہ کیسے ہو سکتا ہے،لیکن یہ ہو گیا ہے اور مجھے بھی اس نامعقول کمپیوٹر سے کوئی دشمنی نہیں۔ ‘‘ میں نے جھلا کر کہا۔

آپریٹر ابھی تذبذب میں تھا کہ محسن شاہ صاحب کنٹرول روم میں داخل ہوئے۔

 ’’اس مسئلے کا حل کیا ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے تفصیلات سننے کے بعد سوال کیا۔

 ’’میں تصدیق کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے دوست کے اکاؤنٹ سے رقم ڈرا ہو چکی ہے،اس کے بعد کوئی حل سوچیں گے۔‘‘

آپریٹر نے تصدیق کی اور ایک نیا پھڈا ڈال دیا۔اکاؤنٹ سے رقم نکالی گئی تھی لیکن … نہیں بھی نکالی گئی تھی۔اکاؤنٹ بیلنس اتنا ہی تھا جتنا رقم نکالنے سے پہلے تھا  …  دو نفی ایک مساوی دو۔

آپریٹر اور منیجر دونوں ہکا بکا رہ گئے۔

 ’’اس سلسلے میں فی الحال کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘ منیجر نے فیصلہ صادر کیا۔ ’’کہیں نہ کہیں کوئی پرابلم ہے۔ یہ ہمارے کمپیوٹر میں بھی ہو سکتا ہے اور اس بنک کے کمپیوٹر میں بھی جہاں آپ کے دوست کا اکاؤنٹ ہے۔ حساب کتاب ہو گا تو ہر چیز واضح ہو جائے گی۔‘‘

 ’’حساب کتاب کب ہو گا؟‘‘

 ’’ہونا تو ہر ہفتے چاہیے،لیکن ہمارے پاس تربیت یافتہ افراد کی کمی ہے۔ہیڈ آفس سے کوئی بندہ آئے گا۔دیکھیں کب آتا ہے؟‘‘

 ’’تمہارا مطلب ہے حساب کتاب ہونے تک یہ سکردو میں ہی رہیں ؟‘‘

 ’’یہ بے شک واپس چلے جائیں ،تم تو یہیں ہو۔ مجھے پتا ہے جب تک اس رقم کا مسئلہ حل نہیں ہو گا تم میرے سر پر سوار رہو گے۔تم اپنے دوست کا اکاؤنٹ نمبر لکھ لو۔ میرا وعدہ ہے کہ ان کے اکاؤنٹ سے رقم ڈرا ہو چکی ہے تو اگلے ہفتے دوبارہ ڈپازٹ ہو جائے گی،خواہ یہ رقم مجھے اپنی جیب سے ادا کرنی پڑے۔‘‘

ہمارے پاس اس وعدے پر اعتبار کرنے کے سوا کو ئی چارہ نہیں تھا۔ہم منیجر کی میز پر آ گئے اور اس نے کولڈ ڈرنک منگوا لئے۔

 ’’ہو سکتا ہے آپ کی مشین جھوٹ نہ بولتی ہو … لیکن اس کا چال چلن مشکوک لگتا ہے ورنہ آپ اسے ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے کیوں رکھتے؟ اے۔ٹی۔ایم مشین کو باہر نصب ہونا چاہیے تاکہ ہر وقت رقم نکالی جا سکے۔‘‘ میں نے منیجر کو مشورہ دیا۔

 ’’ مشین جس دن باہر رکھی گئی اسی دن غائب ہو جائے گی۔‘‘

 ’’کہاں غائب ہو جائے گی؟‘‘

 ’’جہاں اس کا دل چاہے گا۔ یہاں پانچ سات ہزار میں ملنے والی بیوی کو بھی باہر نہیں نکالا جاتا کہ غائب نہ ہو جائے۔چالیس لاکھ کی مشین کو باہر کیسے نکالا جا سکتا ہے؟‘‘

اُس کا جواب وضاحت طلب تھا کیونکہ بظاہر بیوی اور مشین میں کوئی مماثلت نہیں  تھی … لیکن سکردو کے ’’خواتین سے مکمل پاک‘‘ بازار کسی حد تک اُس کے نکتۂ نظر کی تصدیق ضرور کرتے تھے۔

میں ٹیکسی میں واپس جانا چاہتا تھا،لیکن شاہ صاحب مٹر گشت  کے موڈ میں تھے اور عباس علمدار کے مزار پر حاضری دینا چاہتے تھے۔ مزار کے احاطے میں ایک درخت کی تقریباً تمام شاخیں رنگ برنگے دھاگوں میں چھپ چکی تھیں۔ یہ منت کے دھاگے تھے۔ شاہ صاحب نے فاتحہ پڑھنے کے بعد ایک عدد دھاگے کا اضافہ کیا اور منت مانی کہ ڈاکٹر اقبال کا دس ہزار کا نقصان ہو گیا تو وہ مبلغ دس روپے جن کے نصف پانچ روپے ہوتے ہیں ،مزار پر رکھے ہوئے چندہ بکس کی نذر گزاریں گے۔ میرے چہرے پر مصنوعی صدمے کے آثار دیکھ کر شاہ صاحب نے انکشاف کیا کہ ان کی مانی ہوئی منت کے نتائج ہمیشہ الٹ برآمد ہوتے ہیں۔  شاہ صاحب کا تجربہ سو فیصد کامیاب رہا۔ میں وہاڑی پہنچا تو تصدیق ہو گئی کہ اکاؤنٹ سے رقم ڈرا ہی نہیں ہوئی تھی۔

ہوسٹل میں محبت علی کا پکایا ہوا مٹر قیمہ پلاؤ بمعہ رائتہ ہمارا انتظار کر رہا تھا اور محبت علی کی اس سپیشل ڈش کی تعریف نہیں کی جاتی اسے براہِ راست تناول فرما لیا جاتا ہے۔ جو تعریف کے چکر میں پڑتا ہے، بھوکا رہ جاتا ہے کیونکہ محبت علی کا اصول ہے کہ ’’تھوڑا پکاؤ سواد کا پکاؤ‘‘۔  لنچ کے بعد اعلان کر دیا گیا کہ کل دیوسائی کا پروگرام ہے جس میں شرکت کی دعوت عام ہے۔

 پروگرام کی خبر پھیلتے ہی ہوسٹل میں ہلچل اور افراتفر ی پھیل گئی۔ مختلف فرائض خود بخود تقسیم کر لئے گئے۔ کامران اور طاہر جیپ کا بندوبست کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ سیف نے محبت علی کو طلب کیا اور فرمائش کی۔

 ’’ محبت علی ہم کل دیوسائی جا رہے ہیں ،تم صبح نماز کے وقت آلو والے پراٹھے اور چکن پلاؤ بنا لینا، ہم ساتھ لے جائیں گے۔‘‘

 ’’دیوسائی میں کھانا ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے سر جی؟ آپ دیو سائی ٹاپ والے ہوٹل پر ناشتہ کرو اور واپس آتے وقت بڑا پانی والے ہوٹل پر لنچ کرو۔ اُدھر بہت تازہ تازہ ٹراؤٹ ملتا ہے۔ ‘‘

 ’’ میں نے تمہاری خدمت میں ناشتے کی درخواست پیش کی ہے، پنج سالہ منصوبہ بنانے کے لئے نہیں کہا۔‘‘

 ’’ مگر صاحب اس وقت چکن کدر سے آئے گا۔‘‘ محبت علی پریشان ہو گیا۔

 ’’چکن خود نہیں آئے گا،تم لاؤ گے۔ بازار جاؤ، بٹالین میس سے رابطہ کرو، پڑوسیوں سے مانگو،اور پھر بھی نہ ملے …  تو … تو … یار اب یہ بھی میں بتاؤں ؟ یہ تمھارا دردِ سر ہے۔ ہمیں صبح نماز کے بعد آلو بھرے پراٹھے اور چکن پلاؤ چاہئے،اور ہاں رائتہ، سلاد اور چائے بنانے کا خشک راشن بھی۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے صاحب ملے گا۔ ‘‘ محبت علی نے بیچارگی سے کہا اور چلا گیا۔

 ’’اس وقت چکن نہیں ملتا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’عام دنوں میں مل جاتا ہے۔آجکل چکن کی سخت قلت ہے اس لئے دوپہر کے بعد نہیں ملتا۔‘‘ سیف نے بتایا۔

 ’’پھر یہ کہاں سے لائے گا؟اگر دیوسائی میں کھانا مل جاتا ہے … ‘‘

 ’’کھانا شاید مل جائے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے بات کاٹی۔ ’’لیکن اُس کے ریٹ سیون سٹار ہوٹل سے بھی زیادہ ہوں گے اور ہماری آدھی تنخواہ ایک وقت کے کھانے میں خرچ ہو جائے گی۔‘‘

 ’’ لیکن اگر چکن نہیں ہے تو …  …۔ ‘‘

 ’’محبت علی کا دعویٰ ہے کہ اس نے کارگل کے محاذ پر بھی چکن ڈھونڈ لیا تھا اور اپنے ساتھیوں کو گولیوں کی بارش میں ہفتے میں دو مرتبہ چکن پلاؤ کھلاتا رہا تھا۔سکردو تو پھر ایک بھرا پُرا شہر ہے۔‘‘

 ’’کارگل کا محاذ ؟‘‘ میں چونک اُٹھا۔

 ’’آپ کو نہیں پتا؟‘‘ سیف نے حیرانی سے کہا۔

 ’’کیا نہیں پتا؟‘‘

 ’’محبت علی واحد شخص ہے جو مسلسل دو مہینے کارگل کے محاذ پر رہا،بقیہ لوگ آتے جاتے رہے تھے۔ باورچی کی شہادت کے بعد محبت علی نے رضاکارانہ طور پر اس کے فرائض سنبھال لئے تھے۔‘‘

 ’’ مائی گڈنس  … اور یہ یہاں ؟‘‘

 ’’ جی! کار گل کے معرکے کے بعد یہ ریٹائرڈ ہو گیا تھا۔ہمارے ہوسٹل کے لئے اٹینڈنٹ کی سیٹ اناؤنس ہوئی تو اس نے بھی درخواست دی اور منتخب کر لیا گیا۔ اب یہ ہمارے ہوسٹل کا منتظم،باورچی،پرچیز آفیسر اور پتا نہیں کیا کیا ہے۔‘‘

 ’’کیا کیا ہے؟کارگل کا غازی آرمی پبلک سکول کے اساتذہ کا انتہائی تابعدار خدمتگار ہے۔ ‘‘ میں نے طنز کی۔

 ’’یہ ہماری خوبی نہیں اس کی مجبوری ہے۔ ‘‘

محبوب اور صابر سفر کے لئے ساتھ لے جانے والے سامان کا بندوبست کر رہے تھے جس میں فرشی دری، کراکری اور چولہا شامل تھا۔طاہر اور کامران رات گئے واپس آئے اور چونتیس سو روپے کے عوض ایک لینڈ کروزر کی بُکنگ کی اطلاع دی۔

تمام انتظامات مکمل ہونے کے بعد ہم بستروں پر دراز ہو گئے۔

٭٭٭

ہر قدم پر اک نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں کوہ

’’فطرت کے مناظر قدرت کے فن کا شاہکار ہیں۔ ‘‘

(دانتے)

 

فجر کی نماز کے فوراََ بعد ہوسٹل کے باہر پریشر ہارن کی آواز گونجنے لگی۔

ہم نے جلدی جلدی سامان جیپ کی چھت پر پھینکا اور سوار ہونے کی کوشش کرنے لگے۔لینڈ کروزر میں باقاعدہ نشستوں کی تعداد سات تھی جب کہ ہمارا ٹولہ آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ مجھے مہمان سمجھتے ہوئے فرنٹ سیٹ الاٹ کر دی گئی۔چھ حضرات بقیہ نشستوں میں پھنس گئے۔ باقی رہ گیا ایک،اسے عقبی دروازے کے ساتھ بچھی ہوئی دری  … دوسرے لفظوں میں جیپ کی ’’ڈکی‘‘ میں تشریف رکھنے کا ’’شاہ صاحبی ‘‘ حکم صادر ہوا۔حکم نامے میں تسلی دی گئی تھی کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔  یہ سیٹ سو فیصد قابلِ تبادلہ ہے۔ہر گھنٹہ بعد تبادلہ ہوتا رہے گا اور سب لوگ باری باری ڈکی نشینی کے اعلیٰ اعزاز سے مستفید ہوں گے۔

میں سیٹ پر بیٹھا تو ڈرائیور نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا:

 ’’ السلام علیکم …  باقی چائے صاب۔ ‘‘

 ’’باقی چائے؟وہ ہم نے ساتھ نہیں لی،لیکن باقی چائے کیوں ؟ تم ساری چائے پیو۔‘‘ میں نے کہا اور شاہ صاحب سے مخاطب ہوا۔ ’’شاہ صاحب ڈرائیور کا جاگتے رہنا بہت ضروری ہے اور نیند بھگانے کے لئے آدھی نہیں ،پوری چائے درکار ہے۔سفر شروع کرنے سے پہلے ڈرائیور صاحب کو چائے پلائیں۔ ‘‘

ڈرائیور نے زوردار قہقہہ لگایا۔شاہ اینڈ کو نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

 ’’ام اپنا نام بتاتا اے صاب … باقی چائے امارا نام اے۔ ‘‘

 ’’باقی چائے ؟ یہ کیسا نام ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’امارا نام اے ناں۔  اچھا نئی اے؟‘‘

 ’’ خوشبو اور ذائقے کے لحاظ سے تو بہت اچھا ہے،لیکن باقی چائے کیوں ؟ پوری چائے کیوں نہیں ؟‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب یہ باغیچہ کہہ رہا ہے۔ ‘‘ صابر نے وضاحت کی۔

ہو سکتا ہے وہ باغیچہ خاں کہہ رہا ہو، لیکن اس کا انداز اور تلفظ ایسا تھا کہ مجھے باقی چائے خان ہی سمجھ آیا۔اس نے ’’باقی چائے ‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

 سکردو سے نکلتے ہی دیوسائی سے آنے والا ست پڑا نالا اور اس کے کنارے ایستادہ ہیوی ڈیوٹی مشینری نظر آتی ہے جو قدیم ست پڑا بند کی تعمیر نو میں مصروف ہے۔

اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ سکردو کے جنوب میں دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ست پڑا عرف صد پارہ جھیل قدرتی نہیں ،دستِ انساں کی کاریگری ہے۔پانچ صدی قبل یہاں صرف ست پڑا نالا تھا جو دیوسائی سے آتا تھا اور سکردو کے گرد و نواح کی زمینوں میں گم ہو جاتا تھا۔یہ نالا موسمِ سرما میں خشک رہتا تھا کیونکہ اس موسم میں دیوسائی میں صرف برف ہوتی ہے، پانی نہیں ہوتا۔جب تک ست پڑا نالا خشک رہتا،سکردو میں بھی زندگی مفلوج رہتی۔ موسمِ گرما میں برف پگھلتی تو نالے کو پانی کی سپلائی شروع ہوتی اور سکردو میں زندگی کے آثار نمودار ہوتے۔علی شیر خان انچن نے سکردو کو آل ویدر سٹی بنانے کا عزم کیا اور ست پڑا نالے کے آگے بند باندھا جس کے نتیجے میں ست پڑا جھیل وجود میں آئی۔موسمِ گرما میں اس جھیل میں ذخیرہ کیا گیا پانی آج بھی سکردو کے باشندوں کی موسمِ سرما کی ضروریات پوری کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اپنے وقت میں ایک عجوبہ سمجھا جانے والا ست پڑا بند جھیل کے لشکارے مارتے ہوئے نیلگوں پانیوں کے نیچے گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔وہ ست پڑا جھیل کے جلوے میں کھوئے ہوئے پرستار کو بتانا چاہتا ہے … اصل تخلیق میں ہوں …  ست پڑا جھیل میرا رنگین عکس ہے … اس جل پری کے حسن کا راز میرے پتھروں میں پوشیدہ ہے  … لیکن اس بند کا وجود ہی بھلا دیا گیا ہے تو اس کی پکار پر کون توجہ دے گا؟

ست پڑا نالے پر تعمیر کیا جانے والا جدید ڈیم سکردو کی قدیم تاریخ کا ایک تابناک باب بند کر دے گا۔ ڈیم کے قریب نصب کی جانے والی اطلاعی پلیٹ سنگ بنیاد رکھنے کا کریڈٹ علی شیر خان انچن کو نہیں دے گی۔ بنیاد بے شک وہی رہے  …  سنگِ بنیاد رکھنے والے کا نام بدل جائے گا۔کاش اس بند کا سرکاری نام ’’انچن ڈیم‘‘ رکھ دیا جائے۔ حکومت نہیں رکھتی تو میں رکھ دیتا ہوں … مگر میری سنتا کون ہے؟

ست پڑا جھیل کے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ سکردو کی شہزادی شکوہ کر رہی ہے۔وہ رات کی تنہائیاں ،ایسے میں میرا حسن … تم اتنی جلدی بھول گئے؟

میں اگر چاہوں بھی تو ایک سال پہلے ست پڑا کی آغوش میں گزاری ہوئی سکردو میں پونم کی رات نہیں بھول سکتا،اور میں کیا  … دنیا کا کوئی شخص جس نے چودھویں کی شب  کے بیکراں سناٹے میں ست پڑا کو اپنے تمام تر جلوے آشکار کرتے دیکھا ہو اس کی رعنائیوں کا ہوش ربا منظر فراموش نہیں کر سکتا۔

میں اپنے خیالات میں گم تھا کہ ایک کرخت آواز مجھے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لائی۔

 ’’صاب آپ کے پاس کوئی ہتھیار وغیرہ تو نئی اے؟‘‘ ایک وردی پوش مجھ سے مخاطب تھا۔میں کوئی جواب نہ دے سکا … ہمارے پاس ہتھیار کیوں ہوتا؟

 ’’ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا۔

 ’’صاحب کا تعلق آرمی سے ہے۔‘‘ باقی چائے خان نے با رعب لہجے میں کہا۔

 ’’تو پہلے بولو ناں یارا،ابی ام کو مافی دو صاب۔‘‘ کارکن نے کہا اور واپس چلا گیا۔

وردی پوش کا تعلق چیک پوسٹ سے تھا جو تحفّظِ جنگلی حیات اور دیوسائی نیشنل پارک کے پروٹیکٹڈ ایریا کے لئے کئے گئے اقدامات کا حصہ ہے۔

سفر دوبارہ شروع ہوا تو میں نے ڈرائیور سے سوال کیا۔

 ’’ دیوسائی کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘

 ’’یہ در اصل دیو۔ وسائی ہے سر جی … پرانا لوگ دیو سئی بی کہتا اے اور اس کا مطلب ہے دیو کے بسنے کی جگہ یا دیو کے رہنے کی جگہ۔‘‘ باقی چائے خان نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔

 ’’تمہارا مطلب ہے دیوسائی یا دیوسئی میں دیو یعنی جن بھوت رہتے تھے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’رہتا تھا نئی صاب … اب بی رہتا اے  … مگر دیوسائی میں بہت سارا دیو نہیں رہتا صرف ایک دیو رہتا اے۔‘‘

 ’’ باقی چائے خان صاحب ! خدا کا خوف کرو، کیوں میرا خون خشک کرنے پر تلے ہوئے ہو؟ میں ذرا کمزور دل کا بندہ ہوں۔  مجھے جن بھوتوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘

 ’’ آپ فکر نہ کریں ، صابر نے جنوں اور بھوتوں کو بھگانے کے لئے بہت سے جنتر منتر سیکھ رکھے ہیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے دخل اندازی کی۔

 ’’صابر کو جنتر منتر سیکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟یہ بھوتوں کو دلائلِ سلوک پڑھنے کا مشورہ دے گا اور وہ دم دبا کر فرار ہو جائیں گے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’جیپ سوار اور خاص طور پر لینڈ کروزر سوار بھوتوں پر دلائلِ سلوک اور کشف المحجوب وغیرہ اثر نہیں کرتیں۔ مگر آپ بے فکر رہیں ،میرے پاس مہا ڈھیٹ بھوتوں کو بھگانے کے لئے  غنیۃ  الطالبین کا نسخہ موجود ہے۔‘‘ صابر نے منہ توڑ جواب دیا۔

 ’’ مذاق اپنی جگہ، لیکن مقامی لوگوں کو پورا یقین ہے کہ دیو سائی دراصل دیوؤں کے رہنے کی جگہ ہے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔ ’’ زمانہ قدیم میں خانہ بدوش قبائل ہر سال کئی بھیڑیں اور بکریاں بھینٹ کے طور پر دیو سائی میں چھوڑ دیا کرتے تھے تاکہ دیوسائی کا دیو ناراض نہ ہو۔ اُن کا خیال تھا کہ دیو ناراض ہو گیا تو اگلے سال دیو سائی کی چرا گاہوں کی برف نہیں پگھلے گی اور اُن کے جانور بھوک سے ہلاک ہو جائیں گے۔ ‘‘

 ’’شاہ جی یہ بھوت پریت یہاں کرتے کیا ہیں ؟‘‘

 ’’پولو کھیلتے ہیں جی اور کیا کرتے ہیں ؟‘‘ شاہ صاحب کے بجائے باقی چائے خان نے جواب دیا۔

 ’’پولو؟ابھی تم کہہ رہے تھے کہ یہاں صرف ایک بھوت رہتا ہے۔وہ کس کے ساتھ پولو کھیلتا ہو گا؟‘‘

 ’’پریوں کے ساتھ۔‘‘ باقی چائے خان نے چٹخارے دار لہجے میں کہا۔

 ’’اچھا؟ … دیوسائی میں پریاں بھی پائی جاتی ہیں ؟‘‘ کامران نے پُر اشتیاق لہجے میں پوچھا۔

 ’’پریاں نہ ہوتیں تو آپ ادھر کیا کرنے آتا صاب؟‘‘ اس نے سوال کیا۔

 ’’ہم ادھر پریاں دیکھنے آئے ہیں ؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’آپ پھول دیکھنے آیا اے ناں … تو دیوسائی کا جو پھول اے،وہ پری نئی اے تو اور کیا اے؟‘‘

 ’’جی ای ای … یہ کونسی سائنس ہے ؟‘‘ کامران نے سوال کیا۔

 ’’دیو صاب سردی کا موسم میں پری صائبہ کے ساتھ پولو کھیلتا اے اور واپس جاتے وقت پری صائبہ کو ادر چھوڑ جاتا اے۔بے چارا پری صائبہ گرمی برداشت نئی کر سکتا اس واسطے پھول کا بھیس میں آ جاتا ہے۔سردی کا موسم میں دیو صاب واپس آتا اے تو پری دوبارہ پری بن کر دیو صاب کو خوب عیش کراتا اے۔‘‘

 ’’ہمیں عیش نہیں کراتا؟‘‘ کامران نے مایوسی سے پوچھا۔

 ’’پھول کا شکل میں کیسے عیش کرائے گا؟‘‘

 ’’اگر میں سردیوں میں آؤں ؟‘‘ کامران نے پُر شوق انداز میں پوچھا۔

 ’’ابے مارا جائے گا کامی کے بچے۔ دیو صاحب پریوں کے بجائے تیرے ساتھ پولو گیم شروع کر دیں گے اور تو خرچ ہو جائے گا۔‘‘ محبوب نے کہا۔

محبوب دیکھنے میں ’’کامی‘‘ … اور کامی ’’ محبوب‘‘ لگتا ہے۔

 ’’خرچ مرچ نئی ہو گا سر … آپ سردی میں ضرور آؤ …  دیو صاب آپ کو بوت سارا عیش کرائے گا۔‘‘ باقی چائے خان نے دانت نکال کر اسٹیئرنگ سے گتھم گتھا ہوتے ہوئے فرمایا۔

 دیوسائی کے پھولوں میں پوشیدہ پریاں بہت عیاش ہیں اور عاشقوں کو عیش کراتی ہیں۔  اس عیاشی سے فیض یاب ہونے کے لئے دیوسائی آنا شرط ہے۔

سکردو سے دیوسائی ٹاپ تک جانے والا جیپ ٹریک کسی زمانے میں پیدل ٹریک تھا اور اتنا مشکل تھا کہ لوگ دیوسائی براستہ ست پڑا کی نسبت دیوسائی براستہ برجی لا کو ترجیح دیتے تھے۔ پھر یہاں ایک منحنی سا جیپ ٹریک بن گیا جو پریوں کے دیدار کے لئے آنے والوں کے دل دہلانے کا فریضہ سر انجام دیتا تھا۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے اس جیپ ٹریک کو سکردو تا چلم چوکی جیپ روڈ کا نام دے کر اس کی توسیع کا بیڑا اُٹھایا اور اپریل  ۲۰۰۲ء  میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ایف۔ڈبلیو۔او نے ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں اپنا کام مکمل کر لیا اور پندرہ اکتوبر ۲۰۰۳ء  کو پچاسی کلومیٹر طویل جیپ ٹریک پی۔ڈبلیو۔ ڈی کے حوالے کر دیا تاکہ عاشقانِ دیوسائی ساڑھے سترہ فٹ چوڑے عیاشانہ جیپ ٹریک پر وادیِ ست پڑا کے دلفریب نظاروں میں کھوئے کھوئے دیوسائی پہنچیں۔

 اسکولی روڈ اور دیوسائی روڈ میں بنیادی فرق برالدو اور ست پڑا کا ہے۔ اسکولی کا  ہم چولی برالدو ہر وقت چنگھاڑتا اور آنکھیں دکھاتا رہتا ہے، ست پڑا نالا نت نئے بہروپ بدل کر اپنے دیدار کے لئے آنے والوں کے دل لبھاتا ہے۔ کہیں یہ خوبصورت آبشار میں ڈھلتا ہے۔ کہیں جھیل کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کہیں چٹانوں سے ٹکرا کر ’’نالی نالی‘‘ ہو جاتا ہے۔ ست پڑا نالے کے ساتھ ساتھ سفر کرنا ایک خوشگوار اور منفرد تجربہ ہے جس میں جیپ ٹریک کی خطرناکی کے باوجود آنکھیں بند کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں منفرد تجربہ کہتا ہوں تو بظاہر مبالغہ آرائی کرتا ہوں … پہاڑی لینڈ سکیپ ساڑھے تین اجزاء کا مجموعہ ہے۔ پہاڑ، دریا۔ سبزہ زار اور ایک راستہ جس پر کوہ نورد چل رہا ہے یا جیپ گزر رہی ہے لیکن :

ہر قدم پر اک نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں کوہ

دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں کوہ

پہاڑی راستے کوہ نورد کو کبھی مایوس نہیں کرتے۔ ہر قدم پر ایک نئے جہان کی سیر کراتے ہیں۔ آپ کے راستے میں آنے والا یہ چھوٹا سا پتھر اُن تمام پتھروں سے مختلف ہے جنہیں آپ اپنے قدموں تلے روند چکے ہیں۔ یہ نالا جو چند قدم بعد اپنے سے بڑے نالے میں گر کر اپنا وجود کھو بیٹھے گا آپ کو اپنی روپہلی لہروں کا وہ رقص دکھا گیا ہے جو آپ دنیا کے کسی اوپیرا میں نہیں دیکھ سکتے۔ آپ کے راستے میں آنے والا یہ پھول جسے آپ نے ابھی ابھی چٹکی سے مسلا ہے آپ کی انگلیوں کو ایسے رنگوں سے رنگ گیا ہے جو آپ دنیا کی کسی کلر سکیم میں نہیں پائیں گے۔پہاڑ کی کوکھ سے نمودار ہونے والا یہ جھرنا دل موہ لینے والی موسیقی کی ایسی رسیلی دھنیں آپ کے گوش گزار کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو آپ کسی ملکہ ترنم یا ملکہ موسیقی کی محفلِ ساز و آواز میں نہیں سن سکتے۔

جیپ دیوسائی نالے پر بنے ہوئے پل سے گزری اور ایک عمودی چڑھائی سر کرنے کی سر توڑ کوشش کرنے لگی۔ انجن کی طاقت کے دم توڑنے سے چند لمحے پہلے چڑھائی ختم ہو گئی اور جیپ ہموار جگہ پر پہنچ کر سیدھی ہوئی۔

یہ دیوسائی ٹاپ تھا۔

 دیوسائی ٹاپ پر قدم رکھتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک بونا ہوں اور دیوزادوں کی سلطنت میں داخل ہونے کی گستاخی کر بیٹھا ہوں۔  ایک پتھریلے حیرت کدے سے طلسمِ چشم کشا میں داخلے کا اپنا تاثر ہے جسے الفاظ کا جامہ پہنانا آسان کام نہیں۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ دیوسائی کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ فطرت اپنے بیش قیمت مناظر کے خزانے کا کوہِ نور عطا کرنے والی ہے۔

اس ہریالی وسعت کے داخلے کے دروازے پر دو خیموں اور ایک اطلاعی بورڈ کے ’’بے سُرے ‘‘  منظر کے سائے میں فائبر گلاس سے بنے ہوئے ایک عدد بیت الخلا کا روح پرور منظر دیکھنے کو ملا۔ بیت الخلاء کی روح پروری پر شک کرنے والوں سے پُر زور التماس ہے کہ محبت علی کی تیار کردہ کڑک چائے پی کر سکردو سے دیوسائی ٹاپ تشریف لے آئیں ، اس غیر متوقع نظارے کی اہمیت پوری طرح واضح ہو جائے گی۔

 دائیں جانب والے خیمے کا رنگ نیلا تھا اور اس کے سامنے نصب کردہ اطلاعی بورڈ سے علم ہوا کہ پورے دیوسائی کو نیشنل پارک اور پروٹیکٹڈ ایریا(محفوظ علاقہ) قرار دے دیا گیا ہے اور اس میں داخل ہونے کے لئے پچاس روپے(پاکستانیوں کے لئے) یا دس ڈالر(غیر ملکیوں کے لئے) کا ٹکٹ خریدنا لازمی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی برفیلی بلندیوں پر برفانی چیتے اور برفانی ریچھ راج کرتے تھے، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور بلا روک ٹوک قسم کی شکاریات نے پاکستان کی نادر و نایاب جنگلی حیات کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔اس خطرے سے نبٹنے کے لئے حکومت نے دیوسائی کو نیشنل پارک قرار دے دیا ہے۔

نیشنل پارک ایک بین الاقوامی اصطلاح ہے اور اس کی تعریف یہ ہے:

 ’’فطری مناظر یا ثقافتی ورثے کا حامل نسبتاً وسیع علاقہ،جسکے مناظر،جنگلی حیات اور قدرتی نباتات کی حفاظت کی جائے اور اُن کی نشو و نما کے لئے قدرتی ماحول برقرار رکھا جائے۔نیشنل پارک کو تفریحی،تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ایسی کسی سرگرمی کے دوران نیشنل پارک کے فطری ماحول اور حیات و نباتات کو نقصان پہنچانا قابلِ سزا جرم ہے۔‘‘

نیشنل پارک کی صورت میں فطرت کدوں کے تحفظ کا آغاز امریکہ سے ہوا۔ امریکی صدر اینڈریو جیکسن نے ۱۸۳۲؁ ء میں ریاست آرکنساس میں واقع گرم پانی کے چشمے کے تحفظ کے بل پر دستخط کئے اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو محفوظ علاقہ قرار دے کر اس میں کسی مصنوعی تبدیلی لانے پر پابندی لگا دی۔ ابراہیم لنکن نے ۱۸۶۴؁ ء میں وادیِ  یوسمائٹ کو محفوظ علاقہ قرار دے کر ریاستِ کیلیفورنیا کی تحویل میں دے دیا تاکہ اسے قدرتی حالت میں برقرار رکھا جا سکے۔دنیا کا پہلا باقاعدہ نیشنل پارک ’’ییلو سٹون نیشنل پارک‘‘  بھی امریکہ میں ۱۸۷۲؁ ء میں قائم کیا گیا اور اس کا انتظام وفاقی حکومت نے سنبھالا … اور آج تقریباً سوا صدی بعد دنیا میں نیشنل پارکس اور محفوظ کردہ علاقوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے جہاں فطری ماحول اور حیاتیات و نباتات کو برقرار رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نیشنل پارک ’’نارتھ ایسٹ گرین لینڈ نیشنل پارک‘‘ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ میں  ۱۹۷۲؁ ء میں قائم کیا گیا اور  اس کا رقبہ نو لاکھ بہتر ہزار مربع کلومیٹر ہے۔

 پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک فی الحال دیوسائی ہے جو تقریباً ساڑھے تین ہزار مربع کلومیٹر( تین لاکھ تریسٹھ ہزار چھ سو ہیکٹر)رقبے پر محیط ہے۔اس پارک میں دامنِ ہمالیہ میں پائے جانے والے افسانوی کردار ’’ہمالیہ کا بھورا ریچھ‘‘ کی نسل کو تحفظ دینے کے لئے ایک علاقہ محفوظ کر دیا گیا ہے۔برفانی چیتے کے لئے ’’خنجراب نیشنل پارک‘‘ میں محفوظ علاقہ بنایا گیا ہے۔سنٹرل قراقرم پارک کا اعلان زبانی کلامی کیا گیا ہے۔ نو لاکھ چوہتر ہزار ہیکٹر رقبے پر محیط ’’سی کے پی‘‘ پورے  بلتستان اور گلگت پر مشتمل ہے۔ یہ پارک عملاً وجود میں آ گیا تو ایشیا کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہو گا۔

امید کی جانی چاہیے کہ عنقریب پورے پاکستان کو نیشنل پارک قرار دے کر جانوروں  کے ساتھ ساتھ انسانوں کے شکار پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔کاش ڈیرہ بگٹی،باجوڑ ایجنسی، لال مسجد،کراچی اور لیاقت باغ اپنے اپنے ’’قابل فخر سانحات‘‘ سے پہلے نیشنل پارک قرار دیئے جا چکے ہوتے۔

ہم جیپ سے اتر ے ہی تھے کہ نیلے رنگ کے خیمے سے ایک صاحب رسید بک لئے بر آمد ہوئے اور ہمارے قریب آ کر با رعب آواز میں سوال کیا۔

 ’’ آپ لوگ کتنا آدمی ہے؟‘‘

 ’’آٹھ۔ ‘‘

 ’’چار سو روپیہ نکالو۔ ‘‘ انہوں نے فرمان صادر کیا۔

 ’’ہمارا تعلق آرمی پبلک سکول سے ہے۔ ‘‘ شاہ صاحب نے ’’آرمی‘‘ با آواز بلند اور پبلک سکول انتہائی دھیمی آواز میں کہا۔

 ’’آرمی ؟ٹیک اے۔ آپ جاؤ صاب۔‘‘ اس کے لہجے کا رعب غائب ہو گیا۔

 ’’آرمی کے لئے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’آرمی کو کسی جگہ بی جانے کے واسطے ٹکٹ کا ضرورت نئی ہوتا صاب۔‘‘ اُس نے کہا اور واپس خیمے کی طرف چلا گیا۔

 ’’کامران صاحب آپ نے سنا کتنی گہری بات کہہ گیا ہے؟‘‘ میں نے قریب کھڑے ہوئے کامران سے کہا۔

 ’’آپ نے گہرائی دریافت کر لی ہو گی، اس نے عام بات کی ہے۔‘‘

 ’’ فوج کو پاکستان میں کسی جگہ داخلے کے لئے ٹکٹ کی ضرورت نہیں۔ کسی جگہ پر غور کریں ! … اس میں کھر پوچو، دیوسائی نیشنل پارک، پریذیڈنٹ ہاؤس، پرائم منسٹر ہاؤس وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف کریں ، کیوں مروائیں گے۔چلیں ناشتا کرتے ہیں۔ ‘‘  اس نے میر ا بازو پکڑ کر بائیں جانب والے خیمے کی طر ف روانہ ہوتے ہوئے کہا۔

یہ دیوسائی ٹاپ کا اکلوتا فور سٹار یا ’’ فور ان ون‘‘ دیوسائی ہوٹل تھا۔

پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر بھورے رنگ کے کپڑے کی خیمہ نما چھت کے نیچے بیڈ روم، کامن روم، کچن اور ریستوران نامی فور سٹارز ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو رہے تھے۔بیڈ روم میں  بوسیدہ گدوں اور رضائیوں پر مشتمل دو بستر بچھے ہوئے تھے۔ درمیانی حصّہ کچن کے طور پر آباد تھا جبکہ کامن روم اور ریستوران ایک دوسرے کے  ہم بوریہ تھے۔ ریستوران کا فرش ایک اونچے چبوترے پر قائم کیا گیا تھا تاکہ معزز مہمان خود کو تختِ طعام پر فائز سمجھیں۔ اس چنگیزخانی یرت کا ماحول کسی تاتاری کی آمد کا منتظر تھا،ہم جیسے ٹراؤزر پوش حضرات کے داخلے سے اس کا تقدس مجروح ہوا۔ ٹائم مشین کے بغیر زمانوں کی سیر کرنے کے خواہش مندوں کے لئے مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ دیوسائی ہوٹل تشریف لائیں۔  چند سو روپوں میں ایک صدی کا سفر آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔دنیا کے منفرد ترین اور بلند ترین سبزہ زار کا دیدار مفت میں ہو جائے گا۔

ہوٹل کا مالک ایک رضائی کے نیچے سے آنکھیں ملتا اور جمائیاں لیتا بر آمد ہوا۔ ہمیں دیکھ کر اس کے چہرے پر چمک آ گئی اور اُس نے پُر امید لہجے میں پوچھا:

 ’’ناشتا کرے گا ناں صاب ؟‘‘

 ’’ ضرور کرے گا۔‘‘

 ’’آپ ابی بیٹھو صاب، ام پراٹھا بناتا اے۔‘‘ اس نے ذرا جوش سے کہا۔

 ’’آپ پراٹھا نہیں بناتا ہے، صرف چائے بنا تا ہے۔پراٹھا ہم ساتھ لاتا ہے۔ ‘‘  شاہ صاحب نے جواب دیا۔

 ’’پراٹھا ساتھ لایا اے۔ ‘‘ اُس نے مایوسی سے کہا اور چولھا صاف کرنے لگا۔

 ’’ آپ کو پراٹھے ساتھ لانا بُرا لگا ہے ؟‘‘ کامران نے پوچھا۔

 ’’یہ بُرا ماننے والی کون ہوتی اے صاب؟‘‘ دوسری رضائی کے نیچے سے طلوع ہونے والے شخص نے گرما گرم لہجے میں کہا۔ ’’ مگر یہ خوش بی تو نئی ہو سکتی اے۔ صاب لوگ پراٹھا مراٹھا کھاتی اے تو یہ چار پیسا بچاتی اے۔پہلے صاب لوگ پراٹھا ساتھ نئی لاتی تھی۔  اب لاتی اے …  صرف چائے بیچ کر یہ غریب کیسے گزارا کرتی اے؟‘‘

 ’’ ہمیں پتا نہیں تھا کہ یہاں پراٹھے مل سکتے ہیں۔ فکر نہ کریں اگلے مرتبہ آئیں گے تو آپ سے بنوائیں گے۔‘‘ شاہ صاحب نے اُسے دلاسا دیا

 ’’آپ پچھلا سال بھی پراٹھا ساتھ لایا تھا اور ام سے بولا تھا کہ اگلا سا ل نہیں لائے گا۔‘‘ ہوٹل کے مالک نے شکایتی انداز میں کہا۔

 ’’شیم … شیم … شیم … پردیسی بلما سے اتنی بڑی وعدہ خلافی؟‘‘ کامران نے شور مچایا۔ ’’شاہ جی اب پراٹھا لاتی اے تو بوت مار کھاتی اے۔‘‘

 ’’اچھا!تمھیں یاد ہے کہ میں پچھلے سال آیا تھا؟‘‘ شاہ جی نے کامران کو گھورتے ہوئے ہوٹل کے مالک سے پوچھا۔

 ’’بالکل آیا تھا  … اور یہ صاب بی آیا تھا۔‘‘ اُس نے کامران کی طرف اشارہ کیا۔ ’’آپ لوگ چھ نفر تھا اور علی حسن کی نیلی جیپ میں آیا تھا۔‘‘

 ’’بہر حال اس مرتبہ سوری!‘‘ شاہ صاحب نے شرمندگی سے کہا۔ ’’اگلی مرتبہ انشا اللہ پراٹھے آپ سے بنوائیں گے۔‘‘

 ’’ بڑی مہربانی صاب۔ ‘‘ اُس نے بے یقینی سے کہا اور چائے بنانے لگا۔

چائے انتہائی گاڑھی تھی جس میں دھوئیں کے ذائقے کے علاوہ ایک دو لمبے لمبے بال شامل تھے۔اسکے باوجود یہ پروٹین آمیز چائے پینا ہماری مجبوری تھی، کیونکہ پراٹھے ٹھنڈے ہو چکے تھے اور ٹھنڈے ٹھار پراٹھوں کو حلق سے نیچے اتارنے کے لئے چائے کی مدد ناگزیر تھی۔

دیوسائی ٹاپ ہوٹل میں چائے کا کپ دس روپے،پراٹھا بیس روپے اور آملیٹ صرف پچیس روپے میں ملتا ہے … اور کچھ نہیں ملتا۔

ناشتے کے بعد دیوسائی میں سفر کا با ضابطہ آغاز ہوا۔

 ’’ یار باقی چائے خاں صاحب یہ علی ملک پاس کدھر ہے۔ ‘‘ میں نے جیپ میں بیٹھنے سے پہلے ادھر اُدھر کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔

 ’’ادر اے ناں  … جدر ام کھڑا اے۔‘‘

 ’’اچھا؟ … درہ ایسا ہوتا ہے؟ ‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’یہ تو ام کو پتا نئی اے، سب اس کو علی ملک پاس بولتا اے۔‘‘

 علی ملک پاس دیوسائی سے وادیِ  علی ملک میں داخلے کا دروازہ ہے۔علی ملک وادی دائیں جانب نظر آنے والی پہاڑی کے عقب میں تھی۔جیپ میں بیٹھتے وقت شاہ صاحب نے اس پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

 ’’ اس پہاڑی کے اوپر سے بر جی لا کے لئے راستہ جاتا ہے۔‘‘

 ’’برجی لا؟  … اوہ … وہ یہاں سے نظر آتا ہے؟‘‘

 ’’یہاں سے نظر نہیں آتا، لیکن آپ ایک دو پہاڑیاں عبور کر لیں تو نظر آ جائے گا۔‘‘

ساڑھے پندرہ ہزار فٹ بلند برجی لا  …  دیوسائی کے شمال مشرق میں واقع برجی چوٹی کے دامن سے گزرتا ہے اور یہ درہ دیوسائی کو سکردو سے ملاتا ہے۔ دیوسائی ٹاپ سے سات سو میٹر کی چڑھائی کی مشقت سے گزر کر برجی لا کی بلندی تک پہنچنے والے کو قدرت کی طرف سے انتہائی خوبصورت مناظر کا ’’گفٹ پیک ‘‘ عطا کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ میری پنڈلی کا درد یہ قیمتی تحفہ وصول کرنے کی راہ میں حائل تھا۔

 ’’اور برجی لاء سے کے۔ ٹو صاف نظر آتا ہے۔‘‘ سیف نے انکشاف کیا۔

 ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے اعتراض کیا۔ ’’تمھاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اسکولی یہاں سے دو سو کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر ہے اور اسکولی سے کے۔ٹو بیس کیمپ ایک ہفتے کا ٹریک ہے، یہ فاصلہ بھی لگ بھگ سو کلومیٹر تو ہو گا۔اس کا مطلب ہے کہ کے۔ ٹو یہاں سے تقریباً  تین سو کلو میٹر دور ہے۔‘‘

 ’’ہو گا۔‘‘

 ’’ہو گا نہیں ، یقیناً ہے۔‘‘ میں نے جھلا کر کہا۔ ’’اور میرا خیال ہے راولپنڈی سے سکردو آنے والا بو ئنگ طیارہ برجی لا سے زیادہ بلندی پر پرواز کرتا ہوا سکردو میں داخل ہوتا ہو گا؟‘‘

 ’’ہو گا۔‘‘ سیف نے میری جھلاہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔

 ’’یار خدا کا خوف کرو۔تین سو کلومیٹر کم نہیں ہوتے،اور یہ کوئی ڈھکا چھپا راستہ نہیں ہے۔چند عشرے پہلے راہ چلتا ٹریک تھا۔میں نے کبھی نہیں سنا کہ کسی مسافر نے یہاں سے کے۔ٹو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہویا سکردو بائی ایئر آنے والوں میں سے کسی کو کے۔ٹو نظر آیا ہو … پھر برجی لا سے کے۔ٹو نظر آنے کی کیا تک ہے؟‘‘

 ’’تک ہو نہ ہو … نظر آتا ہے۔‘‘ سیف نے ہٹ دھرمی سے کہا۔ ’’آپ زمینی فاصلے کی بات نہ کریں ، دیوسائی سے کے۔ٹو کا فضائی فاصلہ سو سوا سو کلومیٹر سے زیادہ نہیں اور نظریں کے۔ٹو تک پہنچنے کے لئے جیپ کے سفر یا ٹریکنگ کی محتاج نہیں۔ ‘‘

 ’’تم نے برجی لا سے کے۔ٹو کا دیدار کیا ہے؟‘‘

 ’’خود نہیں دیکھا … کوئی جپسی دیوی صاحب ہیں … اُنھوں نے دیکھا ہے۔‘‘

 ’’جپسی ڈیوی؟ … اس نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔‘‘

 ’’ڈاکٹر صاحب ہو سکتا ہے کے۔ ٹو کی چوٹی کا تھوڑا بہت حصہ نظر آ جاتا ہو۔اس سلسلے میں اتنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘ شاہ صاحب نے بحث ختم کرنا چاہی۔

 ’’شاہ جی آپ کے خیال میں کے۔ٹو نظر آنا معمولی بات ہے؟کے۔ٹو ایک لازوال منظر نامے کا حصہ ہے جسکا دنیا میں کوئی جواب نہیں۔ ‘‘

 ’’برجی لا سے کسی لازوال منظر کے نظر آنے پر پابندی ہے؟‘‘ سیف نے پوچھا۔

 ’’کوئی پابندی نہیں ،اور یہ منظر برجی لا سے نظر آتا ہے تو سب سے زیادہ خوشی مجھے ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ منظر دیکھا کس نے ہے؟ ‘‘

 ’’بتا تو رہا ہوں کہ جپسی ڈیوی نے۔‘‘

’ لیکن یہ حوالہ سو فیصد غلط ہے۔ میں نے جپسی ڈیوی کے علاوہ کئی اور ٹریکرز کی ڈائریز بھی پڑھی ہیں۔  اُن میں سے کسی نے بھی کے۔ٹو دیکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔‘‘

 ’’اور کس کی رائے پڑھی ہے آپ نے؟‘‘

میں نے جیب سے نوٹ بک نکالی اور برجی لا کے بارے میں لکھے ہوئے پوائنٹس  پر نظر ڈالنے کے بعد کہا:

 ’’ برجی لا کی سب سے پہلی منظر کشی ڈکسن نے کی ہے۔ وہ  ۱۹۰۷ء  میں برجی لا سے گزرا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ دیوسائی سے برجی لا کا راستہ انتہائی دشوار گزار اور خوبصورت ہے۔بائیں جانب دیوسائی کی گول مٹول برف پوش چوٹیاں دل لبھاتی ہیں تو دائیں جانب قراقرم کی نوکیلی اور برف کی دھاریوں سے مزین چوٹیاں نظر آتی ہیں۔ اس نے امکان ظاہر کیا ہے کہ برجی لا سے ماؤنٹ گاڈون آسٹن یعنی کے۔ ٹو نظر آ سکتا ہے،لیکن دیکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس کے دس بارہ سال بعد برطانیہ کا ایک کوہ نورد ارنسٹ نیوی یہاں سے گزرا۔ اس کا کہنا ہے کہ برجی لا سے سلسلہ ہائے ہمالیہ کا خوبصورت ترین منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ کے۔ٹو کا نام اس نے نہیں لکھا۔ جپسی ڈیوی کا فرمانا ہے کہ میں برجی لا پر کھڑا تھا اور میرے چاروں طرف دور دور تک بیس ہزار فٹ اونچی چوٹیاں انتہائی خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں۔ میرا خیال ہے کے۔ٹو کو ان چوٹیوں میں شامل کرنا زیادتی ہو گی،اسکی بلندی اٹھائیس ہزار فٹ سے زیادہ ہے۔‘‘

 ’’فرما چکے یا اور کچھ فرمانا چاہتے ہیں ؟‘‘ سیف نے پوچھا۔

 ’’فرما چکا۔‘‘

 ’’آپ نے یہ فرسودہ نوٹس نہ جانے کب لئے ہوں گے،میں نے کل تارڑ صاحب کی ’’دیوسائی‘‘ پڑھی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے برجی لا سے نہ صرف کے۔ٹو بلکہ براڈ پیک۔ گیشربرم اور میشربرم کا نظارہ بچشم خود کیا ہے۔‘‘

 ’’تارڑ صاحب نے فرمایا ہے تو کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں نے یہ کتاب کیوں نہیں پڑھی؟‘‘

 ’’نالائقی ہے آپ کی۔‘‘ سیف نے انتہائی ادب سے جواب دیا۔

 ’’صاب یہ اتنا مشکل نئی اے۔ابی آپ آگے جائے گا تو دیکھے گا کہ تین سو کلومیٹر دور کا چیز نظر آنا اتنا مشکل بات بی نئی اے۔‘‘ باقی چائے خان نے کہا۔

 ’’کیسے دیکھے گا؟‘‘

 ’’ کارگل کا پہاڑ ادر سے چالیس پچاس کلومیٹر دور اے …  وہ پانچ کلومیٹر سے زیادہ نئی لگتا۔ کے۔ٹو تیس کلومیٹر دور نظر آئے گا … مگر نظر تو آئے گا ناں۔ ‘‘

باقی چائے خان کی دلیل قابل غور تھی۔ اس میں خوشخبری چھپی ہوئی تھی کہ کے۔ٹو بیس کیمپ کا پیدل ٹریک شاید میری استطاعت سے باہر ہو،برجی لا سے کے۔ٹو کا ویژول ٹریک(VISUAL TREK) سو فیصد میری دسترس میں تھا۔

٭٭٭

کارگل کہانی

’’آرٹ گیلری؟اس کا کیا مصرف ہے؟ذرا نیلے نیلے امبر تلے تیرنے والے نقرئی بادلوں کا مشاہدہ تو کریں  …  چاردیواری میں قید کوئی بھی آرٹ گیلری قدرت کے فطری مناظر کے عجائب گھر سے زیادہ مکمل اور دلکش کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘

(گرے لونگ سٹون)

 

دیوسائی میں سفر کا آغاز ہوا  … یہ سفر یکسانیت اور تغیر کا حسین امتزاج تھا۔ دیوسائی بے شک وہی تھی، مناظر قدم قدم پر نئی بہاراں تشکیل دے رہے تھے۔ سٹیج اور رقاصہ وہی  تھے  … جلوہ نمائی کی سر حدیں لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی تھیں  …  پہلے نقاب اترا … پھر لبادہ غائب  …  پھر … اور پھر …

 آپ کی نظروں کے سامنے تیس، چالیس یا شاید پچاس کلومیٹر فاصلے تک سبز، سنہری اور زرد گھاس کے لبادے میں ملبوس ہر قسم کے نشیب و فراز سے زیادہ دلکش اُبھار اور گہرائیاں بکھری ہوئی ہوں اور ایک پُر شکوہ چوٹی پر برفیلی چاندی سے بنایا گیا تخت دیوسائی کے دیو کا منتظر ہو …  اور اس کے اوپر گھنگھور گھٹاؤں کا شامیانہ سایہ فگن ہو …  تو بخوبی اندازہ لگایا جا  سکتا ہے کہ دیوسائی کے پیمانے سے چھلکتی شرابوں میں کتنا سرور ہو گا؟

 دیوسائی کے آسمان پر گھنگھور گھٹاؤں کا راج تھا۔

اور تو کیا جانے کہ  دیوسائی کی گھنگھور گھٹائیں کیا ہیں ؟

  یہ دیوسائی کا سب سے رنگین اور قیمتی نظارہ ہیں۔

ان فن پاروں کے رنگ بہشتِ بریں سے درآمد کئے جاتے ہیں۔

اور لمحہ بہ لمحہ تبدیل کر دیئے جاتے ہیں۔

یہ منفرد رنگ آج سے پہلے کس نے دیکھے تھے؟

دیوسائی میں اگر ایک بھی پھول نہ ہوتا،سرسبز گھاس کی ایک بھی پتی نہ ہوتی، مچلتے ہوئے پارے سے لبریز چھوٹے بڑے پانی نہ ہوتے،اس کا فرش رنگین سلوٹوں سے مزین ہونے کے بجائے سپاٹ ہوتا،ارد گرد برفیلی بلندیوں کے بجائے سنگلاخ چٹانیں ہوتیں ،مگر اس کی فضائیں پل پل رنگ بدلنے والے بادلوں سے معمور ہوتیں … تب بھی دیوسائی کا جادو اسی طرح سر چڑھ کر بولتا۔فطرت کے پجاری اسی طرح اس کا طواف کرتے۔مجھے اعتراف ہے کہ دیوسائی کی سرزمین پر قدم دھرتے ہی دیوسائی کی گھنگھور گھٹاؤں کے طلسم نے مجھے اپنے جادو میں اس طرح جکڑ لیا تھا کہ دیوسائی کے بقیہ مناظر پس منظر میں چلے گئے۔ حالانکہ ہمارے ارد گرد مناظر کی ایک نئی دنیا آباد تھی اور ہمارے سامنے ہمالیہ کی آخری چوٹیاں تھیں جن کے عقب میں نانگا پربت جیسا دیو قامت شاہکار روپوش تھا۔اور یہیں مجھ پر انکشاف ہوا کہ محبوب کی زلفوں کو گھنگھور گھٹا سے تشبیہ دی جاتی ہے تو صرف رنگت کی وجہ سے نہیں دی جاتی،اصل وجہ یہ ہے کہ دونوں کا کالا جادو اپنے شکار کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔

ہم ایک بلندی عبور کر رہے تھے جب باقی چائے خان کی آواز نے مجھے دیوسائی کی زلفوں کے طلسم سے رہائی دلائی:

 ’’صاب یہ جو بائیں سائیڈ پے پہاڑی کا لین نظر آتا اے ناں … وہ کارگل  کے علاقے کا پہاڑی اے اور ادر سے پچاس کلو میٹر دور اے۔‘‘

 ’’کارگل کی جنگ یہاں ہوئی تھی؟‘‘ میں نے  چونکتے ہوئے دریافت کیا۔

 ’’اصل جنگ ان سے آگے والے پہاڑی سلسلے پر ہوئی تھی لیکن واپس آتے ہوئے مجاہدین پر حملہ انھی پہاڑیوں پر کیا گیا تھا۔‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘

 ’’یہ پہاڑیاں دفاعی لحاظ سے انتہائی اہم ہیں۔ سن اڑتالیس میں اِنھوں نے   دیوسائی کی حفاظت کی تھی،ورنہ آج دیوسائی کارگل کا حصہ ہوتا اور ہم اس کے لئے اسی طرح آہیں بھرتے جیسے زوجی لا یا سری نگر کی ڈل جھیل کے لئے بھرتے ہیں۔ ‘‘ شاہ جی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا۔

 ’’شاہ جی ! جو بتانا چاہتے ہیں سلیس اردو میں بتائیں … پہلیاں نہ بجھوائیں ورنہ آپ کے خلاف سنسنی پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کروایا جا سکتا ہے۔‘‘

 ’’یہ سنسنی خیز مقدمہ ہماری عدالت میں دائر کیا جائے۔‘‘ کامران نے شہنشاہانہ انداز میں حکم جاری کیا۔ ’’معزز عدالت اس کنجوس مجرم کی مقروض ہے اور معزز عدالت کی جیب بالکل خالی ہے۔‘‘

شاہ جی شروع ہو گئے۔

 ’’کارگل جغرافیائی لحاظ سے بلتستان کا حصہ رہا ہے اور اس کا قدیم نام پوریگ تھا۔بر صغیر کی تقسیم کے وقت سکردو، کارگل اور لیہہ پر مشتمل وزارتِ لداخ مہاراجہ کشمیر کے زیرِ انتظام تھی۔ گلگت اور بلتستان کی جنگِ آزادی کے نتیجے میں سکردو آزاد کرا لیا گیا۔کارگل بدستور بھارت کے قبضے میں رہا اور آج کل بھارتی مقبوضہ کشمیر کا ایک ضلع ہے۔‘‘

 ’’’آپ دیوسائی کی حفاظت والے موضوع پر آئیں۔ ‘‘

 ’’ بلتستان کی جنگ آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا۔ مجاہدین نے گلگت پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سکردو اور لداخ کو آزاد کرانے کے لئے جد و جہد شروع کی۔ ایک دستہ سکردو پر قبضہ کرنے کے لئے متعین ہوا اور بقیہ مجاہد کارگل پہنچ گئے۔ سکردو سے پہلے کارگل پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔‘‘

 ’’کارگل پر سکردو سے پہلے قبضہ ہوا تھا تو یہ پاکستان کا حصہ کیوں نہیں ؟‘‘

 ’’کارگل پر مجاہدین نے قبضہ کیا تھا۔ انڈیا کی ایئر فورس میدان میں آ گئی تو وہ کارگل شہر پر قبضہ قائم نہ رکھ سکے کیونکہ کارگل کی کھلی فضا میں ہوائی حملوں سے بچاؤ کا کوئی امکان نہیں تھا اور مکمل تباہی یقینی تھی۔‘‘

 ’’پاکستان کی فضائیہ کہاں تھی؟‘‘ کامران نے اعتراض کیا۔

 ’’پاک فضائیہ اس وقت صرف چند مسترد شدہ طیاروں پر مشتمل تھی جن کے لئے فضا میں بلند ہونا محال تھا،کارگل پہنچنا اور جنگ میں حصہ لینا بہت دور کی بات تھی۔ مجاہدین نے پسپا ہو کر کارگل کی پہاڑیوں پر مورچے قائم کر لئے۔ بھارتی فوج اور فضائیہ پوری کوشش کے باوجود ان پہاڑیوں پر سے مجاہدین کا قبضہ ختم نہ کرا سکے۔ اس دوران سیز فائر کا اعلان ہو گیا اور کارگل ہائٹس پر مجاہدین کا قبضہ برقرار رہا۔یہ پہاڑیاں مجاہدین کو پناہ نہ دیتیں تو  ۱۹۴۸ء  میں بھارت نہ صرف دیوسائی پر قبضہ کر لیتا بلکہ سکردو بھی اس کی تحویل میں چلا جاتا۔یہ پہاڑیاں سکردو کی حقیقی محسن ہیں۔ ‘‘

 ’’میں ان پہاڑیوں کو سلام کرتا ہوں … لیکن میرا سوال جوں کا توں ہے۔ کارگل نہ سہی یہ پہاڑیاں پاکستان میں ہونی چاہئیں کیونکہ ان پر سکردو سے پہلے قبضہ ہوا تھا۔ میں سکردو آ سکتا ہوں تو کارگل کی پہاڑیوں تک کیوں نہیں جا سکتا؟‘‘

 ’’ستمبر ۱۹۶۵ء  میں بھارت نے ان پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔‘‘

 ’’اوہ … لیکن عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے کشمیر کے محاذ پر انڈیا کو بہت بری طرح شکست دی تھی۔‘‘

 ’’بالکل دی تھی،لیکن جنگ ایک محاذ پر نہیں ہوتی۔بھارت کے بہت سے اہم علاقے پاکستان کے قبضے میں تھے اور وہ انہیں واپس لینا چاہتا تھا۔ معاہدہ تاشقند کے نتیجے میں علاقوں کا تبادلہ ہوا اور کارگل ہائیٹس پاکستان کو واپس مل گئیں۔ ‘‘

 ’’شاہ جی پلیز،آپ بار بار کارگل کی پہاڑیوں پر پاکستان کا قبضہ ثابت کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ وہ پاکستان کا حصہ کیوں نہیں ؟‘‘

 ’’اکہتر کی جنگ میں انڈیا نے ان پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔شملہ معاہدے کے تحت جنگی قیدی رہا کرا لئے گئے لیکن سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول میں بدل دیا گیا۔ اس وقت کارگل ہائیٹس بھارت کے قبضے میں تھیں … سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول میں بدلنے کا مطلب کارگل ہائٹس پر انڈیا کا قبضہ تسلیم کرنا تھا۔‘‘

 ’’سیز فائر لائن اور لائن آف کنٹرول میں کیا فرق ہے؟‘‘ محبوب نے سوال کیا۔

 ’’سیز فائر لائن یا جنگ بندی لائن پر بین الاقوامی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔کنٹرول لائن کی خلاف ورزی بین الاقوامی جرم سمجھی جاتی ہے۔‘‘

 ’’شاہ جی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی بین الاقوامی جرم ہے تو جنگِ کارگل کیوں ہوئی تھی؟‘‘ کامران نے پوچھا۔

 ’’یہ بہت مشکل سوال ہے۔اس جنگ کے واقعات بہت مشہور ہوئے، اسباب کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ پاکستان کارگل پر قبضہ کر کے سیاچن پر سودے بازی کرنا چاہتا تھا۔حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ کارگل پر کشمیر ی مجاہدین نے قبضہ کیا تھا تاکہ دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول کی جا سکے۔‘‘

 ’’کارگل پر قبضہ آسانی سے ہو گیا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ انڈین فوج کا معمول تھا کہ برف باری شروع ہوتے ہی کارگل ہائٹس کے مورچے چھوڑ کر کارگل چھاؤنی میں چلے جاتے تھے۔ اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں وہ دوبارہ مورچے سنبھال لیتے تھے۔اُنیس سو ننانوے میں مجاہدین نے انڈین آرمی کے واپس آنے سے پہلے مورچوں پر قبضہ کر لیا اور بھارتی فوجیوں کا استقبال گولیوں سے کیا۔‘‘

 ’’ قبضہ خالی مورچوں پر کیا گیا تھا؟‘‘

 ’’جی ہاں ، ابتدا میں انڈیا نے اس مسئلے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ان کا خیال تھا کہ ۱۹۴۸ء  میں یا ۱۹۶۵ء  کی طرح یہ مورچے آسانی سے خالی کروا لئے جائیں گے … لیکن وہ بھول گئے کہ اُس وقت مقابلہ پیرا ملٹری فورسز سے تھا اور اِس مرتبہ پاکستان کی باقاعدہ فوج مقابلے پر تھی۔‘‘

 ’’فوج؟ … ابھی آپ مجاہدین کا ذکر کر رہے تھے؟‘‘

 ’’وہ حکومت کا موقف تھا … بھارت کی فوج نے کارگل ہائٹس پر قبضہ کرنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن آٹھ سو سے زیادہ جانیں گنوا کر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ مجاہدین نے کارگل ہائٹس سے لداخ سری نگر روڈ پر بمباری کر کے جموں کا سری نگر سے رابطہ منقطع کرنے کی کوشش کی تو انڈیا کو صورت حال کی نزاکت کا احساس ہوا۔ فوج کی ناکامی کے بعد انڈیا نے حکمتِ عملی بدل دی۔بھارتی میڈیا نے پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی مذمت شروع کر دی اور بھا رت کے انتہا پسند راہنماؤں نے حکومت پر زور دیا کہ پاکستان کارگل سے اپنی افواج واپس نہیں بلاتا تو پاکستان پر حملہ کر دیا جائے۔اس صورتِ حال نے پوری دنیا کو کارگل کے مسئلے کی طرف متوجہ کر دیا کیونکہ ایٹمی قوتوں کا ٹکراؤ تیسری جنگِ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا تھا۔پاکستان میڈیا وار بری طرح ہار گیا۔پاکستان پر چاروں طرف سے دباؤ بڑھ گیا کہ لائن آف کنٹرول کی پابندی کی جائے، اور  …  اور  …۔ ‘‘ شاہ صاحب خاموش ہو گئے۔

 ’’کیا اور؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’پاکستان کی حکومت ان دھمکیوں سے بری طرح بوکھلا گئی۔وزیر اعظم حواس باختہ حالت میں امریکی صدر کے حضور پیش ہوئے اور مداخلت کی درخواست کی۔‘‘

 ’’امریکہ کا اس معاملے سے کیا تعلق تھا؟‘‘ میں نے اعتراض کیا۔

 ’’ایک پاکستانی کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے۔آپ کے خیال میں حکومتِ پاکستان کا سپریم کمانڈر کون ہے؟‘‘ … میں نے اس انتہائی آسان سوال کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور شاہ صاحب نے بات جاری رکھی۔

 ’’امریکی صدر نے فیصلہ دیا کہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ مجاہدین کارگل ہائٹس کے مورچے خالی کر کے فوراً واپس آ جائیں ورنہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہو گا اور امریکہ پاکستان کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔‘‘

 ’’سیاچن پر بھارت کی جانب سے کی جانے والی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا کیا جواز تھا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’طاقتور سے جواز طلب نہیں کیا جا سکتا۔کاش ہم کہہ سکتے کہ مجاہدین اُس وقت تک کارگل سے واپس نہیں آئیں گے جب تک بھارت سیاچن خالی نہیں کرتا …  کر لو جو کرنا ہے۔‘‘

 ’’پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ؟‘‘

 ’’ہوتا تو ہمارے وزیر اعظم کو واشنگٹن میں کارگل جنگ بند کرنے کا یکطرفہ اعلان کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اُنھوں نے وطن واپس آ کر کارگل ہائٹس کے مورچے خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا۔پاکستان کی فوج کارگل ہائیٹس کی چوکیاں خالی کر کے واپس آ رہی تھی تو انڈین آرمی نے فضا سے بمباری کر کے سینکڑوں مجاہدین کو بھون ڈالا … موقع ملے تو یہ کہانی محبت علی سے سنیں۔  اس کے چار ساتھی اس حملے میں شہید ہو گئے تھے اور وہ خود بال بال بچا تھا۔ ‘‘

 ’’پاکستانی فضائیہ نے مجاہدین کو تحفظ کیوں نہیں دیا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’حکومت کا موقف تھا کہ کارگل پر قبضہ مجاہدین نے کیا ہے،پاک فوج اس میں ملوث نہیں۔ اس دعوے کی موجودگی میں پاک فضائیہ کیسے استعمال کی جا سکتی تھی؟‘‘

 ’’پاکستان نے فوج کی شرکت کا اعتراف نہیں کیا تھا تو کارگل کے معرکے کے بعد فوج کے جوانوں اور افسروں کو نشانِ حیدر دینے کا کیا جواز تھا؟‘‘

 ’’میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اس فیصلے سے پاکستان کا وقار بُری طرح مجروح ہوا۔فوج کی شمولیت کا اعتراف بر وقت کر لیا جاتا تو فضائی تحفظ فراہم کر کے سینکڑوں سر فروشوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ ‘‘

 کارگل کہانی اگر درست تھی تو ایک خوفناک سوال کو جنم دیتی تھی۔

جنگِ کارگل میں رتبۂ شہادت حاصل کرنے والوں کا قاتل کون تھا؟

 میں نے دیوسائی ہائیٹس کے عقب سے جھانکتی ہوئی کارگل ہائٹس کو سلامِ عقیدت پیش کیا۔یہ بلندیاں جو پانچ سو سے زائد سر بہ کفن جانبازوں کے انمول لہو کی امین تھیں پچاس کلومیٹر دور ہونے کے باوجود دل کے بہت قریب آ گئی تھیں۔  امانت مقدس تھی تو امین کے تقدس میں شبہ کیوں ؟

اے سرزمین ’’کارگل‘‘ ترے سر بلند آئے

بتا یہ چاہنے والے تجھے پسند آئے؟

یہ روشنی ہیں تیری بام و در سجا اپنے

لے اپنی گود میں یہ لاڈلے سلا اپنے

 ان انوکھے لاڈلوں کے ابدی بیڈ روم کا احترام ہر پاکستانی پر فرض تھا۔

اور پھر دیوسائی نے لبادہ اتار پھینکا اور اپنے پوشیدہ حسن کے پہلے لشکارے سے نوازا … یہ لشکارا ہمارا پہلا سٹاپ شتونگ تھا۔

دیوسائی میں سفر کرتے ہوئے بار بار گمان ہوتا ہے کہ ہم کسی اور سیارے پر آ گئے ہیں۔  حد نظر تک پھیلا ہوا سبزے کا لہریئے دار فرش درختوں اور پودوں کے وجود سے عاری ہے اور ایک قسم کی اجنبیت کا احساس پیدا کرتا ہے۔میدانی علاقوں  کے سبزہ زاروں کی عادی آنکھ اس منظر کو قبول نہیں کرتی۔شتونگ پہنچ کر کسی حد تک یہ اجنبیت دور ہو جاتی ہے۔ شتونگ کی کیمپنگ سائٹ سے کچھ دور ایک گھاٹی دیوسائی کے اُن منفرد مقامات میں شامل ہے جہاں چند جھاڑی نما پودوں کی جھلک نظر آتی ہے اور منظر میں اپنائیت کا احساس دلاتی ہے۔ دیوسائی کی اصطلاحات استعمال کی جائیں تو شتونگ در اصل شتونگ پانی ہے جہاں دیوسائی کے حسن کے پہلے لشکارے … یعنی دیوسائی کے پانیوں سے آشنائی ہوتی ہے۔ شتونگ کے نیلے پانی شتونگ کی گھاس کو چھوٹے چھوٹے جزیروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔  یاد رہے کہ دنیا کا کوئی پانی شتونگ کے پانیوں جتنا نیلا … اور دنیا کی کوئی گھاس شتونگ کی کھاس جتنی سبز و شاداب نہیں ہوتی۔ جو لوگ دیوسائی کے حسن کا قطرہ قطرہ کشید کرنا چاہتے ہیں وہ شتونگ پر کیمپنگ کرتے ہیں۔ ہم نے دنیا کے شفاف ترین پانیوں میں گھری ہوئی دنیا کی سبز ترین گھاس پر کچھ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔کامران پیانو ساتھ لایا تھا۔شتونگ پانی کی مدھر تانیں اسے دعوتِ موسیقی دے رہی تھیں۔  کامران غزل کی تیاری اس طرح کرتا ہے جیسے امتحان کی تیاری کی جاتی ہے۔اُس نے رات کو غزل کی ’’تیاری‘‘ کی تھی اور تیار شدہ غزل سنانے کے لئے بے چین تھا۔ اُس نے طاہر کی سنگت میں غزل سنائی:

ہم سب ہوں گے بادل ہو گا

دیوسائی میں پھر منگل ہو گا

شیوسر کی راہ پہ چلنے والو

رستہ سارا مخمل ہو گا

کس نے کیا مخمور ہوا کو

کسی پری کا آنچل ہو گا

دیوسائی کا ہے کوئی ثانی

کہنے والا پاگل ہو گا

بہت ساری تالیاں بجا کر اور ہلا گلا کر کے کامران کی خیال آفرینی کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔اس کے بعد فیض کی غزل … گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے … اور شتونگ پانیوں کے بیچ بیٹھ کر یہ غزل سنتے وقت ’’گلوں میں رنگ بھرے‘‘ اور ’’بادِ نو بہار‘‘ کے جو معنی آشکار ہوتے ہیں وہ دنیا کی کسی ڈکشنری یا انسائیکلو پیڈیا کی ورق گردانی کرنے سے سمجھ میں نہیں آتے۔

کامران نے ایک دو غزلیں اور سنائیں ، پھر اُس کے ذہن پر شرارت کا بھوت سوار ہو گیا۔ اس نے اعلان کیا:

 ’’حضراتِ گرامی … استقبال کیجئے۔ تشریف لاتے ہیں ہمارے معزز مہمان جناب ڈاکٹر محمد اقبال … وہ آپ کو اپنی سریلی آواز میں غزل سنائیں گے … تالیاں۔ ‘‘

اور زوردار تالیاں شروع ہو گئیں۔

 ’’میں ؟ … مجھے کوئی غزل وزل نہیں آتی۔‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔

لیکن آئیڈیا سب کے دل کو بھا چکا تھا اور وہ پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑ گئے۔ میں نے غزل وغیرہ سنانے سے صاف انکار کر دیا تو متفقہ طور پر جیپ چھوڑ ہڑتال اور احتجاجی دھرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ سب کے سب بے فکری سے ٹانگیں پسار کر شتونگ کی نرم و ملائم گھاس پر دراز ہو گئے۔

 میں نے نشتر میڈیکل کالج کے ہوسٹلوں کے باتھ روم سے باہر اتنی بلند آواز میں  کبھی نہیں گایا کہ کوئی سن سکے اور سر پھٹول کی نوبت آئے۔ دیوسائی کی فضاؤں میں میرا دل کچا پکا ہونے لگا۔یہاں سنجیدگی سے سننے والا کون تھا؟زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ شاہ جی اینڈ کمپنی میری گلوکاری کا مذاق اڑا لیتے۔ میں بہرحال یہ دعویٰ کرنے کے قابل ہو جاتا کہ میں نے شتونگ میں ، دنیا کے شفاف ترین پانیوں میں گھری ہوئی دنیا کی سر سبز و شاداب ترین گھاس پر منعقد ہونے والی محفل موسیقی میں بطور گلوکار شرکت کی تھی، اور دیوسائی کی سحر انگیز فضا میں گردش کرنے والے مدھر نغموں میں میری سنائی ہوئی غزل کے اشعار بھی اٹکھیلیاں کرتے پھرتے ہیں۔

میں نے ’’مجبوراً‘‘ ان کے احتجاجی دھرنے کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور کامران کی سنائی ہوئی فیض کی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے‘‘ پر طبع آزمائی کی کوشش کی۔اُنہوں نے احتجاج شروع کر دیا اور بازو لہراتے ہوئے نعرے بلند کئے۔

 ’’فاؤل ہے بھئی فاؤل ہے  … نہیں چلے گی … نہیں چلے گی۔‘‘

 ’’پھر کیا چلے گی؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔

 ’’آپ منی بیگم کی غزل سنائیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے فرمائش کی۔

 ’’شاہ جی خدا کا خوف کریں۔ ‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔ ’’میں منی بیگم کی غزلوں پر اتنا بڑا ظلم نہیں کر سکتا اور مجھے منی بیگم کی کوئی غزل آتی بھی نہیں۔ ‘‘

 ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک مرتبہ آپ نے کہا تھا کہ آپ کو منی بیگم کی غزلیں بہت پسند ہیں اور ایک بار مسکرا دو کا ایک بند سنایا تھا۔‘‘

میں ایک مرتبہ پھر ’’بے بس‘‘ ہو گیا۔

میں نے غزل شروع کی تو ایک بلند آہنگ اجتماعی قہقہہ شتونگ کی فضاؤں میں بلند ہوا … اور کامران نے دونوں ہاتھ بلند کر کے کہا:

 ’’ٹھہریں … ٹھہریں۔ ‘‘

 ’’جی نہیں … اب کچھ نہیں ہو سکتا …  آپ کو منی بیگم کی پوری غزل میری آواز میں سننا پڑے گی۔‘‘ میں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔

 ’’میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ منی بیگم زندہ ہے یا اللہ کو پیاری ہو چکی ہے؟‘‘

 ’’میرا خیال ہے زندہ ہے۔‘‘ میں نے بے یقینی سے کہا۔

 ’’پھر خیر ہے۔‘‘ کامران نے مطمئن ہو کر کہا۔

 ’’ کیا مطلب۔‘‘ میں نے اسے گھورا۔

 ’’ہمیں مردہ فنکاروں کو ان کی قبر میں اذیت دینے سے باز رہنا چاہیے۔‘‘ کامران نے انتہائی متا نت سے جواب دیا۔

میں اس حوصلہ افزائی کے بعد خاموش رہنا چاہتا تھا،لیکن وہ منی بیگم کی گائی ہوئی غزل ڈاکٹر اقبال کی آواز میں سننا چاہتے تھے۔ انہوں نے سنی  … اور کچھ اس قسم کی ہوٹنگ اور تبصرے کے ساتھ سنی کہ شتونگ پانیوں میں سرزد ہونے والی غزل سرائی یادوں کے انمول البم کا قیمتی اثاثہ بن گئی۔

اک بار مسکرا دو                  کیوں ؟

اک بار مسکرا دو                 نہیں مسکراتی کر لو جو کرنا ہے

تم جانِ مدعا ہو                  یہ کیا شے ہے جی

اک حسنِ دلربا ہو               اوئی اللہ

اتنا تو میں کہوں گا                صرف کہیں گے؟

میری ہی اک غزل کا            آپ کی غزل؟ کون ہے وہ؟

رنگین قافیہ ہو                  آپ خود ہوں گے قافیہ وافیہ

اک بات تم سے پوچھوں       بات اک رات کی نہ ہو

بولو جواب دو گے؟             جواب ہے … جواب ہے

یہ حسن یہ جوانی                 ٹی سی ہے بھئی ٹی سی ہے

سرکار کیا کرو گے                اتنا بھی نہیں پتا؟

ہونٹوں کی مسکراہٹ            ابھی تک ہونٹ؟بڑھے چلو،بڑھے چلو

بیچو خرید لوں گا                  خریدنے والی چیز کا نام نہیں آتا؟

منظور ہو تو بولو                  ہونٹوں کی جان چھوڑو تو بولوں

انمول دام دوں گا                ہونہہ، چھلا تو پوا یا نہیں جاتا

لیکن؟                            بس؟ رہ گئے ناں !

اک بار مسکرا دو                 مطلب کی بات کرو            

محفل موسیقی کے بعد شتونگ کو خدا حافظ کہہ کر سفر دوبارہ شروع کر دیا گیا۔ دیوسائی پر چھائے ہوئے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے اور دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی میں جاری رہنے والا یہ سفر لمحہ بہ لمحہ بہشتِ ارضی کے پوشیدہ گوشے بے نقاب کر رہا تھا۔

٭٭٭

بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرہ ہے

’’فطرت ایک لا محدود دائرہ ہے جس کا مرکز ہر جگہ ہے اور محیط کہیں نہیں ہے۔‘‘

(پاسکل)

 

ہم چھوٹے پانی کے کنارے پہنچے۔ باقی چائے خان نے بتایا کہ دو سال پہلے اس تیز رفتار پانی میں سے جیپ گزارنا ایک ایڈونچر سمجھا جاتا تھا کیونکہ اُس وقت اس پر پل نہیں تھا۔ اس پل نے چھوٹے پانی کی شوریدہ سری کو لگام ڈال دی تھی لیکن یہ پل آنکھوں میں کھٹکتا تھا کیونکہ اس کی تعمیر میں استعمال کی گئی سیمنٹ اور بجری نے چھوٹے پانی سے بہشتی نہر کا مرتبہ چھین کر اسے زمینی نالے میں تبدیل کر دیا تھا۔

 چھوٹے پانی کی کشش اس کے کنارے کنارے اُگے ہوئے بے شمار پھولوں کے اَن گنت تختے تھے۔ ہم نے چھوٹے پانی سے پہلے اور چھوٹے پانی کے بعد کئی پانی دیکھے جن کے کنارے بے شمار پھول تھے لیکن اُن کے چاروں طرف بھی پھولوں کی کمی نہیں تھی۔ چھوٹے پانی کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ارد گرد دور دور تک سر سبز و شاداب گھاس تھی، اور سارے کے سارے پھول چھوٹے پانی کے کنارے صف آراء ہو گئے تھے۔ پل کے دونوں جانب حّدِنظر تک چھوٹے پانی کا نیلگوں دھارا اور اس دھارے کے دونوں طرف بقول باقی چائے خان عاشقوں کو دعوتِ عیاشی دیتی ہوئیں … نیلے نیلے اودے اودے پیلے پیلے پیرہن میں ملبوس  …  پریاں قطار اندر قطار …  چھوٹا پانی ہرگز چھوٹا نہیں ہے اور دل موہ لینے کے معاملے میں بہت زیادہ کھوٹا ہے۔

چھوٹے پانی کے بعد بڑے پانی کی باری تھی۔

بڑا پانی ایک بڑی نہر یا چھوٹا دریا ہے اور دیوسائی کا سب سے گہرا نشیب ہے۔

اس کو ’’ بروائی ندی‘‘ بھی کہتے ہیں۔

اس کا بلتی نام ’’ چھوگو چھو‘‘ (چھوگو=پانی … چھو=بڑا) ہے۔

بڑا پانی ہماری نظروں کے احاطے میں آیا تو ہم دیوسائی کی ایک بلندی پر معلّق تھے اور دیوسائی کا سحر ہمارے حواس پر قبضہ جما چکا تھا۔ہم محسوس کر رہے تھے کہ دیوسائی کا دیو ہمیں پھولوں سے بنے ہوئے عظیم الجثہ پیالے میں چھوڑ گیا ہے اور پچاس کلومیٹر دور تک نظر آنے والے رنگین و سنگین منظر کے اُفق پر نظر آنے والی برف پوش، سبز پوش اور سنگلاخ چوٹیاں اس پیالے کی دیواریں ہیں جنھیں عبور کرنے کو دل نہیں چاہتا،اور بڑے پانی کی نیلگوں لہروں کا پر شکوہ بہاؤ ہمیں ہپناٹائز کر رہا ہے۔

چھوگو چھو کی لہروں میں گیت سرسراتے ہیں

بھیگے بھیگے جھونکوں میں مستیوں کا ڈیرہ ہے

 مستیوں  کے اس ڈیرے میں خیمہ لگا کر عمر گزاری جا سکتی ہے۔

دیوسائی کے ارد گرد پھیلی ہوئی بلندیوں سے آنے والے پہاڑی ندی نالے ایک مرکز پر جمع ہو کر بڑے پانی کو جنم دیتے ہیں جس کا قدیم نام دریائے شگر ہے۔ اس نسبت سے دیوسائی بھی وادیِ شگر کہلاتی تھی۔ کے۔ٹو والی وادیِ شگر زیادہ مقبول ہو گئی تودیوسائی نے شناخت برقرار رکھنے کے لئے ’’وادیٔ شنگھو‘‘ سے الحاق کر لیا اور دونوں مل کر شگر شنگھو کہلانے لگیں۔ وادیِ  شنگھو آجکل گل تری کہلاتی ہے لیکن اس کا دریا ابھی تک شنگھو کے نام سے موسوم ہے۔ بڑا پانی دریائے شنگھو سے مل کر دریائے شنگھو شگر بناتا ہے اور بھارتی سرحد عبور کر کے دریائے دراس کا حصہ بن جاتا ہے۔ دریائے دراس دریائے سورو میں شامل ہو کر دوبارہ پاکستان کا رُخ کرتا ہے اور وادیِ  کھرمنگ میں دریائے سندھ کے پانیوں میں گُم ہو جاتا ہے۔

بڑا پانی اپنے معلق پل کی وجہ سے ساری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔اس پل کے قریب نصب کئے گئے ایک بورڈ پر تحریر کیا گیاہدایت نامہ فرماتا ہے کہ پل کی تصاویر لینا قابلِ سزا جرم ہے۔ ہدایت نامہ پڑھنے والا بے ساختہ فرماتا ہے … صدقے جاواں۔

میں نے بڑے پانی کے معلق پل کی انتہائی خوبصورت تصویر سکردو میں داخل ہوتے وقت دیکھی تھی۔ پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن نے گلگت سکردو روڈ کے کنارے ایک جہازی سائز کے تشہیری بورڈ پر اس پل کی تصویر چسپاں کر دی ہے تاکہ سکردو آنے والے حضرات دیوسائی کی زیارت کا پروگرام بنا کر نہیں آئے تو یہ پل دیکھ کر بنا لیں۔  پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے اس خوبصورت پل کی تصاویر تمام ممالک کے محکمہ سیاحت کو ارسال کر دی گئیں ہیں۔  مزید احتیاط کے لئے یہ پوسٹر پاکستان اور خاص طور پر سکردو کی تمام ٹور ایجنسیوں کو مہیا کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اسے اپنے دفاتر میں آویزاں کر کے اُن کی رونق دوبالا کریں۔  انٹر نیٹ کی بے شمار سائٹس پر یہ پل دیوسائی کی نمائندگی کرتا ہے اور غیرملکی کرم فرماؤں کے دل للچانے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں اس خوبصورت منظر کا حصہ بننے کے لئے دیوسائی تشریف لے آئیں۔

مگر اس پل کی تصویر بنانا جرم ہے۔

ہُن میں صدقے جاواں کے ناں جاواں ؟

 بڑے پانی کے پل سے گزرتے وقت جیپ سے اترنا ضروری ہے۔ہم نے بڑے پانی کے منظر سے آنکھیں سینکیں لیکن یہاں قیام کو واپسی کے سفر تک ملتوی کر دیا۔ پل پر قدم رکھنے کے بعد طاہر اور سیف کے درمیان کچھ اشارے بازی ہوئی اور دونوں حضرات وہ رسّہ نما فولادی تار پکڑ کر کھڑے ہو گئے جس کے سہارے پل معلق تھا۔ہم بڑے پانی کی نیلگوں لہروں اور ان پر رقص کرتی ہوئیں ٹراؤٹ فش کی اداؤں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پل عبور کرنے لگے۔ درمیان میں پہنچے تو طاہر اور سیف نے معلق پل کا فولادی تار اپنی پوری قوت سے ہلانا شروع کر دیا۔اس حرکت کے نتیجے میں پل جھولا جھولنے لگا اور ہمیں چکر آنے لگے۔ ہم نے رسّوں کا سہارا لے کر بمشکل خود کو سنبھالا اور دونوں تخریب کاروں کو فصیح و بلیغ گالیوں وغیرہ وغیرہ سے نوازنا شروع کر دیا۔ اُن پر کوئی اثر نہ ہوا۔وہ اس وقت رُکے جب تھک گئے۔ ہم رسّوں کا سہارا لئے بڑے پانی کی لہروں پر نظر ٹکائے اپنے قدم جمائے رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔

 ’’شاہ جی  … پکڑو پکڑو۔‘‘ محبوب نے بوکھلا کر ہانک لگائی۔

 ’’بکواس بند کر … تجھے پکڑوں گا تو خود گر جاؤنگا۔‘‘ شاہ جی نے جوابی ہانک لگائی۔

 ’’مجھے نہیں ، پل کو پکڑو … یہ ہمیں نیچے گرا کر فرار ہونے کے موڈ میں ہے۔‘‘

 محبوب کا واویلا بے بنیاد نہیں تھا۔بڑا پانی ساکت ہو چکا تھا اور پل اس کی سطح پر ہلکورے لیتا ہوا تیر رہا تھا۔ میں نے بوکھلا کر ادھر اُدھر دیکھا تو مزید بوکھلا گیا۔دائیں جانب والا سبزہ زار بائیں جانب کی برف پوش چوٹی سے ہم آغوش ہونے کی کوشش میں مصروف تھا۔اس الٹ پلٹ نظارے کی نسبت پل کی سواری زیادہ پُر لطف تھی۔ میں نے بڑے پانی کی لہروں پر نظریں جما ئیں اور مفت کے جھوٹے لینے لگا۔چند منٹ بعد طبیعت ٹھکانے آئی تو محسوس ہوا کہ چکر ختم ہو گئے ہیں لیکن پل کا سفر جاری ہے۔پس ثابت ہوا کہ بڑے پانی کے عالمی شہرت یافتہ پل کی سواری کے لئے طاہر اور سیف کا رسّے ہلانا ضروری نہیں۔

آپ اگر دیوسائی آتے ہیں تو یہ تجربہ ضرور کریں۔ پل کے درمیان پہنچ کر رسّوں کو  تھام لیں اور بڑے پانی کی لہروں پر نظریں جمائے رکھیں۔  پل خود کار نظام کے تحت سٹارٹ ہو کر آپ کو بہاروں کی ملکہ کے دربار میں پہنچا دے گا۔

بڑا پانی سے آگے جیپ ٹریک ایک تنگ درّے سے گزرتا ہے۔ باقی چائے خان نے درّے کا نام بتایا تھا جو مجھے یاد نہیں رہا۔درّے کے بعد دیوسائی کے پانیوں ، پھولوں اور بادلوں کی آنکھ مچولی فطرت کے حسن کی ’’نوی نکور‘‘ جھلکیاں زائرین کی خدمت میں پیش کرتی ہے۔ یہ جھلکیاں احساس دلاتی ہیں کہ دیوسائی جیپ سفاری ایک خوبصورت لیکن ادھورا سفر ہے۔ اس سفر میں دیوسائی کے حسن کی بالائی رعنائیاں جیپ سفار کو اپنی دلکشی میں اُلجھائے رکھتی ہیں ،ا تھاہ گہرائیوں تک جانے والے راستے ہاتھ نہیں آتے۔

حسن کے کھلتے پھول، ہمیشہ کوہ نورد کے ہاتھ بکے

اور گاڑی کے متوالوں کو دھول ملی ویرانوں کی

 جیپ کے اردگرد صرف چند گز کا منظر ہمارا منظر تھا۔ آگے کے تمام مناظر پہنچ سے دور تھے۔ یہ خوبصورت مناظر پکارتے تھے،اپنی ناقدری پر تلملاتے تھے اور مجھے حیران کرتے تھے۔ کس کو دیکھوں ؟ … کس تک پہنچوں ؟ … کس کو اپناؤں ؟ … اور کیسے اپناؤں ؟

 افسوس !میں اس وقت کوہ نورد نہیں ،جیپ سفار تھا۔ مناظر کی پکار ایک آوارہ گرد  کو اپنے سحر میں جکڑ کر اس کے قدموں کا رُخ پھیر سکتی ہے، فولاد اور پلاسٹک سے بنا ہوا اسٹیئرنگ اس پکار سے متاثر نہیں ہوتا۔

 ایک گھنٹے بعدہم ’’کالا پانی‘‘ پہنچے جو کسی زمانے میں ’’ کرانب‘‘ کہلاتا تھا۔

کالا پانی صرف نام کا کالا ہے۔یہ دیوسائی کی سب سے رنگین کیمپنگ سائٹ ہے اور یہاں دیوسائی نے اپنے بدن پر لپٹے ہوئے پھولوں کے گجرے تار تار کر کے ان میں پروئے گئے تمام پھول سٹیج پر بکھیر دئیے تھے۔بے چارہ تماشائی ہونقوں کی طرح گم سم تھا کہ گل دیکھے یا بیباک حسینہ کی گلبدنی کا نظارہ کرے۔

کالا پانی کئی پانیوں کا مجموعہ ہے اور اسے عبور کرتے وقت آدھی سے زیادہ جیپ پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ کالا پانی کی تہہ میں موجود بڑے بڑے پتھر اس کے شفاف پانیوں سے صاف نظر آتے ہیں۔ اس وقت کالا پانی شرافت کا مظاہرہ کر رہا تھا لیکن باقی چائے خان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات یہ اتنا غضبناک ہو جاتا ہے کہ یہاں سے جیپ گزارنا ممکن نہیں ہوتا اور کافی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔

 ’’ اس کالے کلوٹے پانی کو عبور کرتے ہوئے جیپ میں بیٹھے رہنا پرلے درجے کی بد ذوقی ہے۔‘‘ کامران نے شگوفہ چھوڑا۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘ سیف نے وضاحت چاہی۔       

 ’’میں اس ننھے منے پانی کو پیدل عبور کروں گا۔‘‘ کامران نے اعلان کیا اور جوتے اتارنے لگا۔

 ’’اور میں بھی۔‘‘ سیف نے جیپ سے نیچے چھلانگ لگاتے ہوئے کہا۔

 ’’تم لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔ ’’ یہاں سے پیدل گزرنا مذاق نہیں ہے۔دو سال پہلے شاہد نے کوشش کی تھی،اُس وقت پانی نسبتاً کم تھا  لیکن وہ چند قدم سے زیادہ آگے نہیں جا سکا تھا۔‘‘

 ’’میں شاہد نہیں ہوں۔ ‘‘ سیف نے سینہ پھلاتے ہوئے کہا اور بری طرح ناکام رہا۔اسکے ڈنٹھل نما سینے میں پھولنے کی گنجائش نہیں تھی۔

 ’’یار عقل کے ناخن لو۔‘‘ شاہ صاحب نے تشویش سے کہا۔ ’’یہاں نالے کا پاٹ چوڑا ہونے کی وجہ سے پانی کی رفتار کم معلوم ہوتی ہے، ورنہ یہ انتہائی تیز رفتار دھارا ہے اور تمہیں اندازہ نہیں کہ یہ کتنا ٹھنڈا ہے۔‘‘

 ’’اس کی ٹھنڈائی کا اندازہ کرنے کے لئے اسے عبور کرنا ضروری ہے۔‘‘ کامران نے پائنچے چڑھاتے ہوئے کہا۔

 ’’شاہ جی انہیں کوشش کرنے دیں ، کتنی دور جا سکیں گے ؟ ابھی واپس آ  جائیں گے۔‘‘ طاہر نے کہا۔

 ’’یار مجھے اس سیف کا خطرہ ہے۔اس کا دھان پان جسم پتھروں میں پھنس پھنسا گیا تو باہر کیسے نکالیں گے؟‘‘ شاہ صاحب نے پریشان پریشان لہجے میں کہا۔

 ’’ام نکالے گا نا صاب۔‘‘ باقی چائے خان نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بالکل فکر نئی کرو۔امارے پاس رسّہ ہے ناں۔ ام پانی میں پھنسی ہوئی جیپ نئی چھوڑتا، اس صاب میں تو وزن ای نئی اے۔‘‘

 ’’اوئے تو چپ کر … رسے کے مامے۔‘‘ سیف نے جوگر اتارتے ہوئے کہا۔

 ’’یار سیف،تم دل و جان سے کوشش کرنا کہ پتھروں میں پھنس جاؤ۔میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ پتھروں میں پھنسے ہوئے کیچوے کی گردن میں پھندا ڈال کر باہر کیسے نکالا جاتا ہے؟‘‘ محبوب نے انتہائی لجاجت سے فرمائش کی۔

 ’’ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ہمیں خواہ مخواہ خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ شاہ جی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

 ’’شاہ جی کوئی خطرہ وطرہ نہیں ہے۔چھوٹا سا شغل ہے۔جو لوگ ٹریکنگ کرتے ہیں وہ اس پانی کو پیدل عبور کرتے ہیں اور میرا خیال ہے آج تک یہاں کوئی حادثہ نہیں ہوا۔جیپ میں بیٹھے رہنا تھا تو ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر دیوسائی کی تصاویر دیکھ لیتے۔ اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ کامران نے  جارحانہ انداز میں کہا۔

 ’’یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے مداخلت کی۔ ’’یہ لوگ پیدل عبور کریں ، ہم جیپ میں بیٹھ کر ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کوئی دشواری پیش آئی تو سنبھال لیا جائے گا۔ دیوسائی میں اتنی بے قاعدگی تو ہونی چاہیے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی ان کا ساتھ دوں مگر …۔ ‘‘

 ’’ہُرّا …۔ ‘‘ کامران نے میری بات کاٹ کر نعرہ بلند کیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب دل کی آواز پر فوراً  لبّیک کہیں۔  اگر مگر چھوڑ کر پینٹ اتاریں اور جوگرز اوپر چڑھا لیں  … آئی ایم سوری …  جوگرز اتاریں اور پینٹ اوپر چڑھا لیں۔ ‘‘

میں نے جوگرز کے تسمے کھولنا شروع کر دیئے۔

شاہ جی کے چہرے پر زلزلے کے آثار نظر آئے، لیکن میری بزرگی اور مہمانیت کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔

ہم تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے اور کالا پانی کے نیلو نیل دھارے میں داخل ہو گئے۔ پانی گھٹنوں سے اوپر تک پہنچتا تھا اور انتہائی سرد تھا۔چند سیکنڈ چلنے کے بعد ہمیں محسوس ہوا کہ گھٹنوں سے نیچے کا حصہ شل ہو کر کالے پانی کے ساتھ بہہ گیا ہے اور ہم حیران و پریشان ہیں کہ ٹانگوں کے بغیر کیونکر چلے جا رہے ہیں ؟ اور کدھر چلے جا رہے ہیں ؟

سیاہ پانی کی ٹھنڈک نے عجب پاگل بنا ڈالا

کبھی تو ہم سنبھل جائیں ، کبھی ہم پھر لڑھک جائیں

اس پاگل پن پر جیپ والوں کی طرف سے دھواں دھار ہوٹنگ ہو رہی تھی۔شاہ صاحب کو اطمینان ہو گیا کہ صورتِ حال قابو میں ہے تو اُنھوں نے ’’ ہوٹروں ‘‘ کی قیادت سنبھال لی اور آوازے کسنے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ہم نے ڈگمگاتے لڑکھڑاتے اور ٹراؤٹس سے ٹکراتے ہوئے کالا پانی عبور کیا اور فاتحانہ نعرے لگائے۔ سیف اور کامران نے اپنی جرسیاں اتار کر لہرائیں اور جیپ کے ٹیپ ریکارڈ پر پلے ہونے والے میوزک پر ڈانس کرتے ہوئے جیپ نشین ’’ بزدل ہوٹروں ‘‘ کے گرد طواف کیا۔

کالا پانی عبور کرنا کوئی کارنامہ نہیں تھا،لیکن ہم کارنامے سر انجام دینے نہیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں سمیٹنے نکلے تھے، اور سمیٹ رہے تھے۔ محبوب اور صابر ڈانس پارٹی میں شامل ہو گئے۔باقی چائے خان نے میوزک کی آواز بڑھا دی۔کامران لڈی ڈال رہا تھا، سیف نہایت سنجیدگی اور نپے تلے قدموں کے ساتھ غالباً خٹک ڈانس کر رہا تھا۔ محبوب آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے دونوں ہاتھ کولھوں پر رکھ کر اپنی گردن عجیب و غریب انداز میں آڑی ترچھی کر کے مشہور بلتی رقص ’’گردن ڈانس‘‘ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور صابر؟ … وہ اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ بے ہنگم اچھل کود مچا کر ’’ہڑبونگ ڈانس‘‘ کی پیروڈی پیش کر رہا تھا۔

 طاہر، شاہ جی، فیصل اور میں تالیاں بجا کرا نہیں داد دے رہے تھے۔صابر کا بے ہنگم رقص تمام با ہنگم رقصوں پر بھاری تھا۔ہم تو اسے دیکھ کر ہنس ہی رہے تھے،باقی چائے خان کی نہ جانے کون سی رگ پھڑک اُٹھی تھی کہ وہ صابر کی حرکات پر قلقاریاں لگا لگا کر باقاعدہ لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔

 ’’صاب آپ کیسا ڈانس کرتا اے؟‘‘ اس نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پایا اور صابر سے براہِ راست سوال کیا۔

 ’’صاب بھالو ڈانس کرتا اے۔‘‘ صابر نے تھرکتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا۔

 ’’بھالو ای اوئے … بھالو ای اوئے۔‘‘ کامران نے دورانِ لڈی صابر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نعرہ لگایا۔

صابر کے جواب اور کامران کے نعرے نے مستقبل کے کئی فقرات کو جنم دیا۔ اُن کا ذکر اپنی جگہ … فی الحال کالا پانی … جس کا ماورائی سکوت ہماری وجہ سے درہم برہم ہو گیا تھا۔ہم گردو پیش کے ماحول سے بے خبر اپنی خر مستیوں میں مگن تھے کہ ایک بھدی اور بیٹھی بیٹھی آواز نے  رنگ میں بھنگ ڈال دیا:

 ’’ایکسکیوز می  … اِف یو ڈونٹ مائنڈ … پلیز ریڈیوس دا ساؤنڈ۔‘‘

تھرکتے ہوئے قدم اور کوکتی ہوئی سیٹیاں رک گئیں۔ 

ایک کوتاہ قامت،سرخ و سفید اور بھالو نما غیر ملکی نے ہمیں ’’ڈسٹرب‘‘ کیا تھا۔

 ’’جی؟ … آپ کو کیا تکلیف ہے۔‘‘ طاہر نے جارحانہ انداز میں پوچھا۔

غیرملکی اردو نہیں سمجھتے اس لئے کئی مزید ناروا تبصرے بھی اچھال دیئے گئے۔

 ’’آئی اہیو نو تاکلیف … آئی ول بی ویری تھینک فُل اِف یو ریڈیوس دا ساؤنڈ آف یور میوزک۔‘‘

(مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے … تم موسیقی کی آواز کم کر لو تومیں شکرگزار ہوں گا)

اُس نے انتہائی تحمل سے اپنی درخواست دوہرائی اور ہمارا جواب سنے بغیر اباؤٹ ٹرن ہو کر جدھر سے آیا تھا اُدھر چلا گیا۔

ہم نے غور کیا تو علم ہوا کہ ہم سے چند قدم کے فاصلے پر ایک کیپسول نما خیمہ نصب تھا اور وہ پردہ اٹھا کر خیمے میں غائب ہو گیا تھا۔غیر ملکی کی اردو دانی ہمارے لئے غیر متوقع اور ناقابل یقین تھی۔ہمارے چہروں پر بارہ بجنے لگے۔شاہ صاحب نے ٹیپ ریکارڈر آف کر دیا۔

 ’’شاہ جی آپ گانا چلائیں۔ یہ اُلّو کا پٹھا ڈسٹرب ہوتا ہے تو پہاڑی پر خیمہ لگا لے، راستے میں مراقبہ ہاؤس کیوں کھولے بیٹھا ہے؟‘‘ طاہر نے انتہائی غصے سے کہا۔

 ’’جانگلی۔‘‘ شاہ صاحب نے زیر لب کہا۔

 ’’ وہ سچ مچ جنگلی ہوتا تو ہم دُم دبا کر فرار ہو رہے ہوتے،اُسے بھالو اور اُلّو کا پٹھا کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ ‘‘ میں نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔

 ’’میں اسے نہیں ، خود کو کہہ رہا ہوں۔ ہم نے کونسا ہمالیہ سر کیا تھا کہ جنگلی ڈانس کی ضرورت پیش آئی؟‘‘ شاہ صاحب نے شرمندگی سے کہا۔

 ’’چھوڑیں شاہ جی۔وہ پھوپھڑ لگتا ہے دیوسائی کا؟ہمالیہ کا بھورا ریچھ اعتراض کرے تو کوئی بات بھی ہے، یورپ کا سرخ ریچھ کون ہوتا ہے ہمیں روکنے والا؟ آپ اجازت دیں تو میں اس کی چمکتی ہوئی ٹِنڈ  پر تھوڑی سی چھترول کر آؤں ؟آئندہ پاکستانیوں کے معاملات میں ٹِنڈ اَڑانے کی غلطی نہیں کرے گا۔‘‘ طاہر نے کہا۔

 ’’جانگلی۔‘‘ شاہ صاحب نے اس مرتبہ قدرے بلند آواز میں کہا اور تصویر بنانے لگے۔

٭٭٭

چائے بنانے کی کوششیں بھی تمام ناکام ہو گئی ہیں

’’ جھیل زمین کی آنکھ ہے … اس کی گہرائی میں جھانک کر انسان اپنی فطرت کی گہرائی کا اندازہ لگا سکتا ہے۔‘‘

(ہنری ڈیوڈ)

 

ہم سب ادھر اُدھر بکھر گئے اور کالے پانی کے رنگین پھولوں کو کیمرے میں قید کرنے لگے۔ میں ایک ’’پانی‘‘ اور اس کے ’’گارڈن‘‘ کو کمپوز کر رہا تھا کہ صابر نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی کی۔

 ’’مار موٹ۔‘‘

میں نے نظروں سے اُس کے اشارے کا تعاقب کیا۔تقریباً پچاس گز کے فاصلے پر دو عدد گولڈن براؤن گلہریاں جو عام گلہریوں کی نسبت بہت زیادہ وسیع و عریض تھیں اور جسامت میں بی لومڑی کو شرماتی تھیں باقاعدہ رومانس فر ما کر فحاشی پھیلا رہی تھی۔دل کھول کر فحاشی پھیلا نے کے بعد انہوں نے زوردار سیٹیاں بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔اُن کی سیٹیوں کی آواز حیرت انگیز طور پر انسانی سیٹیوں سے ملتی جلتی تھی۔کامران نے انھیں کے انداز میں سیٹیاں بجانے کی کوشش کی اور بڑی حد تک کامیاب رہا۔کامران کی سیٹیاں سن کر مارموٹ کا جوڑا غالباً پریشان ہوا، اور اٹینشن کے انداز میں کھڑا ہو کر اپنی لمبی لمبی موچھیں ہلاتے ہوئے حیران حیران نظروں سے ہماری طرف دیکھنے لگا۔

 ’’میں مارموٹ کے بارے میں پڑھ چکا ہوں لیکن دیکھ پہلی مرتبہ رہا ہوں۔ ‘‘ میں نے مارموٹ کی تصویر لیتے ہوئے کہا۔

 ’’یہ گولڈن مارموٹ ہے۔ ‘‘ صا برنے بتایا۔ ’’ مارموٹ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ملتا ہے، لیکن دیو سائی کا مارموٹ عام مارموٹ سے جسامت میں بڑا ہوتا ہے اور زیادہ ذہین اور تہذیب یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ زیر زمین گھروندے بنا کر رہتا ہے اور گھروندے باقاعدہ گھر ہوتے ہیں۔  ‘‘

 ’’باقاعدہ گھر ؟ آپ کا مطلب ہے کہ چھت لینٹر ڈ ہوتی ہیں اور فرش پر ماربل وغیرہ لگا ہوتا ہے؟‘‘

 ’’میرا مطلب ہے مارموٹ فیملی بنا کر رہتا ہے اور ہر فیملی کا گھر تین کمروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کمرہ بیڈ روم کے طور پر استعمال ہوتا ہے، دوسرے میں خوراک ذخیرہ کی جاتی ہے اور تیسرا بیت الخلا کا کام دیتا ہے۔ ‘‘

 ’’بیڈ روم ہونے کے باوجود یہ اوپن ایئر فحاشی شو کیوں چلاتا ہے؟‘‘

 ’’اس سلسلے میں مارموٹ مغربی اقدار اپنانا پسند کرتا ہے۔‘‘

 ’’بہت خوب۔ بائی دا وے  … آپ نے اردو میں ایم اے کیا ہے یا مارماٹولوجی میں پی۔ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے؟‘‘

 ’’ڈگری کو چھوڑیں۔ ‘‘ صابر کے بجائے شاہ صاحب نے جواب دیا۔ ’’جنگلی حیات کے بارے میں دنیا جہان کی معلومات حاصل کرنا اس کا مرغوب مشغلہ ہے۔سکردو میں پوسٹنگ ہونے کے بعد اسے دیوسائی سے خصوصی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ چند روز پہلے یہ کسی رپورٹ کا ذکر کر رہا تھا جسکے مطابق دیوسائی سے برفانی چیتے کا وجود ختم ہو چکا ہے۔یہ اس قومی نقصان پر کئی گھنٹے افسردہ رہا تھا۔‘‘

 ’’دلائلِ سلوک جنگلی حیات کے بارے میں بھی معلومات مہیا کرتی ہے؟‘‘ میں نے مصنوعی حیرانی سے پوچھا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب مذہبی کتابوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ میں نے پچھلے دنوں روزنامہ ڈان میں عالمی یونین برائے تحفظ قدرتی ماحول کی جاری کردہ ایک رپورٹ پڑھی تھی۔ اُس میں دیوسائی کی جنگلی حیات کا ذکر تھا اور کئی نایاب جانوروں کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ دیوسائی سے ناپید ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔ ‘‘ صابر دلائل سلوک کے نام پر سنجیدہ ہو گیا۔

 ’’چلیں اب منہ پھلانے کی بجائے رپورٹ کے بارے میں بتا دیں۔  کون کون سے جانور ناپید ہونے والے ہیں۔ ‘‘ میں نے شگفتہ لہجے میں کہا۔

 ’’ دنیا میں نایاب جانوروں کی اٹھارہ نسلیں ایسی ہیں جن کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے، اور اُن میں سے دس پاکستان میں بلکہ دیو سائی میں پائی جاتی ہیں۔ ‘‘

 ’’یہ جانور کون کون سے تھے؟ کچھ یاد ہے؟‘‘

 ’’ چند ایک یاد ہیں ان میں آئی بیکس، اڑیال، برفانی چیتا، ہمالین براؤن بیئر، مارکوپولو شیپ، جنگلی گدھا …۔ ‘‘

 ’’ ہائیں تمھاری نسل کو بھی خطرہ پیدا ہو گیا؟‘‘ محبوب نے دہشت زدہ انداز میں کہا اور اپنی سیٹ میں دبک گیا۔

 صابر اُسے خشمگیں نظروں سے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔

 ’’برفانی چیتے کے لئے کوئی پروٹیکٹڈ ایریا نہیں بنایا گیا؟‘‘

 ’’پروٹکٹڈ ایریا سب کے لئے ہے،بدقسمتی سے برفانی چیتا پروٹیکٹڈ ایریا مخصوص ہونے سے پہلے ہی ناپید ہو چکا تھا۔‘‘

 ’’ جانوروں کو پروٹیکٹڈ ایریا تک محدود کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ میں نے یہاں کو ئی چاردیواری یا باڑ وغیرہ نہیں دیکھی۔‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’ پروٹیکٹڈ ایریا میں وزیٹرز کا داخلہ ممنوع ہے، براؤن بیئر پر پروٹیکٹڈ ایریا تک محدود رہنے کی پابندی نہیں ہے۔کالا پانی براؤن بیئر کی پسندیدہ جگہ ہے اور وہ کبھی کبھی صبح کی سیر کرنے یہاں تشریف لاتا ہے۔‘‘

 ’’اچھا؟ … میں اعلان کرتا ہوں کہ ہمالیہ کا بھورا ریچھ یہاں تشریف لے آئے تو میں آگے نہیں جاؤنگا۔جب تک وہ سامنے والی سڈول ڈھلوانوں پر لڑھکنیاں لگاتا رہے گا اور کالے پانی میں مچھلیوں کا شکار کرتا رہے گا اسے، اور بعد میں اس کے نقشِ پا کو تکتا رہوں گا۔ آپ لوگ شیوسر لیک سے واپسی پر مجھے یہیں سے وصول کر لینا۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’نقشِ پا کو تکنے سے کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ صابر نے سنجیدگی سے سوال کیا۔

 ’’فائدہ؟ … پتا نہیں کیا فائدہ ہو گا۔‘‘ میں نے بوکھلا کر کہا۔

 ’’ اس لئے اوور ایکٹنگ چھوڑیں اور جیپ میں سوار ہوں۔  ‘‘

میں واقعی اوور ایکٹنگ کر رہا تھا … چپ چاپ جیپ میں سوار ہو گیا۔

ہمالیہ کی جنگلی حیات ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔جارج بی شیلر اس ضمن میں لکھتا ہے:

 ’’جب ہم ستاروں پر کمند ڈالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں تو اپنے قدموں میں بکھرے ہوئے پھولوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ ہمالیہ کی دیومالائی حیات صرف اُس وقت ختم ہو گی جب ہم خود اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیں گے۔زمانے گزرتے رہیں گے … ہمالیہ کی چوٹیاں بدستور فلک کے بوسے لیتی رہیں گی … لیکن جب ہمالیہ کا آخری برفانی چیتا شکار کر لیا جائے گا … اور آخری مارخور کسی چٹان کی بلندی پر دم توڑ رہا ہو گا  … تو ہمالیہ کی زندگی سے دلکشی اور رعنائیاں ختم ہو جائیں گی … اور یہ بے زبان پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گا۔‘‘ 

ہم تو پہلے ہی ہمالیہ کو بے زبان پتھروں کا ڈھیر سمجھتے ہیں ،ہمیں اس کی زندگی یا موت سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ عالمی یونین برائے تحفظ قدرتی ماحول پاکستان کے جنگلی جانوروں کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا شکار ہے تو یہ اس کی معصومیت ہے۔ اسے ادراک نہیں کہ پاکستان کا مسئلہ جنگلی حیات کا تحفظ نہیں ، شہری حیات کی بقا ہے۔ پاکستان میں مذہبی بمقابلہ روشن خیال شدت پسندی اسی رفتار سے ترقی کرتی رہیں تو جنگلی حیات سے پہلے شہری حیات کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

  کالے پانی سے آگے تھوڑی دور سفر کیا تھا کہ ڈرائیور نے جیپ روک دی۔ وہ اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔

 ’’کیا ہو ا باقی چائے خان صاحب ؟ خیر تو ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’صاحب وہ ایگل۔ ‘‘

 ’’ایگل؟ کدھر ہے ایگل ؟روکو روکو۔ ‘‘ جیپ کے پچھلے حصے سے آوازیں بلند ہوئیں۔ 

 ’’باغیچہ خان یہ ایگل نہیں گدھ ہیں۔ ‘‘ محبوب نے کہا۔

جیپ روڈ کے ساتھ ساتھ بہت سے گدھ صف باندھے کھڑے تھے۔

 ’’اِدھر نہیں اُدھر دیکھو صاب۔‘‘ اُس نے انگلی سے اشارہ کیا۔

 ’’یہ؟  … یہ ایگل ہے؟ ‘‘ میں نے بے یقینی سے کہا  … میں اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا اور آسانی سے انگلی کے اشارے کا تعاقب کر سکتا تھا۔

’میں کھلے آسمان پر اڑتے ہوئے ایگل کو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ قید شدہ عقاب ایک دو مرتبہ دیکھے تھے۔ لیکن یہ!  …  کیا شاندار پرندہ تھا اور کتنی با وقار پرواز تھی،  وہ چند منٹ سامنے نظر آنے والی پہاڑی کے گرد چکر لگاتا رہا اور پھر اس کی چوٹی پر لینڈ کر گیا۔چند منٹ ادھر اُدھر کا جائزہ لینے کے بعد اس نے دوبارہ پرواز شروع کی۔ ہماری نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے اُس نے ایک برق رفتار غوطہ لگایا اور ایک چٹان کی اوٹ میں روپوش ہو گیا۔ باقی چائے خان کا خیال تھا کہ عقاب کسی ٹراؤٹ یا مارموٹ پر جھپٹا تھا۔

دیو سائی گولڈن ایگل ایک کلاسیک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں گولڈن ایگل سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے اور دیوسائی کا عقاب عرب شہزادوں کا پسندیدہ ترین شکاری پرندہ ہے۔پرانے زمانے میں یہ دشمنوں کی آنکھیں نکالنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا آجکل شکاری میچ منعقد کرنے کے کام آتا ہے۔گولڈن ایگل خرگوش، ہرن، بھیڑ، بکری اور لومڑی کا شکار کر سکتا ہے۔ دیوسائی کو نیشنل پارک قرار دیکر شکار پر پابندی نہیں لگی تھی تو سیزن کے دنوں میں عقاب پکڑنا ایک منافع بخش مشغلہ سمجھا جاتا تھا اور عقاب کی قیمت فاصلے کے حساب سے وصول کی جاتی تھی۔آپ ڈلیوری دیوسائی میں ہی لے لیں تو قیمت ایک لاکھ  … سکردو میں دو لاکھ … گلگت میں تین لاکھ … راولپنڈی میں پانچ لاکھ … اور مشرقِ وسطیٰ میں ؟ … سوچیں مت،اگر راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں تو عقاب پکڑنے کے طریقے سیکھیں اور دیوسائی آ جائیں۔ نیشنل پارک کی انتظامیہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ، آخر اپنے پاکستانی بھائی ہیں ،ٹین پرسنٹ نہ سہی ٹونٹی پرسنٹ سہی۔

 دیوسائی میں پائے جانے والے عقاب یہاں کے مستقل باشندے نہیں ہیں۔  یہ منگولیا اور وسط ایشیا سے نقل مکانی کر کے یہاں پہنچتے ہیں اور دیوسائی کو موسمِ گرما کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ میں نے جب سے علامہ اقبال کا شعر … پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں  … کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ … پڑھا تھا میں سمجھتا تھا کہ عقاب واقعی آشیانہ نہیں بتاتا،لیکن سکردو کی جامع مسجد کے امام محترم بلال صاحب کی کہانی سنی تو علم ہوا کہ دیوسائی کا شاہین درویش تو ہے لیکن آشیانہ بناتا ہے اور بہت بڑا بناتا ہے۔

بلال صاحب نے اتفاقاً ایک عقاب پکڑ لیا تھا۔

وہ امامت کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت حکمت بھی کر لیتے ہیں۔ اُن کا فرمانا ہے کہ وہ جوان بنا دینے والی ایک بوٹی کی تلاش میں دیوسائی کے ارد گرد پھیلی ہوئی چوٹیوں کے پتھر چھان رہے تھے کہ انھیں ایک عظیم الشان گھونسلا نظر آیا جس میں ایک عدد عقاب استراحت فرما رہا تھا۔ درختوں کی موٹی موٹی شاخوں سے بنایا گیا یہ گھونسلا چٹان کی دراڑ میں تعمیر کیا گیا تھا اور بذاتِ خود ایک غار معلوم ہوتا تھا۔ اس کے دہانے کا قطر اُن کے قد سے زیادہ تھا اور لمبائی مسجد کی محراب کے لگ بھگ تھی۔اُن کا خیال ہے کہ ایگل کے گھونسلے میں نماز با آسانی ادا کی جا سکتی ہے اور اعتکاف میں بھی بیٹھا جا سکتا ہے۔ امام صاحب آگے روانہ ہو گئے اور جڑی بوٹیاں اکٹھی کر کے کئی گھنٹے بعد واپس آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عقاب جوں کا توں محوِ خواب تھا۔ انھوں نے نزدیک سے عقاب کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ وہ نیم بیہوش تھا۔ امام صاحب کسی نہ کسی طرح عقاب کو گرفتار کر کے اپنے گھر لانے میں کامیاب ہو گئے اور اس کا علاج شروع کر دیا۔ اُن کا ارادہ تھا کہ عقاب تندرست ہو گیا تو اسے فروخت کر کے ڈیڑھ دو لاکھ کھرے کریں گے اور کوئی ڈھنگ کا کاروبار کریں گے کیونکہ جب سے شیعہ سنی فسادات شروع ہوئے ہیں امامت منافع بخش پیشہ نہیں رہا۔امام صاحب کا فرمانا ہے کہ جوں جوں عقاب تندرست ہوتا گیا توں توں اُن کی اہلیہ اور صاحبزادی بیمار ہوتی گئیں اور انھیں یقین ہو گیا کہ اُن کی بیماری کی وجہ عقاب کے بارے میں بُرے ارادے رکھنے کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے عقاب کو آزاد کر دیا اور بقول اُن کے دو لاکھ روپے سکردو کی فضا میں پرواز کر گئے … لیکن یہ ضرور ہوا کہ اُن کی اہلیہ اور بیٹی عقاب آزاد کرنے کے فوراً بعد بھلی چنگی ہو گئیں جیسے اُنھیں کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ بلال صاحب کو سو فیصد یقین ہے کہ یہ عقاب واقعی پرندوں کی دنیا کا درویش تھا، اور کچھ زیادہ ہی پہنچا ہوا درویش تھا۔

گولڈن ایگل نظروں سے اوجھل ہو گیا تو سفر دوبارہ شروع ہوا۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد شیو سار نمودار ہوئی اور … روح کو سرشار کر گئی۔نظریں شیوسار لیک کی جھلملاہٹ میں الجھ کر پلٹنا بھول جاتی ہیں۔ 

   قدرت نے اس نیلگوں نگینے کے لئے سرمئی رنگ کے چٹانی بیک گراؤنڈ کا انتخاب کر کے ایک لازوال کنٹراسٹ تخلیق کیا ہے۔مجھے خوشی ہوئی کہ شیوسار کے شفاف پانیوں کی نقرئی سطح پر مچلتی ہوئی کرنوں نے مجھے اپنی رنگینیوں کے جال میں گرفتار کیا اور بہاروں کی ملکہ کے دربار میں کورنش بجا لانے پر مجبور کر دیا:

شیوسارِ چمن کے قدموں پر

سر جھکاؤ بہار کے دن ہیں

جیپ شیوسر جھیل سے کچھ فاصلے پر پارک کر دی گئی۔

 میں کبھی شیوسر اور کبھی شیوسار لکھتا ہوں تو یہ کتا بت کی غلطی نہیں … SHEOSAR کو دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔

شیوسر لیک یا شیوسار لیک کا لفظی مطلب ’’اندھی جھیل‘‘ ہے۔

نہ جانے کس عقل کے اندھے نے روشنائی جھیل کو شیوسر لیک کا نام دیا تھا۔

شیوسار لیک کچھ لوگوں کے نزدیک پاکستان کی خوبصورت ترین جھیل ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ پاکستان کی اُن تمام جھیلوں سے زیادہ خوبصورت ہے جو میں نے دیکھی ہیں ،اور میں نے پاکستان کی بہت کم جھیلیں دیکھی ہیں۔  سطح سمندر سے چار ہزار ایک سو ستر(۴۱۷۰) میٹر بلند شیوسار لیک دنیا کی بتیسویں اور پاکستان کی تیسری(ہنزہ کی رُش لیک ۴۶۹۴ میٹر اور اشکومِن کی کرامبر لیک ۴۲۷۲ میٹر کے بعد ) بلند ترین جھیل ہے۔

 جھیل تک پہنچنے کے لئے چھوٹی سی واک کرنا پڑی۔

ایک صاحب کا قول ہے کہ خدا نے ہمیں یادداشت اسی لئے دی ہے کہ ہم خزاں میں بھی چاروں طرف کھلے ہوئے گلاب دیکھ سکیں۔  اس قول پر عمل کرتے ہوئے میں جھیل کے کنارے موجود ایک چٹان نما پتھر پر براجمان ہو گیا اور شیوسار پر ٹکٹکی لگا کر اسے ذہن کے خفیہ گوشوں میں منتقل کرنے کی کوشش کرنے لگا تاکہ وہاڑی پہنچ کر بھی اس کے درشن سے لطف اندوز ہو سکوں۔  شیوسار کی ظاہری شکل و صورت کے لئے کوئی اصطلاح تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔وادیِ  کاغان کی سیف الملوک،دودی پت سر اور لولو پت سر دائرہ نما یا پیالہ نما ہیں۔  سکردو کی شنگریلا کو کھینچ تان کر بیضوی کہا جا سکتا ہے، ست پڑا چوکور ہے۔اپر کچورا لمبوتری ہے، اور دیوسائی کی شیوسار؟شیوسار سے معذرت کے ساتھ … اپنی تمام تر دلکشی کے با وجود بے ڈھنگی ہے۔سٹار فش جیسی ہے  …  امیبا AMOEBA کی مانند ہے۔ یہ تشبیہ ذہن میں آتے ہی شیوسار نے سرزنش کی:

 ’’شیوسار دیوسائی کی ملکہ ہے۔اسے حق حاصل ہے کہ دیوسائی کے سبز مخملیں بستر پر استراحت فرماتے ہوئے جب چاہے، جدھر چاہے، اور جتنے چاہے پاؤں پھیلائے۔تم اعتراض کرنے والے کون ہو؟‘‘

میں دیوسائی کی ملکہ کو دل کے ’’جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘‘ والے جھروکے میں بسا چکا تو اس کے قریب گیا اور اپنے ساتھیوں میں شامل ہو گیا جو شیوسار کا طواف کرنے کا ارادہ رکھتے تھے،بلکہ طوافِ زیارت شروع کر چکے تھے۔

جھیل کنارے بچھا ہوا سبزے کا فرش اچھا خاصا دلدلی تھا جس میں پاؤں دھنستے تھے اور بے تحاشہ ’’شراپڑ شراپڑ‘‘ کرنے کے باوجود فاصلہ طے نہیں کرتے تھے۔ کنارے کے ساتھ ساتھ جھیل کی گہرائی زیادہ نہیں تھی اور پانی اتنا شفاف تھا کہ تہہ کے رنگین پتھر اور ان پتھروں سے ٹکرا کر اچھلتے ہوئے ٹراؤٹ فش کے گروہ صاف نظر آتے تھے۔جھیل میں ٹراؤٹ فش کی تعداد پتھروں سے کم نہیں ، کچھ زیادہ ہی تھی۔ اُن کے چمکیلے بدن دعوتِ طعام دیتے تھے لیکن ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے کیونکہ ہمارے پاس فشنگ راڈ نہیں تھا۔ہم اگر پائنچے چڑھا کر جھیل کے اندر چلتے تو شاید ہماری رفتار بڑھ جاتی لیکن جھیل کا پانی کالے پانی سے کئی گُنا زیادہ یخ بستہ تھا اور ہم جھیل کنارے منعقد ہونے والی ٹراؤٹ ریس میں مخل ہو کر ٹراؤٹس کے لئے دشواریاں پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے۔

 کافی دیر چلنے کے باوجود فاصلہ کم ہوتا نظر نہ آیا تو شاہ صاحب نے فرمایا:

 ’’اوئے یہ تو ایک سائیڈ ہی شیطان کی آنت بن گئی ہے۔ذرا تیز چلو، ورنہ یہاں رات ہو جائے گی۔‘‘

 ’’وہ تو ہو گی، کیونکہ اس جھیل کی لمبائی تقریباً اڑھائی کلو میٹر ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

 ’’جی ای …۔ ‘‘ شاہ صاحب رک گئے۔ ’’ آپ کا مطلب ہے کہ اس جھیل کا چکر لگانے کے لئے دس کلومیٹر چلنا پڑے گا؟‘‘

 ’’نو کلومیٹر … اس کی چوڑائی صرف دو کلومیٹر ہے۔‘‘

 ’’آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ شاہ صاحب نے جھلا کر کہا۔

 ’’آپ کو علم ہونا چاہیے،آپ یہاں پہلے بھی آ چکے ہیں۔ ‘‘

 ’’ آ چکا ہوں  … لیکن میں اس جھیل کی لمبائی چوڑائی ناپنے نہیں آیا تھا، اور  مجھے تو اب بھی آپ کی بات پر یقین نہیں آ رہا … دو کلومیٹر اتنے چھوٹے بھی نہیں ہوتے۔‘‘

 ’’او۔کے … چلتے رہیں ،رات تک یقین آ جائے گا۔‘‘

 ’’میں اس جھیل میں نہانا چاہتا ہوں۔ ‘‘ سیف نے ٹانگ اڑائی۔

 ’’اوئے کیچوے … تو کیوں اس دنیا سے کوچ کرنا چاہتا ہے؟ جسم دیکھا ہے اپنا؟ کوئی ٹراؤٹ چارہ سمجھ کر ہڑپ کر جائے گی، ہمیں خواہ مخواہ وقت پڑ جائے گا۔‘‘

شاہ جی نے سیف کو ’’سمجھایا‘‘ اور جھیل کے طواف کا ارادہ غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر کے سبزے کے بھیگے بھیگے نرم و ملائم فرش پر تشریف فرما ہو گئے۔

 ’’ جھیل کی گہرائی کے بارے کیا خیال ہے آپ کا؟کنارے پر تو یہ چند انچ سے زیادہ گہری نہیں لگتی۔‘‘ شاہ صاحب نے سوال کیا۔

 ’’میں بتاؤں ؟‘‘ میرے جواب دینے سے پہلے کامران نے ایک سعادتمند شاگرد کی طرح ہاتھ کھڑا کر کے جواب دینے کی اجازت چاہی۔

 ’’بتاؤ۔‘‘

 ’’لیکن میں کیسے بتاؤں ؟‘‘ اس نے پریشانی کا اظہار کیا۔ ’’پیمانہ تو میرے پاس ہے نہیں … آئی ایم سوری  …  ڈاکٹر صاحب آپ ہی بتا دیں۔ ‘‘

 ’’کونسا پیمانہ؟‘‘ شاہ صاحب نے تجسس سے پوچھا۔

 ’’محبوبہ نمبر پانچ … کاش محبوبہ نمبر پانچ میرے ساتھ ہوتی۔ میں شیوسار کی گہرائی ناپ رہا ہوتا اور آپ تاک جھانک کر کے چسکے لے رہے ہوتے۔‘‘ کامران نے چسکے پر ضرورت سے زیادہ زور دیتے ہوئے وضاحت کی۔

 ’’یہ کیا بکواس ہے؟‘‘  شاہ صاحب نے چیں بجیں ہو کر کہا۔

 ’’او بیوی کے چنگل میں پھنسے نادانو … جھیل کی گہرائی ماپنے کا گُر تم کیا جانو؟

جاتی ہے ’’شیوسار‘‘ کی گہرائی کہاں تک

آنکھوں میں تری ڈوب کے دیکھیں گے کسی دن

  ’’الو کا پٹھا۔‘‘ شاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے داد دی۔

کامران ایم۔اے اردو تھا اور ادبی ذوق رکھنا اس کی مجبوری تھی۔اس لئے بعض اوقات وہ ’’اے کلاس‘‘ ادبی پھلجڑی بھی چھوڑ بیٹھتا تھا۔

 ’’ اس کی گہرائی ایک سو تیس فٹ کے لگ بھگ ہے۔‘‘ میں نے بتایا۔

 ’’چھوڑیں جی۔آپ نے اس کی گہرائی کا اچار ڈالنا ہے؟ ذرا صحتمندانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ ‘‘  طاہر نے ایک نیا شوشہ چھوڑا۔

 ’’کونسی سرگرمی؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔

 ’’کیوں نہ تھوڑی سی کوہ پیمائی کر لی جائے؟‘‘ اس نے پہاڑی کی طرف اشارہ کیا۔

اس تجویز کو محبوب کے علاوہ سب نے سراہا۔

مشرقی پہاڑی بہت زیادہ بلند نہیں تھی، چوٹی پر پتھروں سے بنے ہوئے دو مینار نظر آ رہے تھے اور ڈھلوان پر ان گنت پھول تھے۔ اس مشغلے کو انعامی مقابلے کی شکل دے کر اعلان کیا گیا کہ جیتنے والے کی ڈکی میں بیٹھنے کی بقیہ اقساط معاف کر دی جائیں گی۔

 تالیاں اور سیٹیاں بجا کراس خطیر انعامی عیاشی کی منظوری دی گئی۔

 ’’خدا نخواستہ میں جیت گیا تو کیا انعام ملے گا۔‘‘ میں نے تشویش سے پوچھا۔

 ’’آپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی قسط معاف کر دی جائے گی،اور یہ تکلیف دہ سیٹ ہارنے والے کو الاٹ کر دی جائے گی۔‘‘ صابر نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔

اِس فیصلے کا خیر مقدم پہلے سے زیادہ تالیاں اور سیٹیاں بجا کر کیا گیا۔

چڑھائی اتنی آسان نہیں تھی جتنی نظر آتی تھی۔مجھے مقابلہ جیتنے کی نسبت ہارنے میں دلچسپی تھی، اس لئے گل و گلزارچڑھائی سے لطف اندوز ہوتا ہوا بقول مومن خان ’’چٹک مٹک‘‘ آگے بڑھتا رہا اور اس وقت چونکا جب ایک گولا قدموں میں آکر برسٹ ہوا۔

 یہ برف کا گولا تھا۔

مقابلے کے شرکاء نے تقریباً آدھا راستہ طے کیا ہو گا کہ انہیں ایک بہت بڑا  گلیشئر نظر آ گیا۔کوہ پیمائی میچ کے ہاف ٹائم کا اعلان کر کے برف کے گولے بنانے اور ایک دوسرے پر برسانے کا ذیلی مقابلہ منعقد ہوا۔ اس برف ماری مقابلے میں سیف نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس کے سب سے زیادہ گولے نشانے پر لگے اور وہ بہت کم لوگوں کا نشا نہ بنا۔

برف ماری مقابلے کے بعد سنو مین بلکہ سنو وومین بنانے کی کوشش کی گئی۔اس وومین کا میک اپ گھاس اور پھول کی پتیوں سے کیا گیا۔

طاہر اور سیف نے برف کے گھروندے بنا کر بچپن کی یادیں تازہ کیں۔

 آرمی پبلک سکول کے اساتذہ کا گروپ نوجوانوں پر مشتمل تھا،لہٰذا وہ لڑکپن کی تمام حرکتیں کرنے میں حق بجانب تھے۔میں نے حسبِ مقدور ان کاروائیوں میں حصہ لیا لیکن  سینیارٹی کی وجہ سے ایک بے نام احساسِ محرومی اور تنہائی کا شکار رہا۔

 کاش کسی نے میری شرٹ کے گریبان میں برف ڈالی ہوتی!

کوہ پیمائی مقابلہ دوبارہ شروع ہوا۔ چوٹی کے نزدیک پہاڑی بہت زیادہ عمودی تھی اور ہمیں باقاعدہ سانس چڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ سیف کے دھان پان جسم میں سانس چڑھنے کی گنجائش نہیں تھی اس لئے اس نے یہ مقابلہ با آسانی جیت لیا۔ہم اُس سے تقریباً دس منٹ بعد باری باری چوٹی تک پہنچے۔ مجھے خوشی تھی کہ میں پھسڈی نہیں رہا اور اس مقابلے میں حوصلہ افزائی کا انعام حاصل کیا،یعنی چوتھے نمبر پر اوپر پہنچا۔

 اور کچھ زیادہ اوپر پہنچ گیا۔

علی ملک پاس سے شیوسار تک کے سفر میں دیو سائی کی وسعت نے ہمیں مرعوب کر دیا تھا، اس چوٹی پر پہنچ کر ہماری خودی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔دیوسائی کی وسعتیں سمٹ کر کیلنڈر کے ایک پرت میں تبدیل ہو گئیں اور شیوسار کے صاف و شفاف اور وسیع و عریض پانی اس منظر کے ایک کونے میں دبک کر پاکٹ سائز جھیل کی مانند نظر آنے لگے۔ آس پاس کی گل رنگ پہاڑیاں عید میلاد النبی کے موقع پر گلی کوچوں میں بنائی جانے والی ’’شملہ پہاڑیوں ‘‘ میں تبدیل ہو گئیں۔ ہمارے قدم ایک معمولی سی پہاڑی کی چوٹی پر تھے، لیکن ہم دیوسائی کے گولڈن ایگل سے بھی زیادہ بلند ہواؤں میں پرواز کر رہے تھے:

دیوسئی است کہ شیوسر است

تہہِ بال و پرِ ما است

 پہاڑی کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اس کے جنوب مشرقی کنارے پر پہنچے اور ایک دیو قامت پتھر کے قریب سے گزرتے ہوئے ’’ہاؤ‘‘ کا فلک شگاف نعرہ سن کر بُری طرح لرز گئے۔یہ محبوب تھا جس نے پتھر کے عقب سے اچانک نمودار ہو کر ہمیں ڈرانے کی کوشش کی اور سو فیصد کامیاب رہا۔ ہم اُسے جھیل کنارے لم لیٹ حالت میں چھوڑ آئے تھے،وہ پہاڑی کے اختتامی کنارے پر کیسے پہنچ سکتا تھا؟

صابر نے پہلے اپنی آنکھیں مسلیں … پھر محبوب کی موجودگی کا یقین کرنے کے لئے اُس کی مختلف ’’جگہیں ‘‘ مسلیں …   اور یقین آ گیا تو آخری چٹکی کاٹتے ہوئے پوچھا:

 ’’اوئے … تو یہاں کیسے پہنچ گیا؟‘‘

 ’’جھیل پر ایک پری نہانے آئی تھی … واپس جانے لگی تو میں نے لفٹ کی فرمائش کر دی۔اُس نے اپنے پروں پر بٹھایا اور یہاں چھوڑ گئی۔‘‘ محبوب نے اپنے گال سہلاتے ہوئے انتہائی معصومیت سے جواب دیا۔

محبوب آئیں بائیں شائیں کرتا رہا اور کوئی واضح جواب نہ دیا۔ہم نے اندازہ لگایا کہ ڈرائیور نے اُسے کسی شارٹ کٹ سے آگاہ کر دیا ہو گا۔یہ اندازہ بعد میں درست ثابت ہوا۔باقی چائے خان اُسے پہاڑی کے عقب سے گزرنے والے ایک جیپ ٹریک تک چھوڑ گیا تھا جہاں سے چڑھائی نسبتاً آسان اور مختصر تھی۔

ہم چوٹی کو ہاتھ لگا کر واپس آنے کا ارادہ لے کر چوٹی پر پہنچے تھے، لیکن اس دوران افق سے بادل چھٹ گئے اور دیوسائی کی بلندیوں کے عقب میں ایک روپہلی پٹی درشن دینے لگی۔ یہ نانگا پربت کی سلور سیڈل تھی۔نانگا پربت کی چوٹی تک جانے والی برفانی شاہراہ کا آخری حصہ …  اس جھلک نے مجھے ایک مرتبہ پھر رائے کوٹ سرائے کے سبزہ زار میں پہنچا دیا،جہاں نام ور کوہ پیما رائن ہولڈ  میسنر نانگا پربت سر کرنے کی مہم کے دوران سلور سیڈل سے گزرتے ہوئے پیش آنے والی دشواریوں کی داستان سنا رہا تھا۔  ایک ایسے کارنامے کی داستان جسے سر انجام دینے کے دوران اُس کا بھائی گونتھر  میسنر زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔میں نے اپنے ساتھیوں کو نانگا پربت کی طرف متوجہ کیا تو ایک سنسنی پھیل گئی۔یہ نانگا پربت کی بلندی کا بہت چھوٹا سا ’’ٹوٹا‘‘ تھا،لیکن  شاہ اینڈ کمپنی اسے دیکھ کر اتنے پر جوش تھے جتنا میں نانگا پربت بیس کیمپ پہنچ کر ہوا تھا۔

آخر یہ ٹوٹے انسان کی کونسی جبلت کی تسکین کرتے ہیں ؟

پہاڑی سر کرنے کے لئے کی جانے والی مشقت کی وجہ سے آلو بھرے پراٹھوں والا ہیوی ڈیوٹی ناشتا وقت سے پہلے ہضم ہو گیا اور بھوک کا احساس ستانے لگا۔دل نہ چاہنے کے باوجود ہم پہاڑی سے نیچے اترے اور جھیل کے کنارے سے کچھ دور سبزے کے فرش پر دری بچھا کر لنچ  کا اہتمام کیا جانے لگا۔

چاول گرم کرنے کے لئے سٹوو جلانے کی کوشش کی تودیوسائی کی ٹھنڈی ٹھار ہواؤں نے سٹوو کی آگ کے ساتھ سرد جنگ شروع کر دی۔یہ ہوائیں بہت تیز تھیں اور سٹوو کے شعلوں کو سر اُٹھانے کا موقع نہیں دے رہی تھیں۔  ہم سب سٹوو کے گرد ایک دوسرے میں ’’پھنس‘‘ کر بیٹھ گئے تاکہ ہوا کی رکاوٹ ہو سکے۔سر جوڑ جد و جہد کے بعد سٹوو جل گیا لیکن چاول گرم نہ ہو سکے کیونکہ شعلے چاولوں کا درجہ حرارت ایک درجہ بڑھاتے تھے، ہوائیں دو درجے گھٹا دیتی تھیں۔  ہم نے دو چار مرتبہ الٹنے پلٹنے کے بعد فرض کر لیا کہ چاول گر م ہو چکے ہیں اور نہایت رغبت سے انھیں نوشِ جان فر مایا۔محبت علی کا بنایا ہوا مرغ پلاؤ یخ بستہ حالت میں بھی ملتان کے ’’ لذیذہ مرغ پلاؤ‘‘ سے زیادہ لذیذ تھا۔

چائے بنا نے کی کوششوں کا حشر چاول گرم کرنے کی کوششوں سے زیادہ  المناک ہوا:

چائے بنانے کی کوششیں بھی تمام ناکام ہو گئی ہیں

شیو سر کے راستے میں نہ جانے یہ کیا مقام آیا

دودھ کا رنگ پتّی کی وجہ سے تبدیل ہو ا تو سمجھ لیا گیا کہ دودھ چائے میں بدل چکا ہے اور اس کے مزید بدلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔  اس ’’دودھ چائے ‘‘ کو تقسیم کرنے کا مرحلہ آیا تو انکشاف ہوا کہ محبوب پیالیوں کا شاپر سامان میں رکھنا بھول گیا تھا اور چائے پینے کے لئے ہماری پاس صرف ایک گلاس تھا۔

 ’’ محبوب کے بچے دل چاہتا ہے … ۔‘‘ صابر نے دانت پیستے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔

 ’’ محبوب کے ساتھ جو دل چاہے کرو … محبوب کے بچوں پر دست درازی اخلاقیات کے منافی ہے۔‘‘ کامران نے بات کاٹتے ہوئے اعتراض کیا۔

صابر محبوب کے ساتھ وہی کچھ کرنا چاہتا تھا جو ہر کوئی اپنے ذاتی محبوب کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔

 ’’ میں نے کپ ڈکی میں رکھ دیئے تھے۔ ‘‘ محبوب نے ہٹ دھرمی سے کہا۔

 ’’ پھر کہاں چلے گئے؟‘‘

 ’’پتا نہیں۔  ‘‘ محبوب نے سادگی کہا۔

 ’’مگر مجھے پتا ہے۔ ‘‘ صابر نے لال پیلے ہوتے ہوئے کہا۔ ’’فکر نہ کر بچّو! ہوسٹل پہنچ کر نہ نکالے تو میرا نام …۔ ‘‘

 ’’بھالو نہیں۔ ‘‘ صابر کی بات کاٹ کر زوردار اجتماعی نعرہ بلند کیا گیا۔

کپ نہیں تھے، لیکن طاہر کے نادر شاہی حکم کے مطابق یہ چائے پینا ہر عاقل و بالغ پر فرض قرار پایا۔ اُس کا کہنا تھا کہ دودھ ایک ایسی نعمت ہے جسے ضائع کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نہ صرف مائنڈ کریں گے بلکہ ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگائیں گے۔ چائے اُن پلیٹوں میں نوش فرمائی گئی جن میں  چاول تناول فرمائے گئے تھے۔ پلیٹیں جھیل کے برف زار پانی میں دھوئی گئیں جو صابن لگانے کے باوجود چکنائی اور رائتے کی تہہ مکمل طور پر اتارنے سے قاصر رہا۔اس لئے ’’دودھ چائے‘‘  …  ’’بارہ مصالحے والی مر غ چائے‘‘ کے عہدے پر فائز ہو گئی۔ یہ ’’کولڈ اینڈ سپائسی‘‘ چائے پیتے وقت سب نے طرح طرح کے منہ بنائے،  اور کئی حضرات نے اس چائے کو شیوسار میں لنڈھا کر اللہ میاں کی پھینٹی کو ترجیح دی، لیکن اب …  بارہ مصالحے والی مرغ چائے زندگی کے ناقابلِ فراموش لنچ کا اہم ترین جزو ہے جس کے بغیر شیوسار کا ذکر مکمل نہیں ہوتا۔

٭٭٭

تجھ کو پڑھوں اٹک اٹک

’’ میں ایک ایسے بادل کی طرح آوارہ گردی کر رہا تھا جو وادیوں اور کوہساروں کی فضاؤں میں تیرتا پھرتا ہے۔ اچانک میرا گزر ایک ایسے مقام سے ہوا جہاں ایک جھیل کے کنارے، پہاڑی کے دامن میں پھولوں کے جھرمٹ رقص کر رہے تھے۔‘‘

)ورڈزورتھ)

 

لنچ کے بعد پتھروں پر قیلولہ کیا گیا۔

کامران نے تجویز پیش کی کہ کیمپ فائر منعقد کیا جائے۔ شاہ صاحب نے اعتراض کیا کہ کیمپ فائر کا تصور رات کے اندھیرے سے وابستہ ہے، دن کی روشنی میں کیمپ فائر کی کیا تک ہے ؟ اور اس کے لئے خشک لکڑیاں کہاں سے آئیں گی؟

رات کی جگہ سردی سے کام چلایا جا سکتا تھا کیونکہ فائر اندھیرے کے علاوہ سردی دور کرنے کے لئے بھی استعمال کی جا تی ہے،اور شیوسار کی برفیلی ہواؤں کے سائے تلے سردی کی کوئی کمی نہیں تھی۔ لکڑیوں کے مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا اس لئے کیمپ فائر،فائر کے بغیر ہی منایا گیا اور اسے ایک مشاعرے کی شکل دے دی گئی۔مشاعرے کی واحد شرط یہ تھی کہ سنایا گیا شعر دیوسائی سے مناسبت رکھتا ہو۔ کامران نے اردو کا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہونے کے ناطے شمع بردار کے فرائض سنبھا لے اور مشاعرے کا آغاز کر دیا۔

کہوں کیا رنگ اس گل کا  اہا  ہا ہا   اہا  ہاہا

ہوا  رنگیں  چمن  سارا   اہا  ہا ہا   اہا  ہاہا

اہا  ہا ہا کے الفاظ اُس نے غیر انسانی آواز میں قہقہہ لگاتے ہوئے ادا کئے۔

 ’’یہ اول جلول شعر کس الو کے پٹھے کا ہے ؟‘‘ صابر نے جھلا کر کہا۔

 ’’حدّ ادب !او بے ادب۔ ‘‘ کامران نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’ اس شعر کا خالق تمھارے الفاظ سن لیتا تو فوراً کالے پانی بھجوا دیتا۔‘‘

 ’’بہت اچھا ہوتا۔میں ڈکی میں بیٹھ کر کالا پانی جانے سے بچ جاتا۔‘‘ صابر نے اپنا سر سہلاتے ہوئے کہا۔

اس کا سر کئی مرتبہ جیپ کی چھت سے ٹکرایا تھا۔

 ’’ میں اپنے کالا پانی کی نہیں ،انگریزوں کے کالے پانی کی بات کر رہا ہوں ،جس کے بارے میں راویانِ شیریں بیان فرماتے ہیں  … میرے پیا گئے رنگون … وہاں سے کیا ہے ٹیلیفون … تمہاری یاد ستاتی ہے۔‘‘

 ’’ یہ  … بہادر شاہ ظفر کا شعر ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’جی جناب !ملاحظہ فرمائیں کہ دیوسائی پر کیسا فٹ بیٹھا ہے؟‘‘ کامران نے آداب بجا لاتے ہوئے کہا اور پھر اعلان کیا:

 ’’ اب آپ کے سامنے اے۔ پی۔ایس کے مایہ ناز شاعر جنا ب صابر بھالوی صاحب اپنا کلا م پیش کریں گے۔جناب صابر بھالوی …۔ ‘‘

 ’’بکواس بند کر اوئے۔ ‘‘ صابر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

 ’’بھالو صاحب زیادہ کھانے کی وجہ سے بولنے چالنے سے قاصر ہیں اور فی الحال حیوانیت کے موڈ میں ہیں ،اس لئے کوئی اور صاحب سخن طراز ہوں۔ ‘‘

صابر کے چہرے پر سچ مچ حیوانیت طاری ہو گئی تو شا ہ صاحب نے کامران کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔کامران نے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے صابر سے دوبارہ مخاطب ہونا مناسب نہ سمجھا اور محبوب کو دعوتِ سخن دی۔محبوب کا ذوقِ مطالعہ کلامِ غالب تک محدود ہے۔ اس کا فرمانا ہے کہ مختلف شاعروں کا مطالعہ کرنا مجبوری،  لیکن دیوانِ غالب کے ایک ایک شعر کو حفظ کرنا فرض ہے۔اُس نے غالب کا شعر سنایا:

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

 ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

کامران نے فوراً رولنگ دی۔ ’’دیوسائی سے مناسبت نہ رکھنے کی وجہ سے شعر مسترد کیا جاتا ہے۔ ‘‘

 ’’پیر و مرشد کا شعر مسترد کرنے والے کی دُم میں نمدہ  … پوری دنیا میں شیوسار جھیل  کے علاوہ کون سی جگہ ہو سکتی ہے جو غالب جیسے مرنجاں مرنج انسان کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کر سکے؟‘‘ محبوب نے جارحانہ انداز میں سوال کیا۔

محبوب کی دلیل تسلیم کرتے ہوئے کامران کی رولنگ رول بیک کر دی گئی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب آپ بھی تو کچھ ارشاد فرمائیں۔ ‘‘ کامران نے فرمائش کی۔

 ’’ڈاکٹر صاحب ارشاد فرمانے سے پہلے وضاحت فرمائیں کہ اِن کے نام کے ساتھ ہما کا دم چھلا کیوں لگا ہے؟‘‘ صابر نے کہا … اس کا موڈ بہتر ہو چکا تھا۔

 ’’  تخلّص ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

 ’’اسکا مطلب ہے آپ شعر و شاعر ی سے شغف فر ماتے رہے ہیں ؟‘‘

 ’’جی نہیں۔ یہ طالب علمی کے دور کی حماقت ہے۔ کالج کے زمانے میں کبھی کبھار سالانہ مشا عرے میں شرکت ہو جاتی تھی، اُسکے بعد کوئی شعر نہیں کہا۔‘‘

 ’’چلیں اُس زمانے کا کوئی شعر سنا دیں۔ ‘‘ صابر نے فرمائش کی۔

 ’’ سب نے اوروں کے شعر سنائے ہیں۔ میں بھی …۔ ‘‘

 ’’جی نہیں۔ ‘‘ شاہ جی نے صابر کا ساتھ دیا۔ ’’تخلّص بردار لوگ خصوصی عزّت افزائی کے مستحق ہوتے ہیں۔ خواہ مخواہ نخرے نہ دکھائیں ، شعر سنائیں  …  وہ بھی اپنا۔‘‘

 ’’ٹھیک ہے سنیں پھر!‘‘ میں نے دھمکی دی۔

 ’’ارشاد … ارشاد۔ ‘‘ چاروں طرف سے آوازیں آئیں۔

گزرے کبھی نہ گردشِ ایام اُس طرف

’ ’واہ  … واہ … بھئی واہ !کیا بات ہے  … اِس طرف ؟یا اُس طرف ؟‘‘  محبوب نے مضحکہ خیز انداز میں پہلے جیپ ٹریک کی ایک سمت اور پھر دوسری سمت اشارہ کرتے ہوئے ’’ داد‘‘ دی۔

میں خاموش ہو گیا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب اسے بکنے دیں  … آپ شعر پورا کریں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے محبوب کو گھورتے ہوئے کہا۔

گزرے کبھی نہ گردش ایام اُس طرف

دائم رہے وہ طربیہ نغمات کی طرح

 ’’وہ؟ …  وہ کون ہے؟ کیسی ہے ؟اور اب کہاں ہے ؟ ‘‘ محبوب نے شور مچایا۔

 ’’وہ یقیناً اب بھی طربیہ نغمات جیسی ہو گی … مگر پتا نہیں کہاں ہے؟ … مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔

اس جواب کے جواب میں بھری گئی آہوں کی وجہ سے شیوسار کی ٹھنڈی ٹھار فضاؤں کا درجہ حرارت مزید کئی درجے کم ہو گیا۔

 ’’یہ تو سچ مچ کا شعر ہے اور کسی حد تک وزن میں بھی لگتا ہے۔کوئی اور سنائیں۔  ‘‘ صابر نے داد دیتے ہوئے فرمائش کی۔

 ’’حوصلہ افزائی کا شکریہ!مجھے اپنا کوئی اور شعر نہیں آتا۔‘‘

 ’’ یاد کریں۔ ‘‘ صابر نے اصرار کیا۔ ’’آپ کو مفت کے سامعین میسر آنے پر خوش ہونا چاہئے، آپ ہزار منتوں کے با وجود اینٹھے چلے جا رہے ہیں۔ ‘‘

 ’’صحیح یا غلط، جیسا یاد آئے سنا دوں ؟‘‘ میں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔

 ’’سنا دیں ، یہاں کونسا ادبی انعام دیا جا رہا ہے۔‘‘

تجھ کو پڑھوں اٹک اٹک،  اور یاد بھی کروں

اوراق پر لکھی ہوئی مدحات کی طرح

 ’’اٹکے بھئی اٹکے … کیا اٹکتا ہوا شعر ہے۔‘‘ کامران نے داد دی۔ ’’مگر ڈاکٹر صاحب یہ شعر آپ نے جوانی میں کہا ہو گا،اُس وقت اٹکنے کی … آخر آپ بتاتے کیوں نہیں کہ اس شعر میں کونسی ’’وہ‘‘ پوشیدہ ہے؟‘‘

 ’’آہ … کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟‘‘ میں نے ذرا سنسنی پھیلائی۔

 ’’جستجو یہ ہے کہ بھری جوانی میں اٹکنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟آپ فر فر پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے یاوہ فرفر پڑھے جانے کے قابل نہیں تھی؟‘‘ محبوب نے ذومعنی انداز میں سوال کیا۔

 ’’فرفر؟ … یار شعر کا وزن خراب ہو جاتا۔‘‘

 ’’فر فر پڑھتے وقت وزن کون دیکھتا ہے؟ ‘‘

 ’’اگر مجھے علم ہوتا کہ دیوسائی کی فضاؤں میں اس شعر کا پوسٹ مارٹم ہو گا اور میری جوانی پر حرف آئے گا تو میں ہرگز نہ اٹکتا۔‘‘

 ’’مجھے دوسرا شعر زیادہ پسند آیا،اس میں آپ نے محبوب پر ہاتھ پھیرنے کا اچھا بہانہ تراشا ہے۔‘‘ صابر نے تبصرہ کیا

 ’’ اس میں ہاتھ پھیرنے کا ذکر کہاں ہے ؟‘‘ محبوب نے اعتراض کیا۔

 ’’تجھے کیا تکلیف ہے؟ … یہ محبوب یقیناً کوئی اور ہو گا۔ اتنے شاعرانہ منصوبے تمہارے اوپر ہاتھ پھیرنے کے لئے نہیں بنائے گئے۔‘‘

 ’’بکواس بند کر۔‘‘ محبوب نے جھینپ کر کہا۔ ’’محبوب کی نہیں ہاتھ پھیرنے کی بات ہو رہی ہے۔‘‘

 ’’تم نے کبھی اوراق پر لکھی ہوئی خوبصورت غزل کو اٹک اٹک کر پڑھنے کی کوشش کی ہے؟ …  مگر چھوڑو … یہ تمہارا فیلڈ نہیں۔ ‘‘ 

یہ تبصرہ محبوب کی ماسٹر ڈگری پر جارحانہ حملے کے مترادف تھا۔ محبوب نے صابر کا مزاج دوبارہ برہم ہو جانے کے خوف سے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔

 ’’محترم و مکرم جناب صابر بھال … بھائی صاحب  …  میں حلف اُٹھانے کے لئے تیّار ہوں کہ میرے ذہن میں دور دور تک وہ خیال نہیں تھا جو آپ نے اس شعر میں کھوج نکالا ہے۔میں نے طرحی مشاعرے کے لئے قافیہ ملایا ہو گا۔ میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے چوتھائی صدی پہلے کہا ہوا شعر یاد کرنے پر اکسایا اور اس میں نئے معنی تلاش کئے۔ میں آپ کی بد ذوقی کے سلسلے میں دیئے گئے تمام گزشتہ بیانات انتہائی شرمندگی سے واپس لیتا ہوں۔ ‘‘

 ’’اور نہایت ایمانداری سے کشف ا  لمحجوب اور دلائلِ سلوک پڑھنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ ‘‘ کامران نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

صابر کا موڈ بحال ہو چکا تھا۔ اس نے محبوب کے انداز پر توجّہ نہ دی۔موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ صاحب نے صابر سے فرمائش کی کہ واپسی کا سفر شروع ہونے والا ہے،اس لئے چلتے چلتے ایک شعر شیوسار کی نذر کر دیا جائے۔

صابر نے فرمائش کو شرفِ قبولیت بخشا … اور خوب بخشا۔

 ’’دیوسائی‘‘ کے پھولوں کو خزاں چھو نہیں سکتی

 ’’شیوسر‘‘ کے چمن زار سدا زندہ رہیں گے

سورج ڈھلنے کے بعد ہم نے واپسی کا ارادہ کیا۔

باقی چائے خان نے واپسی کا سفر شروع کرنے سے پہلے استور کی جانب چند کلومیٹر سفر کرنے کی اجازت چاہی۔وہ اپنے کسی دوست کے والد کی وفات پر تعزیت کرنا چاہتا تھا۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟اور چند سیکنڈ بعد ہم نے باقی چائے خان کے دوست کے والد مرحوم کی مفرور روح کا شکریہ ادا کیا۔وہ اپنا پروگرام ملتوی کر دیتی تو ہم شیوسار جھیل سے واپس چلے جاتے۔ چھاچھر پاس سے نہ گزرتے۔

سطح سمندر سے چار ہزار دو سو چھیاسٹھ میٹر بلند چھاچھر پاس کو دیوسائی میں داخلے کا ’’بابِ استور ‘‘ کہنا چاہئے جو ہمارے لئے دیوسائی سے خروج کا راستہ بھی ثابت ہو سکتا تھا۔  بابِ سکردو یعنی دیوسائی ٹاپ سے(  سطح سمندر سے چار ہزار بیاسی میٹر بلند ) چھاچھر پاس تک ہم نے بظاہر صرف ایک سو چوراسی میٹر کی بلندی طے کی تھی … لیکن یہ اعداد و شمار دیوسائی کے دلفریب نشیب و فراز کی مکمل عکاسی نہیں کرتے۔جسم کی دلکشی کو انچوں اور سینٹی میٹروں میں ناپنے والوں کے لئے یہ معلومات دلچسپی سے خالی نہ ہوں گی کہ  دیوسائی سطح سمندر سے کم از کم ۳۵۰۰، زیادہ سے زیادہ ۵۲۰۰ اور اوسطاً ۴۰۰۰ میٹرکی بلندی پر واقع ہے۔

چھاچھر پاس کے دونوں جانب کی پہاڑیاں گھوڑے کی زین کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ڈھلوانوں پر کھلے ہوئے کروڑوں پھول … دیوسائی کے پھولوں کا بار بار ذکر ذہن پر گراں گزر سکتا ہے لیکن چھاچھر پاس پر پھولوں سے بنی ہوئی سیڈل یا کاٹھی ذہن کو اپنے چنگل میں اس طرح جکڑتی ہے کہ وہ گراں ہونا بھول جاتا ہے۔ اس زین پر سوار ہو کر دیوسائی کا خوبصورت ترین منظر دیکھا جا سکتا ہے۔

سامنے مغربی ہمالیائی سلسلہ اور اس پر چھایا ہوا نانگا پربت۔

 دائیں جانب سلسلہ ہائے قراقرم کی برف پوش چوٹیوں کے پہلو میں اژدہے کی طرح بل کھا کر گزرتی ہوئی استور روڈ۔

 بائیں جانب دیومالائی شیوسار لیک کے کرنیں بکھیرتے ہوئے جھلمل جھلمل پانی۔

اور عقب میں دیوسائی ہائٹس کے رنگ بھرے چمن زاروں میں دہکتی ہوئی آتشِ  گل!

اے مصوّر یہ کیا تماشا ہے؟

رنگ سے شاہکار جلتے ہیں

کیا جنت واقعی اتنی خوبصورت ہو گی؟

چھاچھر پاس سے آگے لینڈ سکیپ وسیع اور ڈھلوانی ہے۔یہاں گھاس کا رنگ قدرے زرد یا سنہری تھا،اور معلوم ہوتا تھا کہ خزاں کا موسم دیوسائی کی سرزمین پر اپنا سفر شروع کر چکا ہے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ کاروانِ بہار کی راہگزاروں پر چلتے ہوئے دیوسائی ٹاپ سے چھاچھر پاس پہنچے تھے، چند دن کی تاخیر سے دیوسائی میں قدم رکھتے تو بہار کے بجائے خزاں ہمارا استقبال کرتی۔

تقریباً چالیس منٹ کے سفر کے بعد باقی چائے خان نے جیپ ایک سرسبز پہاڑی کے دامن میں پارک کی اور پہاڑی کی چوٹی پر تعمیر کی گئی ایک چاردیواری تک پہنچنے کے لئے بلندی کا سفر شروع کر دیا۔پہاڑی کی چڑھائی تقریباً عمودی تھی۔ہم نے اس کا ساتھ دینے کی کوشش کی لیکن جلد ہی ہوش ٹھکانے آ گئے اور ہم چٹانی پتھروں پر تشریف فرما ہو کر باقی چائے خان کا انتظار کرنے لگے۔ اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی جگہ جہاں مارچ ۲۰۰۶ء میں دیوسائی کی صدیوں پرانی تاریخ میں ایک ماڈرن باب کا اضافہ ہوا،اور پھولوں کی رانی … بہاروں کی ملکہ کے سر پر  … برفوں کی رانی … سرما کی ملکہ کا تاج رکھا گیا۔

چھاچھر پاس کو بیس بنا کر دیوسائی کے وسیع و عریض برف زار میں موسم سرما کے بین الاقوامی برفانی کھیلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان کھیلوں میں سکائی انگ، سنو سلائیڈنگ، سنوبورڈنگ، پاور کائٹنگ اور دوسرے کئی آئٹم شامل تھے۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس، روس، سوئٹزرلینڈ،سپین اور چیکو سلواکیہ کے بائیس عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں نے اس ایونٹ حصہ لیا۔یہ کھیل انتہائی کامیاب رہے اور یہاں پاور سنو کائٹنگ (برفانی پتنگ بازی) کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا۔ان کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں نے دیوسائی کو دنیا کا خوبصورت ترین برفانی میدان قرار دیا۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ سالانہ کھیل باقاعدہ منعقد ہوتے رہیں گے اور دیوسائی اپنے چاہنے والوں کے لئے سرمائی جنت ثابت ہو گا۔

باقی چائے خان ہماری توقع سے بہت جلد واپس آ گیا۔اس کا دوست گھر پر نہیں تھا، سکردو گیا ہوا تھا۔

باقی چائے خان جیپ واپس موڑنے لگا تو شاہ صاحب نے پوچھا:

 ’’یار باغیچہ خان یہاں سے چلم چوکی اور استور کتنے فاصلے پر ہیں ؟‘‘

 ’’چلم چوکی بالکل نزدیک اے۔چوکی سے استور جانے میں تین گھنٹہ لگتا اے۔‘‘

 ’’چلم چوکی تک ہو نہ آئیں ؟‘‘ محبوب نے تجویز پیش کی۔

 ’’اُدر کچھ نہیں اے صاب،خواہ مخواہ ٹائم ضائع ہو گا۔‘‘

 ’’کاش میں اپنا رک سیک ساتھ لے آتا۔چلم چوکی سے براستہ استور جگلوٹ جانے میں چار پانچ گھنٹے لگتے ہیں اور جگلوٹ سے پنڈی کی بس آسانی سے مل جاتی، میرا واپسی کا سفر کافی کم ہو جاتا۔‘‘ میں نے خیال ظاہر کیا۔

 ’’ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف کریں۔ اتنی افراتفری مچانی تھی تو یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟ دیوسائی ٹاپ سے دیوسائی پر نظر ڈال کر واپس چلے جاتے۔ ہم سامنے کے مناظر دیکھتے آئے ہیں ،واپسی کا سفر کم خوبصورت نہیں ہو گا۔‘‘

شاہ صاحب ٹھیک کہہ رہے تھے، میں خاموش ہو گیا۔

شیوسار جھیل کے قریب ایک راستہ دائیں جانب نکلتا ہے۔باقی چائے خان نے بتایا کہ یہ راستہ کارگل جاتا ہے۔

 ’’ یار باقی چائے خاناں ،آپ کو کارگل سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’ابی ام کارگل جائے گا ناں۔ ‘‘

 ’’کارگل کیسے جاؤ گے؟انڈیا پاکستانیوں کو مقبوضہ کشمیر کا ویزہ نہیں دیتا۔‘‘

 ’’مجاہدین ویزہ لے کر کارگل نہیں جاتے۔‘‘ سیف نے کہا۔

 ’’ام ویزہ لے کے جائے گا ناں۔ ابی کارگل کے لئے نیا سڑک بنتا اے۔سکردو سے کارگل بس چلا کرے گا۔ام بس پے بیٹھ کے کارگل جائے گا۔‘‘

 ’’سکردو سے کارگل تک سڑک؟ کون بنا رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’ادر سے پاکستان بناتا اے،اُدر سے انڈیا بناتا اے،اور کون بنائے گا؟‘‘

 ’’یہ سڑک کہاں بن رہی ہے؟‘‘

 ’’بڑا پانی کے ساتھ ساتھ بنتا اے۔جیسے ای بنتا اے سکردو سے کارگل تک بس چلے گا۔ام پہلا بس میں کارگل جائے گا۔‘‘ باقی چائے خان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔

 ’’ کیوں جائے گا؟‘‘

 ’’کارگل پر حملے کے وقت امارا دادا شریف شہید ہوا تھا ناں۔  امارا والد شریف بولتا اے ام کو اُدر لے کے چلو۔ام اپنے والد شریف کو لے کے کارگل جائے گا۔‘‘

 ’’تمہارے دادا نے کارگل کی جنگ میں حصہ لیا تھا؟اُن کی عمر کتنی ہو گی؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’سر اس جنگ کا بات نئی اے۔یہ اس وقت کا بات اے جب گلگت اور سکردو آزاد ہوا تھا۔امارا دادا پانچ آدمیوں کے ساتھ استور سے دراس گیا تھا۔اس وقت خطرہ تھا کہ ڈوگرہ فوج کشمیر سے آئے گا اور گلگت پر دوبارہ قبضہ کر لے گا۔‘‘

 ’’تمہارے دادا ان مجاہدین میں شامل تھے جو مارچ کے مہینے میں استور سے کارگل کے لئے روانہ ہوئے تھے؟‘‘ شاہ صاحب نے تجسس آمیز لہجے میں پوچھا۔

 ’’ہاں ناں۔ مگر آپ کیسے جانتا اے؟‘‘ باقی چائے خان شدید حیران ہوا۔

 ’’میرے ایک دوست جواد کے والد صوبیدار عزیز اللہ اکثر پانچ آدمیوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے مارچ کے ناممکن مہینے میں برزل پاس عبور کیا تھا۔‘‘

 ’’آپ بابا عزیز کو جانتا اے۔‘‘

 ’’بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ سکردو میں رہتے ہیں۔ میرے ان کے ساتھ گھریلو تعلقات ہیں۔ ‘‘

 ’’اس نے آپ کو کارگل کا سٹوری نہیں سنایا؟‘‘

 ’’کئی مرتبہ سنائی ہے۔میں نے کارگل کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ زیادہ تر عزیز اللہ اور محبت علی کی زبانی سنا تھا۔‘‘

 ’’یہ کونسی سٹوری کی بات ہو رہی ہے؟ہمیں بھی سنائیں۔ ‘‘ میں نے فرمائش کی۔

 ’’باغیچہ خان آپ سناؤ۔آپ کے دادا نے اس میں حصہ لیا تھا۔‘‘

 ’’ام اس وقت پیدا بی نئی ہوا تھا۔ام اپنے دادا کے شہید ہونے کے بعد پیدا ہوا تھا۔کہانی ہم نے بابا عزیز سے سنا اے۔آپ خود بتاؤ، آپ کا بات صاب کو ٹھیک طرح سمجھ آئے گا۔ام ڈرائیونگ کرتا اے۔‘‘

’میں نے اس مہم کا ذکر پہلے بھی کیا تھا۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔ ’’جنگِ آزادی کے مجاہدین کو اطلاع ملی کہ سری نگر سے ڈوگرہ فوج روانہ ہونے والی ہے۔ڈوگرہ فوج جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھی۔ وہ گلگت پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی تو مجاہدین کی شکست یقینی تھی۔اس فوج کا راستہ روکنے کے لئے پانچ مجاہدین برزل پاس سے کارگل کے لئے روانہ ہوئے۔‘‘

 ’’صرف پانچ؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

 ’’استور سے تو پورا دستہ روانہ ہوا تھا، برزل پاس کراس کرنے کے بعد بقیہ لوگوں کے حوصلے جواب دے گئے اور صرف پانچ آدمیوں نے مشن جاری رکھنے کا عزم کیا۔ان میں عزیز اللہ خان اور غالباً باغیچہ خان کے دادا صاحب شامل تھے۔ان لوگوں نے مارچ میں ایک ناممکن سفر کو ممکن بنا دیا۔ عزیز اللہ خان بتاتا ہے کہ یہ سفر خودکشی کے مترادف تھا۔ راستے پر دس سے پندرہ فٹ موٹی نرم برف کی تہہ بچھی تھی۔ان کے پاس خیمے اور سلیپنگ بیگ نہیں تھے۔ دوران سفر آرام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ رکنے کی صورت میں خون منجمد ہو جانا یقینی تھا۔پینے کے لئے پانی نہیں تھا اور خوراک کے نام پر صرف چند روٹیاں تھیں۔  یہ لوگ برف پھانکتے ہوئے چار دن میں دراس پہنچے جہاں اطلاع ملی کی کہ ڈوگرہ فوج پہنچنے والی ہے۔عزیز اللہ خان کا کہنا ہے کہ اسے دراس کے قلعے میں فوجی وردیوں کا سٹاک نظر آ گیا۔اس نے یہ وردیاں سویلین کو پہنا کر راستے کے دونوں جانب کھڑا کر دیا۔ڈوگرہ فوج کا دستہ آیا تو مجاہدین کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر فرار ہو گیا۔‘‘

 ’’وردیاں ڈوگرہ فوج کی ہوں گی۔ان سے دھوکا کیسے دیا جا سکتا تھا۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔

 ’’وردیاں ایک جیسی تھیں ، مگر مسلمان اور ڈوگرہ سپاہی میں کافی فاصلے سے  تفریق کی جا سکتی تھی۔ یہ خبر عام ہو چکی تھی کہ تمام مسلمان سپاہیوں نے بغاوت کر دی ہے۔ ڈوگرہ سپاہیوں نے سویلین کو مسلمان فوجی سمجھا۔ان پانچ مجاہدین نے اپنی تدبیر سے دس پندرہ دن تک ڈوگرہ فوج کو دھوکے میں ڈالے رکھا۔ استور سے کمک آ گئی تو مجاہدین نے کارگل کا رخ کیا اور ۱۰ مئی۱۹۴۸ء کو کارگل پر قبضہ کر کے دشمن کی امیدوں پر برف پھیر دیا۔‘‘

 ’’پانی پھرنا محاورہ ہے۔‘‘ کامران نے تصحیح کی۔

 ’’پانی پھیرنا ممکن نہیں تھا،وہ ان بیچاروں کو خود بھی میسر نہیں تھا۔‘‘

 ’’اس حملے میں ہمارا دادا شہید ہوا تھا۔‘‘ باقی چائے خان نے فخریہ انداز میں کہا۔

 ’’ باغیچہ خان کے دادا نے پیروں سے کفن باندھ کر اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے   پاکستان کو آزاد بلتستان جیسا قیمتی تحفہ پیش کیا۔ دیو سائی کی صدیوں پر محیط تاریخ میں یہ واحد موقع ہے جب کسی فوجی مہم نے اسے موسم سرما میں عبور کیاہو۔‘‘ شاہ جی نے باقی چائے کے دادا کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

باقی چائے خان نے فخریہ ہنسی سے یہ خراج وصول کیا۔

٭٭٭

سیکسی فراگ

’’ہم اگر پھول میں پوشیدہ معجزہ دیکھ سکیں تو ہماری پوری زندگی تبدیل ہو جائے گی۔‘‘

(مہاتما بدھ)

 

ہم ایک مرتبہ پھر کالے پانی کے نیلے دھارے تک پہنچے۔

کالے پانی کی سج دھج وہی تھی۔غالب کا خیال اگر درست ہے کہ خاک میں پنہاں ہونے والی صورتیں لالہ و گل کی صورت نمایاں ہوتی ہیں تو کالا پانی اُن پریوں کا قبرستان ہو گا جو دیوسائی کے دیو کو عیش کراتی تھیں۔  ہم نے محسوس کیا کہ یہ صبح والا کالا پانی نہیں ہے۔ اس کی لہروں پر اٹکھیلیاں کرنے والی روشنی کے تیور کچھ جدا ہیں۔ سورج نے پورب تا پچھم سفر طے کیا اور اس کی کرنوں کے بدلتے ہوئے زاوئیے نے کالا پانی کے ارد گرد بکھرے ہوئے مناظر میں نئے رنگ بھر دیئے۔ ہم نے ان رنگوں کو کیمرے میں قید کرنے کے لئے کالا پانی پر کچھ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔

میں نے چند تصاویر اتاریں اور ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ غیر ارادی طور پر میری نظر اس ’’گارڈن‘‘ کی طرف اٹھی جس میں غیر ملکی کا خیمہ نصب تھا۔ غیر ملکی اپنے خیمے کے سامنے اوندھا لیٹا تھا۔ اس کی کہنیاں زمین پر ٹکی ہوئی تھیں اور وہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ ٹکائے کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھا۔صبح کا تجربہ شاہد تھا کہ وہ ایک چڑچڑا شخص ہے۔ مجھے اس سفر میں ابھی تک کسی غیر ملکی نے باقاعدہ ’’ مغزماری ‘‘ کا موقع نہیں دیا تھا۔ میں نے سوچا کیوں نہ اسے تھوڑا سا ڈسٹرب کیا جائے۔ میں پتھر سے اٹھ کر اس کے خیمے کی طرف بڑھا۔ شاہ صاحب نے مجھے ادھر جاتا دیکھا اور میرے ساتھ آ گئے۔ ہم نے قریب پہنچ کر ہیلو، گڈ آفٹر نون کہا  …  اس نے چونک کر کتاب سے نظر ہٹائی اور سیدھا ہو بیٹھا۔ چند لمحے خالی خالی نظروں سے ہماری طرف دیکھتا رہا،  پھر اس کے چہرے پر شناسائی کے تاثرات ابھرے اور اس نے کہا:

 ’’آئی ایم ویری سوری۔‘‘

 ’’سوری؟ …  فار وٹ؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

 ’’فار مائی مارننگ ڈیلنگ۔‘‘

 ’’اس کے لئے ہمیں سوری کہنا چاہیے … اور آپ اردو بول سکتے ہیں تو ہماری زبان میں بات کریں۔  ہمیں بہت خوشی ہو گی۔‘‘

 ’’اگین سوری … ارڈو ہنڈی سمجھ لیٹا … بولٹا نائی … آئی تھنک یو کین سپیک انگلش ویری ویل … پلیز سپیک انگلش … اورتمھیں معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے۔ صبح میں ٹینشن میں تھا۔ تم لوگوں کا شکریہ کہ تم نے میرے سخت لہجے پر کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔‘‘ اُس نے چند الفاظ اردو میں ادا کرنے کے بعد انگلش میں کہا اور خوشدلی سے ہنسنے لگا۔

 ’’صبح تمہیں کیا ٹینشن تھی؟‘‘

 ’’میں نے ایک تتلی پکڑی تھی …  اُسے دیوسائی میں نہیں ہونا چاہئے تھا، مگر وہ نہ صرف یہاں موجود تھی بلکہ میرے خیمے میں گھس آئی تھی۔‘‘

 ’’تتلی کو دیوسائی میں کیوں نہیں ہونا چاہئے تھا؟میرا خیال ہے یہاں تتلیوں کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں۔ ‘‘ میں نے قدرے کرخت لہجہ اپنانے کی کوشش کی۔

 ’’ سب تتلیوں کی بات نہیں  …  اُس ایک تتلی کو یہاں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ تتلیوں کی یہ قسم دیو سائی میں نہیں پائی جاتی۔‘‘ اس نے انتہائی شرافت سے جواب دیا۔

 ’’تمہیں دیو سائی میں پائی جانے والی تتلیوں کی تمام اقسام کا علم ہے؟ ‘‘

 ’’مجھے ہونا چاہئے۔یہ میری تحقیق کا موضوع ہے۔‘‘

 ’’تم کس بارے میں تحقیق کر رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’میری ریسرچ کا موضوع ہے:

Relation of Different species of Butterfies with  Himalayan Flora

 ’’بہت لمبا موضوع ہے، اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس کا تعلق حیاتیات سے ہے یا نباتات سے؟‘‘ شاہ صاحب نے تبصرہ کیا۔

 ’’ویری گڈ۔‘‘ وہ چونک اُٹھا۔ ’’اسکا مطلب ہے میر ی ملاقات پڑھے لکھے لوگوں سے ہو رہی ہے۔ میں پانچ دن سے یہاں خیمہ نشین ہوں اور کئی لوگوں سے اس موضوع پر بات چیت ہوئی ہے۔ اتنا ٹیکنیکل سوال پہلی مرتبہ پوچھا گیا ہے۔‘‘

 ’’شاہ صاحب اوٹ پٹانگ سوالات پوچھنے کے ماہر ہیں۔ ان کے سٹوڈنٹس اس عادت سے بہت تنگ ہیں۔  تم مائنڈ نہ کرو تو ایک اوٹ پٹانگ سوال میں بھی پوچھ لوں ؟‘‘ میں نے بے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔

اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔

 ’’ضرور پوچھو۔‘‘

 ’’تمہارا تعلق کس ملک سے ہے۔ ‘‘

 ’’یہ کوئی اوٹ پٹانگ سوال نہیں ہے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 ’’تم جواب دو،میں ابھی اسے اوٹ پٹانگ بنا دیتا ہوں۔ ‘‘

 ’’بلجیم۔‘‘ اس نے مختصر جواب دیا۔

 ’’تمہیں بلجیم میں کوئی جگہ نہیں ملی جہاں تتلیوں پر ریسرچ ہو سکتی ؟اس کام کے لئے یہاں دوڑے آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ میں نے ایک مرتبہ پھر سخت لہجہ اپنا کر اسے چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرنے پر اکسایا۔

 وہ چڑ چڑانے کے بجائے اس سوال سے محظوظ ہوا،اور ہنسی کا گول گپا بن گیا۔

 ’’ میری تحقیق کا تعلق وائلڈ لائف سے ہے جسے حیاتیات اور نباتات کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق انٹرنیشنل وائلڈ لائف پراجیکٹ کے لئے کی جا رہی ہے اور وہ مجھے ڈالر ز دیتے ہیں۔  ہمالین کے حوالے سے دیوسائی آنا مجبوری تھی۔شکر ہے انہوں نے مجھے قطب جنوبی یا قطب شمالی نہیں بھیج دیا۔‘‘ اس نے ہنسی پر بمشکل قابو پاتے ہوئے دونوں سوالوں کا مشترکہ جواب دیا۔

 ’’ تمہارا نام کیا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

وہ ایک مرتبہ پھر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا۔یہ صبح والا نک چڑھا ’’سرخ یورپین بھالو‘‘  نہیں تھا، کوئی مسخرا دیسی بھالو تھا جو بات بے بات ہنسنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ شاید کئی روز سے ہنس نہیں سکا تھا اور اپنا کوٹہ پورا کرنا چاہتا تھا۔

 ’’ میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے مصنوعی خفگی سے کہا۔

 ’’ تمھارا سوال تہذیبوں کے ٹکراؤ کا چھوٹا سا نمونہ ہے۔‘‘ اس نے سنجیدہ ہو کر کہا۔ ’’یورپ میں تعارف حاصل کرنے سے پہلے کوئی سوال پوچھنا تقریباً ناممکن ہے، کم از کم تہذیب کے خلاف ہے۔ تم میرا آدھا انٹرویو لینے کے بعد میرا نام پوچھ رہے ہو؟ بہرحال میرا نام پیٹر سٹراؤٹ ہے۔‘‘

 ’’دیوسائی کی مناسبت سے ’’ ایس‘‘ زیادہ ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا اور اسے چھیڑنے کی ایک اور کوشش کی۔

 ’’ایس زیادہ ہے؟اوہ!تمہارا مطلب ہے میں پیٹر ٹراؤٹ ہوں ؟ دیوسائی کی ٹراؤٹ؟مجھے اِن میں شامل ہو کر بے حد خوشی ہو گی۔‘‘ اُس کا چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا،مجھے خدشہ ہوا کہ وہ ابھی اُٹھے گا اور کالا پانی میں تیرتی ہوئی ٹراؤٹس میں شامل ہو جائے گا۔

 ’’لیکن ٹراؤٹس بہت مائنڈ کریں گی۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔

ٹراؤٹ پر ایک مرتبہ پھر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔

 ’’اچھا ڈیئر ٹراؤٹ ! اب تم اپنی ریسرچ کے بارے میں کچھ بتاؤ ؟ ‘‘ شاہ صاحب نے فرمائش کی۔

 ’’یہ بہت خشک اور علمی باتیں ہیں ،تم لوگ بور ہو جاؤ گے۔‘‘

 ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے ذرا تیزی سے پو چھا۔

 ’’اوہ نو … وہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔میرا مطلب ہے کہ تم یہاں سیر سپاٹے کے لئے آئے ہو،خشک باتوں سے بور ہو جاؤ گے۔ ‘‘

 ’’ ہم دیوسائی ضرور سیر سپاٹے کے لیے آئے ہیں ،تمھارے پاس آنے کا مقصد    گپ شپ لگانا ہے۔‘‘

 ’’او۔کے …  سلسلہ ہائے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش میں تقریباً چالیس اقسام کی تتلیاں پائی جاتی ہیں۔ دیوسائی میں اب تک صرف سترہ اقسام( SPECIES) دریافت ہوئی ہیں۔  یہ نان سنس تتلی اِن میں سے کسی میں فٹ نہیں ہو رہی اور میرے لئے مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ اس جیسی چند ایک تتلیاں اور مل جائیں تاکہ مجھے دیوسائی میں اٹھارھویں قسم دریافت کرنے کا کریڈٹ مل سکے۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس تتلی کی خصوصیات ان سترہ میں سے کسی ایک سے مل جائیں جو پہلے سے دریافت ہو چکی ہیں۔  ورنہ  … ورنہ …  میں حیران ہوں کہ ہندوکش ریجن کی تتلی کے دیوسائی میں پائے جانے کی وضاحت کیسے کروں ؟‘‘

 ’’مسٹر پیٹر سٹراؤٹ تم بھول نہیں سکتے کہ کوئی نان سنس تتلی دیکھی تھی؟ اس اَن فٹ تتلی کو ہتھیلی پر رکھو اور خیمے سے باہر جا کر پھونک ماردو۔ تمھاری ساری ٹینشن دیوسائی کی رنگین فضاؤں میں تحلیل ہو جائے گی۔‘‘

 ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ریسرچ کے دوران حقائق چھپانا بہت بڑا جرم ہے۔میں اس جرم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔مجھے تم جیسے تعلیم یافتہ لوگوں سے اس مشورے کی توقع نہیں تھی۔‘‘ پیٹر کے چہرے پر شدید صدمے کے تاثرات نظر آئے اور وہ خوش مزاجی کا لبادہ اتار کر سنجیدہ محقق بن گیا۔

 پیٹر لا علم تھا کہ پاکستان میں تحقیقی مقالہ جات کے لئے مواد اکٹھا کرنے کا معیار کیا ہے؟یہاں نتائج پہلے مرتب کئے جاتے ہیں ،پھر ان کی مناسبت سے ڈیٹا ترتیب دے لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی رقم یا ہندسہ ’’ ہینکی پھینکی‘‘ کرے تو اسے درج کرنے کے بجائے تحقیق بدر کر دیا جاتا ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پیٹر جیسے جاہل یورپین اس جدید طریقِ کار سے ناواقف ہیں۔ انھیں چاہیے کسی پاکستانی یونیورسٹی سے ریفریشر کورس کر لیں ،انشا اللہ نفع ہو گا اور انھیں اس قسم کے مسائل سے مستقل نجات مل جائے گی۔

 ’’او۔کے مسٹر پیٹر … تم اس تتلی کو جہاں مرضی فٹ کر لینا۔اب اپنی  تحقیق کے نباتاتی پہلو کی طرف آؤ۔دیوسائی کے فلورا کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

 ’’دیوسائی کی نباتات کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔  یہاں نباتات کی اتنی اقسام موجود ہیں جو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں پائی جاتیں۔  دیوسائی میں ساڑھے چار سو کے لگ بھگ جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے بیش تر ایسی ہیں جو مختلف ادویات میں استعمال ہو سکتی ہیں۔ ‘‘

 ’’ماڈرن ادویات میں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’بالکل،انتہائی ماڈرن ادویات میں۔ ‘‘ پیٹر نے یقین سے کہا۔

 ’’ اس کا مطلب ہے ان جڑی بوٹیوں کو بیرون ملک برآمد کر کے زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے؟‘‘

 ’’کیوں نہیں کمایا جا سکتا ؟میں حیران ہوں کہ یہ نادر و نایاب جڑی بوٹیاں ایکسپورٹ کیوں نہیں کی جاتیں ؟ دیوسائی میں تین مختلف خطوں یعنی چین، وسط ایشیا اور بر صغیر سے تعلق رکھنے والی جڑی بوٹیاں ملتی ہیں اور اتنی ورائٹی ہے کہ ایک باٹنسٹ پوری زندگی یہاں گزار سکتا ہے۔ ‘‘

 ’’ مسٹر پیٹر میں نے پڑھا ہے کہ دیوسائی ٹری لائن سے زیادہ بلندی پر واقع ہے،پھر یہاں نباتات کی اتنی ورائٹی کیسے پائی جاتی ہے؟کیا یہ نباتات درختوں کی مختلف اقسام نہیں ؟‘‘

 ’’میرا خیال ہے تم ٹری اور فلورا کا فرق نہیں سمجھ رہے۔درخت ایک سیزن کے لئے نہیں اُگتا،اسکی زندگی سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ دیوسائی میں آدھے سے زیادہ سال برف جمی رہتی ہے اور کوئی درخت اتنے دن برف میں دفن رہنے کے بعد دوبارہ نشو و نما نہیں پا سکتا۔ جڑی بوٹیوں اور پھولوں کی زندگی چند روزہ ہے، اس سیزن میں اپنی بہار دکھائیں گے،برف باری شروع ہوتے ہی ان کا وجود مٹ جائے گا۔ اگلے سیزن میں یہ نہیں ہوں گے ان جیسے دوسرے ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ دیوسائی ٹری لائن سے بلند نہیں ،  ٹری لائن پر واقع ہے اس لئے یہاں کہیں کہیں کوئی جھاڑی نما پودا نظر آ جاتا ہے۔‘‘

 ’’یہ ٹری لائن ہے کیا بلا؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’بلندی کی وہ حد جس سے اوپر درخت نہیں اُگتے ٹری لائن کہلاتی ہے۔‘‘ پیٹر سے پہلے میں نے جواب دیا۔

 ’’ویری گڈ۔اور بلندی کی یہ حد کیا ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’اب آپ اوٹ پٹانگ سوالات پر اتر آئے ہیں۔ ذرا شریف النفس قسم کے سوال کریں۔ ‘‘ میں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کیا،اور پیٹر نے بے تحاشہ ہنسنے کی ایک اور قسط مکمل کی۔

 ’’ہمالیائی سلسلے کے لئے یہ حد ساڑھے چار ہزار میٹر کے لگ بھگ سمجھی جاتی ہے،  دیوسائی کی اوسط بلندی چار ہزار میٹر ہے۔‘‘ پیٹر نے ہنسی کی قسط ادا کرنے کے بعد بتایا۔

 ’’ہمالیائی سلسلے کے لئے؟تمہارا مطلب ہے مختلف سلسلوں کے لئے یہ لائن مختلف بلندی پر ہوتی ہے۔‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’اس میں کیا شک ہے؟ مختلف جگہوں پر درخت نہ اگنے کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔ برفباری،درجہ حرارت کی تبدیلیاں ،زمین کے کیمیائی اجزاء، پانی کی خصوصیات اور بہت سے دوسرے عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔  امریکہ اور کینیڈا کے مشہور پہاڑی سلسلے ایلپس میں ٹری لائن ساڑھے تین ہزار میٹر جبکہ سپین کے کوہ سیرا نویدا میں یہ تین ہزار میٹر کی بلندی سے شروع ہوتی ہے۔سویڈن میں ٹری لائن صرف آٹھ سو میٹر کی بلندی پر ہے۔‘‘

 ’’اسکا مطلب ہے کہ سویڈن میں آٹھ سو میٹر سے زیادہ بلند مقامات پر درخت نہیں پائے جاتے؟‘‘

 میرے لئے یہ انکشاف اچھا خاصا حیرت انگیز تھا۔

 ’’بالکل نہیں پائے جاتے۔‘‘ اس نے یقین سے کہا۔

 ’’دیوسائی کے پھولوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

 ’’یہ سب پہاڑی پھول ہیں جو مختلف اقسام کی گھاس اور جڑی بوٹیوں کے لائف سائیکل کا حصہ ہیں ،نباتات کی الگ قسم نہیں ہیں۔ ‘‘

 ’’تم ان پھولوں کے نام بتا سکتے ہو؟‘‘ میں دور تک پھیلے ہوئے پھولوں کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’یہ میرا فیلڈ نہیں ہے، لیکن …۔ ‘‘

 ’’کمال ہے،یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹی۔

 ’’کیا مطلب؟کیا نہیں ہو سکتا؟‘‘ وہ حیران ہوا۔

 ’’پھول کس عقلمند اور با شعور انسان کا فیلڈ نہیں ہوتے؟‘‘

پیٹر نے ایک طویل اور ہوکتا ہوا قہقہہ لگایا۔

 ’’تم نے مجھے ناک آؤٹ کر دیا، بہت بہت شکریہ۔‘‘

 ’’ناک آؤٹ کرنے کا شکریہ؟‘‘

 ’’یہی سمجھ لو۔اس قسم کی دوستانہ گپ شپ کئے نہ جانے کتنا عرصہ گزر گیا۔ تمہارے ملک میں جتنے لوگ ملے،  سب نے بہت نپی تلی گفتگو کی۔ میرے کولیگ بھی بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔تم نے جس سادگی اور اپنائیت سے میری عقل اور ذوق پر شک کا اظہار کیا ہے میں اس کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔  کاش ہفتے میں ایک دو بار تم جیسے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہے اور مجھے اتنی ہوم سکنس نہ ہو جتنی اب ہوتی ہے۔‘‘ پیٹر نے قدرے سنجیدہ اور جذباتی ہو کر ہمیں مکھن لگایا۔

 ’’تمہیں پاکستان آئے کتنا عرصہ ہو چکا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

 ’’میں آٹھ ماہ پہلے بر صغیر آیا تھا۔نیپال،بھارت اور چائنا میں چھ ماہ گزارے، پاکستان آئے ہوئے مجھے دو ماہ ہو گئے ہیں۔ یقین کرو میں آٹھ ماہ میں اتنا نہیں ہنسا جتنا آج ہنسا ہوں۔ ‘‘

 ’’ہماری دعا ہے کہ تم ہمیشہ یونہی ہنستے رہو،مگر پھولوں کی بات وہیں رہ گئی۔‘‘

 ’’ ان تمام پھولوں کے نباتاتی نام کیٹلاگ دیکھ کر بتائے جا سکتے ہیں ، عام زندگی میں استعمال ہونے والے ناموں کا مجھے علم نہیں۔  چند ایک کے بارے میں بتا سکتا ہوں …  سرخ رنگ کے پھول جو تعداد میں سب سے زیادہ نظر آ رہے ہیں اور سپرنگ کی طرح بل کھائے ہوئے ہیں ،ماؤ فلاورز کہلاتے ہیں۔ ‘‘

 ’’ماؤ؟یہ ماؤزے تنگ والا ماؤ تو نہیں ؟‘‘

 ’’وہی ہے،یہ پھول چینی نژاد ہیں۔ ‘‘

 ’’اور ماؤزے تنگ کی پیچ در پیچ شخصیت کی بالکل درست عکاسی کرتے ہیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے اس کا فقرہ مکمل کیا۔

 ’’اور جامنی رنگ کے لمبوترے پھول کرینس بلcranesbillکہلاتے ہیں۔  پیلے اور سرخی مائل جامنی رنگ کے گچھا نما پھولوں کو لاؤس ورڈ Louseword کہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’یعنی راج ہنس کی چونچ اور جوں کے الفاظ؟راج ہنس تو ٹھیک ہے لیکن پھول کو جوں سے منسوب کرنا انتہائی غیر رومانی حرکت ہے۔‘‘

 ’’اور یہ دودھیا سفید رنگ کے پھول سیکسی فراگ کہلاتے ہیں۔ ‘‘ پیٹر نے میرے تبصرے پر توجہ دیئے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔

 ’’آئی آبجیکٹ می لارڈ۔اتنے خوبصورت اور بے داغ سفید پھولوں کو مینڈک کہنا سخت زیادتی،  اور سیکسی مینڈک کہنا باقاعدہ ظلم ہے۔دنیا کا کوئی مینڈک سیکسی نہیں ہو سکتا۔‘‘

پیٹر پر ایک مرتبہ پھر ہنسی کا دورہ پر گیا۔

 ’’تمھیں یہ رائے دینے کا کوئی حق نہیں ؟‘‘ اس نے ہنسی پر قابو پا کر کہا۔ ’’ مس مینڈکی کے دل سے پوچھنا پڑے گا کہ مسٹر مینڈک کتنے  سیکسی ہوتے ہیں۔ ‘‘

 ’’یہ نام مس مینڈک نے نہیں رکھے۔‘‘

 ’’تم اطمینان رکھو،  سیکسی فراگ کے سپیلنگ دوسرے ہیں۔ یہ سیکسون والا  سیکسی اور فریگرینس والا فراگ ہے۔ SAXIFRAGE کا مطلب سیکسون لوگوں کی خوشبو ہے۔ ‘‘

 ’’ویری گڈ … تم نے ثابت کر دیا کہ فراگ بھی سیکسی ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

 ’’پھول کے نام میں معنی تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کوئی بھی نام اس کے اندر بسی ہوئی دنیائے محبت کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔پھول خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو،اس کا نام کتنا ہی غیر رومانی ہو،اس کی پتیوں میں خداوند کی طرف سے نازل کیا گیا پیامِ محبت بسیرا کرتا ہے۔افسوس کہ بہت کم لوگ اس پیغام کو سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ‘‘

 ’’اوکے مسٹر پیٹر سٹراؤٹ … اب تم فلسفہ بیان کرنے پر اتر آئے ہو اور ہمیں فلسفے سے کوئی دلچسپی نہیں ،اس لئے اجازت چاہتے ہیں … تمہارا بہت بہت شکریہ۔ ‘‘

 ’’او۔کے  … بائی، مگر میں حیران ہوں کہ پاکستان کے باٹنسٹ یہاں کیوں نہیں آتے؟ میں پانچ روز سے دیوسائی میں ہوں ، دیوسائی کی سیر کرنے والے بہت سے گروپ آئے، وائلڈ لائف پروٹیکشن کے منصوبے والوں سے میری ملاقات ہوئی،  لیکن میں نے نباتات پر کام کرنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔‘‘

 ’’ہمارے تحقیق کار نفع بخش اور مفید کاموں میں مصروف رہتے ہیں ، فضول وقت ضائع نہیں کرتے۔ ‘‘

 میرا خیال ہے تم مذاق کر رہے ہو۔ دیوسائی بلجیم میں ہوتا تو ہم اس کی نباتات سے لاکھوں ڈالرز سالانہ زر مبادلہ حاصل کر رہے ہوتے۔‘‘

 ’’ہم بھی کر رہے ہوتے۔افسوس کامیاب نہیں ہو سکے۔‘‘ شاہ صاحب کہا۔

 ’’کامیاب کیوں نہیں ہو سکے؟‘‘ اُس نے دلچسپی سے پوچھا۔

 ’’قسمت کی خرابی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ ہماری حکومت نے کوشش کی تھی کہ یہاں گندم کاشت کر کے آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ پودے اُگ آئے لیکن گندم کا دانہ نہیں بنا۔ یہ تجربہ اگر کامیاب ہو جاتا تو آج دیوسائی میں قدم قدم پر تھریشر چل رہے ہوتے اور اس کی فضائیں گندم کے بھوسے سے لبریز ہوتیں۔  افسوس یہ نادر و نایاب اور ڈالر بخش منصوبہ بُری طرح ناکام ہو گیا۔ ‘‘ شاہ صاحب نے مصنوعی تاسف کا اظہار کیا۔

پیٹر کے سر پر جیسے ایٹم بم پھٹ گیا۔اُس کا منہ حیرت کی زیادتی کی وجہ سے کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہو گئیں۔ 

 ’’مسٹر پیٹر ٹراؤٹ آر یو  ہیئر؟‘‘ اس کا سکتہ طویل ہو گیا تو میں نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے پوچھا۔

پیٹر چونکا۔چند لمحے اس کے چہرے پر بے یقینی کی کیفیت طاری رہی … پھر وہ سنبھلا اور اپنے مخصوص اور غراہٹ نما طویل قہقہے کا آغاز کیا۔

 ’’میں سمجھ گیا۔تم مجھے بے وقوف بنا رہے ہو۔‘‘

 ’’ہر گز نہیں۔ میں تم جیسے معصوم اور خوش باش مہمان کو بے وقوف بنانے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا۔

 ’’شکریہ …  مگر دیوسائی میں گندم کی کاشت؟‘‘ اُس کے لہجے سے بے یقینی جھلک رہی تھی۔

 ’’ دیوسائی میں ۱۹۶۷ء میں گندم اگانے کا تجربہ کیا گیا تھا۔ حکومت کا ارادہ تھا کہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو دیوسائی کو زرعی پلاٹوں میں تقسیم کر کے مقامی باشندوں کو الاٹ کر دیا جائے گا تاکہ لوگ خوشحال ہو جائیں۔ تین سال مسلسل گندم کاشت کی جاتی رہی، کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔‘‘

 ’’تھینک گاڈ …  قدرت کے نباتاتی عجائب گھر میں ہر طرف گندم کے کھیت جن کی گوڈی کر کے قیمتی اور پھولدار جڑی بوٹیوں کو تلف کر دیا گیا ہو۔ مائنڈ نہ کرنا … میں نے اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ احمقانہ منصوبے کے بارے میں نہیں سنا۔‘‘

 ’’تم چند ماہ پاکستان میں رہ گئے مسٹر ٹراؤٹ تو یہ احساسِ محرومی ختم ہو جائے گا۔ ‘‘

 پیٹر سٹراؤٹ نے غالباً دیوسائی کی تاریخ کا گرج دار ترین قہقہہ نشر کیا۔

 ’’میرا اندازہ ہے کہ تم لوگ دیوسائی کی اہمیت سے واقف نہیں ،کیا تم بتا سکتے ہو کہ ہمالیہ اور قراقرم جیسے دنیا کے بلند ترین کوہستانی سلسلوں کے درمیان دیوسائی جیسا نسبتاً ہموار سبزہ زار کیوں پایا جاتا ہے؟‘‘

 ’’اللہ کی مرضی ہے پیارے بھائی … ہمیں اس سلسلے میں مغز کھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ یہ نہ صرف پایا جاتا ہے، بلکہ ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے اور ہم ڈالر خرچ کئے بغیر اس کی دلکشی اور رعنائی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ تم اس سلسلے میں مزید کیا بتانا چاہتے ہو؟‘‘

 ’’دیوسائی کا وجود اور لوکیشن خداوند کی قدرت کا چھوٹا سا نمونہ ہے،تم اسے فطرت کا عجوبہ بھی کہہ سکتے ہو۔‘‘

 ’’تھوڑی سی وضاحت پلیز … ہم لوگ علمِ ارضیات میں بالکل کورے ہیں۔ ‘‘

 ’’تمہیں ارضیاتی پلیٹوں کے بارے میں معلومات ہیں ؟‘‘

 ’’صرف اتنی کہ زمین مختلف ارضیاتی پلیٹوں کی صورت میں وجود میں آئی اور ایشین پلیٹ اور انڈین پلیٹ کے ادغام کی لائن اسی علاقے سے گزرتی ہے۔‘‘

 ’’ویری گڈ … یہ دونوں پلیٹیں آپس میں ٹکرائیں تو ان کے کنارے اوپر اٹھتے گئے اور ہمالیہ اور قراقرم کا روپ دھار لیا۔ دیوسائی بنیادی طور پر ایشین پلیٹ کا حصہ تھا۔ یہ خطہ اپنی جگہ تبدیل نہ کرتا توقراقرم یا ہمالیہ کے دیو قامت وجود میں گم ہو چکا ہوتا۔اس نے اپنی شناخت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا،  ایشین پلیٹ سے الگ ہوا،اور ہمالیہ اور قراقرم کو جُل دے کر دونوں کے درمیان پھنس گیا۔دیوسائی چالاکی نہ دکھاتا تو تمھارا ملک قدرت کے نباتاتی میوزیم سے محروم رہ جاتا۔‘‘

 ’’ہم دیوسائی کے شکرگزار ہیں … ہمالیہ اور قراقرم جیسے دیوزادوں کو چکمہ دینا معمولی بات نہیں۔ ‘‘

 ’’تمھاری مزید اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہمالیہ اور قراقرم دیوسائی کے سامنے دودھ پیتے بچے کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھیں چکمہ دینا دیوسائی کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔علمِ ارضیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں سلسلوں نے صرف دس لاکھ سال پہلے جنم لیا  … دیوسائی کی ارضیاتی عمر پچیس لاکھ سال کے لگ بھگ ہے۔‘‘

 ’’تمھاری خیال آرائیاں اگر درست ہیں تو ان حقائق کے دلچسپ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ،لیکن انھیں سمجھنا اور ہضم کرنا آسان کام نہیں۔ ‘‘

 ’’یہ خیال آرائی نہیں ،ایک تحقیقی مقالے میں پیش ثابت کئے گئے مستند سائنسی حقائق ہیں۔ میں نے ان علمی معلومات کو آسان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے،مجھے افسوس ہے کہ یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔‘‘

 ’’کوشش کا کوئی قصور نہیں … فطرت نے دیوسائی کا ماحول عمر خیام کی رباعی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تخلیق کیاہے،اس کی رومانی فضا میں فلسفے اور ارضیات جیسے ثقیل مضامین پر بحث کرنے والوں کی عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘

ہم پیٹر سٹراؤٹ کے قہقہے کی گونج میں اُس سے الوداعی مصافحہ کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

٭٭٭

بڑے پانیوں پر بہاروں کے جھرمٹ

’’فطرت کے مناظر آنکھوں کو نہیں … دل و دماغ کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ ‘‘

(ولیم ہیزلٹ)

 

 ہمارے ساتھی ایک احمقانہ مشغلے میں منہمک تھے۔

کالا پانی کے کنارے پتھروں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا اور وہ ان پتھروں سے کالا پانی کی لہروں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

 ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ہم ان کے قریب پہنچے تو شاہ صاحب نے پوچھا۔

 ’’موجاں شاہ جی موجاں۔ ‘‘ کامران نے بے نیازی سے جواب دیا۔

 ’’پانی کی موجوں کو ڈسٹرب کر کے کونسی موجاں ہو رہی ہیں ؟‘‘

 ’’نو لیکچر پلیز … ہم مچھیاں مار رہے ہیں۔ ‘‘

 ’’مچھیاں یا مکھیاں ؟‘‘

 ’’مچھیاں … مچھلیاں ،یعنی کہ فش … وہ دیکھیں۔ ‘‘ کامران نے فیصل کے قدموں کی طرف اشارہ کیا جہاں ایک معصوم صورت اور نومولود قسم کی ٹراؤٹ تشریف فرما تھی۔

ہمیں بتایا گیا کہ اس ’’مچھی مار‘‘ مشغلے کا آغاز فیصل نے کیا تھا۔اس نے ٹراؤٹس کی اچھل کود دیکھ کر ایک بڑا پتھر اٹھایا اور ٹراؤٹ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ حسن اتفاق کہ وہ پتھر ایک ننھی منی ٹراؤٹ کو جا لگا۔ وہ تڑپتی پھڑکتی فیصل کے قدموں میں پہنچ گئی اور اس مچھی مار مقابلے کا آغاز ہوا۔اُن میں سے ہر ایک کم از کم ایک ’’مچھی‘‘ ضرور مارنا چاہتا تھا تاکہ فیصل کا ریکارڈ برابر ہو سکے۔

 ان کی نشانہ بازی جاری تھی۔ وہ نشانے لگا رہے تھے،شور مچا رہے تھے اور بے تکان قہقہے لگا رہے تھے۔ایک دوسرے کا نشانہ خطا ہونے پر بے تکلفانہ فقرے چست کر رہے تھے۔ آرمی پبلک سکول کے کلاس روم میں طالبعلموں کو شور مچانے سے منع کرنے والے اساتذہ اس وقت اپنے بچپن کے کلاس روم میں پہنچے ہوئے تھے اور انہیں کسی استاد کی سرزنش کا خوف نہیں تھا۔

کالے پانی پر مچھی مار مشغلے نے مجھے ایک مرتبہ پھر احساس دلایا کہ دیوسائی کا سبزہ زار جیپ سفاری کے لئے تخلیق نہیں کیا گیا۔دیوسائی ٹاپ تا چلم چوکی جیپ ٹریک مقامی باشندوں کی ضرورت ہے لیکن ایک کوہ نورد کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ دیوسائی کے  شفاف سینے پر لگایا گیا بدنما داغ ہے جو کوہ نورد کو تن آسانی کے پچھتاوے اور حسرت میں مبتلا کرتا ہے۔دیوسائی آج بھی چار دن یا کم از کم تین دن کا ٹریک ہے۔شیوسار لیک، کالا پانی،بڑا پانی اور شتونگ کی راتوں میں کیمپ فائر منعقد کر کے ہلا گلا مچایا جائے، دیوسائی کے پانیوں کو پاگل پاگل انداز میں پیدل عبور کیا جائے اور ان کے کنارے مچھی مار میچ منعقد کئے جائیں ،دیوسائی کے دیومالائی پھولوں کے تختوں کے بیچ بیٹھ کر ہمالیہ کے بھورے ریچھ کی لڑھکنیوں کا انتظار کیا جائے،مارموٹ کی سیٹیوں ،شرارتوں اور فحاشیوں سے لطف اندوز ہوا جائے،گولڈن ایگل کا مبہوت کر دینے والا … پلٹنا،جھپٹنا،جھپٹ کر پلٹنا … ویڈیو کیمرے میں قید کیا جائے … اور … اور … سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا ہو؟

 ’’لیکن آپ اتنی دیر سے تھے کہاں ؟‘‘ کامران کو اچانک خیال آیا۔

 ’’ہم پیٹر سٹراؤٹ کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے۔‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا۔

 ’’کون پیٹر؟ … وہ نک چڑھا سرخ بھالو جس کی ٹنڈ پر چھتر پھڑکانے چاہئیں ؟ آپ اُس سے پینگیں بڑھا رہے تھے؟‘‘ طاہر نے خفگی سے کہا۔

 ’’نہیں یار … وہ بہت پیارا اور خوش باش انسان ہے۔ہوم سکنس کا شکار ہے، مہمانوں سے ناراض ہونا کوئی اچھی بات نہیں۔ ‘‘

 ’’اچھا؟ …  دوڑ کر معافی مانگ آؤں ؟ … میں اسے دل ہی دل میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔ ‘‘

 ’’ہم سب کی طرف سے معذرت کر چکے ہیں۔ اب چلنے کی تیاری کرو۔‘‘

’ایک مچھی اور … ایک مچھی اور۔‘‘ سب نے با جماعت نعرہ بلند کیا۔

 ’’باقی مچھیاں بڑا پانی چل کر مار لینا۔وہاں چائے سٹاپ ہے اور وہاں کے پانی میں مچھلیاں بھی زیادہ ہیں۔ ‘‘ شاہ صاحب نے تجویز پیش کی۔

یہ تجویز سب کو پسند آئی اور ہم ایک مچھی مار عزم کے ساتھ بڑا پانی کی طرف روانہ ہوئے۔

بڑا پانی کے راستے میں ہم نے پتھروں کے تین بڑے بڑے ڈھیر دیکھے جن کے اوپر مزید پتھر چن کر مینار بنائے گئے تھے۔ ڈیڑھ دو فٹ قطر کے یہ مینار تقریباً نو یا دس فٹ بلند تھے۔میناروں کی چوٹی پر ایک لمبوترا پتھر کھڑا کر دیا گیا تھا۔ ایسے دو مینار اُس پہاڑی کے اوپر بنائے گئے تھے جو ہم نے سر کی تھی۔یہ ڈھیر اور پتھر ظاہر ہے صبح موجود ہوں گے لیکن اس وقت ہمیں شیوسار جھیل تک پہنچنے کی جلدی تھی اور ہم دیوسائی کے پھولوں ، پانیوں اور بادلوں میں محو تھے۔ پتھروں کے ڈھیر کی طرف کون توجہ دیتا؟

 ’’ پتھروں کے یہ ڈھیر کیوں لگائے گئے ہیں ؟‘‘ میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔

 ’’یہ علی شیر خاں انچن کا نشانی اے۔ ‘‘ اُس نے جواب دیا۔

بلتستان کا اکلوتا ہیرو علی شیر خان انچن (انچن=اعظم) مغل شہنشاہ اکبرِ اعظم کا ہم عصر تھا اور تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی شہزادہ سلیم سے ہوئی تھی  …  یعنی علی شیر خان انچن جہانگیر کا سسر تھا۔تاریخ میں اس بات کے حوالے بھی ملتے ہیں کہ انچن کی ایک بیوی گل خاتون کا تعلق مغلیہ خاندان سے تھا اور  بلتستان کی قدیم تعمیرات اور باغات میں جھلکنے والا طرزِ تعمیر اسی خاتون کے حسنِ ذوق کا آئینہ دار ہے۔ علی شیر خان نے گلگت، استور، چترال، کارگل اور لداخ کو فتح کر کے تھرتھلی مچا دی تھی۔ بلتستان کے لوگ علی شیر خان انچن کو پوجنے کی حد تک پسند کرتے ہیں اور اُس کی شخصیت ایک افسانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے،لیکن پتھروں کے ڈھیر کو علی شیر خان کی نشانی یا یادگار قرار دینا میری سمجھ میں نہ آیا۔

 ’’پتھروں کا ڈھیر کس چیز کی نشانی ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

 ’’اس نے ادر فوج کا گنتی کیا تھا۔ ‘‘

 ’’ گنتی کا پتھروں کے ڈھیر سے کیا تعلق؟‘‘

 ’’علی شیر خان انچن سکردو کا بوت بڑا راجہ تھا ناں۔ وہ بوت بڑا فوج لے کے چترال گیا تھا۔چترال جاتے وقت اس نے فوج کا گنتی کیا اور سپاہیوں کی تعداد کے برابر پتھروں کا ڈھیر لگا دیا۔اس نے چترال پر قبضہ کر کے اپنا آدمی کو گورنر بنایا اور بوت سارا لوگ کو گرفتار کر کے سکردو لایا۔واپسی پر اس نے اس جگہ پڑاؤ کیا اور فوج کا دوبارہ گنتی کر کے حساب لگایا کہ کتنا آدمی شہید ہوا ہے۔دوسرا ڈھیر میں اتنا پتھر ہے جتنا سپاہی شہید ہوا تھا،پھر قیدیوں کا گنتی کیا اور اُن کی تعداد کے برابر تیسرا ڈھیر لگا دیا۔‘‘

 ’’بڑا عجیب طریقہ ہے گنتی کا … قیدیوں والا ڈھیر کون سا ہے؟‘‘

 ’’الگ الگ کا ام کو پتا نئیں اے۔ ‘‘

 ’’اور یہ مینار ؟‘‘ میں نے اِن ڈھیروں پر بنے ہوئے پتھروں کے میناروں کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’یہ بعد میں بنا اے،ہر سال بنتا اے … اس سے راستے کا پتا چلتا اے۔ سردی کا موسم میں سارا دیو سائی پر بر ف جما ہوتا اے تو ان میناروں کے اوپر والے پتھر سے راستے کا پتا چلتا اے۔‘‘

 ہم ایک مرتبہ پھر چھوگو چھو کے معلق پل پر پہنچے۔

 چھوگو چھو یا بڑا پانی دیوسائی کا ایک خوبصورت اور منفرد منظر پیش کرتا ہے اور دعوت دیتا ہے  …  کبھی میرے ساتھ کوئی رات گزار … میں چشم تصور سے دیکھ سکتا تھا کہ بڑے پانی میں اترے ہوئے چاند اور تاروں کی آنکھ مچولی دل پر کیا اثر کرتی ہو گی … چاندنی میں نہائے ہوئے دیوسائی کے دودھیالے نشیب و فراز کیسی قیامت ڈھاتے ہوں گے … اور بڑے پانی کے اس پار نظر آنے والی چوٹی کے برفانی سٹیج پر کرنوں کا رقص کیا سماں باندھتا ہو گا؟میں چشم تصور سے یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ ساغر صدیقی دیوسائی تشریف لاتے تو اپنے مشہور جھرمٹوں میں کونسے جھرمٹ کا اضافہ کرتے:

بڑے پانیوں پر بہاروں کے جھرمٹ

بہت دلنشیں ہیں نظاروں کے جھرمٹ

محبوب نے تجویز پیش کی کہ براؤن بیئر کے لئے مخصوص کردہ علاقے کا دورہ کر کے اُن کے دیدار کی کوشش کی جائے۔ یہ تجویز وقت کی کمی کے باعث بھاری اکثریت سے ویٹو کر دی گئی۔ محبوب اور کامران نے ویٹو کو ویٹو کر دیا۔اُن کا فرمانا تھا کہ براؤن بیئر نظر آئے یا نہ آئے،دیوسائی آ کر اُسے دیکھنے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ محبوب اور کامران کو براؤن بیئر دیکھنے کے لئے نوّے منٹ کی مہلت دے دی گئی۔فیصلہ ہوا کہ وہ دونوں براؤن بیئر کے لئے مخصوص کردہ علاقے میں خجل خوار ہو آئیں ، بقیہ لوگ ڈیڑھ دو گھنٹے تک بڑے پانی اور اس کے ارد گرد کے مناظر سے لطف اندوز ہوں … شاہ صاحب ریچھوں کے علاقے کا دورہ کر چکے تھے اور انھیں دوسو فیصد یقین تھا کہ اتنے مختصر عرصے کے لئے وہاں جانا خجل خوار ہونے کے مترادف ہے۔

محبوب اور کامران چلے گئے۔ہم نے بڑے پانی کے کنارے کنارے چلنے کا شغل اختیار کیا … اور یہ سفر کیا سفر تھا:

ابر ہے، کہسار ہے، اور چھوگوچھو میں منتظر

اس لبِ لعلیں کے نام اک جام آبِ جو بھی ہے

 بڑے پانی کا آبِ جو یقیناً کسی لبِ لعلیں کی منتظر ہو گا، لیکن اُس نے ہمیں بھی مایوس نہیں کیا۔بڑے پانی کے نظاروں کے جھرمٹ میں گزرا ہوا اک گھنٹہ نگاروں کے جھرمٹ میں گزارے گئے کئی گھنٹوں پر بھاری ہے۔ مناظر پرستی ایک دین ہے تو مناظر پرستوں کو کافر کہنے سے پہلے دیوسائی کے چھوگو چھو کے کنارے ایک گھنٹہ ضرور گزارنا چاہیے۔

٭٭٭

یہاں سمے کے مسافر قیام کرتے ہیں

’’ویرانے کائنات کے تحفظ کے ضامن ہیں۔ ‘‘

(ہنری ڈیوڈ تھوریو)

 

بڑا پانی واک سے واپس آ کر ہم نے خیمہ ہوٹل کی کرسیاں سنبھالیں اور چائے کا آرڈر دیا۔ انتظار فرمائیے کے وقفے میں میری توجہ ساتھ والی ٹیبل کی طرف مبذول ہوئی جہاں چند افراد بار بار شتونگ کینال کا نام لے رہے تھے۔اُن کے سامنے ایک نقشہ رکھا تھا جس پر وہ پنسل سے نشانات لگا رہے تھے۔میں نے دخل در معقولات کا فیصلہ کیا اور اپنا کپ لے کر اُن کے پاس چلا گیا۔علیک سلیک اور رسمی تعارف کے بعد علم ہوا کہ ان میں سے دو حضرات کا تعلق ڈیسکون کمپنی سے تھا جبکہ تیسرا ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کا کارکن تھا۔

 ’’میں نے آپ لوگوں کی گفتگو میں شتونگ کینال کا نام سنا تھا۔ہم نے آج وہاں کافی وقت گزارا تھا، لیکن کوئی کینال نہیں دیکھی۔میں نے یہ دریافت کرنے کے لئے آپ کو ڈسٹرب کیا ہے کہ شتونگ کینال کہاں پائی جاتی ہے؟‘‘

 ’’ہم ہرگز ڈسٹرب نہیں ہوئے۔دیوسائی جیسی جگہ پر ایک دوسرے سے گپ شپ کر کے کوئی بھی ڈسٹرب نہیں ہوتا۔شتونگ میں کوئی باقاعدہ نہر نہیں ہے۔شتونگ پانی کو ہی شتونگ نہر کہا جاتا ہے۔ یہ نہر آج کل ہمارے لئے شتونگڑی بنی ہوئی ہے۔‘‘ ڈیسکون کے سرویئر اسماعیل جان نے جواب دیا۔

 ’’کیا مطلب؟‘‘

 ’’ہماری کمپنی ست پڑا ڈیم تعمیر کر رہی ہے۔فی الحال ست پڑا جھیل میں صرف ست پڑا نالے کا نکاس ہے یا ارد گرد کے چھوٹے موٹے گلیشئرز کا پانی آتا ہے۔ڈیم کے منصوبے میں یہ بات شامل ہے کہ شتونگ نہر کا رُخ موڑ کر اضافی پانی حاصل کیا جائے اور ست پڑا جھیل کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔ اس منصوبے کے مطابق سروے ہو چکا اور شتونگ نہر کا رخ موڑنے کا کام شروع ہوا تو شفیق صاحب کی این۔ جی۔او نے شور مچا دیا کہ اس طرح جنگلی حیات اور براؤن بیئر کے تحفظ کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچے گا، اس لئے شتونگ نہر کا رُخ موڑنے کا منصوبہ ختم کیا جائے۔‘‘ اس نے ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے کارکن کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’ شور کیوں نہ مچاتے؟ہماری بیس سال کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچنے والا تھا۔‘‘ شفیق صاحب نے احتجاجی لہجے میں کہا۔

 ’’ہمالین فاؤنڈیشن کے دباؤ میں آ کر حکومت نے شتونگ نہر کا رخ موڑنے کا فیصلہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اس پر سکردو کی ضلعی حکومت نے سخت احتجاج کیا۔ان کا کہنا تھا کہ دیوسائی کسی این۔جی۔اوکے باپ کی جاگیر نہیں۔  اس کے پانی پر ہمالین براؤن بیئر سے زیادہ سکردو کے شہریوں کا حق ہے اور شتونگ نہر کا رخ موڑنے کے فیصلے کی منسوخی کو فوراً منسوخ کیا جائے۔‘‘

فیصلے کو منسوخ کرنے کا فیصلہ اور منسوخی کو منسوخ جیسے الفاظ کو سمجھنے میں مجھے کافی  غور و خوض کرنا پڑا۔

 ’’آپ کی تنظیم کو شتونگ کینال کا رخ موڑنے پر کیا اعتراض ہے؟‘‘ میں نے شفیق صاحب سے پوچھا۔

 ’’مجھے پالیسی کا علم نہیں ،میں ایک معمولی ورکر ہوں۔  میں نے سنا ہے کہ اس طرح براؤن بیئر کی افزائش کا علاقہ کم ہو جائے گا۔ہمالین فاؤنڈیشن کی کوششوں سے براؤن بیئر کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے۔‘‘

 ’’میرے خیال میں یہ اضافہ دیوسائی کو نیشنل پارک اور جنگلی حیات کے لئے محفوظ علاقہ قرار دینے کی وجہ سے ہوا ہے۔آپ حکومتِ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو اپنی این۔جی۔او کے کھاتے میں کیوں ڈالنا چاہتے ہیں ؟‘‘

 ’’گورنمنٹ کی کوششیں ؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’گورنمنٹ کاروائی ڈالتی ہے سر۔ نیشنل پارک وغیرہ کھوکھلے اعلانات ہیں۔ عملی کوششیں صرف ہمالین فاؤنڈیشن، بلکہ ڈاکٹر انیس اور زکریا صاحب نے کی ہیں۔ ‘‘

 ’’میرا خیال ہے آپ نے خاصا لمبا موضوع چھیڑ لیا ہے  … ہمیں اجازت دیں ،ہم اپنا کام مکمل کر چکے ہیں۔ ‘‘ اسماعیل نے اُٹھتے ہوئے کہا۔

شفیق اور میں اسماعیل صاحب اور ان کے ساتھی کو جیپ تک چھوڑنے گئے۔ بائی بائی کیا … اور واپس آ گئے۔شاہ صاحب،طاہر اور فیصل ایک مرتبہ پھر بڑے پانی کے کنارے پہنچ چکے تھے۔سیف اور صابر ہماری میز پر ہی آ گئے۔

 دیوسائی ہمالین براؤن بیئر کی آخری پناہ گاہ کے طور پرپہچانا جاتا ہے اور ’’سٹی آف براؤن بیئر‘‘ یا ’’ شہر ریچھاں ‘‘ کہلاتا ہے۔بہت سے مغربی سیاح صرف براؤن بیئر کی زیارت کرنے دیوسائی تشریف لاتے ہیں ،انھیں دیوسائی کے ریچھوں میں فطرت کا حسن نظر آتا ہے، دیوسائی کی باقی رنگینیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔میں ریچھوں کا بہت زیادہ شیدائی تو نہیں ،لیکن شفیق کی معلومات سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا،خاص طور پر محبوب اور کامران کے خجل خوار ہو کر واپس آنے تک!

میری دلچسپی دیکھ کر شفیق نے فوراً اپنی این۔جی۔او کی رام کہانی شروع کر دی۔

 ’’ ڈاکٹر انیس الرحمن اور انجینئر وقار زکریا نے کسی سے سنا تھا کہ دیوسائی پلین ایک خوبصورت ٹریک ہے اور یہاں ہمالیہ کے بھورے ریچھ بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے ٹریکنگ کے ساتھ ساتھ اس نادر و نایاب جانور کو دیکھنے کے لئے دیوسائی کا انتخاب کیا اور ۱۹۸۷ء میں پہلی مرتبہ دیوسائی تشریف لائے۔انہوں نے ایک ہفتہ تک دیوسائی کے مختلف مقامات پر کیمپنگ کی اور پوری کوشش کے باوجود براؤن بیئر کا دیدار کرنے میں ناکام رہے۔اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے پاکستان کے محکمہ جنگلی حیات کی فائلوں کا جائزہ لیا۔ریکارڈ کے مطابق دیو سائی میں تقریباً ساڑھے چھ سو براؤن بیئر موجود تھے۔ اُنھوں نے ۱۹۸۸ء میں دوبارہ دیوسائی کا رخ کیا اور پورا سیزن دیو سائی میں گزارا۔ س مرتبہ انہیں ریچھ نظر نہ آیا تو انہیں مایوسی کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی ہوئی۔‘‘

 ’’پورے سیزن میں کوئی ر یچھ نظر نہیں آیا؟‘‘ سیف نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’جی … اس کے بعد وہ کئی مرتبہ دیوسائی آئے اور  ۱۹۹۲ء  میں بمشکل ایک براؤن بیئر دیکھنے میں کامیاب ہوئے۔انھیں شک ہوا کہ سرکاری اعداد و شمار غلط ہیں اور دیوسائی میں براؤن بیئر کے ناپید ہونے کا شدید خطرہ ہے۔انہوں نے براؤن بیئر کی نسل بچانے کا عزم کر لیا اور ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی۔فاؤنڈیشن نے انٹرنیشنل بیئر ایسوسی ایشن اور دوسرے عالمی اداروں سے رابطہ کیا۔ لندن کے ایک ادارے کے تعاون سے  ۱۹۹۳ء میں دیوسائی کے براؤن بیئرز کی مردم شماری کی گئی تو … ‘‘

 ’’ریچھوں کی مردم شماری نہیں ہوتی،ریچھ شماری کہنا چاہیے۔‘‘ صابر نے تصحیح کی۔

 ’’جو مرضی کہہ لیں جناب۔ اس مردم شماری یا ریچھ شماری میں انکشاف ہوا کہ دیوسائی میں براؤن بیئر کی تعداد صرف اُنیس تھی۔ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تو سرکاری محکموں کی آنکھیں کھلیں اور دیوسائی کو جنگلی حیات کے لئے محفوظ علاقہ اور نیشنل پارک قرار دیکر یہاں جانوروں کے شکار پر پابندی لگا دی گئی۔‘‘

 ’’محفوظ علاقہ یا نیشنل پارک قرار دینے سے بنیادی فرق کیا پڑتا ہے؟‘‘

 ’’ نیشنل پارک کے اپنے قوانین ہیں جو جنگلی حیات کو تحفظ دیتے ہیں۔ آپ کو دلچسپی ہو تو میں نیشنل پارک میں ممنوعہ افعال کی لسٹ آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔  ‘‘

 ’’مجھے بے حد دلچسپی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے ایک پرانا بروشر نکالا اور میزپر پھیلا دیا۔اس بروشر میں اُن ’’جرائم‘‘ کی لسٹ تھی جن کا نیشنل پارک میں کرنا یا کرنے کی کوشش کرنا قابلِ دست اندازیِ  پولیس جرم تھا اور ان پر جرمانے اور قید کی سزاؤں کی وعید تھی۔میں نے یہ جرائم اختصار کے ساتھ نوٹ کر لئے۔ نیشنل پارک میں مندرجہ ذیل افعال قابلِ سزا جرم ہیں :

۱۔ رہائشی عمارات بنانا۔

۲۔کسی جانور کو شکار کرنا یا پکڑنا … یا ایسی کوشش کرنا۔

۳۔آتشی ہتھیار یا کوئی اور ذریعۂ  شکار لے کر نیشنل پارک میں داخل ہونا۔

۴۔پالتو جانور نیشنل پارک میں لانا۔

۵۔جھاڑی یا درخت کاٹنا یا بطور ایندھن استعمال کرنا۔

۶۔ فصل کاشت کرنا۔

۷۔نیشنل پارک کے پانی کو آلودہ کرنا۔

۸۔ کوڑا کرکٹ یا شاپر وغیرہ پھینکنا۔

جرائم کی لسٹ پڑھ کر علم ہوا کہ ہم کئی سنگین جرائم کا ارتکاب کر چکے تھے۔ شیوسار کے شفاف پانی میں پلیٹیں دھو کر اسے آلودہ کرنا،اس کے کنارے شاپر وغیرہ پھینکنا اور کالے پانی پر مچھی مار مشغلے میں ملوث ہونا وغیرہ وغیرہ قابلِ دست اندازیِ پولیس جرائم تھے۔ کامران اگر یہاں ہوتا تو یقیناً ایک نیا ہنگامہ جنم لیتا اور ہم صابر کو ساتھ لانے پر شق نمبر چار کی خلاف ورزی کے مجرم ٹھہرائے جاتے۔

 ’’یار اس براؤن بیئر میں کیا خاص بات ہے جس کے لئے اتنے سخت قوانین اور محفوظ علاقہ جات وغیرہ بنائے جا رہے ہیں۔ فرض کریں کہ دیوسائی میں موجود تمام براؤن بیئرز ختم ہو گئے تو کونسی قیامت آ جائے گی؟کہیں سے سو پچاس ریچھ پکڑ لائیں اور دیوسائی میں چھوڑ دیں۔ اس سلسلے میں اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ سیف نے سوال کیا۔

 ’’کہاں سے پکڑ لائیں ؟‘‘ شفیق کے چہرے پر شدید صدمے کے آثار نظر آئے۔ ’’براؤن بیئر کی یہ نسل دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی،سخت قوانین نہ بنائے جاتے تو یہ نسل ختم ہو چکی ہوتی۔ ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن نے براؤن بیئر کے تحفظ کے لئے جدید طریقوں پر کام شروع کیا اور ۱۹۹۰ئ؁ میں سات براؤن بیئرز کو ریڈیو سینسر لگے ہوئے پٹّے پہنا دئیے گئے تاکہ اُنکی نقل و حمل اور عادت و اطوار سٹیلائٹ کی مدد سے مانیٹر کی جا سکیں۔ ‘‘

 ’’اس مانیٹرنگ سے براؤن بیئر کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘

 ’’اُن کی لوکیشن کا علم ہو تو انہیں بہت سے خطرات سے بچایا جا سکتا ہے، ان کے قدرتی رہائشی علاقوں کا تعین کیا جا سکتا ہے اور عادات و اطوار کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں اس سال کی مردم شماری کے مطابق براؤن بیئر زکی تعداد پینتالیس ہو چکی ہے  اور یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

 ’’آپ کی یا ریچھوں کی؟‘‘ میں نے معنی خیز لہجے میں پوچھا۔

 ’’مشترکہ۔‘‘ شفیق نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔

 ’’ آپ براؤن بیئر کو کن خطرات سے تحفظ مہیا کر رہے ہیں۔ ‘‘

 ’’سب سے بڑا خطرہ مقامی شکاریوں سے ہے جو اس کی کھال، چربی اور ہڈی حاصل کرنے کے لئے اسے شکار کرتے ہیں۔ یہ اعضاء گلگت، سکردو اور چین کے بازاروں میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ ان سے قوت بخش دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔  براؤن بیئر کی چربی سے بنائے ہوئے تیل کو بطور طلاء اور کچھ خاص پرائیویٹ حصوں کو بطور سفوف استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے بارے میں مجمع لگانے والے حضرات فرماتے ہیں کہ عقلمند کو اشارہ کافی ہے اور زیادہ تعریف خلاف تہذیب ہے … وغیرہ وغیرہ …  ایک براؤن بیئر سے شکاری تقریباً ایک لاکھ روپے کما لیتا ہے۔‘‘

 ’’اوہ … میں حیران تھا کہ یہ کالو خود کو بھالو کیوں کہتا ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے صابر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی ابھی ہمارے پاس پہنچے تھے اور انہوں نے غالباً آخری چند فقرے سنے تھے۔

 صابر نے گھور کر شاہ صاحب کو دیکھا،لیکن کوئی جواب نہ دیا۔

ہم نے دوسری مرتبہ چائے کا آرڈر دیا،اور ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہی۔شفیق نے بتایا کہ بعض اوقات کوئی براؤن بیئر مٹر گشت کرتا ہوا یہاں … یعنی بڑا پانی پر آ جاتا ہے اور شتونگ اور کالا پانی بھی اس کی جولان گاہ ہے … لیکن جب سے جیپ ٹریک زیادہ مصروف ہوا ہے براؤن بیئر نے ان علاقوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

ہم نے چائے ختم کی ہی تھی کہ کا مران  اور محبوب واپس آ گئے۔

 ’’ہمیں وہاں کو ئی بیئر شیئر نظر نہیں آیا … اور شاہ جی یہ سب آپ کی ناقص پلاننگ کا قصور ہے۔آپ کو گروپ کی عزت کا خیال ہی نہیں !آپ صابر کو ہمارے ساتھ بھیج دیتے تو ہماری براؤن بیئر دیکھنے کی مہم اتنی بری طرح ناکامی سے دوچار نہ ہوتی۔‘‘ کامران نے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے شاہ صاحب پر چڑھائی کی۔

 ’’صابر کیا کرتا؟‘‘ شاہ صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’کچھ بھی نہ کرتا … براؤن بیئر کے مخصوص علاقے میں ’’کوڈا‘‘ ہو کر دوچار تصاویر بنوا لیتا تاکہ سند رہیں اور یار دوستوں کو ہمالین براؤن بیئر کا نمونہ دکھانے کے کام آئیں۔  ‘‘

صابر کا  کئی گھنٹے کا صبر و تحمل جواب دے گیا اور وہ غضبناک انداز میں کامر ان کی طرف جھپٹا۔ ’’تیری تو  …۔ ‘‘

صابر کچھ دیر کامران کو پکڑ نے کی کوشش کر تا رہا، لیکن اپنے بھا ری بھر کم وجود کی بناء پر جلد ہی ایک کرسی پر ڈھیر ہو کرہانپنے لگا۔

ہم نے شفیق کو خدا حافظ کہا۔

 جیپ کے قریب پہنچ کر کامران نے انتہا ئی سعادتمندانہ انداز میں سوال کیا:

 ’’صابر بھائی جان بھی واپس جائیں گے؟ ‘‘

صابر چلتے چلتے رک گیا۔

 ’’ دیکھیں ناں !‘‘ کامران نے پر و ٹیکٹڈ ایریا کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔  ’’ حکو مت نے آپ کے لئے کئی سو مر بع کلو میڑ رقبے پر بھالو نگر بسایا ہے۔ آ پ نے یہاں قیام پذیر ہونا پسند نہ کیا تو حکو مت بہت مایوس ہو گی۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے جانِ من۔تمہارے دلائل نے مجھے قائل کر دیا ہے کہ مجھے بھالو نگر میں قیام پذیر ہو کر افزائشِ ریچھ کی حکومتی مہم میں شامل ہو جانا چاہیے،لیکن اکیلا ریچھ کیا کرے گا ؟ تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو … میں ریچھوں کی لائن لگاتا رہوں۔  میرا مطلب ہے ہر سال ہمالین فاؤنڈیشن کی خدمت میں ریچھوں کا نیا ماڈل بطور تحفہ پیش کرتا رہوں۔ ‘‘ صابر نے انتہائی شیریں لہجہ اپناتے ہوئے کہا۔

صابر کے الفاظ اور انداز نے کامران کے چہرے پر بارہ بجا دیئے اور وہ اس جارحانہ حملے کا خاطر خواہ جواب نہ دے سکا۔ صابر چند لمحے طنزیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھتا رہا، پھر مسکراتا ہوا جیپ میں سوار ہو گیا۔

چھوٹا پانی اور شتونگ سے گزر کر ہم واپس دیوسائی ٹاپ پہنچے۔

دیوسائی کو خدا حافظ کہنے کا وقت آ گیا تھا،لیکن میں دیوسائی کی سٹاری نائٹ کے درشن کرنا چاہتا تھا۔اس سلسلے میں باقی چائے خان سے مذاکرات کئے گئے اور درخواست کی گئی کہ وہ چاند نمودار ہونے تک دیوسائی سے روانگی ملتوی کر دے۔باقی چائے خان نے صاف انکار کر دیا۔میں نے اضافی معاوضے کی پیشکش کی لیکن باقی چائے خان نے انتہائی عاجزی سے معذرت کر لی۔اس کا کہنا تھا کہ کسی وجہ سے اس کا رات سے پہلے گھر پہنچنا انتہائی ضروری ہے، لہٰذا نو سٹاری نائٹ۔

 ’’ڈاکٹر صاحب اس پہاڑی سے بریگیڈیئر نصرت سیّال کا ہیلی کاپٹر ٹکرایا تھا۔ وہ کارگل کے محاذ سے واپس آ رہے تھے کہ شدید دھند اور بادلوں کی وجہ سے ہیلی کاپٹر اس پہاڑی سے ٹکرایا اور وہ شہید ہو گئے،  زندہ ہوتے تو کارگل کی جنگ کو ئی اور رخ اختیار کرتی۔ سکردو کے لوگ انھیں کارگل کا ہیرو کہتے ہیں اور پوجنے کی حد تک پسند کرتے تھے۔اس پہاڑی کی چوٹی پر اب بھی ہیلی کاپٹر کا ملبہ بکھرا ہوا ہے اور سکردو کے باشندے اس ملبے کی زیارت کرنے جاتے ہیں۔  ‘‘ شاہ صاحب نے ایک پہاڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

 ’’میں بریگیڈیئر نصرت سیّال کا نام پہلی مرتبہ سن رہا ہوں۔ ‘‘

 ’’اور صاب بونو مریم کا جنگ بی تو اسی راستے پر ہو ا تھا۔ ‘‘ باقی چائے خان نے زبر دستی  دخل اندازی کی۔

 ’’بونی مریم؟‘‘ شاہ صاحب نے حیرانی سے کہا۔ ’’یہ کو ن سی جنگ ہے ؟میں نے اس کا نام نہیں سُنا۔‘‘

 ’’پہلے آپ امارا گیت سنو پھر آپ کو جنگ کے بارے میں بتاتا اے۔‘‘

 اُس نے ہمارا جو اب سنے بغیر کان پر ہاتھ رکھ کر تان لگائی اور ایک گیت شروع کر دیا۔ الفاظ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہے تھے لیکن اُس کی آواز اور لے کافی اچھی تھی۔ہم نے دخل اندازی کئے بغیر اُسے گیت مکمل کر نے دیا۔

 ’’اب ام آپ کو بونو مریم کے بارے میں بتاتا اے،پھر آپ گیت کا مطلب بی سمجھ جائے گا۔‘‘ اُس نے ہماری توجّہ پر خوش ہو کر کہا۔ ’’ ایک دفعہ کا ذکر اے کہ سکردو پر کشمیر کے راجہ …  …۔ ‘‘

 ’’ پلیز پلیز …  تم یہ کہانی کسی اور طرح شروع نہیں کر سکتے؟ ‘‘ کامران نے فریاد کی۔ ’’ اس طرح تو دادی جان چوسنی پینے والے بچوں کو کہانیاں سناتی ہیں۔ ‘‘

 ’’ آپ ام کو اپنا دادی جان سمجھو ناں صاب۔ام کو بوت خوشی ہو گا۔‘‘

 ’’چوسنی کی کمی پھر بھی رہ جائے گی؟‘‘ صابر نے مایوسی سے کہا۔

 ’’ام چوسنا بی دے گا صاب۔‘‘ باقی چائے خان نے باقی دانت بھی نکال دیئے۔

 ’’ تم اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتے ؟ ہر کوئی امان اللہ بننے کی کوشش کر رہا ہے، اسے علم ہے کہ ہمارا تعلق آرمی پبلک سکول سے ہے اور تم اتنا گھٹیا مذاق کر رہے ہو،کچھ اندازہ ہے کہ یہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھ کر اے۔پی۔ایس کے ٹیچرز کے بارے میں کس قسم کے تبصرے کرے گا؟ ‘‘ شاہ صاحب نے انگلش میں سمجھایا۔

صابر اور کامران خاموش ہو گئے۔

 ’’بونو مریم سکر دو کا بوت خوبصورت عورت تھا صاب، مگر اس کا خاوند بےچارہ گونگا بی تھا اور بہرہ بی تھا، مگر بونو مریم سے بہت محبت کرتا تھا۔ایک دفعہ کا ذکر اے کہ کشمیر کے راجہ نے سکردو پر قبضہ کر لیا اور سکردو کا سارا دولت لوٹ لیا، مگر اس شرط پر راجہ کو حکو مت واپس کر دیا کہ وہ ہر سال ایک خوبصورت عورت کشمیر بھجواتا رہے گا۔‘‘

 ’’کیا؟ … یہ کیسی شرط ہے ؟ ‘‘ میں نے کہا۔

 ’’بے غیرتی اے ناں۔  پہلا سال بونو مریم کا باری آیا۔سکردو کے راجہ نے بونو کے شوہر کے ماں باپ کو بوت سارا روپیہ دے کر راضی کر لیا۔بونو کا شوہر نئیں مانتا تھا مگر اُس کو قید کر دیا اور مریم کو کشمیر روانہ کر دیا۔ کشمیر کا فوج برجی لا کے رستے سے واپس جاتا تھا۔اس نے دیوسائی میں پڑاؤ کیا تو مریم بوت رویا،پھر وہ گیت گایا جو ام نے آپ کو سنایا۔ ‘‘

 ’’ہمیں کیا پتا تم نے کیا سنایا ؟‘‘ میں نے کہا۔

 ’’بونومریم نے ہوا کو بولا کہ امارا وطن جاؤ تو امارے شوہر کے ماں باپ کو بولو کہ مریم خوشی خوشی کشمیر جاتا اے اور راجہ کے محل میں عیش کرتا اے … مگر ہمارا شوہر کو بولو کہ بونو مریم کبی کشمیر نئیں پہنچتا، راستے میں مر جاتا اے۔سکردو کے راجہ کو بولو … مگر سکردو کا کوئی راجہ ہوتا تو مریم کشمیر کیو ں جاتا؟مریم اسی لئے کشمیر جاتا اے کہ سکردو میں کوئی راجہ نئیں، کوئی سردار نئیں ، کوئی فوج نئیں … اس واسطے تم راجہ کو کچھ مت بولو …  مریم کو مرنے دو۔‘‘

 ’’او یار وہ جنگ کدھر گئی، یہ تو لَو سٹوری ہے۔ ‘‘

 ’’ابی گیت سکردو پہنچے گا تو جنگ ہو گا،  پہلے سے پہلے کیسے ہو گا؟ … پڑاؤ پر کسی مسافر نے یہ گیت سنا اور سکردو جا کر راجہ کو سنایا، راجہ کا غیرت جاگا۔اُس نے اپنا فوج بھیجا جس نے کشمیر کے لو گو ں کو پکڑ لیا اور سب کو قتل متل کر کے بونو مریم کو واپس سکردو لے گیا۔ ‘‘

بونو مریم  بلتستان کا انتہائی مقبول لوک گیت ہے اور اس داستان کو بلتی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔لوگ بونو مریم یا مقدس مریم کو پانچواں درویش سمجھتے ہیں اور اسے وسیلہ بنا کر من کی مرادیں پاتے ہیں۔ بونو مریم کشمیر کے راجہ کے چنگل سے آزادی چرا کر خوشی خوشی سکردو گئی ہو گی،میں شیوسار جھیل کی ساری خوبصورتی چرانے میں ناکام رہا تھا اور سکردو  واپس جا تے وقت خوش نہیں تھا۔

خلیل جبران نے کہا تھا: … اگر خوبصورتی خود بہ خود آپ کے راستے میں نہ آئے اور آپ کی راہنمائی نہ کرے تو آپ اسے تلاش نہیں کر سکتے … اور جب تک وہ بہ ذاتِ خود آپ کی تقریر کے الفاظ ترتیب نہ دے  …  آپ اس کی تعریف نہیں کر سکتے۔

 دیوسائی کی رعنائیوں کے سنگ میل بہ صد شوق شیوسار کے دیومالائی ماحول تک راہنمائی کرتے ہیں۔

شیوسار کی مخمور فضا کی سرگوشیاں ہر لمحے مدح سرائی کا ڈھنگ سکھاتی ہیں۔

 شیوسار اپنی خوبصورتی چرانے کی دعوت خود دیتی ہے۔اس چوری کے لئے ہر قسم کی مدد فراہم کرتی ہے،اور رعنائیوں کے حیرت کدے میں قید کر لیتی ہے۔

دیوسائی کی دلبرانہ سپردگی اور محبوبانہ راہنمائی کے باوجود اگر کوئی شخص اس کی  دولتِ حسن چرانے میں ناکام رہتا ہے تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ دیوسائی کی دلکشی کے ذخیرے میں داخل ہونے بعد انتخاب مشکل ہو جاتا ہے کہ اس خزانے کا کون سا موتی چرایا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔

اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں ؟ جائیں کہاں ؟

قدم قدم پر پھول کھلے ہیں ،شیوسر کے لشکارے ہیں

بے شک دیوسائی کی سرزمین کو خدا حافظ کہنا آسان کام نہیں … لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فطرت کی طرف سے یہاں مستقل قیام کا گرین کارڈ کسی کو بھی عطا نہیں کیا جاتا۔ دیوسائی کے ارد گرد کئی آبادیاں ہیں ، لیکن اس ارضی جنت پر کوئی مستقل آبادی نہیں پائی جاتی،اور پائی بھی کیسے جا سکتی ہے کہ جنت کے کسی بھی ٹکڑے پر قیامت سے پہلے انسانی آبادی قوانینِ فطرت کی خلاف ورزی ہو گی،اس لئے دیوسائی کئی صدیوں سے انسانوں کے لئے ہی نہیں ،چوپایوں اور پرندوں کے لئے بھی صرف ایک گزرگاہ ہے … فطرت کسی کو یہاں مستقل قیام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

یہ راستہ ہے مگر ہجرتی پرندوں کا

یہاں سمے کے مسافر قیام کر تے ہیں

دیوسائی اللہ حافظ!

تمہاری دل ربائی اور پذیرائی کا بہت بہت شکریہ!میں اعتراف کرتا ہوں کہ تمہاری رعنائیوں کو شیوسار جھیل تک محدود سمجھ کر تمہارے ہوش ربا نشیب و فراز کی گل چینی کے لئے جیپ سفاری کا پروگرام بنانا میری نادانی اور تمہاری جلوہ نمائی کی توہین تھی۔میں تمہاری بارگاہ سے تین عدد محرومیوں کا ’’انعام‘‘ اپنے ساتھ لئے جا رہا ہوں۔

  برجی لا پر قراقرم کے دلکش ترین نظارے کا گفٹ پیک نہ لیا … تو پھر کیا لیا؟

دیوسائی کے اصل دیو یعنی ہمالین براؤن بیئر کا دیدار نہ کیا … تو پھر کیا کیا؟

چاندنی رات میں دیوسائی کے بدن کی رعنائیوں کا نظارہ نہ کیا … تو پھر کیا جیا؟

 ان محرومیوں میں پوشیدہ انعام مجھے کب ملے گا؟

دیوسائی جیپ سفاری کے باب سے دیوسائی ٹریک براستہ برجی لا کا باب کب جنم لے گا؟

ختم قصہ نہیں عتیق ابھی

ہے کوئی باب، باب کے اندر

٭٭٭

بھالو شاہی

’’جنگلی حیات کا تحفظ ہی تہذیب و تمدن کا تحفظ ہے۔‘‘

(ٹیری ٹمپسٹ ولیم)

 

پنجے بند … دُم بلند … نگاہ روبرو

با ادب … با ملاحظہ … ہوشیار

ہمالیہ کی آن … پاکستان کی شان … دیوسائی کی پہچان  … مابدولت عزت مآب جناب بھالو شاہ صاحب بہادر بہ ذاتِ خود تشریف لاتے ہیں۔

توبہ … توبہ … کتنا برا وقت آ گیا ہے … آج ہمیں اپنی آمد کا اعلان فرمانے کے لئے نقارچی تک میسر نہیں … ایک زمانہ تھا کہ ہماری غلامی کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے بھالوؤں کی فوج ظفر موج درخواستیں دُم میں پروئے ماری ماری پھرتی تھی اور ہم انھیں تسلی دلاسوں پر ٹرخاتے رہتے تھے … اور بھالو ہی کیا …  اڑنے والی گلہریاں ، مشکی ہرن،  لداخی اڑیال،آئی بیکس،سرخ لومڑیاں اوربرفانی بھیڑیئے ہماری جنبشِ ابرو پر جاں نثار کرنے کے لئے بیتاب رہتے تھے۔افسوس یہ سب کے سب گردشِ دوراں اور شکاریوں کے ہاتھوں دیوسائی کی سرزمین سے ناپید ہو چکے ہیں۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی کو اس نادر و نایاب ہمالیائی حیات کے فنا ہو جانے کا مطلق غم نہیں۔

ہمیں اُس سنہری زمانے پر رشک آتا ہے جب ہمارے آبا و اجداد دیوسائی کی وسعتوں میں دورۂ طعام فرمایا کرتے تھے اور کسی کو ہماری طعام گاہ میں تانک جھانک کرنے کی جرأت نہیں تھی۔سکردو سے استور تک ہماری دہشت اور درندگی کے چرچے تھے، ہم جب چاہتے پڑوسی بستیوں پر دھاوا بول دیتے،ظہرانے میں دو چار مرغیاں اور عشائیے میں بکری یا  بھیڑ کا شیر خوار نونہال تناول فرما کر واپس آ جاتے۔

اتنی زیادہ شیخیاں بگھارنے کے بعد ما بدولت یہ اعتراف فرمانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے کہ ایک نافرمان حیوان … یعنی برفانی چیتا کبھی کبھار ہمیں آنکھیں دکھاتا تھا اور ہماری حکمرانی میں شرکت کا دعوے دار تھا۔ دیوسائی میں کیونکہ براؤن بیئر کی تعداد برفانی چیتے کی نسبت بہت زیادہ تھی اور اس سرزمین پر جمہوریت کی حکمرانی تھی، اس لئے اس سرکش باغی کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہیں ہوئے اور دیوسائی پر مابدولت کے آبا و اجداد بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ویسے بھی اس ننھے منے کھلونا نما جانور کا مابدولت کی عظیم الجثہ نسل کے ساتھ کیا مقابلہ؟ … اس کا زیادہ سے زیادہ وزن پینتیس سے پچپن کلوگرام اور جسم کی لمبائی تین سے ساڑھے چار فٹ تک ہوتی ہے  …  اور ہم …  مابدولت اپنے منہ میاں مٹھو بننا پسند نہیں فرماتے لیکن ریکارڈ درست رکھنے کے لئے فرما دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا وزن ایک سو سے دو سو کلو گرام تک پہنچ جاتا ہے اور ہم سیدھے کھڑے ہو جائیں تو ہمارا قد چھ سے نو فٹ ہوتا ہے۔ اس موازنے کی روشنی میں مابدولت برفانی چیتے کو ’’چہ پدی چہ پدی کا شوربہ‘‘ کا مصداق گردانتے ہیں تو کیا بُرا کرتے ہیں ؟

مابدولت کی ذہانت و فطانت میں کوئی شبہ نہیں … مگر ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خلدِ آشیانی پردادا حضور ہمیں اس پدی کے شوربے کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے سے منع کیوں فرمایا کرتے تھے؟ ظل سبحانی نے بسترِ مرگ پر آخری نصیحت یہی فرمائی تھی کہ جہاں تک ہو سکے قدر نا شناس برفانی چیتے کا سامنا کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ یہ ناہنجار اپنے سے چار گنا بھاری بھرکم جانور پر بھی حملہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ مابدولت نے پردادا حضور کی آخری نصیحت دُم سے باندھ لی کیونکہ مابدولت برفانی چیتے کی نسبت چار گنا بھاری ہیں ، پانچ گنا بھاری نہیں ہیں۔  پردادا حضور کی دعاؤں کے طفیل مابدولت اب تک برفانی چیتے کا دیدار کرنے سے محروم رہے ہیں کیونکہ شکاریوں کی نوازش سے دیوسائی اس مغرور اور بد اخلاق درندے کے وجود سے پاک ہو چکا ہے۔ اگر کبھی ہمارا اور اس کا آمنا سامنے ہوا تو … دیکھا جائے گا … اور دیکھا کیا جائے گا؟اماں حضور ہمارے ساتھ نہ ہوئیں توما بدولت شاہی دم دبا کر فرار ہونے کو ترجیح دیں گے۔

 شکاری حضرات توبھالو شاہی نسل کو بھی نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے، لیکن مابدولت اُن کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک دیوسائی کے سبزہ زاروں پر لڑھکنیاں لگا رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔ بیس سال پہلے دیوسائی میں شاہی نسل کے افراد کی تعداد صرف انیس رہ گئی تھی،اور مزے کی بات یہ ہے کہ دادا حضور کو علم ہی نہیں تھا کہ شاہی نسل اس جہانی فانی سے رخصت ہونے والی ہے کیونکہ ظلِ سبحانی سرکاری ریکارڈ پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے اور ریکارڈ کے مطابق ساڑھے چھ سو ہمالین بیئر دیوسائی کے سینے پر مونگ دلتے پھرتے تھے۔ہمالین فاؤنڈیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تو دادا حضور ریکارڈ سازوں کو کچا چبا جانے کے منصوبے بنانے لگے۔جب دادا حضور کو بتایا گیا کہ یہ حضرات اعداد و شمار کے کھیل کے ’’رستمِ پاکستان‘‘ ہیں اور خودکش بموں میں تبدیل ہو جانے والے عوام کو یقین دلا چکے ہیں کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر سے ملکی خزانہ بھر چکا ہے، سوئٹزر لینڈ کے بنکوں کے اکاؤنٹس اوور فلو ہو رہے ہیں اور فالتو نوٹ غیر ملکی دورے کر کے بہ مشکل ٹھکانے لگائے جاتے ہیں …  تو دادا حضور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے اور ریکارڈ سازوں کی جادو گری سے متاثر ہو کر انھیں معاف فرم ادیا۔

 مابدولت معذرت وغیرہ کے عادی تو نہیں ،لیکن پھر بھی معذرت  چاہتے ہیں کہ زورِ بیان میں اپنا مکمل تعارف نہیں کرا پائے۔ما بدولت کے بابا آدم … ہمارا مطلب ہے کہ ’’بابا ریچھ‘‘ نے الاسکا کے برف زاروں اور ٹنڈرا کے میدانوں میں جنم لیا، وہیں سے ہماری نسل تمام دنیا میں پھیلی۔ ما بدولت سیاہ،سرمئی اور بھورے رنگ میں دستیاب ہونے کے باوجود براؤن بیئر یا بھورا ریچھ کہلانا پسند فرماتے ہیں۔  ہمارے آباء و اجداد جہاں پہنچے وہیں کے ہو رہے اور اپنی عادات و اطوار کو مقامی حالات سے ہم آہنگ کر لیا۔ما بدولت کی ذیلی نسلوں (Sub-species)کی تعداد پندرہ کے لگ بھگ ہے۔جو نسل ہمالیہ کی گود میں قیام پذیر ہے اسے ہمالین براؤن بیئرک ہا جاتا ہے۔ہمارا خاندان عرصہ دراز سے دیوسائی میں مقیم ہے اور کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو غیرملکی بھائی بندوں میں نہیں پائیں جاتیں اس لئے ہماری قوم کو ’’دیوسائی بیئرز‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ما بدولت کی اطلاع کے مطابق کیلیفورنیا میں پائے جانے والے ’’ گولڈن بیئر‘‘ ، کوہِ اطلس پر حکمرانی کرنے والے ’’اطلس بیئر‘‘ اور میکسیکو میں دندنانے والے ’’میکسیکن بیئر ‘‘ اس جہانِ فانی سے مکمل طور پر معدوم ہو چکے ہیں اور ہماری اپنی نسل یعنی ’’دیوسائی بیئر‘‘ دنیا سے کوچ کر جانے کے شدید خطرے سے دو چار ہے۔ ہمالین وائلڈ لائف فیڈریشن اور حکومتِ پاکستان ہماری نسل بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جس کے لئے ہم ان دونوں کے ممنونِ احسان ہیں اور اپنی شکر گزاری ثابت کرنے کے لئے ہم نے اس وقت تک آس پاس کی بستیوں کی مرغیوں اور بکریوں کا شکار اپنے اوپر حرام کر لیا ہے جب تک ان بستیوں کے ارد گرد لگائی گئی حفاظتی خاردار تار ہٹا نہیں دی جاتی۔ امید ہے کہ ان بستیوں کے باشندے بھی ہمارے شکر گزار ہوں گے۔

مابدولت صدیوں سے دیوسائی کی بے پناہ وسعتوں کے بے تاج بادشاہ سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ما بدولت دیوسائی کے ’’ ہیوی ویٹ‘‘ چمپئن ہونے کے علاوہ ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتے ہوئے پچیس سے تیس کلومیٹر فاصلہ ایک ہی سانس میں طے کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ اتنی جسمانی قوت رکھنے کے باوجود مابدولت کھانے کے معاملے میں نہایت شرمیلے واقع ہوئے ہیں اور طلوعِ آفتاب سے پہلے یا غروبِ آفتاب کے بعد شکم پری کرنے کے عادی ہیں۔ اس مختصر وقت میں ہم چالیس سے پچاس کلوگرام خوراک کا صفایا با آسانی کر دیتے ہیں۔ ہماری خوراک میں چھوٹے سائز کی بھیڑ بکری،  مارموٹ،  ٹراؤٹ فش، خرگوش، گلہریاں اور دوسرے چھوٹے موٹے رینگنے والے جانور شامل ہیں۔  گوشت میسر نہ آئے تو گھاس پھوس، سبزیوں ،جڑی بوٹیوں اور پودوں کی جڑوں پر بھی گزارا کر لیتے ہیں۔ سویٹ ڈش کے طور پر ہم شہتوت، شکر قندی اور شہد کے بے حد شوقین ہیں ، افسوس کہ دیوسائی میں یہ نعمتیں نہیں پائی جاتیں۔  ہم کبھی کبھی ان نعمتوں کی تلاش میں انسانی بستیوں کا رُ خ کریں تو بے مروت انسان بندوق تان لیتا ہے اور ہماری جان لینے کے در پے ہو جاتا ہے۔ مابدولت کو فوت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کہ یہ دستورِ زندگانی ہے، اور ویسے بھی مابدولت کی اوسط عمر تقریباً بیس سال ہے …  اس کے بعد جہانی فانی سے کوچ کرنا ہی پڑتا ہے …  لیکن گولی مارنے کے بعد شکاری حضرات ہماری کھال اور خاص پرائیویٹ حصوں کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں اس کے بارے میں سوچ کر مابدولت سویٹ ڈش تناول فرمانے کی خواہش کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ما بدولت نے مئی اور جون کے مہینوں کو اپنی خر مستیوں … بلکہ ریچھ مستیوں کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔ ان مہینوں میں ہم اپنی ماداؤں کے پاس جاتے ہیں اور افزائش نسل کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔  ہماری مادائیں بہت کاہل واقع ہوئی ہیں اس لئے ہم اپنی کوششوں میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔اس معاملے میں ہمیں مارموٹ اور مارموٹن پر رشک آتا ہے جو چوکا اور چھکا لگانے میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔  مابدولت کی سست الوجود لائف پارٹنر دل و ’’جان‘‘ سے لگائے گئے سٹروکس پر بھی ایک سے زیادہ ’’رن‘‘ نہیں بناتی اور زچگی کے بعد چار سال تک حمل چھوڑ ہڑتال کر کے ہماری کاوشوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے معاشرے میں کثیر الازدواجی کی اجازت نہیں اور ہم ایک سیزن میں دو ماداؤں کے پاس نہیں جا سکتے۔مابدولت نے کئی مرتبہ بھالو شاہی اسمبلی میں قرار داد پیش کی ہے کہ یہ نا معقول پابندی ختم کر دی جائے مگر ہمارے ارکانِ اسمبلی یہ تجویز سن کر ہمارے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی دھمکی دیتے ہیں کیونکہ دیوسائی میں ماداؤں کی تعداد بہت کم ہے۔

جولائی کا آغاز ہوتے ہی ہم عشق معشوقی کا چکر چھوڑ کر پیٹ پوجا شروع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات ایک دن میں اپنے وزن سے زیادہ خوراک ہڑپ فرما لیتے ہیں۔ یہ زائد خوراک ہماری جلد کے نیچے چربی کی صورت میں ذخیرہ ہوتی رہتی ہے۔چربی ہماری حیاتِ سرمائی کا اہم ترین اثاثہ ہے۔ موسمِ سرما کی برف باری کے دوران ہمیں کوئی غذا میسر نہیں آتی۔برف باری کا آغاز ہوتے ہی مابدولت ایک عدد برفانی غار بناتے ہیں اور تقریباً سات ماہ تک خوابِ خرگوش سے لطف اندوز ہونے کے لئے غار نشین ہو جاتے ہیں۔ ما بدولت کی اس نیند کو سرمائی خوابیدگی (Hibernation) کہا جاتا ہے۔ اس نیند کے دوران ذخیرہ شدہ چربی ہمارے جسم کی توانائی کی ضروریات پورا کرتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی نیند کے دوران ملکۂ عالیہ ولی عہدِ سلطنت کو جنم دیتی ہیں اور ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ہم باپ بن چکے ہیں۔ 

 برف باری کا اختتام اور موسمِ گرما کا آغاز ہوتا ہے تو ہم بیدار ہو جاتے ہیں ،لیکن اس وقت ہم انتہائی لاغر ہوتے ہیں اور ہمیں آسانی سے شکار کر لیا جاتا ہے۔ان دنوں ہم زیادہ تر گھاس پات پر گزارہ کرتے ہیں کیونکہ ٹراؤٹ اور مارموٹ ہمارے قابو نہیں آتے۔ جسم میں کچھ جان آتی ہے اور چربی کی تہہ چڑھنا شروع ہو جاتی ہے تو ہم ملکۂ عالیہ کی طلب میں پاگل پاگل ہو جاتے ہیں اور ما بدولت کو اس سوال کا شافی جواب مل جاتا ہے کہ انسان ہماری چربی سے مستفید ہونے کے لئے ہم سے زیادہ پاگل کیوں ہو جاتا ہے؟

مابدولت انتہائی مسرت سے انکشاف فرماتے ہیں کہ ماورائی داستانوں کا برفانی انسان اور الف لیلائی فلموں کا ’’ییٹی(Yeti)‘‘ مابدولت کا ہی افسانوی روپ ہے۔مابدولت بذاتِ خود ان داستانوں اور فلموں سے دل پشوری فرماتے رہے ہیں ،لیکن ان میں کی گئی ریچھ برادری کی کردار کشی کی شدید مذمت فرمانا اپنا قومی فریضہ تصور کرتے ہیں۔  آدم زادیوں سے بھالو شاہی نسل کی محبت کے افسانے سراسر من گھڑت اور غیر اخلاقی ہیں۔  مابدولت کی نسل سے تعلق رکھنے والا کوئی بھالو اتنا بد ذوق نہیں ہو سکتا کہ اپنی بھالن کو چھوڑ کر آدم زادیوں کے پیچھے دم ہلاتا پھرے۔ ’’ییٹی‘‘ نامی فلم میں پیش کی گئی ہیروئن فونیکس گرانٹ آدم زادوں کے لئے حسینہ عالم ہو گی، ہمیں وہ ایک آنکھ نہیں بھائی … مابدولت ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کو پابند فرمانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر طبع آزمائی کا ارادہ ہو تو ملکۂ ریچھاں کو ہیروئن کے کردار کے لئے منتخب کیا جائے،ورنہ مابدولت فلمساز کی تکا بوٹی کر کے تناول فرمانے کے جملہ حقوق بحق بھالو شاہی محفوظ رکھتے ہیں۔

پنجے بند … دُم بلند … نگاہ روبرو

با ادب … با ملاحظہ … ہوشیار

مئی کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔

مابدولت ملکۂ دیوسائی کے دربارِ حسن میں درخواستِ وصال پیش کرنے تشریف لے جاتے ہیں۔

دربار برخواست کیا جاتا ہے۔

مابدولت قدم رنجہ فرمائیں گے جون کے بعد …

٭٭٭

 

٭٭٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔